افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم0%

افسانہ عقد ام کلثوم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 105

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 105
مشاہدے: 31025
ڈاؤنلوڈ: 3127

تبصرے:

افسانہ عقد ام کلثوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31025 / ڈاؤنلوڈ: 3127
سائز سائز سائز
افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف:
اردو

الزام لگایا جائے صاحب عقل اور آشنا ئے تہذیب وتمیڑ اس شخص کو صحیح الداماغ سمجھے گا جو ساٹھ سال کی عمر میں اپنی صغیر سن پر نواسی سے شادی رچا کر بازاروں میں لوگوں سے مطالبہ کرتا پھرے کہ اس شادی پر اسے مبارک باد پیش کرو ۔کیا یہ اپنے جرم کی رسوائی نہ ہوگی ؟ یہ تمام قصہ واہیات ہے اور اس کا حقیقت ہے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔

عائشہ :- نہیں مس عالیہ یہ محض تمھارا قیاس ہے اور محض ذاتی نظرئیے سے روایات کا ابطال نہیں ہوسکتا ہے جبکہ ایسی روایات تم شیعوں کی کتابوں میں بھی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ نکاح ہوا ۔

عالیہ :- دیکھئے بہن ۔ہم شیعہ تو ایسے اتہام کو گالی گلوج میں شمار کرتے ہیں ۔ہمارے نزدیک جناب ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نہ ہی حضرت میں آئیں اور نہ ہی آسکتی تھیں ۔کوئی بھی صاحب عقل سلیم اس بات کو قبول نیں کرتا کہ حضرت عمر جیسا زیرک شخص ایسا خود رفتہ ہو کہ سن و سال اور فطرت سب کا خیال برطرف کرکے ایسے بے جوڑ ازدواج کی طرف متوجہ ہوا ۔

آپ لوگوں کو ہم پرشکوہ ہے کہ ہم حضرت عمر کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن آپ لوگ خود اس بات کو فرض کرکے حضرت عمر کی سیرت پرایسا دھبہ لگاتے ہیں کہ اگر ہم اس کو اپنی زبان پر لائیں تو آپ برا مان جائیں ۔بہتر یہ ہے کہ اس قصّہ کو ترک کردیجئے ۔ورنہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنی معروضات پیش کروں ۔

عائشہ :- تم بڑے شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کرو ۔مگربلا نفسانیت اور طعن وتشنیع۔

عالیہ:- میں پوری کوشش کروں گی کہ رواداری سے بعد اختیار نہ ہو اور تمھارے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ لگے ۔تاہم اگر دوران گفتگو کوئی کلام ناگوار

۲۱

گزرے تو افہام وتفہیم کی خاطر درگزر کرلینا ۔بڑی مہربانی ہوگی ۔جان من! یہ قصّہ ایسا بے ہودہ اور ناگفتہ بہ ہے کہ اگر معاذاللہ تمھارے کہے سے صحیح مان لیا جائے تو اسلام کے دوبڑے ارکان کی سیرت داغدار ہوجاتی ہے اور ان کی ایسی توہین وتذلیل ہوتی ہے کہ جو شخص سنے گا وہ ان کے کردار بلکہ نام سے بھی نفرت کرے گا ۔جس کی ایک زندہ مثال مس ایلزبتھ تمھارے سامنے بیٹھی ہے ۔اگر تم واقعی اس قصّہ واہی پر زور دینا چاہتی ہو تو پھر تمھیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عمر ایک بڑے بے حیا ،بے غیرت اور حرصی ہوس پرست آدمی تھے انھوں نے اپنی آخری عمر میں ایسے غیر معقول کا م کی خواہش کی جس کا تصور کرنا بھی ذلالت ہے ۔اب اگر پہاڑ کو کھودنا ہی چاہتی ہو تو اس سے بر آمد ہونے والا چوہا بھی نرالا ہوگا ۔غیر مسلمانوں کے لئے تو یہ بحث ناٹک ہوگا ۔ یعنی سنی المذہب لوگ جو حضرت عمر کا بڑا عالی وقار ،بلند خیال اور پاکیزہ کردار اعتقاد کرتے ہیں جب اس بات کو ثابت کریں گے تو یہ کوشش حضرت عمر کو بد ترین بے حیا اور انتہائی بے غیرت ثابت کرنے کی ہوگی کہ ایسے سفیہ النفس تھے کہ جس لڑکی کو ان کی بیٹی نواسی کہتی تھی اس سے ساٹھ سا ل کی عمر میں شادی کی خواہش تھی جبکہ شیعہ جن پر دشمن عمر ہونے کا الزام ہے وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ حضرت عمر ایسے برے آدمی نہ تھے ۔تم خود غور کرو ۔اگر آج کوئی نیچ سے نیچ قوم کا بڈھا بھی اپنی بیٹی کی نواسی سے بیاہ کرنے کی خواہش کا اظہار کردے تو لوگ اس کو کیا کہیں گے ؟

اگرنعوذ با للہ یہ قصّہ سچ ہے تو حضرت حفصہ پر بھی افسوس ہے کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار کو یہ نہ سمجھایا کہ ابا جان آپ کی مت کیا ہوئی کہ میری نواسی سے شادی کرتے ہوئے کچھ بھی حیا نہیں آتی۔ایسی بے ہودگی نہ صرف ہند وپاکستان

۲۲

میں قابل مذمت ہے بلکہ اہل عرب میں بھی یہ بات سخت مذموم ہے اور پھر جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں تو اور بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور حضرت عمر کے خلاف نفرت کے جذبات مین تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ۔

۲۳

میں کیا کروں رام مجھے بڈھا مل گیا

عائشہ:-ایسی روایات کونسی ہیں؟۔

عالیہ :- وہ ایسی توہین آمیز روایات ہیں کہ جن کو بیان کرنا بھی مانع شرم وحیا ہے لیکن اس بے ہودگی کی وضاحت اور ان موضوع روایات کی حقیقت روایت ودرایت کے انکشاف کے لئے میں تمھیں چند منقولہ حوالہ جات اپنی ڈائری سے پڑھوادیتی ہوں ۔ انھیں پڑھ کر خود فیصلہ کرنا کہ اس نکاح کے قائل سنی حضرات کتنی زبردست گستاخی شان عمر میں کرتے ہیں ۔

عالیہ اٹھتی ہے اور اپنے صندوق سے ایک ڈائری نکال کر لاتی ہے اور مطلوبہ صفحہ نکال کر عائشہ کی طرف بڑھا کر دعوت مطالعہ دیتی ہے اور کہتی ہے اس کا مطالعہ آرام سے کرو ۔باقی گفتگو کل ہوگی ۔ڈائری میں مرقوم ہے کہ

بے ہودہ روایات:-

ا:- حضرت عمر نے حضرت علی سے ان کی دختر ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ۔حضرت علی نے فرمایا ابھی وہ کمسن ہے پس عمر نے کہا نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ آپ مجھ کو رشتہ نہیں دینا چاہتے اگر وہ کمسن ہے تو اس کو میرے پاس بھیجدو ۔پس حضرت علی نے ام کلثوم کو بلا کر ایک پوشاک دی اور کہا یہ عمر کے پے لے جاؤ اور ان سے کہہ دو میرے والد کہتے ہیں کہ یہ پوشاک کیسی ہے ؟ پس وہ پوشاک لے کر عمر کے پاس آئیں اور پیغام دیا تو عمر نے ام کلثوم کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔ام کلثوم نے کہا میرا بازو چھوڑ دو ۔پس انھوں نے چھوڑ دیا اور کہا بڑی اچھی پاکدامن لڑکی ہے جاکر باپ سے کہدے کہ کتنی حسین اور کتنی خوبصورت ہے ایسی نہیں ہے جیسا کہ تم نے کہا تھا ۔ پس پھر علی نے ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی (ذخائر العقبی ص ۱۶۸)۔

۲۴

۲:- عمر نے ام کلثوم کارشتہ کیا تو انھوں نے کہا وہ ابھی چھوٹی بچی ہیں ۔عمر نے کہا کہ میری اس سے شادی کردیں ۔ میں اس کی فضیلت طلب کرنا چاہتا ہوں جس کو کوئی بھی طلب کرنے والا نہیں ۔حضرت علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمھارے پاس بھیجتا ہوں اگر تم اس کو پسند کرلو تو میں نے اس کی شادی تم سے کردی ۔پس حضرت علی نے اس کو ایک چادر دے کر بھیجا اور کہا اس سے کہدینا کہ یہی و ہ چادر ہے جو میں نے تم سے کہی تھی ۔ام کلثوم نے جا کر عمر سے یہ بات کہی تو عمر نے کہا ،اللہ تم سے راضی ہو میں نے پسند کر لی ۔پس عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی کی طرف ہاتھ بڑھا یا اور اس کو کھول دیا ۔ ام کلثوم نے کہا تم ایسا کرتے ہو اگر تم امیر المومنین نہ ہوتے تو میں تمھاری ناک توڑ دیتی پھر ام کلثوم واپس گئیں اور حضرت علی سے واقعہ بیان کیا اور کہا آپ نے مجھے بد کار بڈھے کی طرف بھیج دیا ۔حضرت علی نے فرمایا ۔اے بیٹی وہ تمھارا شوہر ہے ۔پھر مہاجرین کی محفل میں آئے اور کہا مجھے مبارک کہو ۔انھوں نے کہا کس لئے ؟ کہا میں نے ام کلثوم بنت علی سے شادی کرلی ۔(استیعاب جلد ۴ ص ۴۶۷)

عا ئشہ جوں جوں راویات پڑھ رہی ہے فرط ندامت سے پانی پانی ہورہی ہے دل ہی دل میں کڑھتی ہے اس کا ضمیر ضمیر بار بار اسے جھنجھوڑ رہا ہے کہ اگر واقعی یہ بزرگ اس کردار کے تھے تو ان کو ہرگز ہرگز مذہبی پیشوا تسلیم نہیں کرنا چاہئیے ۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک باپ ایسا بے غیرت ہو کہ اپنی صغیر سن بیٹی کو خود ہی ایک بڈھے امیدوار کے گھر بھیجدے کہ وہ امتحان کرے ۔ توبہ توبہ یہ گھٹیا حرکت تو کوئی رذیل سے رذیل بھی کرنے پر موت کو ترجیح دینا گوارہ کریگا چہ جائیکہ اسلام کے مہروماہ بزرگ کے بارے میں ایسا اتہام تجویز کیا جائے اور پھر وہ شخص جو ضعیف العمری میں نابالغ لڑکی سے بیاہ کرنے پر ضد ہے کسقدر درندہ صفت اور کمینہ ہے کہ معصوم بچی سے نازیبا حرکت کر رہا ہے جبکہ ابھی تک وہ اس کے حبالہ عقد میں بھی نہیں ۔الامان ۔ایسا کردار ہمارے پیشواؤں کا ہرگز نہیں ہوسکتاہے ۔

اسی خیالی کشمکش میں عائشہ ورق گردانی کر رہی ہے اور اب وہ تیسری روایت دیکھ رہی ہے ۔اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر کہیں ایلزبتھ یہ کار وائی پڑھ لے گی تو ہاتھ آیا شکار لمحہ بھر میں نکل جائے گا ۔ساری محنت اکارت ہوگی تاہم وہ ذہنی خلفشار میں گرفتار مطالعہ میں مصروف ہے ۔

۳:- عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا تو انھوں نے کہا کہ وہ صغیرہ ہے ۔حضرت عمر سے کہا گیا کہ حضرت علی نے آپ کو رشتہ دینے سے جواب دے دیا ہے پس انھوں نے پھر طلب کیا تو حضرت علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمھاری طرف بھیجوں گا اگر تم کو پسند آگئی تو وہ تمھاری بیوں ہے پس علی نے ام کلثوم کو بھیجدیا اور عمر نے ان کی پنڈلی کھولی ۔ام کلثوم نے کہا ہٹ جا اگر امیر المومنین نہ ہوتا تو میں تیری آنکھوں پر تھپڑ ماردیتی (اصابہ جلد ۲ ص ۴۶۲)

اس روایت کے پڑھنے پر عائشہ کو ان ظالم حکمرانوں کا خیال آتا ہے جو

۲۵

رعایا کی بہو بیٹیوں کو اپنی خواب گاہوں کی زینت بنا نے کے لئے بزور شمشیر اغوا کرلیتے تھے اور اسی طرح کا کردار اسے اپنے خلیفہ دوم فاروق اعظم کا نظر آتا ہے کہ لڑکی کا باپ بوجہ صغیر سنی رشتہ دینے سے گریز کر رہا ہے اور وہ مجبور کررہے ہیں ۔لاچار باپ درندہ صفت حاکم کے محل میں اپنی بیٹی روانہ کرتا ہے اور وہ ننگ شرافت اس بچی کی پنڈلی کھول کر جبر کرنے کا ارادہ کرتا ہے کہ بچی کراہیت شدید کر کے مزاحمت کرتی ہے اور اعتراف کرتی ہے کہ اگر تو بادشاہ نہ ہوتا تو تجھے تھپڑ رسید کردیتی ۔ کیا اسلامی تعلیمات یہی ہیں جو اسلام کے دو رہنماؤں کے کردار وں سے اس روایت کے مطابق ظاہر ہوتی ہے اگر یہی اسلام ہے تو پھر کفر اس سے لاکھ درجے اچھا ہے ،یقینا یہ حکایات موضوع اور بے ہودہ ہیں ۔

ایسے ہی ذہنی چڑھاؤ میں مبتلا عائشہ اگلی روایت کا مطالعہ کرتی ہے ۔

۴:-عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا تو انھوں نے کہا اے امیر المومنین ابھی وہ بچی ہے عمر نے کہا کہ خدا کی قسم ایسی بات نہیں مگر مجھے علم ہے کہ آپ کے دل میں کیا ہے ؟پس علی نے حکم دیا او ربچی کو سجا یا سنورا گیا اور ایک چادر اس کو اوڑھائی گئی اور آپ نس کہا خلیفہ سے جاکر میرا سلام کہہ دے اور کہہ دے اگر یہ چادر پسند آئے تو رکھ لو ۔ ورنہ واپس کردو جب وہ بچی آئی تو عمر نے کہا اللہ تجھ میں اور تمھارے باپ میں برکت لائے ہمیں پسند ہے ۔پس وہ باپ کے پا س واپس گئی اورکہا اس نے چادر نہیں کھولی بلکہ مجھے دیکھا پس آپ نے اس کی شادی کردی ۔اور اس سے ایک لڑکا زید پیدا ہوا ۔(طبقات ابن سعد جلد ۸ ص ۴۶۴)

عائشہ نے محسوس کیا کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کا باپ رشتہ دینے پر دل سے آمادہ نہیں ہے ۔بہر حال اگلی روایت پڑھتی ہے

۲۶

۵:- حضرت علی نے حکم دیا اور ام کلثوم کو آراستہ کیا گیا اور حضرت عمر کے پاس بھیجا گیا جب عمر نے اس کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور لڑکی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور بوسے دیئے اور دعا کی اور جب وہ اٹھنے لگی تو پنڈلی سے پکڑ لیا اور کہا ۔باپ سے کہدینا میں بلکل راضی ہوں جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس آئی اور ان کو سارا واقعہ سنایا تو علی نے ان کا نکاح عمرسے کردیا ۔(صواعق محرقہ جلد ۱ ص ۱۵۹)

یہ روایت دیکھ کر عائشہ اس عالم میں نظر آرہی ہے اگر زمین جگہ دے تو زندہ دفن ہوجائے ۔فاروق اعظم کی کتنی شرمناک انداز میں توہین کی گئی ہے ایسی رنگ رلی تو محمد شاہ رنگیلے کے باب میں بھی نہیں مل سکتی ہے ۔ امیر المومنین خلیفہ المسلمین ،صحابی رسول ساٹھ سالہ بزرگ ایک غیر محرم نابالغ بچی کو نکاح کرے بغیر گودہی میں کھینچ کر بو س و کنار کرتا ہے پھر پنڈلی کی طرف دست درازی کرتا ہے یہ خلیفہ راشد کا کردار ہے یا کسی اوباش وعیاش فاسق وفاجر بادشاہ کی بد کرداری کا نمونہ ہے ۔

۶:- جب عمر نے علی سے رشتہ مانگا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے بھی رسول خدا کا نسب وسبب حاصل وہ تو علی نے حسن اور حسین سے کہا تم اپنی بہن کی شادی اپنے چچا عمر سے کردو ۔انھوں نے کہاوہ عورت ہے اپنے لئے خود اختیار کرےگی ۔پس علی غصّہ میں کھڑے ہوگئے اور حسن نے ان کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا اے ابا جان آپ کی ناراضگی ناقابل برداشت ہے پس حسن وحسین نے ام کلثوم کی شادی کردی ۔(صواعق محرقہ ص۱۵۵)

عائشہ نے اس روایت کا جھوٹ خود ہی اپنی عقلی مہارت سے تلاش کرلیا کیونکہ نابالغ بچی یا بالغ عاقلہ عورت کے نکاح کااختیار شرعی ولی کو ہے ۔ کوئی عورت اپنے

۲۷

شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرسکتی جیسا کہ امام مالک نے موطاء میں لکھا ہے جب ام کلثوم کے شرعی والی یعنی والد حضرت علی خود موجود تھے تو ان کو حسن وحسین سے شادی کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ شرعا تزویج حق ان ہی کا تھا ۔ اس دلیل پر عائشہ نے اس روایت کو مردود ٹھہرایا ۔ اور اگلی روایت کا مطالعہ کیا ۔

۷:- عمر نے علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم بنت فاطمہ کارشتہ طلب کیا علی نے کہا مجھ پر کچھ امراء ہیں ۔ ان سے اجازت مانگ لوں پس آپ اولاد فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے تذکرہ کیا انھوں کہا شادی کردیں ۔آپ نے ام کلثو م کو بلایا جبکہ وہ صبیہ (نابالغ بچی)تھیں ۔ اور کہا جاکر عمر س ے کہدے کہ میں نے تیری مطلوبہ حاجت پوری کردی ۔جب ام کلثوم یہ پیغام لے کر عمر کے پاس گئیں تو انھوں نے ام کلثوم کو پکڑ کر سینہ سے چمٹا لیا اور کہا میں نے اس کے باپ سے رشتہ مانگا تھا تو انھوں نے اس سے میری شادی کردی (ذخائر العقبی ص۱۶۹)۔

عائشہ اس بے سروپا روایت پر سیخ پا نظر آتی ہے ۔ پیچ و تاب کھائی ہوئی غور فکر میں مصروفہے اس نے سوچا کہ کبھی اولاد کو بھی کوئی باپ امراء کہتا ہے حضرت علی کو کیا ہوا جو اولاد فاطمہ کو امراء کہکر خلاف اخلاق بات کررہے ہیں ۔پھر جب شادی پر رضا مندی ہوگئے تو محض رضامندی نکاح کے لئے کافی نہ ہوگی بلکہ صیغہ ایجاب وقبول رکن ہیں ۔ گواہوں کی موجودگی ضروری ہے لیکن یہاں بلا عقد ہی لڑکی روانہ ہوگئی اور دولھا صاحب بغیر نکاح ہی لڑکی کو سینے سے چمٹاکر شادی کا اعلان کررہے ہیں ۔ یہ بالکل بکواس ہے کیونکہ حضرت فاروق شرعی مسائل سے واقف تھے اور ایسا وہ نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ قطعا جھوٹ ہے ۔

۲۸

نتائج

صحاح ستّہ کی خاموشی:-

رات کافی گزر چکی ہے بارش بھی تھم گئی ہے عالیہ اور ایلزبتھ دونوں اپنی اپنی مسہریوں پر گھوڑے بیچ کر سوچکی ہیں ۔

عائشہ بھی اب تھکن محسوس کر رہی ہے اسے صبح کالج بھی جانا ہے ۔ لہذا وہ ڈائری کر سرہانے رکھ دیتی ہے اور کمرہ کی ٹیوب بند کرکے سونے کی تیاری کرتی ہے ۔لیکن آج اس کی نیند اڑی ہوئی لگتی ہے ۔ذہن پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے سونا چاہتی ہے مگر سونہیں سکتی کروٹ بدلتی ہے مگر کسی کروٹ بھی نیند آنے کا نام نہیں لیتی وہ سوچ وبچار میں غرق ہوجاتی ہے ۔اسے احساس ہوتا ہے کہ ہماری صحاح ستہ میں تو اس نکاح کا کہیں ذکر تک نہیں ملتا ہے حالانکہ حضرت عمر کے فضائل اور مناقب سے یہ چھ کتابیں بھر پور ہیں مگر ایسا واقعہ کسی جگہ نہیں مل جاتا ہے وہ جی میں ہی جی میں ان منقولہ روایات کا سرسری جائزہ لے رہی ہے اور اس کے ذہین میں یہ نتائج پیدا ہوئے ہیں کہ

عمر نے علی کو جھوٹا قراردیا :-

(ا) :- حضرت عمر ساٹھ سال کی عمر میں حضرت علی سے ایک کمسن اور بروائتی صبیہ یعنی دودھ پیتی بچی کا رشتہ طلب کرتے ہیں حضرت مرتضی یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ بچی ابھی چھوٹی ہے شادی کے لائق نہیں ہے مگر خلیفہ باپ کو جھٹلا دیتے ہیں اور خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمھارے دل میں اس سے واقف ہوں یعنی قسم کھا کر حضرت عمر نے حضرت علی جھوٹا قراردیا ہے جبکہ دونوں بزرگ ایک دوسرے پر کامل بھروسہ رکھتے تھے حسب العقیدہ ۔

۲۹

انوکھی شادی:-

(ب) :- پھر یہ شادی بھی بڑی انوکھی ہے ۔عقد نکاح کے لئے کوئی محفل مسنون منعقد نہ ہوئی اکابر صحابہ مہاجرین وانصار میں سے کسی کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے بلکہ شرفاء کی عادت کے خلاف باپ کہہ رہا ہے کہ میں لڑکی کو تمھارے ہاں روانہ کروں گا ۔اگر تم نے پسند کر لی تو وہ تمھاری بیوی ہوگی ۔استغفر اللہ ایسی بے غیرتی تو ایک گھسیارہ بھی نہیں کرسکتا ہے اور پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق تو یہ طریقہ شادی قطعا لغو اور باطل ہے ۔

بلا نکاح دست درازی :-

(ج):- اف اللہ ۔توبہ ،توبہ ۔یہ پہلو کسقدر شرمناک ہے کہ ایک اسلامی خلیفہ ،صحابی رسول ،غیر شرعی طور پر ایک نامحرم ،نابالغ خاندان رسول کی بچی سے دست درازی کررہا ہے ۔بازو کھینچتا ہے ، پنڈلی کھولتا ہے ، سینے سے چمٹا تا ہے ، بو س وکنار کرتا ہے ، وہائی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت آسمان کیوں نہ گرگیا ۔ زمین شق کیوں نہ ہوئی ۔جب وہ معصوم بچی غصّہ میں آکر کہتی ہے کہ اگر تم بادشاہ نہ ہوتے تو تمھاری ناک توڑ دیتی ۔یا آنکھ پھوڑ دیتی ۔

مجرمانہ حملہ :-

(د) :- حاکم بدھن اگر یہ ساری روایات صحیح ہیں تو پھر یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حضرت عمر نے ساٹھ سال کی عمر میں ایک محرم ،کمسن بچی پر مجرمانہ حملہ کیا اور اگر کوئی دوسرا فرد ایسا کرتا تو اس کو عبرت ناک سزا دی جاتی مگر جب حاکم وقت نے یہ وحشیانہ قدم اٹھایا تعزیری کا روائی ساکت رہی ۔ان روایات سے تو صریحا حضرت عمر کا ظالم ۔فاسق وفاجر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ایسے فحش الزامات ک موجودگی میں تو واقعہ و بیاہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ٹھیک ہے جو عالیہ اس نکاح کی منکر

۳۰

ہے تو وہ ہرگز غلطی پر نہیں ہے لیکن اب ایلزبتھ کو کیسے مطمئن کیا جائے ۔

عائشہ ان ہی خیالات میں کھوئی رہی کہ رات بیت چکی ۔صبح کی آذان ہوئی عالیہ بھی بیدار ہوئی اور ایلزبتھ بھی جاگ گئی ۔عائشہ وعالیہ نے اپنے اپنے طریقوں سے نماز فجر ادا کی اور کالج جانے کی تیاری کرنے میں مصروف ہوگئیں ۔مگر عائشہ کے چہرے پر بے خوابی پوری طرح جھلک رہی ہے ۔اس میں وہ پہلے سا انہماک نہیں پایا جاتا ہے ۔سکون و آرام کا بہترین ذریعہ تو نیند ہی ہوتا ہے اگر نیند غائب ہوجائے تو قرار باقی نہیں رہتا ہے ۔عالیہ عائشہ کا روگ سمجھتی ہے مگر دونوں کی خواہش یہ ہے کہ ایلزبتھ سے یہ کیفیت پوشیدہ رکھی جائے ۔اترا چہرہ ، آنکھوں کی سوجن ،پیشانی پر شکنیں، اڑی رنگت ۔الجھے بال ،پریشان حال دیکھ کر ایلزبتھ نے عائشہ سے پوچھا ۔

ایلزبتھ :- مس عائشہ کیا بات ہے آج بہت وریڈ دکھائی دیتی ہو ؟

عائشہ :- نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔بس یونہی رات کو نیند پوری نہیں ہوئی طبیعت بوجھل سی محسوس ہوتی ہے ۔تم لوگ ایسے سوئے کہ آنکھ جھپک کر بھی نہ دیکھا ۔

ایلزبتھ :- کوئی ہم سے ناراضگی تو نہیں ؟۔

عائشہ :- نہیں نہیں قطعا نہیں تم جیسی سویٹ دوست سے بھلا کس طرح ناراضگی ہوسکتی ہے ۔

عالیہ :- واقعی عائشہ تمھارا چہرہ علیل دکھائی دے رہا ہے ۔ویسے بھی باہر سردی ہے اور آج کالج میں پڑھائی ہونے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے تم تو آج آرام ہی کرو ۔چھٹی لے لو ۔

عائشہ :- یہ تم نے دل کی بات کہی ۔میرا بھی ایسا ہی ارادہ تھا ۔ تم میری عرضی دیدینا ۔

۳۱

عالیہ اور ایلزبتھ اپنی اپنی کتابیں تیار کرتی ہیں اور ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد کالج روانہ ہوجاتی ہیں عائشہ پر اب نیند کا غلبہ ہے ۔وہ کمرے کا دروازہ بند کرکے لحاف اوڑھ کر سوجاتی ہے ۔اور دو تین گھنٹے کی کچی نیند لینے کے بعد بیدار ہوتی ہے اور رات والی ڈائری کا پھر سے مطالعہ شروع کردیتی ہے اب وہ ان روایات کی تحقیق کرنا چاہتی ہے ، اور ان کے راویوں کا اقتدار معلوم کرنے کی خواہشمند ہے ۔

روایوں کا اقتدار :-

اس نے دیکھا کہ روایت نمبر ۱ کو ابن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے ۔

محمد بن اسحاق :-

جس کی روایت ذخائری العقبی میں درج ہے اس کے بارے میں یحیی قطان نے کہا ہے کہ "اسحاق کذاب ہے " ۔مالک نے کہا "ابن اسحاق دجّال ہے "۔ سلیمان تمیمی نے کہا "ابن اسحاق کذاب ہے "۔ دار قظنی نے کہا کہ قابل احتجاج نہیں لے ۔(میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۱)

روایت نمبر ۲ کو ابو عمرو نے زبیر بن بکار سے روایت کیا ہے ۔

زبیر بن بکار:-

زبیر بن بکار حدیث گھڑتا تھا اس کی حدیث ناقابل قبول ہے (میزان الاعتدال جلد ۱ ص ۳۴۰)

تیسری نمبر ۳ روایت سفیان نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے ۔

عمرو بن دینار:-

امام احمد نے کہا ہے کہ ابن دینار ضعیف ہے ۔امام نسائی اور مّرہ نے بھی ضعیف کہا ہے ۔(میزان الاعتدال جلد نمبر ۲ ص ۲۸۷)

چھوتھی نمبر ۴ روایت ابن سعد نے محمد بن عمر واقدی سے روایت کی ہے ،

محمد بن عمرواقدی:-

امام نسائی نے کہا ہے کہ واقدی کذاب ہے اور بغداد میں اپنی کذب بیانی کی وجہ سے مشہور ہے (تہذیب التہذیب جلد ۹ ص ۳۶۶)

۳۲

امام بخاری نے کہا ہے کہ واقدی متروک الحدیث ہے ۔مرّہ نے کہا ہے کہ واقدی کوئی شے نہیں ہے یحیی بن معین نے کہا واقدی ضعیف ہے ۔ابن مدائنی کا قول ہے کہ واقدی کی بیس ہزار حدیثیں بے اصل ہیں ۔امام شافعی نے کہاواقدی کی تمام کتب جھوٹ کا انبار ہے اسی واقدی کی کتابوں یورپین حضور کی شان میں گستاخیاں کرنے کا مواد تلاش کیا ہے اور اسکی فضولیات اورلغو باتوں سے اسلام کو نقصان پہنچا ہے ۔(روزنامہ امروز لاہور ص ۱ ۱۹ اپریل سنہ ۱۹۷۸ عیسوی)

پانچویں روایت کی سند معلوم نہیں ہے چھٹی روایت بہیقی کی ہے جس پر جرح کی جاچکی ہے اسی طرح ساتویں روایت پر بھی بحث ہوچکی ہے یہ روایت عموما مجہول الحال رواۃ سے مروی ہیں جن کے احوال بھی کتب رجال میں نہیں ملتے ہیں مثلا ابن سعد نے انس بن عیاض لیثی ۔عمار بن ابی عامر ،۔ابو حصین اور ابو خالد اسماعیل وغیرہ سےروایت کی میزان ا عتدال میں ان تمام روایوں کو مجہول الحال لکھا گیا ہے ۔ملاحظہ کریں میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۹۵۔

اسی طرح ہشام بن سعد بھی راوی ہے جسے نسائی نے ضعیف کہا ہے (میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۵۴) ۔اسماعیل بن عبدالرحمان سدی کو یحیی بن معین نے ضعیف لکھا ہے ۔لیث نے کاذب قرار دیا ہے ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۱۰) عطا بن مسلم خراسانی کو بخاری نے ضعیف قرار دیا ہے ۔اس کی حدیث سے احتجاج باطل ہے ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۱۹) عبید اللہ بن موسی کوامام احمد بن حنبل صاحب تخلیط کہا ہے ۔اس کی حدیث بری ترین ہیں (میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۷۰) عبدالرحمان بن زید

۳۳

بن اسلم کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۰۵)

اسی طرح ابن شہاب زہری کا ناصبی ہونا اور دشمن علی ہونا مشہور ہے ا لغرض یہ واقعہ ناقابل اعتبار روایوں کی روایات پر انحصار کرتا ہے جن کا علم رجال کی روشنی میں حال بیان کیا گیا ہے ۔یہ احوال پڑھ کر عائشہ دل سے مطمئن ہے کہ یہ بے بنیاد روایات محض صحابہ کی زبر دست توہین اور ہتک اسلام کرنے کے لئے دشمنان دین نے گھڑی ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق ثابت نہیں ہوتا ہے ۔اور جب عائشہ نے ڈائری میں یہ بھی پڑھا کہ خود علمائے اہل سنت نے ان مردود روایات کو ٹھکراردیا ہے تو اسے مزید سکون محسوس ہوا ۔ چنانچہ اس نے دیکھا کہ اہل سنۃ کے جلیل القدر شیخ الاسلام امام سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الا متہ ص ۳۳۱ پر ان روایات کےبارے میں با ایں الفاظ تبصرہ کیا ہے ۔

سبط ابن جوزی کا تبصرہ :-

میرے نانا نے کتاب المنتظم میں ذکر کیا ہے کہ علی نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھیں اور عمر نے ان کی پنڈلی کھولدی اور ان کو ہاتھ سے چھوا ۔میں کہتاہوں کہ خدا کی قسم یہ بد ترین بات ہے اگر یہاں کوئی کنیز بھی ہوتی تو عمر اس سے یہ بد سلوکی نہ کرتے کیونکہ با اجماع المسلمین اجنبی عورت کو مس کرنا حرام ہے ۔لہذا یہ بات حضرت عمر کی طرف کیسے منسوب کی جائے "۔

۳۴

افسانوی نکاح کا شرعی حیثیت سے ابطال :-

علامہ سبط ابن جوزی کے اس تبصرہ کے بعد ڈائری میں مرقوم وہ بحث جس کے مطابق اہل سنت کے مذاہب اربعہ کی فقہ میں روایات مندرجہ بالا کی روشنی میں اس نام نہاد فرضی نکاح کو باطل

۳۵

ثابت کیا گیا یہے ۔عائشہ بغور پڑھ رہی ہے اس بحث میں حنفی ،شافعی ،جنبلی اور مالکی فقہ کے مطابق ٹھوس دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ نکاح ہر صورت میں باطل ہے اور شریعت اسلامیہ کی کھلی مخالفت ہے ۔

پہلی دلیل:-

ان روایات سے ثابت ہے کہ عقد مفروضہ میں ایجاب وقبول واقع نہیں ہوا اور نہ ہی اس میں گواہ بیٹھے نظر آتے ہیں ۔مذہب اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایجاب وقبول نکاح کا رکن ہے ۔کسی مسلمان کا نکاح بغیر دو عادل آزاد ،بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی کے منعقد نہیں ہوسکتا پس چونکہ اس افسانوی نکاح میں یہ شرائط مفقود ہیں اس لئے یہ نکاح قطعا باطل اور غیر اسلامی ہے ۔

دوسری دلیل:-

روایات بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی کے ولی یعنی حضرت علی نے فرمایا "میں ام کلثوم کو تمھارے پاس بھیجوں گا اگر تم کو پسند آگئی تو اس کی شادی تم سے کردوں گا" (استیعاب جلد ۴ ص ۲۶۷) یا یہ کہا کہ "میں اس کو تمھارے پا س بھیجوں گا اگر تم نے پسند کرلی تو وہ تمھاری بیوی ہے "(استیعاب جلد ۴ ص ۴۶۹)

"اگر"کے لفظ پر منحصر عقد اصطلاح میں "عقد معلق"کہلواتا ہے ۔اور مالکیوں ،شافعیوں ،اور حنفیوں کے نزدیک نکاح معلق باطل ہے بلکہ نکاح کو "منجز "ہونا چاہئے ۔

تیسری دلیل :-

روایات منقولہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ام کلثوم اس وقت کو سن اور نا بالغ تھیں مگر ان روایات میں نکاح کے صیغے جاری ہونے کا کسی جگہ تذکرۃ نہیں ملتا ہے اگر چہ نابالغ بچی کے نکاح میں ایک وکیل اور ایک گواہ کا ہونا کافی ہے تب بھی مذہب حنفی کے مطابق باپ کی موجودگی شرط ہے ۔ اگر باپ غائب ہے تو نکاح ناجائز ہوگا ۔

۳۶

اگر فرض کیا جائے کہ ام کلثوم کی عمر اس نکاح کے وقت دس گیارہ بر س کی تھی تو یہ مفروضہ اور خطر ناک ہوگا کہ روایات یہ ثابت کرنے سے قاصر ہیں کہ ام کلثوم سے حضرت عمر کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہو بلکہ واضح طور پر روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر کی دست درازی کے بعد ان کو بتا یا گیا کہ"اے بیٹی وہ تمھار شوہر ہے "۔(استیعاب جلد ۴ ص ۴۶۷)یعنی اس بد تمیزی سے قبل لڑکی بالکل بے خبر ہے ۔جبکہ اہل سنت کے ہاں امر مسلمہ ہے کہ حرہ بالغہ عاقلہ کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور نہ ہی ولی کے لئے جائز ہے کہ وہ بالغہ اور نا کتخدا کو کسی سے نکاح کرنے پر مجبور کرے لہذا دونوں صورتوں میں نکاح درست قرار نہیں پاتا ہے تو پھر حضرت عمر کے لئے ایسا ناجائز نکاح تجویز کر کے ان کو توہین وتذلیل کیوں کی جاتی ہے ۔برادران اہل سنت کو اس کا سختی سے لحاظ رکھنا چاہئیے ۔

چوتھی دلیل:-

ان بے ہودہ روائیوں سے پوری طرح واضح ہے کہ اس نکاح کو صحابہ رسول (ص) سے مخفی رکھا گیا ان کو اس عقد کی خبر تک نہ ہوئی جب ام کلثوم ناراض ہو کر واپس گئیں تو حضرت عمر نے لوگوں سے مبارک باد ی کا مطالبہ کیا ۔جب صحابہ نے وجہ دریافت کی تو انھوں نے ام کلثوم سے شادی کی خبر دی ۔ حلبی نے اپنی سیرت میں تو شرافت کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں انھوں نے روایت لکھی ہے کہ " حضرت عمر نے مجلس مہاجرین میں جا کر یہ کہا کہ "مجھے مجامعت کرائیے ۔صحابہ نے کہا کس سے تو عمر نے کہا میں نے ام کلثوم سے شادی کر لی ہے " (کتاب السیرت ص۴۶۳)

(ڈائری کی یہ عبارت پڑھ کر عائشہ نے اپنا منہ گریبان میں چھپا لیا اور" لا حول " پڑھنا شروع کیا ۔) اس کے بعد حلبی نے اظہار معذرت کیا کہ

۳۷

شاید ایسی بات کرنے کی حرمت صحابہ کو نہیں پہنچتی تھی ۔(بحوالہ کنز المکتوم ص ۴۶)

حالانکہ شریعت کا حکم ہے کہ نکاح کا بر سر عام کرو ۔یہاں تک ہے کہ دف بجاؤ تاکہ حرام وحلال کا فرق معلوم ہوسکے خود حضرت عمر کا قول ہے کہ نکاح کا پہلے اعلان کیا جائے حضرت عمر کے دوسرے سارے نکاح بھی بر سر عام ہوئے اور دیگر کسی بھی صحابی نے چوری چھپے نکاح نہیں کیا ہے ،پس یہ پو شیدہ نکاح خود اپنے آپ کو افسانوی ثابت کرنے کا بین ثبوت ہے ۔

پانچویں دلیل:-

ابن سعد کی طبقات میں اور دیگر کتابوں میں یہ مرقوم ہے کہ ام کلثوم کا حق مہر چالیس ہزار درہم مقرر ہوا ۔یہ رقم حضرت عمر کے اپنے ہی قول کے خلاف بات ہے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے "ازالتہ الخفا"جلد دوم ص ۱۱۲ میں تحریر کیا ہے ۔حضرت عمر نے فرمایا "حق مہر زیادہ نہ ہو" چونکہ رسول اللہ (ص) نے اپنی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا "اسی طرح شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ میں لکھا ہے کہ حق مہر کا بڑھانا خلاف اصول پیغمبر ہے چونکہ صحیح احادیث میں حق مہر بڑھانے کی ممانعت وارد ہے اور حدیث میں ہے حق مہر آسان باندھو ۔(تحفہ اثنا عشری ص ۵۹۱ فارسی)

مولی شبلی نعمانی نے الفاروق ص ۵۷۰ پر اسی رقم مہر یعنی ۴۰ ہزار کا ذکر کیا ہے جو سراسر مخالفت سنت رسول (ص) بلکہ خود حضرت عمر کا اپنے قول و اصول سے انحراف ہے کہ دوسروں کو تو وہ زیادہ مہرباندھنے پر روکتے تھے اور خود ساٹھ سال کی عمر میں کمسن دلھن کا چالیس ہزار مہر دینے پر آمادہ ہوگئے ۔

چھٹی دلیل :-

زیر بحث روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سنہ ۱۷ ہجری میں حضرت عمر کی نویلی دلہن کی عمر چار پانچ برس کی تھی اور بعض مورخین کے

۳۸

نزدیک صبیہ یعنی دودھ پیتی تھی یا پھر صغیرہ ونابالغہ تھیں اور ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں منقول روایت کے تحت وہ بہت چھوٹی تھیں ورنہ ان کے باپ ان کو عمر کے پاس نہ بھیجتے ۔ شہاب الدین دولت آبادی کے نزدیک ان کو عمر پانچ بر س کی تھی ۔

یاسین موصلی نے المہذب ص ۹۸ پر اور عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء ص ۲۵۶ پر تحریر کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ذیقعدہ سنہ ۱۸ ھ میں یہ شادی کی شادی کے ایک سال بعد دخول کیا حالانکہ نابالغ بچی سے دخول کرنا فعل حرام ہے خواہ وہ منکوحہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جب بوقت نکاح عمر چار پانچ برس تھی تو ایک سال بعد بالغ ہونا ممکن نہیں ہے پس روائتی لحاظ سے یہ نکاح بالکل من گھڑت افسانہ ہے ۔

عائشہ پوری دلچسپی سے یہ ڈائری مطالعہ کر رہی ہے اسے یہ احساس ہےکہ اس نے اپنی سہیلی ایلزبتھ پر اسلام کی تعلیمات کو محض اس دلیل کے بل بوتے پر فوقیت دی ہے کہ اس کے احکام سائنٹفک ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کے محافظ بھی ہیں اس نے شارح علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور اخلاق محمدیہ کے بیشتر نمونے بطور مثال پیش کرکے ایلزبتھ کے عقیدے میں ڈگمگا ہٹ پیدا کردی ہے ۔ تہذیب اسلام اور اصول دین کی جامعیت پر مدلل مباحثے کر کے اسلام کو ایک عالم گیر ضابطہ حیات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب وہ خوف زدہ ہے اسے ڈرہے کہ اس واقعہ دل سوزکی روشنی میں اگر ایلزبتھ نے کہہ دیا کہ اسلام کے دانت ہاتھی کے مانند دیکھنے کے اور کھانے کے اور ۔یہ تو ایسا کالا مذہب ہے کہ ایک ستون اسلام بزرگ جو پیغمبر کا خلیفہ ونائب اعتقاد کیا جاتا ہے اور جسے تاریخ میں فاروق اعظم

۳۹

لکھا جاتا ہے اس نے اٹھاون برس کے سن میں تین بیویوں کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کی سوتیلی نواسی سے شادی رچائی ۔بلکہ بلا نکاح اس سے ایسی حرکات ناشائستہ کیں جو کوئی بھی شریف شخص نہیں کرسکتا ۔اور دوسرے ستون اسلام نے اپنی بیٹی کو بازاری سودے کی طرح بطور نمونہ اس کے پاس بھیجدیا تو میرے پاس ان معقول اعتراضات کا کیا تسلی بخش جواب ہوگا ؟ اگر خدا نخوستہ یہ روایات سچی ہیں تو بنی آدم کی تاریخ میں ایسی مذموم مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی ہے ۔اے میرے پروردگار ! میں نے تو تیرے دین حقہ کی اشاعت کے لئے خلوص نیت سے دعوت تبلیغ کی کوشش کی تھی اب مجھے اس خلفشار سے بچا ۔ میرے دل کو تویہ اطمینان ہے کہ یہ قصہ بالکل واہیات اور مہمل ہے اور محض اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بزرگان اسلام کو بے آبرو بنانے کی خاطر دشمنان دین نے اسے گڑھا ہے ۔تاکہ دین کو محض عیاشی و شہوت پرستی کا ضابطہ بنا کردنیا کے سامنے ذلیل کردیا جائے ۔اور اس مصطفی مذہب کو نفرت آمیز جامہ پہنا دیا جائے یہ روایات تو خلفائے راشدین کی سیرت پر ایسا بد نما داغ لگا تی ہیں جسے صاف کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے ۔اے رب العزت ! میری رہنمائی فرما اور اپنے معزز دین کی عزت و توقیر کو بحال رکھ مجھے اس مشکل سے نکال ۔بے شک یہ قصہ عقلا ونقلا شرعا وشرفا بالکل بے سروپا اور بے بنیاد ہے ۔لیکن ایلزبتھ کو کس طرح مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی بچ جائے ۔

عالیہ اور ایلزبتھ کالج سے واپس آگئی ہیں لیکن عائشہ ابھی اس موضوع پر ایلزبتھ سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتی ہے جب کہ وہ خود کو مکمل طور پر اس

۴۰