المیہ جمعرات

المیہ جمعرات0%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات:

صفحے: 333
مشاہدے: 99053
ڈاؤنلوڈ: 3924

تبصرے:

المیہ جمعرات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 99053 / ڈاؤنلوڈ: 3924
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

مرکزی ستارہ بن جاؤ ۔ اے ابو عبدالرحمن ! اگر تم عثمان کا بدلہ لینا چاہو تو تم اس کے لئۓ ہر طرح سے موزوں ہو "

جب یہ خط معاویہ کے پاس پہنچا تو اس نے لوگوں کو جمع کیا اور پر درد تقریر کی ۔ تقریر سن کر لوگ بے ساختہ رونے لگے اور ان کی آہ وفغاں کی آوازیں بلند ہوئیں ۔معاویہ کی تقریر اتنی موثر ثابت ہوئی کہ عورتوں نے بھی جنگ میں حصہ لینے کی پیش کش کی ۔

اس کے بعد معاویہ نے طلحہ بن عبیداللہ ،زبیر بن العوام ،سعید بن العاص ،عبداللہ بن عامر ،ولید بن عقبہ اور یعلی بن امیہ کو خطوط تحریر کئے ۔

معاویہ نے طلحہ کو درج ذیل خط لکھا ۔

"اما بعد تو اپنے چہرے کی خوبصورتی اور سخاوت وفصاحت کی وجہ سے قریش میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ تجھے اسلام میں سبقت کا شرف حاصل ہے ۔تو ان افراد میں شامل ہے جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی ۔ احد کی لڑائی میں تجھے خاص شرف وفضیلت حاصل ہوئی تھی ۔ اس وقت رعیت جو تجھے منصب عطا کرے تو وہ منصب قبول کرلے اور اس منصب کی قبولیت کی وجہ نے اللہ تجھ سے راضی ہوگا ۔ میں اپنی جانب سے معاملہ تیرے لئے مستحکم کروں گا ۔زبیر تم سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا ۔تم دونوں میں سے جو بھی امام بن جائے صحیح ہے ۔

دوسرے فرد کو اس کا ولی عہد بن جانا چاہئیے ۔"

معاویہ نے زبیر کو درج ذیل خط تحریر کیا ۔

"اما بعد زبیر ! تو رسول خدا کی پھوپھی کا فرزند ہے ۔رسول کریم کا صحابی ہے اور حضرت ابو بکر کا داماد ہے اور مسلمانوں کا شہسوار ہے ۔

تمہیں معلوم ہوا چاہئے کہ اس وقت رعیت متفرق بھیڑوں کی مانند ہوچکی ہے اس کا کوئی چرواہا موجود نہیں ہے ،تمہیں چاہیئے کہ لوگوں کی جانیں بچاؤ۔

۲۰۱

میں اپنی طرف سے معاملہ خلافت کو تیرے اور تیرے ساتھی کے لئے مستحکم کرنا چاہتا ہوں ۔تم میں سے ایک امیر بن جائے اور دوسرا وزیر بن جائے ۔"

اس کے بعد معاویہ نے مروان بن الحکم کو درج ذیل خط تحریر کیا :-

"مجھے تمہارا خط موصول ہوچکا کہے ۔تمہارے خط کی وجہ سے امیر المومنین کے حالات کی اطلاع ملی ہے ۔جب تمہیں یہ خط پہنچے تو تم چیتے کی سی پھرتی پیدا کرنا ۔دھوکے سے شکار پھانسنا اور لومڑی کی طرح محتاط ہوجانا اور بچ بچ کرراہ چلتے رہنا اور ان حالات میں اپنے آپ کو اس طرح سے چھپانا جس طرح سے خار پشت کسی کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرکے اپنا سرچھپا لیتا ہے ۔ اس وقت اپنے آپ کو یوں حقیر وبو سیدہ قراردے دو جس طرح وہ شخص اپنے آپ کو حقیر بنا لیتا ہے جو قوم کی امداد سے مایوس ہوچکا ہوتا ہے ۔ تم حجاز چھوڑ کر شام چلے آؤ ۔"

معاویہ نے سعید بن العاص کو درج ذیل خط لکھا ۔:-

" بنی امیہ ! تمہاری ذلت وخواری کے دن آگئے ہیں ۔ تمہیں معمولی رزق کے حصول کے لئے دور دراز کی مسافت طے کرنی ہوگی ۔ تمہارے واقف بھی تمہارے لئے ان جان بن جائیں گے ۔ تم سے تعلق رکھنے والے بھی تم سے جدا ہوجائیں گے ۔میں اپنی آنکھوں سے بنی امیہ کا یہ مستقبل دیکھ رہا ہوں کہ وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں سر چھپاتے پھر رہے ہوں گے ۔تم لوگوں کو اپنی معاش کی فکر پڑجائے گی۔

امیر المومنین پر لوگ تمہاری وجہ سے ہی ناراض ہوئے تھے اور تمہاری وجہ سے ہی وہ قتل ہوئے ہیں ۔ اب تم نے اس کی مدد سے خاموشی کیوں اختیار کرلی ہے اور اس کے خون کے انتقام میں سستی کیوں روا رکھی ہے ؟

تم لوگ تو مقتول کے قریبی رشتہ دار ہو اور تم ہی اس کے خون کے وارث ہو ۔جب کہ تم نے معمولی متاع دنیا میں اپنے آپ کو مشغول کردیا ہے ۔

۲۰۲

وہ تمام مال ومتاع جو تم نے امیر المومنین کی وساطت سے حاصل کیا تھا ۔ عنقریب تم سے چھن جائے گا ۔

علاوہ ازیں معاویہ نے عبداللہ بن عامر کو درج ذیل خط تحریر کیا :-

"بنی امیہ ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جلاوطن ہوکر اونٹوں کی پشت پر سوار ہو ۔ فساد پھیلنے سے پہلے تم مخالفین پر حملہ کردو۔

احتیاط کو اپنی سب سے بڑی ضرورت قرار دو اور ترغیب کے ہتھیار کو تیز کرو اور کانے مخالفین سے اپنی آنکھیں علیحدہ رکھو ۔جھگڑالو افراد سے کنارہ کشی کرو ۔دور رہنے والوں پر شفقت کرو ۔اپنے ساتھیوں کے حوصلوں کو بلند کرو"۔

ولید بن عقبہ کویہ خط لکھا گیا :-

"اگر اقتدار تمہارے مخالفین کے ہاتھ میں چلا گیا تو تم شتر مرغ کی طرح ریت کے ٹیلوں میں سر چھپاتے پھروگے ۔ تمہیں گدلا پانی پینا پڑے گا اور خوف کا لباس زیب تن کرنا ہوگا ۔"

یعلی بن امیہ کو درج ذیل خط لکھا گیا :-

"مقتول خلیفہ پر جتنے الزامات عائد کئے گئے ہیں ان میں سر فہرست الزام یہی تھا کہ اس نے تجھے یمن کا حاکم بنایا تھا اور اتنے طویل عرصہ تک حکومت پر فائز رکھا تھا ۔ تجھ جیسے افراد کی وجہ سے لوگ خلیفہ پر ناراض ہوئے ۔انہیں قتل کردیا گیا ۔جب کہ وہ روزہ دار تھے اور قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے ۔

تو جانتا ہے کہ مقتول خلیفہ کی بیعت کا قلادہ ہماری گردنوں میں پڑا ہوا ہے اور ان کا انتقام لینا ہمارا فریضہ ہے ۔ تو عراق میں داخل ہونے کی تیاری کر۔

میں نے شام میں اپنی حکومت مستحکم کرلی ہے تجھے شام سے بے فکر ہوجانا چاہئیے اور میں نے طلحہ بن عبیداللہ کو خط لکھا ہے کہ وہ مکہ میں تجھ سے ملاقات کرے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں اپنی دعوت کے اظہار اور خون ناحق کے انتقام کے لئے

۲۰۳

کوئی مناسب منصوبہ بندی کرو۔میں نے عبداللہ بن عامر کو بھی لکھ دیا ہے کہ وہ تمہارے لئے عراق کی زمین کو ہموار کرے ۔علاوہ ازیں تجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ لوگ تجھ سے تیرا تمام مال عنقریب اگلوالیں گے ۔"

مروان نے معاویہ کے خط کے جواب میں تحریر کیا :-

"قوم کے محافظ عزتوں کے نگہبان معاویہ کو معلوم ہو کہ میں اپنی نیت کی درستگی اورعزم وارادہ کی پختگی اور رشتوں کی تقدیس پر قائم ہوں ۔ تمہاری طرح میرا خون بھی جوش مار رہا ہے ۔ لیکن میں کسی قول وفعل میں تم پر سبقت نہیں کرسکتا ۔

تو فرزند حرب ،انتقام لینے والا اور خود دار شخص ہے اور میں اس وقت اس گرگٹ کی طرح ہر وقت بھیس بدل رہا ہوں جو سخت گرمی میں تڑپ رہا ہو اور بڑی گہری نگاہوں سے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہوں ۔میری حالت اس وقت اس درندے کی سی ہے جو شکاری کے جال سے کسی طرح بچ گیا ہو اور اپنی ہی آواز سے خوف زدہ ہو ۔

میں تمہارے عزم وارادہ کامنتظر ہوں اور تمہارے احکام کے لئے گوش برآواز ہوں ۔ میں ہر حالت میں تمہارے حکم کی تعمیل کرنا چاہتا ہوں "۔

عبداللہ بن عامر نے معاویہ کے خط کے جواب میں تحریر کیا :-

"بلا شبہ امیر المومنین ہم پر سایہ کرنے والے پر کی طرح اور چھوٹے بچے اس کی پناہ لیا کرتے تھے ۔ لیکن افسوس ہے جب دشمنوں نے اس پناہ گاہ پر تیر چلائے تو ہم بھاگے ہوئے شتر مرغ کی طرح ان سے علیحدہ ہوگئے ۔میں تمہیں اس حقیقت سے باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ اس تحریک میں دس میں سے نو افراد آپ کے ہم نوا ہیں اور ایک آپ کا مخالف ہے ۔

خدا کی قسم ! ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے اور تو " حرب " کا فرزند ہے ۔ تو جنگوں کا جواں مرد ہے ۔بنی عبد شمس کی عظمت کا تو نگراں ہے ۔

۲۰۴

اس وقت تمام تر تحریک تیری ذات سے ہی وابستہ ہے اور قبیلہ کو عزت دینے والا تو ہے اور عثمان کے بعد بنی امیہ کی امیدیں تجھ سے ہی وابستہ ہیں ۔ میں تمہارے حکم کا منتظر رہوں گا ۔"

ولید بن عقبہ نے معاویہ کو تحریر کیا :-

" تو عقل کے اعتبار سے قریش کا شیر ہے ۔فہم وفراست میں تو سب سے ممتاز ہے اور رائے کے لحاظ سے تو سب سے پختہ کار ہے ۔ تیرے پاس حسن سیرت کی دولت ہے اور تو ہی حکومت کی لیاقت رکھتا ہے ۔کیونکہ توجس بھی گھاٹ پر اترتا ہے تو دانش مندی سے اتر تا ہے اورجب تو کوئی گھاٹ چھوڑتا ہے تو علم وبصیرت سے چھوڑتا ہے ۔

نرمی کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔عار نقص ہے ۔۔۔۔۔کمزوری ذلت ہے ۔میں نے اپنے نفس کو موت کے لئے آمادہ کرلیا ہے اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر قابو کیا ہوا ہے جس طرح سے اونٹ کو باندھ دیا جاتا ہے ۔اب میں یا تو عثمان کی طرح قتل ہوجاؤں گا یا اس کے قاتل کو قتل کروں گا ۔

اس کے ساتھ ساتھ میرا عمل آپ کی رائے کے تابع ہوگا ۔کیونکہ ہم آپ کے ساتھ وابستہ ہیں اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ۔"

یعلی بن امیہ نے اپنے خط میں لکھا :-

"ہم گروہ بنی امیہ اس پتھر کی طرح ہیں جو گارے کے بغیر اس دوسرے پر رکھا نہیں جاسکتا اور ہم تیغ بّراں ہیں ۔ مجھے وہ روئے جس کا میں بیٹا ہوں اگر میں عثمان کے انتقام کو فراموش کربیٹھوں ۔عثمان کے قتل کے بعد میں زندگی کو کڑوا محسوس کررہا ہوں ۔"

سعید بن العاص کا جواب مذکورہ خطوط سے مختلف تھا ۔(۱)

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔ جلد ہشتم ۔ص ۸۴

۲۰۵

فصل سوم

خلافت امیرالمومنین علیہ السلام

"الحمد الله علی احسانه لقد رجع الحق الی مکانه"

"اللہ کے احسان پر اسی کی حمد ہے ۔حق اپنے مقام پر واپس آگیا "

(الامام علی بن ابی طالب )

حضرت علی (ع) توفیق ایزدی سے مؤید تھے اور اس کے پورے خیر خواہ تھے ۔ انہوں نے ہر مصیبت پر صبر کیا اور اپنے حق کو تاراج ہوتا دیکھ کر بھی انہوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی سے کبھی منہ نہ موڑا ۔

انہوں نے اسلام کے وسیع مفاد کے لئے خلفائے ثلاثہ سے جنگ نہ کی ۔ بلکہ جہاں اسلامی مفادات کا سوال ہوتا تھا حضرت علی (ع) اپنے قیمتی مشوروں سے بھی انہیں نوازا کرتے تھے ۔

فطری تقاضا تھا کہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی (ع) اپنے آپ کو خلافت کے لئے پیش کرتے اور اس کے لئے ضروری گٹھ جوڑ کرتے ۔مگر حضرت علی اتنے عظیم انسان تھے کہ انہوں نے اس موقع پر بھی خلافت وحکومت کے حصول کے لئے کسی طرح کی کوئی تگ ودو نہ کی کہ جس وقت امت اسلامیہ نے آپ کو خلافت کے لئے مجبور کیا ۔تو گویا علی (ع) کو خلافت کی ضرورت نہ تھی بلکہ خلافت کو علی (ع) ک ضرورت تھی ۔

خلافت علی (ع) کی داستان طبری نے یوں بیان کی ہے :-

"جب حضرت عثمان قتل ہوئے تو مہاجرین وانصار جمع ہوئے ۔ ان میں طلحہ اور زبیر بھی موجود تھے ۔پھر تمام افراد حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔

۲۰۶

آپ نے فرمایا :-مجھے تمہاری حکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ تم لوگ جس بھی منتخب کروگے ۔میں اسے تسلیم کرلوں گا ۔

انہوں نے کہا :- ہم آپ کے علاوہ کسی اور کا انتخاب نہیں کریں گے ۔

حضرت علی (ع) نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ۔

بعد ازاں مہاجرین وانصار کئی مرتبہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور باربار خلافت سنبھالنے کی درخواست کی ۔

اٹھارہ ذی الحجہ کے دن حضرت علی (ع) بازار گئے تو لوگ آپ کے پیچھے لگ گئے اور خلافت سنبھالنے کی التجا کی ۔

حضرت علی (ع) اس سے بے نیاز ہوکر بنی عمرو بن مبذول کے باغ میں چلے گئے ۔اس باغ کے ارد گرد بہت بڑی دیوار تھی ۔حضرت علی (ع) نے ابی عمرہ بن عمر بن محصن کو حکم دیا کہ دروازہ بند کردو مگر تمام لوگ دروازے پر جمع ہوگئے اور دستک دینی شروع کی ۔

دروازہ کھلا تو مہاجرین وانصار کا مجمع اندر آیا ۔طلحہ وزبیر نے حضرت علی (ع) سے خلافت سنبھالنے کی پھر درخواست کی اور بیعت کیلئے ہاتھ بڑھانے کی التجا کی ۔

مہاجرین وانصار کے مسلسل اصرار پر آپ نے ہاتھ بڑھایا تو سب سے پہلے طلحہ نے بیعت کی اس کے بعد زبیر نے بیعت کی ۔

طلحہ کا ایک ہاتھ شل تھا اور جب وہ بیعت کر رہا تھا تو حبیب بن ذئیب نے کہا :- بیعت کی ابتداء مشلول ہاتھ سے ہوئی ہے(۱) ۔"

بیعت لینے کے بعد حضرت علی (ع) نے اپنے پہلے خطبہ میں اپنی حکومت کے خدوخال بیان کرتے فرمایا :-

اللہ تعالی نے ہدایت دینے والی کتاب نازل فرمائی ۔اس میں خیر وشر کا بیان موجود ہے ۔تم خیر کو اپناؤ اور شر کو چھوڑدو اور فرائض ادا کرو ۔

____________________

(۱):- تاریخ الامم والملوک۔جلد پنجم ۔ص ۱۵۲۔۱۵۳

۲۰۷

بندگان خدا! اللہ کے بندوں اور شہروں کیلئے اللہ سے ڈرو تم سے ان کے متعلق باز پرس کی جائیگی اور تم سے تمہارے جانوروں تک کے متعلق بھی پوچھا جائیگا(۱)

حضرت علی (ع) کا یہ خطبہ چند مختصر جملوں پر مشتمل ہے ۔ لیکن ان مختصر جملوں میں آپ نے رعایا کے تمام حقوق وفرائض بیان کردئیے ہیں ۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی (ع) اقتدار کے قطعی حریص نہ تھے انہوں نے بارحکومت اٹھانے سے کئی دفعہ معذرت کی اور جب لوگوں کا شدید اصرار ہوا تو فرمایا :-

"دعونی والتمسوا غیری فانّا مستقبلون امرا له وجوه والوان لاتقوم له القلوب ولا تشبت علیه العقول و انّ الافاق قد اغامت والمحجة قد کثرت واعلموا انی ان اجبتکم رکیت بکم ما اعلم ولم اصغر الی قول القائل وعتب العاتب

"مجھے چھوڑو میرے علاوہ کسی اور کو تلاش کرو کیونکہ ہمارے سامنے ایسا امر ہے جس کے بہت سے چہرے اور مختلف رنگ ہیں ۔ جن پر دل قائم نہ رہ سکیں گے اور عقل اس پر ثابت نہ رہ سکے گی اس وقت آفاق ابر آلود ہوچکے ہیں اور راستے کا نشان مٹ چکا ہے اور تمہیں یہ بھی جاننا چائیے اگر میں نے تمہاری دعوت کو قبول کرلیا تومیں تمہیں اپنے علم کے مطابق چلاؤں گا اور کسی گفتگو کرنے والے کی بات پر کان نہیں دھروں گا اور کسی ناراض ہونے والے کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاؤنگا ۔"(۲)

اس کے باوجود بھی لوگوں کا اصرار کم نہ ہوا تو حضرت علی نے اپنی دینی ذمہ داری کو قبول کرلیا اور درج ذیل جملے فرما کر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیکا کہ :- میں اپنے قول کا ضامن ہوں گا ۔جو عبرت آشنا ہو اسے تقوی شبہات میں نہیں پڑتےدیتا ۔یاد رکھو آج سے تمہاری آزمائش پھر اسی طرح شروع ہوگئی جس طرح اسلام کی ابتدائی تبلیغ کے وقت ہوئی تھی ۔

جناب رسول خدا(ص) کو مبعوث بہ رسالت بنانے والے کی قسم ! تم سے

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ص ۱۵۷

(۲):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البالاغہ ۔ جلد دوم ص ۱۷۰

۲۰۸

سخت امتحان لیا جائے گا اور تمہیں آزمائش کی چھلنی میں سے گزارا جائے گا اور قضا وقدر کا کوڑا تم پر مسلط ہوگا ۔یہاں تک کہ تمہارے اسفل ،اعلی بن جائیں گے اور تمہارے طبقہ کے اعلی افراد اسفل بن جائیں گے اور پیچھے رہ جانے والے آگے بڑھ جائیں گے اور آگے بڑھنے والے پیچھے ہوجائیں گے ۔(۱)

امام عالی مقام نے مذکورۃ الصدر جملے اس لئے فرمائے کیونکہ آپ کو علم تھا کہ لوگوں میں حق پرستی کا سابقہ جذبہ نہیں رہا ہے اور لوگ زرودولت کےپجاری بن چکے ہیں اور وہ آپ کی شرعی عدالت کے متحمل نہیں ہونگے اور شرعی عدالت کی وجہ سے ان کے مفادات ختم ہونگے تو وہ آپ کی مخالفت کریں گے مگر آپ کو اپنے "خط" سے ہٹا نہیں سکیں گے ۔

آپ نے لوگوں کے اصرار اور اپنے انکار کی تصویر کشی ان الفاظ سے کی ہے ۔" وبسطتم یدی ۔۔۔۔۔۔"یعنی تم نے میرے ہاتھ کو کھولا تومیں نے اپن ہاتھ سمیٹ لیا ، تم نے میرے ہاتھ کو پھیلانا چاہا تو میں نے اسے بند کرلیا ۔ پھر تم میرے پاس یوں کشاں کشاں چلے آئے جیسے پیاسے اونٹ پانی پینے کے دن اپنے گھاٹ پر جاتے ہیں ۔

تمہارے ازدحام کی وجہ سے میرا جوتا پھٹ گیا ،چادر گر گئی اور کمزور پامال ہوا ۔ "(۲)

اس مفہوم کو آپ نے دوسرے خطبہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا :-

"تمہارے ازدحام کی وجہ سے حسنین پامال ہوئے ۔میرےپہلو زخمی ہوئے اور تم بکریوں کے ریوڑ کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور جب میں نے منصب سنبھالا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور ایک گروہ حلقہ اطاعت سے نکل گیا اور ایک گروہ حق سے تجاوز کرگیا ۔"(۳)

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد اول ۔ص ۹۰

(۲):- ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۱۸۱

(۳):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد اول ص ۶۷

۲۰۹

فصل چہارم

ناکثین (بیعت شکن)

یہ حقیقت ہے ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے کہ ام المومنین عائشہ اور طلحہ اور زبیر نے لوگوں کو حضرت عثمان کی مخالفت پر برانگیختہ کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے جو کہ حضرت عثمان کے قتل پر منتج ہوئے تھے ۔

ان مخالفین میں زبیر بن عوام سب سے پیش پیش تھے اور طلحہ بن عبید اللہ اول الذکر کی بہ نسبت کچھ کم مخالف تھے ۔

حضرت عثمان نے بھی ایک دفعہ طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا :-ویلی من طلحه ! اعطیته کذا ذهبا وهو یروم اللهم لا تمتعه به ولقه عواقب بغیه "

مجھے طلحہ پر سخت افسوس ہے میں نے اسے اتنا سونا دیا تھا اور وہ آج مجھے قتل کرنا چاہتا ہے پروردگا ر ! اسے دولت سے لطف اندوز نہ کرنا اور اسے بغاوت کے انجام بد تک پہنچا نا ۔ "(۱) ۔

حضرت عثمان کے قتل کے بعد مذکورہ تینوں افراد نے خون بدلہ کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ صرف اس لئے تھا کہ لوگوں کو مغالطہ میں مبتلا کیا جائے ورنہ حضرت عثمان کے قتل کے محرک یہ خود ہی تھے ۔

جن دنوں حضرت عثمان اپنے گھر میں محصور تھے ، حضرت علی نے طلحہ سے کہا تھا : تجھے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ ان بلوائیوں کو عثمان سے ہٹاؤ ۔یہ سن کر طلحہ نے کہا ! خدا کی قسم میں اس وقت تک ایسا نہیں کروں گا جب تک بنی امیہ امت اسلامیہ کا لوٹا ہوا مال واپس نہ کردیں ۔

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین ۔الفنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۸

۲۱۰

طبری لکھتے ہیں : حضرت عثمان نے طلحہ پچاس ہزار درہم کا قرض دیا تھا ۔ ایک دفعہ عثمان مسجد جارہے تھے ۔ راستے میں طلحہ سے ملاقات ہوئی تو طلحہ نے کہا ۔ میں نے قرض کی رقم اکٹھی کرلی ہے آپ جب بھی چاہیں مجھ سے لے لیں ۔حضرت عثمان نے کہا ۔ابو صحرا میں نے وہ رقم تمہیں معاف کردی ۔ایام محاصرہ میں طلحہ کے کردار کو دیکھ کر حضرت عثمان کہا کرتے تھے ۔ اس نے مجھے وہ جزا دی جو چور کسی شخص کو دیا کرتے ہیں ۔

مدائنی "قتل عثمان " میں تحریر کرتے ہیں : طلحہ نے حضرت عثمان کی لاش کو تین دن تک دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور جب حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم ان کی لاش کو اٹھا کر جارہے تھے تو طلحہ نے راستے میں ایسے افراد کھڑے کر رکھے تھے جنہوں نے ان کی لاش پر پتھر پھینکے ۔"(۱)

ڈاکٹر طہ حسین رقم طراز ہیں ۔

طلحہ کی بلوائیوں سے ہمدردیاں پوشیدہ نہ تھیں اور انہیں برانگیختہ کرنے میں بھی ان کی کاوشیں شامل تھیں ۔اور حضرت عثمان طلحہ کے اس طرز عمل کی خلوت وجلوت میں شکایت کیا کرتے تھے ۔

ثقہ راوۃ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت علی سے درخواست کی کہ وہ ان بلوائیوں کو اسی طرح سے واپس بھجوائیں ۔

حضرت علی طلحہ کے پاس گئے تو انہوں نے بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت کو طلحہ کے پاس دیکھا ۔حضرت علی نے طلحہ سے فرمایا کہ تم انہیں واپس بھیج دو ۔ لیکن طلحہ نے انہیں واپس بھیجنے سے انکار کردیا تھا ۔(۲)

قتل عثمان میں حضرت عائشہ کا کردار تو بالکل اظہر من الشمس ہے

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ص ۵-۶ طبع مصر

(۲):- الفتنۃ الکبری ۔ علی وبنوہ ص ۸

۲۱۱

حضرت عائشہ ہی وہ خاتون تھیں جنہوں نے کئی دفعہ رسول خدا (ص) کی قمیص دکھا کر حضرت عثمان کو کہا تھا کہ : رسول خدا کی ابھی قمیص بھی بو سیدہ نہیں ہوئی مگر تم نے ان کی سنت کو ترک کر دیا ۔

"اور کئی مرتبہ پردہ کے پیچھے سے کھڑے ہوکر انہوں نے فرمایا تھا ۔ "اقتلوا نعثلا " تم نعثل کو قتل کرو"۔

امّ المومنین کے متعلق یہ بلکل درست ہوگا کہ آپ حضرت عثمان کی سب سے بڑی مخالف تھیں ۔ سابقہ صفحات میں آپ یہ روایت پڑھ چکے ہوں گے کہ جب مکہ میں کسی نے حضرت عائشہ تک ایک افواہ پہنچائی تھی کہ حضرت عثمان نے بلوائیوں کو قتل کردیا ہے اور اب شورش ختم ہوگئی ہے ، تویہ سن کر بی بی نے سخت الفاظ میں اپنے طرز عمل کا اظہار فرمایا تھا :" یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حق مانگنے والوں کو قتل کیاجائے اور ستم رسیدہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے تلوار کے گھاٹ اتارا جائے ۔"

او رحضرت علی کے تخت نشین ہوتے ہی حضرت عائشہ خون عثمان کی دعودیدار بن کر کھڑی ہوگئیں اور طلحہ وزبیر کے کہنے بصرہ کی تیاریوں میں مشغول ہوگئیں ۔اسی اثناء میں سعید بن العاص ام المومنین کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ آپ کیا چاہتی ہیں ؟ بی بی نے کہا : میں بصرہ جانا چاہتی ہوں سعید نے پھر پوچھا ۔آپ وہاں کیوں جانا چاہتی ہیں ؟ بی بی نے فرمایا :- عثمان کے خون کے مطالبہ کے لئے جارہی ہوں ۔

یہ سن کر سعید بن العاص نے کہا : ام المومنین ! عثمان کے قاتل تو آپ کے ساتھ ہیں ۔(۱)

تاریخی حقائق کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں جنگ جمل کے محرکین ہی

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔ جلد سوم ۔ص ۴۲۷

۲۱۲

حضرت عثمان کے سب سے بڑے مخالف تھے ۔ اور حضرت عثمان کے خون کے چھینٹیں ان کے دامن پر لگے ہوئے تھے ۔ اور اس وقت مسلمانوں کی اکثریت بھی بخوبی جانتی تھی کہ قاتلین عثمان کون ہیں ؟

اس تاریخی حقیقت کے ادراک کے بعد ایک دل چسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنگ جمل کے "ہیرہ"ہی دراصل قاتلین عثمان تھے ۔ تو پھر انہوں نے خون عثمان کا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ اور لوگوں کو علی (ع) کی مخالفت پر کمر بستہ کیوں کیا ؟

اور کیا اس وقت کچھ ایسے مخفی عوامل تھے جن کی وجہ سے قمیص عثمان کو بہانہ بنا کر حکومت وقت کی مخالفت کی گئی ؟

اور پھر طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کیوں کی ؟

اور اگر خون عثمان کے مطالبہ میں کوئی وزن تھا تو کیا اس کا طریقہ یہی تھا کہ حکومت کے خلاف بغاوت کردی جائے اور کیا حضرت عثمان اس دنیا سے "لاولد" ہوکر گئے تھے جب کہ ان کا بیٹا عمر موجود تھا ؟

ام المو منین اور طلحہ وزبیر کو قصاص عثمان کا اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہواتھا ؟

قصاص عثمان کے لئے بصرہ کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟ اور بصرہ کی بجائے مصر کو اس "کارخیر " کے لئے منتخب کیوں نہ کیا گیا جب کہ بلوائیوں کی اکثریت کا تعلق بھی مصر سے تھا ؟

۲۱۳

عائشہ کو علی سے پرانی عداوت تھی

تاریخ کے قارئین سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ حضرت عائشہ جناب علی سے حیات رسول (ص) میں ہی حسد کیا کرتی تھیں اور حضرت علی کی مخالفت ان کے رگ وریشہ میں سمائی ہوئی تھی ۔ام المومنین کے حسد کی دو وجوہات تھیں :

۱:- غزوہ بنی مصطلق کے وقت حضرت عائشہ پر جو تہمت لگی تھی ۔اس میں حضرت علی نے بی بی صاحبہ کے حامی کر کردار ادا نہیں کیا تھا ۔

۲:- بی بی عائشہ اپن بانجھ پن کی وجہ سے حضرت علی سے حسد کیا کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ رسالت مآب کی اولاد حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بطن سے جاری ہوئی تھی۔ جب کہ حضرت عائشہ کی گود خالی تھی ۔ اسی لئے بی بی عائشہ وقتا فوقتا رسول خدا (ص) کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ کی بھی مذمت کرنے سے باز نہیں رہتی تھیں ۔اور کئی دفعہ ام المومنین نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سامنے بھی ان کی مرحومہ والدہ کا شکوہ کرکے ان کے دل کو زخمی کیا تھا ۔

واقعہ افک کی تفصیل ام المومنین نے اس طرح بیان کی ہے :- رسول خدا (ص) جب سفر کرتے تو اپنی ازواج میں قرعہ اندازی کرتے تھے ۔جس کا قرعہ نکلتا تھا ۔ آپ اسے اپنے ہمراہ لے جاتے تھے ۔جب بنی مصطلق کا غزوہ ہوا تو قرعہ میں میرا نام نکلا ۔رسول خدا مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔

واپسی پر مدینہ کے قریب رات کے وقت ایک منزل پر قیام کیا ۔میں حوائج ضروریہ کے لئے باہر گئی ۔اس وقت میری گردن میں ایک ہار تھا ۔جب میں نے حوائج سے فراغت حاصل کرلی تو میرا ہار گم ہوگیا ۔میں اسے ڈھونڈ نے لگ گئی ۔اور دوسری طرف سے کوچ کا نقارہ بج گیا ۔

لوگ جانے لگے مگر میں ہار ڈھونڈتی رہی ۔ہار تو آخر کا مجھے مل گیا لیکن

۲۱۴

جب میں پڑاؤ پر آئی تو وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا میں چادر اوڑھ کر لیٹ گئی ۔

میں لیٹی ہوئی تھی کہ صفوان بن معطل سلمی جو کسی کا م کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا وہ آیا ۔جب اس نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا کہ کیونکہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا ۔

وہ اپنے اونٹ کو میرے قریب لایا اور مجھے اونٹ پر سوار کیا اور اس نے مجھے تیزی سے اونٹ ہنکا کر مجھے مدینہ پہنچایا اور مدینہ میں میرے خلاف چہ مگوئیوں کیا ایک سلسلہ چل نکلا اور یہ سرگوشیاں رسول خدا (ص) اور میرے والدین کے کانوں تک بھی پہنچ گئیں ۔

اس کے بعد میں نے رسول خدا (ص) کے رویہ میں تبدیلی محسوس کی ۔ ان کی شفقت و مہربانی میں مجھے کمی نظر آئی ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ؟ میری طبیعت ناساز ہے ، وہاں میری والدہ میری تیمار داری کرنے کے لئے موجود ہے ۔

رسول خدا (ص) نے اجازت دی تو میں نے اپنے والدین کے گھر آگئی ۔

رسول خدا (ص) نے اس معاملہ کے لئے علی ابن ابی طالب کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا تو علی نے کہا ۔ یا رسول اللہ ! آپ کے لئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں اس کے بدلے آپ کسی اور عورت سے بھی شادی کرسکتے ہیں ۔ آپ کنیز سے سوال کریں وہ آپ کو بتا سکے گی ۔

رسول خدا نے بریرہ کو بلایا تو علی (ع) نے اسے سخت زد وکوب کیا اور کہا کہ رسول خدا (ص) کو سچی سچی بات بتا دے

خدا کی قسم ! رسول خدا ابھی اس مجلس سے اٹھنے نہ پائے تھے کہ ان پر وحی کی کیفیت طاری ہوگئی ۔کچھ دیر بعد آپ پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے اٹھے اور فرمایا عائشہ ! تمھیں مبارک ہو اللہ نے تمہاری برائت نازل کی ہے ۔ پھر مسطح

۲۱۵

بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حمنہ بن جحش اور ان کے ہم نوا افراد پر حد قذف جاری کی گئی ۔"(۱)

درج بالا روایت سے درج ذیل امور کا اثبات ہونا ہے :

۱:- غزوہ بنی مصطلق میں ام المومنین عائشہ رسول خدا کے ساتھ تھیں ۔

۲:- واپسی میں جب لشکر ایک پڑاؤ پر ٹھہر اہوا تھا ۔ وہ کسی کو بتائے بغیر حوائج ضروریہ کے لئے چلی گئیں ۔

۳:- فراغت حاصل کرنے کے بعد پھر پڑاؤ پر واپس تشریف لائی ہی تھیں کہ انہیں ہار کی گم شدگی کا احساس ہوا

۴:- ہار کو تلاش کرنے کے لئے دوبارہ اسی مقام تک گئیں ۔ہار مل گیا لیکن جب واپس آئیں تو پورا لشکر کوچ کرکے چلا گیا تھا ۔

۵:- مایوس ہو کر چادر اوڑھ کر آپ سوگئیں ۔حسن اتفاق سے صفوان اپنے ناقہ پر آرہا تھا اور اس نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ وہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے انہیں دیکھ چکا تھا ۔

۶:- صفوان کی نگاہ خوب کا م کرتی تھی کہ اس نے رات کی تاریکی میں چادر کے اندر سے ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا ۔

۷:- صفوان نے ام المومنین کو اپنی ناقہ پر بٹھا کر مدینہ لایا اور حسان بن ثابت اور چند دیگر افراد نے ام المومنین پہ تہمت لگائی ۔

۸:- جب رسول خدا نے علی (ع) سے مشورہ کیا تو انہوں نے ام المومنین کو طلاق دینے کا مشورہ دیا ۔

امام بخاری نے بھی اس روایت کو تفصیل سے لکھا ہے :- حضرت عائشہ کہتی ہیں :- جب رسو خدا درپیش سفر ہوتا تو آپ اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتے

____________________

(۱):-طبری ۔تاریخ الامم و الملوک ۔جلد سوم ۔ص ۷۶-۷۷

۲۱۶

تھے ۔جس بی بی کا قرعہ نکلتا وہ آپ کے ساتھ سفر میں جاتی تھی ۔

ایک جنگ میں قرعہ فال میرے نام کا نکلا ۔میں حضور کریم کے ساتھ روانہ ہوئی ۔رسول خدا جنگ سے فارغ ہو کر مدینہ کی طرف آرہے ھتے کہ مدینہ کے قریب ایک مقام پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ کیا ۔

جب کوچ کا اعلان ہوا تو میں حوائج ضروریہ کے لئے باہر چلی گئی اور میں لشکر سے دور چلی گئی ۔قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے محمل تک آئی میں نے محسوس کیا کہ میرا ہار ٹوٹ گئی اور اسے ڈھونڈنے میں مصروف رہی ۔

اس اثناء میں میرے محمل کو اٹھانے والے افراد آئے اور میرے محمل کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ یدا اور ان کا خیال تھا کہ میں اس میں موجود ہوں ۔

اس زمانے میں عورتین بڑی ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں ۔ ان پر گوشت نہیں چڑھا تھا کیونکہ بہت قلیل مقدار میں انہیں کھانا نصیب ہوتا تھا ۔ اس وجہ سے میرے محمل اٹھانے والوں کو بھی وہم نہ ہوا کہ میں اس میں موجود نہیں ہوں میں اس وقت کم سن لڑکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔لشکر کے جانے کے بعد مجھے ہار مل گیا ۔اور جب میں پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اورنہ ہی کوئی جواب دینے والا ۔میں اسی جگہ پر بیٹھ گئی ۔مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی ۔

کچھ دیر بعد صفوان بن معطل سلمی ثم الذکوانی لشکر کے پیچھے تا ۔جب میرے قریب آیا تو اس نے ایک سوئے ہوئے انسان کا ہیولا دیکھا تو مجھے پہچان لیا ۔ اس نے مجھے آیت حجاب کے نزول سے پہلے دیکھا ہوا تھا ۔ اس نے انّا للہ کی آیت زور سے پڑھی تو میں بیدار ہوگئی ۔اس نے اپنی ناقہ پہ مجھے سوار کیا اور مدینہ لے آیا "۔(۱)

____________________

(۱):- صحیح بخاری جلد سوم ۔ص ۱۵۴-۱۵۶

۲۱۷

بخاری کی روایت سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں ۔

۱:- ام المومنین کی روانگی کے وقت پڑاؤ سے نکلی تھیں اور اس وقت کوچ کا نقارہ بج چکا تھا ۔

۲:-باہر نکالتے وقت انہوں نے کسی کو بتایا بھی مناسب نہیں سمجھا تھا ۔

۳:-پورے لشکر میں سے کسی نے انہیں جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا ۔

۴:-محمل اٹھانے والوں کو بھی آپ کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ اس زمانے میں تمام عورتیں بشمول ام المومنین کمزور و نحیف ہوا کرتی تھیں ۔

۵:- قلت خوراک اور کم سنی کی وجہ سے بی بی صاحبہ کا وزن کچھ تھا ہی نہيں ۔

۶:- ام المومنین نے جب میدان خالی دیکھا تو وہیں چادر اوڑ کر سوگئیں ۔

۷:- صفوان لشکر کے پیچھے تھا وہ آیا تو اس نے نیند میں پڑے ہوئے انسان کو دور سے ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا ۔ کیونکہ وہ آیت حجاب سے پہلے آپ کو دیکھ چکا تھا ۔

۸:- صفوان نے ام المومنین کو ناقہ پہ بٹھایا اور مدینہ لے آیا ۔

حضرت ام المومنین اور مولا علی علیہ السلام کے درمیان حسد کی وجوہات میں واقعہ افک کا بھی دخل ہے اس کے علاوہ کچھ اور غیر ) indirect effects )

مستقیم عوامل بھی تھے جن کی وجہ سے ام المومنین ، بنت پیغمبر اور علی مرتضی سے حسد کیا کرتی تھیں ۔

جناب عائشہ کی خواہش رہتی تھی کہ وہ رسول خدا (ص) کے محبوب بن جائیں ۔ حضرت عائشہ میں سوکن پن کا حسد اتنا تھا کہ کئی دفعہ رسول خدا(ص) کے سامنے ان کی مرحوم بیوی جناب خدیجۃ الکبری پر بھی اعتراضات کئے تھے اور رسول خدا (ص) کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ خدیجہ ایک بڈھی عورت تھی جس کے دانت

۲۱۸

ٹوٹے ہوئے تھے ۔اور اللہ نے اسکے بدلہ میں آپ کو نواجوان باکرہ بیوی دی ہے ۔

رسول خدا(ص) نے یہ الفاظ سن کر جناب عائشہ کو ڈانٹ دیا تھا کہ حضرت خدیجہ نے اس وقت میری تصدیق کی جب کہ لوگوں نے میری تکذیب کی تھی ۔ اس نے اپنا تمام مال اس وقت میرے قدموں میں نچھاور کیا تھا ۔جب لوگوں نے مجھے محروم کیا تھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اللہ نے اسے میری نسل کی ماں بنایا اور یہ عظیم شرف اس کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔

جی ہاں ! حضرت عائشہ اور حفصہ یہ وہی بی بیاں ہیں جن کے متعلق سورۃ تحریم نازل ہوئی اور ان دونوں کو مخاطب کرکے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :ان تتوبا الی الله فقد صغت قلوبکما وان تظاهرا علیه فانّ الله هو مولاه وجبریل وصالح المومنین و الملائکة بعد ذالک ظهیرا " تم دونوں اگر توبہ کر لو تو بہتر کیونکہ تم دونوں کے دل حق سے منحرف ہوچکے ہیں اور اگر تم دونوں نبی کے خلاف چڑھائی کرو گی تو اللہ اس کا مدد گار ہے ۔ جبریل اور نیک مومن اس کے مدد گار ہیں اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کے پشت پناہ ہیں ۔

سورۃ تحریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو ازواج نے رسول خدا کے خلاف کوئی ایسا محاذ ضرور تیار کیا تھا کہ جس کے لئے اللہ نے اپنی اور جبریل اور صالح المومنین اور ملائکہ کی مدد کا ذکر کیا ہے ۔

اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کوئی محاذ نہیں تھا تو پھر اس سے پوچھنا چاہیئے کہ جب حالات بالکل اطمینان بخش تھے تو اللہ نے اتنے بڑے لشکر کا ذکر کیوں فرمایا اور ان دونوں بیویوں کو طلاق کی دھمکی کیوں دی اور ان کے دلوں کو حق سے منحرف کیوں قراردیا ؟

حضرت عائشہ کو اللہ تعالی نے اولاد سے محروم رکھا تھا ۔جب وہ حضرت سیدہ بنت رسول کو دیکھتی تھیں تو ان کے دل میں زنانہ حسد انگڑائیاں لیا کرتا تھا ۔

۲۱۹

طلحہ وزبیر کی مخالفت کی وجہ

طلحہ وزبیر کی مخالفت کی وجوہ بھی چشم تاریخ سے مخفی نہیں ہیں ۔طلحہ وزبیر دونوں خلافت کے امید وار تھے اور چند دن پہلے ہی حضرت عمر نے ان دونوں کو شوری میں شامل کیا تھا ۔ لیکن شوری کے ذریعہ سے انہیں خلافت نہیں ملی تھی اور حضرت عثمان خلیفہ عثمان خلیفہ بن گئے تھے ۔ ان دونوں نے حضرت عثمان کی خلامت کے اوائل میں ان سے خوب مفادات حاصل کئے ۔

اور جب ان دونوں نے دیکھا کہ اب ہوا کا رخ بدل چکا ہے تو انہوں نے بھی اپنا رخ ہوا کی جانب کرلیا ۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ اگر ہم نے حضرت عثمان کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو ان کے بعد خلافت ہمیں نصیب ہوگی ۔لیکن

اے بسا آرزو کہ خاک شد

حضرت عثمان کے قتل کے بعد انہیں کسی نے خلافت کے قابل نہ سمجھا ،خلافت کی مسند پہ حضرت علی فائز ہوگئے ۔

یہ دیکھ کر ان کے غصّہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر انہوں نے نے اپنی سابقہ روش اپنائی ۔حضرت علی سے کوفہ اور بصرہ کی حکومت کا مطالبہ کیا جسے حضرت علی نے مسترد کردیا ۔

علاوہ ازیں حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی خلفائے ثلاثہ سے بالکل جدا گانہ تھی ۔علی کسی کی شخصیت سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔اور مشہور شخصیات کو جاگیر یں دے کر اپنے ساتھ ملانے پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ جب کہ یہ دونوں بزرگوار بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنے کے عادی ہوچکے تھے ۔

عثمانی دور میں ان دونوں نے بیت المال سے جو حصہ لیا تھا ۔ اس کی

۲۲۰