گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے0%

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 90

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف: سید عابد حسین زیدی
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 90
مشاہدے: 50299
ڈاؤنلوڈ: 2923

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 90 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50299 / ڈاؤنلوڈ: 2923
سائز سائز سائز
گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کا نام: گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

جمع وترتیب : سید عابد حسین زیدی

ای بک کمپوزنگ : حافظی

نیٹ ورک: شبکہ امامین حسین علیھما السلام

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

٭ جس کام سے پہلےبسم الله الرحمن الرحیم نہ پڑھی جائے اس میں شیطان شریک ہوتا ہے ۔حدیث نبوی ہے کہ

"جو کوئی اہم کام بغیربسم الله الرحمن الرحیم کے شروع کیا جائے وہ ناقص اورنا تمام ہوتا ہے "۔

٭ پیغمبر اسلام نے فرمایا :

"جب بندہ خدا سوتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے تو خداوند فرشتوں سے فرماتا ہے میرے ملائکہ صبح تک میرے اس بندے کے سانس لکھتے رہو (ان کا اجر ملے گا )"۔

٭ جو شخص اپنے گھر کے دروازے کے بیرونی حصہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھے تو وہ ہلاکت سے محفوظ رہے گا ۔

۴

تفریظ

نسل انسانی کی بقا کے لئے قانون فطرت مسلسل مصروف عمل ہے جس کی بنا سراسر محبت پر ہے ۔جب حضرت آدم کو تنہائی کا احساس ہوا تو ان کے سکون قلب کے لئے حضرت حوّا کی تخلیق عمل میں آئی اور صنف نازک کی خلقت کی بنیاد سکون قلب فراہم کرنا ہے جو محبت کا ثمر ہوتی ہے اور یہی وہ منزل ہے جہاں انسان محبت پاتا ہے تو اپنا سب کچھ کھو کر بھی اطمینان و سکون حاصل کرتا ہے کیونکہ محبت کی اس دولت کے مقابل کوئی اور دولت حتی کہ انسان کی جان بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور انسان محبت پراپنی جان قربان کر کے بھی اطمینان وسکون پاتا ہے اور دین بھی ہر دیندار سے یہی چاہتا ہے ۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق (ع) سے چند مسائل پوچھے تو ہر سوال کے جواب میں امام نے "محبت کا تقاضا یہ ہے " کہہ کر جواب دیا تو اس سائل نے عرض کیا مولا! میں دینی مسائل کے بارے میں پوچھ رہا ہوں اور آپ ہرجواب میں فرماتے ہیں کہ " محبت کا تقاضا یہ ہے "۔

یہ سن کر امام نے اس سائل سے فرمایا :

"هل الدین الّا الحب "؟ (کیا دین محبت کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟)

۵

دین کا وجود ہی اس لئے ہے کہ وہ بندگان خدا کے دلوں کو جوڑے اور ان کے درمیان ہم آہنگی اور الفت بڑھائے ۔دین یہ نہیں ہے کہ اس کے نام پر نفرتیں اور دشمنیاں پیدا کی جائیں چاہے یہ چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑے پیمانے پر ، اسلام ہمیشہ ان کی نفی کرتا ہے ۔ انسان ایک معاشی حیوان ہے اور اس کے معاشرے کی بنیادی اکائی اس کا گھر ہے جہاں ایک مرد اپنی بیوی کے لئے مکان فراہم کرتا ہے جو اس مکان کو ایثار وقربانی کے ذریعے محبت کی خوشبو پھیلا کر گھر میں تبدیل کرتی ہے اور جب مکان گھر میں تبدیل ہوتا ہے تو مرد کو سوائے اس کے کہیں اور سکون نہیں ملتا اور جب وہ زندگی کی سختیوں ،تکالیف اور پریشانیوں سے تھک جاتا ہے یا گھبرا جاتا ہے تو اپنی اس پناہ گاہ کا رخ کرتا ہے کہ اپنی زندگی کے چند لمحات سکون کے ساتھ گزارسکے ۔

کیا یہ کسی معاشرے کا لمیہ نہیں ہے کہ اس کے مرد سکون کی تلاش میں گھر سے باہر کا رخ کریں ۔ اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ اس معاشر ے کی خواتین ، ان کے فراہم کردہ مکان کو گھر میں تبدیل نہیں کرسکی ہیں جو ان کی تخلیق کے بنیادی مقصد میں ناکامی کی علامت ہے ۔دراصل محبت وہ غیر مرئی مضبوط رسی ہے جو میاں بیوی کو ایک دوسرے سے اور اولاد کے ساتھ مربوط رکھتی ہے ۔معاشرے کی اس ابتدائی اکائی میں شوہر بیوی کے لئے او ر بیوی شوہر کے لئے ہے اور یہ دونوں اولاد کے لئے ہیں اور اولاد ان دونوں کے لئے ہیں اور اپنی اس غیر مرئی رسی نے انہیں مضبوطی سے باندھا ہوا ہے جو

۶

در اصل معاشرے کے لئے ایسی حیثیت رکھتی ہے جیسے کتاب کے لئے شیرازہ ہے ۔ اگر شیر ازہ ہٹ جائے تو اورراق منتشر ہوجاتے ہیں اور کتاب کا جود ہی ختم ہوجاتا ہے ۔

اس طرح معاشرے سے محبت کا جذبہ مفقود ہوجائے تو اس میں بھی انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ دراصل محبت کو بھی کچھ آفتیں اور مصنوعی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں ان میں سے بنیادی بیماریاں "تکبر" اور "حب دنیا " میں غرق ہونا ہے ۔ اور باقی بیماریاں انہیں دوسے پیدا ہوتی ہیں ۔جہاں یہ دونوں بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں تو اب محبت کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی کیونکہ ان کے آثار اور مظاہر محبت کے مکان کو ہی ڈھادیتے ہیں ۔ جب شیشہ دل چور چور ہوجاتا ہے تو نہ اب وہ جوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس میں ٹانکے لگائے جاسکتے ہیں ۔

انسان دوچیزوں سے مرکب ہے یعنی روح اور بدن ۔ جسطرح بدن کی سلامتی لازمی ہے اسی طرح روح کی سلامتی بھی لازمی ہے بلکہ روح کی سلامتی جسمانی کمزوری یا بعض کی تلافی کرسکتی ہے مگر جسمانی کمزوری یا بعض کی تلافی کرسکتی ہے مگر جسمانی صحت و روحانی نقصان کا جبران نہیں کرسکتی اس سے پتہ چلتا ہے کہ روحانی صحت کا خیال رکھنا بھی زیادہ ضروری ہے ۔مغربی ثقافت کی یلغار نے معاشرہ کی بنیادی اکائی یعنی گھر اور خاندان کے نظام کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے اور اصل اسلامی ثقافت کے علم بردار علمائے کرام اس نظام کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں ۔ مرتب نے اس سلسلے میں موثر کوشش کی ہے اور کتابوں سے جمع و ترتیب کرکے جو نسخے تجویز

۷

کئے ہیں وہ مکمل طور پر قران وحدیث اور مکتب اہل بیت (ع) کی تعلیمات کی روشنی میں ہیں ۔خداوند عالم سے دعا ہے کہ اس کو شش کو شرف قبولیت بخشے اور قارئین کے لئے مفید موثر قراردے اور مرتب کی مساعی کو اس گھرانے کی تائید حاصل رہے جسے خداوند عالم نے "نبوت کا گھرانہ "کہا ہے ۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید ذوالفقار علی زیدی

امام جمعہ مسجد محمد مصطفی

عباس ٹاون ،کراچی

۸

پیش لفظ

اس کتاب کو پڑھنے والا ہر شخص اپنی ذمہ داریوں پر نگاہ ڈالے کہ اپنے گھر کو جنت بنانے میں میرا کردار ہونا چائیے ؟ ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی کوتا ہیاں آپ کے سامنے آجائیں بلکہ ہرشخص یہ سوچے کہ اگر میں نے اپنی کوتاہی دور کرلی تو خدا اپنے ‌فضل وکرم سے میری بیوی کو اور میرے دوسرے گھر والوں کو بھی ہدایت عطا کردے گا ۔

نسخوں پر عمل کرنے سے قبل اپنے اور گھروالوں کی اصلاح کی خوب دعا مانگین کہ خداوندامیری بیوی اور گھر والوں کو میرے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور مجھے بھی ان کے حقوق ادا کردینے والا بنادے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنادے ۔

یاد رکھیے اگر خاندان صحیح ہوتو صحیح معاشرہ تشکیل پائے گا اور اگر گھر کی زندگی صحیح کرلی تو باہر کی زندگی بھی صحیح ہوسکتی ہے ۔

وہ گھر جس میں گناہ ہو ، اختلاف ہو ۔ وہ گھر صلاحیتوں کا قاتل ہے ، بچوں کی استعداد کا قاتل ہے ۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا گھر مبارک ہو، اولاد آپ کے لئے

۹

مبارک ہو تو چائیے کہ آپ کے گھر گناہ نہ ہواگر آپ کا گھر گناہ کا گھر ہے تو اس کے بابرکت ہونے کی امید بیکار ہے ۔

مشہور روایت میں ہے کہ :

"لا تدخلو الملائک فی بیت فیه الکلب "

"وہ گھر جس میں کتا ہو ملائکہ داخل نہیں ہوتے ۔"

یہ روایت بقول علماء تین معنی رکھتی ہے ایک معنی تو یہ ہے کہ وہ گھر جس میں کتوں کی پرورش کی جاتی ہے وہاں ملائکہ آمد ورفت نہیں رکھتے وہاں شیاطین کی آمد ورفت ہوتی ہے ۔

دوسرے معنی ہیں وہ دل جو ناپاک ہیں ، اخلاقی وروحانی برائیوں سے آلودہ ہیں ، غیبت ،بہتان ،حسد ،بغض ،غصہ اور غضب کی آماجگاہ ہیں وہاں بھی ملائکہ کی آمدورفت نہیں ہوتی ۔ تیسرے معنی ہیں وہ گھر جہاں اختلافات ہیں ،گناہ ہیں وہاں پر بھی ملائکہ کی آمد ورفت نہیں ہوتی ۔

اگر ملائکہ ہمارے گھر آمدورفت نہ رکھیں اور خدا کا دست عنایت سر پر نہ ہو اور ہمارے گھر وں پر اس کی رحمت نہ ہو تو شدید افسوس کا مقام ہوگا اور اس سے بھی زیادہ افسوس ان بچوں پر جو اس گھر میں پکتے ہیں اور ایسا گھر جس میں شیاطین کی امد ورفت ہو وہ آرام کی جگہ نہیں بلکہ پریشانیوں اور مصیبتوں کامنبع ہوگا ۔

لیکن اگر گھر میں ایسا ماحول ہو کہ رہنے والے افراد ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہوں ، محبت والفت ہو ، ہر کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہو

۱۰

اور اگر کوئی ناخوش گواری پیش آجائے تو عذر خواہی کرتے ہوں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جنت میں ایک دوسرے کے سامنے خوشحال بیٹھے ہوں گے اور ایک دوسرے کو آفرین کہیں گے ۔

قارئین کرام! کیا آپ اپنے لئے بہشت چاہتے ہیں ؟ اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ اپنے اندر پیدا کریں ، صبر سے کام لیں ،اختلافات کو فورا دور کریں یہاں تک کہ ایک گھنٹہ بھی آپ کے گھر میں اختلاف نہیں ٹہرنا چاہیے۔

"ولا تنازعوا وتفشلوا وتذهب ریحکم "

(انفال آیت ۴۷)

"آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ہمت ہاروگے اور تمہاری ہوااکھڑ جائے گی "۔

پروردگارا تمام خاندانوں میں اتحاد ،باہمی الفت ومحبت پیدا فرما اور آپس کے جھگڑوں کو ختم کرنے کی تو فیق عطا فرما ۔اور امیر المومنین کی اس وصیت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما کہ جس میں آپ نے فرمایا :

(دیکھو!)"آپس کے اختلافات ختم کردو"۔

ہے کوئی محبت علی کا دعوے دار جو اپنے مولا کی اس وصیت کو پوری کرنے کی کوشش کرے ؟

ادارہ

پیغام وحدت اسلامی

۱۱

بیوی کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

حضرت آدم (ع) جب جنت میں تشریف لاتے ہیں تو باغ جنت کا چپہ چپہ انوار الہی سے معمور تھا الطاف کبریائی کا قدم قدم پر ظہور تھا اور ہر طرف نعمتوں کی بارش تھی لیکن پھر بھی آدم اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پاتے ہیں ، کسی چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں ۔

لہذا پھر حضرت آدم پرنوازشوں اور بخششوں کی تکمیل ہوئی اور جنت حقیقی معنوں میں جنت ثابت ہوئی جب ایک عورت کی تخلیق ہوئی اور شوہر کے لئے ایک بیوی کی ہستی سامنے آئی ۔

-----اگر عورت نہ ہو تو کارخانہ تمدن ہی ختم ہوکر رہ جائے ۔

-----پوری انسانی تہذیب اجڑ کر رہ جائے ۔

-----اے عورت! آپ دوزخ جیسے گھر کو بھی جنت میں بد سکتی ہیں ۔

-----آپ چائیں تو فقیر کو دولت مند اور دولت مند کو فقیر بنادیں ۔

-----مرد کا سکھ آپ کے قدموں میں ہے ،آپ مرد کا نصف جزو اور اس کا آدھا ایمان ہیں ۔

----- تمام مذہبی انسان ،اولیاء ،حکماء ۔آئمہ یہاں تک کہ خدا کے پیغمبر (ص) بھی

۱۲

آپ کو ماں کہتے ہیں اور آپ کی ہی گود میں پلتے ہیں ۔

----- آپ ہی کے قدموں تلے جنت ہے ۔

-----دنیا کی انتہا اپنا گھر اور گھر کی انتہا عورت ہے ۔

----- نیک عورت کے بغیر گھر بیکار اور مصیبت خانہ ہے ۔

٭ ایک نیک اعمال عورنت ستر اولیاء سے بہتر ہے ۔

٭ ایک بد اعمال عورت ہزار بداعمال مردوں سے بد تر ہے ۔

٭ ایک حاملہ عورت کی دورکعت نماز غیر حاملہ کی اسی رکعتوں سے بہتر ہے ۔

٭ جو عورت اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے اسے اللہ تعالی ایک ایک بوند پر نیکی عطاکرتے ہیں ۔

٭ جب شوہر پریشان حال گھر آجائے اور اس کی بیوی اسے خوش آمدید کہے اور تسلی دے تو اللہ اس عورت کو نصف جہاد کا ثواب عطا فرماتے ہیں ۔

٭ جو عورت اپنے بچے کے رونے سے رات بھر نہ سوسکے اللہ تعالی اس کو بیس غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر دیتے ہیں ۔

٭ جو عورت ذکر کرتے ہوئے جھاڑو دے اللہ تعالی اس کوخانہ کعبہ میں جھاڑو دینے کا ثواب عنایت کرتے ہیں ۔

٭ جو عورت نماز ،روزہ کی پابندی کرے اور پاک دامن رہے اور اپنے شوہر کی تابعداری کرے ،اس کو اختیار ہوگا کہ جس دورازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ۔

۱۳

٭ جو عورت اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے نہ سوسکے اور اپنے بچے کو آرام دینے کی کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہ معاف کردیتے ہیں اور اس کو بارہ سال کی قبول عبادت کا ثواب ملتاہے ۔

٭ جو عورت حاملہ ہو اس کی رات عبادت اور دن روزہ میں شمار ہوتاہے ۔

٭ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے لئے ستر سال کی نماز اور روزہ کا ثواب لکھا جاتا ہے اور بچہ پیدا ہونے میں جو تکلیف برداشت کرتی ہے ۔ہر درد کے عوض ایک حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔

٭ بچہ رات کوروئے اور ماں بغیر برابھلا کہے اس کو دودھ پلائے تو اس کو ایک سال کی نمازوں اور روزوں کاثواب ملے گا ۔

٭ جب بچے کا دودھ کا وقت پورا ہوجائے توآسمان سے ایک فرشتہ آکر اس عورت کو خوشخبری سناتا ہے کہ اسے عورت اللہ نے تجھ پر جنت واجب کردی ہے ۔

٭ عورت کاخاوند اس سے راضی ہور اور وہ انتقال کرجائے تو جنت اس پر واجب ہوگي ۔

٭ نیکو کار عورت ستر مردوں سے افضل ہے ۔

٭ عورت بھی اپنے شوہر کے گھر میں کی نیت سے چیزوں کو قرینے سے رکھے گی تو اللہ تعالی اس پر رحمت کی نظر ڈالے گا اور جو بھی اللہ کا منظور نظر ہوگیا اسے عذاب سے امان مل جائے گی ۔

۱۴

٭ شائستہ عورت ہزارناشائستہ مردوں سے بہتر ہے ۔ جو عورت بھی شوہر کی بھلائی کے لئے سات دن کام کرتی ہے اللہ اس پر جہنم کے سات دروازے بند کردیتا ہے اور جنت کے آٹھ دروازے کھول دیتا ہےکہ وہ جس دروازے سے بھی چاہےجنت میں داخل ہوجائے ۔

٭ پانی کا ایک گھونٹ بھی مرد کے ہاتھ میں دیتی ہے تووہ ایک سال کی مستحب عبادت جس میں وہ دن میں روزے رکھے اور رات کو نماز ادا کرے اس سے بہتر ہے ۔

٭ عورت اپنے شوہر کے لئے لذیذ غذا تیار کرتی ہے اللہ تعالی جنت میں اس کے لئے قسم قسم کے کھانے تیار کرے گا اور فرمائے گا خوب کھاؤ اور پیو یہ ان زحمتوں کی جزا ہے جو تم نے دنیا کی زندگی میں برداشت کی ہیں ۔

٭ اے عورت!آپ ہی مرد کے گھر کی مالکہ ہیں ، ملکہ ہیں ، بس اپنے اندر وہ صفات پیدا کرلیں کہ پھر دین کی رعایت کرتے ہوئے مرد آپ کی ہر بات مان لے ۔

لیکن ابھی ٹہر جائیے!

اس اقتدار کی باگ دوڑ ہاتھ مین لینے سے پہلے آپ کو کچھ قربانیاں دینی ہوں گی ، تاج بہت حسین گلاب کی طرح ہے ،لیکن اس گلاب کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو کانٹوں کا مزا چکھنا ہوگا پہلے اپنے اندر اس کی صلاحیت اور استعداد پیدا کرنی پڑے گی ۔

۱۵

-----گھر کی رانی بننے سے پہلے آپ کو کسی حد تک باندی بننا ہوگا ۔

----- اس گلابی تاج کو پہننے سے پہلے آپ کو گھر میں کانٹوں کا تاج پہننا ہوگا ۔

یہی قدرت کا قانون اور دنیا کا نظام ہے ۔

سرخ رو ہوتا ہے انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد

سرمہ ،نے کہا مجھ پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہو کہ اتنا زیادہ پیستے ہو ۔

پیسنے والے نے جواب دیا ! تجھے اس لئے زیادہ پیس رہاں ہوں کہ اشرف المخلوقات کی اشرف الاعضاء یعنی انسان کی آنکھ میں جگہ پانے کے قابل ہوجائے ۔

----- اے نیک بیوی آپ اس انسانیت کیلئے امید کی ایک کرن ہیں پس اپنے آپ کو دیندار ،باپردہ ،نمازی بنائے ، اپنے محلہ کی عورتوں ،رشتہ داروں کو دین پر عمل کرنے اور اس کو چاردانگ عالم میں پھیلانے والی بنایئے ، خدا آپ کو نیک بنائے اور اپنے شوہر کیلئے دنیا آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ۔

----- کیونکہ یہ آدم زاد آپ ہی کے دل کے آئینے میں اپنی محبت دیکھنا چاہتا ہے ۔

----- آپ ہی کی زبان سے اس کا اظہار چاہتا ہے ۔

-----آپ ہی کی مسکراہٹ سے اس کا اظہار چاہتاہے ۔

-----اس کی طرف سے کوئی کڑوی بات ہوجائے تو آپ کی طرف سے صبر والا طرز عمل چاہتا ہے ۔

۱۶

-----آپ کے منہ سے کھلے ہوئے کوثروتسنیم سے دھلے ہوئے دو میٹھے بولوں سے اپنی ہر بیماری کی شفاچاہتا ہے ۔

----- آپ کی اطاعت وخدمت سے اپنی جوانی کی بقا چاہتا ہے ۔

----- آپ کی معمولی سی توجہ سے اپنی تھکاوٹ کی دوری چاہتا ہے ۔

----- دنیا کے ہر غم اور پریشانی میں آپ کے مشورہ سے تسلی اور تشفی چاہتا ہے ۔

----- آپ کی نمازوں ،ذکر اور تلاوت کی پابندی سے آنکھوں کی ٹھنڈک چاہتا ہے ۔

----- آپ کے حسن اخلاق سے اپنے بچوں کی تربیت چاہتا ہے ۔

-----آپ کے حسن معاشرت سے اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کی دعا چاہتا ہے ۔

----- اپنے دوستوں کی بیویوں کا اکرام اور پڑوس کی عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ سے معاشرے میں اپنا مقام اور رتبہ ،بلند چاہتا ہے ۔

-----آپ کی قناعت اور دنیا کی تھوڑی سی چیزوں پر راضی رہنے سے زیادہ کمائی کے جھمیلوں سے آزادی چاہتا ہے ۔

----- آپ کے صاف ستھرے رہنے ،چست ،چاق وچوبند رہنے اور صاف لباس پہننے سے اپنی آنکھوں کی خیانت یعنی نامحرموں پر نگاہ پڑنے سے حفاظت چاہتاہے ۔

----- آپ کے ہاتھوں میں میانہ روی کی مہندی سے اپنے مال کی حفاظت چاہتا ہے ۔

۱۷

اگر آپ میں یہ صفات ہیں ؟

تو آپ ضرور آج بھی آدم (ع) کے اس بیٹے کے لئے حوا کی بیٹی ہیں ۔

اس کے لئے زوجہ صالحہ ، نیک بیوی ، اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ،دل کی راحت ،سرمایہ صحت ،محا‌فظ ایمان ،نصف دین ،اس کی ہمراز ،اس ی مخلص دوست آپ ہیں ،یقین کیجئے آپ ہی ہیں ۔

وہ آپ کو اپنی قبر اور خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی فکر کرنے اور دوسری عورتوں اور بچوں میں دین پھیلانے اور ایمان اور اسلام کو دنیا میں زندہ کرنے کی بھی فکر سے جنت میں آپ کا ساتھ چاہتا ہے ۔

یاد رکھیئے ! اسلام میں اچھی بیوی کا معیار یہ نہیں کہ وہ کالج سے ایسی ڈگریاں یا ڈپلومےلے کر جو خود مردوں کے حق میں بھی اب بیکار ہوچکے ہیں ۔ معیار آخرت کی کامیابی ہے ۔

وہ زبان جو ہمیشہ سچ ہی پر کھلتی ہے اس زبان مبارک کا ارشاد ہے کہ

"اے عورتوں ! یادرکھو کہ تم میں سے جو عورتیں نیک ہیں وہ نیک مردوں سے پہلے جنت میں پہنچ جائیں گی ۔"

محترم خواتیں!

اور کونسی فضیلت آپ چاہتی ہیں ؟ جنت میں مردوں سے پہلے تو آپ پہنچ گئیں ہاں البتہ نیک بن جانا شرط ہے اور یہ کوئی مشکل نہیں ۔

ہاں البتہ ۔۔۔۔۔اگروہی پرانی روش برقرار رکھی ۔۔۔۔۔وہی بدکلامی

۱۸

۔۔۔۔۔بدزبانی ۔۔۔۔۔نافرمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو پھر اس مخبر صادق رسول(ص) کا ارشاد سنئے فرماتے ہیں کہ :

"کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی نہ تو نماز قبول ہوتی ہے نہ کوئی اور نیکی ان میں سے ایک عورت ہے جس سے اس کا شوہر ناخوش ہو ۔"

ایک مقام پر فرماتے ہیں :

"کہ دنیا میں جب کوئی عورت اپنے شوہر کوستاتی ہے تو جو حور قیامت میں اس شوہر کی بیوی بنے گی وہ یوں کہتی ہے کہ

(اس کو امت ستا ، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے ،تھوڑے ہی دنوں میں تجھ کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے گا )"۔

ایسی عورتوں سے بچنے کے لئے دعا مانگی گئی ہے ۔

"اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا کردے "۔

ایسا نہ ہو کہ جیسے ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتاہے کہ میرے انتقال کے بعد تم دوسری شادی کرلینا ۔وہ پوچھتی ہے کیوں ؟ تو کہتا ہے کہ تاکہ دوسرے شوہر کو معلوم ہوجائے کہ میرا اتنی جلدی انتقال کیسے ہوگیا تھا ؟

یا ایسا نہ ہو کہ جیسے ایک صاحب کے ہونٹ کالے ہورہے تھے تو کسی نے وجہ پوچھی توکہا بیگم لاہو رجاہی تھی تو فرط مسرت سے ان کے جانے کی خوشی

۱۹

بے قابو ہوکر میں نے ٹرین کے ڈبے کو چوم لیا ۔

ایک دانشور معاشرتی واخلاقی مسائل پر تقریر کررہے تھے اپنی باتوں کے دوران انہوں نے کہا ہم اب گھریلو مسائل کے بارے میں اعداد وشمارے سے کام لیتے ہیں ۔ اسی لئے آپ لوگوں سے درخواست کرتاہوں کہ محفل میں موجودہ لوگ کھڑے ہوجائیں جو اپنی بیویوں کے ظلم سے تنگ ہیں ۔یہ سننا تھا کہ تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے مگر ایک شخص اپنی جگہ بیٹھا رہا ۔ یہ دیکھ کر دانشور نے کہاخدا کا شکر ہے کہ ہماری محفل میں ایک شخص تو ایسا ہے جو اپنی بیوی سے خوش ہے ۔یہ سننا تھا کہ اس شخص نےکہا جناب ایسا نہیں ہے میں اٹھ نہیں سکتا کیونکہ کل میری بیوی نے میری ٹانگ توڑی ہے ۔

تو اس طرح عورت کی بدمزاجی سے پوری زندگی پریشانی اور غمی ہی میں گذرتی ہے ۔

اے مرد کی مونس ،غمخوار اگر آپ اپنے گھر کو جنت کا نمونہ دیکھنا چاہتی ہیں تو آپ کو کچھ کرناپڑےگا جنت یوں ہی نہیں حاصل ہوجاتی اس کے کچھ اصول ہیں ، کچھ نسخہ جات ہیں ۔

٭ زندگی میں کوئی عظمت نہیں ہے مگر دو آدمیوں کی ، ایک عالم باعمل ،دوسرے اس کو غور کے ساتھ سن کریاد کرلینے والے کے لئے ۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۲۰