مودّت فی القربٰی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(
قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
۔
کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ اپنی خدمات کا نہیں مانگتا ، سوائے صاحبانِ قرابت کی مودت کے۔ گزشتہ دو تقاریر کا خلاصہ یہ ہے کہ عمل کی بلندی وابستہ ہے شخصیت کی بلندی سے۔ اسلام میں شخصیت کی بلندی عمل ہی کی بلندی سے تو ہوتی ہے۔یہ ایک جزو تھا۔ دوسرا جزو یہ ہے کہ تمام کائنات میں انبیاء افضل ہیں اور تمام سلسلہ انبیاء میں ہمارے رسول بلند درجہ رکھتے ہیں اور سب سے افضل ہیں۔
ایک عام سوال جس کا بظاہر موضوع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ وہ نیک عمل زیادہ بلند ہے جس کے ساتھ کوئی معاوضہ شریک ہو یا وہ عملِ خیر جس کے ساتھ کسی معاوضہ کا سوال نہ ہو۔ ہر شخص اس کا جواب یہی دے گا کہ وہ عمل بالاتر ہے جس کے ساتھ کوئی معاوضہ شریک نہ ہو اور وہ عملِ خیر اُتنا اونچا نہیں ہے جس کے ساتھ کسی معاوضہ کا تصور ہو۔ معاوضہ ضروری نہیں کہ روپیہ پیسہ ہی ہو۔ انسان کو فائدہ پیش نظر ہو تو وہ بھی معاوضہ ہے۔ لیکن اگر عملِ خیر کے ساتھ نہ کوئی فائدہ ہے، نہ کوئی مفاد ہے، صرف عملِ خیر ہے ۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ نیک عمل ہے۔ تو اس میں بلاشبہ بلندی زیادہ ہوگی۔
مثال کے طور پر پردئہ شب میں سائل آیا آپ کے پاس ، جو کچھ اُس وقت تھا، وہ اُسے دے دیا۔ مقدار تو کم ہے لیکن عمل بے لوث ہے۔ یہ معلوم ہے کہ یہ اخباروں میں شائع نہیں ہوگا اور اس بات کے بظاہر اسباب نہیں ہیں کہ یہ کسی وقت مجھے صلہ دے۔ اس کو شہرت نہیں ملے گی، اس کا چرچا بھی لوگوں تک نہیں پہنچے گا۔ جو کچھ دیا ہے، بے غرضی کے ساتھ دیا ہے۔ یہ مقدار قلیل ہوگی مگر عمل بلند ہوگا۔ دوسری طرف فرض کیجئے کہ حکومت نے چندہ کا مطالبہ کیا ہے۔ بڑے کارِ خیر اور نیک مقصد کیلئے ہے۔ اس کیلئے اجتماع ہوا ہے۔ اس اجتماع میں ایسے ایسے لوگ بلائے گئے ہیں جن کا اس مقصد کیلئے مدد دینا وقیع ہو۔ بلاشبہ وہ لوگ جو دیں گے ، وہ بہت ہوگا بلکہ شاید پوچھ پوچھ کر دیا جائے کہ کس نے کتنا دیا؟ اس لئے اس سے زیادہ دینے کی کوشش کی جائے گی ۔ مگر معلوم ہے کہ فہرست عطایا کی اخباروں میں شائع ہوگی۔ حکومت کے ریکارڈ میں بھی محفوظ رہے گی۔ غرض یہ کہ جو اس وقت دیا ہے، نہ جانے کس کس وقت کام آئے گا۔ تو یہ مقدار تو زیادہ ہوگی لیکن اس کے ساتھ بہت سے معاوضوں کا تصور ہے۔ اس میں ہر ضمیر محسوس کرتا ہے کہ اتنی بلندی نہیں ہوگی۔ اس سے یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ عمل کہ بلندی یا پستی مقدارِ عمل سے وابستہ نہیں ہے۔ لہٰذا کسی ضربت کو اگر ترجیح دے دی جائے ، کسی وقت ثقلین کی عبادت پر، تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
بس ہر ایک نے اس کا جواب یہی دیا کہ جس میں معاوضہ شریک ہو، وہ عملِ خیر اتنا اونچا نہیں ہوتا جتنا وہ کہ جس میں معاوضہ کا تصور نہ ہو۔ کل کے پورے بیان کو اس کڑی کے ساتھ وابستہ کرکے دیکھئے کہ ہمارے سامنے قرآن مجید میں تمام انبیاء کی آوازیں ہیں۔روایات نے نہیں پہنچائیں، اس قرآن مجید نے پہنچائی ہیں۔ قرآن مجید میں تذکرہ ہے ہر نبی کا۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے:
(
لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
)
۔
”میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا“۔
اور بس اس کے بعد خاموش ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ کوئی اجر نہیں ، کوئی معاوضہ نہیں۔ ایسے ایسے انبیاء جو اولوالعزم نہیں ہیں، صاحب شریعت و کتاب نہیں ہیں بلکہ نبی ہیں۔ رسول ہونا ان کا ثابت نہیں مگر قرآن مجید میں ان سب کی صدائیں ہیں کہ:
(
لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
)
۔
”میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا“۔
جنابِ نوح یہی کہتے ہیں اور جنابِ شعیب یہی کہتے ہیں۔ جو نبی ہے، وہ یہی کہہ رہا ہے ، اس کو تلاش کرلیجئے سورئہ قصص میں بھی یہی ہے، سورئہ انبیاء میں بھی ہے، سورئہ ھود میں بھی ہے۔ جو نبی ہے، وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا اور اس کے بعد چپ ہوجاتا ہے ، خاموش ہوجاتا ہے اور ہمارے نبی جو افضل المرسلین ہیں، وہ شروع تو یونہی کرتے ہیں کہ:
(
لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ
)
۔
وہی الفاظ ہیں کہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا، میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا۔ جب ہم نے یہ الفاظ سنے تو ہم کو کوئی تعجب نہیں ہوا کہ جو ہر نبی نے کہا، جو ہر رسول نے کہا، وہی یہ بھی بھی فرمائیں گے اوروہی فرمانا چاہئے ان کوکیونکہ قرآن میں کہا ہے کہ کہہ دیجئے ۔ میں پیغمبروں میں کوئی انوکھا تو نہیں ہوں یعنی جو سب کی تعلیم رہی ہے، وہی میری تعلیم ہے۔ اس لئے جو سب کا پیغام ہے، وہی میرا پیغام ہے۔
تو جس طرح ان کا پیغام تھا، اسی طرح کا اِن کا بھی پیغام ہے۔ لہٰذا ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ جو سب فرماچکے ہیں، اسی طرح یہ بھی فرمارہے ہیں۔ان کو اسی طرح سے فرمانا چاہئے لیکن اب بظاہر حیرت کی بات ہوجاتی ہے کہ ہر نبی ”اجراً“ کہہ کر چپ ہوگیا تھا اور یہ تو افضل المرسلین ہیں اور جب افضل المرسلین ہیں تو ان کا کردار بھی سب سے بالاتر ہونا چاہئے۔ ان کا عمل بھی سب سے اونچا ہونا چاہئے۔ یہ ”اجراً“ کہہ کر خاموش نہیں ہوتے۔ فن قراءت و تجو ید میں یعنی قرآن مجید کی قراءت کے جو اصول ہ یں، کہ وقف کا معیار سانس ہے، اگر متکلم نے سانس لے لی تو وقف ہے اور اگر متکلم نے سانس نہیں لی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ کلام جاری ہے۔ ہر پیغمبر”اجراً“ کہہ کر سانس لے لیتا ہے، اس لئے بات مکمل ہوجاتی تھی او ریہ ہمارے پیغمبر جوافضل المرسلین ہیں، یہ ”اجراً“ کہہ کر سانس نہیں لیتے بلکہ فوراً ایک ”الّا“کہہ دیتے ہیں۔
پس ادھر”الّا“ کہا اور ہماری سمجھ میں آیا کہ کچھ نہ کچھ تو ہے۔ ابھی چاہے بعد کی بات ہم نہ سنیں کہ کیا ہے مگر صرف”الّا“ کا لفظ سننے سے ہماری سمجھ میں یہ آگیا کہ کچھ عجب ہے کیونکہ اس ”الّا“ سے ہمارا سابقہ بہت دُور سے پڑا ہے۔ جس وقت سے کلمہ پڑھا ، اسی وقت اگر ”لاالٰہ “ کہہ کر چپ ہوجاتے تو دہریوں کا کلمہ ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں لیکن جب بات پوری نہیں ہوئی ، اس کے بعد الااللہ آگیا تو پتہ چلا کہ خدا ہے۔ کون ہے؟ اللہ ہے۔ اور آگے بڑھئے:
(
وَمَااَرْسَلْنٰکَ
)
۔
اگر اتنے پر ہی بات ختم ہوجاتی تو رسالت کی نفی ہوجاتی کہ ہم نے آپ کو بھیجا ہی نہیں۔ مگر جب اس کے بعد:
(
اِلّارَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْن
)
۔
”مگر رحمت بنا کر تمام جہانوں کیلئے“۔
تو معلوم ہوا کہ بھیجا بھی ہے اور ہمہ گیر رحمت بنا کر۔”الّا“ کی خاصیت معلوم ہوگئی کہ یہ جب کسی عام بات کے بعد آتا ہے تو اس کے عموم میں شگاف پیدا کردیتا ہے۔نفی کے بعد آئے گا تو ثبوت پیدا کردے گا۔ زمین نفی و اثبات میں انقلاب برپا کردے گا۔ جو چیز نفی تھی، وہ اثبات بن جائے گی۔ وہاں تھا: لا اِلٰہ اِلااللہ۔ پہلے نفی،”اِلّا“ نے آکر ثبوت فراہم کردیا۔ وہاں”(
وَمَااَرْسَلْنٰکَ
)
“، نف ی کردی ”اِلّا“ نے آکر کہ بھیجا ہے اور تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اسی طرح ”(
لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
)
“۔ وہ نف ی کہ میں تم سے کچھ نہیں چاہتا، بات یہاں ختم ہوجاتی تو بے شک اجر کی نفی تھی لیکن جب اس کے ساتھ ”الّا“ آگیا،”(
اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
“، اس کے معنی یہ ہیں کہ نفی قائم نہیں رہی، کچھ اجر ہے۔اجر کا ثبوت ہوگیا۔
میں کہتا ہوں کہ ایک ساخت ہے۔لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰه
کلمہ توحید۔(
وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّارَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْن
)
، بالکل وہی ترکیب ہے۔ یہ کلمہ رسالت ہے اور(
لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
، یہ کلمہ ولایت ہے۔
اب بعد میں جو کچھ کہا ہے، وہ نہ بھی سنتے تو”الّا“ کا لفظ بتاتا ہے کہ آگے اثبات ہے۔ اس کے بعد فرمایا تو یہ فرمایا:(
اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
۔ صاحبانِ قرابت کی محبت، صاحبانِ قرابت کے معنی اپنے قرابت دار۔ ہم جو معنی سمجھتے ہیں، اسی کے مطابق ترجمہ میں کہتے ہیں کہ میں تم سے کچھ اجر نہیں چاہتا سوائے اپنے قرابت داروں کی محبت کے۔
مسلمانوں میں ایک طبقہ نے یہ غور کیا کہ یہ بات شانِ رسالت کے خلاف ہے کہ آپ اپنے قرابت داروں کی محبت کو معاوضہ قرار دیں اپنی خدمات کا۔”اِلَّا
“کو بیچ سے ہٹایا نہیں جاسکتا تھا۔ مودت کے معنی لغت میں جو ہیں یعنی محبت، اس کو بدلا نہیں جاسکتا تھا۔ لہٰذا پورا زور کلامِ قربیٰ پر صرف ہوگیا۔چونکہ خیر خواہ مسلمان شانِ پیغمبر کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، انہیں خدا سے زیادہ پیغمبر خدا کی شان کو محفوظ رکھنے کی فکر ہے، لہٰذا پوری طاقت قربیٰ کے مفہوم پر صرف ہوگئی کہ کسی طرح یہ اپنے عزیز نہ رہیں۔ لہٰذا کچھ اور ہوجائے۔
علمائے کرام دُور دُور کی کوڑیاں لانے لگے۔ کچھ نے کہا کہ یہ مشرکین عرب سے کہا گیا ہے یعنی اب مسلمان مخاطب نہیں ہیں۔ یہ ایک احتیاطی طریقہ ہوگیا کہ مسلمانوں کو سوچنا نہیں ہے کہ ہم سے کچھ کہا جارہا ہے۔ مشرکین مکہ مخالفین اسلام مخاطب ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ میں تم سے کچھ معاوضہ تو چاہتا ہی نہیں ۔ مگر بھئی مجھ میں اور تم میں جو عزیز داری ہے، جو قرابت داری ہے، اس کا پاس اور لحاظ تو کرو۔یہ علمائے کرام کے نزدیک شانِ رسول کے مطابق بات ہے کہ وہ ابوجہل کو اپنی قرابت کا واسطہ دیں، ابو لہب کو اپنی قرابت کا واسطہ دیں کہ بھئی میری قرابت کا لحاظ تو کرو۔ جو پیغام میں پہنچا رہا ہوں، اس کو اتنی بیدردی سے رَد نہ کرو۔ میرے ساتھ جو رویہ اختیار کئے ہوئے ہو، یہ رویہ اختیار نہ کرو۔ گویا مشرکین کو اپنی قرابت کا واسطہ دیا جارہا ہے۔ علمائے اسلام یہ مفہوم قرار دے رہے ہیں۔ اصولی حیثیت سے، بافہم مجمع سے میرا سوال ہے، معاذاللہ، رسول کا مطلب یہ ہو یعنی رسول اپنی قرابت کا واسطہ دے کر انہیں دعوتِ اسلام دیں تو پھر ابوجہل کو کیوں حق نہیں ہے کہ وہ اپنی قرابت داری کا واسطہ دے کر یہ نہ کہے کہ ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہئے۔ جب اصول کی بات نہیں رہی، حقانیت کی بات نہیں رہی ، قرابت داری کا پاس ہوگیا تو آپ تو ہماری قرابت داری کا لحاظ نہ کریں اورہم آپ کی قرابت داری کا پاس کریں؟آپ تو بیدردی سے ہمارے معبودوں کو نشانہ بنائیں اور ہم آپ کے ساتھ قرابت داری کے لحاظ سے رعایت برتیں۔
معاذ اللہ ، رسول ایسی بے اصول بات مشرکین مکہ سے نہیں کہہ سکتے تھے۔ انہوں نے خود بتایا ہے کہ حق کے معاملہ میں قرابت داری کوئی چیز نہیں۔ ان کو حق کہہ کر پیش کرنا ہے یا قرابت داری کے واسطے سے، بنظر ترحم ان سے منوانا ہے۔
غور فرمائیے! اصل مرکز سے ہٹانے کیلئے کتنی معقول اور غیر معقول کوششیں کرنا ضروری سمجھی جارہی ہیں کہ جو اصل مقصد ہے، وہ حاصل نہ ہو۔ یہ ایک رُخ تھا جسے کچھ لوگوں کے ضمیر نے قبول نہیں کیا۔ دوسرا پہلو یہ پیش کیا گیا کہ بے شک قرابت دار کہے گئے ہیں اور مشرکین سے خطاب نہیں ہے ، مسلمانوں سے ہی ہے، مسلمانوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ میں تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگتا، سوائے اس کے کہ تم اپنے قرابت داروں سے محبت کرو۔بس مقصد حاصل ہوگیا۔ بجائے رسول کے ، وہ ہمارے قرابت دا رہوگئے۔
میں کہتا ہوں کہ اس سب کے بعد بھی وہ ”اِلَّا
“ اپنی جگہ سے نہیں ہٹا یعنی رہا ۔ تو کچھ نہ کچھ اب یہ کہ تم اپنے قرابت داروں سے محبت رکھو، دوستی رکھو۔ آئیے اس کو قرآن کے معیار پر جانچیں تو قرآن کریم کی ایک مہم یہ تھی کہ حق کی راہ میں قرابت داری کی محبت کو دلوں سے کھرچ کر دُور کرے۔
ارشادِ الٰہی ہے کہ کسی جماعت کو ، جو اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتی ہے، تم نہ دیکھو گے کہ وہ ایسے سے محبت کرے جو اللہ اور رسول کے خلاف ہے۔ چاہے وہ باپ دادا ہوں، چاہے وہ بیٹے ہوں، چاہے وہ شریک حیات ہوں، بھائی ہوں، قبیلے کے لوگ ہوں ، کوئی بھی لوگ ہوں۔یہ وہ ہیں جو صاحبانِ ایمان ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ کہہ دیجئے کہ اگر تم اپنے باپ دادا کو ، اپنے بھائیوں کو، اپنی اولاد کو اور ان اموال کو جنہیں تم جمع کرتے ہو، ان سب کو تم خدا ،رسول اور ان کی راہ میں خدمات انجام دینے سے زیادہ عزیز رکھتے ہو تو پھر عذابِ الٰہی کے منتظر رہو۔
قرآن مجید ،جس کی یہ مہم ہو اور اس وقت اسلام کی راہ میں یہی محبتیں رکاوٹ تھیں، ان کا استدلال قرآن کے خلاف یہی تھا، اسلام کے خلاف یہی تھا، پیغمبر اسلام کے خلاف یہی تھا کہ ہم نے باپ دادا کو اسی راستے پر دیکھا ہے اور ہم اسی راستے پر چلے جائیں گے۔بڑی مشکل یہ تھی کہ ایک بھائی اگر حالت کفر میں ہے اور دوسرے بھائی کی سمجھ میں اگر اسلام آبھی گیا ہے تو بھی وہ اس راستے پر نہیں آتا کہ بھائی کو چھوڑنا پڑے گا۔ اگر شریک حیات مسلمان ہونا چاہتا ہے اور زوجہ حالت کفر میں ہے تو اس کی محبت اس کے سد راہ ہوتی ہے۔
قرآن کی مہم یہ تھی کہ مسلمانوں کو حق کے معاملہ میں ان تعلقاتِ قرابت کو دل سے نکالنا ہے۔ تو کیا وہ یہ کہتا ہے کہ میں اپنی خدمات کا معاوضہ یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنے قرابت داروں سے محبت کرو؟ اب ایک اور اصولی بات ہے کہ ان میں سے کوئی قول ایسا نہیں جس کی تائید میں کوئی قولِ رسول ہو، حدیث رسول ہو۔ لیکن جو بحمدللہ ہم سمجھتے ہیں، اس کی تائید میں متفقہ طور پر حدیث رسول موجود ہے۔ مسلمانوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! وہ قربیٰ کون ہیں؟
علامہ محمد ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں لکھا ہے اور تفسیر کی کتابوں میں بھی ہے مسلمانوں نے پیغمبر خدا سے سوال کیا کہ یہ آپ کے قرابت دارکون ہیں؟ رسول نے فرمایا:
”عَلِیٌّ وَفَاطِمَه وَاَبْنَاهُمَا
“۔
”علی و فاطمہ اور ان کے دونوں بچے“۔
جب خود رسولِ اکرم نے اس کی تفسیر کردی تو اب مسلمانوں کو اس کے خلاف سوچنے کا کیا حق ہے؟ مگر جو باتیں میں نے پیش کی تھیں ، وہ تو اپنی جگہ پر رہیں کہ افضل المرسلین ہیں اور پھر ان کا کردار سب سے اونچا ہونا چاہئے۔ ہر نبی کہتا رہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ہمارے رسول یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر، اور”مگر“ کے بعد اپنے قرابت دار اور قرابت داروں کے بعد ان کی محبت۔ تو کیا میں سمجھوں کہ اور تمام انبیاء کا عمل بے لوث تھا اور ان کے عمل میں(معاذاللہ) غرض شریک ہوگئی۔ تو ان کا کردار اتنا اونچا نہ رہا۔ اگر کردار اونچا نہ رہا تو اس کے معنی ہیں کہ ان کی شخصیت دوسرے انبیاء سے اونچی نہ رہی۔ہمارے سارے مسلمات بدل گئے۔ یہ مشکل کیوں پیش آرہی ہے؟
میں کہتا ہوں کہ یہ سب مشکل ایک لفظ کے نظر انداز کردینے سے پیش آرہی ہے۔ یاد رکھئے کہ ہر نبی نے خود اُمت سے خطاب کیا تھا، خود آئے او ر کہا کہ میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔ صالح آئے اور کہا کہ میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔ نوح آئے اور انہوں نے یہی کہا کہ کوئی اجر نہیں چاہتا۔خالق نے بس قول کو نقل کردیا۔ ہمارے پیغمبر بھی اگر منبر پر تشریف لے جاتے اور اپنی طرف سے کوئی خطبہ پڑھتے اور مسلمانوں کو پیغام اپنی جانب سے دیتے تو یہ بھی اتنا ہی کہتے جتنا ہر نبی نے کہا۔ یہ بھی کہتے کہ میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔ مگر یہ کب آئے منبر پر؟ کب انہوں نے کوئی خطبہ پڑھا؟کب انہوں نے قوم کو مخاطب کیا؟
وہ تو جس کے رسول ہیں، اُس نے کہا: ”قُل“۔اُس نے ارشاد کیا کہ ”قُل“۔ کہئے او ریہ کہئے۔ الفاظ بھی اس کے سکھائے ہوئے، الفاظ بھی اس کے بتائے ہوئے اور اب اگریہ اس کے رسول ہیں تو اس میں تصرف جائز ہی نہیں۔ انہیں اس میں نہ کمی جائز نہ زیادتی جائز۔ جب اس نے کہا کہ یہ کہئے کہ :
((
لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
۔
کوئی اجر نہیں چاہتا اور اسی لئے تو قرآن کے ساتھ رسول کی ضرورت تھی کہ اگر قرآن اس طرح اترتا مکتوبی شکل میں لکھا ہوا تو بیچ میں سانس لینا نہ لینا پڑھنے والے کا کام ہوتا۔ پھر خدا بھی اس کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے خدا نے قرآن کو بھیجا اور ایک سانس لینے والے انسان کو ساتھ بھیجا۔اب جس طرح وہ قرآن کی صحت کا ذمہ دار ہے، اسی طرح اس کے پڑھنے کے طریقہ کا بھی ذمہ دار ہے۔وہ کہہ رہاہے کہ کہئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اپنے قرابت داروں کی محبت کے۔
اب آپ کو بر امعلوم ہوتا ہے کہ رسول اپنے قرابت داروں کو کیسے کہہ رہے ہیں؟تو میں کہتا ہوں کہ رسول کب کہہ رہے ہیں اپنے قرابت داروں کو؟ یہ کب کہہ رہے ہیں اپنے قرابت داروں کیلئے؟ وہ کہلوا رہا ہے۔ اب رسول سے قرابت داری نہ ڈھونڈئیے، اُس سے رشتہ ڈھونڈئیے۔
رشتہ کو قرابت کہتے ہیں۔ اللہ سے قرابت ڈھونڈئیے۔ قرابت کے لفظ سے کسی کو وحشت نہ ہو، جیسی اُس سے قرابت ہوسکتی ہے۔ آپ نماز میں کہیں”قُرْبَةً اِلَی اللّٰه
“تو صحیح اور میں قرابت کہہ دوں تو غلط؟
اب اس سے سمجھئے کہ یہ ہستیاں فقط رسول سے رشتہ نہیں رکھتیں، یہ اللہ سے بھی رشتے رکھتی ہیں۔ تو اب جہاں جہاں”قل“ ہے:
(
قُلْ هُوَاللّٰهُ اَحَد
)
۔
”کہے کہ اللہ ایک ہے“۔
تو اب اللہ کو ایک کہنا ان کا فرض ہوا یا نہیں؟
(
قُل اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَلَیْکُم
)
۔
”کہئے کہ میں اللہ کا رسول ہوں“۔
تو یہ کہنا ان کا فرض ہوا یا نہیں؟ وہ کہتا ہے کہ کہئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے قرابت داروں کی محبت کے تو اب یہ کہنا ان کا فریضہ ہے یا نہیں؟ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے لکھنو والے تکلف سے کام لیتے تو میں کہتا ہوں کہ اگر اس تکلف سے کام لینا ہوتا تو جب اُس نے کہا تھا کہ کہئے کہ میں رسول ہوں تو کہتے کہ پروردگار! اپنے منہ سے کیا کہوں کہ میں رسول ہوں۔قرابت دار تو اصل میں اپنی وجہ سے قرابت دار ہوتے ہیں۔ اصل محبت تو ذات سے ہوتی ہے۔ جب کہا جاتا کہ آپ اپنی رسالت کی تبلیغ کیجئے تو کہتے کہ اپنے منہ سے کیا کہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس لکھنو کے تکلف کا تقاضا تو یہ تھا کہ کوئی پوچھتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں؟ تو رسول فرماتے کہ میں کس قابل ہوں، یہ تو آپ کی محبت ہے۔
یاد رکھئے کہ خدا کی طرف کے عہدوں میں تکلف روانہیں ہے۔ نبی اور امامت کا کیا ذکر ہے، کسی مجتہد سے پوچھا جائے کہ آپ مجتہد ہیں؟ تو اگر واقعی مجتہد ہیں تو ان کو کہنے کا حق نہیں ہے کہ مجتہد نہیں ہوں۔ یہ حقیقت خلافِ شانِ رسالت ہے کہ رسول بارگاہِ الٰہی میں یہ کہیں کہ پروردگار! میں اپنے منہ سے کیاکہوں کہ میں رسول ہوں۔ یہ اگر تکلف کرتے تو کیا واقعی رسول ہوتے؟
ارشادِ الٰہی ہوتا کہ ماشاء اللہ! رسول آپ ہیں تو کیا آپ کی رسالت کی تبلیغ کیلئے کوئی اور رسول آئے گا؟جب آپ رسول ہیں تو میری وحدانیت کا منوانا بھی آپ کا کام اور اپنی رسالت کو منوانا بھی آپ ہی کا کام۔تو جب اپنی ذات کے بارے میں ان کے لئے تکلف روا نہیں تھا تو قرابت داروں کے بارے میں تکلف کیونکر ہوسکتا تھاکہ بارگاہِ الٰہی میں عرض کریں کہ پروردگار! یہ میں کیونکر کہوں؟ اپنی بیٹی کیلئے کہوں، اپنے داماد کیلئے کہوں،اپنے نواسوں کیلئے کہوں؟
اپنے لئے کہہ سکتے تھے، اپنی بیٹی کیلئے نہیں کہہ سکتے تھے۔ ہاں! جیسے آپ واقعی رسول ہیں، ویسے ہی آپ کی بیٹی بھی اُس کے ہاں کوئی درجہ رکھتی ہے۔آپ کا فرض ہے کہ کہئے اور اگر آپ کا داماد اور آپ کے نواسے اس کی طرف سے کسی منصب کے حامل ہیں تو جیسے اپنی رسالت کی تبلیغ کرنا آپ کا فرض تھا، ویسے ہی ان کی امامت کی تبلیغ کرنا بھی آپ کا فرض ہے۔
ذرا نازک بات ہے کہ میں کہتا ہوں کہ جب اُس نے کہا کہ:
(
قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
۔
”کہئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے قرابت داروں کی محبت کے“۔
واقعی یہ قرابت داروں کی محبت ان کی ان خدمات میں ہوگئی جن کا اجر یہ اسی سے لیں گے۔ اُس نے جب کہا:
(
قُلْ هُوَاللّٰهُ اَحَد
)
۔
تو یہ اُس کی توحید کا پیغام ہوگیا۔ اُس نے کہا:
(
قُل اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَلَیْکُم
)
۔
”میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں“۔
توان کی رسالت کا پیغام ہوگیا۔ وہاں خلق خدا کو توحید کا قائل ہونا پڑا، یہاں رسالت کا قائل ہونا پڑا۔ اس کے بعد جب اُس
نے کہا:
(
قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
۔
”کہئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا“۔
دیکھئے! ”قل“ ، یا کہئے کہ ساتھ جو بات آرہی ہے وہ اصولِ دین میں داخل ہے تو کہئے:
(
هُوَاللّٰهُ اَحَد
)
۔
توحید اصولِ دین میں۔ کہئے کہ:
(
اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَلَیْکُم
)
۔
تو رسالت جزوِ دین اور اب جب وہ کہہ رہا ہے:
(
لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
)
۔
تو جن ہستیوں کیلئے وہ کہہ رہا ہے، اُن کی ولایت بھی جزوِ دین ہوگی۔ وہ جو سلسلہ ہے، اس کی پہلی کڑی جو ہوگی، اس کا نام لے کر رسول اس کی ولایت کا اعلان فرمائیں گے اور مراد وہ پورا نظام ہوگا جس کی یہ پہلی کڑی ہے۔گویا پہلی کڑی کو ہاتھ میں دے دینا ہے خدا و رسول کو کہ اب اس حلقہ تک پہنچ جاؤ گے تو پھرآگے بڑھتے چلے جانا۔ پورا سلسلہ تمہارے سامنے آجائے گا۔
تو یاد رکھئے کہ اُس نے کہا:
(
قُلْ هُوَاللّٰهُ اَحَد
)
۔
انہوں نے تبلیغ کی، اللہ احد۔ ہم نے کہا:
”(
لَا اِلٰهَ اِلَّااللّٰه
)
“۔
خدا نے کہا:
(
قُل اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَلَیْکُم
)
۔
”کہئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں“۔
انہوں نے اس کی تعمیل میں کہا:
”اَنَا رَسُوْلُ اللّٰه
“۔
”میں اللہ کا رسول ہوں“۔
ہم نے فوراً کہا:
”مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه
“۔
اُس نے کہا:
”(
قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
“۔
انہوں نے اس کی تعمیل کی کہ:
(
لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
۔
ہم نے کہا:
”عَلِیٌّ وَلِیُّ اللّٰ
ہ“۔
پس جب خدا نے کہا کہ کہئے ، تو اب ان سے قرابت نہیں ہے، اُس سے رشتہ ہے۔ اسی طرح جو ہم نے رشتہ ملایا: لاالہ الااللہ، یہ بھی اللہ کی طرف رُخ۔”مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللّٰه
“ کا مرکز بھی اللہ اور ”عَلِیٌّ وَلِیُّ اللّٰه
“ کہہ کر ہم رسول سے کوئی رشتہ نہیں بتارہے ہیں۔
رسول، رسول ہیں مگر عبداللہ کے بیٹے بھی ہیں، عبدالمطلب کے پوتے بھی ہیں، ہاشم کے پڑپوتے بھی ہیں۔ مگر کیا ہم جو کلمہ پڑھتے ہیں، وہ اس لئے کہ ہاشم کے پڑپوتے ہیں یا عبدالمطلب کے پوتے ہیں یا عبداللہ کے بیٹے ہیں؟ کلمہ جو پڑھتے ہیںِ وہ اس لئے کہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ الگ سے معلوم ہے کہ کس کے پوتے ہیں، کس کے بیٹے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ہستیاں بھی بہت اونچی ہیں جن کے بیٹے ہیں۔ وہ بھی بہت بلند ہیں جن کے پوتے ہیں۔ وہ بھی بہت بلند ہیں مگر ہمارا کلمہ پڑھنا اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کے بیٹے اور ان کے پوتے ہیں۔ ویسے ہی جس جس کو مانتے ہیں، وہ اس لئے نہیں مانتے کہ رسول کی بیٹی ہیں، وہ رسول کے داماد ہیں، رسول کے نواسے ہیں۔ نہیں! ہم تو اس لئے مانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے جو منصب ہے، یہ اُس پر فائز ہیں۔ان کی حیثیت دو طرح کی ہوگی، ایک رشتہ جو رسول سے ہے اور ایک رشتہ جو خدا سے ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ رسول فضائل اس لئے بیان کرتے تھے کہ وہ بھائی ہیں اور یہ بیٹی ہیں اور یہ نواسے ہیں۔ فضائل سب تسلیم ، پیغمبر خدا کی سب احادیث تسلیم،لیکن اس کی اہمیت کم کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے، اپنی بیٹی کو بہت چاہتے تھے، اپنے نواسوں کو بہت چاہتے تھے۔ اس طرح وہ فضیلت کی ساری حدیثیں گویا محبت پر مبنی قرار دے دی گئیں کہ یہ سب اپنے عزیزوں کی محبت تھی۔ فضائل اس لئے بیان کرتے تھے کہ بیٹی تھیں۔ تو ہم چاہے مانیں یا نہ مانیں، دنیا کے نزدیک تو بیٹیاں اور بھی تھیں۔
ان لوگوں سے میں کہتا ہوں کہ اگر پیغمبر خدا فضائل بیٹی ہونے کی بناء پر بیان کرتے تھے تو ان بیچاری بیٹیوں نے کیا قصور کیا تھا کہ ان کیلئے کچھ بیان نہیں فرماتے؟ جنابِ والا! صحیح بخاری ، جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، اس باب میں ہے، بابِ مناقب فاطمہ ، مگر بنظر اختصار، بنظر احتیاط، بنظر مصالحت ، کتنی نظروں سے ، صرف تین احادیث ہیں یعنی پورے بڑے صفحے پر صرف تین عدد حدیثیں ہیں۔ مگر وہ تین عدد بھی کیسی کیسی کہ فرماتے ہیں:
”سَیَّدَةُ نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّة
“۔
”یہ میری بیٹی زنانِ اہلِ جنت کی سردار ہے“۔
بہشت کی عورتوں کی سردار ہے، بہشت کوئی بنی ہاشم کی خاندانی جاگیر نہیں ہے۔ بہشت وہ ہے جو ایمان و عمل کی جزا کیلئے خلق کی گئی ہے، مہیا کی گئی ہے۔ تو اب بیٹی کو جو فرمارہے ہیں کہ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔ ایک مکتب خیال رسول کے اقوال و افعال کی بھی تقسیم کرتا ہے۔ بشریت اور رسالت میں کہ کچھ باتیں بحیثیت بشر فرماتے تھے ، کچھ باتیں بحیثیت رسول فرماتے تھے۔ جو بحیثیت بشر فرمائیں، وہ تو عام آدمیوں کی طرح ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور جو باتیں بحیثیت رسول فرمائیں، ان کی دینی اہمیت ہے۔ اس مکتب خیال کے لحاظ سے، اسی مکتب والوں سے پوچھوں گا کہ بہشت کے بارے میں جو بات ہے، وہ بشر کی حیثیت سے ہے یا رسول کی حیثیت سے ہے؟
اہلِ جنت کی خبر بحیثیت بشر ہوہی نہیں سکتی۔ بھیجے گئے ہیں جنت کی اطلاعیں دینے کیلئے تو جنت کے بارے میں جو فرمائیں ، وہ تو بحیثیت رسول ہے، چاہے کئی ہزار باتیں بحیثیت بشر ہوں مگر جنت کے سلسلہ میں جو بات ہوگی، وہ تو بحیثیت بشر ہو ہی نہیں سکتی۔ بحیثیت رسول ہی ہوگی۔تو اب بیٹی کو جو فرمارہے ہیں کہ زنانِ اہلِ جنت کی سردار ہیں اور جنت خلق ہوئی ایمان و عمل کی جزا کیلئے تو ارشادِ رسول کے معنی یہ ماننا پڑیں گے کہ جو میعار ہے جنت میں جانے کا، وہ میری بیٹی میں اتنی بلندی پر ہے کہ قیامت تک کی کسی عورت کو بھی جنت میں جانا ہو تو وہ فاطمہ کے پیچھے چل کر جاسکتی ہے، آگے چل کر نہیں جاسکتی۔
اب نواسوں کے بارے میں جو احادیث ہیں، صحیح ترمذی کی حدیث کہ پیغمبر خدا فرماتے ہیں:
”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَاشَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّة
“۔
یعنی ان افراد کے بارے میں کوئی حدیث جنت سے ادھر تو رکتی ہے ہی نہیں۔ ماں سردارِ زنانِ جنت اور نواسوں کیلئے فرمارہے ہیں کہ سردارِ جوانانِ بہشت۔
یاد رکھئے کہ اگر بچوں کی حالیہ عمر پیش نظر ہوتی تو بچوں کا سردار کہتے۔ جوانوں کا سردار کہنا خلافِ بلاغت تھا۔ یہ کب جوان ہیں جو ان کی مدح میں کہا جائے کہ سردارِ جوانانِ جناں؟ بعد میں جوان ہوں گے تو کہا جائے گا۔ اس وقت جوان کہاں ہیں؟ بہت دور ہے جوانی! اگر ارشادِ رسول میں اس وقت کی عمر معتبر ہو تو سردارِ اطفالِ جنت کہیں، جنت کے بچوں کا سردارفرمائیں۔ لیکن جب یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ سردارِ جوانانِ اہلِ جناں، تو ماننا ہوگا کہ یہاں والی عمر سامنے نہیں ہے، بہشت والی عمر، بہشت والا دورِ حیات سامنے ہے۔خود ہی فرماچکے ہیں کہ بہشت میں ہر ایک جوان ہی جائے گا تو آپ نے اہلِ جنت کے جوانوں کے سرداربتایا ہے تو جناب! جو کوئی بھی بہشت والا ہے، چاہے جوان ہو، چاہے بوڑھا ہو، اگر جنت میں جانا ہے تو ان کی سرداری ماننا پڑے گی۔
صرف متکلم مستثنیٰ ہوتا ہے اور پھر ایک ہستی جسے خود رسول نے ، ایک تتمہ ہے اس کا:
”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَاشَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَاَبُوْهُمَاخَیْرٌ مِنْهُمَا
“۔
”یہ میرے دونوں بچے جوانانِ جنت کے سردار ہیں اور ان کے بابا ان سے بہتر ہیں“۔
یوں کہئے کہ سرداروں کے سردار۔ اب یہ ہستیاں ہیں جن میں سے ہر ایک ذووجہین ہے یعنی دو رُخ رکھتا ہے۔ ایک رُخ رسول سے قرابت کا اور ایک رُخ اللہ سے قرابت کا۔ اس لئے پیغمبر کے افعال بھی دو طرح کے ہوگئے، کچھ اپنی قرابت سے اور کچھ اللہ کے رشتہ سے۔بیٹی کو گلے لگانا اپنی قرابت کی بناء پر درست ہے۔ جب کسی غزوہ پر جاتے تھے ، سب سے آخر میں جنابِ فاطمہ زہرا سے رخصت ہوتے تھے۔جب آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملاقات فرماتے تھے۔یہ بیٹی ہونے کی وجہ سے تھا۔
مگر حضور! تعظیم کو کھڑے ہونا، یہ تو اپنی بیٹی ہونے کا تقاضا ہی نہیں ہے۔ یہ عمل خود بتاتا ہے کہ فاطمہ صرف بیٹی نہیں ہیں، کچھ اور بھی ہیں۔ چونکہ میں جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت کی ایک حدیث جو صحیح بخاری میں ہے، بیان کرچکا اور آپ کے ساتھ جو برتاؤ ہے، وہ بھی عرض کرچکا، میں نے عرض کیا کہ جب آپ سمجھتے ہیں کہ اور بھی بیٹیاں ہیں تو اتنی نہیں ، اس سے کم درجہ کی کوئی حدیث؟مگر ان بیچاریوں کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔
میرے نزدیک تو دینی اہمیت اس چیز کی کوئی ہے ہی نہیں کہ اور بیٹیاں تھیں یانہیں تھیں۔ یہ علم انساب کا مسئلہ ہے، علم تاریخ کا مسئلہ ہے۔ حضور!اور بیٹیاں ہوں یا نہ ہوں مگر نساء کے اندر تو ایک ہی تھیں۔ نصاریٰ نجران کے مقابلہ میں مباہلہ کی منزل میں ایک ہی تھیں۔ سردارِ زنانِ جنت ایک ہی تھیں۔ تو ہوا کریں بیٹیاں۔ جب خدا اور رسول نے انہیں اہمیت نہیں دی تو ہم انہیں کیوں اہمیت دیں؟
رہی دوسری شخصیت تو معلوم ہے مجھے کہ انساب کے لحاظ سے ان کے دو رشتے ہیں۔نسبی رشتہ بھی ہے، سببی رشتہ بھی ہے۔ نسبی رشتہ چچازاد بھائی ، تو حضور مسلمہ تاریخ کی بات ہے کہ اور بھی چچازاد بھائی تھے۔ خود ان کے سگے بھائی ہیں۔ وہ کیا رشتہ میں فرق رکھتے ہیں؟ تین اور تھے ، علی تو عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔ یہ تاریخ کی حقیقت ہے کہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے طالب، طالب سے چھوٹے جعفر اور جعفر سے چھوٹے عقیل، عقیل سے چھوٹے آپ اور ہر ایک میں دس دس برس کا فرق۔طالب سے دس برس چھوٹے جعفر، جعفر سے دس برس چھوٹے عقیل، عقیل سے دس برس چھوٹے جنابِ امیر علیہ السلام۔ حضرت علی رسول سے تیس برس چھوٹے تھے۔ یہ دس برس کے تھے تو بعثت ہوئی ، رسول کی گود میں پلے تھے، اسی گود میں اسلام آیا تو ان میں اور اسلام میں وہ ربط ہوا جو ایک مربی کی آغوش میں پلنے والے دوبچوں کا ہوتا ہے یعنی اسلام نے آنکھ کھول کر ان کی صورت دیکھی۔
پس چچازاد بھائی تو اور بھی تھے مگر ان میں سے کسی اور کے بارے میں احادیث کیوں نہیں ہیں؟ ان کے بارے میں بھی احادیث ہیں، لیکن ہر ایک اپنی منزل میں ہے۔ طالب، طالب ہیں۔ جعفر، جعفر ہیں۔ عقیل، عقیل ہیں اور علی ، علی ہیں۔جو دوسرا رشتہ داماد کا ہے، ظاہر ہے کہ بیٹیاں ہیں تو داماد بھی ہوں گے۔ جو کسی بیٹی کو نہیں مانتا، وہ داماد کو بھی نہیں مانتا۔ جس کے نزدیک اور بیٹیاں ،اُس کے نزدیک داماد بھی اور ہیں۔ جب داماد کئی ہیں تو اوروں کی فضیلت کی تعریفیں بھی ہونی چاہئیں لیکن نہیں ہیں۔
اچھا! جب بیٹی ہوگئی، داماد ہوگئے تو پھر نواسوں کی کیا کمی ہے؟ لیکن وہی جو بیٹی کے سلسلہ میں کہہ چکا کہ وہ سب ہوا کریں۔ سردارِ جوانانِ بہشت تو یہی دو نواسے ہیں۔ یہ نواسے ہونے کا تقاضا نہیں ہے، ورنہ پھر کسی اور نواسے کیلئے کچھ او رہوتا۔ یہیں سے علی کی نماز کے بارے میں گفتگو ہوجائے۔ علی نے انگلی سے اشارہ کردیا ، وہاں بحثیں اٹھائی جاتی ہیں کہ رجوعِ قلب کے خلاف ہے۔ یعنی نماز ہے ،خدا کی فکر ان کو ہے۔ جس کی نماز ہے، وہ تاجِ ولایت اسی سر پر رکھے دیتا ہے۔ ان کو فکر ہے نماز کی۔ انگلی سے اشارہ کیا۔ اس پر بہت مباحث ہیں کہ یہ خلافِ رجوعِ قلب تو نہیں ہے اور پیغمبر نے جو سجدہ کو طول دیا، وہاں کسی صاحب نے بحث نہیں اٹھائی۔ ظاہر ہے کہ خبر ہوئی کہ کون پشت پر آیا ، تبھی تو سجدہ کو طول دیا۔
میں کہتا ہوں کہ کردارِ رسول کی بلندی کے لئے یہی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگر اپنا نواسہ ہونے کی بناء پر طول ہوتا تو خلافِ شانِ سجود ہوتا لیکن رسول نگاہِ فرض شناس کی ترازو میں مرضیِ الٰہی کے معیار پر تول رہے ہیں ، ایک پلڑے میں نماز کو، نہیں! عام رفتار نماز کو اور ایک پلڑے میں حسین ۔ اور حسین کا وزن رسول نے مرضیِ الٰہی کی ترازو پر تولا تو عام رفتار نماز پر ان کی خاطرداری کو،مرضیِ الٰہی کے معیار پر قابلِ ترجیح سمجھا۔ چونکہ ترازو کہا ہے، اس لئے ایک لفظ استعمال کروں گا ، میں کہوں گا کہ یہ مقاصد الٰہی کے ماتحت حسین کا وزن تھا کہ رسول کا سر نہیں اُٹھ سکا۔ پیغمبر خدا کے پیش نظر تھا کہ یہ میری ایک وقت کی نماز اور اس کا سجدہ ہے اور یہ بچہ وہ ہے جس کی بدولت قیامت تک نماز قائم رہے
گی۔میں کہتا ہوں کہ حسین نے کربلا میں اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ میرے ساتھ میرے نانا نے جو بچپن میں کیا تھا، اُس کا میں حقدار تھا۔ جیسے تہہ خنجر یہ اُن کے پیش نظر تھا کہ نانا نے میری خاطر سجدہ جو طول دیا تھا تو سہی، جو یہی سجدہ ہو اور گلے پر خنجر ہو؟
اور یہ جو میں نے کہا کہ ان کی بدولت قیامت تک نماز قائم ہوئی، یہ میں نہیں کہہ رہا، ہم جو آئمہ کی سکھائی ہوئی زیارت پڑھتے ہیں:
”اَشْهَدُاَنَّکَ قَدْاَقَمْتَ الصَّلوٰةَ
“۔
”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نمازکو قائم رکھا“۔
میں کہتا ہوں کہ نماز بھی جیسی کربلا میں پڑھی گئی، تاریخ عالم میں نہیں پڑھی گئی۔ پیغمبر نے ان کیلئے سجدہ کو طول دیا۔ کوئی بتائے کہ نماز کے کسی عمل کو کب تک طول ہوتا ہے؟ ہر عمل کو طول ہوتا ہے جب تک دوسرا عمل نہیں ہوتا۔ رکوع ہوااور قیام نہیں ہوا تو قیام کے وقت تک رکوع قائم رہا۔ قیام تھا اور پھر سجدہ میں نہیں گئے تو اس وقت تک قیام کو طول ہوا ۔ یعنی طول ہوتا ہے جب تک اس کے مقابل دوسرا عمل وجود میں نہ آئے۔رسول نے جتنا طول دیا، وہ تو ہم کو معلوم ہے، اس کی پیمائش ہم کرسکتے ہیں۔ کہا کرتے ہیں کہ ستّر مرتبہ ذکر سجود کی نوبت آئی۔ اتنی دیر طول دیا لیکن حسین نے سجدہ جو کتنا طول دیا؟ میں نے کہا کہ کوئی عمل اتنا طول پاتا ہے جب تک کہ اس کے خلاف عمل نہ ہو۔ بخدا! انہو ں نے تو سر سجدہ میں رکھ دیا، پھر سر کو اٹھایا نہیں۔ اب اس سجدہ کی عمر میں کہاں بتاسکتا ہوں۔
میں حسین کے عزاداروں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ خنجر یاد ہے اور سجدہ یاد نہیں؟ حالانکہ خنجر شمر کا تھا اور سجدہ حسین کا ہے!