افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم0%

افسانہ عقد ام کلثوم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 105

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 105
مشاہدے: 31026
ڈاؤنلوڈ: 3127

تبصرے:

افسانہ عقد ام کلثوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31026 / ڈاؤنلوڈ: 3127
سائز سائز سائز
افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف:
اردو

مامقانی جلد اول ص ۳۷۸ پر امام رضا علیہ السلام کی احادیث سے ثابت ہے کہ اسی راویت کا ایک راوی حسن بن محمد بن سماعہ ہے جو علماء رجال کے نزدیک بالاتفاق واقفی المذہب تھا ۔(رجال کشی ص ۲۹۳)

اسی طرح دوسری روایت کا راوی ہشام بن سالم ہے جو فاسد العقیدہ تھا اور اللہ کی صورت مانتا تھا (رجال کشی ص ۱۸۴)

یہ روایت سلیمان بن خالد سے بھی مروی ہے جو زیدیہ فرقہ سے تھا ۔تنقیح المقال جلد ۵۷ پر ہے ۔نجاشی اور شیخ طوسی نے اسے ثقہ تسلیم نہیں کیا ۔ابن داؤد نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور مقیاس الدرایہ ص ۸۴ پر ہے کہ زیدی ،واقفی ،ناصبی ،ایک منزلت پر ہیں ۔

مسالک الافہام کی روایت :-

مسالک الافہام کتب معتبرہ میں شمار نہیں ہوتی اس میں شارح کی اپنی رائے کا ذکر ہے جو حجت قرار نہیں پاسکتا ہے ۔حالانکہ اس کے خلاف کثرت سے شواہد موجود ہیں ۔

زید و ام کلثوم کا بیک وقت فوت ہونا :-

اس روایت کا راوی سعید بن سالم قداح ہے جو مجہول الحال ہے ۔(دیکھئے رجال مامقانی جلد ۱ ص ۶۵)

شہید ثالث کا بیان:

قاضی نوراللہ شوستری نےیہ بیان اس نکاح کی تردید میں دیا ہے اور "اگر" سے مفروضہ قائم کیا ہے کہ بالفرض محال اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ نکاح ہوا تو بھی احتمال خطا کی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت عمر کلمہ گو تو تھے ۔

علامہ شہر آشوب کی رائے :-

علامہ شہر آشوب نے مناقب میں شیعہ وسنی دونوں طرح کی روایات نقل کی ہیں ۔یہ کتاب ذاتی عقید ے سے بالا تر ہوکر نقل برائے نقل پر مبنی ہے "مجمع الفضائل " کے نام سے اس کا اردو ترجمہ سرکار ادیب سید ظفر حسن صاحب قبلہ نے شائع فرمایا ہے جو

۶۱

عام دستیاب ہے ۔ اس کتاب کی جلد ۲ ص ۲۷۴ پر یہ ذکر موجود ہے اور اس کے بعد یہ تحریر کیا گیا ہے کہ "علامہ شہر آشوب نے یہ رائے صاحب شافی اور صاحب الانوار کی لکھی ہے ۔نہ کہ اپنا عقیدہ ۔شیعوں نے اس کی ترویج کو کسی وقت بھی تسلیم نہیں کیا اس غلط روایت کی تردید میں متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس کے بعد والی روایت نقل کرنے کے بعد تحریر ہے کہ "یہ سب معاویہ شاہی ٹکسال کے کھوٹے سکے ہیں ۔ایسی روایات نہ عقلا صحیح ہیں نہ نقلا ص ۴۷۴۔

سراکار علم الہدی کی تحریر:-

جناب علامہ مرتضی علم الہدی نے محض اس قسم کے نکاح کی صورت کو جائز قرار دینا فرض کیا ہے نہ کہ حضرت عمر اور حضرت ام کلثوم بنت علی وفاطمہ کے عقد کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔

شیخ قمی کا اظہار:-

علامہ شیخ عباس قمی نے صرف اس قصّے کا کتابوں میں لکھا ہونا بیان کیا ہے نہ کہ تائید کا اظہار ۔

منتخب التورایخ :-

یہ کتاب مناظر انہ ہے نہ محققانہ بلکہ ہر طرح کی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے لہذا حجت قرار نہیں پاسکتی ۔

علامہ مجلسی کا موقف:-

علامہ مجلسی کی اپنی ذاتی رائے ہے جس کی اساس روایات مذکورہ پر ہے جو کہ صحیح السند ثابت نہیں ہوتی ہیں ایسی ضعیف روایات کی بنیاد پر موافقانہ اختیار کرنا محض خطائے سہودی متصور ہوگا ۔حالانکہ ملت شیعیہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ نکاح محض افسانہ ہے ۔

ہم نے شیعہ وسنی دونوں منقولہ روایات کو علم الرجال کی روشنی میں ناقابل قبول ثابت کردیا ہے ۔ مولوی صاحب کا یہ ارشاد ہمارے نزدیک قطعا مہمل ہے ہم جبر و اضطرار کی صورت میں یہ نکاح تسلیم کرتے ہیں ۔حالانکہ ہماری

۶۲

تحقیق کے مطابق اس نکاح کا انعقاد ہی ثابت نہیں ہے ۔اور کلینی کی کافی میں مندرجہ روایت کی عبارت "ان ذالک فرج غصباہ" قول اما م نہیں ہوسکتا ۔شان امامت ایسے بے ہودہ کلام سے بالا تر ہے یہ روایت ہشام بن سالم جو الیقی سے بیان ہوئی ہے جس کا عقیدہ توحید بھی درست نہ تھا ،امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ "ہشام بن سالم کا عقیدہ اختیار نہ کرو" اس فاسد العقیدہ راوی کے حالات ملاحظہ فرمائیں رجال کشی ص۱۸۳ پر اس روایت کا ایک راوی حماد بن یزید بھی ہے ۔علامہ حلی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ عامی یعنی غیر شیعہ تھا ۔ دیکھئے خلاصۃ الاقوال ص ۲۱۹ نیز اس روایت کی سند بعض نے زبیر بن بکار تک پہنچائی ہے جو کٹر ناصبی اور دشمن اہل بیت تھا ۔اب جس روایت کے راوی اس طرح کے افراد ہوں اس کا کیا مقام ہوسکتا ہے ۔

اسی طرح علامہ خلیل قزوینی نے "انصافی" میں تشریح کی ہے اس کا مدار بھی زبیر بن بکار کی روایت پر ہے ۔زبیر بن بکار شیعوں کے نزدیک قظعا ناصبی ہے مگر اہل سنت علماء نے بھی اسے وضاع ،ناقابل اعتبار اور مردود قرار دیا ہے ۔ملاحظہ کریں (میزان الاعتدال جلد ۱ ص ۳۴۰)

مولوی صاحب نے جو قصہ سحیقہ بنت حرہ جنیہ کا تحریر کیا ہے وہ عقلا لغو ہے ۔ہمارے علماء نے اس کی صحت سے انکار کیا ہے ۔ آیت اللہ آقا سید جعفر بحر العلوم نجفی نے کتاب تحفۃ العالم شرح خطبۃ المعالم جلد ۱ ص ۲۴۰ میں اس روایت میں تحریف ٹھہرایا ہے ۔وہ روایت اس طرح ہے

معصوم کا انکار:-

"عمر بن اذینہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ لوگ ہم پر حجت کرتے ہیں امیر المومنین نے فلاں کو لڑکی بیاہ

۶۳

دی ۔امام ٹیک لگائے تشریف فرما تھے ۔جوش غیرت میں اٹھ بیٹھے اور فرمایا جو لوگ ایسا گمان کرتے ہیں وہ راہ راست کی طرف ہدایت پانے والے نہیں ہیں ۔سبحان اللہ ! کیا امیر المومنین اس بات پر قادر نہ تھےوہ اپنی لڑکی کو ان سے چھڑا سکتے ۔اور ان کے اور اس کے درمیان حائل ہوتے ۔انھوں نے محض گمان کرکے جھوٹ باندھا ہے ۔(ناسخ التواریخ جلد ۳ ص ۴۰۸)

الغرض ہمارے مسلک کے مطابق اس نکاح کا وقوع ہی ثابت نہیں ہے اس لئے اس ضمن میں کسی تاویل من گھڑت کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔

ابو محمد فضل بن شاذان کی تردید:-

جناب ابو محمد فضل بن شاذان بن خلیل نیشاپوری ہمارے جلیل القدر فقہا و ثقہ متکلمین میں سے ہیں آپ امام رضا ،امام محمد تقی ،امام علی نقی ، اور امام حسن العسکری علیھم السلام کے مقتدر صحابی تھے ۔آپ کو اہل سنت نے بھی معتمد علیہ تسلیم کیا ہے ۔آپ اس افسانوی نکاح کی شدت سے تردید فرماتے ہیں کہ "لوگوں نے غلط طور پر وہم کر لیا ہے کہ عمر نے ام کلثوم الکبری بنت امیر المومنین کارشتہ طلب کیا بلکہ انھوں نے تو ام کلثوم بنت جرولی خزائیہ سے نکا ح کیا "۔ (تاریخ قم حسن بن محمد بن حسن نیشاپوری قمی معاصر شیخ صدوق ص ۱۹۳ مطبوعہ تہران)۔

شیخ مفید کا تبصرہ :-

سرکار علامہ شیخ مفید کا علمی تبحر زہد وتقوی علمائے اہل سنت نے بھی تسلیم کیا ہے آپ نے بھی اس فرضی نکاح کی شدید تردید فرمائی ہے اور تحریر کیا ہے کہ ۔

"یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ جناب امیر المومنین نے اپنی لڑکی کی شادی حضرت عمر سے کردی ۔بالکل ثابت نہیں ہے ۔چونکہ اس کا راوی زبیر بن بکار ہے ۔

۶۴

جس کا طریقہ مشہور ہے کہ یہ شخص نقل روایت میں ناقابل اعتماد ہے اور متہم ہے ۔ چونکہ یہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن تھا اور بنو ہاشم پر اپنے دعوؤں میں بالکل ناقابل اعتماد ہے ۔درحقیقت یہ روایت اس لئے نشر ہوگئی کہ ابو محمد یحیی بن حسن صاحب نے اپنی کتاب میں اس کو لکھ دیا ۔ لوگوں نے علوی سمجھ کر اس روایت کو صحیح سمجھ لیا ۔ حالانکہ اس نے یہ روایت زبیر بن بکار سے لی ہے اور یہ روایت بھی بذات خود مختلف طور پر نقل کی گئی ہے یہ زبیر بن بکار کبھی یہ نقل کرتا ہے کہ امیر المومنین نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ۔کبھی روایت کرتا ہے کہ عباس کو اس عقد کا متولی بنایا کہیں روایت کرتا ہے کہ یہ عقد حضرت عمر کی دھمکیوں پر واقع ہوا ۔کبھی کہتا ہے کہ اختیار و ایثار پر یہ نکاح ہوا ۔ پھر بعض نے یہ کہا کہ عمر کا ایک لڑکا بھی پیدا ہوا جس کا نام زید ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زید بن عمر کی اولاد بھی ہے ۔بعض نے کہا وہ بے اولاد تھا ۔ کئی کہتے ہیں یہ اور اس کی ماں دونوں قتل کردئیے گئے ۔کسی نے کہا ہے کہ ماں بعد میں بھی زندہ رہی کوئی کہتا ہے کہ عمر نے چالیس ہزار مہر مقرر کیا ۔ کوئی کہتا ہے کہ چار ہزار درہم مہر دیا کسی نے کہا پانچسو درہم دیا اور اس قول کی ابتدا اور اس واقعہ میں اختلاف کی کثرت اصل روایت کے باطل ہونے کی دلیل ہے جس کی کوئی تاثیر نہیں ہوسکتی ۔(المسائل السرویہ ص ۱۶۱ المسئلہ العاشرہ مطبوعہ نجف)

اسی طرح علمائے اہل تشیع کی طرف سے لاتعداد کتب اس نکاح کی تردید میں موجود ہیں پس ایسی پر تضاد روایات اور مبنی بر دروغ حکایات کی روشنی میں اس نکاح کودرجہ تواتر معنوی بخشاح اور فریقین کا مسلمہ قرار دینا قطعا معقول و مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔

مولوی صاحب نے حضرت عائشہ کی مثال اس نکاح میں پیش تو کردی ہے لیکن انھوں نے صرف کم عمری کا رخ سامنے رکھا ہے جبکہ روایات کے مطابق عائشہ

۶۵

کی عمر ۹ سال بیان ہوتی ہے اور ام کلثوم کی چار یا پانچ برس ۔پھر مولوی موصوف نے پر نواسی والےرشتے کو سوتیلا ٹھہراکر قابل غور نہیں سمجھا ہے حالانکہ معاشرتی اخلاقی ضابطے اس عذر کو تسلی بخش قرار نہیں دیتے ہیں ۔حضرت عائشہ کی رخصتی مناسب وقت پر ہوتی ہے جبکہ روایت کے مطابق مبینہ ام کلثوم کی شادی قبل ازنکاح ہی دولھا کے گھر مین بڑے میاں کی دست درازی کا شکار ہوجاتی ہے ۔ پر نواسی چاہے سوتیلی ہی سہی ثقافت میں یہ رشتہ ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائیگا اور عام تمدن کی مروجہ عادات ورواسم کے بر عکس سمجھا جائے گا ۔

مولوی عبد الرحمان صاحب نے خط میں ام کلثوم بنت علی وفاطمہ کی عمر کو بارہ سال بیان کیا ہے جو تقریبا صحیح ہے مگر بحث بارہ سالہ ام کلثوم بنت علی و فاطمہ کی نہیں ہے ۔بلکہ صغیرہ ،نابالغہ ،کمسن ،صبیہ ام کلثوم کی ہے جس کی عمر تمام تر روایات میں چار پانچ بر س سے زائد بیان نہیں ہوئی ہے ۔ پس ازروئے روایات اور بمطابق اقرار مولوی صاحب ام کلثوم زوجہ عمر بن خطاب کی مبینہ عمر یعنی چار پانچ سال اور ام کلثوم بنت علی کا سن یعنی بارہ سال ازخود اس قصے کو پاک کردیتے ہیں ۔کہ وہ زوجہ جو صبیہ نابالغہ اور صغیرہ تھی وہ بنت علی ہرگز نہ تھی بلکہ کوئی اور تھی کیونکہ اگر اس دلہن کی عمر بارہ سال ہوتی تو کم سے کم ایک آدھ روایت تو اس ذیل میں ملتی جو اسے بالغہ ثابت کرتی ۔پس ام کلثوم بنت علی کی عمر گیارہ بارہ سال ہونا اس افسانوی نکاح سے ہرگز مربوط نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ جس لڑکی کا رشتہ سنہ ۱۷ ھ میں عمر کے ساتھ طے ہوا تھا وہ حد نابالغی میں محصور رہتی ہے ۔مندرجہ ذیل تمام کتب اہل سنت اس کا واضح ثبوت دیتی ہیں کہ اس نویلی دلہن کاسن ناقابل شادی تھی ۔۔

(۱):-استیعاب جلد ۲ ص ۷۷۲۔(۲):- ذخائر العقبی ص ۱۱۷۔(۳):- سیرۃ عمر ابن جوزی ص ۲۰۵۔ (۴):- السمط الثمین ص ۲۵۷۔

۶۶

(۵):- طبقات ابن سعد جلد ۸ ص ۴۶۳۔ (۶):- نسب قریش زبیری ص ۳۴۹۔ (۷):- اعلام النساء جلد ۴ ص ۲۵۶۔ (۸):-ابن عساکر جلد ۷ ص ۲۵۔ (۹):- اصابہ جلد ۲ ص ۲۶۹۔ (۱۰):- المہذب موصلی ص ۱۴۲۔ (۱۱) تذکرۃ خواص الامۃ ص ۳۳۱۔ (۱۲):- ہدایۃ السعداء ص ۲۵۹ ۔ (۱۳):- صوعق محرقہ ص ۵۵ ۔(۱۴):- براہین قاطعہ ص ۱۵۹ وغیرہ وغیرہ ۔

پس حضرت عمر کو توہین سے بچانے اور ناموس صحابہ کے تحفظ کے لئے واحد ترکیب یہی ہے کہ اس افسانوی نکاح کے انعقاد سے انکار کیا جائے ورنہ بلاوجہ اس عقد نامحمود پر اصرار ایک طرف اسلام کے دو راشد خلیفوں کی تعظیم کو ختم کرےگا تو دوسری طرف اسلام کی تعلیمات کو مکروہ بناتا رہے گا ۔ کیونکہ یہ زمانہ محض عقیدت کے پھولوں سے نہیں مہکتا ہے بلکہ اب حقائق کو فطرت عقل و شعور اور ماحول کے ترازو میں تول کر تسلیم کیاجاتا ہے لہذا اندرونی فرقہ وارانہ تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر مسلم زبان کو بند کرنے کی خاطر ضروری ہ ےکہ اس بیہودہ حکایت اور بے حیا روایات کو ٹھکرادیا جائے ۔ جیسا کہ مخلص دانشور ان اسلام نے بلا لحاظ سنی وشیعہ اس افسانوی نکاح کو افتراء قرار دیا ہے ۔

آشی! مجھے احساس ہے کہ میرے معروضات طویل ہوگئے شاید تم اکتا ہٹ محسوس کرنے لگی ہو مگر یہ درگزر تمھاری پریشانی کا سد باب کرنے کے لئے معاون ثابت ہوگا ۔ میری حقیر رائے یہ ہے کہ تم ایلزبتھ کو شیعہ اور سنی دونوں علماء کا تردیدی بیان مطالعہ کرادو ۔اور اس پر واضح کودو کہ یہ نکاح محض تراشیدہ قصہ ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔نہ ہی حضرت عمر ایسے چال چلن والے تھے اور نہ ہی حضرت علی کا کردار اس طرح کا تھا یہ تو محض سیاسی سازش کے تحت افسانہ اختراع کیا گیا جسے کوئی بھی صاحب عقل سلیم مسلمان صحیح نہیں سمجھتا ۔پس ایک مصنوعی تاریخ۔۔

۶۷

ہوسکتی اور محض افتراء پرادازی اور بہتان تراشی بزرگان اسلام کی پاک سیرتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں نیز ایلزبتھ پر یہ بات بھی واضح کرو کہ کسی دیندار کا عمل بد ہرگز دین خراب ہونے کی دلیل نہیں ہوتا ورنہ پھر حواری حضرت عیسی یہودہ عسکریوتی جس نے مسیح کو گرفتار کروایا اس کی بد کرداری کی دلیل پر مذہب عیسائیت کی تردید کی جاسکے گی ۔اگر مسئلہ میں تمھیں کوئی مزید اعتراض ہو تو وہ مجھ سے علیحدہ ڈسکس کرلینا ۔فی الحال ایلزبتھ سے جان چھڑاؤ ۔شکریہ عالیہ ۔

عائشہ جس کے نزدیک یہ مسئلہ آزمائشی و امتحان بن چکا تھا بیتاب ہے کہ اسے ایسا معقول حل مل جائے کہ ایلزبتھ کالوٹا ہو ا رجحان پھر پلٹ آئے وہ جیسے ہی فرصت وفراغت کے لمحات پاتی ہے اسی تحقیق وجستجو میں رہتی ہے ۔ایلزبتھ کا رویہ عائشہ کے ساتھ گو برا نہیں لیکن کم سے کم پہلے سے بدلا ضرور محسوس ہوتا ہے وہ نہ ہی کوئی مذہبی گفتگو کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتی ہے اور نہ ہوی اسلامی لٹریچر کا مطالعہ اس ذوق وشوق سے کرتی ہے جو کچھ عرصہ قبل تھا ۔ایلزبتھ کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے پاس اس اعتراض کا کوئی عقلی جواب نہیں ہے ۔وہ مطمئن ہے کہ عائشہ اس داغ بد نما کو صاف کرنے میں کسی طرح کامیاب نہ ہوگی کیونکہ وہ اس نکاح کی تائید کرچکی ہے اور عالیہ جس نے اس نکاح ڈھونک قرار دیا ہے اس وقت تک معتبر نہ قرار پائے گی جب تک دونوں مسلمان لڑکیوں میں اتفاق نہ ہوجائے پس ان کا باہمی جھگڑا اور نا اتفاقی اس الجھن کو سلجھانے میں سنگ راہ رہے گی ۔

ایلزبتھ کو عائشہ کی سنائی ہوئی وہ بات بھی یاد ہے کہ اس نے مشکواۃ شریف سے ایک روایت بیان کی تھی کہ جب حضرت عمر نے حضرت فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا رشتہ پیغمبر اسلام سے طلب کیا تھا تو رسول (ص) نے جواب دیا تھا کہ یہ ابھی بچی

۶۸

ہے صغیرہ ہے ۔اب کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ ایک شخص پندرہ سولہ برس بعد اس بچی کارشتہ مانگتا ہے جس کی ماں کا رشتہ اسے عذر صغیر سنی کی بنا پر دینے سے انکار کیا گیا اور یہ انکار رسول (ص) نے کیا ۔ اگر یہ شخص حکم رسول کا پابند یا لحاظ در نبی ہے تو اس کو یہ خواہش زیب نہ یتی تھی ۔ بلکہ ازروئے شریعت اسلامیہ یہ گناہ تھا کیونکہ جس بات سے رسول روکیں اس سے رکنا واجب ہے ۔

ایلزبتھ مطمئن ہے کہ اگر عائشہ نس اس مسئلہ پر گفتگو کی اور اس نکاح کو مستحسن ٹھہرایا تو اسی کی سنائی ہوئی روایت سے وہ اس کی تکذیب کر سکے گی اور یہ بھی ثابت کردےگی کہ یہ عمل خلاف سنت رسول(ص) تھا ۔

عائشہ کو عالیہ نے اپنا تبصرہ دے دیا ہے وہ اس کا مطالعہ کررہی ہے اور مندرجات اس کے دل میں اترتے ۔جی کو لگتے اور عقل ونقل پر پورے پڑتے محسوس ہورہے ہیں اس کو عالیہ کا دیا ہوا یہ مشورہ بالکل معقول لگا ہے کہ اس توہین آمیز نکاح کا انکار کردینا ہی ہماری شرم سے جھکی ہوئی نگاہوں کو اٹھانے کا واحد حل ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی کھٹکا ہے کہ میں پہلے اس نکاح کی حمایت میں بیان دے چکی ہوں اب خود ہی اپنی بات سے کس طرح پھر سکتی ہوں ۔اور پھر یہ کہ عالیہ کا تعلق مذہب شیعہ سے ہے اس نے اپنے نظریات کے مطابق اس نکاح کو افسانوی ثابت کیا ہے ۔ مگر وہ پھر سوچتی ہے کہ عالیہ کا تبصرہ دونوں مذاہب کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے اور شیعہ وسنی دونوں مذاہب کے علماء کی شہادتوں سے یہ قصّہ من گھڑت ثابت کیا گیا ہے پس میں کوئی ایسی ہستی تو ہوں نہیں جو غلطی کرنے سے محفوظ ہوں میں کیوں نہ اپنی نظر یاتی اصلاح کرلوں ۔اور ایلزبتھ کے سامنے سر اٹھا کر اعلان کردوں کہ یہ نکاح ہرگز نہیں ہوا ہے ۔یہ ہمارے علماء کی

۶۹

تحقیق وتصدیق ہے ۔

پس عائشہ نے ارادہ کرلیا کہ آج وہ ایلزبتھ کی پیدا شدہ غلط فہمی کو دور کردے گی ۔وہ برملا کہہ دے گی کہ ایسی خلاف عقل اور دشمن شرافت باتوں سے اسلام کو دور کابھی لگاؤ نہیں ہے ۔وہ بلا جھجھک اعلان کردے گی ۔کہ سابق زمانے کے شریر سیاستدانوں کی دماغی ایجاد یں ہیں جن کے بل بوتے پر انھوں نے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کیا ۔ہم ایسے حیا سوز واقعات بلکہ تہمات کی سختی سے تردید کرتے ہیں ۔ہم ایسے حیا سوز واقعات بلکہ تہمات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور ان سے بیزاری و لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اس نام نہاد نکاح کا تعلق نہ ہی ہمارے عقائد و ارکان سے ہے اور نہ ہی اصول وفروع سے ان کا کوئی واسطہ ہے یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی ۔ لہذا اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیئے کسی مذہب کی تحقیقات کے لئے ہمیشہ اسے کے بنیادی اصول وقواعد کو جانچا پرکھا جاتا ہے اگر اس کے اصول فطری ہم آہنگی کے حامل ہوں اور اس کے فروع بمطابق عقل وشعور ٹھہریں تو اس مذہب کی حقانیت کے لئے کافی ہوتے ہیں ۔کتا بیں خواہ کیسی ہی پایہ کی ہوں ۔علماء چاہے کتنی ہی شان رکھتے ہوں بہرحال ان کی ایسی تحریریں جو حضرت عمر یا کسی اور برگزیریدہ ہستی پر بے شرمی و بے غیرتی کا الزام عائد کریں وہ ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی ہیں کیونکہ اسلام اوراس کے اکابر بزرگوں کی عزت وجلالت پر دھبہ لگانے سے بہتر یہی ہے ایسی روایات کو پانی سے دھو ڈالیں اور ایسے علماء کی باتوں کو بالائے طاق رکھ دیں ۔(مولوی شبلی نعمانی نے واقعہ قرطاس کا انکار اسی عذر پر کیا ہے (الفاروق )) ۔

عائشہ کوآج قلبی سکون اور ذہنی قرار محسوس ہورہا ہے ۔وہ خوش ہے کہ اسے ایک الجھن سے نجات مل گئی ۔اسے سکھ کی سانس نصیب ہوئی عائشہ خدا کے حضور نماز شکرادا کرتی ہے جب عائشہ نماز سے فارغ ہوتی ہے ۔

۷۰

تو ایلزبتھ کو کمرے میں موجود پاتی ہے ۔

ایلزبتھ :- مس آشی کیا بات ہے آج بڑی تم fresh اور سمارٹ دکھائی دے رہی ہو ۔ چہرہ بارونق اور کھلا ہوا ہے ۔

عائشہ :- ہوں ۔ بنانا بھی کوئی تم سے سیکھے ۔کوئی خاص بات تو نہیں ہے ۔

ایلزبتھ :- اس میں بنانے کی کیابات ہے واقعہ گزشتہ دنوں کی نسبت آج تم تر وتازہ اور ہشاش بشاش نظر آرہی ہو۔

عائشہ :- اچھا بھئی ۔ ایسا ہی ہوگا ویسے مجھے تو آج تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو ۔

اس رسمی گفتگو کے بعد عائشہ اصل مقصد کی طرف آتی ہے اور ایلزبتھ کو کہتی ہے کہ

عائشہ :- ایلزبتھ تم نے جو اس دن حضرت عمر کے نکاح پر اعتراض کیا تھا میں نے اس کی ریسرچ کی ہے اور اطلاعا عرض ہے کہ حضرت ام کلثوم سے حضرت عمر کی شادی کرنا عادتا ،شرافت ،ادب ،تہذیب ،رسم ورواج اور انسانی حیاء وعزت کرے اعتبار سے ناممکن تھا اور ہم مسلمانوں کے نزدیک ایسی تمام روایات جھوٹی ہیں ۔یہ صرف اسلام کوبدنام کرنے کے لئے دشمنوں نے گھڑی ہیں ۔ یہ نکاح نہ ہی عقل سے صحیح ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی نقل سے کچھ سادہ لوح لوگوں نے اس افسانہ کی تائید ضرور کی ہے مگر اسلامی شریعت کے لحاظ سے نہ ہی یہ نکاح فقہ کے مطابق صحیح ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی تاریخ سے اس کے انعقاد کی تصدیق وتوثیق ہوتی ہے ۔روایتا اور درایتا اس نکاح کی نفی ثابت ہے

عائشہ ایلزبتھ کو علماء کے بیانات پڑھوا دیتی ہے اور اس کی غلط فہمی دور کردیتی ہے ۔

۷۱

حقیقت

افسانہ تمام ہوا ۔اب حقائق کا رخ ملاحظہ فرمائیے ۔روائتی ودرائتی اعتبار سے عقد ام کلثوم ایک مفروضہ بد نہاد کاروائی قرار پایا ۔اب تاریخی اجمال سے اس نام نہاد نکاح کی حیثیت سماعت فرمائیں ۔

تاریخی خامیاں :-

(۱):- یہ عقد ذیقعد سنہ ۱۷ ھ میں منعقد ہونا بیان کیا گیا ہے ۔اسی سال حضرت زینب بنت علی علیھما السلام کی شادی خانہ آبادی جناب عبد اللہ بن جعفر سے ہوئی ۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑی بیٹی کی موجودگی میں چھوٹی دختر کا نکاح پہلے کیوں کردیا گیا ؟

(۲):- تاریخ میں تصریحا مرقوم ہے ۔ام کلثوم اور ان کے صاحبزادے زید جنکی عمر بیس بر س تھی کا انتقال ایک ہی وقت پر ہوا ۔امام حن نے عبداللہ بن عمر کو نماز جنازہ پڑھنے کو کہا جبکہ ام کلثوم سنہ ۶۱ ھ میں واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھیں اور اسیران کربلا میں تھیں ۔عبداللہ بن عمر کا یزیدی حکومت پر بہت اثر ورسوخ تھا حتی مختار کو ان ہی عبداللہ کی سفارش پر رہا کردیاگیا تھا حالانکہ وہ اعلانیہ بنی امیہ کے جانی دشمن تھے ۔ مگر ان عبداللہ بن عمر کی سوتیلی ماں ہوتیں تو وہ ضرور غیرت کھاتے اور اپنے باپ کی عزت کو بازاروں میں در بدر نہ ہونے دیتے ۔

(۳):- مورخین نے لکھا ہے کہ بعد از وفات عمر حضرت ام کلثوم کا نکاح عون بن جعفر سے ہوا حالانکہ شیعہ روایات میں سنہ ۱۷ ھ میں بی بی زینب و ام کلثوم

۷۲

دونوں کا عقد ایک ہی وقت میں ایک ہی وقت میں عبد اللہ اور عون سے ہوا ۔بعد از وفات عمر حضرت عون سے بی بی ام کلثوم کا نکاح اس لئے نا قابل تسلیم ہے کہ جناب عون بن جعفر زمانہ عمر ہی میں جنگ فارس میں کام آگئے یعنی عون حضرت عمر کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے ۔پس بعد از موت عمر کیا عون کی روح سے شادی ہوئی ؟ ۔سنہ ۲۰ ھ میں ام کلثوم کا دوسرا عقد جناب محمد بن جعفر طیار سے ہوا جو جنگ صفین میں شہید ہوگئے اس کے بعد ام کلثوم کی نسبت سے ان کی کنیت ام کلثوم ہوگئی جبکہ اصل نام زینب صغری تھا ۔

(نوٹ :- بعض علماء اور عہد حاضر کے محققین کا خیال ہے کہ حضرت ام کلثوم کا عقد صرف عون بن جعفر ہی سے ہوا جو واقعہ کربلا میں جہاد کے میدان میں شہید ہوئے ۔)

(۴):- کسی بھی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وقت نکاح یعنی سنہ ۱۷ ھ میں منکوحہ ام کلثوم بالغہ تھیں بلکہ صغیرہ اور صبیہ کے الفاظ کمسنی پر زور دیاگیا ہے ۔جبکہ حضرت ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سنہ ۱۷ ھ میں قابل شادی تھیں ۔ام کلثوم کا نابالغی اور کمسنی پر تمام مورخین کا اتفاق ہے اور ابن حجر مکی نے اس سلسلہ میں ایک وضاحتی بیان لکھا ہے جو آپ آئندہ ملاحظہ کریں گے ۔

(۵):- اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افراد نے اکثر اس نام نہاد نکاح کا انکار کیا ہے چنانچہ علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں ۔

"اہل بیت کی جماعت جہلا اس نکاح سے کرتی ہے جس سے ہمیں تعجب ہوتا ہے " ابن حجر مزید لکھتے ہیں "جب حضرت علی نے

۷۳

ام کلثوم کو حضرت عمر کے پاس بھیج دیا تو وہ ان کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ان کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ ان کے بوسے لئے ان کے حق میں دعا ئے خیر کی اور حضرت عمر نے ام کلثوم کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنے سینے سے چمٹایا ان کے ساتھ یہ برتاؤ ان کی عزت کے خیال سے کیا کیونکہ ام کلثوم اپنی کم سنی کی وجہ سے اس عمر کو نہ پہنچی تھیں کہ ان پر شہوت ہوسکتی جس کی وجہ سے حضرت عمر پر یہ باتیں حرام ہوتیں ۔اگر وہ بہت چھوٹی بچی نہ ہوتیں تو ان کے والد ان کو حضرت عمر کے پاس بھیجتے ہی نہ تھے "۔(صواعق محرقہ مطبوعہ مصر ۹۴)۔

اب ہم علامہ ابن حجر مکی سے پوچھتے ہیں کہ اگر یہ ام کلثوم واقعی بنت علی و فاطمہ تھیں (معاذاللہ ) تو سنہ ۱۷ ھ میں و ہ گیارہ بارہ برس کی ہوچکی تھیں اتنی چھوٹی کس طرح ہوگئیں کہ مؤرخین نے صبیہ تک تعبیر کردیا حالانکہ مورخین نے ام کلثوم کا سن پیدائش سنہ ۵ ص یا سنہ ۶ بیان کیاہے پھر کس طرح حضرت علی علیہ السلام کا ان کو حضرت عمر کے پاس بھیجنا درست ہوگیا اور حضرت عمر کا بوس کنار ،سینے سے لپٹنا اور گود میں لینا جائز ٹھہرا ۔جبکہ عرب کی آب ہوا کے مطابق قریشی عورتوں کی حالت یہ تھی کہ بی بی عائشہ صرف نو برس کی عمر میں ہم بستری کے قابل ہوگئیں تھیں چنانچہ محترمہ خود فرماتی ہیں کہ اتنی عمر میں رسول نے میرے ساتھ جماع کیا ۔پس عقل ونقل دونوں طرح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سنہ ۱۷ ص میں بالغہ تھیں اور ام کلثوم زوجہ عمر اس وقت بلک ننھی ،نادان ،گود میں بٹھانے بلکہ بوسے کے قابل اور تمام بد دیکھے جانے کے لائق بچی تھیں ۔یہ وہی ام کلثوم تھیں جو سنہ ۴۹ ھ میں فوت

۷۴

ہوگئیں اور اس کے بعد دنیا میں ان کاوجود نہ تھا ۔سنہ ۵۰ کے بعد جو ام کلثوم دنیا میں تھی وہ زوجہ عمر ہرگز نہ تھیں کیونکہ ایک ہی عورت کا سنہ ۴۹ ھ دونوں کے خلاف ہے اور جو شخص ان دونوں کو ایک ہی کہے یا دونوں کے حالات ایک ہی عورت کے قرار دے یا دونوں کے تعلقات ایک ہی بی بی سے منسوب کرے ۔اس کے دماغ کا علاج کرنا ضروری ہوگا ۔ ایک بچہ بھی یہ سجھ سکتا ہے کہ سنہ ۵۰ سے قبل مری ہوئی ام کلثوم اور تھی اور کربلا والی ام کلثوم اور

ام کلثوم کی شخصیت کے تعین میں سنی علما کی گھبراہٹ:-

علمائے اہل سنت نے اپنے خلیفہ دوم پر سیدہ طاہرہ کی ناراضگی کا الزام دور کرنے کے لئے نکاح کلثوم کا افسانہ تو مشہور کردیا مگر اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے بہت کچے سہارے ڈھونڈے اور لاکھ کو ششوں کے باوجود بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ جس ام کلثوم بنت علی کا عقد سنہ ۱۷ ھ میں فرض کیا گیا وہ جناب امیر علیہ السلام کی کونسی صاحبزادی تھیں وہ کب مری اور کس کس سے عقد کیا ۔ ایک جماعت علمائے اہل سنت نے دعوی کیا کہ ام کلثوم جناب زینب سے بڑی تھیں مثلا ابن سعد ،امام نووی ،حافظ ذہبی ، مسعودی وغیرہ اسی اشتباہ کی وجہ سے اہل سنت میں اختلاف ہے کہ عبداللہ بن جعفر سے ام کلثوم کی شادی کب ہوئی ۔ چنانچہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن جعفر کا عقد ام کلثوم سے ان کی بہن زینب کے انتقال کے بعد ہوا ۔لیکن ابن انباری نے اس کے

۷۵

خلاف یہ لکھا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر کی شادی پہلے ام کلثوم سے ہوئی ان کے مرنے کے بعد زینب س نکاح کیا حسن عدوی ک بھی یہی رائے ہے ۔

حالانکہ یہ بلکل غیر معقول بات ہے کیونکہ علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ام کلثوم زوجہ عمر کا انتقال معاویہ بن ابو سفیان کے دور میں ہوا پھر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ زینب بنت علی کے پہلے شوہر عبد اللہ بن جعفر ہیں اگر ابن انباری اور عدد ی کا قول مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ بی بی زینب کی شادی ۴۹ سال کی عمر میں ہوئی جو قطعا باطل ہے کیونکہ سنہ ۱۷ جناب علی علیہ السلام خود نے حضرت زینب کا عقد عبد اللہ سے کیا ۔

مصری ادیب حسن قاسم اپنی کتاب "السیدہ زینب " میں دعوی کرتے ہیں کہ ام کلثوم کی شادی حضرت عمر سے ہوئی اور عہد معاویہ میں ان کا انتقال ہوا اور مدینہ میں وفات پائی (صفحہ ۲۳) مگر یہی صاحب آگے جا کر پھر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور شام میں مدفون ہوئیں (صفحہ ۶۴)۔

"دروغ گو حافظہ ندارد" اب بھلا سوچیں معاویہ کے دور میں مرگئی ام کلثوم یزید کے زمانہ حکومت میں اس قیدی بننے کے لئے مدینہ کے قبر ستان سے اٹھ کر شام چلی گئی تھی؟۔

بعض علمائے اہل سنت مثلا ابن جوزی اور لیث وغیرہ نے دعوی کیا ہے کہ ام کلثوم بنت علی جن کا اصل نام رقیہ تھا وہ کم سنی میں وفات پاگئیں ۔

جن لوگوں نے اس افسانوی نکاح کو بیان کیا ہے انھوں نے عمر کی

۷۶

وفات کے بعد مختلف شوہروں کو مختلف ترتیب سے بیان کیا ہے ۔اور یہ اختلاف ازخود ثابت کرتا ہے کہ کہانی جھوٹی ہے ۔

۷۷

ام کلثو بنت علی و فاطمہ اورام کلثوم زوجہ عمر کا تقابلی جائزہ

ام کلثوم زوجہ عون بن جعفر

۱:- آپ کی سنہ ولادت سنہ ۵ ھ میں ہوئی لہذا آپ سنہ ۱۷ ھ میں بالغہ ،راشدہ ،اور عاقلہ تھیں (رسالہ زینبیہ سیوطی)

۲:- آپ کی وفات سنہ ۶۲ ھ میں ہوئی آپ واقعہ کربلا میں موجود تھیں ۔

۳:- آپ کا عقد جناب امیر (ع) نے بحکم رسول عون بن جعفر سے کیا (عقد الفرید)۔

۴:- آپ لاولد تھیں (العقد المنظوم)

۵:- آپ کا حق مہر سیدہ فاطمہ (س) کی طرح صرف ۴۸۰ درہم مقرر ہوا جو جناب امیر علیہ السلام نے اپنے مال سے بطور ہبہ عطا فرمایا ۔ (العقد الفرید)

۶:- آپ نے حالت اسیری میں ابن زیاد لعین

۷۸

کے دربار اوربازار کوفہ میں فلک شگاف انداز میں فصحیح وبلیغ خطبے پڑھے۔

بنت علی ام کلثوم زوجہ عمر بن خطاب

۱:- سنہ ۱۷ ھ میں کمسن ،نابالغ ، بچی تھیں لہذا سن ولادت سنہ ۱۲ ھ ہوا ۔

۲:- سنہ ۵۴ ھ میں عہد معاویہ میں مدینہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ فوت ہوئیں ۔

۳:- آپ کا نکاح عمروبن عاص اور مغیرہ بن شعبہ کے مشورہ سے ہوا (طبری ،کامل)

۴:- آپ با اولاد تھیں (معارف)

۵:- آپ کا حق مہر ۴۰ ہزار درہم ٹھہرا جو حضرت عمر نے ادا کیا (الفاروق)

۶:- آپ واقعہ کربلا سے سات سال پہلے فوت ہوچکی تھیں

۷۹

۷:- آپ کا صرف ایک نکاح حضرت عون بن جعفر سے ہوا۔ ۷:- آپ کے متعدد نکاح مختلف شوہروں سے ہوئے ۔

۸۰