معراج خطابت

معراج خطابت5%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69669 / ڈاؤنلوڈ: 7156
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نام کتاب: مجالس خطیب اعظم(حصہ اول)۔
مؤلف :  مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ خطیب۔
موضوع: مجالس،
مجموعہ مجالس خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری (طاب ثراہ خطیب)
کے کتاب کی مکمل تفصیل کے علاوہ مجالس عزاء کے مختلف کتب کی مکمل سیٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔


http://alhassanain.org/urdu/?com=book&view=category&id=۸۴


1

2

3

4

5

تہذ یبِ اسلامی

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمومنین اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةیُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَقفوَعْدًاعَلَیْهِ حَقًّافِی التَّوْرٰاة وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ) ۔

ارشاد ہورہا ہے کہ اللہ نے خرید لیا مومنین سے ان کے جان و مال کو، ا س کے عوض میں ان کیلئے جنت ہے۔وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں تو قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوبھی جاتے ہیں اور یہ اللہ پر لازمی طور پر وعدہ ہے، توریت، انجیل اور قرآن سب کتابوں میں اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے۔

اعلان ہوا خریداری کا۔ کس چیز کی خریداری؟ نفوس اور اموال کی خریداری۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مال کو بھی ذلیل نگاہ سے نہیں دیکھنے کے۔ جس طرح جان کا خریدار وہ ہے، اسی طرح مال کا خریدار بھی وہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ جان بھی اس قابل ہو کہ وہ خریداری کرسکے۔

کوئی ظاہردار اس دنیا میں ایسا ہوسکتا ہے جو کہے کہ ارے مجھے تو مال کی ضرورت نہیں، پیسے کی ضرورت نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ کہنا کہ صدقِ دل سے بھی ہو۔ یعنی ملتا ہو اور پھر کہے کہ ضرورت نہیں ہے۔ تو پھر ایک بات ہے اور جب نہیں ہے اور کہہ دیا کہ ضرورت نہیں ہے تو ا سکی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اگر سچائی کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ مال کی ضرورت نہیں ہے تو میں عرض کرتا ہوں کہ ازروئے قرآن مجید یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے کہ مال کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر خالق کی زندگی میں مثالی زندگی انسان کی یہ ہوتی کہ مال اس کے پاس ہو ہی نہیں تو ہر جگہ قرآن مجید میں ”( یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ ) “ کے ساتھ”( یُوْتُوْنَ الزَّکوٰةَ ) “ نہ ہوتا ، حالانکہ ہم قرآن مجید میں یہ دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جہاں جس جس انداز میں صلوٰة کا ذکر ہے، زیادہ تر اسی اندا زمیں زکوٰة کا ذکر ہے۔ اگر مدح کے طور پر ہے کہ”( اَقَامُواالصَّلوٰ ) ة“ تو اسی کے ساتھ ہے”( اَتُواالزَّکوٰة ) “۔ اگر ”( اَلْمُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰة ) “ہے، اس کے ساتھ ہے”( مُعْطُوْنَ الزَّکوٰة ) “ ہے۔

تو جہاں جہاں صلوٰة کا ذکر، وہاں وہاں زکوٰة کا ذکر۔ اب خیر ماشاء اللہ، یہاں کے بارے میں تو خیر معلوم نہیں مگر ہندوستان میں تو بالکل اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کہتا ہوں کہ نماز تو ہر آدمی پر واجب ہے لیکن زکوٰة جن پر واجب ہے، ان کو میں پوری مردم شماری کے لحاظ سے تناسب قائم کروں تو ممکن ہے کہ فیصد میں کوئی نہ نکال سکوں۔فی ہزار نکالوں، تو اگر معاشرہ ایسا ہوا کہ فی ہزار میں ایک پر۔ اس کے پاس اتنا ہوا کہ اس کیلئے شرائط عائد ہوں تو بلاغت قرآن کے خلاف ہے کہ ہر جگہ صلوٰة کے ساتھ زکوٰة کا نام لے۔ اگر سو جگہ فرض کیجئے صلوٰة کا ذکر ہوتا تو دو ایک جگہ زکوٰة کا ذکر ہوجاتا کیونکہ یہ ہر ایک کی ضرورت کی چیز نہیں ہے۔ شاذونادر کوئی ہو کہ جس پر زکوٰة واجب ہو۔ تو ان کیلئے دو ایک جگہ حکم آجاتا لیکن یہ کہ ہر جگہ جہاں صلوٰة کا ذکر ، وہاں زکوٰة کا ذکر۔ا س کے معنی یہ ہیں کہ خالق کی نظر میں یعنی اسلام جس معاشرہ کی بنیاد

رکھنا چاہتا تھا، وہاں کوئی قلاش معاشرہ نہیں تھا۔ وہ کوئی مفلوک الحال معاشرہ نہیں تھا۔ وہ ایسا معاشرہ تھا جس میں ہر شخص پر جس طرح صلوٰة واجب ہے، اسی طرح زکوٰة واجب ہے۔ یہاں تک کہ جن کی ہستی ہمارے لئے بہت بڑی مثال ہے ترکِ دنیا کی یعنی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام، ان کے بارے میں وسائل الشیعہ میں، ایک معتبر حدیث کی کتاب ہے ہماری کتابوں میں،اجازے جو علماء کے ہوتے ہیں، ان میں جن کتب احادیث کا نام لیا جاتا ہے کہ جن احادیث کی ہم نے روایت کی۔ جس طرح متقدمین کی کتابیں ہیں، کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ ،استبصار۔اسی طرح بعد کے علماء کی جو کتابیں ہیں، ان میں وسائل الشیعہ بھی ہے۔

تو وسائل الشیعہ میں یہ حدیث ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی قوتِ بازو کی کمائی سے چار سو غلام راہِ خدا میں آزاد کئے۔اب اس زمانہ میں کتنی ہی کم قیمت فرض کیجئے غلام کی لیکن پھر بھی چار سو غلاموں کیلئے ظاہر ہے کہ زرِ خطیر کی ضرورت ہے۔ مگر یہ کہہ دیا گیا کہ جتنے بھی غلام خرید کئے گئے، وہ اپنی ذاتی محنت کے پیسے سے خرید کر آزاد کئے۔

تو معلوم یہ ہوا کہ مال پیش خدا اتنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ، برابر سے دونوں چیزوں کو ، کہ جان کا بھی وہ خریدار اور مال کا بھی وہ خریدار۔ لیکن اب ایک خاص چیز سوچنے اور سمجھنے کی جو اس آیت میں مجھے محسوس ہوئی ہے کہ اس پر تبصرہ ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ خریداری کا درجہ فروخت کے بعد ہے اور فروخت کرنا بندوں کا کام ہے۔قرآن مجید میں حکم ہونا چاہئے تھا کہ تم فروخت کرو۔ جب ہم فروخت کرتے تو وہ ارشاد فرماتا کہ ہم نے خریدا۔ پھر وہ اگر حکم دیتا کہ فروخت کرو تو فروخت کرنا یا نہ کرنا ہمارے اختیار سے وابستہ ہوتا۔ کہا تو اس نے سب سے ہے کہ نماز پڑھو،کیا سب نماز پڑھتے ہیں؟ کہا تو اُس نے سب سے ہے کہ روزہ رکھو، کیا سب روزہ رکھتے ہیں؟اس کی طرف کا حکم سب کیلئے ہے کہ ایمان لاؤ، کیا سب نے ایمان اختیار کیا ہے؟اس کا حکم ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، کیا سب اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جتنے احکام اس کی طرف سے ہیں، وہ تمام احکام ایسے ہیں کہ کچھ اس کی تعمیل کرتے ہیں اور کچھ اس کی تعمیل نہیں کرتے بلکہ تعمیل کرنے والے کم ہوتے ہیں اور تعمیل نہ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ اس نے اطاعت جبری نہیں چاہی تھی۔ اگر جبری اطاعت کروانا ہوتی تو قرآن مجید میں جو یہ کہہ دیا ہے:

( لَوْ شَاءَ ) “۔”اگر وہ چاہتا تھا تو“۔

( لَاٰمَنَ مَنْ فِیْ الْاَرْضِ کُلُّهُمْ جَمِیْعًا ) “۔

”جتنے بھی روئے زمین پر ہیں، سب ہی ایمان لے آتے“۔

اگر وہ چاہتا، تو کیا وہ چاہتا نہیں ہے؟ چاہتا ہے مگر یہ چاہتا ہے کہ بندہ ارادةً ایمان لائے۔ یہ نہیں چاہتا کہ وہ جبر سے کام لے۔ جبری طور سے، یعنی خود مومن بنا دے۔ ایمان کے راستے کا دکھانا اس کا کام ہے اور ایمان کو دل میں ڈال دینا، جبری طور سے، یہ اُس کا کام نہیں ہے۔ یہ تو بہت ہی معرکة الآرا مسئلہ ہے جبرواختیار کا علمِ کلام میں، اس پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں مگر اس وقت تو میں ایک جملہ کہتا ہوں کہ فردِ نافرمان کا وجود خود دلیلِ اختیار ہے۔

تو اگر وہ جس نے نماز کا حکم دیا، روزہ کا حکم دیا، اسی طرح حکم دیتا کہ تم فروخت کرواپنے جان و مال کو تو پھر ہمارے بس میں ہوتا کہ فروخت کریں یا نہ کریں۔ اگر ہم فروخت کرتے، تب وہ قیمت کا اعلان کرتا کہ تم نے اپنا جان و مال فروخت کیا، اب میں بتاتا ہوں کہ اس کی قیمت جنت ہے تاکہ تمہارا جان و مال اس کے قبضہ میں جائے اور اس کی جنت وقت آنے پر ہمارے قبضہ میں آئے۔ اگر ہم فروخت نہ کرتے تو ہماری جان ہمارے پاس، اُس کی جنت اُس کے پاس۔ہم جاکر جنت کا دعویٰ نہ کرتے کیونکہ ہم نے وہ معاملہ ہی نہیں کیا جس کی قیمت میں جنت ملتی۔ مگر یہ تو مجھے عجیب بات معلوم ہورہی ہے کہ ہم سے نہیں کہتا کہ فروخت کرو اور خریداری کا اعلان کئے دیتا ہے۔ جو بعد کی منزل ہوتی ہے، اس کا اعلان اورجو قبل کی منزل ہے، اس کا ذکر ہی نہیں۔ تو اب یہ کچھ انوکھی بات ہوئی کہ اللہ نے خرید لیا۔

اب ایک پہلو کی طرف توجہ دلاؤں تو مسئلہ حل ہوجائے کہ کن سے خریدا؟ یہ تو نہیں کہا کہ لوگوں سے خریدا۔”ناس“ کا لفظ یہاں نہیں ہے۔

( اِنّ اللّٰهَ اشْتَریٰ مِنَ الْمومنین ) “۔”اللہ نے خرید کیا مومنین سے ان کے جان و مال کو“۔

اس بناء پر کہ ان کیلئے جنت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس وقت ایمان لائے، اسی وقت ہم نے اپنے جان و مال کو فروخت کردیا۔ بس ادھر ہم نے اقرارِ ایمان کیا اور یہ کہا کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے یہ اقرار کر لیا کہ اب ہمارا مال ہمارا نہیں ہے، ہماری جان ہماری نہیں ہے۔ یہ جان بھی اُس کی ہے اور یہ مال بھی اُس کا ہے۔

حقیقت میں جتنی پابندیاں ہیں احکامِ شریعت کی، وہ تمام پابندیاں اب اس بیع کے تقاضے پر ہیں۔ ہم نے اپنی جان کو فروخت کر دیا، اب وہ ہم سے مطالبہ رکھتا ہے کہ دن میں اتنا وقت تم میرے اس کام میں صرف کرو جس کا نام نماز ہے اور ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اتنی دیر ہم اپنی جان اور اپنے اوقاتِ حیات پر تصرفِ غاصبانہ کررہے ہیں۔اُس نے کہا گیارہ مہینے شوق سے کھانے پینے کی چیزیں کھاؤ لیکن دیکھو! ایک مہینے میں ، اور وہ بھی رات کو نہیں ، دن کو ہماری طرف سے یہ پابندی ہے کہ ان چیزوں کو استعمال نہ کرو۔ اب یہاں ظاہر ہے کہ جو چیز ہم نے کھائی ہے، وہ مال سے خریدی ہے تو وہ مال بھی مِلکِ غیر تھا، اس لئے یہ تصرفِ ناجائز ہوا اور دن بھر جو کام ہم نے روزے کے تقاضے کے خلاف کئے اور روزہ نہیں رکھا تو وہی بات ہوگئی کہ ہم نے تصرفِ غاصبانہ کیا۔ جتنے بھی احکامِ شرع ہیں، وہ اسی کے تحت آتے ہیں۔ اسی طرح جو محرمات ہیں، جو ناجائز چیزیں ہیں، ہمارا اچھے کپڑے پہننا خالق کا ناپسند نہیں ہے۔ وہ کوئی دوسرا دین ہوگا جس میں

لٹا پٹا رہنا خالق کے تقرب کا باعث ہوتا ہے، یہاں تو ایک مقدارمیں لباس جزوِ صحت نماز بن گیا۔

اب نہ جانے کن چور دروازوں سے مسلمانوں میں بھی یہ تصورات داخل ہوگئے ہیں کہ برہنہ رہنا مقتضائے ولایت خدا ہوگیا۔ یہاں تو نماز صحیح نہیں ہوگی جب تک کہ اتنا لباس نہ ہو کہ جس کے بعد آدمی برہنہ نہ کہلائے۔ یہ تو مرد کیلئے لباس ہے، عورت کی نماز تو اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ہاتھوں اور چہرے کے سوا سب اعضاء چھپے ہوئے نہ ہوں۔

تو معلوم ہوا کہ ہمارا لباس پہننا خالق کو ناپسند نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ لباس پہنو تو بوسیدہ اور خراب پہنو۔جی نہیں! کہا گیا کہ جب نماز کیلئے آؤ تو جو بہتر سے بہتر لباس تمہارے پاس ہو، وہ پہن کر آؤ۔ اُسے ہماری پریشان حالی منظور ہوتی تو عطر لگا کر نماز پڑھنے کا ثواب کیوں ہوتا؟ آجکل بال پریشان رکھنا اور گویا ہر وقت مصیبت زدہ ہونے کا ثبوت پیش کرنا گویا ترقی پسندی کی علامت بن گیا ہے اور وہاں آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض لوگوں کی جاء نمازوں میں کنگھا موجود ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محاسن میں شانہ کرنا شامل ہے یعنی آراستہ ہوکر بارگاہِ الٰہی میں آئے، پریشان حالی کفرانِ نعمت الٰہی ہے۔

ہاں! کسی بلند مقصد کی خاطر انسان پیوند والا لباس پہنے تو صحیح ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام بے شک پیوند دار لباس پہنتے تھے۔ آپ نے اس کا فلسفہ نہج البلاغہ میں خود بتایا ہے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک نے، عاصم ابن زیاد حارثی نے حاضر ہوکر عرض کیاکہ میرے بھائی نے گھر کے کپڑے پہننے چھوڑ دئیے ہیں، گھر میں پکاہوا کھانا چھوڑ دیا ہے، ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے ہیں اور روکھا سوکھا کھانا کھا لیتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں آؤں گا اور اُسے سمجھاؤں گا، نصیحت کروں گا۔

آپ خوش نہیں ہوئے کہ اس نے بڑا اچھا کیا۔ حضرت تشریف لائے اور بڑے سخت انداز میں کہا: اے شخص! یہ کیا زندگی اختیار کی ہے ؟ کیاتیرے گھر میں پکنے والی غذا مالِ حرام سے ہوتی ہے؟ کیا تیرا پہننے کا لباس مالِ ناجائز سے ہے؟ پھر یہ کس طرح کی زندگی تو نے اختیار کرلی؟ پھر خود ہی فرمایا: کیا تم خیال کرتے ہو کہ خدا نے خود ہی لذائذ اور طیبات کو حلال قرار دیا ہے اور پھر خود ہی ان پر سزا بھی دے گا۔یہ عدلِ الٰہی کے خلاف ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟

اتنے سخت الفاظ میں کہا کہ اُسے تابِ مقاومت نہ رہی۔ فوراً کہا:”سَمْعاً وَطَاعَةً “۔

جو آپ ارشاد فرمارہے ہیں، اُس پر عمل کروں گا۔جو کھانا کھاتا تھا، وہی کھاؤں گا، جو کپڑا پہنتا تھا، وہی پہنوں گا۔

دیکھئے! مقتضائے اطاعت یہی ہے کہ حکم کی تعمیل تو کیجئے، پھر اگر اس کی مصلحت کو سمجھنا بھی ہے تو اُسے سمجھتے رہئے۔ مگر اطاعت کو اس سمجھنے پر موقوف نہ رکھئے۔ اس نے فوراً اقرارِ اطاعت کیا اور حضرت کا غیظ و غضب کا انداز بدل گیا۔ مگر اصحابِ رسول اور اصحابِ آئمہ طالب علم بھی تو تھے اور طالب علم کو حق ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے، وہ پوچھ لے۔پس جب اقرارِ اطاعت کرلیا تو اُس نے دبی زبان سے کہا:

”حضور !میں نے اقرار تو کرلیا مگر یہ حضرت کا لباس جو ہے؟“

دیکھئے! کتنی بڑی خلش آپ کے ذہن کی بھی اُس نے دُور کروادی۔ یہ آپ جو اس روکھی سوکھی غذا اورپرانے لباس میں نظر آتے ہیں، یہ کیا ہے؟ بظاہر پھر حضرت کی تیوریوں پر بل آگئے۔ فرماتے ہیں:”اے شخص! میری تیری برابری نہیں ہے“۔

اب ایک بات کہوں گا کہ حضرت نے کیا معیار مقرر فرمایا؟ میں کہتا ہوں یہی جملہ کہ ہماری تمہاری برابری نہیں ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں جائیے اور بڑے بڑے عہدیداروں سے اور بڑے بڑے مسند اقتدار پر بیٹھنے والوں سے پوچھئے کہ سرکارِ والا! یہ آپ کے پاس اتنی کوٹھیاں اور ہمارے پاس رہنے کو مکان نہیں ہے؟ وہ یہاں کہیں گے کہ کیا ہماری تمہاری برابری ہے؟

کسی سے یہ کہئے کہ آپ کے پاس اتنی موٹریں ہیں اور ہمارے پاس سائیکل تک نہیں ہے۔ وہ کہیں گے کیا ہماری تمہاری برابری ہے؟محلِ استعمال اس جملے کا دنیا میں یہ ہے۔ مگر امیرالمومنین علیہ السلام کے ارشاد فرمارہے ہیں؟ ارے جنہیں اقتدار حاصل ہوجائے، ان سے اللہ کا عہدوپیمان یہ ہے کہ وہ اپنا معیارِ زندگی اپنی رعایا میں سے کمزور ترین فرد کے برابر رکھیں۔ آپ نے اپنے انفرادی عمل کا جو فلسفہ بتایا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر معصومین نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا، حالانکہ وہ سب نورِ واحد تھے، ایک سلسلہ کی کڑی تھے مگر ہر دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام کا کردار اس محل پر کیوں پیش ہوتا ہے؟

اب اس ارشاد کی روشنی میں میرا ذہن گیا اپنے حدودِمطالعہ کی طرف کہ یہ سادگی کے جتنے واقعات ہیں، سب کوفہ کے ہیں۔ یعنی اس دَور کے نہیں ہیں جب گوشہ نشین تھے۔یہ زندگی جو جزوِ تاریخ بنی ہے، یہ اُس دَور کی ہے جب آپ کرسیِ اقتدار پر متمکن تھے۔ آپ کے سامنے دو نمونے موجود ہیں کہ ایک سائل آیا مسجد میں اور اُس نے سوال کیا۔ حضرت ے بھوسی بھرا ہوا جَو کا آٹا، جو آپ نوش فرمارہے تھے، وہی اس کی طرف بڑھا دیا۔ اُس نے کہا :”اے بندئہ خدا! یہ تو میرے حلق سے نہیں اُترے گا“۔

آپ نے فرمایا: یہ مجھ کو دے دو، میں ہی اس کو کھاؤں گا۔ میرے پاس تو یہی ہے اور اگر اچھی غذا کی تلاش ہے تو حسن مجتبیٰ کے دروازے پر جاؤ، وہاں مہمانوں کیلئے غذائے لذیز موجود ہوگی“۔

توآپ سنا کرتے ہیں لیکن چونکہ ذکر علی ابن ابی طالب علیہما السلام میرے لئے اور آپ کیلئے بھی باعث ثواب ہے ، لہٰذا بیان کرتا ہوں کہ وہ وہاں گیا اور فوراً اُس کیلئے کھانا آگیا۔وہاں کے معیارِ زندگی کے لحاظ سے وہ پر تکلف کھانا تھا۔ اس نے کھانا اس طرح کھایا کہ ایک نوالہ کھاتا ہے اور ایک رکھتا جاتا ہے۔ حضرت نے توجہ کی اور کہا کہ یہ کیا کررہے ہو؟اگر تمہارے ساتھ اہل و عیال ہیں تو یہاں کوئی ممانعت نہیں ہے، تم لیتے جانا۔ اُس نے کہا کہ میں اکیلاآیا ہوں مگر مسجد میں ایک سائل کو دیکھ کر آیا ہوں۔ ایک محتاج کو دیکھ آیا ہوں۔ میں نے سوال کیا تو وہ سخی تو ایسا تھا کہ جو اُس کے پاس تھا، وہ اُس نے اٹھا کر مجھے دے دیا مگر میں نے دیکھا تو بھوسی بھرا ہوا آٹا ہے جسے میں کھا ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ میں اُس کیلئے لئے جارہا ہوں۔

اس فقیر کیلئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ارے وہ فقیر نہیں ہیں، وہ تو مالک دین و دنیا ہیں۔ہمارے والد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایک ہی وقت میں دونوں نمونے موجود ہیں۔ اگر (معاذاللہ) یہ ترکِ اولیٰ بھی ہوتا تو امیرالمومنین کے علم و رضا کے ساتھ امام حسن علیہ السلام کے ہاں وہ غذائیں تیار کیوں ہوتیں اور آپ سائل کو وہاں کیوں بھیجتے؟اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی حکمِ شرعی

بحد احتساب نہیں تھا بلکہ یہ آپ کا انفرادی عمل تھا، آپ کے موقف کے لحاظ سے۔

اسی لئے یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ بڑا نازک مرحلہ ہے کہ کہہ دیں کہ اتباع کرنا چاہئے، اتباع کرنا چاہئے۔کسی ایک معصوم کا نام لے دیا کہ اتباع کرنا چاہئے۔مثلاً کوئی ہنگامہ ہوا ، کہا کہ امام حسن علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔

یاد رکھئے!آنکھیں بند کرکے اتباع بھی نہیں کرنا چاہئے ، اس لئے کہ چودہ سیرتیں ہیں۔وہ سب محمد تھے۔اس لئے جس محل پر جس معصوم کی سیرت کا اتباع ضروری ہے، اس کیلئے بھی وہ نظر حقیقت شناس ہونی چاہئے جس کا اصطلاحی نام اجتہاد ہے کہ کس محل پر کس معصوم کی سیرت پر عمل ضروری ہے کیونکہ سیرتیں سب صحیح ہیں مگر ہر ایک ہر ایک محل کے لحاظ سے صحیح ہے۔ ہر ایک کے موقف کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔ کسی ایک کو لے لینا اور ہر جگہ اسی کا حوالہ دے دینا ، یہ کُل کو جزو میں محدود کرنا ہے۔

غرض یہ کہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا اچھا پہننا اللہ کو ناپسند نہیں ہے مگر پھر بھی کچھ پابندیاں عائد کردیں۔ خالص ریشم نہ ہو، آرائش کرو مگر سونا نہ پہنو،وہ بھی مردوں کیلئے۔ عورتوں کیلئے یہ حکم نہیں ہے۔اسی طرح ہمارا اچھا کھانا اُسے ناپسند نہیں ہے۔ اُس نے کہا ہے:

”تمہارے لئے سب طیبات حلال ہیں“۔

یہ اور بات کہ کسی کو حرام ہی میں مزہ ملے۔ ورنہ جو حلال غذائیں ہیں، ان میں ذائقے کی کمی نہیں ہے۔ اس میں لذیذ سے لذیذ تر غذائیں کھانے کا آپ کو حق ہے او ر کوئی الزا م نہیں، مکروہ نہیں ہوگا۔سوائے چند خاص چیزوں کے کہ جنہیں کہہ دیا کہ مکروہ ہیں۔یہ نہیں ہے کہ لذیذ کھانا مکروہ ہے۔ یہ کسی عالم نے نہیں کہا ہوگا۔پس ہمارا اچھا کھانا اُسے ناپسند نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ پابندیاں ہیں۔ گوشت حلال ہے مگر ذبیحہ کا ہونا چاہئے، تب جائز ہوگا۔ یہ سب کیا ہے؟ سب چیزیں پسندیدہ ہیں۔ اللہ کو ناگوار نہیں ہیں مگر اس میں پابندیاں ہیں۔ یہ صرف اس لئے کہ تمہیں مطلق العنان ہونے کا احساس نہ ہو کہ جان ہماری ہے، مال ہمارا ہے۔ جو چاہیں کھائیں، جوچاہیں پئیں۔

ہر وقت ایک بالادست صاحب اقتدار کا احساس ہونا چاہئے۔ اسلام نے اپنے حکیمانہ نظامِ شریعت کے لحاظ سے وہ مشکل کام انجام دیا کہ دنیا میں جو ہمیشہ متضاد چیزیں سمجھی گئیں، ان کو اکٹھا کردیا یعنی ہمیشہ جسم اور روح دو الگ الگ چیزیں سمجھی گئیں۔ہمیشہ جسمانی ترقی کو روحانی ترقی کے خلاف سمجھا گیا۔ روحانی ترقی ہے تو پھر جسم کے تقاضے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اسی کا ایک رُخ ہوگیا دنیا اور دین ، کہ دنیا و دین ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ یا دنیا کو لو یا آخرت کو لے لو۔یا دنیا کو لو یا دین کو لو۔ یہ تصور عام تھا لیکن اسلام نے اپنے حکیمانہ نظامِ شریعت کے لحاظ سے اس کو بدلا۔اس کا تقاضا یہ تھا کہ جب دو چیزیں الگ الگ ہوگئیں تو کچھ کے ماہر اور ہوئے اور کچھ کے ماہر اور ہوئے۔ ا س کے معنی یہ ہوئے کہ علومِ دنیا کے ماہر بالکل الگ ہوں گے اور علومِ دین کے ماہر بالکل الگ ہوں گے۔پھر حکومتیں بھی الگ الگ ہوگئیں۔ دنیاوی حکومت کے سربراہ اور ہوں گے، دینی حکومت کے سربراہ اور ہوں گے۔ عیسائیت میں رہبانیت تھی۔ لہٰذا وہاں کا وہ مقولہ بالکل صحیح کہ جو قیصر کا حق ہے، وہ قیصر کو دیتے ہیں، جو پوپ کا حق ہے، وہ پوپ کو دیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں شعبے الگ الگ ہیں۔ تو ہر ایک کے تقاضے الگ الگ ہوئے۔ اسلام نے دین و دنیا کو بالکل سمو کر ایک ایسا مزاجِ معتدل پیدا کیا جس کی وجہ سے معیارِ دین بالکل بدل گیا۔

دنیا میں ہر جگہ پیشہ کوئی اور ، اور مذہب کوئی اور یعنی ایک عیسائی ڈاکٹر ہے تو چھ دن تک ڈاکٹر ہے، ساتویں دن جب وہ گرجا جائے گا، تب معلوم ہوگا کہ عیسائی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ڈاکٹر ہونے میں عیسائیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ایک تاجر جب دوکان پر ہے تو اس وقت اس کے مذہب کا کوئی سوال نہیں۔ ہاں! جب وہ عبادت کیلئے جائے گا تو اس وقت مذہب کا سوال ہوگا۔

اسی طرح ان کی عبادت بس گرجا میں جاکر ہوگی، اپنے گھر میں نہیں ہوسکتی، نہ روز ہوسکتی ہے۔ جب گرجا پہنچیں گے تو وہاں عبادت کریں گے۔ وہاں پھر خدا کو یاد کریں گے۔ اسلامی نظام نے یہ کام کیا کہ خدا کو یاد کیا نہیں جاتا، بلکہ خدا کو یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم ڈاکٹر ہو تو بھی مسلمان ڈاکٹر ہو۔ اگر تم تاجر ہو تو تم کو مسلمان تاجر ہونا ہے۔ اگر تم کسی اور شعبہ کو اختیار کئے ہوئے ہو ، تو بھی تم کو مسلمان ہونا ہے۔

لہٰذا ہر شعبہ حیات میں یادِ الٰہی کارفرما ہوگئی۔ دیکھئے! روز مرہ کی زندگی میں کہ آپ بزاز کی دکان پر گئے اور اس سے کہا کہ اچھے سے اچھا کپڑا دکھاؤ۔ نئے ڈیزائن دکھاؤ، نئی وضع دکھاؤ۔ اس سے مطلب نہیں کہ خوشنما ہے یا بد نما ہے۔اس نے نئی وضع دکھانا شروع کی۔ اب تک جتنا کام ہورہا ہے، یہ مادّی ضرورت کیلئے یعنی تن آسانی کی خاطر۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن ادھر ایک کپڑا آیا اور اگر آپ پابند شرع ہیں اور آپ نے پوچھا کہ یہ خالص ریشم تو نہیں ہے؟ بس پتہ چل گیا کہ انسان اپنی تن پوشی کی راہ میں خالق کو نہیں بھولا ہے۔

اسی طرح بازار گئے، طرح طرح کی لذیذ غذائیں نظر آئیں۔ پوچھا کہ یہ ذبیحہ ہے؟ پتہ چل گیا کہ شکم پُری کی خاطر اللہ کو فراموش نہیں کیا جارہا۔ یہ تو روز مرہ کی بات ہے۔ اب ایک شعبہ ہے، جس کا مجھے تجربہ تو نہیں ہے مگر اندازہ تو ہے ہی کہ کچھ لوگوں کو شکار کا شوق ہوتا ہے۔ شکار پر گئے، شکار ملا، کتنی دوڑ دھوپ اور تگ و دَو کے بعد۔فوراً گئے، جاکر دیکھا کہ ارے یہ تو مرگیا۔تو اِدھر کہا کہ ارے یہ تو مر گیا، اس کے معنی یہ ہیں ضرورتِ مادّی کے اس تگ و دَو کے عالم میں بھی بندہ خدا کو نہیں بھولا۔

اور جناب! اب وہ ناقابلِ بیان مرحلہ،میرا تجربہ نہیں ہے اور یہ مقام منبر کا تقاضا بھی نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ایسی نفسانی خواہش جس کی تکمیل میں انسان اور حیوان میں بہت کم فرق رہ جاتا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کیلئے تمام شرائط حاصل اور تمام موانع ختم اور اس کے ساتھ تراضی طرفین حاصل، دونوں بالکل آمادہ لیکن فوراً احساس ہوتا ہے کہ جب تک خاص الفاظ زبان پر جاری نہ کریں، اس وقت تک ایک پردہ درمیان میں ہے۔ جب ایجاب و قبول کے صیغے جاری ہوں گے، تب جاکر یہ ہمارے لئے حلال ہے۔

بس معلوم ہوگیا کہ طوفانی خواہشات کے اس تموّج میں بھی بندہ خدا کو نہیں بھولا۔میں کہتا ہوں کہ ناجائز تعلقات بھی تو کبھی دائمی رہتے ہیں۔ عمر بھر ناجائز تعلقات رہے، کیا ایسا نہیں ہوتا؟ تو جو فرق دائمی ناجائز تعلقات میں اور عقد دائمی میں ہے، وہی فرق عارضی ناجائز تعلقات اور عقد عارضی میں ہے۔ اس کے وقتی ہونے سے خصوصیت نہیں پیدا ہوتی۔ فرق باضابطہ اور بے ضابطہ ہونے کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے کو مطلق العنان نہ سمجھو۔یہ سمجھو کہ ہماری جان اصل میں کسی اور کی ہے اور ہمارا مال اصل میں کسی اور کا ہے۔

جس وقت ایمان اختیار کیا، اُسی وقت اقرار ہوگیا کہ اب ہمارا مال نہیں ہے اور ہماری جان ہماری نہیں ہے۔ اسی میں در حقیقت اسلامی سیاست بھی مضمر ہے۔ جس وقت ایمان لے آئے، اس وقت اقرار ہوگیا کہ اس کے مقابلہ میں نہ ہماری جان ہماری، نہ ہمارا مال ہمارا۔ تو اس کے اقتدار کے مقابلہ میں نہ شوریٰ کا حق رہا، نہ اجماع کا حق رہا۔اس لئے کہ شوریٰ میں چھ سات آدمی جمع ہوئے ، وہ سب کیا ہیں؟ ایمان لائے ہوئے ہیں یا نہیں؟ اگرایمان لائے ہوئے نہیں ہیں تو ان کے شوریٰ کو معتبر نہیں سمجھتا، خواہ پانچ چھ ہوں ۔

اب عدد یہی یاد ہے کیونکہ تاریخ میں یہی آیا ہے۔ پس خواہ پانچ ہو یا چھ ہوں، سو دو سو ہوں، ہزار دو ہزار ہوں، دس ہزار ہوں۔ جتنی مردم شماری اس وقت کی کوئی سمجھے، اس کا نام اجماع ہو۔سوال یہ ہے کہ یہ سب ایمان رکھنے والے بحمدللہ، بہ اقرارِ خود سب مومن ہیں ورنہ مسلم ہی نہیں ہیں کیونکہ بغیر اقرارِ ایمان کوئی مسلمان بھی نہیں ہوتا۔ اگر مسلمان ہے تو مدعیِ ایمان ضرور ہے۔ جب مدعیِ ایمان ہے یعنی جماعت ہے

مومنین کی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس وقت ایمان لائے تھے، اسی وقت اللہ کے مقابلہ میں بے اختیار ہوگئے تھے۔ بے اختیار با اختیار۔

با اختیار کیا ہے؟ ثبوتِ اختیار۔ بے اختیار کیا ہے؟نفی اختیار۔تو اب وہ دس ہزار ہوں یا دس لاکھ ہوں، دس کروڑ ہوں ، دس ارب ہوں، وہ سب بے اختیار، بے اختیار۔تو بے اختیاروں کے مجمع سے بااختیار کیونکر نکلے گا؟ اس کو معمولی ریاضی کے طالب علم حساب پڑھنے والے بچے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بڑے سے بڑا تختہ کاغذ کا ہو، اس پر جتنے زیرو بن سکتے ہیں، بنا دیجئے تو جو عدد بنے گا، وہ صفر ہی ہوگا۔

تو جناب! اپنی جان اپنی نہیں، اپنا مال اپنا نہیں۔ یہی فلسفہ قربانی ہے۔ اپنا نہیں ،اُس کا ہے تو اُس کی راہ میں خرچ ہونا چاہئے۔ اس لئے حقیقت میں ہر حکمِ شرع ایک حد تک قربانی کا مطالبہ ہے۔نماز جو ہم پڑھتے ہیں،اس میں بھی کچھ اپنے اوقات، کچھ اپنی مصروفیات او رکچھ اپنے مشاغل کی قربانی ہے۔ روزے میں کتنی خواہشوں کی قربانی ہے۔ اسی طرح زکوٰة میں کچھ مالی قربانی ہے اور حج میں تو ہر قسم کی قربانی ہے۔ مالی قربانی الگ، رکھ رکھاؤ اور وقار کی قربانی الگ۔ اپنی وضع قطع اور اپنے لباس کی قربانی الگ۔

معاف کریں آجکل کے نوجوان! بال بڑھانے پر کچھ لوگ بڑے ریاض کرتے ہیں، بڑی محنت کرتے ہیں۔ طرح طرح سے بناتے ہیں۔ حج کیا تو منیٰ میں جاکر فارغ البال ہونا پڑے گا۔ یہ سب چھوٹی چھوٹی قربانیاں ہیں جن کا پوری زندگی مطالبہ ہے اور اگر انسان اسے پورا کررہا ہے تو وہ حقیقت میں قربانیاں پیش کررہا ہے۔ اگر محل شہادت نہیں آیا تو یہی قربانیاں اس کو پیش خدا بلند سے بلند مرتبے حاصل کروانے کیلئے کافی ہیں کیونکہ شہادت تو وابستہ ہے ایسے کچھ حالات سے جو سینکڑوں برس پیدا نہیں ہوتے اور اگر انسان نے شوقِ شہادت میں کوئی اپنی طرف سے ایسا کام کیا جو اُس کے خیال میں اس کے تقاضائے شہادت کو پیدا کرے تو یاد رکھئے کہ پھر وہ ہلاکت ہوگی، شہادت نہیں ہوگی۔

بڑا نازک مرحلہ ہے۔ شوقِ شہادت میں اگر کوئی غلط قدم اُٹھ گیا تو شہادت کی منزل دور ہوگئی، ہلاکت ابدی رہ گئی۔ جان جب حقیقت میں اس کی دی ہوئی ہے تو جتنی قربانی جس وقت وہ چاہ رہا ہے، اتنی ہی کرو۔اگر اس سے زیادہ قربانی کرو گے تو وہ تو اپنے جی کی خاطر ہوگی۔ یعنی شوقِ شہادت میں قربانی پیش کررہے ہیں تو وہ تو آپ کے شوق کی راہ میں قربانی ہوئی، وہ اللہ کی خاطر تو نہیں ہوئی۔ تو شوقِ شہادت کوئی غلط قدم نہ اٹھوائے ورنہ پھر شہادت کی منزل بہت دور ہوجائے گی۔

مجھے یہ بات اس لئے کہنے کی ضرورت ہوئی کہ جب تک کوئی ہوا چلتی ہے، تو لوگ اندھا دھندقدم آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک لفظ چلا شوقِ شہادت کا۔ ہر جگہ اگر یہ ہوا چلنے لگی تو نہ جانے کتنے غلط قدم اٹھ جائیں گے۔ وہ بڑا خطرناک ہوگا۔ اس کی وجہ سے ہلاکت ابدی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا بہت سمجھ بوجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ شہادت کا مرحلہ اتنا آسان نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ خونریزی سے بہت لوگوں کو نفرت ہوگئی ہے۔ ارے خونریزی؟ میں کہتا ہوں کہ اگر معرکہ جہاد میں آنا ہے تو ہر آدمی کو قاتل ہونے کیلئے آنا چاہئے۔ اگر شوقِ شہادت میں کوئی کمی رہ گئی ، قاتل ہونے کی کوشش میں، تو پھر وہ ہلاکت ہوگی، شہادت نہیں ہوگی۔ ہم زیادہ سے زیادہ افراد کو تہہ تیغ کریں گے اور اگر ہم نے کوئی کمی کردی کہ بہت اچھا ہے کہ شہید ہوجائیں اوربہت بُرا ہوگا کہ شہید نہیں ہوں گے۔یہ بڑی سخت منزل ہے، اسی لئے ہر منزل پر ضرورت ہے زندہ رہنما کی۔

فلسفہ جہاد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( وَکَاَیِّنْ مِنْ نَبِی قٰتَلَ مَعَه رِبِیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَاوَهَنُوْالِمَااَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَمَاضَعُفُوْاوَمَا اسْتَکَانُوْاوَاللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ ) ۔

چوتھے پارے کی آیت ہے، ارشاد ہورہا ہے کہ کچھ نبی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ مل کر اللہ والوں نے جنگ کی(جن کی معیت میں) وہ سست نہیں ہوئے ان نتائج سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پیش آئے اور نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ انہوں نے سر جھکایا اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

قرآن مجید ایک مرقع جماعت کے اوصاف پیش کررہا ہے جونبی کی معیّت میں راہِ خدا میں جہاد کررہے ہیں۔ ان کا پہلا وصف یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جو انہیں مصائب درپیش ہوئے، اس سے ان میں سستی پیدا نہیں ہوئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فریق مخالف کے مقابلہ میں ان کی طاقت کم تھی۔تعداد میں ان سے کم ہوں گے اور سامانِ جنگ میں ان سے کم ہوں گے ، تبھی تو ان کے مقابلہ میں مصائب پیش آئے اور ان مصائب کی وجہ سے ان میں کمزوری پیدا نہیں ہوئی۔ اس راہ میں مصائب کا پیش آنا دلیل ہے مادّی حیثیت سے ان کے کمزور ہونے کی۔

مادّی حیثیت سے یہ طاقتور نہیں تھے ورنہ یہ ہوتا کہ یہ وہ ہیں کہ جنہوں نے بڑے شدّومد کے ساتھ حملہ کیااور مخالف کے پرخچے اڑا دئیے۔ مگر قرآن یہ نہیں کہہ رہا ، یہ کہہ رہا ہے کہ جو مصائب درپیش ہوئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان میں طاقت اتنی نہیں تھی کہ یہ مادّی حیثیت سے ان کا مقابلہ کرسکتے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ”( مَاضَعُفُوْا ) “،م یں نے اس کا ترجمہ نہیں کیا کہ وہ کمزور نہیں ہوئے۔ اگر کمزور نہ ہوتے تو مصائب کیوں پیش آتے۔ میں نے ترجمہ یہ کیا کہ کمزوری نہیں دکھائی انہوں نے۔ کمزوری دکھانا کردار سے متعلق ہے۔ کمزور ہوناکیفیت ہے۔ پہلا لفظ کمزوری کا ثبوت دے چکا ہے کہ مصائب انہیں بہت پیش آئے تو دوسرے جملے کے معنی یہ ہوئے کہ انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی۔اس کے بعد”( مَااسْتَکَانُوْا ) “،انہوں نے سر نہ یں جھکایا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی مطالبہ تھا سامنے اور اس مطالبہ کو انہوں نے قبول نہیں کیا ورنہ قبل کے جملوں کے بعد یہ”( وَمَااسْتَکَانُوْا ) “، انہوں نے عاجزی نہیں دکھائی، سر نہیں جھکایا۔

اس پورے کردار کو سمیٹ کر ایک لفظ جو ادا کیا ہے، وہ صبر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ صبر کے معنی از روئے قرآن یہ ہوئے کہ جو پہلے بیان ہوا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ:

( وَاللّٰهُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) ۔

”اللہ دوست رکھتا ہے ایسے صبر کرنے والوں کو“۔

معلوم ہوتا ہے کہ صبر ایک اجمالی لفظ ہے جس کے تحت میں یہ کردار مضمر ہے جس کا قبل میں ذکر کیا گیا ہے۔یہ قرآن مجید کی آیت ہے اور ا س کی سچائی میں کسے شبہ ہوسکتا ہے لیکن قرآن نے یہ کہا ہے کہ نبی ہیں اور ان کے ساتھ یہ جماعت ہے۔تو مجھے کہیں تاریخ کے صفحات پر وہ جماعت نظر بھی توآئے کہ وہ جماعت جس کے کردار کا یہ ذکر ہورہا ہے، یہ جماعت آخر کس معرکہ میں تھی؟ کس جنگ میں یہ جماعت سامنے آئی؟ تاریخ میں اس کا تلاش کرنا بیکار ہے کیونکہ یہ وہ دَور ہے جس میں تاریخ نگاری رائج نہیں ہوئی تھی۔ ہماری تو قدیم سے قدیم تاریخ بھی دورِ اسلام کی ہے۔ قبل اسلام کے حالات اشعار میں، قصائد میں موجود ہیں جو عرب متعلق ہیں اور جسے انہوں نے نظم کیا ہے۔ اس لئے مقولہ ہے :

اَلشِّعْرُدِیْوَانُ الْعَرَبْ “۔

شعر گویا عرب کا تمام کیفیات ، حالات اور جذبات معلوم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے سوا وہ صاحب تالیف نہیں تھے، صاحب تصنیف نہیں تھے۔ تو اس وقت کے حالات ہم تک کیسے پہنچیں؟ بس وہ دورِ جاہلیت کے اشعارِ عرب ہیں۔ ان سے ماقبل اسلام کی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ اس بناء پر تاریخ میں تلاش کرنے کا تو کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔صحیح طریقہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید نے مجمل طور پراس جماعت کا تذکرہ کیا ہے تو پھر قرآن ہی میں تلاش کریں۔ شروع سے آخر تک۔ شاید یہ جماعت مل جائے۔ میں نے تلاش کیا۔ قرآن کا کام واقعہ نگاری تو ہے نہیں۔ قرآن مجید واقعات کو ضمنی مقصد سے پیش کرتا ہے کہ ان سے جوسبق حاصل ہوتے ہیںِ دنیا وہ سبق محفوظ کرے۔دلچسپی کی خاطر تو واقعات بیان کرنا قرآن کو ہیں نہیں۔درس ہے، نتیجہ ہے جو اس اُمت کے لئے کارآمد ہے۔ پس میں نے تلاش کیا کہ جہاں کہیں کوئی جنگ قرآن مجید نے بیان کی ہوگی، اس جنگ کے ذیل میں ہوگا کیونکہ”قٰتَلَ“ وہاں تھاکہ انہوں نے قتال کیا۔

قتال کا مطلب خونریز جنگ کا ہوتا ہے،لہٰذا جہاں کہیں کسی خونریز جنگ کا تذکرہ قرآن مجید میں ہوگا، وہیں یہ جماعت مجھے ملے گی۔میں نے قرآن میں تلاش کیا تو دوسرے ہی پارہ میں ایک جنگ کا ذکر مجھے مل گیا جس کی پہلی ہی سطر میں نبی کا لفظ ملا۔ مجھے بہت اُمید ہوئی کہ وہاں یہی کہا گیا تھا:

( کَاَیِّنْ مِنْ نَبِی ) ۔

کوئی نبی ہے۔ یہ نبی کی جنگ ہمیں مل رہی ہے تو وہ جماعت بھی یہیں ملے گی۔ اسے پڑھنا شروع کیا اور اس واقعہ میں ہمارے لئے بصیرتوں کا اتنا سرمایہ ہے کہ تقریباً متوسط سائز کے قرآن میں دوصفحوں میں وہ واقعہ درج ہوا ہے۔ ارشاد ہوا:

( اَلَمْ تَرَاِلَی الْمَلَاءِ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْقَالُوْالِنَبِی لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه ) ۔

”کیا تم نے نہیں دیکھا، ترجمہ میں کچھ اختلاف ہے۔ بعض لوگ جو خطاب ہو، واحد کا، اس کا مخاطب پیغمبر خدا کو قرار دے لیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں: ”اے محمد“۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔جو آیت کا مضمون ہو، اس کے لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مخاطب خود رسول ہیں یا نہیں۔ بعض جگہ تو مخاطب رسول ہیں جیسے:

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰه ) ۔

وہ سوا رسول کے کون ہے جس سے یہ کہا جائے۔ اسی طرح اور بہت سی آیات ہیں:

( قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَی الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ) ۔

اور جگہ بلکہ زیادہ جگہ جو یہ واحد کا خطاب ہے، اس سے خاص رسول مخاطب نہیں ہیں جیسے آجکل کے طرزِ تحریر میں بھی رائج ہے۔ لکھنے والا لکھتا ہے: کیا تم نہیں دیکھتے ہو؟ یہ کسی خاص آدمی سے متعلق نہیں ہے۔ جو اس کلام کو پڑھے، وہ مخاطب ہے۔ہر ناظر یا دیکھنے والا، اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا مخاطب ہے۔اسی طرح سے:

( اَلَمْ تَرَ ) “۔

قرآن میں آیا ہے:

( اَرَاءَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْن )

کیا تم نے نہیں دیکھا۔ ہر جگہ اس سے رسول کو مخاطب سمجھنا درست نہیں ہے اور بعض جگہ اس کا مضمون بالکل شانِ رسول کے خلاف ہے۔رسول قطعاً مخاطب نہیں ہیں بلکہ عام مخاطب ہے کہ جو بھی چشم بینا و گوشِ شنوا رکھتا ہو، اس سے خطاب ہے۔ اس لئے میں نے یہ علامت قرار دی ہے اپنے نقطہ نظر کی کہ جہاں مخاطب رسول ہیں، وہاں اپنے معیارِ تہذیب کے لحاظ سے ہیں۔ ترجمہ آپ کے ساتھ کرتا ہوں:

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰه ) ۔

”کہئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرے نقش قدم پر چلو“۔

( قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلَی الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ) ۔

”کہئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے صاحبانِ قرابت کی محبت کے“۔

یہ جہاں میں نے ترجمہ کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں مخاطب رسول کو سمجھ رہا ہوں اور ایسی آیات جہاں میرے نزدیک یہ نہیں ہیں، وہاں تم کے ساتھ ترجمہ کرتا ہوں جیسے میں نے ابھی یہ ترجمہ کیا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا اس جماعت کو؟

( اَرَاءَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْن ) ۔

”کیا تم نے دیکھا اس کو جو قیامت تک کی تکذیب کرتا ہے“۔

آخرت کا انکار کرتا ہے۔ جہاں میں ترجمہ تم کے ساتھ کرتا ہوں، وہی جیسے ”جزایں نیست “میں مَیں نے کہا تھا کہ قبل کی اُردو اور تھی۔ وہاں تم اور آپ نہیں تھا۔ ہر ایک کا ترجمہ ”تو“ کے ساتھ تھا۔ کیا تو نے نہیں دیکھا؟ مگر اب ہماری اُردو پرانی نہیں رہی۔ ہم ہر ایک کیلئے تو نہیں کہتے۔ جہاں رسول مخاطب ہیں، وہاں آپ کے ساتھ ترجمہ مناسب ہے اور جہاں دوسرے مخاطب ہیں، وہاں تم کے ساتھ ترجمہ کروں گا۔اگر کوئی اور نبی ہو تو میں پھر بھی تم کے ساتھ ترجمہ کردوں مگر جس کو اُس نے حبیب کا درجہ دیا ہو، میرے نزدیک تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ اُسے آپ سے مخاطب کیا جائے۔

غرض یہاں ترجمہ یہ ہوگا”( اَلَمْ تَرَ ) “، ”ک یا تم نے نہیں دیکھا“۔ بنی اسرائیل کے عمائد کے گروہ میں”مَلَا“ کہتے ہیں، ممتا ز آدمیوں کی جماعت۔

( اِلَی الْمَلَاء مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلِ ) ۔

بنی اسرائیل کے عمائد اور بڑے لوگ ، ان کو نہیں دیکھا کہ جب وہ آئے،

( اِذْقَالُوْالِنَبِی لَهُمْ ) ۔

اپنے نبی سے جو اس وقت تھا یہ کہا ۔ الفاظ بہت اُمید افزا ہیں کہ وہ جماعت یہاں ملے گی۔ انہوں نے یہ کہا:

( اَبْعَثْ لَنَامَلِکًا نُقَا تِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه ) ۔

ہمارے لئے ایک سردار مقرر کر دیجئے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ اُمید بڑھی کہ اتنا ذوقِ جہاد رکھنے والے لوگ ہیں کہ خود اپنے رسول سے تقاضا کررہے ہیں ، خواہش کررہے ہیں۔ اتنا ان کا دل بیتاب ہے راہِ خدا میں جنگ کرنے کیلئے تو ضرور وہی جماعت ہوگی۔ مگر اب نتیجہ جو ہے، عملی طور پر، وہ بہت مایوس کرے گا لیکن یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ چونکہ اس نبی کے دَور کے لوگ تھے اور اس کے گردوپیش کے آدمی تھے، تو وہ اتنا مانتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جنگ بغیر اُدھر کے سردار کے نہیں ہوسکتی۔ فقط جنگ کرنا ہوتی تو نبی سے آکر کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ خود ہی کانفرنس کرتے، خود ہی شوریٰ سے اجماع سے کسی کو اپنا سردار مقرر کرلیتے۔ لیکن جیسے بے بسی ہے، مجبوری ہے،کیونکہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنا ہے، تو بیچارے سب آکر نبی سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ایک ایسا سردار مقرر کردیجئے، مقرر کردیجئے یعنی اللہ سے مقرر کروا دیجئے۔ اللہ سے آپ کہہ دیجئے کہ مقر رکردے۔ بعد میں بتادیجئے گا کہ اللہ نے مقرر کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ” مقرر کیجئے “کے معنی یہ نہیں تھے کہ آپ مقرر کیجئے۔

اس سے ایک اور عملی نتیجہ ہمارے لئے پیدا ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی سردار کو مقرر کرنا اللہ کا کام تھا جس کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ جبھی تو رسول نے یہ کہا کہ اللہ نے مقرر کیا۔مطلب ان کا یہی تھا مگر اس مطلب کے حاصل کرنے کیلئے نبی سے کہا کہ آپ مقرر کر دیجئے۔ اسی طرح اگر دل میں یہ ہے کہ اللہ روزی دینے والا ہے لیکن ہم اس کے کسی مقرر سے کہیں کہ آپ ہمیں روزی دے دیجئے تو یہ شرک نہیں ہوگا۔

شرط یہی ہے کہ دل و دماغ میں یہ ہو کہ اصل عطا کرنے والا اللہ ہے تو پھر اگر دل و دماغ میں یہ ہے ، عقیدئہ ایمان یہی ہے تو الفاظ سے شرک نہیں ہوگا۔

( اَبْعَثْ لَنَا مَلِکًانُقَا تِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه ) ۔

”ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے“۔

اس کیلئے سردار مقرر کردیجئے۔ اندازقرآن مجید کی اور آیات میں بھی یہی ہے۔ خود ہمارے رسول کے ذریعہ سے بھی جو پیغام پہنچائے گئے ہیں کہ جو بات ہونے والی ہو، علم الٰہی میں اس کو رسول کی زبان سے بطور خطرہ پیش کیا جاتا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو، یہ ”کہیں ایسا نہ ہو“ کا انداز نتیجہ سے یہ ثابت کرتا تھاکہ یہ ہونے والا ہے اور اس کیلئے ایک نظیر قرآن کی پیش کردوں۔

قرآن میں کہا گیا ہے ، اس اُمت کو مخاطب کرکے، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہمارے رسول کی وفات ہوجائے یا قتل ہوجائیں تو تم پچھلے پیروں لوٹ جاؤ۔ میں نے کہا کہ سنت کلامِ الٰہی یہ ہے کہ جو بات ہونی ہوتی ہے، اس کو قبل میں رسول یوں کہا کرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو۔ یہ خطرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خطرہ کااظہار اِتمامِ حجت ہوتا ہے کہ اب تو ہوشیار رہیں کہ ایسا نہ ہونے پائے۔کہا جارہا ہے کہ انہوں نے یہ کہا تو نبی نے کیا کہا:

( قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَ لَا تُقَاتِلُوْا ) ۔

نبی نے کہا کہ ابھی گویا یہ میری طرف سے تبصرہ ہے کہ شکر خدا کرو کہ ابھی جنگ کا فریضہ ادھر سے عائد نہیں ہوا لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تم درخواست کررہے ہو۔ غرض کررہے ہو او رپھر اُدھر سے فریضہ عائد ہوجائے جنگ کا تو تم جنگ نہ کرو۔

جوش کے عالم میں آدمی نتائج پر کہاں غو رکرتا ہے! خود اپنے متعلق غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ کہا تو ان کی آتش عزم میں برافروختگی پیدا ہوگئی اور ان کے جوش میں اور زیادہ طوفانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ انہوں نے جو یہ کہا کہ:

( هَلْ عَسَیْتُمْ ) ۔

”کہیں ایسا نہ ہو کہ“

( اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ )

”جنگ کا فریضہ عائد ہوتو تم“

( اَ لَا تُقَاتِلُوْا ) ۔

”جنگ نہ کرو“۔

تو وہ کہنے لگے:

( قَالُوْاوَمَالَنَا اَلَّانُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَقَدْاُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَاوَاَبْنَائِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْااِلَّا قَلِیْلًا مِنْهُم ) ۔

”ہمیں کیا ہوجائے گا کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں جبکہ ہم گھر اور اہل و عیال کو چھوڑ کر نکلے ہوں گے“۔

یعنی اسی مقصد سے روانہ ہوں گے تو یہ ہوہی کیونکر سکتا ہے کہ ہم جنگ نہ کریں یعنی اس خطرہ کو سننے کے بعد انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہرگز یہ نہیں ہوگا۔ ممکن ہی نہیں ہے ، ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر اب باوجودیکہ تفصیل پھر بیان کرے گاقرآن ،لیکن آپ کی زحمت انتظار کو کم کرنے کیلئے خالق سمیٹ کر نتیجہ کا اعلان کئے دیتا ہے:

( فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْااِلَّا قَلِیْلًا مِنْهُمْ ) ۔

جب جنگ کا فریضہ عائد ہوا تو سن لو ابھی سے ،تفصیل بعد کو سننا ابھی سے نتیجہ سن لو کہ جب فریضہ عائد ہوتو ”تَوَلَّوا“جتنے تھے ، سب نے پیٹھ پھرائی،( اِلَّا قَلِیْلًا مِنْهُمْ ) سوائے تھوڑے سے آدم یوں کے۔ قلیل خود بھی کم ہے اور قلیلاً میں ترمیم تقلیل آئی ہے کہ کم اور بہت ہی کم۔ سب کے سب نے پیٹھ پھرائی، سوائے بہت کم کے۔ اور بہت ہی کم کے سوا ان میں سے۔ اب مسلمان یہیں بتادیں کہ حق ان کم کے ساتھ تھا یا زیادہ کے ساتھ تھا؟

”تَوَلَّوا“سب نے پیٹھ پھرائی،( اِلَّا قَلِیْلًا مِنْهُمْ ) سوائے بہت تھوڑے آدم یوں کے،

( وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ ) ۔

”اور اللہ ظالموں کو پہلے سے جانتا تھا“۔

یعنی میدانِ جنگ سے فرار کرنے والوں کو اللہ نے ظالمین کا لقب دیا اور بلا تبصرہ قرآن کی ایک آیت یاد کرلیجئے:

( لَایَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ ) ۔

”میرا عہد ظالموں کو کبھی نہیں پہنچتا“۔

آیت اتنے پر ہی ختم نہیں ہوجاتی تو روداد پوری مکمل جیسے ہم نے سن لی ہوتی کہ خود مطالبہ کیا اور متنبہ بھی کردیا گیا۔ خطرہ کا اظہار کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جتنے تھے، سب روگرداں ہوجائیں۔ ہم کو بصیرت اتنے میں بھی حاصل ہوجاتی مگر نہیں، زحمت انتظار کو ختم کرنے کیلئے یہ نتیجہ سنا دیا گیا۔لیکن ابھی واقعہ بیان کرنا ہے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارے لئے سردار مقرر کر دیجئے۔

( اِذْقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ) ۔

ان کے نبی نے یہ کہا کہ سنو! تم نے خود درخواست کی ہے تو تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے، تمہاری عرضداشت منظور کی جاتی ہے۔ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو سردار مقرر کیا ہے۔

بس جناب! خود ہی تو کہا تھا کہ مقرر کروا دیجئے اور اب جو نامزدگی ہوئی تو بُرا منانے لگے یعنی اگر کہہ دیا جاتا کہ تم اپنی پسند کا سردار مقرر کرلو تو خوش ہوجاتے۔ نہیں اُدھر سے نامزدگی ہوگئی۔

( اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ ) ۔

تمہارے لئے طالوت کو سردار اُس نے مقرر کردیا ۔ تو اب کہنے لگے:

( قَالُوْااَنّٰی یَکُوْنُ لَهُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا ) ۔

اس کو ہم پر سرداری کا حق کہاں سے ہوگیا؟

( وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکُ مِنْهُ ) ۔

اورہم اس سے زیادہ سرداری کے حقدار ہیں“۔

دیکھئے! عہدہ کی جاذبیت کیا کرواتی ہے۔ اب ماضی کو نہ دیکھئے۔ جب تک عہدہ کا سوال بیچ میں نہ آیا، کیسے اطاعت گزار ثابت ہورہے تھے، کیسے سعادت مند نظر آرہے تھے۔”( اَنّٰی یَکُوْنُ ) “ ۔”اَنّٰی“ کے معنی”( مِنْ اَیْنَ ) “ کے ہوتے ہیں۔کہاں سے اس کیلئے سرداری ہوگئی اور:

( نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْهُ ) ۔

اور ہم اس سے زیادہ سرداری کے حقدار ہیں۔

( وَلَمْ یُوْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ) ۔

ارے اس کے پاس پیسہ تو ہے ہی نہیں، مفلس آدمی ہے اور وہ سردار بنے گاہمارا؟

یہ مفلسی کا سوال تو پیغمبر خدا کے مقابلہ میں اٹھایا جاتا تھا۔ وہ بھی قرآن میں ہے:

( وَقَالُوْالَوْنُزِّلَ هٰذَاالْقُرْآنُ عَلَی رَجُل مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمْ ) ۔

آخر یہ قرآن مکہ اور مدینہ کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اُترا۔ یہ بڑے آدمی کا محاورہ اتنی مسافت طے کرکے نہ جانے کن کن راستوں سے ہم تک بھی پہنچ گیا کہ ہم دولت مندوں کو بڑا آدمی کہتے ہیں۔یہی ہماری زبان کا جزو ہے۔ یہ ان کی زبان تھی کہ انہوں نے کہا کہ یہ مکہ اور مدینہ کے کسی لکھ پتی، کروڑ پتی پر کیوں نہ اُترا۔ اگر اس پر اُترتا تو ہمیں ماننا آسان ہوجاتا کیونکہ ہماری طبیعت میں دولت مندوں کے سامنے ہی جھکنا ہے۔ یہ اس نے منتخب بھی کیا تو ایک ایسے یتیم کو کہ جس کے باپ کا دادا کے سامنے انتقال ہوگیا۔ اس لئے اپنی خاندانی وراثت سے بھی وہ محروم ہوگیا۔ ایسے کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کیلئے منتخب کیا تو وہاں کہا گیا:

( نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْهُ وَلَمْ یُوْتٰی سَعَةً مِنَ الْمَالِ )

اُسے پیسے میں وسعت تو دی ہی نہیں گئی ہے۔ دولت تو اس کے پاس ہے ہی نہیں۔ تو اب پیغمبر نے جوا ب دیا۔ تین ٹکڑے ہیں :

( قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰهُ عَلَیْکُمْ ) ۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اللہ نے اس کو منتخب کیا ہے۔ کہاں سے حق ہوا؟ اللہ کی طرف سے ہوا۔ اللہ نے اسے منتخب کیا ہے۔ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم ہی نے تو کہا تھا کہ اللہ سے منتخب کروادیجئے۔ اس نے منتخب کیا۔ اب یہ جو ہے کہ پیسہ نہیں ہے ، اس کے مقابل میں کہا جارہا ہے کہ اللہ نے بلاوجہ منتخب نہیں کیا ہے:

( وَزَادَهُ بَسْطَةً فِیْ الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ) ۔

اللہ نے اس کو علم اور جسمانی طاقت یعنی شجاعت میں فوقیت دی ہے۔ یعنی پیسہ نہ دیکھو، علم کی دولت دیکھو، شجاعت دیکھو۔ اب کسی کے مقابلہ میں دنیا کہے کہ پیسہ نہیں تھا، کسی کے مقابل میں کہے کہ زر کم ہے، اس سے کچھ نہیں بنے گا، علم کو دیکھئے اور شجاعت کو دیکھئے کہ

کتنی ہے۔

اور ابھی تو شخصی حکم تھا کہ اس کو منتخب کیا اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں منتخب کیا! رسول کا اعلان:

( وَاللّٰهُ یُوْتِیْ مُلْکَهُ مَنْ یَشَاءُ ) ۔

یہ اختیار اللہ کو ہے کہ وہ اپنی طرف سے اقتدار کو جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے۔ اس میں دوسروں کی رائے کا دخل نہیں ہوا کرتا۔

( وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلَیْمٌ ) ۔

اور اللہ قادر بھی ہے اور علیم بھی ہے۔

یعنی بلاوجہ انتخاب نہیں کیا کرتا۔ کچھ ہوتی ہیں وجوہِ اختیار جس کی بناء پر وہ انتخاب کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد مزید اطمینان کیلئے کہا جاتا ہے:

( وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اَنَّ اٰیَةَ مُلْکِه اَنْ یَاتِیَکُمْ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَکِیْنَةٌ وَبَقِیَّةٌ مِمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هَارُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰئِکَةُ ) ۔

دیکھو! اس کی، اللہ کی طرف سے سرداری کی نشانی یہ ہے ۔ قرآن کی زبان میں معجزے کو آیت کہاجاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ، میں تمہیں بتاتا ہوں ایک معجزہ، وہ دلیل ہوگا اس کی کہ اس کو اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کی سرداری کی اُدھر کی طرف سے علامت اور پہچان یہ ہے کہ تابوتِ سکینہ آئے گا ۔ تابوتِ سکینہ میں الواح توریت تھے اور تبرکاتِ انبیاء تھے۔ یہ سب جب بیت المقدس پر بت پرستوں کا حملہ ہوا تو لوٹ لیا گیا تھا۔ چنانچہ توریت بھی غائب ہوچکی تھی ۔مدتوں پتہ ہی نہیں چلا کہ توریت کیا ہوئی؟اس لئے کہ پورا صندوق ہی لے جایا گیا تھا اور کئی سو برس وہ غائب رہا۔ پتہ نہیں چلا کہ اس کا کیا ہوا؟ انہوں نے معجزہ یہ بتایا ، ثبوتِ انتخابِ الٰہی یہ بتایا کہ وہ تابوت یا صندوق جو تمہارا گم شدہ ہے، وہ تمہارے پاس آجائے گا اور اس میں سکون کا سرمایہ ہوگاتمہارے پروردگار کی طرف سے اورجتنا بچا کھچا سرمایہ ہے، آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کا۔ تبرکات جتنے رہ گئے ہیں، وہ تابوت کے اندر تم تک پہنچ جائیں گے اور اُسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ کوئی آدمی کا ذریعہ نہیں ہوگا۔

اتنا نمایاں معجزہ ہے۔ اس سے علمائے اسلام کے درمیان کی ، علم کلام کی ایک بحث طے ہوجاتی ہے کہ پتہ چلتا ہے کہ معجزہ انبیاء سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو اُدھر کا عہدہ ہو، اس کیلئے معجزہ ہوتا ہے۔

ملائکہ اُسے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ کوئی آدمی نظر نہ آئے تو مان لیں گے کہ ملائکہ آرہے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ واقعی ملائکہ انہیں نظر آئے تھے یعنی وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ یہ عام انسان نہیں ہیں جو لارہے ہیں۔

( اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَةٌ لَکُمْ ) ۔اس م یں تمہارے لئے نشانی ہے۔ ایک نمایاں معجزہ ہے۔

( اِنْ کُنْتُمْ مُو مِنِیْنَ ) ۔

اگر تم صاحبانِ ایمان ہو۔ یعنی اب ان کا ایمان اس کے تسلیم کرنے اور صبر کا کردار برقرار رکھنے سے وابستہ ہے۔ اتنا معجزہ بھی دیکھ لیا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی ہے کہ ایسے ایسے بیانات رسول سے دنیانے سنے اور ایسے ایسے رسول کے ثبوتِ حقانیت دیکھے اور پھر بھی راہِ راست سے منحرف ہوئے۔ جب قرآن کی روشنی میں دیکھا کہ ہوا ہے ایسا تو پھر حیرت باقی نہیں رہتی۔

( فَلَمَّافَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ ) ۔

جب طالوت افواج کو لے کر چلے ۔ ماشاء اللہ مجاہدین کی کثرت وہ ہے کہ فوج نہیں ہے۔ قرآن کی زبان میں افواج ہے۔ جُند ایک فوج کو کہتے ہیں اور یہاں جنود ہے۔جب طالوت لشکروں کو لئے ہوئے ، فوجوں کو لئے ہوئے روانہ ہوئے تو پہلے ایک آزمائش کا اعلان کردیا کہ ایک تمہارا امتحان ہونا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک نہر سامنے بہہ رہی ہوگی۔ امتحان یہ ہے کہ اس کے پانی کو پینا نہیں۔ گویا تمہارا امتحان عطش ہوگا۔ باوجود نہر کے سامنے ہونے کے:

( اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَهْر فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ) ۔

جو اس میں سے پی لے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جو اس میں سے پی لے گا، کچھ بھی تو مجھ سے اس کا کوئی ربط نہ ہوگا۔

( وَمَنْ لَمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهُ مِنِّیْ ) ۔

جو بالکل نہیں پئے گا، وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہوگا۔ قرآن کا جملہ میں پڑھوں گا اور مستقبل کے کردار کا مرقع آپ کی نظروں کے سامنے پھر جائے تو میں کیا کروں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ پئے نہیں، سوا اس کے کہ چلّو میں پانی لے کر پھینک دے۔

( اِلَّا قَلِیْلًا مِنْهُمْ ) ۔

سب نے پانی پی لیا، سوائے کم بہت ہی کم لوگوں کے۔ انہی سے پتہ چل گیا مستقبل کے نتیجہ کا جو پہلے اعلان ہوچکا:

( فَلَمَّاجَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَهُ ) ۔

جب وہاں سے آگے بڑھے وہ، یعنی طالوت اور جو اُن کے ساتھ اہلِ ایمان تھے تو ان سب نے کہا:

( قَالُوْالَا طَاقَةَ لَنَااَلْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهِ ) ۔

مقابل کا نام جالوت تھا۔ اسی کے وزن پر ادھر والے کا نام طالوت ہوگیا تھا۔ پس انہوں نے کہا کہ ہم میں طاقت نہیں ہے جالوت اور اس کے ساتھ والوں سے مقابلہ کرنے کی۔

( قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُلٰقُوااللّٰهَ ) ۔

ان لوگوں نے جنہیں کچھ گمان تھا کہ اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری جماعت کو تو تصور ہی نہیں تھا کہ اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ ان لوگوں نے جن کو گمان تھا کہ وہ اللہ سے ملاقات کریں گے، وہ جو اللہ کو منہ دکھانے کا ذرا تصور رکھتے تھے، انہوں نے یہ کہا:

( کَمْ مِنْ فِئَة قَلِیْلَة غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَة بِاِذْنِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) ۔

ارے بھئی ہمت کیوں ہارتے ہو۔ بہت ممکن ہے کہ تھوڑی سی جماعت ہو اور وہ کثیر جماعت پر غالب آجائے اللہ کے حکم سے اور اصل ے ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

( وَلَمَّابَرَزُوالْجَالُوْتُ وَجُنُوْدُهُ ) ۔

جب جالوت اور اس کا لشکر نکلے تو اب اس جماعت نے جو ثابت قدم تھی اور کہہ رہی تھی کہ کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں پر غالب آسکتے ہیں، انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھادئیے:

( قَالُوْا رَبَّنَا اَفْرِغ عَلَیْنَاصَبْرًاوَثَبِّتْ اَقْدَامَنَاوَانْصُرْنَاعَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) ۔

پروردگار! ہم پر اپنی طرف سے صبر انڈیل دے اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافروں کی قوم کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔

اس چھوٹی سی جماعت کے ثباتِ قدم کا نتیجہ یہ تھا کہ:

( فَهَزَمُوْاهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ وَقَتَلَ دَاودُجَالُوْتَ ) ۔

اللہ کے حکم سے ان کو شکست دے دی۔ حضرت داؤد جالوت کی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے آئے تھے۔

اب نتیجہ آپ کے سامنے پیش کرنا ہے کہ مجھے نبی تو مل گیا، وہ جماعت نہیں ملی۔ اب میں نے خیال کیا کہ یہ نبی تو ایسے تھے کہ ان کا نام تک ہمیں نہیں معلوم ۔ نبی تھے اور رسول ہونا بھی اس معنی سے نہیں ثابت۔ اگر کوئی رسول ہو ، اولوالعزم ہو تو وہاں وہ جماعت بھی دستیاب ہوگی۔ میں نے مزید ورق گردانی کی تو بہت زیادہ ورق نہیں الٹنے پڑے۔ اب مجھے حضرت موسیٰ مل گئے ۔ میں نے کہا کہ یہ تو کلیم اللہ ہیں، اولوالعزم ہیں، صاحب شریعت و کتاب ہیں۔لہٰذا ان کے ساتھ کی جماعت تو اس معیار پر ضرور ہوگی کیونکہ جتنا بڑا رسول ہو، ویسے ہی گویا اس کے ساتھ والے ہوتے ہیں۔

یہ حضرت موسیٰ ہیں۔ ان کا کیا کہنا تو ان کے ساتھ کی جماعت کا کیا کہنا۔ لیکن اب قرآن مجید کو پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اُسے بھی قرآن نے تفصیل سے پیش کردیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جن کے اچھے اوصاف ہوں، ان کا ذکر کرنے سے فائدہ ہے لیکن کوئی کیسا تھا، اس کا ذکر کرنے سے کیا فائدہ؟ میں تو دیکھتا ہوں ایسے تاریک مرقعوں کو قرآن زیادہ پھیلا کر بیان کرتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی نقطہ نگاہ سے اس میں درس زیادہ ہے کہ آدمی ایسوں سے بچنے کی کوشش کرے۔

ہمارے قبلے بیت المقدس پر اس وقت بھی دوسروں کا قبضہ تھا۔ارشاد ہورہا ہے کہ موسیٰ نے اپنے ساتھ والوں سے کہا:

( اُدْخُلُواالْاَ رْضَ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰهُ لَکُمْ ) ۔

دیکھئے! یہاں ان کی ہمت ڈھارس اور اطمینان بلند کرنے کے سامان کئے گئے ہیں کہ انہیں پہلے سے بتائے دیتے ہیں کہ آخر میں قلم تقدیر جاری ہوچکا ہے۔ آخر میں وہ زمین تمہارے قبضہ میں آئے گی۔ بس تمہارا کام یہ ہے کہ داخل ہوجاؤ اس ارضِ مقدس میں۔

( اَلَّتِیْ کَتَبَ اللّٰهُ لَکُمْ ) ۔جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ د ی ہے۔

فیصلہ تقدیر کا اعلان کردیا۔ اگر علم غیب نہ ہوتا تو اعلان کیونکر کرتے؟ فیصلہ تقدیر کا۔ مگر شرط یہ ہے :

( وَلَا تَرْتَدُّوْاعَلٰی اَدْبَارِکُمْ ) ۔

دیکھو! پچھلے پاؤں پلٹنا نہیں، فرار نہ کرنا۔اگر فرار ہوئے تو اللہ کو وعدہ یاد دلا کر شکوہ نہ کرنا کہ تو نے یہ وعدہ کیا تھا، یہ بجلی ہمارے خرمن پر کیوں گری؟ تو پچھلے پاؤں پلٹ نہ جانا ، فرار نہ کرنا۔ مطلب وہی ہے:

( فَتَنْقَلِبُوْاخٰسِرِیْنَ ) ۔

ورنہ پھر گھاٹا ہوگا ، ورنہ پھر خسارہ ہوگا، خرمن پر بجلیاں گریں گی۔ یہ اعلان کردیا کہ جاؤ، داخل ہوجاؤ ۔ مگر یہ چلے تو کیا ہوا؟ حضرت موسیٰ سردار ہیں اور ان کے ہمت بڑھانے سے آگے بڑھے ہیں بیت المقدس کے بارے میں پتہ کرنے کیلئے۔وہاں پہنچے تو وہاں کے قد آور آدمی نظر آئے تو کہنے لگے کہ جناب! یہ تو بہت ہی قد آور لوگ ہیں۔ ہمیں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

( وَاِنَّالَنْ نَدْخُلَهَا حَتّٰی یَخْرُجُوْامِنْهَا ) ۔

انہوں نے کہا تھا کہ داخل ہوجاؤ۔ پھر وعدہ کرتاہوں کہ اللہ تمہیں فتح دے دے گا۔ مگر وہ کہتے ہیں ”( لَنْ نَدْخُلَهَا ) “، ہم ہرگز داخل نہ یں ہوں گے۔”( حَتّٰی یَخْرُجُوْامِنْهَا ) “، جب تک وہ نکل نہ جائیں۔

سبحان اللہ! جہاد کرنے لگے ہیں، یہ عجیب داخل خارج ہے کہ وہ خارج ہوجائیں تو ہم داخل ہوجائیں گے۔ یعنی مالِ غنیمت لوٹنے میں ہم آگے بڑھ جائیں گے۔

( فَاِنْ یَخْرُجُوْامِنْهَافَاِنَّادَاخِلُوْن ) ۔

اگر وہ نکل جائیں گے تو یقین مانئے کہ ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔ بڑا کارنامہ کریں گے۔وہاں تو پھر بھی قرآن نے کچھ پردہ رکھا تھا کہ”( اِلَّا قَلِیْلًا ) “۔ سوائے تھوڑے سے، بہت ہی کم سہی لیکن خیال ہوتا ہے کہ جب افواج تھیں تو کم بیس ہوسکتے ہیں، تیس ہوسکتے ہیں، پچا س ہوسکتے ہیں۔ وہ بھی کم اور بہت کم ہوئے لیکن یہاں تو قرآن نے شمار کرکے بتا دیا ہے کہ:

( قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ ) ۔

صرف دو عدد آدمیوں نے جو اللہ کا خوف رکھتے تھے، یعنی پوری جماعت اللہ کا خوف نہیں رکھتی تھی۔

( قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ ) ۔

کہا دو آدمیوں نے، جو اللہ کا خوف رکھتے تھے۔

( اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ) ۔

جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا۔ قرآن کی تفسیر نہیں کررہا ہوں کہ تفسیر بالرائے ہو مگر ایک آیت سے دوسری آیت یاد آجائے تو کیا کروں کہ قرآن نے ان دو کو کہا ہے کہ جن پر نعمت اپنی خاص اُتاری تھی۔

اب ہم دعا کرتے ہیں سورئہ حمد میں:

( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ) ۔

راستہ ان کا جن پر تو نے اپنی نعمت اُتاری ہے۔ تو ہم تو ثابت قدم لوگوں کو سمجھتے ہیں کہ ان پر اللہ کی نعمت ہے۔ انہی کے ساتھ ہونے کی دعا کرتے ہیں۔

دو آدمیوں نے ، جو اللہ کا خوف رکھتے تھے، اور جن پر ہماری نعمت خاص ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ تم آگے تو بڑھو۔

( اُدْخُلُوْاعَلَیْهِمُ الْبَابَ ) ۔دروازہ کے اندر تو داخل ہو۔

( فَاِذَادَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ ) ۔

ہم یقین دلاتے ہیں کہ اگر تم داخل ہوجاؤ گے تو غلبہ تمہارا ہی ہوگا یعنی نبی کی بات غلط نہیں ہوسکتی۔ یہ دو آدمی تھے صرف جو یہ کہہ رہے تھے:

( فَاِذَادَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَعَلَی اللّٰهِ فَتَوَکَّلُوْااِنْ کُنْتُمْ مومنین ) ۔

اللہ پر بھروسہ کرو، اگر تم مومن ہو۔ مگر ان بیچارے دو کی صدا، صدابصحرا ہوگئی اور انہوں نے وہی کہا جو پہلے کہا تھا اور بڑے دل شکن انداز میں یعنی گستاخی کی پیغمبر کے ساتھ اور خدا کے ساتھ۔انہوں نے کہا:

( قَالُوْایَامُوْسٰی لَنْ نُدْخُلَهَااَبَدًامَادَامُوْافِیْهَا ) ۔

پورے عزم بالجزم کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ ہم ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس میں ہیں، اس وقت تک ہم داخل نہیں

ہوں گے۔

( فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ ) ۔

نبی سے رسول کہہ رہے ہیں کہ آپ جائیے اور آپ کا پروردگار چلاجائے یعنی نہ وہ ان کو رسول مان رہے ہیں ، نہ اس کو پروردگار مان رہے ہیں۔ بس وہ انہی کا، حضرتِ موسیٰ کا پروردگار ہے۔آپ اور آپ کا پروردگا ردونوں چلے جائیے۔”فَقَا تَلَا“۔ بس آپ دونوں جنگ کرلیجئے، آپ قتال کرلیجئے۔ ہم یہیں پر ”قَاعِدُوْن “، ہم یہیں پر بیٹھے ہوں گے۔ یہ دل شکن طرزِ تخاطب وہ تھا کہ رسول کا دل ٹوٹ گیا اور بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھادئیے اور خدا سے یہ کہا:

( قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَااَمْلِکُ اِلَّانَفْسِیْ وَاَخِیْ ) ۔

اے پروردگار! تو دیکھ رہا ہے انہیں مجھے قابو نہیں ہے۔سوا اپنے نفس کے اور اپنے بھائی کے۔

معلوم ہوا کہ جب دنیا پلٹ گئی تب بھی بھائی ساتھ رہا۔ مجھے نہیں قابو کسی پر بھی سوا اپنے نفس کے اور اپنے بھائی کے۔

( فَافْرِقْ بَیْنَنَاوَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ) ۔

بس تو ہی اب فیصلہ کردے ہمارے درمیان اور اس فاسق گروہ کے درمیان۔ شروع میں اللہ نے ظالمین کا لقب دیا تھااور اب دوسرا تحفہ ملا، رسول کی زبانی فاسقین کا اور اگر خالق ایسے لوگوں کو فاسقین کہہ رہا ہے ، کوئی پوری جماعت کو عدول کہہ دے کہ سب عادل ہیں تو وہ اپنے فیصلے کا ذمہ دار ہے۔ میں نے پھر تلاش کرڈالا ، نہ کہیں جنگ کا مجھے ذکر ملا کسی نبی کے بیان میں اور جب جنگ کا ذکر نہیں ملا تو وہ جماعت مجھے کہاں ملتی ؟ تو کیا کروں کہ الفاظِ قرآنی تو تشنہ تصدیق عمل رہے۔ اس نے ایک اوصاف کا مرقع پیش کیا۔

نبی مجھے ملا مگر جماعت نہیں ملتی ۔ تو وہ جماعت کونسی ہے جس کے اوصاف یہاں بیان کئے۔مایوس ہوا۔جس دَور کی تاریخ ہے ہی نہیں، اس کی تلاش کیسے کروں؟جہاں سے تاریخ ملی، اسے تلاش کیا تو قرآن میں جماعت نہیں ملی۔ تاریخ میں مل گئی۔ اب وہاں جماعت نظر آرہی ہے تو نبی نظر نہیں آتا۔ اب اگر قرآن کو ماننا ہے اور ان اوصاف کے مصداقِ اکمل کو مشاہدہ کے طور پر ایک جماعت میں آپ دیکھ رہے ہیں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ چاہے نبی سامنے نظر نہ آرہا ہو، مگر جماعت وہ یہی ہے جو نبیوں کی ساتھی ہے۔ وہ نبی نہیں ہیں مگر جس کے ساتھ ہے، وہ نمائندئہ قوم انبیاء کا ہے۔

ہر متن قرآن کی شرح مجھے مل جائے گی۔ جب اس جماعت کے کردار کو دیکھوں گا ۔ اس نے کہا تھا جو مصائب آئیں راہِ خدا میں، اس کی وجہ سے عمل میں سستی پیدا نہیں ہوئی۔وہ مصائب تو تعداد میں ایسے ہیں، بے سروسامانی ہے۔ سب ایک طرف۔ پانی بند ہوگیا مگر ان کی قوتِ عمل میں کوئی سستی پیدا نہیں ہوئی۔ جو اللہ کی راہ میں ان کو مصیبت پیش آگئی، اس سے ان میں سستی پیدا نہیں ہوئی اور”( مَاضَعُفُوْا ) “،

انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی۔ لوگ کہتے ہیں کہ بہتر( ۷۲) کو فوج کیوں کہاجاتا ہے ۔ کہیں بہتر( ۷۲) کی فوج ہوتی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ مولا اگر ان کو فوج نہ سمجھتے تو ترتیب لشکر کیوں کرتے؟


8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40