شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر33%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31005 / ڈاؤنلوڈ: 4850
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

شیعہ کافر

----تو----

سب کافر

مصنف :

علی اکبر شاہ

نیٹ ورک: شبکہ امامین حسین علیھما السلام

۳

بڑھتی ہوئی جواں امنگوں سے کام لو

ہاں تھام لو حسین (ع) کے دامن کو تھام لو

عفریت ظلم کانپ رہا ہے ، اماں نہ پائے

دیوفساد ہانپ رہا ہے ،اماں نہ پائے

(جوش)

۴

ماہنا مہ اقراء بینات او رہفت روزہ تکبیر

کا

جواب

تحریر: علی اکبر شاہ

۵

پہلی اشاعت سنہ ۱۹۸۸ء

دوسری اشاعت سنہ ۱۹۸۹ء

تیسری اشاعت سنہ ۱۹۹۱ء

چوتھی اشاعت سنہ۱۹۹۲ ء

پانچویں اشاعت سنہ ۱۹۹۳ء

۶

نقش آغاز

فروری سنہ ۱۹۸۸ء میں اقراء ڈائجسٹ کا "شیعیت نمبر " اور بینات کا ایک "خصوصی نمبر شائع ہوا ۔دونوں ہی نے مولا نا منظور نعمانی کی ایک کتاب کہ جو "الفرقان لکھنو" کے خاص نمبر کی صورت میں شائع ہوئی تھی ،دوبارہ من وعن شائع کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقراء میں شیعوں کے خلاف او ربھی مضامین ہیں خاص طور سے مفتی ولی ٹونکی کا " نقش آغاز" قابل ذکر ہے کہ جس میں اس نے شیعیت کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا ہے ۔

"الفرقان لکھنو " کے خاص نمبر کے شروع میں "نگاہ اولین "کا عنوان ہے اس میں شیعیت کو سب سے بڑا فتنہ قراردکے کر عام مسلمانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ متحد ہو کر اس فتنہ کا قلع قمع کردیں ۔ اور اس کے مقدمہ میں بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شیوں سے جنگ جہاد اکبر ہے اور ان سے جنگ میں ہمارا جو آدمی مارا جائے گا وہ شہید ہوگا کیونکہ یہ کافروں میں سے ہے لہذا ان پر تلوار اٹھانا جائز ہے ۔ان کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں اور جو شک کرے وہ خود بھی کافر ہے ۔۔۔۔۔یہ تھی اس زہریلے مقدمہ کی ایک جھلک ۔

مولانا منظور نعمانی کے اس مقدمہ کے بعد "استفتاء" ہے جس میں شیعہ اثناعشریہ کے موجب کفرتین عقائد کا خاص طور سے اور بڑی تفصیل کے

۷

ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے ار انھیں عقائد کی بنیاد پر جہلا دین سے فتوے طلب کئے گئے ہیں ۔ وہ تینوں عقیدے یہ ہیں

۱:- حضرات شیخین کے بارے میں کہ وہ کافر ومنافق تھے اور ان دونوں کی بیٹیاں حضرت عا‏ئشہ و حضرت حفصہ بھی کافرہ اور منافقہ تھیں ۔

۲:- قرآن کے بارے میں کہ اس میں ہر قسم کی تحریف ہوئی ہے ۔

۳:- ختم نبوت کے بارے میں کہ یہ اس کے منکر ہیں ۔

موجب کفر عقائد کی تفصیلی بحث کے بعد شیعہ اثناعشریہ کے بارے میں متقدمین اور متاخرین اکابر علماء امت اور فقہائے کرام (بقول منظور نعمانی) کے فیصلے اور فتوے ہیں ۔ ان کےنام ملاحظہ ہوں ۔

۱:- امام ابن حزم اندلسی متوفی سنہ ۴۵۶ ھ ۔ ۲:- قاضی عیاض مالکی متوفی سنہ ۵۴۴ھ ۔ ۳:- شیخ عبدالقادر جیلانی متوفی سنہ ۵۶۱ ھ ۔ ۴:- امام ابن تیمیہ جنبلی متوفی سنہ ۷۳۸ ھ ۔ ۵:- علامہ علی قاری متوفی سنہ ۱۰۱۴ ھ ۔ ۶:- علامہ بحرالعلوم لکھنوی ۔۷:- علامہ کمال الدین المعروف با بن الحام ۔۸:- فتاوی عالمگیر ی (جسے اورنگ زیب کے حکم سے ملاؤں کی ایک جماعت نے مرتب کیا )۔۹:- علامہ ابن عابد ین شامی ۔۱۰:- مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی (لکھنو کے شیعہ فسادات کی جڑ ۔۔۔کہ جس کو مرے ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا )۔

اس کے بعد دور حاضر کے ہندوستان کے اصحاب فتوی اور دینی مدارس کے فتاوی وتصدیقات ہیں جن کی طویل فہرست کو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں ۔ پھر پاکستان کے ممتاز مراکز افتا اور اصحاب علم فتوی کے فتوے اور تصدیقات درج ہیں ۔

ہم صرف پاکستانی جہلا دین کے فتوی اور تصدیقات کا عکس پیش کررہے

۸

ہیں کیونکہ سب فتوے پیش کئے گئے تو اس میں تقریبا ۱۰۰ صفحات ہوجائیں گے جس کی گنجائش نہیں ۔

ہم پہلے باب میں اقراء ڈائجسٹ کے نقش آغاز اور اصل کتاب (جوکہ اقراء اور بینات میں شائع کی گئی ہے ) کے نقش اولین کا جواب دیں گے اور پھر ان تین عقائد پر گفتگو کریں گے جن کی وجہ سے شیعہ اثناعشریہ کو کافر قرار دیاگیا ہے ۔

یہ بیوقوف شیشہ کے گھر میں بیٹھ کر مضبوط اور مستحکم قلعے پر پتھر پھینکتے ہیں جب ان پر شیعہ دشمنی کا دورہ پڑتا ہے تویہ خانہ خدا کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے ۔خانہ خدا کے دروازے کو ایسے بینروں اور پوسٹروں سے سجاتے ہیں کہ جن پر فساد پھیلانے کی ترغیب اور شیعیت پر الزامات اور بہتان تراشیاں ہوتی ہیں ۔ ۔۔۔کچھ تو تفنن طبع کا ثبوت بھی دیتے ہیں ۔مقدس امام بارگاہوں کو " ایمان بگاڑئے " لکھتے ہیں اور مزید کرم فرماتے ہوئے انھیں عیاشی کے اڈے قراردیتے ہیں ۔۔۔۔ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ کہاں مسجد کا دروازہ اور کہاں بیہودہ باتیں ۔ ۔۔۔مگر یہ تو ہم سوچ رہے ہیں حقیقت تویہ ہے کہ اس مسجد اور مدرسہ کے در ودیوار ان باتوں سے مانوس ہیں ۔

میر تقی میر نے شاعرانہ ترنگ میں مجازا ایک بات کہہ دی تھی ۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اور انھیں میر صاحب کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ گرہ میں باندھ لی اور غالبا یہ کسی رافضی کی پہلی بات تھی کہ جو انھیں اچھی لگی اور نوبت یہ آئی کہ

۹

ان سے بھی پیروی میر ہو ا کرتی ہے

یہ بھی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں

اور قیامت یہ ہے کہ گواہی مسجد اور مدرسہ کے حجرے دیتے ہیں ۔

جہاں تک امام بارگاہوں کاسوال ہے تو ان کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔وہاں کوئی تقریب ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں کسی کے آنے پر پابندی مجلس ہوتی ہے تو خوتین کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے اگر صرف تبرکات کی زیارت کاسلسلہ ہوتا ہے تو عورتوں اور مردوں کی الگ قطاریں لگتی ہیں ۔ ہزاروں لاکھوں کے جلوس کے ساتھ ہزاروں خواتین بھی ساتھ ہوجاتی ہیں مگر مجال نہیں کہ ذرا بھی بے حرمتی ہوجائے ۔

یہ فسادی اپنی تخریبی سوچ اورمخصوص حلئے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ فی سبیل اللہ فساد پھیلا ؤ اور اپنے چھوٹے چھوٹے قدوں کو بڑا کرو اور پھر اس فساد کا معاوضہ ڈالر اور ریال کی شکل میں وصول کرو ۔۔۔۔۔ ذرا غور تو فرمائیے کہ فتنہ کی جڑ مولوی عبد الشکور لکھنوی (جو واصل جہنم ہوچکا ہے ) کے اگلے ہوئے لقموں کو چبانے والے مولوی منظور نعمانی کی فتنہ سامانی کو ایک تواتر کے ساتھ لکھنو (ہندوستان) سے پاکستان درآمد کیا جارہا ہے ۔مگر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے ؟شیعہ تو پہلے بھی بر صغیر پاک وہند میں رہتے تھے اور انہی تیوروں سے اب بھی رہ رہے ہیں کہ جیسے پہلے رہتے تھے ۔اب کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی سوائے انقلاب ایران کے ۔۔۔۔مگر یہ انقلاب ایران ہی تو ہے کہ جو شہنشاہیت پر قیامت بن کے ٹوٹا ہے اب سعودی شہنشاہیت اس کی زد میں ہے ۔خلیجی ریاستوں کے شيخ پریشان ہیں ۔ انھیں ایسے ایجنٹوں کی بہت ضرورت ہے

۱۰

کہ جو ایران کے طاقتور پڑوس میں ان کےمفادات کےلئے کام کرسکیں چنانچہ پاکستان یمں سواد اعظم کا ٹولہ سعودی آقاؤں کی ایما پر پاکستان کے شیعوں کے خلاف یہاں کے عوام کو ورغلا نے کے کام پر لگا ہوا ہے تاکہ ایرانی انقلاب کی حمایت کے ایک طاقت ور عنصر کو کمزور کردیا جائے اور ساتھ ساتھ آقائے خمینی اور ایرانی انقلاب کے خلاف بھی مہم جاری ہے تاکہ وہ سنی مسلمان کہ جو ایرانی انقلاب سے متاثر ہیں بد ظن ہوجائیں ۔

یہ اپنی مکروہ سوچ کے علاوہ اپنے مکروہ حلیئے سے بھی پہچانے جاسکتے ہیں ۔ ان کے سرگنجے ہوتے ہیں اور کجھور کی یا کپڑے کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی گول ٹوپیاں پہنتے ہیں اور جب فیشن کے موڈ میں ہوتے ہیں تو کلف لگی ہوئی چوگوشی ٹوپیوں کو سروں پر کھڑا کرلیتے ہیں ۔ بڑی سر سبز اور شاداب دارھیاں رکھتے ہیں اور مونچھوں کی جگہ پر روز استرا پھیرتے ہیں ۔ کندھے پر ریشمی خانہ دار رومال پڑا رہتا ہے ۔پیٹ عام طور سے بھاری ہوتاہے ۔گھٹنوں تک سفید کرتا اور اس کے نیچے اونچی واٹنگی شلوار پہنتے ہیں ۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ جس مولوی کی شلوار جتنی اونچی ہوتی ہے اتنا ہی وہ شقی القلب ہوتا ہے ۔

مومن صادق کی پہچان یہ کہ کہ خشیت الہی سے اس کا چہرہ زردی مائل رہتا ہے مگر ان کا چہرا خاصا کھایا پیا لگتا ہے ۔چنانچہ جوش ملیح آبادی کو ان کے یہ چہرہ اچھا لگا اور انھیں کہنا پڑا ۔

وضو کے فیض سے سر سبز داڑھی

خدا کے خوف سے چہرہ گل تر

آخر میں ہماری تجویز ہے کہ ہمارے صدر صاحب اس مخلوق کو ایک بحری جہاز میں بھرکر سعودی عرب کی طرف روانہ کردیں اور اگر سعودی حکومت انھیں

۱۱

قبول کرنے پر تیار نہ ہو تو واپسی میں کراچی کی بندرگاہ آنے سے پہلے ہی جہاز کے پیندے میں بڑا سوراخ کردیا جائے ۔۔۔۔۔

ہم نے" اقراء" اور " بینات " کا جواب ختم ہی کیا تھا کہ کہ ۴ اپریل سنہ ۱۹۸۸ کا" ہفت روزہ تکبیر " سامنے آیا ۔جس میں ایک نام نہاد اسکالر کا بے شرمی سے لبریز انٹرویو چھپا ہے ۔چنانچہ اس کا جواب بھی شامل کیا جارہا ہے

علی اکبر شاہ

مئی سنہ ۱۹۸۸ء

۱۲

فتنہ سامانیاں

اقراء ڈائجسٹ " شیعیت نمبر " کے نقش آغاز اور ماہ نامہ فرقان کی "نگاہ اولین "سے اقتباسات :-

"اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور فتنوں سے بعض فتنے انتہائی شدید اور خطرناک تھے مگر ان میں بھی روافض کا فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ۔اس فتنہ کی جڑیں مضبوط گہری اور بہت لمبی ہیں ۔ اس فتنہ کا بانی ابن سبا تھا ۔ جس نے اہل بیت کےفضائل بیان کرکے ان کا سہارا لینے کی کوشش کی ۔اسی نے صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کو الگ الگ طبقہ ثابت کرنے کی کوشش کی ۔

جس طرح دوسرے فتنوں کا مقابلہ علمائے دیوبند نے کیا اسی طرح اس فتنہ کی سرکوبی بھی اللہ تعالی نے اسی علماء حق کے قافلے کے نام لکھ دی ہے حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی فاروقی نے جس طرح اس فتنہ کے عقائد وعزائم کا اظہار کیا ۔ ان کے کفریات کا ظاہر کیا ۔اس پر وہ امام اہلسنت اور قائد اہلسنت کہلائے جاتے ہیں ۔ ان کو اللہ تعالی نے اس فتنہ کے مقابلے کا خاص ذوق اور ایک درد عطا کیا تھا ۔حضرت مولانا قدس سرہ نے ساٹھ سال پہلے ان کے کفر کافتوی دیا تھا اور دیوبند کے بڑے بڑے علماء نے اس پر دستخط فرما کر اس کی تصدیق کی ۔

۱۳

آج کے اس دور میں جب فتنہ روافض نے خمینی کی شہ پر سرابھارا تو اللہ تعالی نے دیوبند کے ایک فرزند کو اس کام کے لئے کھڑا کیا "

"ہم اپنے تمام قارئین اور سنی علماء سے یہ گذارش کریں گے کہ وہ اس استفتا اور فتوی کا بغور مطالعہ فرمائیں اور روافض کے عقائد سے آگاہی حاصل کریں ۔ یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی اور مکر وفریب پررکھی گئی ہے ۔اس کی سازشوں سے خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی اس کا شکار نہ ہونے دیں ۔

اس موقع پر ہم ارباب اقتدار سے یہ بھی گزارش کریں گے کہ اس نے مسلسل شیعہ نوازی کاجو رویہ اختیار کا ہوا ہے اسے چھوڑدے اور سنی مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہ بنے اور شیعوں کے ساتھ وہ معاملہ کرے جو کسی اقلیت کےساتھ کیا جاتا ہے ۔ان شیعوں کو نوازنے کی پالیسی چھوڑ کر ان کو لگام دے "

(نقش آغاز ،۔اقراء کا خصوصی شیعیت نمبر )

"اسلام کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے ہے کہ جن داخلی فتنوں اور منافقانہ تحریکوں سے اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے ان کا سرچشمہ اور ان میں سب سے زیادہ طویل العمر اور سخت جان فتنہ شیعیت ہے ، جسے ہماری شامت اعمال کے طور پر اس زمانہ میں نئی زندگی ملی ہے لیکن شاید یہ نئی زندگی مستقبل میں اس کے لئے " افاقتہ الموت" ثابت ہو ،البتہ اس کا انحصار سنت اللہ کے مطابق اس باپ پر ہے کہ کتنی جلدی ہماری قوم اس فتنہ کی سنگینی کو صحیح طور پر سمجھتی ہے ، اور اس کے شرسے اپنی حفاظت کیلئے کتنے عزم وارادہ ،کتنی غیرت وحمیت اور کتنی چستی وبیداری کا ثبوت دیتی ہے ۔

۱۴

امت مسلمہ کو اس پر انے اور مکار دشمن کی حقیقت سے صحیح طور پر باخبر کرنے اور غیرت وجراءت مندی کےساتھ اس فتنہ کے فیصلہ کن مقابلہ پر اسے آمادہ کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی الفرقان کیا یہ خاص نمبر ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے " (نقش اولیں)

شاید آپ "فتنہ "اور ظلم کے خلاف مزاحمت میں فرق کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ کے خیال میں ظالم کو ظالم کہتے رہنا فتنہ پروری ہے ۔

آپ کے خیال میں شیعیت وہ فتنہ ہے جس کی جڑیں مضبوط ،گہری اور لمبی ہیں " آپ سمجھتے ہیں کہ شیعیت اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں میں سب سے زیادہ "طویل العمر اور سخت جان " ہے مگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ فتنہ تو شجر ملعونہ "ہے کہ جس کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں اور عمر بھی طویل نہیں ہوتی ۔شیعیت تو "شجر طیبہ "ہے کہ جس کی جڑیں گہری ہیں اور شاخیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔شیعیت کی جڑوں کی مضبوطی ،گہرائی ،طویل العمری اور سخت جانی ہی تو اس کے حق ہونے کی دلیل ہے ۔

اب تو مدتیں گزرگئیں ابن سبا کا تذکرہ کرتے ہوئے ۔آپ کب تک اس بیجان افسانوی کردار کو شیعیت کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے کیا افسانوی کردار کو شیعیت کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے کیا افسانوی کردار سے تاریخ کی حقیقتیں چھپ سکتی ہیں ؟

آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ شیعیت کا بانی ابن سبا نہیں تھا بلکہ شیعیت کا جود تو اتنا ہی قدیم ہے کہ خود جتنا اسلام کواور" صحابہ کرام"

اور"اہلبیت" کو الگ الگ طبقہ ثابت کرنے کی کوشش بے چارے ابن سبا نے نہیں کی ہے بلکہ یہ تونام ہی ظاہر ہے کہ طبقے الگ الگ تھے اور تقسیم فطری تھی ۔

جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دفعہ اعلان نبوت

۱۵

کیا تو آپ کی رفیقہ حیات جناب خدیجہ نے فورا صدق دل سے تصدیق فرمائی اور اپنے شوہر کے مشن کی خاطر ہر قربانی دینے پر کمر بستہ ہوگئیں اور اس گھر میں پرورش پانے والا ایک بچہ کو جو آنحضرت کا عم زاد تھا ۔ ان کے پیچھے اس طرح چلتا جیسے اونٹنی کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔اعلان نبوت کےبعد بھی اس طرح چلتا رہا ۔ یہ بچہ علی رسول کے چچا ابو طالب کا بیٹا تھا ۔خدیجہ نے اپنی ساری دولت شوہر کے مشن پر قربان کردی اور عرب کی یہ ملکہ اپنے شوہر کے دکھ درد میں شریک ہوگئی اور علی ابن ابی طالب اپنے بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد ونصرت کرنے لگے ۔

آنحضرت باہر نکلتے تو کفار کے بچے پتھر مارتے اور علی علیہ السلام ان کو مار بھگاتے ۔

دعوت ذوالعشیرہ میں بھی صرف اسی بچے نے رسول اللہ سے نصرت کا وعدہ کیا جب کہ اس دعوت میں بڑے بڑے بزرگ موجود تھے ۔

خدیجہ اورعلی بس یہی تھے ابتدائی اہلبیت ۔پیکر ایثار ووفا اور پھر یہ دعوت اسلام گھر سے باہر گئی تو غیروں نے اسے قبول کرنا شروع کیا اور تھوڑے ہی دنوں میں کچھ لوگ مسلمان بن گئے اور یہی اغیار ابتدائی قسم کے صحابہ کہلاتے ہیں مگر ان میں اسلام کے لئے یکساں جذبات نہ تھے کوئی انتہائی مخلص تھا اور صدق دل سے اسلام لایا تھا تو کسی کے آگے اپنی مصلحتیں تھیں اور اس بات کو زمانے نے بھی ثابت کردیا ۔

یہ تھی صحابہ اور اہلبیت کی فطری تقسیم کیونکہ جگر جگر ہے ۔ ديگر دیگر ہے اور ابن سبا کے افسانہ کا جو زمانہ بتا یا جاتاہے وہ بہت بعد کا ہے ۔یہ تقسیم تو بالکل شروع سے چلی آرہی ہے لہذا ابن سبا سے اس تقسیم کا کوئی افسانوی تعلق بھی قائم نہیں ہوسکتا ۔

۱۶

لوگ شامل ہوتے رہے اور کارواں بنتا رہا ۔صحابہ کرام کی تعداد بڑھتی رہی ۔ ادھر رسول کی پیاری بیٹی کی جو سیرت وکردار میں اپنی ماں خدیجہ (رض) کیطرح تھی کا عقد علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) سے ہوا اور قدرت نے آنحضرت کو دو نواسے عطا کئے اور اس طرح سے اہلبیت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ۔

صحابہ کرام میں سے وہ بزرگ کہ جن میں رضائے الہی کے حصول کے سوا کوئی اور جذبہ نہ تھا انھوں نے رسول کےساتھ ساتھ اولا رسول سے بھی عشق کیا اور ہمیشہ ان سے مخلص رہے ۔ ان مخلص صحابہ میں سلمان فارسی ابو ذر ،عمار یاسر اور مقداد سرفہرست ہیں اور سلمان تو اتنے قریب ہوئے کہ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ نے انھیں اپنے اہل بیت میں داخل فرمالیا

یہ اور اس طرح کے دوسرے صحابہ کرام کو جو اہلبیت کے کبھی مقابل نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ان کے جانثار بنے رہے ابتدائی شیعہ ہین جیسے جیسے اہل بیت کے مخالف نمایاں ہوتے گئے ان حضرات کی شیعیت بھی نمایاں ہوتی گئی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب صحابہ کا ایک گروہ اہلبیت کا سیاسی حریف بن کر سامنے آیا تو اہل بیت کے دامن سے وابستہ صحابہ کرام کی شیعیت بالکل واضح ہوگئی ۔

تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے والے ہرشخص کویہ جاننا چاہئیے کہ شیعیت کی تاریخ محبت و ایثار اور قربانیوں کی تاریخ ہے ،فتنہ پروری کی نہیں ۔ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق "شیعیت ایک ایسا اسلام ہے کہ جس نے علی (ع) جیسے عظیم انسان کی ایک "نہیں" نے اپنے آپ کو پہچنوایا اور تاریخ اسلام میں اپنی راہ متعین کی ۔ علی وارث محمد (ص) تھے اور ایسے اسلام کا مظہر جس میں

۱۷

عدل تھا اور حق ۔یہ"نہیں " کی آواز خلافت کی انتخابی کمیٹی کے سامنے بلندہوئی تھی یہ عبدالرحمن بن عوف کاجواب تھا اور یہ شخص جاہ پرستی اورمصلحت پسندی کا مظہر تھا "

عبدالرحمن بن عوف کا علی (ع) سے صرف اتنا سوال تھا کہ اگر تم سیرت شیخین پر چلنے کا وعدہ کرو تو خلافت تمہارے حوالے کردی جائے مگر علی (ع) کی ایک "نہیں" نے علی کی سیرت وکردار کو پوری دنیا پر واضح کردیا اور شیعیت کی راہ ہمیشہ کے لئے معین کردی ۔اس "نہیں " کے نتیجہ میں حضرت علی تیسری مرتبہ اپنے جائز حق سے محروم کردیئے گئے ۔اور بنوامیہ کے ایک بزرگ حضرت عثمان "ہاں" کرکے مسند رسول پر بیٹھ گئے ۔شیعہ صحابی جناب مقداد مسجد نبوی میں پکارا ٹھے کہ کاش ہمارے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ ہم اہل بیت کو ان کا حق دلا سکتے ۔ اگر ہمت ہو تو کہہ دیجئے کہ حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ فتنہ پھیلانے کی کوشش کی ۔

حضرت عثمان کے خلیفہ بننے کے بعد اہلبیت اور اسلام کا دشمن قبلیہ بنوامیہ مسلمانوں کے امور کا مالک بن گیا ۔لوگوں کے حقوق غصب کئےجانے لگے اورحکمرانوں طبقہ نے وہ تمام باتیں اختیار کرلیں کہ جنھیں مٹانے کے لئے اسلام آیا تھا پھر ایک شیعہ صحابی جناب ابو ذر کھڑے ہوگئے اور حکومت وقت کی پالیسیوں پرنکتہ چینی شروع کردی۔خلیفہ نے گبھرا کر انھیں شام کے اموی گورنر معاویہ کے پاس بھیج دیا ۔ یہ معاویہ کون تھا ؟ دشمن رسول (ص) ابو سفیان اور امیر حمزہ (رض) کا کلیجہ چبانے والی کا بیٹا ۔۔۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ اس نے قیصر وکسری کی روش اختیار کر رکھی تھی ۔ ابو ذر نے یہاں چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز دیکھا تو تڑپ اٹھے ۔وہ مسجد میں ہوتے یا گلی کوچے

۱۸

میں اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھاتے ۔لوگوں کو اسلام کی اصل روح سے آگاہ کرتے ۔ چنانچہ انھیں یہاں سے ایک بے کجادہ اونٹ پرسوار کرکے خلیفہ کے پاس روانہ کردیا گیا ۔جب آپ مدینہ پہنچے تو آپ ی رانیں زخمی تھیں ۔اب پھر خلیفہ کو ابوذر کی نکتہ چینی کاسامنا تھا ۔ لہذا انھوں نے ان کو ایک ویران مقام "ربذہ " کی طرف جلاوطن کردیا ۔ وہیں یہ صحابی رسول عالم مسافرت میں اس دنیا سے رخصت ہوا ۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں خلیفہ وقت نے ایک اور شیعہ صحابی حضرت عمار یاسر کو بھی تشدد کانشانہ بنایا ۔

دراصل یہ اور دوسرے مخلص صحابہ کرام تھے کہ جو اسلام کی تعلیمات کو مسخ ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور اس بات کا گہرا شعور رکھتے تھے کہ یہ سب کچھ محض اس لئے ہورہا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد خلافت ان کے اصل جانشین سے جدا کردی گئی تھی ۔تیسری خلافت کے دوران نوبت یہان تک پہنچی کہ کوفہ کے گورنے ولید بن عتبہ نے نشہ کی حالت میں صبح کی نماز دو کے بجائے چار رکعت پڑھادی اور پھر ایک مرتبہ جھوم کر نمازیوں کی طرف متوجہ ہوا کہ کہو تو دورکعت اور پڑھا دوں ۔بیت المال کو جو کبھی اللہ کا مال سمجھا جاتا تھا اب خلیفہ کو ذاتی ملکیت بن چکا تھا اور پھر ستم یہ کہ اس داد ہش کادائرہ صرف بنو امیہ تک محدود تھا ۔۔۔۔ مروان بن حکم کہ جسے اور اس کے باپ کو رسول اللہ نے مدینہ سے نکال دیا تھا ۔ اب پھر واپس بلالئے گئے خلیفہ نے مروان جیسے سیاہ کارکو اپن مشیر خاص بنالیا (تاریخ گواہ ہے کہ یہی مروان خلیفہ کو لے ڈوبا )یہ وہ صورت حالات تھی کہ جس پر عوامی رد عمل ہونا ضروری تھا کیونکہ ابھی ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی کہ جنھوں نے رسول اللہ کازمانہ دیکھا تھا اور وہ اسلام کی اصل روح کو سمجھتے تھے

۱۹

اور پھر وہ صحابہ کرام کہ جنھیں اہلبیت کی طرف رجحان رکھنے کے سبب شیعہ صحابہ کہا جاسکتا ہے اس عوامی رد عمل میں پیش پیش تھے مگر ابن سبا کہ جو اسی دور کی شخصیت بتائی جاتی ہے کے بارے میں اس عوامی رد عمل کے حوالے سے بات کیجاتی ہے تو اس کا کردار افسانوی لگتا ہے ۔۔۔خلیفہ سوم یا ان کے عمال کے خلاف جتنی شورشیں ہوتیں ان میں ابن سبا نام کا کوئی شخص نظر نہیں آتا ۔ہر جگہ مالک اشتر ،عمرو بن الحمق ،محمد بن ابی بکر (رضی اللہ علیھم) ہی پیش پیش نظرآتے ہیں ۔

حضرت عثمان کے بعد مسلمان حضرت علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے اور جب پہلی مرتبہ صحیح خلافت قائم ہوگئی تو وہی گروہ اس کے خلاف سرگرم ہوگیا کہ جو شروع ہی سے نہیں چاہتا تھا کہ خلافت کی مسند پر علی (ع) نظر آئیں،چنانچہ قصاص خون عثمان کا نعرہ لگا کر پہلے عائشہ بنت ابی بکر دختر خلیفہ اول حضرت علی (ع) کے مقابلہ پر آئیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد شام کے گورنر معاویہ بن سفیان نے ان سے جنگ کی ۔ ان دونوں جنگوں میں عام مسلمانوں کے علاوہ شیعہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں اپنے امام کے ہمرکاب تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے بڑے بیٹے جناب حسن علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے تو شیعہ ان سے وابستہ ہوگئے اور جب آپ نے معاویہ سے صلح کرلی تو بھی شیعہ آپ سے وابستہ رہے ۔

حضرت امام حسن علیہ السلام جب تک زندہ رہے معاویہ کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے اور آخر کار اس نے ان کی جان لے کر ہی چھوڑ دی ۔علی الاعلان کچھ نہیں کرسکتا تھا تو زہر دغا سے شہید کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ اب بادشاہت اس کی ہے ۔چنانچہ مرنے سے کچھ پہلے اپنے منحوس فرزند یزید لعنت اللہ

۲۰

علیہ کو ولی عہد نامزد کردیا ۔اپنی زندگی ہی میں اس کی ولی عہدی پر بیعت لے لی مگر حسین ابن علی علیھما السلام سے ایسے مطالبہ کی جراءت نہ کرسکا ۔

معاویہ کی وفات کے بعد یزید تخت نشین ہوا اوراس نے مدینہ کے گور نر کو لکھا کہ حسین ابن علی (علیھما السلام) سےبیعت کامطالبہ کیا جائے کہاں نواسہ رسول حسین ابن علی (علیھماالسلام) اورکہاں ابو سفیان کے پوتے یزید بن معاویہ کی بیعت -

چہ نسبت خاک راباعالم پاک

نواسہ رسول نے بیعت یزید کو ٹھوکر مارا اور خطرات سے بے نیاز ہو کر نکل کھڑے ہوئے تویہاں بھی شیعہ ساتھ تھے ۔۔۔۔۔

بہتر جانوں نے اس طرح جام شہادت نوش کیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ۔غیرت وعقیدت کامسئلہ نہ ہوتا تو جان بھی بچتی اور انعام بھی ملتا ۔

حسین علیہ السلام شہید ہوگئے ۔ ہزاروں شیعہ مختلف وجوہ کی بنا پر نصرت امام نہ کرسکے ۔بعد شہادت حسین (ع) ،سلیمان بن صرد کی سرکردگی می روضہ حسین (ع) پر گئے اور رات بھر گریہ زاری کرتے رہے ۔صبح ہوئی تو اہلبیت کے دشمنوں سےٹکرانے کے لئے چل دئیے ۔ اس اندوہناک واقعہ نے ان کی ضمیر کو اس طرح جھنجھوڑ ا تھا کہ اب ان میں جینے کی خواہش ہی ختم ہوگئی تھی ۔چنانچہ وہ دشمن کے خاتمہ پر تل گئے اور اس وقت تک دشمن کامقابلہ کرتے رہے جب تک کہ خود ختم نہ ہوگئے اور اس وقت تک دشمن کامقابلہ کرتے رہے جب تک کہ خود ختم نہ ہوگئے ۔چند افراد کے علاوہ سب ہی نے جان دیدی

ممتاز شیعہ مختار ثقفی کہ جو شہادت حسین علیہ السلام کے وقت پابند سلاسل تھے کی بیڑیاں کٹیں تو انھوں نے بھی قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کی ٹھانی اپنے گرد ہزاروں شیعہ اکٹھا کئے ۔پھر چن چن کر قاتلان حسین (علیہ السلام)کو تہہ تیغ کیا

۲۱

اس خونریزی کے دوران ہزاروں شیعوں نے جان ومال کی قربانی دی سانحہ کربلا کے بعد شیعیت کو ایک نئی زندگی ملی ۔قربانی کا ایک نیا جذبہ اور ولولہ ولائے اہلبیت کی بھر پور روشنی !

سانحہ کربلا کے تقریبا دوسال بدع یزید واصل جہنم ہوا ۔پھریزیدوں کی لائن لگ گئی ۔چہرے الگ الگ تھے مگر سب یزید ۔تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ کس مسند رسالت پر خلیفہ رسول کے نام سے کیسے کیسے کوڑھی چہرے نظر آتے ہیں ۔ مردان بن حکم ،عبدالملک بن مروان ،ولید بن عبد الملک ہشام بن عبد الملک اور پھران کے خونین گورنروں کا سلسلہ ،سب سے بڑھ کر عراق کا گورنر حجاج بن یوسف ،جس کے بارے میں مولانا مودودی عاصم بن ابی النجود کا قول بیان کرتے ہیں کہ " اللہ کی حرمتوں میں کوئی حرمت ایسی نہیں رہ گئی جس کا ارتکاب اس شخص نے نہ کیا ہو اور پھر مولانا وموصوف حضرت عمربن عبدالعزیز کا قول بیان فرماتے ہیں کہ " اگر دنیا کی تمام قومیں خباثت کا مقابلہ کریں اور اپنے اپنے سارے خبیث لےآئیں تو ہم تنہا حجاج کو پیش کرکے ان پر بازی لے جاسکتے ہیں ۔(خلافت و ملوکیت ص ۱۸۵، ۱۸۶)

پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہ ظلم وستم اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت عمربن عبدالعزیز چیخ اٹھے کہ۔

"عراق میں حجاج ،شام میں ولید مصر میں قرہ بن شریک ،مدینہ میں عثمان بن حیان ، مکہ میں خالد بن عبداللہ القسری ،خداوند تری دنیا ظلم سے بھر گئی ہے ، اب لوگوں کو راحت دے "۔(خلافت وملوکیت ۔۱۸۷ ۔ابن اثیر جلد ۴ ص ۱۳۷)

۲۲

کو مرتے وقت وصیت کی کہ حجاج بن یوسف کا ہمیشہ لحاظ کرتے رہنا ۔کیونکہ وہی ہے جس نے ہمارے لئے سلطنت ہموار کی ، دشمنوں کو مغلوب اور ہمارے لے خلاف اٹھنے والوں کو دبایا ۔"

(ابن اثیر جلد ۴ ص ۱۰۳ البدایہ جلد ۹ ص ۶۷ ،ابن خلدون جلد ۳ ص ۵۸)

ان یزون سے پہلے جن حضرات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ تو غلطی کرتے نہیں تھے ۔ خطا اجتہادی کرتے تھے ،مگر ان وحشی درندوں کے بارے میں کہ جن کے مظالم پر عمر بن عبدالعزیز بے اختیار چیخ اٹھے کہ خداوند تری دنیا ظلم سے بھر گئی ،اب تو انھیں راحت دے ۔یہ مولوی کیوں خاموش ہے ؟ ان بے رحم خلیفوں اور ان کے درندہ صفت گورنروں کے ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والے شیعہ کو تو اسلام دشمن اور فسادی کہا جاتا ہے مگر ان ظالموں کےبارے میں زبان خاموش ہے ۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے کہ ظلم کی حمایت ان کی میراث ہے ۔

ہندوستان میں بھی شیعوں پر کچھ ظلم نہیں ڈھائے گئے ۔ اس سلسلہ میں فیروزشاہ تغلق کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے جس نے شیعوں کو قتل کرایا ۔مختلف نوعیت کی سزائیں دیں ۔ جزیہ تک عائد کردیا ۔

اور اب پاکستان میں سود اعظم اہلسنت کےنام سے ایک یزیدی گروہ پھر سرگرم عمل ہے ،

اس سلسلہ کلام کے آخر میں ہم یہ عرض کرتے ہوئے کہ شیعیت مظلومیت اور مظلوم کی حمایت کی تاریخ ہے مولانا مودودی کی تحریر پیش کرتے ہیں "

"بنو امیہ کے خلاف ان کےطرز حکومت کی وجہ سے عام مسلمان میں جو نفرت پھیلی اور اموی وعباسی دور میں اولاد علی (ع) اور ان کے حامیوں پر ظلم وستم کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ہمدردی کے جو جذبات پیدا ہوئے انھوں نے شیعی دعوت کو غیر معمولی طاقت بخش دی " (خلافت وملوکیت ص ۲۱۱)

آپ کایہ فرمانا کہ فتنہ روافض نے خمینی کہ شہ پر سر ابھارا ہے ۔۔۔۔۔۔تو جناب یہ دبا ہوا کب تھا ،یہ تو آزادی کا دور ہے ۔بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں بھی یہ سرابھارتا رہا ہے ۔اور کٹتا رہا ہے ۔ ۔۔۔۔پاکستان اور ہندوستان کے شیعوں نے کون سی نئی

۲۳

گستاخی کی ہے جس کی بنا پر سر " ابھارنے " کا محاورہ استعمال کیا جارہا ہے ۔مجلس ،ماتم اور جلوس جو پہلے تھا سواب بھی ہے اور اسی طرح سے ہے کہ جیسے پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔دراصل آپ کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ شیعیت نے ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنے آپ کو پہچنوایا ہے ۔آپ کو تکلیف یہ ہے کہ اسلام اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہوا تو شیعہ کے ہاتھوں ۔اور صرف ایران ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر اس کے اثرات پڑے ہیں ۔خاص طور سے شیعوں میں ہر جگہ ایک انقلابی طبقہ وجود میں آگیا ہے ۔۔۔۔۔آپ کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عرب ریاستوں کے بد معاش شیخوں اور سعودی عرب کے شاہی لٹیروں کو خطرات لاحق ہیں ۔۔۔۔۔اور یہ سب آپ کے آقا ہیں ۔

آپ کے دلوں میں ابو سفیان والا اسلام نہ ہوتا تو آپ بھی اسلامی انقلاب سے عام مسلمانوں کی طرح خوش ہوتے ، مگرآپ خوش ہونے کے بجائے عام مسلمانوں کو آقائےخمینی اور اس انقلاب سے بد ظن کرنے کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں ۔

آپ نے ارباب اقتدار سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ شیعہ نوازی کا رویہ

۲۴

چھوڑیں اور شیعوں کے ساتھ وہ معاملہ کریں جو کسی اقلیت کے ساتھ کیاجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ارباب اقتدار تعلیم یافتہ ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ اقلیت کاسا سلوک کیسے کرسکتے ہیں ۔ پڑھے لکھے باشعور حکمراں تو اقلیتوں کے جذبات کازیاد ہ خیال رکھتے ہیں تاکہ انھیں یہ احساس نہ ہو کہ محض اقلیت ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے ۔ آئین کی رو سے بھی بلا امتیاز مذہب وعقیدہ تمام شہریوں کویکساں حقوق حاصل ہیں ۔ دراصل آپ کو شیعوں کے معاملے میں اقلتیں اس لئے یاد آئیں کہ آپ ذہنی طور سے اسی سڑے ہوئے زمانہ کی یادگار ہیں کہ اقلیتوں کی ذمی بنا کر ان سے غلاموں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا اور آپ شیعوں کو بھی دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتے ہیں ۔

ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں اور پہلے بھی بتاتے رہے ہیں کہ ہوش میں آئیے ۔سعودی ریال کا اتنا نشہ اچھا نہیں ۔آپ اس نشہ میں اپنے گھر کو کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ آپ کسے اقلیت قرار دے رہے ہیں ؟ ملک کی چوتھائی آبادی کو اور وہ بھ کوئی آپ جیسے خرکاروں کی آبادی نہیں بلکہ دانشوروں ،ادیبوں ،فنکاروں ،سیاست دانوں اور اعلی عہدیداروں کی آبادی ہے ۔آپ اس کریم کو نکال دیں گے تو آپ کے پاس بچے گا کیا ؟ یاد رکھئیے کہ ان کی وفا داریاں ملک سے اسی وقت تک برقرار رہتی ہیں کہ جب تک انھیں اپنے مخصوص روایات کے ساتھ عزت و آبرو سے جینے دیا جائے ورنہ بغداد سے لالوکھیت تک ایک ہی کہانی ہے ۔۔۔۔۔بات زیادہ بڑھی تو پھر نہ کہیں جماعت اسلامی نظرآئے گی اور نہ سواد اعظم اور نہ ہی ہفت روزہ تکفیر ۔

۲۵

باعث تکفیر

دیوبند کے فتنہ پرداز منظور نعمانی نے شیعہ اثنا عشریہ کے تین خاص عقیدوں کا ثبوت (بزعم خود)ان کی بنیادی اور مستند کتابوں کے حوالہ سے پیش کرکے اصحاب فتوی سے ان کے بارے میں کفر کے فتوے لئے ہیں ۔ اس کے بقول ان تینوں عقیدوں کی نوعیت یہ ہے کہ ان سے دینی حقیقتوں کی تکذیب ہوتی ہے جنھیں علماء کی اصطلاح میں " قطعیات: اور "ضروریات دین" کہا جاتا ہے اور وہ تین عقیدے یہ ہیں ۔

۱:- شیعہ اثنا عشریہ "شیخین " یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو کافر سمجھتے ہیں ۔

۲:- شیعہ اثناعشریہ قرآن میں ہرقسم کی تحریف کے قائل ہیں ۔

۳:- شیعہ اثنا عشریہ عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کےمنکر ہیں ۔

۱:- عقیدہ تکفیر شیخین:

مسلمانوں کے ہاں طریقہ ہے کہ جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اس سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھوایا جاتا ہے اور اس طرح سے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے ۔پھر اسے ایمان وعقیدہ کی باتیں سکھائی جاتی ہیں ۔ایمان مفصل ومجمل کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

۲۶

ایمان مفصل :-

آمنت باللہ وملآئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالی والبعث بعد الموت ۔

میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کی کتابون پر ار اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد ج اٹھنے پر ۔

یہاں کہیں نہیں ہے کہ میں ایمان لایا ابو بکر کے ایمان لانے پر اور میں ایمان لایا عمر کے ایمان لانے پر ۔۔۔۔۔۔تو پھر کسی مسلمان کو ان دونوں کی تکفیری پرکس اصول کے تحت کافر قرار دیا جاسکتا ہے ؟

ایمان مجمل:-

" آمنت بااللہ کما ھو باسمائہ وصفاتہ وقبلت جمیع احکامہ اقرار باللسان وتصدیق بالقلب "

میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے سارے حکموں کو قبول کیا ۔زبان سے اقرار ہے اور دل سے یقین ہے ۔

یہاں پر بھی کہیں ابو بکر و عمر کا تذکرہ نہیں ہے ،تاہم سارے حکموں کو قبول کرنے والی بات قابل غور ہے ۔۔۔۔مگر پورے قرآن میں کہ یہ حکم خدا کو معلوم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کہیں اشارۃ " بھی ابو بکر وعمر کا تذکرہ نہیں ہے ۔

دراصل یہ تاریخ کا مسئلہ ہے مگر دیوبند کے منظور نعمانی نے اسے قرآن

۲۷

کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اثنا عشری شیعہ کو کافر قراردیا جاسکے اس سلسلہ میں اس نے قرآن کی بہت سی آیتیں اس دعوے کے ساتھ پیش کی ہیں کہ یہ آیتیں حضرات شیخین کے بارے میں نازل ہوئیں اور یہ ثابت کرے کی کوشش فرمائی ہے کہ شیخین کے ایمان سے انکار کا مطلب یہ ہے کہ ان دینی حقیقتوں کی تکذیب کی جارہی ہے کہ جنھیں علماء کی اصطلاح میں" قطعیات " اور "ضروریات دین" کہا جاتا ہے ۔

یہ بات ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا ہے کہ قطعی بات وہ کہلا تی ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو اور ضروریات وہ ہوتی ہے ہیں کہ جن کے بغیر کہیں کوئی رخنہ پڑے ۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن میں دور رسالت کی صرف دوہستیوں کا ان کے نام کے ساتھ تذکرہ گیا گیا ہے ،ابو لہب و زید بن حارثہ ۔۔۔۔ ان کے علاوہ اس دور کا کوئی نام قرآن میں نظر نہیں آتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ جن میں شیخین کےبارے میں بغیر نام لئے کچھ کہا گیا ہے ۔مگر جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی نہیں ،چنانچہ مفسرین نے اپنے اپنے فہم وفراست اور رجحانات کے مطابق ان باتوں سے معافی ومطالب اخذ کئے ہیں ۔ ۔۔۔۔ اگر کسی آیت میں اللہ تعالی کا صحابہ کرام سے راضی ہوجانے کا تذکرہ ملتاہے تو ساتھ ساتھ اس "رضا " پر گفتگو کی بھی خاصی گنجائش ہے ۔۔۔۔غار والی آیت میں جہاں مفسرین حضرت ابو بکر کی فضیلت کا پہلو نکالتے ہیں وہاں ایسے مفسرین بھی ہیں کہ اسی آیت سے وزنی دلیلوں کےساتھ ان کے ایمان کی کمزوری کا پہلو بھی نکالتے ہیں ۔

۲۸

" ایمان اوراسلام اور کفر کی حقیقت اور ان کی حدود "کے عنوانات کے تحت منظور نعمانی نے ایک عبارت لکھی ہے اور اسے لکھ کر وہ خود آپ اپنے جال میں آگئے ۔۔۔۔۔۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو دل سے اللہ کارسول مانا جائے جو وہ اللہ کی طرف سے بتلائیں اس سب کی تصدیق اور اس کو قبول کیا جائے اور اس پر ایسا یقین کیاجائے جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو ۔ ان کی کسی ایک بات کا انکار اور یقین نہ کرنا موجب کفر ہوگا ۔جن مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا اور ان کوآپ کی تعلیم بالواسطہ پہنچی (جیسا کہ ہمارا حال ہے ) ان کے لئے یہ حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف انھیں تعلیمات اور احکام کی ہوگی جو ایسے قطعی اور یقینی طریقہ سے ثابت ہیں جن میں شک وشبہ یا تاویل کی گنجائش نہیں ۔ مثلا یہ بات کہ حضور نے شرک وبت پرستی کے خلاف توحید کی تعلیم دی ، قیامت وآخرت ،جنت ودوزخ کی خبروں ، ایک مستقل مخلوق کی حیثیت سے فرشتوں کے وجود کی اطلاع دی ۔

قرآن پاک کو ہمیشہ محفوظ رہنے والی اللہ کی کتاب اور اپنے کو اللہ کا آخری نبی بتلا یا ۔جس کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی نبی نہیں آئے گا ،اور مثلا پانچ وقت کی نماز ، رمضان کے روزوں اور زکواۃ وحج کےفرض ہونے کی تعلیم دی اور اس طرح کی بہت سی دینی حقیقتیں اور دینی احکام ہیں جن کے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تو کسی کے مومن ومسلم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسی تمام باتوں کی اپنے علم کے مطابق (اجمالی یا تفصیلی )تصدیق کی جائے ۔ان کو دل سے مانا جائے ، قبول کیا جائے '۔

۲۹

اب اس تحریر کے بعد ایمان شیخین پرایمان لانے کی "قطعیات " میں شمار کرنے کی گنجائش رہ جاتی ہے ؟ ان کے بارے میں تو کوئی حکم ہی نہیں ہے نہ قطعی نہ غیر قطعی اللہ کے حکموں کو قبول کرنے ( ایمان مجمل کے مطابق) کا دوسرا بڑا ذریعہ حدیث ہے اور حدیث میں بھی کہیں یہ نہیں ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ خبردار شیخین کے ایمان پر شک نہ کرنا ورنہ تم کافر ہوجاؤگے ۔

اگر مطلب براری کے لئے ان حدیثوں کا سہار ا لیا جائے کہ جن میں شيخین کے فضائل بیان ہوئے ہیں تو یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ دور بنی امیہ میں سیاسی ضرورت کے تحت شیخین کی فضیلت کے لئے بہت سی حدیثیں گھڑی گئی ہیں اور پھر ایسی حدیثیں بھی ہیں جن سے شیخین کی شخصیت کے تاریک پہلو سامنے آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی قطعی بات تونہ ہوئی ۔پھر ایمان شیخین پر یقین کو قطعیات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔؟

آپ کے خیال میں صحابہ کرام پر ضروریات دین کی اصطلاح کا بھی اطلاق ہوتا ہے ۔کیونکہ "دین "صحابہ ہی کے ذریعہ سے مسلمانوں تک پہنچا ہے مگر ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ نے تو حصول دین کے لئے خود اپنی پسند کاراستہ اختیار کیا ہے ۔۔۔۔یہ آپ کی پسند معاملہ ہے اسلام کا نہیں ۔۔۔۔آپ نے خود سنگین غلطی کی اور شیعوں سے کہتے ہیں کہ تم کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے ہر صحابی کو معتبر جانا ، محض اس لئے کہ وہ رسول اللہ پر ایمان لایا اور انھیں دیکھا حجتہ الوداع تک صحابہ کی تعداد کم از کم ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ہر شخص "عادل" ہو ۔ پھر یہ کیا تماشہ ہے "الصحابہ کلھم عدول" یعنی تمام صحابہ عادل ہیں ،اور پھر اس کے آگے ایک او ر قیامت "اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم "

۳۰

یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان میں سے جس کی اقتد کروگے راستہ پاؤگے ۔

ذرا سوچئے تو کہ آج کے دور میں اگر رسول اللہ صلعم کی بیعثت ہوئی تی تو کیا گدھے گاڑی والا ،بس کنڈیکٹر ،دھوبی ،نائی ،قصائی ،ڈاکٹر ،انجینئر پروفیسر اور تاجر محض رسول اللہ پر ایمان لانے اور آپ کی زیارت کی وجہ سے صحابی ہوجاتا اور ہر ایک اسلام سے وابستگی، ذہنی سطح ، علمی استعداد ،نیکی وپارسائی غرض ہر لحاض سے برابر ہوجاتا اور پھر اپنی مرضی پر ہوتا کہ جس کی چاہے اقتدا کرے ،چاہے گدھے گاڑی والے کو اپناہادی بنادلے اور چاہے تو پروفیسر کو بات ایک ہی ہے ۔

آپ تو دور دراز کے تعلق رکھنے والوں کو بھی شرف صحابیت سے نوازتے ہیں اور ہر ایک کو ہدایت ورہنمائی کے قابل سمجھتے ہیں مگر سچی بات تویہ ہے کہ رسول اللہ سے قریب اور بعض بہت ہی قریب رہنے والے صحابہ سےبھی ایسے افعال سرزد ہوئے کہ جن کی بناپر ہر شخص کوان کے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے ۔

تاریخ داں اچھی طرح جانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کس نے رسول کی رسالت پر شک کیا اورگستاخانہ لہجہ میں بات کی ، اور کس نے دوران علالت انھیں سامان کتابت فراہم کرنے سے منع کیا اور کہا کہ یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ،ہمیں کتاب خدا کافی ہے اور کس کس نے رسول اللہ کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے جیش اسامہ میں شامل ہونے سے پہلو تہی کی اور کتنے صحابی ایسے تھے کہ جو رسول اللہ صلعم کا جنازہ چھوڑ کر خلافت کا مسئلہ طے کرنے سقیفہ بنو ساعدہ چلے گئے تھے ۔

۳۱

وہ کون سے بزرگ تھے جو کہ احد کے دن جب مسلمانوں نے راہ فرار کی ، پہاڑ پر بزکوہی کی طرح کودتے پھرتے تھے اور وہ کون صاحب تھے کہ جو ایسا بھاگے کہ تین دن کے بعد واپس ہوئے ، اور وہ کون سے حضرات تھے کہ جنھوں نے خیبر سے راہ فرار اختیار کی ۔ کہاں تک لکھا جائے ،اس طرح کی بیسوں باتیں خاص اور عام صحابہ سے منسوب ہیں ۔ ۔۔۔۔۔یہ خالص تاریخی مسئلہ ہے ، اب جس کا دل چاہے ان باتوں پر یقین نہ کرے اور ان سب کواپنا ہادی بنالے اور جس کا دل چاہے ان باتوں پر یقین کرے اور انھیں چھوڑ دے اور اگر صحابہ ہی سے دلچسپی ہے تو ایسے صحابہ کو پکڑئیے کہ جن کا دامن صاف ہے اور "ضرورت دین" کا مسئلہ حل کرلیجئے ۔ ورنہ اصل " ضرورت دین " تو رسول اللہ کا گھرانہ ہے ۔رسول اللہ نے تو بتا بھی دیا تھا کہ میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ایک کتاب اور دوسرے اپنے اہلبیت ان سے متمسک رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور علم کا دروازہ بھی دکھا دیا تھا مگر مسلمانوں کی قسمت کہ انہوں نے اس دروازے کو خود اپنے اوپر بند کرلیا ، قرآن کو پکڑ لیا اور اہلبیت کو چھوڑ دیا ، اور شیعہ سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم بھی انھیں چھوڑ دو اور انہیں " ضروریات دین" سمجھو کہ جنہیں ہم سمجھتے ہیں ، ورنہ تم ٹھہرے کافر۔

اگر بعض صحابہ وامہات المومنین کو نہ ماننے کی وجہ سے آپ کسی کو کافر ٹھہرائیں تو ٹھیک ہے ! ٹھہر ائیے ۔ہم بھی کچھ حوالے حدیثوں سے اور کچھ شہادتیں تاریخ سے پیش کئے دیتے ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ دیکھیں کس کس کو کافر قراردینے کی جراءت کرتے ہیں ۔

اس تفصیل میں جائے بغیر کہ رسول کی لخت جگر بی بی فاطمہ زہرا کو شیخین کی طرف سے کیا کیا دکھ پہنچے ،ہم صرف اتنا بتائیں گے کہ بی بی انہی دکھوں

۳۲

کے سبب رسول اللہ کے انتقال کےبعد ۶ مہینے سے زیادہ زندہ نہ رہسکی اور اس پورے عرصہ میں فریاد کرتی رہی اے بابا جان ! آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مجھ پر اتنے دکھ پڑے کہ اگر دن پر پڑتے تو رات ہوجاتا ۔ ہم ان دکھوں کی تفصیل میں اس لئے نہیں جارہے ہیں کہ مناظرے کی کتابون میں اس پر بڑی بحثیں ہوچکی ہیں اور اس چھوٹی سی کتاب میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ ہم یہاں صرف دوحقیقتوں کا تذکرہ کریں گے ۔

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ فاطمہ بنت رسول (س) ابو بکر سے اس قدر ناراض تھیں کہ اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا اور وصیت فرماگئیں کہ ابو بکر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ۔اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ رسول نے ارشاد فرمایا تھا کہ جس نے فاطمہ (س) کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔

حدیث شریف :-

"فوجدت فاطمة علی ابی بکر فی ذالک فهجد ته فلم تکلم حتی توفیت وعاست بعد النبی صلی الله علیه وسلم ستة اشهر فلما توفیت دفنها زوجها علی لیلا ولم یوذن بها ابا بکر وصلی علیها

(بخاری کتاب المغازی ،غزوہ خیبر)

ترجمہ :- تو حضرت فاطمہ اس مسئلہ میں ابو بکر سے ناراض ہوگئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک حضرت ابو بکر سے گفتگو نہ کی ، حضرت فاطمہ آنحضرت کی وفات کے بعد ۶ ماہ زندہ رہیں ، جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے شوہر حضرت علی (ع) نے انہیں رات ہی میں دفن کر دیا اور انہیں شریک ہونے کی اجازت دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ۔

"ابو الولید حدثنا ابن عینینه عن عمرو بن دینار عن ابن

۳۳

ابی ملیکة عن المسور ابن محزمه رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی "(بخاری شریف ،کتاب الانبیاء حدیث نمبر۹۵۳)

ترجمہ:- ابو الولید ابن عینییہ ، عمر بن دینار ،ابن اب ملیکہ حضرت مسور ابن محزمہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (س) میرے گوشت کا ٹکڑا ہے ، جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا ۔ اب غور فرمائیے کہ رسول اللہ کو غضب ناک کرنے والوں کا کہاں ٹھکانا ہے ؟ ایک اور مثال کہ جناب رسول خدا (ص) نے فاطمہ کے شوہر اور اپنے عم زاد کہ جنہیں مسلمان خلیفہ راشد سمجھتے ہیں سے بغض رکھنے والوں کےبارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ۔ ازالۃ الخلفاء میں ہے کہ :-

سلمان فارسی سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا ، تم حضرت کو کیوں چاہتے ہو ؟ انھوں کہا کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جس نے علی علیہ السلام سے دوستی کی اس نے مجھ سے دوستی کی اور جس نے علی علیہ السلام سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا ۔"

"عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ۔آپ حضرت علی سے فرمارہے تھے کہ مبارک ہیں وہ جو تم کو دوست رکھتے ہیں اور تمہارے معاملہ میں سچ کہتے ہیں اور بربادی ہے ان کے لئے جو تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری بابت جھوٹ بولتے ہیں ۔

ترمذی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ ہم (انصار )منافقوں

۳۴

کو حضرت علی علیہ السلام کے بغض سے پہچانتے ہیں "

"ام سلمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی علیہ السلام سے دوستی نہ کرے گا اور نہ کوئی مومن ان سے بغض رکھے گا "۔

یہ تمام روایتیں شاہ ولی اللہ دہلوی نے ازالۃ الخلفاء مقصد دوم مآثر علی ابن ابی طالب میں تحریر فرمائی ہیں ۔ اب یہ سواد اعظم والے جانیں کہ کیا شاہ ولی اللہ صاحب بھ کسی یہودی سازش کا شکار ہوگئے تھے کہ انہوں نے یہ روایتیں نقل کردیں ۔

ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رسول کی زندگی ہی میں لوگوں کے بغض کا شکار تھے اور بغض رکھنے والے ان روایات کی رو سے ظاہری مسلمان تھے ۔

رسول اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی حضرت علی مرتضی کے خلاف بغض وحسد کا اظہار ہونے لگا مگر آج سے چودہ سو برس بعد اس کا ادراک عام مسلمانوں کے لئے بڑا مشکل ہے ، مگر تاریخ میں ایک ایسا موڑ بھی آگیا کہ علی علیہ السلام کے خلاف تلواریں نکل آئیں ۔۔۔۔۔ تو اب کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ علی سے دشمنی رکھنے والوں کو نہ پہچانا جائے ۔

قول رسول ہے کہ کوئی مومن علی علیہ السلام سے بغض نہیں رکھے گا ،مگر اسے کیا کیجئے کہ ام المومنین صحابی رسول وخلیفہ راشد کے مقابلے پر ہزاروں مسلمانوں کو ساتھ لے کر میدان جنگ میں تشریف لے آئیں اور ایسی جنگ کی کہ جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں کے سرتن سے جدا ہوگئے ۔

یہ جنگ تاریخ میں "جنگ جمل " کے نام سے مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔اب

۳۵

سواد اعظم کے سیاہ قلب مفتی بی بی عائشہ کے بارے میں کیا فتوی دیں گے ؟

قول رسول ہے کہ یاعلی بربادی ہے ان کے لئے جو تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری بابت جھوٹ بولتے ہیں ۔

معاویہ بن ابی سفیان کہ جنہیں بھی صحابی کادرجہ دیا جاتا ہے نے ہمیشہ علی سے بغض رکھا اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا ۔ان جیسے خلیفہ راشد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور صفین کے میدان مین ایک خونریز جنگ لڑی پھر جب شکست سے قریب ہونے لگے تر بڑے مکر کے ساتھ قرآن کو درمیان میں لائے اور علی علیہ السلام کو جنگ بند کرنے پر مجبور کردیا ۔اور پھر اپنی فریب کاریوں کے طفیل ایک خلیفہ راشد کی موجودگی میں اسلامی ریاست کے ایک بڑے علاقہ پر خود مختار حکمراں کی حیثیت سے قابض رہے اور اس پر بس نہیں کیا بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی حدود ریاست میں شام کے بھیڑیا صفت سالار بسر بن ارطاۃ کو قتل وغارت گری کی چھوٹ دے رکھی تھی ۔ یہ بھیڑیا جب موقع ملتا بھیڑیوں کی فوج لے کر حضرت علی علیہ السلام کے علاقے میں گھس جاتا اور علی علیہ السلام کے فوجی دستے پہنچے تویہ فرار ہو جاتا اور اپنے پیچھے ظلم کی ایک نئی داستان چھوڑ جاتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس درندے نے عبیداللہ ابن عباس کے دو معصوم بچوں کو بے جرم وخطا ذبح کر دیا ۔

معاویہ کے جرائم یہیں پر ختم نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ یہ شخص تو صحابی رسول حجر بن عدی اور ان کسے ساتھیوں کوحب علی کے جرم میں قتل کرادیتا ہے ، معاویہ کی اس حرکت پر حضرت عائشہ بھی اظہار ناراضگی کرتی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ایسی روائتیں بھی ملتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کی شہادت اس زہر دغا سے ہوئی کہ جس کا انتظام اسی شخص نے کیا تھا ۔

معاویہ کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے اور اگر صرف صحابہ کرام کے

۳۶

ساتھ اس کے برتاؤ کو زیر بحث لایا جائے تو بھی ساری باتوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا لہذا اب ہم صرف حضرت علی علیہ السلام پر اس کی طرف سے ہونے والے سب وشتم کو زیر بحث لائیں گے ۔

صحابی رسول اورمسلمانوں کے خلیفہ راشد حضرت علی مرتضی پرسب وشتم کرنے اورباقاعدہ اس فعل قبیح کی رسم قائم کرنے والا شخص معاویہ ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ خود بھی مسلمانوں کا "صحابی رسول " ہے یہ شخص خود بھی حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتا ہے اور چاہتا کہ دوسرے صحابہ بھی ایسا ہی کریں ۔ اپنے عاملوں کو تو اس نے اس بارے میں خاص طور سے حکم دے رکھا تھا اور یہ عمال مستعدی سے اس کا حکم بجالاتے خاص طور سے جمعہ کے خطبات بغیر توہین علی علیہ السلام کے مکمل نہ ہوتے ۔

افسوس کہ سب علی علیہ السلام کا سلسلہہ حیات علی علیہ السلام تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ آپ کی شہادت کے بعد بھی جاری رہا ۔ یہاں تک کہ بنو امیہ کے واحد صالح حکمران عمربن عبد العزیز کا دور آیا اور اس نے اس رسم قبیح پر پابندی لگادی ۔

صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب فضائل علی میں ہے کہ

عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال امیر معاویه بن ابی سفیان سعد فقال ما منعک ان تسب اباتراب فقال اماما ذکرت ثلاثا قالهن رسول الله صلی الله علیه وسلم فلن اسبه "

ترجمہ:- عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا پھر کہا کہ تجھے کس چیز نے روکا ہے کہ تو ابوتراب پر سب کرے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ کے تین ارشادات کو یاد کرتا ہوں تو میں ہرگز علی علیہ السلام پر سب نہیں کرسکتا

۳۷

صحیح مسلم کے علاوہ صحیح ترمذی مسند احمد بن حنبل اور دوسری کتب حدیث میں بھی معاویہ کی جاری کردہ اس قبیح رسم کا تذکرہ موجود ہے ۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ علی علیہ السلام پر سب وشتم ان کے چاہنے والوں کے سامنے کیا جاتا اور مکینگی کی انتہا یہ کہ عزیزوں اور بیٹیوں کی موجودگی کا بھی خیال نہ کیا جاتا ۔

جب صلح نامہ لکھا جارہا تھا تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے ایک شرط یہ بھی لکھوانا چاہی کہ میرے والد پر سب وشتم نہ کیا جائے ،مگر معاویہ نے اسے تسلیم نہیں کیا تو امام حسن نے یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم میرے سامنے ایسا نہ کیا جائے چنانچہ معاویہ نے یہ بات مان لی مگر اسے پورا نہیں کیا ۔تصدیق کے لئے ملاحظہ ہو طبری جلد نمبر ۴ ، البدایہ ابن کثیر جلد ۸ اور الکامل جلد ۳

معاویہ کایہ جرم کہ اس حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کی رسم جاری کی روز روشن کی طرح عیال ہے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، لہذا ہر دور کے جلیل القدر علماء نے معاویہ کے اس جرم کو تسلیم کیا ہے ۔

دور حاضر کے ممتاز عالم مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کہ جن کا قیام بھارت میں ہے "تاریخ اسلام " جلد دوم میں لکھتے ہیں ۔

امیر معاویہ نے اپنے زمانہ میں بر سرمنبر حضرت علی پر سب وشتم کی مذموم رسم جاری کی تھی اور ان کے تمام عمال اس رسم کو ادا کرتے تھے ۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مذموم بدعت سے نہ بچ سکے ۔حجر بن عدی اور ان کی جماعت کو قدرتا اس سے تکلیف پہنچی تھی " (تاریخ اسلام جلد ۲)

۳۸

مولانا سید ابو اعلی مودودی فرماتے ہیں:

ایک نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں بر سر منبر حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کی بو چھاڑ کرتے تھے ، حتی کہ مسجد نبوی منبر رسول پر عین روضہ نبوی کےسامنے حضور کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا ،شریعت تو درکنار ،انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبہ کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤ نا فعل تھا ۔ حضرت عبدالعزیز نے آکر اپنے خاندان کی دوسری غلط روایات کی طرح اس روایت کو بھی بدلا اور خطبہ جمعہ میں سب علی کی جگہ یہ آیت پڑھنا شروع کردی ۔۔۔۔۔۔( خلافت وملوکیت ،مولانا ابو الاعلی مودودی ص ۱۷۵)

صحابی رسول حجر بن عدی شیعہ کی موجودگی میں مسجد کوفہ میں خطبہ کے دوران حضرت علی کرم اللہ پر سب وشتم کیا جاتا ۔ آپ نے اس کمینگی پر آواز اٹھائی تو گرفتار کر لئے گئے ۔پھر آپ کو معاویہ کے پاس شام بھیج دیاگیا اور معاویہ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو علی سے محبت کرنے کے جرم میں قتل کرادیا ۔ اس سلسلہ میں ہم مولانا ابو اعلی مودودی کی ایک تحریر پیش کرتے ہیں ۔ آپ حجر بن عدی کے بارے میں لکھتے ہیں :

"ایک زاہد وعابد صحابی اورصلحائے امت میں ایک اونچے مرتبہ کے شخص تھے ۔حضرت معاویہ کے زمانہ میں جب منبروں پر خطبوں میں اعلانیہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔۔۔کوفہ میں حجر بن عدی رضی اللہ علیہ سے صبر

۳۹

نہ ہوسکا اور انہوں نے جواب میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف اور حضرت معاویہ کی مذمت شروع کردی ۔۔۔۔۔جب زیاد کی گورنری میں بصرے کے ساتھ کوفہ بھی شامل ہوگیا ۔۔۔۔وہ خطبے میں حضرت علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا اور یہ اٹھ کر اس کا جواب دینے لگتے تھے ۔ ۔۔۔۔ آخر کار اس نے انہیں اور ان کے بارہ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ، اور ان کے خلاف بہت سے لوگوں کی شہادتیں اس فرد جرم پر لیں کہ ۔۔۔۔۔۔ان کا دعوی ہے کہ خلافت آل ابی طالب کے سوا کسی کے لئے درست نہیں ہے ۔۔۔۔یہ ابو تراب (حضرت علی علیہ السلام ) کی حمایت کرتے ہیں ۔ ان پر رحمت بھیجتے ہیں اور ان کے مخالفین سے براءت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

اس طرح یہ ملزم حضرت معاویہ کے پاسے بھیجے گئے اور انہوں نے ان کے قتل کا حکم دیا ۔قتل سے پہلے جلادوں نے ان کے سامنے جو بات پیش کی وہ یہ تھی کہ " ہمیں حکم دیا گيا ہے کہ اگر تم علی علیہ السلام سے براءت کا اظہار کرو اور ان پر لعنت بھیجو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے " ان لوگوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور حجر نے کہا " میں زبان سے وہ بات نہیں نکال سکتا جو رب کو ناراض کرے ۔ آخر کار وہ ان کے سات ساتھی قتل کردیئے گئے ۔ ان میں سے ایک صاحب عبدالرحمن بن حسان کو حضرت معاویہ نے زیاد کے پاس بھیج دیا ۔ اور اس کو لکھا کہ انھیں بدترین طریقہ سے قتل کرو ۔چنانچہ اس نے انہیں زندہ دفن کردیا "(خلافت وملوکیت ص ۱۴۶)

یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں کی شرم وغیرت کوکیا ہوا ؟ ان کی عقلوں پر کون سے دیز پردے پڑے ہوئے ہیں ؟ انھیں کیا چیز باطل کی حمایت پر کمربستہ کئے ہوئے ہے ؟ یہ ناموس صحابہ کے پاسباں نامو ‎ س رسول

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101