معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68137 / ڈاؤنلوڈ: 6752
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

اسلام اور ادیانِ عالم ۳

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِی الْاٰخِرَة مِنَ الخَاسِرِیْنَ ) “۔

جو اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے گا، وہ اُس سے قبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

یہ اس کا ترجمہ ہے۔ کوئی مفہوم اس کا ایسا نہیں کہ ترجمہ کچھ اور ہو اور مطلب اس کا کچھ اورہو۔ ایک سوال اس موضوع سے متعلق مجھ سے کیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سوال کچھ اور ذہنوں میں بھی موجود ہو۔ لہٰذا اس کی مختصر تشریح کردوں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں ہوگا۔ بہت سے غیر مسلم ہیں جو ایسے گھرانوں میں پیدا ہوئے کہ انہوں نے اپنے دھرم کے سواکسی مذہب کی تعلیم سنی ہی نہیں۔ اسلام کی تعلیمات ان کے گوش زد ہوئے ہی نہیں۔ تو چونکہ ایک ماں باپ کے ہاں پیدا ہوئے تھے اور چونکہ ایک خاندان میں نشوو نما پائی تھی، لہٰذا وہ اپنے اُسی مذہب پر آخر تک قائم رہے۔ اس گھر میں پیدا ہونا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس ماحول میں نشوو نما پانا ان کے اختیار کی بات نہیں تھی۔ یہ اسباب ہوئے کہ مذہب حق سے روشناس نہ ہوسکے اور اپنے غلط مذہب پر آخر دم تک قائم رہے۔ ایسے افرادکیوں گھاٹا اٹھائیں؟ان کو آخرت میں خسارہ کیوں ہو؟

یہ بہرحال ایسا سوال ہے جو اس موضوع کاایک لازمی جزو ہے۔اس بناء پر میں نے اس سوال کو موضوعِ بیان قرار دیا۔ اب اس سوال کے حل کرنے کیلئے تمہیداً یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں دو نقطہ نظر ہیں: ایک نقطہ نظر تو ان افراد کا ہے جو اللہ کیلئے عدالت ضروری نہیں سمجھتے جنہوں نے اصولِ دین کو عدالت سے محروم کردیا ہے۔ ان کا تصور یہ ہے کہ اللہ قادرِ مطلق ہے۔ جب قادرِ مطلق ہے تو اس پر کسی کو پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے اور ایسا ہرگز نہ کرے۔یہ پابندیاں عائد کرنا اس شخص کیلئے ہیں جو عاجز ہو، مجبو رہو اور کسی دوسرے کے زیر اختیار ہو۔ لیکن جو خود قادرِ مطلق ہے، اس پر یہ پابندیاں عائد کرنا کہ وہ ایسا ضرور کرے اور ایسا ہرگز نہ کرے، غلط ہے۔لہٰذا چونکہ اس کی قدرت لامحدود ہے، اب جو شخص کوئی راستہ اختیار کرتا ہے تو اُسے قرآن سے بھی سند مل جاتی ہے۔ قرآن میں ہے:

لَا یُسْئَلُ عَمَّایَفْعَلُ وَهُمْ یُسْئَلُوْنَ “ ۔

اس سے کوئی سوال نہیں ہوسکتا ، جو وہ کرتا ہے کہ اس نے کیوں کیا۔ ہاں! دوسرے لوگوں سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ خد اکے ہاں جب یہ ہے تو اس کے ہاں عدالت کی پابندی عائد کرنا صحیح نہیں ہے۔یہ ان کا نقطہ نظر ہے جس کو میں ں ے پوری قوت سے بیان کیا۔ اب رَد اس کی مفصل عرض نہیں کرنا ہے۔ مجملاً یہ ہے کہ انہوں نے خدا کی قدرت کو سلاطین بااقتدار کی لاٹھی سمجھا ہے کہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی، اُس کی بھینس۔یہ وہ فلسفہ ہے جو طاقت کو حق سمجھتا ہو، یہ اس کا نظریہ ہے۔ چونکہ قادرِ مطلق ہے، لہٰذا جو چاہے کرے۔ تو سلاطین باقتدار کی طاقت کا جو تقاضا ہواکرتا ہے، اُسے اللہ پر مسلط کردیا ہے۔اب میں اپنے الفاظ میں کہہ رہا ہوں۔ وہ ان کے الفاظ میں ترجمانی تھی۔ میں کہتا ہوں کہ چونکہ وہ قادرِ مطلق ہے، لہٰذا اس کی نہ داد نہ فریاد۔ وہ جو چاہے کرے۔ چنانچہ ان کے ہاں یہ ہے کہ اگر کوئی عمر بھراطاعت کرے، بالکل ایک دفعہ بھی گناہ نہ کرے تو ممکن ہے کہ اللہ اُسے دوزخ میں ڈال دے او رجو عمر بھر نافرمانی کرتا رہے، اُسے جنت میں بھیج دے۔اپنے منظورِ نظر افراد کو جنت میں بھیجنے کیلئے کیسے کیسے چور دروازے تلاش کئے ہیں۔

جناب! اتفاق سے اکثریت اس نظریہ کے حامی افراد کی ہے مگر اس نظریہ کی بنیاد پر تو اس سوال کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔اس نے کہہ دیا کہ جو اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے تو وہ قبول نہیں ہوگا۔چاہے بس ہو، چاہے بے بسی کے ساتھ ہو۔ جو اُس نے کہہ دیا ہے، اُسے مانئے۔ اگر قرآن کو مانتے ہیں ، اس نے چونکہ یہ کہہ دیا ہے، لہٰذا اس سوال کا محل ہی نہیں ہے۔بالکل ٹھیک ہے، بالکل مجبو رہے، بالکل بے اختیار ہے، وہ بیچارہ ہے، اُس نے سنا ہی نہیں تھا مگر بہرحال اسلام کے علاوہ دوسرے راستہ پر ہے اور اُس کا کام ہے جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنا اور اُس نے کہہ دیا ہے کہ ہم جنت میں اُسے بھیجیں گے جو مسلم ہو اور جو غیر مسلم ہوا، اُسے ہم ہرگز نجات نہیں دیں گے۔

تو اب چاہے وہ بے بس ہو، چاہے کچھ ہو، ہے توغیر مسلم۔تواس کے فرمان کے مطابق اس کیلئے یہی انجام ہے جو قرآن نے کہہ دیا۔یہ ان کے نقطہ نظر سے ہے یعنی پھر کسی زحمت تفکرکے اٹھانے کی حاجت نہیں ۔سوچنے کی حاجت نہیں۔ بس کہہ دیا آپ کا کیا اجارہ ہے۔ وہ اُسے دوزخ میں بھیج رہا ہے۔ وہ چیخے یا آپ فریاد کیا کیجئے۔نہ اُسے حق چیخنے کا ہے ، نہ آپ کو فریاد کرنے کا۔ یہ تو ان کے نقطہ نظر سے ہے اور اکثریت اسی نقطہ نظر کی ہے۔ وہ آسودہ ہے یعنی اس کو اس سوال کے جواب کی کچھ زحمت نہیں اٹھانا مگر اس بارے میں ہماری ذمہ داری بہت زیاد ہ ہے کہ ہم اللہ کو عادل مانتے ہیں تو ہم لوگ عجیب مصیبت میں گرفتار ہیں۔یہ کتنی کٹھن منزل ہے او رہماری تو جتنی منزلیں ہیں، سب ہی کٹھن ہیں۔

صاحب! ہم ایسے ہیں کہ ہم کو اللہ کی وکالت بھی کرنا ہے، جب کوئی اس کی بات کرے اور ہمیں یہ محسوس ہو کہ یہ اللہ بلندی کے خلاف ہے تو ہمیں اللہ کی طرف سے بھی وکالت کرنا ہے۔ آدم سے لے کر نبی تک ہر نبی کی وکالت کرنا ہے۔آدم کے دامن پر گناہ کا دھبہ آئے تو صفائی کیلئے ہم بڑھیں۔ یوسف کے دامن پر کوئی دھبہ آئے تو ہم بڑھیں۔ سب کے وکیل ہم ہیں۔ ہم پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ثبوت کا بار ہے۔

اپنے آئمہ کیلئے ظاہر ہے کہ ہمیں ہی آگے بڑھنا ہے۔ جی نہیں! گناہ نہیں ہے۔ کسی نہ کسی رُخ سے ہمیں ثابت کرنا ہے کہ یہ گناہ نہیں ہے۔ وہ بہرحال معصوم ہیں۔ دنیا یہاں بھی آسودہ ہے یعنی کسی مسئلہ میں بحث کی ضرورت ہی نہیں۔کہیں کسی نبی کے کردار پر اعتراض ہو تو کہیں گے کہ گناہ کیا تو کیا ہوا، آدمی ہی تو تھے!ہمارے لئے بڑی مصیبت ہے۔ ہمیں اس مصیبت میں اعتماد نے ڈالا۔انہیں مصیبت سے رہائی دی، اپنی طرف کمزوری کے احساس نے۔ ہمارے اعتماد نے ہم کو مصیبت میں یوں ڈالا کہ ہم جنہیں مان رہے تھے، ان کے متعلق یہ بھروسہ تھا کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے۔لہٰذا ہم نے جب وصی نبی کواس منزل پر مانا تو وہ رسول جس کے یہ جانشین ہوں، اُسے کیونکر گناہگار مان سکتے تھے۔

دیکھئے!ہم ادھر سے چلے ہیں کہ جب یہ معصوم ہیں تو ناممکن ہے کہ انبیاء و مرسلین گناہگار ہوں۔ لہٰذا اس تصور نے کہ یہ معصوم ہیں، اس اعتماد نے ہم پر ایک لاکھ چوبیس ہزار عصمتوں کا بوجھ ڈال دیا اور جب انبیاء معصوم ہیں، اللہ کے ہاں ایسی بات کیونکر ہوسکتی ہے کہ جو اس کے معیارِ عظمت کردار کے خلاف ہو۔ یاد رکھئے کہ اللہ کے ہاں عظمت کردارکانام عدالت ہے، انبیاء و آئمہ کے ہاں عصمت ہے۔

پس ہم اللہ کیلئے بھی وکالت پر مجبو رہوگئے ۔ یہاں سے ہم چلے تھے، وہاں پہنچے۔ وہ بھی یہیں سے چلے او رنہ جانے کہاں پہنچے؟ ایسے افراد سے مجھے ہمدردی ہے ۔ انہیں ایسے اشخاص کو بلندی دینا ہوئی یا ماننا پڑی کہ جن میں داغ دھبے ہیں۔

اب نگاہ میں یہ ہے کہ رسول کا جانشین ہے اور یہ ایسا ہے۔ اس با ت کی اہمیت کو نگاہ میں کم کرنے کیلئے یہ کہا کہ اس کا کیا ذکر ہے، اس کیلئے ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ معصوم ہو؟ گویا ضمیر گوارا نہیں خرتا مطلق طور پر کہنے کو کہ انبیاء معصوم نہیں ہیں۔ جی ضرور معصوم ہیں مگراس میں ایک مگر آجاتا ہے۔معصوم ہیں مگر قبل بعثت نہیں ہیں یا یہ کہ وہ جو ارادة گناہ ہوتے ہیں، اس کے لحاظ سے معصوم ہیں۔ مگر ان سے سہوونسیان سے گناہ ہوجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ایک عدد ”مگر“ ضرور آجاتا ہے۔ بس انسان کو یہ سہارہ ہوجاتا ہے کہ جب رہنما میں یہ باتیں ہیں تو کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا جب نبی کی سطح یہ مان لیں گے تو ظاہر ہے کہ ”وزیرے چنیں شہریارے چنیں“۔جب انبیاء کے ہاں عصمت پوری مکمل ضروری نہیں تو اللہ کے ہاں عدالت پوری مکمل کیوں ضرورت ہو؟ وہ جو چاہے کرے۔

مگر اب ہم ہیں سب کے وکیل۔ہمیں سب کی نمائندگی کرنا ہے۔ ہم اللہ کو عادل سمجھتے ہیں تو عدالت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ شخص جو اس ماحول میں پیدا ہو، اس ماں اور باپ کے ہاں پیدا ہو، اگر بالفرض ایسا ہو، حالانکہ اس دَورِ تمدن و تہذیب اور کثرتِ روابط و تعلقات میں ایسا ممکن نہیں ہے لیکن بالفرض کوئی ایسا ہو کہ کچھ گوش زد ہی نہ ہوا ہو، اس کو اپنے مذہب کے سوا، اس کے ذہن میں کبھی آیا ہی نہ ہو کہ کوئی مسلم بھی قوم ہے، اُسے پتہ ہی نہ چلا ہو کہ اسلام بھی کوئی چیز ہے اور اس نے آنکھ کھول کر جیسے کال کوٹھڑی میں ، بس تاریکی ہی تاریکی دیکھی۔اس نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو بس اپنے مذہب کو پایا۔ اس تک صدائے حق پہنچی ہی نہیں۔ اس تک نامِ اسلام گیا ہی نہیں۔ اس نے رہنمایانِ اسلام کا نام کبھی سنا ہی نہیں۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ شبہ پیدا ہوا ہی نہیں کہ شاید اسلام حق ہو۔ کبھی اس کے ذہن میں یہ تصور ہی نہیں ہوا کہ ممکن ہے کوئی دوسرا راستہ اسلام ہی نہیں ، عیسائیت حق ہو،یہودیت حق ہو۔ایسی کوئی بات اس کے ذہن میںآ ئی ہی نہیں۔

اگر بالفرض ایسی مخلوق پائی جاتی ہو، ایسا آدمی موجود ہو تو چونکہ خدا ہمارا عادل ہے ، تو اس کو ہرگز سزا اس کے کفر کی نہیں ملے گی اگر وہ واقعی مجبو رتھا۔لیکن اگر اُس نے سب نام دوسرے مذاہب کے سنے اور پھر بھی دماغ آسانی کی بناء پر، ذہنی کاہلی کی بناء پر اپنے سابق مذہب سے محبت کی بناء پر ، اپنی آبائی روایات سے اُنس کی بناء پر، اس کی وجہ سے اس نے کبھی سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ کوئی دوسرا مذہب حق ہے، تو پھر ایسا منکراپنی کسی اختیاری کوتاہی کی بناء پر قابل معافی نہیں ہے۔ جب بہت سے راستے اس کے گوش زد ہوئے تو کیا رسول کی آواز سننے کی ضرورت نہیں تھی؟ قرآن کی آیتیں پہنچنے کی ضرورت نہیں تھی اس تک کہ کوئی حافظ قرآن جاکر اُسے قرآن سنائے یا کسی عالم کی ضرورت نہیں تھی کہ جاکر اُسے حدیثیں سنائے، جاکر اُسے رسول کا پیغام سنائے۔

اس کی جو عقل تھی، وہ اس کی طرف کا رہنما تھی جو اس پر یہ فریضہ عائد کرتی تھی کہ تم کو خود تحقیق کرنا چاہئے۔ جب بہت سے راستے ہیں تو تم کو تلاش کرنا چاہئے کہ کونسا راستہ صحیح ہے اور اگر ایسا نہیں کیا تو وہ اس رہنما کی نافرمانی کی وجہ سے ہے جسے خالق نے اسی لئے رکھا تھا۔

اس نے اس رہنما کو عقل کی صورت میں ہر ایک کے اندر رکھ دیا تھا۔ اس رہنما کی وجہ سے یہ اب موردِ عتاب ہوسکتا ہے اوراللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ وہ اُسے سزا دے کہ گوش زد تو ہوا اسلام کا نام تو پھر تم نے معلوم کیوں نہ کیا کہ اسلام کیا چیز ہے؟پھر تم نے دریافت کیوں نہ کیا کہ اسلام کسے کہتے ہیں؟ اوریہ وہ کافر ہی نہیں ہیں ، بہت سے مسلمان ہیں جو عمر گزرجاتی ہے ، نمازصحیح نہیں پڑھتے ، اس لئے کہ بیچاروں کو مسئلے معلوم نہیں ہیں، اس لئے کہ مسئلے معلوم کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔عالم مل بھی گیا تواس سے پوچھیں گے کہ فلاں امام کی کتنی لڑکیاں تھیں؟ ا س سے یہ پوچھیں گے کہ فلاں شہزادے کی کتنی عمر تھی؟ یعنی سب کچھ وہ پوچھیں گے جس سے اپنے عمل کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جو اپنا عمل ہے، اُسے کبھی نہیں پوچھیں گے کہ وضو کس طرح کریں تو صحیح ہوگا۔ غسل کس طرح کریں تو صحیح ہوگا۔نماز کس طرح پڑھیں تو صحیح ہوگی۔

تو یہ ہے تو سہی کہ کہیں بیچارے جاہل ہیں، بیچارے ناواقف ہیں لیکن ان کیلئے تو معصوم نے صراحتاً کہا ہے کہ روزِ قیامت اُسے بلائیں گے اور اس سے کہیں گے کہ تو نے صحیح عمل کیوں نہ کیا؟ وہ جواب میں کہے گا کہ مجھے علم نہیں ہوا۔ ارشاد ہوگا کہ تم نے علم حاصل کیوں نہ کیا؟ تم نے مسائل سے واقفیت حاصل کیوں نہ کی؟ اس کے بعد کوئی جواب نہیں۔ تو جوذرائع کے نہ موجود ہونے کی وجہ سے مجبوراً غلطی پر رہے۔ اس کو جاہل قاصر کہتے ہیں۔ وہ جاہل قاصر ہے اور اسے جاہل مقصر کہتے ہیں۔ قصور وار۔یعنی بہ اختیارخود تقصیر کرنے والا جاہل۔ یہ معاف نہیں ہے۔ تو کافر اگر قاصر میں داخل ہو تو اُسے سزا نہیں مل سکتی لیکن اگر وہ مقصر میں داخل ہے تو اس دورِ تمدن و تہذیب میں کوئی ایسا آدمی سوچنا مشکل ہے کہ جس تک آوازِ اسلام پہنچی ہی نہ ہو۔جس نے نامِ اسلام سنا ہی نہ ہو۔ آجکل ذرائع کی اتنی وسعت ہے ، لوگ اخبار پڑھتے ہیں۔ اس میں نام آتے ہیں۔ ریڈیو سنتے ہیں،اس میں نام آتے ہیں۔ ٹی وی پر مختلف لوگوں کے جلوس تفریحاً دکھائے جاتے ہیں۔ مگر اس سے اللہ کی حجت ہر ایک پر ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا اس دَور میں اس قسم کے کافر کا وجود نہیں ہے جس نے نامِ حق سنا ہی نہ ہو۔ اس صورت میں آجکل تو یہ کلیہ ہے:

وَمَنْ یَتْبغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِی الْاٰخِرَة مِنَ الخَاسِرِیْنَ “۔

جو اسلام کے علاوہ کسی دین کو اختیار کرے یا کسی دین پر قائم و برقرار رہے ، وہ ہرگز قبول نہیں ہوگا اور آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوگا اور حق بجانب طور پر ہوگا کیونکہ اس نے عملی کوتاہی کی۔

ہاں! فرض کیجئے کہ ذوقِ تخلیق پیدا ہوا مگر مذاہب اتنی کثرت سے ہیں کہ وہ تحقیق میں مصروف ہوگیا لیکن منزل تک نہ پہنچ سکا تو اب فقط یہ کہ سزا سے بچے گا بلکہ اس کی جدوجہد کا اجر بھی ملے گا۔

اتنا بیان تو اس سوال کی خاطر ہوا۔ اب اسلام کی خصوصیات پر آئیں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ اس کا تعلق کسی محدود فرد یا محدودجگہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ذاتِ الٰہی سے ہے۔ لامحدود پیغام ہے اور ایسی ذات کی طرف سے ہے جس سے کوئی بیگانگی کا اعلان نہیں کرسکتا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہٰذا اس میں صلاحیت خود اس کے نام میں ہمہ گیر ہونے کی ہے۔

دوسری خصوصیت یہ کہ اسلام دین کائنات ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔ کوئی الگ سے بار نہیں ہے جو انسان پر عائد ہوتا ہو بلکہ وہی فطرت کا تقاضا جو ہے، اسی کا مطالبہ ہے یعنی جب پیدا ہوا تھا ، جب بھی قانونِ الٰہی کی اطاعت کرتا ہواآیا تھااور اسی کی اطاعت کا نام اسلام ہے۔یہ ایک مفہوم اس حدیث کا ہے۔ کلامِ رسول کی خصوصیت یہ ہے کہ کتنے ہی پہلو اس میں ہوتے ہیں اور کتنے ہی معنی اس میں پیدا ہوتے ہیں۔ ارشادِ رسول ہے:

کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی فِطْرَة الْاِسْلَامْ اِنَّمَااَبْوَاهُ یُهَوِّدَانِه اَوْ یُنَصِّرَانِه اَوْیُمَجِّسَانِه “۔

ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اُسے یہودی بنادیتے ہیں یا یہودی رکھتے ہیں یا نصرانی بنادیتے ہیں یا نصرانی رکھتے ہیں اور آتش پرست۔

یہ نام بھی بطورِ مثال ہیں کہ جو کوئی کسی غلط راستے پر قائم ہوتا ہے، سوائے اسلام کے ، وہ درحقیقت ماحول کا دباؤ ہے جیسے یہودیت، نصرانیت بطورِ تمثیل نام ہیں۔ ویسے ہی ماں باپ کا نام بطورتمثیل ہے۔ ماں باپ کے معنی صرف ماں باپ ہی نہیں ہیں بلکہ جو ماحول، جو بزرگ جس کے زیر سایہ اس نے نشوو نما پائی ہو، وہ اس میں مضمر ہیں۔ درحقیقت وہ اسے غلط راستوں پر لگا دیتے ہیں۔ یہ حدیث میں نے پڑھی کہ ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور تربیت یا ماحول اُسے غلط راستے پر چلاتا ہے۔ تو جہاں تربیت فطرت سے ہم آہنگ ہو، اس کے متعلق اس سوال کی گنجائش کب ہوگی کہ کب اسلام لایا۔

وہ بچہ جس کے بچپن کی بناء پر سوال ہوتا ہے کہ چونکہ بچہ ہے، لہٰذا اس کے اسلام کی کیا اہمیت ہے۔ مگر اتفاق سے وہ بچپن ہی اس کا جوہر ہے۔ مجھے بھی بچے کو بوڑھا بنانے کا شوق نہیں ہے۔ جو بچہ ہے، وہ تو بچہ ہی ہے لیکن یہ کہ وہ بچہ ایسا ہے کہ پیغمبر کے زیر تربیت ہے۔ اس سے اس کی قدرتِ ادراک بھی نمایاں ہوتی ہے۔یعنی جو مربی عالم بننے والا ہے، اس کے آفتابِ تربیت کی تمام شعائیں اس ایک شخص پر مرتکز ہیں۔

کس طرح وہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے اُردو ادیبوں کے ذہن پر یہ تشبیہ بار ہوسکتی ہے کہ اُردو میں اسے نظم کیا جائے تو وہ خوبصورت شعر نہیں ہوگا۔ لیکن کمالِ تشبیہ کا انحصار ماحول پر ہے۔ عرب کا ماحول، اس میں حضرت علی علیہ السلام ، جن کی فصاحت و بلاغت کیلئے اُدباء کا مقولہ یہ ہے کہ تحت کلام خالق و فوق کلام مخلوق۔خالق کے کلام کے نیچے ہے اور تمام مخلوق کے کلام کے اوپر ہے۔ امیرالمومنین یہ تشبیہ ارشاد فرماتے ہیں:

”میں اس طرح پیغمبر کے پیچھے پیچھے رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے پیچھے رہتا ہے“۔

اب اس بچپن میں جبکہ ہر وقت مربی پیچھے پیچھے رہتے ہیں، قوتِ ادراک و احساس کیا ہے کہ فرمارہے ہیں:

کُنْتُ اَرَاُنْوَرنُبُوَّة وَاَشْمُّ رِیْحَ الرِّسَالَة “۔

”میں نبوت کی روشنی میں دیکھتا تھا اور رسالت کی خوشبو سونگھتا تھا“۔

کوئی کہے کہ رسالت کی خوشبو ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن میں پڑھ کر آپ بتائیے کہ کیا قمیصِ یوسف کی کوئی خوشبو تھی؟ جیسی خوشبو ہوتی ہے، ویسا مشام چاہئے۔ پھولوں کی خوشبو جسمانی مشام والے سونگھیں گے اور نبوت کی خوشبو وہ ہے جونبوت کے ہم جنس منصب کا کوئی آدمی سونگھے۔

میں نبوت کی روشنی دیکھ رہا تھا اور رسالت کی خوشبو سونگھ رہا تھا۔ نبی کی خوشبو نہیں کہہ رہے ہیں، رسول کی خوشبو نہیں کہہ رہے ہیں۔ جی نہیں! جو جوہر ان میں ہے، نبوت کی روشنی اور رسالت کی خوشبو۔ تو جو قبل رسالت ، قبل بعثت نبوت کی روشنی دیکھتا اور رسالت کی خوشبو سونگھتا ہو، اس کیلئے پوچھئے گا کہ کب ایمان لایا اور اس نے کب اسلام اختیار کیا۔رسول کی بعثت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چالیس برس کی عمر میں مامور ہوئے بلکہ چالیس سال کی عمر میں اعلانِ رسالت کا حکم ہوا۔دعوائے رسالت پر مامور ہوئے ورنہ نبی تو پہلے سے تھے۔ میں اس کی روشنی میں کہوں گاکہ تاریخ کی نگاہ مشاہدات کو دیکھتی ہے۔ ایمان کا تعلق غیب سے ہوتا ہے۔

اس لئے تاریخ میں یہ ہے کہ ستائیس رجب کو ۴۰ عام الفیل میں رسول مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ یہ تاریخ والی رسالت ہے اور حقیقت کے لحاظ سے رسالت:

کُنْتُ نَبِیًّاوَاٰدَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَالطِّیْنِ “۔

”میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم کا پتلا آب و گل میں تھا“۔

بس میں کہتا ہوں کہ جس نوعیت کی رسالت ان کی تھی، اس نوعیت کا علی کا ایمان تھااور جس معنی سے یہ آج رسول ہوئے، اس معنی سے یہ آج ایمان لائے۔

فطرت آغازِ عمر انسانی سے جو عمل کرواتی ہے، اس کا نام اسلام ہے۔ بعدمیں الگ سے کوئی بوجھ نہیں پڑنا ہے، کوئی دباؤ نہیں پڑنا ہے۔ جو کام اب تک جبری طورپر کرتے رہے ہو، اب اختیاری طور پر کرو۔ اس کی اطاعت اب تک برابر کررہے تھے مگر اپنے شعورِ ادراک سے نہیں کررہے تھے۔ اب شعوری طور پراپنے اختیار و ادراک کے ساتھ اس کی اطاعت کو۔ اس کے پیغام کو قبول کرو تو اس کا نام آئینی اسلام ہوگا۔وہ حقیقی قدرتی اسلام تھا، یہ اختیاری اپنے عمل کا اسلام ہوگا جو اس وقت سے تم اختیار کرو گے۔اس لئے اُس وقت کی اطاعت کی کوئی جزا نہیں ہوگی۔ اس وقت جو اطاعت کروگے، اس کی تمہیں جزا بھی ملے گی اور جزا کا دینا بھی فضل کرم ہے ورنہ مخالفت میں سزا ہے، موافقت میں جزا کا استحقاق دنیا میں نہیں ہواکرتا۔ یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے موافقت میں جزا کا اعلان کیا۔یہاں تک کہ جو گناہوں سے توبہ کرے، توبہ کے معنی یہ ہیں کہ غلط راستے سے صحیح راستے پر آئے ۔ تو یہ نہیں ہے کہ وہ سزا ختم ہوجائے گی جو گناہوں کی تھی بلکہ یہ توبہ کرنا بھی ایک حسنہ ہے، ایک نیکی ہے جس کی جزا ملے گی۔

تیسری خصوصیت اسلام کی یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو انسان سے متعارف کروایا۔ یعنی دنیا کے سامنے اس سے پہلے دور دور کی چیزیں تھیں مگر یہ نہ سمجھا تھا کہ انسان کیا چیز ہے۔ انسان شناسی کی منزل دور تھی۔ چونکہ انسان، انسان شناسی کی منزل سے دور تھا، اس لئے خدا شناسی سے دور تھا۔ ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ ”مَنْ عَرِفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه “، جس نے اپنے کو پہچانا کہ م یں کون ہوں۔ وہ اپنے پروردگار کو بھی پہچان لے گا کہ وہ کیا ہے۔ بعض جگہ ہے کہ یہ کلامِ رسول ہے۔ بعض جگہ یہ ہے کہ یہ کلامِ امیرالمومنین ہے۔ بعض جگہ بلند حکماء کے نام ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ جملے کے بلند قیمت ہونے کا ثبوت ہے کہ ہر بڑے آدمی پر پورا اترتا ہے۔ جنابِ امیرالمومنین کا کلام ہو،تب بھی بالواسطہ رسول کا کلام ہے اور خود رسول کا ہے تو رسول کا ہے ہی۔ بہرحال جو اپنے کو پہچانے کہ میں کون ہوں، اس کے بہت سے رُخ ہیں اور کلامِ رسول کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک جملہ ہوتا ہے اور اس میں معنی کے دفتر پنہاں ہوتے ہیں۔

مَنْ عَرِفَ “، جو اپنے کو پہچانے، اس کو میں اُردوکے الفاظ میں یوں کہوں گا کہ خود شناسی خداشناسی کا ذریعہ ہے۔ یہ کیونکر ہے؟ انسان نے یہ نہ سمجھا کہ انسان کیاہے؟ اس لئے پتھروں کے سامنے جھکا۔ انسان نے یہ نہ جانا کہ انسان کیا ہے، لہٰذا درختوں کے سامنے جھک گیا۔ انسان نے یہ نہ جانا کہ انسان کیا ہے، لہٰذا اپنے جیسے انسانوں کے آگے جھک گیا اور اپنے ایسے انسانوں کے آگے جھکا تو اگر جھکنا ہوتاتو گھر والوں کے سامنے کیوں نہ جھکا؟ اپنے محلے والوں کے سامنے کیوں نہ جھکا، خود اپنے سامنے کیوں نہ جھکا؟ جس انسان کے سامنے جھکا، اگر دولت مند کے سامنے جھکا تو انسان کے سامنے جھکنا نہیں ہے۔ اس دولت کے سامنے جھکنا ہے۔ اگر سلطان کے سامنے جھکا تو وہ انسان کے سامنے جھکنا نہیں ہے، سلطنت کے سامنے جھکنا ہے۔ اس نے کسی صاحب قوت کے سامنے جھکنا اختیار کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قوتِ بازو کے سامنے جھکا۔وہ انسان کے سامنے جھکنا نہیں ہے اور انسان کے سامنے نہ جھکنے کا نتیجہ ہی ہے کہ انسان مرکز قربانی میں دھوکہ کھانے لگا کہ کس کی راہ میں اپنے آپ کو صرف کرے۔ اس لئے عمر گزاری دولت کے حاصل کرنے میں تو دولت پر جان دینے لگا۔عمر گزاری شہرت حاصل کرنے میں تو شہرت پر جان دینے لگا۔ عمر گزاری کسی منصب کے حاصل کرنے میں تو منصب پر جان دینے لگا۔اصولِ دین میں خدا شناسی کی منزل سے دور ہوا ، انسان ناشناسی سے اور کردار کی منزل میں غلط مصارفِ حیات میں اپنے جوہر کو صرف کرتا رہا۔

یہ بھی انسان کے نہ پہچاننے کا نتیجہ ہے ۔ اگر یہ سمجھتا کہ یہ انسان کیا ہے تو پہاڑوں کے سامنے نہ جھکتا،درختوں کے سامنے نہ جھکتا، حیوانوں کے سامنے نہ جھکتا، صاحب قوت، صاحب طاقت، صاحب زر کے سامنے نہ جھکتا۔ پھر ڈھونڈتا اُسے جو اس سے اونچا ہوتا تاکہ اس کے سامنے جھکے اور اپنے سے اونچا سوائے اپنے خالق کے کوئی اور نظر نہ آتا تو چاہے وہ نام نہ لے سکتا مگر اسی کے سامنے جھکتا اور اس کے سوا جو سامنے آتا، اس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیتا۔ یاد رکھئے غیروں کا انکار، یہ بھی مرکز توحید ہے ورنہ کلمے کی ابتداء نفی سے نہ ہوتی، مثبت سے ہوتی۔

اس لئے صرف انسان کو پہچاننے سے چاہے نام کے ساتھ اللہ تک نہ پہنچتا مگر لااِلٰہ کی منزل کو تو طے کرہی لیتا۔ اگراِلَّا کہہ کرچاہے چپ ہوجاتا مگر زبانِ بیان چپ ہوتی، دل کی آواز چپ نہ ہوتی۔دل اسی کی طرف مڑتا جواِن سب سے بالا تر ہو اور وہ اللہ ہے اور اس کو ماننا کوئی کام کا محتاج نہیں ہے۔ ضمیر کسی کا نام نہیں ہوتا۔ وہ کہوں تو قبل میں جب تک ذکر نہ ہو تو پتہ نہیں چلے گا کہ ”وہ“ کون ہے۔لیکن صرف اللہ وہ ہے کہ جس کے ناموں میں”ھُوَ“ہے یا:

هُوَیَامَنْ لَا یُعْرِفُ اِلَّاهُوَیَامَنْ لَا یَعْلَمُ مَنْ هُوَ اِلَّاهُوَ “۔

اے وہ۔ یہ ان کیلئے ہے جو نام نہ لے سکتے ہوں۔ صرف اشارئہ ذہنی کرسکتے ہوں۔اب یہاں ایک جملے میں شروع والے سائل کا جواب کہ مَیں کہتا ہوں کہ اسلام کا نام اس بیچارے تک نہیں پہنچا، اس لئے اللہ اسے نہ آیا۔ لیکن ”وہ“ کا اشارہ تو اندر سے بلند ہوگا تو ”وہ“ کو مانا اور مسلم ہوا:

وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ “۔

”جو اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے گا تو وہ قبول نہیں ہوگا“۔

اگر اپنے کو جان لیتا کہ میں کون ہوں تو منزلِ توحید تک پہنچ جاتا اور اگر اپنے کو جان لیتا کہ میں کیا ہوں تو مقصد قربانی میں غلطی نہ کرتا۔ ہر چیز اپنے سے بالاتر کی خاطر قربان ہوتی ہے۔ زروجواہر کی خاطر اس نے جان دی تو زروجواہر کیا ہیں؟ پتھروں کاذخیرہ۔ اصل دولت سونا ہے اور سونا جمادات میں داخل ہے۔ یہ رنگساز کی بات ہے کہ سرخ رنگت اسے دی ہے تو اس کا نام سونا ہوگیا۔ مگر حقیقت کے لحاظ سے جو ٹھوکروں میں آنے والے پتھر ہیں، وہی سونا ، وہی چاندی، وہی لعل و جواہر ہیں۔ حقیقت کے لحاظ سے جمادات ہیں۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دولت کی خاطر جان دی تو اپنے سے تین زینے اُتر کر قربانی پیش کی۔تو اگر شہرت کی خاطر جان دی تو شہرت ہے بے اصل چیز۔ وہ کوئی اصلیت رکھتی ہی نہیں۔ اور اگر عہدہ کی خاطر جان دی تو عہدہ امر اعتباری ہے۔ امر اعتباری کا مطلب یہ ہے کہ جب تک لوگ سمجھ رہے ہیں اور سمجھنا چھوڑ دیا تو نہ رہا۔مثلاً ممبر ہے، منبر نہیں۔ یہ منبر وجودِاصلی رکھتا ہے اور وہ ممبر وجودِ اختیاری رکھتا ہے۔ جب تک سمجھ رہے ہیں ممبر ہے اور جب سے سمجھنا چھوڑ دیا، تب سے آدمی رہ گیا،ممبر نہ رہا۔جب سمجھ رہے ہیں چےئر مین ہے، جب سے لوگوں نے سمجھنا چھوڑ دیا، آدمی رہ گیا، چےئر مین نہ رہا۔

اور حضورِ والا!وزیر ہے، جب تک سمجھا گیا کہ وزیر ہے،جب سے سمجھنا ختم ہو گیا، اس وقت سے وزیر نہ رہا۔ کوئی کہیں کا صدر ہے، جب تک لوگ سمجھ رہے تھے ، تب تک قرار داد تھی، اس وقت تک صدر رہا اور جس وقت سے قرارداد بدل گئی، اس وقت سے صدارت ختم ہوگئی، آدمی رہ گیا اور صدر نہ رہا۔

سرکارِ والا! عہدہ چلاگیا تو پھر آدمی رہ گیا، عہدہ نہ رہا۔یہ اس وقت ہے جب عہدہ ملنے کے بعد آدمی رہا ہو۔ اگر عہدہ ملتے ہی آدمی کو رخصت کردیا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جب عہدہ گیا تو نہ عہدہ رہا، نہ آدمی رہا۔ بس آدمی کا مجسمہ رہ گیا اور کچھ نہ رہا۔سرکار! مرکز قربانی کا غلط استعمال انسان ناشناسی کا نتیجہ ہے۔ اگر سمجھتا کہ انسان کیا چیز ہے تو مرکز قربانی اسی کو بناتا جو اس سے بالا تر ہوتا اور اس سے بالاتر سوائے خالق کائنات کے کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا اسی کی راہ میں قربانی پیش کرتا۔ اسی لئے قرآن مجید نے کہیں نہیں کہاکہ جو قتل ہوئے ہیں، انہیں زندئہ جاوید سمجھو۔ ہرجگہ کہا:

اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ “۔

جو قتل ہوئے اللہ کی راہ میں۔ قتل ہونا آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے ، اللہ کی راہ آنکھوں سے نہیں دیکھی جاسکتی۔بسمل کا تڑپتا لاشہ دیکھا جاسکتا ہے،جسم پر زخموں کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں، سر کو قلم دیکھا جاسکتا ہے، بہتا ہوا خون دیکھا جاسکتا ہے مگر کس راہ میں ہے، یہ آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اسی لئے ضرورت ہے کہ جب آدمی جان دے تو کسی ایسے کی اجازت سے دے کہ حد امکان تک ضمانت ہو کہ یہ جان اکارت نہیں جائے گی، سوارت ہوگی۔ اسی لئے شریعت حقہ میں جہاد مشروط ہوگیا۔ یا امام ہو یا نائب امام ہو، ان کی اجازت جب تک نہ ہو، اس وقت تک جنگ ہوگی، جہاد نہیں ہوسکتا۔کوئی ضمانت تو ہو کہ ہمارا خون رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ کسی محفوظ ذخیرے میں جارہا ہے۔ جب اس طرح جائے تو جان گئی، نہیں رہی،حیاتِ فانی بدل گئی، حیاتِ باقی کے ساتھ اور یہ عمل مجازی نہیں ہے۔

ہرگز نمیرد انکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

یہ وہ شاعرانہ زندگی نہیں ہے بلکہ یہ وہ زندگی ہے کہ آثارِ زندگی قرآن نے مرتب کئے ہیں۔اگر فقط اتنا ہوتا :

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاءٌ “۔

”وہ جو راہِ خدا میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ زندہ ہیں“۔

کوئی کہتا یہ وہی حیاتِ جاوداتنی ہے جو کارناموں کے ساتھ ہوتی ہے۔ راہِ خدا میں جان دی تو حیاتِ جاودانی تو بے شک حاصل کی، ہمیشہ ان کا ذکر رہے گا، ہمیشہ ان کی یاد قائم رہے گی۔ یہ حیاتِ جاودانی بھی زندگی ہے مگر قرآن فقط اس زندگی کو نہیں کہہ رہا ہے جو مجازی زندگی ہے، وہ آثارِ زندگی مرتب کررہا ہے۔ کہتا ہے :

اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ “ ۔

وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں رزق حاصل کرتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے ہاں روزی حاصل کرتے ہیں۔ اب کھانا اور رزق تو زندہ سے متعلق ہے جو ویسی زندگی رکھتا ہو۔ اور اتنا ہی نہیں کہ وہ غذا حاصل کرتے ہیں، رزق حاصل کرتے ہیں:

فَرِحِیْنَ بِمَااٰتٰهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه “۔

وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کے اس فضل و کرم پر جو انہیں ملتا ہے۔

یہ احساسِ شعورِ زندگی جو خوشی اور انبساط کی صورت میں ہے، یہ دوسرا اثر زندگی ہے اور اتنا ہی نہیں کہ اپنے پس ماندگان سے بے خبر ہوجاتے ہیں بلکہ”فَرِحِیْنَ بِمَااٰتٰهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه “۔ یہ روایت نہیں ہے جو ضعیف اور قوی کا خیال ہو۔ یہ قرآن کی آیت پڑھ رہا ہوں۔ اس کا صرف ترجمہ کررہا ہوں، تبصرہ بھی نہیں ہے۔

میں کہتا ہوں کہ خوش ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں نعمتیں عطا کی ہیں۔ یہ تو جو نعمتیں ان کو عطا ہوئی ہیں، اس پر خوش ہیں۔ اس کا ذکر ہے اس اپنے شعورِ حال کا ذکر ہے، لیکن اس کے بعد:

وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْابِهِمْ “ ۔

اور یہ حالات دیکھ کر جو ان کے بعد دنیا میں رہ گئے ہیں، جو پس ماندگان ہیں ،ا ن کے حالات دیکھ کر اگر وہ قابل شکریہ ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں”یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْابِهِمْ “، اور ان کے حالات کو دیکھ کر جو ان کے بعد دنیا میں رہ گئے ہیں، پس ماندگان ہیں۔ان تک نہیں پہنچے یعنی دارِ دنیا میں زندہ ہیں ، انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ نہ ان کو خوف ہے ، نہ کوئی صدمہ ہے۔ یعنی بہ اطمینان زندگی ان کی بسر ہورہی ہے۔ وہ شہید کہیں ہوئے ہیں اور یہ پس ماندگان کہیں پر ہوں لیکن روایت نہیں، آیت کہہ رہی ہے کہ وہ ان کے حالات کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ تو یہ شہید ہیں، انہیں قرآن نے حاضر و ناظر نہیں کہا تو اور کیا کہا ہے؟ اگر وہ دیکھتے نہیں ہیں تو خوش کیسے ہوتے ہیں؟

اس کے معنی یہ ہیں کہ جو جہاں پس ماندگان میں سے ان کے ہے، ممکن ہے ایک کہیں ہو، دوسرا کہیں اور ہو۔ ایک کسی ملک میں ہو، دوسرا کسی اور ملک میں ہو۔ مگر ان سب کے حالات سے تعلق رکھتے ہیں، دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں ، اس سے متاثر ہوتے ہیں، خوش ہوتے ہیں۔

جنابِ والا! یہ شہید کیلئے قرآن کہہ رہا ہے تو رسول کے بارے میں یہ بحث کیسی کہ وہ حاضر و ناظر ہیں یا نہیں؟اسی سے حیات النبی کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔غیروں میں کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ ایک حیات النبی ثابت کررہا ہے اور ایک حیات النبی کا انکار کررہا ہے۔ اس پر مناظرے ہوا کرتے تھے۔ اس سب کو ہم باہر سے تماشائی کے طور پر دیکھا کرتے تھے کیونکہ ہمارے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ہمارے اندر کوئی محاذ نہیں تھا۔ دوسروں کے حالات کو ہم دیکھتے تھے کہ ایک حیات النبی پر دلائل پیش کررہا ہے اور ایک حیات النبی کے خلاف دلائل پیش کررہا ہے۔ ہم چونکہ حیات النبی والوں کے ساتھ ہیں، اس بناء پر میں حیات النبی کے مسئلہ کو اسی سے طے کیا کرتا تھا کہ شہداء کیلئے قرآن نے کہا ہے۔

بنص قرآن جو حیات النبی کے منکر ہیں، وہ بھی حیات الشہداء کے قائل ہیں۔ تو شہداء کی زندگی کے وہ بھی قائل ہیں۔میں کہتا ہوں کہ شہداء کی زندگی کے آپ سب قائل ہیں۔ شہادت ہے کیا چیز؟ یاد رکھئے کہ شہادت ان کی ایک تعلیم پر عمل کرنے کا نام ہے۔ قرآن کے دباؤ سے شہید کی زندگی پر آپ مجبورہیں اور جس کے گھر سے زندگیِ جاوید کی بھیک بٹ رہی ہو، اس کو کہاجائے کہ زندہ ہے تو آپ کہیں کہ کوئی ثبوت اس کا نہیں ہے۔اسی طرح سے یہاں بھی کہتا ہوں کہ شہداء کیلئے قرآن سے ثابت ہے کہ جہاں جہاں اس کا عزیزہو، اس کے حالات پر وہ نگران ہے ، اس کا نام حاضرو ناظر ہے یا نہیں؟جب حاضر و ناظراس کا نام ہے تو شہید کیلئے یہ کہا گیا تو جو شہید ساز ہو، اس کے بارے میں یہ تصور، یہ بحث کیسی۔ ہاں! نہ وہ زندگیِ جاوید اپنی طرف سے ہے، نہ یہ حاضر و ناظر ہونا اپنی طرف سے ہے۔ اللہ کا دیا ہوا ہے، خدا کا عطاکردہ ہے۔ بس یاد رکھئے کہ ہر کمال کو کہہ دیا کہ ان کا ہے ،ذاتی طور پر خدا سے بے نیاز ہوکر تو شرک ہے۔ جب خدا کی طرف سے مان لیجئے تو عین توحید ہے۔

جب خدا کی راہ میں جان دی جائے تو تہذیب جہاد ہوگئی کہ امام سے اذن لیا جائے اور تہذیب اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سب اس مقصد سے جمع ہیں۔ اسی مقصد سے آئے ہیں مگر یہ کہ جب کوئی آگے بڑھتا ہے تو اجازت لے کر بڑھتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ قرائن والی اجازت نہیں بلکہ باضابطہ اجازت کی ضرورت ہے اور اسے کیسے کیسے سخت مواقع پر نبھایا ہے کہ نابالغ بچہ ہے شہزادہ قاسم ۔ چونکہ ہر جہاد میں اب تک بچے الگ رکھے گئے تھے، بدر میں، اُحد میں، خندق میں ،خیبر میں، حالاتِ صحابہ میں کچھ صحابہ کے ذکر میں ملتا ہے کہ یہ جانا چاہتے تھے اُحد میں اور رسول نے کم عمر کہہ کر واپس کردیا کہ ابھی ان کی عمر اتنی نہیں ہے۔

ایک صحابی زادہ کا حال بہت پُر مزاح ہے جو خود انہوں نے بعد میں بیان کیا کہ فلاں جہاد میں جو لوگ کھڑے ہوئے اور رسول گویا معائنہ کررہے تھے بھیجنے سے پہلے ، تو کہتے ہیں کہ میں تڑپ رہا تھا کہ جہاد میں جاؤں۔ میں رسول کے سامنے گیا تو اپنی انگلیوں پر زور دے کر کھڑا ہورہا تھا کہ میرا قد جتنا ہے، اس سے زیادہ نظر آئے تاکہ رسول یہ نہ فرمائیں کہ یہ کم عمر ہے۔ رسول کو بھی اس کی تڑپ محسوس ہوئی۔ آپ نے اس کے کھڑے ہونے کا طریقہ دیکھا۔ آپ نے گویا استثناء کے طور پر ایک سنِ بلوغ کی حد تک پہنچے ہوئے ایک فرد سے کشتی لڑنے کیلئے کہا کہ میں تمہارا جذبہ و بیقراری دیکھ رہا ہوں، شوقِ شہادت دیکھ رہا ہوں۔ یہ بالغ ہے ، اس سے کشتی لڑو، اگراس کو تم نے پٹخ دیا تو میں تم کو اجازت دے دوں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول کے سامنے اس سے کشتی لڑا۔

دیکھئے! علماء کو شوق ہو کشتی کا تو شانِ مولویت کے خلاف سمجھا جائے اور یہ رسول ہیں جو اپنے سامنے کشتی لڑوارہے ہیں۔ گویا ذوقِ جہاد کا امتحان بھی ہے اور طاقت و قوت کا اندازہ بھی ہے اور دوسرے بچوں کے شکایت کرنے کا سد باب بھی ہے۔غرضیکہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے سے بڑے کو مغلوب کردیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا! میں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔

اس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ روایت اسلام تھی کہ بچوں کو جہاد میں شریک نہیں سمجھا جاتا۔ مجھے یہ روایت معلوم ہے، جس گھرکا یہ بچہ ہے اور جس گھر کی یہ روایت ہے، اس بچے کو سب کچھ معلوم تھا۔ ظاہر ہے خاندانِ رسالت میں کربلا کے دن کا چرچا تو رہتا ہی تھا۔ تو نہ جانے کب کب شہزادے نے سوچا ہے کہ کہیں میری کمسنی سنگ راہ نہ ہوجائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری کمسنی باعث بد نصیبی ہو جائے۔ جنابِ شہزادہ قاسم کے بارے میں باقی روایات ہماری کتاب ”روایاتِ عزا“ میں ملاحظہ فرمائیں۔

اسلام اور ادیانِ عالم ۱

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِی الْاٰخِرَة مِنَ الخَاسِرِیْنَ ) ۔

جو اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے، وہ ہرگز قبو ل نہیں ہوگا اور وہ آخر ت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ خصوصیاتِ اسلام میں سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا تعلق کسی شخص یا جگہ سے نہیں ہے بلکہ خالق کائنات سے تعلق ہے۔ اس لئے اس کے نام میں بھی ہمہ گیری ہے اور کام میں بھی ہمہ گیری ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین کائنات ہے، دین فطرت ہے۔ فطرت کے علاوہ کوئی بار انسان پر ڈالنا مقصود نہیں ہے۔ جو کچھ وہ فطری طور پر، غیر اختیاری طور پر کررہا ہے، اسی کو اختیاری طور پر کرنے کا مطالبہ ہے۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انسان کو اسلام نے انسانیت شناسی کا تحفہ دیا۔ اسلام سے الگ ہٹ کر دنیا نے پہچانا ہی نہیں تھا کہ انسان کیا چیز ہے۔اس کے نہ پہچاننے کی وجہ سے وہ طرح طرح کی گمراہیوں میں مبتلا ہوا۔ عقیدہ کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اعتبار سے بھی، ابتداء میں بھی ، انتہا میں بھی۔یعنی پرستش کا مرکز بھی پست قرار دیا اور قربانی کا مرکز بھی پست قرار دیا۔ یہ سب انسان ناشناسی کا نتیجہ تھا۔ انسان نے انسانیت کو بہت پست سمجھا اور انسان ہونااپنے لئے گویا بڑی ذلیل بات سمجھا۔ لہٰذا انبیاء و مرسلین کیلئے یہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک انسان کیونکر نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟ قرآن مجید کا ہم شروع سے آخر تک مطالعہ کرتے ہیں تو کفار اور مشرکین کا سب سے بڑا استدلال انبیاء کے مقابلہ میں یہ رہا کہ آپ بشر ہیں تو ہم کیونکر مانیں کہ آپ نبی اور رسول ہیں۔ اسی کو وہ طرح طرح سے کہتے تھے۔ کبھی کہتے تھے:

( مَاهٰذَااِلَّا بَشَرٌ مِثْلَکُمْ یَاکُلُ مِمَّاتَاکُلُوْنَ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ ) ۔

اس کو کیونکر مانیں ، یہ تو تمہارا ایسا ایک آدمی ہے، جو غذائیں تم کھاتے ہو، وہ یہ بھی کھاتا ہے ، جو پانی تم پیتے ہو، جس طرح پیتے ہو، اسی طرح وہی پانی بھی پیتا ہے۔ اس میں کیا خاص بات ہے جو اسے مانیں؟ کہیں کہ کہتے تھے:

( وَقَالُوْامَالِهٰذَاالرَّسُوْلِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَ سْوَاقِ ) ۔

ارے یہ رسول کیسا ہے جو کھانا کھاتا ہے اور ہماری طرح سڑکوں پر بازاروں میں پھرتا ہے۔

کہیں یوں کہا، جب موسیٰ و ہارون آئے تو:

( فَقَالُوْااَنُومِنُ لِلْبَشَرَیْنِ مِثْلَنَاوَقَوْمَهُمَالَنَاعَابِدُوْنَ ) ۔

ارے ہم دو ایسے بشروں کو ، ایسے انسانوں کو مان لیں جو ہماری طرح کے بشر ہیں اور ان کی قوم تو ہمارے سامنے عبادت گزار ہے ارو وہ ہمارے سامنے نبی ہوکر، رسول ہوکر آئے ہیں۔

اسی طرح قبیلہ ثمودو عاد کی آوازیں ہیں:

( وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًامِثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًالَّخٰسِرُوْنَ ) ۔

بھلا اس کی طرف خدا کی طرف سے کوئی پیغام آیا ہے اور اگر ہم ایک بشر کو مان لیں گے تو یہ بڑی گمراہی ہے ہماری کہ ایک بشر کو مان لیں۔

گویا ان کیلئے قبولِ حق میں بہت بڑی رکاوٹ تھی کہ ہم بشر کو کیونکر نبی اور رسول مان لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامِ بشریت کو اپنی سطح پر لاکر انہوں نے پست بنایا تھا کیونکہ خود انتہائی پستی میں گرفتار تھے۔ اس لئے سمجھے کہ بشر اتنا ہی پست ہوتا ہے۔ لہٰذا بشر میں بلندی کا تصور کرہی نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا گمراہی کاسرچشمہ بشر ناشناسی تھی۔ صرف انسان کی منزل کو نہ پہچاننا کہ انسان کیا ہے؟لہٰذا انسان کو وہ بس اپنے جیسا سمجھتے تھے۔ اُن انسانوں کو دیکھ کر اپنے کو ان جیسا بنانے کی ہمت نہیں تھی۔ طرح طرح سے ہر پارے میں بعض جگہ تابڑ توڑ مسلسل سورتوں میں آپ کو یہ آوازیں ملیں گی۔ میں نے تو چند آیات پڑھ دی ہیں، وہ سب اکٹھی کی جائیں تو کافی تعداد میں ہوں گی کہ ہر دفعہ وہ یہی کہتے تھے کہ یہ کیا بات ہوئی!بہت آسان تھا ان کا جواب۔

اگر کسی رسول کی زبان سے کہلوایا جاتا اور جب ایک رسول کی زبان سے یہ کہلوایا جاتا تو ہر رسول یہی کہتا کہ بھئی ! یہ تمہاری نظر کا دھوکہ ہے کہ ہمیں بشر یا انسان سمجھ رہے ہو۔ ہم لباسِ بشری میں آئے ہیں، واقعتا بشر نہیں ہیں۔ تو اس طرح منکرین کی زبان بندی ہوجاتی اور پھر ان کے اعتراض کی کاٹ ہوجاتی۔ مگر خالق نے ایک دفعہ بھی کسی رسول کی زبانی یہ آسان طریقہ ان کی زبان بندی کا اختیار نہیں کیا بلکہ جو ان کے دل میں خلش تھی کہ یہ انسان ہیں، نبی کیونکر ہوسکتے ہیں، دور کرنے کی بجائے صرف انبیاء کی کوشش یہ تھی کہ جو ان کے ذہن میں نبوت اور انسانیت میں تضا دہے، اس کو ختم کیا جائے۔

رسولوں کی وکالت میں مَیں مناظر ہوتا تو فن مناظرہ کے لحاظ سے یہ قاطع جواب تھا، ان کی زبان بندی کرنے کیلئے کافی تھا کہ کہا جائے کہ یہ تم سے کس نے کہاکہ یہ بشر ہیں؟ کون کہتا ہے کہ یہ حقیقت میں انسان ہیں؟یہ انسان نہیں ہیں ، یہ مصلحتاً انسان بن کر تمہارے سامنے آئے ہیں ۔ اب دوسرے رُخ سے میں کہتا ہوں کہ جب یہی چیز ان کیلئے رکاوٹ تھی تو انسان کے لباس میں بھیجنے سے مصلحت کہاں ہوئی؟ مصلحت تو اس میں ہوتی ہے جس میں اچھا اثر پڑے اور جو اور مشکل بنا دے، اس سے کیا فائدہ؟ تو کسی نبی کی زبان سے آسان طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا کہ یہ کہا جائے کہ یہ واقعتا آدمی نہیں ہیں، یہ واقعتا انسان نہیں ہیں، یہ دراصل کچھ اور ہیں۔ بس لباسِ انسانی میں تمہیں سدھانے کیلئے آئے ہیں۔

آخر انبیاء کی زبانوں کو قدرت کی طرف سے کیوں خاموش کر دیا گیاکہ یہ جواب نہ دو؟ یہ ان سے نہ کہو؟ نہیں، ان کے حلق سے یہی اُتارو کہ بشر ہیں اور پھر نبی بھی ہیں۔انسان ہیں اور پھر رسول ہیں کیونکہ اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ حقیقتاً انسان نہیں ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کی غلط فہمی جو مقامِ انسانیت کی پستی کے متعلق تھی، وہ تو قائم ہی رہتی اور یہ قدرت کے مقصد کے خلاف تھا کہ اپنے شاہکارِ عظیم کی توہین ہورہی ہے اور اُسے وہ برداشت کرے۔لہٰذا اس نے اپنی مہم یہ بنا لی۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نبی اور رسول کیونکر ہوسکتے ہیں جبکہ بشر ہیں اور بشر کے ساتھ بھی وہ یہی کہتے تھے کہ ہمارا ایسا بشر۔ ان کے جواب میں یہ بجائے اس کے کہ نفی کریں ،و ہی کہتے ہیں کہ میں تو بس تمہارا جیسا بشر ہوں مگر مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بشر وہ نہ سمجھو جس پر وحی نہ ہوسکتی ہو بلکہ تصور کرو کہ بشر ہوسکتا ہے جس پر وحی ہوتی ہے۔

میں نے کہا کہ ایک سرچشمہ ان کی گمراہی کا یہ تھا کہ بشر اور انسان اتنا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کو رسالت ملے، اس کو نبوت ملے یا عام نبوت اور رسالت سے بالاتر درجہ ہمارے تصور میں ہے ، دنیا کے تصور میں نہیں ہے یعنی امامت ملے۔ بشریت تو بہت نیچی سطح ہے۔ بیچارہ بشر نبی کہاں ہوسکتا ہے؟ رسول کہاں ہوسکتا ہے؟ امام کہاں ہوسکتا ہے؟ لہٰذا اس بنیادی غلطی کی وجہ سے انہوں نے رسالت کا انکار کیا۔ اب اگر ہم یہ کہہ دیں کہ نہیں، بشر نہیں تھے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی میں ہم ان کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ بات کہ بشریت اور رسالت اور امامت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، اس غلط بنیاد کی وجہ سے انہوں نے رسالت کا انکار کیا۔ ہم بشریت کا انکار کررہے ہیں تو دنیاوی گمراہی میں ، تو ہم ان کے ساتھ شریک ہوگئے۔ اسلام کابڑا تحفہ دنیا کیلئے یہ ہے کہ اگر اس کا انکار کریں تو بڑا جوہر انسانیت گم ہوجائے گا ۔

میں کہتا ہوں کہ اسلام کا ایک بہت بڑا امتیاز گم ہوجائے گا اگر اس کے اس تحفہ کی قدر نہ کریں کہ اس نے انسان کی بلندی سمجھائی ، اس نے انسان کو سمجھایا کہ وہ کیا ہے اور جب سمجھے گا کہ کیا ہے توسمجھے گا کہ اُسے کیا ہونا چاہئے۔

اس کیلئے طرح طرح سے ، مختلف طریقوں سے اس نے انسان کی اہمیت انسان کو سمجھائی۔ کبھی یوں کہا:

( لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم ) ۔

”ہم نے انسان کو بہترین نقطہ اعتدال پر بہترین درستگی پر پیدا کیا“۔

ہر زبان والے جانتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ اچھے اور بُرے کے دو تین درجے ہیں۔ ایک اچھا اور ایک کسی سے اچھا اور ایک سب سے اچھا۔ ایک برا، ایک کسی سے برا اور ایک سب سے برا۔ یہ ابتدائی تعلیم میں سکھایا جاتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے کہ خالق نے تیسرا درجہ صرف کیا ہے یعنی انسان کو یہ نہیں کہا کہ وہ اچھا ہے، دوسرا درجہ بھی نہیں کہا کہ کس سے اچھا ہے، کس سے اچھا ہے، نہیں ہے، تیسرا درجہ بہترین کاریگری۔ یعنی جو اس کے ہم کہتے ہیں، اللہ اکبر۔سب سے بڑا۔ یہ اس کیلئے کہا۔ اس نے کہا کہ سب سے اچھا۔

مجھے تفصیل سے عرض نہیں کرنا ہے ، مجملاً عرض کرنا ہے ، غور کیجئے جو عرض کررہا ہوں کہ اس نے کہا ہے انسان کو کہ انسان بہترین اور بہترین کے آگے میں نے کہا کہ کوئی درجہ نہیں ہے ۔ جس طرح اللہ اکبر میں اب عظمت سے استثنیٰ کسی کا نہیں ہوسکتا۔کوئی مخلوق اس دائرہ میں مستثنیٰ نہیں ہوسکتی”( فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم ) “، بہترین نقطہ پر۔ کچھ نہ کچھ منطق ہر ایک جانتا ہے۔ ایک کُلی ہوتا ہے اور ایک فرد ہوتا ہے۔ جیسے یہ آدمی۔ تو فرد انسان ہے اور خود انسان ایک کُلی ہے جس کے تحت یہ ہے۔ اس کو جُزی کہتے ہیں۔جو شخص ہوتا ہے، وہ نوع یا جنس ہوتی ہے۔ اب خالق کہہ رہا ہے کہ انسان درستگی کے بہترین نقطہ پر ہے۔ ا س نے کہا ہے ، خالق نے، مخلوقات کا جائزہ لے کر او رجائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب خلق کیا ہے تو جائزہ لئے ہوئے ہے یعنی ہم نے پیدا کیا اس نقطہ پر۔ ہوا نہیں ہے یہ اس نقطہ پر بلکہ پید اہی کیا گیا ہے۔خلق کیا گیا ہے بہترین نقطہ پر۔

تو حضورِ والا!جب خالق اُس کُلّی کو بہترین کُلّی کہہ رہا ہے، بہترین کہہ رہا ہے تو جو فرد کائنات کا بہترین ہو، اس کو اسی کے تحت میں داخل ہونا چاہئے۔اس نے تو اس کُلّی کو بہترین کہا اور مجھے معلوم ہیں وہ افراد کو بہترین ہیں اور وہ افراد جو بہترین ہیں، وہی مقصودِ کائنات ہیں۔ وہی حاصلِ کائنات ہیں۔تو جو حاصلِ کائنات افراد ہیں، انہیں ا س نوع میں درج ہونا چاہئے جس کا نام ہے انسان!

میں کہتا ہوں کہ یہ انہی کا صدقہ ہے جو اس کو احسن ہونے کی سند ملی ہے ورنہ کیا ان آدمیوں کے لحاظ سے یہ سند ملی ہے جوکیڑوں مکوڑوں سے بدتر ہیں۔ چونکہ وہ افراد اس کے اندر ہیں، اسی لئے اس کو سند ملی ہے۔دوسری جگہ کہا:آسمان پیدا کردیا، زمین پیدا کردی ، سورج پیدا کردیا، چاند پیدا کردیا۔ سب ایک ایک جملے ہیں۔ انسان کی خلقت کا جزو اکیلا بیان کیا کہ اس کو یوں بنایا، یوں بنایا:

( وَلَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍمَکِیْنثُمَّ خَلَقْنَاالنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَاالْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَاالْمُضْغَةَ عِظٰمًافَکَسَوْنَاالْعِظَامَ لَحْمًاثُمَّ اَنْشَانٰهُ خَلْقًااٰخَرَفَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْن ) ۔

ارشاد فرمایا: ہم نے شروع میں تو مٹی سے پیدا کیا، وہ حضرت آدم ابوالبشر تھے جو الگ طرز پر پیدا ہوئے اور ا س کے بعد ہم نے انسان کو یوں پیدا کیا کہ نطفہ، پھر علقہ ، پھرمُضْغه ہے۔ حضور! اس کا کام کوئی تشریح الاجزاء ہے؟ اس کا کام کوئی طبی تحقیقات ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنی اس مخلوق پر اتنا ناز ہے کہ اس کے تذکرہ میں گویا کہنے والے کو لذت محسوس ہورہی ہے۔

یہ کیا اور یہ کیا، اس طرح بنایا اور اس طرح بنایا اور نطفہ تھا اور علقہ تھا۔ یہ سب ہم سمجھ لیتے، ڈاکٹر ہوکر یا بغیر ڈاکٹر ہوئے۔ یہ سب وہ بیان کررہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خالق کی نظر توجہ اس مخلوق کی طرف خاص ہے کہ اس کے ذکر کو وہ طول دے رہا ہے اور اب سب منزلیں طے کر لیں۔ کسی طبیب کو اپنے کسی نسخہ پر ناز ہوتا ہے تو وہ اس کے اجزاء اکثر صیغہ راز میں رکھتا ہے، بتایا نہیں کرتا مگر خالق کو اپنی تخلیق پر ناز ہے کہ سب اجزاء بتا رہا ہے کہ اب سب بتا دیا ہے ، بنا سکو تو بنالو۔

نسخہ تو میں نے پورابتا دیا ہے۔ یوں ہوا، یوں ہوا اور ترکیب اجزا بھی بتا دی کہ پہلے یہ بات تھی ، اس کے بعد یہ ہوا اور یہ ہوا۔نسخے کی سب ترکیب بتا دی۔مگر یہاں تک تو بتا دیا ، اب آخر میں جاکر کچھ تھا جو پردہ میں رکھ دیاکہ وہ غلاف بھی چڑھ گیا اور گوشت پوست بھی ہوگیا، سب کچھ ہوگیا۔

( ثُمَّ اَنْشَانٰهُ خَلْقًااٰخَرْ ) “۔

جیسے لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب ہم نے کچھ اور بنادیا ۔ اب یہ کچھ اور جو بنایا ، یہ صیغہ راز میں رکھا۔ یہ کچھ اورکا، آخر کا ایک ایسا ارادہ تھا کہ ارادہ ایک تھا مگر آنکھوں میں نور آیا، پردئہ گوش میں سماعت آئی، زبان میں ذائقہ کی طاقت آئی، شامہ میں احساسِ قوت آئی۔ یہیں سے مادیت نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ جو مادّی سبب ہوسکتا ہے، اس کے نتیجہ میں نیرنگی نہیں ہوسکتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جسم ہے مگر جہاں وہ چاہتا ہے، وہاں بصارت رکھتا ہے، جہاں وہ چاہتا ہے، سماعت رکھتا ہے، جہاں وہ چاہتا ہے، ذائقہ رکھتا ہے۔یہ تقسیم رزقِ وجود بہ اعتبارِ حکمت و مصلحت ہورہی ہے۔ یہ حکیم علی الاطلاق ہی کام ہے، کسی اور کا نہیں۔

اب یہاں پر پہنچا کہ”( اَنْشَانٰهُ خَلْقًااٰخَرْ ) “، پھر ہم نے اس کو کچھ اور ہ ی بنادیا ۔ اور کیا بتاؤں کہ کہنے والا جسم و جسمانیات سے بری ہے مگر یہ مصیبت ہے کہ الفاظ تو جسمانیات کیلئے ہیں۔ اب وہاں کسی حقیقت کا ادا کرنا ہوتو الفاظ کہاں سے آئیں؟ ارے پورا یہ کیا ، یہ کیا اور یہ کیا۔ اب محسوس ہوتا ہے جیسے صفت کا بنانے والا صناع اس تذکرہ سے جھوم گیا، اس نے کہا:

( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْن ) “۔

ارے کیا کہنا اُس اللہ کا جو بہترین خالق ہے۔

اب خلقت انسان پر اپنے کو احسن الخالقین کہا۔ دور کی بات ہے مگر اب یہاں ذکرآگیا ہے کہ کیسی کیسی روشن صنعتیں سورج ، چاند، ستارے اور کیا کیا، کیسے کیسے حسین گلاب کے پھول اور وہ تمام چیزیں جن کے تذکرے میں شاعروں کو وجد آتا ہے، سب اس نے بنائیں مگر اس نے کبھی ان سب کا ذکر کرکے اپنی تعریف نہیں کی اور جب اس کا ذکر آیا، تفصیل کے ساتھ ، تو آخر میں کہہ دیا کہ”( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْن ) “، بابرکت ہے وہ ذات جو بہترین خالق ہے۔ انسان کی خلقت پر اپنے کو بہترین خالق کہنے نے بتایا کہ یہ بہترین مخلوق ہے۔

اس کی ایک نظیر ہے۔ اس کو تفصیل سے پیش نہیں کرنا ہے، صرف آپ کے ذہن کو متوجہ کروں گا اور صرف متوجہ کرنا نہیں ہے ،ا س توجہ دہانی میں ایک بڑے مسئلہ کا حل ہے۔ جو کہاجاتا ہے ، اس کی رَد ہے کہ حضور رسولِ خدا کو اس نے کیسے کیسے حیرت انگیز معجزے عطا کئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ستاروں سے تسبیح کروادی مگر اس نے اس کا ذکر کوئی نہیں کیا اور اپنی تعریف نہیں کی۔یہ سب معجزاتِ رسول میں درج ہیں، متفق علیہ ہیں کہ درختوں سے صدائے سلام بلند کروادی۔راستہ چلتے ہیں ، دیواروں اور درختوں سے صدائے سلام آتی تھی اور اس کا ذکر نہیں کیا اور اپنی تعریف نہیں کی۔چاہِ شور کو لعابِ دہن سے شیریں کردیا، اس کا تذکرہ نہیں کیا اور اس پر اپنی کوئی تعریف نہیں کی۔ان کے ہاتھ میں لکڑی کو تلوار بنادیالیکن اس کا ذکر بھی قرآن میں نہیں کیا اور اپنی تعریف بھی نہیں کی۔طعامِ قلیل سے مجمعِ کثیر کو سیر کروادیا، تھوڑا سا کھانا اور ایک بڑی جماعت نے بڑے بڑے کھانے والوں نے کھالیا اور وہ کھانا ختم نہیں ہوا، مگر اس کاتذکرہ قرآن میں نہیں کیا اور اپنی تعریف نہیں کی۔ ان کی دعا سے ان کے وصی کیلئے سورج کو پلٹا دیا مگر اس کا ذکر قرآن میں نہیں کا اور اپنی تعریف نہیں کی۔

یہ تو سب بعد کی باتیں ہیں، ولادت کے وقت بحیرئہ ساوہ کو خشک کردیا، آتش کدئہ فارس کو گل کردیا۔ چودہ کنگرے قصر کسریٰ کے گرا دئیے، یہ سب کچھ کردیا۔ اپنے رسول کو ایسے ایسے معجزات دے دئیے اور اس کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا یا ذکر کیا بھی تو اپنی کوئی تعریف نہیں کی۔وہ پیغمبر کو ایک خواب دکھا دیتا اور اپنی تعریف کرنے لگتا۔ اگر اس احسن الخالقین سے یہ سمجھ میں آیاکہ یہ بہترین شاہکارِ خلقت تھا جس کا ذکر خالق نے کیا تو اس اندازِ ذکر سے دنیا سمجھے کہ معراجِ رسول اس کی قدرت کا کوئی عظیم کارنامہ تھی، تبھی اپنا ذکر اس نے اس طرح کیا، تسبیح کے ساتھ۔ وہ کہتا ہے:

( سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْریٰ بِعَبْدِه ) “۔

”پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو“۔

اس بندہ کے لفظ سے بھی یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔ آج اس اندازِ بیان سے کہتا ہوں کہ اب روحانی معراج مان کر قرآن کی بلاغت آسمان پر رہے گی یا زمین پر آجائے گی؟

میں کہتا ہوں وہ اپنی تسبیح کررہا ہے۔ ”پاک ہے وہ ذات“، اس میں سائنس والوں کے سب اعتراضات کا جواب ہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ بشر ہوتے ہوئے یہ کیونکر گئے؟ میں کہتا ہوں بشر ہوتے ہوئے یہ گئے ہی نہیں، خدا ہوتے ہوئے وہ لے گیا۔

یہاں بھی وہ خصوصیت قائم ہے کہ اتنا بڑا معجزہ یا اتنی بلندی عطا فرمائی جس کا نام معراج ہے۔ یہ بھی بحیثیت رسول نہیں دی، بحیثیت بشردی۔ اس لئے ”( بِرَسُوْلِه ) “ نہیں کہا، ”( بِعَبْدِه ) “کہا ہے۔ رسالت سے وحی آتی ہے، بشریت سے عبدیت ہوتی ہے۔اس سے بھی مقامِ بشریت نمایاں ہوتا ہے کہ انسانیت اتنی اونچی چیز ہے کہ عرش زیر نعلین آجاتا ہے۔

مقامِ بشر اتنا اونچا ہے کہ ملک کو اس عرض کے بعد ساتھ چھوڑنا پڑا تھا کہ اگر ذرا آگے بڑھوں تو نورِ جلال میرے پروں کو جلا کر راکھ کردے گا۔میں کہتا ہوں کہ اس کے بعد تو ملک کہنا ان کی توہین ہے۔ ارے خادم کو مخدوم بنا دیجئے تو یہ کوئی مخدوم کی عزت افزائی ہوئی؟ملائکہ تو ان کے گھر کے خادم ہیں۔ ان کو ملک کہہ کر کیا تعریف ہوسکتی ہے؟ زنانِمصر نے یوسف کوکہہ دیا تھا کہ بہت بڑا فرشتہ ہے۔ وہ ان کی نگاہ تھی ، ”فکر ہرکس بقدرِ ہمت اوست“۔وہ حسن صورت کو دیکھ رہی تھیں اور فرشتے اَن دیکھی چیز تھے۔ سمجھتے تھے کہ ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔لہٰذا انہوں نے مَلک کہہ دیا۔لیکن جو حقیقت شناس ہے، وہ ملک کہنا ان کی توہین سمجھے گا۔ملک تو ان کے خدمت گار بن کر آتے ہیں۔ یہ ہے مقامِ انسانیت!

ایک اور پہلو عرض کرنا ہے تاکہ مقامِ بشریت سمجھ میں آئے کہ ان ہستیوں کو جو ہمارے نزدیک کائنات میں سب سے افضل تھیں، ان کی تعریفیں قرآن نے انسان کہہ کہہ کر کی ہیں۔ بس چند مواقع یاد دلاؤں گا۔ایک خدا کا بندہ اس کی رضا کیلئے رسول کی چادر اوڑھ کر فداکاری کی منزل طے کرتا ہے۔ فداکاری کیلئے تو ذہن میں میدان ہے کہ میدان میں فداکاری ہوتی ہے۔ مگر یہ تنگنائے چادر کے اندر فداکاری؟اور مجھے معلوم نہیں کہ بدرواُحد کے میدان کی فداکاریوں پر کبھی خدا نے فخر کیا ہو مگر آج یہ فداکاری جو زیر چادر ہورہی ہے، اس پر اللہ فخر کرتا ہے۔اس فداکاری کی قیمت عام افراد کو سمجھاؤں جوعام اسباب کی بناء پر اتنی اونچی باتیں نہیں سمجھ سکتے۔ علی کھلے ہوئے علی ہوتے تو اتنے خطرہ میں نہیں تھے جتنے رسول بن کر لیٹے ہیں۔ عموماً بھیس وہ بدلا جاتا ہے جو خطرہ سے دور ہو، مثلاً مرد عورتوں کا لباس پہن کر مجمعوں سے نکلا کرتے ہیں۔ لیکن یہ نیا بھیس بدلنا دیکھا کہ جس کے قتل کا منصوبہ ہو، اس کی چادر اوڑھی جائے، اس کے بستر پر لیٹا جائے۔

اُس نے حکم دیا تھا کہ لیٹو اور کیوں لٹایا تھا؟ اس لئے کہ رسول کا جانا پردے میں رہے ، یعنی دنیا یہ نہ سمجھے کہ رسول چلے گئے ہیں ورنہ اسی وقت چلے جائیں گے تلاش کرنے کیلئے۔ یہ انتظام کیا گیا تھا کہ رسول جب تک اس جگہ تک نہ پہنچ جائیں جہاں خدا نے حفاظت کا انتظام کر دیا ہے، اس وقت تک مشرکین اُلجھے رہیں اور سمجھتے رہیں کہ پیغمبر خدا بستر پر ہیں۔

اس لئے رسول نے لٹایا تھاخدا کے حکم سے۔تو جب خدا کے حکم سے تھے تو کہوں گا کہ خدا نے لٹایا تھا اور اس لئے بستر پر لٹایا تھا۔ مگر شعراء کی زبان میں دو ایک جملے کہنا چاہتا ہوں کہ جو گھیرے ہوئے تھے، وہ اجنبی لوگ نہیں تھے، اسی قوم و قبیلہ کے لوگ تھے جس میں ۵۳ برس وہ زندگی گزار چکا، جو گیا ہے اور ۳۲ برس یہ زندگی گزار چکا جو لیٹا ہے۔یعنی جو گھیرے ہوئے ہیں، وہ خوب اندازِ قد سے واقف اور پھر شمائل دونوں کے کتابوں میں موجود ہیں کہ دونوں بزرگوں کا قد یکساں نہیں تھا، قامت عصمت ایک تھامگر قدوقامت جسمانی میں فرق تھا۔ تو یہ بیوقوف رات بھر سمجھتے رہے اور حقیقت نہیں سمجھے تو بیوقوف نہیں تھے تو اور کیا تھے؟واقعتا بیوقوف نہ ہوتے تو اسلام کیوں نہ لے آتے؟ تو بیوقوف رات بھر سمجھتے رہے کہ رسول لیٹے ہوئے ہیں۔ یہ کیا راز ہے؟

حضور! میری سمجھ میں تو دو باتیںآ تی ہیں ورنہ اسی وقت چلے گئے ہوتے۔ یہ تو ہر ایک روایتاً،درایتاً اصول سے ماننے پر مجبو رہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھے؟ دو وجوہات ذہن میں آتی ہیں۔ جو واقعہ کو سمجھے، وہ اگر یہ دو وجوہات نہ سمجھے تو تیسری سائنسی وجہ میرے سامنے پیش کردے۔میری سمجھ میں دو وجوہات آئی ہیں ، دونوں بہرحال سائنس کی حدود سے آگے ہیں۔

ایک پہلو یہ ہے کہ خدا نے حکم دیا کہ بستر پر لیٹ جائیں۔ تو پھر رات بھر کیلئے اس نے ہوبہو رسول بنا بھی دیا ورنہ اس کے مقصد کو شکست نہ ہوجاتی؟ ہوبہو رسول بنا بھی دیا۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن کے ماننے والے کو اس میں عذر نہیں ہونا چاہئے۔ اگر عیسیٰ کی حفاظت کیلئے ایک دشمنِ خدا کو ایک دشمنِ عیسیٰ کی صورت دی جاسکتی ہے تو ان سے افضل ذات محمد مصطفےٰ کی حفاظت کیلئے غیر کو نہیں، ان کے نفس کو ان کی صورت کیوں نہیں دی جاسکتی؟

حضورِ والا! یہ ایک پہلو ہے جو میری سمجھ میں آتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ اس چادر کی کرامت ہے ، حضور کی طرف سے کرامت ہوگی ، مگر یہ چادر کی کرامت ہے کہ جب پیغمبر اوڑھیں تو ان کے جسم پر بالکل صحیح اور جب علی اوڑھیں تو ان کے جسم پر بالکل راست اور جب پانچوں آجائیں اور پھر بھی گنجائش رہے! ورنہ اُمِ سلمہ آنے کی کوشش ہی کیوں کرتیں اور جبرئیل امین کیوں داخل ہوجاتے؟ تو یہ چادر کی کرامت تھی اور دوجملے کہتا ہوں ، یہ بہرحال چادر کی خصوصیت معلوم ہوتی ہے، اس لئے میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بہرحال چادر کی خصوصیت معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے میں محسو س کرتا ہوں کہ یہ چادر قدموں پر نہیں ناپی گئی تھی، یہ نورِ واحد پر بیونتی گئی تھی۔

تو اتنا بڑا فداکاری کاکارنامہ، اس پر سند قبولیت لے کر جو آیت اُتری، وہ آیت کیا ہے”من المومنین“نہیں،

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَامَرَضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَوفٌ بِالْعِبَادِ ) ۔

دیکھو! انسانوں میں ایک یہ بھی ہوتا ہے جو اپنی جان کو رضائے پروردگار کیلئے فروخت کردیتا ہے۔اصولِ قرآنی یہ ہے کہ فرد کی مدح کرنی ہوتی ہے مگر صیغے جمع کے صرف کئے جاتے ہیں۔ رکوع میں انگوٹھی دینے والا ایک فرد تھا مگر قرآن کی آیت کے صیغے سب جمع کے۔

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُواالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰة وَیُوتُوْنَ الزَّکوٰة وَهُمْ رَاکِعُوْنَ ) ۔

سب جمع کے صیغے، اصولِ قرآنی یہی ہے واحد کی مدح ہوگی ، جمع کے صیغے ہوں گے۔مگر یہ خاص وہ محل ہے کہ خالق نے بھی انفرادیت نمایاں کی ہے۔

( مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْریْ ) “۔

انسانوں میں ایک وہ بھی ہے یعنی اس مقامِ فداکاری میں کہیں پر بھی کوئی دوسرا نہیں ہے۔ انسانوں میں ایک یہ بھی ہے۔ یہ ایک اتنی اونچی منزلِ کردار پر بھی جاکر کہتا ہے کہ انسانوں میں ایک یہ بھی ہے۔ اس کے بعد کون ہے جو مقامِ انسانیت کو پست سمجھے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ وحدت نمایاں ہوگئی کہ دیکھو! انسانوں میں ایک ایسا بھی ہے ۔ میں کیا کروں کہ اس کے بعد وحی کا دروازہ بند ہوگیا۔ میں کوئی آیت اُترتی ہوئی دکھلا نہیں سکتا ، مگر میرا تصور یہ ہے کہ اگر دس محرم ۶۱ ھ کو کوئی آیت اُترتی تو شاید واحد کا صیغہ جمع کا لباس اختیارکرتا۔اُس روز کہا جاتا کہ دیکھو! ایسے بھی انسان ہوتے ہیں۔ کچھ کی جبینِ عقیدت پر شاید شکن آجائے اور ذرابارِ خاطرہوجائے کہ کہاں امیرالمومنین کی منزل او رکہاں کربلا میں جتنے ہیں، سب کو کہہ دیا کہ اگر آج آیت اُترتی تو سب کو کہتی ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی فرقِ مراتب معلوم ہے۔ ارے سب عرب بھی نہیں، غیر عرب بھی ہیں، سب قرشی نہیں ، غیر قرشی بھی ہیں، سب آزاد بھی نہیں، غلام بھی ہیں۔ اتنا زمین وآسمان کا فرق بہ اعتبارِ صفات و افعال ہے، قومیت کے اعتبار سے فرق ہے۔

مگر جہاں تک کردارِ کربلاکا تعلق ہے، قرشی و غیر قرشی کا کیا ہاشمی و غیر ہاشمی کا کیا؟ میں تو کہتا ہوں کردارِ کربلا میں مجھے معصوم و غیر معصوم کا فرق نظر نہیں آتا۔ ایک بے داغ مرقعِ کردار ہے ورنہ معصوم اپنی پاک زبان سے سب کو یکساں طور پر کیوں کہتے:

بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ طِبْتُمْ وَطَابَتُ الْاَ رْضِ الَّتِیْ دُفِنْتُمْ فِیْهَا وَفُزْتُمْ فَوْزًاعَظِیْمًا

میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، تم بھی پاک ہوئے اور وہ سرزمین بھی پاک ہوئی جس میں تم دفن ہوگئے۔ اب معصوم اپنی تمام کارنامہ ہائے عصمت والی زندگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں:

یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَکُمْ فَاَفُوْزُفَوْزًاعَظِیْمًا “۔

کاش! میں تمہارے ساتھ اس کامیابی میں شریک ہوتا اور اس عظیم کامیابی کو حاصل کرتا۔

ہمیں بھی سکھایا یہی گیا ہے کہ تم جب واقعہ کربلا کو یاد کرو تو یہ کہو:

یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَکُمْ فَنَفُوْزُفَوْزًاعَظِیْمًا “۔

”کاش! ہم آپ کے ساتھ ہوتے اور اس عظیم کامیابی کو حاصل کرتے“۔


36

37

38

39

40