گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے0%

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 90

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف: سید عابد حسین زیدی
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 90
مشاہدے: 50321
ڈاؤنلوڈ: 2923

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 90 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50321 / ڈاؤنلوڈ: 2923
سائز سائز سائز
گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف:
اردو

ایسی محنت کریں کہ زمین خود کہے کہ مجھ کو شرعی احکام کے بیج بوتا کہ

ایمانیت کا جڑ

عبادت کا تنا

اور فرائض واجبات کے برگ وبار

اور اعمال صالحہ کادرخت تیار ہو

پھر اس میں اخلاقیات کے پھل آئیں اور ان میں

اخلاص کا رس ہو ۔

اگر کسی گھر میں معنویت اور روحانیت نہ ہو ،اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہو اس گھر کی حالت خراب ہوہی جاتی ہے ۔

گناہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتاہے ،دل کو بیمار کردیتا ہے اورجب دل ہی بیمار ہوجائے تو اس پر سب سے پہلی مصیبت یہ آتی ہے کہ انسان عبادت سے لذت حاصل نہیں کرسکتا بلکہ گناہ سے لذت حاصل کرتاہے اور جو گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ روحانی اعتبار سے بیمار ہے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ :

"اگر کوئی شخص چاقو کو ہاتھ میں یا پیٹ میں کسی کی کمر میں مارے تو جو ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ گناہ دل کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔"

لہذا یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی لڑکیوں کو اسلام کے احکام وقوانین

۶۱

سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں ۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے ا س سلسلے میں کوتاہی کی ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکی کو تعلیم دئیے بغیر شادی کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو اب یہ اہم ترین اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتاہے کہ وہ بیوی کو دینی مسائل سے روشناس کرائے اور سلام کے واجبات وحرام چیزوں کے متعلق بتائے اور اس کی فہم اور عقل کے مطابق اس کو اسلامی اخلاق اور عقائد کی تعلیم دے ۔

شوہر محترم! اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنا ۔

اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمی اور اخلاقی کتب اور رسالے مہیا کرکے اس کو پڑھنے کی ترغیب دلائے اور ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم دیندار استاد یا معلمہ کو اس کی تعلیم وتربیت کے لئے مقررکیجئے ۔

اب اگر آپ نے اس فریضہ کو ادا کیا تو آپ ایک دیندار ،دانا ،خوش اخلاق اور مہربان بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کریں گے اور اخروی ثواب کے علاوہ بہترین دنیاوی زندگی بھی بسر کریں گے ۔

اور اگر آپ نے اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں ضعیف الایمان اور لاعلم بیوی کا ساتھ رہے گا جو دینی واخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہوگی اور قیامت میں بھی خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ۔

کیونکہ اس سے قرآن میں آپ کی یہ ذمہ داری قراردی ہے کہ :

۶۲

"اے ایمان والو ، خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھرہوں گے "۔

امام صادق(ع)فرماتے ہیں کہ :

"جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اوربولا میں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہوں اس پر مجھے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی دوزخ کی آگ سےبچاؤں "۔

تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

" اس قدر کافی ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو ان ہی کو کرنے کو ان سے کہو اور خود جن کاموں کو تمہیں ترک کرنا چاہیے ان سے انہین روکتے رہو ۔"

تعلیم وتربیت کے لئے حوصلہ اور وقت درکار ہے اگر عقل اور تدبر سے کام لے کر اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا اور اگلی زندگی اور عالم آخرت تک اس کے اثرات سے بہرہ مند ہوگا ۔

٭ جس دعا کی ابتدا ء بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا کبھی نامنظور نہیں ہوتی ۔(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۶۳

نسخہ نمبر ۱۲

--{دیندار شوہر گھر میں فقہی قوانین نہ چلائیں کیونکہ گھر الفت ومحبت سے چلتے ہیں ، قانون سے نہیں }--

مثلا اگرآپ بیوی سے یہ کہیں کہ تم اپنے والدین یا فلاں رشتہ دار سے ملنے نہیں جاؤں گی کیونکہ میری اجازت کے بغیر گھر س ے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ۔

یہ قانون سے بہت غلط استفادہ ہے ۔آیت اللہ حسین مظاہری، ایک مجتہد کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ

"بعض عادل شمر سے بھی بدتر ہیں ۔"

قانون سے ایسا غلط استفادہ بظاہر مذہبی مردوں اور عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔مثلا کوئی لڑکی اسکول یا کالج جاتی ہے اور ایک یا دو اصطلاحات یاد کرکے غرور کرنے لگتی ہے اپنے شوہر سے کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں ، میں گھر کا کوئی کام نہ کروں گی کیونکہ یہ مجھ پر واجب نہیں ہے ۔ یہ قانون فقہی سے غلط اسفادہ ہے بقول ان عالم کے یہ لڑکی عادل ہے لیکن شمر سے بدتر ہے کیونکہ آج نہیں تو کال ضرور اس گھر کو برباد کرے گی ۔

۶۴

اگر چہ آپ ایک مومن ہیں لیکن سخت گیر ہیں ،امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر میں ضرورت سے زیادہ ہی سخت ہیں ۔ آپ کی یہ سخت گیری اور تیز روی ایک دن آپی پاکیزہ بیوی کو اور آپ کی نیک سیرت لڑکی کو ضدی اور خراب کردے گی ۔

نسخہ نمبر ۱۳

--{بیوی سے اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا }--

اگر آپ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے داماد بنیں اور وہ آپ سےیہ کہے کہ " دیکھو میری بیٹی س اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا " تو آپ کس طرح دل وجان سے اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی ناگوار باتوں کو بھی خندہ پیشانی س برداشت کریں گے ۔

جب صدر یا وزیر اعظم کی بات کی آپ کو اتنی ہی پرواہ ہے تو اگر اس پوری کائنات کا پروردگار آپ سے یہ کہے :

"وعاشر هنّ بالمعروف "

"(دیکھو)ان بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔"(سورۃ نساء ۱۹)

تو اب آپ کا رد عمل بیوی سے کیا ہونا چاہئے ،افسوس صدر اور وزیر اعظم

۶۵

کی ہدایت کی تو اتنی پرواہ ہو اور کائنات کے پروردگار کی ہدایت اور حکم کو اتنی اہمیت بھی نہ ہو جتنی اس کے فاسق وفاجر بندہ کی ہو ۔ افسو س! اگر آپ پروردگار عالم کی اس ہدایت کو یاد رکھیں گے تو گھر میں کبھی جھگڑا نہ ہوگا ۔

نسخہ نمبر ۱۴

--{ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے }--

ان تمام نسخوں پر عمل کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے ۔بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست کایہ اثر ہوتا ہے کہ بیوی یا اولاد نافرمان ہوجاتی ہے اوراسی طرح بیوی کے لئے بھی مسلسل دعائیں مانگتی رہنا چاہیئں ۔ایک مرد دانا کا کہنا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا اثر اکثر بیوی بچوں بلکہ گھر کے پالتو جانوروں تک میں پاتا ہوں کہ ہو پہلے کی طرح میرے مطیع وفرمانبردار نہیں رہتے ۔

آخری بات :- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ،ایک لڑکی نے صرف دو بول پڑھ کر آپ سے ایسا رشتہ قائم کیا اور اپنے والدین ان دو بولیوں کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو چھوڑ ا ، باپ کو چھوڑا ،بہن بھائی اور پورے خاندان کو چھوڑا اورآپ کی ہوگئی ۔جب یہ لڑکی ان دو بولیوں کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ایک

۶۶

کی ہوگئی لیکن آپ سے نہ ہو سکا کہ یہ دو بول :

"لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله "

" پڑھ کر اس اللہ کے ہوجاؤ جس کے لئے یہ دو بول پڑھےتھے :۔؟؟؟

٭ علم حاصل کرو ۔ علم کاحاصل کرنا نیکی ہے ۔ مشق جاری رکھنا تسبیح ہے ۔علمی معاملات میں بحث ومباحثہ جہاد ہے ۔ جاہل آدمی کو تعلیم دینا صدقہ ہے اور علم کی وجہ سے طالب علم خدا سے نزدیکی حاصل کرلیتا ہے ۔ کیونکہ علم کے ذریعے حرام وحلال کے درمیان فرق پہچانا جاتاہے اور علم طالب علم کو جنت کے راستے پر لگادیتا ہے اور علم وحشت میں انیس ہے علم تنہائی میں دوست ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام

۶۷

ساس ،سسر اور گھر کے دیگر افراد کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ بمبر ۱

--{ساس سسر یا گھر میں رہنے والے اور افراد سورہ بقرہ پڑھ کر اپنے گھر والوں پر دم کریں }--

کیونکہ رسول اسلام (ص)نے فرمایا ہے :

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (ص) کی جان ہے ، شیطان اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے ۔"

اس لئے کہ گھروں میں جھگڑوں سے بچنے کے لئے شیطان مردوں سے بچنے کی بہت زیادہ فکر کی جائے اور جن چیزوں سے گھروں میں شیاطین آتے ہیں ان سے بچا جائے اور جن اعمال سے شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ،ان اعمال کا اہتمام کیا جائے جس میں سے ایک عمل گھر میں سورہ بقرہ کا ختم ہے ۔

۶۸

نسخہ نمبر ۲

--{ساس سسر یا گھر میں کثرت سے تلاوت قرآن بمعہ ترجمہ کا اہتمام کریں }--

کیونکہ حدیث میں ہے کہ :

" جس گھر میں قران کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ملائکہ اس میں حاضر ہوتے ہیں ،شیاطین نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت نہ ہو ، اس میں خیر وبرکت کم ہوجاتی ہے ،شیاطین اس گھر میں مسکن بنالیتے ہیں ۔فرشتے وہاں سے چلتے جاتے ہیں "

نسخہ نمبر ۳

--{ حتی الامکان بیٹے کو شادی کے بعد الگ رہنے کی ترغیب دیں }--

دینداری کا دم بھرنے والے اکثر سےایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ

۶۹

سب کا ایک ساتھ ،ایک ہی گھر میں رہنا بہت ضروری ہے ورنہ گھر کی برکت نکل جائے گی ۔

محترم ساس وسسر ! ایک برتن میں کھانا پکنے سے برکت ضرور آئے گی لیکن لڑائی جھگڑے ی وجہ سے گھروں میں نفرت ،حسد ،بغض ،غیبت ،لڑائی ،جھگڑے کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ پورے گھر کو اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے ۔ صرف ایک ایسی برکت کے لئے ہزاروں مصیبتوں اور گناہوں کا ارتکاب کیسے جائز ہوگا ؟

یعنی ایک مستحب کے لئے اتنا اہتمام کہ ہزاروں حرام اس کی وجہ سے ہوجائیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

ایک گھر جہاں کئی شادی شدہ بھائی ایک ساتھ رہتے ہوں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوں لیکن

----- آپس میں دل گرفتہ ہوں ۔

---- روزانہ جھگڑے بڑھ رہے ہوں ۔

---- حسد اور حرص کی بیماریاں بڑھ رہی ہوں ۔

----- رات کو شوہر آئیں تو بہو ئیں ایک دوسرے کے خلاف باتین کرکے شوہروں (سگے بھائیوں )میں عداوت اور دشمنی کے بیج بورہی ہوں ۔

----- غیبت ،چغل خوری اور جھوٹ کے جراثیم پیداہو کر بڑی بڑی روحانی بیماریاں پیدا کررہے ہوں ۔

۷۰

---- بیٹے کو ماں اور بہن سے دور کیا جارہا ہو۔

---- بیوی گھر چھوڑنے یا طلاق لینے کی دھمکی دے رہی ہو ۔

----- ساس ، تعویذ ،گنڈوں کی فکر میں ہو ۔

----- سسر ہر نماز کے بعد بد دعا کررہا ہو ۔

-----لڑکے یا لڑکی کی ساس ،پورے خاندان میں سمدھی اور سمدھن کے برا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہو ۔

----- چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑے بڑے عیب بنا کر پیش کیا جارہا ہو ۔

----- ان سب کے نتیجے میں گھر کے بعض افراد نفسیاتی ہمسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہوں ۔

----- اپنے بچوں کو مشترک گھر میں رہنے سے حرام سے ڈش انٹینا اور کیبل سے بچانا مشکل ہورہا ہو ۔

اور اس کے بر خلاف ایک گھر ایسا ہو جہاں شادی ک فضول اور بیہودہ رسموں سے پیسے بچا کر اور ایسی شادی کرکے جس میں ش کے تین نقطے نہ ہوں یعنی سادی ،ایسی شادی جو سادہ ہو ، اسراف اور فضول خرچیوں سے مبرا ہو اور ان حرام کاموں سے پیسے بچا کر جب تک مستقل علیحدہ مکان لینے کی گنجائش نہ ہو تو چاہے چھوٹا سا گھر یا فلیٹ بھی کیوں نہ ہو الگ رہ کر ماں ،باپ کی خدمت کرکے زیادہ سے زیادہ دعائیں لی جاتی ہوں ۔

----- نند اور بھاوج میں آپس کی محبت برقراررہے ۔

۷۱

---- دیورانی اور جیٹھانیاں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہوں ۔

---- بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہو۔

----- روزانہ یا اکثر ملاقات کے لئے آپس میں آنا جانا ہو۔

----- حسب توفیق تحفہ ،تحائف دئیے جاتے ہوں ۔

---- کھانا پکا کر ساس وسسر کے لئے لایا جاتا ہو ۔

----- چھوٹے بچوں میں آپس میں محبت ہو ۔

دونوں زندگیاں آپ کے سامنے ہیں ،دونوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ کون سی زندگی آپ کو پسند ہے ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

محترم ساس ! جو بات رب العالمین کی شریعت میں بری نہیں ، اس کو برا نہ سمجھئے ، شریعت میں جس کی اجازت ہو اس پر پابندی نہ لگائیے ۔

لیکن بد قسمتی سے اور بعض اوقات آپ کی ہٹ دھرمی سے اور ان تما م خرابیوں کے بعد لڑجھگڑ کر بیٹا اور بیٹا اور بہو کو علیحدہ ہونا ہی پڑتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ ان تمام خرابیوں سے پہلے ہی ان کو الگ کردیں ۔

----- چاہے کتنی بھی طلاقیں ہوں ۔

----- کتنے بھی گھر اجڑیں ۔

----- کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوں ۔

---- کتنے بہن بھائی ،بہنوں میں اختلاف وجھگڑے ہوں ۔

کیا تب بھی آپ کا فیصلہ وہی رہے گا ؟

۷۲

اسلامی شریعت نے بھی بہو کے لئے ساس ،سسر کی خدمت کرنے کو حسن سلوک تو کہا ہے لیکن واجب قرار نہیں دیا اور دیور اور جیٹھ کی خدمت تو غیر مناسب بھی ہے اکثر بے پردگی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ اور جب یہ سب بہو کے فرائض میں شامل ہی نہیں تو آپ زبردستی خدمت کیسے لیں گے ؟ یہی سوچ فتنے او رفساد کی بنیادیں ہے اور ظلم کی ابتدا ہے ۔

نسخہ نمبر ۴

--{ ہم مزاج بیٹے اور بہو کو ساتھ رکھیں }--

اگر آپ بھی چا ہتے ہیں کہ ایک بیٹا ہمارے ساتھ ہو اور پوتے پوتیوں سے گھر میں رونق ہو تو اس بیٹے کو ساتھ رکھیں جس سے مزاج ملتا ہو ۔اور اس بیٹے اور بہو کو دعائیں بھی دیتے رہیں جو آپ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔

نسخہ نمبر ۵

--{ کچن تو ضرور علیحدہ ہو }--

اگر مالی حالات یا کسی اور مصلحت سے بہوؤں کو ایک ہی گھر میں رکھنا ہو

۷۳

تو کم از کم اتنا کیجئے کہ ان کے آنے جانے کا راستہ الگ ہو اور کچن تو ضرور علیحدہ ہو ، زیادہ تر آگ چولہے ہی بھڑکتی ہے ۔'

نسخہ نمبر ۶

--{ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کروائیے }--

ساس اور سسر خصوصا ساس اگر سلیقہ مند ہو تو بہو کے ساتھ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کرواسکتی ہیں ۔ یہ بہو کے لئے سعادت اور ساس وسسر کے اخلاق کی بلندی کی علامت ہے ۔لیکن بہو سے جبر ا خدمت لینا نہ شرعا جائز ہے اور نہ اخلاقا صحیح ہے ۔

بہو کا اکرام اور عزت کرکے دیکھئے آپ حیران ہوں گے کہ وہ آپ کی بیٹی سے بڑھ کر آپ کی خدمت گزار ہوگی ۔

٭ عالم کو عابد پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو چودھویں شب میں تمام ستاروں پر ہے اور علماء وارث انبیاء ہوتے ہیں ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۷۴

نسخہ نمبر ۷

--{ بہو سے بدگمان نہ ہوں }--

اس کی غلطی دیکھ کر بھی اچھی تاویل کریں ،اپنے خیال کی پرواہ نہ کریں ۔

جب آپ ایسا کریں گے تو گویا شیطان کے منہ پر طمانچہ ماریں گے وہ خبیث خود بخود دور ہوجائے گا ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا ہ ےکہ :

"اس ناپاک کے منہ پر طمانچہ مارو ،جب اس کو ماروگے ، اس کی باتوں پر عمل نہ کروگے تویہ خود بخود دفع ہوجائے گا ۔"

اس کے برعکس اگر اس کی باتوں کو اہمیت دیں گے اور بہو سے سوء ظن رکھیں گے تو یہ منحوس شیطان آپ کی فکر اور سوچ پر قابض ہو جائے گا لہذا س کا علاج فقط یہ قرآنی حکم ہے کہ :

"لوگوں سے متعلق بد گمانی سے پر ہیز کرو کیونکہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں ۔"

اگر آپ نے ظن یا گمان بد سے کام لیا تو گویا قرآن کی مخالفت کی ہے ۔

۷۵

نسخہ نمبر ۸

--{بیٹا اور بہو کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں }--

اگر آپ اپنی شادی شدہ اولاد کو سعادت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں ۔

آپ کو حیوانوں سے سبق لینا چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کی اسوقت تک سرپرستی کرتے ہیں جب تک وہ ان کے محتاج ہوتے ہو۔جو نہی وہ ایک مستقل زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں والدین ان کو آزاد چھوڑدیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مستقل زندگی گزارنا شروع کردیں ۔یہی بات پرندوں اور دیگر جانوروں بلکہ انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔

جب اولاد کی شادی ہوجائے تو ان کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کریں ۔

٭ جان لو کہ تم علم کے ساتھ ہی خوش نصیبی حاصل کرسکتے ہو ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۷۶

نسخہ نمبر ۹

--{ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد اور بہو کی طرفداری کریں }--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ :

"ہمیشہ صلح وصفائی آپ کا مطمع نظر رہے ۔"

بہو کے ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد کی طرفداری کریں اور ساس وسسر کو بہو کی طرفداری کرنی چاہئیے ۔

اگر لڑکی لڑبھڑ کر ماں باپ کے گھر چلی جائے تو لڑکی کی ماں اپنی بیٹی کو لے جاکر داماد کے حوالے کردے اور اس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کرباتیں کرے تو داماد کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو،راضی ہوجائے گا اور اگر ساس وسسر گھر میں بہو کے ساتھ الفت ومحبت رکھیں اور اگر جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کی طرفداری کریں تو بہو خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خود بخود ان کے ساتھ محبت کرنےلگے گی اور جھگڑا فساد ختم ہوجائے گا ۔

امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنی شہادت کے وقت اپنے فرزندوں کو یوں نصیحت فرمائی :

۷۷

" اے میرے فرزندوں ! میں تمہیں تاکید کرتاہوں کہ تقوی کو اپنا شعار بناؤ ،اپنے معاملات کو منظم رکھو اور اپنے درمیان ہمیشہ صلح وصفائی رکھو"۔

کیونکہ میں نے تمہارے جد پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :-

دو افراد کے درمیان صلح کرنا خدا کے نزدیک ایک سال کی نماز اور روزوں سے افضل ہے ۔"

نسخہ نمبر ۱۰

--{ کبھی بھی بہو کی برائی بیٹے سے یا داماد کی برائی اپنی بیٹی سے نہ کریں }--

ان کی خامیوں کی تلاش میں بھی نہ رہیں ۔

بہت سے لوگ خود اپنے اندر اور دوسروں میں اچھائیاں نہیں دیکھ پاتے ان کو ہر چیز منفی صورت میں نظر آتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اندر کیسی کیسی خوبیاں ہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے میں کون کون سی برائیاں ہیں ۔

منفی پہلو کی سوچ گویا مکھی کی طرح ہے وہ باغ میں بھی جائے تو ڈھونڈ تی ہے کہ کہیں کوئی گندگی مل جائے تاکہ وہ اس پر بیٹھ سکے ۔

محترم ساس و سسر ،اپنی بہو اور داماد کے پیچھے نہ پڑیں کہ کسی نہ کسی طرح

۷۸

کوئی نقص نکال ہی لوں بلکہ آپ کو ایک بلبل کی طرح ہمیشہ پھولوں پر ہی رہنا چاہئیے ۔آپ کو پھولوں ہی کی تلاش ہونی چاہیے ۔بہو میں اچھائی اور مثبت نقاط کی تلاش کرنی چاہیئے ،آپ اس کی ساری اچھائیاں ایک بد سلوکی کی وجہ سے بھلا دیتے ہیں ۔ اور آپ کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے ۔

افسوس! قرآن کا بھی یہی مشہورہ ہے کہ انسان وفادار نہیں ہے ۔

نسخہ نمبر ۱۱

--{معافی کواپنا شعار بنائیں }--

واقعا اگر آپ کی بہو بری بھی ہے ،اور اس نے آپ کے ساتھ کچھ زیادتی بھی کی ہے تو آپ اسے معاف کردیں ۔

کیوں ؟

اس لئے کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ قیامت میں خدا آپ کو معاف کردے ؟

آپ نے سنا ہوگا کہ قیامت میں کچھ لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں عفو ،درگذر اور بخشش سے کام لیتے ہیں ۔

۷۹

نسخہ نمبر ۱۲

--{ جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو}--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گھر میں (بمعہ ترجمہ) لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دینی چاہئیے ،کہ گھر کے ہر فرد کی نگاہ اس پر پڑتی رہے

"ویدرون بالحسنة "(سورہ قصص)

"جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو"

اے ساس وسسر ! اگر آپ قرآنی احکام پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو اس آیت پر بھی عمل کرنا ہوگا ۔یہ آیت لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دیں کہ جسے آپ بھی دیکھیں ،بہو بھی دیکھے ،بیٹا بھی دیکھے ،گھر کے بچے بھی دیکھ لیں اور آہستہ آہستہ سب میں معاف کرنے کی طاقت پیدا ہوجائے ۔ اگر آپ اور بہو میں ہم آہنگی نہ ہو تو بھی بخشش اور حسن سلوک سے اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں ۔

٭ علم کی وجہ سے اللہ کے واحد ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے علم کے ذریعے صلہ رحم کیا جاتا ہے ۔"

۸۰