امامت و خلافت ۲
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَة اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَ رْضِ خَلِیْفَه
)
۔
سورئہ الحمد کے بعد پہلے ہی سورہ میں اور قرآن مجید کے بڑے اور وسیع تر سورہ میں پہلے ہی رکوع میں یہ آیت ہے کہ وہ موقع آیا جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین مقرر کرنے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کیا اس زمین میں ان کو مقرر کیا جائے گا جو اس میں فساد کریں اور خونریزی کریں، حالانکہ ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں اور پاکیزگی کے ساتھ تجھے یاد کرتے ہیں۔ ادھر سے ارشاد ہوا کہ جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ وہ موقع یاد رکھنے کا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے سابقہ واقعات صرف تفریحِ طبع کیلئے بیان نہیں کئے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس میں اُمت کیلئے کچھ بصیرتیں موجود ہیں اور ان کی کچھ اہمیت ہے۔
جو میں نے عرض کیا کہ یہ موقع یاد رکھئے گا۔ اب اس کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے یہ کہا۔ کیا کہا؟ اب آنے والا ابھی ہم بتا بھی نہیں سکتے کہ کتنی مدت کے بعد آئے گا۔ چاہے سو برس ہیں، چاہے ہزار برس ہیں، اس کا بیان قرآن مجید میں بھی نہیں ہے، احادیث میں بھی نہیں ہے۔ بہرحال بہت پہلے سے کہا جارہا ہے کہ میں زمین میں ایک جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں۔اب چونکہ قرآن مجید میں یہ ہے کہ جانشین ، مگر کس سے تعلق ہے اس جانشینی کا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ۔ لہٰذا عام مفسرین اس میں پریشان ہوگئے ہیں۔ اس میں کہ جانشین بنانے والا ہوں۔ تو کسی کا جانشین؟ اب میں کہتا ہوں کہ دشواری کیا ہے؟ قرآن تو سامنے ہے، کافی ہے۔ مگر ذرا سی بات کے سمجھانے کیلئے کافی نہیں ہوتا۔ اب اُلجھے ہوئے ہیں کہ جانشین کس کا؟ تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ بہت دور کی کوڑی لائے۔ اب وہی تاریخ وغیرہ سے ،روایات سے۔ ورنہ اس وقت انہوں نے کہاں دیکھا تھا؟ تو یہ کہا کہ آدمی یعنی انسانی نسل سے پہلے اس زمین پر جنات و شیاطین آباد تھے جن کو عربی میں جنو نسناس کہتے ہیں۔آدمی ناس ہیں اور وہ نسناس۔ تو جنا ت و نسناس یعنی جنات و شیاطین۔یہ قوم اس دنیا میں بسی ہوئی تھی۔
اس کے بعد بداعمالیوں سے وہ تباہ و برباد کئے گئے۔ تو اب خالق کا مطلب یہ ہے کہ میں ان کی جگہ ، ان شیطانوں کی جگہ پر، جنات کی جگہ پر ایک مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ بڑے بڑے علماء غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ۔میں کہتا ہوں کہ فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست۔ ارے صاحب! بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی، اس کے بعد فرشتے کہہ رہے ہیں کہ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں، یعنی کسی اور کی کیا ضرورت ہے؟ ہم ہی کو کیوں نہیں مقرر کیا جاتا؟
تو سبحان اللہ! جنات و شیاطین کی جانشینی اور ملائکہ کا رشک کرنا۔ملائکہ کو اس کی تمنا پیدا ہوئی کہ جنات و شیاطین کی جگہ پر ہم کو رکھ دیا جائے ۔ تو ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات دل کو نہیں لگتی۔فرشتے، جوارِ اقدس میں بسنے والے، عالمِ بالا کے رہنے والے اور وہ اس کے قرب و جوار میں رہنے کی بجائے یہ طلب کریں کہ ہمیں شیطانوں کی جگہ اس دنیا میں بھیج دے۔ یہ خلافِ عقل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کا فیصلہ ہر زبان کے محاورے سے ہوسکتا ہے۔ کوئی صاحب آپ میں سے دوپر کے وقت کہیں گئے ہوئے تھے، وہاں سے کسی دوست کے ہاں آئے اور کہا کہ ارے بھئی! بہت پیا س لگی ہے۔ تو وہ دوست پوچھے گا کہ کس کو پیا س لگی ہے؟ ارے صاحب! کسی اور کو پیاس ہوتی تو اُس کا نام لیا جاتا۔ جب اس کانام نہیں لیا گیا تو سمجھ لیجئے کہ جو کہہ رہا ہے، اُسی کو پیاس لگی ہے۔
کوئی اور زیادہ بے تکلف دوست ہواو ر کہے کہ بہت بھوک لگی ہے، تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو بھوک لگی ہے اور مثلاً والد ماجد فرماتے تھے ، کیا کوئی پوچھے گا ، کس کے والد ماجد؟ کسی اور کے والد ماجد کا ذکر ہوتا تو اس کا نام ہوتا۔ جب کسی اور کی طرف اضافت نہیں دی تو سمجھئے کہ جو کہہ رہا ہے، وہ اپنے ہی والد کی بات کررہا ہے۔بھائی صاحب سفر سے آگئے ہیں،کہیں گئے ہوئے تھے۔کس کے بھائی صاحب؟ معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی اور کا ذکر ہوتو متعلق کیلئے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے اور جب خود متکلم اپنی طر ف اضافت دینا چاہے تو پھر کسی متعلق کے ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔کوئی کہے کہ پیا س لگی ہے، کوئی نہیں پوچھے گا کہ کس کو؟ کہے بھوک لگی ہے تو کوئی نہیں پوچھے گا، کس کو؟ کہے کہ والد صاحب نے کہا تھا، وہ نہیں پوچھے گا ، کس کے؟ بھائی صاحب نے کہا ہے، نہیں پوچھے گا، کس کے؟
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں جانشین مقرر کرنے والا ہوں۔ تو دنیا پوچھتی ہے کہ کس کا؟ ارے صاحب! جب نہیں بتایا کہ کس کا تو سمجھ لیجئے کہ جو کہہ رہا ہے، وہ اپنی ہی طرف اضافت دینا چاہتا ہے کہ میں زمین میں اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ تو خدا اپنا جانشین کیوں بناتا ہے؟ ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جانشین وہ بنائے جس سے مکان یا زمان خالی ہو۔مکان خالی ہو یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے تو جانشین بنائے۔ یا زمانہ اس سے خالی ہو تو جانشین بنائے اور ذاتِ الٰہی جو زوال و انتقال سے بری ہو تو اس کی طرف سے جانشین بنانے کے کیا معنی؟ اس کو میں دورُخوں سے سمجھا ؤں گا۔ ایک رُخ تو بہت کھلا ہوا ہے جس میں زیادہ غور کی ضرورت نہیں ہے، نہ علمیت کی ا س میں کوئی ضرورت ہے۔اس میں ایک ذرا سی گہرائی ہے۔مگر ماشاء اللہ ہمارا مجمع بافہم ہے تو کوئی گہرائی محسوس نہیں ہوگی۔
تو پہلا حل یہ ہے کہ بے شک خالق کی طرف زمین وآسمان دونوں کی نسبت یکساں ہے، باایں معنی کہ دونوں مخلوق ہیں اس کی۔
”رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
“۔
وہ آسمان کا بھی پروردگار اور زمین کا بھی پروردگار۔
مگر پھر بھی بلندی کے رُخ کو جو اس سے تعلق محسوس ہوتا ہے، وہ زمین کا نہیں ہے۔ تو تعلق زمین میں نہیں ہے۔دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ،جھکائے نہیں جاتے۔ یہ کس کیلئے؟ حضرت موسیٰ کلام کرنے طور کی بلندی پر جاتے تھے۔ زمین کے کسی غار کے اندر نہیں جاتے تھے۔ قرآن کے محاورات دیکھ لیجئے۔ جو چیز اس کی طرف سے آتی ہے، اس کو اتارنا کہا گیا ہے۔ قرآن اس کی طرف سے آیا تو اس کیلئے کہا گیا”اَنْزَلْنَا
“، ہم نے اُتارا۔ وحی اس کی طرف آئی ہے توا س کیلئے کہا جائے گا کہ وحی اُتاری۔ملک اس کی طرف سے آتا ہے تو اس کیلئے کہا جائے گا کہ ملک کو ہم نے اُتارا۔ اب یہ اور بات ہے کہ یہ سب تو ہر ایک کی سمجھ میں آجاتا ہے مگر قرآن میں ایک جگہ لوہے کو بھی کہا گیا ہے کہ ہم نے اُتارا۔ اب عرب کی زندگی کے اعتبار سے وہ لوہار تو نہیں تھے ، شمشیر زن تھے تو وہاں فولادی چیز جو ہوتی تھی، وہ تلوار ہوتی تھی۔ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے لوہا اُتارا جس میں لوگوں کیلئے خوف و دہشت ہے۔ تو یہ خوف اور دہشت ہتھوڑے سے نہیں ہوتی، آری سے نہیں ہوتی۔ کوئی ایسی چیز، ایسا لوہا جس میں خوف و دہشت مضمر ہو، تو اب دنیا ڈھونڈے کہ کوئی تلوار جو ادھر سے اُتری ہو۔
تو جو اُدھر سے چیزیں آتی ہیں، ان میں کہا جاتا ہے اُترنااور جو چیزیں اِدھر سے جاتی ہیں، ان کیلئے کہاجاتا ہے بلند ہونا۔ دعابندے کی چڑھتی ہے، بلند ہوتی ہے۔عمل صالح انسان کا اگر مقبول ہے تو اوپر جاتا ہے، بلند ہوتا ہے ۔ یہ ہمارا ہی محاورہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں ہے، جو نیک عمل ہے، وہ اسے اونچا کرتا ہے۔ نماز اگر مقبو ل ہے تو یہی آیا ہے کہ آسمانوں پر جاتی ہے۔ تو جو اُدھر سے چیز آتی ہے، اس کو اترنا اور جو چیز ادھر سے جاتی ہے، اس کو چڑھنا ۔ یہ آخر محاورہ کیوں ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ عرش یعنی پایہ تخت کا تصور جس میں پیش کیا گیا ہے، تو یہ اس کا پایہ تخت ہے۔ اس کے لئے تصور یہ ہے کہ وہ عالمِ اعلیٰ کا بلند ترین نقطہ ہے۔ عرش زمین کے نیچے نہیں مانا جاتا۔ آسمانوں پر یہ تصور سے خارج بلندی ہے۔ اُسے عرش مانا جاتا ہے۔ اسے پایہ تخت مانا جاتا ہے۔ ہاں مگر پایہ تخت کہنے سے میں یہ نہیں مانوں گا کہ وہ اس پر بیٹھتا بھی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ وہ پایہ تخت ہے اور اگر اس پر وہ بیٹھتا بھی ہے تو ہماری زمین پر تو اس کا گھر ہے، تو کیا وہ اس گھر میں رہتا بھی ہے؟ مکہ معظمہ میں وہ مقدس گھر جس کا تمام دنیا جاکر طواف کرتی ہے، اس کیلئے کیا تصور ہے، بیت اللہ۔ تو وہ اللہ کا گھر ہے ۔ تو کیا اس گھر میں وہ سکونت فرماتا ہے؟وہ اس میں رہتا ہے؟اس کا کسی فرقہ کے مسلمانوں کو تصور نہیں ہے۔ تو جب اس گھر میں رہنے کا تصور نہیں تو عرش کیلئے یہ تصو رکیوں کہ وہ بیٹھتا ہے؟
اب ایک عقلی بات ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے ۔ جسے بیٹھنے کیلئے تخت کی ضرورت ہو، اُسے رہنے کیلئے گھر کی بھی ضرورت ہوگی۔ جب اس کا گھر ہے مگر رہتا نہیں، تو آدمی غو رکرے کہ تخت میں یہ تصو رکیوں ہے کہ وہ اس پربیٹھتا ہے؟ میرے نزدیک تو یہ گھر بھی ایک نسبت ہے شرف اور عزت کو بڑھانے کیلئے اور وہ عرش کہنا بھی ایک نسبت ہے شرف اور عزت کو بڑھانے کیلئے۔ مگر جیسی نسبت ہوتی ہے، عملاً اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ بھی کیا جاتا ہے۔ یعنی اس نسبت کو اپنے عمل سے نبھایا جاتا ہے۔
صاحبانِ فہم! صاحبانِ عقل! سب سمجھ سکتے ہیں کہ گھر کی نسبت شخص کی طرف نجی اور انفرادی ہوتی ہے۔ تخت و سلطنت کی نسبت بادشاہ کی طرف منصبی ہوتی ہے۔ تو اسے کہہ رہا تھا اپنا گھر۔ اسے کہہ رہا تھا اپنا عرش۔ یہ ہے گھر تو جب گھریلو کام لینا ہوا، کسی کا زچہ خانہ بنانا تو اسے منتخب کیا اور جب کسی کو سرکاری مہمان بنانا ہوا تو وہاں بلالیا گیا۔
تو اب یہ دو الفاظ کہہ رہا ہوں ، اسے محفوظ رکھئے گا ، کوئی غلط فہمی نہیں ہوگی کہ جس حیثیت سے عرش اس کا پایہ تخت ہے، اُس حیثیت سے گویا زمین اُس سے خالی ہے۔ تو یہی تو کہاجارہا ہے کہ میں زمین میں ،جانشین مطلق نہیں کہا گیا، محض جانشین۔زمین میں جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ تو اب اپنے الفاظ میں یوں کہوں گا کہ ملائکہ سے کہا گیا کہ سنو ملائکہ! یہاں عالمِ بالا میں تو مَیں ہوں، میرا عرش ہے لیکن عالمِ ادنیٰ یعنی زمین اس شرف سے محروم ہے۔ لہٰذا میں ایک ایسے کو بنانا چاہتا ہوں جس کا دارالسلطنت زمین اسی طرح ہو جس طرح میرا دارالسطنت عرش ہے ۔اور ذرا سے الفاظ بد ل کر کہوں گا کہ ایسے کو مقرر کرنا چاہتا ہوں جسے زمین سے وہی نسبت ہو جو مجھے عرش سے ہے۔
اب یہ منزل اتنی پرکشش ہے کہ ملک کی نگاہِ طلب پڑتی ہے کیونکہ صحبت میں رہے مگر منصب سے محروم رہے۔ تو یہ بلندی نہیں ہے۔ ظاہری طور پر دور بھی ہوجائے مگر منصب کا حامل ہوکر رہے تو اس میں بلندی ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی دور کردوں کہ عرش اس کا پایہ تخت ہے مگر زمین اس کی ربوبیت سے خارج نہیں ہے۔ اسی طرح زمین اس کا پایہ تخت ہے مگر عالمِ بالا اس کی رسالت سے باہر نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں بھی جائے گا، نمازیں پڑھاتا ہوا جائے گا۔اقتداء کرتا ہوا نہیں جائے گا۔ امامت کرتا ہوا جائے گا۔ تو یہ تھا ایک پہلو جانشینی کا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ بات ہی غلط ہے کہ جانشین وہ بنائے جس سے جگہ یا زمانہ خالی ہو۔ یہ بنیادی تصور ہی غلط ہے۔ ایک اور صورت ہے جانشین بنانے کی ، وہ یہ ہے کہ کام کرنے کا کسی کے ہو، یعنی کسی طرح سے فریضہ اس کا ہو مگر کسی وجہ سے وہ خود آکر انجام نہ دے سکتا ہو۔
اس کی مثال ایک میں یہ دے سکتا ہوں کہ کوئی معزز آدمی کہیں جائے تو اس کے اعزاز میں جلسہ ہوتا ہے۔ اس جلسہ میں اس کے اعزاز میں سپاسنامہ پڑھا جاتا ہے۔ آئینی طور پر سپاسنامہ کا جواب دینا اسی مہمان کے ذمہ ہے جس کے اعزاز میں وہ جلسہ ہے۔ وہ سپاسنامہ پڑھا گیا ہے مگر اتفاق سے جس جگہ وہ پڑھا گیا ہے اور مجمع میں جو لوگ ہیں، وہ اس کی زبان سے واقف نہیں ہیں۔ یہ ان کی زبان سے واقف نہیں ہے۔ تو ناواقفیت بھی سد راہ ہوسکتی ہے۔وہ ہماری زبان سے واقف نہیں، میں ان کی زبان سے واقف نہیں۔ کوئی سپاسنامہ کا جواب دینے اگر خود سے کھڑا ہوجائے تو میرا فرض ادا نہیں ہوگا۔ غیر آئینی ہے۔ اس کے جواب سے میں سبکدوش نہیں ہوں گا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ انہی میں سے کسی کو میں اپنا نائب بناؤں جو میری زبان سے بھی واقف ہو اور ان کی زبان سے بھی واقف ہو تاکہ وہ میرا جواب میری زبان میں مجھ سے سنے اور ان کی زبان میں ان تک پہنچائے۔ بس خالق کو خلیفہ بنانے کی اسی لئے ضرورت تھی۔ خلقِ خدا کی رہبری، سیدھے راستہ پر پہنچانا اس کا کام ہے بحیثیت رب۔اگر وہ فقط خالق ہوتا تو خالق کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ تو پیدا کیا اور بس چھوڑ دیا۔لیکن وہ فقط خالق نہیں۔ یہی فرق ہے عیسائیوں کے محاورہ میں اور ہمارے محاورے میں ۔ وہ خدا کو کہتے ہیں”اَب“ یعنی باپ۔ ہم خدا کو کہتے ہیں رب یعنی پالنے والا۔ یہ با پ کا جو لفظ ہے، یہ سبب وجود کو بتاتا ہے۔ سبب بقا کو نہیں بتاتا۔
بہت سے بچے ہیں کہ باپ ان کے دنیا سے اٹھ گئے، تب وہ پروان چڑھے تو وجود میں باپ کا دخل ہے، بقا میں نہیں ہے۔لیکن رب، رب کے معنی ہیں پروان چڑھانے والا۔یہ بقا کے ہر لمحے میں اس کا رشتہ ہے ۔ انہوں نے”اب“ کہا ہے ۔ یہ رشتہ ماضی ہے اور ہم رب کہتے ہیں، یہ رشتہ حال ہے۔ یعنی ہمارا ہر نفس اس کی توجہ کا محتاج ہے۔ اس کی نگاہ ہم سے ایک لمحے کیلئے ہٹے تو ہماری ہستی نیستی میں بدل جائے۔ یہ سب ہے رب میں مضمر۔ تو اگر فقط خالق ہوتا تو ہدایت اس پر فرض نہ ہوتی۔ لیکن چونکہ وہ رب ہے، پروردگار ہے، اور تربیت کے معنی ہیں کسی شے کو اس کے ممکن درجہ کمال تک پہنچانا۔ لہٰذا اب صحیح اور غلط کا بتانا، اب اچھے اور برے کی تعلیم دینا۔ اب صحیح راستے پر چلانا، یہ سب فرائض تربیت میں سے ہیں۔ اب قرآن مجید کا ایک ایک لفظ وہ ہے کہ غور کیا جائے تو پردہ ہٹتا ہے کہ اس اعلان میں”قَالَ اللّٰهُ
“، نہیں کہا گیا کہ اللہ نے یہ کہا بلکہ”قَالَ رَبُّکَ
“تمہارے رب نے یہ کہا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو اعلان ہے، وہ تربیت کے ماتحت ہے۔ تربیت اس کا کام ،لہٰذا ہدایت اس کا کام۔
قرآن مجید میں ہے:ہر چیز کواُس نے پیدا کیا، پھر ہدایت کی، مگر انسان کے علاوہ جس جس چیز کی ہدایت ہے، وہ خلقی طور پر ارادئہ قاہرہ سے ہے۔ اس کا کام ہے اسے منزلِ ارتقاء تک پہنچانا۔ یعنی ایک قطرہ اس کی ہدایت سے گہر کی منزل تک پہنچتا ہے۔ایک بیج اس کی ہدایت سے ثمر تک پہنچتا ہے۔تو ہر چیز اپنے کمال کی منزل تک بہ ارادئہ الٰہی پہنچتی ہے۔ چیز کے اپنے ارادہ کا دخل نہیں ہے ۔ لیکن انسان کو اس طرح منزلِ کمال تک نہیں پہنچانا ہے ورنہ کوئی دنیا میں کافر ہی کیوں ہوتا؟اگر وہ اپنے ارادئہ قاہرہ سے ہر ایک کو مومن بنانا چاہتا ہو تو کافر دنیا میں رہتے ہی کیوں؟
اگر پروردگار چاہتا تو روئے زمین پر جتنے ہیں، سب مومن ہی ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوتِ قاہرہ سے اس کو منزلِ کمال تک پہنچانا، یہ منظور نہیں ہے۔ اسے منزل تک پہنچانا تھا، اسے منزل بتاکر چلنے کی دعوت دینا ہے۔اس کیلئے یہ تھا کہ وہ اسے صحیح راستے پر چلائے۔ اس کیلئے یہ ضروری ہوا کہ صحیح راستہ بتائے اور اس سے کہے کہ ادھر چلو۔ وہ آگے آگے چل کر کیسے بتائے کہ میرے پیچھے آؤ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ جسم رکھنے والے ، جسمانیات سے جو الگ نہیں ہیں، یعنی اسی خلقت میں سے کوئی ایسا ہو کہ جس میں ایسی صفائے جوہر ہوں کہ اُ س سے فیض لے سکے اور جسمانی طور پر ان کا ہم جنس ہو کہ ان کو پہنچا سکے۔ ایسی دو پہلو مخلوق کی ضرورت تھی جسے وہاں کہا گیا تھا کہ دونوں کی زبان جانتا ہو۔ تو ایسے دو پہلو مخلوق کی ضرور ت تھی جو گناہوں سے بری ہونے کی وجہ سے خود اس کا فیض حاصل کرنے کا مستحق ہو اور خلق خدا کو صحیح راستہ بتانے کیلئے ان کی ضروریات میں شریک ہو تاکہ ان پر حجت تمام کرسکے۔اگر اُسے بھوک نہ لگتی ہو اور وہ کہے کہ روزہ رکھو تو خلق خدا کہے گی کہ جناب! آپ کو بھوک کا مزہ ہی نہیں معلوم ۔آپ سمجھتے ہیں کہ روزہ رکھنا کوئی آسان ہے؟ آپ کیا جانیں کہ پیاس کیا چیز ہوتی ہے؟تو دن بھر پیاسا رہنا کہیں ہوسکتا ہے؟جو جو حکم وہ دے، دنیا کہے کہ جناب! ان تمام خواہشات سے آپ بری۔ آپ مثالِ عمل کہاں بن سکتے ہیں؟
تو خلق خدا پر حجت تمام نہ ہوتی۔ لہٰذا ایک ایسا ہونا چاہئے ، اور میں ایک لفظ پر اس کو ختم کرتا ہوں، دنیا کہتی ہے کہ کہا گیا کہ تمہاری ہی طرح بشر ہوں، تو ہم ہی جیسے ہیں۔ بالکل ہمارے جیسے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کہا تھا کہ تمہارے جیسا بشر ہوں، یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارے جیسا جاہل ہوں۔یہ کہا تھا کہ تمہارے جیسا بشر ہوں۔ یہ نہیں کہا تھا کہ تمہاری طرح خطا کارہوں۔تو بشریت پر ایمان لانا تو میں جزوِ دین سمجھتا ہوں، بشریت کا انکارمیں کفر سمجھتا ہوں۔ مگر بس دیکھنا یہ کہ کیسا بشر! میں کہتا ہوں کہ یہ بشر ایسے ہیں ، دنیا ملک کہنا ان کی تعریف سمجھتی ہے، میں ملک کہنا ان کی توہین سمجھتاہوں۔ یہ ملک اور انسان کی فضیلت کا جزو غالباً اسی سلسلہ بیان میں کل آپ کے سامنے عرض ہوگا۔
تو حضورِ والا! ایسا بشر ہو جو خالق سے اس کا فیض حاصل کرسکے اور ہم تک اس کے فیض کو اپنی زبان میں جو ہماری بھی زبان ہے، پہنچا سکے۔ تو اسے وہ اپنا جانشین بنائے، اپنا نائب بنائے کیونکہ نائب ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کام اُس کا کام ہوجائے۔اب یہ جو ہدایت کرے گا، وہ اس کی ہدایت نہیں ہوگی بلکہ وہ اُس کی طرف کی ہدایت ہوگی جس نے نائب بنایا ہے۔ تو اب چاہے اس کو ہدایت کرنے والا کہئے، چاہے اُس کو ہدایت کرنے والا کہئے، اس لئے اس کو ہم کہیں گے ہادی اور قرآن کہے گا:
(
اِنَّمَااَنْتَ مُنْذِرٌوَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
)
۔
کہ اے رسول! آپ منذر ہیں ، نبی اور رسول بھی ہیں لیکن انذار یعنی رسالت کا دروازہ بند ہوا ہے، ہدایت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ ہر نسل، ہر طبقہ کیلئے ہادی ہیں ، یعنی رسالت ختم ہوئی ہے، ہدایت ختم نہیں ہوئی۔ ناموں سے حقیقت نہیں بدلتی۔ میں کہتا ہوں کہ کبھی ہدایت بنامِ رسالت ہوتی ہے، کبھی ہدایت بنامِ امامت ہوتی ہے۔ لیکن ہدایت کا سلسلہ ختم نہیں ہوتاا ور بس۔ گزشتہ بیان کی روشنی میں ایک جملہ کہہ کر آگے بڑھوں کہ جنابِ والا!جب میں نے عرض کیا کہ ہدایت تقاضائے ربوبیت ہے تو بس ایک جملہ کافی ہے یعنی جب تک اس کی ربوبیت ہے، تب تک ہدایت ہے۔ اب یہ اتنا بلند منصب ہے کہ ملائکہ نے کہا:
(
اَتَجْعَلُ فِیْهَامَنْ یُفْسِدُفِیْهَاوَیَفْسِکَ الدِّمَاءَ
)
۔
کیا تو انہیں مقر رکرے گا جو فساد کریں اور خونریزی کریں؟بس بس۔ غیر متوازن الفاظ کبھی کبھی ناسمجھی سے استعمال کرلئے جاتے ہیں۔ شاید آپ نے سنا ہو یا کسی نے کہا ہو کہ ملائکہ نے اعتراض کیا۔ یاد رکھئے ملائکہ جو ہیں، وہ عصمت فطری کی منزل پر فائز ہیں اور قرآن کہہ رہا ہے:
(
لَا یَسْبِقُوْنَه بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِه یَعْمَلُوْنَ
)
۔
وہ اللہ پر بات کرنے میں سبقت ہی نہیں کرتے۔ وہ وہی کرتے ہیں جو اس کا حکم ہوتا ہے۔ تو اب فرشتوں کیلئے یہ کہنا کہ انہوں نے اعتراض کیا۔ تو میں ہرگز نہیں کہوں گا کہ اعتراض کیا۔ میں بس یہی کہوں گا کہ تعجب سے سوال کیااور اب ذرا سی علمی بات ہے کہ کوئی اطلاع دی جائے تو اس میں جھوٹ اور سچ کا سوال ہے۔ کوئی بات پوچھی جائے تو اس میں جھوٹ اور سچ کا سوال نہیں۔فرشتہ خود کچھ نہیں کہہ رہا،وہ تو ایک بات پوچھ رہا ہے۔ تو پوچھنے میں جھوٹ کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پھر فرشتے نے کام کیا کیا ہے؟ فرشتے نے کام یہ کیا کہ نوعِ انسان کی زندگی کا ایک تاریک رُخ لیا جو بلاشبہ ہے۔ کون کہہ سکتاہے کہ انسان فساد نہیں کرتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انسان خونریزی نہیں خرتا۔ تو ایک تاریک رُخ لیا انسان کا جو اس کی نظر میں بہت تاریک تھا۔ فساد تو بلاشبہ تاریک ہے ہی اور خونریزی بھی ، جو بطورِ فساد ہو۔ اس کے تاریک ہونے میں کیا شبہ ہے؟ تو اس رُخ کو لیا جو بے شک ہے اور اپنی زندگی کا روشن پہلو لیا جو حقیقتاً ہے۔ لیکن انسان کی مجال ہے کہ وہ کہے کہ ملک تسبیح نہیں کرتا، تقدیس نہیں کرتا۔ جو اپنی صفت تسبیح و تحلیل کی بتائی، وہ حقیقتاً ہے ۔جو عام انسانوں کی صفت بتائی، فساد اور خونریزی، وہ بھی ہے۔ ہر جزو صحیح۔ بس کام یہ کیا کہ دونوں کو ملا کر پوچھ لیا۔ اپنی زندگی کا روشن رُخ ، ان کی زندگی کا تاریک رُخ۔ان دونوں کو ملا کر پوچھ لیا کہ کیا انہیں مقرر کیا جائے گا؟ہمیں نہیں؟
نتیجہ پھر ملک نے نہیں نکالا کہ ہم زیادہ حقدار ہیں کیونکہ یہ نتیجہ جھوٹ ہوتا۔یہ نتیجہ غلط ہوتا۔یہ نتیجہ ملک نے نہیں نکالا۔اسے سادہ لوح انسانوں پر چھوڑا کہ وہ یہ ہی نتیجہ نکالیں گے۔مگر یہ پوچھا ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ یہ سوال ہی کیوں کیا؟ تو یاد رکھئے کہ سوال کرنے کا حق تو بہرحال انہیں یوں تھا کہ وہ بارگاہِ قدس کے طالب علم ہیں اور طالب علم کی سمجھ میں جو بات نہ آئے، اسے اُستاد سے پوچھنے کا حق ہے۔ متعلم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اجازت لازمی طور پر حاصل ہے ورنہ فریضہ تعلیمی ادا ہی نہیں ہوگا۔معلم ہونے کا رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ طالب علم کو حق دے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے، اسے مجھ سے پوچھنا۔ اور یہاں وہ پوچھنا کسی مقصد الٰہی کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔میرے نزدیک اگر وہ یہ نہ پوچھتے تو ایک مقصد الٰہی پورا ہونے سے رہ جاتا۔ وہ مقصد الٰہی کیا ہے؟ ایک تو جو میں پہلے کام لے چکا ان کے اس سوال سے ، وہ یہ ہے کہ مقصد کی جلالت نمایاں ہوئی کہ یہ منصب ایسا بلند ہے کہ ملک کی نگاہِ طلب بھی پڑتی ہے۔ اب خلق خدا کیلئے انتباہ ہے کہ اسے کبھی ارزاں نہ بنا لینا۔اتنا اونچا ہے یہ منصب۔اور وہ بھی اسی نام سے جسے تم نے ارزاں بنایا۔
یہاں اعلان جو کیا گیا، وہ اسی نام سے کہ اسے ارزاں نہ بنا لینا۔ یہ ایک مقصد ہے جو میں پہلے یہ کام لے چکا۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ملک نے سوال کیا اور خالق نے وہ جواب دیا جو بعد میں دیا جائے گا۔ یہ تمام دنیا کو دکھانا ہے کہ دیکھو! اس منصب کا اختیار ایسا میری ذات سے خاص ہے کہ جس میں ملک کے معصوم مشورہ کو بھی دخل نہیں ہے، چہ جائیکہ خطاکاروں کا اجماع یا شوریٰ۔
بس اب آیت پوری پڑ ھ چکا ہوں، اس کے بعد اس کے اجزاء سے متعلق جو باتیں ہیں، وہ کل عرض ہوں گی،خالق نے جواب دیا:
(
اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ
)
۔
میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اس پر تبصرہ کل ہوگا۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اصولِ نیابت شروع یہاں سے ہوا۔ نائب ابھی میں نے کہا کہ وہ کام کرے جو اس کا کام ہو۔ جس کے کام کو وہ اپنا کام کہہ سکے اور جس کے کام کو دنیا اس کا کام کہہ سکے، وہ نائب ہے۔ تو انبیاء اللہ کے نائب ہیں، مرسلین اللہ کے نائب ہیں۔ ہمارے نزدیک آئمہ حق اللہ کے نائب ہیں۔آدم اپنے وقت میں خلیفۃ اللہ تھے۔ نوح اپنے دور میں خلیفۃ اللہ تھے۔ ابراہیم اپنے وقت میں خلیفۃ اللہ تھے۔موسیٰ و عیسیٰ اپنے اپنے وقت میں خلیفۃ اللہ تھے اور ہمارے پیغمبر بلاقید وقت خلیفۃ اللہ تھے۔
بہرحال عملی حیثیت سے اپنے دور میں جب اس دارِ دنیا میں تشریف رکھتے تھے تو جو جو ہدایات فرماتے تھے، وہ بحیثیت خلیفۃ اللہ کے تھیں اور جب دنیا سے تشریف لے گئے تو جو ان کی جگہ پر ہدایت خلق کے منصب پر ہو، وہ خلیفۃ اللہ ہے۔ اس طرح ایک بڑی مشکل جو اکثریت کو پیش آئی، وہ ہمارے ساتھ پیش نہیں آئی۔ یعنی اکثریت کو یہ مشکل پیش آئی ، متفقہ بات ہے کہ جب پیغمبر خدا دنیا سے اٹھے اور دنیا نے اپنا نظام بنامِ خلافت چلایا، تو اب پہلا فرد، تو انہوں نے کہنا شروع کیا، خلیفة رسول اللہ۔ بہت کھلی ہوئی بات ہے، غور کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ پیغمبر دنیا سے گئے ہیں۔ ہم ان کا جانشین بنا رہے ہیں تو خلیفة رسول اللہ۔تو اب جو آتا ہے ، وہ کہتا ہے:
”اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَة رَسُوْلِ اللّٰهِ
“۔
سلام ہو آپ پر اے خلیفہ نبی۔ سلام ہو آپ پر اے رسول اللہ کے خلیفہ۔
اب اس وقت وہ بعد کی مشکل ذہن میں نہیں آئی تھی کہ بات کہاں تک پہنچے گی۔ کوئی دقت نہ ہوئی ، عمر گزر گئی۔مختصر تو ہوتی ہے عمر۔ وہ اتنے دن تک کہتے رہے خلیفة رسول اللہ۔ اب نمبر بڑھا۔ نمبر جو بڑھا تو خود صاحب اقتدار جو موجود تھے،اب ان کے ذہن میں دشواری پیدا ہوئی۔ خود ان کے ذہن میں کشمکش پید اہوئی کہ صاحب! اب میں کیا کہا جاؤں؟ اب وہ بیچ میں ایک کڑی آگئی۔ تو اب علم معنی و بیان کی ہمارے ہاں ایک اصطلاح ہے ”تتابُعِ اِضافات“۔یعنی پے در پے اضافت۔ تو اب رسول اللہ کا خلیفہ ، تاکہ رسول پہنچایا جائے۔ بغیر اس کے تع تقدس نہیں پیدا ہوگا۔ تو رسول اللہ کے خلیفہ کا خلیفہ۔
خیر صاحب! تھوڑی سی تو زحمت ہوئی ہے۔ یونہی سہی۔ اب آگے بڑھے تو دو اضافتیں آئیں۔ رسول اللہ کے خلیفہ کا خلیفہ۔ اب ذہن میں ہے کہ یہ تو سلسلہ رہے گا۔ اس وقت مصطفےٰ کمال پاشا کی کسے خبر تھی کہ وہ آکر اس سلسلہ کو ختم کردے گا۔ حوصلہ تو یہ تھا کہ رہے۔ تو صاحب! یہ بڑی زحمت بے جا ہے۔ تو کیونکر حل ہوا اس کا؟ مجمع کیا گیا۔ مجلس شوریٰ قائم ہوئی اور اس میں پیش کیا گیا کہ بھائیو!یہ بڑی مشکل ہے۔ تمہاری سمجھ میں اب تک نہ آئی۔ لیکن بحمد للہ میری سمجھ میں یہ مشکل آئی کہ اب کیا ہو۔ تم بتاؤ کہ اس کا حل کیا ہو؟ یعنی مشکل سمجھ میں آگئی ہے، حل سمجھ میں نہیں آیا ہے۔مشکل کے حل کیلئے مدد کی ضرورت ہے۔تو بتاؤ کہ کیا ہو؟نکتہ رسی سے کام لے کر اُسے نہیں بلوایا گیا تھا کہ جس کا کام ہی مشکل کشائی ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احساس تھا کہ وہ جوبنیادی طور پر ، بنیادِ مشکل سے الگ ہے، اس سے متفق نہیں ہیں۔ بہرحال موجود لوگوں میں سے کوئی لال بھجکڑ تھا، سمجھ دار آدمی، ذہین۔ تو اس نے یہ کہا کہ صاحب! اس جھگڑے ہی کو چھوڑئیے۔ارے ہم مومنین ہیں، آپ ہمارے امیر ہیں۔
لہٰذا یہ خلیفہ کا جھگڑا ہی ختم کیجئے۔ مصطفےٰ کمال پاشا نے بعد میں ختم کیا۔ انہوں نے اسی وقت ختم کردیا کہ صاحب! یہ جھگڑا نہیں۔ تو سن لے آپ نے کہ ہم مومنین اور آ پ ہمارے امیر۔کہا: کیا عمدہ رائے تم نے تجویز کی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے ہی قدم میں رسول سے تو رشتہ منقطع ہوگیا۔ اب جمہور سے رشتہ رہ گیا۔ تو جناب! اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور نسل در نسل چلتا رہا اور ہر دَور میں چلتا رہا۔جب تک کہ وہ سلسلہ ختم نہیں ہوگیا۔ اور جناب! ہمارے لئے یہ مشکل نہ پہلے تھی، نہ بعد میں ہوئی۔ ہمارے نزدیک بیچ میں کسی مخلوق کا قدم آتا ہی نہیں۔ ہمارے نزدیک رسول اللہ بھی خلیفۃ اللہ ، علی مرتضیٰ بھی خلیفۃ اللہ، حسن مجتبیٰ بھی خلیفۃ اللہ، حسین بھی خلیفۃ اللہ۔ پورا سلسلہ ہے خلفائے خدا کا۔ سب نائب خدا ہیں اور نائب رسول بھی ہیں۔نائب کا نائب بھی نائب ہی ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس کے خلاف بات نہیں ہے۔
تو وہ اصول کہ جو اس کا کام ہو، وہ اُس کا کام ہو۔ تو یہ نیابت کا تقاضا اور جو اس کے ساتھ عمل ہو، وہ اس کے ساتھ عمل۔ یہی نیابت کا تقاضا ہے۔ اب میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا ہوں۔
(
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ
)
۔
”جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ کی اطاعت کی“۔
یعنی پہلی اضافت ان کی طرف اطاعت کی۔ پھر وہی اس کی طرف اضافت۔ کیا مطلب؟ چونکہ نائب ہیں، لہٰذا جو اُن کی اطاعت وہ اُس کی اطاعت۔
(
اِنَّ الَّذِیْنَ یّبَایِعُوْنَکَ اِذْیُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ یَدُاللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ
)
۔
یہ جو آپ سے بیعت کررہے ہیں ، وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ بیعت ہے ان کے ہاتھ پر مگر وہ کہہ رہا ہے کہ میری بیعت ہے۔ یہ اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھ پر ورنہ وہ جسم و جسمانیات سے بری، اس کے ہاتھ کہاں سے آئے؟اسی دن کیلئے تونائب بنایا ہے۔ تو جو اس کے ساتھ برتاؤ، وہ اس کے ساتھ برتاؤ۔ جو ان کی نافرمانی کرے، اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ نیابت کا تقاضا یہاں نظر آرہا ہے۔
جنابِ والا! بس، یہ اصول سمجھ لیجئے کہ جو اس کے ساتھ ہے، وہ اُس کے ساتھ اور جو اس کا کام ، وہ اُس کا کام۔ اب جہاں جہاں یہ بات نظر آئے ، سمجھ لیجئے کہ یہ نیابت کی دوسری نظیر ہے یعنی نائب ہونے کا ثبوت ان الفاظ سے ہوتا ہے۔اب دیکھئے متفق علیہ حدیث، صحاحِ ستہ کی ہے کہ رسول نے کہہ دیا:
”یَاعَلِْیُّ حَرْبُکَ حَرْبِیْ سِلْمُکَ سِلْمِیْ
“۔
یا علی ! تمہاری جنگ میری جنگ،
اس دوسرے لفظ کا ترجمہ ذرا مشکل سے ہوتا ہے۔ لوگ ترجمہ کرتے ہیں، تمہاری صلح مگر صلح کے لفظ سے ذہن میںآ تا ہے ، لڑنے کے بعد صلح کرنا تو اس ے معنی ہیں کہ پہلے لڑے۔ شاعر نے کہا ہے کہ بڑا مزا اس ملاپ میں ہے جو صلح ہوجائے جنگ ہوکر ۔ اس سے وہ مفہوم ادا نہیں ہوگا جو رسول نے کہا ہے۔ ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکر آدمی پھر صلح کرے بلکہ حرب کے مقابلہ میں جو چیز ہوتی ہے، تم سے جنگ، مجھ سے جنگ۔ اور اب میں اُردو زبان میں کہنے کی کوشش کروں کہ تم سے ملاپ رکھنا، ملاپ کرنا نہیں، تم سے ملاپ رکھنا، مجھ سے ملاپ رکھنا ہے۔ اور بعض الفاظ ہیں جو ہمارے محاورہ میں نہیں تھیں۔ مگر اخباروں سے یاد آتی ہیں ، وہ ادائے مطلب میں مجھے یہاں مدد پہنچائیں گی۔
تو جناب! یہ ہمارا محاورہ نہیں تھا مگر اخباروں میں بہت دیکھا ہے۔ وہ میرے مطلب کی با ت ہے۔ وہ کیا؟ کہ ان سے جنگ، مجھ سے جنگ اور تم سے ناجنگی، مجھ سے ناجنگی۔ یہ حرب اور سلم دونوں مصدر ہیں۔ اُردو میں مصدر کے آخر میں ”نا“ ہوتا ہے۔ حرب کے معنی لڑنا اور سلم کے معنی نہ لڑنا۔حرب اور سلم دونوں عربی زبان میں مصدر ہیں۔ ہر زبان میں مصدر کی اضافت کبھی فاعل کی طرف ہوتی ہے اور کبھی مفعول کی طرف۔
کوئی دوست آپ کے ایسے تھے کہ بچہ پر غصہ آیا تو بیدردی سے ماررہے ہیں۔ آپ ملاقات کو گئے۔ وہ بچے کو ایسی شدت سے مار رہے تھے کہ آپ ٹھہرے نہیں،واپس آگئے۔ دوسرے دن انہوں نے کہا:ارے بھئی! آپ آئے اور ٹھہرے ہی نہیں۔ تو ان کے جواب میں آپ کہئے گا کہ تمہاری مار سے مجھے ایسی اذیت ہوئی ، ایسی تکلیف ہوئی ، تمہاری مار سے کہ مجھ سے دیکھا نہ گیا، میں چلا گیا۔ کیا مطلب؟ یہ اضافت فاعل کی طرف ہے۔ تمہاری مارسے۔ یعنی تم جو ماررہے تھے اپنے بچے کو، یہ ہوئی اضافت فاعل کی طرف۔ اب خدانخواستہ کوئی آپ کے شناسا ،انہیں راستے میں کسی نے زدوکوب کردیا۔ آپ کو خبر پہنچی۔ آپ سے ملاقا ت ہوئی تو آپ نے بطورِ ہمدردی کہا کہ بھئی! تمہاری مار سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ اب ”تمہاری مار“ کے کیا معنی ہوئے؟یعنی تم پر جو مار پڑی ۔ تو یہ اضافت مفعول کی طر ف ہوئی۔ وہاں اضافت فاعل کی طرف تھی۔یہاں تماری مار جو لفظ ہے، اس کی اضافت مفعول کی طرف ہے۔ اب رسول فرمارہے ہیں: ”یَا عَلِیُّ حَرْبُکَ حَرْبِیْ
“۔ حدیث ہے متفق علیہ۔ دونوں معنی ہیں۔ دنیا کو جو پسند ہوں۔ دونوں مفہوم پیش کئے دیتا ہوں۔ اگر اضافت فاعل کی طرف ہے تو یہ معنی ہوں گے کہ یاعلی ! تمہارا جنگ کرنا میرا جنگ کرنا ہے۔ تو اب جس جس سے بھی علی نے جنگ کی ہو، اُسے سمجھئے کہ رسول اللہ نے جنگ کی۔ اگر اضافت مفعول کی طرف ہو تو معنی ہو گئے کہ تم سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔
تو اب تاریخ میں دیکھ لیجئے کہ جس جس نے ان سے جنگ کی ہو، اب نہ رشتہ دیکھئے گا، نہ صنف دیکھئے گا۔ اب ایک خاتونِ معظمہ، وہ بھی متفق علیہ حدیث ہے کہ فرمایا:
”فَاطِمَة بَضْعَة مِنِّیْ
“۔
”فاطمہ میراایک جزوہے“۔
”مَنْ اَذَاهَافَقَدْاَذَانِیْ
“۔
”جس نے اسے تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی“۔
”وَمَنْ اَغْضَبَهَافَقَدْ اَغْضَبَنِیْ
“۔
”اورجس نے اسے غضبناک کیا، اُس نے مجھے غضبناک کیا“۔
میں نے ابھی کہا کہ یہ ترکیب کہ جو اس کے ساتھ ہو، وہ میرے ساتھ ہوا۔یہ نیابت کا پتہ دیتا ہے۔ اب چاہے اس نیابت کی اس قسم کا مجھے نام نہ معلوم ہو، ناموں سے فرق نہیں پڑتا۔ کبھی وہ نیابت بصورتِ نبوت ہوتی ہے۔ کبھی نیابت بصورتِ رسالت ہوتی ہے۔ کبھی نیابت بصورتِ امامت ہوتی ہے۔ اب اس نیابت کا خواہ مجھے نام معلوم نہ ہو، مگر ان الفاظ کی رو سے ماننا پڑے گا کہ یہ بھی نائب رسول ہیں اور بچوں کیلئے کہا:
”مَنْ اَحَبَّهُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَغْضَبَهُمَافَقَدْ اَغْضَبَنِیْ
“۔
”جس نے ان سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان کو غضبناک کیا، اس نے مجھ کو غضبناک کیا“۔
جو نیابت کے تقاضے ہیں، سب نظر آرہے ہیں یا نہیں! یہ سب احادیث پیغمبرہیں۔اس سے پہلے قرآن مجید کی آیتیں تھیں جو رسول کی نیابت کے بارے میں مَیں نے پیش کیں۔ اب بہت جانی پہچانی شخصیت، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، جن کی کتاب ردِ شیعہ میں تحفہ اثناء عشریہ، اپنے طبقہ کیلئے مایہ ناز کتاب ہے۔ اس کے مصنف، تو جناب ان کی کتاب ہے سرالشہادتین۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ہمارے رسول کووہ سب فضیلتیں عطا کیں جو تمام انبیاء کو ملیں بلکہ اس سے بالا تر۔ لیکن ایک صفت انبیاء کو ملی تھی جو براہِ راست ہمیں ان کے ہاں نظر نہیں آتا۔ وہ ہے شہادت۔ لہٰذا خالق کو یہ منظو رہوا کہ صفت شہادت ان کے فضائل میں رہ بھی نہ جائے اور براہِ راست ان پر کسی دشمن کا وار کام بھی نہ کرے۔ اس کیلئے اللہ نے ان کو ۲ نواسے عطا فرمائے اور شہادت کی دو اقسام ہیں۔ ایک شہادتِ سرّی اور ایک شہادتِ جہری۔
مخفی شہادت زہر سے ہوتی ہے اور اعلانیہ شہادت تلوار سے ہوتی ہے۔ دونوں شہادتیں دونوں نواسوں پر تقسیم ہوگئیں۔ حسن کے حصہ میں شہادتِ سرّی آئی اور حسین کے حصہ میں شہادتِ جہری آئی۔ یعنی کھلم کھلا شہادت۔ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے صفت شہادت کو فضائل رسول میں شامل کردیا۔
اس کا نتیجہ؟انہوں نے فرمایا کہ اگر وہ میرے سامنے ہوتے تو میں بڑے احترام سے عرض کرتا۔ بہت بڑے آدمی ہیں، میں بڑے احترام سے عرض کرتا ہوں کہ یہاں تک تو آپ نے فرمادیا، جو میں سوال کروں ،اس کا جواب دیجئے کہ جب اِن کی شہادت اُن کی شہادت، تو جو اِن کا قاتل ہے، وہ اُن کا قاتل۔
اب جناب! نہ ہچکچائیے گا،جتنے زور سے آپ نے وہ بات کہی ، اتنے ہی زور سے میری بات کا جواب دے دیجئے گا اور سوائے ایک جواب کے دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ کو منطقی طور پر قبول کرنا پڑے گا کہ جو اِن کا قاتل، وہ اُن کا قاتل یعنی رسول کا قاتل۔اب یہ جملہ ان کا ابھی تک ہے مگر کھول کر دونوں ٹکڑے کہہ دیجئے کہ جو حسن کا قاتل، وہ رسول کا قاتل اور جو حسین کا قاتل، وہ بھی رسول کا قاتل۔اب کوئی بحث نہ کیجئے گا کہ حسین کے قاتل کو یہ یہ کہا جائے یا نہیں۔بس آپ جو جو رسول کے قاتل کو کہہ سکتے ہیں، وہ کہئے۔ ایک اور سوال کا جواب ہوجائے ۔ ہم سے یہ سوال کیا جاتا ہے ، طرح طرح کی منطقی باتیں سوچ سوچ کر ہماری عزاداری پر کہی جاتی ہیں۔ یعنی ہاتھ ہم اپنے سینوں پر مارتے ہیں، دل دوسروں کے دہلتے ہیں۔ روتے ہم ہیں، صدمہ دوسروں کو ہوتا ہے۔طرح طرح کے منطقی سوال سامنے آتے ہیں کہ وفاتِ رسول پر اتنا غم و ماتم نہیں ہوتا جتنا امام حسین کی شہادت پر ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کو رسول سے بڑھاتے ہو۔
تو اب اس کا جواب تو یہ ہے کہ میں یہ کہوں کہ اچھا صاحب! نواسے کو ہم نے حصہ میں لے لیا ہے، رسول کو آپ حصہ میں لے لیجئے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس میں ہم آکر آپ کے ساتھ شریک ہوں گے، آپ اس میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔
جناب شاہ عبدالعزیز کے مطابق سال میں دو تاریخیں ہیں، ایک وفاتِ رسول کی، ایک شہادتِ رسول کی۔وہ ربیع الاوّل کی کسی تاریخ کو ہے اور یہ جو دس محرم کو ہے، یہ شہادتِ رسول کی تاریخ ہے۔اب آپ بتائیے کہ وفات کی یادگار قائم کریں یا شہادت کی؟ اور اب مصائب میں مَیں کہتا ہوں کہ اسے ہم سے کیوں پوچھتے ہیں؟ آسمان سے پوچھیں کہ وفاتِ رسول پر خون کیوں نہیں برسا؟ حسین کی شہادت پر کیوں خون برسا؟
اسے سید کمال الدین محمد ابن طلحہ شافعی کی ”مطالب السئول“ میں دیکھ لیجئے۔ علامہ ابن حجر مکی کی ”صواعق محرقہ“ میں دیکھ لیجئے، خواہ سبط ابن جوزی کی”تذکرئہ خواص الآئمہ“ میں دیکھ لیجئے کہ دس محرم کے بعد چالیس دن تک جو کپڑازیر آسمان پھیلایا جاتا تھا،اُس پر خون کے دھبے نظر آتے تھے۔ اہل عزا دیکھیں کہ عاشورے ہی کی تاریخ اِدھر سے مقرر نہیں ہوئی بلکہ چہلم کی تاریخ بھی اُدھر سے مقرر کی ہوئی ہے۔یعنی اس نے بیس صفر تک کائنات کو سوگوار رکھاہے۔ چہلم کے دن تک، بیس صفرتک خون برس رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پیغمبر خدا کے غم میں سیدہ عالم رو رہی تھیں، علی رو رہے تھے، حسنین رو رہے تھے ، ارے صحابہ میں بھی جن جن کو رونے کی فرصت تھی، وہ رو رہے تھے۔ سب ہی سیاست دان نہیں تھے۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے ”مدارج النبوة“ میں کہا کہ بعض صحابہ گریبان پھاڑ پھاڑکرجنگلوں میں نکل گئے اور مدینہ میں کہرام برپا تھا۔ یہ تاریخ سے ثابت ہے۔ تو یقینا یہ سب رو رہے تھے۔ مگر حسین کے غم میں تو رسول اللہ رو رہے ہیں او رپھر دیکھئے کہ جنابِ اُم سلمہ نے خواب دیکھا اور ہ بھی متفق روایت ہے کہ جس نے خواب میں مجھ کو دیکھا، اس نے مجھ ہی کو دیکھا کیونکہ شیطان کی یہ مجال نہیں کہ میری صورت میں آئے۔یہ صحیح مسلم وبخاری کی متفق حدیث ہے۔ اب دیکھئے صحیح ترمذی میں کہ جنابِ اُمِ سلمہ،اب کوئی اور خواب دیکھتا تو کوئی یہ بحث پیدا کرسکتا تھا کہ وہ رسول کی صورت کو کیا جانے؟ لیکن جنابِ اُمِ سلمہ کے بارے میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ رسول نے ایک خاک دی تھی کہ اسے رکھ چھوڑو۔
یہ بھی صحیح ترمذی میں ہے کہ جب یہ خون ہوجائے تو سمجھنا کہ میرا فرزند حسین شہید ہوگیا ہے۔یہ خاک جب حسین کے سفر کے بعد دیکھتی تھیں تو دل کو ڈھارس ہوجاتی تھی کہ حسین زندہ ہیں۔