افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم0%

افسانہ عقد ام کلثوم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 105

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 105
مشاہدے: 30971
ڈاؤنلوڈ: 3117

تبصرے:

افسانہ عقد ام کلثوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30971 / ڈاؤنلوڈ: 3117
سائز سائز سائز
افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف:
اردو

قابل نہیں بنالیتی کہ اس واقعہ کے ہر گوشے پر روشنی ڈال سکے ۔عالیہ نے اشارۃ عائشہ سے پو چھا ہے کہ اس کی تحقیق کس نتیجہ پر پہنچی ہے مگر اس نے اشارہ ہی سے اسے منع کردیا ہے کہ ایلزبتھ کے سامنے یہ بات نہ کی جائے ۔ایلزبتھ نے عائشہ سے پوچھا ۔

ایلزبتھ :-کہو عائشی اب تمھاری طبعیت کیسی ہے ؟

عائشہ :- ٹھیک ہے ۔کچھ دیر آرام کیا ہے ۔

عالیہ :- کیوں بھئی چائے چلے گی ؟

ایلزبتھ:- کیوں نہیں ضرور چلے گی ۔

عالیہ چائے تیار کرتی ہے اور تینوں سہیلیاں چائے پیتی ہیں ۔چائے کے بعد ایلزبتھ کسی کام سے شہر چلی جاتی ہے ۔

عالیہ :- کیوں عائشی کس نتیجے پر پہنچ سکی ہو ؟

عائشہ :- بھئی جو کچھ تک معلوم ہوا ہے ۔وہ تویہ ہے کہ یہ واقعہ دوخلفائے راشدین کی انتہا درجہ تو ہین وتذلیل کرتا ہے مگر یہ نکاح نہ صرف سنی کتب سے بیان کیا جاتا ہے بلکہ شیعہ کتب میں بھی اس کی تائید میں روایات ہیں اور مولوی شبلی نعمانی جیسے مورخ نے بھی اس کو الفاروق میں لکھا ہے حالا نکہ انھوں نے روایت ودرایت کا خصوصی لحاظ رکھا ہے لہذا میں یہ چاہتی ہوں کہ اس معاملہ کی جانچ پڑتال اور چھان بین کیلئے اپنے استاد محترم مولوی عبد الرحمان صاحب سے مدد حاصل کروں کیوں کہ ان کو تاریخ پر خصوصی عبور حاصل ہے ۔ان کی جانب سے مفصل جواب موصول ہونے پر کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے قابل ہوں گی ۔

عالیہ :- ہاں ٹھیک ہے ۔ان سے ضروری وضاحت دریافت کرو

۴۱

چنانچہ عائشہ اپنے استاد مولوی عبد الرحمان صاحب کو خط تحریر کرکے صورتحال سے آگاہ کرتی ہے اور استفسارات کا جواب چاہتی ہے ۔ مولوی صاحب واپسی جواب میں اپنی شاگرد عائشہ کو لکھتے ہیں کہ

بسم الله الرحمان الرحیم

نحمده ونصل علی رسوله الکریم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ ۔ بعد ازدعائے نیک بختی وشفقت مخلصی کے تحریر ہے کہ تمھارا استفسار نامہ موصول ہوا ۔واضح ہو کہ یہ بات ازروئے کتب معتبرہ اہل سنت وشیعہ کے پابت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نکاح ساتھ ام کلثوم کے ہوا ۔جو حضرت فاطمہ و علی کی صاحبزادی تھیں اس نکاح سے چند فائدے ظاہر ہوتے ہیں ۔

ا:- اس نکاح کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ حضرت علی اور حضرت عمر کی باہمی دوستی ثابت ہوتی ہے اگر ان میں رنجش و عداوت ہوتی جیسا کہ روافض کا خیال ہے تو حضرت مرتضی کبھی اپنے دشمن ومخالف اپنے خاندان میں نہ لیتے ۔

ب :- اس عقد سے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا کافر و منافق و مرتد نہ ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔ورنہ حیدر کرار اپنی پیاری دختر کا نکاح کبھی نہ کرتے ۔پس یہ نکاح اس بات کا ثبوت ہے حضرت علی کو حضرت عمر کے ایمان و عبادت ،زہد وتقوی پر بھروسہ تھا ۔

ج :- اس عقد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے کبھی کسی قسم کا رنج اور صدمہ حضرت علی یا حضرت فاطمہ کو دیا ہوتا تو یہ نکاح ہرگز نہ ہوتا ۔یہ نکاح اخلاص اور اتحاد اور محبت باہمی پر شاہد ہے ۔ لہذا حضرت عمر پر شیعوں کے

۴۲

مطاعن کی تردید کے لئے کافی ہے ۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ،کا نکاح حضرت ام کلثوم بنت علی کے ساتھ مندرجہ دلائل ازکتب اہل سنتہ سے ثابت ہوتا ہے ۔

۱:- حافظ ذہبی تحریر فرماتے ہیں "حضرت ام کلثوم بنت علی مرتضی جو حضرت فاطمہ کے بطن سے تھیں اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریفہ سے پہلے پیدا ہوچکی تھیں ۔ ان سے حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر پر نکاح کیا ۔اور ان کے ہاں زید اور رقیہ پیدا ہوئے ۔حضرت عمر کی شہادت کے بعد ام کلثوم نے پھر عون بن جعفر سے نکاح کیا ۔

(تجدید اسماء الصحابہ ص ۲۵۰)

۲:- حضرت امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ایک دفعہ مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک عمدہ چادر بچ گئی ۔حاضرین مجلس میں کسی نے کہا " یہ چادر آپ حضور اکرم (ص) کی صاحبزادی کو جو آپ کے نکاح میں ہے دیے دیں ۔ اس سے ان کی مراد حضرت علی (علیہ السلام) کی بیٹی ام کلثوم تھی ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ام سلیط اس چادر کی زیادہ حقدار ہیں وہ جنگ احد کے دن ہمارے لئے پانی کی مشکیں اٹھا اٹھا کر لائی تھیں ۔(صحیح بخاری کتاب الجہاد جلد اول باب حمل النساء القرب ص۴۰۳ کتاب المغازی جلد نمبر ۲ ذکر ام سلیط ص ۵۷۲)۔

۳:- امام نسائی اپنی سنن میں حضرت نافع سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک دفعہ نو اکٹھے جنازے پڑھائے ان ہی میں حضرت ام کلثوم بنت علی المرتضی کا جنازہ بھی تھا ۔یہ سعد بن عاص کی حکومت کا دور تھا ۔

۴۳

حضرت علی (علیہ السلام )کی بیٹی ام کلثوم جو حضرت عمر کے نکاح میں رہ چکی تھیں ان کا جنازہ اور ان کے بیٹے زید کا جنازہ اکٹھا رکھا گیا ۔ نماز جنازہ میں حضرت ابن عمر ،ابن عباس ،ابو ہریرہ ،ابو سعید اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سب حضرات شامل تھے ۔ حضرت ابن عمر نے امامت فرمائی ۔ (سنن نسائی جلد ۱ کتاب الجنائز باب اجتماع جنائز الرجال و النساء صفحہ ۳۱۷ مطبوعہ دہلی )

سید نا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس نماز جنازہ میں شریک ہونے والوں میں حضرت امام حسن ، امام حسین ،امام محمد بن حنفیہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔تاریخ الصغیر الامام بخاری ص ۵۳ مطبوعہ آلہ آباد)

۴:- سنن ابی داؤد میں حضرت عمار مولی حارث بن نوفل سے روایت ہے کہ "وہ بھی حضرت ام کلثوم اور ان کے بیٹے زید کے جنازہ میں حاضر تھے ۔اس میں لڑکے کا جنازہ اس جہت میں رکھا گیا تھا جو امام کی طرف تھی ۔(سنن ابو داؤد جلد نمبر۲ ص ۴۵۵)

۵:- دار قطنی نے تحریر کیا ہے کہ "ام کلثوم بنت علی جو حضرت عمر کی بیوی تھیں ان کا اور ان کے لڑکے زید بن عمر کا جنازہ رکھا گیا اور وہاں ان دنوں امام سعید بن عاص تھے ۔(دار قطنی جلد ۱ ص۱۹۴ مطبوعہ دہلی)

۶:- امام حاکم نے روایت نقل کی ہے کہ امام زین العابدین کہتے ہیں حضرت عمر نے حضرت علی (علیہ السلام) سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا ۔ حضرت علی نے کہا میں نے تو اسے اپنے بھتیجے کے لئے رکھا ہوا ہے ۔ حضرت عمر نے کہا آپ ام کلثوم کو میرے نکاح میں دے دیں ۔بخدا مجھ سے زیادہ کوئی اس کا منتظر اعزاز نہیں اس پر حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت عمر کو یہ نکاح دے دیا (مستدرک جلد ۳ ص ۱۴۲مطبوعہ دکن)۔

۴۴

۷:- ابو بکر بیہقی اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت علی مرتضی (علیہ السلام) سے کہا مجھے اپنی لڑکی ام کلثوم بنت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) کا رشتہ دے دیں حضرت علی مرتضی(علیہ السلام) نے اس تفصیل کے بعد جو امام حاکم کی اوپر والی روایت میں درج ہے کہا کہ میں نے اس کا رشتہ (آپ کو ) دے دیا ۔

۸:-حافظ ابو عبد اللہ محمد بن سعد زہری نے لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت علی جن کی والدہ حضرت فاطمہ تھیں ان سے حضرت عمر نے نکاح کیا اور وہ چھوٹی عمر کی تھیں ان کے ہاں حضرت عمر سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے (طبقات ابن سعد جلد ۹ ص ۳۳)

۹:-ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری تحریر فرماتے ہیں کہ ام کلثوم کبری جو حضرت فاطمہ ک صاحبزادی تھیں حضرت عمر بن خطاب کے نکاح میں تھیں ۔ (کتاب المعارف ص ۷۰ مطبوعہ مصر)

۱۰:- امام طبری اپنی مشہور تاریخ میں لکھتے ہیں کہ "حضرت عمر نے ام کلثوم بنت علی سے نکاح کیا ۔ ان کی والدہ حضرت فاطمہ بنت رسول تھیں ان کا مہر جیسا کہ بیان کیا گیا ہے چالیس ہزار درہم ہم باندھا گیا انکے ہاں ام کلثوم سے زید اور رقیہ دو بچے پیدا ہوئے (تاریخ الامم الملوک جلد ۵ ص ۱۶ مطبوعہ مصر)

مندرجہ بالا حوالہ جات کتب اہل سنت والجماعت سے نقل کئے گئے ہیں کہ اب میں وہ حوالے پیش کرتا ہوں جو صرف مذہب شیعہ کی معتبر کتابوں سے ماخوذ ہیں تاکہ ثابت ہو جائے کہ یہ نکاح بلا امتیاز فرقہ تاریخ سے بالا تفاق مسلمہ ہے ۔

۴۵

حضرت فاروق اعظم کا نکاح حضرت ام کلثوم سے

بحوالہ کتب معتبر حضرت شیعہ

۱:- ملا محمد بن یعقوب الکلینی فروع کافی میں جو شیعوں کی اول درجہ کی کتاب حدیث ہے میں روایت کرتے ہیں کہ ۔

"حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس عورت کے متعلق جس کا خاوند فوت ہوجائے یہ مسئلہ پو چھا گیا کہ وہ اپنی عدّت کہاں گزارے اپنے گھر میں یا جہاں چاہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا جب عمر فوت ہوئے تو حضرت علی ام کلثوم کے پاس آئے تھے اور اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے تھے ۔(فروع کا فی جلا ۲ ص ۳۱۱)

۲:- ملا ابو جعفر محمد بن حسن طوسی شیعہ محدثین کے نہایت بلند پایہ فاضل فروع کا فی کی اس روایت کو تہذیب الاحکام کتاب الطلاق باب عدۃ النساء جلد ۲ ص ۲۳۸ مطبوعہ ایران اور استبصار فیما اختلف من الاخبار جلد ۳ ص ۳۵۲ مطبو عہ نجف اشرف جلد ۲ ص ۱۸۵ مطبوعہ لکھنو میں بھی دو علیحدہ سندوں سے روایت کرتے ہیں ۔

۳:- فخر المجتہدین شہید ثانی زین الدین بن احمد عائلی " شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام " کی شرح میں متن کی اس عبارت یجوز نکاح الحرۃ العبد و العربیۃ العجمی و الھاشمیۃ غیر الھاشمی وبالعکس کے تحت لکھتے ہیں ۔

حضور نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح حضرت عثمان سے کیا اور ایک بیٹی کا ابو العاص سے حالانکہ دونوں بنی ہاشم میں سے نہ تھے ۔ اسی طرح حضرت علی نے

۴۶

اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے کیا اور حضرت عثمان کے پوتے عبداللہ کا نکاح امام حسین کی بیٹی فاطمہ سے ہوا اور فاطمہ کی بہن سکینہ سے مصعب بن زبیر نے نکاح کیا اور یہ سب مرد بنی ہاشم میں سے نہ تھے ۔

(مسالک الافھام ۔کتاب النکاح جلد ۱)

۴:- شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی حضرت امام باقر( علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا ۔

"ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید بن عمر کی وفات ایک ہی ساعت میں واقع ہوئی یہ پتہ نہ چل سکا کہ پہلے فوت کون ہوا ۔ پس ان میں سے کوئی دوسرے کا وارث نہیں ہوا ۔ اور دونوں پر نماز جنازہ اکٹھی پڑھی گئی ۔

(تہذیب الاحکام جلد ۲ کتاب المیراث ص ۳۸۰)

۵:- شیعہ شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری آنحضرت اور حضرت علی کے امور مشابہت شمار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں " اگر نبی دختر بہ عثمان داد ولی دختر بہ عمر فرستاد" یعنی اگر نبی نے بیٹی حضرت عثمان کو دی تو ولی نے بیٹی حضرت عمر کے نکاح میں دے دی ۔(مجالس المومنین جلد ۱ ص ۲۰۴)

۶:- علامہ ابن شہر آشوب مازندرانی لکھتے ہیں ۔حضرت فاطمہ کی اولا د یہ تھی ۔الحسن والحسین و المحسن سقط ،زینب کبری اور ام کلثوم کبری جن سے حضرت عمر نے نکاح کیا تھا (مناقب آل ابی طالب جلد ۳ ص ۱۶۲ علامہ ابن شہر آشوب نے جلد نمبر ۲ ص ۱۴۴ ) علامہ ابن شہر آشوب نے جلد نمبر ۲ ص ۱۴۴ پر بھی اس نکاح کا تذکرہ کیا ہے ۔

۷:- اہل تشیع کے بڑے مجتہد مرتضی علم الہدی تحریر کرتے ہیں " یہ کوئی امر ممنوع نہ تھا کہ حضرت علی اپنی بیٹی حضرت کے نکاح میں دے دیں ۔کیونکہ عمر بظاہر اسلام کے قائل اور شریعت پرعامل تھے ۔(کتاب الشافی ص ۲۱۶)

۴۷

۸:- شیخ عباس قمی حضرت علی کی اولاد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " ام کلثوم کے حضرت عمر کے نکاح میں آنے کی حکایت کتابوں میں مسطور ہے (منتہی الآمال جلد ۱ ص ۱۳۵)

۹:- علامہ محمد ہاشم خراسانی مشہدی تحریر کرتے ہیں کہ "ام کلثوم بنت فاطمہ اس مخدرہ کا اصلی نام رقیہ کبری تھا ۔جیسا کہ عمدۃ المطالب میں مذکور ہے وہ بہت جلالت شان رکھتی تھیں اور حضرت عمر کی بیوی تھیں " (منتخب التواریخ ص ۹۴)

۱۰:- شیعہ کے خاتم المحدثین ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں " ایسی احادیث وارد ہونے کے بعد اور جو روایات بالاسناد آگے آرہی ہیں کہ جب عمر فوت ہوئے تو حضرت علی ام کلثوم کے پاس آئے اور انھیں اپنے گھر لے گئے اور اس طرح کی اور روایات جنھیں میں نے بحا رالانوار میں درج کیا ہے اس نکاح کا انکار ایک امر عجیب ہے اور اصل جواب یہی ہے کہ یہ نکاح تقیہ اور حالت اضطرار میں ہوا اور ایسا ہونا کوئی امر مستبعد نہیں (مراۃ العقول فی شرح فروع الکافی جلد ۳ ص ۴۴۹)۔

عائشہ بیٹی میں نے شیعہ وسنی دونوں کتابوں سے اس نکاح کے اثبات درج کردئیے ہیں ہمیں افسوس ہے کہ علمائے شیعہ کا یہ نظریہ کہ حضرت حیدر کرار نے اپنی لخت جگر ام کلثوم بنت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) جبر و اضطرار کی صورت میں حضرت عمر کے نکاح میں دی تھی بہت کمزور اور بلا دلیل ہے ۔یہ بات حضرات اہلبیت کے شایان شان نہیں ۔ کلینی نے فروع کافی میں اس نکاح کا ایک باب باندھا ہے اور اس میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام ) سے یہ روایت نقل کی ہے "ان ذلک فرج غصباہ" یہ پہلی عزت ہے جو ہم سے غصب کی گئی " حالانکہ بقول شیعہ اصول کافی کے اس آسمانی وصیت نامہ میں بھی جو ائمہ اہلبیت کے لئے دستور العمل تھا اس نکاح کا ارشاد موجود ہے اس کی روایت امام موسی کاظم

۴۸

سے ہے ۔اس کی رو سے آنحضرت(ص) نے حضرت علی سے بامر جبرئیل یہ عہد بھی لیا تھا کہ خواہ ان کی عزت لٹ جائے وہ اس ہتک پر بھی صبر کریں گے جس پر علی نے کہا تھا "میں نے اسے قبول کیا اور راضی رہا اگر چہ عزت جاتی رہے ۔خدا اور رسول کے طریقے معطل ہوجائیں کتاب (قرآن)کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور کعبہ گرادیا جائے "(اصول کافی ص ۱۷۳)

اب اس اتہاک حرمت اور عزت جاتے رہنے کی تشریح علمائے شیعہ نے یوں کی ہے "اس سے میری بیٹی کا غصب مراد ہے ۔جیسے جبر وظلم سے لے جائیں گے یہ اشارہ ہے حضرت فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم کے غصب کی طرف " (الصافی جلد ۳ ص ۲۸۱ ملا خلیل قزوینی)

بعض شیعوں نے اس نکاح کی تکذیب پر کھسیا نے ہوکر یہ قصہ واہی وضع کیا ہے کہ حضرت علی نے ایک جنیہ کو ام کلثوم کی شکل میں منتقل کر کے عمر کے پاس بھیجدیا یہ جنیہ اہل نجران کی یہودیہ تھی جس کا نام سحیقہ بنت جوہریہ تھا ۔بعد وفات عمر حضرت علی نے ام کلثوم کو ظاہر کیا (جرائح الجرائح ص ۱۳۶)

بہر حال ہمارے نزدیک ان رکیک تاویلوں کا کوئی وزن نہیں ہے ہم ہر اس بات کو جو اہل بیت کرام کی شان کے لائق نہ ہو غلط اور افتراء سمجھتے ہیں ۔میرا مقصد ان اقوال کو نقل کرنے سے محض یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت علی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آنا ایک ایسا امر مسلمہ ہے کہ شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی اس سے انکار نہیں ہوسکتا ۔گو اسلامی گروہ ميں سے اس نکاح کے مخالفین نے جبر وغصب ،اکراہ و اضطرار کی تاویلات وضع کی ہیں لیکن باوجودیکہ یہ تاویلات ناقابل قبول ہیں اور حضرت علی (علیہ السلام ) کی شان کے لائق نہیں لیکن ان کے ضمن میں اس نکاح کا ایک ایسا اقرار بھی سامنے آرہا ہے جس کا

۴۹

انکار کسی صورت میں ممکن نہیں تھا ۔پس یہ نکاح تواتر معنوی سے منقول اور فریقین کی کتابوں میں مسلم وموجود ہے ۔

اب آخر میں تمھارے ان شبھات اور وسواس کا ازالہ کیا جاتا ہے جو تم نے اپنے خط میں ظاہر کئے ۔

پہلا اعتراض:-

تمھارا یہ اعتراض کہ حضرت ام کلثوم کمسن تھیں اور حضرت عمر کافی عمر رسیدہ تھے اس لئے یہ نکاح بے جوڑ ہوا بلکہ امر مستعبد معلوم ہوتا ہے ۔

جواب:-

اس کا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمروں میں کافی فرق تھا ۔حضرت عائشہ صدیقہ حضرت فاطمہ الزہرا (سلام اللہ علیہا ) سے بھی عمر میں چھوٹی تھیں اور بہت صغیر سنی میں آنحضرت کے نکاح میں آئی تھیں اگر اس نکاح میں کوئی قباحت نہیں ہے تو حضرت ام کلثوم کا حضرت عمر فاروق اعظم کے نکاح میں آنا یہ کونسا امر مستبعد ہے ۔عربی تمدن میں خاوند اور بیوی کا قریب العمر ہونا ضروری نہ تھا ۔

دوم یہ کہ میری تحقیق کے مطابق حضرت علی مرتضی کی صاحبزادی جو اس وقت صغیرہ تھیں اور پانچ سال کے قریب تھیں وہ ام کلثوم تھیں جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہ تھیں اور کسی اور بیوی سے تھیں یہ ام کلثوم صغری کہلواتی تھیں ۔ام کلثوم کبری جو سیدہ فاطمہ کی صاحبزادی تھیں وہ ہرگز صغیرہ نہ تھی اور حضرت فاروق اعظم کے نکاح میں وہی تھیں ان پر اگر کہیں صغیرہ سنی کا اطلاق ہے تو فی نفسہ چھوٹا ہو نے کی وجہ سے نہیں محض مقابلتا چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہے ۔

سوم یہ کہ حضرت ام کلثوم حضرت فاطمہ کی چھوتھی اولاد تھیں اور حضرت زینب سے چھوٹی تھیں ۔حضرت امام حسین (علیہ السلام ) اور حضرت ام کلثوم کے مابین صرف ایک بیٹی حضرت زینب ہیں شیعہ عالم شیخ طوسی کے بیان کے مطابق حضرت امام حسین (علیہ السلام)

۵۰

ہجرت کے تیسرے سال ربیع الاول کے آخر میں پیدا ہوئے ۔حضرت سید ہ فاطمہ رضی اللہ عنھا (علیہا السلام) کی اولاد میں فاصلہ کم تھا ۔اما م حسن اور امام حسین (علیھماالسلام) کی عمروں میں فرق ایک سال سے بھی کم تھا ۔قرین قیاس ہے کہ حضرت ام کلثوم پانچ یا چھ ہجری کے قریب پیدا ہوئیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم کے نکاح میں یہ کس وقت آئیں ۔حافظ ابن حبان اس واقعہ نکاح کو سنہ ۱۷ ھ میں بیان کرتے ہیں ۔ اس حساب سے حضرت ام کلثوم کا یہ نکاح ۱۲ سال کی عمر میں ہوا اور عربی آب وہوا کے مطابق یہ عمر قابل شادی ہے ۔اہل تشیع نے مقدمہ فدک میں حضرت ام کلثوم کو گواہ کے طور پر بھی پیش کیا ہے ۔

پس ثابت ہوا کہ صغیر سنی کا عذر محض اس حد تک ہی معقول ہوگا کہ حضرت عمر کے مقابلے میں ان کی عمر چھوٹی تھی نہ کہ نا قابل شادی تھیں ۔

دوسرا اعتراض :-

جو تم نے کہا کہ حضرت ام کلثوم حضرت عمر کی پر نواسی بھی تھیں تو یہ رشتہ سوتیلا تھا اور اسلامی شریعت میں یہ نکاح جائز ہے ۔اور جن بیہودہ روایات کا ذکر تم نے کیا ہے وہ تمام کی تمام موضوع قرار پاتی ہیں کہ ان میں نابالغ ام کلثوم کا ذکر ہے جبکہ میری تحقیق کے مطابق زوجہ عمر حضرت ام کلثوم بالغہ تھیں پس جب یہ روایات ہی جھوٹی ہیں تو پھر خلفائے راشدین کی شان میں تنقیص کیوں تسلیم کی جائے ۔

علی ھذا القیاس میں نے اجمالی طور پر تمھارے شکوک کو رفع کرنے کی کوشش کی تاکہ جس غلط فہمی کی شکار ہوگئی ہو اس کی اصلاح کر سکو اور تمھارے قلبی شبہات کا ازالہ ہو ۔امید ہے کہ تم مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں حتمی رائے قائم کروگی ۔اور دشمنان دین کے مقابل اپنے مسلک کی حفاظت باحسن کرسکو گی ۔ والسلام

تمھارا خیر اندیش

عبد الرحمان عفی عنہ

۵۱

دشوار گزار سخت تکلیف دہ راستے طے کرنے کے بعد جب کوئی امن و سکون کی جگہ پاتا ہے تو وہاں دلکشی کے ساتھ ساتھ فتح مندی کے جذبات بھی محسوس ہونے لگ جاتے ہیں ۔مولوی عبد الرحمان صاحب کا یہ مکتوب عائشہ کےلئے ایک سہارا تھا ویسا جس طرح ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے اسے اپنے رہنما مولی عبد الرحمان صاحب کی صلاحیتوں اور قابلیت پر بھروسہ تھا چنانچہ اس خط کا اس نے بڑے اشتیاق اور بے تابی سے مطالعہ کیا اس کو اس ا عتراض کا حل فرقہ واریت سے بالا تر درکار تھا ۔کیونکہ شیعہ و سنی مباحث درپیش حالات میں یکساں طور پر غیر کار آمد تھے ۔ایک عیسائی اور غیر مسلم معترض کی زبان بندی کیلئے شیعہ وسنی کتب کے مندرجات کافی نہ تھے بلکہ یہ اعتراف تو اور بھی اعتراض کو تقویت پہنچا رہا ہے کہ کل ملت اسلامیہ کا اتفاق ثابت کرتا ہے کہ یہ نکاح ضرور ہوا کوئی بھی غیر مذہب والا محض اس خوش اعتقادی کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوگا کہ فلاں روایت فلاں بزرگ کی شان کے خلاف ہے جبکہ معترض بجائے خود اس شاندار شخصیت کی شان ہی کا قائل نہیں ہے ۔عائشہ یہ خط عالیہ کو پڑھاتی ہے تاکہ اس کا تبصرہ بھی سن سکے ۔

عائشہ :- عالیہ ہمارے مولانا صاحب نے یہ گرامی نامہ ارسال کیا ہے ۔ اس کو پڑھ کر تم اپنے خیالات کا اظہار کرو ۔کیونکہ زیادہ تر اس میں تمھارے مذہب پر ہی زور صرف ہوا ہے ۔اصل معاملہ ابھی تک لاینحل ہے ۔ ایلزبتھ کی نگاہوں میں شیعہ وسنی سب مسلمان ہیں روایات شیعہ کی ہوں یا سنیوں کی عیسائی کو اس سے کیا واسطہ ؟

عالیہ :- مجھے تمھاری بات سے اتفاق ہے ۔ میں اس خط کا بغور

۵۲

مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے پیش کرسکتی ہوں ۔

عالیہ نے پوری توجہ سے مولوی عبد الرحمان صاحب کے ارسال کردہ خط کو پڑھا اور اس کے مندرجہ کا جائزہ پورے جذبہ تحقیق کو بروئے کار لاتے ہوئے لیا ۔عالیہ نے اس خط کی ابتدائی عبارت ہی سے اندازہ قائم کرلیا کہ اس افسانوی نکاح کو مشہور کرنے کا واحد مقصد یہی تھا کہ شیعوں کے عقائد کے خلاف حضرت عمر کو اہل بیت (علیہم السلام ) کاحقیقی دوست ورشتہ دار ثابت کیا جائے یہ افسانہ تراشتے وقت یہ بات قطعا ذہن میں نہ رہی کہ یہ مفروضہ آئندہ نسلوں کے لئے بے چینی پیدا کردےگا ۔اور تعلیمات اسلامیہ پر بد نما داغ بن جائے گا ۔لیکن اس وقت وضاعین کو صرف فضائل عمر یہ کی نشر واشاعت سے سرو کار تھا ۔دین کی پرواہ نہ تھی چنانچہ شیعہ دشمنی اور اصحاب نوازی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ من گھڑت واقعہ بھی مشہو کردیا گیا ۔حالانکہ صحیح کتب میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔تاہم مولوی صاحب موصوف نے جن روایات اہل سنت کو دلائل قرار دیا ان پر عالیہ کی جرح یوں مرتب ہوئی ۔

۵۳

دلائل ازکتب اہل سنۃ کی تردید سنی علماء کی زبانی :-

مولوی صاحب نے حافظ ذہبی کے قول پر جو پہلی دلیل پیش کی ہے وہ خلاف واقعہ ہے ۔ اس کی شرعی حیثیت تقرر مہر کی بناء پر مردود قرارپاتی ہے جیسا کہ گذاشتہ بیان میں عرض کیا ہے ۔ پھر زید اور رقیہ کی پیدائش بھی تاریخی اعتبار سے صحیح ثابت نہیں ہوتی ہے ۔

زید ورقیہ پیدائش :-

یہ بات قابل غور ہے کہ مبینہ نکا ح سنہ ۱۸ ھ میں ہوا ۔روایات کی کثیر تعداد سے دلہن ک عمر چھ یا سات بر س سے زائد ثابت نہیں ہوتی ہے ۔حضرت عمر کی وفات سنہ ۲۳ ھ میں ہوتی ہے جبکہ

۵۴

اس بیوی کی عمر گیارہ سال تک ہوتی ہے اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ سنہ ۲۳ ھ یعنی دولھا کی موت کے وقت یہ دو بچے ام کلثوم کے سن بلوغ کے دو سال بعد پیدا ہوئے تو یقینا رقیہ بنت عمر بن خطاب کی عمر اپنے باپ کی وفات کے وقت ایک یا ڈیڑھ سال ہوگی لیکن معتبر مورخ اہل سنت ابن قتیبہ اپنی کتاب "المعارف" میں لکھتے ہیں کہ ام کلثوم کے بطن سے عمر کی بیٹی کا نام رقیہ ہے اور یہ وہی ہے جس کی شادی عمر نے ابراہیم بن لغیم النجام سے کرادی تھی اور وہ ان ہی کے پاس فوت ہوگئی "۔(المعارف ص ۸۰ مطبوعہ مصر)

اب بتا ئیے جو بیٹی ابھی ایک سال یا ڈیڑھ سال کی تھی کس طرح اس کے باپ نے کی تھی کس طرح اس کے باپ نے اس کا نکاح ابراہیم ا لنجام سے کردیا ۔ مگر جھوٹ کے پیر کہاں ہوتے ہیں آگے پیچھے دیکھے بغیر افسانہ تراشی میں مہارت دکھادی ۔مزید بات یہ ہے کہ اسی کتاب اور اسی امام کے حوالہ سے مولوی صاحب نے اپنی دلیل نمبر ۹ قائم فرمائی ہے یعنی موصوف کے نزدیک مورخ و کتاب دونوں قابل قبول ہیں ۔

چادروں کی تقسیم والی روایات :-

پوری بخاری میں اس روایت کے علاوہ ام کلثوم کا ذکر موجود نہیں ہے پھر یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ روایت کی کونسی عبارت ہے جو ام کلثوم کو زوجہ عمر ظاہر کرتی ہے ۔مولوی صاحب نے ترجمہ نقل کرتے ہوئے خیانت کردی ہے کہ ام کلثوم کے بعد "بنت علی " کا اضافہ کردیا ہے جبکہ اصل روایات میں صرف ام کلثوم ہے ولدیت بیان نہیں ہوئی یہ مولوی صاحب کا ظنی عبارت ہے جو مذموم ہے ۔زیادہ سے زیادہ اس نکاح کے باراتی لفظ "عندک" سے یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ اس سے مراد زوجیت ہوگی ۔ لیکن اگر ہم "عندک "کو لغت کے معنی سے دیکھیں تو صرف "نزدیک" "پاس""قریب" ہونگے ۔قرآن مجید میں بھی یہ لفظ ان ہی معنوں

۵۵

میں مستعمل ہوا ہے ۔ پس اگر اس روایت کو صحیح سمجھ لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ مطلب ہوگا کہ وہ ام کلثوم جو حضرت عمر کے پاس تھیں ان کے لئے چادر کی سفارش کی گئی ۔ اب لفظ پاس یا نزدیک سے زوجیت مراد لینا کہاں تک درست ہے یہ صاحبان علم خود فیصلہ فرما سکتے ہیں ۔اگر عند کے معنی زوجیت کے ہوتے ہیں تو پھر اسی روایت میں موجود اس جملے کا ترجمہ کیا ہوگا ۔"فقال لہ بعض من عندہ " یعنی وہ لوگ جو عمر کے پاس تھے ان میں سے کسی نے کہا تو اگر عند کے معنی زوجیت کے ہیں تو وہ سب حاضرین اس لحاظ سے عمر کی زوجیت میں داخل ہوگئے ۔

روایت میں موجود ہے کہ مدینہ کی عورتوں میں حضرت عمر نے چادر یں تقسیم کیں تویہ عورتیں حضرت عمر کے پاس تھیں کیا محض پاس ہونے کے باعث وہ سب ازواج قرارپائیں گی ۔ہرگز نہیں تو پھر ام کلثوم میں کیا خصوصیت ملی جو زوجہ سمجھ لی گئی اگر کہنے والا مقصد زوجیت کا اظہار ہی کرنا چاہتا تھا تو آخر وہ عرب ہی ہوگا ۔اس عام و مروجہ الفاظ چھوڑ کراس بے محل لفظ کا استعمال کیوں کیا وہ "تحتک ،زوجک، امراتک " وغیرہ وغیرہ کچھ بھی کہہ سکتا تھا ۔"عند" کا لفظ قرآن مجید میں بہت استعمال ہوا ہے مگر کسی بھی جگہ اس کے معنی زوجہ یابیوی نہیں پائے اور نہ ہی کسی تفسیر میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے ۔

قابل غور امر یہ ہے کہ اگر ام کلثوم زوجہ عمر تھیں تو ایک شوہر کو خود اپنی بیوی کی ضروریات کا خیال ہوتا ہے ۔ مجمع عام میں ایک نامحرم کو خلیفہ صاحب کی زوجہ کی ضروریات کا احساس کیوں ہوگیا ؟۔

روایت کو رد کرنے کے لئے یہ غور ہی کا فی ہے کہ اس سفارشی کا نام آج تک ظاہر نہ ہوسکا لہذا اس کی ثقایت ہی نا معلوم ٹھہری اس روایت کا راوی ثعلبہ ابن مالک ہے ۔واقعہ مجلس کا ہے لیکن اور کوئی شخص اس روایت کو بیان نہیں کرتا ہے روای ثعلبہ جو یہ کہتا ہے کہ مجمع میں موجود کسی نے سفارش کی پھر خود

۵۶

ہی کہتا ہے کہ " یعنی ان لوگوں کی مراد اس سے ام کلثوم تھی " یعنی "یریدون ام کلثوم" اب غور کریں کہنے والا اکیلا تھا اب لوگ کہاں سے سفارشی بن گئے ۔واحد یکدم جمع کس طرح بن گئے ۔

بخاری نے اس روایت کو نقل تو کر لیا جس کے اصل راوی کا پتہ معلوم نہیں اور انھوں نے ثعلبہ ہی کے اعتماد پر اس کو درج کرلیا ۔لیکن جب علم رجال میں اس روایت کی پڑتال ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کا کوئی آدمی ہی نہ تھا چنانچہ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ہر طرح کے روایوں کے حالات لکھے ہیں مگر ثعلبہ کا کہیں نام پتہ نہیں ملتا ہے ۔

پس یہ ایسی روایت ہے جس کے راوی کانام ونشان بھی معلوم نہ وہوسکا ۔اگر اس روایت کو صحیح بھی سمجھ لیا جائے تو بھی اس سے ام کلثوم کا بیوی عمر ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا ہے پس ماننا پڑتا ہے کہ یہ داستان سر تا پا دروغ گوئی پر مبنی ہے اور جھوٹ کا پروپیگنڈہ کر کرے اسلام اور اس کے بزرگوں کی تذلیل و انتہاک کرتے ہیں جبکہ حق بین نگاہیں یہ واقعہ سنکر جھک جاتی ہیں ۔

نماز جنازہ والی روایت :-

سنن نسائی کی جو روایت خط میں نقل کی گئی ہے ۔مولوی عبد الرحمان صاحب نے اس میں معنوی تحریف کرکے ترجمہ لکھ بھیجا ہے ،حالانکہ اس روایت میں یوں ہے کہ " نافع سے سنا وہ زعم کرتے تھے لفظ زعم" اس پوری روایت کو باطل کردیتا ہے کیونکہ روای کو خود اپنے بیان پر شبہ ہے ۔یہ روایت پر مبنی ہے ۔حدیث کے لئے ضروری ہے کہ حتمی ہو ظنی احادیث سے استلال نہیں کیا جاسکتا ہے پھر لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو زعم " کو جھوٹ بولنے کے معنی میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔جیسا کہ لغات کشور ی مطبوعہ لکھنوص ۲۲ میں مرقوم ہے اس معنی کے لحاظ سے یہ ترجمہ بھی کیا جاسکتا

۵۷

ہے کہ نافع یہ جھوٹ بولتے تھے کہ ابن عمر نے ام کلثوم و زید کی نما ز جنازہ ایک ساتھ پڑھی ۔امام بخاری کا اپنی صحیح میں یہ واقعہ نہ نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے وہ اس کو صحیح نہیں سمجھتے تھے لہذا تاریخ صغیر میں اس کا ذکر کرنا کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے سنن ابو داؤد سے نقل کردہ روایت میں یہ تصریح موجود نہیں کہ ام کلثوم حضرت علی (علیہ السلام) کی بیٹی تھیں ۔جبکہ حضرت عمر کی اور بیویوں کا نام بھی ام کلثوم تھا (تفصیل آیندہ صفحات پر ملاحظہ کریں) ۔دارقطنی کی روایت ان ہی کی تابع ہے جب اصل کا انحصار "زعم" پر ہے تو نقل مصدق نہیں ہوسکتی ہے ۔

مستدرک حاکم کی روایت سے ثابت ہے کہ ام کلثوم کا رشتہ حضرت علی نے اپنے بھتیجے سے منسوب کررکھا تھا اور حضرت عمر ایک منسوبہ لڑکی کے لئے دباؤ ڈال کر اپنے نکاح میں لینے پر مجبور کررہے تھے ۔ خود مولوی صاحب کے اصول مسلمہ کی روسے یہ ان دونوں حضرات کی شان کے خلاف بات تھی کہ ایک زبان دیکر رشتہ طے کرچکے بعد میں اپنی زبان سے پھر جائے اور دوسرا کسی ہاشمی مرد کے رشتے کو توڑواکر ایک کمسن لڑکی کو اپنی پیران سالی کی بھینٹ چڑھائے پس ناموس صحابہ کا تحفظ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس روایت کو ٹھکرادیا جائے بیہقی کی روایت کا بھی یہی جواب ہے ۔

طبقات کی وہ روایت جس میں زید اور رقیہ کے جنم لینے کا ذکر ہے ۔وہ ہم تاریخی اعتبار سے کا لعدم قرار دے چکے ہیں ۔ اور ابن قتیبہ دینوری کی روایت پر بھی بحث گزشتہ صفحات میں کی جاچکی ہے اسی طرح طبری کی روایت کا جواب بھی بیان بالا میں دیا جا چکا ہے واضح ہو کہ ابن قتیبہ دینوری نے معارف ہی میں لکھا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی تمام لڑکیوں کی شادی اولادعقیل و اولاد عباس سے ہوئی تھی سوائے ام الحسن اور فاطمہ کے (صفحہ ۷۰) اس میں ام کلثوم کا نام نہیں ہے ۔

۵۸

گو کہ ہم سنی کتب سے پیش کردہ دلائل کو صرف یہ کہکر نظر انداز کرسکتے تھے کہ یہ ہماری روایات نہیں ہیں مگر ہم نے شیعہ و سنی افتراق سے قطع نظر کرتے ہوئے متحدہ محاذ پر ایک غیر مسلم اعتراض کو رد کرنے کے لئے یہی مناسب سمجھا کہ مسلک سنیہ سے ان روایات کو باطل ثابت کردیا جائے تاکہ وہ لوگ جو اس نکاح کے قائل ہیں اپنے خیالات کی اصلاح کرلیں اہل سنتہ علماء کی کثیر تعداد نے نکاح کو من گھڑت قراردیا ہے ۔چنانچہ مولوی محمد انشاء اللہ صاحب صدیقی حنفی چشتی بدایوانی اپنی کتاب "السر المختوم فی تحقیق عقد ام کلثوم"میں لکھتے ہیں۔

" نا ظرین یہ سب راوی اول کی فضولیات ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابتدا ایک مفتری زبیر بن بکا ء ایسے کذاب اور وضاع حدیث نے حضرت عمر فاروق پر یہ تہمت لگائی ہے اور حضرت علی پر یہ جھوٹ بولا ہے کہ عقد ام کلثوم بنت علی کا واقعہ اپنے دل سے تراش کر بیان کردیا"۔

پس یہی ایک صحیح حل اس اعتراض کا ہے کہ اسلامی شریعت بھی محفوظ رہتی ہے اور صحابہ بلکہ راشد خلیفوں کی عزت بھی برقرار رہتی ہے ۔

۵۹

شیعہ روایات کا جواب

عدت گزارنے کا مسئلہ:-

فروع کافی ،استفسار ،تہذیب کی جو روایت عدت گزارنے کے مسئلہ میں مولوی عبد الرحمان صاحب نے نشان کروائی ہے اس کے راوی مجروح ومقدوح اور فاسد العقیدہ ہیں ۔

فروع کافی کے راوی حمید بن زیاد اور ابن سماعہ ہیں ان دونوں کا تعلق مذہب واقفی سے ہے جن کو کفر و زندقہ تک مماثلت ہے جیسا کہ "رجال

۶۰