مقصدِ حیات
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍاِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحقِّوَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ
)
۔
قرآن مجید کامختصر سورہ ہے۔ اس میں بسم اللہ کے بعد ارشاد ہورہاہے : قسم ہے عصر خاص کی کہ یقینا انسان نقصان میں ہے۔ مگر وہ جو ایمان لائیں، نیک اعمال کریں اور ایک دوسرے کو حق کی ہدایت کریں اور ایک دوسرے کو صبر کی دعوت دیں۔ عام طور پر ہم جب کسی بات کا یقین دلانا چاہتے ہیں تو اس بات کو قسم کھا کر کہتے ہیں۔ مگر یہ کلام اس کا ہے کہ جو اُسے مانتا ہے، وہ سوائے سچائی کے کوئی دوسرا تصوراس کے بارے میں کرہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اُسے یقین دلانے کیلئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر قرآن مجید میں جابجا کیوں قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں اور آپ غور کیجئے تو یہی ذہن نشین پہلو ہے کہ اس بات کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے کہ جو کہنی ہے، قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ یعنی بات رواروی میں کہنے کی نہیں۔
مگر جنابِ والا! ایک مجبوری ہے اور مجبوری کبھی نقص کے سبب سے ہوتی ہے ، کبھی کمال کے سبب سے ہوتی ہے۔ مثلاً خالق مجسم ہوکر کبھی سامنے نہیںآ سکتا۔ یہ مجبوری کسی نقص کی بناء پر نہیں ہے بلکہ کمال کی بناء پر ہے۔ ویسے ہی یہ جو میں نے کہا کہ مجبوری ہے توایسی ہی مجبوری ہے ، وہ مجبوری یہ ہے کہ عموماً جس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے، وہ قسم کھانے سے کچھ اونچا درجہ رکھتی ہے۔ جیسے آپ معصومین کی قسم کھاتے ہیں۔ حضرت ابوالفضل العباس کی قسم کھاتے ہیں اور جو قسم شرعی ہے یعنی احکامی قسم۔ کفارہ وغیرہ جس پر جاری ہے، وہ اللہ کی قسم ہے۔ تو جو چیز اپنی نظر میں اپنے سے بالا تر ہوتی ہے، اس کی قسم کھائی جاتی ہے۔
مگر یہاں متکلم وہ ہے جس سے بالاتر کوئی ہے ہی نہیں۔ تو وہ ایسے کو تو نہیں لاسکتا جو اس سے بالاتر ہو۔وہی تو میں مجبوری کہی تھی۔ اس سے بالاتر عالم تصور میں کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ تو اب یہ جزو محفوظ نہیں رہ سکتا مگر جس چیز کی قسم کھائی جائے، وہ اپنی جنس میں امتیازی چیز ہونی چاہئے۔ یعنی جس طرح اُس بات کی اہمیت ثابت ہوتی ہے قسم کھانے سے، اسی طرح جس کی قسم کھائے، اس کی بھی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ اب ان قسموں سے ایک اور تصور ختم ہوتا ہے۔ وہ ایک مکتب خیال کا تصور ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا بھی شرک ہے۔جہاں بہت سی باتوں پر شرک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، اسی طرح یہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی قسم کھانا، یہ شرک ہے۔لیکن اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا اگر شرک ہو تو پھر اللہ کے کلام میں تو اللہ کے سوا کسی کی قسم نہیں ہونی چاہئے تھی۔ جو چیز ہمارے لئے شرک ہو، اللہ خود اس کو کیسے گوارہ کر سکتا ہے؟تو قسمیں جو کھائی جاتی ہیں،وہ کبھی اس شے کی عظمت کے اظہارکیلئے اور کبھی بنظر محبوبیت بھی کھائی جاتی ہیں۔ جیسے تمہارے سر کی
قسم، یہ قسم آپ کی زبان پر جاری ہے یا نہیں؟آپ کے سر کی قسم۔ تو مجھے قرآن مجید میں اس کی بھی نظیر ملتی ہے۔ خالق نے رسول سے خطاب کرکے کہا ہے، سورئہ حجر میں، چودہواں پارہ”لعمرک“،”قسم آپ کی جان کی،یہ گمراہ لوگ اپنی گمراہی کے ایک عجیب نشے میں مبتلا ہیں“۔ یہ خالق نے قسم کیوں کھائی ہے؟خود رسول سے خطاب کرکے بالکل محبت کا انداز ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ محب حبیب سے بات کررہا ہے۔
تو اب اگر خالق ایسے کی قسم کھاتا ہے جو اُسے محبوب ہے تو ہم بھی ان کی قسم کھا سکتے ہیں جو ہمیں ا س کے حکم سے محبوب ہیں۔ تو اب ایک قسم تو بنظر محبت قسم کی ہے جو”لَعَمْرُکَ
“م یں ہے، رسول سے خطاب۔اس کے علاوہ وہی، جو شے اپنی جنس میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہو، مخلوقاتِ الٰہیہ میں آفتاب وماہتاب کو قسم کھانے کیلئے منتخب کیا گیا۔
(
وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَاوَالْقَمَرِاِذَاتَلٰهَا
)
۔
بے شک سورج اور چاند اپنی جنس میں ایک امتیازی درجہ رکھتے ہیں مگر کبھی چھوٹا بھی اعزاز میں بڑوں کے برابر ہوجاتا ہے،کسی خاص خصوصیت کی بناء پر ۔چنانچہ ارشاد ہوا:
(
وَالنَّجْمِ اِذَاهَویٰ
)
مگر کب ؟ جب وہ کسی آستانے کی طرف جھک رہا تھا۔
تو جس طرح بہت سی چیزوں کو یہ شرف دیا گیا کہ ان کی قسم کھائی جائے، اسی طرح ظرفِ مکان کو اس شرف سے محروم نہیں کیا گیا۔ مگر ہر مکان نہیں۔ مکانِ خاص:
(
وَهٰذَالْبَلَدُالْاَ مِیْن
)
۔
”قسم ہے اُس شہر کی جو محل امن و امان ہو“۔
یعنی امن اُسے اتنا پسند ہے کہ جو محل امن ہو، اس کی قسم کھاتاہے۔ مگر دوسری جگہ بتا دیا کہ یہ مکان کو شرف بہ اعتبارِ مکین ملا ہے۔ ارشاد فرمایا:
(
لَااُقْسِمُ بِهٰذَاالْبَلَدْ وَاَنْتَ حِلٌّ بِهٰذَالْبَلَدِ
)
۔
اس شہر کی یونہی قسم نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں۔
اب جس طرح ظرفِ مکان کو یہ عزت عطا ہوئی ، اسی طرح ظرفِ زمان کوبھی اس شرف سے محروم نہیں رکھا گیا۔ مگر جیسے مکان ہر مکان نہیں بلکہ وہ مکان جو اس کے حبیب خاص سے تعلق رکھتا ہو، اسی طرح عصر جس کے معنی زمانے کے بھی ہیں اور دن کے ایک خاص حصہ کا بھی نام عصر ہے۔اب قرآن میں تو لفظ عصر ہے۔ اپنی طرف سے کہنے کا حق ہیں ہے کہ وہ ہے یا یہ ہے۔ بہرحال عصر جو بھی ہے، لیکن ہر عصر نہیں بلکہ عصر خاص ۔ اسی لئے ترجمہ میں مَیں نے یہی کہا کہ قسم ہے عصر خاص کی۔ کوئی کہے یہ خاص کے معنی کس لفظ سے پیدا ہوئے۔ میں کہتا ہوں کہ لفظ عصر پر جو یہ الف لام داخل ہے، عصر کوئی سا زمانہ اور العصر، عصرِ خاص۔کوئی کہے اس کی نظیر؟ تو نظیر آپ کی جانی پہچانی ہوئی ہے۔ یوم، کوئی سا دن اور الیوم، کیا الیوم کیلئے یاد دلانے کی ضرورت ہے؟
(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
)
۔
تو یہ کیا ترجمہ ہوتا ہے کہ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کیا ہے۔
اب ہر مکتب خیال کا انسان غور کرے کہ کتنا ہی حفظ کرلیجئے ان الفاظ کو، آج(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
)
، اس لفظ کو حفظ کر لیجئے ، ترجمہ بھی حفظ کرلیجئے۔ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا۔ لیکن اگر تاریخ نہ دیکھئے کہ وہ آج کونسا ہے؟ تو کیا قرآن سے سمجھ میںآ ئے گا؟ بتائے کوئی قرآن کو کافی سمجھنے والا۔
قرآن کہہ رہا ہے ”(
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ
)
“۔ آج م یں نے تمہارے دین کو مکمل کیا ہے۔ اگر معلوم نہ ہو کہ وہ آج کونسا دن ہے؟ تو بتائیے قرآن سے کیا سمجھ میں آئے گا؟ میں کہتا ہوں کہ کاش! قرآن کے سمجھنے ہی کی خاطر اس دن کو یاد رکھتے۔تو بس جیسے یوم کوئی سا دن،اور یہ الف لام اشارہ کیلئے ہوتا ہے۔کسی فردِ خاص کی طرف۔ اسی سے معنی پیدا ہوئے کہ آج کا دن۔ اسی طرح عصر کوئی سا عصر اور جب کہا”وَالْعَصْرِ
“، تو وہ عصرِ خاص ہوا۔تو اب یہ عصرِ خاص وہی ہوسکتا ہے جو اس کے حبیب خاص سے خاص تعلق رکھتا ہو۔ خواہ کوئی زمانہ ان سے خاص تعلق رکھتا ہو، خواہ کوئی وقت عصر خاص تعلق رکھتا ہو۔
اب میں نے کہا کہ قسم کھائی جاتی ہے، اس بات کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے جو کہی جارہی ہے، تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ بات کیا ہے۔ وہ ہے:
”(
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ
)
“۔
میں نے ترجمہ یہ کیا کہ انسان نقصان میں ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ نقصان کونسا ہے؟ ایک نقص تو وہ ہے جو ممکنات کی ہر شے میں ہے۔ سوائے اللہ کے باقی ہر چیز کمالِ ذاتی سے محروم ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جب وجود اپنا نہیں ہے، تو یہ غیرہے اور جب وجود ہی غیر ہے تو پھر کونسا کمال اپنا ہوگا؟ وجودکمال کا سرچشمہ ہے۔جب وجود اللہ کا عطاکردہ ہے تو ہر کمال بھی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ تو اس بناء پر کائنات کی ہر شے میں یہ نقص ہے یعنی وہ کامل بالذات نہیں ہے۔ تو اگر یہ نقص ہے تو پھر انسان کی کیا خصوصیت ہوئی جو کہا گیاکہ:
”(
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ
)
“۔
”یقینا انسان گھاٹے میں ہے“۔
پھر اگر یہ نقص ہوتا امکانی نقص تو استثنیٰ کی گنجائش نہیں تھی کہ:
”(
اِلَّاالَّذِیْنِ اٰمَنُوْا
)
“۔
سوااُن کے ، وہ ایمان بھی لے آئے، عملِ صالح بھی کئے۔پھر خدا تو نہیں ہوجائیں گے، رہیں گے تو مخلوق ہی۔ تو اگر وہ نقص امکانی ہوتا تو اس میں یہ استثنیٰ کیسا؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نقص امکانی نہیں ہے۔ پھر یہ کیا ہے؟ حقیقت میں قرآن مجید میں تو نقص کا لفظ ہی نہیں ہے۔ذرا غور فرمائیے ، میں ترجمہ میں وہاں نقص کہا اور اب بھی بے جھجک قرآن مجید میں جو لفظ ہے، وہ نہیں کہوں گا کیونکہ وہ لفظ ہمارے ہاں تو ایک رشتہ کا نام ہے۔”خ س ر“۔ اس کا جو مجموعہ ہوتا ہے، وہ ہمارے ہاں ایک خاص رشتہ کا نام ہے۔ تو اسی لئے جب آیت پڑھتا ہوں تو بھی وقف نہیں کرتا۔
”(
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ
)
“۔
کہہ رہا ہوں تاکہ ہمارے اُردو والے لفظ سے شباہت نہ ہوجائے۔ تو حقیقت میں وہاں نقص نہیں ہے۔ وہاں تو ”خ س اور ر“ ہے۔اب اس لفظ کی جو خصوصیات ہوں، ان کو دیکھنا چاہئے۔ تو جب اس لفظ کی خصوصیت پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت میں کاروباری اصطلاح ہے تجارت کی۔ مجمع میں ضرور ماشاء اللہ تجارت کرنے والے افراد بھی ہیں۔ تو ایک حقیقت ہے، ان کو خوش کرنے کیلئے نہیں ہے کہ تجارت کچھ ایسی اللہ کو محبوب ہے کہ اس نے شروع سے آخر تک قرآن میں تجارتی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔یہاں تک کہ ایمان کا پیام دیا تو یہ کہا:
(
یَاَیّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاهَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَة تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْم
)
۔
کیوں صاحبانِ ایمان! کیا میں تمہیں بتاؤں ایسی تجارت جو تمہیں عذابِ الٰہی سے بچائے، وہ یہ ہے کہ ایمان لاؤ۔ یہ کیا ہے؟ یہ اس لئے ہے یعنی ان سے کہہ رہا ہے کہ تمہیں ایسی تجارت بتاؤں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی قوم سے خطاب نہیں ہے جو بیکار رہنے کی عادی ہو بلکہ وہ قوم ہے جو ذوقِ تجارت رکھتی ہو۔ان سے انہی کی زبان میں بات کی جارہی ہے۔ تو اب یہ لفظ جو ہے، یہی”خ س اور ر“، جسے میں اُردو میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ لفظ حقیقت میں تجارت کی اصطلاح ہے۔جب آپ تجارت کرتے ہیں تو شروع میں پیسہ ہوتا ہے جو تجار ت میں لگاتے ہیں۔ اس کو عربی میں راس المال کہتے ہیں اور فارسی میں اُسے سرمایہ کہتے ہیں اور ہمارے ہاں اصل پونجی جس سے کہ تجارت شروع کی جاتی ہے۔ اب کچھ دن کے کاروبار کے بعد ایک صورت یہ کہ اس میں اضافہ ہوگیا۔رقم بڑھ گئی۔ مثلاً ہزار روپے لگائے تھے، اب اس کی مالیت دس ہزار ہوگئی۔ اسے عربی میں کہتے ہیں رِبح۔ بڑی ح سے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:
”(
فَمَارَبِحَتْ تِجَّارَتُهُمْ
)
“۔
سب وہی تجارت کی زبان میں بات ہورہی ہے۔ ان کی تجارت نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ تو عربی میں اسے رِبح کہیں گے۔ فارسی میں اسے سود کہیں گے۔ ہم تو بیاج کو سود کہنے لگے اُردو میں۔ تو بیاج کو سود نہیں کہتے۔ اصل میں وہ تجارت کا نفع ہے جسے سود کہتے ہیں فارسی میں۔ ہم اسے تجارت کا نفع کہتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ نفع تو دوا کا بھی ہوتا ہے۔ یہ کوئی مفرد لفظ ہوا۔ اس کے معنی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مفرد لفظ نہیں ہے اس معنی کو ادا کرنے کیلئے۔ یہ تو اس صورت میں ہے جب اضافہ ہوجائے۔دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ دن میں جتنا تھا، اس سے کم ہوگیا یا ختم ہی ہوگیا۔ تو اسے گھاٹا کہیں گے اور فارسی میں زیاں کہیں گے۔ ”برتراز اندیشہ سودوزیاں ہے زندگی“۔سود جب اضافہ ہو، زیاں جب نقصان ہو۔ اس نقصان کو عربی میں کہتے ہیں”خ س اور ر“۔اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے کہتے ہوئے میں ڈر رہا ہوں۔ ایک ذرا سے فرق میں وہ ہمارا جانا پہچانالفظ ہوجائے گا۔ یعنی اس کے بیچ میں ایک عدد الف لے آئیے اور آخر میں ”ہ“ لگا دیجئے تو ہوجائے گا خسارہ۔ اب یہ خسارہ ہم بھی سمجھ لیں گے ، حالانکہ وہ ”خ س اور ر“ اس میں بھی ہے۔ اب راز یہ ہے ، خسارہ وہی ہوگا جہاں کوئی چیز ایسی ہو جس میں اضافہ کا بھی امکان ہو، کمی کا بھی امکان ہو۔وہ بجائے بڑھنے کے گھٹ جائے تو وہ خسارہ ہوگا۔
انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنی چیزیں ہیں، وہ یا اتنی پست ہیں کہ بلند نہیں ہوسکتیں یا اتنی بلند ہیں کہ پست نہیں ہوسکتیں۔ ایک طرف ہیں جمادات، نباتات ، حیوانات۔ یہ سب نقص کے کچھ دائروں میں اسیر ہیں کہ اس سے اُبھر نہیں سکتے بلکہ یہ نام ان کے اسی نقص کے پہلو کے ہیں یعنی جمادات کسے کہتے ہیں؟ ایک چیز ہے اس میں جسمیت ہے۔ اپنے اجزائے وجود کو سمیٹے رہنا۔ اگر ا س کا نام جمادات ہوتا تو پودے بھی جمادات ہوتے کیونکہ ان میں بھی جسمیت ہے۔ پھر حیوان بھی جمادات میں ہے، ان میں بھی جسمیت ہے۔انسان بھی جمادات ہے، اس میں بھی جسمیت ہے۔ پھر جمادات کون؟ جس میں بس جسمیت ہے اور کچھ نہیں۔ جسمیت ہے اور بس۔ یعنی نشوونما نہیں ہے، احساس اور ارادہ نہیں ہے۔ اس نقص کے پہلو کا نام ہے جمادات۔
اس کے بعد نباتات کون؟ جن میں نشوو نما کی قوت ہو۔ جسم بھی ہیں اور نشوونما بھی رکھتے ہیں۔ جسمانی طور پر بڑھنے کی قوت۔ جسے پودے کا پھیلنا کہتے ہیں۔اب اگر اس کا نام ہوتا نباتات تو حیوان بھی نباتات میں ہوتا، انسان بھی نباتات میں ہوتا لیکن یہ تو الگ بات ہے، دوسری نوع ہے۔ تو ماننا پڑے گا کہ نباتات اس کا نام نہیں ہے کہ نشوو نما رکھتا ہو۔ اس کا نام ہے کہ نشوو نما رکھتا ہو اور بس۔بس کے معنی یہ ہیں کہ احساس و حرکت کا جوہر نہیں ہے۔بس اس نقص کے پہلو کا نام نباتات ہے۔یہ کمال کے پہلو کا نام نہیں ہے۔
نباتات کسے کہتے ہیں؟ جس میں نشوو نما ہو۔اگر نشوو نما ہونے سے نباتات ہوتا ہے تو پھر حیوان بھی نباتات میں ہے اور انسان بھی نباتات میں ہے۔پھر نباتات الگ کیوں ہیں؟ نباتات اس لئے الگ ہیں کہ نباتات میں بس نشوو نما ہے اور کچھ نہیں ہے۔ یعنی احساس و حرکت ارادی نہیں ہے۔اب حیوان ، مگر وہ ارسطو والا حیوان نہیں، اس کے نزدیک انسان بھی حیوان ہے۔ میں عام اُردو میں یہ کہوں کہ حیوان جانور کے معنی میں، جاندار کے معنی میں نہیں۔ وہی تو ہے جو انسان سے پست ہے ۔ جو انسان سے پست ہے، وہی حیوان۔ اس کا ذکر ہے۔تو وہ حیوان ایک جوہر رکھتا ہے یعنی حیات۔ احساس و حرکت ارادی۔ لیکن احساس و حرکت ارادی کا نام حیوان ہوتا تو پھر وہی یعنی انسان بھی حیوان ہوتا۔مگر حیوان انسان سے پست ہے تو کیا معنی؟ وہ حیوان کون ہے جو انسان سے پست ہے؟ یعنی احساس و حرکت ارادہ رکھتا ہے بس۔ بس کے معنی ہیں کہ وہ عقل و شعورِ خیر و شر نہیں رکھتا۔ اچھائی اور برائی کا احساس نہیں رکھتا۔تو اس نقص کے پہلو کا نام حیوان ہے۔
تو یہ سب نقص کے دائروں میں گرفتار ہیں کہ اس سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ تو کوئی سرمایہ ہی نہیں تو خسارہ کیا ہوگا؟ جب بڑھنے کی صلاحیت نہیں تو جتنے ہیں، وہی رہیں گے۔خسارہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ تو ایک طرف ہیں جمادات، نباتات، حیوانات۔ دوسری طرف ہیں فرشتے۔ ان کے بلند ہونے میں کوئی شک نہیں۔ جوارِ اقدس کے رہنے والے، عالم بالاکے مکین، معصوم، بے ضرر ہستیاں، بے گناہ ہستیاں۔تو ان کی بلندی میں کوئی شک نہیں مگر ان کی بلندی خود اختیاری نہیں ہے۔ پیدا کئے گئے ہیں بلند، لہٰذا بلند ہیں۔ان کی صفاتی بلندی ایسی ہے جیسے جسمانی بلندی ہے آفتاب کی۔جیسے جسمانی بلندی آفتاب کی کہ پیدا کیا ہی گیا ہے بلند۔ ویسے ہی ان کی بلندی اوصاف والی۔
بے شک بڑی اچھی مخلوق۔ بے گناہ ہے مگر بے گناہ ہے باایں معنی کہ وہ دل نہیں جس میں اُمنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ جذبات نہیں۔ وہ تقاضے نہیں جو گناہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ لہٰذا معصوم ہیں۔ان کی عصمت قابل مدح صفت ہے ، کارنامہ نہیں ہے، قابل شکریہ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بڑی اچھی مخلوق ہے ، کسی کو ستاتی نہیں ، کسی کو آزار نہیں پہنچاتی، ہمہ تن اطاعت پروردگار ہے۔بڑا کام کرتے ہیں جو گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔ یہ کارنامہ نہیں ہے۔
ماشاء اللہ ذوقِ ادب رکھنے والے تو یہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ دوسرے افراد بھی میرے بیان کے پس منظر سے سمجھ ہی لیں گے کہ اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے مگر کتنا ہے، اتنا ہی ہے ، اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ یعنی مایہ دار ہیں، سرمایہ دار نہیں ہیں۔
تو جب بڑھنے کا امکان نہیں تو پھر خسارہ بھی کیا ہوگا۔ نہ گھٹنے کا تصور، نہ بڑھنے کا امکان۔ جتنا اللہ نے دیا، اُتنا ہی ہے۔ اس سے آگے نہیں ہے۔ اب انسان۔ انسان کی خاصیت ہے کہ یہ طاعت و معصیت کے دوراہے پر پیدا کیا گیا ہے۔لچکدار مخلوق۔ یہ گھٹتا ہے تو بدبخت حیوانوں سے بدتر ہوجاتا ہے۔اسی لئے قرآن مجید میں کہا گیا:
(
اُوْلٰئِکَ کَالْاَ نْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلَّ سَبِیْلًا
)
)۔
”یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بد تر ہیں“۔
میں اگر اس طرح کی بات کہوں ، یہ جملہ اس طرح کا کہوں تو تُو سمجھ میں آئے گا کہ میں نے پہلے کہہ دیامثل چوپایوں کے اور پھر چونک کر کہا بلکہ بدتر۔مگر یہ کلام اس کا ہے جس کے ہاں سہوونسیان کی گنجائش نہیں ۔ اس لئے کہ سہوونسیان بھی ایک طرح کا نقص ہے، وہ نقص عارضی سہی۔ جو عالم بالذات ہے، اس کے ہاں سہوونسیان کا سوال نہیں۔ارے ہم اُس کے اونچے بندوں کو سہوونسیان سے بری جانتے ہیں تو اللہ کا کیا ذکر!
اس کے ہاں بدلُ الغلط کا امکان نہیں ہے۔ ماننا پڑے گا کہ حکمت کلام متقاضی ہے کہ یوں بات کہی جائے۔ تو اب میری نظر میں اور نظیریں بھی ہیں۔ اب آپ کا بہت دل پسند موضوع۔ مگر ابھی سے کہہ دوں کہ اس موضوع کو پیش نہیں کرنا ہے:
(
دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی
)
۔
قریب ہوئے اور قریب ہوئے ، یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے بھی کم۔
وہی بات کہ اگر میرا جملہ ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ بھئی صحیح طور پر ہم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ یعنی متکلم کو شک ہے۔ بس یوں سمجھ لو کہ دو کمان یا اس سے کچھ کم۔ٹھیک ٹھیک ہم نہیں بتا سکتے۔ مگر وہ جو”مِثْقَالَ کُلِّ ذَرَّة
“سے واقف، اس کے ہاں(معاذاللہ) اندازے ک ی غلطی کا کیا سوال؟ تو وہی ماننا پڑے گا کہ حکمت کلام متقاضی ہے کہ یوں کہا جائے۔اب وہ ایک ہی حکمت ہے دونوں میں اور وہ ایک ہی چیز ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ اگر ”بَل“کے معنوں میں ہے۔ دو کمان بلکہ اس سے کم تر، تو اب ”اَو“، ”بَل“کے معنوں میں ہوگیا۔ تو بالکل نظیر اسی کی ہو گئی۔مثل چوپایوں کے بلکہ اس سے بدتر۔
میں کہتا ہوں کہ وہ پستی کی تعبیر تھی، یہ بلندی کی تعبیر ہے۔ایک ہی انداز میں ہے۔ وہ مثل چوپایوں کے بلکہ بدتر۔ یہاں کہا جارہا ہے کہ وہ اتنے قریب کہ دو کمان بلکہ اس سے کم تر۔تو اب ”اَو“اور ”بَل“ایک ہی قبیل کی چیزیں ہوگئیں۔ تو اب جو حکمت کلام ہے، اپنے فہم کے مطابق عرض کروں گا ، وہ دونوں جگہ جاری ہوگی۔ کبھی متکلم کا حکیمانہ تصور یہ محسوس کرتا ہے کہ ایک دم سے حقیقت کہی جائے تو ممکن ہے نذر تغافل ہوجائے۔ لہٰذا حقیقت کو ایک ایک گھونٹ کرکے پلاؤ۔ جرعہ بہ جرعہ ، تدریجاً۔ تو اگر شروع میں ، اگر ذرا متوجہ نہیں بھی ہے تو رفتارِ کلام کے آگے بڑھنے کے ساتھ متوجہ ہوجائے گا۔
مگر اب جب کلام اس کا ہے جو اصدق الصادقین ہیں تو جو پہلا جزو کہا، وہ بھی اپنی جگہ صحیح ہونا چاہئے اور پھر اس پر مزید اضافہ جو ہے، وہ اپنی جگہ صحیح ہونا چاہئے۔تو اب:
”(
اُوْلٰئِکَ کَالْاَ نْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ
)
“۔
یہ چونکہ اصل موضوع سے متعلق ہے، لہٰذا اسے بعد میں عرض کروں گا۔پہلے اسی کو جسے بطورِ نظیر پیش کیا تھا:
”(
قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی
)
“۔
چونکہ رفعت کا اظہار الفاظ میں ہو نہیں سکتا ، لہٰذا خالق محسوسات کی مدد دے کر ذہن کو اس درجہ تقرب تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ اس لئے لفظوں کے سہارے سے ایک قریب ترین نکتے تک، پیمانے تک، جو دو کمانوں کا ہے۔اس کو پہنچا دیا گیا۔ اب گویا خالق کہنا چاہتا ہے کہ دیکھو! اتنا ہی نہ سمجھنا یعنی اگر دو کمان کہہ کر خاموش ہوجائے تو رفعت محمدی پر حد قائم ہوجائے۔
تو حضورِ والا!اب الفاظ کا سہارہ دے کر دو کمانوں تک پہنچایا گیا تو اس پر خاموش ہوجائے تو ان کی رفعت پر حد قائم ہوجائے۔ لہٰذا آگے بڑھتا ہے اور متکلم جسم و جسمانیت سے بری ہے۔ مگر یہ کہ جو حقیقت ہے، وہ بغیر جسم و جسمانیت کے لفظوں کے ادا کیونکر ہو کیونکہ الفاظ وہاں کیلئے بنے ہی نہیں ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے قرآن میں کہ قاب قوسین کے اوپر کوئی وقف نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ”ج“ بھی نہیں ہے جس کے معنی ہیں وقف جائز۔ کسی طرح کا وقف نہیں ہے۔وقف کا معیار یہ ہے کہ جہاں سانس لی جائے، وہاں وقف۔جہاں سانس نہ لی جائے، آگے بڑھا جائے، وہ ہے غیر وقف۔ تو ہمیں وقف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔یعنی وہاں وقف نہیں ہے۔تو اس کے معنی یہ ہیں کہ متکلم نے بغیر سانس لئے ہوئے آگے بات بڑھائی ہے۔ اب ہمیں قبل والے جملے سے نتیجہ نکالنے کا حق نہیں ہے۔
”(
قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی
)
“۔
جب با ت مکمل نہیں ہوئی تو ہمیں رائے قائم کرنے کا کیا حق! اب کہہ دیا کہ”(
اَوْاَدْنٰی
)
“، یعنی اس سے کم تر۔
ماشاء اللہ صاحبانِ فہم ہیں، صاحبانِ نظر ہیں، میں کہتا ہوں کہ اب کم تر کی حد نہیں بتائی کہ کتنا کم۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اب جتنا وہم و فہم و تخیل میں گنجائش ہو، اتنا آگے بڑھ جاؤ تو خدا خدا رہے، بندہ بندہ رہے۔
یہ تو روشن پہلو ہے جسے میں نے نظیر میں پیش کیا۔ میرا اصل موضوع وہ ہے کہ انسان گرتا ہے تو:
”(
اُوْلٰئِکَ کَالْاَ نْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا
)
“۔
یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ اس سے بدتر ہیں۔
تو جب کہا مثل چوپایوں کے ، تو یہ بھی صحیح ہونا چاہئے۔ کسی حیثیت سے اُنہیں مثل چوپایوں کے ہونا چاہئے۔جب کہا بدتر تو کسی حیثیت سے انہیں بدتر ہونا چاہئے۔ پھر نتیجہ کے طور پر بدتر ہی ہوں گے۔ تو میں جب غور کرتا ہوں کہ انسان کردار کے اعتبار سے جب گرتا ہے تو عملاً ہوتا ہے مثل چوپایوں کے۔
حضور! چوپائے دو قسم کے ہوتے ہیں، کچھ چرندے ، کچھ درندے۔ چرندے کون؟ چرنے والے، گائے بھینس وغیرہ، جنہیں آپ مویشی کہتے ہیں۔ درندے کون؟ شیر ، بھیڑئیے جن کا نام سن کر ہَول آئے۔تو چرندے جو ہیں ، ان بیچاروں کا مقصد پیٹ بھرنا ہے۔ کسی نہ کسی طرح پیٹ بھر جائے۔ جو سبزہ زار سامنے آئے، چرجائیں۔ اس سے بحث نہیں کہ مالک راضی ہے یا ناراض ہے۔ غذا جس طرح ملے، کھا لیں۔ اس سے بحث نہیں کہ باعزت مل رہی ہے یا با ذلت۔
اگر انسان ایسا ہی ہوگیا کہ اسے پیٹ بھرنے کے مقصد میں، شکم پری کی راہ میں حلال و حرام کا امتیاز نہ رہا، جائز و ناجائز کا امتیاز نہ ہو، صحیح وغلط کا امتیاز نہ ہو تو پھر اس میں اور چرندے میں کیا فرق ہوا؟اب دیکھئے کہ ۹۰ فیصد اورممکن ہے ۹۵ فیصد اور ممکن ہے ۹۸ فیصد، یہ سب اسی قسم میں داخل ہیں یا نہیں۔ میں نے کہا تھا کہ مجمع میں ماشاء اللہ تاجر بھی ہوں گے۔ تجارت ایک پیشہ تو ہے ہی۔ حضور! پیشہ ور وہی ہوتے ہیں جو کاسب ہیں، تاجر ہیں۔ تو اس کیلئے ایک مقولہ تراش لیا، نظریہ، کہ یہ تو ہمارا پیشہ ہے یعنی جب یہ کہئے کہ یہ صحیح ہے یا غلط ے، جواب یہ ملے گا کہ ہمیں اس سے کیا مطلب؟ یہ تو ہمارا پیشہ ہے۔گویا پروانہ صحت مل گیا۔
فرض کیجئے کہ ایک صاحب ہیں جو جھوٹا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ آپ انہیں جانتے ہیں۔ اتفاق سے آپ کو بھی کسی کام سے کچہری جانا پڑ گیا۔ آپ نے ایک ٹیکسی والے کو روکا، آپ نے دیکھا کہ وہ ٹیکسی والا آپ ہی کا محلہ دا رہے اور وہ انہیں کچہری لے جارہا ہے۔ آپ نے ٹیکسی والے سے علیحدگی میں کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ صاحب جھوٹا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔تو تم انہیں اپنی ٹیکسی میں لئے جاتے ہو؟وہ فوراً جواب میں کہے گا کہ جناب! مجھے اس سے کیا مطلب کہ سچا مقدمہ لڑنے جارہے ہیں یا جھوٹا لڑ رہے ہیں، میرا تو پیشہ یہی ہے۔ اب چپکے سے آپ قائل ہوجائیے تو بہتر ہے ور نہ اگرراہگیر جمع ہوگئے تو سب اس ٹیکسی والے کی طرف ہوں گے۔ آپ کی طرف کوئی نہیں ہوگا بلکہ گھر پر جاکر وہ گھر والوں سے یا عزیزوں ، دوستوں سے کہیں گے کہ آج ایک سنکی ملا تھا۔
ہمیشہ صاحبانِ عقل کو دیوانہ کہا گیا ہے۔ایک سنکی ملا تھا، وہ ٹیکسی والے سے جھگڑ رہا تھا کہ تم جھوٹا مقدمہ لڑنے والی سواری کو کیوں کچہری لئے جارہے ہو؟ سب ہنسیں گے کہ واقعی دیوانہ تھا، واقعی سنکی تھا۔سب اس کی طرف ہوں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آج انسانیت نے بیعت کرلی ہے حیوانیت کے ہاتھ پر۔یہ میں نے ٹیکسی والے کی مثال دی، جتنی چاہیں مثالیں لے لیجئے۔ خواہ مخواہ آپ کا وقت ضائع کرنے کو دل چاہے تو میں چاہے جتنی مثالیں دے دوں۔بہرحال ایک اور سہی۔
فرض کیجئے کسی کا پریس ہے اور وہاں سے ایک مخربِ اخلاق پوسٹر شائع ہوا ہے۔ آپ نے جاکر اس پریس والے سے کہا کہ تم نے ایسا مخربِ اخلاق پوسٹر کیوں اپنے ہاں سے شائع کیا ہے؟ وہ کہے گا کہ ہم کوئی دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ سائز کتنا ہے، عبارت کتنی ہے۔ اس کا ناپ جو مقرر ہے، وہ دیکھا، اُجرت بتائی کہ اتنے میں لکھا جائے گا، اتنے میں چھپے گا۔ اس نے وہ سب دینے کا اقرار کیا، ہم نے چھاپ دیا۔ ہمیں اس سے کیا مطلب کہ اس کے اندر کیا ہے؟ یہ مخربِ اخلاق ہے یا مصلح اخلاق ہے۔ ہمیں اس سے کیا مطلب؟ وہ یہی جواب دے گا اور ایسا ہی جس کا جو پیشہ ہے۔
علی گڑھ میں ایک صوفی صورت آدمی ، معلوم ہوا کہ ان کے مرید بھی ہیں۔ان کی پان کی دوکان ہے۔ ماہِ رمضان میں ایک نوجوان نے آکر ان سے پان مانگا، انہوں نے پان بنا کر اُسے دے دیا۔ چونکہ وہ صورت سے مجھے صوفی صافی نظر آرہے تھے، لہٰذا نوجوان کے جانے کے بعد میں نے کہا کہ ماہِ رمضان میں آپ پان بنا بنا کر نہ دیا کیجئے۔ وہ بڑے چیں بہ جبیں ہوئے۔ فرمانے لگے: صاحب !ہماری دوکان ہے، ہمیں اس سے کیابحث؟ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خود روزہ رکھیں لیکن اگر کوئی ہمارے ہاں سے پان خریدنا چاہے اور ہم اُسے پان نہ دیں تو پھر ہماری دوکان تو ختم ہی ہوجائے گی۔
تو یہ سب وہی ہے کہ پیشہ میں جائز و ناجائز کا سوال نہیں۔ اسی کو ایک جماعت نے پورا روٹی کا فلسفہ بنا دیا کہ گویا زمین و آسمان پیٹ بھرنے سے قائم نہیں۔ روٹی ہی سب کچھ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جیتے جی روٹی کی اہمیت سے انکار کیونکرسکتا ہوں، یقینا روٹی کی اہمیت ہے مگر بس طے یہ کرنا ہے کہ روٹی کی اہمیت کس حد تک ہے۔ذریعہ حیات کی حد تک یا مقصد حیات تک۔ اگر ذریعہ حیات کی حد تک آپ کہتے تو میں بھی آپ کے ساتھ متفق ہوں کہ زندگی کیلئے روٹی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر زندگی کس چیز کیلئے ہے؟ روٹی تو برائے زندگی مگر زندگی برائے چہ؟
یاد رکھئے کہ ہر ذریعہ سے مقصد اہم ہوتا ہے ،لہٰذا اب تین درجے قائم ہوں گے۔ جس طرح ریاضی میں سکھایا جاتا ہے”ا ب ج“، تو” الف“ روٹی اور” ب“ اس سے اوپر خود زندگی اور” ج“ اس سے اوپر مقصد زندگی۔تو جب زندگی کی خاطرروٹی ہے تووہ روٹی جو زندگی کو نقصان پہنچائے ، کیا وہ حاصل کرنے کے قابل ہے؟ اُردو زبان میں کہوں کہ جسے کھا کر ہیضہ ہو، کیا وہ بھی حاصل کرنے کے قابل ہے؟یہاں سب عقلائے زمانہ روٹی کے نظام والے بھی، میرے ساتھ مل کر یہی کہیں گے کہ نہیں، اس روٹی کو چھوڑ دیجئے، پھینک دیجئے۔ کسی کو دے دیجئے۔ بہرحال اس روٹی کو استعمال نہ کیجئے۔ تو اب اگر وہ روٹی چھوڑنے کے قابل ہے جو زندگی کو نقصان پہنچائے تو وہ روٹی بھی چھوڑنے کے قابل ہے جو مقصد زندگی کو نقصان پہنچائے۔وہ روٹی جسے کھا کر ہیضہ ہو، وہ اس لئے چھوڑنے کے قابل کہ زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے اور وہ روٹی جو یتیم کا گلا کاٹ کر ملے اور وہ روٹی جو فسادکرکے ملے اور وہ روٹی جو خلقِ خدا کو گمراہ کرکے ملے، وہ روٹی جو خونریزی کرکے ملے، وہ اس لئے کھانے کے قابل نہیں کہ مقصد زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اب اگر یہاں تک کوئی روٹی کے نظام والا میرے ساتھ آگیا تو اس کے معنی ہیں کہ یہیں سے رزق میں حلال و حرام کی تفریق ہو گی۔یہیں سے دیکھنا پڑے گا کہ کون جائز ہے، کون ناجائز ہے؟اگر یہ نہیں ہے تو وہی حیوانیت ہے جسے فلسفہ کا لباس پہنا دیا گیا ہے، جس کو ایک بڑا نظریہ بنا کر پیش کردیا گیا ہے۔
اب دیکھ لیجئے کہ کتنے فیصد ہیں جن کا نصب العین صر ف پیٹ بھرنا ہے۔اب معاف کریں مجھ کو جوان او ر نوجوان۔ماشاء اللہ بہت بڑا انقلاب ہے کہ ایک وقت میں مجلس میں زیادہ تر بوڑھے ہوا کرتے تھے، نوجوان تو منتظر رہتے تھے کہ جب ماتم ہوگا، تب چلیں گے۔ مگر الحمد للہ! مجھے ہر جگہ یہ خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی ہے کہ جوان اور نوجوان مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ غور سے سنتے ہیں اور اس سے نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب اس وقت انہی کو، کیونکہ بوڑھے اس منزل سے گزر چکے ہیں، سابقہ نوجوان ہی سے ہے، نوجوانوں ہی سے گفتگو ہے۔ اب انہوں نے جس دن سے ڈگری لی ہے، جس دن سے تعلیم میں حد کمال تک پہنچے، اس وقت سے اخباروں پر نظر ہے کہ کونسی جگہ کہاں خالی ہے۔ کس جگہ کا اشتہار نکلا ہے۔ اشتہار پڑھا، تنخواہ کی مقدار دیکھی اور ترقی کا سکیل دیکھا کہ اس میں امکانات کہاں تک آگے جانے کے ہیں اور بس درخواست بھیج دی۔ اس سے مطلب نہیں کہ کام کیا کرنا ہے! وہ کام صحیح ہے یا غلط ہے۔ اس نقطہ نظر سے کبھی جانچ کی ہی نہیں جاتی۔ ادھر تصور جاتا ہی نہیں ، اس لئے کہ یہ گویا خارج از بحث چیز ہے۔ ہمیں پیٹ بھرنا ہے۔ ہمیں یہ کیا دیکھنا ہے۔ ہمیں تو تنخواہ کی مقدار دیکھنی ہے۔
تو یہ جناب وہی حیوانی فلسفہ ہے۔ تو اگر انسان اسی راستہ پر گامزن ہوگیا تو اس میں اور چرندوں میں کیا فرق رہا؟ یہ تو ہیں چرندے، اس کے بعد ہیں درندے۔ درندے کون ہیں؟ درندے وہ ہیں جن کے افعال بتقاضائے غضب ہوں۔ جواِن کے غصہ کی زد پر آجائے، شکار ہوجائے، اس سے مطلب نہیں کہ جوان ہے یا بوڑھا ہے یا بچہ ہے۔ اس سے مطلب نہیں کہ گناہگار ہے یا بے گناہ ہے۔ اگر انسان بھی ایسا ہی ہوجائے کہ جب جذبہ انتقام پیدا ہو تو اس سے مطلب نہیں کہ فریق مخالف کا یہ بچہ ہے یا فریق مخالف کا یہ جوان ہے یا فریق مخالف کا بوڑھا ہے ، قصور وار ہے یا بے قصور ہے۔اس سے مطلب ہی نہ رہے، تو پھر انسان میں اور اس درندے میں کیا فرق ہوا؟
اب یہ دیکھ لیجئے کہ عام نوعِ انسانی تقسیم ہے انہی دو حصوں میں یا نہیں!کچھ چرندے اور کچھ درندے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بیچارے قسم کے جولوگ ہیں ، بقدرِ ہمت، وہ چرندے ہوتے ہیں اور جواولوالعزم لوگ ہیں، وہ درندے ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ انسان گرتا ہے تو مثل چوپایوں کے ہوتا ہے اور نتیجہ کے طور پر چوپایوں سے بدتر ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ چوپائے اگر پستیِ کردار میں مبتلا تھے تو ان کے پاس وہ شعور نہیں ہے جو حق و باطل کا امتیاز کرسکے جس کا نام عقل ہے۔ وہ تمیز نہیں کہ جائز و ناجائز میں فرق محسوس کرسکے۔اب انسان عقل رکھتے ہوئے ، شعور رکھتے ہوئے ،صحیح وغلط کے پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوئے ، پھر بھی عملاً حیوان بنتا ہے تو یہ اس سے زیادہ موردِ سزا ہے یعنی یہ حیوان بھی ہے اور مستحقِ ملامت بھی ہے۔ جیسے وہاں میں نے کہا تھا فرشتوں میں کہ ان کی عصمت قابل مدح ہے لیکن کارنامہ نہیں ہے قابل شکریہ، ویسے ہی یہاں ہے کہ جتنی برائیاں ہیں، وہ برائیاں صفات ہیں قابل مذمت۔ لیکن کردارقابل ملامت نہیں ہیں ۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اے بکری! تو نے یہ مالِ غیر کیوں کھالیا؟ ان کو ملامت نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں کھانے کا یہی طریقہ معلوم ہے۔ کہنے والے نے کہہ دیا۔
نیش عقرب نہ از پئے کین است
مقتضائے طبیعتش این است
”بچھو کو ڈنک مارنا کوئی عداوت کی وجہ نہیں ہے، یہ تو اس کی طبیعت کا تقاضا ہے“۔
عربی کورس میں ادب کی ایک کتاب تھی، بچوں کو پڑھائی جاتی تھی”سُلَّمُ الادب“،اس میں شروع میں کچھ حکایتیں تھیں اور آخر میں کچھ مختصر سے قطعے تھے۔اشعار نصیحت آمیز تھے۔ ان میں سے دو اشعار کا مضمون یہ ہے کہ میں نے ایک بچھو کو دیکھا کہ وہ پتھر پر ڈنک ماررہا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تیرا ڈنک ہے نرم اور یہ پتھرسخت ہے۔ تیرے ڈنک کاا س پر کیا اثر ہوگا؟اس نے کہا: مجھے اس سے کیا مطلب کہ اس پر اثر ہوگا یا نہیں ہوگا۔ میں تو یہ ثابت کررہا ہوں کہ میں بچھوہوں۔تو ان کے افعال بتقاضائے طبیعت ہوتے ہیں۔لہٰذا موردِ مذمت ہیں، موردِ ملامت نہیں ہیں۔
لیکن یہ بدبخت انسان جب جرم کی طرف قدم بڑھاتا ہے کہ اندر سے کوئی کہتا ہوتا ہے کہ غلط ہے، ایسا نہ کرو ۔لیکن یہ اس کی آواز کو سنااَن سنا کردیتا ہے۔ ضمیر کے فیصلہ پر عمل نہیں کرتا۔ دوسری دفعہ اُس کی آواز ذرا دھیمی ہوجاتی ہے کیونکہ پہلی مرتبہ اُس کی دل شکنی ہوگئی۔ اگرتوجہ کرلی ہوتی تو پھر اور قوت اس میں پیدا ہوجاتی۔ لیکن جب توجہ نہیں کی تو دوسری مرتبہ اس کی آواز کمزور پڑگئی۔یہاں تک کہ تیسری منزل وہ آگئی کہ جب پھر بھی توجہ نہیں کی تو اس نے صدا دینا چھوڑ دی۔ یہ وہ منزل ہے جسے قرآن نے کہا ہے:
(
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ وَعَلٰی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ
)
۔
اصلاح سے یہ نااُمیدی اپنے ہاتھوں پید اہوئی ہے۔ لہٰذا جرم سے بری نہیں ہوسکتے۔
تو باوجود ضمیر کی طاقت رکھنے کے، باوجود بُرے اور اچھے کے احساس کے ، پھر بھی یہ عملاً چوپائے رہے تو نتیجہ کے طور پر چوپایوں سے بدتر ہیں۔ اسی لئے دوزخ ان چوپایوں کیلئے نہیں پیدا کیا گیا ہے، دوزخ انہی انسانوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے جو ان سے بدتر ہیں۔ یہ موردِ سزا بھی ہیں، موردِملامت بھی ہیں۔
یہ تو اس وقت ہے جب انسان گھٹتا ہے۔ جب بڑھتا ہے تو جو انسان بلندی پر ہوتا ہے، وہ عملاً تو فرشتے کا مثل ہوتا ہے، اس لئے کہ فرشتہ بھی بے گناہ، یہ انسان بھی بے گناہ۔ بے گناہ کے معنی ہیں زیرو۔ زیرو میں درجے نہیں ہوتے۔ یہاں بھی نفی گناہ، وہاں بھی نفی گناہ۔ یہ انسان جو ہے اس میں بھی گناہ نہیں۔تو عملاً تو فرشتوں کی مثل ہوتا ہے مگر نتیجہ کے طور پر فرشتوں سے بہتر ہوتا ہے۔ اس دلیل سے جس دلیل سے گرنے میں مثل چوپایوں کے ہوا تھا اور نتیجہ کے طور پر چوپایوں سے بد تر ہوا تھا۔کیوں؟ اس لئے کہ یہ عقل رکھتے ہوئے چوپایہ رہا۔ ویسے ہی بڑھنے میں اسی دلیل سے فرشتہ نہیں ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ فرشتے اگر معصوم ہیں تو کمال کیا ہے؟ یہ جذبات رکھتے ہوئے، بھوک پیاس رکھتے ہوئے، تکلیف کا احساس رکھتے ہوئے، پھر بھی عملاً فرشتہ رہا تو یہ فرشتوں سے بالا ترہے۔ یعنی ملک عصمت جو فرشتوں کیلئے عطیہ خسروانہ تھا، وہ اس کا قوتِ بازو سے فتح کیا ہوا ملک ہے۔ اسی لئے جب یہ عصمت اختیاری کے قدموں سے بلند ہوتا ہے اور اب اس کا کردار اس منزل پر آجاتا ہے کہ فرشتہ حیران ہوجاتا ہے۔
یاد رکھئے ! حیرت اسی چیز پر ہوتی ہے جس کی مثال پہلے سامنے نہ آئی ہو۔ عمر ملک دیکھئے یعنی اس کی خلقت ظاہری آدم ابوالبشر سے قبل، مدتوں پہلے۔جس کی پیمائش ہم اپنے پیمانوں سے کر بھی نہیں سکتے کہ کتنا پہلے۔ تو اس کی کتنی عمر ہے اور نوعِ انسانی کی ابتداء بھی مجھے نہیں معلوم۔بعض تاریخوں میں آتا رہتاہے کہ آدم سے اب تک اتنے ہزار برس۔اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ تو عمر انسانی کی مدت بھی نہیں معلوم۔ مگر جتنے کردا رہیں، وہ سب مَلک کی نگاہوں کے سامنے آئے ہیں۔ آدم سے لے کر خاتم تک۔ہر ایک کا کردار اس کی نظروں کے سامنے آیا ہے۔ اب اس کے بعد اگر کبھی اس کو حیرت ہوجائے تو وہ مجموعی حیثیت سے افضل ہستیاں ، یقینا میں مانتا ہوں، عقیدت کے طور پربالا تر ہستیوں کا ماننا جزوِ دین ہے ۔ لیکن یہ کہ کسی شعبہ کردار میں ایسا نمونہ سامنے آیا ہے جس کی مثال اس کو اس وقت تک نظر نہیں آئی تھی۔ آدم سے لے کر تا ایں دم۔کوئی مثال اس کی آنکھوں کے سامنے نہیں آئی تھی۔
اب مجھے معصوم کی زبان کا ایک جملہ یاد آرہا ہے جو سید الشہداء کو مخاطب کرکے آپ نے کہاہے:
”عَجَبَتْ مِنْ صَبْرِکَ مَلٰئِکَةُ الْمُقَرَّبِیْن
“۔
اے حسین ! آپ کے صبر سے ملائکہ مقربین ششدر رہ گئے۔
یعنی ان کے تصور سے بالا تر نمونہ صبرکا ان کے سامنے آیا۔ اب صرف حدیث، جو زیارتیں معصومین نے بتائی ہیں، وہ بھی ایک قسم کی حدیث ہیں۔ تو وہ جملہ تو بس اتنا ہی ہے۔ مگر اب مجھے تلاش ہوئی ہے کہ وہ کربلا کے مرقع کا کونسا موقع ہوگا، وہ کونسا زاویہ ہوگا جہاں فرشتوں کو حیرت ہوئی ہوگی۔میرے سامنے کردارِ کربلا کے جو مرقع آرہے ہیں، تو بخدا شاعر نے تو کسی اور مرقع کیلئے کہا تھا مگر میں اسے یہاں استعمال کررہا ہوں کہ ”کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است“۔مرقع کا ہر گوشہ مجھے ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ فرشتے کو یہیں حیرت ہوگئی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اس پر بھی حیرت ہوئی ہو۔پھر حیرت میں اضافہ ہوتا چلاگیا ہو۔