حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍاِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحقِّوَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ
)
۔
”قسم ہے عصر خاص کی کہ یقینا انسان خسارے میں ہے سوااُن کے جو ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں اور ایک دوسرے کو حق کی ہدایت کریں اور ایک دوسرے کو صبر کی دعوت دیں“۔
”(
اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“کے متعلق کل عرض ک یا، ابھی دو چیزیں باقی ”(
وَتَوَاصَوْابِالْحقِّوَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ
)
“۔ م یں نے عرض کیا تھا کہ یہ چاروں جزو در حقیقت دست و گریباں ہیں۔”(
اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“کا باہم ی تعلق اصولِ دین اور فروعِ دین کی تشریح کے ماتحت بیان ہوچکا۔ اب یہ ”(
وَتَوَاصَوْابِالْحقِّوَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ
)
“، اِن دونوں کا باہم ی تعلق قبل کی دو صفات کے ساتھ کیا ہے۔اسلام کسی فیض ،کسی نعمت ، کسی عطائے پروردگار کیلئے یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ ایک ذات میں محدود رہے بلکہ اس فیض کو دوسروں تک پہنچنا چاہئے۔یہ خود غرضی کہ ہم راہِ ہدایت پر ہیں ، تو اب ہمیں دوسروں سے کیا مطلب؟ ہم نیکوکار ہیں تو بس اب ہمیں کیا غرض کہ کون کیا کررہا ہے؟ دینی حیثیت سے یہ خود غرضی روا نہیں ہے۔ تو وہاں جو دو وصف تھے، یعنی”(
اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰت
)
“، تو ایمان کے کیا معنی؟ دین حق پر قائم و برقرار رہنا۔ یہ صفت جب متعدی ہوئی غیر تک ، یعنی بحمد للہ ہم جب حق پر ہیں تو ہم نے بھی یہ کوشش کی کہ دوسرے بھی دین حق سے متعارف ہوجائیں۔ تو یہ”(
تَوَاصَوْابِالْحقِّ
)
“ہوا اور ”عَمِلُواالصّٰلِحٰت“، یہ گویا اپنے کو کردار کے ایک زیور سے آراستہ کرنا تھا۔ ہم نمازی ہیں، ہم روزہ دار ہیں۔ فرض کیجئے ہم راست باز ہیں، ہم امانت دار ہیں۔ سب صفات اپنے میں اختیا رکرلیں تو ان سب کا مجموعہ تو ہوا”عَمِلُواالصّٰلِحٰت“، اب اس عمل صالح کے وصف کو غیر کی طرف متعدی ہونا چاہئے۔ دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ تو وہ در حقیقت ”(
وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ
)
“ہے۔
اس کو معنی و بیان میں کہتے ہیں کہ ایک لف و نشر مرتب ہے۔ لف و نشر مرتب یہ ہوتا ہے کہ دو چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئیں اور پھر دونوں سے متعلق جو بات ہے، وہ اسی ترتیب سے پھر بیان ہوئی۔ مثلاً اس عالم کو کیا پوچھتے ہو، بادل تھا اور پانی شدت سے گرج رہا تھا اور شدت سے برس رہا تھا۔ تو وہاں بادل اور پانی دو چیزیں ایک ساتھ کہی تھیں۔ اب اسی ترتیب سے گرج رہا تھا، برس رہا تھا۔ ایک بادل سے متعلق ، دوسرا پانی سے متعلق۔ جس ترتیب سے پہلے دو چیزیں تھیں، اسی ترتیب سے بعد میں دو چیزیں ، جن میں سے پہلی چیز کا پہلے جملے کی پہلی چیز سے تعلق اور دوسری چیز کا پہلے جملے کی دوسری چیز سے تعلق۔ اسی طرح وہاں پہلے ”(
اٰمَنُوْا
)
“تھا۔ اس کے بعد ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰت
)
“ تھا۔ اس ی ترتیب سے”(
تَوَاصَوْابِالْحقِّ
)
“۔”(
اٰمَنُوْا
)
“کا ف یض جاری ہوااور”(
وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر
)
“صالحات کا عمل متعد ی ہوا۔
اب کوئی کہے کہ یہ صبر کے معنی جو ہم جانتے ہیں، وہ تو یہ ہیں کہ ایک مصیبت پڑی اور بس مصیبت کو برداشت کیا، اس کا نام صبر ہے۔تو وہ پورے ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰت
)
“ کے مقابل میں کیونکر یہ”(
وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر
)
“آگ یا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ باوجودیکہ اتنا کثیرالاستعمال ہے کہ ہمیں اُردو زبان کا لفظ معلوم ہونے لگا ، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ غیر بھی جو اُردو بولتے ہیں، وہ بھی چاہے لفظ غلط کہیں ”(
صَبَرْ
)
“کہ یں لیکن صبر وہ بھی کہتے ہیں۔ تو لفظ تو اتنا عام ہے مگر اس کے معنی میں دیکھتا ہوں کہ خوابِ پریشاں کی طرح مختلف ذہنوں میں الگ الگ ہیں۔لفظ اتنا قریب اور معنی اتنی دور۔
چنانچہ اب جو مجھے معلوم ہے ، ایک طبقہ ترقی یافتہ، ماشاء اللہ اس دَور کا ہے، وہ کہتا ہے کہ صبر بزدلی کی تعلیم ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس نے صبر کے معنی یہ سمجھ لئے ہیں کہ ہر حربے کے سامنے، ہر تشدد کے سامنے سر جھکادو۔جو بھی تمہارے ساتھ ہوچکا ہو، چپکے سے برداشت کرلو۔یہ معنی چونکہ صبر کے انہوں نے سمجھے ہیں ،لہٰذا وہ یہ کہتے ہیں کہ طاقتوروں نے پیشوایانِ دین کو آلہ کار بنا کر صبر کی تلقین کروائی ہے تاکہ کمزوروں میں قوتِ مدافعت نہ پیدا ہو۔ تو جیسے مذہب کو ایک ملک میں کہا جاتا ہے کہ افیون ہے۔ایسے اب کہا جاتا ہے کہ صبر بھی بے حس بنانے کیلئے ایک افیون ہے تاکہ جو کچھ ہورہا ہے، اس کے سامنے سر جھکا دیا جائے کہ ہم تو صابر ہیں۔
تو یہ ایک معنی صبر کے ہیں جو ترقی یافتہ ذہنوں میں ہیں۔ ایک معنی صبر کے بڑے مذہبی حلقہ میں ہیں کہ صبر یہ ہے کہ بس آنکھ سے آنسو نہ نکلیں۔ ادھر آنکھ سے آنسو نکلا اور انہوں نے کہا کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہو! صبر کرنا چاہئے۔ تو ان کے نزدیک صبر کا معیار یہ ہے کہ بس آنکھ سے آنسو نہ نکلے۔ پتھر بنے کھڑے رہو۔ اس کے علاوہ ایک اور معنی بھی صبر کے مراد لئے جاتے ہیں کہ صبر یہ ہے کہ مصیبت کا احساس ہی نہ ہوا، مصیبت کا اثر ہی نہ ہو۔افسردگی بھی نہ ہو تو کیا کہنا، گویا ایسا شخص سب سے زیادہ صابر ہو۔یہ بھی صبر کا ایک مفہوم ہے۔ معلوم ہوا کہ لفظ صبر زبان پر ہے لیکن صبر کے معنی ذہن میں نہیں ہیں۔
تو مجھے ابھی آگے ایک بہت وسیع بیان کرنا ہے، لہٰذا اس چیز کو بہت بسیط طور پر پیش نہیں کرسکتا۔بس مختصر جائز ہ پیش کردیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ صبر کا لفظ آپ کو یاد کہاں سے ہوا ہے؟ سب سے پہلے آپ نے یہ لفظ قرآن میں سنا، پھر تشریح کرنے والوں کی زبان سے یہ لفظ آپ کو معلوم ہوا۔ ورنہ یہ صبر کا لفظ آپ کو بولنا ہی نہ آتا۔ قرآن کی بدولت یہ صبر کا لفظ دنیا تک پہنچا ہے۔ تو جوقرآن نے صبر کی تشریح کی ہو، کسی کو حق نہیں کہ اس کو بدلے۔ نہ بیگانے کو نہ یگانے کو، نہ دور والے کو ، نہ قریب والے کو، نہ روشنی والے کو، نہ تاریکی والے کو۔کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ قرآن کے خلاف صبر کے لفظ کی تشریح کرے۔
تو اب قرآن مجید میں جہاں جہاں صبر کا اطلاق ہے، اس میں ایک جگہ نہیں ، بہت جگہ۔ میدانِ جنگ میں صبر کا مطالبہ ہے تو وہ کیا ہے کہ نیزہ آتا ہو تو سینہ بڑھا دو؟ تلوار آتی ہو تو سر جھکا دو؟ کیا وہاں صبر کے یہ معنی ہیں؟ میدانِ جنگ میں صبر کے کیا معنی؟ اگر صبر کے یہ معنی ہوتے کہ عاجزی سے سر جھکا دو تو پھر جنگ کا تصور ہی کہاں ہوتا اور میدانِ جنگ میں صبر کا مطالبہ ہی آخر کیوں ہوتا؟اب صبر کا مطالبہ جو قرآن مجید کررہا ہے، وہ کیا ہے؟
(
اِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْامِئَتَیْنِ
)
۔
”اگر تم ۲۰ صبرکرنے والے ہو تو ۲۰۰ پر غالب آؤ“۔
(
وَاِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِئَةٌ
)
)۔
”اگر تم سو( ۱۰۰) صبر کرنے والے ہو تو
(
یَغْلِبُوْااَلْفًامِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
)
۔
تو ایک ہزار پر غالب آؤ۔
قرآن کے سادہ لفظوں میں بڑے بڑے فلسفے مضمر ہیں۔
(
ذَالِکَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا یَفْقَهُوْنَ
)
۔
بات یہ ہے کہ تعداد میں دس گنا سہی لیکن ان کو ایمانی شعور نہیں ہے۔ لہٰذا تمہاری تعدادی کمزوری کا توازن تمہاری قوتِ ایمانی کے ساتھ قائم ہونا چاہئے۔اب جناب دیکھئے! ۲۰ صبر کرنے والے ہوں، وہاں بھی صبرکی قید اور سو صبر کرنے والے ہوں تو یہاں بھی صبر کی قید۔ تو اب وہ ترقی پسند دنیا دیکھئے کہ صبر وہ چیز ہے جو دس گنا مقابلہ کے دعوت دیتا ہے تویہ بزدلی کی تعلیم کب ہوئی؟اب چونکہ یہ آیت میں نے پڑھ دی، بلا فاصلہ اس کے بعد دوسری آیت ہے۔ ہم تو جتنا بھی زیادہ حفظ ہو، اتنی ہی تیزی سے ایک آیت کے بعد دوسری آیت پڑھ دیں گے مگر اب مضمونِ آیت دیکھئے کہ پہلی آیت نازل ہونے کے بعد کوئی سخت معرکہ ہوا جس میں مسلمان اس معیار پر پورے نہیں اُترے؟ یہ کوئی روایت نہیں ہے، یہ قرآن کی آیت ہے۔ اسی لئے میں نہیں بتاسکتا کہ وہ کونسا معرکہ تھا۔ بہرحال مضمونِ آیت سے ظاہر ہے ۔ میں وہ آیت ابھی پڑھوں گا۔ بیچ میں ایک معرکہ ہوا اور مسلمان اس معرکہ میں اس معیارِ قرآنی پر پورے نہیں اُترے۔
(
اَ لَانَ قَدْ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْکُمْ
)
۔
”اب اللہ تم سے تخفیف کرتا ہے“۔
یعنی اس فریضہ کو ہلکا کرتا ہے۔
(
عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضُعْفًا
)
۔
اب اللہ تم سے تخفیف کرتا ہے، بس پتہ چل گیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ تم کون؟ وہی معزز طبقہ جو مخاطب ہے۔ اب کمزوری کیا مادّی کمزوری؟ وہ تو پہلے ہی ثابت تھا کہ مقابل کے دس گنا ہونے کی وجہ سے کمزور تھے۔ اب یہ کمزوری وہی ایمان والی کمزوری ہے۔ پھر کہئے کہ پہلا حکم کیوں آیا تھا؟ اس وقت کیا اللہ نہیں جانتا تھا ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اپنی قوتِ ایمانی کا زعم زیادہ تھا۔ تو اس لئے خود پتہ چلانے کیلئے نہیں، ان کو پتہ بتانے کیلئے۔ پہلے وہ حکم آیا اور اب ارشاد ہورہا ہے کہ دیکھو! پتہ چل گیا تم میں کمزوری ہے۔
”(
فَاِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ
)
“۔
اب اس کے بعد:
”(
اِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِئَة صَابِرَة یَغْلِبُوْنَ
)
“ ۔
اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں۔
”(
اِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ اَلْفٌ
)
“۔
اب دیکھئے اس معیار سے آٹھ درجہ قدم پیچھے ہٹایا گیا ہے کہ”(
ان یکن منکم الفٌ
)
“، اگر تم میں ہزار ہوں تو بس:
”(
یَغْلِبُوْااَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰ
)
ہ“۔
تو دو ہزارپر غالب آئیں۔ یعنی کم از دوگنامقابلہ سے تو نہ گھبراؤ یعنی کچھ تو کفر وایمان میں فرق ہو۔ پھر آخر میں:
”(
وَاللّٰهُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ
)
“۔
”اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔
یعنی تم صبر کرو گے تو اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوگی۔ تو معلوم ہوا کہ یہ صبر وہ چیز ہے جو مثالی مقابلہ تو دس گنا کے ساتھ کرتا ہے اور کم از کم دوگنا مقابلہ کی دعوت تو ضرورہے کہ گھبراؤ نہیں، اگر مخالف فریق دوگنا ہے کیونکہ وہ اس بصیرتِ ایمانی سے محروم ہے جس کے تم دعویدار ہو۔ اب اگر تم اس سے بھی گھبرائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے اندر بصیرتِ ایمانی کسی درجہ پر ہے ہی نہیں۔ اب جو کچھ بھی ہے، وہ بقلم خود ہے۔تو کیا اب وہ تصور صحیح رہا کہ صبر بزدلی کی تعلیم ہے۔
اب آئیے اس پر کہ احساسِ غم ہی نہ ہو۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ احساس شعور کا نتیجہ ہے۔ انسان کی کوئی صفت مدح وہ نہیں ہوسکتی جو شعور وعلم سے ٹکرائے۔ آجکل ڈاکٹروں نے ایسی دوائیں ایجاد کرلی ہیں کہ وہ دوالگادی تو وہ حصہ بے حس ہوگیا۔اب جو نشتر لگایا تو خبر ہی نہیں ہوئی۔ اب جس کے وہ دوا لگادی اور اس کے نشتر لگا گیا تو خبر ہی نہیں ہوئی۔اس نے اُف نہ کی۔ تو یہ اُف نہ کرنا کونسا کارنامہ ہے؟یہ تو دوا کا اثر ہے۔ اسی طرح اگر دل و دماغ ایسے ماؤف ہوئے کہ احساسِ رنج ہی نہ ہوا تو یہ کونسی قابل تعریف صفت ہوئی۔ یہ تو ایک کیفیت مزاج ہے کہ اثر غم ہوتا ہی نہیں۔ یہ کوئی کارنامہ نہیں ہوگابلکہ میں کہتا ہوں کہ جتنا ادراک قوی ہوگا، اُتنا ہی اثر مصیبت زیادہ ہوگا۔ اتنا ہی احساسِ اذیت و الم زیادہ ہوگا۔ لہٰذا یہ کونسا کارنامہ ہوا؟
اب تیسری بات کہ آنسو نہ نکلیں۔ اب یہ تو بحمدللہ بالکل پکے مسلمان ہیں۔ وہ ترقی یافتہ تو دعویدارِ اسلام تھے، یہ تو ذمہ دارِ اسلام ہیں۔ یہ تو اسلام کے ٹھیکیدا رہیں۔ تو صاحب! ان کی بات کو تو قرآن کے معیار پر جانچناہی ہے۔ تو جناب!آپ یہ کہتے ہیں کہ صبر یہ ہے کہ آنکھ سے آنسو نہ نکلیں۔ تو جناب وہ جو میدانِ جنگ میں صبر کا مطالبہ ہے، اس کا مطلب کیایہ ہے کہ روؤ نہیں ،چا ہے ہنستے ہوئے میدان سے نکل جاؤ؟ایک بات اور کہہ دوں۔ یہ تو میں نے قرآن مجید کے معیار پر اس تصور کو جانچا ہے۔اب کوئی ترقی یافتہ بھی اس تصور کو اختیار کے کہ ہاں! آنسو نکلنا تو بالکل خلافِ صبر ہے تو میں یہ کہوں گا کہ یہ آنکھ اور دل میں تصور کس نے قائم کیا ہے؟ کیا بات ہے کہ رنج ہوتا ہے تو ہاتھوں میں تو پسینہ نہیں آتا، پیر میں تو کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، یہ آنکھ ہی سے آنسو کیوں نکلتے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ جو آنکھ اور دل کا خالق ہے،اُس نے کوئی باہمی ربط قائم کیا ہے کہ جب دل کو صدمہ پہنچے گا تو آنکھ سے آنسو نکلیں گے۔
تو بس ایک جملہ کہہ کر آگے بڑھوں گا کہ اگر دل اور آنکھ دونوں بالکل مزاجِ معتدل پر ہیں تو اس کیفیت کا پیدا ہونا دین فطرت میں جرم نہیں ہوسکتا۔مگر اب مجھ سے ہر ایک کومطالبہ کا حق ہے کہ پھر آخرصبر کیا ہے؟ وہ صبر غلط ترقی یافتہ ذہنوں والا۔ یہ تصور صبر کا غلط پرانی درسگاہوں والا۔ تو پھر آخر صبر کیا ہے؟
تو صاحب!جب ہم دیکھتے ہیں تو پہلے اس کی جامعیت کو عرض کروں کہ یہی صبر ہے کہ بتقاضائے الٰہی جو مصائب آتے ہیں ، اس میں ا س کا مطالبہ ہے۔ مثلاًکسی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا، کسی کا بھائی جدا ہوگیا، کسی کو اولاد کا داغ لگا۔ وہاں بھی کہا جاتا ہے کہ صبر کرو۔ تو وہاں کیا معنی ہیں؟ پھر یہ کہ حق کی راہ میں خود اختیاری طور پر جو مصائب آئیں، خود اختیاری یوں ہے کہ جو راستہ حق کا چھوڑ دے تو سب مصیبتیں ختم ہوجائیں۔ تو ان مصائب کو سمجھنا پڑے گا کہ خود اختیاری ہیں۔تو اگر وہ معنی ہیں کہ روؤ نہیں تو وہ بھی نہیں بنتے۔ اگر وہ معنی ہیں کہ چپکے سے سر جھکاؤ تو وہ بھی نہیں بنتے۔ تو پھر آخر کیوں؟ کون سے معنی ہیں؟ تو اب یوں سمجھیں کہ صبر کے بہت سے معنی ہیں۔ ایک معنی سے وہ صبر ہے، ایک معنی سے یہ صبر ہے۔
یاد رکھئے کہ یہ کئی معنی بس مجبوری کی صورت میں مانے جاتے ہیں جبکہ کوئی ربط باہم نہ ہو۔ جیسے عین آنکھ بھی ہے اور عین آفتاب بھی ہے اور چشمہ بھی ہے عربی میں۔ تو ان میں کوئی مشترک چیز ہمیں نظر نہیں آئی کہ وہ آنکھ پر بھی صادق ہو، چشمے پر بھی صادق ہو۔ مجبوراً یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ لفظ سب میں مشترک ہے۔ اس کے سب معنی ہیں۔ عربی میں کہتے ہیں کہ عین کے چالیس معنی ہیں۔ تو اس کے اتنے کثیر معنی ہیں۔سب الگ الگ ہیں۔ تو اب اگر واقعی یہاں کوئی مشترک مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو مجبوراً یہی کہیں گے جو آپ بتارہے ہیں کہ الگ الگ معنی ہیں۔اس صبر کے کچھ اور معنی ہیں جو مصائب آسمانی ، قضائے الٰہی کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور اس صبر کے معنی اور ہیں جو میدانِ جنگ میں ہوتا ہے۔لیکن میری سمجھ میں جو ہے، وہ یہ ہے کہ صبر کے ایک معنی ہیں اور وہی ہر جگہ منطبق ہیں۔ وہ معنی صبر کے یہ ہیں کہ کوئی شدتِ وقت، کوئی مصائب کی آندھی ، کوئی سخت سے سخت صورتِ حال تم کو اس فریضہ کے جادہ سے نہ ہٹائے جس پر تم کو قائم رہنا چاہئے۔
یہ میدانِ جنگ ہی میں ثباتِ قدم نہیں ہے تاکہ مصائب آسمانی میں کوئی کہے کہ وہاں تو میدانِ جنگ ہے ہی نہیں او رمیدانِ جنگ کے ثباتِ قدم میں کوئی کہے کہ جنگ کا موقع نہیں۔ جی نہیں! میدانِ جنگ ہی میں ثباتِ قدم نہیں ہے، ثباتِ قدم ہے جادئہ فرائض پر۔ جادئہ فرائض علماء کی زبان ہے۔ عام الفاظ میں کہنا چاہئے ، جو کرنا چاہئے، ہر صورتِ حال میں وہی کرے۔کوئی سخت سے سخت موقع بھی اس راہ سے نہ ہٹائے جو صحیح ہو۔یہ صبر کے معنی ہیں۔ اب ہر جگہ فرض کیا ہے ، وہ فرض بتانے والوں سے پوچھئے جو اسی لئے بھیجے گئے تھے کہ وہ فرائض بتائیں۔اب ذرا صبر کی تھوڑی سی اور تشریح کردوں۔ ہمارے لکھنو میں ایک سڑک کا نام ہے ٹھنڈی سڑک اور ایسے ہی یہاں بھی سڑکیں ہوں گی کہ لوگ صبح کی ہواخوری کیلئے وہاں جاتے ہوں گے، تفریح ہوتی ہوگی۔ لیکن جس دن سے اس سڑک پر جانے میں کوئی کام سپرد ہوجائے گا تو اب اس سڑک پر جانا فریضہ ہوگیا۔
فرض کیجئے کہ والد صاحب نے حکماً کہہ دیا کہ دیکھو! تم کو اس سڑک پر روز جانا ہوگا یا کسی اور نے جس کے ہاں ملازم ہیں، اُس نے کہہ دیا یا اتفاق سے اس طرف کوئی دفتر کا کام ہوا، ڈیوٹی ہوگئی۔ تو بس جس دن سے پابندی عائد ہوجائے گی، اُس دن سے تفریح ختم ہوجائے گی اور ناگواری ہوجائے گی۔ حالانکہ وہی سڑک ہے، وہی ہوا ہے مگر احساسِ پابندی خود ناگواری کا پیمانہ ہے۔اسی وجہ سے احکامِ شریعہ کو تکلیفات کہتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اس کا مکلف نہیں ہے۔تکلیف شرعی عائد نہیں ہے۔یہ تکلیف شرعی اسی لئے ہے کہ پابندی کلفت طبع کا باعث ہوتی ہے۔وہ خود ناگواری طبع کا سبب ہوتی ہے۔ تو اب اگر انسان نے اس پابندی کو قبول کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ناگوار بات کو اس نے حکم کے دباؤسے برداشت کیا تو وہ ہوا”صَبْرٌعَلَی الْمَکْرُوْه
“۔
دوسری طرف جس چیز سے منع کر دیا جائے، اسی کو دل چاہنے لگتا ہے۔ کوئی غذاآپ کبھی نہ نوش فرماتے ہوں مگر جس دن سے حکیم صاحب یا ڈاکٹر صاحب منع کردیں، اسی دن سے اس کو دل چاہنے لگے گا۔اس کیلئے مقولہ بھی ہوگیا ہے:
”اَ لْاِنْسَانُ حَرِیْصٌ عَلٰی مَامُنِعَ
“۔
”انسان کو جس شے سے منع کیا جائے، اُس کا لالچ ہوجاتا ہے“۔
تو محرمات جتنے ہیںِ یعنی جو چیزیں حرام ہیں، ان میں چونکہ ممانعت ہے، لہٰذا ممانعت کے سبب کی وجہ سے وہی چیزیں مرغوبِ طبع ہوجاتی ہیں۔ اب انہی کی خواہش ہوتی ہے، اس لئے کہ ممانعت ہے۔ اب اگر انسان نے فرمانِ حاکم کے احترام میں اس ممانعت کو برداشت کیا اور دل کی خواہش کے مطابق عمل نہ کیا تو یہ ’صَبْرٌ عَنِ الْمَحْبُوْبِ
‘ ہے، پسند طبع چ یز سے صبر، تو دنیائے شریعت پوری صبر میں داخل ہے۔
اب اس کے بعد خصوصی حیثیت سے کچھ ناگواریاں ہوتی ہیں ، اس لئے اب ایک دوسرا وسیع لفظ استعمال کروں۔ پوری شریعت قربانیوں کا مطالبہ ہے۔ میدانِ جنگ ہی میں قربانی نہیں ہے۔ یہ نماز کے احکام کیا ہیں؟ کیا اللہ کو اس کی ضرورت ہے کہ آپ اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیے تو اس کے جاہ و جلال میں کچھ اضافہ ہوجائے گا؟نہیں، یہ دیکھنا ہے کہ تم اپنے مشاغلِ حیات میں سے کتنا حصہ ہمارے لئے قربان کرسکتے ہو۔اب اوقات کی پابندی سے دیکھئے کہ کتنا صبر آزما امتحان ہوگیا۔ مشاہدہ ہوگا آپ کا کہ بہت سے لوگ رمضان کے روزے کے پابند ہیں اور روز کی نماز کے پابند نہیں ہیں بلکہ روزوں کی بدولت پھر نماز کیلئے بھی ماہِ رمضان میں پابند ہوجاتے ہیں۔ تو کیا پتہ چلا؟ پتہ یہ چلا کہ وہ سال میں ایک مہینے کی بات ہے ، لہٰذاوہ اتنی ناگوار نہیں ہے لیکن یہ روز کی پانچ وقت کی بات ہے تو بہت ناگوار ہے۔
وہ چاہے جتنے منٹ میں نماز ہوجاتی ہو، مگر وہ چند لمحوں کو صرف کرنا اس پابندی وقت کے ساتھ، یہ انسان کی طبیعت پر ناگوار ہوتا ہے۔اسی لئے بہت سے اس سے زیادہ سخت احکام بجالے آئیں گے کہ جناب شب قدر کی مستحب نمازیں پڑھ لیں گے اور روز کی واجب نمازیں نہیں پڑھیں گے کیونکہ وہ سال بھر میں ایک دفعہ کی بات ہے اور یہ ہر روز کی بات ہے۔
اب اس میں بعض وقت صبر آزما منزل بھی آجاتی ہے کہ کوئی دور سے بچھڑے ہوئے عزیز آئے ہیں، اب وہ زمانہ سفر کی روداد سنا رہے ہیں اورنماز کا وقت جارہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عزیز کی محبت زیادہ ہے یا اللہ کا حکم زیادہ ہے۔ او رجناب! اس کے بعد صبح کی نماز، وہ خوابِ استراحت اور اب میری عمر کا تقاضا نہیں، مقامِ منبر کا تقاضا بھی نہیں ، اور بھی جو جاذبِ نظر چیزیں ہوتی ہیں، ان سب کو پیش کروں۔ ان سب کے باوجود اگر بندئہ خدا نے احساسِ وقت نماز رکھااور صبح کی نماز کیلئے اٹھ کھڑا ہوا تو بلاشبہ صبر کا مصداق ہونے میں شبہ ہی کیا ہے۔اس نے ان تمام چیزوں کو ٹھکرا دیا اور میدانِ عمل میں آگیا۔پھر خالق نے آپ کی فطرت کے احساس سے گویا تھوڑے سے احترام کی خاطر فریضہ صبح کی رکعات سب سے کم رکھی ہیں۔ارے ابھی تو نیند سے بیدار ہوئے ہو تو چلو دو رکعت ہی پڑھ لو۔ یعنی بستر سے اٹھ کر بارگاہِ الٰہی میں ایک سلام کرلو تاکہ پتہ چل جائے کہ تم باغیِ حکومت نہیں ہو۔
یہ بھی دین فطر ت ہے کہ واقعی اگر تمہاری آنکھ نہیں کھلی تو سوتے رہنے کی وجہ سے قضا کا گناہ نہیں ہوگا۔اس پر نامہ عمل میں کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا۔قضا پڑھ لینا لیکن اب خوابِ راحت کے عادی دیکھیں کہ ایسا تو نہیں ہوتا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت دفعہ بہت سوں کے ساتھ ہوتا ہوگا کہ جناب! آنکھ کھلی مگر اٹھا نہیں جاتا۔
تو اب عمداً ترکِ نماز کا گناہ نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔دنیا سمجھ رہی ہے کہ سو رہے ہیں مگر یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اس دوران وقت میں آنکھ کھلی تھی یا نہیں۔ اسی لئے اس نے حساب اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ہم تو گواہی دے دیں گے کہ یہ سوتا ہوا ہوتا تھا تو اس کی نماز رہ جاتی تھی۔ ورنہ یہ نماز کا پابند تھا۔ہم نماز کے پابند ہونے کی گواہی دے دیں گے مگر جو جانتا ہے کہ یہ جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے، اس کا علم کسی دوسرے دیکھنے والے کو نہیں ہوسکتا۔دوسرا تو بس لیٹنا دیکھ سکتا ہے، سونا اور جاگنا نہیں دیکھ سکتا۔یہ آدمی خود دیکھ سکتا ہے یا وہ دیکھ سکتا ہے جو سوتا ہی نہیں۔اس میں دوسرے لوگوں کومعتبر نہیں ماننا پڑے گا کہ وہ سور ہا تھا یا جاگ رہا تھا۔ اب اگر کسی نے خود کہا ہو کہ میں جیسی میٹھی نیند اس رات کو سویا، کبھی نہیں سویا تو دنیا کو گواہ طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ گواہی وہیں ہوتی ہے جہاں دوسرے دیکھنے والے ہوں۔ جہاں آدمی خود ہی واقف ہو ، وہاں گواہ باہر سے کہاں آئیں گے؟اسی لئے اس بات کو جسے گھر والے ہی دیکھ سکتے ہوں، اس کے بارے میں گھر والوں ہی کی گواہی قبول کرنا ہوگی۔اب ایک باپ اپنی بیٹی کو کوئی چیز دیتا ہے تو باہر والے کہاں سے آئیں گے دیکھنے کو۔ گھر والے ہی گواہ ہوں گے۔
تو اب پوری دنیائے شریعت صبر میں داخل ہے۔ اسی لئے ایک عبادت ایسی کہ جس میں بہت سی خواہشوں سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ روزہ ہے۔ ہر عبادت میں ایک نفیس جذبہ سے مقابلہ ہوتا ہے۔ روزے میں بہت سے نفسیاتی خواہشات سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔پانی جیسی ضرورت اور پر کشش چیز سے ایک معینہ وقت تک احتراز کرنا پڑتا ہے۔ یہ پینا اتنا پرکشش ہے کہ ایک نامعقول مشروب کو بعض افراد کا دل نہ بھی چاہتا ہو تو چاہنے لگتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بحمدللہ اس اتنے بڑے مجمع میں کوئی ایسا نہیں کہ جس کا دل چاہا ہو، یہاں تک کہ وہ شاعر صاحب بھی جنہو ں نے تقلید شاعری کے طور پرخود بھی تعریفیں کی ہوں، ان کا بھی دل نہ چاہا ہوگا۔
درحقیقت اس سلسلہ میں اپنے بزرگوں کیلئے دعائے خیر کرنی چاہئے کہ ہمیں ماحول ایسا ملا کہ ہم ایک گناہ کے خوگر نہیں ہوئے۔ اس لئے کبھی دل نہیں چاہا ۔ کسی شاعر نے ہم پر طنز بھی کی تھی۔ ”تو نے پی ہی نہیں“۔اس کا طنز اس کے نزدیک چاہے کتنا ہی چبھتا ہوا ہو مگر ہم نے کہا: ”الحمدللہ“۔ہم کو اس پر خوشی ہوئی کہ اس نے ہم کو یہ سند عطا کی۔
تو صاحب! بہرحال ہمارے لئے یہ نہ پینا کوئی بڑا جہاد ہی نہیں ، اس لئے کہ جب ہمارا دل ہی نہیں چاہا تو کوئی بڑا جہاد ہم نے نہیں کیاجو ادھر ہم نہیں گئے۔ ہم کو تو اس کی بو سے تکلیف ہوتی ہے۔ اس سڑک سے گزرے ہیں تو ہمیں ناگواری محسوس ہوتی ہے۔مگر اب میں کہتا ہوں کہ ماشاء اللہ مجمع میں سب روزہ دار ہوں گے مگر روزہ دار پر کون طنز کرسکتا ہے۔ پانی کے بارے میں کون کہے کہ تو نے پیا ہی نہیں۔ یہ ہے روزہ میں عظیم امتحان کہ جن چیزوں کے ذائقہ سے واقف ہے، حکمِ الٰہی کے دباؤ سے ان سے باز رہتا ہے۔اسی لئے صوم کا ایک نام صبر ہوگیا۔ قرآن کی جو آیت ہے:
(
وَاسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلوٰة
)
۔
”مدد حاصل کرو صبر اور نماز سے“۔
تو بظاہر ربط نظر نہیں آتا کہ صبر اور صلوٰة میں باہمی ربط کیا ہے۔ تو علماء نے کہا کہ یہاں صبر کے معنی صوم کے ہیں۔ تو بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ اس میں ناگواری ہوتی ہے۔ تو اگر حکمِ الٰہی کے ماتحت منہیات سے پرہیز رکھا اور واجبات کی پابندی کی تو پوری زندگی صبر ہو جائے گی۔پوری زندگی معیارِ صبر پر پوری اُترے گی۔اب پھر وہ بات آگئی کہ ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“،وہی بات جب متعدی ہوئی تو ”(
تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
)
“ہوگئ ی کہ خود تو ہے ہی پابند، دوسروں کو بھی پابندی کی دعوت دیتا ہے۔ اب یہ الگ سے سمجھنے کی بات ہے کہ کس جگہ میعارِ صبر کیا ہے! ہوسکتا ہے کہ ہمارے رہنمایانِ دین جو تھے، ان کی زندگی میں بھی بظاہر نمونہ الگ الگ نظر آئے لیکن درحقیقت وہ ان کا صبر ہوگا۔ یہ ان کا صبر ہوگا۔ایک حسن مجتبیٰ کا صبر ہوگا اور دوسرا حسین مظلوم کا صبر ہوگا۔کردار دونوں کا ایک ہے۔ وہ بھی صابرین میں ہیں، یہ بھی صابرین میں سے ہیں۔
یہ چار وصف ہیں۔ ہمارے جتنے رہنمایانِ دین ہیں، ان میں سے سب میں ہر ایک وصف اپنے کمال پر ہے۔ مگر یاد رکھئے کہ مثال میں پیش کرنے کیلئے کوئی نمایاں تاریخی واقعہ ہونا چاہئے۔ لہٰذا میں عام رہنمایانِ دین کی زندگی کو سامنے رکھ کر ان اوصاف کا عملی مرقع پیش کروں تو مجھے شاید”(
اٰمَنُوْا
)
“ک ی مثالِ عمل دکھانے کیلئے زندگی کے ایک ورق کو پیش کرنا ہواور ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“کیلئے بہت سے اوراق کو پیش کرنا ہو کیونکہ عمل صالح کے شعبے بھی تو بہت سے ہیں۔اس لئے میں نے کہا کہ بہت سے اوراق کو پیش کرنا پڑے۔”(
تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ
)
“ م یں کوئی کہیں کی مثال پیش کروں اور”(
تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
)
“م یں کہیں کی مثال پیش کروں۔ لیکن ہمارا رہنما ایک ایسا ہے کہ اس نے ایک ظرفِ مکان اور ایک ظرفِ زمان میں تمام اوصاف کو سمیٹ کر اس طرح پیش کیا ہے کہ اگر”(
اٰمَنُوْا
)
“کا مظاہرئہ عمل مجھے دکھانا ہو تو کربلا جاؤں اور ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“کے شعبوں کی مثالیں دکھانا ہوں تو کربلا جاؤں۔ اگر ”(
تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ
)
“ ک ی مثالِ عمل دکھانا ہو تو کربلا جاؤں اور اگر ”(
تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
)
“ک ی مثالیں دکھانا چاہوں تو کربلا جاؤں۔
اب اس سے آپ یہ محسوس فرمارہے ہوں گے کہ یہ مصائب ہیں لیکن یہ کہ یہ باب کتنا وسیع ہے کہ اگر اس کو تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی مجلسوں کا وقت اس کیلئے درکار ہے۔ میں مجمل طریقہ پر ہر ہر وصف کو آپ کے سامنے پیش کرکے مجلس ختم کردوں گا۔ یہی اوّل ہے، یہی آخر ہے۔یہی آغاز ہے، یہی انجام ہے۔ اسی ترتیب کے ساتھ جو آیت کے الفاظ ہیں،”(
اٰمَنُوْا
)
“، ایمان ہے دل کے اندر کی چیز۔ دل کو شگافتہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا مگر اس کا عملی مظاہرہ وہ ہوگا جو آنکھوں کے سامنے آئے اور مثال کیلئے پیش کیا جاسکے۔بدبختی سے اُدھر والے بھی دعویدارانِ ایمان تھے۔
یاد رکھئے کہ جب تک دعویدارانِ ایمان نہ ہوں ، مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔ مسلمان کے معنی ہیں اقرارِ ایمان کرنے والا۔ اگر دل سے ہے تو واقعی ایمان ہے، ورنہ کچھ اور ہے۔ لیکن ایمان کا دعویٰ تو اسلام کیلئے ضروری ہے۔ بغیر اس کے اسلام ہو گا ہی نہیں۔تو اُدھر والے بھی چونکہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہیں، لہٰذا دعویدارانِ ایمان ہیں۔اب مجھے کوئی مظاہرئہ عمل چاہئے جسے میں پیش کرسکوں۔ پتہ چلے کہ ان کا ایمان کس پر ہے؟ تو یاد رکھئے کہ اعمال میں یہ بھی ایک شریعت اسلام کا حکیمانہ باب ہے کہ عبادات میں نیت کر رکھ کر ایمان کو عمل صالح میں سمویا ہے۔ وہ ایمان نیت کرواتا ہے ، وہ عمل صالحہ کے راستے پر اعضاء و جوارح کو گامزن کرتا ہے۔ تو یہ نیت جو ہے ، درحقیقت بتقاضائے ایمان ہوتی ہے۔ جو اللہ پر ایمان رکھے گا، وہی قربةً الی اللہ کی نیت کرے گا ورنہ جس چیز کو مانتاہے، اُسی کیلئے عمل کرے گا۔ جو اللہ کو مانتا ہے، وہ اللہ کیلئے عمل کرے گا۔ جو دنیاوی طاقت کو مانتا ہے، وہ دنیاوی طاقت پر عمل کرے گا۔
اب نیت ہوتی ہے آغازِ عمل میں۔ اب مجھے دیکھنا ہے ، ادھر والے کا آغازِ عمل جب ہوتا ہے تو وہ تیر جوڑتا ہے چلّہ کمان میں۔ فوج والوں سے کہتا ہے کہ گواہ رہنا ،یہ کہاں کیلئے گواہیاں ہیں؟دربارِ حاکم کیلئے۔ پس معلوم ہوگیا کہ مقصد عمل حاکمِ وقت کی خوشنودی ہے، طاغوتِ باطل پر ایمان ہے۔اب مجھے تلاش ہوئی کہ ادھر والے نے بھی کبھی کسی کو گواہ کیا؟ تو اُدھر والے کا مقصد عمل وہ حاضروناظر ہے ۔اس لئے اس نے گواہ کیا مگر خود اسی کو گواہ کیا ، وہ کب گواہ کیا؟جب جوان بیٹا جانے لگا۔ ہاتھ اٹھا دئیے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا:
”اَللّٰهُمَّ اَشْهَدْعَلٰی هٰولَاءِ الْقَوْمِ قَدْ بَرَزَاِلَیْهِمْ غُلَامٌ اَشْبَهُ النَّاسِ بِرَسُوْلِکَ مَنْطِقًاوَخَلْقًاوَخُلْقًاکُنَّااِذَااشْتَقْنَالِزِیَارَة نَبِیِّکَ فَنَظَرْنَااِلٰی وَجْهِه
“۔
”پروردگار! گواہ رہنا کہ جو صورت و سیرت اور رفتار و گفتار میں تیرے رسول سے مشابہ ہے۔ خدا وندا! جب ہم مشتاقِ زیارتِ رسول ہوتے تھے تو اپنے اس جوان کو دیکھ لیتے تھے“۔
یہ اصول بھی ہمیں ہمارے مولا نے سکھایا ہے کہ کسی زیات کے مشتاق ہو اور وہاں نہ پہنچ سکو تو شبیہ کو دیکھ کر دل کی تسلی کرلو۔ حسین کو اللہ نے ایک جیتی جاگتی رسول کی شبیہ عطا کی تھی۔ جملہ دیکھئے۔ایک دفعہ کی بات نہیں ہے۔ ”کُنَّااِذَا
“، ماضی استمراری،”کُنَّااِذَااشْتَقْنَا
“، ہم جب تیرے رسول کے مشتاقِ زیارت ہوتے تھے۔ اب اس سے علی اکبر کی جلالت قدر دیکھئے کہ علی اکبر کی ولادت کے وقت مولا نے جب بھی دیکھا، رسول کی زیارت کی نیت سے دیکھا۔اسی لئے اب علی اکبر کی یہ خصوصیت ہوگئی کہ جب علی اکبر چلے تو مولا اپنی جگہ کھڑے نہ رہ سکے۔ کسی کو یہ سمجھنے کا حق نہیں کہ یہ صرف بیٹے کی محبت تھی۔ نہیں، یہ رسول کی شبیہ کا احترام تھااور یہ جو پکار رہے ہیں کہ جہاں تک سامنے رہے، اس وقت تک مڑ مڑ کر میری طرف دیکھتے جاؤ۔ یہ کیا ہے؟ جانتے ہیں کہ یہ تصویر اب کہاں ملے گی؟ لہٰذا جتنا زیادہ ممکن ہو، اتنا رسول کی زیارت کرلوں۔
بس اربابِ عزا! اب دوسرا شعبہ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“۔ اس ایک لفظ کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ عمل صالح میں حقوق اللہ بھی ہیں، حقوق الناس بھی ہیں۔ حقوق الناس میں زندوں کے بھی حق ہیں، مُردوں کے بھی حق ہیں۔دوستوں کے بھی حق ہیں، دشمنوں کے بھی حق ہیں۔ یعنی حقوقِ ایمانی بھی ہیں اور حقوقِ انسانی بھی۔ ہر طرح کے حق ہیں۔ یہ کربلا کا کارنامہ ہے اور مولا کا کارنامہ ہے کہ یہ فقط مرقعِ مصیبت ہی نہیں ہے جو ہمیں صرف اشک افشانی ہی کی دعوت دے سکے بلکہ یہ شریعت اسلام کا پورا مدرسہ ہے۔ایسے سخت ماحول میں حسین نے جتنی تعلیمات دینا ہیں، ان میں سے کسی کو تشنہ تکمیل نہیں چھوڑا۔ہر ایک کی کوئی مثال پیش کی۔ اب ”(
عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ
)
“کی دنیا کتنی وسیع! تو حقوق اللہ میں کل عرض چکا کہ نماز جیسی کربلا میں پڑھی گئی، ویسی نماز تاریخ عالم میں کبھی نہیں پڑھی گئی۔ اس کے بعد حقوق الناس۔ کس نے پکارا اور مولا اُس کی لاش پر نہیں گئے ہیں؟ حالانکہ مقتل سے خیمہ گاہ کتنی دور ہے۔ مجاہد ہوتا تھا وہاں اور مولا ہوتے تھے یہاں۔ خیمہ گاہ جہاں ہے، وہاں سے وہ پکارتا تھا اور امام یہاں سے اُس کی لاش پر جاتے تھے۔ یہ کب ہورہا تھا، تین دن کی بھوک و پیاس میں ،عرب کی دھوپ میں، عراق کی گرمی میں۔
ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ ہوسکتا تھا کہ کسی آواز پر عباس سے کہیں کہ تم چلے جاؤ۔ کسی کی آواز پر علی اکبر سے کہیں کہ تم چلے جاؤ۔ خدا کی قسم! غلاموں کی صدا پر عباس چلے جاتے تو بھی اسے فخر ہوجاتا۔ علی اکبر چلے جاتے تو بھی اسے فخر ہوجاتا۔ مگر مولا سے کیونکر ممکن تھا کہ حبیب کی لاش پرخود جائیں اور جَون، غلام ابو ذر کی لاش پر کسی او رکو بھیج دیں؟ نہیں، جو بچپن کے دوست کی لاش پر گیا ہے، وہی غلام ترکی کی لاش پر بھی جائے گا، وہی غلامِ ابوذر کی لاش پر بھی جائے گا۔ او رجو علی اکبر کی لاش پر گیا ہے، وہی حُر کے لاشے پر بھی جائے گا۔اب کتنی پیاس مولا کی بڑھ گئی، کتنی مشقت بڑھ گئی۔مگر حقوق الناس میں یہ تفریق نہیں ہوسکتی۔
اس کے بعد بڑے سخت سے سخت ماحول میں حقوق الناس کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ہمارے ہاں تو سلام کے معاملہ میں ہر چھوٹے اور بڑے کی تفریق ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔بڑا مستثنیٰ ہے۔ خیمے میں کون تھا جو مولا سے چھوٹا نہ ہو؟ مگر جب رخصت آخر کیلئے ، کیا رخصت آخر نزاکت وقت کو اتنا بتاسکتی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ جب ابھی ایک چھوٹی سی قبر بناکر آرہے ہیں اور اس عالم میں حقو ق الناس کا یہ خیال کہ درِ خیمہ پر کھڑے ہو کر صدا دے رہے ہیں:”اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یَازَیْنَبُ،اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یااُمِ کُلْثُوْم
“۔ یہ تو بہنوں کو سلام ہوگیا، اور ”اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یَا سَکِیْنَه ،اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یَا فَاطِمَه
“۔ یہ بیٹیوں کو سلام ہوگیا۔ ”اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یَا لَیْلٰی،اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یاَرُبَابُ
“۔ یہ بیویوں کو سلام ہوگیا۔
”اَلسَّلامُ عَلَی اللِّوَاتِیْ قُتِلَ اَزْوَاجُهُنَّ وَاَوْلَادُهُنَّ فِیْ نُصْرَتِیْ
“۔
”سلام ہو اُن خواتین پرجن کے شوہر اور جن کے عزیز میری نصرت میں جان نثار کرگئے“۔
لیجئے! اُم وہب کو سلام ہوگیا اور زوجہ مسلم ابن عوسجہ کو سلام ہوگیا۔ اب کیا فرماتے ہیں:
”اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یَا فِضَّة
“۔
”ارے فضہ! تمہیں بھی میرا سلام ہو“۔
یہ حضرت فاطمہ زہرا کی کنیز ہیں۔فضہ کو سلام ہوگیا۔ یہ ہیں حقوق الناس۔ مگر بڑا سخت موقع ہے جو عرض کررہا ہوں۔ مجھے اسی پر مجلس ختم کردینی چاہئے مگر ابھی تھوڑا آگے بڑھنا ہے کہ مولا کے دل پر داغ تھا کہ اسلام میں اور مسلمانوں میں دفن کرنا سب سے اہم بات ہے مگر میں اپنے ساتھیوں کے لاشے دفن نہیں کرسکا ہوں۔ہاں! احترامِ میّت جتنا ممکن تھا، جہاں تک ممکن ہوا، کسی لاش کو میدان میں نہیں رہنے دیا۔ یہاں پر ذرا سی تفریق ہے۔ جب تک اصحاب رہے، لاشے اٹھوائے اور جب دل کے ٹکڑوں کی باری آئی تو خود اٹھائے ، خود لاشے اٹھائے۔کسی کو رہنے نہ دیا۔سوائے اس کے جس کی لاش نہ اٹھ سکتی ہو۔ورنہ بھلا مولا ، جو غلامِ ابوذر تک کی لاش کو اٹھوائیں، وہ عباس کے لاشے کو رہنے دیں؟
ماشاء اللہ ، اجرکم علی اللہ، مجلس ہوگئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ چند لفظوں میں سورہ کی عملی تفسیر کو پورا کردوں۔ اربابِ عزا! احترام میّت جتنا ممکن تھا، اتنا کیا مگر مولا کو یہ صدمہ رہ گیا کہ دفن نہیں کرسکا۔ مگر دنیا کو دکھادیا کہ دیکھو! یہ وقت کی مجبوری ہے مگر میں اس فرض کو بھولا نہیں ہوں۔ اس لئے ایک چھوٹی سی لاش کو دفن کرکے میں فریضہ اسلامی کو بھی ادا کردوں گا۔ علی اصغر کی لاش کو بے دفن نہیں رہنے دوں گا۔
اب آگے بڑھتی ہے آیت کہ”(
وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ
)
“، ا یک دوسرے کوحق کی ہدایت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! مولا نے جتنے خطبے پڑھے ہیں، اس میں اپنا تعارف کروایا ہے کہ میں کون ہوں؟ میں کون ہوں؟یہ ہرگز اُمید نہیں تھی کہ وہ راہِ راست پر آجائیں گے مگر یہ ”(
وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ
)
“، کو ادا کرنا تھا۔