معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69306 / ڈاؤنلوڈ: 7057
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴

اطاعتِ خداوندی

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰه ) ۔

پیغمبر خدا سے ارشاد ہورہا ہے کہ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔

کل میں نے عرض کیا کہ پیغمبر خدا کی اطاعت کا بھی حکم ہے اور اتباع کا بھی حکم ہے اور یہ عرض کیا کہ اطاعت ہوتی ہے اقوال کی اور اتباع ہوتا ہے افعال کا۔ اب سوال یہ ہے کہ اطاعت اور اتباع کا حکم کیا بس پیغمبر خدا کے زمانہ کے مسلمانوں کیلئے تھا؟ انہی پر اطاعت کا فریضہ تھا اور انہی پر اتباع کا فریضہ عائد تھا؟ یہ تو اس وقت ہوتا جب پیغمبر خدا کی رسالت اسی دورِ حیات سے متعلق ہوتی۔ تو بے شک اطاعت کا حکم بھی اسی وقت کے لوگوں کیلئے ہوتا اور اتباع کا حکم بھی اُسی دور کے لوگوں کے لئے ہوتا۔ پھر ہم اور آپ بالکل آزاد تھے ، نہ ہمارے لئے اطاعت، نہ اتباع۔ پھر جتنے احکامِ شریعت ہیں، ان سب سے آزادی، اس لئے کہ تمام احکامِ شرع یا اطاعت کے ماتحت ہیں یا اتباع کے ماتحت ہیں۔ جب اطاعت و اتباع اُسی دور کے لوگوں کیلئے ہے تو پھر ہمارے واسطے نہ کوئی واجب ، نہ کوئی حرام۔ تمام احکام ہم سے برطرف۔

لیکن یہ تو ہر مسلمان بلا تفریق فرقہ ، اس کے نزدیک یہ تصور غلط ہے۔ آپ کی رسالت اُس دورِ حیات ہی سے متعلق نہ تھی اور جب اُسی دورِ حیات سے متعلق نہ تھی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمِ اطاعت بھی تاقیامت ہے اور حکمِ اتباع بھی تا قیامت ہے۔

کل تفصیل سے بیان ہوا اور اس کا حوالہ میں نے دیاکہ اطاعت ہوتی ہے اقوال کی اور اتباع ہوتا ہے افعال کا۔لہٰذا اقوالِ رسول کو بھی تا قیامت محفوظ رہنا چاہئے اور افعالِ رسول کو بھی تاقیامت محفوظ رہنا چاہئے کیونکہ اگر اقوال محفوظ نہ رہے تو اطاعت نہیں ہوسکتی اور اگر افعال محفوظ نہ رہے تو اتباع نہیں ہوسکتا۔

اب اقوال کیونکر محفوظ رہیں؟ وہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ اقوال کی حفاظت کرتی ہیں کتابیں اور جب میں کہتا ہوں کتابیں، تو سرفہرست ہے کتاب اللہ۔ کوئی کہے کہ بات تو اقوالِ رسول کی تھی، یہ سر فہرست کتاب اللہ کیونکر ہوگئی؟

میں کہوں گا کہ میں نے بھولے سے نہیں کہا ہے، سمجھ بوجھ کر کہا ہے، میرا بھی ایمان ہے کہ یہ کتاب اللہ ہے مگر جسے ہم اور آپ اور ہر مسلمان کتاب اللہ کہتا ہے، سمجھتا ہے اور مانتا ہے، اس کو لوحِ محفوظ سے اُترتے ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم نے تو قرآن کو بھی اسی زبان سے سنا جس زبان سے حدیثوں کو سنا۔ ارے! ہم نے تو کچھ بھی نہیں سنا۔ جس جس نے سنا، قرآن کو بھی اُسی زبان سے سنا جس زبان سے حدیثوں کو سنا۔ خدا کی قسم! یہ تو اُن کی زبان کا اعتبار ہے جسے اللہ کا کلام کہہ دیا، اُسے قرآن مان لیا، جس کو اپنا کلام کہا، اُس کو حدیث سمجھ لیا۔

ورنہ ہم کیا جانتے کہ کون کلام اللہ اور کون اُن کا اپنا کلام۔ اب یہ سیرت سے متعلق بات ہے، میں کہتا ہوں ، بخدا! یہ بھی امانتداری تھی ان کی کہ زبان پر ان کی کلام آرہا تھا اور کہہ رہے تھے کہ میرا نہیں ہے، اسی زبان پر قرآن آیا، اسی زبان پر حدیثیں آئیں۔ جسے انہوں نے کلام اللہ کے طور پر پیش کیا، یہ کہہ کر کہ یہ کلام اللہ ہے،اُسے ہم نے قرآن مانا ، جسے اپنا کلام کہہ کر پیش کیا، اُسے حدیث مانا۔

اسی لئے یہ ایک جملہ ہے، اسے چاہے محفوظ کرلیجئے اور بوقت فرصت اس پر غور کیجئے گا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ میں کہہ رہا ہوں کہ جب تک ان کی زبان پر اعتبار نہ ہو، قرآن پر ایمان ہو ہی نہیں سکتا۔ تو قرآن مجید ہو یا کتب حدیث، یہ سب مجموعہ ہیں ان اقوال کا جو حضرت کی زبانِ مبارک پر آئے۔جو اقوال بحیثیت کلام اللہ آئے، ان کا مجموعہ قرآن مجید، جو بحیثیت اپنے کلام کے آئے، اُن کا مجموعہ کتب احادیث ہیں۔

تو یہ کتب تو اقوال کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ افعالِ رسول کیونکر محفوظ رہیں؟ رواروی میں کوئی شخص جواب دے گا کہ افعالِ رسول بھی راوی بیان کریں اور وہ کتابوں میں درج ہوجائیں، اس طرح افعالِ رسول بھی محفوظ ہوجائیں گے۔ مگر ذرا سی باریک بات ہے، اربابِ فہم مجمع میں ہیں، انشاء اللہ کسی کو کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ فعلِ رسول راوی کی زبان پر آیا تو قول ہوگیا، فعل نہیں رہا۔فعل تو اُسی وقت تک فعل ہے جب تک فاعل سے ہے اور جب اس کا بیان کسی سے ہوا تووہ قول ہوا، فعل نہیں رہا۔ یوں تو کسی اور راوی کا کیا ذکر، قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے اقوال بھی موجود ہیں، حضرت نوح، حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ، سب کے اقوال بھی ہیں، افعال بھی ہیں۔ قرآن مجید نے بیان کئے ہیں۔ تو کیا ان سب انبیاء کے افعال ہم تک پہنچے؟ افعال نہیں پہنچے، ان کا بیان ہے جو بذریعہ قرآن ہم تک پہنچا ہے۔ اسی طرح اگر حضرت کے افعال کو راویوں نے بیان کیا تو یہ اُن کا بیان ہے جو ہم تک پہنچا، افعالِ رسول کہاں پہنچے ہیں؟

یاد رکھئے! کتاب فعل کو کبھی نہیں دکھاتی، فعل کو آئینہ دکھایا کرتا ہے۔ میرا ہاتھ جنبش کرے گا، آئینے میں نظر آئے گا۔ بے شک آپ فعل کو دیکھ رہے ہیں۔ میرا ہاتھ ساکن ہوگا، آئینے میں نظر آئے گا۔ بے شک آپ فعل کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان دنیا والے آئینوں میں ایک بڑی خرابی ہے اور وہ خرابی یہ ہے کہ اس میں عکس اُسی وقت تک نظر آتا ہے، جب تک اصل سامنے رہے۔ اِدھر اصل نظر سے اوجھل ہوااور عکس بھی غائب ہوا۔ ہمیں ایسے آئینے نہیں چاہئیں، ہمیں ایسے آئینے چاہئیں کہ پیغمبر خدا تشریف لے جائیں اور افعالِ پیغمبر خدا ہمیں نظر آتے رہیں۔

ایک اور نقص اس آئینہ میں ہے کہ یہ آئینہ اسی عمل کو دکھائے گا جو وقوع میں آگیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے حرکت کی ہاتھ سے اور وہ آئینہ میں نظر آگئی۔ ہاتھ کو ساکن کیا، وہ سکون آئینہ میں نظر آگیا۔ جو کام وقوع میں آجائے، وہ نظر آئے گا مگر افعالِ رسول بمقتضائے اسباب ہوتے تھے۔ جیسا سبب جس وقت ہوا، ویسا عمل وقوع میں آیا۔ جب تک وہ سبب پیدا نہ ہوگا، اُس وقت تک رسول کا وہ عمل نہ ہوگا ورنہ خلافِ عقل ہوگا، خلافِ حکمت ہوگا۔

مثال کے طور پر کوئی مسلمان پیغمبر خدا کے ساتھ ابتدائے بعثت سے ہجرت تک جو تیرہ برس کی مدت ہے، یعنی دورِ رسالت کا آدھے سے زیادہ حصہ، کیونکہ ۲۳ میں سے ۱۳ آدھے سے زیادہ حصہ ہیں۔ ۱۰ آدھے سے کم ہے۔ تو تیرہ برس پیغمبر خدا کے ساتھ رہتا اور کسی وقت جدا نہ ہوتا، ایسا خاص صحابی ہوتا کہ کسی وقت جدا نہ ہوتااور وہ قسمیں کھا کر کہہ سکتا کہ میں ہر وقت رسول کے ساتھ رہا، تیرہ برس مسلسل، کسی وقت میں نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا، آپ کی سیرت حیات میں تلوار اُٹھانا نہیں ہے۔

اُس کا یہ بیان بالکل صحیح ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سیرتِ رسول کے دائرہ میں تلوار اُٹھانا نہیں ہے۔ اب اس میں سے کوئی نتیجہ نکالے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے رسولِ مطلق عدم تشدد کے قائل ہیں۔ جیسا کہ دنیا کے بعض رہنماؤں کا اصول ہے لیکن اب جب ہجرت کرکے آپ مدینہ تشریف لائے تو اب اس کے بعد ایک سال اسی میں شامل کیجئے، اب ہوگئے چودہ برس۔

۲ ھ میں دیکھئے، بدر دیکھئے، اُحد دیکھئے، خندق دیکھئے، خیبر دیکھئے تو تلوار نظر آئے گی ان کے ہاتھ میں۔ ظاہر نہ سہی مگر کسی ایسے ہاتھ میں جو انہی کا ہاتھ ہے۔ بہرحال اب تلوار ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سیرتِ رسول کا ایک گوشہ تھا جو چودہ برس تک پردے میں رہا اور جب وہ اسباب ہوئے ، تب وہ سیرت کا گوشہ سامنے آیا۔ یہ مسلمان جو سیرتِ نبوی مرتب کررہا تھا، اس نے اب تک ایک سطر کا اضافہ کیا کہ ہاں! ان کی سیرت میں تلوار اُٹھانا بھی ہوتا ہے۔ اب اسی مسلمان سے پوچھئے کہ جن سے جنگ ہورہی ہے، کیا پیغمبر اِن سے کبھی صلح بھی فرمائیں گے؟

یاد رکھئے جتنا اُسے بظاہر جوشِ ایمانی زیادہ ہوگا اور جتنا ایمان کی شدت کا زعم زیادہ ہوگا، اُتنی شدت سے وہ انکار کرے گا۔ توبہ توبہ، بھلا رسول اور مشرکین سے صلح فرمائیں؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ارے! وقوع میں آجانے کے بعد جب بہت سے مسلمانوں کے حلق سے یہ چیز نہ اُترتی ہو تو پہلے کیونکر تصور میں آسکتا تھا کہ یہ صلح بھی فرمائیں گے مشرکین کے ساتھ۔

لیکن اب آنے دیجئے ۶ھ اور حدیبیہ کی منزل اور دیکھئے کہ پیغمبر خدا صلح کرکے واپس تشریف لے جاتے ہیں مکہ سے یا نہیں؟ اب اس نے کہا کہ ہاں صاحب! بے شک سیرتِ نبوی میں صلح کرنا بھی ہے۔اب حساب لگائیے کہ تیرہ برس وہ قبل ہجرت اور ۶ھ میں یہ واقعہ ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بعد بعثت۱۹برس تک سیرت کا یہ گوشہ پردہ میں رہا اور سامنے نہیں آیا کیونکہ وہ اسباب نہیں ہوئے تھے جن اسباب سے سیرت کے عمل کا تعلق تھا۔

اب اسی مسلمان سے یہ پوچھئے یا اور مسلمانوں سے جو اس کے ساتھ ہوں کہ خیر صلح ہوگئی، اب اگر یہ لوگ عہد شکنی کریں اور شرائط صلح کی خلاف ورزی کریں اور پھر رسول فاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہوں تو ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اب پھر وہی بات کہ جتنا اپنے ایمان کا دعویٰ زیادہ ہوگا، اُتنی شدت کے ساتھ سزا تجویز کرے گا۔ اب جتنے الفاظ آپ کے نزدیک لغت میں زیادہ سخت ہوں۔

ارے! پرخچے اُڑا دیں گے، پرزے پرزے کردیں گے ان کم بختوں کے۔ یہی سب وہ کہتا اور اُسے تقاضائے ایمان سمجھتا لیکن اب آنے دیجئے ۸ھ میں فتح مکہ اور دیکھئے کہ رسول کے سامنے وہی جماعت ہے اور پیغمبر خدا ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار فرماتے ہیں۔

تو سیرت کا نیا باب سامنے آیا یا نہیں؟ اب اسی مسلمان سے پوچھئے کہ پیغمبر خدا اپنے مخالفین سے تلوار کے علاوہ کسی اور طریقے سے بھی جنگ کرتے ہیں؟ تو وہ کہے گا کہ یہ تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ جنگ ہو اور تلوار کے بغیر ہو۔ لیکن آنے دیجئے ۹ھ میں مباہلے کا میدان کہ جنگ بھی ہورہی ہے اور تلوار کہیں نہیں ہے۔

اب معلوم ہوا کہ سیرت کا ایک باب آج سامنے آیا۹ھ اور ۹ھ کے بعد۱۰ھ۔ اس مسلمان سے پوچھئے کہ اگر پیغمبر خدا کو کوئی مجمع ایسا ملے کہ اتنا بڑا مجمع نہ اس سے پہلے رسول کے سامنے ہوا ہو، نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔ اتنا بڑا مجمع ہو، ایک لاکھ کے قریب مسلمان رسول کے سامنے ہوں تو اس موقع پر پیغمبرخدا کیا فرمائیں گے؟

یہ کہے گا کہ وہی فرمائیں گے جو عمر بھر فرماتے رہے، نماز پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوٰة دو۔ جو ہمیشہ کہتے رہے، وہی وہاں بھی کہیں گے ۔ مگر اب آنے دیجئے ۱۰ھ میں، وہ بھی آخری مہینہ، ذی الحجہ کا مہینہ اور اس کی اٹھارہ تاریخ۔ اس میں رسول کی سیرت کے کتنے گوشے ہیں؟ ہمیشہ دیکھتے تھے وہ منبر ، آج نیا منبر دیکھا۔ہمیشہ دیکھتے تھے مسجد میں اور آج کھلا میدان دیکھا۔ اس کے بعد رسول منبر پر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد ایک نئی بات دیکھی کہ ہمیشہ منبر پر اکیلے جاتے تھے، آج کسی کو منبر پر اپنے پاس بٹھا لیا اور اب نفسیاتی طریقہ پر دیکھئے کہ یہ نئی بات جو ہورہی ہے، تو اب مجمع جو ہے، وہ خطبے کے الفاظ کم سن رہا ہے اور یہ صورت زیادہ دیکھ رہا ہے۔

یہاں چند جملے ہیں، یہ یہاں کیسے؟ذہنوں میں تصورات تہہ و بالا ہیں کہ کوئی خاص بات ہے۔ یعنی پورا جملہ ہوا میں جارہا ہے۔ آخری جملہ کا انتظار ابھی سے ہے۔

تو جناب! یہ سب باتیں آج نئی نظر آرہی ہیں۔ اس کے بعد پورا خطبہ ہوجاتا ہے جو لوگوں نے غور سے نہیں سنا ہے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں کی تاریخیں دیکھ لیجئے تو وہ پورا خطبہ کہیں ملتا بھی نہیں۔ سنا کس نے تھا غور سے؟

اب وہ وقت آیا جس کیلئے پاس بٹھایا تھا۔ تب پیغمبر نے وہ تاریخی الفاظ فرمائے:

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهٰذَاعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “۔

”جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ علی بھی مولا ہے“۔

ماشاء اللہ! صاحبانِ فہم بھی ہیں، تو جنابِ والا!

فَهٰذَاعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “۔

عربی میں تعیین کیلئے اُن میں سے ہر لفظ کافی ہے۔ اشارہ کردیا تو یقین فردِ واحد کا ہوگیا اور نام لے دیا تو تعیین شخص واحد کی ہوگئی۔ رسول نے دو طریقے صرف کردئیے۔ فھذا بھی ، علیٌ بھی۔ معنی یہ ہیں کہ اگر حاضر ہوں تو یہ دیکھو اور غائب ہوں تو نام سنو۔

پیغمبر خدا کی سیرت کا نیا باب سامنے آیا یا نہیں؟ اس کے بعد مدینہ منورہ واپس ہوئے تو علیل ہوگئے۔ دو مہینے کے بعد وفات ہوگئی۔ تو اب پیغمبر خدا کی وفاتِ طیبہ کا جو سال آیا ، وہ سیرت کا ایک نیا باب کھولتا ہوا آیا۔ اب جو کتابِ سیرت اپنے عمل سے مرتب کررہا تھا، اس میں برابر اضافہ ہورہا تھا۔ وہ شخصیت وفات کے ذریعہ سے ہمارے سامنے سے ہٹ گئی، چلی گئی اور رسالت ہے تا قیامت۔

تاریخ کے طالب علم بھی یہاں ہوں گے۔ تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ تاریخ رواں دواں رہتی ہے، وہ ایک نقطہ پر نہیں پڑتی۔

گونا گوں حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

تو حضورِ والا!کیا تاریخ کا یہ اصول یہاں ٹوٹ گیا؟ یعنی اب۱۱ھ سے لے کر قیامت تک تاریخ کی سوئی ایک نقطہ پر منجمد ہوگئی کہ ابھی تک تو ہر سال نئے نئے حالات پیدا ہو رہے تھے اور اب کوئی نئی صورتِ حال پیدا نہیں ہوگی؟

یہ خلافِ عقل بات ہے۔ یقینا زندگی کے کتنے دوراہے ایسے ہوں گے کہ پیغمبر خداکے اُس دَورِ حیات میں پیش نہیں آئے تو اس دورِ حیات میں پیغمبر کا عمل کیا ہوتا؟ وہ پردہ میں رہ گیا۔ لہٰذا اب ہمیں وہ آئینے نہیں چاہئیں جو وقوع میں آئے ہوئے افعالِ رسول کو دکھائیں۔ ہمیں وہ آئینے چاہئیں جو ملکاتِ نفس پیغمبرخدا کو جذب کرلیں۔

ماشاء اللہ لاہور کی سرزمین ہے اور یہاں علمی ذوق بلند پایہ ہے ۔مگر پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کیلئے یہ الفاظ قابلِ فہم نہیں ہیں۔ ایک بات توجہ سے سن لیجئے۔ جو ہر وقت ہوتا ہے، وہ فعل ہوتا ہے اور وہ طاقت جو فعل کو کرواتی ہے، اُسے مَلِکہ کہتے ہیں۔ یعنی پردئہ شب میں جس نے نفس سے اس فعل کو کروایا، یہ فعلِ سخاوت ہے اور خود سخاوت وہ ملکہ ہے جس نے نفس سے اس فعل کو کروایا۔

بر وقت فعل وہ کام ہے جو منتظرِ سبب رہتا ہے اور ملکہ نفس کی وہ طاقت ہے جو قائم ہوتی ہے ، راسخ ہوتی ہے اور بر وقت اس عمل کو کرواتی ہے۔

تو اب یہ جملہ غالباً سمجھ میں آگیا ہوگا۔ ہمیں وہ آئینے نہیں چاہئیں جو افعالِ رسول کو دکھائیں بلکہ ہمیں وہ آئینے چاہئیں جو ملکاتِ نفس رسول کو جذب کرلیں۔ اُردو زبان میں اس کو میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں وہ آئینے نہیں چاہئیں جو یہ دکھائیں کہ رسول نے کیا کیا؟ ہمیں وہ آئینے چاہئیں وہ یہ دکھائیں کہ رسول ہوتے تو کیا کرتے! وہ آئینے ہمارے لئے مفید نہیں ہیں جو یہ دکھائیں کہ رسول نے کیا کیا کِیا۔ہمیں وہ آئینے درکار ہیں جو یہ دکھائیں کہ پیغمبر ہوتے تو کیا کرتے! اس کیلئے خالق نے اپنے رسول کو آئینے عطا فرمائے۔ اگر یہ آئینے دُور دُور کے ہوتے تو کسی وقت کا عکس لیتے اور کسی وقت کا عکس نہ لیتے۔ لہٰذا حکمت الٰہی ا س کی متقاضی ہوئی کہ یہ آئینے رسول کی گود میں رکھ دئیے جائیں تاکہ ملکاتِ نفس پیغمبر خدا کو جذب کرلیں۔

کیا کہنا ان آئینوں کا!جوہر رکھے ہوئے اللہ کے، جِلا دی ہوئی تربیت رسول کی۔ گویا پیغمبر کا کاشانہ آئینہ خانہ بنا ہوا تھا۔ بیچ میں پیغمبر، چار طرف چار آئینے۔

حدیثیں جتنی پڑھوں گا، وہ متفق علیہ ہوں گی۔ ایک آئینہ قد آدم ، تقریباً برابر کا۔پیغمبر نے اپنا عکس دیکھا، بالکل مکمل نظر آیا۔

عَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَامِنْهُ “۔

”یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں“۔

عَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَامِنْهُ “۔

خالق نے فرمایا: ”اَنْفُسَنَا

یہ تو ہمارا نفس ہے اور ابھی میں فعل اور ملکہ کا فرق بتا چکا۔ یاد رکھئے کہ افعال کا مرکز اعضاء ہوتے ہیں اور مَلِکہ کا مرکز نفس ہوتا ہے۔ جہاں تک الفاظ کی منزل ہے، فعل جدا، فاعل جدا۔ اٹھانا ہاتھ کا کام، پیروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کہنا زبان کا کام، ہاتھوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چلنا پھرنا پیروں کا کام ہے، کانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ سننا کانوں کا کام، زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ افعال کی منزل میں فعل الگ، فاعل الگ مگر نفس کی منزل میں سب افعال ایک۔

دیکھا آنکھوں نے ، آپ نے کہا: میں نے دیکھا۔ اُٹھایا ہاتھوں نے، آپ نے کہا: میں نے اُٹھایا۔ راستہ طے کیا پیروں نے، آپ نے کہا: میں نے راستہ طے کیا۔ سنا کانوں نے، آپ نے کہا: میں نے سنا۔سب افعال ایک کے ہوگئے۔ جب تک لسان اللہ کہا، زبان کی گفتگو اپنی ہوئی۔ جب تک اذن اللہ کہا، سماعت اپنی ہوئی۔ جب تک جنب اللّٰہ کہا،پناہ دینا اپنا ہوا۔ لیکن جب نفس کہہ دیا تو افعال ان کے نہیں رہے، خد اکے ہوگئے۔

دوسراآئینہ نسبتاً چھوٹا مگر اپنے شعبہ میں مکمل۔ پیغمبر نے سند عطا فرمائی، مسلّم الثبوت، صحیح بخاری میں ہے ، بنظر اختصار، فاطمہ کے فضائل میں صرف تین عدد احادیث،اس میں سے ایک یہ ہے کہ:

فَاطِمَة بَضْعَة مِنِّیْ

”فاطمہ میرا ٹکڑا ہے“۔

میرا ایک جزو ہے۔ حضورِ والا! جزو کون ہوتا ہے؟ جزو وہ ہوتا ہے جسے نکال لیجئے تو چیز نامکمل ہوجائے۔ ملا دیجئے تو اس کی تکمیل ہوجائے۔ یہ سند خاص فاطمہ کیلئے ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کیلئے بھی نہیں ہے۔ حسن و حسین کیلئے بھی نہیں ہے۔صرف حضرتِ فاطمہ زہرا کیلئے یہ الفاظ ہیں۔”بَضْعَة مِنِّیْ “، میرا ایک جزو۔

میں کہتا ہوں ، میرے گزشتہ بیان کی روشنی میں اس جزو کی حقیقت پر غور کیجئے کہ کیا رسالت پیغمبر صرف مردوں کیلئے ہے؟ وہ تو تمام نوعِ بشر کیلئے ہے۔ اس میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں۔ اور میں نے کہا کہ فریضہ رسالت دو چیزوں سے ادا ہوتا ہے ، اقوال سے اور افعال سے۔ اقوال کیلئے اطاعت واجب اور افعال کیلئے اتباع واجب۔ اقوالِ رسول تو سب کیلئے ہو سکتے ہیں، مرد اور عورت دونوں کیلئے۔ افعالِ رسول دونوں کیلئے نہیں ہوسکتے، چاہے موجودہ ترقی پسند زمانہ کتنا ہی کہے کہ ہر میدان میں مردو عورت دوش بدوش مگر میں کیا کروں، اسلام میں تو نماز تک میں دوش بدوش نہیں، حالانکہ نماز کوئی معاشرتی چیز نہیں، وہ تو مابین خدا و خود ایک عبادت ہے۔

مگر اس میں بھی مرد کی نماز اور طرح اور عورت کی نماز اور طرح۔ ہمارے ہاں دینیات کی کتاب مولوی فرمان علی صاحب مرحوم کی ایک وقت میں رائج تھی، بچوں کو پڑھائی جاتی تھی۔ مردوں کیلئے کچھ نمازیں جہری ،کچھ اخفات کے ساتھ۔لیکن عورت کیلئے جو نمازیں جہری بھی ہیں، وہ بھی اخفات کے ساتھ یعنی آہستہ ۔

اب ماشاء اللہ آپ صاحبانِ فہم و نظر ہیں، ذرا غور کیجئے کہ نماز میں بڑی ضرورت ہے رجوعِ قلب کی اور رجوعِ قلب کا انتہائی درجہ ہے محویت۔اس کا معیار اور کمال آپ نے سنا ہوگا کہ تیر کھینچ لیا جاتا ہے اور پتہ نہیں ہوتا۔یہ محویت کا عالم ، یہ استغراق کا عالم ۔ اور یہ روح ہے نماز کی مگر اب میں اہلِ فہم سے، اہلِ عقل سے ، صاحبانِ علم و نظر سے ، سب سے پوچھتا ہوں کہ اگر آدمی میں ایسی محویت ہوئی کہ مرد اپنا مردہونا بھول گیا، عورت اپنا عورت ہونا بھول گئی تو احکامِ شریعت پر عمل ہی کیونکر ہوسکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ خالق کی نظر میں جتنی اہمیت نماز میں استغراق کو ہے، اُتنی ہی خصوصیت اس کی نگاہ میں ہے اپنی خصوصیت صنفی کے باقی رکھنے کی کہ مرد یاد رکھے کہ میں مرد ہوں اور عورت یاد رکھے کہ میں عور ت ہوں۔

تو پھر کیا مشکل ہے کہ نماز میں یاد رکھے اور زندگی کے سب کاموں میں بھول جائے۔ اس کے بعد لباسِ نماز میں زمین آسمان کا فرق۔ مرد کیلئے اتنا لباس کہ جس کے بغیر نماز باطل ہوگی۔ بہت مختصر، بس اتنا کہ برہنہ نہ ہو اور عورت کیلئے سوا چہرے کے، گٹوں سے لے کر انگلیوں تک اور ہاتھوں کے باقی تمام اجزاء پوشیدہ ہوں۔ صحت نماز کیلئے ضروری۔

کتنی ہی ترقی یافتہ خاتون کیوں نہ ہو، لیکن اگر نماز پڑھتی ہو تو اس وقت یہی لباس اختیار کرنا ہوگا اور اب ایک پہلو کی طرف توجہ دلاؤں اور صاحبانِ علم کیلئے بعد میں توضیح ہوگی۔ یہ نامحرم کی وجہ سے نہیں ہے۔ اپنے مکان میں، پردئہ شب میں، گھر کے دروازے بند کرکے ، سامنے پردے ڈال کربھی نماز ہو تو اس سے زیادہ کوئی جزو جسم کا بے پردہ ہو تو نماز باطل ہے۔

میں کہتا ہوں کہ اس سے خالق کا منشاء سمجھئے کہ جو خالق اپنی بارگاہ میں عورت کو بے پردہ دیکھنا نہ چاہتا ہو، وہ بھلا اسے کیسے پسند کرے گا کہ بولہوس مردوں کے سامنے وہ بے پردہ پھرے۔ ترقی پسند لوگوں نے عورتوں کو یہ درس دیا ہے کہ دیکھو! اسلام نے عورتوں کو مصیبت میں ڈالا ہے، مردوں کو آزادی دی ہوئی ہے۔ حج پر جاکر دیکھئے کہ مردوں کیلئے مصیبت ہے یا عورتوں کیلئے۔ مرد ذرا سا بھی سایہ سر پر نہیں رکھ سکتے اور وہ اطمینان سے اپنے سر پر چادریں تانے ہوئے ۔ مرد ایسا لباسِ خاص اختیار کریں کہ جس سے مُردہ اور زندہ میں بہت کم فرق محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے لئے ضرورت ہے کہ ایسا لباس ہو اور عورتوں کیلئے جو عام لباس ان کا ہے۔

یہ وقار خواتین کا تحفظ ہے جو ان کا عام لباس ہے، اُسی لباس میں ان کا احرام صحیح ہے۔ ان کیلئے یہ شرط نہیں ہے اور عام احکام میں ان کیلئے کتنی آزادیاں ہیں، ہمارے لئے کتنی مصیبت ہے۔ ہم ایک چھلا سونے کا نہیں پہن سکتے، وہ بقدرِ برداشت پہن سکتی ہیں۔ ہم خاص لباس بھی ریشم کا نہیں پہن سکتے، وہ سر سے پاؤں تک ریشمی لباس پہنیں، کوئی مضائقہ نہیں۔

یہ کیا ہے؟یہ حقیقت میں خالق کی طرف سے صرف احساس باقی رکھنا ہے اور پھر ان کے وقار کا تحفظ ہے، ان کی عزت و ناموس کا تحفظ ہے۔ یہ تمام مقاصد ہیں ، ورنہ اسے ہم کو مصیبت میں ڈالنا نہیں ہے اور نہ انہیں آرام پہنچانا ہے۔ یہ تو جب ہوتا کہ جب ان کا کوئی رشتہ اُس سے زیادہ ہوتا ، ہم سے کم ہوتا۔

خالق کے نہ تو بیٹا ہے، نہ بیٹی ہے۔ خواتین کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کروں گا کہ جس رسول کی زبان سے یہ احکام پہنچے ہیں، اُسے اللہ نے بیٹا نہیں عطا کیا، بیٹی ہی عطا فرمائی ہے۔ ہم تو ان کے ہر حکم کو حکمِ الٰہی سمجھتے ہیں۔ لیکن جو شخص رسالت کامنکر ہو، وہ بھی ان کے قانون میں یہ تصور نہیں کرسکتا کہ عورتوں کے لئے ناانصافی ہوئی ہوگی اور مردوں کو کچھ ان کے حق سے زیادہ دے دیا ہوگا۔

تو اب وہی بات آگئی کہ جب احکام شریعت کے الگ الگ ، حج کا طریقہ الگ الگ، نماز کا طریقہ الگ الگ اور جانے کتنی باتوں میں الگ الگ تو رسول کا عمل مردوں کیلئے تو نمونہ ہوسکتا ہے، عورتوں کیلئے نمونہ نہیں بن سکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورتوں پر حجت خدا تمام ہی نہیں ہوتی اور مقصد رسالت ہے حجت تمام کرنا۔

قرآن کہہ رہا ہے:

( رُسُلاً مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لَئِلَّایَکُوْنَ لِلنَّاسِ حُجَّة بَعْدَالرُّسُلِ ) ۔

پیغمبر اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ خلقِ خدا کے پاس پیغمبروں کے آجانے کے بعد کوئی عذر نہ ہو، اپنی کوتاہی روزِ قیامت پیش کرنے کیلئے۔ تو اگر فقط رسول کی ذات ہو تو عورتیں بارگاہِ خداوندی میں روزِ قیامت کہہ سکتی ہیں کہ بارِ الٰہا! ہم اگر ایمان و عمل میں ناقص رہے تو ہمارا قصور نہیں ہے، ہماری ہدایت ہی پوری نہیں ہوئی، اس لئے کہ مردوں کیلئے تو اقوال بھی رہے اور افعال بھی رہے اور ہمارے لئے تو بس اقوال ہی اقوال رہے۔ عمل کا کوئی بے داغ نمونہ ہمارے سامنے آیا ہی نہیں۔ تو جب حجت تمام نہیں ہوئی تو مقصد رسالت کی تکمیل نہیں ہوئی۔

اس لئے ضرورت تھی کہ پیغمبر کے خزانہ رسالت میں کوئی گوہر بے بہا ایسا ہو کہ اس کا کردار عورتوں کیلئے ویسا ہی معصوم نمونہ عمل ہو جیسا خود رسول کا کردار مردوں کیلئے نمونہ عمل ہے۔ اس کیلئے خالق نے اپنے رسول کوحضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسی بیٹی کرامت فرمائی۔ اس معنی سے پیغمبر نے فرمایا ہے کہ فاطمہ میرا ایک جزو ہے۔ یعنی اگر فاطمہ نہ ہوں تو میرے فرائض کی تکمیل نہیں ہوتی۔فاطمہ میرے ساتھ مل جائیں تو میرے فرائض رسالت مکمل ہوتے ہیں، بغیر ان کے میرے مقصد رسالت کی تکمیل نہیں ہوتی۔

اب معلوم ہوا کہ یہ فاطمہ تھیں جو حضرت پیغمبر خدا تعظیم کو کھڑے ہوتے تھے۔ بیٹی ہونے کا تقاضا ہی نہیں ہے کہ باپ تعظیم کو کھڑا ہو، یہ عمل خود بتاتا ہے کہ فاطمہ صرف بیٹی ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ اور بھی ہیں۔ تو یہ فاطمہ کی تعظیم نہیں ہے، اس منصب کی تعظیم ہے جوجنابِ فاطمہ کے سپرد ہے۔

اس سے ایک مشکل میری حل ہوجاتی ہے، اپنی کوتاہیِ معلومات کے اقرار کے ساتھ یہی عرض کروں گا کہ میری کوتاہ نظری ہے کہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی وسیع النظر ہو، اس کے سامنے کوئی مآخذ ہو جس کے فضائل بے شمار، جس کے فضائل کی کوئی انتہا نہیں۔ مگر مجھے حضرت علی علیہ السلام کیلئے نہیں ملتا کہ پیغمبر خدا تعظیم کو کھڑے ہوتے ہوں۔ یہ مشکل نہیں ہے یا نہیں؟ اب جو حل اس کا میری سمجھ میں آتا ہے، وہ عرض کرتا ہوں۔ میری سمجھ میں جو آیا، وہ یہ کہ فضائل کا بے شمار ہونا اور بات ہے مگر علی کاجو منصب ہے، وہ بعد رسول ہوگا، فاطمہ کا جو منصب ہے، وہ حیاتِ رسول میں ہے۔

اب جناب دوآئینے ہوگئے۔ ایک آئینہ قد آدم، دوسرا آئینہ میں نے کہا کہ اپنے شعبہ میں مکمل۔اب دو چھوٹے چھوٹے آئینے، مگر جناب آئینے میں ایک خصوصیت ہے، وہ تو اُس آئینے میں بھی ہے جسے میں بیکار کہہ چکا ہوں۔ جسے میں نے کہا کہ مجھے کوئی فائدہ نہیں مگر وہ خصوصیت اس آئینہ میں بھی ہے کہ آئینہ خواہ چھوٹا ہو مگر تصویر پوری دکھاتا ہے بلکہ آئینہ کے اگر ٹکڑے بھی ہوجائیں توہر ٹکڑا آئینہ ہوگا۔

ان چھوٹے چھوٹے آئینوں کیلئے میں کہتا ہوں کہ پیغمبر نے ان میں جھک کر اپنا نقشہ دیکھا، تصویر مکمل نظر آئی۔ سند عطا فرمادی ایک۔ دونوں کو مشترک:

اَبْنَایَ هَذَانِ اِمَامَانِ قَامَااَوْقَعدَا “۔

”میرے یہ دونوں بیٹے امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں،چاہے بیٹھے ہوں“۔

یہ امام کہنے پر قرآن مجید کے ماننے والوں کو تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن نے بتایا کہ گہوارہ کا بچہ کہہ رہا ہے:

( اِنِّیْ عَبْدُاللّٰهِ اَ تَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا ) ۔

”میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے“۔

صیغہ ماضی ہے۔ تو اب جمہورِ ملت کی زبان میں بات کرتا ہوں کہ اگر اُممِ سابقہ میں گہوارے کا بچہ نبی ہوسکتاہے تو افضل الامم میں چار یا پانچ برس کے بچے امام کیوں نہیں ہوسکتے؟

اس لئے امام کہنے میں اور سمجھنے میں مجھے کوئی دُشواری نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی مشکل درپیش نہیں آتی۔ لیکن ہاں! یہ آخر کا جملہ کہ یہ دونوں امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں، چاہے بیٹھے ہوں۔یہ سمجھ میں اُس وقت نہ آسکتا کیونکہ یہ تو انسان کے حالات ہیں، کبھی جاگتا ہے، کبھی سوتا ہے، کبھی اُٹھتا ہے، کبھی بیٹھتا ہے۔ اس کا امامت سے کیا تعلق ہے؟ مگر جب مستقبل نے حالات کے رُخ سے پردہ اُٹھایا اور اب وہ اس وقت کا مستقبل میرے لئے ماضی بن گیا تو سمجھ میں آیا کہ پیغمبر خدا اللہ کے دئیے ہوئے علم میں سے ماضی کے پردہ پر مستقبل کا نقشہ دیکھ رہے تھے۔ پیغمبر کا مقصد یہ تھا کہ میرے ان دونوں بچوں کا طرزِ عمل نگاہِ ظاہر میں متضاد ہوگا۔ ایک صلح کرکے بیٹھ جائے گا، ایک تلوار لے کر کھڑا ہوجائے گا۔ کچھ لوگ اس کی صلح پر معترض ہوں گے، کچھ لوگ اس کی جنگ پر معترض ہوں گے۔ اس لئے پیغمبر نے پہلے سے کہہ دیا کہ یہ میرے دونوں بیٹے امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں ، چاہے بیٹھے ہوں۔

یعنی حسین تلوار لے کرکھڑا ہوجائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسن صلح کرکے بیٹھ جائے تو اعتراض نہ کرنا۔وہ اُٹھنا بھی حکمِ خدا سے ہے اور یہ بیٹھنا بھی حکمِ خدا سے ہے۔ وہ بھی امامت کا ایک انداز ہے اور یہ بھی امامت کا ایک شیوہ ہے۔

پھر ایک سند خصوصی چھوٹے کو عطا فرمائی:

حُسَیْنُ مِنِّیْ وَاَنَا مِنَ الْحُسَیْنِ

”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“۔

یہ خاص حضرت امام حسین علیہ السلام کیلئے ہے۔ صحاحِ ستہ میں ہے، ترمذی بھی صحاح میں ہے، اس کی حدیث ہے کہ حسین مجھ سے ہے او رمیں حسین سے ہوں۔اگر دوسرا جملہ نہ ہوتا تو پہلا بالکل صاف تھا کہ حسین مجھ سے ہے ۔ وہ نانا ہیں، یہ نواسے ہیں۔ نانا کا وجود اسباب میں سے ہوتا ہے، نواسے کے وجود کیلئے۔

یہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن اب دوسرا جملہ کہ میں حسین سے ہوں۔پیغمبر خدا کے کلام کی ایک خصوصیت ہے کہ

اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ “۔

یعنی مختصر جملے ہوتے ہیں اور اس میں کتنے ہی پہلو ہوتے ہیں۔ اکثر جملے تو ایسے ہیں کہ جتنے اوصافِ کمال ہے پیغمبر کے، ایک جملے سے وہ سب ظاہر ہوجاتے ہیں۔ یہ کلامِ رسول کی خصوصیت ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

ان دونوں جملوں میں آخر ربط کیا ہے؟ پہلے میں کچھ اور ہو اور دوسرے میں کچھ اور ہو تو وہ تو ایسے ہے جیسے شعردولخت ہوتا ہے۔ ویسے بے جوڑ فقرے ہوجائیں گے۔ لہٰذا ضرورت اس کی ہے کہ دونوں میں کوئی مناسبت ہو۔ اس وقت جو پہلو عرض کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے شے کا وجود او ر ایک ہوتی ہے شے کی بقا۔ پہلا جملہ جو ہے کہ حسین مجھ سے ہے، وہ وجود کے لحاظ سے ہے، دوسر اجملہ جو ہے ، وہ بقا کے لحاظ سے ہے۔ یعنی حسین کا وجود میرے وجود سے ہے اور میری بقا حسین کی وجہ سے ہے۔

اب میں اُردو میں ایک جملے میں ترجمہ کرسکتا ہوں کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں یعنی اگر میں نہ ہوتا تو حسین نہ ہوتا اور اگر حسین نہ ہوتا تو میں نہ رہتا۔

جو اُسوہِ رسول ہے

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةحَسَنَة ) ۔

ارشاد ہورہا ہے تمام فرزندانِ اسلام کو مخاطب کرکے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول میں عمل کا بہترین نمونہ ہے۔ ہم اطاعت کے بھی معنی کہہ دیتے ہیں پیروی اور اتباع کے بھی معنی کہہ دیتے ہیں پیروی۔ لیکن پیروی کے معنی درحقیقت نقش قدم پر چلنا اور افعال و اعمال کو نمونہ بنا کر عمل کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کی اطاعت کا حکم ہے لیکن پیروی کا حکم ، نقش قدم پر چلنے کا حکم، پیغمبر خدا کے سلسلہ میں ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ تمہارے لئے خدا اور رسول میں پیروی کا موقعہ ہے بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ:

( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه ) ۔

”تمہارے لئے اس کے رسول میں“۔

ہمارے کانوں کو سننے کی عادت ہے خدا ورسول، ہمیں ایک دھماکہ سے محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا نام نہیں آیا اور بس رسول کا ہی نام آیا۔ تمہارے لئے خدا کے رسول میں۔یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ اور اُس کے رسول میں۔ بس اللہ کے رسول میں۔

بات یہ ہے کہ بندے اللہ کی پیروی کیونکر کرسکتے ہیں، اس کیلئے ضرورت ہے کہ شاہراہِ عمل میں کسی انسان کے قدم ہوں مگر انسان ایسا ہو کہ اس کے قدموں سے جو نشان بنیں، وہ راہِ رضائے پروردگار ہوں۔

پیغمبر خدا کی اطاعت کا بھی حکم اور ان کی پیروی کا بھی حکم۔ اطاعت کا حکم کہاں، جہاں اللہ کی اطاعت کا حکم ہے، وہاں وہاں پیغمبر خدا کیا طاعت کا حکم ہے۔ ہر جگہ :

( اَطِیْعُوااللّٰهَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ )

اور پیروی کے حکم میں اللہ کا نام ہے ہی نہیں۔بس رسولِ خدا کو مرکز قرار دیا ہے۔ اس بناء پر مسلم نقطہ نظر مشترک طور پر یہ ہوگیا کہ میعارِ سنت یہ ہے کہ قولِ رسول ہو یا عملِ رسول ہو یا تقریر رسول ہو۔

قول و عمل اُردو میں اتنے استعمال ہوتے ہیں کہ ہر اُردو دان آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ قول کلام اور عمل کام لیکن تقریر مختلف ہے۔ تقریر ہم اُسے سمجھتے ہیں جو سٹیج پر ہوتی ہے یا منبر پر ہوتی ہے۔ تقریر جو لیکچر کے معنی میں ہے، وہ قول میں داخل ہے۔ یہ الگ سے کیونکر ہوئی کہ قولِ رسول عملِ رسول اور تقریر رسول! تقریر کے معنی یہ ہیں کہ کسی مسلمان نے رسول کے سامنے کوئی کام کیا یا کوئی بات کہی اور پیغمبر خدا نے اس سے منع نہیں فرمایایا اس کی رَد نہیں کی۔

اگر کوئی عمل کسی نے غلط کیا تھا تو حضرت کو بحیثیت رہنما یہ فرمانا چاہئے تھا کہ تم یہ کیوں کررہے ہو؟ اور اگر اُس نے کوئی بات غلط کہی آپ کے سامنے تو آپ کو رَد فرمانا چاہئے تھا کہ یہ بات غلط ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ رسول نے اگر خاموشی اختیار فرمائی اور اس عمل سے منع نہیں کیا اور اس قول کی رَد نہیں فرمائی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اس عمل سے راضی ہیں۔

جس طرح قولِ رسول کا معیار سنت ہے، جس طرح عملِ رسول کا معیار سنت ہے، اسی طرح تقریر رسول بھی معیارِ سنت ہے۔ اب سنت کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز نہیں ہے، اس کی قسمیں ہو سکتی ہیں۔ جو بات رسول نے کہی، وہ واجب بھی ہوسکتی ہے اور مستحب بھی ہوسکتی ہے، مثلاً وضو میں ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے یا کُلّی کرنا سنت ہے۔ یہ سنت واجب کے مقابلے میں ہے۔ مستحب کومسنون کہتے ہیں تو وہ بات جو رسول نے ارشاد فرمائی یا عمل کیا، وہ عمل واجب بھی ہوسکتا ہے، مستحب بھی ہوسکتا ہے اور کم از کم جائز ہوسکتا ہے، مباح ہوسکتا ہے۔

یعنی جائز کام ہیں ۔جو واجب یا مستحب نہ ہوں، وہ بھی حضرت عمل میں لاتے تھے۔ پیاس لگی ہے تو پانی پئیں گے، بھوک لگی ہے تو کھانا کھائیں گے۔ قولِ رسول، اگر حکم دیا ہے تو واجب ہوگا یا مستحب ہوگا اور اگر عمل ہے تو وہ عمل واجب بھی ہوسکتا ہے اور مستحب بھی ہوسکتا ہے، مباح یعنی جائز بھی ہوسکتا ہے، ناجائز نہیں ہوسکتا۔

عملِ رسول سے جواز یقینا ثابت ہوگا اور جواز ہی کی اقسام ہیں واجب، مستحب اور مباح۔ اسی طرح سے رسول کی تقریر یعنی کسی نے کوئی کام کیا اور رسول نے منع نہیں فرمایا، اس میں بھی یہی تینوں اقسام آئیں گی کہ بہرحال اس نے جو کیا، وہ غلط نہیں تھا۔ جو اُس نے کیا، وہ ناجائز نہیں تھا، ورنہ رسول کا فرض تھا کہ وہ اس کو منع فرماتے اور فرماتے کہ یہ ناجائز ہے۔ جب حضرت نے اُس کو منع نہیں فرمایا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کم از کم مباح تو ہے ہی۔ ہو سکتا ہے کہ مستحب ہو، واجب ہو یا جائز ہو۔

اسی طرح اس نے کوئی بات کہی اور حضرت نے اس کی رَد نہیں فرمائی تو ا س کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ناجائز نہیں ہے، غلط نہیں ہے۔ اگر وہ بات غلط ہوتی اور باطل ہوتی تو پیغمبر خدا منع فرماتے۔ تو یہ چیزیں معیارِ سنت ہیں: قولِ رسول، عملِ رسول اور تقریر رسول۔جو چیزان میں داخل نہ ہو، اس کی بھی اقسام ہیں۔ سنت کے مقابلہ میں ہے بدعت۔ جو چیز سنت نہیں ہے، وہ بدعت ہے یعنی جو بدعت ہو وہ سنت نہیں ہوسکتی۔ لیکن سنت اگر نہیں ہے تو بدعت ضرور ہے۔

اس کو میں نے بلا جھجک نہیں کہا۔اس میں ذرا نقطہ نظر کا فرق ہے۔ اس میں ہمارا محاورہ یہ ہے کہ جو بات سنت میں داخل نہ ہو، یعنی نئی ہو، وہ اگر آدمی جزوِ دین سمجھ کر کرے تو وہ بدعت ہوگی۔بدعت کی تعریف ہمارے نقظہ نظر سے یہ ہے :

اِدْخَالُ مَالَیْسَ فِی الدِّیْن وَاِخْرَاجُ مَاهُوَفِی الدِّیْن مِنَ الدِّیْن “۔

”جو چیز دین میں داخل ہے، اُسے خارج کرنا اور جو چیز دین میں داخل نہیں ہے، اُس کو دین میں داخل کرنا، یہ معیارِ بدعت ہے“۔

تو دین کا جزو قرار دے کر اگر کوئی نئی بات کرے تو وہ بدعت ہوگی۔ لیکن اگر یونہی کیا تفریحاً یا عادتاً ،جزوِ دین سمجھ کر نہیں کیا ۔تو بس اس کویہ دیکھنا ہے کہ ممانعت تو نہیں ہے۔ اگر ممانعت ہے تو ناجائزاور اگر ممانعت نہیں ہے اور جزوِ دین سمجھ کر نہیں کیا، یونہی تفریحاً کیا ہے تو پھر جائز ہے۔ اگر کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا تو مہمل بات ہے مگر اُسے بدعت کہنا درست نہیں ہے، جبکہ دین کا جزو سمجھ کر نہیں کیا جارہا۔

فرض کیجئے کہ ذرا اونچی جگہ سے چھلانگ لگائی تو اگر اُسے جزوِ دین سمجھ کر کرے تو بدعت ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہے تو زیادہ سے زیادہ فضول کام ہوگا، خلافِ عقل ہوگا، مہمل کام ہوگا۔ مگر اُسے بدعت نہیں کہہ سکتے۔ بدعت اس وقت ہے جب جزوِ دین سمجھ کر کیا جائے یعنی جو چیز دین میں شامل نہیں ہے، اُسے دین میں شامل کیا جائے اور جو داخل ہے، اُسے خارج کیا جائے۔ جیسے صبح کی نماز میں اضافہ کرے اور دو کی بجائے تین رکعت پڑھے۔ دل میں ذوقِ عبادت ہو، میں انگریزی الفاظ نہیں بولتا مگر یہاں کہتا ہوں کہ اس دن نماز کا موڈہو، دو رکعت کی بجائے تین رکعت نماز پڑھ دے، تو چونکہ عبادت ہمیشہ وہ ہوتی ہے جو رضائے الٰہی کیلئے ، قصد قربت کے ساتھ ہو، جب قصد قربت کے ساتھ اُس نے یہ کام کیا، یعنی اُس نے جزوِ دین بنایا تو صبح کی سہ رکعتی نمازبدعت ہو جائے گی ۔

اب کوئی صاحب تھکے ہوئے ہوں تو کہیں کہ آج ایک ہی رکعت پڑھوں گا، اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک رکعت کو انہوں نے خارج کردیا، یہ بدعت ہے۔لیکن نماز تو انہوں نے دو رکعت ہی پڑھی ہے، صبح کی نماز کی نیت سے ، لیکن دل چاہا اور انہوں نے اس کے بعد دوچار دفعہ کھڑے ہوکر، بیٹھ کر رکوع و سجود کی مشق کرلی،یہ کیا؟

کہا کہ اس وقت دل چاہتا ہے کہ نماز کے اجزاء کو مزید ادا کروں، اس وقت کچھ جسم کا تقاضا بھی ایسا ہے کہ اس قسم کا کام کروں۔ یہ رکو ع و سجود نما عمل انہوں نے کر دیا۔ لیکن بہ نیت جزوِ نماز نہیں کیا تو یہ فضول بات ہوگی یا ورزش ہوجائے گی۔ چونکہ عبادت کی نیت سے یہ عمل نہیں کیا ہے، تو بدعت نہیں ہوگی۔ ہاں! اگر جزوِ نماز سمجھ کر کرے تو بدعت ہوگی۔ غالباً اکثریت کا معیار یہ ہے کہ اگر کوئی نئی بات ہے یعنی نہ قولِ رسول میں ہے اور نہ عملِ رسول میں ہے، نہ تقریر رسول میں ہے، تو وہ بدعت ہوگئی ۔ میں اس وقت اسی نقطہ نظر کے ماتحت یعنی قولِ رسول، عملِ رسول اور تقریر رسول کو بنیاد بنا کر معیارِ سنت و بدعت کو موضوعِ گفتگو بناؤں گا۔

ایک بڑے حلقے کی طرف سے شرک شرک کی آوازیں بہت بلند ہوتی ہیں۔ بدعت کی آوازیں بھی بہت بلند کی جاتی ہیں۔ اس بناء پر جو معیار ہے، بدعت اور سنت کا، اس پر چند ایسی باتوں کو جانچوں گا جن میں اکثر بدعت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ان کو جانچوں گا کہ وہ سنت میں داخل ہیں یا بدعت میں۔

بدعت اور سنت کا معیار یہ ہوا کہ جو چیز قولِ رسول، عملِ رسول یا تقریر رسول میں ہو، وہ سنت اور جو اس میں داخل نہ ہو، وہ بدعت۔اس جگہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو چیز قولِ رسول، عملِ رسول یا تقریر رسول میں ہو تو سنت ہے ، ورنہ بدعت۔تو میں کہتا ہوں کہ ہم سب کے لباس بھی بدعت اور ہماری غذائیں بھی بدعت اور ہمارے سفر سب بدعت۔ اس لئے کہ جو غذائیں اس وقت ہم کھاتے ہیں، یہ رسول نے کبھی نہیں نوش فرمائیں، نہ انہوں نے ان کے کھانے کا حکم دیا، نہ کسی نے ان کے سامنے ان غذاؤں کو کھایا تھا کہ وہ خاموش رہتے اور تائید ثابت ہوتی۔ تو ہماری کوئی غذا ایسی نہیں ہے،تقریباً سارے ہندوستان کی۔اگر یہ ہے تو ہماری غذائیں سب بدعت۔

جس طرح کے لباس ہم پہنتے ہیں،یہ لباس رسول کے زمانہ میں کسی نے نہیں پہنے کہ تقریر رسول ہوتی، خود رسول نے یہ لباس نہیں پہنا کہ عملِ رسول ہوتا۔ آپ نے ان کے پہننے کا حکم بھی نہیں دیا۔ یہ چیزیں اس زمانہ میں ہوتی ہی نہیں تھیں تو ان کا حکم کیا دیتے! لہٰذا یہ قولِ رسول نہ عملِ رسول۔تو ہمارے لباس سب بدعت ۔

اور جناب! کسی او ر سفر کا کیا ذکر، حج کا سفر جو فریضہ ادا ہوتا ہے، وہ اس وقت اونٹ کی پشت پر ہوتا تھا، گھوڑے پر ہوتا تھا، اب موٹروں پر، ہوائی جہازوں پر اور بحری جہازوں پر ہوتا ہے۔اس وقت تک تو مرکب یا سواری بدعت تھی اور اب تو راہ بھی بدعت ہوگی کہ سفر ہوتا تھا زمین کے اوپر یا دور دراز کا ہو تو سمندر میں یا دریا میں یہی چیزیں اس وقت ہیں بحروبر۔خشکی یا تری، یہی دو سفر ہوتے تھے۔ ہوا کا سفر اس وقت کہاں ہوتا تھا؟ اب جو سفر کرتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ اب حاجی صاحبان زمین پر پیر ہی نہیں رکھتے، پرواز کرکرکے پہنچتے ہیں۔ وہ حج جو عبادت ہے، کیا وہ بھی بدعت ہوجائے گا؟

وہاں جاکر دیکھئے تو صفا او رمروہ کے درمیان چھت ہوگئی ، وہ کیا بدعت نہیں ہوئی؟ پہاڑیوں کو اُڑا کر زینے بنا دئیے تو وہ بدعت نہیں ہوئی؟ اور جس جس طرح سے وہاں سعی ہوتی ہے، اظہارِ تشخص کیلئے سعی بجائے پیروں کے موٹروں پر ہوتی ہے، یہ بدعت نہیں ہوئی؟ تو اگر ہر نئی چیز بدعت ہے تو کونسی چیز بدعت نہیں ہے؟

اسی بناء پر جب اینڈرسن صاحب نے فوٹو کھینچنے کے موقع پر مجھ سے کہا کہ یہ بدعت تو نہیں ہے؟ تو میں نے کہا کہ میں خود ہی بدعت ہوں۔ معلوم ہوا کہ اس معیار پر اگر دیکھئے کہ نئی بات یعنی جو اس وقت نہیں تھی، جو فعلِ رسول ، قولِ رسول یا تقریر رسول میں نہیں ہے تو زمین آسمان ہمارا بدعت ہوگا۔ پوری زندگی ہماری بدعت میں گھری ہوئی ہوگی او رکوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔

یہ نہیں ہے کہ یہ شکل ہو تو پھر کیا ہے، میں جو معیارِ سنت عرض کررہا ہوں، اس پر ہر صاحب عقل مسلمان غور کرے کہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کام جو ہم کررہے ہیں، اس شکل سے اس کام کیلئے قولِ رسول ہے، فعلِ رسول ہے یا تقریر رسول ہے یا نہیں ہے؟ اگر اس کام کا رسول نے حکم دیا ہے تو پھر اس شکل میں ہوتا تو سنت ہوتا۔ اس شکل میں ہے او رکام وہی ہے تو سنت ہے۔

عملِ رسول: جو کام کیا تھا رسول نے، اگر کام ہم وہی انجام دے رہے ہیں مگر پیغمبر خدا نے جس صورت سے انجام دیا تھا، ہم اس کام کو اس صورت سے انجام نہیں دے رہے ہیں تویہ پھر بھی سنت ہوگا، اس لئے کہ کام وہی ہے۔ چاہے اس شکل میں ہوتا، چاہے اُس شکل میں ہے۔ اسی طرح تقریر رسول: کسی دوسرے نے کام یہ انجام دیا اور رسول اللہ نے منع نہیں فرمایا تو اب وہی کام اگر ہم کررہے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ رسول ہوتے تو ہمیں منع نہ کرتے۔ انہوں نے کام اُس وقت کے رواج کی صورت سے کیا تھا، ہم اِس وقت کے رواج کی صورت سے کر رہے ہیں، مگر کام نہیں بدلا ہے، کام وہی ہے جو ہوا تھا۔

تو اگر صورت اور شکل بدل گئی ہے تو وہ سنت ہوگا۔ مثلاً تحصیلِ علم۔یہ دیکھنا ہے کہ تحصیلِ علم خدا و رسولِ خدا کو مطلوب ہے یا نہیں۔ ہم نے دیکھ لیا کہ تحصیلِ علم قرآن اور حدیث دونوں کی رو سے ہر ایک کا کسی حد تک فریضہ ہے اور جو فریضہ نہیں بھی ہے، تو امر مستحسن ہے اور ترغیب دی گئی ہے اور تحریص کی گئی ہے۔تو تحصیلِ علم خواہ تعلیم علم ہو، یہ بہرحال مطلوبِ خدا و رسول ہے۔

اب اُس وقت میں تعلیم چٹائی پر ہوتی تھی، اب وہ تعلیم میز اور کرسی پر ہوتی ہے۔ تو میز اور کرسی نہ ڈھونڈئیے بلکہ یہ دیکھئے کہ تعلیم ہے یا نہیں۔اگر تعلیم دینی فریضہ ہے یا کم از کم مستحسن ہے تو وہ چٹائی پر ہوتی تو مستحسن او رکرسی میز پر ہو تو مستحسن۔ یہ نہیں ہے کہ میز کرسی پر تعلیم ہورہی ہے تو نئی چیز ہوگی، لہٰذا یہ بدعت ہوگئی۔نہیں! اگر وہ تعلیم فرشِ خاک پر بیٹھ کر عبادت تھی تو یہ تعلیم جو کرسی اور میز پر بیٹھ کردیں، یہ بھی عبادت ہوگی۔ ورنہ تو جناب ہمارا دنیا بھر میں کوئی دارالعلوم بدعت سے خالی نہ ہوگا۔یہ امتحانات، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ کب ہوتے تھے؟ پیغمبر خدا کی جو درس کی مجلس تھی، اس میں کیا امتحانات ہوتے تھے؟ امتحانات ہونے کے بعد نمبر دئیے جاتے تھے؟ کیا رسول کے زمانہ میں فیصدی نمبر، ڈویژن اور درجے ہوتے تھے؟ کونساہمار ادارالعلوم ہے جو کتنا ہی سنت کا درس دیتا ہو ، جو ان طریقوں سے خالی ہو؟

معلوم ہوا کہ طریقے بہ اعتبارِ رواج بدلتے ہیں اور کام وہی ہے جو اس وقت ہوتا تھا۔ اگر وہ عبادت ہے تو یہ بھی عبادت ہے۔ یہ دیکھئے کہ جامع مسجد میں اب کام ہورہا ہے ، یہ نماز ہی ہے یا کچھ اور ہے؟جامع مسجد میں جمعہ یا عید یا روز کی نمازہو تو کیا اتنا بڑا مجمع کبھی رسول کے زمانہ میں نمازِ جماعت میں ہوا تھا؟تو صرف اس لئے کہ تعداد بدل گئی تو بدعت ہوجائے گا؟

حضور! اب دو آدمی ہوں اور نمازِ جماعت ہو تو جماعت ہے اور دو لاکھ آدمی ہوں، تب بھی جماعت ہے۔ مجمع کی تعداد سے سنت بدعت میں نہیں بدلتی ۔ کم سے کم جس فقہ سے میں واقف ہوں، اس میں تو ایک امام اور ایک ماموم سے جماعت ہو سکتی ہے۔ اس میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں ہے، صرف ایک عدد ماموم ہو تو بھی اقتداء کرسکتا ہے اور وہ نمازِ جماعت ہوجائے گی۔ تعداد کے بدلنے سے عمل اگر نہیں بدلا ، کام وہی ہے تو اگر دو آدمی کررہے تھے تو عبادت اور اگر دس آدمی کررہے ہوں ، تب بھی عبادت بلکہ انہی حضرات نے ارشاد فرمایا کہ جتناجماعت کا مجمع بڑھے، اتنا ہی فرد کی نماز کے ثواب میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ دوسرے جو آئے ہیں، وہ اُن کا عمل ہے لیکن اُن کی وجہ سے وہ ایک آدمی جو شروع میں آیا ہے، اس کے بھی ثواب میں اضافہ ہوگا۔

میں کہتا ہوں کہ یہ ذرا ذرا سے جو احکام ہیں، ان میں بھی کتنی حکمتیں مضمر ہیں کہ جب یہ مسئلہ معلوم ہو گیا تو ہر آدمی اپنی خود غرضی کیلئے کوشش کرے گا کہ زیادہ لوگوں کو آمادہ کرے کہ وہ جماعت میں شریک ہوں۔ ان کی خیر خواہی میں نہیں بلکہ اپنی خود غرضی کیلئے کہ میرے ثواب میں اضافہ ہوجائے۔

اسی طرح میں ریل سے بمبئی گیا، وہاں سے میں جہاز میں بیٹھا اور جدہ اُترا۔وہاں سے موٹر میں بیٹھا اور اس کے بعد مکہ گیا۔ تو اس طرح جو کام ہوا، وہ بھی حج تھا۔ حج کیلئے میں گیا تھا۔ نیت میری موٹر پر بیٹھنے کی نہیں تھی، نیت تو میری حج کی تھی اور وہ جو ہوا ، اُس کا نام حج ہی ہے۔

اس طرح سے اس نے بھی حج کیا، جو ہوائی جہاز سے اُڑ کر پہنچا ہے۔وہ بھی کس لئے پہنچا ہے؟ حج کیلئے گیا ہے۔ ہوائی جہاز کی خاطر حج نہیں کیا ہے، حج کی خاطر سے ہوائی جہاز میں بیٹھا ہے۔ جس وقت اصل مقصد وہی رہا، کام وہی رہا، وہ چاہے بحری جہاز سے ہو، تو فریضہ ادا ہوا اور ہوائی جہاز سے گئے تو وہ فریضہ ادا ہوا۔

معلوم ہوا کہ وحدتِ عمل معتبر ہے، شکلِ خاص تو رواجوں سے بدلتی ہے، دَور کے بدلنے سے بدلتی ہے۔ بس اب جن جن چیزوں کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے،ان کو اس معیار پر پرکھ لینا چاہئے۔ فرض کیجئے کہ سیرت کا جلسہ ہے، نام بدلتا رہتا ہے، ایک وقت میں محفلِ میلاد کہلاتا تھا، اب سیرت کا جلسہ ہوتا ہے۔نام کے بدلنے سے بھی بدعت نہیں ہوتی۔ کام وہی ہونا چاہئے ، چاہے اُس نام سے ہو، چاہے اِس نام سے ہو۔ مجھے دوسرا نام زیادہ پسند ہے یعنی میلادِ اقدس۔ اس میں صرف ہماری خوشی کا پہلو ہے لیکن ہمارے لئے درس کا پہلو نہیں ہے ۔ ہماری زندگی سے اس کا تعلق نہیں ہے لیکن یہ جو جلسہ سیرت نام ہوگیا، یہ کردار سازی کا ایک رُخ رکھتا ہے، خواہ میلادِ مقدس ہو یا سیرت کا جلسہ ہو، روشنی کا اہتمام زیادہ ہوگیا تو یہ تصو رہوگیا کہ یہ بدعت ہے۔ اتنی روشنی؟

میں کہتا ہوں کہ ایک بلب ہوتا تو کیا سنت تھا؟ اور یہ دس ہوگئے ہیں،اس لئے بدعت ہوگیا؟ تو وہ ایک عدد بھی رسول کے زمانہ میں دکھادیجئے کہ کب تھا؟ تو روشنی کے کم ہونے یا زیادہ ہونے سے یا قمقمے لگ جانے سے یا جھنڈیاں لگ جانے سے یا سامانِ آرائش زیادہ استعمال کرنے سے اس سب کو آپ انوکھے پن کی وجہ سے کہیں کہ یہ بدعت ہے، یہ سب بدعت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس سب کے بعد کام اس محفل کا کیا ہوگا؟ ذکر رسول ہی تو ہوگا۔

اب یہ دیکھ لیجئے کہ ذکر رسول خدا کو پسند ہے یا نہیں؟ اگر پتہ چل جائے کہ ذکر رسول خدا کو پسند ہے تو ذکر رسول اندھیرے میں ہوتا تو خدا کو پسند ہوتا اور روشنی میں ہوگیا تو پسند ہوگا۔اگر وہ فرشِ خاک پر ہوتا تو خدا کو پسند ہوتا اور قالینوں کے فرش پر ہورہا ہے تو پسند ہوگا۔

تو پسند ہے جب چیز وہی جو خدا اور رسول کو پسند ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید میں دیکھئے کہ ان کے ذکر کیلئے خدا کو کیا منظو رہے، ارشاد ہوتا ہے:

( رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ ) ۔

”ہم نے آپ کے ذکر کو اُونچا کیا“۔

ایک پہلو پر توجہ دلادوں کہ بہت جگہ قرآن مجید میں آتا ہے ، میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا اور بہت جگہ آتا ہے کہ ہم نے یہ کیا۔ حالانکہ ہمیں شانِ وحدت” مَیں“ میں زیادہ نظر آتی ہے۔ ”ہم“ میں سے تو جیسے بوئے شرکت غیر آتی ہے۔یعنی میں ایسی بات اللہ کیلئے کہوں تو شرک کا پہلو پیدا ہوگا تو اللہ کیوں ہم کہہ رہا ہے؟کیا کوئی اور اس کے ساتھ شریک ہے؟ میں نے جو غور کیا تو ”میں“ اور” ہم“ میں مَیں نے یہ فرق محسوس کیا کہ جہاں اظہارِ انفرادیت مطلوب ہوا، وہاں ”مَیں“ کہا ہے:

( اِنَّمَااَنَااِلٰهٌ وَاحِدْ )

”میں ایک خدا ہوں“۔

یہاں ”ہم“ کا محل نہیں تھا۔

( اِنَّمَااَنَااِلٰهٌ وَاحِدْ ) “۔

”بے شک میں ایک خدا ہوں“۔

( اَنَارَبُّکَ ) “۔

”میں تمہارا پروردگار ہوں“۔

جہاں اظہارِ انفرادیت منظور ہوا ہے، وہاں”مَیں“ کہا ہے او رجہاں قوتِ عمل دکھانا ہے، وہاں ہم کہا ہے:

( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَاِنَّالَهُ لَحَافِظُوْنَ ) ۔

”ہم نے یہ قرآن اُتارا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں“۔

( اِنَّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ) ۔

”ہم نے اس کو شب قدر میں اُتارا ہے“۔

یہ جو ہم ہم ہوتا ہے، اس میں مخالف قوتوں کو چیلنج ہوتا ہے کہ ہم نے یہ کیا ہے، ہم نے یہ قرآن اُتارا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اب کوئی دنیا میں قرآن کو مٹا تو دے۔ ویسے ہی جہاں جہاں یہ ”ہم“ ہے:

( اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ ) ۔

”ہم نے آپ کو کثرتِ نسل عطا کی ہے“۔

بنی اُمیہ اور بنی عباس کی طاقتیں اس نسل کو ختم تو کردیں! اسی طرح یہ:

( رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ ) “۔

”ہم نے آپ کے ذکر کو اونچا کیا ہے“۔

اب لاکھ بدعت کے فتوے لگیں، کوئی نیچا تو کردے۔

ذکر کی بلندی کیا ہے؟ جتنے نمایاں ہونے کے اسباب زیادہ ہوں، سب خالق کا مقصود ہیں۔ اب جولوگ کہ روشنی کررہے ہیں، آرائش کررہے ہیں، جو لوگ بڑے سے بڑا پنڈال بنا رہے ہیں، ان سب کو سمجھئے کہ وہ خالق کے مقصد کے آلہ کار ہیں۔

جناب! یہ ہماری جماعت میں رواج ہے بھی نہیں بلکہ کسی اور کا رواج ہوگا ۔ کوئی اعتراض کررہا ہے،میں تو عقلی جائزہ لئے بغیر بدعت نہ کہوں گا۔ مثلاً میلاد شریف میں ایک محل پر ہوگیا کہ وہاں جب رسول کا ذکر آئے گا تو مجمع کھڑا ہوجائے گا:

قِیَامُ عِنْدَذِکْرِنَبِیْ “۔

یہاں بڑے زور سے آواز آئے گی کہ بدعت ہے، بدعت ہے۔ میں نے دیکھا کہ سب کھڑے ہوئے۔ تو بعض حضرات نہیں کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا کہ میرے ہاں رواج نہیں ہے مگر میں کھڑا ہوجاتا ہوں۔ کچھ حضرات تو اس معاملہ میں بڑے سخت ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ قیام کیا ہے؟ یہ تعظیم کی نیت سے ہے۔ یہ جو کھڑا ہوا تھا، اس نے کیا کام کیا؟ مظاہرئہ تعظیم کیا۔ کام یہ کیا اور طریقہ اس کا یہ اختیار کیا کہ نام سن کر کھڑا ہوگیا۔تو کام اُس نے جو کیا، وہ رسولِ خدا کی تعظیم ہے۔ قرآن میں یہ دیکھ لیجئے کہ تعظیم رسول اللہ کو پسند ہے یا نہیں؟ اللہ نے رسول کی تعظیم کا حکم دیا ہے یا نہیں، اگر رسول کی تعظیم کا حکم دیا ہے تو جو شکل اختیار کی جائے ، وہ تعظیم ہے۔

تو وہ واجب تو نہیں ہے لیکن جو اُس نے عمل کیا، اس کو بدعت نہ کہئے، اُسے غلط نہ کہئے۔ اُس نے وہی کام کیا جو اللہ کو مد نظر ہے۔

میں کہتا ہوں کہ رسول کی تعظیم دیکھئے کہ اللہ کو مد نظر ہے یا نہیں؟تعظیم نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو سب کے ساتھ برتاؤ ، وہی رسول کے ساتھ۔ اب قرآن میں دیکھئے کہ کیا وہ چاہتا ہے کہ اس طرح ہورسول کے ساتھ جو دوسروں کے ساتھ ارشاد ہورہا ہے:

( لَا تَجْعَلُوْادُعَاالرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ )

”دیکھو خبردار! ہمارے رسول کو اس طرح نہ پکارا کرو جیسا آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو“۔

آپ کہتے تھے کہ جو سب کے ساتھ برتاؤ، وہی رسول کے ساتھ اور قرآن کہہ رہا ہے کہ ہرگز وہ برتاؤ نہ کرو رسول کے ساتھ جو دوسروں کے ساتھ کرتے ہو۔ اس طرح نہ پکارو جس طرح دوسروں کو پکارتے ہو۔

میں کہتا ہوں کہ ہم کو حکم دیا تو خود اُس نے بھی رسول کو اس طرح نہیں پکارا جس طرح دوسروں کو پکارا۔ ارے! ہر کس و ناکس کو وہ پکارنے ہی کیوں لگا؟ وہ پکارتا ہے انبیاء کو، مرسلین کو۔ ان کو پکارتا ہے۔ مگر جس رسول کو بھی پکارا ہے، ہمارے پیغمبر کے علاوہ، بلا استثنیٰ نام

لے کر پکارا:

( یَااٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّة ) ۔

”اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ جنت میں رہو“۔

”اے نوح!اُترو سلامتی کے ساتھ“

نام لے کر پکارا۔

( یَااِبْرَاهِیْمُ قَدْصَدَّقْتَ الرُّوْیَا ) ۔

”اے ابراہیم ! تم نے خواب سچ کردکھایا“۔

نام لے کر پکارا۔ اب اور آیات کیوں پڑھوں؟ میں نے کہا کہ بلا استثنیٰ ہر نبی و رسول کا نام لے کر پکار لیا۔ جب میں نے بلا استثنیٰ کہہ دیا تو اگر کسی کے پاس اس کے خلاف سند ہو تو وہ کوئی آیت پڑھے۔ مجھے سب آیات پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس نبی و رسول کو پکارا، نام لے کر پکارا اور ہمارے رسول کو بلا استثنیٰ کبھی نام لے کر نہیں پکارا، کبھی عہدہ کو سرنامہ خطاب بنایا:

”یَااَیُّهَاالنَّبِیّ ُ“۔یَااَیُّهَاالرَّسُوْلُ “ ۔

جو عہدہ تھا، اُس کو سرنامہ خطاب بنا لیا۔ کبھی اوصافِ کمال کو، طٰحٰہ ہے، طیّب و طاہر ہے، یٰسین ہے، سیّد و سردار ، کبھی بتقاضائے محبوبیت جس وقت جو لباس ہوا، اس کو سرنامہ خطاب بنا لیا:

یَااَیُّهَاالْمُزَمِّلُ “ ۔

”اے چادر اوڑھے ہوئے“۔

یَااَیُّهَاالْمُدَثِّر ُ“ ۔

”اے کملی میں لپٹے ہوئے“۔

معلوم ہوتا ہے کہ ذات اتنی محبوب ہے کہ محب کی نظر ان کے لباس پر بھی پڑ گئی۔

اس نے خود ان کی تعظیم کیلئے یہ انداز اختیار کیا تو کوئی دوسرا تعظیم کرے گا تو اُسے ناپسند کیونکر ہوسکتا ہے؟ قیام اگر کوئی کرتا ہے تو وہ وہی کام انجام دے رہا ہے جو اللہ کا پسند ہے۔ ہاں! یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ جگہ کی کیا خصوصیت ہے، جب بھی رسول کا ذکر آئے تو کھڑے ہوں۔ یہ چند جگہ کیوں؟ اس کیلئے بعض چیزیں ہیں جو پرانے زمانہ میں نظر سے نہیں گزری تھیں۔ ذہن میں مثال نہیں آتی تھی۔

بینک میں ایک دن گئے، دیکھا کہ بینک کھلا ہوا ہے، سب لوگ ہیں مگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں، کام کچھ نہیں کررہے ۔ہم نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ بینک تو کھلا ہوا ہے مگر کام نہیں ہو رہا؟ انہوں نے کہا کہ آج ہڑتا ل ہے۔ دوسرے دن گئے، دیکھا کام ہو رہا ہے، ہم نے کہا کہ ہڑتال ختم ہوگئی؟انہوں نے کہا: جی! وہ بس کل کی علامتی ہڑتال تھی، اصل ہڑتال کل ہوگی۔

آج کہتے ہیں کہ آپ کو رسول کی تعظیم کا حکم ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہر دفعہ کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ ہمارا قیام اصل تعظیم نہیں بلکہ علامتی ہے، اپنے جذبہ کا اظہار ہے، وہ ہماری عملی کوتاہی ہے یا مجبوری ہے کہ ہر دفعہ نہیں کھڑے ہوسکتے۔

تو اب ایک دفعہ ہم نے جو عمل کیا ہے، اس سے آپ کو خوش ہونا چاہئے، نہ یہ کہ آپ بدعت بدعت کی آوازیں بلند کردیتے ہیں۔جب اصل عمل تعظیم رسول خدا کو پسند ہے تو وہ جس شکل میں ہو، جس صورت میں ہو، وہ قابلِ تائید سمجھا جائے گا ، نہ کہ قابلِ مخالفت۔ اس کو سنت ہی سمجھنا پڑے گا ، نہ کہ بدعت۔

اس کے بعد میلادوں سے بڑھ کر سوال پہنچتا ہے ہماری مجالس تک۔یہ عجیب بات ہے کہ کسی سلسلہ میں کوئی اجتماع ہو، وہاں چاہے جو ہو، اس پر کبھی سنت بدعت کی بحثیں نہیں ہوتیں۔ جب یہ رسول اور آلِ رسول ہی کے بارے میں ہو تو یہ مباحث ہوتی ہیں۔لغت کے اعتبار سے تو محفل، مجلس سب کے معنی اجتماع کے ہیں۔ اس لئے ریڈیو پر بھی مجلس ہی ہوتی ہے، محفل سماع بھی ہوتی ہے مگر ہمارے محاورے کے مطابق ذکر فضائل جب ہو تو اُسے محفل کہتے ہیں اور جب آخر میں ذکر مصائب ہو تو اسے مجلس کہتے ہیں، ورنہ لغت کے اعتبار سے ہر محفل مجلس ہے اور ہر مجلس محفل ہے۔ مگر طریقہ استعمالِ الفاظ میں یہ امتیاز ہوگیا ہے۔ محفل اور مجلس جو ہوتی ہے، اس میں کیا ہوتا ہے؟ کام دیکھئے کہ کیا ہورہا ہے؟

ہم دیکھتے ہیں کہ محفل میں بھی کچھ خاص ہستیوں کا ذکر ہوتا ہے، حالانکہ اب جو معیار ہے محفل یا مجلس کا، وہ کچھ خاص ہستیوں ہی سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ خدا سے لے کر قیامت تک ہر چیز کا بیان ہوتا ہے۔اس ذکر کی بدولت ہوجاتا ہے۔یہ دینیات کا بڑا مدرسہ بن گیا ہے ، یہ محفلیں یا مجالس ایک مدرسہ ہیں۔ یہاں بہرحال سب کا ذکر ہوتا ہے لیکن کوئی شبہ نہیں کہ نقطہ مرکزی کچھ ہستیاں ہیں آلِ رسول کی۔ محفلوں میں بھی رسول تا آلِ رسول۔

کون کہتا ہے کہ ہم رسول کی مجلس نہیں کرتے؟ تو رسول اور آلِ رسول کے بیانِ فضائل اور بیانِ مصائب سے زیادہ تر مجلس تشکیل پاتی ہے۔اب بس یہ دیکھ لیجئے کہ ان ہستیوں کا ذکر خدا و رسول کو مطلوب ہے یا نہیں۔ ذکر ان کا جس شکل میں اس وقت ہوتا تھا اور اس وقت ہوتا ہے، یہ نہ دیکھئے بلکہ یہ دیکھئے کہ ذکر ہے یا نہیں کیونکہ کونسا ہمارا کام ہے جو بالکل اسی شکل سے ہوتا ہو؟یہ دیکھئے کہ ذکر فضائل و مصائب جو معیارِ محفل و مجلس ہے، وہ مطلوبِ خدا و رسول ہے یا نہیں؟

ذکر رسول کے لئے تو میں نے کہہ دیا ، قرآن مجید کی آیت پیش کردی۔ اب ذکر آلِ رسول؟آلِ رسول جو ہستیاں ہیں، انہیں دیکھ لیجئے کہ رسول نے ان کا ذکر کیا یا نہیں کیا؟ پیغمبر خدا نے طرح طرح سے ان کا تذکرہ فرمایا یا نہیں؟ احادیث متفق علیہ ہیں۔ ذکر رسول ان حضرات کیلئے متفق علیہ ہے۔ بس نگاہ کا پھیر ہے۔ بعض ان کو یہ کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کیلئے یہ فرمایا، اپنی بیٹی کیلئے یہ فرمایا، اپنے نواسوں کیلئے یوں اظہارِ محبت فرمایا۔

میں کہتا ہوں کہ باتیں تو بڑی معصوم ہیں، بالکل سچی ہیں۔ جو بیٹی ہے، وہ غیر تو نہیں ہوسکتی، جو بھائی ہے یا داماد ہے، وہ غیر تو نہیں ہوسکتا۔ جو نواسے ہیں، وہ ہیں تو نواسے ہی۔ مگر بس یہ ذرا نگاہ کاپھیر ہے کہ رسول جو فضائل بیان فرماتے تھے، وہ کیا اس لئے کہ یہ بیٹی یا داماد یا نواسے ہیں ؟ یا رسول اس لئے بیان فرماتے تھے کہ وہ ہستیاں ایسی ہیں کہ جن کے فضائل کوبیان کرنا چاہئے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ یہ تقاضائے بشریت تھا یا تقاضائے رسالت تھا؟

ظاہر ہے احادیث تو بے شمار ہیں ان حضرات کے تذکرے میں، ان سب کو کہاں بیان کرسکتا ہوں۔ چند چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ہر صاحب کی کہ ذرا غور کریں کہ بحیثیت اپنے رشتے کے حضرت یہ باتیں فرمابھی سکتے تھے یا نہیں؟ مسلمان تو رسول کو اس درجہ پر جانتا ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر۔مگر میں تو بہت ہی گھٹا کر لفظ پیش کرتا ہوں کہ ہمارے رسول ذمہ دار فرد تو تھے، دیکھئے! اپنے چھوٹے بھائی کو یا جسے گود میں پالا ہو، بنظر محبت جان و روح کہہ سکتے ہیں، بنظر محبت لخت جگر کہہ سکتے ہیں،بنظر محبت میوئہ دل کہہ سکتے ہیں مگر اپنے چچازاد بھائی کو شہر علم کا در کہتے ہیں۔

رسول کی شان کو محفوظ رکھتے ہوئے بتائیے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ چھوٹے بھائی کو اپنے گھر کی رونق کہہ دیں، وہ بالکل صحیح ہے مگر جنت کا سردار کہہ دیں اپنے بچوں کو یا انہیں کہہ دیں کہ یہ جنت و نار کے تقسیم کرنے والے ہیں یا بیٹی کو کہہ دیں کہ یہ جنت کی خاتون ہے!

صحیح بخاری میں نہایت اختصار کے ساتھ تین احادیث ہیں، ان میں سے ایک ہے:

سَیَّدَة نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّة “۔

کہ یہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اس سے تمام مسلمانوں میں بلا تفریق محاورہ ہو گیا، خاتونِ جنت۔ یہ پیغمبر خدا کی حدیث کا مفہوم ہے۔

سَیَّدَة نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّة “۔

اب ہر صاحب عقل مسلمان جو بشریت اور رسالت میں حد فاصل بھی قائم رکھتا ہو، مجھے اس سے سوال یہ کرنا ہے کہ جنت کے بارے میں جو کہا جائے گا، وہ بشر کے اعتبار سے کہا جائے گا یا رسول کے اعتبار سے؟

یعنی ان ہستیوں کے بارے میں کوئی بات جنت سے ادھر ٹھہرتی ہی نہیں۔ بیٹی ہے تو وہ سردارِ زنانِ جنت ہے، نواسے ہیں تو وہ سردارِ جوانانِ جنت ہیں اور جو داماد ہے، وہ:

قَسِیْمُ النَّارِوَالْجَنَّة

ہے۔ کوئی بات جنت سے اِدھر نہیں رُکتی۔اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بات رسول بحیثیت بشر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ بحیثیت رسول کہہ رہے ہیں۔

سَیَّدَاشَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّة “۔

بلاغت رسول کو مد نظر رکھتے ہوئے کہئے کہ یہ حالیہ عمر کے اعتبار سے کہہ رہے ہیں۔ تو کیا جنت کے بچوں کا سردار کہنا چاہئے؟ بچوں کو جوانانِ جنت کا سردار کہہ رہے ہیں رسول، ان کا سن دیکھ رہے ہیں کہ یہ بچے ہیں اور رسول فرمارہے ہیں کہ جوانانِ جنت کا سردار۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں والی جوانی پیش نظر نہیں ہے ، وہاں والی جوانی پیش نظر ہے۔

جناب! یہاں والی عمریں نہ دیکھئے کہ کون بچہ ہے ، کون جوان ہے، کون بوڑھا ہے! وہاں رسول نے کہہ دیا کہ سب جوان ہوں گے، بوڑھوں کا بوڑھے ہوتے ہوئے گزر ہی نہیں ہے۔اب جناب جو جنّتی ہے، اس کے سردار ہیں، چاہے اس وقت بچہ ہو ، چاہے جوان ہو، چاہے بوڑھا ہو۔

اب جب ان کا ذکر پیغمبر خدا برابر فرمارہے ہیں تو وہ ذکر جس طرح سے بھی ہو، عبادت ہی ہوگا، سنت ہوگا، بدعت نہیں ہوسکتا۔یہ نہ دیکھئے کہ اُس وقت دس آدمیوں کے سامنے رسول فرما رہے تھے۔اب فرض کیجئے کہ ایک ہزار آدمیوں کے سامنے ذکر ہو رہا ہے تو جب نمازِ جماعت میں شرکاء کی تعداد اسے بدعت نہیں بناتی تو محفل ذکر میں شرکت کرنے والوں کی کثرت اِس ذکر کو کیونکر بدعت بنا دے گی؟

یہ تو ذکر فضائل تھا اور اب ذکر مصائب کے بارے میں یہ سوال ہے کہ ذکر مصائب رسول نے فرمایا یا نہیں؟ جس وقت سے بچہ گود میں لاکر دیا گیا، اُسی وقت پیغمبر خدا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ کسی نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تو خوش ہونے کا موقعہ ہے،آپ رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تمہیں معلوم نہیں کہ اس پر کیا مصائب گزریں گے؟

مجھے معلوم ہے کہ گریہ کے مقابلہ میں کیا کیا سوال ہوتے ہیں۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ زندئہ جاویدکو کیوں روتے ہو؟ میں کہتا ہوں کہ اس وقت دنیا رسول سے پوچھے کہ زندہ کو کیوں رو رہے ہو؟ ارے! وہ شہداء کی زندگی تو عالمِ معنی کی زندگی ہے۔اس وقت تو حسین جیتی جاگتی زندگی کے ساتھ ، سانس لیتی ہوئی زندگی کے ساتھ پیغمبر خدا کی گود میں موجود تھے اور پھر رسول گریہ فرما رہے تھے۔

اب تو دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ فقط موت پر گریہ نہیں ہوتا ہے ، مصائب پر بھی گریہ ہوتا ہے۔ اگر رسول کو اُس زندگی میں رونے کا حق تھا تو ہمیں اِس زندگی میں رونے کا حق ہے۔

یہ تو ایک مرتبہ ہے ولادت کے بعد۔ اس کے بعد بار بار مختلف مواقع پر اس کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ایک دفعہ ذکر ہوجاتا تو معلوم ہوجاتا۔ یہ بار بار کیا ہے؟ یہی کہی ہوئی باتوں کو دُہرانا ، یہی مجالس کا موقف ہے، یہاں تک کہ اُمِ سلمہ سے روایت ہے اوروہ صحاحِ ستّہ میں ہے۔صحیح ترمذی میں روایت ہے جنابِ اُمِ سلمہ کی۔ یہ روایت اتنی مقبول ہے کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی، جو تحفہ اثناء عشریہ کے مصنف ہیں، ان سے پوچھا کہ روزِ عاشور آپ کا عمل کیا ہوتا ہے؟

فتاویٰ عزیزیہ میں مطبوعہ شکل میں موجود ہے، انہوں نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میرا عمل یہ ہے کہ عصر کے وقت میرے احباب اور معتقدین میرے ہاں جمع ہوتے ہیں اور الفاظ یہ ہیں کہ فقیر منبر پر جاتا ہے۔ یعنی میں منبر پر جاتا ہوں اور وہ احادیث جو فضائل حسنین میں ہیں، وہ بیان کرتا ہوں جیسے خبر اُمِ سلمہ، اُسے بیان کرتا ہوں اور پھر حالاتِ شہادت بیان کرتا ہوں۔ پھر کچھ مرثیے جو جنات کے تھے، کچھ مرثیے جن کے پڑھنے والے نظر نہیں آتے تھے، اور خواتین بنی ہاشم نے سنے ہیں، وہ مرثیے ان کتابوں میں درج ہیں، وہ مرثیے بھی پڑھتا ہوں۔ اس وقت لازماً فقیر پر بھی گریہ طاری ہوتا ہے۔جوحاضرین ہیں، وہ سب بھی گریہ کرتے ہیں۔

یہ ہے خبر روایت اُمِ سلمہ کہ حضرت پیغمبر خدا آئے اور ایک حجرے کی طرف تشریف لے جانے لگے اور یہ فرمایا: اُمِ سلمہ! وحی نازل ہونے والی ہے، میں جارہا ہوں۔ کوئی میرے پاس نہ آئے۔ آپ تشریف لے گئے اور دروازہ بند کرلیا۔ جنابِ اُمِ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ تھوڑی دیر میں حسین آئے، چاروں طرف دیکھا اور پوچھاکہ جد بزرگوار کہاں ہیں؟

جنابِ اُمِ سلمہ نے جو واقعہ تھا، وہ بیان کیا کہ حجرہ میں تشریف لے گئے ہیں اور فرما گئے ہیں کہ کوئی میرے پاس نہ آئے۔ اس کے بعد جو الفاظ میری سمجھ میں آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ انہوں نے یہ کہا۔ تو حسین نے یہ کہا کہ ہمیں منع فرمایا ہے؟

بہرحال کچھ ایسا کہا کہ پیغمبر نے آواز سن لی ، ارشاد فرمایا کہ حسین کو آنے دو۔حجرے میں داخل ہوئے، دروازہ بند کرلیا گیا۔ کچھ دیر میں جنابِ اُمِ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ رسول گریہ فرمارہے ہیں۔ہر صاحب عقل غور کرے کہ رسول حجرے کے اندر ہیں، اُمِ سلمہ حجرہ کے باہر ہیں۔ جو کمرہ سے باہر ہو، وہ صرف آنسوؤں کا گریہ محسوس نہیں کرسکتا۔ ماننا پڑے گا کہ صدائے گریہ تھی۔ اب جیسے انہیں تاب نہ رہی ، وہ دروازے پر آئیں اور کہا: کیا میں حاضر ہوسکتی ہوں؟

حضرت نے فرمایا:اب آسکتی ہو، وحی اُتر چکی ہے۔

اُمِ سلمہ آئیں۔ یہ سب صحیح ترمذی میں ہے کہ دیکھا کہ شہزادہ پیغمبر کے سینہ مبارک پر ہے اور ہاتھ میں رسول کے کوئی چیز ہے اور آپ زاروقطار گریہ فرمارہے ہیں۔ انہوں نے سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا کہ میرا بچہ جو آیا اور میرے سینے سے لگا ، میرے دل کو بڑا سکون ملا تو ایک مَلک آیا۔(اب یہ بعد میں پتہ چلے گا کہ مَلک کیوں آیا)۔

تو مَلک آیا اور کہا کہ کیا آپ اس بچے کو جانتے ہیں؟ میں اب بتاؤں کہ مَلک کیوں آیا؟ میں کہتا ہوں کہ وقت ولادتِ حسین سے ذکر ہوچکا تھا ، اطلاع دینے تو نہیں آیا، بس اگر پہلے ذکر نہ ہوا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ مَلک آیا ہے واقعہ کربلا کی اطلاع دینے ۔ مگر جب وقت ولادت حسین پر پیغمبر خدا خود اس کی خبر دے چکے ہوں تو اب یہ مَلک اطلاع دینے تو آیا نہیں۔

تو اب میری سمجھ میں آتا ہے ، وہ یہی ہے کہ یہ مَلک مجلس حسین برپا کرنے آیا ہے کیونکہ مجلس کی حقیقت یہی ہے کہ بیان کئے ہوئے واقعات دُہرائے جاتے ہیں، اُس واقعہ کی یاد تازہ کرنے کیلئے۔یہ مجلس حسین برپا کرنے آیا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ یہ حقیقت میں نہیں ہے بلکہ مجلس کی تمہید ہے۔ جیسے ہمارے ہاں ذکر فضائل ہوتا ہے، پھر ربط مصائب ہوتاہے۔ ویسے ہی یہ تمہید مجلس ہے۔

آپ اس بچے کو بہت چاہتے ہیں؟ پیغمبر خدا فرماتے ہیں: خدا گواہ ہے کہ کتنا چاہتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر نانا نواسے کو چاہتے ہیں تو اس میں خدا کو گواہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی فریضہ رسالت ہے کہ پیغمبر اللہ کو گواہ کرکے کہہ رہے ہیں کہ اللہ جانتا ہے کہ میں کتنا چاہتا ہوں۔

اب تمہید ختم ہوئی، ربط مصائب۔مَلک کہتا ہے کہ یہی بیٹا جو ہے، یہی آپ کا فرزند۔ یہ آپ کے دین کی خاطر قربان ہوگا۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40