شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر0%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29551 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

یحرمه هذا البیب العلم ان عثمان ابن عفان فّریوم احد قال نعم (صحیح بخاری کتاب المغازی)

ترجمہ:- عبدان ابو حمزہ عثمان بن موہب سےروایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ایک شخص (یزید بن بشیر) بیعت اللہ کا حج کرنے آیا تو کچھ اور لوگوں کو وہاں بیٹھے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں ، جواب دیا گیا ، یہ قریش ہیں ، اس نے پوچھا یہ ضعیف العمر کون ہیں ،جواب دیا گیا یہ ابن عمر ہیں ،چنانچہ وہ حضرات ابن عمر کے قریب آیا اور کہا میں آپ سے کچھ پوچھتا چاہوں ۔ پھر اس نے کہا ،اس مکان کی حرمت کی قسم ! کیا عثمان بن عفان احد کے دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے ؟ ابن عمر نے کہا ہاں !

صیح بخاری کی ایک دوسری روایت کے مطابق !

وانهزم المسلمون وانهزمت معهم فاذا بعمر بن الخطاب فی الناس فقلت له ماشان الناس؟ قال امرالله ثم تراجع الناس الی رسو الله صلی الله علیه وآله وسلم ۔(صحیح بخاری پارہ ۷ کتاب المغازی)

ترجمہ:-مسلمان بھاگے تومیں بھی ان کے ساتھ بھاگا ۔ ان لوگوں میں عمر بن خطاب بھی تھے ، میں نے ان سے کہا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ کہا اللہ کی مرضی ۔پھر سب لوگ رسول اللہ کی طرف پلٹ آئے ۔

یہ ان مجاہدوں کا تذکرہ ہے کہ جنھیں رسول اللہ صلعم اورحضرت ابو بکر کے بعد دنیا کا سب سے بڑا انسان سمجھا جاتا ہے ،اب ہم شیعوں کے سب سے بڑے حضرت علی کاتذکرہ کرتے ہیں کہ ان کے فرار کے بارے میں کوئی کمزور سے کمزور روایت بھی موجود نہیں ہے ۔اس کے برعکس حضرت علی کی میدان جنگ میں ثابت قدمی، انتہائی بے جگری اور بے خوفی ،رسول اللہ کی حفاظت ،فن

۸۱

حرب میں مہارت کی راویتوں سے حدیث وتاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں علی ابن ابی طالب کی جراءت بہادری کاتذکرہ کرنے والوں میں مسلم و غیر مسلم سب شامل ہیں ،اگر طاقت وشجاعت کے ان کارناموں کو کہ جنھیں مافوق الفطرت کہا جاتا ہے نظر انداز کر دیا جائے تو بھی حضرت علی کی ذات میں مثالی شجاعت کے جو ہر نظر آتے ہیں حکم رسول کی تعمیل میں موت کو سینے سے لگا نے کیلئے کھڑے ہوجانا حضرت علی کی ایک معمولی سی ادا تھی ۔

عبدالقدوس کہتا ہے کہ " آپ کہیں گے کہ حضرت علی مجاہد تھے ، ٹھیک ہے اور بھی بہت سے مجاہد تھے ، ان کو اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ بخش دیا گیا ہے " تو اب صحیح بخاری کے حوالہ سے معلوم ہوگیا ہو گا کہ حضرت علی کے مجاہد ہونے اور بڑے بڑے صحابیوں کے مجاہد ہونے میں کتنا فرق ہے ۔۔۔۔۔ہمیں کسی کی توہین کرنا مقصود نہیں تھی ۔ صرف عبدالقدوس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے علی اور دوسرے مجاہدوں کا فرق بتاتھا لہذا ہم نے صرف صحیح بخاری کا حوالہ دیا ، تاریخ کا حوالہ دیتے تو اور بھی شخصیتیں زد میں آجاتیں اور کہا جاتا کہ یہ یہودیوں کی روایتیں ہیں۔

عبدا القدوس کہتا ہے کہ "وہ (علی ) رسول اللہ کے قریبی رشتہ دار تھے تو قریبی رشتہ دار رسول اللہ کے اور بھی تھے ۔ عبیداللہ ابن زبیر بن عبدالمطلب بھی ویسے ہی چچا کے بیٹے تھے ۔حضرت عثمان پھوپھی کے پوتے تھے ۔ آخر ان میں کیا خصوصیت تھی"۔۔۔۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ شخص جانتا ہے کہ آخر ان میں کیا خصوصیت تھی ۔اسے یقینا معلوم ہوگا کہ علی اس چچا کے بیٹے تھے کہ جو ابو طالب کی کنیت سے مشہور تھا اور ابو طالب وہ چچا تھے کہ جنہوں نے اپنے بھتیجے کی حمایت میں ناقابل بیان سختیاں جھیلیں مگر ان کی حمایت سے دستبردار

۸۲

نہیں ہوئے اور اسے یہ بھی معلم ہوگا کہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش کے پالے ہوئے تھے ۔ آپ مرتے دم تک آنحضرت کےساتھ رہے ۔آنحضرت کے حجرے کے برابر ہی آپ کا حجرہ تھا اور ان قربتوں نے علی کو صفات رسول کا مظہر بنادیا ۔

عبدالقدوس یقینا جانتا ہوگا کہ تبوک کی روانگی کے موقع پر رسول اللہ صلعم نے علی سے اپنےرستہ کو کتنا ممتار کردیا تھا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے ۔

محمد بن بشاء حدثنا حدثنا غندر حدثنا شعبة عن سعد قال سمعت ابراهیم بن سعد عن ابیه قال قال النبی صلی الله علیه وسلم لعلی امام ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی (صحیح بخاری ،کتاب الانبیاء ،پارہ ۱۳)

ترجمہ :- محمد بن بشاء غندر ،شعبہ ،سعد ، ابراہیم سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کہا میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے سنا ہے کہ حضرت علی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کیا یہ بات تمہیں پسند ہے کہ تم میرے ساتھ اس درجہ پر ہو جس درجہ پر حضرت ہارون حضرت موسی کے ساتھ تھے ۔

عبدالقدوس سے انٹرویو کرنے والے کا دل چاہا کہ حضرت علی کی مزید توہین کی جائے لہذا اس عبد لقدوس سے سوال کیا کہ :-

سوال :- لیکن حضرت علی تو مولود کعبہ تھے ؟

جواب :- مولود کعبہ تھے ؟ آپ کو ایک درجن آدمی گنوائے دیتا ہوں جو مولود کعبہ تمام بت پرستوں میں رواج تھا اور ہے کہ جب خواتین کہ دردزہ شروع ہوتاہے تو انہیں دیوی کے استھان پر لے جایا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں آپ

۸۳

آج بھی دیکھ سکتے ہیں ۔بہار ،مدارس ،یوپی اور دیگر بہت سی جگہوں پر آج بھی یہی رواج ہے ، جگہوں پر آج بھی یہی رواج ہے ، سینکڑوں آپ کو دیوی کے استھان پر پیدا ہونے والے مل جائینگے ۔

سوال :- مگر اس سلسلہ میں بہت سی روایات بھی ہیں ؟

جواب:- جی نہیں میں نہیں مانتا ،میں کسی ایسی بات کا قائل نہیں جس کی وجہ سے وہ اساس امت تسلیم کئے جائیں ۔

عبدالقدوس کہتا ہے کہ میں آپ کا کو ایک درجن اور آدمی گنوائے دیتا ہوں جو مولود کعبہ تھے مگر اس شخص نے گنوایا ایک نہیں ، اور نہ ہی انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ جناب کسی اور مولود کعبہ کا ایک آدھ نام تو بتا دییجئے ۔اور یہ کیوں کہتا یہ تو خود چاہتا تھا کہ حضرت علی کی تو ہین ہو ۔

حضرت علی کے مولود کعبہ ہونے کے سلسلہ میں کئی روایتیں کتب اہل سنت میں ملتی ہیں کہ جن سے اس بات کی تردید ہوتی ہے کہ مادر علی بن ابی طالب جناب فاطمہ بنت اسد کعبہ میں (کہ جو اس وقت بت کدہ بنا ہوا تھا ) محض عام بت پرستوں کی طرح گئی تھیں (جیسا کہ عبدالقدوس کا خیال ہے ) تاکہ بچے کی پیدائش آسانی سے ہوسکے ،چنانچہ حضرت علی بھی اسی طرح پیدا ہوگئے ۔

عبدالقدوس ان تمام روایتوں کو ماننے سے صاف انکار کرتا ہے کہ جن سے حضرت علی کے مولود کعبہ ہونے کا واقعہ ان کی منزلت کا باعث ثابت ہوتا ہے ۔یہ شخص ان تمام باتوں کو دیو مالا قرار دیتا ہے ۔لہذا ہم اس سے اتنی گزارش کریں گے کہ اگر وہ خالص مورّخ بن کر سوچتا ہے ۔عقل ودانش اور دلیل کی بات کرتا ہے ،مافوق الفطرت باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ،تو پھر اپنے دائرہ فکر کو وسعت دے ، اپنی فکر کو حضرت علی کی شخصیت تک محدود نہ رکھے مذہب میں عقل سے زیادہ عقیدہ کا دخل ہوتا ہے لہذا اپنی عقل استعمال کرے انشااللہ بہت جلد اسلام ہی سے جان چھوٹ جائےگی ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ

۸۴

دشمنی اہلبیت کے طفیل جان چھوٹ بھی چکی ہو اور اب یہ شخص محض دنیاوی منفعت کی خاطر اسلام سے چمٹا ہوا ہو ۔

ہم نے عبدالقدوس کے اس جواب میں کہ حضرت علی کی حیثیت ایک عام صحابی عام مجاہد اورعام رشتہ دار رسول سے زیادہ نہ تھی ۔صرف سنی مسلک کے مطابق سنی مسلمانوں کو حضرت علی کا وہ مقام یاد دلا دیا ہے کہ جو عام صحابی ،عام مجاہد اور عام رشتہ دار رسول سےبہت بلند تھا ۔

جہاں تک شیعوں کا معاملہ ہے تو ان کے نزدیک علی ابن ابی طالب اپنے بھائی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کائنات کی سب سے بڑی شخصیت تھے ، ان میں وہ ساری خصوصیات موجود تھیں جو کہ ان کے بھائی میں تھیں سوائے اس کے کہ آپ نبی نہیں تھے آپ پاسبان شریعت محمدی تھے ۔

عبدالقدوس نے حضرت علی کے لئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان پر حیرت نہیں ہونا چاہیئے اور نہ یہ سوچنا چا ہیئے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت (بقول تکبیر ) کی باتوں میں حقیقت تو ہوگی ۔عبدالقدوس نے حضرت علی کے بارے میں جو کچھ علم حاصل کیا ہے وہ کتابی علم ہے مگر راندئے درگاہ رسول مروان بن حکم اور آزاد کردہ رسول معاویہ بن ابو سفیان نے تو علی مرتضی کے بارے میں رسول اللہ کے ارشادات اپنے کانوں سے سنے تھے علی کا مقام ومرتبہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس کے باوجود حضرت علی پر سب وشتم کرتے تھے ۔۔۔۔۔تو بات علم کی نہیں ہوئی بلکہ بد طینتی کی ہوئی ۔۔۔۔سفاکی ہوئی ۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ہر دور میں علی سے محبت کرنے والے تو ہوں مگر مروان ومعاویہ اور یزید کے چاہنے والے نہ ہوں ۔۔۔۔۔ان مروانیوں اور یزیدیوں کے وجود پر شیعوں کو نہ تو کوئی حیرانی ہے نہ پریشانی ۔ان کا تو آبائی کا یہی ہے کہ علی کے دشمنوں اور ظالموں پر لعنت بھیجتے رہیں ۔۔۔۔توجہاں اور بہت سے ہیں وہاں

۸۵

صلاح الدین اورعبدالقدوس بھی سہی ۔۔۔۔یہ تو شیعہ کی باتیں تھیں کہ جس کی نفرت بھی عمیق جس کی محبت بھی عمیق ،مگر ہم تو سمجھتے ہیں کہ عبدالقدوس کے اس انٹریو پڑھا لکھا لکھا طبقہ کہ جسے حضرت علی سے کوئی مذہبی عقیدت نہیں مگر اس نے حضرت علی کو ایک بڑے انسان کی حیثیت سے پڑھا ہے وہ بھی اس کی مذمت کرے گا ، کیونکہ یہاں کوئی علمی اپروچ نہیں ہے اورا ظہار رائے کے حق کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ ایک عظیم انسان پر کہ جو کروڑ وں انسانوں کے نزدیک قابل صداحترام مذہبی شخصیت بھی ہے تضحیک آمیز انداز سے غیر مدلل گفتگو کی جائے ۔

اب فقہ جعفر یہ کے بارے میں عبدالقدوس کے نادر خیالات ملاحظہ فرمائیے "جہاں تک اہل تشیع کے اماموں کا تعلق ہے تو یہ اچھے لوگ تھے ، دین دار لوگ تھے اسی لئے لوگوں نے ان سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کی ، ان سے فقہ جعفریہ کو بھی ملادیا ،حالانکہ یہ قطعی بے بنیاد ہاے ، امام جعفر سنہ ۱۴۸ھ میں انتقال کرگئے اور فقہ جعفریہ کی پہلی کتاب سن سات سوکچھ میں لکھی گئی تھی کوئی نسبت ہی نہیں کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے فقہ جعفرم یہ امام سے روایت کیا ہے کہ اس شخص نے میرے باپ کوکبھی دیکھا ہی نہیں ۔مگر لکھنے والے کا دعوی ہے کہ میں نے امام سے ایک نشست میں ستر ہزار حدیثیں سنیں ، اب یہ بات کسی کی سمجھ میں آسکتی ہے اگر منٹ میں ایک حدیث بھی سنائی جائےگی تو دوماہ اور کچھ دن صرف روایت حدیث حدیث میں صرف ہوجائیں گے، کیا یہ ممکن ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کے کے بارے میں امام کہتے ہیں یہ شخص بالکل جھوٹا ہے کبھی والد صاحب سے اس کی ملاقات ہوئی ہی نہیں ۔ اب اس کے بعد ہم سے آپ ان کی تاریخ اور حقیقت پوچھتے ہیں ، ان کی حقیقت اور تاریخ

۸۶

تو یہ ہے کہ جب ان کے ہاتھ میں اختیار آیا اور یہ لوگ ۲۶۸ برس تک حکومت کرتے رہے کبھی انہوں نے اپنا دین نہیں پھیلا یا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ کبھی بھی تین فیصد سے آگے نہ بڑھے اور دین اپنا انہوں نے یوں نہیں پھیلا یا کہ دین پھیلا تے تومارے جاتے ۔

تھوڑا آگے چل کر کہتا ہے : فقہ جعفر یہ کوئی چیز نہیں ہے ،حضرت جعفر صادق سے اس کی نسبت صحیح نہیں ہے ، حضرت جعفر صادق کی وفات ۱۴۸ ھ میں ہوئی اور فقہ جعفر یہ کے نام سے تقریبا سات سوسال کے بعد بعض عالموں نے اپنے قیاس سے کچھ تھوڑے سے مسائل بیان کرکے ان کانام فقہ جعفریہ رکھ دیا یہ قیاسات بذریعہ روایت بھی حضرت جعفر صادق سے منقول نہیں ہیں ۔"

"پھر ایک جگہ پرلکھتا ہے :- طریقت ،حقیقت اور معرفت کے الفاظ اچالاک لوگوں نے اپنے معتقدین سے دولت بٹورنے کے لئے بنائے ہیں ۔

اس کا جواب تو صاحبان طریقت ومعرفت دیں گے ۔ ہم نے تو عبدالقدوس کی یہ گفتگو محض اس لئے نقل کی ہے کہ برادران اہلسنت بھی اس شخص سے اور صلاح الدین سے اچھی طرح معترف ہوجائیں ۔۔۔۔۔اس شخص نے یہ کلمات کہتے وقت اور صلاح الدین نے اسے چھاپتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ ان کی زد میں ہر سلسلہ اولیاء آجائےگا ۔

اس شخص نے جو فقہ جعفریہ کے بارے میں باتیں کی ہیں ، ان میں کوئی علمی بات نہیں ہے ۔ اس کی گفتگو سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بعض ونفرت میں بس کہے چلا جا رہا ہے ۔

یہ شخص یا تو فقہ جعفری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور بے حیائی کے سہارے ایک حقیقت کو جھٹلارہا ہے اور اگر سب کچھ جانتا ہے (اور اسے جاننا چاہیئے کیونکہ تکبیر کے نمائندے نے اسے اسلامی علوم مختلف ادیان اور

۸۷

تاریخ کا بہت بڑا عالم قرار دیا ہے ) اور جانتے بو جھتے ناقابل تردید حقیتوں سے منہ موڑرہا ہے تو علمی بد دیانتی کی نئی مثال قائم کررہا ہے ، بلکہ یہ کہاجائے توزیادہ مناسب ہے کہ کہ یہ شخص علمی میدان کا بہت بڑا بدمعاش ہے ۔

فقہ کا قرآن کے بعد دوسرا بڑا ماخذ حدیث ہے اور تمام احادیث کہ جن پر مذہب اثناعشریہ کا دارومدار ہے ، آئمہ طاہرین جناب رسول خدا سے منسوب ہیں اور اس طرح سے راویاں مذہب شیعہ اثنا عشریہ نے رسول اللہ کی اس وصیت پر پوری طرح عمل کیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ

" اے مسلمانوں ! میں تمہارے لئے دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت اور میرے اہل بیت ۔جب تک ان سے وابستہ رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے "

اب ہم عہد بہ عہد ان راویوں کا تذکرہ کررہے ہیں کہ جنہوں نے معصومین سے خود حدیثیں سنیں اور نقل کیں ۔

۱:- ابو رافع۔ ۲:- سلمان فارسی ۔۳:- ابوذر غفاری ۔ ان تینوں حضرات کو شرف صحابیت رسول تھا ۔سلمان فارسی کی عظمت کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ ایک حدیث کی رو سے اہل بیت میں داخل تھے اور ان تینوں حضرات نے حدیث کے مجموعے تیار کئے تھے ۔ جن کے نام بالترتیب یہ ہیں :- ۱:- کتاب السنن والاحکام القضایا ۔۲:- آثار نبویہ ۔۳:- کتاب الخطبۃ ۔

۴:- اصبغ بن نباتہ صاحب کتاب مقتل الحسین ۔۵:- عبیداللہ بن ابی رافع صاحب کتاب قضایا امیرالمومنین وکتاب تسمیہ من شھہد مع امیر المومنین الجمل والصفین و النہروان من الصحابہ ۔۶:- حرث بن عبداللہ ان کی بھی ایک کتاب کا تذکرہ شیخ طوسی کی کتاب الفہرست میں موجود ہے ۔۷:- ربیع بن سمیع انہوں نے بھی ایک کتاب حضرت علی کے ارشادات کی روشنی میں

۸۸

چوپاؤں کی زکواۃ کے موضوع پر تالیف کی تھی ۔ ۸:- سلیم بن قیس ہلالی ۔ ان کی کتاب اصول قدیمہ میں سے ایک اصل ہے ۔۹:- علی ابن ابی رافع یہ حافظ قرآن اور کئی کتابوں کے مولف ہیں ۔

۱۰:- میثم تمار ،آپ حضرت علی کے عاشقوں میں سے تھے اسی جرم یمں ابن زیاد ملعون نے ان کے ہاتھ پیر کٹواکر سولی پر چڑھا دیا تھا ۔ آپ نے حدیث ایک کتات تالیف کی تھی جسے شیخ طوسی نے اپنی کتاب الامالی " میں نقل کیا ہے ۔۱۱:- محمد بن قیس بجلی ۔ ان کے پاس بھی ایک کتاب تھی جس کا تذکرہ شیخ طوسی نے مکمل سند کے ساتھ اس کی تصدیق امام باقر نے کی تھی اور اس میں حضرت علی سے منقول روائتیں ہیں ۔ ۱۲:- یعلی بن مرہ ان کے ایک مجموعہ حدیث کے بارے میں شیخ نجاشی نے پورے سلسلہ سند کے ساتھ بتایا ہے کہ اس میں حضرت علی سے منقولہ روائتیں ہیں ۔

مندرجہ بالا تمام حضرات کا شمار حضرت علی بن ابی طالب کے مخصوص اصحاب میں ہوتا ہے ۔ ۴ تا ۱۲ تک کے حضرات تابعین میں سے تھے ۔

۱۳:- جابرین یزید جعفی ۔یہ تابعین میں سے ہیں اور امام زین العابدین اور امام محمد باقر کے مخصوص اصحاب میں سے ہیں آپ کی بہت سی کتابیں ہیں ۔آپ کا شمار مفسرین میں ہوتا ہے ۔۱۴:- زیاد بن منذر ۔انہوں نے امام زین العابدین اور امام محمد باقر سے سنی ہوئی احادیث پر مشتمل ایک کتاب بھی تالیف کی ۔آپ نے آخری عمر میں زیدی مسلک اختیار کرلیا تھا ۔

۱۵:- ابو بصیر یحیی بن قاسم ۔۱۶:- عبدالمومن ۔۱۷:- زراۃ بن اعین ۔۱۸:- ابو عبیدہ حذا ۱۹:- زکریا بن عبداللہ ۔۲۰:- حجد بن مغیرہ طائی -۲۱:- حجر بن زائد ہ حضرمی ۔۲۲:- مطلب الزہری ۔ ۲۳:- عبداللہ بن میمون ۔۔۔۔۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جنہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیثیں لے کر کتابیں تالیف کی ہیں ۔

۸۹

۲۴:- محمد بن مسلم طائی ۔۔۔۔۔۔۔آپ مشہور راوی ہیں ۔ آپ نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق(علیھما السلام) کا زمانہ پایا اورآئمہ طاہرین سے حاصل کی ہوئی احادیث پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی ۔

۲۵:- حسین بن ثور۔۔۔۔آپ کے دادا سعد بن حرّان جناب ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام تھے ۔ آپ نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے احادیث نقل کی ہے ۔

معاویہ بن عمار۔۔۔۔۔آپ نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کا زمانہ دیکھا اور انہیں دونوں آئمہ کی احادیث پرمشتمل کتاب تالیف کی ۔انتقال ۱۷۵ھ میں ہوا ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں سیاسی حالات کچھ اس طرح کے تھے کہ آپ کو علمی کا م کا اچھا موقع مل گیا ۔ آپ نے اپنے حلقہ درس کو وسعت دی ۔اسلامی دنیا کے دور دراز علاقوں سے لوگ آپ کے حلقہ درس میں شامل ہونے کے لئے آتے تھے ۔ چار ہزار اصحاب نے آپ سے حدیثیں نقل کیں اور چار سو کتابیں تالیف کیں کہ جنہیں اصول اربع ماۃ کہتے ہیں اور پھر حدیث کی ان کتابوں کو بعد میں آنے والوں نے مختلف موضوعات کے اعتبار سے چار کتابوں میں مرتب کیا ۔ان میں سے پہلی کتاب "الکافی" محمد بن یعقوب کلینی (سنہ وفات ۳۲۸ ھ)کی ہے ،دوسری کتاب "کتاب من لا یحضرہ الفقیہ (یعنی یہ کتاب اس کے لئے جس کے پاس فقیہ موجود نہ ہو) تیسری اور چوتھی "کتاب التہذیب "اور کتاب "الاستبصار"ہیں ۔جنھیں ابو جعفر محمد بن حسن طوسی (سنہ وفات ۴۶۰ھ )نے تالیف کیا ۔

چار سو بنیادی کتابیں سنہ ۴۴۸ ھ تک اصل حالت میں پائی جاتی تھیں بغداد کے محلہ کرخ میں طغرل بیگ سلجوقی نےآگ لگائی تو وہاں موجود کتب خانہ

۹۰

بھی جل گیا اور اس میں یہ کتابیں بھی نذر آتش ہوگئیں ۔ نعمت اللہ جزائری نے جن کی وفات سنہ ۱۱۱۲ ھ میں ہوئی ہے ۔اپنے زمانہ میں صرے صرف تیس کتب کے باقی رہ جانے کا تذکرہ کیا ہے مگر ان چار سو کتابوں کی جگہ جوکتب اربعہ مرتب کی گئیں وہ آج بھی موجود ہیں اور مذہب شیعہ اثناعشریہ کی اساس ہیں

تمام فقہوں میں فقہ جعفریہ ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے ۔ کہ اس کا تعلق رسول اللہ تک اس طرح مسلسل ہے کہ کڑیاں آپ سے ملتی چلی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی سے یہ سنا اور انہوں نے اپنے والد گرامی سے اور انہوں نے اپنے والد گرامی سے اور یہاں تک کہ یہ سلسلہ رسول اللہ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس پورے سلسلہ امامت میں ایک مکمل وحدت فکر نظر آتی ہے ۔حضرت علی سے لے کر امام حسن عسکری تک ایک ہی مزاج نظر آتا ہے ۔

حدیث کی وہ چار کتابیں کہ جن کا ابھی ذکر کیا گیا فقہ کا ماخذ ہیں اور انہی کی مدد سے فقہ کی کتابیں لکھی گئیں یہی وجہ ہے کہ اثناعشریہ کی فقہ حضرت امام جعفر صادق سے منسوب ہے ۔

علم اصول فقہ کی ضرورت آئمہ معصومین کے دور میں نہ تھی کیونکہ ہر مسئلہ ان کے اصحاب ان سے براہ راست دریافت کرلیا کرتے تھے ۔ اس علم کی ابتد بارہویں امام کی غیبت صغری کے بعد یعنی چوتھی صدی ہجری کی ابتدا میں ہوئی ۔ابتدائی ناموں میں دو نام خصوصیت سے ملتے ہیں :- حسن بن علی ابن ابی عقیل اور محمد ابن احمد ابن جنید جنہوں نے علم اصول فقہ کی ابتدا کی ۔پھر شیخ مفید (سنہ وفات ۴۱۳ھ) نے علم اصول فقہ پر کتابیں لکھیں ان کے بعد ان کے شاگرد سید مرتضی (سنہ وفات ۴۳۶ھ) نے ایک بڑی عظیم الشان کتاب لکھی جس کا نام "الزریعہ" رکھا ۔ اسی دور کے ایک اور عالم

۹۱

سلاد ابن عبدالعزیز دیلمی نے ایک کتاب " التقریب فی اصول لفقہ " تصنیف کی ۔شیخ مفید کے ایک شاگرد ابو جعفر محمد ابن حسن جو کہ شیخ طوسی اور شیخ الطائفہ بھی کہلاتے ہیں (سنہ وفات ۴۶۰) نے علم اصول فقہ پر بڑا کام کیا ہے ۔ان کی کتاب "العدہ فی الاصول" نے اس علم کو بڑی وسعت بخشی ۔ان کی دوسری کتاب "المبسوط فی الفقہ" ہے جس میں فقہی مسائل حل کئے گئے ہیں ۔

شیخ طوسی وہ بزرگ ہیں کہ جن کا تعلق علم فقہ واصول کے قدیم اور جدید دونوں ادوار سے تھا اور وہ اس طرح کہ قدیم دور آپ پر ختم ہوا اور جدید دور آپ سے شروع ہوا ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ :-

۱:- شیعہ علماء ومحدثین کا اپنے آئمہ معصومین سے ہر دور میں بڑا گہرا تعلق رہا ہے ، ان شیعوں میں سلمان فارسی وابوذر اور ابو رافع بھی شامل ہیں ۔

۲:- فقہ کا دوسرا بڑا ماخذ حدیث ہے اور چونکہ اصول اربع ماۃ (حدیث کی اصل چار سو کتابیں ) حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام کے ارشادات پر مبنی ہیں اور انہی کو سامنے رکھ کر کتب اربع (الکافی ۔من لایحضرہ الفقیہ ۔التہذیب ،الاستبصار)تالیف کی گئیں اور فقہ کی تمام کتابیں انہیں کتب اربع کی مدد سے تالیف کی گئیں ۔لہذا اثنا عشریہ کی فقہ امام جعفر صادق کے اس تعلق سے فقہ جعفری کہلاتی ہے ۔

۳:- سات سو کچھ ہجری سے پہلے فقہ جعفری پرکئی کتابیں لکھی گئیں ۔

۴:- فقہ جعفری اور علما فقہ جعفری کی عظمت سے ہر عالم اچھی طرح واقف ہے (اس سلسلہ میں علماء اخوان المسلمین مصر وعراق کی آراء اگلے صفحات میں پیش کی جارہی ہیں )

۹۲

لہذا عبدالقدوس کے یہ الزامات انتہائی مہمل ہیں کہ :-

فقہ جعفریہ کا امام جعفر صادق سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ۔ سب سے پہلے سات سو کچھ ہجری میں شیعہ علماء نے اپنے قیاس سے کچھ مسائل بیان کرکے ان کانام فقہ جعفریہ رکھ دیا ۔فقہ جعفریہ کوئی چیز نہیں ہے

٭٭٭٭٭

۹۳

شیعہ اثنا عشریہ کے بارے میں علماء اخوان المسلمین کی رائے

جامع ازہر (مصر) کے شیخ الجامعہ جناب شلتوت اپنی کتاب "الوحدۃ الاسلامیہ " میں فرماتے ہیں ۔

جامعہ ازہر کا بھی یہی اصول ہے کہ مختلف اسلامی مذاہب ایک دوسرے سے نزدیک ہوں ، چنانچہ تمام اسلامی مذاہب ،خواہ سنی ہوں یا شیعہ ،ان کی فقہ درسی نصاب میں شامل کی جاتی ہے اور ان کی کتب پرہر قسم کے تعصبات سے پاک اور دلیل وبرہان پرمبنی تحقیقات کی جاتی ہیں ۔

۹۴

مکتب شیخ الجامع الازھر

بسم اللہ الرحمان الرحیم

۹۵

ترجمہ:- مذہب شیعہ اثناعشریہ کے نام سے مشہور مذہب جعفریہ ایسا مذہب ہے جسے اہل سنت کے باقی مذاہب کی طرح شرعا اختیار کیاجاسکتا ہے ۔مسلمانوں کوچا ہیئے کہ وہ یہ چیز سمجھیں اور کسی مذہب کے ساتھ ناحق تعصب کرنے سے خود کو پاک کریں اللہ کا دین اور اس کی شریعت کسی ایک مذہب کے تابع اورکسی ایک مذہب میں منحصر نہیں، سب مجتہد ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں سب مقبول ہیں ۔

شیخ غزالی اپنی کتاب "دفاع عن العقیدہ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین"

صفحہ ۲۵۶ میں شیخ شلتوت کے اس فتوے کے سلسلہ میں لکھتے ہیں ۔

میرے پاس عوام میں سے ایک شخص غضبناک حالت میں آیا اور پوچھا کہ شیخ ازہر نے یہ فتوی کیسے صادر کردیا کہ مذہب شیعہ بھی اسلامی مذاہب میں سے ہے میں نے کہا ، آپ شیعہ کے بارے کیا جانتے ہیں ؟ تھوڑی دیر سکوت اختیار کرنے کے بعد اس نے کہا ۔وہ ہمارے دین پر نہیں ہیں ۔ میں نے اس سے کہا ، مگر ان کو نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے میں نے دیکھا ہے ، جیسے ہم لوگ نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں ۔ اس شخص نے تعجب کیا اور کہا کیسے ؟ میں نے اس سے کہا ، آپ کے لئے اور زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ قرآن بھی پڑھتے ہیں ۔جیسے ہم پڑھتے ہیں ،رسول اللہ صلعم کی تعظیم کرتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں ۔جیسے ہم لوگ کرتے ہیں ، اس نے کہا ، میں تو سنا تھا کہ ان کا کوئی اور قرآن ہے اور وہ لوگ کعبہ کی توہین کرنے کے لئے مکہ جاتے ہیں ، میں نے اس آدمی سے کہا ، تو معذور ہے ، ہم میں سے بعض لوگ ایک دوسرے کے خلاف ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے دوسرے کا وقار ،عزت اور شرافت مجروح کرنا مقصود ہوتاہے ۔جس طرح روسی امریکیوں اور امریکی روسیوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں ، گویا کہ ہم آپس میں دومتضاد اور دشمن امتیں ہیں نہ کہ ایک امت "

اخوان المسلیین عراق کے ایک رکن ڈاکٹر عبدالکریم زیدان اپنی کتاب

۹۶

"المدخل لدراستہ الشریعہ الاسلامیہ "ص ۱۷۸ میں لکھتے ہیں ۔

"مذہب جعفریہ عراق ،ایران ،پاکستان اور لبنان میں پایا جاتا ہے اس کے پیروکار شام اور غیر شام میں بھی موجود ہیں ۔ فقہ جعفریہ اور دوسرے اسلامی مذاہب میں اتنا اختلاف نہیں ہے ،جتنا دوسرے مذاہب کے مابین ہے ، فقہ جعفریہ بہت کم مسائل میں منفرد ہے اور شائد ان میں زیادہ مشہور نکاح متعہ (نکاح موقت ) ہے "۔

ڈاکٹر ابو محمد زہرہ اپنی کتاب "تاریخ المذاہب الاسلامیہ "ص ۳۹ میں لکھتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ فرقہ ایک اسلامی فرقہ ہے ،اگر چہ فرقہ سبائیہ کو جو حضرت علی کو اللہ سمجھتا ہے ۔ہم نے خارج از اسلام قرار دیا ہے لیکن شیعہ تو مسلمان فرقوں میں شامل ہے ،نیز ہم جانتے ہیں کہ شیعہ اثناعشریہ بھی سبائیہ کو کافر سمجھتے ہیں ۔ ابن سبا بھی ایک موہومی شخصیت تھی ۔ اس میں بھی شک نہیں کہ شیعہ جو کچھ کہتے ہیں وہ قرآنی نصوص اور احادیث نبوی کی رو سے کہتے ہیں ۔

اسی کتاب کے صفحہ ۲۱۴ میں مسئلہ امامت کے ضمن میں کہتے ہیں ۔

"ہمارے شیعہ اثناعشریہ بھائی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسے تاریخی ترتیب کے ساتھ مرتب کرتےہیں ،باقی اصول یعنی توحید ورسالت میں ہمارے ساتھ ہیں ۔ ہم اپنے شیعہ بھائیوں سےیہ امید رکھیں گے کہ امامت کا معتقد نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے ایمان میں کسی خلل کا عقیدہ نہ رکھیں اور نہ اسے گناہ تصور کریں "

ڈاکٹر علی سامی اپنی کتاب " نشاۃ الفکر الفلسفی فی الاسلام" کی جلد دوم میں لکھتے ہیں :-

" شیعہ اثناعشریہ کے فلسفیانہ افکار مجموعی طور پر خالصتا اسلامی ہیں لیکن اگر ہم اس فرقے سے آگے دوسرے فرقوں کی طرف جائیں تو مسلک میں متعدد مختلف

۹۷

باتیں نظر آتی ہیں جو غالبا اجنبیوں کی جانب سے داخل کردہ غیر اسلامی افکار ہیں " استاد عبدالوہاب خلاف اپنی کتاب " علم اصول فقہ " کے صفحہ ۴۶ میں لکھتے ہیں " اجماع کے چار ارکان ہیں جن کے بغیر شرعا اجماع متحقق نہیں ہوتا ۔ان میں سے دوسرا رکن یہ ہے کہ کسی واقعہ کے سلسلے میں اس واقعہ وقت تمام مجتہدین حکم شرعی پر اتفاق کریں ، چاہے ان کا تعلق کسی بھر شہر ،جنس یا فرقے سے ہو ،اگر کسی واقعہ سے متعلق حکم شرعی پر صرف حرمین یا عراق یا حجاز یا اہل بیت یا صرف اہلسنت کے مجتہدین اتفاق کریں اور شیعہ مجتہدین اس میں شامل نہ ہوں تو اجماع شرعا متحقق نہیں ہوتا ، کیونکہ جب تک عالم اسلام کے تمام مجتہدین ایک واقعہ کے بارے میں اتفاق نہیں کرتے ، اس وقت تک اجماع متحقق نہیں ہوتا ، چند مجتہدین کے اتفاق کی کوئی وقعت نہیں ہے "۔

شیخ شلتوت ابو زہر ہ اور خلاف کے استاد احمد ابراہم بیگ مگ اپنی کتاب اصول فقہ کے صفحہ لکھتے ہیں :-

"قدیم اورجدید ہرزمانے میں شیعہ امامیہ کے عظیم فقہا ہوئے ہیں ۔ ہر فن اور علم میں ان کے علماء ہیں ۔ وہ عمیق الفکر اور وسیع معلومات کے مالک ہیں ۔ ان کی تالیفات لاکھوں سے بھی تجاوز کرگئی ہیں۔ ان کی اکثر کتاب میری نظر سے گزری ہیں

عربک کالج کراچی کے پرنسپل استاد محمد حسن اعظمی اپنی کتاب " الحقائق الخفیۃ عن الشیعہ الفاطمیۃ والاثناعشریہ " صفحہ ۱۰۳میں لکھتے ہیں :-

"شیعہ امامیہ اثناعشریہ توحید کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے وہ صمد ہے ۔لم یلد ولم یولد ہے ۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی طرف سے آئے ہیں او تمام رسولوں نے سچ بولا ہے اور ان چیزوں کی معرفت ودلیل وبرہان سے واجب سمجھتے ہیں ، ان میں تقلید جائز نہیں سمجھتے اور تمام انبیاء ورسل پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لائے

۹۸

ہیں ، اس کو حق جانتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ علی اور ان کے گیارہ فرزند علیہم السلام خلافت کے لئے ہر ایک سے احق ہیں اور یہ رسول خدا (صلعم) کے بعد سب سے افضل ہیں اور فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) عالمین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں ، اگر یہ لوگ اپنے عقیدے میں صائب ہیں تو فبہا ۔ ورنہ یہ نہ کفر کا موجب بن سکتا ہے نہ فسق کا ۔"

آگےچل کر صفحہ ۲۰۴ میں لکھتے ہیں :-

"شیعہ حضرات اگر چہ ءائمہ اثناعشریہ کی امامت واجب قرار دیتے ہیں لیکن اس کا انکار کرنے والوں کو خارج از اسلام بھی نہیں سمجھتے اور ان پر تمام اسلامی احکام جاری کرتے ہیں ، وہ ان احکام دین کو حجت سمجھتے ہیں جو کتاب اللہ یا تواتر وثقہ راوی یا بارہ آئمہ یا قابل اعتماد زندہ مجتہد ین کے اقوال کے ذریعے ثابت شدہ سنت رسول (ص) سے حاصل ہوں ، اس لئے اگروہ اپنے نظریہ میں غلطی پر ہوں تو بھی کوئی ایسی چیز ان میں نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ خارج از اسلام ہوجائیں "

٭٭٭٭

۹۹

فہرست

نقش آغاز ۷

فتنہ سامانیاں ۱۳

باعث تکفیر ۲۶

ایمان مفصل :- ۲۷

ایمان مجمل:- ۲۷

حدیث شریف :- ۳۳

۳:- عقیدہ ختم نبوت سے انکار ۴۸

فتوی تکفیر ۵۸

دار الا فتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامیہ محمد یوسف بنوری ٹاون کراچی ۵۸

الجواب ۵۸

تصدیقات علماء پاکستان ۶۱

فتوی حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب دامت برکاتہم ۶۲

دار الافتاء والارشاد ،کراچی ۶۴

الجواب ۶۴

فتوی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب ۶۶

مدیر ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۶۶

جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ ۶۷

جواب فتوی ۶۸

مولانا موصوف کی ایک اور عبارت :- ۷۲

۱۰۰