معراج خطابت

معراج خطابت7%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68110 / ڈاؤنلوڈ: 6752
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴


1

2

3

4

یقین کی آخری منزل

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( یَااَیَّتُهَاالنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة اِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّة فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ فَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ) ۔

سورئہ فجر کی آخری آیت ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اے اطمینان سے بھرے ہوئے نفس! پلٹ آ اپنے پروردگار کی طرف، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ تو داخل ہوجا میرے بندگانِ خاص میں اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔

اطمینان کے مقابل چیز ہے اضطراب۔ ہم چونکہ ، جو ہر اطمینان سے ناشناس ہیں، اس لئے اطمینان کے تقاضوں کو ہم اتنا واضح طور پر بیان نہیں کرسکتے۔ لیکن چونکہ اضطراب ہم کو درپیش ہواکرتے ہیں، اس لئے اضطراب کے تقاضوں کو ہم زیادہ واضح طور پر بیان کرسکتے ہیں اور چونکہ اطمینان اس کے مقابل چیز ہے، لہٰذا اضطراب کے تقاضوں کے تصور سے ہم اس کے مقابل کے اطمینان کے تقاضوں کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پر سکون حالات ہوں تو اضطراب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آرام ہے، آسائش ہے، کوئی خطرہ نہیں ہے، مصیبت درپیش نہیں ہے۔ کوئی اندیشہ فردا نہیں ہے۔ تو یہاں امتیاز ہی نہیں ہوسکتا کہ کون مضطرب ہے اور کون مطمئن۔اس لئے کہ سبب اضطراب کوئی نہیں ہے۔ تو سب ہی مطمئن ہیں۔ جس طرح سے کہ صبر اور عدم صبر۔ صابر اور غیر صابر کا امتیاز ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ مصیبت نہ آئے۔ جب مصیبت آئے ہی نہیں تو ہر ایک کو صبر کا دعویٰ کرنے کا حق ہے۔ ہر ایک کہے کہ میں بھی میدانِ صبر میں کوئی پیچھے رہنے والا نہیں ہوں۔لیکن جب مصیبت آئے اور پھر آدمی صبر کرنے والا ثابت ہو اور پھر کوئی بے صبرا ثابت ہو، تب امتیاز ہوگا صابر اورغیر صابر میں۔

اسی طرح ہر میدان میں پیغمبر اسلام کو ، ہر غزوے میں بلا مزاحمت فتح ہی ہوتی چلی جائے تو سب مجاہدین برابر کے بہادر ہیں۔ جو حقیقی بہادر ہے، اس کا تعارف تو نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ کوئی کٹھن وقت آئے۔ ضرورت ہے کہ کوئی سخت حالات کا جھونکا ایسا چلے کہ جس میں فرض کیجئے سو میں سے پچاس کے قدم اکھڑ جائیں تو ان سو میں امتیاز ہوجائے گا۔ سو میں جو صابر ثابت ہوئے ہیں، سو میں سے پچاس۔اس طرح امتیاز ہوجائے گا کہ کون ثابت قدم اور کون غیر ثابت قدم۔

اب فرض کیجئے کہ علم الٰہی میں ان پچاس میں سے چند ہیں جو ثابت قدم ہیں ۔ تو ضرورت ہے کہ وقت زیادہ کٹھن ہوتاکہ ان میں جو ممتاز ہیں، وہ آنکھوں کے سامنے آجائیں اور اب بھی اگر دس بیس میں مشترک ہے ثباتِ قدم تو ان میں جو ممتا زہے، وہ ابھی پردے میں ہے۔ لہٰذا کچھ اور سختی وقت میں اضافہ ہو، تب ان میں سے بھی بہت سوں کے قدم اُکھڑ جائیں۔ یہاں تک کہ صفحہ میدان سادہ ہوجائے اور بس ایک فرد رہ جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ فردِ فرید ہے۔ پھر ملک کو بھی کلمہ پڑھنا پڑے گا:

لَافِتٰی اِلَّا عَلِیْ لَاسَیْف اِلَّا ذُوالْفِقَار “۔

اسی طرح اضطراب اور اطمینان میں فرق کیسے ہوسکتا ہے! اگر بالکل متوازی حالات رہیں اور بالکل ہی خوشگوار ماحول ہو اور کوئی وجہِ اضطراب نہ ہو تو اطمینان کا سوال ہی نہیں۔ اطمینان تو اُسی وقت نمایاں ہوسکتا ہے جب اسبابِ اضطراب ہوں اور کوئی مضطرب نہ ہو۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اندھا ہونا صرف بصارت نہ ہونے کا نام ہے تو یہ دیوار کیوں اندھی نہیں کہلواتی۔ دیوار میں بھی تو بصارت نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اندھا ہونا صرف بصارت نہ ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ ایسا جس میں بصارت ہو، ہونا چاہئے اور پھر بصارت نہ ہو، تب وہ اندھا ہے۔ ویسے ہی اگر پر سکون حالات ہیں، اس وقت تو سب ہی ٹھہرے ہوئے ہیں، پرسکون ہیں۔ سب ہی کے دل قرار کے ساتھ ہیں۔ کسی کا دل پریشان نہیں ہے۔ اس وقت کہاں پتہ چلے گا کہ کون مطمئن ہے۔نہیں! جس وقت میں کہ ایسے حالات ہوں کہ جن کی وجہ سے اضطراب ہونا چاہئے او رپھر کسی میں اضطراب نہ ہو تو پتہ چلے گا کہ وہ مطمئن ہے۔

اب اضطراب کے تقاضے میں زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرسکتا ہوں۔ اسی سے سمجھئے گا کہ جو مطمئن ہوگا، اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ایک پریشانی کی منزل آئی یعنی مشکلات درپیش ہوئیں اور انسان نے سوچنا شروع کیا کہ یہ جو مشکلات درپیش ہوئیں تو کیا کرنا چاہئے؟ اگر ایک دو دن میں، ہفتہ دو ہفتہ میں کچھ سمجھ میں آگیا تو خیر اور اگر سمجھ میں نہ آیا تو کچھ ہمدرد جن کی عقل اور سوچ پر بھی بھروسہ ہے، ان کو جمع کیا، ان کے سامنے اپنی مشکل پیش کی اور ان سے کہا کہ آپ افراد میرے ہمدرد بھی ہیں اور صاحبانِ عقل و ہوش بھی ہیں، آپ بتائیے کہ اس مشکل کا کیا حل ہے؟کیا صورتِ عمل اختیار کی جائے؟

یہ دوسری منزل ہے جو اضطراب کی صورت میں طے کی جائے گی۔ اب فرض کیجئے کہ انہوں نے کوئی رائے دی اور وہ مشکل ابھی حل نہیں ہوئی ہے تو نیند اُڑی ہوئی ہے، سو نہیں سکتے۔ رات جاگ کر بسر ہورہی ہے۔ یہ تیسری علامت اضطراب ہے۔ وہ سوچ میں وقت گزارنا پہلی علامت اضطراب تھی۔ دوسری علامت اضطراب کچھ لوگوں کو بلا کر مشورہ کرنا کہ کیا کرنا چاہئے۔ یہ تیسری منزل ہے کہ جب مصیبت آگئی تو راتوں کونیند اُڑ گئی۔ اب ایک ایک سے اپنی مصیبت بیان کررہے ہیں ۔ شاید کہیں سے کوئی روشنی کی کرن آجائے اور کوئی کسی طرح کی مدد دے سکے۔ یہ اضطراب ہر ایک محسوس کرسکتا ہے۔ اب اگر ماحول ایسا ہے کہ جس میں اضطراب ہونا چاہئے اور چونکہ ہماری طبیعت میں اضطراب ہے، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ محلِ اضطراب ہے اور پھر کوئی مطمئن نظر آئے، مطمئن نظر آئے یعنی یہ باتیں نہ کرے۔ اسے سوچنے کیلئے مہلت کی ضرورت نہ ہو بلکہ بغیر زحمت تفکرکے راہِ عمل متعین ہو، معلوم ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ ذہن ایک جادے پر مطمئن ہے۔ تزلزل اُسے ہو جسے احساسِ فرض میں تردد ہو اور جسے ایک فرض ادا کرنا ہے، اُسے پھر تردد میں وقت گزارنا کیسا؟

تو وہ کوئی وقت تردد میں نہیں گزارے گا کہ کیا کریں۔ معلوم ہے کہ یہ کرنا چاہئے۔ تو اب وقت کی ضرورت کیا ہے؟ اس فکر میں کہ کیا کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوا، معلوم ہوا کہ یہ مطمئن نہ تھا۔ اچھا صاحب! دوسری منزل کہ خود سمجھ میں نہیں آیاتو ہمدردوں سے مشورہ لیا۔ دیکھا کہ نہیں، یہ شخص تودوسروں سے مشورہ بھی نہیں لیتا کیونکہ مشورہ وہ لے جسے اپنے زاویہ نظر کی حقانیت میں شک ہو اور جب اسے معلوم ہے کہ مجھے کیا راستہ اختیار کرناچاہئے تو وہ دوسروں سے مشورہ کیوں لے؟ اور اگر کچھ لوگ بنظر ہمدردی یا مظاہرئہ ہمدردی کیلئے رضاکارانہ طور پر از خود آکر مشورے دیں تو وہ ان مشوروں پر عمل بھی نہ کرے۔ چاہے دنیا مدتوں تک کہتی پھرے کہ بڑا ضدی آدمی تھا کہ بس جو طے کرلیا، وہ کیا۔ حالانکہ فلاں نے یہ مشورہ دیا تھا، فلاں نے یہ مشورہ دیا۔ایسے ایسے صاحبانِ عقل اور ہمدر ، انہوں نے یہ مشورے دئیے اور انہوں نے عمل نہ کیا تو حضور! وہ ان مشوروں پر عمل اُس وقت کرتا جب اُسے اپنے موقف کی حقانیت پر شک ہوتا۔

مشورے دیا کریں لوگ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ احساسِ اضطراب کررہے ہیں جو مشورے دے رہے ہیں اور جو مشورہ نہیں لے رہا، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اطمینان سے بھرا ہوا ہے۔ اس کو اضطراب ہے ہی نہیں کہ وہ مشورہ لے اور یہ مشورے دے رہے ہیں۔ تو بربنائے تخیل اضطراب دے رہے ہیں۔تو وہ ان مشوروں پر عمل کیوں کرے؟

اب ظاہر ہے کہ مشورے نہیں لئے اس نے تو اس سے متعلق کیا ہر ایک شخص دوسرے سے شکوہ نہیں کرے گا؟ ایک دوسرے سے دکھڑا نہیں روئے گا؟ ایک دوسرے سے اس مصیبت کا تذکرہ نہیں کرے گا کہ یہ مصیبت آئی ہے اور دیکھو کتنی مشکل مجھے پیش آگئی ہے ۔ اب یہ کردار وہ ہوگا جس کو ہم نے اضطراب کے تقاضوں کی بناء پر پہلے سمجھ لیا تھا۔اب ہم یہ سمجھے کہ یہ اطمینان کے تقاضے ہیں۔ بس اب جبکہ آپ کے سامنے اضطراب کے تقاضے پیش کرچکا اور اس کے مقابل اطمینان کے تقاضے تو ب دو مواقع پیش کرتا ہوں۔ ایک موقع کو سمجھ لیجئے فضائل اور ایک موقع تمہید ہوگا مصائب کی۔

پہلا موقع تو یہ ہے کہ ایک مشاورتی اجتماع ہوتا ہے اور اس میں طے ہوجاتا ہے کہ اس مقرر کردہ رات کو پیغمبر خدا کی شمعِ زندگی کو خاموش کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جب مجلس مشاورت تھی تو طرح طرح کی آراء دی گئیں۔ کسی نے یہ کہا کہ مشکل ہی کیا ہے، قتل کردیا جائے۔ تو کسی دوسرے صاحب فکر نے کہاکہ بنی ہاشم کی تلوار معلوم ہے؟ مدتوں خون کا بدلہ لینے میں سلسلہ جدال و قتال جاری رہے گا۔ لہٰذا گویا یہ رائے مسترد کردی گئی۔اس نے کہا کہ چلو قتل نہ کروکہ بدلہ لینے کیلئے سلسلہ جنگ شروع ہوجائے گا۔قید کردیا جائے، بند کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بنی ہاشم چھڑواکر لے جائیں گے، یعنی بنی ہاشم سے لوگ پہلے سے متاثر تھے تو پھر کیا کیا جائے؟ایک بہت ہی لال بھجکڑ قسم کا آدمی کوئی تھا، جسے اس وقت تک لوگ پہچانتے بھی نہیں تھے، وہ کھڑا ہوا، تاریخوں میں یہ ہے کہ وہ ایک نجدی بوڑھا تھا۔ ایک شیخ نجد تھا۔ مورخین چونکہ اسلام کے مورخین ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شیطان اس لباس میں آیا تھا۔ یعنی شیطان کو بھی حلیہ یہی پسند تھا۔ بہرحال شیطان آیا ہو یا واقعی وہ شیخ نجد ہو، اُس نے جو رائے پیش کی، وہ پاس ہوئی۔

دو مواقع تاریخ میں ایسے ملتے ہیں جسے لوگ شیطان کے سر منڈھتے ہیں۔ ایک تو یہ جس نے یہ رائے دی ، کہتے ہیں کہ شیطان تھا جو اس شکل میں آیا تھا اور ایک اُحد میں جس نے آواز بلند کی تھی کہ رسول قتل ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ شیطان نے یہ آواز بلند کی تھی۔میں کہتا ہوں کہ جو ویسا کام کرے یا ایسی غلط آواز بلند کرے، وہ شیطان ہوا۔ بہرحال شیخ نجدی نے یا انسان نما شیطان نے یہ رائے پیش کی کہ کیوں کہتے ہو کہ بنی ہاشم بدلہ لیں گے۔ میں ترکیب بتاتا ہوں۔ مخالف تو بہت سے ہیں نا۔سبھی مخالف ہیں سوائے بنی ہاشم کے۔ ہر قبیلہ کا ایک نمائندہ چنو اور ایک ایک آدمی جب ہر قبیلہ کا لے لو گے تو خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے گا۔ تو بنی ہاشم کس کس سے مقابلہ کریں گے؟یعنی اُس نے یہ

اصول سب سے پہلے پیش کیا کہ بہت سے نمائندے مل کر اگر کوئی جرم کریں تو پھر وہ جرم ہلکا ہوجاتا ہے۔ جرم ، جرم ہی نہیں رہتا۔یہ رائے پاس ہوگئی ۔ کیا کہنا، واہ واہ۔سب کچھ طے ہوگیا۔

قرآن مجید نے اُسے ”کید“ سے تعبیر کیا ہے کہ انہوں نے اپنا منصوبہ بنایا ۔ وہ سب اسی جماعت کے لوگ تھے ، یہاں کا مخبر تو کوئی نہیں تھا۔ وہ رات قریب آگئی اور ان لوگوں نے پورا بندوبست کیا تھاکہ وہ راز باہر نہ جائے۔ مگر قدرت کی لاسلکی اور لاسلکی نہیں، تو جو اس کی طرف کا قاصد ہے یعنی ملک آیا پیغمبر خدا کے پاس اور ان کا پورا منصوبہ آپ کو بتایا کہ آج رات کو آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے تمام لوگ آئیں گے اور گھر کو گھیر لیں گے۔اس کے بعد اس منصوبہ کا توڑ جس کو بلاغت قرآنی نے اسی لفظ سے تعبیر کیا ہے کہ انہوں نے اپنی ترکیب کی اور ہم نے اپنی ترکیب کی۔ جو لفظ ادھر صرف کیا گیا، وہی اپنی طرف صرف کیا ہے کہ انہوں نے :

مَکَرُوْامَکْرًاوَمَکَرْنَامَکْرًا “ ۔

انہوں نے ایک ترکیب کی اور ہم نے اپنی ترکیب کی۔ تو جو کسی چیز کا توڑ ہو، وہ اسی لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ اصولِ بلاغت ہے۔ اب خالق نے کیا ترکیب کی اور ترکیب کا لفظ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ایک خفیہ شکل ہو کہ جس کو دوسرا محسوس نہ کرسکے۔اسی کو ”کید“ یا مکر سے قرآن میں تعبیر کیاجاتا ہے۔

خالق نے کیا ترکیب کی؟ ارشاد ہوا کہ اب ہم آپ کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ آپ چلے جائیے اور یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ کے جانے کی ان کو خبر نہیں ہوگی۔ یہ بات ہمارے ذمہ ہے ، آپ چلے جائیے۔ مگر اپنے بستر پر علی کو سلاجائیے۔متفق علیہ ہے، ہر جگہ قول مل جاتا ہے کہ وہ نہیں وہ۔ مگر یہاں دنیائے تاریخ سنسان ہے۔ یہاں بس ایک ہی نام ہے۔ جو فرشتے نے نام لیا، وہی ہر مورخ نام لے گا کہ علی کو اپنے بستر پر سلاجائیے۔ ترکیب قدرت کی طرف کی یہ ہے کہ رات بھر وہ سمجھتے رہیں کہ رسول بستر پر ہیں اور اب اس نے ایک ذات کو منتخب کیا کہ ذات ایسی ہو جس پر رسول ہونے کا دھوکہ ہوسکتا ہو۔

جناب! یہ تو پیغام خدا کی طرف سے پیغمبر خدا تک پہنچا۔ ان کو اگر خود عمل کرنا ہوتا تو کسی سے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ مگر اس ہدایت کا جزو ایک دوسری شخصیت سے متعلق ہے۔ لہٰذا دوسری شخصیت کو بلانا لازمی تھا۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام بلائے گئے او رجو صورتِ واقعہ تھی، وہ بیان کی گئی کہ خالق کی طرف سے یہ اطلاع آئی ہے کہ گھیرا جائے گا یعنی مکان کا محاصرہ ہوگا، میرے قتل کے ارادہ سے، اور خالق کی ہدایت پر میں چلاجاؤں گا اور تمہیں اپنے بستر پر لٹاجاؤں گا۔ اب ہر دل و دماغ رکھنے والا آدمی غور کرے کہ یہ منزلِ تقاضائے اضطراب ہے یا نہیں؟ یہ صورتِ حال ایک عام انسان کیلئے اضطراب پیدا کرنے والی ہے یا نہیں؟ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ بڑا سخت محلِ اضطراب ہے۔

اب ایک لفظ میں اس محلِ اضطراب کوواضح کردوں کہ علی عام حالت والے علی ہوتے تو اتنے سخت خطرہ میں نہیں تھے جتنے رسول بن کر لیٹنے میں خطرہ میں ہیں۔

ہم نے دنیا میں بھیس بدلتے ہوئے دیکھے ہیں مگر عموماً وہ بھیس بدلا جاتا ہے جو خطرہ سے دور ہو۔ یہ نیا بھیس بدلنا دیکھا کہ جس کے قتل کا منصوبہ ہے، اس کی چادر اوڑھی جائے۔ یہی کہہ دیتے کہ بستر پر لیٹ رہو مگر کھلے بندوں کہ ہر ایک دیکھ سکے کہ کون ہے؟ ارے لیٹو اور چادرِ رسول اوڑھو اور بستر رسول پر لیٹو۔ رسول نما ہوکر لیٹو۔

تو کتنا صبر آزما ہے۔ پھر یہ صبر آزما تو عام لفظ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اطمینان آزما محل ہے۔ اب اضطراب کے تقاضے تو عرض کرچکا۔ اتنی اہم اور خطرناک منزل ۔ مجھے ملے کسی غلط سے غلط تاریخ میں۔ کسی دمشق کے کارکانے کی صحیح ڈھلی ہوئی ۔ اگرچہ دعویٰ ذرا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر غلط سے غلط بات خرمن احادیث میں مل جاتی ہے اور بنامِ صحاح ملتی ہے۔ مگر بعض جگہ سچائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ جھوٹ کو قدم رکھنے کا موقع نہیں ملتا۔

تو صاحب!کوئی غلط سے غلط روایت نہیں ملتی کہ انہوں نے یہ سن کر کہا ہو کہ مجھے کچھ مہلت دیجئے سوچنے کیلئے۔ انکار نہ کرتے مگر کچھ مدت تو مانگتے، کچھ مہلت تو طلب کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سوچنے کیلئے ہی سہی ، مہلت طلب نہ کی۔ پھر اگر مہلت مل بھی جاتی تو پہلے خود سوچتے، پھر اس کے بعد یہ کوئی یکہ و تنہا اپنے گھر کے آدمی نہیں تھے، تین بھائی ان سے بڑے تھے اور ان سب میں دس دس برس کا فاصلہ۔ آپ سے دس برس بڑے عقیل۔ عقیل سے دس برس بڑے جعفر او رجعفر سے دس برس بڑے طالب، جن کے نام پر کنیت ہوئی ابوطالب۔ وہ سب میں بڑے۔ اب آپ عمر کا حساب کیجئے کہ یہ جب چوتھے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ طالب تو پیغمبر خدا کے ہم عصر تھے۔ یعنی بوقت بعثت حضورکی عمر چالیس برس اور طالب کی عمر بھی چالیس ہی برس ہوسکتی ہے۔ ان سے چھوٹے جعفر رسول سے دس برس چھوٹے، ان سے چھوٹے عقیل ، رسول سے بیس برس چھوٹے، ان سے چھوٹے علی ، رسول سے تیس برس چھوٹے۔

تیس برس پر ایک واقعہ یاد آگیاکہ جب پیغمبر خدا کی ولادت ہوئی، جنابِ آمنہ بنت وہب آپ کی والدہ ہیں تو جنابِ فاطمہ بنت اسد موجود تھیں۔ عموماً ایسے مواقع پر خاندان کی بزرگ جوخواتین ہیں، وہ آجاتی ہیں۔ ولادت کے بعد جنابِ ابوطالب کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا کہ آمنہ کہ ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوا۔ جو شروع سے شکل و شمائل سے اندازہ ہوتا تھا ، وہ بتایاکہ آمنہ کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کافی کلینی کی روایت ہے جو عرض کررہا ہوں کہ جنابِ ابوطالب نے فرمایا: تیس برس اور صبر کرو تو ایسے ہی بچے کی میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں۔ اسی لئے آجکل کی متمدن دنیا میں لوگ اولاد کی تعداد کو محدود بنانا چاہتے ہیں۔ ہر ملک میں تمدن کی نشانی یہ ہے کہ اولاد کی تعداد کو محدود بنایا جائے۔ہمارے ہاں ایک وقت میں دیواروں پر لکھاہوتا تھا کہ ایک گھر میں تین بچے اچھے۔ اس کے بعد وہ مٹ گیا اور یہ نکلا کہ ہم دو ہمارے دو۔بہت خوبصورت جملہ ہے ، ہم دو ہمارے دو۔

میں نے کہا کہ بس ! اس کے بعد منزلِ توحید ہے۔ یہ ہوگیا کہ تین سے بات چلی اور دو تک پہنچی۔ اس کے بعد ایک کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ایک تک تو دنیا بہت دیر میں پہنچتی ہے۔اب مَیں حقیقت تاریخی کی بناء پر عرض کرتا ہوں کہ یہ چوتھے فرزند ماں باپ کے، اور جو یہ ہیں، وہ کوئی قبل والا نہیں ہے۔ سب سے چھوٹے ہیں مگر فردِ اکمل یہی، یعنی حاصلِ حیاتِ ابو طالب وہی ہیں جو اپنے ماں باپ کی چوتھی اولاد ہیں۔ تو دنیا اگر اس نظامِ تمدن پر چلتی ہوتی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا فردِ اکمل کے فیض سے محروم رہ جاتی۔یہ مشاہدہ سب سے بڑی دلیل ہے اس فلسفے کے بطلان کی۔ یعنی اس فلسفے نے یہ طے کیا ہے کہ قبل والے افراد کارآمد ہیں اور بعد والے بیکار ہیں۔ جب ہمارے سامنے یہ ہے کہ

اصل کام کا وہی آخری فرد ہے جس کو آنے سے آپ نے روک دیا، اپنے منصوبہ کی بناء پر تو ہم اس کی حقانیت پر کیونکر ایمان لائیں۔

غرض یہ کہ اتنے بھائی ، سب سے بڑے طالب، ان سے چھوٹے جعفر، ان سے چھوٹے عقیل۔ تو کسی اور سے رائے نہ لیتے، اپنے بھائیوں سے تو جمع کرکے رائے لیتے کہ یہ پیغام مجھے ملا ہے، آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ مگریہ وہ کرتا جو مضطرب نفس رکھتا ہو۔اس سے ہم واقف ہیں ، اس کا تقاضا یہ ہے ۔ مگر یہاں ایک لمحے کی مہلت طلب نہیں کی جاتی۔ جب مہلت طلب نہیں کی جاتی تو نہ خود سوچنے کا سوال اور نہ رائے اور مشورہ کا سوال۔ بس جواب دینے سے پہلے ایک سوال کئے دیتے ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ میرے بستر پر سورہنے سے حضور کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ پیغمبر خدا فرماتے ہیں کہ ہاں! خدا نے مجھ سے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ انہوں نے یہ سوال کیوں کیا؟ مجھے تو اس حقیقت کے اظہار کیلئے یہی الفاظ ملتے ہیں کہ بس اپنی جان کی قیمت پوچھ رہے ہیں۔پیغمبر خدا نے جب فرمادیا کہ ہاں! مجھ سے حفاظت کا وعدہ ہوا ہے۔ انہوں نے نہ اپنے لئے پوچھا تھا، نہ انہوں نے ان کیلئے بتایا۔انہوں نے ان کیلئے پوچھا تھا کہ آپ کی زندگی تو محفوظ رہے گی؟ اور انہو ں نے اپنے لئے فرمادیا کہ مجھ سے حفاظت کا وعدہ ہواہے۔ بس یہ سننا تھا کہ سر سجدئہ خالق میں رکھ دیا۔

شاہ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں ، مدارج النبوة فارسی زبان میں ہے،اس میں تحریر فرماتے ہیں کہ دنیا میں یہ سب سے پہلا سجدئہ شکر ہے جو اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے کیا تھااور شریعت اسلام میں سجدئہ شکر جزوِ مسنون ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ عمل ہیں جو بلند افرا دکے کردار سے جزوِ شریعت ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلا سجدئہ شکر انہوں نے کیا۔ محدث دہلوی لکھ رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ یہ شریعت میں جزوِ مسنون ہے۔ تو دو پہلو ا س کے پیش کئے دیتا ہوں۔ یا تو یہ کہ لوحِ محفوظ میں یہ پہلے سے شریعت کا جزو تھا اور مانئے کہ علی قبل از نزولِ قرآن دیکھ رہے تھے اور یا یہ مانئے کہ دیگر احکام قرآنِ صامت کے حکم سے ہیں اور یہ حکم قرانِ ناطق کے حکم سے ہے۔

بہرکیف علی علیہ السلام کے کردار میں اضطراب کا پہلو نظر نہیں آیا، نہ سوچنے کیلئے وقت کی مہلت مانگی، نہ عزیزوں اور ہمدردوں سے مشورہ کیا۔ باپ بے شک اس وقت نہیں تھے لیکن تین بھائی بڑے اور ایک ان میں سے باپ کے برابر عمر رکھتے ہیں۔ وہ موجود تھے لیکن کسی سے رائے نہیں لی گئی۔ معلوم ہوا کہ نفس مطمئن ہے۔

اب بستر پر لیٹ گئے۔ذرا غور کیجئے کہ بستر پر لیٹے تو اضطراب کا تقاضا یہ ہے کہ نیند اُڑجائے۔ ہمارے نزدیک اضطراب کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں نیند کے اُڑنے کے۔ جسے رات کو کبھی سونے کی عادت نہ ہو، کوئی کسی عبادت کا ذوق رکھتا ہواور وہ مجبوری سے اُسے انجام نہ دے سکے تو اُسے قلق ہوتا ہے، اضطراب ہوتا ہے، بے چینی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نہ سو سکے۔ فرض کیجئے کہ اس وقت کوئی صاحب مجلس میں آنے کا ارادہ رکھتے ہوں اور بر وقت کوئی رکاوٹ ایسی پیدا ہوجائے کہ وہ نہ آسکیں تو یہ بستر پر بار بار یاد آئے گا کہ دیکھو! میں مجلس میں جانا چاہتا تھا مگر نہیں جاسکا۔

ان کی پوری رات محرابِ عبادت میں گزرتی تھی، جاگ کر بسر ہوتی تھی۔ رات کو سونا کہاں تھا او رپھر ذوقِ عبادت ان کا۔ رات بھر ان کو تصور رہنا چاہئے تھا کہ اب میں نماز پڑھتا ہوتا، اب میں تہجد پڑھتا ہوتا۔ اب میں فلاں عبادت کرتا ہوتا۔ آج فرض کے شکنجے کی زنجیر یں ڈال کر مجھے لٹا دیا گیا ۔ تو انہیں نفسیاتی طور پر قلق ایسا ہونا چاہئے تھا کہ نیند اُڑے گی۔ا س قلق اور اضطرا ب کو وہ محسوس کرے گا جس کی عبادت بربنائے عادت ہو اور جو حقیقت عبادت سے واقف ہو۔اُسے قلق نہیں ہوگا کہ جس کے کہنے سے روز عبادت کرتا تھا، اُسی کے کہنے سے تو آج لیٹا ہوں۔

لیکن حکم لیٹنے کا تھا، سونے کا نہیں تھا۔ رسول نے فرمایا تھا کہ حکم خدا یہ ہے کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ۔ حکم لیٹنے کا تھا، سونے کا نہیں تھا اور عقلاً ہو بھی نہیں سکتا ، اس لئے کہ تکالیف شریعہ اور احکام افعالِ اختیاری سے متعلق ہوتے ہیں۔آدمی کے اختیار میں لیٹناہے، سونانہیں ہے۔تو عقلاً حکم لیٹنے ہی کا ہوسکتا ہے، سونے کا نہیں ہوسکتا۔ مگر خود فرمایا ہے کہ جیسی گہری نیند شب ہجرت سویا، ایسی کبھی نہیں سویا تھا۔

گہری نیند کیوں آئی؟ حکم فقط لیٹنے کا ہے، سونے کا نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سونا نہ سونا نفس کی کیفیت سے متعلق ہے۔ اگر نفس مضطرب ہوتا تو جاگ کے رات کٹتی بلکہ شاید رو کر کٹتی مگر یہ نفس مطمئن ہے۔

بہرحال اطمینان سے سوتے رہے اور بربنائے روایت بھی میں کہتا ہوں کہ ہمارے لئے تو ان کا کہہ دینا کافی ہے اور اصولِ عقلی کے اعتبار سے ایسی بات جو خود انسان کے بیان سے معلوم ہوسکے، اس میں اس کا بیان معتبر ہے۔ وہاں گواہیاں بھی نہیں ہوتیں۔ گواہ لیٹنا دیکھ سکتے ہیں، سونا نہیں دیکھ سکتے۔ تو جو چیز خود آدمی ہی کے بیان سے ظاہر ہو، اس میں اس کا بیان مستند ہے۔ اس میں گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ تو ہمارے لئے ان کا کہہ دینا کافی ہے کہ میں شب ہجرت جیسی گہری نیند سویا، کبھی نہیں سویا۔ مگربربنائے واقعہ ہر صاحب فہم کومیں دعوت دیتا ہوں کہ درایتاً غور کرے کہ یہ سو رہے تھے یا نہیں؟

حضور! عرب کی نیچی نیچی دیواریں ، لٹکتے ہوئے نیزے، کھنچی ہوئی تلواریں، آپس میں چرچے ہورہے ہیں کہ ابھی حملہ کردیں یا انتظا رکریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابولہب بھی تھا محاصرین میں۔اُس نے یہ کہا کہ یہ بھاگ نہیں سکتے، صبح ہونے دو، صبح کو حملہ کرنا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دیواریں اتنی نیچی تھیں کہ ان کے آنے میں وہ سد راہ نہیں تھیں۔ صبح کو جب چاہا ، آگئے چھلانگیں لگا کر۔کسی نے جاکر دروازہ تو نہیں کھولا تھا۔ تو چرچے ہورہے ہیں کہ جائیں یا نہ جائیں۔ رات گزر رہی ہے۔ اب ہر صاحب عقل غو رکرے کہ اگر نفس مضطرب ہوتا تو رات بھی راز راز ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ بار بار چادر اُلٹ کر دیکھتا کہ آتو نہیں رہے، آتو نہیں رہے۔یہ رات بھر راز رہنا بتاتا ہے کہ یہ تو سورہے تھے۔ان کو اس سے مطلب ہی نہیں تھا کہ آرہے ہیں یا نہیں آرہے۔

میں ایک عام مثل دہراتا ہوں ، یہ سنجیدہ آدمی نہیں بولتے ہیں۔ہوسکتا تھا کہ میں شاید بالائے منبر ا س مثل کو استعمال نہ کروں مگر مجھے یہاں مطلب اسی سے ہے۔ چونکہ مثل کے اندر ایک حقیقت مضمر ہوتی ہے، اس لئے پست سہی مگر میرے کام کی وہی ہے۔ میں گہری نیند کا فلسفہ بتانا چاہتا ہوں جو انہوں نے فرمایا۔ جیسی گہری نیند سویا، حضور! مثل مشہور ہے کہ جب گہری نیند کسی کو آئے تو کہتے ہیں کہ گھوڑے بیچ کر سوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جو گھوڑے بیچ کر سوئے، وہ تو گہری نیند سوئے گا او رجو جان بیچ کر سوئے؟

معلوم ہوا کہ ان کے کردار نے بتایا کہ یہ ہے نفس مطمئن۔اب یہ باپ کا اطمینانِ نفس ہے اور بیٹے کی منزل آئی اور اس کے سامنے مرحلہ یہ درپیش ہے کہ یزید طلبگارِ بیعت ہے۔ بیعت نہ کرنے کے نتائج ہر صاحب عقل کے سامنے ہیں۔ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ بیعت نہ کرنے کے نتائج کیاہوسکتے ہیں؟ اب یہ مشکل منزل ہے یا نہیں؟

تو جو اضطراب کے تقاضے وہاں بتلاچکا ہوں، وہی یہاں بھی ہیں کہ پیغام ملا تو کوئی روایت نہیں بتاتی کہ انہوں نے ہمدردوں کو جمع کیا ہو۔ بھی ہاشم جن سے ہم کربلا میں متعارف ہیں۔ اسی وقت تو ان کے علاوہ بھی بہت سے افراد موجود ہیں ۔ جنابِ محمد حنفیہ ہیں، جنابِ عبداللہ ابن عباس ہیں جو انتہائی مدبر ہیں۔ بہت ہی صاحب ہوش و خرد اور ہوشیار مانے جاتے تھے۔ لوگ ان کو بلاتے تھے اور مشورہ لیتے تھے۔مگر کوئی روایت نہیں بتاتی کہ ان لوگوں کو بلا کر ان سے مشورہ لیا ہو کہ کیا کرنا چاہئے۔ ارے جبکہ سمجھے ہوئے ہیں کہ بیعت یزید میرے لئے ناروا ہے تو پھر مشورہ کیوں لیتے؟

لوگوں نے آآکر بنظر ہمدردی مشورے دئیے، کچھ نمائشی ہمدرد، کچھ حقیقی ہمدرد۔ مگر مصلحت امام سے بے خبر۔ جنابِ عبداللہ ابن عمر نے بھی مشورہ دیا اور عبداللہ ابن مطیع، جو جنابِ مختار کے نکلنے کے وقت کوفے کے گورنر تھے، ان سب نے مشورہ دیا۔ آج ان مشوروں کو پیش کیاجاتا ہے اور انہوں نے کسی مشورے پر عمل نہیں کیا۔ کچھ لوگ جو چاہتے ہیں کہ الزام ہم عائد نہ کریں، وہ تقدیر کے سپرد کرتے ہیں۔بڑ ے بڑے ممتاز اہل قلم لکھتے ہیں کہ وہ تو مشیت کا فیصلہ تھا یعنی صحیح تو یہی لوگ کہتے تھے مگر کیا کیا جائے کہ تقدیر میں یہی تھا۔مشیت اسی کی متقاضی تھی۔ کچھ لوگ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ بڑی ضد تھی اور بڑی کد تھی۔اتنے ہمدردوں کا مشورہ تھا اور اس کا نہ مانا مگر میں اب پوری ذمہ داری کے ساتھ ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہتا ہوں کہ جتنے مشورے آپ لوگ پیش کررہے ہیں، ان سب مشوروں کو لائیے اور میرے سامنے پڑھئے کہ کیا کیا مشورہ کس کس نے دیا ۔ تو جتنے مشورے تھے، وہ یہ کہ یہاں سے جارہے ہیں آپ تو عراق نہ جائیے، طائف چلے جائیے، یمن چلے جائیے او رکسی دوسری جگہ چلے جائیے۔ جبل طے، طے کے پہاڑوں پر مشورہ دیا گیا کہ جائیے۔ بڑے مشہور قلعے ہیں، آپ کی حفاظت ہمارا قبیلہ کرے گا۔یہ مشورے کہ آپ جاتے ہیں تو بچوں اور عورتوں کو کیوں لئے جاتے ہیں؟یہ ہیں مشورے ان لوگوں کے مگر کسی مشورہ دینے والے نے یہ نہیں کہا ہے کہ یزید کی بیعت کرلیجئے۔

یہ پورے مطالعہ کی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ کسی کا یہ مشورہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہتا کہ آپ یزید کی بیعت کرلیجئے۔ اس لئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید کی بیعت تو دھندلی نگاہ والوں کو بھی ان کیلئے ناروامعلوم ہورہی ہے۔ اب آجکل دنیا کہہ رہی ہے کہ بیعت کیوں نہ کرلی؟ یہ سب کچھ ہوگیا اور بیعت نہیں کریں گے۔ انکارِ بیعت میں اتنی شدت؟ یہ تو ضد ہے۔میں کہتا ہوں کہ اگر صحیح راستے پر قائم ہونا ضد ہے تو کونسا نبی ہے جو ضدی نہ ہو۔ کونسا رسول ہے جو ضدی نہ ہو۔خدا کی قسم! صدائے حق کا ہم اور آپ تک پہنچنا ان کی ضدوں کا صدقہ ہے۔

پھر ذرا انصاف کیجئے آپ، اس رُخ پر سوال کرتے ہیں کہ ان کو بیعت سے اتنا انکار کیوں ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے کیوں نہیں سوچتے کہ یزید کو بیعت پر اتنا اصرا رکیوں ہے؟ جبکہ تمام عالم اسلام نے بیعت کرلی تو اگر یہ بیعت نہ کریں تو یزید کا کیا بگڑتا؟ جبکہ اصولِ جمہوریت یہ ہے کہ کثرتِ رائے سے ہر بات طے ہو۔ تو اقلیت کی رائے ناقابل اعتبار ہے۔ اس سے اصل مقصد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔کچھ

لوگ نہیں مانتے ، نہ مانیں۔یہ پوری طاقت کیوں صرف کی گئی کہ ان سے بیعت لی جائے؟ یہ آخر یزید کو اتنا اصرا رکیوں ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ حسین ایک فرد نہیں ہیں، فرد اہمیت حاصل کرتا ہے کسی نظام کا نمائندہ ہوکر۔ ایک فردِ عرب ہوتا تو کتنے گوشہ و کنار میں آدمی ہوں گے جنہو ں نے بیعت نہ کی ہوگی۔ ارے خود ان کے اور بھائی تھے،کسی اور نے بیعت کی؟ جنابِ محمد حنفیہ بھی تو علی کے بیٹے تھے، ان سے بیعت کیوں نہ طلب کی؟ عبداللہ ابن جعفر بھی خاندان کے بزرگ تھے، ان سے کیوں بیعت طلب نہ کی؟ آخر یہ انہی سے اصرار کیوں ہے کہ بیعت طلب کی جائے؟

معلوم ہوتا ہے کہ حسین سے بیعت بحیثیت ایک فردِ عرب کے نہیں تھی، بحیثیت ایک نمائندئہ خاندانِ بنی ہاشم کے نہ تھی بلکہ حسین سے بیعت اس شریعت کا نمائندہ ہونے کے لحاظ سے تھی۔ یزید جانتا تھا کہ جب تک حسین نے بیعت نہ کی، اس وقت تک شہنشاہیت کے سامنے شریعت کا محاذ قائم ہے او رجس دن یہ بیعت کرلیں گے، اس دن شریعت کا محاذ ہمیشہ کیلئے سیاست کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ اس لئے حسین سے بیعت کیلئے پورا اصرار تھا۔

توایک جملہ آپ کیلئے کافی ہے ، میں کہتا ہوں کہ یزید حسین کو پہچانتا تھاکہ یہ کون ہیں اور حسین خود اپنے آپ کونہ پہچانتے کہ میں کون ہوں؟یہ جانتے تھے کہ اس وقت میرے بھائی حسن مجتبیٰ ہوتے تو مجھ سے نہ کہا جاتا۔ جو کچھ کہنا تھا، اُن سے کہاجاتا۔اگر ہمارے پدرِ بزرگوارہوتے تو جو کچھ مقابلہ کرنا تھا، ان سے کیا جاتا۔ہم سے براہِ راست کوئی مطلب نہ ہوتا۔ مزید آگے بڑھئے کہ اگر ہمارے نانا رسول اللہ ہوتے تو جو کچھ سند جوازِ حکومت کی مانگنا ہوتی، وہ ان سے مانگی جاتی، ہم سے نہ مانگی جاتی۔ مگر چونکہ میرے نانا نہیں ہیں اور میں ہوں، اس لئے مجھ سے بیعت طلب کی جارہی ہے۔ تو میرے بیعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ میرے بڑے بھائی ہوتے تو بیعت کرلیتے، میرے والد ہوتے اور وہ ہتھیار ڈال دیتے، میرے نانا ہوتے اور وہ مہر تصدیق ثبت کردیتے۔

میں کہتا ہوں کہ اب فقط ان کی بات نہیں ہورہی، اب ان کا بیعت کرنا ان سب کا بیعت کرنا تھا اور ان کا بیعت سے انکار ان سب کا انکارِ بیعت ہے اور جب رسول تک بات پہنچ گئی تو میں کہتا ہوں کہ ان کا بیعت کرلینا شریعت الٰہی کا سرجھکا دینا ہے۔

مجلس ۲

بسم الله الرحمن الرحیم

فقد قال الله تبارک و تعالیٰ فی کتابه المجید بسم الله الرحمن الرحیم

( بقیة الله خیرلکم ان کنتم مو منین ) “ (سورہ ہود آیت ۸۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہورہا ہے کہ بقیة اللہ یعنی امام زمانہ (عج) اس بزرگ و عظیم الشان ہستی کو خداوند عالم نے آج تک باقی رکھا ہے ان کا وجود تمہارے لئے خیر ہے تمہارے لئے بہترہے مگر شرط یہ ہے کہ اگر تم مو من بن جاومو من کے لئے وجود فرزند زہرا سے خیر ہی خیر ملتا ہے ہمارے امام غیبت میں ہیں غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اس میں ہماری اور آپ کی ذمہ داریاں ہیں پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ معرفت امام زمانہ نوجوانوں کے دلوں میں پیدا کریں اپنے بچوں کو سکھائیں انہیں تعلیم دیں کہ معرفت امام زمانہ کیا ہے جو بھی خدا ہمیں نعمت دیتا ہے ان کے صدقے میں دے رہا ہے اور اس قر آن کی بہت ساری آیات با ر بار بتلا رہی ہیں کہ جو بھی نعمت مل رہی ہے وہ بارہویں امام حجت خدا کے صدقے میں مل رہی ہے کا فر کو بھی ا گر مل رہی ہے تو ان کے صدقے میں مل رہی ہے مو من کو بھی اگر مل رہی ہے ان کے صدقے میں مل رہی ہے اور اگر جو شبہات ہیں سوالا ت ہیں ان کے بے شما ر جوابات ہیں کبھی کبھی یہ سورج بادلوں کے پیچھے چھپ جا تا ہے مگر یہ نہیں کہ اس کا فیض منقطع ہو گیا ہے یہ معمولی سورج اس کی شعائیں وہ بادلوں پا ر کرتے ہو ئے ہم تک پہنچ جا تی ہے بادلوں سے گذرے تے ہو ئے زمین پر دریاوں پر پہاڑوں پر پہنچ جا تی ہے یہ تو معمولی نور ہے مگر قرآن کہہ رہا ہے ”( الله نور سموات والارض ) اللہ کا نور وہ نور کون ہے حجت خدا امام خدا کا نور ہے زمین پر بھی اور آسمان پر بھی لہذا نور امام کا مقابلہ سورج کا نور نہیں کرسکتا ہے لہذا اگر غیبت کے پردے میں بھی چلے جا ئیں تب بھی امام کے وجود سے مسلسل فیض جاری ہے لوگ کہتے ہیں کہ امام تو غیبت میں ہیں امام کے وجود سے تب فائدہ ملے گا جب امام آپ کے سامنے ہو ں آپ جا کر امام سے مدد لیں آپ جا کر امام سے مسئلہ پوچھیں آپ کے امام تو غیبت میں ہیں تو اس کا کیا فائدہ اس سوال کا جواب کہ امام ہیں غیبت میں غیبت میں رہکر امام ہمیں کیسے فائدہ دیتے ہیں کیسے ہدایت دیتے ہیں ہم سب مسلمان ہیں ہم سب مسلمانوں کا قرآن پر ایمان ہے ہم سب کو ایک ایک لفظ قرآن پر ایمان ہے کہ قرآن نے خود کہا ہے میری تلاوت سے پہلے ضرور کہا کرو ”( اعوذبالله من الشیطان العین الرجیم ) “ پھرقرآن کی تلاوت کرو تا کہ تم شیطان کے شر سے بچ جاو یہ شیطان منحوس جو آج تک زندہ ہے کہا ہم سے کسی نے شیطان کو دیکھا ہے کسی نے نہیں دیکھا ہے ،مگر اس کے وجود سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہے یہ خبیث نظر تو نہیںآ تا مگر ضرور ہے تو وہ گمراہ کیسے کرتا ہے کہا شیطان نے ابھی تک کسی کا ہاتھ پکڑا کہ چلو سنیما چلیں نہیں ایسا نہیں ہے شیطان کہتا ہے کہ چلو جوا کھیلنے چلیں نہیں کیا شیطان ہا تھ پکڑکر کہتا ہے کہ چلو نشے کر نے چلیں پھر شیطان کیسے گمراہ کر تا ہے تو قر آن مجید میں بتلا یا ” یوسوس فی صدور الناس من الجنة و الناس “ لوگو! یہ شیطان وسوسہ کرتا ہے یہ کو ئی ہاتھ پکڑ کر شراب خانہ میں نہیں لے جا تا ہے بر ائی کی طرف نہیں لے جا تا کہا گناہ کا خیال لا تا ہے اگر ہم پاکستان میں ہو ں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مکہ میں ہوں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مدینہ چلے جا ئیں تو وہاں پر بھی وہ ہمیں گمراہ کرتا ہے ہم جہاں جہاں بھی چلے جا ئیں تو یہ شیطان اتنا خبیث ہے کہ وہ وہاں بھی ہمیں نہیں چھوڑ تا اور وسوسہ کرتا ہے یہ شیطان کون ہے دشمن خدا ہے شیطان کون ہے جسے اللہ نے نکال دیا جب دشمن خدا کے پاس جب گمراہ کرنے والے شیطان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ غیب میں رہکر پوری دنیا کو گمراہ کررہا ہے تو بتا ئیے جو نور خد ابھی ہو حجت خدا بھی ہو اور امام بھی ہو اور بقیة اللہ بھی ہو تو کیا خدا کے نمائندے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ غیب میں رہکر انسانوں کو ہدا یت دے۔

معرفت امام دلوں میں پیدا کر نا چاہئے لوگوں کے سوالا ت کے جوابات آنے چا ہئے تا کہ لوگوں کو گمراہی سے بچا ئیں امام زمانہ (عج) ، رسول خدا (ص) فر ما تے ہیں آ خری زمانے میں جو میرے بارہویں بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا انتظار تو ہم سب کر رہے ہیں اہل تسنن بھی کر رہے ہیں انتظار تو سبھی کر رہے ہیں مگر رسول خدا فر ما رہے ہیں جو میرے بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا اس کا مقام جنگ بدر اور جنگ احد میں شہیدہو نے والے میرے صحابیوں کے برابر ہے ۔ رسول نے فر ما یا کے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو کے جو جنگ احدمیں شہیدہو گئے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو جو جنگ بدر میں شہید ہو گئے مگر شر ط یہ ہے کہ آ خری زمانے میں سر کار کا صحیح انتظا ر کرو ،اب دیکھئے کہ صحیح انتظار کیا ہے ایک انتظار جھوٹا ہو تا ہے اور ایک سچا انتظار ہو تا ہے مثال کوئی کہے کہ آج میرے پاس ایک عظیم ترین بلند مرتبہ والا شخص میرے پاس مہمان بن کر ا نے والا ہے اور جب ہم نے آپ کے گھر کو دیکھا تو دیکھا کہ ایک طرف کچرا پڑا ہوا ہے دو سری طرف مٹی پڑی ہو ئی ہے اور کو ئی انتظام نہیں ہے ہم کہیں گے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ کائنات کا عظیم شخص ہما رے یہاں آ نے والا ہے سب سے محبوترین شخص جس پر جان فدا وہ آنے والا ہے اور انھوں نے کچرا سا منے رکھ دیا ہے تو ہم انہیں کہیں گے کہ آ پ یہ جھوٹا انتظار کررہے ہیں اگر کائنات کا سب سے محبوترین شخص آ نے والا ہے تو آ پ کو اس کے کمرے کو کتنا نورانی بنا نا تھا کتنی خوشبو کی چھنکار سے اسے معطر کر نا تھا تا کہ دیکھنے والے بھی کہیں کہ یہ سچا انتظار ہے تو ہم سب کہتے ہیں العجل مو لا جلدی ا ئیے ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم سچا انتظار کر رہے ہیں یا جھوٹا انتظار کر رہے ہیں اور دیکھئے امام کی نظر وہ ہمارے گھروں پر نہیں ہے کہ کہیں اُس کا کتنا بڑا بنگلا ہے کہ فلاں کا کتنا چھوٹا فلیٹ ہے کہ فلان جھونپڑی میں رہتا ہے نہیں کبھی بھی امام یا نبی گھروں کو نہیں دیکھتے کہ فلان کا گھر بڑا ہے یا چھوٹا ہے قرآن نے بتلا دیا کہ امام کس چیز کو دیکھتے ہیں فر ما یا( ان اکر مکم عند ا لله اتقاکم ) (سورہ حجرات آیت ۱۳) خدا نبی و امام کیا دیکھتے ہیں وہ ہمارے دلوں کودیکھتے ہیں کہ اس کے دل میں کتنا تقوا کا نور ہے جو انسان کہہ ر ہا ہے کہ مو لا آئیے آ ئیے و ہ اپنے دل کو دیکھے کہ کیا وہ اس نے اپنے دل کو صاف کیا ہے یا نہیں صرف زبان سے کہہ رہا ہے مو لا آ جائیے مگر دل کو اس نے صاف نہیں کیا ہے دل میں گناہ ہے دل میں یہ سب گناہوں کی نجاست ہے حقوق خدا ادا نہیں کر رہا ہے پھر بھی کہہ ر ہا ہے العجل العجل تو یہ تو جھوٹا انتظار ہے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے فر ما یا : مر نے کے بعد انسان کا اعمال نامہ بند ہو جا تا ہے مگر تین اعمال کریں تو آ پ کا اعمال نامہ بند نہیں ہو گا ایک تو ا گر آپ نے مسجد بنا ئی ہے امام بارگاہ بنا ئی ہے جب تک اس مسجد میں نماز ی نماز پڑ ھ رہے ہیں تو آ پ کو قبر میں بھی اُس کا ثواب ملتا رہے گا تو اعمال نامہ بند نہیں ہو گا دوسری چیز یہ ہے کہ اگر اچھی کتاب لکھو گے اسے چھپوادو تو وہ اجر تمہا رے لئے جاری رہے گا۔

ہمارے پاس کتابوں کی بے انتھا کمی ہے اور تبلیغ کے لئے بہترین ذریعے کتا ب ہیں چند سال لنڈن میں یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہماری محبت کے بغیر الحمد للہ کتنے لوگ ہیں کہ وہ خود شیعہ ہو گئے ہیں یہ لوگ تیجانی کی کتاب سے جس کا نام Then i was guided او دوسری Nights of peshwer یہ وہ کتابیں جن سے مسلمان شیعہ ہو جا ئے یا نیا مسلمان مسلمان ہو جائے ان کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے ہم دنیا میں تیس کروڑ شیعہ ہیں اور انگلش میں ہمارے پاس وہ کتابیں جن کو کو ئی پڑھ کر کنورٹ ہو جا ئے اور مذہب اہل بیت کو قبول کر لے اُس کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے یہ کتابیں بیس ہزار میں بھی چھپ سکتی ہیں اس میں جو رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کم لوگ ہیں جو تر جمہ جانتے ہیں اگر اس نکتہ کی طرف لوگ متوجہ ہو جا ئیں خصوصاً انگلش میں ان کا تر جمہ کروا نا چا ئیے کیوں کہ آ ج دنیا میں جو انٹرنشنل زبان چل رہی ہے وہ انگلش ہے اللہ کے رسول فر ما تے ہیں کہ کتاب چھپواکے مرو جب تک کتاب پڑھنے والے پڑھیں گے تمہیں قبر میں ثواب ملتا رہے گا اور عذا ب کم ہوتا رہے گا نعمتیں بڑھتی رہیں گی جتنا بھی کا غذ ضعف ہو مگر کتاب کی کم سے کم ایک کتاب کی سو سال تک عمر ہے اور تیسری چیز جو اللہ کے رسول نے فر ما یا اولاد صالح اگر بچہ صالح ہے اگر آ پ نے بچے کو نمازی بنا یا جب تک وہ نماز تہجد پڑھے گا قبر میں ا پ کو ثواب ملے گا بچے کو آپ نے عشق حسین سکھا یا اگر وہ کربلا کی زیارت کے لئے جا ئے گا تو قبر میں آپ کوثوا ب ملے گا امام ز مانہ (عج) کے بارے میں رسول خدا (ص) نے فر ما یا ہے اگر کوئی چو تھی چیز کر کے مرے تو اُس کا اعمال نامہ کبھی بند نہیں ہو گا وہ کیا ہے ؟ وہ ہے ”رابطو ا“ گر کو ئی انسان اپنے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرے ، ہم سب امام زما نہ کے عاشق ہیں مگر رابطہ بہت کم لوگوں کا امام کے ساتھ ہے اگر کو ئی اپنے زمانے کے امام سے رابطہ قائم کر لے اُن کا کبھی اعمال نامہ بند نہیں ہو تا بلکہ قبر میں بھی اُن کا اعمال نامہ کھلا ہوا ہے کیوں کہ امام یہاں موجود ہیں اور اُن کا زندگی میں امام سے رابطہ تھا لہذا مسلسل قبر میں انھیں ثواب ملے گا ۔

اگر امام سے رابطہ ہو گیا تو ہر چیز آپ کے قدموں میں آ جا ئے گی جس کا رابطہ امام سے ہو گیا وہ دنیا کا بھی بادشاہ آخرت میں بھی اُس کے لئے نجات ہے را بطہ کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ امام کے اخلاق کی کچھ صفات ہم اپنے اندر پیدا کریں اگر اخلاق امام کو جانناہے تو کو ئی مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ رسول خدا نے فر ما یا ”اولنا محمد اوسطنا محمد آخرنا محمد ہمارا پہلا بھی محمد ہمارا در میانی بھی محمد ہمارا آ خری بھی محمد ہم بارہ کے بارہ محمد ہیں لہذا جو اخلاق مو لا علی کا ہے وہی اخلا ق امام حسن کا ہے جو اخلا ق امام حسن کا ہے و ہی اخلاق امام حسین کا ہے جو اخلاق ہمارے اہل بیت ٪کا ہے وہی اخلاق ہم اپنے اندر پیدا کر لیا تو یقیناً امام سے رابطے میں دیر نہیں ہو گی ہمارے اہل بیت ٪کا اخلاق کس قدر اعلی تھا کس قدر عظیم تھا کہ دشمن بھی ان کے اندر نقص تلاش نہ کرسکا اہل بیت ٪کس قدرحلیم تھے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ میں آ جا تے ہیں ایک شام کا رہنے والا آ یا اور امام حسن (ع) کو گالیاں دینا شروع ہو گیا تو وہ الفاظ اصحاب کے لئے نا قابل برداشت تھا انہوں نے کہا مو لا ہم اس کا جواب دیں گے تو مولا نے کہا نہیں نہیں! جس قدر اُس کو بر ابھلا کہنا تھا امام سنتے رہے آخر وہ تھک گیا جب وہ تھک گیا تو امام نے آگے بڑھ کر مسکرا کر فر ما یا تم مسافر لگتے ہو اگر تمہیں گھر کی ضرورت ہے تو میں گھر دینے کے لئے تیار ہوں اگر بیمار لگتے ہو تو میں تیرے لئے طبیب لا نے کے لئے تیار ہوں اگر مقروض ہو تو میں تیرا قرض ادا کر نے کے لئے تیار ہو ں یعنی اس نے بداخلاقی کی حد کر دی اور امام معصوم نے کر م کی حد کردی اس قدر امام اس کے دل میں پیوست ہو گئے کہ روتے روتے امام کے قدموں پر گر گیا کہنے لگا مو لا جب تک میں نے آپ سے ملاقات نہیں کی تھی جو آپ کے خلاف میں نے پروپکنڈے سنے تھے جب میں شام میں تھا اورجب میں نے آ پ کو نہیں دیکھا تھا تو دنیا میں سب سے زیادہ مجھے آ پ سے نفر ت تھی دنیا میں سب سے زیادہ آ پ سے دشمنی تھی مگر جب میں نے ابھی آپ کو دیکھا تو اس وقت کائنات میں سب سے زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے اہل بیت کا اخلاق کیا ہے اگر وہ اخلاق ہمارے اندر آ جا ئے تبھی امام زمانہ سے رابطہ ہو گا را بطے کے لئے ایک کام ضرور کیا کریں کم سے کم مہینے میں ایک مرتبہ امام زمانہ کو اپنے گھر دعوت دیاکرو جب کہ جو بھی ہمیں نعمتیں مل رہی ہیں وہ سب امام کے صدقے میں مل رہی ہیں ہمیں چاہئے کہ امام کو کم سے کم ایک مر تبہ اپنے گھر میں بلا ئیں اور خود امام نے فر ما یا ہم آ ئیں گے ہم کہیں گے امام کیسے آ ئیں گے امام نے فر ما یا: اے مومنوں جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد دعائے ندبہ کا انتظام کیاکرو تو یقیناً ہم تمہارے گھر میں آ ئیں گے مشہد میں حرم امام رضا (ع) میں جمعہ کے دن پچاس سا ٹھ ھزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں دعائے ندبہ ہو تی ہے اور وہاں پر انہوں نے ایک خاص گھر امام زمانہ کا بنا یا ہے اُس کا نام انہوں نے مھدیہ رکھا ہے وہاں پر بھی جمعہ کے دن دس بیس ہزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں سب کو ناشتہ بھی دیا جا تا ہے بلکہ وہاں لو گوں کے گھروں میں بھی دعائے ندبہ ہو تی ہے امام زمانہ سے رابطہ کر نے کے لئے کم سے کم یہ دعائے ندبہ کا انتظام کیا جا ئے اس سے رزق میں بھی ترقی ہو گی ا ور جو بھی بیماری ہو گی وہ ختم ہو جا ئے گی ۔

نجف اشرف میں ایک شخص رہا کر تا تھا ان کی والدہ ہر روز اپنے گھر میں چھوٹی سی مجلس کا انتظام کر تی تھی نجف میں ایک زمانہ ایسا آیا کہ وہاں وبا آئی ا ور جب وبا ا ئی تو کو ئی گھر نہ بچا کسی نہ کسی گھر میں ایک دو لوگ مر چکے تھے مگر اُن کا واحد گھرتھا کہ ان کے گھر کا کو ئی فرد نہ مر ا تو وہ لوگ سونچنے بیٹھ گئے کہ ہم کیوں نہیں مرے انہیں فقط یہ بات سمجھنے میں آ ئی کہ ہر دن امام حسین کی مجلس منعقد ہو نے کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں تا کہ امام زمانہ سے رابطہ منعقد ہو تو آپ اسلام کے لئے تبلیغ کریں اگر آپ نے کسی غیر مسلمان کو مسلمان بنا یا تو یقین جا نئے کہ امام کی زیارت نصیب ہو گی ۔

لکھنے والا کہتاہے ۹۵ میں جب امریکا میں نیانیا انٹرنیٹ آ یا تھا اُس زمانے میں اُن کا مشغلہ یہ ہو گیا تھا کہ وہ عیسائیوں سے مناظرہ کرے تو بہت بڑے بڑے پادریوں نے ان سے کتابیں مانگیں تو یہ اُن کا تبلیغ کا سلسلہ تھا تو اُسی دوران اُس شخص نے خواب دیکھا اور اُسی خواب میں انہوں نے وہ منظر دیکھا جو مباھلہ کا منظر تھا تو انہوں نے پرکٹکل دیکھا کہ اس سے کتنا ثواب ہو تا ہے اور کیسے اہل بیت را ضی ہو تے ہیں اور اپنی زیارت کراتے ہیں دیکھا کہ مباہلہ کے میدان میں پنجتن پاک کی زیارت اس طر ح سے نصیب ہو ئی اگر آپ تبلیغ اسلام کریں گے خصوصاً عیسائیوں کو مسلمان بنا نے کا کام شروع کریں گے تو امام زمانہ سے را بطہ میں دیر نہیں ہو گی فوراً آپ کا رابطہ ہو جا ئے گا یہودی پوری دنیا پر قابض ہو چکے ہیں اس کی کو ئی سا زش مسلمانوں کے پاس نہیں ہے یہ پرسیڈنٹ یا وزیر ہیں یہ سب ان کے پٹھو ہو چکے ہیں۔

اقتصادیات پر ان کا کنٹرول ہے میڈیا پر اُن کا کنٹرول ہے آج یہودی چا ہتے ہیں تا کہ سارے مسلمانوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیں عراق کے بعد پاکستان کا نمبر ہے تو لہذا صرف و صرف ہمارے پاس ایک طریقہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو مسلمان بنا ئیں تو ایک دن ان کی مجارٹی آ گے آ سکتی ہے کہ ان یہودیوں کا کنٹرول وہاں سے ختم ہو جا ئے یہ با ت بھی تجربے کی بنیاد پر ہے جیسے انگلنڈ میں کئی مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ برٹش گورمنٹ جیسے دوسروں اسکولوں کو برانچ دیتی ہے وہ مسلمان اسکولوں کوبھی برانچ دیں مگر نہیں یہ برانچ نہیں مل رہی تھی مگر جب اُن کا گانے والا مسلمان ہو گیا تو اس نے اسکول کھولا کیوں کہ وہ ان کا گورا تھا وہ جا کر کیس لڑا جب اُ س کو اسکول بنا نے کی برانچ مل گئی تود وسرے مسلمانوں کے لئے بھی دروازے کھل گیا اگر ہم انہیں مسلمان بنائیں اگران کے بڑے بڑے پروفسرز کو ان کے اہم لوگوں کو مسلمان بنائیں تو یہودیوں کا زور ٹوٹ سکتا ہے اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے حکمران بھی ان کے پٹھو ہیں ہمارے ملک میں سائنسدانوں کو ذلیل کر دیا حالا نکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم ملک کی خدمت کر نا چا ہتے ہیں اب کون پاکستانی ا ئے گا کیوں کہ ایک دروازہ ان کا بند کر دیا گیا ہے انہیں کہا گیا کہ اگر پاکستان جاو گے تو تمہیں ذلیل کر دیا جا ئے گا احمد جن کا انتقال ہو گیا ہے انہوں نے بہت تبلیغ کی مگران کی کتابیں پندرہ سولہ ہیں اس نے اپنی زندگی میں پچاس ہزار سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنا یا تھا اس کی کتابیںآ پ پڑھ لیں تو ایک عیسائی کو مسلمان بنا سکتے ہیں عیسا ئیوں کے پاس اصلا کچھ بھی نہیں ہے توریت سے وہ کئی مناظروں میں شکست کھا چکے ہیں اور وہ رو حانی طور پر بالکل تباہ ہو چکے ہیں ان کے یہاں تین خدا کا تصور ہے ایک God دوسر ا jeses یعنی حضرت عیسیٰ تیسرا Holy gost یعنی روح القدس جب کہ ہمارے یہاں توحید ہے ان کا عیقدہ خود ان کی کتاب سے ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ قاتل ہیں ہو لی ٹرنی کا عقیدہ وہ بالکل غلط ہے حضرت عیسی خدا نہیں ہیں نہ خدا کے بیٹے ہیں آ یت There is non like god کہ کو ئی خدا جیسا نہیں ہے یہ بالکل اسی آ یت کا تر جمہ ہے ”لیس کمثلہ شئی“ کو ئی اللہ جیسا نہیں ہے چپڑ ۲۵آ یت نمبر۱۳ اس آ یت میں یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کہہ رہا ہے look my servent jeses

خدا کہہ رہا ہے اے میرے نوکر عیسی سن اب جو نوکر ہے وہ خدا کیسے ہے خود ان کی توریت میں یہ جملہ مو جود ہے اس انجیل کی آ یت چپڑ۱۲ آیت کا نمبر ۱۸ look my servent jeses ا پ خود عیسائیوں سے سوال کر سکتے ہیں کہ عیسی کیسے خدا ہیں انہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو خدا خود عیسیٰ سے کہہ رہا ہے اے عیسی تم میرے نوکر ہو اُس کے بعد دو سری آ یت وہ بے انتھا اہم ہے صرف یہ آ یت اگر آ پ یا د کر لیں تو اُ ن کے عقیدہ کو بگاڑ سکتے ہیں چپٹر مارسورن آ یت کا نمبر ۲۹ ہے jeses replied" The most important camandment is this her o Israil the lord over god is one only non کہ حضرت عیسی نے عیسائیوں کو جواب دیا اے عیسائیوں ہمارا خدا ایک ہے( تین نہیں ہیں) اور یہی ایک ہمارا خدا ہے ہمارا ماسٹر ہے اس کا جواب یہ عیسائی نہیں دے دسکتے ہیں ہم انھی کی کتاب سے ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ ھو لی ٹرنٹی کا عقیدہ غلط ہے یہ تو ریت و انجیل کے خلاف ہے ۔

جب بھی مشکل کا وقت ا ئے تو امام زمانہ کی زیارت پڑہا کریں امام زمانہ آ ج بھی ہماری مدد کر رہے ہیں مریضوں کو شفا دے رہے ہیں جب ایران میں عملیات کربلا ۵ میں حملہ کیا گیا تو وہاں ایک مو من تھا بسیجی (یعنی رضا کا ر) تھااس کا نام جاوید تھا وہ زخمی ہو گیا تھا اُ س کے کان کے پردے پھٹ گئے تھے تو اسے ہاسپٹل میں داخل کیا گیا تو وہ وہاں نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا تو اُس نے وہاں دیکھا کہ مسجد کو سجا یا گیا ہے تو اس نے لوگوں سے سوال کیا کہ ا ج مسجد کیوں سجا ئی گئی ہے تو لوگوں نے کہا کہ آج پندرہ شعبان ہے امام زمانہ کی ولا دت کا دن ہے تو وہ مریض بھی تھا تو عشق امام اس کے دل میں پیدا ہوگیا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ڈاکٹر کے پاس ا یا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھے ظاہراً لاعلاج کر دیا ہے مگر آ ج پندرہ شعبان ہے میں مسجد جمکران جا نا چاہتا ہوں اور وہاں جاکر التجا کروں گا کہ مولا مجھے صحت عطا کریں کم ایمان والا ڈاکٹر تو اُس نے قلم سے لکھ کر کہا کہ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم پڑھے لکھے آدمی ہو اگر ایسے ہی شفا ملتی تو پھر یہ ہاسپٹل بند ہو جا تے تو اُس کو اس جملہ سے زیادہ تکلیف ہو ئی کہ یہ تو خود کو شیعہ کہہ رہا ہے مگر اس نے امام زمانہ کی توہین کی ہے یعنی کہ امام زما نے کے پاس طاقت نہیں ہے کہ امام زمانہ ایک مریض کو شفا دے سکیں مگر اُس نے ڈاکٹر سے کہا کہ بہر حال مجھے جا نا ہے تو وہ مسجد جمکرآن آ گیا اور مسجد جمکران میں دو رکعت نماز ادا کی اور رو رو کر دعا کی کہ اے مولا مجھے اپنے کانوں کی فکر نہیں ہے مو لا اگر میں آپ پر ستر مرتبہ بھی قربان ہو جا وں اور پھر زندہ کیا جاوں تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹنے والا ہوں میں پھر بھی آ پ کے قدموں پر قربان ہو جاوں گا مگر میں صرف اس ڈاکٹر کو بتا نا چا ہتا ہوں کہ ہمارے امام آج بھی مو منین کی مددکرتے ہیں رو رو کر وہیں اس کی آنکھ لگ گئی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ اچانک شور ہوا ہے کہ امام زما نہ آ رہے ہیں اس نے خواب میں مولا کی زیارت کی اوربہت ہی لذت حاصل کی اور واقعاً اگر کو ئی خواب میں کسی معصو م کو دیکھے تو وہ پورا دن انسان کا نورانی گذرے گا اور اسی طرح ہوا کہ اُس کا وہ پورا دن اچھاگذرا لیکن اس کے کان بالکل ٹھیک نہیں ہو ئے تھے اب جیسے ہی وہ ہاسپٹل میں داخل ہوا تو اچانک کسی نرس نے دروازہ بند کیا تو اُس نے دروازے کی آ واز سنی تو نرس سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلاو کہ میرے کان ٹھیک ہو رہے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے آ خر ڈاکٹر آ گئے اس کو معاینہ کے لئے لے گئے جب اس کے کانوں کے پردوں کو دیکھا کہ الحمد للہ وہ بالکل صحیح سن بھی ر ہا تھا اور اسی طرح سے اس کی ساری مشکل کو امام زمانہ نے حل کردی۔

اگر آج بھی اگر ہم امام زمانہ سے رابطہ کریں تو ہماری مشکلیں حل ہو سکتی ہیں مریضوں کو شفا مل سکتی ہے ہمارے امام موجود ہیں امام کی طرف سے کو ئی دیر نہیں ہے ہمارے اندر جو خامیان ہیں ہمارے اندر طہارت کی کمی ہے ہمارے گناہ زیادہ ہو گئے ہیں امام نے خود فر ما یا: اے شیعو! ہم تم سے دور نہیں ہیں تمہارے گناہوں نے تم کو ہم سے دور کردیا ۔

مجلس ۲

بسم الله الرحمن الرحیم

فقد قال الله تبارک و تعالیٰ فی کتابه المجید بسم الله الرحمن الرحیم

( بقیة الله خیرلکم ان کنتم مو منین ) “ (سورہ ہود آیت ۸۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہورہا ہے کہ بقیة اللہ یعنی امام زمانہ (عج) اس بزرگ و عظیم الشان ہستی کو خداوند عالم نے آج تک باقی رکھا ہے ان کا وجود تمہارے لئے خیر ہے تمہارے لئے بہترہے مگر شرط یہ ہے کہ اگر تم مو من بن جاومو من کے لئے وجود فرزند زہرا سے خیر ہی خیر ملتا ہے ہمارے امام غیبت میں ہیں غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اس میں ہماری اور آپ کی ذمہ داریاں ہیں پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ معرفت امام زمانہ نوجوانوں کے دلوں میں پیدا کریں اپنے بچوں کو سکھائیں انہیں تعلیم دیں کہ معرفت امام زمانہ کیا ہے جو بھی خدا ہمیں نعمت دیتا ہے ان کے صدقے میں دے رہا ہے اور اس قر آن کی بہت ساری آیات با ر بار بتلا رہی ہیں کہ جو بھی نعمت مل رہی ہے وہ بارہویں امام حجت خدا کے صدقے میں مل رہی ہے کا فر کو بھی ا گر مل رہی ہے تو ان کے صدقے میں مل رہی ہے مو من کو بھی اگر مل رہی ہے ان کے صدقے میں مل رہی ہے اور اگر جو شبہات ہیں سوالا ت ہیں ان کے بے شما ر جوابات ہیں کبھی کبھی یہ سورج بادلوں کے پیچھے چھپ جا تا ہے مگر یہ نہیں کہ اس کا فیض منقطع ہو گیا ہے یہ معمولی سورج اس کی شعائیں وہ بادلوں پا ر کرتے ہو ئے ہم تک پہنچ جا تی ہے بادلوں سے گذرے تے ہو ئے زمین پر دریاوں پر پہاڑوں پر پہنچ جا تی ہے یہ تو معمولی نور ہے مگر قرآن کہہ رہا ہے ”( الله نور سموات والارض ) اللہ کا نور وہ نور کون ہے حجت خدا امام خدا کا نور ہے زمین پر بھی اور آسمان پر بھی لہذا نور امام کا مقابلہ سورج کا نور نہیں کرسکتا ہے لہذا اگر غیبت کے پردے میں بھی چلے جا ئیں تب بھی امام کے وجود سے مسلسل فیض جاری ہے لوگ کہتے ہیں کہ امام تو غیبت میں ہیں امام کے وجود سے تب فائدہ ملے گا جب امام آپ کے سامنے ہو ں آپ جا کر امام سے مدد لیں آپ جا کر امام سے مسئلہ پوچھیں آپ کے امام تو غیبت میں ہیں تو اس کا کیا فائدہ اس سوال کا جواب کہ امام ہیں غیبت میں غیبت میں رہکر امام ہمیں کیسے فائدہ دیتے ہیں کیسے ہدایت دیتے ہیں ہم سب مسلمان ہیں ہم سب مسلمانوں کا قرآن پر ایمان ہے ہم سب کو ایک ایک لفظ قرآن پر ایمان ہے کہ قرآن نے خود کہا ہے میری تلاوت سے پہلے ضرور کہا کرو ”( اعوذبالله من الشیطان العین الرجیم ) “ پھرقرآن کی تلاوت کرو تا کہ تم شیطان کے شر سے بچ جاو یہ شیطان منحوس جو آج تک زندہ ہے کہا ہم سے کسی نے شیطان کو دیکھا ہے کسی نے نہیں دیکھا ہے ،مگر اس کے وجود سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہے یہ خبیث نظر تو نہیںآ تا مگر ضرور ہے تو وہ گمراہ کیسے کرتا ہے کہا شیطان نے ابھی تک کسی کا ہاتھ پکڑا کہ چلو سنیما چلیں نہیں ایسا نہیں ہے شیطان کہتا ہے کہ چلو جوا کھیلنے چلیں نہیں کیا شیطان ہا تھ پکڑکر کہتا ہے کہ چلو نشے کر نے چلیں پھر شیطان کیسے گمراہ کر تا ہے تو قر آن مجید میں بتلا یا ” یوسوس فی صدور الناس من الجنة و الناس “ لوگو! یہ شیطان وسوسہ کرتا ہے یہ کو ئی ہاتھ پکڑ کر شراب خانہ میں نہیں لے جا تا ہے بر ائی کی طرف نہیں لے جا تا کہا گناہ کا خیال لا تا ہے اگر ہم پاکستان میں ہو ں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مکہ میں ہوں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مدینہ چلے جا ئیں تو وہاں پر بھی وہ ہمیں گمراہ کرتا ہے ہم جہاں جہاں بھی چلے جا ئیں تو یہ شیطان اتنا خبیث ہے کہ وہ وہاں بھی ہمیں نہیں چھوڑ تا اور وسوسہ کرتا ہے یہ شیطان کون ہے دشمن خدا ہے شیطان کون ہے جسے اللہ نے نکال دیا جب دشمن خدا کے پاس جب گمراہ کرنے والے شیطان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ غیب میں رہکر پوری دنیا کو گمراہ کررہا ہے تو بتا ئیے جو نور خد ابھی ہو حجت خدا بھی ہو اور امام بھی ہو اور بقیة اللہ بھی ہو تو کیا خدا کے نمائندے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ غیب میں رہکر انسانوں کو ہدا یت دے۔

معرفت امام دلوں میں پیدا کر نا چاہئے لوگوں کے سوالا ت کے جوابات آنے چا ہئے تا کہ لوگوں کو گمراہی سے بچا ئیں امام زمانہ (عج) ، رسول خدا (ص) فر ما تے ہیں آ خری زمانے میں جو میرے بارہویں بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا انتظار تو ہم سب کر رہے ہیں اہل تسنن بھی کر رہے ہیں انتظار تو سبھی کر رہے ہیں مگر رسول خدا فر ما رہے ہیں جو میرے بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا اس کا مقام جنگ بدر اور جنگ احد میں شہیدہو نے والے میرے صحابیوں کے برابر ہے ۔ رسول نے فر ما یا کے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو کے جو جنگ احدمیں شہیدہو گئے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو جو جنگ بدر میں شہید ہو گئے مگر شر ط یہ ہے کہ آ خری زمانے میں سر کار کا صحیح انتظا ر کرو ،اب دیکھئے کہ صحیح انتظار کیا ہے ایک انتظار جھوٹا ہو تا ہے اور ایک سچا انتظار ہو تا ہے مثال کوئی کہے کہ آج میرے پاس ایک عظیم ترین بلند مرتبہ والا شخص میرے پاس مہمان بن کر ا نے والا ہے اور جب ہم نے آپ کے گھر کو دیکھا تو دیکھا کہ ایک طرف کچرا پڑا ہوا ہے دو سری طرف مٹی پڑی ہو ئی ہے اور کو ئی انتظام نہیں ہے ہم کہیں گے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ کائنات کا عظیم شخص ہما رے یہاں آ نے والا ہے سب سے محبوترین شخص جس پر جان فدا وہ آنے والا ہے اور انھوں نے کچرا سا منے رکھ دیا ہے تو ہم انہیں کہیں گے کہ آ پ یہ جھوٹا انتظار کررہے ہیں اگر کائنات کا سب سے محبوترین شخص آ نے والا ہے تو آ پ کو اس کے کمرے کو کتنا نورانی بنا نا تھا کتنی خوشبو کی چھنکار سے اسے معطر کر نا تھا تا کہ دیکھنے والے بھی کہیں کہ یہ سچا انتظار ہے تو ہم سب کہتے ہیں العجل مو لا جلدی ا ئیے ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم سچا انتظار کر رہے ہیں یا جھوٹا انتظار کر رہے ہیں اور دیکھئے امام کی نظر وہ ہمارے گھروں پر نہیں ہے کہ کہیں اُس کا کتنا بڑا بنگلا ہے کہ فلاں کا کتنا چھوٹا فلیٹ ہے کہ فلان جھونپڑی میں رہتا ہے نہیں کبھی بھی امام یا نبی گھروں کو نہیں دیکھتے کہ فلان کا گھر بڑا ہے یا چھوٹا ہے قرآن نے بتلا دیا کہ امام کس چیز کو دیکھتے ہیں فر ما یا( ان اکر مکم عند ا لله اتقاکم ) (سورہ حجرات آیت ۱۳) خدا نبی و امام کیا دیکھتے ہیں وہ ہمارے دلوں کودیکھتے ہیں کہ اس کے دل میں کتنا تقوا کا نور ہے جو انسان کہہ ر ہا ہے کہ مو لا آئیے آ ئیے و ہ اپنے دل کو دیکھے کہ کیا وہ اس نے اپنے دل کو صاف کیا ہے یا نہیں صرف زبان سے کہہ رہا ہے مو لا آ جائیے مگر دل کو اس نے صاف نہیں کیا ہے دل میں گناہ ہے دل میں یہ سب گناہوں کی نجاست ہے حقوق خدا ادا نہیں کر رہا ہے پھر بھی کہہ ر ہا ہے العجل العجل تو یہ تو جھوٹا انتظار ہے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے فر ما یا : مر نے کے بعد انسان کا اعمال نامہ بند ہو جا تا ہے مگر تین اعمال کریں تو آ پ کا اعمال نامہ بند نہیں ہو گا ایک تو ا گر آپ نے مسجد بنا ئی ہے امام بارگاہ بنا ئی ہے جب تک اس مسجد میں نماز ی نماز پڑ ھ رہے ہیں تو آ پ کو قبر میں بھی اُس کا ثواب ملتا رہے گا تو اعمال نامہ بند نہیں ہو گا دوسری چیز یہ ہے کہ اگر اچھی کتاب لکھو گے اسے چھپوادو تو وہ اجر تمہا رے لئے جاری رہے گا۔

ہمارے پاس کتابوں کی بے انتھا کمی ہے اور تبلیغ کے لئے بہترین ذریعے کتا ب ہیں چند سال لنڈن میں یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہماری محبت کے بغیر الحمد للہ کتنے لوگ ہیں کہ وہ خود شیعہ ہو گئے ہیں یہ لوگ تیجانی کی کتاب سے جس کا نام Then i was guided او دوسری Nights of peshwer یہ وہ کتابیں جن سے مسلمان شیعہ ہو جا ئے یا نیا مسلمان مسلمان ہو جائے ان کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے ہم دنیا میں تیس کروڑ شیعہ ہیں اور انگلش میں ہمارے پاس وہ کتابیں جن کو کو ئی پڑھ کر کنورٹ ہو جا ئے اور مذہب اہل بیت کو قبول کر لے اُس کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے یہ کتابیں بیس ہزار میں بھی چھپ سکتی ہیں اس میں جو رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کم لوگ ہیں جو تر جمہ جانتے ہیں اگر اس نکتہ کی طرف لوگ متوجہ ہو جا ئیں خصوصاً انگلش میں ان کا تر جمہ کروا نا چا ئیے کیوں کہ آ ج دنیا میں جو انٹرنشنل زبان چل رہی ہے وہ انگلش ہے اللہ کے رسول فر ما تے ہیں کہ کتاب چھپواکے مرو جب تک کتاب پڑھنے والے پڑھیں گے تمہیں قبر میں ثواب ملتا رہے گا اور عذا ب کم ہوتا رہے گا نعمتیں بڑھتی رہیں گی جتنا بھی کا غذ ضعف ہو مگر کتاب کی کم سے کم ایک کتاب کی سو سال تک عمر ہے اور تیسری چیز جو اللہ کے رسول نے فر ما یا اولاد صالح اگر بچہ صالح ہے اگر آ پ نے بچے کو نمازی بنا یا جب تک وہ نماز تہجد پڑھے گا قبر میں ا پ کو ثواب ملے گا بچے کو آپ نے عشق حسین سکھا یا اگر وہ کربلا کی زیارت کے لئے جا ئے گا تو قبر میں آپ کوثوا ب ملے گا امام ز مانہ (عج) کے بارے میں رسول خدا (ص) نے فر ما یا ہے اگر کوئی چو تھی چیز کر کے مرے تو اُس کا اعمال نامہ کبھی بند نہیں ہو گا وہ کیا ہے ؟ وہ ہے ”رابطو ا“ گر کو ئی انسان اپنے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرے ، ہم سب امام زما نہ کے عاشق ہیں مگر رابطہ بہت کم لوگوں کا امام کے ساتھ ہے اگر کو ئی اپنے زمانے کے امام سے رابطہ قائم کر لے اُن کا کبھی اعمال نامہ بند نہیں ہو تا بلکہ قبر میں بھی اُن کا اعمال نامہ کھلا ہوا ہے کیوں کہ امام یہاں موجود ہیں اور اُن کا زندگی میں امام سے رابطہ تھا لہذا مسلسل قبر میں انھیں ثواب ملے گا ۔

اگر امام سے رابطہ ہو گیا تو ہر چیز آپ کے قدموں میں آ جا ئے گی جس کا رابطہ امام سے ہو گیا وہ دنیا کا بھی بادشاہ آخرت میں بھی اُس کے لئے نجات ہے را بطہ کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ امام کے اخلاق کی کچھ صفات ہم اپنے اندر پیدا کریں اگر اخلاق امام کو جانناہے تو کو ئی مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ رسول خدا نے فر ما یا ”اولنا محمد اوسطنا محمد آخرنا محمد ہمارا پہلا بھی محمد ہمارا در میانی بھی محمد ہمارا آ خری بھی محمد ہم بارہ کے بارہ محمد ہیں لہذا جو اخلاق مو لا علی کا ہے وہی اخلا ق امام حسن کا ہے جو اخلا ق امام حسن کا ہے و ہی اخلاق امام حسین کا ہے جو اخلاق ہمارے اہل بیت ٪کا ہے وہی اخلاق ہم اپنے اندر پیدا کر لیا تو یقیناً امام سے رابطے میں دیر نہیں ہو گی ہمارے اہل بیت ٪کا اخلاق کس قدر اعلی تھا کس قدر عظیم تھا کہ دشمن بھی ان کے اندر نقص تلاش نہ کرسکا اہل بیت ٪کس قدرحلیم تھے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ میں آ جا تے ہیں ایک شام کا رہنے والا آ یا اور امام حسن (ع) کو گالیاں دینا شروع ہو گیا تو وہ الفاظ اصحاب کے لئے نا قابل برداشت تھا انہوں نے کہا مو لا ہم اس کا جواب دیں گے تو مولا نے کہا نہیں نہیں! جس قدر اُس کو بر ابھلا کہنا تھا امام سنتے رہے آخر وہ تھک گیا جب وہ تھک گیا تو امام نے آگے بڑھ کر مسکرا کر فر ما یا تم مسافر لگتے ہو اگر تمہیں گھر کی ضرورت ہے تو میں گھر دینے کے لئے تیار ہوں اگر بیمار لگتے ہو تو میں تیرے لئے طبیب لا نے کے لئے تیار ہوں اگر مقروض ہو تو میں تیرا قرض ادا کر نے کے لئے تیار ہو ں یعنی اس نے بداخلاقی کی حد کر دی اور امام معصوم نے کر م کی حد کردی اس قدر امام اس کے دل میں پیوست ہو گئے کہ روتے روتے امام کے قدموں پر گر گیا کہنے لگا مو لا جب تک میں نے آپ سے ملاقات نہیں کی تھی جو آپ کے خلاف میں نے پروپکنڈے سنے تھے جب میں شام میں تھا اورجب میں نے آ پ کو نہیں دیکھا تھا تو دنیا میں سب سے زیادہ مجھے آ پ سے نفر ت تھی دنیا میں سب سے زیادہ آ پ سے دشمنی تھی مگر جب میں نے ابھی آپ کو دیکھا تو اس وقت کائنات میں سب سے زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے اہل بیت کا اخلاق کیا ہے اگر وہ اخلاق ہمارے اندر آ جا ئے تبھی امام زمانہ سے رابطہ ہو گا را بطے کے لئے ایک کام ضرور کیا کریں کم سے کم مہینے میں ایک مرتبہ امام زمانہ کو اپنے گھر دعوت دیاکرو جب کہ جو بھی ہمیں نعمتیں مل رہی ہیں وہ سب امام کے صدقے میں مل رہی ہیں ہمیں چاہئے کہ امام کو کم سے کم ایک مر تبہ اپنے گھر میں بلا ئیں اور خود امام نے فر ما یا ہم آ ئیں گے ہم کہیں گے امام کیسے آ ئیں گے امام نے فر ما یا: اے مومنوں جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد دعائے ندبہ کا انتظام کیاکرو تو یقیناً ہم تمہارے گھر میں آ ئیں گے مشہد میں حرم امام رضا (ع) میں جمعہ کے دن پچاس سا ٹھ ھزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں دعائے ندبہ ہو تی ہے اور وہاں پر انہوں نے ایک خاص گھر امام زمانہ کا بنا یا ہے اُس کا نام انہوں نے مھدیہ رکھا ہے وہاں پر بھی جمعہ کے دن دس بیس ہزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں سب کو ناشتہ بھی دیا جا تا ہے بلکہ وہاں لو گوں کے گھروں میں بھی دعائے ندبہ ہو تی ہے امام زمانہ سے رابطہ کر نے کے لئے کم سے کم یہ دعائے ندبہ کا انتظام کیا جا ئے اس سے رزق میں بھی ترقی ہو گی ا ور جو بھی بیماری ہو گی وہ ختم ہو جا ئے گی ۔

نجف اشرف میں ایک شخص رہا کر تا تھا ان کی والدہ ہر روز اپنے گھر میں چھوٹی سی مجلس کا انتظام کر تی تھی نجف میں ایک زمانہ ایسا آیا کہ وہاں وبا آئی ا ور جب وبا ا ئی تو کو ئی گھر نہ بچا کسی نہ کسی گھر میں ایک دو لوگ مر چکے تھے مگر اُن کا واحد گھرتھا کہ ان کے گھر کا کو ئی فرد نہ مر ا تو وہ لوگ سونچنے بیٹھ گئے کہ ہم کیوں نہیں مرے انہیں فقط یہ بات سمجھنے میں آ ئی کہ ہر دن امام حسین کی مجلس منعقد ہو نے کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں تا کہ امام زمانہ سے رابطہ منعقد ہو تو آپ اسلام کے لئے تبلیغ کریں اگر آپ نے کسی غیر مسلمان کو مسلمان بنا یا تو یقین جا نئے کہ امام کی زیارت نصیب ہو گی ۔

لکھنے والا کہتاہے ۹۵ میں جب امریکا میں نیانیا انٹرنیٹ آ یا تھا اُس زمانے میں اُن کا مشغلہ یہ ہو گیا تھا کہ وہ عیسائیوں سے مناظرہ کرے تو بہت بڑے بڑے پادریوں نے ان سے کتابیں مانگیں تو یہ اُن کا تبلیغ کا سلسلہ تھا تو اُسی دوران اُس شخص نے خواب دیکھا اور اُسی خواب میں انہوں نے وہ منظر دیکھا جو مباھلہ کا منظر تھا تو انہوں نے پرکٹکل دیکھا کہ اس سے کتنا ثواب ہو تا ہے اور کیسے اہل بیت را ضی ہو تے ہیں اور اپنی زیارت کراتے ہیں دیکھا کہ مباہلہ کے میدان میں پنجتن پاک کی زیارت اس طر ح سے نصیب ہو ئی اگر آپ تبلیغ اسلام کریں گے خصوصاً عیسائیوں کو مسلمان بنا نے کا کام شروع کریں گے تو امام زمانہ سے را بطہ میں دیر نہیں ہو گی فوراً آپ کا رابطہ ہو جا ئے گا یہودی پوری دنیا پر قابض ہو چکے ہیں اس کی کو ئی سا زش مسلمانوں کے پاس نہیں ہے یہ پرسیڈنٹ یا وزیر ہیں یہ سب ان کے پٹھو ہو چکے ہیں۔

اقتصادیات پر ان کا کنٹرول ہے میڈیا پر اُن کا کنٹرول ہے آج یہودی چا ہتے ہیں تا کہ سارے مسلمانوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیں عراق کے بعد پاکستان کا نمبر ہے تو لہذا صرف و صرف ہمارے پاس ایک طریقہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو مسلمان بنا ئیں تو ایک دن ان کی مجارٹی آ گے آ سکتی ہے کہ ان یہودیوں کا کنٹرول وہاں سے ختم ہو جا ئے یہ با ت بھی تجربے کی بنیاد پر ہے جیسے انگلنڈ میں کئی مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ برٹش گورمنٹ جیسے دوسروں اسکولوں کو برانچ دیتی ہے وہ مسلمان اسکولوں کوبھی برانچ دیں مگر نہیں یہ برانچ نہیں مل رہی تھی مگر جب اُن کا گانے والا مسلمان ہو گیا تو اس نے اسکول کھولا کیوں کہ وہ ان کا گورا تھا وہ جا کر کیس لڑا جب اُ س کو اسکول بنا نے کی برانچ مل گئی تود وسرے مسلمانوں کے لئے بھی دروازے کھل گیا اگر ہم انہیں مسلمان بنائیں اگران کے بڑے بڑے پروفسرز کو ان کے اہم لوگوں کو مسلمان بنائیں تو یہودیوں کا زور ٹوٹ سکتا ہے اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے حکمران بھی ان کے پٹھو ہیں ہمارے ملک میں سائنسدانوں کو ذلیل کر دیا حالا نکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم ملک کی خدمت کر نا چا ہتے ہیں اب کون پاکستانی ا ئے گا کیوں کہ ایک دروازہ ان کا بند کر دیا گیا ہے انہیں کہا گیا کہ اگر پاکستان جاو گے تو تمہیں ذلیل کر دیا جا ئے گا احمد جن کا انتقال ہو گیا ہے انہوں نے بہت تبلیغ کی مگران کی کتابیں پندرہ سولہ ہیں اس نے اپنی زندگی میں پچاس ہزار سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنا یا تھا اس کی کتابیںآ پ پڑھ لیں تو ایک عیسائی کو مسلمان بنا سکتے ہیں عیسا ئیوں کے پاس اصلا کچھ بھی نہیں ہے توریت سے وہ کئی مناظروں میں شکست کھا چکے ہیں اور وہ رو حانی طور پر بالکل تباہ ہو چکے ہیں ان کے یہاں تین خدا کا تصور ہے ایک God دوسر ا jeses یعنی حضرت عیسیٰ تیسرا Holy gost یعنی روح القدس جب کہ ہمارے یہاں توحید ہے ان کا عیقدہ خود ان کی کتاب سے ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ قاتل ہیں ہو لی ٹرنی کا عقیدہ وہ بالکل غلط ہے حضرت عیسی خدا نہیں ہیں نہ خدا کے بیٹے ہیں آ یت There is non like god کہ کو ئی خدا جیسا نہیں ہے یہ بالکل اسی آ یت کا تر جمہ ہے ”لیس کمثلہ شئی“ کو ئی اللہ جیسا نہیں ہے چپڑ ۲۵آ یت نمبر۱۳ اس آ یت میں یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کہہ رہا ہے look my servent jeses

خدا کہہ رہا ہے اے میرے نوکر عیسی سن اب جو نوکر ہے وہ خدا کیسے ہے خود ان کی توریت میں یہ جملہ مو جود ہے اس انجیل کی آ یت چپڑ۱۲ آیت کا نمبر ۱۸ look my servent jeses ا پ خود عیسائیوں سے سوال کر سکتے ہیں کہ عیسی کیسے خدا ہیں انہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو خدا خود عیسیٰ سے کہہ رہا ہے اے عیسی تم میرے نوکر ہو اُس کے بعد دو سری آ یت وہ بے انتھا اہم ہے صرف یہ آ یت اگر آ پ یا د کر لیں تو اُ ن کے عقیدہ کو بگاڑ سکتے ہیں چپٹر مارسورن آ یت کا نمبر ۲۹ ہے jeses replied" The most important camandment is this her o Israil the lord over god is one only non کہ حضرت عیسی نے عیسائیوں کو جواب دیا اے عیسائیوں ہمارا خدا ایک ہے( تین نہیں ہیں) اور یہی ایک ہمارا خدا ہے ہمارا ماسٹر ہے اس کا جواب یہ عیسائی نہیں دے دسکتے ہیں ہم انھی کی کتاب سے ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ ھو لی ٹرنٹی کا عقیدہ غلط ہے یہ تو ریت و انجیل کے خلاف ہے ۔

جب بھی مشکل کا وقت ا ئے تو امام زمانہ کی زیارت پڑہا کریں امام زمانہ آ ج بھی ہماری مدد کر رہے ہیں مریضوں کو شفا دے رہے ہیں جب ایران میں عملیات کربلا ۵ میں حملہ کیا گیا تو وہاں ایک مو من تھا بسیجی (یعنی رضا کا ر) تھااس کا نام جاوید تھا وہ زخمی ہو گیا تھا اُ س کے کان کے پردے پھٹ گئے تھے تو اسے ہاسپٹل میں داخل کیا گیا تو وہ وہاں نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا تو اُس نے وہاں دیکھا کہ مسجد کو سجا یا گیا ہے تو اس نے لوگوں سے سوال کیا کہ ا ج مسجد کیوں سجا ئی گئی ہے تو لوگوں نے کہا کہ آج پندرہ شعبان ہے امام زمانہ کی ولا دت کا دن ہے تو وہ مریض بھی تھا تو عشق امام اس کے دل میں پیدا ہوگیا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ڈاکٹر کے پاس ا یا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھے ظاہراً لاعلاج کر دیا ہے مگر آ ج پندرہ شعبان ہے میں مسجد جمکران جا نا چاہتا ہوں اور وہاں جاکر التجا کروں گا کہ مولا مجھے صحت عطا کریں کم ایمان والا ڈاکٹر تو اُس نے قلم سے لکھ کر کہا کہ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم پڑھے لکھے آدمی ہو اگر ایسے ہی شفا ملتی تو پھر یہ ہاسپٹل بند ہو جا تے تو اُس کو اس جملہ سے زیادہ تکلیف ہو ئی کہ یہ تو خود کو شیعہ کہہ رہا ہے مگر اس نے امام زمانہ کی توہین کی ہے یعنی کہ امام زما نے کے پاس طاقت نہیں ہے کہ امام زمانہ ایک مریض کو شفا دے سکیں مگر اُس نے ڈاکٹر سے کہا کہ بہر حال مجھے جا نا ہے تو وہ مسجد جمکرآن آ گیا اور مسجد جمکران میں دو رکعت نماز ادا کی اور رو رو کر دعا کی کہ اے مولا مجھے اپنے کانوں کی فکر نہیں ہے مو لا اگر میں آپ پر ستر مرتبہ بھی قربان ہو جا وں اور پھر زندہ کیا جاوں تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹنے والا ہوں میں پھر بھی آ پ کے قدموں پر قربان ہو جاوں گا مگر میں صرف اس ڈاکٹر کو بتا نا چا ہتا ہوں کہ ہمارے امام آج بھی مو منین کی مددکرتے ہیں رو رو کر وہیں اس کی آنکھ لگ گئی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ اچانک شور ہوا ہے کہ امام زما نہ آ رہے ہیں اس نے خواب میں مولا کی زیارت کی اوربہت ہی لذت حاصل کی اور واقعاً اگر کو ئی خواب میں کسی معصو م کو دیکھے تو وہ پورا دن انسان کا نورانی گذرے گا اور اسی طرح ہوا کہ اُس کا وہ پورا دن اچھاگذرا لیکن اس کے کان بالکل ٹھیک نہیں ہو ئے تھے اب جیسے ہی وہ ہاسپٹل میں داخل ہوا تو اچانک کسی نرس نے دروازہ بند کیا تو اُس نے دروازے کی آ واز سنی تو نرس سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلاو کہ میرے کان ٹھیک ہو رہے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے آ خر ڈاکٹر آ گئے اس کو معاینہ کے لئے لے گئے جب اس کے کانوں کے پردوں کو دیکھا کہ الحمد للہ وہ بالکل صحیح سن بھی ر ہا تھا اور اسی طرح سے اس کی ساری مشکل کو امام زمانہ نے حل کردی۔

اگر آج بھی اگر ہم امام زمانہ سے رابطہ کریں تو ہماری مشکلیں حل ہو سکتی ہیں مریضوں کو شفا مل سکتی ہے ہمارے امام موجود ہیں امام کی طرف سے کو ئی دیر نہیں ہے ہمارے اندر جو خامیان ہیں ہمارے اندر طہارت کی کمی ہے ہمارے گناہ زیادہ ہو گئے ہیں امام نے خود فر ما یا: اے شیعو! ہم تم سے دور نہیں ہیں تمہارے گناہوں نے تم کو ہم سے دور کردیا ۔


8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40