گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے0%

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 90

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف: سید عابد حسین زیدی
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 90
مشاہدے: 50304
ڈاؤنلوڈ: 2923

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 90 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50304 / ڈاؤنلوڈ: 2923
سائز سائز سائز
گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف:
اردو

لئے آپ ان سے سب کچھ کروالیتی ہیں ۔

صبح سے رات مردوں کا مستقل کمانے کے لئے نکلے رہنا بھی مناسب نہںت بلکہ شوہر اور اولاد کو سمجھائیں کہ ہم صرف کمانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے ،کچھ وقت دین خدا کو بھی دو ،اس کے لئے بھی کچھ وقت نکا لو ،مسجدوں میں جاؤ ،علما کے دروس میں شرکت کرو ،تبلیغات کے سلسلے میں کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے بھی تعاون کرو ۔

اور خود آپ بھی نمازوں اور تلاوت اور تسبیحات کے لئے وقت نکالیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آپ کا کام ف‍قط کھانا پکانا ، اور گھر کی صفائی ہے ۔

انشا اللہ آپ کی اس طرح کی فکر ،دعاؤں اور اقدامات سے آپ خود آپ کا شوہر اور آپ کی اولاد نیک ہوجائے گی اور جہاں نیکیاں ہوں وہاں لڑائیاں جھگڑے اور فساد کی جگہ ہی کہاں ہوگی ؟

کیونکہ اگر آپ نیکو کارنہ بنیں اولاد و شوہر کا دین کے سلسلے میں خیال نہ کیا ، بقدر ضرورت علم دین حاصل نہ کیا تویاد رکھئیے ۔

----- ایسی جاہل ماؤں کی گود میں ایسے پھول نہیں کھلاتے ۔

----- فضول خرچ ٹہنیوں پر ایسے قیمتی پرندے نہیں بیٹھا کرتے ۔

----- ایسے نافرمان اور خود غرض گلدستوں پر امام خمینی جیسے گلاب نہیں کھلا کرتے ۔

----- دوسروں کے حقوق سے لا پرواہی کرنے والیوں کے ہاتھوں میں آقائے باقر الصدر جیسے نہیں سویا کرتے ۔

۴۱

----- خدا کی نعمتوں کے ناقد رداں ٹیلوں اور چوٹیوں پر آمنہ بنت الھدی جیسی ہستیوں کا رنگ نہیں بھرا جاسکتا ۔

----- ایسی اداس شاہراہوں اور بنجر علاقوں میں شہید اول اور شہید ثانی جیسی شخصیات نہیں آیا کرتیں ۔

----- نمازوں کو چھوڑنے اور بے پردہ پھرنے والیوں اور اپنے جسم کے اعضاء کی نمائش کرنے والیوں کے سینے سے حافظ محمد طباطبائی اور صادق وزیری جیسے دودھ نہیں پیا کرتے ۔

----- جو عالم کے انسانوں کو لچکنے اور بل کھانے کے انداز سکھاتیں ان کی آغوش ایسی ذات گرامی کے وطن نہیں بنا کرتے جن کا ذرّہ ذرّہ عظمت اور تقدس کا حامل ہوتاہے ۔جن کے ہاتھوں زمانہ نئی انگڑائی لیتا ہے ۔

چھینی ہوائے غرب نے فیشن کے نام پر

سیدانیوں کے سر سےردا یا علی مدد

----- جو شیعیت کی زندگی کے ہر شعبہ میں دوبارہ دین کی تازگی وشادابی کی بہار لانے کا سبب بنتے ہیں ، عالم ا سلام کی پیشانی پر تبسم کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔

----- عالم اسلام کی عورتیں اپنے نونہالوں کے نام ان کے نام پر رکھنے سے فخر محسوس کرتی ہیں ۔حوّا کی بیٹیاں بارگاہ الہی میں دعا کرتی ہیں الہی مجھے لخت جگر اور نور نظر ملے تو اس کا نام مرتضی (مطہری ) رکھوں گی صادق(وزیری)

۴۲

رکھوں گی ،زینب وکلثوم رکھوں گی ۔

محترمہ مومنہ! حوّا کی بیٹی ، ہر نئے نونہاں کی آغوش ۔آپ کی شاخ ۔آپ کی شاخ پر بھی ہم کسی ایسے ہی پھول کے منتظر ہیں ۔ آپ کی ہستی پر ہم کسی ایسی ہی چہچہاتی ہوئی مینا کے منتظر ہیں ۔ جس باغ کو رسول وآئمہ اور ان کی اولادوں نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا آج اس باغ کے پھول مرجھانے کو ہیں ، اس کی گھاس کو کوئی خون تو کیا اپنے پسینے سے بھی سیراب کرنے والا نہیں ۔

ہے آپ میں سے کوئی جو اس باغ کو سیراب کرے ؟

٭ جب کوئی بندہ علم حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو خدائے بزرگ وبرتر عرش سے ندا فرماتا ہے کہ مرحبا! اے میرے بندے کیا تجھے معلوم ہے کہ تو کس بلندی کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔تو نے کس منزلت کا ارادہ کیا ہے کیا تم مقرب فرشتوں کا طلبگار ہے کہ تو ان کا ہمسر بن جائے ۔ہاں میں تجھے تیری مراد تک پہنچادوں گا ۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

٭ حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ نیکی کی تعریف کیا ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایا نیکی یہ نہیں ہے کہ تیرا مال کثیر ہو اور اولاد زیادہ ہو بلکہ نیکی یہ ہے کہ تو اپنے علم میں اضافہ کرے اور تیرا حلم (بردباری) عظیم ہو

۴۳

شوہر کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ نمبر ۱

--{یہ بات طے کرلیں کہ بیوی ،ماں اور بہنوں کی ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں سنیں گے }--

بیوی سے سنی ہوئی بات سے والدہ یا چھوٹے بھائی بہنوں کو کچھ نہ کہئے اور والدہ اور بہنوں کی شکایت سن کر بلا تحقیق بیوی کو کچھ نہ کہئے ۔

خدا را بیوی سے سنی ہوئی باتوں کی وجہ سے اپنی والدہ کو کبھی کچھ نہ کہئے گا والدہ کی آہ نکلنے سے دنیا وآخرت دونوں برباد ہونے کا اندیشہ ہے ۔ والدہ کی واقعی غلطی سامنے آبھی جائے توپیار ومحبت سے سمجھانے کی کوشش کریں یا بڑی بہن کے ذریعے والدہ کو سمجھائیں ۔بیوی کے ذریعے والدہ کو سمجھائیں ۔بیوی کے ذریعے والدہ کو تحفے دلوائیں ۔

حدیث میں بھی ہے کہ "تھادو اتحابوا"( ہدیہ لیا دیا کرو اس سے آپس میں محبت بڑھے گی )۔

آپ کے سامنے بیوی کی کتنی بڑی غلطی بھی بیان کی جائے یا والدہ ،بہنیں یا بھابیاں آپ کی شکایت لگائیں تو اس وقت قصدا کوئی عملی قدم نہ

۴۴

اٹھائیں اس وقت بیوی کو کچھ نہ کہیں ،کم از کم اتنا صبر کرلیں جس میں دو نمازوں کا وقت گزر جائے یعنی اگر کوئی بات ظہرین کے وقت سننے میں آتی ہے تو مغربین کے بعد سمجھائیں او راگر مغرب کے وقت سننے میں آتی ہے تو فجر کے بعد سمجھائیں ۔

اس تدبیر پر عمل کرنے سے انشا ءاللہ تعالی آپ کے گھر میں بہت زیادہ نمایاں تبدیلی رونما ہوگی ۔آپ کی بات کی قدر بھی ہوگی اور آپ کی بردباری اور عقلمندی کا سکہ جمے گا اور بیوی آپ کی بات پر عمل بھی کرے گی ۔

اگر سمجھانا بھی ہوتو کوشش کریں کہ براہ راست نہ سمجھائیں ہر گز فورا جا کر بیوی سےیہ نہ کہیں کہ تم نے کیوں کہا ؟ بہن یہ کہہ رہی تھیں ۔تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا ؟وغیرہ غیرہ ۔بلکہ یادرکھئیے کہ رسول اسلام کے سمجھانے کی عادت یہ تھی کہ جب کوئی عیب کسی شخص میں دیکھتے تو اس کا نام نہ لیتے بلکہ یوں فرماتے کہ (ما بال الناس ) لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں"۔

تو ہمیں بھی سیرت رسول پر عمل کرتے ہوئے عمومی بات کہنا چاہئے مثلا کہیں ،دیکھو بہت سی عورتوں کویہ بری عادت ہوتی ہے کہ وہ ادھر کی بات ادھر لگاتی ہیں یہ بہت نامناسب بات ہے کہ مجھے ایسا کرنے والیوں سے بہت چڑ ہوتی ہے لہذا تم اس سے ذرا بچنا ۔

ارے بھئی کوئی اپنے گھر کی بات دوسروں کو بتاتا ہے ۔یہ تو حد درجہ حماقت ہے تم کبھی ایسا نہ کرنا ۔۔۔ بلکہ مجھے تو تم پر پورا عتماد ہے کہ تم تو کبھی

۴۵

ایسا نہ کرتی ہوگی ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔

ایک اہم بات اور یہ ہے کہ کبھی دوسروں کے سامنے بیوی ،ماں یا بہنوں کو نہ سمجھائیں نہ دوسروں کےسامنے ان کی توہین کریں ۔اور اکیلے سمجھاتے ہوئے بھی اس کو دوسری عورتوں کی مثالیں دے کر سمجھائیں ۔کہ دیکھو فلاں بھابی ۔۔۔ سب سے مل جل کر رہتی ہے ، میری بہن کو دیکھا بچوں کی کیسی اچھی تربیت کررہی ہے اور تم ؟۔۔۔

۔۔۔ اس طرح کہنے سے اصلاح نہیں ہوا کرتی ۔اصلاح کے لئے محبت ،اپنا ئیت ،نصیحت ، برداشت اور ہمدردی اور نرم کالامی ہونی چاہیے ،تلخ کلامی اور سخت بیانی سے وقت اصلاح اتنا ہی دور ہونا چاہیے جتنا مشرق ومغرب میں فاصلہ ہے ۔

نسخہ نمبر ۲

--{بیوی کے سلسلے مین اپنے معیار کونیچے لائیے}--

آپ کی اکثر سوچ یہ ہوتی ہے کہ بیوی میرے معیار پر پوری نہیں اتری ۔تو قصور اس غریب کانہیں بلکہ جناب عالی کےبلندمعیار کا ہے اوراس کا علاج فقط یہ ہے کہ آپ اپنے کو ذرا نیچے کیجئے ۔

۴۶

آپ جب گھر آتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ اس نے آپ کا پر جوش اسقبال نہیں کیا ۔کیا آپ کو احساس ہے کہ وہ بیچاری گھر گر ہستی کے کاموں میں کتنا مصروف رہی ؟

ذرا ایک دن گھر کا مکمل چارج سنبھال کردیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ آپ کے تمام کام مشین کی طرح انجام دیتی ہے ۔

آپ کھانا پکانے کے لئے ایک خانساماں رکھیئے ،گھر کی صفائی کے لئے ایک ملازم ،کپڑے دھونے کے لئے ایک لانڈری ،اور بچوں کی نگہداشت کے لئے ایک ملازمہ اور گھر کی نگرانی کے لئے ایک چوکیدار ۔۔۔۔۔۔۔مقرر کیجئے ۔

ان تمام ملازمین کی فوج کے باوجود گھر کا نظم و نسق ایسا نہیں چلے گا جیسا کہ یہ مشین چلارہی ہے لیکن آپ کے ذہنی معیار میں اس کی ان خدمات کی کوئی قیمت نہیں

سالہا سال گزرنے کے باوجود آپ نے اپنے خود ساختہ معیار کی بلندیوں سے نیچے اتر کر بیوی کے پوشیدہ کمالات کو جن کو خدا نے حیا کی چادر سے ڈھانک رکھا ہے ،کبھی جھانکا ہی نہیں ۔

آپ کبھی اپنے عرش سے نیچے اتر تے تو اس فرشی مخلوق کو سمجھتے ۔

٭ علم کے ذریعے اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۴۷

نسخہ نمبر ۳

--{اخلاق میں بہترین اور اپنے گھر والوں کے حق میں نرم ترین بن جائیں }--

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں کہ : مومنین میں کامل ترین ایمان والا و ہ ہے جو اخلاق میں بہترین ہو اور اپنے گھر والوں کے حق میں نرم ترین ہو"-

نیکی اور بزرگی کا معیار یہ نہیں ہے کہ دفتروں میں ، دوستوں کے مجمع میں ، مجالس میں ،مدرسوں اور مساجد میں کون کیسا نظرآتا ہے بلکہ یہ کہ بیوی اور گھر والوں کے ساتھ نرم برتاؤ کس کا ہے ،گھر کے اندر صبر وتحمل کا ثبوت کون دیتا ہے ۔

جلوت میں نہیں خلوت میں کون کیسا ہے ؟

یہ مسکرانا ،ہنسنا ،بولنا اس کی کوتاہیوں پر صبر کرنا ، اس کی غلطیوں کو معاف کرنا ،غصّہ برداشت کرنا ، اس کی تکالیف وراحت کی باتیں سننا ،دلجوئی کی باتوں سے اس کے دل کو خوش رکھنا ،اس کو شرعی حجاب کے ساتھ پاکیزہ تفریح کے لئے لے جانا ،اس کو جیب خرچ اپنی وسعت کے اعتبار سے دے کراس کا حساب نہ لینا کہ جہاں چاہے وہ خرچ کرے ۔یہ تمام باتیں بھی عبادت میں شامل ہیں ۔

۴۸

بیوی کو تھوڑا بہت تو روٹھنے کاحق ہے آخر وہ آپ کے سوا کس پر ناز کرے ؟غور کیجئے جب یہ بچی تھی تو اس کا منہ بسور ا دیکھ کر ماں باپ سو کام چھوڑ کر اس کو اٹھاتے تھے جب یہ بڑی ہوگئی اور کبھی اس کی طبیعت بجھی بجھی لگی توقریبی سہیلیاں اس کے دل کا راز جان کر اس کو تسلی دیتی تھیں ۔

اب ۔۔۔ یہ آپ کے پاس سب رشتے ناتوں سے دور ہوکر آئی ہے اگر وہ کوئی بات منوائے ،یا اپنی طرف آپ کو متوجہ کرنے یا صرف اپنے وجود کی آپ کے قلب ونظر میں مزید اہمیت اجاگر کرنے کے لئے روٹھتی ہے تو آپ اس کا ہرگز برانہ مانیں ۔

آخر وہ کس کے سامنے یہ چھوٹا موٹا ناز نخرہ کرے ‏؟ گھر والوں کو تو دور چھوڑآئی ہے ۔۔۔گال تھپتھپانے والا باپ

بال سنوارے والی ماں

مہندی لگانے والی ہمجولیاں تو اب بہت دور ہیں تو اب وہ کس سے اپنی قیمت پوچھو ائے ؟ کس کے سامنے منہ بسورے کہ کوئی اس کومنائے ؟۔۔۔

اے شوہر محترم! اب آپ ہی اس کا سب کچھ ہیں ۔ آپ کامیاب ترین شوہر ہوں گے اگر آپ نے اپنی بیوی کے مزاج کو سمجھ لیا اور اس کے مزاج کے مطابق اس کو چلانا آگیا ۔

۴۹

نسخہ نمبر ۴

--{"گڑنہ دیں تو گڑجیسی بات تو کریں" }--

آپ اس آسان نسخہ کا تجربہ تو کرکے دیکھئے انشااللہ آپ کی تمام خانگی پریشانیاں کافور ہوجائیں گی ۔ بیوی آپ سے دلی محبت کرنے لگے گی بچے بھی آپ کے لہجے اور میٹھی زبان سے متاثر ہوکر باہر بھی یہ ہی زبان استعمال کریں گے ،کتنا ہی اہم معاملہ ہو کوشش کریں کہ آپ کا نرم لہجہ چھوٹنے نہ پائے ۔

بڑی سے بڑی تادیبی کاروائی بعض اوقات اتنی مفید ثابت نہیں ہوتی جتنی خوشگوار اور نرم لہجے میں سمجھادینے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

آج ہی سے آپ اپنا نرم بنا لیجئے ۔اپنی زبان میٹھی بنالیجئے ۔وقتا فوقتا دوستوں ،اٹھنے بیٹھنے والوں اور بیوی وگھر والوں کو کہہ دیجئے کہ اگر میرا لہجہ سخت یازبان دلخراش ہو تو مجھے بعد میں بتا دینا پھر ان کے بتانے کے بعد اپنی اصلاح کی کوشش کرتے رہئے ۔

اپنے گھر کے ایک فرد ،مسلم معاشرے کے ایک رکن اور خاندان اہل بیت سے تمسک کے دعوی کرنے والوں پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں اور اپنے ساتھیوں کے لئے اپنا لہجہ نہایت ہی پر سکون اور پر مسرت رکھیں ۔

۵۰

کوّا کس کی دولت چھینتا ہے ؟

کوئل کسی کو کیا دیتی ہے؟

صرف شیریں کلامی کے باعث سب کادل موہ لیتی ہے

نسخہ نمبر ۵

--{بیوی کے کاموں کی اکثر تعریف کیجئے }--

سچ پوچھئے تو کام کی زیادتی سے بیوی اتنا نہیں تھکتی جتنا حوصلہ شکنی سے تھکتی ہے ۔ اس کا سارا جوش وولولہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اوراعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور اس کی زندگی بے مصرف ،بے جان کولہو کی بیل کی طرح ہو کر رہ جاتی ہے ۔

جس کے دل میں ہی احساس ہو کہ بیوی کھانے پکانے کی جوخدمت انجام دے رہی ہے یہ اس کی شرعی ذمہ داری نہیں ہے ۔تو وہ اس کے کھانے پکانے اور گھر داری کی تعریف کرے گا ،اس کی ہمت بندھوائے گا اور اس کا حوصلہ بڑھائے گا ۔

لیکن جو شخص اپنی بیوی کو نوکرانی یا خادمہ سمجھتا ہو اس کو تو یہ کام ضرور انجام دینا ہیں ، کھانا پکانا اس کا فرض ہے ،اگر اچھا کھانا پکا رہی ہے تو اس پر اس کی

۵۱

تعریف کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ایسا شخص اس کی کبھی تعریف نہ کرے گا ،اچھا کھانا پکانے پر اور کسی معمولی کوتاہی پر ، نمک کی زیادتی یا چینی کی کمی پر گھر میں طوفان بد تمیزی برپا کرے گا اور لمبا چوڑا جھگرڑا شروع کردے گا ۔

یاد رکھئے ! یہ انسانی طبیعت ہے کہ اس کی اچھے کاموں کی حوصلہ ا‌فزائی کی جائے اور حوصلہ افزائی کی خواہش جب ہی زیادہ ابھرتی ہے جب کہ اس کی اعلانیہ حوصلہ شکنی ک جارہی ہو خصوصا دیوار انی ، جیٹھانی اور نندیں وغیرہ مسلسل اس کے کام میں رخنہ ڈال رہی ہوں اور ذرا ذرا سی بات پر اس کی پکڑ کی جاتی ہو ۔

یہ ایک ظلم کی کے مترادف ہے ، جس کام کی ستائش نہیں کی جاتی اور اس کو شاباش نہیں کہا جاتا یا ایک لفظ شکریہ کا ادا نہیں کیا جاتا اس کی دل شکنی کی جاتی ہے ،وہ اکثر ہمت چھوڑبیٹھتی ہے اور اس کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں ۔

آج ہی سے اپنا معمول بنا لیجئے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی مثلا چائے بنانے پر ، پانی کا گلاس دینے پر ، دل وزبان سے اس کا شکریہ ادا کریں ۔ پھر دیکھئے کہ بیوی کیسے آپ کے قدرداں بنتی ہے اور گھر میں ہی جنت کا نمونہ بن جائے گا ۔

٭ علم کے ذریعے اللہ کی مغفرت حاصل ہوتی ہے (حضرت علی علیہ السلام)

۵۲

نسخہ نمبر ۶

--{بیوی کو دوست سمجھیں نوکر نہیں }--

یہ بات یادرکھیں کہ بیوی کے برابر دنیا میں مرد کا کوئی کارآمد دوست نہیں ۔ آپ غور کریں کہ آپ اپنے دوستوں پر ویسا رعب جماسکتے ہیں جیسا نوکروں پر جمایا جاتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ ایسا کرکے تو دیکھیں ،سارے دوست آپ کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں گے ۔دوستوں کے ساتھ نوکروں جیسا برتاؤ کوئی عقلمند انسان نہیں کرسکتا ۔

پھر حیرت کی بات ہے کہ ایسا برتاؤ آپ اپنی بیوی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دوست نہیں ہوسکتا ۔تجربہ ہے کہ فلاں ومحبت میں سب دوست واحباب الگ ہوجاتے ہیں ، رشتہ دار بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں مگر بیوی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتے ہے ۔

اسی طرح بیماری میں جیسی راحت بیوی سے پہنچتی ہے ،کسی دوست سے تو کیا پہنچتی بعض اوقات اولاد سے بھی نہیں پہنچتی ۔لہذا ایسا رعب جمانا درست نہیں اگر آپ اپنی بیوی سے دوستوں جیسا سلوک روا کھیں گے تو کچھ ہی عرصہ میں آپ کو گھر میں ایک نمایاں خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوگا ۔

۵۳

نسخہ تمبر ۷

--{بیوی کی خدمات کا احساس کریں}--

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر عورت خود بھی بیمار پڑی ہو ، اٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو اور ایس حالت میں شوہر بھی بیمار پڑجائے تو عورت اپنی بیماری بھول جاتی ہے ۔ اب اپنا آرام ۔۔۔۔اپنی راحت ،اپنی بیماری چھوڑ کر شوہر کی تیمارداری میں مشغول ہوجاتی ہے ۔

یہ تو عام بات ہے کہ عورتیں خود کھانا سب سے آخر میں کھاتی ہیں ۔ پہلے مردوں کو کھلاتی ہیں اور اگر اس وقت اچانک کوئی مہمان آجائے تو اپنا کھانا بھی مہمان کے لئے بھیج دیں گی ۔اگر شوہرآدھی رات کو سفر سے واپس آجائے تویہ وفا شعار عورت اپنا آرام اور اپنی نیند قربان کرکے ، اس کی خدمت میں لگ جائے گی ۔ اے شوہر محتر ! بیوی تو آپ پر اپنا سب کچھ قربان کردے اور آپ اس سے بے نیاز رہیں ۔ اس نے تھوڑی سی زبان چلادی اورآپ کبدلہ لینے پر اتر آئے اور اس کی دلداری چھوڑدی ۔آپ کے لئے یہ طریقہ کسی بھی طرح مناسب نہیں بلکہ اس کی ہر وقت خدمات کے صلے میں آپ کو بیوی کی نامناسب باتوں کو برداشت کرنا ہوگا ۔

۵۴

نسخہ تمبر ۸

--{اگر بیوی کی یہ کوتاہیاں آپ کی بہن یا بیٹی میں ہوتیں ۔۔تو؟}--

ان کی شکا یتیں ان کے سسرال سے آتیں تو جو عذر ان کے لئے یا جو آپ ان کی صفائی میں کہتے وہ بیوی کے لئے کیوں نہیں سوچتے صرف اس لئے کہ وہ آپ کی بیوی ہے ؟ اور کسی دوسرے کی بیٹی یا بہن ہے ؟

اس کی کوتاہیوں کے لئے بھی تو آپ کو عذر پیش کرنے چاہئیں کہ ابھی نئی نئی آئی ہے اتنی جلدی سسرال کے رنگ میں کیسے رنگ جائے ،بھول چوک ہوہی جاتی ہے ،برداشت کرنا چاہئیے وغیرہ وغیرہ ۔

بہن اور بیٹی کو بھی چھوڑیں ۔ذرا سوچیں کہ آپ جو دنیا کی ساری خوبیاں اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کا کردار ساری کوتاہیوں سے مبرّا دیکھنا چاہتے ہیں ۔سوچیں کہ جس نے آپ کو بیٹی دی ہے ۔ اگر وہ بھی اور دنیا میں بسنے والے تمام باپ اپنے داماد کے لئے کوئی ایسا معیار ذہن میں مقرر کرلیتے ہیں کہ :

لڑکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیّد ہو۔

۵۵

تقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں مقدس اردبیلی جیسا ہو۔

دنیاوی تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم ڈاکٹر عبد القدیر جتنی ہو ۔

اخلاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ملامحسن فیض کاشانی کی طرح ہو۔

علم دین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اعتبار سے علامہ حلی جنتا علم رکھتا ہو ۔

دین ودنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اعتبار سے بو علی سینا جیسا ہو ۔

تو فرمائیے آپ محترم کس کے داماد بن سکتے تھے ؟ اگر لوگ اپنے بلند معیارات پر اپ کو پرکھنے لگیں اور جب آپ اس معیار پر پورا نہ اتریں تو وہ بات بات پر نکتہ چینی کرکے آپ کا جینا دوبھر کردیں تو آپ ان لوگوں کے متعلق کیا کہیں گے ؟۔۔۔۔۔۔اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑ تے ہیں ۔

شوہر محترم!

یہی کچھ آپ کو بیوی کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ہر عمل کو تنقیدی چشمہ لگا کر دیکھا جاتا ہے اور اچھائی میں کیڑے نکالے جاتے ہیں ۔اگر اس سے کوئی معمولی غلطی بھی سرزد ہوجائے تو گھر میں عدالت کا سا سماں ہوتا ہے ۔ ساس و سسر قاضی بن کر بیٹھ جاتے ہیں ، بھاوج اور بڑی نندیں وکیل بنتی ہیں اور گھر کی ماسی اور چھوٹی نندیں گواہ بن جاتی ہیں اور پھر اس کی معمولی غلطی کو ناقابل معافی جرم قراردے کر سینکڑوں طعنے اور دل چھلنی کرنے والےجملے سزا کے طور پر کہے جاتے ہیں اور اس پر بس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے ساتھ اس معصوم کے ماں باپ ،بہن بھائی اس کے پورے خاندان کو بھی نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔

۵۶

اب یہی تمام باتیں آپ کی بہن یا بیٹی کے ساتھ ہوتیں تو آپ ان شکوہ شکایات کرنے والوں کے متعلق کیارائے قائم کرتے ؟

نسخہ نمبر ۹

--{اپنے غصّہ کو برداشت کرنا سیکھئے }--

آج ہی سے فیصلہ کرلیں کہ میں دفتر ،دکان ،ملازمت وکاربار اور باہر والی زندگی کے مسئلے گھر سے باہر چھوڑ کرآؤں گا ۔ اگر کبھی کسی بات پر غصّہ آبھی جائے تو فورا خاموش ہوجائیں ۔

رسول اسلام(ص) فرماتے ہیں :

" جب تم میں سے کسی کو غصّہ آجائے تو وہ فورا خاموش ہو جائے "

یا وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں اور تنہائی میں آجائیں ۔

غصّہ قابو کرنے کا ایک عجیب علاج یہ بھی ہے کہ ایک کاغذ پر ایک عبارت لکھ کر ایسی جگہ لگادی جائے جہاں بار بار اس پر نگا ہ پڑتی ہو ۔

"اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت ہے جتنی تجھ کو اپنے بیوی ،بچوں اور ماتحتوں پر قدرت ہے ۔"

۵۷

کیونکہ آدمی کوغصّہ اسی پر آتا ہے جس کو اپنے نے کمزور پاتا ہے اگر دوسرا طاقتور ہو تو غصہ نہیں آتا لہذا جب بار بار اس تحریر پرنگاہ پڑے گی تو دل ودماغ میں اللہ کی بڑائی کا استحضار ہوگا غصّہ کہاں آئے گا ؟

یاد رکھئیے کہ اگر میاں بیوی اور گھر والوں کی یہ تو تو ،میں میں اور بگ بگ ختم ہو جائے تویہ گھر کے معصوم بچوں پر بہت بڑا رحم ہوگا ۔ورنہ جھگڑوں کے ماحول میں گھٹ گھٹ کر پلنے والے بچے سہمے سہمے رہتے ہیں ،خود اعتمادی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

جس معصوم کے ذہن پر ہر وقت باپ کا طمانچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں کے بہتے ہوئے آنسو۔۔۔۔۔۔کا تصور رہتا ہو جس کے کانوں میں دادی اور پھوپھی کی جھڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باورچی خانے میں روتی ہوئی ماں کی سسکیاں ۔۔۔گونجتی رہیں تو اس بچہ کی خدا داد صلاحتیں اور قابلیت جن سے وہ نجانے دین ودنیا کے اعلی سے اعلی کیا کیا کام کرجائے ۔ختم ہوجاتی ہیں ۔ ٭ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے آگاہ ہو کہ اللہ تعالی طالب علم کو دوست رکھتا ہے ۔

۵۸

نسخہ نمبر ۱۰

--{اپنا مقام پہچانئے ،زن مرید نہ بنئے}--

یہ جو آپ سے بیوی سے نرم رویہ اختیار کرنے ، اس کی دلجوئی کرنے اور نامنا سب بات کی تحمل سے برداشت کرنے کی استدعا کی گئی ہے اس سے یہ نہ سمجھئے گا کہ بیوی آپ پر حاکم ہے ،آپ محکوم ہیں ، وہ آپ کو ڈانٹ سکتی ہے اور جھڑک سکتی ہے آپ کچھ نہیں سکتے اور آپ اس کے غلام ہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ لہذا خدا را زن مرید نہ بنئے گا ۔ آپ کا ایک مردانگی والا مقام ہے گھر کے سربراہ والی ایک ذمہ داری ہے ۔

آپ کے ڈھیلے پن سے گھر کا نظام اندھیرنگری چوپٹ راج والا ہوسکتا ہے ۔ بچے کہیں کے کہیں نکل سکتے ہیں ۔

بیٹیاں آپ کے ہر وقت جی حضوری کے رویہ کو دیکھ کر اپنے شوہروں سے بھی ویسے ہی رویہ کی متمنی ہوجائین گی اور گھرانے کے گھرانے اجڑیں گے ۔جس کے صرف آپ ذمہ دار ہوں گے ۔

بے شک شفقت کا معاملہ رکھئیے کہ اس میں جو رعب ہے وہ ہر وقت کی ڈانٹ ڈاپٹ میں نہیں ہے ۔ بیوی سے ڈرے سہمے مت رہیں اللہ سے اپنا

۵۹

معاملہ صاف رکھیں گھر میں تعلیم عام کریں ۔

دنیا کی رغبتی اور آخرت کی ترقی کے تذکرے ضرور کریں ۔

تجربہ کار عالم دین بیوی کے گھر کے بڑوں سے بھی ضروری احوال کا مشورہ برائے گھریلو اصلاح (نہ کہ بطور شکایت یا غیبت )کرتے رہیں ۔

یہ بات یادرکھیئے کہ آپ ہاں جی ، والے غلام بنتے ہیں تو آپ کائنات کےنظام میں فساد کا بیج بورہے ہیں ۔

٭ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :" لوگ تین قسم کے ہیں ایک تم عالم ،دوسرے طالب علم ، تیسرے کوڑا کرکٹ (یعنی وہ لوگ جو نہ عالم ہیں نہ طالب علم ، وہ کوڑے کچرے کی طرح بے مقصد اور بیکار لوگ ہیں )۔"

نسخہ نمبر ۱۱

--{بیوی کو دیندار بنا ئیے مگر خود دینداری چھوڑ ے بغیر}--

یعنی طعنہ دے کر ،یاچڑ کر ،برا بھلا کہہ کر نہیں ۔ اپنی بات منوانا اصل کام نہیں بلکہ اسلامی ذہن بنانا اصل کام ہے ۔یعنی آپ اس کے دل کی زمین پر

۶۰