المیہ جمعرات

المیہ جمعرات0%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات:

صفحے: 333
مشاہدے: 99072
ڈاؤنلوڈ: 3924

تبصرے:

المیہ جمعرات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 99072 / ڈاؤنلوڈ: 3924
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

حضرت ابوبکر نے اپنے لشکر کو نصیحت کی تھی کہ جب تم کسی منزل پر قیام کرو تو وہاں اذان دو ، اگر مخالف بھی اذان دیں تو انہیں کچھ نہ کہو اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان سے جنگ کرو ۔اگر وہ اذان دیں تو ان سے زکواۃ کے متعلق سوال کرو اور اگر وہ زکواۃ کی فرضیت کا اقرار کریں تو ان کی بات قبول کرو اور اگر وہ زکواۃ کا انکار کریں تو ان سے جنگ کرو ۔

جب خالد اپنا لشکرلے کر وہاں پہنچا اور انہوں نے اذان دی تو اس کے جواب میں مالک کے قبیلہ نے بھی اذان دی اور نماز پڑھی اور اس امر کی گواہی خالد کے ایک فوجی ابو قتادہ نے بھی دی ۔

خالد کے لشکر نے اس مسلمان قبیلہ پر شب خون مارا ، دونوں طرف سے تلواریں چلنے لگیں ۔ مالک کے قبیلہ والوں نے حملہ آوروں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟

انہوں نے کہا ہم مسلمان ہیں ۔تو مالک کے قبیلہ نے بھی کہا کہ ہم بھی مسلمان ہیں لہذا لڑائی کیسی ؟

خالد کے لشکر نے انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا انہوں نے مسلمانوں پر اعتماد کرتے ہوئے ہتھیارڈال دئیے تو خالد نے حکم دیا کہ انہیں گرفتار کرلو ۔انہیں گرفتار کرکے خالد کے پاس لایا گیا ۔ گرفتار شدہ گان میں مالک بن نویرہ بھی تھا ۔ اس کی بیوی اسے ملنے آئی وہ بڑی خوبصورت عورت تھی ۔خالد نے اسے دیکھا ا س وقت مالک نے بیوی سے کہا کہ "کاش تو نہ آتی تو ہم بچ جاتے ۔ اب خالد نے تجھے دیکھ لیا ہے اور اس کی للچائی ہوئی نظریں دیکھ کر میں سمجھتاہوں کہ یہ تجھے حاصل کرنے کے لئے ہمیں قتل کردے گا ۔"

وہ ایک سرد اور تاریک رات تھی ۔قیدی بے چارے سردی میں ٹھٹھر رہے تھے ۔ خالد نے منادی کو حکم دیا کہ اس نے بلند آواز میں ندا دی "ادفوو سراکم " بنی کنانہ کی لغت کے مطابق اس جملے کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے قیدیوں کو قتل کردو ۔

۱۴۱

خالد کے فوجی اٹھے اور اس مسلمان قبیلے کے نمازی افراد کو بے گناہ تہ تیغ کردیا ۔

ابھی مقتولین کی لاشیں تڑپ رہی تھیں کہ خالد نے مالک کی بیوی ام عتیم سے شادی کرلی ۔یہی منظر دیکھ کر ابو قتادہ مدینہ آیا اور حضرت ابو بکر کو واقعہ کی اطلاع دی یہ خبر سن کر حضرت عمر نے کہا کہ خالد کی تلوار میں اسراف آگیا ہے لہذا اسے معزول کرکے سزا دیں ۔

حضرت ابو بکر نے کہا کہ اس نے تاویل کی اور اس سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ خالد تواللہ کی تلوار ہے ۔تم خالد کے متعلق اپنے منہ سے کچھ نہ کہو ۔چند دنوں بعد خالد بھی مدینہ آیا اور حضرت ابوبکر کے سامنے اپنی غلطی کی معذرت کی ۔حضرت ابوبکر نے اسے معاف کردیا اور اس کی شادی کوبھی جائز قرار دیا ۔

مالک بن نویرہ کا بھائی متمم بن نویرہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور مطالبہ کیا کہ اس کے بھائی کو خالد نے ناحق قتل کیا ہے اور ہمارے افراد کو ناحق قید کرکے مدینے لایا ہے ۔ لہذا مجھے قانون شریعت کے مطابق خالد سے قصاص دلایا جائےاور ہمارے قبیلہ کے قیدیوں کو رہا کیا جائے ۔ حضرت ابوبکر نے قیدیوں کو فی الفور رہا کردیا اور خالد پر قصاص نافذ کرنے کی بجائے بیت المال سے مالک کا خون بہا ادا کیا

متمم بن نویرہ اپنے بھائی مالک کے ہمیشہ مرثیے کہا کرتا تھا ۔ اس کے مرثیے ادب عربی میں آج بھی شہ پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں(۱) ۔

واقعہ مالک کا تجزیہ

۱:- یہ لشکر کشی خلیفہ کے حکم اور اطلاع کے بغیر کی گئی ۔

۲:- خلیفہ کی طرف سے لشکر کو حکم تھا کہ وہ اذان دیں ، اگر جواب میں مخالفین

____________________

(۱):-الکامل فی التاریخ جلد دوم ۔ص ۲۴۲-۲۴۳

۱۴۲

بھی اذان دیں تو ان سے جنگ نہ کی جائے ۔ان سے زکواۃ کے متعلق دریافت کیا جائے کہ آیا وہ اس کی فرضیت کے قائل ہیں ؟ اگر وہ قائل ہوں تو ان سے کسی قسم کی چھیڑ خانی نہ کی جائے ۔

آخر مالک اور اس کے قبلہ کا جرم کیا تھا ؟ انہوں نے اذان دی اور نماز پڑھی ۔جس کی گواہی صحابی رسول ابو قتادہ نے دی ۔ اس کے باوجود بھی انہیں قتل کردیا گیا ۔آخر کیوں؟

۳:- خالد نے بھی ان کے قتل کا حکم جن الفاظ سے دیا وہ الفاظ ذومعنی تھے ۔ اس حملے کا ایک مطلب یہ بنتا تھا کہ "اپنے قیدیوں کو گرم کرو" اور لغت بنی کنانہ میں اس جملے کا مطلب تھا کہ "اپنے قیدیوں کو قتل کردو ۔"خالد نے دراصل یہ سمجھا کہ میں ان الفاظ کے ذریعے سے قیدیوں کو قتل کرادوں گا۔اور خلیفہ کی طرف سے سختی ہوئی تو میں کہہ کر بری الذمہ ہوجاؤں گا ۔کہ میں نے تو قیدیوں کو گرم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ قتل کرنے کا حکم تو میں نے جاری نہیں کیا تھا ۔فوجیوں نے میرے الفاظ کا مطلب غلط سمجھا ۔لہذا اس پورے واقعہ میں میں با لکل بے گناہ سمجھاؤں گا ۔

۴:- اگرخالد کو نماز اور ذان کے باوجود بھی ان کے اسلام میں شک تھا تو انہیں خلیفہ کے پاس مدینہ بھیج دیتے ۔انہیں اس طرح سے قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا تھا ؟

۵:-شوہر کی لاش ! ابھی تڑپ رہی تھی اور خالد نے اس کی بیوی کو اپنی بیوی بنالیا ۔خالد کا یہ فعل ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے ۔اس کی اجازت نہ تو دین اسلام دیتا ہے اورنہ ہی انسانیت اس کو جائز سمجھتی ہے ۔

۶:- حضرت ابو بکر خالد کے اتنے بڑے کو کیوں معاف فرمایا جبکہ حضرت عمر بھی خالد کو مجرم قرار دے کر حد شرعی کا مطالبہ کررہے تھے ؟

۱۴۳

۷:- خالد نے بھی خلیفہ کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معذرت طلب کی تھی اور خلیفہ صاحب نے معاف کردیا تھا ۔کیا اسلامی شریعت میں کوئی ایسی شق موجود ہے کہ مجرم اپنے گناہ کا اقرار کرکے معذرت کرے اس پر حد شرعی نافذ نہ کی جائے ۔

۸:-کیا نص کی موجودگی میں اجتہاد کی گنجائش ہے ؟

غالبا یہی وجہ تھی کہ حضرت علی (ع) نے سیرت شیخین کی شرط کو ٹھکراکر کہا تھا میری اپنی ایک بصیرت ہے ۔

۹:- حضرت ابو بکر کا طرز عمل بھی خالد کے غلط کار ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔کیونکہ انہوں نے قیدیوں کو رہا کردیا تھا اور مالک کا خون بہا مسلمانوں کے بیت المال سے ادا کیا گیا ۔لیکن ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ خالد کے گناہ کے لئے مسلمانوں کے بیت المال پر کیوں بوجھ ڈالا گیا ؟ اس واقعہ کے بعد ابو قتادہ نے قسم کھالی تھی کہ آیندہ پوری زندگی خالد کے لشکر میں کبھی شامل نہ ہوں گے اور اس ظلم کو دیکھ کر وہ لشکر میں کبھی شامل نہ ہوں گے اور اس ظلم کو دیکھ کر وہ لشکر کو چھوڑ کر مدینہ آگئے اور حضرت ابوبکر کو تمام ماجرے کی خبر دی اور کہا کہ میں نے خالد کو مالک کے قتل سے منع کیا تھا لیکن اس نے میری بات نہیں مانی ۔اس نے اعراب کے مشورہ پر عمل کیا جن کا مقصد صرف لوٹ مار کرنا تھا۔

ابو قتادہ کی باتیں سن کر حضرت عمر نے کہا کہ اس سے قصاص لینا واجب ہوگیا ہے(۱) ۔اور جب خالد مدینہ آئے تو حضرت عمر نے کہا : اے اپنی جان کے دشمن ! تو نے ایک مسلمان پر چڑھائی کی اور اسے ناحق قتل کردیا اور تو نے اس کی بیوی کو ہتھیالیا ۔یہ صریحا زنا ہے ۔خدا کی قسم ہم تجھے سنگسار کریں گے ۔

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص ۱۸۴

۱۴۴

مورخین لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر بر سر اقتدار ہوئے تو انہوں نے مالک کے خاندان کے بقیہ السیف افراد کو جمع کیا اور پھر مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس خاندان کا لوٹا ہوا مال و متاع فی الفور واپس کیا جائے ۔ حضرت عمر نے یہاں تک کیا کہ ان کی جن خواتین کو اس وقت کنیزیں بنا کر فروخت کردیا گيا تھا ان سب عورتوں کو لوگوں سے واپس کرایا اور ان میں سے بعض حواتین حاملہ بھی تھیں ان عورتوں کو سابق شوہروں کے حوالے کیا گیا ۔

علاوہ ازیں خالد وہی شخصیت ہیں جنہوں نے حضرت ابو بکر کے اواخر خلافت میں سعد بن عبادہ کو علاقہ شام میں رات کی تاریکی میں قتل کردیا تھا اور بعدمیں یہ مشہور کیا گیا کہ انہیں جنات نے قتل کیا ہے ۔

خالد بن ولید کے یہی کارنامے تھے جن کی وجہ سے حضرت عمر نے انہیں فوج کی سالاری سے معزول کردیا تھا ۔

ابن اثیر لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حکومت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ انہوں نے اپنے سالار ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ وہ خالد کا لشکر سنبھال لیں ۔ کیوں کہ میں نے اسے معزول کردیا ہے اور جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تو خالد کے سر سے پگڑی اتار لینا او راس کا مال تقسیم کردینا(۱) ۔

درج بالا واقعات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں :- دینی اور دنیاوی لحاظ سے سیرت شیخین کوئی منظم اور مدوّن چیز ہی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ کیونکہ حضرت علی یہ سمجھتے

____________________

(۱):- الکامل فی التاریخ جلد ۔جلد سوم ۔ص ۲۹۳

۱۴۵

تھے کہ اسلامی حکومت کی بنیاد کتاب وسنت ہے ۔علاوہ ازیں کسی لاحقہ کی ضرورت نہیں ہے ۔علی موجود دور کے سیاست دان نہیں تھے کہ اقتدار کے لئے کسی ناجائز شرط کو تسلیم کرلیتے ۔

اس کے برعکس حضر ت عثمان نے تینوں شرائط کو قبول کرنے کا وعدہ کیاتھا ۔مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ نہ تو کتاب وسنت پر کما حقہ عمل کرسکے اور نہی عمل سیرت شیخین پر عمل پیرا ہوئے ۔

۱۴۶

سقیفہ کا تیسرا چہرہ

۳:- حضرت عثمان بن عفان:-

فقام ثالث القوم نافجا حفنیه بین نشیله و معتلفه وقام معه بنو ابیه یخصمون مال الله خصمة الابل نبتة الربیع الی ان انتکت قتله واجهز علیه عمله وکبّت به بطنته فماراعنی الا والناس کعرف الضبع الی ینثالون علی من کیل جانب حتی لقد وطئی الحسنان وشق عطفای مجتمعین حولی کربیضة الغنم ۔۔۔۔۔۔(الامام علی بن ابی طالب علیہ السلام)

"پھر اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑاہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے ۔جو مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے ۔

یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کام تمام کردیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل کرادیا ۔اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کردیا جو میری جانب بجو کے ایال کی طرف سے لگا تار بڑھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن اور

۱۴۷

حسین کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے ۔مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی ،دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کرلیا ۔گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ "یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قراردیا ہے جو دنیا میں نہ بے جا بلندی چاہتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے ۔"

ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا ۔لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اوراس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا ۔ دیکھو اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے ۔کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھی تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سےسیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کومیری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ قابل اعتنا نہ پاتے(۱) ۔"

حضرت عمر کی وفات کے بعد عبدالرحمن بن عوف کی "خصوصی عنایت " کے ذریعے سے حضرت عثمان بر سر اقتدار آئے ۔

اقتدار پر فائز ہوتے ہی انہوں نے پہلا کا یہ کیا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں بنی امیہ اور آل ابی معیط کو حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز کردیا ۔ان میں ایسے حکام بکثرت تھے جنہوں نے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ۔ان کے دلوں میں تعلیمات اسلام کی بجائے امیہ بن عبدالشمس اور حرب اور

____________________

(۱):-نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ سے اقتباس۔

۱۴۸

ابو سفیان اور ہند بنت عتبہ اور معاویہ کی تعلیمات جاگزیں تھیں ۔

حضرت عثمان نے امور مملکت کے لئے اسلام دشمن عناصر اورمردان بن حکم جیسے لوگوں کی خدمات حاصل کیں اور یوں ان لوگوں کے ہاتھوں اسلامی تعلیمات مسخ ہوگئیں ۔

اموی اقتدار نے عالم عرب میں فساد وفسق کی تخم ریزی کی ۔ان کے اقتدار کے نتیجہ میں لوگوں میں ہوس زر پروان چڑھی اور احقاق حق اور ابطال باطل کے اسلامی جذبات کے بجائے قبائلی اور خاندانی عصبیوں نے جنم لیا ۔

اس مقام پر ہم عالم عرب پر اموی اقتدار کے منحوس نتائج پر بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم اپنی اس بحث کو خلیفہ ثالث کے عہد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں کہ اس دور میں بنی امیہ پر کیا کیا نوازشات ہوئیں اور ان نوازشات کی وجہ سے گمنام خاندان نے کس طرح اپنی حیثیت تسلیم کرائی ، اور کس طرح سے انہوں نے آئندہ کے لئے اپنی راہ ہموار کی ۔لیکن اس سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ کی اسلام دشمنی کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جائے ۔

بنی امیہ کی اسلام دشمنی

جنگ بدر

جنگ بدر کا معرکہ بنی امیہ کی اسلام دشمنی کی بولتی ہوئی تصویر ہے ۔اس میں معاویہ کا بھائی حنظلہ بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس قتل ہوا ۔

حضرت عثمان کے قریبی اعزا میں سے عاص بن سعید عاص اور عبیدہ بن سعید بن عاص اور ولید بن عقبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس اوریہ معاویہ بن ابی

۱۴۹

سفیان کا ماموں تھا اور اس کی جگر خوار ماں ہند کا بھائی تھا اور شبیہ بن ربیعہ بن عبدالشمس اور عقبہ بن ابی معیط جو کہ حضرت عثمان کے مادری بھائی ولید کا باپ تھا ، یہ سب اموی قتل ہوئے تھے ۔ علاوہ ازیں بہت سے اموی جنگ بدر میں قیدی بھی ہوئے تھے جن میں ابو العاص بن ربیع بع بعدالعزی بن عبد الشمس اور حرث بن وجزہ بن ابی عمر بن امیہ بن عبد الشمس سرفہرست تھے اور ان کے علاوہ معاویہ کا بھائی عمر و بن ابی سفیان جو کہ عقبہ بن ابی معیط کا داماد تھا "وہ بھی قیدیوں میں شامل تھا ۔

ابو سفیان کے کسی ساتھی نے اسے مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لئے فدیہ ادا کرو ۔ابو سفیان نے کہا کیا میرے ہی گھرانے قتل ہوا ہے اور فدیہ بھی میں نے ہی دینا ہے ؟ میرے ایک بیٹے حنظلہ کو قتل کیا جاچکا ہے اور اب میں دوسرے بیٹے کا فدیہ دے کر محمد (ص) کو مالی طورپر مضبوط کروں ؟ کوئی بات نہیں مینن اپنے بیٹے کرے لئے فدیہ ادا نہیں کروں گا ۔اسی اثناء میں ایک مسلمان جس کا نام سعد بن نعمان اکال تھا وہ اپنے بیٹے کے بدلے قید کرلیا اور کہا کہ مسلمان اس کی آزادی کے بدلہ میں جو فدیہ مجھے دیں گے میں وہی فدیہ دے کر اپنے بیٹے کو آزاد کراؤں گا اور اس سلسلہ میں ابو سفیان کے شعر بھی مشہور ہیں ۔

معاویہ کا نانا عتبہ جنگ بدر میں قتل ہوا تھا ۔اس کی بیٹی اور معاویہ کی ماں ہند اپنے مقتول باپ پر یہ مرثیہ پڑھا کرتی تھی ۔

یریب علینا دهرنا فیسوؤنا ویا بی فما ناتی بشی نغالمه

فابلغ اباسفیان عنی مالکا فان القه یوما فسوف اعاتیه

۱۵۰

فقد کان حرب یسعر الحرب انه لکل امری فی الناس مولی یطالبه

"آج زمانے ک گردش ہماری مخالف ہوچکی ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم زمانے کی گردش پہ غالب آسکیں ۔"

ابو سفیان !میری طرف سے مالک تک یہ پیغام پہنچادو اگر میں اس سے کسی دن ملی تو اسے ملامت کروں گی ۔

حرب تو جنگ کی آگ بھڑکا یا کرتا تھا اور یاد رکھ لو ہر شخص کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتا ہے جو اس کے قصاص کا مطالبہ کرتا ہے "۔

جنگ بدر میں بنی امیہ کا بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی عداوت کے شعلے مزید بھڑک اٹھے تھے اور دلی کدورتوں کو مزید جلا مل گئی تھی اور وہ ہمیشہ بدر کا انتقام لینے کی سوچتے رہتے تھے ۔ دشمنان مصطفی میں ابو سفیان سر فہرست تھا ، اس نے کفار قریش کو ایک نئی جنگ کے لئے آمادہ کیا اور باقی عرب کو ہم نوا بنانے کے لئے افراد کو سفیر بنایا گیا ۔ جن میں عمرو بن عاص پیش پیش تھا ۔جنگ احد کے لئے ابو سفیان اپنے ساتھ کفار کا ایک لشکر لے کر روانہ ہو اور کفار کو مزید ترغیب دینے کے لئے عورتوں کو بھی ساتھ لایا گیا تھا ۔

جن میں معاویہ کی ماں ہند اور خالد بن ولید کی بہن فاطمہ بنت ولید اور عمر وعاص کی بیوی ریطہ بنت منبہ شامل تھیں ۔ یہ عورتیں دف بجا کر مردوں کو لڑنے کی ترغیب دیتی تھیں اور اپنے مقتولین پر مرثیہ خوانی کرتی تھیں ۔

دوران سفر ہند کا گزر جب بھی" وحشی " کے پاس سے ہوتات تو کہتی :" ابو دسمہ" میرے جذبات کو ٹھنڈا کر اور تو بھی آزادی حاصل کر "۔

خالد بن ولید سواروں کی ایک جماعت کا سالار تھا اور ابو سفیان لات و

۱۵۱

عزی کو اٹھا کر لایا تھااور ان کے پیچھے ہند دل سوز آواز مین دف کی تال پر جنگی گانے گارہی تھی جس کے چند فقرات یہ ہیں ۔"

نحن بنات طارق نمشی علی النمارق

ان تقبلوا نعائق ونفرش النمارق

او تدبروا نفارقفراق غیر وافق

ہم ستاروں کی بیٹیاں ہیں ۔ نرم ونازک قالینوں پر چلنے والیاں ہیں ۔

آج تم اگر جنگ کروگے تم ہم تمہیں گلے لگائیں گی اور تمہارے لئے قالین بچھائیں گی

اور اگر آج تم نے پشت دکھائی تو ہم تم سے جدا ہوجائیں گی اور تم ہم سے ہماری کوئی رسم و راہ نہ ہوگی ۔"

جنگ احد میں عمر بن عاص بھی رجز پڑھ رہا اور شعر وشاعری کے ذریعے کفار کی ہمت افزائی میں پیش پیش تھا ۔

جنگ احد میں مسلمان تیر اندازوں کی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ خالد بن ولید مسلمان فوج کے عقب میں حملہ آور ہوا ،مسلمان فوج کے قدم اکھڑگئے ، صفیں منتشر ہوگئیں اور بہت سے جانبازان اسلام شہید ہوئے ۔جن میں رسول خدا کے پیارے چچا حضرت امیر حمزہ بھی شامل تھے۔

جنگ کے اختتام پر امیر معاویہ کی "والدہ ماجدہ" نے شہدا ئے احد کی لاشوں کی بے ادبی کی ۔شہدائے اسلام کے ناک اور کان کاٹے ان سے ہار تیار کیا اور گلے میں پہنا ۔اس پر بھی اس کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوئی تو حضرت حمزہ کا سینہ چاک کرکے ان کے جگر کو چبانا شروع کردیا جگر چبانے کے بعد ایک چٹان پر کھڑی ہوکر کہا :

۱۵۲

"آج ہم نے بدرکا بدلہ لے لیا ہے ۔آج میں نے اپنے باپ ،بھائی اور چچا کا انتقام لے لیا ہے ۔"

حلیس بن زبان کی روایت ہے کہ میں نے احد میں ابو سفیان کو دیکھا وہ امیر حمزہ کے مردہ جسم کو ٹھوکریں مار کر کہتا تھا میری ٹھوکروں کا مزہ چکھ۔

وہاں سے جاتے وقت پھر ابو سفیان نے اعلان کیا کہ آیندہ سال ہم پھر بدر کے مقام پر تم سے جنگ کریں گے ۔

اس کے بعد ابو سفیان نے اسلام اوررسول اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ابو سفیان کی بدولت ہی جنگ خندق پیش آئی۔ابو سفیان نے مسلمانوں کے مرکز مدینہ طیبہ کو تباہ کرنے کے لئے مدینہ کے یہودیوں سے سازباز کی ۔

یہی ابو سفیان ہی تھا جس نے مہاجرین حبشہ کو نجاشی کے ملک سے نکالنے کے لئے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ پر مشتمل سفارت روانہ کی ۔

الغرض ہر طرح کی حرکتیں کرنے کے باوجود بھی جب بنی امیہ اسلام کو نہ مٹاسکے تو انہوں نے اسلام کو مٹانے کی ایک او رتدبیر کی اور سوچا کہ ہماری مخالفت کے باوجود اسلام ختم نہیں ہوا تو ہمیں چاہئیے کہ ہم مسلمان ہوجائیں اور اس طرح سے دو فائدے حاصل کرسکیں گے ۔اول اپنی جان بچائیں گے دوم مستقبل میں اسلام کےپیکر پر کاری ضرب لگانے کے بھی قابل ہوجائیں گے یعنی ان کی سوچ صرف یہی تھی کہ اگر بیرونی جارحیت کی وجہ سے ہم اسلام کو نقصان نہیں پہنچاسکے تو اندرونی سازشوں کے ذریعے سے اسلام سے انتقام لیا جاسکتا ہے اور فتح مکہ کے وقت انہوں نے اپنی تدبیر پر حرف بہ حرف عمل کیا ۔

۱۵۳

بنی امیہ کا اسلام

کفار مکہ کا قائد فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگیا اور اس کے اسلام لانے کا واقعہ یہ ہے کہ جب جناب رسول خدا (ص) بھاری جمعیت لے کر مکہ سے باہر پہنچے تو اس وقت قریش کسی قسم کی مزاحمت کے قابل نہ تھے ابو سفیان نے رسولخدا(ص) کے چچا عباس کو مجبور کیا کہ وہ انہیں رسولخدا(ص) کی خدمت میں لے جائے ۔ جب عباس اسے لے کر حضور اکرم کی خدمت میں پہنچے تو رسول خدا (ص) نے فرمایا : " ابو سفیان کیا تمہارے لئے ابھی و ہ وقت نہیں آیا کہ تم اللہ کی وحدانیت کی گواہی دو؟"

ابو سفیان نے کہا ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔آپ کتنے شریف اور بردبار اورکریم ہیں ۔ اس چیز کے لئے میرے دل میں کچھ شک ہے ۔

عباس نے کہا : ابو سفیان اگر آج جان بچانی ہے تو مسلمان ہوجاؤ چنانچہ ابو سفیان مسلمان ہوگیا(۱) ۔

اسلام قبول کرنے کے بعد ابو سفیان نے اپنے کفر پر پروان چڑھنے والے اعصاب پر بظاہر کنٹرول کیا اور لوگوں کو دکھانے کے لئے بت پرستی چھوڑ ا اور نئے دین کا اعتراف کرنے لگا ۔لیکن رگوں میں رچی ہوئی بے دینی اور کفر کا گاہے گاہے اس سے اظہار بھی ہوجاتا تھا ۔

فتح مکہ کے بعد ایک کافر جس کا نام حرث بن ہشام تھا اس نے

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون ۔ جلد دوم ۔ص ۲۳۴

۱۵۴

ابو سفیان سے کہا:- اگر میں محمد (ص) کو رسول مان لیتا تو اس کی ضرور پیروی کرتا ۔

ابو سفیان نے اس سے کہا :- میں کچھ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اگر آج میں کچھ کہوں گا تو یہ پتھر بھی میرے خلاف گواہی دیں گے(۱) ۔

عبارت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کا اسلام منافقت پر مبنی تھا اگر وہ دل سے مسلمان ہوچکا ہوتا تو کافر کو منہ توڑ جواب دیتا

فتح مکہ کے وقت ابو سفیان کی جگر خوار بیوی ہندہ نے بھی بامر مجبوری اسلام قبول کیا تھا ۔

جب رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت فرمایا کہ تم میری اس بات پر بیعت کرو کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کروگی ۔

یہ سن کر ہند نے کہا:- ہم نے تو انہیں پال کر جوان کیا تھا لیکن تم نے بدر میں انہیں قتل کردیا ۔

رسول خدا(ص) نے فرمایا :- تم میری بیعت کرو کہ تم زنا نہیں کروگی ۔

ہند نے کہا:- کیا آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے ؟

جب رسول خدا نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب سنا تو عباس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔

اسلام دشمنی میں بنی امیہ کی مثال ڈھونڈ نے پر بھی کہین نہیں ملتی ۔

بنی امیہ جو حضرت عثمان کا خاندان تھا اس کے پیرو جواں غرضیکہ جن پر بھی نظر پڑتی ہے وہ اسلام دشمنی سے بھرا ہوا نظر آتا ہے ۔مروان کا باپ "حکم " رسول خدا (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا ۔ اسی لئے رسول خدا (ص) نے اسے مدینہ سے جلاوطن کر کے طائف بھیج دیا تھا ۔

بلاذری لکھتے ہیےں :- حکم بن عاص بن امیہ حضرت عثمان کا چچا تھا ۔دور

____________________

(۱):- سیرت ابن ہشام ۔جلد چہارم ۔ ص ۳۳

۱۵۵

جاہلیت میں رسول خدا کا پڑوسی تھا اور آپ کا بد ترین ہمسایہ تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی رسول خدا کو سخت اذیت پہنچایا کرتا تھا ۔ وہ بدبخت حضور کے پس پشت ان کی نقلیں اتارا کرتا تھا ۔"

ایک دفعہ رسول خدا اپنی کسی گھر والی کے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اس اپنی نقل کرتے ہوئے دیکھ لیا ۔آپ باہر آئے اور فرمایا کہیہ اور اسکی اولاد میرے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اس کے بعد آپ نے اسے اولاد سمیت طائف کی طرف جلاوطن کردیا ۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی وہ جلا وطن ہی رہا ۔جب عثمان بنے تو انہوں نے اپنے چچا کو وہاں سے مدینہ بلالیا(۱) ۔

حضرت عثمان کا ایک انتہائی معتمد ابن ابی سرح تھا اور یہ وہ شخص ہے جو کتابت وحی کیا کرتا تھا۔ اس نے وحی کی کتابت میں تحریف کی تو رسول خدا نے اسے واجب القتل قرار دیا ۔ حضرت عثمان کے دور حکومت میں ان کے مادری بھائی ولید بن ابی معیط کو بڑا رتبہ حاصل تھا اور یہ وہ شخص ہے جسے رسول خدا (ص) نے بنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ موصوف جب اس خاندان کی آبادی کے قریب گئے تو ان سے ملے بغیر واپس چلے آئے اور رسول خدا کو بتایا کہ وہ لوگ تومیرے قتل کے درپے ہوگئے تھے ۔ مقدر اچھا تھا کہ میں بھاگ نکلا ۔

رسول خدا نے ان لوگوں کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرمایا ۔

اسی اثناء میں اس خاندان کے معزز افراد رسول خدا کے پاس آئے اور آکر بتایا کہ آپ کا عامل آیا تھا ۔ جب ہم نے اس کی آمد کی اطلاع سنی تو اس کے استقبال کے لئے آگے آئے لیکن آپ کا عامل ہم سے ملے بغیر واپس چلا گیا ۔

اللہ تعالی نے اس پر یہ آیت فرمائی "یا ایها الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا "

____________________

(۱):- بلاذری ۔انساب الاشراف جلد ۵ ص ۲۲

۱۵۶

"ایمان والو! جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"(۱)

اللہ تعالی نے حضرت عثمان کے اس مادری بھائی کو قرآن مجید میں لفظ "فاسق" سے یاد فرمایا ہے ۔

ابو سفیان اور اس کے ہم نوا افراد کو دوسرے مسلمان "طلقاء" کے نام سے یاد کیا کرتے تھے ۔اور جب معاویہ کا ذکر ہوتا تو اس وقت کے مسلمان فرمایا کرتے تھے کہ معاویہ جو قائد المشرکین ابوسفیان کا بیٹا ہے اور وہ معاویہ جو ہند جگر خوار کا نور نظر ہے(۲) ۔

زبیر بن بکار نے "موبقات میں مغیرہ بن شعبہ کی زبانی لکھا ہے کہ :- حضرت عمر نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اپنی کانی آنکھ سے بھی کچھ دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔

حضرت عمر نے کہا :- خدا کی قسم بنو امیہ تیری آنکھ کی طرح اسلام کو بھی کانا بنائیں گے اور پھر اسلام کو مکمل اندھا بنادیں گے کسی کو معلوم نہ ہوسکے گا کہ اسلام کہا ں سے آیا اور کہا ں چلا گیا ۔

امام بخاری اپنی صحیح میں لکھتے ہیں کہ :- ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے پوچھا کہ کیا ہمارے ان اعمال کا بھی ہم سے محاسبہ ہوگا جو ہم نے دور جاہلیت میں سرانجام دئیے تھے ؟

آپ (ص) نے فرمایا نہیں ۔جس نے اسلام لاکر اچھے عمل کئے اس کا مواخذہ نہیں ہوگا اور جس نے اسلام لانے کے بعد بھی برےعمل کئے تو اس سے اگلے اور پچھلے اعمال کا محاسبہ ہوگا(۳) ۔ حضرت عثمان کی مالی پالیسی خالصتا اقربا ءپروری پر مشتمل تھی ۔ انہوں نے بنی امیہ پر بیت المال کا منہ کھول دیا ۔

____________________

(۱):-الحجرات ۔۶۔

(۲):-ڈاکٹر طہ حسین ۔علی وبنوہ ۔ص ۱۵۵

(۳):- صحیح بخاری ۔جلد ہشتم ص ۴۹

۱۵۷

بنی امیہ پر نوازشات

حضرت عثمان نے مروان بن حکم کو دولاکھ دینار عطا فرمائے اور مروان کی بیٹی عائشہ کی شادی کے موقع پر اس کی بیٹی کو بھی دو لاکھ دینار عطا فرمائے ۔ علاوہ ازیں مروان کو بھاری جاگیریں بھی عطا فرمائیں ۔

حالت یہ ہوئی کہ بیت المال کے خازن زید بن ارقم نے استعفاء دے دیا ۔ مذکورہ بالا عطا تو حضرت عثمان کی انتہائی قلیل عطاؤں میں سے ہے ۔

انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی ابو سفیان کو ایک لاکھ درہم عطا کئے(۱) ۔

اپنے ایک اور رشتہ دار کو بھاری رقم لکھ کر بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا ۔خازن ایمان دار شخص تھا ۔ اس نے اتنی رقم دینے سے انکار کردیا ۔

حضرت عثمان نے خازن سے بار بار مطالبہ کیا کہ اسے مطلوبہ رقم خزانہ سے فراہم کی جائے لیکن خازن اپنی بات پرا ڑارہا ۔

حضرت عثمان نے اسے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ تیری کیا حیثیت ہے ؟

تو بس ایک خزانچی ہے ۔لیکن اس نے کہا :- میں مسلمانوں کے بیت المال کا خزانچی ہوں ۔آپ کا ذاتی خزانچی نہیں ہوں ۔پھر اس نے خزانے کی چابیاں لاکر رسول خدا(ص) کے منبر پر رکھ دیں(۲)

بلاذری اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :-

عبداللہ بن ارقم بیت المال کے خازن تھے ۔ حضرت عثمان نے ان سے ایک لاکھ درہم کی رقم طلب کی اور ابھی رقم نکلی ہی تھی کہ مکہ سے عبداللہ بن اسید بن ابی العیص اپنے ساتھ افراد کو لے کر حضرت عثمان کے پاس آیا ۔حضرت

____________________

(۱):-عبداالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب جلد دوم ص ۲۰-۲۱

(۲):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنۃ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۹۴

۱۵۸

عثمان نے عبداللہ کے لئے تین لاکھ درہم اور اس کے تمام ساتھیوں کے لئے ایک ایک لاکھ درہم دینے کا حکم صادر فرمایا ۔

خازن ہے تجھے انکار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

خازن نے کہا :- جناب ! میں مسلمانوں کےبیت المال کا خازن ہوں اور آپ کا ذاتی خازن آپ کا غلام ہے ۔میں آپ کے اس رویہ کی وجہ سے استعفاء دے رہا ہوں ۔پھر اس نے چابیاں منبر رسول (ص) پر رکھ دیں اور خود ملازمت سے علیحدہ ہوگیا ۔

حضرت عثمان نے اسے منانے کے لئے اس کے پاس تین لاکھ درہم بھیجے لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا ۔

حضرت عثمان کی سخاوت کی داستانیں لوگوں کے گوش گزار ہوئیں اس سے لوگوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگے اور چند دنوں کے بعد لوگوں میں یہ افواہ پھیلی کہ بیت المال میں انتہائی قیمتی جواہر کا ہار موجود تھا جو حضرت عثمان نے اپنے کسی رشتہ دار کے حوالے کردیا ۔ لوگوں نے اس بات کا برا منایا اور حضرت عثمان سے شدید احتجاج کیا ۔اس احتجاج پر حضرت عثمان سخت ناراض ہوئے اور اعلان کیا ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل اس بیت المال سے کریں گے ۔اگر کسی کادل جلتا ہے تو جلتا رہے ۔اگر اس سے کسی کی ناک رگڑتی ہے تو رگڑتی رہے ۔حضرت عمار بن یاسر نے یہ سن کر کہا :- میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس اس فعل پرراضی نہیں ہوں ۔

حضرت عثمان نے کہا :- اسے گھٹیا شخص !تیری یہ جراءت کہ تو مجھ پر جسارت کرے؟ پھر پولیس کے افراد سے کہا اسے فورا پکڑلو۔

حضرت عمار کو پکڑ لیا گیا اور انہیں اتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگئے ۔

۱۵۹

انہیں اٹھا کر حضرت ام سلمہ کے حجرہ میں لایا گیا ۔حضرت عمار سارا دن بے ہوش رہے اور اسی بے ہوشی کی وجہ سے ان کی ظہر ،عصر اور مغرب کی نمازیں قضا ہوگئیں جب انہیں ہوش آیا تو وضو کرکے انہوں نے نماز ادا کی اور کہا :- اللہ کا شکر ہے آج پہلی دفعہ مجھے اللہ کے دین کے لئے نہیں مارا گیا ۔

حضرت ام سلمہ یا حضرت عائشہ میں سے ایک بی بی نے رسول خدا کا لباس اور ان کی نعلین نکال کر اہل مخاطب کرکے کہا لوگو ! یہ رسول خدا کا لباس اور ان کا موئے مبارک اور نعلین ہے ۔ ابھی تک تو رسول خدا کا لباس بھی پرانا نہیں ہوا تم نے ان کی سنت کو تبدیل کردیا ۔

اس موقعہ کی وجہ سے حضرت عثمان کو خاصی شرمندگی اٹھانی پڑی اور ان سے اس کا جواب نہ بن آیا(۱)

اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عثمان نے بیک دوغلطیاں کیں :

۱:- بنو امیہ کو مسلمانوں کا مال ناحق دیا گیا ۔

۲:-رسول خدا(ص) کے ایک جلیل القدر صحابی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

حضرت عثمان کی "سخاوت "کی مثال نہیں ملتی

آپ نے مروان بن حکم کو افریقہ کا سارا خمس عطا فرمایا اور "حکم" کے دوسرے بیٹے حارث کو تین لاکھ درہم عطا فرمائے۔

عبداللہ بن خالد بن اسید اموی کو تین لاکھ درہم عطا فرمائے ۔

اس کے وفد میں شامل ہر شخص کو ایک ایک لاکھ درہم دیا گیا ۔

زبیر بن عوام کو چھ لاکھ درہم دئیے گئے

طلحہ بن عبیداللہ کو ایک لاکھ درہم دیا گیا

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔ "عثمان بن عفان" ۔بلاذری ۔انساب الاشراف جلد پنجم ص ۴۸

۱۶۰