معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69314 / ڈاؤنلوڈ: 7069
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴


1

2

3

4

یقین کی آخری منزل

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( یَااَیَّتُهَاالنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة اِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّة فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ فَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ) ۔

سورئہ فجر کی آخری آیت ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اے اطمینان سے بھرے ہوئے نفس! پلٹ آ اپنے پروردگار کی طرف، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ تو داخل ہوجا میرے بندگانِ خاص میں اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔

اطمینان کے مقابل چیز ہے اضطراب۔ ہم چونکہ ، جو ہر اطمینان سے ناشناس ہیں، اس لئے اطمینان کے تقاضوں کو ہم اتنا واضح طور پر بیان نہیں کرسکتے۔ لیکن چونکہ اضطراب ہم کو درپیش ہواکرتے ہیں، اس لئے اضطراب کے تقاضوں کو ہم زیادہ واضح طور پر بیان کرسکتے ہیں اور چونکہ اطمینان اس کے مقابل چیز ہے، لہٰذا اضطراب کے تقاضوں کے تصور سے ہم اس کے مقابل کے اطمینان کے تقاضوں کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پر سکون حالات ہوں تو اضطراب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آرام ہے، آسائش ہے، کوئی خطرہ نہیں ہے، مصیبت درپیش نہیں ہے۔ کوئی اندیشہ فردا نہیں ہے۔ تو یہاں امتیاز ہی نہیں ہوسکتا کہ کون مضطرب ہے اور کون مطمئن۔اس لئے کہ سبب اضطراب کوئی نہیں ہے۔ تو سب ہی مطمئن ہیں۔ جس طرح سے کہ صبر اور عدم صبر۔ صابر اور غیر صابر کا امتیاز ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ مصیبت نہ آئے۔ جب مصیبت آئے ہی نہیں تو ہر ایک کو صبر کا دعویٰ کرنے کا حق ہے۔ ہر ایک کہے کہ میں بھی میدانِ صبر میں کوئی پیچھے رہنے والا نہیں ہوں۔لیکن جب مصیبت آئے اور پھر آدمی صبر کرنے والا ثابت ہو اور پھر کوئی بے صبرا ثابت ہو، تب امتیاز ہوگا صابر اورغیر صابر میں۔

اسی طرح ہر میدان میں پیغمبر اسلام کو ، ہر غزوے میں بلا مزاحمت فتح ہی ہوتی چلی جائے تو سب مجاہدین برابر کے بہادر ہیں۔ جو حقیقی بہادر ہے، اس کا تعارف تو نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ کوئی کٹھن وقت آئے۔ ضرورت ہے کہ کوئی سخت حالات کا جھونکا ایسا چلے کہ جس میں فرض کیجئے سو میں سے پچاس کے قدم اکھڑ جائیں تو ان سو میں امتیاز ہوجائے گا۔ سو میں جو صابر ثابت ہوئے ہیں، سو میں سے پچاس۔اس طرح امتیاز ہوجائے گا کہ کون ثابت قدم اور کون غیر ثابت قدم۔

اب فرض کیجئے کہ علم الٰہی میں ان پچاس میں سے چند ہیں جو ثابت قدم ہیں ۔ تو ضرورت ہے کہ وقت زیادہ کٹھن ہوتاکہ ان میں جو ممتاز ہیں، وہ آنکھوں کے سامنے آجائیں اور اب بھی اگر دس بیس میں مشترک ہے ثباتِ قدم تو ان میں جو ممتا زہے، وہ ابھی پردے میں ہے۔ لہٰذا کچھ اور سختی وقت میں اضافہ ہو، تب ان میں سے بھی بہت سوں کے قدم اُکھڑ جائیں۔ یہاں تک کہ صفحہ میدان سادہ ہوجائے اور بس ایک فرد رہ جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ فردِ فرید ہے۔ پھر ملک کو بھی کلمہ پڑھنا پڑے گا:

لَافِتٰی اِلَّا عَلِیْ لَاسَیْف اِلَّا ذُوالْفِقَار “۔

اسی طرح اضطراب اور اطمینان میں فرق کیسے ہوسکتا ہے! اگر بالکل متوازی حالات رہیں اور بالکل ہی خوشگوار ماحول ہو اور کوئی وجہِ اضطراب نہ ہو تو اطمینان کا سوال ہی نہیں۔ اطمینان تو اُسی وقت نمایاں ہوسکتا ہے جب اسبابِ اضطراب ہوں اور کوئی مضطرب نہ ہو۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اندھا ہونا صرف بصارت نہ ہونے کا نام ہے تو یہ دیوار کیوں اندھی نہیں کہلواتی۔ دیوار میں بھی تو بصارت نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اندھا ہونا صرف بصارت نہ ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ ایسا جس میں بصارت ہو، ہونا چاہئے اور پھر بصارت نہ ہو، تب وہ اندھا ہے۔ ویسے ہی اگر پر سکون حالات ہیں، اس وقت تو سب ہی ٹھہرے ہوئے ہیں، پرسکون ہیں۔ سب ہی کے دل قرار کے ساتھ ہیں۔ کسی کا دل پریشان نہیں ہے۔ اس وقت کہاں پتہ چلے گا کہ کون مطمئن ہے۔نہیں! جس وقت میں کہ ایسے حالات ہوں کہ جن کی وجہ سے اضطراب ہونا چاہئے او رپھر کسی میں اضطراب نہ ہو تو پتہ چلے گا کہ وہ مطمئن ہے۔

اب اضطراب کے تقاضے میں زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرسکتا ہوں۔ اسی سے سمجھئے گا کہ جو مطمئن ہوگا، اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ایک پریشانی کی منزل آئی یعنی مشکلات درپیش ہوئیں اور انسان نے سوچنا شروع کیا کہ یہ جو مشکلات درپیش ہوئیں تو کیا کرنا چاہئے؟ اگر ایک دو دن میں، ہفتہ دو ہفتہ میں کچھ سمجھ میں آگیا تو خیر اور اگر سمجھ میں نہ آیا تو کچھ ہمدرد جن کی عقل اور سوچ پر بھی بھروسہ ہے، ان کو جمع کیا، ان کے سامنے اپنی مشکل پیش کی اور ان سے کہا کہ آپ افراد میرے ہمدرد بھی ہیں اور صاحبانِ عقل و ہوش بھی ہیں، آپ بتائیے کہ اس مشکل کا کیا حل ہے؟کیا صورتِ عمل اختیار کی جائے؟

یہ دوسری منزل ہے جو اضطراب کی صورت میں طے کی جائے گی۔ اب فرض کیجئے کہ انہوں نے کوئی رائے دی اور وہ مشکل ابھی حل نہیں ہوئی ہے تو نیند اُڑی ہوئی ہے، سو نہیں سکتے۔ رات جاگ کر بسر ہورہی ہے۔ یہ تیسری علامت اضطراب ہے۔ وہ سوچ میں وقت گزارنا پہلی علامت اضطراب تھی۔ دوسری علامت اضطراب کچھ لوگوں کو بلا کر مشورہ کرنا کہ کیا کرنا چاہئے۔ یہ تیسری منزل ہے کہ جب مصیبت آگئی تو راتوں کونیند اُڑ گئی۔ اب ایک ایک سے اپنی مصیبت بیان کررہے ہیں ۔ شاید کہیں سے کوئی روشنی کی کرن آجائے اور کوئی کسی طرح کی مدد دے سکے۔ یہ اضطراب ہر ایک محسوس کرسکتا ہے۔ اب اگر ماحول ایسا ہے کہ جس میں اضطراب ہونا چاہئے اور چونکہ ہماری طبیعت میں اضطراب ہے، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ محلِ اضطراب ہے اور پھر کوئی مطمئن نظر آئے، مطمئن نظر آئے یعنی یہ باتیں نہ کرے۔ اسے سوچنے کیلئے مہلت کی ضرورت نہ ہو بلکہ بغیر زحمت تفکرکے راہِ عمل متعین ہو، معلوم ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ ذہن ایک جادے پر مطمئن ہے۔ تزلزل اُسے ہو جسے احساسِ فرض میں تردد ہو اور جسے ایک فرض ادا کرنا ہے، اُسے پھر تردد میں وقت گزارنا کیسا؟

تو وہ کوئی وقت تردد میں نہیں گزارے گا کہ کیا کریں۔ معلوم ہے کہ یہ کرنا چاہئے۔ تو اب وقت کی ضرورت کیا ہے؟ اس فکر میں کہ کیا کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوا، معلوم ہوا کہ یہ مطمئن نہ تھا۔ اچھا صاحب! دوسری منزل کہ خود سمجھ میں نہیں آیاتو ہمدردوں سے مشورہ لیا۔ دیکھا کہ نہیں، یہ شخص تودوسروں سے مشورہ بھی نہیں لیتا کیونکہ مشورہ وہ لے جسے اپنے زاویہ نظر کی حقانیت میں شک ہو اور جب اسے معلوم ہے کہ مجھے کیا راستہ اختیار کرناچاہئے تو وہ دوسروں سے مشورہ کیوں لے؟ اور اگر کچھ لوگ بنظر ہمدردی یا مظاہرئہ ہمدردی کیلئے رضاکارانہ طور پر از خود آکر مشورے دیں تو وہ ان مشوروں پر عمل بھی نہ کرے۔ چاہے دنیا مدتوں تک کہتی پھرے کہ بڑا ضدی آدمی تھا کہ بس جو طے کرلیا، وہ کیا۔ حالانکہ فلاں نے یہ مشورہ دیا تھا، فلاں نے یہ مشورہ دیا۔ایسے ایسے صاحبانِ عقل اور ہمدر ، انہوں نے یہ مشورے دئیے اور انہوں نے عمل نہ کیا تو حضور! وہ ان مشوروں پر عمل اُس وقت کرتا جب اُسے اپنے موقف کی حقانیت پر شک ہوتا۔

مشورے دیا کریں لوگ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ احساسِ اضطراب کررہے ہیں جو مشورے دے رہے ہیں اور جو مشورہ نہیں لے رہا، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اطمینان سے بھرا ہوا ہے۔ اس کو اضطراب ہے ہی نہیں کہ وہ مشورہ لے اور یہ مشورے دے رہے ہیں۔ تو بربنائے تخیل اضطراب دے رہے ہیں۔تو وہ ان مشوروں پر عمل کیوں کرے؟

اب ظاہر ہے کہ مشورے نہیں لئے اس نے تو اس سے متعلق کیا ہر ایک شخص دوسرے سے شکوہ نہیں کرے گا؟ ایک دوسرے سے دکھڑا نہیں روئے گا؟ ایک دوسرے سے اس مصیبت کا تذکرہ نہیں کرے گا کہ یہ مصیبت آئی ہے اور دیکھو کتنی مشکل مجھے پیش آگئی ہے ۔ اب یہ کردار وہ ہوگا جس کو ہم نے اضطراب کے تقاضوں کی بناء پر پہلے سمجھ لیا تھا۔اب ہم یہ سمجھے کہ یہ اطمینان کے تقاضے ہیں۔ بس اب جبکہ آپ کے سامنے اضطراب کے تقاضے پیش کرچکا اور اس کے مقابل اطمینان کے تقاضے تو ب دو مواقع پیش کرتا ہوں۔ ایک موقع کو سمجھ لیجئے فضائل اور ایک موقع تمہید ہوگا مصائب کی۔

پہلا موقع تو یہ ہے کہ ایک مشاورتی اجتماع ہوتا ہے اور اس میں طے ہوجاتا ہے کہ اس مقرر کردہ رات کو پیغمبر خدا کی شمعِ زندگی کو خاموش کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جب مجلس مشاورت تھی تو طرح طرح کی آراء دی گئیں۔ کسی نے یہ کہا کہ مشکل ہی کیا ہے، قتل کردیا جائے۔ تو کسی دوسرے صاحب فکر نے کہاکہ بنی ہاشم کی تلوار معلوم ہے؟ مدتوں خون کا بدلہ لینے میں سلسلہ جدال و قتال جاری رہے گا۔ لہٰذا گویا یہ رائے مسترد کردی گئی۔اس نے کہا کہ چلو قتل نہ کروکہ بدلہ لینے کیلئے سلسلہ جنگ شروع ہوجائے گا۔قید کردیا جائے، بند کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بنی ہاشم چھڑواکر لے جائیں گے، یعنی بنی ہاشم سے لوگ پہلے سے متاثر تھے تو پھر کیا کیا جائے؟ایک بہت ہی لال بھجکڑ قسم کا آدمی کوئی تھا، جسے اس وقت تک لوگ پہچانتے بھی نہیں تھے، وہ کھڑا ہوا، تاریخوں میں یہ ہے کہ وہ ایک نجدی بوڑھا تھا۔ ایک شیخ نجد تھا۔ مورخین چونکہ اسلام کے مورخین ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شیطان اس لباس میں آیا تھا۔ یعنی شیطان کو بھی حلیہ یہی پسند تھا۔ بہرحال شیطان آیا ہو یا واقعی وہ شیخ نجد ہو، اُس نے جو رائے پیش کی، وہ پاس ہوئی۔

دو مواقع تاریخ میں ایسے ملتے ہیں جسے لوگ شیطان کے سر منڈھتے ہیں۔ ایک تو یہ جس نے یہ رائے دی ، کہتے ہیں کہ شیطان تھا جو اس شکل میں آیا تھا اور ایک اُحد میں جس نے آواز بلند کی تھی کہ رسول قتل ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ شیطان نے یہ آواز بلند کی تھی۔میں کہتا ہوں کہ جو ویسا کام کرے یا ایسی غلط آواز بلند کرے، وہ شیطان ہوا۔ بہرحال شیخ نجدی نے یا انسان نما شیطان نے یہ رائے پیش کی کہ کیوں کہتے ہو کہ بنی ہاشم بدلہ لیں گے۔ میں ترکیب بتاتا ہوں۔ مخالف تو بہت سے ہیں نا۔سبھی مخالف ہیں سوائے بنی ہاشم کے۔ ہر قبیلہ کا ایک نمائندہ چنو اور ایک ایک آدمی جب ہر قبیلہ کا لے لو گے تو خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے گا۔ تو بنی ہاشم کس کس سے مقابلہ کریں گے؟یعنی اُس نے یہ

اصول سب سے پہلے پیش کیا کہ بہت سے نمائندے مل کر اگر کوئی جرم کریں تو پھر وہ جرم ہلکا ہوجاتا ہے۔ جرم ، جرم ہی نہیں رہتا۔یہ رائے پاس ہوگئی ۔ کیا کہنا، واہ واہ۔سب کچھ طے ہوگیا۔

قرآن مجید نے اُسے ”کید“ سے تعبیر کیا ہے کہ انہوں نے اپنا منصوبہ بنایا ۔ وہ سب اسی جماعت کے لوگ تھے ، یہاں کا مخبر تو کوئی نہیں تھا۔ وہ رات قریب آگئی اور ان لوگوں نے پورا بندوبست کیا تھاکہ وہ راز باہر نہ جائے۔ مگر قدرت کی لاسلکی اور لاسلکی نہیں، تو جو اس کی طرف کا قاصد ہے یعنی ملک آیا پیغمبر خدا کے پاس اور ان کا پورا منصوبہ آپ کو بتایا کہ آج رات کو آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے تمام لوگ آئیں گے اور گھر کو گھیر لیں گے۔اس کے بعد اس منصوبہ کا توڑ جس کو بلاغت قرآنی نے اسی لفظ سے تعبیر کیا ہے کہ انہوں نے اپنی ترکیب کی اور ہم نے اپنی ترکیب کی۔ جو لفظ ادھر صرف کیا گیا، وہی اپنی طرف صرف کیا ہے کہ انہوں نے :

مَکَرُوْامَکْرًاوَمَکَرْنَامَکْرًا “ ۔

انہوں نے ایک ترکیب کی اور ہم نے اپنی ترکیب کی۔ تو جو کسی چیز کا توڑ ہو، وہ اسی لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ اصولِ بلاغت ہے۔ اب خالق نے کیا ترکیب کی اور ترکیب کا لفظ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ایک خفیہ شکل ہو کہ جس کو دوسرا محسوس نہ کرسکے۔اسی کو ”کید“ یا مکر سے قرآن میں تعبیر کیاجاتا ہے۔

خالق نے کیا ترکیب کی؟ ارشاد ہوا کہ اب ہم آپ کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ آپ چلے جائیے اور یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ کے جانے کی ان کو خبر نہیں ہوگی۔ یہ بات ہمارے ذمہ ہے ، آپ چلے جائیے۔ مگر اپنے بستر پر علی کو سلاجائیے۔متفق علیہ ہے، ہر جگہ قول مل جاتا ہے کہ وہ نہیں وہ۔ مگر یہاں دنیائے تاریخ سنسان ہے۔ یہاں بس ایک ہی نام ہے۔ جو فرشتے نے نام لیا، وہی ہر مورخ نام لے گا کہ علی کو اپنے بستر پر سلاجائیے۔ ترکیب قدرت کی طرف کی یہ ہے کہ رات بھر وہ سمجھتے رہیں کہ رسول بستر پر ہیں اور اب اس نے ایک ذات کو منتخب کیا کہ ذات ایسی ہو جس پر رسول ہونے کا دھوکہ ہوسکتا ہو۔

جناب! یہ تو پیغام خدا کی طرف سے پیغمبر خدا تک پہنچا۔ ان کو اگر خود عمل کرنا ہوتا تو کسی سے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ مگر اس ہدایت کا جزو ایک دوسری شخصیت سے متعلق ہے۔ لہٰذا دوسری شخصیت کو بلانا لازمی تھا۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام بلائے گئے او رجو صورتِ واقعہ تھی، وہ بیان کی گئی کہ خالق کی طرف سے یہ اطلاع آئی ہے کہ گھیرا جائے گا یعنی مکان کا محاصرہ ہوگا، میرے قتل کے ارادہ سے، اور خالق کی ہدایت پر میں چلاجاؤں گا اور تمہیں اپنے بستر پر لٹاجاؤں گا۔ اب ہر دل و دماغ رکھنے والا آدمی غور کرے کہ یہ منزلِ تقاضائے اضطراب ہے یا نہیں؟ یہ صورتِ حال ایک عام انسان کیلئے اضطراب پیدا کرنے والی ہے یا نہیں؟ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ بڑا سخت محلِ اضطراب ہے۔

اب ایک لفظ میں اس محلِ اضطراب کوواضح کردوں کہ علی عام حالت والے علی ہوتے تو اتنے سخت خطرہ میں نہیں تھے جتنے رسول بن کر لیٹنے میں خطرہ میں ہیں۔

ہم نے دنیا میں بھیس بدلتے ہوئے دیکھے ہیں مگر عموماً وہ بھیس بدلا جاتا ہے جو خطرہ سے دور ہو۔ یہ نیا بھیس بدلنا دیکھا کہ جس کے قتل کا منصوبہ ہے، اس کی چادر اوڑھی جائے۔ یہی کہہ دیتے کہ بستر پر لیٹ رہو مگر کھلے بندوں کہ ہر ایک دیکھ سکے کہ کون ہے؟ ارے لیٹو اور چادرِ رسول اوڑھو اور بستر رسول پر لیٹو۔ رسول نما ہوکر لیٹو۔

تو کتنا صبر آزما ہے۔ پھر یہ صبر آزما تو عام لفظ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اطمینان آزما محل ہے۔ اب اضطراب کے تقاضے تو عرض کرچکا۔ اتنی اہم اور خطرناک منزل ۔ مجھے ملے کسی غلط سے غلط تاریخ میں۔ کسی دمشق کے کارکانے کی صحیح ڈھلی ہوئی ۔ اگرچہ دعویٰ ذرا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر غلط سے غلط بات خرمن احادیث میں مل جاتی ہے اور بنامِ صحاح ملتی ہے۔ مگر بعض جگہ سچائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ جھوٹ کو قدم رکھنے کا موقع نہیں ملتا۔

تو صاحب!کوئی غلط سے غلط روایت نہیں ملتی کہ انہوں نے یہ سن کر کہا ہو کہ مجھے کچھ مہلت دیجئے سوچنے کیلئے۔ انکار نہ کرتے مگر کچھ مدت تو مانگتے، کچھ مہلت تو طلب کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سوچنے کیلئے ہی سہی ، مہلت طلب نہ کی۔ پھر اگر مہلت مل بھی جاتی تو پہلے خود سوچتے، پھر اس کے بعد یہ کوئی یکہ و تنہا اپنے گھر کے آدمی نہیں تھے، تین بھائی ان سے بڑے تھے اور ان سب میں دس دس برس کا فاصلہ۔ آپ سے دس برس بڑے عقیل۔ عقیل سے دس برس بڑے جعفر او رجعفر سے دس برس بڑے طالب، جن کے نام پر کنیت ہوئی ابوطالب۔ وہ سب میں بڑے۔ اب آپ عمر کا حساب کیجئے کہ یہ جب چوتھے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ طالب تو پیغمبر خدا کے ہم عصر تھے۔ یعنی بوقت بعثت حضورکی عمر چالیس برس اور طالب کی عمر بھی چالیس ہی برس ہوسکتی ہے۔ ان سے چھوٹے جعفر رسول سے دس برس چھوٹے، ان سے چھوٹے عقیل ، رسول سے بیس برس چھوٹے، ان سے چھوٹے علی ، رسول سے تیس برس چھوٹے۔

تیس برس پر ایک واقعہ یاد آگیاکہ جب پیغمبر خدا کی ولادت ہوئی، جنابِ آمنہ بنت وہب آپ کی والدہ ہیں تو جنابِ فاطمہ بنت اسد موجود تھیں۔ عموماً ایسے مواقع پر خاندان کی بزرگ جوخواتین ہیں، وہ آجاتی ہیں۔ ولادت کے بعد جنابِ ابوطالب کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا کہ آمنہ کہ ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوا۔ جو شروع سے شکل و شمائل سے اندازہ ہوتا تھا ، وہ بتایاکہ آمنہ کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کافی کلینی کی روایت ہے جو عرض کررہا ہوں کہ جنابِ ابوطالب نے فرمایا: تیس برس اور صبر کرو تو ایسے ہی بچے کی میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں۔ اسی لئے آجکل کی متمدن دنیا میں لوگ اولاد کی تعداد کو محدود بنانا چاہتے ہیں۔ ہر ملک میں تمدن کی نشانی یہ ہے کہ اولاد کی تعداد کو محدود بنایا جائے۔ہمارے ہاں ایک وقت میں دیواروں پر لکھاہوتا تھا کہ ایک گھر میں تین بچے اچھے۔ اس کے بعد وہ مٹ گیا اور یہ نکلا کہ ہم دو ہمارے دو۔بہت خوبصورت جملہ ہے ، ہم دو ہمارے دو۔

میں نے کہا کہ بس ! اس کے بعد منزلِ توحید ہے۔ یہ ہوگیا کہ تین سے بات چلی اور دو تک پہنچی۔ اس کے بعد ایک کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ایک تک تو دنیا بہت دیر میں پہنچتی ہے۔اب مَیں حقیقت تاریخی کی بناء پر عرض کرتا ہوں کہ یہ چوتھے فرزند ماں باپ کے، اور جو یہ ہیں، وہ کوئی قبل والا نہیں ہے۔ سب سے چھوٹے ہیں مگر فردِ اکمل یہی، یعنی حاصلِ حیاتِ ابو طالب وہی ہیں جو اپنے ماں باپ کی چوتھی اولاد ہیں۔ تو دنیا اگر اس نظامِ تمدن پر چلتی ہوتی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا فردِ اکمل کے فیض سے محروم رہ جاتی۔یہ مشاہدہ سب سے بڑی دلیل ہے اس فلسفے کے بطلان کی۔ یعنی اس فلسفے نے یہ طے کیا ہے کہ قبل والے افراد کارآمد ہیں اور بعد والے بیکار ہیں۔ جب ہمارے سامنے یہ ہے کہ

اصل کام کا وہی آخری فرد ہے جس کو آنے سے آپ نے روک دیا، اپنے منصوبہ کی بناء پر تو ہم اس کی حقانیت پر کیونکر ایمان لائیں۔

غرض یہ کہ اتنے بھائی ، سب سے بڑے طالب، ان سے چھوٹے جعفر، ان سے چھوٹے عقیل۔ تو کسی اور سے رائے نہ لیتے، اپنے بھائیوں سے تو جمع کرکے رائے لیتے کہ یہ پیغام مجھے ملا ہے، آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ مگریہ وہ کرتا جو مضطرب نفس رکھتا ہو۔اس سے ہم واقف ہیں ، اس کا تقاضا یہ ہے ۔ مگر یہاں ایک لمحے کی مہلت طلب نہیں کی جاتی۔ جب مہلت طلب نہیں کی جاتی تو نہ خود سوچنے کا سوال اور نہ رائے اور مشورہ کا سوال۔ بس جواب دینے سے پہلے ایک سوال کئے دیتے ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ میرے بستر پر سورہنے سے حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ پیغمبر خدا فرماتے ہیں کہ ہاں! خدا نے مجھ سے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ انہوں نے یہ سوال کیوں کیا؟ مجھے تو اس حقیقت کے اظہار کیلئے یہی الفاظ ملتے ہیں کہ بس اپنی جان کی قیمت پوچھ رہے ہیں۔پیغمبر خدا نے جب فرمادیا کہ ہاں! مجھ سے حفاظت کا وعدہ ہوا ہے۔ انہوں نے نہ اپنے لئے پوچھا تھا، نہ انہوں نے ان کیلئے بتایا۔انہوں نے ان کیلئے پوچھا تھا کہ آپ کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ اور انہو ں نے اپنے لئے فرمادیا کہ مجھ سے حفاظت کا وعدہ ہواہے۔ بس یہ سننا تھا کہ سر سجدئہ خالق میں رکھ دیا۔

شاہ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں ، مدارج النبوة فارسی زبان میں ہے،اس میں تحریر فرماتے ہیں کہ دنیا میں یہ سب سے پہلا سجدئہ شکر ہے جو اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے کیا تھااور شریعت اسلام میں سجدئہ شکر جزوِ مسنون ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ عمل ہیں جو بلند افرا دکے کردار سے جزوِ شریعت ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلا سجدئہ شکر انہوں نے کیا۔ محدث دہلوی لکھ رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ یہ شریعت میں جزوِ مسنون ہے۔ تو دو پہلو ا س کے پیش کئے دیتا ہوں۔ یا تو یہ کہ لوحِ محفوظ میں یہ پہلے سے شریعت کا جزو تھا اور مانئے کہ علی قبل از نزولِ قرآن دیکھ رہے تھے اور یا یہ مانئے کہ دیگر احکام قرآنِ صامت کے حکم سے ہیں اور یہ حکم قرانِ ناطق کے حکم سے ہے۔

بہرکیف علی علیہ السلام کے کردار میں اضطراب کا پہلو نظر نہیں آیا، نہ سوچنے کیلئے وقت کی مہلت مانگی، نہ عزیزوں اور ہمدردوں سے مشورہ کیا۔ باپ بے شک اس وقت نہیں تھے لیکن تین بھائی بڑے اور ایک ان میں سے باپ کے برابر عمر رکھتے ہیں۔ وہ موجود تھے لیکن کسی سے رائے نہیں لی گئی۔ معلوم ہوا کہ نفس مطمئن ہے۔

اب بستر پر لیٹ گئے۔ذرا غور کیجئے کہ بستر پر لیٹے تو اضطراب کا تقاضا یہ ہے کہ نیند اُڑجائے۔ ہمارے نزدیک اضطراب کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں نیند کے اُڑنے کے۔ جسے رات کو کبھی سونے کی عادت نہ ہو، کوئی کسی عبادت کا ذوق رکھتا ہواور وہ مجبوری سے اُسے انجام نہ دے سکے تو اُسے قلق ہوتا ہے، اضطراب ہوتا ہے، بے چینی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نہ سو سکے۔ فرض کیجئے کہ اس وقت کوئی صاحب مجلس میں آنے کا ارادہ رکھتے ہوں اور بر وقت کوئی رکاوٹ ایسی پیدا ہوجائے کہ وہ نہ آسکیں تو یہ بستر پر بار بار یاد آئے گا کہ دیکھو! میں مجلس میں جانا چاہتا تھا مگر نہیں جاسکا۔

ان کی پوری رات محرابِ عبادت میں گزرتی تھی، جاگ کر بسر ہوتی تھی۔ رات کو سونا کہاں تھا او رپھر ذوقِ عبادت ان کا۔ رات بھر ان کو تصور رہنا چاہئے تھا کہ اب میں نماز پڑھتا ہوتا، اب میں تہجد پڑھتا ہوتا۔ اب میں فلاں عبادت کرتا ہوتا۔ آج فرض کے شکنجے کی زنجیر یں ڈال کر مجھے لٹا دیا گیا ۔ تو انہیں نفسیاتی طور پر قلق ایسا ہونا چاہئے تھا کہ نیند اُڑے گی۔ا س قلق اور اضطرا ب کو وہ محسوس کرے گا جس کی عبادت بربنائے عادت ہو اور جو حقیقت عبادت سے واقف ہو۔اُسے قلق نہیں ہوگا کہ جس کے کہنے سے روز عبادت کرتا تھا، اُسی کے کہنے سے تو آج لیٹا ہوں۔

لیکن حکم لیٹنے کا تھا، سونے کا نہیں تھا۔ رسول نے فرمایا تھا کہ حکم خدا یہ ہے کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ۔ حکم لیٹنے کا تھا، سونے کا نہیں تھا اور عقلاً ہو بھی نہیں سکتا ، اس لئے کہ تکالیف شریعہ اور احکام افعالِ اختیاری سے متعلق ہوتے ہیں۔آدمی کے اختیار میں لیٹناہے، سونانہیں ہے۔تو عقلاً حکم لیٹنے ہی کا ہوسکتا ہے، سونے کا نہیں ہوسکتا۔ مگر خود فرمایا ہے کہ جیسی گہری نیند شب ہجرت سویا، ایسی کبھی نہیں سویا تھا۔

گہری نیند کیوں آئی؟ حکم فقط لیٹنے کا ہے، سونے کا نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سونا نہ سونا نفس کی کیفیت سے متعلق ہے۔ اگر نفس مضطرب ہوتا تو جاگ کے رات کٹتی بلکہ شاید رو کر کٹتی مگر یہ نفس مطمئن ہے۔

بہرحال اطمینان سے سوتے رہے اور بربنائے روایت بھی میں کہتا ہوں کہ ہمارے لئے تو ان کا کہہ دینا کافی ہے اور اصولِ عقلی کے اعتبار سے ایسی بات جو خود انسان کے بیان سے معلوم ہوسکے، اس میں اس کا بیان معتبر ہے۔ وہاں گواہیاں بھی نہیں ہوتیں۔ گواہ لیٹنا دیکھ سکتے ہیں، سونا نہیں دیکھ سکتے۔ تو جو چیز خود آدمی ہی کے بیان سے ظاہر ہو، اس میں اس کا بیان مستند ہے۔ اس میں گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ تو ہمارے لئے ان کا کہہ دینا کافی ہے کہ میں شب ہجرت جیسی گہری نیند سویا، کبھی نہیں سویا۔ مگربربنائے واقعہ ہر صاحب فہم کومیں دعوت دیتا ہوں کہ درایتاً غور کرے کہ یہ سو رہے تھے یا نہیں؟

حضور! عرب کی نیچی نیچی دیواریں ، لٹکتے ہوئے نیزے، کھنچی ہوئی تلواریں، آپس میں چرچے ہورہے ہیں کہ ابھی حملہ کردیں یا انتظا رکریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابولہب بھی تھا محاصرین میں۔اُس نے یہ کہا کہ یہ بھاگ نہیں سکتے، صبح ہونے دو، صبح کو حملہ کرنا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دیواریں اتنی نیچی تھیں کہ ان کے آنے میں وہ سد راہ نہیں تھیں۔ صبح کو جب چاہا ، آگئے چھلانگیں لگا کر۔کسی نے جاکر دروازہ تو نہیں کھولا تھا۔ تو چرچے ہورہے ہیں کہ جائیں یا نہ جائیں۔ رات گزر رہی ہے۔ اب ہر صاحب عقل غو رکرے کہ اگر نفس مضطرب ہوتا تو رات بھی راز راز ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ بار بار چادر اُلٹ کر دیکھتا کہ آتو نہیں رہے، آتو نہیں رہے۔یہ رات بھر راز رہنا بتاتا ہے کہ یہ تو سورہے تھے۔ان کو اس سے مطلب ہی نہیں تھا کہ آرہے ہیں یا نہیں آرہے۔

میں ایک عام مثل دہراتا ہوں ، یہ سنجیدہ آدمی نہیں بولتے ہیں۔ہوسکتا تھا کہ میں شاید بالائے منبر ا س مثل کو استعمال نہ کروں مگر مجھے یہاں مطلب اسی سے ہے۔ چونکہ مثل کے اندر ایک حقیقت مضمر ہوتی ہے، اس لئے پست سہی مگر میرے کام کی وہی ہے۔ میں گہری نیند کا فلسفہ بتانا چاہتا ہوں جو انہوں نے فرمایا۔ جیسی گہری نیند سویا، حضور! مثل مشہور ہے کہ جب گہری نیند کسی کو آئے تو کہتے ہیں کہ گھوڑے بیچ کر سوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جو گھوڑے بیچ کر سوئے، وہ تو گہری نیند سوئے گا او رجو جان بیچ کر سوئے؟

معلوم ہوا کہ ان کے کردار نے بتایا کہ یہ ہے نفس مطمئن۔اب یہ باپ کا اطمینانِ نفس ہے اور بیٹے کی منزل آئی اور اس کے سامنے مرحلہ یہ درپیش ہے کہ یزید طلبگارِ بیعت ہے۔ بیعت نہ کرنے کے نتائج ہر صاحب عقل کے سامنے ہیں۔ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ بیعت نہ کرنے کے نتائج کیاہوسکتے ہیں؟ اب یہ مشکل منزل ہے یا نہیں؟

تو جو اضطراب کے تقاضے وہاں بتلاچکا ہوں، وہی یہاں بھی ہیں کہ پیغام ملا تو کوئی روایت نہیں بتاتی کہ انہوں نے ہمدردوں کو جمع کیا ہو۔ بھی ہاشم جن سے ہم کربلا میں متعارف ہیں۔ اسی وقت تو ان کے علاوہ بھی بہت سے افراد موجود ہیں ۔ جنابِ محمد حنفیہ ہیں، جنابِ عبداللہ ابن عباس ہیں جو انتہائی مدبر ہیں۔ بہت ہی صاحب ہوش و خرد اور ہوشیار مانے جاتے تھے۔ لوگ ان کو بلاتے تھے اور مشورہ لیتے تھے۔مگر کوئی روایت نہیں بتاتی کہ ان لوگوں کو بلا کر ان سے مشورہ لیا ہو کہ کیا کرنا چاہئے۔ ارے جبکہ سمجھے ہوئے ہیں کہ بیعت یزید میرے لئے ناروا ہے تو پھر مشورہ کیوں لیتے؟

لوگوں نے آآکر بنظر ہمدردی مشورے دئیے، کچھ نمائشی ہمدرد، کچھ حقیقی ہمدرد۔ مگر مصلحت امام سے بے خبر۔ جنابِ عبداللہ ابن عمر نے بھی مشورہ دیا اور عبداللہ ابن مطیع، جو جنابِ مختار کے نکلنے کے وقت کوفے کے گورنر تھے، ان سب نے مشورہ دیا۔ آج ان مشوروں کو پیش کیاجاتا ہے اور انہوں نے کسی مشورے پر عمل نہیں کیا۔ کچھ لوگ جو چاہتے ہیں کہ الزام ہم عائد نہ کریں، وہ تقدیر کے سپرد کرتے ہیں۔بڑ ے بڑے ممتاز اہل قلم لکھتے ہیں کہ وہ تو مشیت کا فیصلہ تھا یعنی صحیح تو یہی لوگ کہتے تھے مگر کیا کیا جائے کہ تقدیر میں یہی تھا۔مشیت اسی کی متقاضی تھی۔ کچھ لوگ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ بڑی ضد تھی اور بڑی کد تھی۔اتنے ہمدردوں کا مشورہ تھا اور اس کا نہ مانا مگر میں اب پوری ذمہ داری کے ساتھ ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہتا ہوں کہ جتنے مشورے آپ لوگ پیش کررہے ہیں، ان سب مشوروں کو لائیے اور میرے سامنے پڑھئے کہ کیا کیا مشورہ کس کس نے دیا ۔ تو جتنے مشورے تھے، وہ یہ کہ یہاں سے جارہے ہیں آپ تو عراق نہ جائیے، طائف چلے جائیے، یمن چلے جائیے او رکسی دوسری جگہ چلے جائیے۔ جبل طے، طے کے پہاڑوں پر مشورہ دیا گیا کہ جائیے۔ بڑے مشہور قلعے ہیں، آپ کی حفاظت ہمارا قبیلہ کرے گا۔یہ مشورے کہ آپ جاتے ہیں تو بچوں اور عورتوں کو کیوں لئے جاتے ہیں؟یہ ہیں مشورے ان لوگوں کے مگر کسی مشورہ دینے والے نے یہ نہیں کہا ہے کہ یزید کی بیعت کرلیجئے۔

یہ پورے مطالعہ کی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ کسی کا یہ مشورہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہتا کہ آپ یزید کی بیعت کرلیجئے۔ اس لئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید کی بیعت تو دھندلی نگاہ والوں کو بھی ان کیلئے ناروامعلوم ہورہی ہے۔ اب آجکل دنیا کہہ رہی ہے کہ بیعت کیوں نہ کرلی؟ یہ سب کچھ ہوگیا اور بیعت نہیں کریں گے۔ انکارِ بیعت میں اتنی شدت؟ یہ تو ضد ہے۔میں کہتا ہوں کہ اگر صحیح راستے پر قائم ہونا ضد ہے تو کونسا نبی ہے جو ضدی نہ ہو۔ کونسا رسول ہے جو ضدی نہ ہو۔خدا کی قسم! صدائے حق کا ہم اور آپ تک پہنچنا ان کی ضدوں کا صدقہ ہے۔

پھر ذرا انصاف کیجئے آپ، اس رُخ پر سوال کرتے ہیں کہ ان کو بیعت سے اتنا انکار کیوں ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے کیوں نہیں سوچتے کہ یزید کو بیعت پر اتنا اصرا رکیوں ہے؟ جبکہ تمام عالم اسلام نے بیعت کرلی تو اگر یہ بیعت نہ کریں تو یزید کا کیا بگڑتا؟ جبکہ اصولِ جمہوریت یہ ہے کہ کثرتِ رائے سے ہر بات طے ہو۔ تو اقلیت کی رائے ناقابل اعتبار ہے۔ اس سے اصل مقصد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔کچھ

لوگ نہیں مانتے ، نہ مانیں۔یہ پوری طاقت کیوں صرف کی گئی کہ ان سے بیعت لی جائے؟ یہ آخر یزید کو اتنا اصرا رکیوں ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ حسین ایک فرد نہیں ہیں، فرد اہمیت حاصل کرتا ہے کسی نظام کا نمائندہ ہوکر۔ ایک فردِ عرب ہوتا تو کتنے گوشہ و کنار میں آدمی ہوں گے جنہو ں نے بیعت نہ کی ہوگی۔ ارے خود ان کے اور بھائی تھے،کسی اور نے بیعت کی؟ جنابِ محمد حنفیہ بھی تو علی کے بیٹے تھے، ان سے بیعت کیوں نہ طلب کی؟ عبداللہ ابن جعفر بھی خاندان کے بزرگ تھے، ان سے کیوں بیعت طلب نہ کی؟ آخر یہ انہی سے اصرار کیوں ہے کہ بیعت طلب کی جائے؟

معلوم ہوتا ہے کہ حسین سے بیعت بحیثیت ایک فردِ عرب کے نہیں تھی، بحیثیت ایک نمائندئہ خاندانِ بنی ہاشم کے نہ تھی بلکہ حسین سے بیعت اس شریعت کا نمائندہ ہونے کے لحاظ سے تھی۔ یزید جانتا تھا کہ جب تک حسین نے بیعت نہ کی، اس وقت تک شہنشاہیت کے سامنے شریعت کا محاذ قائم ہے او رجس دن یہ بیعت کرلیں گے، اس دن شریعت کا محاذ ہمیشہ کیلئے سیاست کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ اس لئے حسین سے بیعت کیلئے پورا اصرار تھا۔

توایک جملہ آپ کیلئے کافی ہے ، میں کہتا ہوں کہ یزید حسین کو پہچانتا تھاکہ یہ کون ہیں اور حسین خود اپنے آپ کونہ پہچانتے کہ میں کون ہوں؟یہ جانتے تھے کہ اس وقت میرے بھائی حسن مجتبیٰ ہوتے تو مجھ سے نہ کہا جاتا۔ جو کچھ کہنا تھا، اُن سے کہاجاتا۔اگر ہمارے پدرِ بزرگوارہوتے تو جو کچھ مقابلہ کرنا تھا، ان سے کیا جاتا۔ہم سے براہِ راست کوئی مطلب نہ ہوتا۔ مزید آگے بڑھئے کہ اگر ہمارے نانا رسول اللہ ہوتے تو جو کچھ سند جوازِ حکومت کی مانگنا ہوتی، وہ ان سے مانگی جاتی، ہم سے نہ مانگی جاتی۔ مگر چونکہ میرے نانا نہیں ہیں اور میں ہوں، اس لئے مجھ سے بیعت طلب کی جارہی ہے۔ تو میرے بیعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ میرے بڑے بھائی ہوتے تو بیعت کرلیتے، میرے والد ہوتے اور وہ ہتھیار ڈال دیتے، میرے نانا ہوتے اور وہ مہر تصدیق ثبت کردیتے۔

میں کہتا ہوں کہ اب فقط ان کی بات نہیں ہورہی، اب ان کا بیعت کرنا ان سب کا بیعت کرنا تھا اور ان کا بیعت سے انکار ان سب کا انکارِ بیعت ہے اور جب رسول تک بات پہنچ گئی تو میں کہتا ہوں کہ ان کا بیعت کرلینا شریعت الٰہی کا سرجھکا دینا ہے۔

صبرواستقامت

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( کَمْ مِنْ فِئٍَ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ عَلٰی فِئَةٍ کَثِیْرَةٍ وَاللّٰهُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) ۔

ارشادِ حضرتِ اقدس ہے کہ کتنے ہی کم تعداد کے گروہ ہیں جو بڑی تعداد کے گروہ پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صبر کا لفظ اگرچہ عربی ہے مگر اتنی کثرت سے زبان پر جاری ہے کہ اُردو زبان کا جزو بن گیا ہے۔ یہ لفظ طرح طرح سے زبانوں پر آتا ہے۔ کوئی سانحہ ہوگیا تو کہا گیا کہ صبر کرنا چاہئے۔ کبھی کسی نے کسی کام میں جلدی کی تو کہہ دیا کہ تم بڑے بے صبرے ہو۔ مختلف انداز سے صبر کا لفظ زبان پر آیا کرتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی کثرت سے جو لفظ زبانوں پر آتا ہے، اس کے اصل معنی بہت سے حضرات کے ذہنوں سے دور ہیں۔ اس لئے صبر کے مفہوم کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک نئی روشنی کے دلدادہ ترقی پسند گروہ، جو کہ زیادہ تر اقدام پسند ہوتے ہیں، ان کی زبانوں پر یہ ہے کہ صبر بزدلی کی تعلیم ہے اور چونکہ یہ ترقی پسند افراد مذہب سے زیادہ تر دور رہتے ہیں اور ہر چیز میں دنیاوی سیاست کو شریک کردیتے ہیں، ہر چیز کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں، اس لئے ان کا نظریہ یہ ہے کہ صبر کی تعلیم اہلِ مذہب نے کمزوروں کی قوتِ مقاومت کو سلب کرنے کیلئے دی ہے تاکہ طاقتور لوگوں کے مقابلہ میں کھڑے نہ ہوں۔

اس کیلئے صبر کی دعوت دی گئی ہے کہ جو حربہ ہو ،اُسے چپکے سے برداشت کرلو۔ جو زیادتی ہو، اُسے سہہ لو۔ صبرکرو، صبر کرو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان ظالموں کے مقابلہ میں نہ کھڑے ہو۔ پس اس گروہ نے صبر کے معنی یہ قرار دئیے کہ چپکے سے ہر حربہ کو برداشت کرلینا۔ یہ تو ترقی یافتہ جدید روشنی کے زیر سایہ تصور پروان چڑھا اور اب قدیم روشنی والے علماء کا ایک مکتب خیال، اس نے صبر کے ایک دوسرے معنی اپنے مذاق کے مطابق قرار دے لئے ہیں، مثلاً صبر یہ ہے کہ احساسِ غم ہی نہ ہو۔ کوئی بھی غم پڑے، اس کا آدمی پر کوئی بھی اثر نہ ہو۔یہ صبر کا معیار ہے۔ کچھ نے یہ صبر کرلیا کہ ہر غم کا احساس تو ہو مگر آنکھ سے آنسو نہ نکلے۔جتنے بھی مصائب ہوں، تم پتھر بنے کھڑے رہو۔ ادھر آنکھ سے آنسو نکلااورانہوں نے کہ تم صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہو۔ یعنی اوّل تا آخر صبر یہی ہے کہ آدمی روئے نہیں، آنسو نہ بہائے۔

اس لئے صبر کے زیر سایہ یہ نعرے اس زمانہ میں بہت بڑھ جاتے ہیں جب اشکباری کا موسم آتا ہے۔ اس وقت ان کو اس سیلابِ اشک پر بند باندھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہوجاتی ہے۔ یہ تعلیم بہت زورشور سے جاری ہوجاتی ہے کہ یہ مناسب چیز نہیں ہے۔ مسلمان کو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔مسلمان کو صبر کرنا چاہئے۔ میرے سامنے وہ جدید محاذ بھی ہے اور یہ قدیم محاذ بھی ہے۔ دونوں سے میرا یہ خطاب ہے کہ صبر کا لفظ اب آپ کی اُردو زبان کا جزو ہے لیکن یہ لفظ آپ نے سیکھا کہاں سے ہے؟

یاد رکھئے کہ آپ مذہب سے کتنے ہی باغی کیوں نہ ہوں لیکن یہ لفظ آپ نے مذہب سے ہی یاد کیا ہے۔ اسی سے آپ مذہب والوں کو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کمزوروں کی قوتِ مقاومت کو سلب کرنے کیلئے یہ تلقین کی ہے ۔ گویا ظالموں کو بااطمینان ظلم کرنے کا موقع دیا ہے۔ تو یہ لفظ جب آپ نے مذہب والوں سے سیکھا ہے تو کم از کم اسلامی مذہب کی سب سے بڑی دستاویز تو قرآن ہے۔ قرآن نے صبر کو جس جس معنی میں استعمال کیا ہو، اُسے دیکھئے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کیجئے کہ یہ تصورات صحیح ہیں یا غلط۔ خواہ وہ جدید تصورات ہوں یا قدیم۔ قرآن کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیجئے اور درمیان میں حدیث بھی ضمناً پڑھ دوں گا۔ اصل بنیاد قرآن ہے۔ تو جو قرآن کو کافی سمجھتا ہے، اُسے تو سر جھکا ہی دینا چاہئے۔

میں جب قرآن مجید میں صبر کے موارد دیکھوں تو نہ وہ جدید تصور صحیح دکھائی دیتا ہے ، نہ قدیم تصور درست قرار پاتا ہے۔ وہ دونوں قرآن کی کسوٹی پر ناقص قرار پاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے صبر کے معنی سمجھے ہی نہیں۔ دیکھئے قرآن مجید کو اور جو آیت میں نے سرنامہ کلام قرار دی ہے، وہ اسی سے متعلق ہے کہ اس صبر کا مطالبہ میدانِ جنگ میں کیا گیا۔ بہت سے چھوٹے گروہ ہیں جو بڑے گروہ پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

تو معلوم ہوتا ہے کہ صبر کوئی ایسی چیز ہے جو بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا دینے کی دعوت دے رہا ہے کہ تمہاری کتنی ہی کم تعداد ہو لیکن اس سے نااُمید نہ ہو اور جو دوسری جماعت تمہارے مد مقابل ہے، اس کی کثرتِ تعداد اور اس کی طاقت کو دیکھ کر مرعوب نہ ہو۔

تو اب کیا میدانِ جنگ کا صبر یہ ہے کہ جب تلوار کا وار ہو تو چپکے سے سر جھکا دو؟ نیزہ آئے تو خاموشی سے سینہ بڑھا دو؟ آخر یہ جو قدیم افراد نے صبر کی تفسیر کی یا نئی روشنی والوں نے ،وہ منطق یہاں کہاں ملتی ہے؟ یہاں تو مجملاً کہا کہ اکثر چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت دیکھئے کہ اس میں دعوت دی جارہی ہے کہ دس گنا مقابلہ سے نہ گھبراؤ۔ ارشاد ہورہا ہے رسول سے:

اِرْغَبِ الْمومنین عَلَی الْقِتَالِ “۔

”اہلِ ایمان کو قتال کی ترغیب و تحریص کیجئے“۔

قتال پر آمادہ کیجئے۔ حضور! جہاد تو جدوجہد سے ہے۔ اس میں گنجائش ہیں کہ بغیر تلوار کے ہو لیکن قتال جس چیز کا نام ہے، اس کے تو معنی ہی جان لیوا مقابلہ کے ہیں۔ جس میں قتل میں مقابلہ ہو تو کون کسے زیادہ قتل کرتا ہے؟ تو قتال میں گنجائش نہیں ہے کہ اسے کسی اور قسم کے مقابلہ پر محمول کیا جائے۔ تو اب کہاجارہا ہے کہ مومنین کو قتال کی دعوت دیجئے یعنی خونریز جنگ کی ، خونریز مققابلہ کی۔ اور اس کی تفصیل کیا ہے؟ کہ مومنین کو بتائیے کہ :

( اَنْ یَکُوْنُوْا مِنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرْوْنَ یَغْلِبُوْامِئَتَیْنِ ) ۔

”اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تو انہیں دوسو پر غالب آنا چاہئے“۔

( وَاِنْ یَکُوْنُوْا مِنْکُمْ مِئَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبْوْااَلفًا بِاِذْنِ اللّٰه ) ۔

”اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہوں تو ایک ہزار پر غالب آنا چاہئے“۔

اور تتمہ وہی کہ:

( وَاللّٰهُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) ۔”اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔

معلوم ہوا کہ یہ جو ہر صبرہے کہ دس گنا مقابلے کی طاقت دے رہا ہے۔

قرآن مجید میں اس کے بعد بلافاصلہ دوسری آیت ہے ۔ مگر مضمونِ آیت سے ظاہر ہوگا کہ یہ بلافاصلہ اُتری نہیں ہے۔ اسی سے ثابت ہوجائے گا کہ ترتیب مطابق تنزیل نہیں ہے۔ جہاں ذرا جوڑ ملتا ہوا دیکھا، خواہ واقعی جوڑہویا اپنے حسب مصلحت ہو، وہاں پر آیت رکھ دی۔ اس سے بحث نہیں کہ جب نازل ہوئی تھی تو بیچ میں کتنی مدت گزری تھی، کتنا فاصلہ تھا اور کیا اس درمیان کی مدت میں اگر کئی سال کی ہے تو کوئی اور آیت اُتری ہی نہیں۔ اب مضمونِ آیت دیکھئے کہ یہ مطالبہ ہوا اور اس کے بعد یہ آیت ہے کہ اب یہ ثابت ہوگیا:

( اَ لْاَنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْکُمْ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضُعْفًا ) ۔

”اب اللہ تم سے تخفیف کئے دیتا ہے“۔

یہ دورِ رسول کے مسلمانوں سے خطاب ہے اور ان مسلمانوں کا جو معزز لقب ہے، وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ ان سے خطاب ہورہا ہے کہ”الان“۔ تو یہ اب ہے ۔ کیا آیت کے فوراً بعد ابھی حکم دیا اور پتہ چل گیا کہ تم اس پر پورے نہیں اُترے۔ ماننا پڑے گا کہ وہ آیت اُتری، اس کے بعد کوئی معرکہ ہوا جس میں مسلمان پورے نہیں اُترے، اس معیار پر، تب یہ آیت اُتری:

( اَ لْاَنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْکُمْ ) ۔

”اب اللہ تم سے تخفیف کرتا ہے“۔ یعنی ہلکا کرتا ہے اور:

( عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضُعْفًا ) ۔”پتہ چل گ یا کہ تم میں کمزوری ہے“۔

اب یہ کمزوری کونسی ہے؟ مادّی حیثیت سے کمزوری تو یہ اسی سے ظاہر تھی کہ یہ دس ہیں اور وہ سو ہیں۔ یہ بیس ہیں ، وہ دو سو۔ یہ سو ہیں تو وہ ایک ہزار ہیں۔اب یہ کمزوری جو ہے، وہ ایمان کی کمزوری ہے۔ آپ ہر دَور میں سب کو معراج پر ہی پہنچا دیجئے۔ یہ آپ ذمہ دار ہیں۔مگر قرآن بتا رہا ہے کہ اس وقت وہ مطالبہ کیوں ہوا؟معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اپنے استحکامِ ایمان کا زعم بہت تھا۔ تو وہ آیت اُتری تاکہ خود اپنے کردار کے آئینے میں دیکھ لیں کہ کتنے پانی میں ہیں۔ پھر دوسری آیت اُتری کہ:

( فَاِنْ یَکُوْنُوْا مِنْکُمْ مِئَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوْامِئَتَیْنِ ) ۔

”تم میں سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو دو ہزار پر غالب آئیں“۔

دوگنا مقابلہ تو ضرور ہونا چاہئے ۔ پھر ایک آیت کے تتمہ میں یہ ہے:

( ذَالِکَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا یَفْقَهُوْن ) ۔

”اس لئے کہ وہ جماعت ایسی ہے کہ کثرت میں زیادہ سہی مگر عقلِ ایمانی نہیں رکھتی“۔

یعنی تمہاری قلت تعداد کے توازن کو تمہاری بصیرتِ ایمانی کے ساتھ پورا ہونا چاہئے۔

اب جو یہ پہلے مطالبہ ہوا کہ تم دس گنا پر غالب آؤ، دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ دوگنے پر غالب آکر دکھاؤ، اس لئے کہ وہ اس بصیرتِ ایمانی سے محروم ہیں۔معنی یہ ہیں کہ آخر کچھ تو مسلم اور غیر مسلم کا فرق ہو۔ اگر برابر کا مقابلہ ہوا تو تمہارا امتیاز کیا ثابت ہوگا؟ کم از کم دوگنے مقابلے سے تو نہ گھبراؤ۔

میدانِ جنگ میں صبر کا مطالبہ ہورہا ہے۔اب میں ان جدیداور قدیم دونوں نظریات کو اس کسوٹی پر پرکھتا ہوں۔ جدید کیلئے تو یہ عرض کرچکا کہ کیا یہ معنی ہیں کہ چپکے سے سب حربے سہہ لو تو پھر غالب آجاؤ گے؟ حضور! قرآن سمجھنے کیلئے عقل کو خیر باد کہنے کی تو ضرورت نہیں ہے۔قرآن تو عقل والوں کیلئے ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ غور کرو۔ تو اب یہ میدانِ جنگ میں جو غلبہ حاصل کریں گے تو کیا سب حربوں کو چپکے سے برداشت کرکے کریں گے؟ وہ تصور کیسے صحیح رہا کہ صبر بزدلی کی تعلیم دیتا ہے؟ صبر تو اتنی بڑی بہادری کی تلقین ہے کہ دس ہزار پر غالب آنے کی ہمت رکھو۔

وہ دوسرے مکتب خیال کے علمائے کرام جو تعریفیں کررہے تھے اور جسے عوام نے حفظ کرلیاکہ صبر یہ ہے کہ روؤ نہیں۔ بس ادھر آنسو نکلا اور انہوں نے کہا کہ صبر کا دامن چھوٹا۔ میں کہتا ہوں کہ کیا یہاں میدانِ جنگ میں صبر کے معنی یہ ہیں کہ روؤ نہیں؟ چاہے میان سے ہنستے ہوئے چلے جاؤ۔ نہ وہ معنی یہاں بنتے ہیں، نہ یہ معنی یہاں بنتے ہیں۔ اس کے بعد اسی صبر کا مطالبہ ہوتا ہے ، ان مصائب میں جو بقضائے الٰہی ہوتے ہیں کہ کسی کا عزیز جدا ہوگیا۔ بیٹے نے باپ کو داغِ جدائی دے دیا۔ باپ کا سایہ بیٹے کے سر سے اُٹھ گیا۔ بھائی ، بھائی سے جداہوگیا۔ وہاں ہر ایک ہی کہتا ہے کہ صبر کرو۔ وہ بھی اپنی طرف سے نہیں کہتا، قرآن مجید نے وہاں بھی یہی کہا ہے:

( وَبَشِّرِالصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَااَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْااِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّااِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ) ۔

”ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دو کہ جب ان پر کوئی مصیبت آئے تو ان کا قول یہ ہو کہ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں جانا ہے“۔

میں عرض کرتا ہوں کہ اس آیت کے زیر سایہ یہ بھی اسلامی تہذیب ہوگئی کہ جب مصیبت پڑے، یہ الفاظ زبان پر بھی جاری کردو۔ اسی آیت کی تلاوت کردو۔ یہ درحقیقت اس کی اصل تعمیل نہیں ہے۔ یہ رمز ہے اس جذبہ کا ورنہ اصل، اسی لئے میں نے یہ ترجمہ نہیں کیا کہ جب مصیبت آئے تو یہ کہیں۔ میں نے ترجمہ یہ کیا ہے کہ جب مصیبت آئے تو ان کا قول یہ ہو۔قول کے معنی ہیں نقطہ نظر۔ یہ لفظی قول نہیں ہے۔ یہ تصور ہے، خیال ہے، عقیدہ ہے، یقین ہے کہ ہم اللہ کے ہیں۔ یعنی بھائی اُٹھ جائے تو ذہن میں اس کے یہ ہو کہ ہم اللہ کے ہیں۔ بیٹا چلا گیا تو سمجھے کہ ہم اللہ کے ہیں۔ یہاں ”ہم“ کے معنی یہ ہیں کہ میں بھی اسی کا ہوں ، جو گیا وہ بھی اُسی کا تھا۔ میں بھی اسی کی مِلک ہوں، وہ بھی اس کی مِلک ہے۔یہ تصور ذہن میں ہو، یہ عقیدہ ذہن میں ہو ، تب اللہ سے شکوہ نہیں ہوگا۔ تب تقدیر الٰہی پر اعتراض نہیں ہوگا۔ اور اصل معیارِ صبر یہاں یہی ہے ان مصائب میں ۔

جو وہ حضرات کہتے ہیں کہ چپکے سہہ لینا ، تو بتائیے کہ ان مصائب میں چپکے سے سہے گا؟ نہیں، تو اور کیا کرے گا؟یا جنگ کیجئے گا۔ کتنے ہی بڑے باغی ہوں، اس کے سامنے تو سرجھکانا ہی پڑتا ہے۔ عزیز داغِ جدائی دے رہا ہے، تو کیا یہ جائیں گے اس سے جنگ کرنے؟ سر نہ جھکائیں گے تو کیا کریں گے!سلطنت الٰہی کے کتنے ہی بڑے باغی کیوں نہ ہوں ، لیکن بہرحال اس کے مقابلہ میں بغاوتوں کا نشہ ہرن ہوجائے گا۔بغاوت پر آج ایک طبقہ کو بہت ناز ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میں تو اُس وقت مانوں گا کہ آپ بہت بڑے باغی ہیں کہ جب وہ آپ کو بھیجے تو آپ آئیں نہیں اور جب وہ بلائے تو جائیں نہیں۔

حالانکہ کتنے ہی ترقی یافتہ ذہن کے باغی ہوں لیکن جب اس نے بھیجا ، تب آئے تھے۔ خیر کہہ لیں کہ اُس وقت تک شعورِ بغاوت نہیں ہوا تھا لیکن اب تو ماشاء اللہ پروبال نکل آئے ہیں۔ پَر پرواز پیدا ہوگئے ہیں۔ اب جب وہ بلائے تو جائیے نہیں۔ مگر جب اُس نے بھیجا، تب آئے اور جب وہ بلائے گا، تب چلے جائیں گے۔ جب آئے تھے تو کم از کم روئے تو تھے ، جب جائیں گے، تب تو سانس بھی نہیں لیں گے، چپکے سے چلے جائیں گے۔یہ ہے اس انسانِ ضعیف البنیان کا دعوائے بغاوت۔

تو یہاں اگر سہے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟ تو وہ تصور یہاں پر بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ چپکے سے سہہ لو اور مقابلہ نہ کرو۔ یہاں مقابلے کا سوال کیا؟ پھر علماء سے پوچھئے کہ مفسرین نے صبر کیلئے کہا ہے کہ یہ اتنا جامع لفظ ہے ، جتنے احکامِ شریعہ ہیں، وہ سب صبر میں داخل ہیں۔پوری شریعت صبر میں داخل ہے۔ اس لئے کہ صبر کی دو اقسام ہیں: ایک صبر علی المتروک اور ایک صبر علی المحبوب۔ ناگوارِ طبع بات پر صبر اور گوارائے طبع یعنی محبوبِ نفس چیز سے صبر۔اس کے وجود پر صبر، اُس کی جدائی پر صبر۔ واجبات کی جتنی پابندی ہے۔ وہ سب صبر علی المکروہ میں داخل ہے، کیوں؟ اسلئے کہ خود پابندی نفس انسانی پر شاق ہے۔ نفس انسانی پر بار ہے۔ اسی لئے احکامِ شریعہ کو تکلیف کہتے ہیں کہ وہ اوامر و نواہی کی پانبدی باعث تکلیف طبع ہے،خود نفس انسانی پر۔

عام نفس کا ذکر ہے، اُن ہستیوں کاذکر نہیں ہے جو بے نفس ہوگئیں اور اپنی رضا کو رضائے الٰہی کا پابند بنالیا۔ ان کی تو نہ خوشی کچھ رہی اور نہ ناخوشی کچھ رہی۔ لیکن عام افرادِ انسانی کیلئے یہ پابندی خود ناگواری کا باعث ہے۔ کچھ افراد تفریح کے عادی ہوں، فرض کیجئے آپ ایک سڑک پر تفریح کیلئے جایا کرتے تھے اور واقعی ہوا خوری سے تفریح ہوا کرتی تھی۔لیکن جس دن سے وہاں کوئی کام ہوجائے گا، اُس کی وجہ سے اب جانا ضروری ہوگیا تو اُسی دن سے تفریح ختم ہوجائے گی اور وہ جانا بارِ خاطر ہوجائے گا۔ یہ انسان کا نفسیاتی تقاضا ہے کہ پابندی بارہے۔ تو اب اگر انسان نے واجبات کی پابندی کی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمِ الٰہی کی وجہ سے ایک ناگوارِ طبع چیز یعنی پابندی کو برداشت کیا۔ پھر یہ کہ بعض اوقات پانبدی واقعی باعث تکلیف ہوتی ہے۔حضور! گرمی میں دوپہر کا وضو تو ٹھیک ہے انسان کیلئے، باعث آرام ہے، جو گرمی لگ رہی تھی، اس میں وضو کرنے سے ذرا سکون ہوجائے گا۔ لیکن سردی میں اور نمازِ صبح کا وضو ، وہ کون ہے جس کیلئے باعث تکلیف نہ ہو۔

اب اگر حکمِ الٰہی کے دباؤ سے کسی نے اس کو برداشت کیا تو بلاشبہ یہ امر صبر میں داخل ہے۔ صلیبی لڑائیاں جو ہورہی تھیں، ان میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک فوج کے سالار نے شام میں ایک عیسائی فوجی کیمپ قائم کیا تھا اور وہ خیمے کے در پر کھڑا دیکھ رہاتھا کہ ایک عرب آیا۔ سامنے نہر بہہ رہی تھی اور نہر کے اوپر برف جمی ہوئی تھی۔ وہ عرب آیا اور اس نے اس برف کو اپنے ہاتھ سے توڑا اور نیچے سے جو پانی برآمد ہوا،

اس نے اُس سے وضو کیااور سبزے پر کھڑے ہوکر نمازِ صبح ادا کی۔تو اس عیسائی فوجی نے اپنی فوج والوں سے کہا کہ دیکھو! جس قوم میں ایسی بات ہو،اُسے دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کرسکتی۔

جو جملے اُس نے کہے ہیں، وہ بڑے دُوررس ہیں کہ میں تمہارا سالار تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہوں ۔ میں اس وقت تم میں سے کسی سے کہوں کہ وہاں چلے جاؤ، تم سردی کا عذر کروگے اور ان کا سردار جس نے حکم دیا تھی، وہ کئی صدیاں ہوئیں، اس دنیا سے چلا گیا اور یہ اُس کے حکم کی تعمیل اس وقت کررہے ہیں۔ تو بتاؤ ان سے بڑھ کر قوتِ عمل کس میں ہوگی؟ آجکل کے مسلمان نوجوان دیکھیں، جو یہ کہتے ہیں کہ نماز، روزہ سے کیا ہوتا ہے! دیکھئے جو حقیقت رس ہیں، وہ اس نماز میں کیا طاقت محسوس کرتے ہیں۔اس کے دو جملوں پر آپ کو اور توجہ دلاؤں گا کہ میں تمہارا سالار ، تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوں اور میں تمہیں حکم دے رہا ہوں ، تم مشکل سے تعمیل کرو گے اور ان کا سالار سامنے نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایمان بالغیب کی طاقت کا اندازہ لگایا۔ یہ تو میں نے وضو کی مثال پیش کی۔اس کے بعد روزہ ، وہ جاڑوں کا روزہ تو خیر، وہاں گرمی کا وضو خیر تھا، یہاں جاڑے کا روزہ خیر۔ مگر گرمی کا ، مئی او رجون کا روزہ جس میں دن کی طوالت بھی زیادہ ہوجاتی ہے اور پھر گرمی کی تپش۔ حکمِ الٰہی کی تعمیل میں آدمی روزہ رکھتا ہے۔ روزے رکھنے والے جو واقعی ہیں، وہ کیا گرمی اور جاڑے میں کوئی فرق کرتے ہیں؟ جس طرح جاڑے میں رکھتے ہیں، اُسی طرح گرمی میں بھی رکھتے ہیں۔ بے شک اس میں مشقت ہے، اس میں بڑی ناگواری ہے۔ اصل ذوقِ شاعری کے کچھ مذہب ہوتے ہیں کہ شاعر چاہے کسی مذہب کا ہو، مگر جب شعر کہے گا تو اسی مذہب کے کہے گا۔

مثال کے طور پر خود شراب سے کتنا ہی پرہیز کرتا ہو، مگر شاعر ہوکر اسے شراب کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ بغیر اس کے شعر نہیں ہوگا۔”بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کے بغیر“۔ ہمیں معلوم ہے کہ زندگی میں کبھی شراب کی طرف رُخ نہیں کیا لیکن شراب کی تعریف کرنے میں انہیں کیسا مزہ آتا ہے!اسی طرح خود واقعی کتنے ہی زاہد و متقی ہوں لیکن شعر میں آکر زاہدوں پر چوٹ ضرور کریں گے۔ پرہیزگاروں پر چوٹ ضرور کریں گے۔چاہے مطلب کچھ بھی ہو لیکن اب مسلک شاعری ہے، وضع شاعرانہ ہے۔ اشعار سے کسی کے مذہب کا پتہ نہیں چل سکتا۔

یہاں ایک لطیفہ یا دآگیا کہ زمانہ خلفائے عباسیہ میں ایک شخص نے شعر میں ا پنے جنسی تعلقات کا ذکر کیا۔ اُسے پکڑ کر دربارِ خلافت میں پیش کردیا گیا کہ اس نے خود اقرار کیا ہے اس جرم کا جس کی سزا سنگسار ہونا ہے۔اُس سے پوچھا: بتاؤ یہ الزام تم پر ہے۔ اُس نے کہا کہ میں اپنی صفائی میں بس قرآن کو پیش کرسکتا ہوں۔ سب حیران ہوئے کہ قرآن میں اس کی صفائی کہاں سے آئے گی؟ اُس نے کہا کہ قرآن کی یہ آیت یاد کرلیجئے کہ شعراء کی تعریف میں یہ کہا ہے کہ:

( یَقُوْلُوْنَ مَالَایَفْعَلُوْنَ ) ۔

”وہ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں ہیں“۔

اس کی صفائی بہت کارگر ہوئی اور وہ چھوٹ گیا۔ قرآن نے اُسے چھڑوا دیا۔اسی طرح ایک شاعر نے طنز کیا ہے ان پر جو شراب سے پرہیز کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ارے تم نے پی ہی نہیں؟ یعنی تو جو اتنا پرہیزگار بناہوا ہے تو ذائقہ ہی سے واقف نہیں ہے؟ تجھے کیا معلوم کہ اس میں کیا کیف ہوتا ہے؟ تو نے تو پی ہی نہیں۔

چبھتا ہوا جملہ ہے۔میں شکر کرتا ہوں کہ مجمع میں سے زیادہ تر ایسے ہیں کہ واقعی کبھی ان کا دل نہیں چاہا ہوگا ۔ ایسے ماحول کو اللہ کی نعمت سمجھنا چاہئے کہ کتنا ہی ان لوگوں کے ساتھ رہے، تعریف سنی لیکن پینے کے خیال نہیں آیا کہ ہم بھی ذرا اس ذائقہ سے روشناس ہوں۔ لیکن اب میں اس شاعر کو بلاؤں گا ماہِ رمضان میں کہ اب جو پابندی کررہے ہیں، اب ان سے کہو کہ تم نے پانی پیا ہی نہیں، تم نے کھانا کھایا ہی نہیں، روزے کا یہی سب سے سب سے بڑا امتحان ہے کہ جن چیزوں کے ذوق کا خوگر ہے انسان، انہی سے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں بچنا ہے۔ا س لئے قرآن مجید میں اسی روزہ کیلئے صبر کا لفظ ہے۔ اکثر علماء ومفسرین کے ارشاد کے مطابق:

( وَاسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلوٰةِ ) ۔”مدد حاصل کرو نماز اور صبر کے ذریعہ سے“۔

تو بظاہر صبر اور نمزا دو غیر متعلق چیزیں ہیں۔ بعض علماء کے مطابق صبر سے مراد صوم ہے۔ روزہ کا نام بھی صبر ہے۔ پھرگرمی کا روزہ جو ہے، امیرالمومنین علیہ السلام کے ایک ارشاد سے اس کا اندازہ ہوتا ہے :

اَلصَّوْمُ فِی الْحَرِّ جِهَادٌ “۔

ایک اور جگہ:

اَلصَّوْمُ فِی السَّیْفِ جِهَادٌ فِی الشِّتَاءِ غَنِیْمَةٌ بَارِدَةٌ “۔

فرماتے ہیں”گرمی کا روزہ وہ جہاد ہے کہ علی جیسا مجاہد اس کو جہاد تسلیم کررہا ہے کہ گرمی کا روزہ جہا دہے اور جاڑے کا روزہ؟ وہ تو غنیمت باردہ ہے“۔

وہ برودت بھی ہے کہ موسم ہی برودت کا ہے اور اس کے ساتھ بغیر لڑے بھڑے کا مالِ غنیمت ہے یعنی زحمت کوئی نہیں۔دن چھوٹا ہے، دھوپ بھی زیادہ نہیں ہے۔ سحر سے افطار تک اتنا فاصلہ ہے جتنا گرمی میں دو کھانوں کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے یا ذرا زیادہ ہے۔ بغیر لڑے بھڑے کا مالِ غنیمت ہے کہ فریضہ ادا ہوگیا، چاہے زحمت کتنی ہی کم ہو۔ جو روزہ نہیں رکھتے، وہ جاڑے میں بھی نہیں رکھتے۔ یہ ہے صبر علی المکروہ۔ اور محرمات سے پرہیز جو ہے، ناجائز کاموں سے ، وہ صبر علی المحبوب میں داخل ہے یعنی پسند طبع چیز کی جدائی پر صبر۔ جیسے وہاں پابندی ناگوارِ طبع، ویسے ہی یہاں جس چیز سے منع کیا جائے، اس چیز کو جی چاہنے لگتا ہے:

اَ لْاِنْسَانُ حَرِیْصٌ عَلَی ماَ مُنِعَ “۔

کسی چیز کو کبھی دل نہ چاہتا ہو مگر جس دن سے ڈاکٹر صاحب پرہیز بتادیں گے، اس دن سے اسی چیز کو دل چاہنے لگے گا۔یہ انسان کی فطرت ہے۔ اگر انسان نے اس کی پابندی کی تو یہ بے شک صبر ہے ۔ تو پوری شریعت بے شک صبر میں داخل ہے۔ وہ تعریف اس پر منطبق کیجئے کہ چپکے سے ہر حربہ کو سہہ لو۔ یہ تعبیر منطبق کیجئے کہ روؤ نہیں۔

معلوم ہوا کہ دنیا صبر صبر چلّا رہی ہے اور صبر کے معنی معلوم ہی نہیں ہیں۔میں نے کئی مواقع پیش کئے کہ میدانِ جنگ میں بھی صبر ہے اور قضائے الٰہی میں جو مصائب ہیں، ان میں بھی صبر ہے اور احکامِ شریعہ کی پابندی بھی صبر ہے۔ اب علمی حیثیت سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ صبر کا لفظ مشترک ہے۔ ایک معنی اس کے وہ ہیں ، ایک معنی یہ ہیں۔ اس کو ہر جگہ الگ معنی سے کہا جاتا ہے۔جہاں تک غو رکیا جاتا ہے،ایسانہیں ہے۔میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں ،صبر کا وہ مفہوم یہ ہے کہ کوئی سخت سے سخت ناگواری اور شدت تمہیں فرض کے جادے سے نہ ہٹائے۔اب فرض کیا ہے؟ اسے الگ سے سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ جہاں جو فرض ہو، اس پر عمل کرے، مثلاً قضائے الٰہی سے جو مصائب ہوں، وہاں فریضہ یہ ہے کہ قضائے الٰہی پر اعتراض نہ ہو، تقدیر الٰہی سے اظہارِ ناراضگی نہ ہو۔ ضرورت یہ سمجھنے کی ہے کہ جو ہوا ہے، اس پر رونے کا حق ہے۔

بھائی اگر چھوٹ گیاتو بھائی پر رونے کا حق ہے۔ باپ کا سایہ اُٹھ گیا تو سعادت مند بیٹے کو رونے کا حق ہے۔ بیٹا داغِ جدائی دے گیا تو جو فطرت کا تقاضا ہے، یعنی باپ کو رونے کا حق ہے۔ مگر جب رو رہا ہے ، اس وقت بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ جو ہوا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔ بس یہ ایمان کا مطالبہ ہے ، مجملاً یہ سمجھنا چاہئے ، یہ اصول سامنے رکھ کر کہ جس کے ہاتھ میں تقدیر کا قلم ہے، وہ میرا دشمن نہیں ہے اور جاہل نہیں ہے۔چونکہ دشمن نہیں ہے، اس لئے جان کر برائی نہیں کرے گا اور چونکہ جاہل نہیں ہے، اس لئے بے جانے برائی نہیں کرے گا۔

دو ہی اقسام ہیں برائی کرنے والوں کی۔ یہ اگر پیش نظر رہے تو ”رِضًابِقَضَائِه تَسْلِیْمًا لِاَمْرِه “کی حقیقت یہی ہے اور رونے کا حق ہے۔ وہ حضرات جو کہہ رہے ہیں کہ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ روئیں نہیں، یہ غلط فہمی زمانہ رسول میں بھی موجود تھی اور رسول نے اس کو رَد کردیا۔ مگر نہ جانے کیا ہوا کہ چودہ سو برس کی مسافت طے کرکے وہ تصور آیا ہے جسے رسول نے غلط کہا ہے۔ وہ تصور نہ آیا جس کی رسول اصلاح کی تھی۔ جس وقت ابراہیم فرزند رسول کا وقت احتضا ر تھا،ان کا سر پیغمبر رسول کے زانو پر تھا اور حضرت کی چشم ہائے مبارک سے آنسو رواں تھے جو ان کے رخساروں پر ٹپک رہے تھے۔ تو مذکورہ تصور کے مورثانِ اعلیٰ وہاں تھے۔ رسول کے پاس بیٹھ کر اس حالت میں ان کی انسانیت متقاضی ہوئی کہ پیغمبر کے عمل پر تعجب خیز اور اعتراض کے ساتھ سوال کریں۔

میں کہتا ہوں کہ اس عالم میں ایسے اعتراض کی انسانیت متقاضی ہوہی نہیں سکتی۔ مگر مجسم خلق عظیم کے پاس رہنے والے وہ افراد ایسا غیر انسانی عمل کررہے ہیں کہ عین اس وقت جب ابراہیم حالت احتضار میں ہیں، (آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو) کہنے لگے:

اَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ وَتَبْکِیْ “۔یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟“

کیا مطلب ہوا؟ یعنی گویا رونا آپ کی شان کے خلاف ہوا۔ صحابہ کا فرض یہ تھا کہ ہر وقت رسول کو شان یاد دلاتے رہیں، ان کو خدا نے ان کی شان کے سنبھالنے کیلئے رکھا تھا۔ تو یا رسول اللہ ! آپ گریہ فرماتے ہیں؟ تو پیغمبر خدا نے جو اس کا جواب دیا، اس کا ابھی عقلی تجزیہ کروں گا ، آپ نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ الْقَلْبَ لِیَحْزُنَ وَاِنَّ الْعَیْنَ لِتَدْمَعَ وَ لکِنْ لَا نَقُوْلُ اِلَّامَایَرْضٰی “۔

”دیکھو! دل تو رنجیدہ ہوتا ہے اور آنکھ اشکبا رہوتی ہی ہے لیکن ہماری زبان سے ایسا کوئی کلمہ نہیں نکل سکتا جو رضائے رب کے خلاف ہو“۔

تو اب یہ تصور ہوا ۔ اب عجیب بات ہے کہ ہماری وراثت میں غلط تصور آئے اور صحیح تصور نہ آئے۔ اس کا کیا مقصد ہے کہ دل تو رنجیدہ ہوتا ہی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ صبر کا وہ تصور کہ احساسِ غم ہی نہ ہو، آجکل ڈاکٹروں نے ایسی دوائیں ایجاد کردی ہیں کہ بیہوشی سنگھانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ وہ حصہ بے حس ہوجائے ، کتنا ہی نشتر بھونکا جائے، کتنی ہی سوئی چبھوئی جائے، اس میں کچھ اثر ہی نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ عمل کرلیا ہے کہ مریض نے آپریشن کے درمیان اُف نہیں کی۔ کچھ بھی نہیں کہا۔ تو جناب! یہ اُف نہ کرنا کوئی کارنامہ ہے؟ ارے جب جسم کا وہ حصہ بے حس ہوگیا ہے،تو اب جتنا چیرا پھاڑا گیا، تو وہ کچھ نہیں بولا۔ تو یہ کونسی قابلِ تعریف صفت ہے۔

جنابِ والا! اگر دل اور دماغ ایسے ہی ماؤف ہوگئے ہیں کہ خوشی اور غم کا احساس ہی نہیں ہوتا تو یہ صبر کا کارنامہ کب ہوا؟ اس کے بعد یہ تصور کہ آنکھ سے آنسو نہ نکلیں۔ احساسِ غم ہو یا نہ ہو، آنکھ سے آنسو نہ نکلیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ دل اور آنکھ میں تعلق کس نے رکھا ہے کہ دل کو رنج ہوتا ہے تو ہاتھ تو نہیں پسیجتا۔پیر میں تو کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ یہ آنکھ ہی سے آنسو کیوں نکلتے ہیں؟معلوم ہوتا ہے کہ جو دل اورآنکھ کا خالق ہے، اس نے کوئی درمیان میں رابطہ رکھا ہے کہ جب دل پر اثرہوگا، تو آنکھ سے آنسو نکلیں گے۔اب اگر دل اور آنکھ دونوں مزاجِ معتدل پر رہیں تو یہ اثر ضرور نمودار ہوگا۔ وہ کیفیت ہے ، کوئی عمل نہیں ہے جس پر کوئی فتویٰ دیا جاسکے۔ اس سے کوئی شدید سے شدید حالت ہٹانہ سکے ، یہ ہے معیارِ صبر۔

اُن مصائب میں جو بقضائے الٰہی ہوتے ہیں، اپنے بس کی بات جو ہے، وہ یہ ہے کہ ایمان کے تقاضے کے خلاف کوئی عمل نہ ہو۔ خیال بھی ذہن میں نہ آئے۔ یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ میدانِ جنگ میں ثباتِ قدم۔اصل اختیاری کام یہی ہے۔ نہ غازی ہونا اپنے بس کی بات، نہ شہید ہونا اپنے اختیار کی بات۔ اپنے اختیار میں ثابت قدم رہنا ہے۔ بس وہاں جس صبر کا مطالبہ ہے، وہ ثابت قدمی ہے۔ احکامِ شریعہ میں جو صبر ہے، وہ اس کی پابندی ہے۔ چاہے کتنی ناگواری ہو، جو صبر کا تقاضا ہے، وہ انجام دو۔

دیکھئے! ایک ہی معنی ہیں جو سب جگہ بنتے ہیں یا نہیں؟ ضرورت اس کی نہیں ہے کہ الگ الگ معنی قرار دیں۔ جہاں صلح کرکے بیٹھ جانا فرض کا تقاضا ہو، وہاں کھڑا ہوجانا بے صبری ہوگا۔ جہاں کھڑا ہوجانا فرض کا تقاضا ہو، وہاں لوگ لاکھ مشورے اس کے خلاف دیں، فلاں صاحب نے مشورہ دیا، فلاں صاحب نے مشورہ دیا، اتنے خیر خواہ تھے اور فلاں صاحب نے مشورہ دیا اور انہوں نے اس پر عمل نہ کیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس پر عمل نہ کیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ (معاذاللہ) بڑے ضدی تھے۔بہت ضد تھی مزاج میں ۔ میں کہتاہوں یہ نقطہ نظر کے ساتھ الفاظ بدلتے ہیں۔ جسے آپ ضد کہتے ہیں، وہی ثباتِ قدم ہے۔ جس کے مطلب کے ساتھ وہ ثباتِ قدم ہوتا ہے، وہ اسے ضد قرار دیتا ہے۔ اب چونکہ آپ اسی ثباتِ قدم کو ضد کہہ رہے ہیں تو میں اس لفظ کو اپنا لوں گا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا نام ضد ہے تو کون نبی ہے جو ضدی نہ تھا؟ کون رسول ہے جو ضدی نہ تھا۔ چونکہ راہِ حق میں ثباتِ قدم کبھی پھولوں کی سیج نہیں ہے، ہر نبی کو مصائب برداشت کرنا پڑے ہیں۔ ہر پیغمبر کو مشکلات برداشت کرنا پڑ ی ہیں۔ مشکلات سے گھبرا کر اور مصائب سے دل برداشتہ ہوکراگر ہٹ جایا جائے تو پھر حق ہم تک کیونکر پہنچتا؟

اب اس لفظ کو استعمال کرکے کہتا ہوں کہ یہ امانت حق جو ہمارے ہاتھوں تک پہنچی ہے،یہ ان کی ضدوں کا صدقہ ہے۔ پیغمبر خدا نے کیا مشکلات برداشت نہیں کیں؟ تیرہ برس تک جسم مبارک پر پتھر کھائے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ مخالف جماعت کا طرزِ عمل ہے کہ وہ کافر تھے مگر ان کے ہاتھوں میں پتھر تھے، تیر نہیں تھے۔کسی وقت مسلمان ہوں اور ان کے ہاتھوں میں تیر ہوں تو صابر کا کردار ایک ہی ہے۔ رسول کے مقابلہ میں پتھر تھے، وہ اُسے برداشت کررہے تھے۔ ان کے مقابلے میں تیر تھے، یہ اُسے برداشت کررہے تھے۔ صابر کے کردار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آدم سے لے کر خاتم تک سب کا معیار یہی ہے اور یہی وہ میراث ہے جس کے لحاظ سے معصوم نے فرمایا:

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَاوَارِثَ آدَمَ صِفْوَةِ اللّٰهِ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَاوَارِثَ نُوْحَ نَجِیِّ اللّٰه اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ اِبْرَاهِیْمَ خَلِیْلِ اللّٰه “۔

سب کے وارث کہے جارہے ہیں۔ یہ کیا وراثت نسبی ہے، خاندانی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر وراثت نسبی ہوتی تو اس فہرست میں موسیٰ کا نام نہ آیا، عیسیٰ کا نام نہ آتا کوینکہ وہ ان کے شجرہ میں نہیں ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ یہ وراثت نسبی نہیں ہے، یہ وراثت منصبی ہے۔ حفاظت حق کا بار جو آدم کے کاندھوں پر تھا، وہ دوش بدوش منتقل ہوتا ہوا آپ کے کندھے تک آیا اور آپ کو وہ کردار اختیار کرنا ہے۔رسول سے کہا گیا:

( فَاصْبِرْکَمَاصَبَرَاُولُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ) ۔

”پیغمبر! اسی طرح صبر کیجئے جس طرح آپ سے پہلے صاحبانِ عزم پیغمبروں نے صبر کیا“۔

تو یہ صبر کا کردا رجسے دنیا ضد کہہ رہی ہے، یہ تمام انبیاء و مرسلین کی وراثت ہے۔ اب میں الفاظ بدلتا ہوں ، اقبال کی زبان میں کہ انہوں نے کہا:

موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید

ایں دو قوت از حیات آمدپدید

حقیقت میں ضرورتِ شاعری کے ماتحت اس میں دو نام آسکے، اُدھر اور اِدھر کے۔ دورِ قدیم سے موسیٰ آسکے اور پھر دورِ جدید میں شبیر آسکے۔اُدھر دورِ قدیم میں فرعون آسکا اور اِدھر دورِ جدید میں یزید(ملعون) آسکا۔وہاں انہوں نے دو دو نام لئے مگر بعد میں کیا کہا؟

زندہ حق از قوتِ شبیری است

باطل آخر داغِ حسرتِ میری است

یہاں موسیٰ کا نام نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقیقت، جس کے موسیٰ حامل تھے، وہ بھی شبیریت تھی اور وہ حقیقت جس کا فرعون حامی تھا، وہ بھی یزیدیت تھی۔ یعنی یہ نام شخصی نہیں ہیں بلکہ یہ نام گویا صفت کے ہیں کہ ان صفات کا آدمی جس درجہ کا ہو، وہ شبیر ہوتا ہے اور اس صفت کا آدمی جس درجہ کا ہو، وہ یزید ہوتا ہے۔


7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40