امامت و خلافت ۱
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَة اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَ رْضِ خَلِیْفَه
)
۔
تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا ایک جانشین مقرر کرنے والا ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا تو انہیں مقرر کرے گا جو اس میں فساد پیدا کریں اور خونریزی کریں، حالانکہ ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
میں نے عرض کیا کہ ملائکہ بارگاہِ قدس کے طالب علم ہیں۔ طالب علم کو حق ہے کہ جو بات اس کی سمجھ میں نہ آئے، وہ معلم سے پوچھ لے۔اب انہوں نے خالق کی بارگاہ میں سوال پیش کیا۔خالق نے کیا جواب دیا؟کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اب مجمع میں ماشاء اللہ طالب علم بھی ہیں اور اُستاد بھی ہیں اور دوسرے تعلیم یافتہ افراد بھی ہیںَ طالب علمی اور معلمی کے جو تقاضے ہیںِ ان سے کون واقف نہیں ہے۔ کوئی طالب علم اُستاد سے کوئی سوال کرے، اُستاد کہے کہ جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ تو کیا یہ اس سوال کا جواب ہوا؟ ارے جناب! طالب علم اگر جراءت رکھتا ہے تو وہ کہے گا کہ جنابِ والا! اس ی لئے تو پوچھتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں، ہم نہیں جانتے۔ اسی لئے تو ہم آپ سے دریافت کررہے ہیں۔ تو یقینا کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس سوال کا یہ جواب ہے۔ ہاں! اسے ہم سوال کا ٹھکرا دینا کہہ سکتے ہیں یعنی جواب نہیں دیا گیا۔ مگر جواب یہ کسی رُخ سے نہیں ہے۔ اب آخر اُستاد ہے اور شاگرد سوال کررہا ہے تو وہ کیوں اس کے سوال کو ٹھکرائے؟ حالانکہ اب اس کے بعد کی آیت پڑھئے تو پتہ چلتا ہے کہ خالق اس سوال کا جواب دے گا۔ وہ بھی جانتا ہے کہ جواب نہیں ہوا۔اگر جانے کہ جواب ہوگیا تو بعد میں پھر کیوں جواب دے؟ تو آخر جب جواب دینا ہی ہے تو ابھی کیوں نہیں جواب دے دیا گیا؟ وہ سوال کررہا ہے، اُسے جواب دے دیا جائے۔ پھر جواب بعد میں دیا گیا تو کب؟ تو ہم اس آیت کے بعد بلافاصلہ دوسری آیت پڑھتے ہیں:
(
وَعَلَّمُ آدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰئِکَة فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَاءِ هٰولٰاءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ قَالُوْا سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَاعَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ قَالَ یَاآدَمُ اَنْبِعْهُمْ بِاَسْمَائِهِمْ فَلَمَّااَنْبَاهُمْ بَاِسْمَائِهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ
)
۔
اب پوری آیت فوراً، اس کے آیت کے بعدیہ دوسری آیت، جتنی زیادہ روانی کے ساتھ پڑھو، اتنی ہی جلدی اس آیت کے بعد یہ آیت آجائے گی۔ مگر کیا خود مضمونِ آیت کو دیکھئے؟ یہ واقعہ فوراً اس کے بعد ہوا؟ وہ اس وقت کی بات ہے جب آدم کا پتلا ابھی آب و گل میں بھی نہیں ہے۔ یہ خلقت آدم کا سوال ہے ۔ تو یہ واقعہ جو بلافاصلہ اس آیت میں نظر آرہا ہے، یہ جب آدم کا پتلا بصورتِ انسان ذی روح عالم ظہور میں آئے گا، انسانِ مکمل کی شکل میں، جب وہ جلوہ آرا ہوچکے، تب وہ دوسرا واقعہ پیش آیا ۔تو میں کچھ اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ کتنے ہزار برس کا فاصلہ بیچ میں ہے۔کتنی مدت درمیان میں گزری؟ اُس وقت پھر اس وقت والے سوال کا جواب خالق دے گا۔ تو جب جواب دینا ہی ہے تو ابھی کیوں نہ جواب دے دیا جائے؟
مگر ماشاء اللہ اربابِ فہم ہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر ابھی اللہ مصالح اور اسباب سمجھانے لگے تو ایک صورتِ شوریٰ قائم ہوجائے۔ تو جیسے اس موضوع پر تبادلہ خیالات ہونے لگا، انہوں نے سوال کیا ، اللہ سمجھانے لگا۔ یہ وجہ ہے کہ صورتِ شوریٰ قائم ہوجئے۔ تو اس وقت جواب نہیں دیا گیا۔ میں تواپنے انداز میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ جیسے خالق نے کہا: منصب میرا، مقرر کرنا میرا کام، تم کون؟
اب اگر خطاکار انسان ہوتا تو جم جاتا کہ بغیر سمجھے نہیں ہٹوں گا۔ مگر یہ بیچارہ معصوم فرشتہ ہے۔ خالق نے کہا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اس نے اپنے گریبان میں منہ ڈالا کہ ہاں! منصب اس کا ہے، مقرروہ کررہا ہے، ہمیں نہیں بتانا چاہتا کہ اس کے کیا اسباب ہیں؟ تو اس میں دخل دینے کا ہمیں کیا حق؟ خاموش ہوگیا۔ مگر خالق کے ذمہ گویا فریضہ تعلیمی قرض رہا۔یعنی بحیثیت معلم جو اس کو جواب دینا چاہئے تھا، وہ نہیں دیا گیا۔
چنانچہ اب جب آدم عالمِ وجود میں آچکے تو اب خالق نے اس دن کے سوال کا جواب دینا چاہا۔ بڑے انتظام و اہتمام سے اور اس کیلئے گویا خاص انتظام کیا۔وہ کیا؟
(
وَعَلَّمُ آدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰئِکَة فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ
)
۔
قدم قدم پر مفسرین کو دقت پیش آتی ہے اور مجھے ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔
(
بِاَسْمَاءِ هٰولٰاءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
)
۔
وہ جیسے خلیفہ میں الجھن پیدا ہوئی تھی کہ کس کا خلیفہ؟ اب یہاں کہا اللہ نے کہ آدم کو تمام اسماء سکھا دئیے۔ اب مفسرین نے اسماء دیکھا،”کلھا “دیکھا۔ اسماء پر جو الف لام ہے، اُسے نہیں دیکھا تو ترجمہ کردیا کہ سب نام سکھا دئیے۔اب سب کے نام سکھائے تو جناب! کیڑے مکوڑوں کے بھی نام ، جڑی بوٹیوں کے بھی نام، ہر خاروگل کے نام، ہر کس وناکس کے نام۔ غرض ایک ذرہ سے لے کر ستارہ ہائے فلک تک جو کچھ کائنات میں ہے، سب کے نام سکھادئیے۔یعنی ایک فرہنگ اور لغت آدم کو بتادی۔کیونکہ سب نام، اسماء بھی او رپھر”کلھا“ بھی۔ سب اور سب ہیں تو پھر سب۔جو جو ذہن میں آئے، وہ سب اور جو ذہن میں نہ بھی آئے، وہ بھی سب۔ چونکہ بتانے والا خدا ہے، وہ ہمارے ذہن کا پابند نہیں ہے۔ لہٰذا جتنے نام ہم نہیں بھی جانتے، وہ بھی۔ پھر ازل سے لے کر ابد تک سب نام آدم کوسکھا دئیے۔مگر اب بعد میں جو آئے گا، اس کے ساتھ یہ بات بالکل نہیں نبھتی۔
اب یہیں سے بتادوں کہ غلطی کہاں ہوئی؟ وہ میں نے ابھی اشارہ کیا تھا کہ انہوں نے الف لام کو نہیں دیکھا۔ اب دیکھئے، میں ترجمہ کرتا ہوں۔سب کے لفظ کو میں چھوڑوں گا نہیں۔ اس سے ٹکراؤں گا بھی نہیں۔پھر بھی دیکھئے کہ وہ سب محدود ہوجاتے ہیں یا نہیں!
الف لام کی اقسام عربی میں بہت سی ہیں۔ ایک ہوتا ہے استغراق کا خود، اس کے معنی سب کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ استغراق کا ہوتا تو ”کلھا“کہا ہی نہ جاتا کیونکہ استغراق تو خود الف لام میں ہے۔ خصوصاً جب جمع پر داخل ہو۔عربی دان حضرات جانتے ہیں۔ تو وہ استغراق تو پھر اڑ جاتا ہے۔پھر ”کلھا“کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اب او ر جو قسمیں ہیں، اس سے بحث اس وقت نہیں۔ ایک الف لام کی قسم ہے عہد۔ عہد کے معنی ہوتے ہیں کچھ خاص اشیاء یا افراد کی طرف اشارہ۔ اس کی ایک روزمرہ کی مثال آپ کو دے دوں۔ یوم کے معنی کوئی سا دن اور الیوم کے معنی آج۔ یہ الیوم تو آپ بہت سنتے رہتے ہیں۔ایک جانی پہچانی آیت میں، الیوم ہی سے شروع ہوتی ہے۔ تو اس کا ترجمہ کیا ”آج“۔ یہ یوم کے معنی آج کہاں سے ہوگئے؟ یوم کے معنی آج کہیں نہیں ہیں۔کسی لغت میں یوم کے معنی آج کے آپ کو نہیں ملیں گے۔
تو یہ آج کے معنی پیدا ہوئے الف لام سے۔ بالکل لفظی معنی ہیں الیوم یعنی یہ سادن۔ اب یہ سادن فارسی میں ہو تو بالکل یہی ترجمہ ہے امروز۔ ہمارے ہاں اس کیلئے مفرد لفظ موجود ہے۔ یہ دن یعنی آج۔ تو اسی طرح الیوم کے معنی ہوئے آج۔تو جب الف لام کے یہ بھی معنی ہیں، اشارے کے، تو اب جو ترجمہ میں کروں، اُسے دیکھئے۔ آدم کو وہ سب نام سکھا دئیے۔ دیکھئے! سب گیا تو نہیں۔آدم کو وہ سب نام سکھا دئیے۔ وہ سب نام کیا؟ وہ نام جنہیں فرشتے لاکھوں مرتبہ دیکھ چکے تھے۔ کیونکہ ابوابِ جنت پر لکھے ہوئے تھے۔ عرش پر لکھے ہوئے تھے۔ حورعین کی پیشانیوں پر اکثر لکھے ہوئے تھے۔ تو ان ناموں کو تو فرشتے نہ جانے کتنی مرتبہ دیکھے ہوئے تھے۔ تو انہیں تو ملائکہ جانتے تھے۔ ناموں سے خوب واقف تھے۔ تو وہ نام تھے جو فرشتوں کو پہلے ہی سے معلوم تھے کیونکہ آدم مدرسہ قدرت میں آج طالب علم آیا ہے۔وہ پرانے طالب علم جو نام ان کے جانے پہچانے ہوئے تھے، وہ سب نام آدم کو بتائے۔وہ سب یعنی ان ناموں میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔
اور اسی سے اب بعد میں جنہوں نے شروع میں ٹھوکر کھائی اور بعد میں بھی ٹھوکر کھاتے چلے جائیں گے، تو اب جناب! انہوں نے کہا کہ سب نام۔اب اس کے بعد، بعد میں سمجھ ہی میں نہیں آئے گا۔
”ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰئِکَة
“۔
”پھر ان لوگوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا“۔
اب یہاں”هُمْ
“انہ یں نظر ہی نہیں آیا۔ ”هُمْ
“ذو ی العقول کی ضمیر ہے۔ چیزوں کو ”هُمْ
“نہ یں کہتے، انسانوں کو ”هُمْ
“کہتے ہ یں۔جو صاحبانِ عقل ہوں، جانوروں کو بھی ”هُمْ
“ نہ یں کہتے۔صاحبانِ عقل کیلئے ضمیر ہے جس کا ترجمہ ہمارے ہاں لوگ ہی ہوئے۔ ان لوگوں کو پیش کیا۔ اب یہ لوگ کہتے تو پھنستے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں۔ لہٰذا مصلحت یہی دیکھی کہ اس مقام پر سب عالم جاہل بن جائیں۔ جیسے ”هُمْ
“ کے معن ی ہی نہیں جانتے۔ لہٰذا کہہ دیا کہ وہ سب نام ان کے سامنے پیش کرکے پوچھے کہ یہ نام بتاؤ۔اب یہاں جو میں نے عرض کیا، اُس سے قطع نظر کیجئے تو بڑا سوال ہے۔طالب علم کے ذہن میں ، ہر صاحب عقل کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر امتحان ایسا ہو کہ ایک طالب علم کو تو چپکے سے سب بتادیا اور اس کے بعد سب طالب علموں کو بلا کر پوچھا کہ بتاؤ یہ سب۔ تو یہ امتحان سازشی ہوگا یا نہیں؟ میری تو زندگی یونیورسٹیوں میں گزری ہے۔ تو ایک لفظ کہوں کہ ایک طالب علم کو پرچہ آؤٹ کردیا۔ مگر بس ایک کیلئے اور اسی کو بلا کر امتحان سب کا لے لیا کہ بتاؤ ۔ تو اس طرح کا امتحان جائز ہوگا؟ تو جو ہم ایسے ناقص معلّموں کیلئے جائز نہیں، وہ اس کامل معلم کیلئے جائز کیسے ہوسکتا ہے؟
پھر آدم کی بلندی کیسے ثابت ہوگی؟ تو یہ سب غلطی ہوئی یہ جو الف لام کو نہ سمجھا۔ سب نام سکھائے۔ تو سب نہیں، بلکہ وہ نام جو ان کے دیکھے ہوئے تھے۔ کوئی ثبوت بھی نہیں ہے از روئے قرآن۔اس کی ضرورت بھی نہیں کہ الگ ہٹا کر فرشتوں سے صیغہ راز میں وہ نام بتائے ہوں۔اس لئے فرشتوں کے سامنے ان کو وہ نام جو نام ان کومعلوم تھے، وہ بتا دئیے آدم کو۔
اور میں کہتا ہوں کہ اسی طرح بتاکر معیارِ تعلیم برابر کیا تاکہ جو انہیں معلوم ہے، وہ ان کو بھی تو معلوم ہوجائے۔اب اس کے بعد وہی نام نہیں پوچھے جارہے ہیں جو نام ابھی بتائے تھے۔وہ بتاؤتو!ماشاء اللہ یہ کیا محل ہے؟ یہ تو حافظہ کا امتحان ہوا یعنی ابھی ابھی تو بتائے ہیں نام اور ابھی پوچھ رہا ہے کہ نام بتاؤ کہ بھولے تو نہیں۔تویہ تو حافظے کا امتحان ہوتا ہے۔ مگر حافظے کے امتحان کا یہ محل ہی نہیں ہے کیونکہ امتحان کا ایک فرقی فرشتہ ہے۔ یعنی فرشتوں کی قوم ہے جن کے ہاں سہوونسیان کو کوئی صحیح نہیں سمجھتا۔ارے انبیاء میں سہوونسیان کو کوئی تصور کرتا ہو، ہم تو وہاں بھی تصور نہیں کرتے۔لیکن ملائکہ میں تو کوئی سہوونسیان کو داخل نہیں سمجھتا۔اب جب ایک فریق ایسا ہے جہاں بھولنے کا سوال ہی نہیں ہے تو اب حافظے کے امتحان کے کیا معنی؟ تو اب صورتِ واقعہ کیا ہے؟ اگر یہ صاحبانِ علم الفاظِ قرآن پر غور کرتے تو مسئلہ حل ہوجاتا۔الگ سے کسی تفسیر کی ضرورت بھی نہ تھی۔ چاہے پھر پورے طور پر معمہ حل نہ ہوتا۔ مگر اصل مفہوم تو سمجھ میں آہی جاتا۔آدم کو وہ سب نام سکھائے۔ اب وہ نام نہیں پوچھے جاتے”(
ثُمَّ عَرَضَهمْ
)
“۔ پھر ان اشخاص کو سامنے پ یش کیا گیا”فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ
“،اگر فقط نام پوچھے جاتے تو”هَذَالْاَ سْمَاءَ
“
کہا جاتا۔ پھر یہ نام بتاؤ جو میں نے سکھائے ہیں۔ دیکھو! ان لوگوں کے نام مجھے بتاؤ۔”اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
“، یہ قول والا صادق نہیں ۔یعنی اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ تم زیادہ مستحق ہو۔ انہوں نے کب کہا تھا کہ ہم زیادہ مستحق ہیں؟مگر تمہارا تصور اگر یہ ہو ، اپنی کم علمی سے، ان کی عصمت عمل غلط کو مانع ہے۔ مگر احاطہ علمی ان کیلئے نہیں ہے۔
لہٰذا علم کی کمی کی بناء پر اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ تمہیں حق ہے اس منصب کا تو ان لوگوں کے نام بتاؤ۔ میں نے کہا کہ چاہے بعد میں مفسرین کی سمجھ میں نہ آئے کہ وہ لوگ کون تھے؟ مگر لفظی معنی تو ہر صاحب علم کو سمجھنے چاہئیں۔میں کہتا ہوں کہ سمجھ میں نہ آئے کہ کون؟ کوئی تو تھے جن کو پیش کیا اور وہ جنہیں پیش کیا، آدم تو تھے نہیں۔ فرشتے بھی نہیں کیونکہ وہ معرضِ امتحان میں ہیں۔ تو ماننا پڑے گا کہ کسی نوعِ خلقت کے اعتبار سے آدم سے پہلے ملائکہ کے علاوہ کوئی صاحب عقل مخلوق موجود تھی۔تو اب کوئی نہ کوئی تو ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ اتنا تو سمجھ لو کہ وہ جو بھی ہیں، وہ ایسے ہیں کہ ان کی معرفت معیارِ فضیلت انسان ہوئی۔
اب امتحان بالکل با اُصول ہے۔ حافظہ کا امتحان نہیں ہے، ذہانت کا امتحان ہے۔ فرشتوں کو وہ نام پہلے سے معلوم ہیں۔ میں نے کہا کہ ابوابِ جنت پر دیکھ چکے، عرش پر دیکھ چکے۔ آدم کو ابھی بتائے ہیں۔ اس طرح نام تو سب سنائیے مگر صورتیں آدم کو نہیں دکھائی گئی ہیں۔ ارے کسی قدرتی انداز میں، کسی قدرتی انداز میں، وہ صلب ا دم میں آئیں گے۔ مگر یہ کہ ان کی صورتیں دیکھی نہیں ہیں۔ کسی عالم میں کچھ نور دیکھتے ہیں۔ مگر نام دیکھے تو الگ، صورتیں دیکھیں تو الگ دیکھیں۔ یہ کبھی نہ انہوں نے پوچھا، نہ بتایا گیا کہ کون کس کا نام ہے۔
اور جناب! ہمارے لئے یوں بھی مشکل ہے کہ ہم جو نام رکھتے ہیں، اس میں تناسب کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ مثل مشہو رہے”برعکس نہند نام زنگی کافور“۔ زنگی ہے ، کالا کافور ہے، سفید مگر زنگی کا نام کافور رکھ دیا۔ دیوان متنبی جنہوں نے پڑھا ہے، غالباً وہیں سے لوگوں نے ، کوئی متنبی کے دیوان کا حافظ تھا۔ وہیں سے لوگوں نے یہ مثل بنائی ہے نام زنگی کافور۔ اب میں یہاں جانے پہچانے دو نام بتاؤں۔ ہوسکتا ہے کہ مجمع میں کوئی اس نام کے ہوں مگر واقف نہیں ہوں۔ بطورِ مثال کہہ رہا ہوں، خدانخواستہ کسی پر چوٹ کرنا مقصود نہیں کہ پیدا ہوئے۔ماں باپ نے نام فدا الدین رکھ دیا۔ اب کیا ضروری ہے کہ بہادر بھی ہوں۔ یہ بعد میں ثابت ہوگا کہ بہادر ہیں یا نہیں ہیں۔ ماں باپ نے بس نام رکھ دیا اور وہ عمر بھر فداالدین کہلائیں گے۔ چاہے کارنامے بھی سامنے آجائیں۔ یا مثلاً بد صورت بچے کا نام شمس الدین رکھ دیا۔ آفتاب رکھ دیا۔ ماہتاب رکھ دیا۔ یا کچھ رکھ دیا۔ نام میں تناسب سے کوئی بحث نہیں لیکن یہ جب ہے ، جب ہم نام رکھیں۔او رجن کے نام بھی خدا رکھتا ہو؟
تو اس کیلئے واقعات بھی ہمارے سامنے ہوں کہ بچہ پیدا ہوا ہے اور بزرگِ خاندان نام نہیں رکھ رہے ہیں۔ وحی کا انتظار ہے۔ جو واقعی اس خاندان کا بزرگ ہے، وہ نام رکھے ۔ تو جناب! نام اسی کے رکھے ہوئے اور یہ وہ نام ہیں جو عرب میں نہیں ہوتے تھے۔ان میں سے کوئی نام کسی کا بعد میں صدیوں چلتا رہے تو کسی کو کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں کے نام پر نام رکھا۔جو نام عمومی عرب میں ہوا کرتے تھے، ان میں سوال کیا کہ کس کے نام پر رکھا؟جو نام قدرت کی طرف سے کسی کو پہلے پہل دئیے گئے ہوں، وہ نام جب رکھے جائیں گے تو کہا جائے گا کہ فلاں کے نام پر نام رکھا۔لیکن جب خالق نام رکھے گا ، وہ بے جوڑ نہیں ہوسکتے۔ بس قوتِ نظر کی ضرورت ہے۔ دیکھنے والی نگاہ ہونی چاہئے۔ امتحان یہی ہے کہ ایک طرف تو نام بتادئیے اور اب یہ صورتیں تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ تمہارا امتحان یہ ہے کہ تم بتاؤ کہ کونسا کس کا نام ہے؟ یعنی اپنے ذہن سے اسم اور مسمیٰ میں مطابقت کرو۔ یہ بات بتائے ہوئے سبق سے باہر تھی ۔ جو بتایا تھا، اس سے باہر تھی۔
ہمارے ہاں کوئی سوال کورس سے باہر سے آجائے تو جاکر فریاد کرتے ہیں کہ جناب! یہ کورس کے اندر نہیں ہے۔ اب وہاں فرشتہ، ذہانت کا سوال! تو جناب! یہ سوال کیا گیا کہ ان کے نام بتاؤ۔ کونسانام کس کا ہے؟ بتاؤ۔بیچارے فرشتے نے کہا:
(
لَاعِلْمَ لَنَااِلَّامَاعَلَّمْتَنَا
)
۔
ہمیں کچھ نہیں معلوم سوائے اس کے جتنا تو نے ہمیں بتایا ہے۔
اُسے بھولے ہوں تو مجرم! معلوم ہوا کہ سوال بتائے ہوئے سے باہر ہے۔ ”لَاعِلْمَ لَنَااِلَّامَاعَلَّمْتَنَا
“۔سوائے اس کے جو تو نے ہم یں بتایا۔ تو بیچارہ فرشتہ ہماری عربی کی گرائمرجو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے،وہ پڑھا ہوا نہیں ہے۔اسے بس ایک ہی ترکیب معلوم ہے۔ ایک ”لا“ اور ایک ”اِلَّا
“۔ وہ ”لا“ اور”اِلَّا
“کی ترکیب۔ بس ایک عدد”لَا“آیا، ایک عدد”اِلَّا
“آیا،جملہ بن گیا۔”لَاعِلْمَ لَنَااِلَّامَا عَلَّمْتَنَا
“، ہم کو کوئ ی علم نہیں، ہم کو سوا اس کے جو تو نے ہمیں بتایا۔ وہی جملہ اس نے اُحد میں کہہ دیا:
”لَافَتٰی اِلَّا عَلِیْ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
“۔
”لَاعِلْمَ لَنَااِلَّامَاعَلَّمْتَنَا
“۔
وہی معلوم ہے جو تو نے ہمیں بتایا۔
یہ ہمارے بس کی بات نہیں کہ ہم بتائے ہوئے سے زیادہ بتا سکیں۔ اب ارشادِ قدرت ہوا، للکارا فطرتِ انسانی کے نمائندہ کو۔ اے آدم! تو تو انسان ہے۔ تیری صفت خاص ہے ، معلومات سے مجہولات کا پتہ چلانا، فکرونظر کے معنی یہی ہیں کہ جو معلوم ہے، اس سے نامعلوم کا نتیجہ نکالنا۔فرشتوں کو بتا دے کہ کون کس کا نام ہے؟ بس آدم بڑھے اور انسانی ذہن سے فطرتِ انسانی سے انہوں نے اسماء اور مسمیات میں نسبت دیکھی، مناسبت دیکھی نام میں اور شخصیت میں اور فر فر بتادیا کہ یہ اس کا نام، یہ اس کا نام۔ کہیں پر کوئی غلطی نہیں کی کہ نمبر کٹ جائیں۔ بالکل کوئی نمبر نہیں کٹا۔ سو میں سے سو کامیابی۔سب ناموں کو مطابق کرکے بتادیا۔
اب وہ جو میں کہہ رہا تھا ، اس دن کے سوال کا جواب۔ خالق نے اب اس دن کے سوال کا جواب دیا۔ دیکھا تم نے”اَلَمْ اَقُلْ لَکُمْ
“، ک یا میں نے تم سے نہیں کہا تھا؟ ماشاء اللہ! مجمع میں دو ایک کو تو پہنچانتا ہوں۔ ماشاء اللہ اہل منبر ہوں گے، مقررین ہوں گے، تو ان سب کو میں ایک حجت دے رہا ہوں۔ ہم اکثر حدیثیں بیان کرتے ہیں۔ مثلاً ایک جملے کی حدیث ہے اور اگر حضورنے مثلاً بیان کی، ترجمہ کیا،تو بہت سے جملے اس کے ساتھ استعمال کئے جو اس حدیث سے سمجھ میں آتے ہیں۔ مگر الفاظِ حدیث میں نہیں ہیں۔ کوئی بحث کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ جزو کس چیز کا ترجمہ ہے؟ وہ ایک جملہ ہے۔ آپ نے دس جملوں میں اس کا ترجمہ بیان کیا۔ تو تحت الفظی اعتبار سے کوئی ہم سے بحث کرے تو وہ ہماری زبان کیونکر پکڑ سکتا ہے کہ آپ نے کہا کہ ارشادِ رسول ہے۔ تو ارشادِ رسول تو بس اتنا ہے۔ تو آپ نے یہ سب کچھ جو کہہ دیا، یہ کہاں ارشادِرسول ہے؟
میں کہتا ہوں کہ یہاں روایت نہیں، آیاتِ قرآن میں، جو اس دن کہا تھا، وہ بھی ہمیں معلوم ہے اور اس دن جو یہ مختصر جملہ کہا تھا کہ:
(
اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ
)
۔
”میں وہ جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے“۔
بس اتنا کہنا تھا ، خود اس نے بتایا ہے۔ یہ کلام بھی اس نے نقل کیا اور آج فرشتوں سے کہہ رہا ہے کہ کیا میں نہیں کہا تھا:
(
اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ
)
۔
یعنی اب یہاں جو اب میں زور جو لپٹا ہوا تھا، اُسے یہاں اجمال کو تفصیل سے بدل دیا۔وہاں”وہ“ کے لفظ میں جو لپٹا ہوا تھا، اُسے یہاں صاف کرکے کھول کر کہہ دیا۔ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اس دن اتنا کہا تھا اور آج کہہ رہا ہے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میں آسمان و زمین کے غیب بھی جانتا ہوں اور اسے بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور اُسے بھی جانتا ہوں جو تم چھپاتے ہو۔
حضورِ والا! تمام اہل منبر یہ یاد رکھیں کہ ہمیں اور آپ کو نقل بالمعنی کا حق دے دیا گیا۔
مثال کے طور پر عرض کروں ایک جانی پہچانی حدیث قدسی، وہ یہ ہے کہ :
”لَوْلَاکَ لِمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلاکَ
“۔
خالق کا خطاب ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے ہمارے رسول، تو ہم آسمانوں کو پیدا نہ کرے۔
اب ہر صاحب فہم غورکرے کہ یہاں خاص آسمانوں کی کوئی خصوصیت بیان کرنا ہے کہ آسمان ایک ایسی چیز ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم آسمانوں کو پیدا نہ کرتے۔ تو اب جدید فلسفہ سائنس میں اگر آسمان کچھ ہے نہیں ،صرف حد نظر ہے تو پھر یہ افلاک ہی قابل بحث ہوگئے کہ ”لَوْلَاکَ لِمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلاکَ
“، کیا معنی؟ مگر یاد رکھئے کہ تصورِ انسانی میں افلاک محیط کل ہیں۔یعنی افلاک سب کو گھیرے ہوئے ہیں۔ تو یہ کہنا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو افلاک کو پید انہ کرتا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کچھ بھی پیدا نہ ہوتا۔ جو شے سب پر حاوی ہے، اس کا نام لے کر سب کا مطلب ادا کیا۔ اب اصل حدیث اتنی ہے اور میں کسی دن اپنے زورِ بیان میں یہ کہہ دوں کہ خالق نے خطاب کیا کہ آپ نہ ہوتے تو زمین بھی نہ ہتی، کوہ نہ ہوتے، آفتاب نہ ہوتا۔ آپ نہ ہوتے توماہتاب بھی نہ ہوتا، ستارے بھی نہ ہوتے۔ اب کوئی میری زبان پکڑے، مجھ سے مطالبہ کرے کہ یہ کہاں ہے تو میں یہ کہوں گا کہ وہی ہیں جہاں”لَوْلَاکَ لِمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلاکَ
“ہے۔ وہ اجمال ہے ، م یں نے اُسے تفصیل سے بدل دیا۔
اب آجائیے اس پر کہ”اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ
“ کہ جو م یں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ یعنی میں آسمان و زمین کے غیب کو جانتا ہوں ۔ جو تم چھپاتے ہو، وہ بھی جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی جانتا ہوں۔ فرشتہ بیچارہ ، وہ معصوم تو خاموشہے ہی،ارے اس دن بھی خاموش رہا تھا۔مگر اس دن خاموش رہا تھا ادب سے۔ آج خاموش ہوا ہے سمجھ کے۔ دل کی خلش دور ہوگئی۔ اس طرح سوال کا جواب آج دیا گیا۔ مگر فرشتے خاموش ہوگئے۔ میں ناقص انسان ہوں ، میں نہیں خاموش ہوتا۔ میں اب فرشتوں کا وکیل ہوجاتا ہوں۔فرشتوں کی طرف سے وکالت کرنے لگتا ہوں۔ وہ کیا؟ میرے ذہن میں ابھی خلش ہے۔ میں کہتا ہوں کہ سوالِ ملک میں دونوں پہلو عمل سے متعلق تھے۔ خونریزی اور فساد بھی کردار سے متعلق چیز اور تسبیح و تقدیس بھی کردار سے متعلق چیز۔ یہ امتحانِ آدم میں علمی بلندی ثابت ہوئی تو پھر بالواسطہ نتیجہ نکالیں کہ جس کا علم بلند ہوگا، اس کا عمل بھی بلند ہوگا۔ یہ بہت منطقی ہیرپھیر کا راستہ ہے کہ یہ نتیجہ نکالیں۔ حالانکہ چاہے کتنے مشاہدے ہوں، علمائے بے عمل بھی پھر نظر آتے ہیں ورنہ مذمت کیوں ہوتی حدیثوں میں علمائے بے عمل کی؟
بہرحال میں کہتا ہوں کہ علمی بلندی ثابت ہوئی۔ عمل میں بلندی اب ثابت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ اتنا جواب تھا، فوراً دے دیا گیا۔ جلدی اُسے ہوتی ہے جسے وقت کے نکلنے کا ڈر ہواور وہ عالم الغیب ، وہ قادرِ مطلق،جو امکانات کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔جسے وقت کے نکلنے کا اندیشہ نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ وہ بھی جانتا ہے کہ پورا جواب نہیں ہوا۔ مگر اس میں بھی ہزاروں برس کا انتظار ہوا ہے۔ گویا کہہ رہا ہے کہ ہم سے بھی اگر، ہم میں سمجھ ہو تو آج آدم کے ذریعہ سے ہم نے علم میں بلندی ثابت کردی۔ اب آنے دو ایک فخر آدم کو۔تو اس وقت ، تو سہی جو ملک سے بھی عمل کی منزل میں اقرار لے لیا جائے کہ جو انسان کرسکتا ہے، وہ میں نہیں کرسکتا۔ وہاں تو ہزاروں برس، یہاں بھی ہزاروں برس سہی۔ آنے دو ایک ایسے کو۔ وقت آگیا جب شب ہجرت۔ اب یہاں میں نام نہیں لوں گا۔جو بحث ہے ملک اور انسان کی، وہی کہوں گا۔
وہ وقت آگیا جب شب ہجرت ایک انسان، علی کہنے میں وہ لطافت نہیں ہے جو انسان کہنے میں ہے۔ جب شب ہجرت ایک انسان جس کا نام علی ہے، ایک انسان رسول بنا ہوا حکمِ خدا سے پیغمبر کے بستر پر لیٹا ہے اور حکم تو تھا لیٹنے کا مگر یہ سو بھی گیا ہے۔حکم ادھر سے لیٹنے کا ہی ہوسکتا تھا۔ سونے کا حکم ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ شریعت افعالِ اختیار یہ سے ہی متعلق ہوسکتی ہے۔ لیٹنا اپنے بس کی بات ہے، سونا اپنے بس کی بات نہیں ہے۔ لیٹناارادی فعل ہے، سونا ارادی فعل نہیں ہے۔لیٹ جانے کا حکم ہے مگر سو بھی جائے حکم سے ،یہ ناممکن ہے۔یہ سونا تو کیفیت نفس سے متعلق ہے۔اگر نفس مضطرب ہوگا تو نہیں سوئے گا اور نفس اگر مطمئن ہوگا تو سوجائے گا۔
اب مجھ سے کوئی گواہ مانگے ، تو میں کہتا ہوں کہ ایسی بات جو بس آدمی خود ہی جانتا ہو، دوسرے کو علم ہی نہ ہوسکے تو اس میں شرعاً بھی خود اس کا قول ہی معتبر ہوتا ہے۔گواہوں کا مطالبہ اس میں غلط ہے۔ راوی لیٹنا دیکھ سکتا ہے، راوی سونا نہیں دیکھ سکتا۔لیکن جو لیٹتا ہے، وہ خود بتائے گا کہ جاگ رہا تھا یا سو رہا تھا۔ تو خود اس نے بعد میں بتایا کہ جیسی نیند شب ہجرت آئی، ایسی کبھی نہیں آئی۔
ہمیں حیرت ہے کہ کیونکر سورہے ہیں؟ ہمارے ہاں تو محلے میں کوئی کھٹکا ہوجائے تو نیند اُڑ جائے، چہ جائیکہ اپنے گھر کے اندر کھنچی ہوئی تلواریں اور لٹکتے ہوئے نیزے اور اس میں ایسی گہری نیند کہ کبھی نہیں سوئے تھے ۔اور وہ جو رات کو کبھی سونے کا عادی نہ ہو، وہ کیونکر سویا؟ جس کی رات محرابِ عبادت میں گزرتی تھی، یہ آج لٹادئیے گئے۔ میں کہتا ہوں کہ یہی تو راز ہے سونے کا کہ جس کیلئے روز جاگتا تھا، آج اُسی کیلئے سورہا ہے۔ بس یہ سو رہے تھے اور جاگنے والا دیکھ رہا تھا۔ اُسے تو کبھی نیند آتی ہی نہیں:
(
لَا تَاخُذُه سِنَةٌ وَّلَانَوْمٌ
)
۔
وہ دیکھ رہا ہے اور اب دیکھا کہ رئیس الملائکہ ، ان میں نسلیں بدلتی نہیں ہیں۔جو اس وقت تھے ، وہی اس وقت ہیں۔تو ان میں منتخب کیا جو ممتا زہیں،سید الملائکہ، جبرئیل اور ویسے ہی ممتاز جنابِ میکائیل۔ اب یہ جو عرض کررہا ہوں، یہ اِدھر اُدھر کی کتابوں کی بات نہیں، حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیة الاولیاء میں ،یہ حافظ وہ حافظ قرآن نہیں،یہ حافظ علم حدیث کی اصطلاح ہے ، جو تیس ہزار، چالیس ہزار ، ستر ہزار حدیثیں متن و سند کے ساتھ حفظ رکھتا ہو، اُسے حافظ کہتے ہیں۔
چنانچہ چودہ سو برس کے علماء میں بڑے بڑے علماء ہیں، مگر حفاظ چند ہیں۔ صحاحِ ستہ کے مصنفین حافظ نہیں کہلاتے، جو فقہ میں امام کہلاتے ہیں، وہ حافظ نہیں کہلاتے۔حافظ صرف چند ہی ہیں۔ ابن حجر دو ہیں، ایک نویں صدی میں ہیں ، دسویں صدی تک۔ وہ علامہ ابن حجر مکی ،صواعق محرقہ کے مصنف اور ایک ان سے بھی پہلے ابن حجر عسقلانی۔ وہ ساتویں صدی کے آدمی ہیں، حافظ ابن حجر کہلاتے ہیں۔لوگ دھوکہ کھاتے ہیں، ان کوحافظ ابن حجر کہہ دیتے ہیں۔تو وہ ناواقف ہیں تو حافظ ابن حجر عسقلانی ہیں جواصابہ فی معرفة الصحابہ کے مصنف ہیں اور شرح صحیح بخاری کے مصنف ہیں اور بہت کچھ ہیں۔
سب سے آخر میں سیوطی، حافظ جلال الدین سیوطی۔ یہ دسویں صدی کے آخر کے ہیں۔ ان کے بعد سے کوئی حافظ نہیں ہے۔ حافظ سیوطی کو اپنے مطلب کی وجہ سے لوگ گھٹانے لگے ہیں کہ وہ رطب و یابس لکھ دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمارے مطلب کی باتیں زیادہ لکھی ہیں۔ لہٰذا دنیا والے کہتے ہیں کہ سیوطی ا کوئی اعتبار نہیں ، وہ تو سب کچھ لکھ دیتے ہیں۔ تو جو اپنے مطلب کی باتیں کم لکھے، کسی کے مطلب کی باتیں زیادہ لکھے، وہ گویا بس سب کچھ لکھنے لگا۔تو حافظ ان کا امتیازِ خاص ہے۔
تو اب یہ حافظ نعیم اصفہانی اور دوسرے شیخ مشائخ صوفیاء بھی ہیں اور علماء میں بھی بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ امام غزالی، ان کے نام کے ساتھ امام ہے، حافظ بھی ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ لفظ وسیع ہوگیا ہے۔ مگر علمائے اسلام کی اصطلاح کے مطابق یہ ایک ہیں غزالی جن کا لقب حجة الاسلام ہے۔ ابوحامد غزالی اور حافظ ابو نعیم کی لکھی ہوئی بات ہے جو عرض کررہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان کی بات بغیر پیغمبر کے بتائے ہوئے کسی تک نہیں پہنچ سکتی۔ چاہے بطورِ سند در ج نہ کیا ہو مگر یقینا وہیں سے چلی ہوئی بات ہے جو ان تک پہنچی ۔
تو وہ لکھتے ہیں کہ اس موقع پر جب علی رسول کے بستر پر آرام کررہے تھے تو خالق مخاطب ہوا ، جبرئیل و میکائیل کی طرف کہ جبرئیل و میکائیل! میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا اور تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ قرار دی۔ ماشاء اللہ اہل فہم ہیں، میں کہتا ہوں ،یہ بتا دیا بس کہ ایک کی عمر زیادہ۔ یہ نہیں بتایا کہ کس کی عمر زیادہ؟ کیونکہ پھر پوچھ رہا ہے کہ تم میں سے کون ہے جو اپنی فاضل عمر کا حصہ دوسرے بھائی کو دے دے؟
اُس دن ملک نے سوال کیا تھا، خبر نہیں دی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ خبر دیتا تو صحیح ہی بات ہوتی۔ جھوٹی خبر ملک نہیں دے سکتا۔ سوال کیا تھا جس میں سچ اورجھوٹ کا سوال نہیں۔آج خالق حکم دے رہا ہے کہ دے دو۔ ورنہ پھر عصمت ملک طاعت کروائے گی ، حکم نہیں دیتا، سوال کرتا ہے کہ تم میں سے کی عمر زیادہ ہے، ایک کی کم ہے۔ تم میں سے کون ہے جو اپنی فاضل عمر کا حصہ اپنے دوسرے بھائی کو دے دے؟ اگر بتادے کہ کس کی عمر زیادہ ہے تو امتحان ایک ہی کا ہوگا لیکن جب پردے میں رکھا تو اب جواب ہر ایک کو دینا چاہئے جس کی عمر زیادہ ہو، وہ کہے کہ ہاں۔تو ہر ایک کو بولنا چاہئے ۔ یہ بھی کہے کہ ہاں، وہ بھی کہے کہ ہاں۔ ہر ایک کہے کہ جس کی عمر زیادہ ہے، وہ دینے کیلئے تیار ہے۔ حکم نہیں دیا جارہا۔ فقط پوچھا جارہا ہے۔ تو ملک معصومانہ جواب دیتا ہے کہ بارِالٰہا!ہماری تو اصل تمنا یہ ہے کہ پوری عمر تیری عبادت میں صرف ہو۔
اس میں ایک بڑی حقیقت مضمر ہے کہ ملک کا تصور عبادتِ انفرادی و شخصی ہے۔ وہ بس نماز پڑھنے کو عبادت سمجھتا ہے۔ اسی کو فخر میں بھی پیش کیا تھا کہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔ بس یادِ الٰہی میں مصروف۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی تعریف کی ہے۔ کچھ رکوع میں ہیں جو سیدھے نہیں ہوتے، کچھ سجدے میں ہیں ۔ تو بس ان کی عبادت شخصی ہے، انفرادی ہے، اکیلی اکیلی عبادت ہے۔ اجتماعی عبادت کہ دوسرے کے کام آنا بھی عبادت ہے، یہ حدودِ تصورِ ملک سے بھی خارج ہے ورنہ اس سوال کا جواب سے جوڑ نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تم میں سے کون ہے جو اپنی عمر کا فاضل حصہ دے دے؟ یہ کہتے ہیں کہ ہماری تمنا تو یہ ہے کہ ساری عمر تیری عبادت میں صرف کریں۔یہ جواب سوال سے مرتبط اسی بناء پر ہے ۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ ہم تو پوری زندگی تیری عبادت میں صرف کرتے ہیں، اگر فاضل عمر کا حصہ دوسرے کو دے دیں تو اتنی سے محروم ہوجائیں۔ اب جس کی جتنی عمر ہے، وہ تیری عبادت میں صرف کرے اور اگر اپنی فاضل عمر کا حصہ دوسرے کو دے دیں تو اپنے حصہ کی عبادت اپنے ہاتھ سے کھوئیں۔یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ جواب ہوگیا کہ ہم یہ نہیں کرسکتے۔
اب ارشاد ہوتا ہے کہ زمین کی طرف دیکھو۔ تبصرے میرے ہیں، اصل واقعہ پورا ان دونوں کتابوں میں ہے۔زمین کی طرف دیکھو۔ میں کہتا ہوں کہ زمین کی طرف دیکھو تو وہی بہت دفعہ دیکھا ہوا انسان نظر آیا۔مگر کبھی دیکھتے تھے ، اس وقت کھڑے ہوئے مگر اس وقت دیکھا تو لیٹے ہوئے۔ کبھی دیکھتے تھے جاگتے ہوئے، آج دیکھا تو سوتے ہوئے دیکھ لیا۔ارشادِ قدرت ہوا:
”هَلْ لَاکُنْتُمْ مِثْلَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فَقَدْفَدَااَخَاهُ بِنَفْسِه
“۔
کیوں نہ ہوئے تم مثل علی کے جس نے اپنی جان اپنے بھائی پر فدا کردی ہے۔ ملک سمجھا کہ یہ عبادت ایسی ہے کہ میری عبادتوں کے معیار سے اونچی ہے۔ یہ نوعِ عبادت میری تمام عبادتوں سے بالاتر ہے۔ تو میں نے کہا کہ یہ کم عقلی کی تھی کہ تسبیح و تقدیس کو فخریہ پیش کیا تھا۔ دوسرا رُخ دیکھئے کہ اس نے پیش کیا تھا انسان کی زندگی کا تاریک رُخ کہ یہ انسان خونریزی کرتا ہے یعنی جانیں لیتا ہے۔ آج قدرت دکھا رہی ہے کہ تم نے جان کا لینا دیکھا، جان کا دینا نہیں دیکھا۔
معلوم ہوگیا اور واقعات آپ کے سامنے ہیں، صرف اشارہ کردینا کافی ہے کہ آج سے مستقل طور پر تصورِ ملک میں ترمیم ہوگئی۔ یعنی ملک سمجھ گیا کہ دوسروں کے کام آنا بھی، وہ اسی قابل ہوں کہ ان کے کام آیا جائے۔ملک نے سمجھ لیا کہ دوسروں کے کام آنا بھی عبادت ہے اور میری عبادتوں سے بالاتر ہے۔ لہٰذا اب جو کہاجائے گا کہ درزی بن کر جاؤ تو چلا جائے گا۔ اب کوئی ایک ہی واقعہ نہیں ہے۔ درزی بن کر کہا تو چلا جائے گا۔ وضو کیلئے پانی لے کر چلا جائے گااور لڑائی میں تلوار لے کر مدد کرنے چلا جائے گا۔اب کبھی نہیں کہے گا کہ یہ سب کروں اور عبادت نہ کروں؟
تو مستقل طور پر تصورِ ملک میں ترمیم ہوگئی۔ اب معلوم ہوگیا کہ عمل میں بھی انسان وہ کرسکتا ہے جو میں نہیں کرسکتا۔اب ارشادِ قدرت ہوا:
اچھا! تو اب جاؤ اور اس انسان کی حفاظت کرو۔ارے فقط ان کی حفاظت نہیں ہے۔ اس کی سنت یہ نہیں ہے کہ انبیاء و معصومین کوحربوں کی زد سے پرے ہٹایا جائے۔ نہیں، گویا وہ کہہ رہا ہے کہ ابھی میرے کچھ کام اس کی اس زندگی سے، میرے ابھی بہت کام ہیں جو ابھی مجھے اس سے لینے ہیں۔ لہٰذا جاؤ اور اس کی حفاظت کرو۔اب وہ دونوں فرشتے آئے اور اُترے۔ بس واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ بس ایک غلط فہمی کا دفعیہ۔ ان کو جو بھیجا جارہا ہے ، تو کیا(معاذاللہ) سزا کے طور پر بھیجا جارہا ہے؟ میں سزا کا محل اس لئے نہیں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مقامِ معرفت میں ملک کچھ اور اونچا ہوچکا ہے۔ مقامِ علم میں اس کی بلندی ہوگئی تو سزا کس چیز کی دی جائے؟ یہ سزا نہیں ہے۔ ایک بڑی حقیقت ہے جسے دو جملوں میں مَیں کہوں گا اور آگے بڑھوں گا۔ میں کہوں گا کہ یہ نہ سمجھئے کہ جو شے اِدھر سے اُدھر جاتی ہے، اس کی معراج ہوتی ہے۔ جب وہاں والوں کومعراج ہوتی ہے تو یہاں بھیج دیا جاتا ہے۔
اب ایک فرشتہ سرہانے اور ایک پائین پا۔ آج یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ان کا پیر بھی اتنا ہی اونچا ہے جتنا سر اونچا ہے۔ ایک ملک سرہانے اور ایک پائین پا۔ اب زبان پر کیاہے؟ کئی الفاظ مجھے معلوم ہیں۔”بَخٍ بَخٍ لَکَ
“۔ یاد رکھئے لفظوں سے کچھ نہیں ہوتا۔کہنے والے کو دیکھنا ہے :
”بَخٍ بَخٍ لَکَمَنْ مِثْلُکَ یَابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ فَقَدْ بَاهَ بِکَ اللّٰهُ مَلٰئِکَةَ السَّمَاء
“
مبارک ہو، مبارک ہو اے ابو طالب کے فرزند کہ آپ کے ذریعہ سے اللہ فرشتہ ہائے آسمان پر فخر کررہا ہے۔
بس روایت یہاں ختم ہوئی۔ میں کہتا ہوں”من مثلک“، دیکھئے کون ہے آپ کی مثل کلام کے حدود، حدود متکلم سے بدلتے ہیں۔ اگر انسان کوئی کہے کہ کون آپ کی مثل ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ انسانوں ہی میں کوئی آپ کی مثل نہیں مگر غیر نوع کا ہر فرد یعنی ملک کہہ رہا ہے کون آپ کی مثل۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مخلوقِ الٰہی کی کسی نوع میں، نہ انسانوں میں ، نہ جنات میں ،نہ فرشتوں میں ، کسی نوع میں ان کا مثل نہیں ہے۔ اگر ہے تو ان سے بالا تر وہ ہے کہ جس پر فدا ہو کر یہ مرتبہ مل رہاہے۔
اب ایک پہلو پر روشنی ڈالوں گا کہ اتنی بڑی تعریف کہ کسی نوعِ مخلوق میں آپ کا مثل نہیں۔ مگر اتنی بڑی تعریف میں، نہ ملک ان کا کوئی لقب کہہ سکتا ہے جو القاب ہمیں معلوم ہیں، تو کیا وہ ملائکہ کو نہیں معلوم؟ نہ ان کا کوئی وصف کہتا ہے، نہ ان کا رسول سے کوئی رشتہ بتاتا ہے؟ ارے نہ کہے کچھ اور ان کا نام ہی لے دے کہ ان کا نام علو کا پتہ دیتا ہے۔ بلندی تو ان کے نام میں مضمر ہے مگر ملک یہ کچھ نہیں کہتا۔ وہ تو کہتا ہے: یابن ابی طالب ۔ کون آپ کا مثل ہے؟ اے ابو طالب کے بیٹے! قرآن میں کہا جارہا ہے:
”لَا یَسْبِقُوْنَه بِالْقَوْلِ
“۔
اور یہ قول ہی ہے ، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتخاب بھی ملک کا طبع زاد نہیں ہے۔ وہ اُدھر سے ہی القا ہے الفاظ کا۔ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے، تو یہ کیا بات؟ فصاحت و بلاغت کسی زبان کی ملک نہیں ہے۔ چاہے آپ پنجابی ہوں، چاہے ہندوستانی۔ زبان مادری ہو۔ مقامِ مدح میں کوئی نسبت ایسی جو ذم کا پہلو رکھتی ہو، یہ بلاغت کے خلاف ہے۔ تو اتنی اونچی تعریف اور اس میں یہ کہنا کہ اے ابو طالب کے بیٹے!
ماننا پڑے گاکہ ابو طالب کوئی ایسا بڑا باپ ہے جس کی طرف نسبت اس جلالت مدح کے خلاف نہیں ہے۔
میری عادت کچھ کچھ یہ ہے کہ میں اپنے لئے مشکلات پیدا کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں بھی ایک خلش ہے، وہ یہ کہ یہ ثابت ہوا کہ ہاں غلط نہیں، مگر ضرورت کیا تھی؟ ایک تو کھلی ہوئی بات یہ ہے کہ غلط فہمی دور کرنے کا یہی ذریعہ تھا۔ ایک طبقے کی غلط فہمی دور کی جائے۔ مگر اس کے علاوہ؟ آخر ضرورت کیا تھی؟ تو جناب! جو اس کا جواب مجھے تاریخ سے ملا، وہ شعب ابی طالب کا چار برس کا محاصرہ تھا ۔ اس میں ہر رات یہ خطرہ تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مارے اور چراغِ عمرِ رسالت کو خاموش نہ کردے۔تو ابو طالب نے حفاظت رسول کا یہ انتظام کیا تھا کہ رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے۔ کبھی طالب کو رسول کے بستر پر ، کبھی رسول کو طالب کے بستر پر۔ کبھی جعفر کو رسول کے بستر پر، کبھی رسول کو جعفر کے بستر پر۔کبھی عقیل کو رسول کے بستر پر، کبھی رسول کو عقیل کے بستر پراور کبھی علی کو رسول کے بستر پر، کبھی رسول کو علی کے بستر پر۔
آپ اس قربانی کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ چاہے جوبھی بیٹا میرا قتل ہوجائے، کسی ایک کو بھی تو مستثنیٰ نہیں کرتے۔ چاہے میرا جو بھی بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کی زندگی محفوظ رہے۔ اب میرے ذہن نے یہ فیصلہ کیا کہ ابو طالب کا بیٹا کہنے میں کیا راز ہے!قربانی کا یہ طریقہ، یہ باپ کی ڈالی ہوئی عادت تھی۔ اس کے بعد یہ حق شناس ملک تھا جس نے اس محل پر ابو طالب کو یاد کرنا ضروری سمجھااور یہ ناحق شناس انسان تھے کہ جنہوں نے اس کے بعد بھی ابو طالب کے ایمان میں شک کیا۔
اب جناب! پورا تبصرہ ہوگیا۔ مگر پھر میں نے اپنے لئے ایک مشکل پیدا کرلی۔ وہ یہ کہ میرا بیان بالکل بے قیمت ، اگر کوئی ایک لفظ مجھے قرآن کا مجھے شاہد نہ ملا ہو۔ اسی لئے تو میں نے کہا ں کا کہاں سے ربط ملایا ہے او رکہاں یہ بعثت خاتم الانبیاء کے بعد یہ ہجرت کی رات۔ تو یہ ربط کیا میں نے از خود ملادیا؟ تو یہ تو بہت بڑی جراءت ک ی بات ہے۔ اس میں تو کوئی وزن نہیں ہے۔جب تک کہ کوئی لفظ قرآن کا شاہد نہ ہو، وہ آیت جو اس کارنامہ علی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہوئی آئی:
(
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَا مَرَضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَوفٌ بِالْعِبَادِ
)
۔
اس آیت میں بھی اللہ نے نہ ان کا کوئی لقب کہا ہے، نہ ان کا کوئی وصف کہا ہے، نہ ان کا رسول سے کوئی رشتہ کہا ہے، نہ ان کا نام لیا ہے بلکہ بس ان کے کردار کو پیش کرکے، سرنامہ خطاب یہ ہے ، سرنامہ مدح یہ ہے ”ومن الناس“، انسانوں میں دیکھو ، یہ ایک شخص ہے جو اپنی جان کو رضائے الٰہی کیلئے دیتا ہے۔یہ اس سند میں انسان کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ یہی ضرورت تھی کہ آج علی نوعِ انسان کا نمائندہ بنے ہوئے نوعِ ملک پر اس کی بلندی کو ثابت کررہے ہیں۔ اس لئے اس دستاویز میں انسان کہا گیا۔ ہاں! اس کے بعد عام طریقہ قرآن کا یہ ہے کہ فرد کی مدح ہوتی ہے مگر جمع کے صیغہ میں یہاں تک کہ آیہ ولایت میں بھی سب جمع کے صیغے ہیں:
(
اِنَّمَاوَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُواالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةوَیُوتُوْنَ الزَّکوٰةوَهُمْ رَاکِعُوْنَ
)
۔
مدح فرد کی اور الفاظ جمع کے۔ مگر یہاں خالق نے وحدت نمایاں کی ہے۔ ”وَمِنَ النَّاسِ“، انسانوں میں ایسے بھی ہیں ”(
مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ
)
“، دیکھو! انسانوں میں یہ ایک ایسا ہے۔ اب ا س منزلِ قربانی میں کوئی کہیں نہیں ہے۔”(
مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ
)
“، اہل علم جانتے ہیں ”مِن“میں گنجائش واحد و جمع دونوں کی ہے۔مگر نہیں، فعل جو لائے گئے ہیں، وہ سب واحد”(
مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ
)
“، انسانوں میں وہ ہے جو بیچ ڈالتا ہے۔ بیچ ڈالتے ہیں نہیں، ”(
نَفْسَه هُوَ
)
“، واحد ک ی ضمیر ،نفس بھی واحد، ”(
اَنْفُسَهُمْ
)
“نہ یں، اپنے نفوس کو۔حالانکہ مباہلہ میں ایک نفس لایا جائے گا۔ مگر ”(
اَنْفُسَنَا
)
“کہا گ یا ہے۔ عام سنت الٰہی یہی ہے کہ واحد کی مدح جمع کے صیغے سے کرتا ہے۔
مگر یہاں وحدت نمایاں ہے کہ دیکھوکہ یہ بھی ایک ہے جو اپنی جان کو بیچتا ہے۔بس مدح میں کہتا ہوں ، اب میں کیا کروں کہ اس کے بعد وحی کا دروازہ بند ہوگیا۔ اس کے بعد کوئی قرآن کی آیت اُترتی ہوئی نہیں دکھا سکتا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اگر دس محرم ۶۱ ھ کو کوئی آیت اُترتی تو یہ وحدت جمع کی شکل اختیار کرتی اور آج فرشتے دیکھتے کہ ہاں! ایک جماعت ہے جو ایسا کچھ کرتی ہے کہ ہم نہیں کرسکتے۔اس وقت جمع کی شکل ہوتی کہ دیکھو! ایسے بھی انسان ہوتے ہیں ۔ کوئی یہاں کہہ سکتا ہے کہ یہ تو بہت حد سے بڑھی ہوئی با ت ہے۔ کہاں حضرت علی علیہ السلام اورکہاں یہ پورا مجمع؟یہ پوری جمعیت۔ کہاجارہا ہے کہ ان کیلئے کہا جاتا ۔
مگر میں کہتا ہوں ، وہ پوری جمعیت جس میں جتنا فرق ہے، وہ مجھے معلوم ہے۔ عصر تک کے جہاد میں اصطلاحی طور پر معصوم۔ تو بس ایک ذات ہے عصر تک کے جہاد میں۔ معصوم اصطلاحی ایک ذات، اس کے بعد سب عرب ہی نہیں، ان میں حبشی بھی ہیں، ترکی بھی ہیں۔ تو سب عرب بھی نہیں ۔ ارے سب آزاد بھی نہیں، ان میں غلام بھی ہیں۔تو اپنی جگہ تو جو فرق ہے،مجھے معلو م ہے اور زمین آسمان کا فرق ہے ۔ مگر جہاں تک کردارِ کربلا کا تعلق ہے، مجھے کوئی اور فرق کیا، مجھے اس کردار میں معصوم اور غیر معصوم کا فرق بھی نظر نہیں آتا۔اگر کردار کی منزل میں کوئی فرق ہوتا تو حجت خداسب کو مخاطب کرکے نہ کہتے کہ:
بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ یَا اَصْحَابَ الْحُسَیْنِ طِبْتُمْ وَطَابَتِ الْاَرْضِ الَّتِیْ دُفِنْتُمْ فِیْهَا
۔
معصوم ابن معصوم، حجت خدا ابن حجت خدا، وہ کہہ رہے ہیں میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، اے مجاہدین کربلا ! تم بھی پاک ہوئے اور وہ زمین بھی پاک ہوئی جہاں تم دفن ہوئے اور کاش! میں تمہارے ساتھ ہوتا اور اس عظیم کامیابی میں شریک ہوتا۔