حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62811 / ڈاؤنلوڈ: 7348
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں

یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند

بہار  ہو کہ خزاں لاالہ الا اللہ

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں  لا الہ الا اللہ

لاکون من الصادقین

حکم اذاں

ڈاکٹر محمدتیجانی سماوی

ترجمہ:- مستجاب احمد اانصاری

 ای بک کمپوزنگ :- حافظی

نیٹ ورک :-  شبکۃ الاما مین الحسنین(ع) نیٹ ورک

۱

خطبۃ الکتاب

بسم الله الرحمان الرحیم

الحمد الله رب العالمين - الرحمن الرحيم  مالک يوم الدين - ايا ک نعبد وايا ک نستعين - إهدنا الصراط المستقيم وصلّ علی محمد خاتم النّبيّين - الذی ارسلته رحمة للعالمين  وانزلت عليه کتابا لاريب فيه هدی للمتقين وسلّم على أهل بيته المطهرين الذين جعلت صراط الذين أنعمت عليهم غيرالمغضوب عليهم ولاالضّالّين .

۲

بسمه سبحانه تعالى

گفتار مولف

میری پہلی کتاب "ثمّ اھتدیت" (جس کا اردو ترجمہ تجلی ہے)کو قارئین کرام نے حسن قبول سے نوازا اور اس  پر کئی اہم تبصرے بھی کیے ۔بعض نے ان مسائل کے بارے میں جو اہل سنت  اور اہل تشیع میں اختلافی ہیں مزید وضاحت چاہی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ۔ اور جو شخص تحقیق کرنا اور حقیقت سے واقف ہونا چاہے ، اس کے لئے کوئی شک  اور ابہام باقی نہ رہے ۔

اس لئے میں نے ایک اور کتاب اسی طرز پر لکھی ہے تاکہ انصاف پسند تحقیق کا طالب بہ آسانی حقیقت تک اسی طرح رسائی حاصل کرسکے جیسے میں نے تفصیلی بحث ومطالعہ  کے بعد حاصل  کی ہے ۔ برکت کے لئے میں نے اس کتاب کا نام " لاکون مع الصادقین" رکھا  ہے ، جو اس آیت کریمہ  سے ماخوذ ہے :

"يآيّها الّذين آمنوا اتّقواالله وكونوا مع الصّادقين"(۱)

ظاہر ہے کہ حضرت رسول ص اور ان کی آل پاک ع سے بڑھ کر اور کون سچا ہوسکتا ہے ۔ مسلمانوں میں سے جو بھی ان سچوں کا ساتھ  دینے  سے انکار کرےگا  وہ خود  کو راہ راست سے دور ہٹا ہوا پائے گا  اور اس طرح یا تو مغضوب علیہم  کے زمرے میں شام  ہوگا یا ضالّین  کے زمرے میں  ۔

مجھے ذاتی طور پر تو اس بات  کا یقین اور اطمینان  ہوگیا ہے ۔ اب میری  کوشش یہ ہے کہ جہاں تک  بن پڑے دوسروں کے لیے بھی یہ بات واضح کردوں مگر میں کسی  پر اپنی رائے  ٹھونسنا نہیں چاہتا بلکہ  دوسروں کی  رائے کا بھی احترام کرتا ہوں ۔

--------------------

(۱):- اے ایمان والو! تقوی اپناؤ اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔(سورہ توبہ ۔آیت ۱۱۹)

۳

کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ میں نے اپنی پہلی کتاب کا نام " ثمّ اھتدیت "کیوں رکھا ؟ ان کاکہنا ہے کہ یہ اہل سنت کو اشتعال دلانا ہے ،کیونکہ اگر انھوں نے ہدایت نہیں  پائی تو مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت میں مبتلا ہیں ۔ میں اس کے جواب میں کہوں گا۔پہلی بات  یہ ہے کہ قرآن شریف میں ضلالت کا لفظ بھول چوک کے معنی  میں آیا ہے ۔ ارشاد ہے :

"قال علمها عندربّي في كتابٍ لايضلّ ربّي ولاينسى"(۱)

ایک اورجگہ آیا ہے:"ان تضلّ إحداهما فتذكّرإحداهما الاُخرى" (۲)

اسی طرح قرآن کریم  میں ضلالت کا لفظ بحث وتفتیش کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ اپنے پیارے رسول  ص کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا  :"ووجدك ضآلّا فهدى" (۳) جیسا کہ  معلوم ہے ، بعثت سے قبل مکّے  میں رسول اللہ  ص  کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے اہل وعیال کو  چھوڑ کر کئی کئی راتیں حقیقت کی تلاش میں غار حرا میں بسر کیا کرتے تھے ۔ انھی معنوں میں آپ کا یہ قول بھی :"الحكمة ضآلّة المومن أينما وجدها أخذها" (۴)

پس کتاب کا نام ان ہی معنوں  پر محمول کیاجائے ۔ ثمّ اھتدیت  یعنی میں نے حقیقت کی تلاش کی اور اللہ نے مجھے اس تک پہنچادیا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم اللہ سبحانہ کا یہ قول پڑھتے  ہیں کہ

--------------------

(۱):- اس کا علم میرے پروردگار  کے پاس کتاب میں ہے ۔ میرے پروردگار  سے کبھی بھول چوک نہیں ہوتی ۔ (سورہ طہ ۔آیت ۵۲)

(۲):- اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے ۔(سورہ بقرہ ۔آیت ۲۸۲)

(۳):- آپ کو حققیت کی تلاش میں پایا تو آپ کو اس تک پہنچادیا ۔(سورہ ضحی)

(۴):- حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے ،  جہاں ملتی ہے لے لیتا ہے ۔

۴

"وإنّي لغفّارلّمن تاب وآمن وعمل صالحا ثمّ اهتدى"(۱) تو ہمیں ہدایت نہ پانے والے  کی گمراہی کا مطلق احساس نہیں ہونے پاتا ۔ کیونکہ جس نے تو بہ کی ، ایمان لایا  اور نیک عمل  کیے اسے  ضالّ  یا گمراہ نہیں کہا جاسکتا  ۔یہ الگ  بات ہے کہ اسے ولایت  اہل بیت کی طرف ہدایت نصیب نہ ہوئی ہو ۔

تیسری بات اورآخری  بات یہ ہے  کہ بالفرض جسے ولایت  اہل بیت  کے قبول  کرنے کی ہدایت  نہیں ملی  وہ ضال ہے اس معنی میں کہ ضلالت  ہدایت کی ضد  ہے تویوں ہی سہی ۔ یہ تو وہ حقیت  ہے جس سے اکثر لوگ بھاگتے  ہیں ، خوشدلی سے اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتے  اور حق  کو خواہ کڑوا ہی کیوں نہ ہو برداشت  کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ورنہ اس حدیث رسول  کے کیا معنی ہیں  کہ :"تركت فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي اهلبيتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلّوابعدي ابدا" (۲) جو ان دونوں میں سے ایک  کے ساتھ تمسک نہیں کرےگا  اس کے ضال ہونے کےبارے میں یہ حدیث واضح اور صریح ہے ۔

بہر حال  مجھے تو یقین اور اطمینان ہے کہ بھٹکا ہوا تھا اور اللہ کے فضل  سے مجھے کتاب خدا اور عترت رسول  ص  سے تمسک کی ہدایت   نصیب ہوئی ۔فالحمد لله الّذي هدانا لهذا .

میری پہلی کتاب کی طرح اس کتاب کا نام بھی قرآن کریم سے ماخوذ ہے ،جو سب سے سچّا  اور سب سے اچھا کلام ہے ۔ میں نے اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اگر وہ مکمل طور پر حق نہیں بھی ہے ، جب بھی وہ حق سے اس قدر نزدیک ہے جتنا امکانی طور پر ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس میں ان ہی باتوں کا تذکرہ ہے جن پر شیعہ اورسنی دونوں کا اتفاق ہے اور جو دونوں  کے نزدیک ثابت اور صحیح ہیں ۔

--------------------

(۱):- میں یقینا اس کو بخش دوں گا  جس نے توبہ کی ،ایمان اور نیک عمل کیے اور پھر ہدایت پاگیا ۔(سورہ طہ ۔آیت ۸۲)

(۲):- میں تم میں دوگراں قد رچیزیں چھوڑ رہا ہوں : ایک اللہ کی کتاب  اور دوسری میری عترت میرے اہلبیت  ۔جب تک تم ان دونوں کا دامن تھامے رہوگے  کبھی گمراہ نہیں ہونگے ۔

۵

میں حریم اقدس الہی  میں دعا کرتا ہوں  کہ وہ ہم مسلمانوں  کو خیرالامم  بننے کی توفیق عطا فرمائیے تاکہ ہم مہدی  ع برحق  کی قیادت  میں قافلہ انسانیت کی نوروھدایت کی طرف رہنمائی  کرسکیں ، وہی مہدی ع جن کے ظہور  وانقلاب کی خبر دیتے ہوئے ان کے نانا رسول اللہ  نے بتایا  ہے کہ وہ ظلم  وجور سے سسکتی بلکتی  اس دنیا کو ایسا عادلانہ نظام  قائم کریں گے کہ ہر طرف انصاف کا دور دورہ ہوگا  اور شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پئیں گے ۔

صراط علی حق  نمسكه

۶

اسلوب تالیف

بسم الله الرّحمن الرّحيم

والصلاة والسلام على أشرف المرسلين سيدنا ومولانا محمد وآله الطّاهرين.

دین ومذہب  کی بنیاد عقائد پر ہوتی ہے جو ان افکار وتصورات کے مجموعے کا نام ہے جس پر اس دین کے ماننے والے  ایمان لاتے ہیں  اور یقین رکھتے ہیں ۔ بعض عقائد کو بغیر کسی علمی اور عقلی دلیل کے تسلیم کرلیا جاتا ہے ، کیونکہ علم اور عقل دونوں  محدود ہیں   جب کہ  اللہ تعالی  کی ذات زمان ومکان ہر لحاظ سے  لامحدود ہے اس کا احاطہ نہ علم  کرسکتا ہے اور نہ عقل ۔اس لئے ہر دین کے پیروکار وں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ ایسے امور پر بھی ایمان لائیں  اور ان کی تصدیق کریں جو علم اور عقل کے معیار پر بظاہر پورے نہیں اترتے ۔ مثلا آگ کا ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جانا  جبکہ علم اورعقل کا اس پر اتفاق ہے کہ آگ گرم اور مہلک ہے ۔ یا کسی پرندے کے ٹکڑے کرکے ان ٹکڑوں کو پہاڑوں پر بکھیر دینا اور پھر بلانے پر ان پرندوں کا دوڑتے ہوئے آنا جبکہ علم وعقل کے نزدیک یہ سب ناممکن ہے ۔ یا اندھے ، جذامی اور پیدائشی نابینا کا حضرت عیسی ع کے ہاتھ پھیر دینے سے اچھا ہوجانا  بلکہ مردے کا بھی زندہ ہوجانا ، جبکہ علم اور عقل نے جو ترقی  کی ہے اس سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ مردہ آنکھ کو زندہ آنکھ سے اور مردہ دل کو زندہ دل سے بدل دیا جائے ، یعنی مردہ عضو کی جگہ زندہ عضو لگا دیا جائے ۔ جیسا کہ معلوم ہے ان دونوں باتوں زمین آسمان کا فرق ہے ۔کیونکہ یہ مردے کو زندہ سے بدلنا ہے اور وہ مردے  کو زندہ  کرنا ۔ بہ الفاظ        دیگر ۔ ایک عمل اصلاح اور درستگی ہے اور دوسرا تخلیق ۔ اسی لئے

۷

اللہ تعالی نے تحدّی کے ساتھ کہا :

"اے لوگو! تمھارے لیے ایک مثال بیان کی جاتی ہے ، اسے غورسے سنو! جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا  پکارتے  ہو وہ سب مل کر بھی ایک مکھی تک تو پیدا کرنہیں سکتے "(۱)

میں نے قصدا وہی مثالیں بیان کی ہیں جو عقل اور علم سے ماوراء ہیں اور جن پر مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں سب کا ایمان  اور اتفاق ہے ۔اللہ تعالی نے اپنے نبیوں  اور رسولوں  کے ہاتھ سے معجزات اس لیے ظاہر کیے تاکہ لوگوں  کو یہ سمجھایا جائے کہ ان کی عقلیں ہر چیز کا ادراک  اور احاطہ کرنے سے قاصر ہیں ، کیونکہ اللہ سبحانہ نے ان کو علم کا صرف تھوڑا ساحصہ عطا کیا ہے اور شاید اسی میں ان کی بھلائی مضمر تھی اور ان کے جزوی کمال کے مناسب یہی صورت تھی کیونکہ بہت سوں نے خدا ئے منعم کی نعمتوں کا انکار کیا ہے اور بہتوں نے تو خود اس کے وجود ہی کا انکار کردیا ہے اوربہت سے اپنے غیر معمولی علم اور عقل  کی بنا پر اتنے بڑے سمجھے گئے کہ لوگ اللہ  کوچھوڑ کر انھی کی پرستش کرنے لگے ۔یہ توجب ہوا جب انسان کا علم بھی کم تھا اور اس کی عقل  بھی ناقص تھی ۔ اگر اللہ  تعالی انسان کو ہرچیز کا علم عطا کردیتا  پھر تو نہ جانے کیا ہوتا ۔

اس لئے میں نے اس کتاب میں اسلامی عقائد میں سے فی الجملہ انہی عقائد کو بیان کیا ہے جو قرآن وحدیث  میں آئے  ہیں اور جن کے بارے میں مختلف اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ان ہی کے زیر اثر علم کلام  وجود میں آیا اور وہ فلسفی مکاتب  فکر نمودار ہوئے جنھوں نے عربی ادبیات  کو ایسی میراث کی شکل عطا کردی جس کی نظیر دوسرے ادیان میں شاید ناپید ہے ۔یہ کارنامہ تنہا عربوں کا نہیں بلکہ اس کا سہرا ان تمام مسلمانوں کے سرہے جنھوں نے اپنی زندگی بحث ،کھوج اور اسلامی عقائد کے دفاع میں صرف کردی ۔

--------------------

(۱):يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ (سورہ حج ۔آیت ۷۳)

۸

شاید اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا  اگر میں یہ کہوں کہ بیشتر اسلامی عقائد علم اور عقل دونوں کے لئے قابل قبول  ہیں ۔ میری اس بات میں اور جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے ،کوئی تضاد نہیں ہے ۔ کیونکہ ان تمام امور میں ۔ جن کا ادراک  علم اور عقل کے اپنے معیار سے نہیں  کیا جاسکتا ۔ مسلمانوں کا علم اور اس کی عقل نصوص قرآنی اور احادیث نبوی کے تابع ہیں ۔

اسی بنیاد پر میں نے اپنی کتاب میں سب سے پہلے ان عقائد سے بحث کی ہے جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے اور اس کے بعد ان عقائد کو لیا ہے جن کی بابت فریقین میں اختلاف ہے اور ان کی وجہ سے بغیر کسی جواز کے ایک نے دوسرے  پر اعتراض کیا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کی توفیق دے ، اور مسلمانوں میں اتحاد واتفاق پیدا کرے ۔

وهو ةعلى جمعهم اذايشاءقدير

ولاية على ابن ابي طالب حصني فمن دخل حصني أمن من عذابي

۹

قرآن ۔اہل سنّت اور اہل تشیّع کی نظر میں

قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر نازل  ہوا ہے ۔ باطل کبھی اس کے منہ نہیں آسکتا ،نہ سامنے سے نہ پیچھے سے ۔احکام ،عبادات اور عقا"ئد کے بارے میں قرآن مسلمانوں  کے لیے مرجع اعلی  ہے ، جو اس میں شک کرے یا اس کی توہین کرے اسلام پر پھر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ قرآن کے تقد س ، احترام اور بغیر طہارت کے اس کو چھونے کی ممانعت پر سب مسلمانوں  کا انفاق ہے ۔

لیکن اس کی تفسیر  اور تاویل  کےبارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہے : شیعوں کے نزدیک  قرآن کی تفسیر اور تاویل کا حق صرف ائمہ اہل بیت  کو ہے ۔جبکہ اہل سنت اس سلسلہ میں یا تو صحابہ  پر اعتماد کرتے ہیں یا ائمہ اربعہ  میں سے کسی ایک پر ۔

قدرتی طور پر اس صورت حال کی وجہ  سے احکام اور بالخصوص فقہی احکام میں اختلاف پیدا ہوا ۔کیونکہ خود اہلسنت  کے چاروں مذاہب میں آپسم میں کافی اختلاف ہے ، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں  کہ شیعوں اور سنیوں میں اور بھی زیادہ اختلاف ہو ۔

میں نے کتاب کے  شروع میں کہا ہے  کہ اختصار کے پیش نظر میں شاید چند ہی مثالیں دے سکوں  ۔اس لئے جو کوئی  مزید تحقیق کا خواہشمند ہے ، اس کے لئے ضروری ہے وہ سمندر کہ تہ میں غوطہ زن ہو تاکہ حسب توفیق کچھ جواہر پارے اس ہاتھ آسکیں ۔

اہل سنّت اور اہل تشیّع  کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن  کے سب احکام بتلادیئے ہیں اور اس کی تمام آیات کی تفسیر بیان کردی ہے ،لیکن اس بات میں اختلاف  ہے کہ آپ کی وفات کے بعد قرآن کی تفسیر

۱۰

اور تاویل  کے لئے کس سے رجوع یا جائے ؟

اہل سنّت  کہتے ہیں کہ سب صحابہ قرآن کی تفسیر کے بدرجہ اولی اہل ہیں اور ان کے بعد تمام علماء امت اسلامیہ  ۔جہاں تک تاویل کا تعلق ہے تو اہل سنّت کی اکثریت  کا کہنا یہ کہ"وما يعلم تاويله الّا الله"

بخز اللہ کے کسی کو اس کی تاویل  کا علم نہیں ۔ اس موقع پر مجھے وہ گفتگو یادآگئی  جو ایک دفعہ میرے اور تیونس کے مشہور عالم زغوانی کے مابین ہوئی تھیں ۔میں نے  ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تھا جو حضرت موسی کے ملک الموت کو تھپڑ مارکر ان کی  آنکھ نکال دینے کے بارےمیں  بخاری اور مسلم میں آئی  ہے(۱)

شیخ زغوانی بخاری پڑھانے اور اس کی شرح کے ماہر سمجھے جاتے تھے انھوں نے فورا جواب دیا : جی ہاں ! یہ حدیث بخاری میں موجود ہے  اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ بخاری میں جو بھی حدیث ہے اس کی صحت کے بارے میں شک نہیں کیا جاسکتا ۔

میں نے کہا :- میں سمجھا نہیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی تشریح فرمادیں !؟

وہ:-صحیح بخاری  کتاب  اللہ کی طرح ہے ، جو سمجھ سکتے ہو اسے سمجھ لو ، جو نہیں سمجھ سکتے اسے چھوڑ دو اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد کردو ۔

میں :- صحیح  بخاری کس طرح قرآن  کی طرح ہے ؟ ہم سے تو قرآن  کو بھی سمجھنے کے لئے کہا گیا ہے ؟

وہ :هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ (۲)

-------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۲ ص ۱۶۳ باب وفات موسی اور مسلم جلد ۲ ص ۳۰۰ باب فضائل موسی ۔

(۲):- وہ وہی اللہ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری ۔ اس میں  کچھ محکم  آیتیں ہیں جن پر اصل کتاب۔۔۔۔

۱۱

میں بھی شیخ زغوانی کے ساتھ ساتھ تلاوت کررہا تھا ، میں نےالّا الله   کےبعد پڑھاوالرّاسخون فی العلم تو انھوں نے چیخ کر کہا ۔

وہ :- ٹھہرو! اللہ کےبعد وقف لازم ہے ۔

میں :- حضرت! واو عاطفہ ہے ،الراسخون فی العلم کا عطف اللہ پر ہے ۔

وہ:- یہ نیا جملہ ہے :والرّاسخون فی العلم يقولون آمنّا  به کلّ من عند ربّنا (۱) گو وہ اس کی تاویل سےناواقف ہوں ۔

میں :- حضرت! آپ توبڑے عالم ہیں ، آپ کیسے اس مطلب کو تسلیم کرتے ہیں ؟

وہ:- اس لیے کہ صحیح تفسیر یہی ہے ۔

میں :- یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ ،نے ایسا کلام نازل کیا ہو جس کا مطلب صرف وہی جانتا ہے ۔آخر اس میں کیاحکمت  ہے ؟ ہمیں تو قرآن پر غور کرنے اور اس کو سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ بلکہ قرآن نے تو لوگوں کو للکارا ہے کہ اگر ہوسکے تو اس جیسی کوئی آیت  یا کوئی ایک سورت بناکر لے آؤ ۔ اگر اللہ کے سوا کوئی قرآن کو سمجھتا ہی نہیں تو پھر اس چلینچ  کا کیا مطلب ہے ؟اس پر شیخ زغوانی ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے جو مجھے ان کے پاس لیکر گئے تھے اور کہنے لگے :" تم میرے پاس ایسے آدمی کولے کر آئے ہوجو مجھے صرف لاجواب کرنا چاہتا ہے ،وہ کوئی سوال پوچھنا نہیں چاہتا "  پھر انھوں نے ہمیں یہ کہتے ہوئے رخصت کردیا ک:" میں بیمار ہوں ، تم میری بیماری بڑھانے کی کوشش نہ کرو"۔ جب ہم ان

--------------------

کا مدار اور کچھ متشابہ آیتیں ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے ہولیتے ہیں جو متشابہ ہے ۔ ان کا مقصد شورش پھیلانا اور متشابہ آیات کا غلط مطلب نکالنا ہے حالانکہ ان آیات کا صحیح مطلب کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور۔۔"(سورہ آل عمران ۔آیت ۷)

(۱):-اور راسخون فی العلم کہتے : "ہم تو اس پر ایمان لے آئے ۔یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے "

۱۲

کے پاس سے نکلے تومیرے ساتھیوں میں سے ایک تو مجھ سے سخت خفا تھا ،باقی چار میرے طرفدار تھے اور کہہ رہے تھے کہ معلوم ہوگیا کہ بقول شخصی "شیخ بالکل کورے ہیں " اب میں پھر اصل موضوع پر آتا ہوں ۔ قرآن کی تاویل نہ کرنے پر سب اہل سنت کا اتفاق ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کی تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے ۔لیکن شیعہ  کہتے ہیں  کہ ائمہ اہلبیت ع قرآن کی تفسیر اور تاویل دونوں کے اہل ہیں  اور راسخون فی العلم سے وہی مراد  ہیں اور وہی وہ اہل ذکر ہیں جن سے رجوع کرنے کا اللہ نے ہمیں اس آیت میں حکم دیا ہے :" فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ " (۱) اور یہی   وہ ہیں  جن کو اللہ نے منتخب قراردیا ہے اور اپنی کتاب کے علم کا وارث بنایا ہے ۔ارشاد ہے :" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا " (۲)

اسی مقصد کے لئے رسول اللہ نے انھیں قرآن  کا ہمدوش اور ثقلین میں سے ایک قراردیا ہے اور ان سے تمسک کرنےکا سب مسلمانوں ک وحکم دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا :

"تركت فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي اهلبيتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلّوابعدي ابدا" (۳)

میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک تواللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت ،میرے اہل بیت  جب تک تم ان کا دامن تھامے رہوگے ، میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔

مسلم کے الفاظ ہیں :" کتاب اللہ اور میرے اہلبیت ۔ میں  تمھیں اپنے اہلبیت

--------------------

(۱):-اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو (سورہ نحل ۔آیت ۴۳ )تفسیر طبری جلد ۱۴ صفحہ ۱۰۹ ،تفسیر ابن کثیر جلد ۲۔

(۲):- پھر ہم نے وارث  بنایا کتاب کا ان کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا ۔(سورہ فاطر آیت ۳۲)

(۳)جامع ترمذی جلد ۵ صفحہ ۳۲۹ ۔حدیث ۳۸۷۴ مطبوعہ دارالفکر بیروت۔

۱۳

کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں ۔"آپ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے(۱) "

سچی بات یہ ہے کہ میرا رجحان شیعہ قول کی طرف ہے کیونکہ وہ زیادہ سمجھ میں آنے والا ہے ۔ قرآن کا ظاہر  بھی ہے اور باطن  بھی ، اس کی تفسیر بھی ہے اور تاویل بھی ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صرف اہل بیت ع ہی کو اس کے سب علوم سے واقف ہونا چاہیۓ کیونکہ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ ، سب لوگوں  کو قرآن  کی سمجھ عطاکردے ۔اللہ تعالی  نے خود فرمایا ہے : وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ۔علمائے اسلام  تک میں قرآن  کی تفسیر میں اختلاف ہے ، مگر جیسا کہ خود  اللہ نے گواہی  دی ہے راسخون فی العلم  قرآن کی تاویل سے واقف  ہیں ۔اس لئے ان کے مابین  قرآن کی تفسیر میں اختلاف نہیں ہوسکتا ۔

یہ بھی بالبداہت  معلوم ہے کہ اہل بیت سب سے زیادہ  عالم ، سب سے زیادہ پرہیزگار ،سب سے زیادہ متقی اور سب سے افضل تھے ۔ فرزدق نے ان کے بارے میں کہا ہے _

وإن عدّأهل التّقى كانواأئمّتهم

وإن قيل من خيرأهل الأرض قيل هم

اگر اہل تقوی کو گنوایا جائے تو یہ ان سب کے امام ہیں ۔ اوراگر پوچھا جائے کہ دنیا میں بہترین لوگ کون ہیں تو کہا جائے گا کہ یہی تو ہیں ۔

میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا جس سے ظاہر ہوجائیگا  کہ شیعہ وہی  کچھ کہتے ہیں جو قرآن کہتا ہے اور جس کی  تائید سنت نبوی سے ہوتی ہے ۔ آئیے یہ آیت پڑھیں ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:" فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ  وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ   فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ

--------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد  ۲صفحہ ۳۶۲ باب فضائل علی بن ابی طالب ع

۱۴

لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ….. "

میں قسم کھاتا ہوں ستاروں  کی جگہ کی ، اور اگر تم سمجھو تم یہ ایک بڑی قسم ہے ۔واقعی  یہ ایک  قابل احترام  قرآن  ہے ،ایک  خفیہ کتاب میں ، جسے  کوئی مس نہیں کرسکتا سوائے ان کے جو پاک کیے گئے ہیں ۔(سورہ واقعہ ۔آیات ۷۵-۷۹)

ان آیات سے بغیر کسی ابہام کے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اہل بیت  ع ہی ہیں جو قرآن کے چھپے ہوئے  معنی سمجھ سکتےہیں ۔

اگر ہم غور سے دیکھیں تویہ قسم جو ربّ العزت نے کھائی  ہے واقعی ایک بڑی قسم ہے بشرطیکہ  ہم سمجھیں ، کیونکہ  اللہ نے (دوسری سورتوں میں ) قسم کھائی ہے ،عصر کی ، قلم کی ، انجیر کی، زیتون کی ،ان کے مقابلے میں مواقع النجوم  یعنی ستاروں  کی جگھوں کی یا ستاروں  کی منازل کی قسم ، ایک بڑی قسم  ہے کیونکہ  ستاروں  کی منازل اللہ کے حکم سے پر اسرار طور پر کائنات پر اثر انداز  ہوتی ہیں ۔  یہ بھی  یاد رکھنا  چاہیے  کہ جب اللہ   قسم کھاتا ہے تویہ قسم کسی بات  کی  ممانعت کے لئے نہیں ہوتی  بلکہ کسی بات کی نفی یا اثبات کے لئے ہوتی ہے ۔

قسم کے بعد  اللہ سبحانہ زور دے کر کہتا  ہے کہ واقعی یہ قابل احترام قرآن ، ایک کتاب مکنون میں ہے اور مکنون  خفیہ یا چھپے ہوئے کو کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہے  "لا یمسّہ الا المطہرون" اس میں لا نفی  کے لیے ہوسکتا ہے  کیونکہ قسم کے بعد آیا ہے ۔ یمسّہ  کے معنی  یہاں درک کرنے اور سمجھنے کے ہیں ، ہاتھ سے چھونے کے نہیں  جیسا  کہ بعض کا  خیال  ہے ۔ دراصل مسّ او ر لمس دولفظ ہیں اور دونوں کے معنی میں فرق ہے ۔ ارشاد خداوندی  ہے :-" إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ " (۱)

--------------------

(۱):- جو لوگ متقی  ہیں جب انھیں کوئی شیطانی خیال ستاتا  ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں جس سے انھیں یکایک سجھائی دینے لگتا ہے ۔ (سورہ اعراف ۔آیت ۲۰۱)

۱۵

دوسری جگہ ارشاد  ہے :" الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ " (۱)

ان آیات میں مسّ کا تعلق دل ودماغ سے ہے ہاتھ سے چھونے سے نہیں ۔ہم پوچھتے ہیں  یہ کیسی بات ہے  کہ اللہ سبحانہ ،تو قسم  کھا کر کہتا ہے کہ قرآن کو کوئی چھو نہیں سکتا بجز اس کے جو پاک کئے گئے ۔ جبکہ  تاریخ  ہمیں بتاتی  ہے کہ بنی امیہ کے حکمران  افلاس  ایمانی  کے سبب توہین قرآن  کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور ولید بن مروان نے تویہاں تک کہاتھا کہ

" تم ہر جابر سرکش کو عذاب سےڈراتا ہے اور میں بھی جابر اور سرکش ہوں، جامحشر میں اپنے رب سے کہہ دینا کہ ولید نے مجھے پھاڑدیا تھا ۔"

ہم نے خود دیکھا  ہے کہ جب اسرائیلوں نے بیروت پر قبضہ کیا تو انھوں نے قرآن پاک کو اپنے پیروں تلے روندا اور جلایا ۔ اس کے دل ہلادینے والی تصویر یں ٹیلویژن پر دکھائی گئی تھیں ۔(۲)

اس لئے یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالی قسم کھائے اور پھر قسم توڑے ۔البتہ اللہ سبحانہ ،نے اس کی نفی  کی ہے کہ قرآن  مکنون  کے معانی  کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ، بجز اس کے ان منتخب بندوں کے جنھیں  ان سے چن لیا ہے خوب پاک کیا ہے ۔ اس آیت میں مطہرون اسم مفعول کا صیغہ  ہے جس کا معنی ہیں :"وہ جو پاک کیے گئے " سورہ احزب میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ

--------------------

(۱):- جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ(قیامت میں )ایسے اٹھیں گے جیسے وہ اٹھتا ہے جو شیطان کے اثر سے خبطی ہوگیا ہو ۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۲۷۵)

(۲):- پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی مذہبی وسیاسی جھگڑوں میں قرآن جلائے جاتے ہیں اور مسجدوں  کی بے حرمتی کی جاتی ہے جو باعث شرم اور قابل مذمت ہے (ناشر)

۱۶

وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "

اللہ تو بس یہی چاہتا ہے  کہ اے اہلبیت تم سے رجس(۱) کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک کردے ۔(سورہ احزاب ۔آیت ۳۲)

سوا س آیت میں "لا یمسہ الا مطہرون" کے معنی ہیں کہ "قرآن کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھتا  سوائے اہل بیت  کے " اسی لئے رسول اللہ ص نے ان کے بارے میں کہا ہے :

"النّجوم أمان لأهل الأرض من الغرق وأهل بيتي أمان لاُمتي من إختلافٍ فاذاخالفها قبيلةٌ مّن العرب اختلفوا فصاروا حزب الإبليس."ستارے زمین والوں  کوڈوبنے سے بچاتے ہیں اور میرے اہلبیت ع میری امت کو اختلاف سے بچاتے ہیں ۔ جب عرب کا کوئی قبیلہ میرے اہلبیت ع  کی مخالفت کرتا ہے تو اس قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے اور وہ ابلیس کی جماعت بن جاتا ہے ۔ (۲)

اس لیے شیعوں کا یہ کہنا  کہ قرآن اہلبیت ع ہی سمجھتے  ہیں ایسی بات نہیں جیسا کہ اہل سنت دعوی کرتے ہیں کہ شیعہ تو جھوٹ بولتے ہیں  اور اہلبیت ع کی محبت میں غلو کرتے ہین کیونکہ شیعوں کی تائید میں دلائل صحاح ستہ  میں موجود  ہیں ۔

سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

سنت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ہر قول ،فعل اور تقریر شامل ہے ۔ یہ مسلمانوں کے نزدیک اعتقادات ،عبادات اور احکامات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے

------------------

(۱):- برائی اور بری چیز کو رجس کہتے ہیں ۔رجس کی مختلف اقسام ہیں :- کوئی چیز طبیعی طور پر بری ہوتی ہے مثلا مردار ۔۔یا عقلی طورپر مثلا جوا ۔۔اور یا شرعی طور پر ہی ہوتی ہے مثلا شرک ۔(ناشر)

(۲):- یہ حدیث حاکم نے ابن عباس کے حوالے سے مستدرک علی الصحیحین جلد ۳ میں بیان کی ہے اور کہا  ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں مگر بخاری اور مسلم نے یہ حدیث روایت نہیں کی ۔

۱۷

اہل سنت والجماعت سنت نبوی کے ساتھ خلفائے راشدین یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اور علی کی سنت کا بھی اضافہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں ایک حدیث ہے کہ

"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين المهديّين من بعدي عضّواعليها بالنواجذ.(۱)

اس کی ایک بہت واضح مثال  نماز تراویح ہے جس سے رسول اللہ نے منع کردیا تھا(۲) ،مگر سنّی  ،سنت عمر کی پیروی  میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔

بعض اہل سنت والجماعت سنّت رسول  کے ساتھ سنت صحابہ(تمام صحابہ بغیر کسی تفریق کے) کا بھی اضافہ  کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے یہاں ایک روایت ہے کہ"أصحابي كالنّجوم بأيّهم اقتديتم اهتديتم .(۳)

حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں کہ حدیث اصحابی کالنجوم  شیعہ حدیث(۴) "الأئمة من أهل بيتي كالنجوم بأيّهم اقتديتم اهتديتم" کے مقابلے  پر وضع کی گئی ہے ۔شیعہ حدیث کی معقولیت  میں تو اس لئے شک نہیں کیونکہ ائمہ اہل بیت ع علم وزہد اور ورع وتقوی  کے اعلی ترین معیار پر فائز تھے ۔ ان کے پیروکاروں  کو تو چھوڑئیے ، اس کی گواہی  تو ان کے دشمن بھی دیتے ہیں اور پوری تاریخ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے ۔لیکن حدیث اصحابی کالنجوم ایسی  حدیث ہے جسے عقل سلیم قبول نہیں کرتی، کیونکہ صحابہ میں تو وہ لوگ بھی ہیں جو رسول اللہ کے بعد مرتد ہوگئے تھے (۵) نیز

--------------------

(۱):- تم میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو دانتوں سے مضبوط پکڑنا ۔(مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۶)

(۲):- صحیح بخاری جلد ۷ باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ ۔

(۳):-میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ اور مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۹۸)

(۴):- قاضی نعمان بن محمد ،دعائم الاسلام جلد ۱ صفحہ ۸۶ دارالمعارف ،مصر،

(۵):- جیسے اہل ردّہ جن سے حضرت ابو بکر نے جنگ کی تھی ۔

۱۸

یہ کہ اصحاب بہت سے امور میں ایک دوسرے کے خلاف تھے اور ایک دوسرے  میں کیڑے نکالتے تھے(۱) ، ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے ،(۲) بلکہ ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے(۳) ، حتی کہ بعض صحابہ پر تو شراب نوشی ،زنا اور چوری وغیرہ کے الزام م میں حد جاری کی گئی تھی۔ ان حالات میں کیسے کوئی عاقل اس حدیث  کو قبول کرسکتا ہے جس میں  ایسے  لوگوں  کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور کیسے  کوئی امام علی  ع کے خلاف  جنگ میں معاویہ کی پیروی کرسکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے معاویہ کو امام الفئۃ الباغیہ کہا تھا(۴) ۔وہ شخص کیسے ہدایت یافتہ ہوسکتا ہے جو عمروبن عاص ،مغیرہ  بن شعبہ اور بسر بن ارطاۃ کی پیروی کرے جنھوں نے اموی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔کوئی بھی باشعور قاری جب حدیث اصحابی کالنجوم پڑھے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے ۔ کیونکہ  اس حدیث  کے مخاطب صحابہ ہیں ۔ اور رسول اللہ یہ کیسے کہہ سکتے  تھے کہ " اے میرے اصحاب ! میرے اصحاب کا اتباع کرنا ۔لیکن دوسری حدیث کے " اے میرے اصحاب ! ان ائمہ کا اتباع کرنا جو میرے اہل بیت ع میں سے  ہیں کیونکہ  میرے بعد وہ تمھاری رہنمائی کریں گے " بالکل حق ہے ۔اس میں کسی شک  شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ  اس کے متعدد شواہد  سنت رسول ص میں پائے جاتے ہیں ۔شیعہ کہتے ہیں کہ حدیث""عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين المهديّين من بعدي عضّواعليها بالنواجذ

سے مراد ائمہ اثنا عشر ہیں ۔ ان ہی سے تمسک  اور انہی کا اتباع ، کلام اللہ سے تمسک اور کلام اللہ کے اتباع  کی طرح ہے(۵)

---------------------

(۱):- جیسے اکثر صحابہ حضرت عثمان پر طعن کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ عثمان کو قتل کردیا گیا ۔

(۲):- جیسے معاویہ نے امام علی  ع پر لعنت کرنے کا حکم دیا تھا ۔

(۳):- جیسے جنگ جمل ، جنگ صفین اور جنگ نہروان وغیرہ ۔

(۴):- حدیث کہ " عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا "

(۵) صحیح ترمذی جلد ۵ صفحہ ۳۲۸ ۔صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۳۶۲ ۔خصائص امیرالمومنین ،امام نسائی ،کنز العمال جلد ۱ صفحہ ۴۴۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۱۸۹ ۔مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۴۸ ۔صواعق محرقہ صفحہ ۱۴۸۔ طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحہ ۱۹۴ ۔الطبرانی جلد ۱ صفحہ ۱۳۱

۱۹

میں نے عہد کررکھا ہے کہ جن روایات سے شیعہ استدلال کرتے ہیں میں ان میں  سے صرف وہی روایات نقل کروں گا جو اہل سنت والجماعت کی صحاح میں پائی جاتی ہیں ، ورنہ شیعوں  کی کتابوں میں تو اس سے کئی گنا زیادہ احادیث موجود ہیں اور ان کی عبارت بھی زیادہ واضح اور صاف ہے (۱) ۔

یہ بھی واضح کردوں کہ شیعہ یہ نہیں کہتے  کہ ائمہ اہلبیت ع کو تشریع کا حق حاصل ہے یا ان کی سنت ان کا اپنا اجتہاد ہے بلکہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ  کے بیان کیے ہوئے سب احکام یا تو قرآن سے ماخوذ ہیں یا اس سنت سےجس کی تعلیم رسول اللہ نے امام علی ع کو دی تھی  نے اپنی اولاد کو ۔ اس طرح ائمہ کا علم متوارث ہے ۔

اس ضمن میں شیعوں کے پاس بہت سے دلائل ہیں جن کی بنیاد ان روایات پر جو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح ، مسانید اور تاریخوں میں نقل کی ہیں ۔ یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے  جو بار بار ذہن میں آتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کیوں ان آیات کے مضمون پر عمل نہیں کرتے  جو خود ان کے نزدیک صحیح ہیں ؟؟؟

پھر جس طرح اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان قرآن کی تفسیر میں اختلاف ہے اسی طرح ان کے درمیان احادیث کے معانی میں بھی اختلاف ہے ۔ مثلا خلفائے راشدین  کے الفاظ آئے ہیں اور اس حدیث کو فریقین نے صحیح قرار دیا  ہے ۔ لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ خلفائے  راشدین سے مراد وہ چار خلیفے ہیں جو رسول اللہ ص کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ان سے مراد بارہ خلفاء ہیں اور وہ ائمہ اہل بیت ع ہیں ۔

یہی اختلاف ان تمام اشخاص کے بارے میں ہے جن کو قرآن  یا رسول ص نے پاک قرار دیا ہے اور مسلمانوں  کو ان کے اتباع کا حکم دیا ہے ۔ اس کی مثال رسول اللہ

--------------------

(۱):- میں صرف ایک مثال دوں گا ۔ شیخ صدوق نے اکمال الدین میں بسند امام صادق عن ابیہ عن جدہ  ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"میرے بعد بارہ امام ہوں گے : پہلے امام علی ع اورآخری امام قائم ہوںگے"

۲۰

کا یہ قول ہے کہ" علمائ امتی افضل من انبياء بنی اسرائيل " (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں )یا یہ قول کہ  :" العلماء ورثة الأنبياء " (علماء انبیاء کے وارث ہیں )(1) ۔اہل سنّت کےنزدیک یہ حدیث عام ہے اور اس کا مصداق سب علمائے امت ہیں ۔ جبکہ شیعوں کے نزدیک یہ حدیث صرف بارہ اماموں سے مخصوص ہے اور اسی بنا پر وہ ائمہ  اثناعشر کو اولوالعزم انبیاء کو چھوڑ کر سب انبیاء سے افضل قراردیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کارجحان بھی اسی تخصیص کی طرف ہے :اوّل تواس لئے کہ کلام الہی کے مطابق قرآن کی تاویل کا علم صرف راسخوں فی العلم سے مخصوص ہے ۔ اسی طرح قرآن  کے علم کا وارث بھی اللہ  تعالی نے اپنے چیدہ وچنیدہ بندوں کو ہی قراردیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تخصیص ہے ۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت ع کو " سفینۃ النجاۃ ۔ ائمۃ الھدی" اور"مصابیح الدجی" کہا ہے اور وہ ثقل ثانی قراردیا ہے جو گمراہی سے بچانے والا ہے ۔

دوسرے اس لئے کہ اہل سنت والجماعت کا قول اس تخصیص کے منافی ہے جو قرآن اور حدیث نبوی سے ثابت ہے ۔ عقل بھی اس قول کو قبول نہیں کرتی کیونکہ اس میں ابہام ہے اس لئے کہ اس میں حقیقی علماء اوربناوٹی  علماء میں فرق نہیں کیا گیا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ یہاں وہ علماء بھی  جنھیں اللہ تعالی نے ہمہ اقسام رجس سے پاک رکھا ہے اور وہ علماء بھی ہیں جنھیں اموی اور عباسی حکمرانوں نے امّت پر سوار کردیا تھا ۔زیادہ واضح الفاظ میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ دوقسم کے علماء ہیں : ایک وہ جن کو علم لدنی عطا ہوا ہے ۔ اور دوسرے وہ جنھوں نے استادوں سے راہ نجات کی تعلیم  حاصل کی ۔یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تاریخ کسی ایسے استاد کاذکر نہیں کرتی جس سے ائمہ اہلبیت ع نے تعلیم  حاصل کی ہو ۔ بجز اس کے کہ بیٹے نے باپ سے علم حاصل کیا ہے ۔ اس کے باوجود خود علمائے اہل سنت  نے اپنی کتابوں  میں ان ائمہ کی علمیت کی حیرت انگیز داستانیں بیان کی ہیں ۔خصوصا امام باقر ع ، امام صادق ع

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد اول کتاب العلم اور صحیح ترمذی کتاب العلم

۲۱

اورامام رضا ع سے متعلق ۔امام رضا ع کا تو ابھی لڑکپن ہی تھا جب انھوں نے اپنی کثرت معلومات چالیس قاضیوں کو مبہوت کردیا تھا جنھیں مامون نے ان کے مقابلے کے لئے جمع کیاتھا (1) ۔

اسی سےیہ راز بھی آشکار  ہوجاتا ہے کہ سنیوں کے مذاہب اربعہ کے اماموں میں تو ہر مسئلے میں اختلاف ہے اوراہل بیت ع کے بارہ اماموں میں کسی ایک مسئلہ میں بھی اختلاف نہیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر اہلسنت  کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ آیات اور احادیث بلا امتیاز علمائے امت کے بارے میں ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ آراء اور مذاہب  کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلاجائے گا ۔ شاید علمائے اہل سنت نے اپنی رائے کی اسی کمزوری کو بھانپ لیا تھا جس کی وجہ سے انھوں نے عقیدے کی تفریق سے بچنے کی خاطر ائمہ اربعہ کے وقت سے ہی اجتہاد کا دروازہ بندکردیا ۔

اس کے بر عکس ، شیعوں کا نظریہ یہ اتفاق  اور ان ائمہ سے وابستگی کی دعوت دیتا ہے ۔ جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے خصوصی طورپر ان سب علوم ومعارف سے نوازا ہے جن کی ہرزمانے میں مسلمانوں  کوضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے اب یہ کسی مدعی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے کوئی غلط بات منسوب کرکے کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالے اور لوگوں کو اس کے اتباع پرمجبور کرے ۔اس مسئلے میں شیعہ ، سنی اختلاف کی نوعیت بالکل وہی ہے جو مہدی موعودسے متعلق احادیث کے بارے میں ان کے اختلاف  کی ہے ۔ مہدی موعود سے متعلق حدیث کی صحت کے د ونوں فریق قائل ہیں ۔

شیعوں کےیہاں مہدی کی شخصیت معلوم ہے ۔ یہ بھی علم ہے کہ ان کے باپ دادا کون ہں ۔لیکن اہل سنت کے خیال میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ مہدی کون صاحب ہوںگے ۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ آخری زمانے میں  پیدا ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتک

--------------------

(1):-العقدالفرید ابن عبد ربہ اور الفصول المہمہ ابن صباغ مالکی جلد 3۔

۲۲

بہت سے لوگ مہدی ہونے کا دعوی کرچکے ہیں ۔خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہادفی نے کہا کہ وہ منتظر مہدی ہیں ۔ یہ بات انھوں نے میرے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہی جو اس وقت انکا مرید تھا ۔بعد میں شیعہ ہوگیا ۔

بہت سے اہل سنت اپنے بچے کا نام مہدی اس امید میں رکھتے ہیں کہ شاید وہی امام منتظر وموعود ہو ۔لیکن شیعوں کے یہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ اب پیدا ہونے والا کوئی شخص ایسا دعوی کرسکے ۔کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام مہدی برکت کے لئے ضرور رکھتے ہیں جیسے بعض لوگ اپنے بیٹے کا نام محمد یا احمد یا علی رکھتے ہیں ۔شیعوں کے نزدیک مہدی کا ظہور خود ایک معجزہ ہے کیونکہ وہ اب سےبارہ سو سال پہلے پیدا ہوئے  تھے ، اس کے بعد غائب ہوگئے ۔ اس طرح شیعہ خود بھی آرام سے ہوگئے اور انھوں نے مہدی ہونے کا دعوی کرنے والوں کے لئے بھی راستہ بند کردیا ۔اسی طرح بہت سی صحیح احادیث کے معنی میں بھی شیعوں اورسنیوں کےدرمیان اختلاف ہے ۔ حتی کہ ایسی احادیث کے معنی میں اختلاف ہے جن کا تعلق اشخاض سے نہیں مثلا ایک حدیث ہے :"إختلاف اُمتي رحمة"

سنی کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی فقہی مسئلہ فقہاء کے مابین اختلاف مسلمان کے لئے رحمت ہےکیونکہ اس طرح وہ مسئلہ کا وہ حل اختیار کرسکتا ہے جو اس کے حالات کےمناسب ہو اور اسے پسند ہو ۔ مثلا اگر کسی مسئلہ میں امام  مالک کا فتوی سخت ہو تو وہ مالکی ہونے کے باوجود امام ابو حنیفہ کی تقلید کرسکتا ہے اگر اسے ان کا مذہب سہل اورآسان معلوم ہو ۔

مگر شیعہ اس حدیث کا مطلب کچھ اور بیان کرتے ہیں ۔ ان کےیہاں روایت ہے کہ جب امام صادق علیہ السلام سے اس حدیث کےبارےمیں پوچھا گیا  تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ نے صحیح فرمایا ۔ سائل نے پوچھا کہ اگر اختلاف رحمت ہے تو کیا اتفاق مصیبت ہے ؟ امام صادق ع نے کہا : نہیں یہ بات نہیں تم غلط راستے پر چل پڑے اوراکثر لوگ اس حدیث کا مطلب غلط سمجھتے ہیں ۔ رسول اللہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ" حصول علم کے لئے ایک دوسرے کے پاس جانا اور سفر کرنا رحمت ہے " آپ نے

۲۳

اپنے قول کی تائید میں یہ آیت پڑھی :

" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"

ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ تحصیل علم کے لئے  نکلا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرے ، پھر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس آکر ان کوڈرائے ۔ کیا عجب کہ وہ غلط کاموں سے بچیں(1) ۔ پھر فرمایا کہ اگر لوگ دین میں اختلاف کریں گے تو وہ شیطانی جماعت بن جائیں گے ۔جیسا کہ ظاہر ہے ، یہ تفسیر اطمینان بخش ہے کیونکہ اس میں عقائد میں اختلاف کے بجائے اتحاد کی تعلیم دی گئی ہے ۔ یہ نہیں کہ لوگ جماعتوں اور گروہوں میں بٹ جائیں ایک اپنی رائے  کے مطابق کسی چیز کو حلال قراردے تو دوسرا اپنے قیاس کی بنا پر اسی چیز کو حرام دے دے ۔ ایک اگر کراہت کا قائل ہو تو دوسرا استحباب کا تیسرا وجوب کا(2) عربی زبان میں دومختلف ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں ۔

"إختلفت إليك "اور"إختلفت معك"

دونوں کےمعنی میں فرق ہے ۔"إختلفت إليك " کے معنی ہیں : میں تیرے پاس آیا " اور"إختلفت معك" کے معنی ہیں" میں نے تیری رائے سے اختلاف کیا "۔

اس کے علاوہ اہل سنت والجماعت نے حدیث کا جو مفہوم اختیار کیا ہے وہ اس لحاظ سے بھی نامناسب ہے کہ اس اختلاف اور تفرقہ کی دعوت ہے جو قرآن کریم کی اس تعلیم کے منافی ہے جس میں اتحاد واتفاق اور ایک مرکز پر جمع ہونے کی تلقین کی گئی ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :

--------------------

(1):-سورہ توبہ آیت 122

(2):- مالکیوں کے نزدیک نماز میں بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے ۔شافعیوں کے نزدیک واجب ہے ۔حنفیوں اورحنبلیوں کے نزدیک مستحب ہے مگر کہتے ہیں کہ جہری نماز میں بھی آہستہ پڑھی جائے ۔

۲۴

" وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ "

اور یہ تمھاری امت ایک امت ہے اورمیں تمھارا پروردگار ہوں اس لئے مجھ سے ڈرتے رہو۔(سورہ مومنون ۔آیت 52)

" وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ "

اللہ کی رسی کو مضبوطی سےتھامے رہو اور نااتفاقی نہ کرو۔(سورہ آل عمران ۔آیت 103)

" وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ "

آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ناکام رہوگے اورتمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔(سورہ انفال ۔آیت 46)

اس سے بڑھ کر اور کیا پھوٹ اور تفرقہ ہوگا کہ امت واحدہ ایسے مختلف فرقوں اور گرہوں میں بٹ جائے جو ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوں ، ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہوں بلکہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہوں یہاں تک کہ ایک دوسرے کا خون بہانا جائز سمجھتے ہوں ۔یہ کوئی خیالی  بات نہیں بلکہ مختلف ادوار میں فی الواقع ایسا ہوتا رہا ہے جس کی سب سے بڑی گواہ تاریخ ہے اور امت میں پھوٹ کے اسی انجام سے خود اللہ تعالی نے ڈرایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے :

" وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ "

ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو دلائل آجانے کے باوجود آپس میں بٹ گئے اور ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے ۔(سورہ آل عمران ۔آیت 105)

" إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ میں بٹ گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ۔(سورہ انعام ۔آیت 160)

"وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ () مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ

۲۵

وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ "

مشرکوں میں سے نہ بن جاؤ نہ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود فرقے فرقے ہوگئے ۔سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے ۔(سورہ روم ۔آیت 31-32)

یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا  کہ لفظ شیعا کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ ایک سادہ لوح شخص نے سمجھا تھا  جو ایک دفعہ میرے پاس آکر مجھے نصیحت کرنے لگا : "بھائی جان! خدا کے واسطے ان شیعوں کوچھوڑیئے ،اللہ  ان سے نفرت کرتا ہے :اس نے اپنے رسول کو متنبہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ نہ ہوں "۔

میں نے کہا : یہ کیسے ؟

اس نے یہ آیت پڑی دی : " إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "

 میں نے اسے سمجھانے کی بہیتری کوشش کی کہ شیعا کے معنی ہیں گروہ ،جماعتیں ،پارٹیاں ۔اس کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ شیعہ کا لفظ تو اچھے معنی میں آیا ہے مثلا :" وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ "

یا حضرت موسی ع  کے قصے میں آیا ہے کہ" فوجد فيها رجلين يقتتلان هذا من شيعته وهذا من عدوه "

مگر افسوس ! یہ شخص کسی طرح میری بات مان کر نہ دیاکیونکہ اسے تومسجد کے امام صاحب نے شیعوں کے خلاف سکھا پڑھا دیا تھا ۔ پھر وہ کوئی اور بات کیوں سنتا ؟

اب میں اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ میں شیعہ ہونے سے پہلے سخت شش وپنچ میں تھا ۔جب میں یہ حدیث پڑھتا تھا کہ :"إختلاف اُمتي رحمة" اور اس کا مقابلہ اس دوسری حدیث سے کرتا تھا جس میں آیا ہے کہ "میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو ایک کو چھوڑ کر سب جہنم میں جائیں گے "(1) تو میں دل ہی دل

-------------------

(1):-سنن ابن ماجہ کتاب الفتن جلد 2۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 120 ۔جامع ترمذی کتاب الایمان ۔

۲۶

میں حیران  ہوتا تھا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو امت کا اختلاف ہو اور ساتھ ہی وہ دخول جہنم کا موجب بھی ہو ؟؟

پھر جب میں نے اس حدیث کی وہ تشریح پڑھی جو امام جعفر صادق نے کی ہے تومیری حیرت دور ہوگئی کیونکہ معما حل ہوگیا تھا۔ اس وقت میں سمجھا کہ ائمہ اہل بیت ع واقعی بہترین رہنما ،اندھیروں میں چراغ اور صحیح معنی میں قرآن وسنت کے ترجمان ہیں ۔ جب ہی تو رسول اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :

"مثل أهل بيتي فيكم كسفينة نوحٍ من ركبها نجا ومن تخلّف عنها غرق .لاتقدّمواهم فتهلكواولاتتخلّفواعنهم فتهلكوا,ولا تعلّموهم فإنّهم أعلم منكم"

میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح  کی سی ہے جو اس پر سوار ہوگیا بچ گیا اور جو اس سے بچھڑ گیا ڈوب گیا ۔ ان سے نہ توآگے نکلو نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے ۔انھیں کچھ سکھانے  کی کوشش نہ کرو کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں (1)۔

امام علی ع نے بھی ان کے حق میں فرمایا ہے :

" اپنے نبی کے اہل بیت پر نظر جمائے رکھو ،ان ہی کے رخ پر ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہو وہ تمھیں راستے سے بھٹکنے نہیں دیں گے  نہ تمھیں کسی گڑھے میں گرنے دیں گے ۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو ۔ ان سے آگے نہ نکلو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ تباہ ہوجاؤ گے (2)

ایک اور خطبے میں اہل بیت ع کی قدر ومنزلت بیان کرتے ہوے امام

--------------------

(1):- صوعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔جامع الصغیر سیوطی جلد 2 صفحہ 157 ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 17 وجلد 4 صفحہ 266

(2):-نہج البلاغہ خطبہ 95

۲۷

علی ع نے فرمایا :

"وہ علم  کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ۔ان کا حلم ان کے علم کی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کی خبر دیتا ہے ۔ ان کی خاموشی ان کی عاقلانہ گفتگو  کی غمازی کرتی ہے ۔ وہ نہ حق کے خلاف کرتے ہیں اور نہ امر حق  میں اختلاف کرتے ہیں ۔ وہ اسلام کے ستون ہیں ۔ تعلق  مع اللہ  ان کی فطرت ہے ۔ ان کی وجہ سے حق کا بول بالا ہوا ، باطل کی جڑیں کٹ گئیں اور اس کی زبان گدی سے کھینچ گئی ان کے پاس وہ عقل ہے کہ انھوں نے دین کو سمجھا اور برتا، یہ نہیں کہ سنا اور بیان کردیا ۔علم کو بیان کرنے والے بہت ہیں اور اسے سمجھنے اور برتنے والے کم ہیں "(1)

جی ہاں  سچ فرمایا امام علی ع نے ، کیونکہ وہ شہر علم کا دروازہ ہیں ۔ بڑا فرق ہے  اس عقل میں جو دین کو سمجھتی اور برتتی  ہے اور اس عقل میں جو سنتی اور بیان کردیتی ہے ۔ سننے اور بیان کردینے والے بہت ہیں کتنے صحابہ ہیں جنھیں رسول اللہ ص کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے ۔ وہ احادیث سنتے تھے اور بغیر سمجھے بوجھے نقل کردیتے  تھے جس سے حدیث کے معنی کچھ کےکچھ ہوجاتے تھے بلکہ بعض دفعہ تو مطلب بالکل الٹا ہوجاتا تھا ۔یہاں تک کہ صحابی کے سخن شناس نہ ہونے اور اصل مطلب نہ سمجھنے  کی وجہ سے بات کفر تک جاپہنچی(2) ۔

لیکن جو علم پر پوری طرح حاوی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔آدمی اپنی پوری

--------------------

(1):-نہج البلاغہ خطبہ 236

(2):- اس کی مثال ابو ہریرہ  کی یہ روایت ہے کہ " انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ " اس کی وضاحت امام جعفر صادق ع نے کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ص نے سنا کہ دو آدمی ایک دوسرے کو برابھلا کہہ رہے ہیں ۔ایک نے کہا " تیری شکل پر پھٹکار  اور تیرے جیسی جس کی شکل ہو اس پر بھی پھٹکار ۔"

اس پر رسول اللہ ص نے فرمایا :" " انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ "" مطلب یہ کہ اس کی شکل تو حضرت آدم ع جیسی ہے ۔گویا تو حضرت آدم کو گالی دے رہا ہے کیونکہ ان کی شکل اس جیسی تھی ۔

۲۸

عمر تحصیل علم میں صرف کردیتا ہے لیکن بسا اوقات اسے بہت ہی کم علم حاصل ہوتا ہے ۔یا زیادہ سے زیادہ وہ علم کی کسی ایک شاخ یا کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرپاتا ہے لیکن علم کی تمام شاخوں پر حاوی ہوجانا یہ بالکل ناممکن ہے  مگر جیسا کہ معلوم ہے ائمہ اہل بیت مختلف علوم سے کماحقہ ، واقف تھے اور ان میں مہارت رکھتے تھے ۔ اس چیز کو امام علی ع نے ثابت کردیا تھا جس کی شہادت مورخین نے بھی دی ہے ۔ اسی طرح امام محمد باقر ع اور امام جعفر صادق سے ہزاروں علماء کو مختلف علوم میں تلمذ حاصل تھا ، جیسے فلسفہ ، طب  ،کیمیا اور طبیعیات وغیرہ ۔

شیعہ اور سنی عقائد

جس بات سےمجھے یقین ہوگیا کہ شیعہ امامیہ ہی نجات پانے والا فرقہ ہے ،وہ یہ ہے کہ شیعہ عقائد فراخ دلانہ ،آسان اورہر ہوشمند اورباذوق شخص کے لئے قابل قبول ہیں ۔ شیعوں کے یہاں ہر مسئلے اور ہر عقیدے کی مناسب اور اطمینان بخش وضاحت موجود ہے جو ائمہ اہل بیت ع میں سے کسی نہ کسی سے منسوب ہے ۔ جب کہ ممکن ہے کہ ایسی کافی وشافی وضاحت اہل سنت اوردوسرے فرقوں کے یہاں نہ مل سکے ۔

میں اس فصل میں فریقین کے بعض اہم عقائد کے بارے میں گفتگو کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کے متعلق اپنی سوچی سمجھی رائے  ظاہر کروں ۔ قارئین کو آذادی اور اختیار ہے کہ وہ میری رائے کو مانیں یا نہ مانیں ،مجھ سے اتفاق کریں  یا اختلاف ۔

میں یہاں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بنیادی عقیدہ سب مسلمانوں کا ایک ہے ۔ سب مسلمان اللہ تعالی پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے  ہیں اور اس کے رسولوں میں کوئی تمییز نہیں کرتے ۔

اسی طرح سب مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جہنّم حق ہے ، جنت حق ہے ، اللہ سب مردوں کو زندہ کرےگا اور انھیں محشر میں حساب کتاب کے لئے جمع کرےگا ۔ اسی طرح قرآن پر بھی اتفاق ہے اور سب کا ایمان ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ سب کا قبلہ ایک ہے ، ان کا دین ایک ہے ،لیکن ان عقائد کے مفہوم میں اختلاف ہوگیا ۔ اور اس طرح یہ عقائد مختلف کلامی فقہی اورسیاسی مکاتب فکر کی جولان گاہ بن گئے ہیں ۔

۲۹

اللہ تعالی کے متعلق فریقین کا عقیدہ

اس سلسلے میں ایک اہم اختلاف رویت باری تعالی کے متعلق ہے :- اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ جنّت میں سب مومنین کو رویت باری تعالی نصیب ہوگی ۔ان کی حدیث کی مستند کتابوں ،مثلا بخاری اور مسلم وغیرہ میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں اس پر زوردیا گیا ہے کہ یہ رویت مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہوگی (1)۔

بلکہ ان میں ایسی روایات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے گویا خدا انسانوں کے مشابہ ہے ، وہ ہنستاہے (2)،آتا جاتا ہے ،چلتا ہے پھرتاہے اور ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر اترتا ہے (3)۔حتی کہ اپنی پنڈلی کھولتا ہے جس پر شناختی علامت بنی ہوئی ہے (4)۔ اور یہ کہ جب وہ اپنا ایک پاؤں دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ بھر جائے گی ۔ غرض ایسی باتیں اور ایسے اوصاف حق تعالی سے منسبوب کیے گئے ہیں جن سے وہ  پاک اور منزہ ہے (5)۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار کینیا (مشرقی افریقہ)کے شہر لامو سےمیر اگزر ہوا ۔ وہاں مسجد میں ایک وہابی امام صاحب نمازیوں  کوخطاب کررہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کے دو ہاتھو ہیں ۔ دوپاؤں ہیں ، دوآنکھیں اور چہرہ ہے ۔ جب میں نے اس پر اعتراض کیاتو انھوں نے اپنی تائید میں قرآن کی کچھ آیات پڑھیں ، فرمایا :-" وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2صفحہ 47 ۔جلد 5 صفحہ 178 اور جلد 6صفحہ 33

(2):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 225۔جلد 5صفحہ 47۔48 ۔صحیح مسلم جلد1 صفحہ 114۔122

(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 197

(4):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 182

(5):- صحیح بخاری جلد 8صفحہ 187 ،صفحہ 202 سےثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی کے ہاتھ اور انگلیاں ہیں ۔

نوٹ:- واضح ہو کہ یہ تو خدا کو حادث ماننا  ہوا جبکہ وہ قدیم ہے ۔(ناشر)

۳۰

وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ...... "

یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ تو بندھا ہوا ہے ۔ بندھیں ان کے ہاتھ ! اورلعنت ہو ان پر یہ بات کہنے کی وجہ سے ۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہیں "۔

اس کے بعد دوآیتیں اور پڑھیں :" وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا " ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ، اور

" کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " جو مخلوق بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے اور تمھارے پروردگار کا چہرہ جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گا ۔

میں نے کہا :- بھائی صاحب !جو آیات آپ نے پڑھی ہیں مجاز ہیں حقیقت  نہیں ۔ کہنے لگے سارا قرآن حقیقت ہے اس میں مجاز کچھ نہیں ۔ اس پر میں نے کہا : پھر اس آیت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں:" وَمَن كَانَ فِي هَـذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى " کیا آپ آیت  کو اس کے حقیقی معنی میں لیں گے ؟ کیا واقعی دنیا میں جو بھی اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا ؟

امام صاحب نے جواب دیا : ہم اللہ کے ہاتھ ، اللہ کی آنکھ اور اللہ کےچہرے کی بات کررہے ہیں ، اندھوں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ۔(فکری جمود کی انتہا ملاحظہ ہو۔)

میں نے کہا :- اچھا اندھوں کو چھوڑیۓ ! آپ نے جو آیت پڑھی ہے : " کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " اس کی تشریح آپ کیسے کریں گے ؟

امام صاحب نے حاضر ین کو مخاطب کرکے کہا :کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اس

۳۱

آیت کا مطلب نہ سمجھتا ہو؟اس کا مطلب صاف ظاہر ہے ۔یہ بالکل ویسی ہی آیت ہے جیسی"كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه".

میں نے کہا:- آپ نے اور بھی گڑبڑکردی ۔بھائی صاحب میرا آپ کا اختلاف  قرآن کے بارے میں ہے ۔آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میں مجاز نہیں سب حقیقت ہے ، میں کہتا ہوں مجاز بھی ہے خصوصا ان آیات  میں جس میں تجسیم   یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے ۔ اگر آپ کو اپنی رائے پر اصرارہے تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ"كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه"

کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ ،پاؤں اور اس کا پورا جسم فنا ہوجائے گا اور صرف چہرہ باقی بچے گا ۔ (نعوذ باللہ)پھر میں نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا : کیا آپ کو یہ تفسیر منظور ہے ؟

پورے مجمع پر سکوت طاری ہوگیا اور امام صاحب کو بھی ایسی چپ لگ گئی جیسے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہوں ۔ میں انھیں رخصت کرکے یہ دعا کرتا ہوا چلاآیا کہ اللہ انھیں نیک ہدایت کی توفیق دے ۔

جی ہاں ! یہ ہے ان کا عقیدہ جو ان کی معتبر کتابوں میں اور جو ان کے مواعظ وخطبات میں بیان کیا جاتا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کچھ علمائے اہل سنت اس کے انکاری نہیں ہیں لیکن اکثریت کو یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار ہوگا اور وہ اس کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں کا چاند دیکھتے ہیں ۔ ان کا استدلال اس آیت سے ہے :

" وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة "

کچھ چہرے اس دن ہشاش بشاش اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔

جیسے  ہی آپ کو اس بارے میں شیعوں  کا عقیدہ معلوم ہوگا آپ کے دل کو اطمینان ہوجائے گا  اور آپ کی عقل اسے تسلیم کرلے گی ۔ کیونکہ شیعہ ان قرآنی آیات کی جن میں

--------------------

(1):- سورہ قیامہ ۔آیت 22۔ ائمہ اہل بیت ع نے " اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوںگے " کی تفسیر یہ کی ہےکہ اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار ہوںگے ۔

۳۲

تجسیم یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے تاویل کرتے ہیں اور انھیں مجاز پر محمول کرتے ہیں ، حقیقت پر نہیں ۔ اور وہ مطلب نہیں لیتے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ، یا جیسا بعض دوسرے لوگ سجمھتے ہیں ۔

اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام کہتے ہیں : "ہمت کتنی ہی بلند پروازی سے کام لے اورعقل کتنی ہی گہرائی میں غوطے لگائے ، اللہ کی ذات کا ادراک ناممکن ہے ۔ اس کی صفات کی کوئی حد نہیں اور نہ اس کی تعریف ممکن ہے نہ اس کا وقت متعین ہے اورنہ زمانہ مقررہے "(1) امام محمد باقر علیہ السلام  تجسیم الہی کی تردید کرتے ہوئے کتنی فلسفیانہ ،علمی ،نازک اور جچی تلی بات کہتے ہیں : "ہم چاہے جس چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس کے بارے میں جتنا بھی سوچیں ہمارے ذہن میں جو بھی تصویر ابھرے گی وہ ہماری طرح کی مخلوق ہوگی "(2) جو عقل میں گھر  گیا لاانتہا کیوں کر ہوا

                                       جو سمجھ میں آگیا وہ خدا کیوں کر ہوا

(اکبر آلہ آبادی)

تجسیم  اور تشبیہ کی رد میں ہمارے لیے تو اللہ پاک کا اپنی کتاب محکم میں یہ قول کافی ہے:

"ليس كمثله شيءٌ"اور "لاتدرکه الأبصار"

اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔ اور ۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔

جب حضرت موسی نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا :"ربّ أرني أنظر إليك " تو جواب ملا"لن ترانی" تم مجھے  کبھی نہیں دیکھ سکو گے ۔ اوربقول زمخشری

--------------------

(1):-نہج البلاغہ ۔پہلا خطبہ ۔

(2):- عقائد الامامیہ ۔شیخ مظفر ۔یہ کتاب جامعہ تعلیمات اسلامی نے مکتب تشیع کے نام سے شایع کی ہے

لن کے مفہوم  میں تابید  شامل ہے ۔یعنی ابد تک کبھی بھی نہیں دیکھ سکو گے ۔

۳۳

یہ سب شیعہ اقوال کی صحت  کی دلیل قاطع ہے ۔بات یہ ہے کہ شیعہ ان ائمہ اہل بیت کے اقوال نقل کرتے  ہیں جو سرچشمہ علم تھے ۔ اور جنھیں کتاب اللہ کا علم میراث میں ملا تھا ۔

جو شخص اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہے وہ اس موضوع پر مفصل کتابوں  کی طرف رجو ع کرے ۔ مثلا المراجعات کے مولف سید شرف الدین عاملی کی کتاب "کلمۃ حول الرویہ "

نبوت کے بارے میں فریقین  کا عقیدہ

نبوت  کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت  کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ  کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں  کی طرح ہیں ۔ اس بارے میں حدیث کی کتابوں میں متعدد روایات موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے کئی موقعوں پر غلط فیصلہ کیا اور صحابہ نے  آپ  کی اصلاح کی ۔جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں ہوا ۔جہاں اللہ کے رسول  ص کی رائے درست نہیں تھی اور عمر کی رائے صحیح تھی ۔(1)

اسی طرح جب رسول اللہ مدینہ آئے تو وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کجھور کے درخت میں گا بھادے رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :- گابھا دینے کی ضرورت نہیں ، ایسے بھی کجھوریں لگیں گی ، لیکن ایسا نہ ہوا ۔ لوگوں نے آپ سے آکر شکایت  کی تو آپ نے کہا :" تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے کہا : میں بھی انسان ہوں ،جب میں تمھیں دین کی کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو ۔ مگر جب میں کسی دنیا وی معاملے میں اپنی رائے دوں

------------------

(1):-البدائیہ والنہائیہ کے علاوہ صحیح مسلم ۔ سنن ابوداؤد ۔جامع ترمذی ۔

۳۴

تو میں محض انسان ہوں ۔(1) یہ بھی روایت  ہے کہ ایک مرتبہ آپ پر جادو کے اثر سے آپ کو یہ نہیں پتہ چلتا تھا کہ آپ نے کیا کیا ۔ بعض دفعہ یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے ازدواج سے صحبت کی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا تھا(2) ۔یا کسی اور کام کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ یہ کام کیا ہے مگر دراصل وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا(3) ۔ اہل سنت کی ایک اور روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کو نماز میں سہو ہوگیا ۔یہ یاد نہیں رہا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔(4) ایک دفعہ آپ کو نماز میں بے خبر سوگئے ،یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی ،پھر جاگ گئے اور وضو کی تجدید کے بغیر نماز پوری گی(5) ۔اہل سنت یہ بھی کہتے  کہیں کہ آپ  بعض دفعہ کسی پر بلاوجہ ناراض ہوجاتے ، اسے برابلا کہتے اور اس کو لعنت ملامت کرتے تھے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :   یا الہی ! میں انسان ہوں ، اگر میں کسی مسلمان کو لعنت ملامت کروں یا برابھلا کہوں تو تو اسے اس کے لئے رحمت بنادے(6) ۔اہل سنت  کی ایک اور روایت  ہے کہ ایک دن آپ حضرت عائشہ کے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ران کھلی ہوئی تھی ، اتنے میں ابوبکر آئے ، آپ اسی طرح لیٹے ہوئے ان سے باتیں کرتے رہے ۔کچھ دیر بعد عمر آئے تو آپ ان سے بھی اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ جب عثمان نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ اٹھ کربیٹھ  گئے اور کپڑے ٹھیک کرلیے ۔ جب عائشہ نے اس بارے میں پوچھا  تو آپ نے کہا : میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں جس سے ملائکہ بھی شرماتے ہیں ۔(7)

------------------

(1):-صحیح مسلم کتاب الفضائل  جلد 7 صفحہ 95 ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 162 اورجلد 3 صفحہ 152

(2):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 29

(3):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 67

(4):- صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 123

(5):- صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 37 وصفحہ 44 وصفحہ 171

(6):- سنن دارمی کتاب الرقاق

(7):- صحیح مسلم باب فضائل عثمان جلد 7 صفحہ 117

۳۵

اہل سنت  کے ہاں ایک روایت یہ بھی ہےکہ رمضان  المبارک میں آپ جنب ہوئے تھے اور صبح ہوجاتی  تھی اور آپ کی نماز فوت ہوجاتی تھی(1) ۔اسی طرح اور جھوٹ ہیں جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے ،نہ دین اور نہ شرافت اس کامقصد رسول اللہ کی توہین کرنا اور آپ  کی شان  میں گستاخی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اہل سنت ایسی باتیں رسول اللہ سے منسوب کرتے ہیں جو خود اپنے سے منسوب کرنا پسند نہیں کرتے ۔

اس کے برخلاف شیعہ ائمہ اہلبیت ع کے اقوال سے استدلال کرتے ہوئے انبیاء کو ان تمام لغویات سے پاک قراردیتے ہیں خصوصا ہمارے نبی محمد  علیہ افضل الصلاۃ وازکی السلام کو ۔شیعہ کہتے ہیں کہ آنحضرت تمام خطاؤں ،لغزشوں اورگناہوں سے پاک ہیں چاہے وہ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے ۔اس طرح آپ پاک ہیں ہر غلطی اوربھول چوک سے ،جادو کے اثر سے اور ہر اس چیز سے جس سے عقل متاثر ہوتی ہو ۔ آپ پاک ہیں ہر اس چیز سے جو شرافت اوراخلاق  حمیدہ  کےمنافی ہو جیسے راستے میں کچھ کھانا یا ٹھٹھامارنا یا ایسا مذاق کرنا جس میں جھوٹ کی آمیزش ہو ۔آپ پاک ہیں ہر اس فعل سے جو عقلاء کے نزدیک ناپسندیدہ ہو یا عرف عام میں اچھا نہ سمجھا جاتا ہو ۔چہ جائیکہ  آپ دوسروں  کے سامنے اپنا رخسار بیوی کے رخسار پررکھیں اور اس کے ساتھ حبشیوں کا ناچ دیکھیں(2) ۔یا بیوی کو کسی جنگ کے موقع ساتھ لے کرجائیں  اور وہاں اس کے ساتھ دوڑلگائیں  کہ کبھی وہ آگے نکل جائے اور کبھی آپ اور اس پر آپ کہیں کہ " یہ اس کے بدلے  میں "(3) ۔

شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم  کی ساری روایات جو عصمت انبیاء سے متناقض ہیں امویوں  اور ان کے حامیوں  کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ مقصد ان کے دو ہیں :

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 232-234  یہ اور ایسی بے شمار روایتیں راجپال کو رنگیلا رسول  رشدی ملعون کو STANNIC VERSESاور مستشرقین کو ہتک رسول کے لئے مواد فراہم کرتی ہیں ۔ (ناشر)

(3):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 228

(4):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 75       

۳۶

         ایک تو رسول اللہ  کی عزت وتوقیر  کو کم کرنا تاکہ اہل بیت ع کی وقعت کو گھٹایا جاسکے ۔ دوسرے اپنے ان افعال بد کے لیے وجہ تلاش کرنا جن کا ذکر تاریخ میں ہے  اب اگر رسول اللہ بھی غلطیاں کرتے تھے اور خواہشات نفسانی سے متاثر ہوتے تھے  جیسا کہ اس قصے میں بیان  کیا گیا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ جب زینب بنت جحش ابھی زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں  ،آپ انھیں بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے  دیکھ کر ان  پر فریفتہ ہوگئے تھے ، اس وقت آپ کی زبان سے نکلا تھا :سبحان الله مقّلب القلوب     (1)           

ایک اور سنی روایت کے مطابق آپ کی طبیعت کا زیادہ جھکاؤ حضرت عائشہ  کی طرف تھا اور بقیہ ازواج کے ساتھ ویسا سلوک نہیں تھا ۔ چنانچہ ازواج نے ایک دفعہ حضرت فاطمہ زہرا س کو اور ایک دفعہ زینب بن جحش  کو عدل کا مطالبہ کرنے کے لئے  آپ کے پاس اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا تھا(2) ۔            

اگر خود رسول اللہ کی یہ حالت  ہو تو معاویہ بن ابی سفیان  ،مروان بن حکم ،عمرو بن عاص ،یزید بن معاویہ  اور ان تمام اموی حکمرانوں  کو کیا الزام دیا جاسکتا  ہے جنھوں نے سنگین جرائم  کا ارتکاب کیا اور بے گناہوں کو قتل کیا ۔بقول شخصی ،اگر گھر کا مالک ہی طبلہ بجارہا ہو تو اگر بچے ناچنے لگیں تو ان کا کیا قصور !

ائمہ اہل بیت ع جو شیعوں کے ائمہ ہیں وہ حضرت رسالتمآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عصمت کے قائل  ہیں اور ظاہر ہے کہ گھر والوں سے زیادہ گھر کا حال  کون جان سکتا ہے ؟ اسی لئے وہ ان تمام آیات قرآنی کی تاویل کرتے ہیں جن  سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو عتاب کررہا ہے جیسے" عبس وتولّی" یا جن سے گناہوں   کے اقرار کا مفہوم نکلتا ہے جیسے" ليغفر لک الله ما تقدّم من ذنبک وما تاخّر " یا ایک دوسری آیت" لقد تاب الله علی النبیّ " یا"عفا الله عنک لم اذنت لهم" 

--------------------

(1):- تفسیر جلالین" وتخفی فی نفسک ماالله مبديه " کی تفسیر کی ذیل میں ۔

(2):- صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 136 باب فضائل عائشہ ۔

۳۷

ان تمام آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت مجروح نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ بعض آیات آپ سے متعلق ہی نہیں ہیں اور بعض آیات ظاہری الفاظ پر محمول نہیں ہیں بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے مجازا کہا گیا ہے ۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے : اے پڑوسن سن لے یہ بات تیرے لیے ہے " مجاز کا استعمال عربی زبان میں کثرت سے ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے بھی اس کا استعمال قرآن مجید میں کیا ہے ۔جو شخص تفصیل معلوم کرنا اور حقیقت حال سے آگاہی حاصل کرناچاہیے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ شیعہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے جیسے علامہ طبا طبائی کی المیزان  ،آیت اللہ  خوئی کی البیان ،محمد جواد مغنیہ کی الکاشف ،علامہ طبرسی کی  الاحتجاج ، وغیرہ وغیرہ ۔

میں اختصار کے کام لے رہا ہوں کیونکہ میرا مقصد صرف عمومی طورپر فریقین کا عقیدہ بیان کرنا ہے ۔اس کتاب سےمیرا مقصد صرف ان امور کا بیان کرنا ہے جن سے مجھے ذاتی طور پر اطمینان نصیب ہوا اور انبیاء اور ان کے بعد اوصیاء کی عصمت کا مجھے یقین ہوگیا ۔ میرا شک اورحیرت یقین میں بدل گئے اور ان شیطانی وسوسوں کا ازالہ ہوگیا جن کی وجہ سے کبھی کبھی میری خطائیں ، میرے گناہ اور میرے غلط اعمال مجھے اچھے ،صحیح اوردرست معلوم ہوتے تھے ۔ کبھی تو مجھے  افعال واقوال رسول میں بھی شک  ہونے لگتا تھااور آپ کے بتلائے ہوئے احکام  پر بھی اطمینان نہیں ہوتا تھا بلکہ نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ بعض دفعہ اللہ کے اس قول میں بھی شک ہونے لگتا تھا کہ

"ومآ اتاكم الرّسول فخذوه ومآ نهاكم عنه فانتهوا"

رسول  تمھیں جو بتلائیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ ۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کلا م اللہ  نہ ہو رسول کا اپنا ہی کلام ہو ! سنیوں کا یہ کہنا کہ " رسول اللہ صرف اللہ کے کلام کی تبلیغ کی حد تک معصوم ہیں " بالکل بیکار بات ہے ۔اس لیے کہ اس کی کوئی پہچان نہیں کہ اس قسم کا کلام تو اللہ کی طرف سے ہے اور اس طرح کا کلام خود آپ کی اپنی طرف سے ، تاکہ یہ کہا جاسکے کہ اس کلام میں تو آپ معصوم ہیں اور اس میں معصوم نہیں ، اس لیے یہاں غلطی کا

۳۸

احتمال ہے ۔

اللہ کی پناہ اس متضاد قول سے ! اس سے تو رسول اللہ کی شان تقدس میں شک پیدا ہوتا ہے اور آپ کی شان میں طعن  کی گنجائش نکلتی ہے ۔

اس پر مجھے وہ گفتگو یاد آگئی  جو میرے شیعہ ہوجانے کےبعد میرے اور چند دوستوں کے درمیان ہوئی تھی ۔ میں انھیں قائل  کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ رسول اللہ ص ہر بات میں معصوم ہیں اور وہ مجھے سمجھارہے تھے کہ آپ صرف قرآن کی تبلیغ  کی حد تک معصوم ہیں ۔ ان میں ایک تو زر کے پروفیسر تھے ۔ توزر منطقہ  جرید کا ایک شہر ہے(1) ۔یہاں کے لوگ علم وفن ،ذہانت وفطانت  اور لطیفہ گوئی کے لئے مشہور ہیں ۔یہ پروفیسر صاحب ذرا دیر سوچتے رہے ، پھر کہنے لگے : حضرات ! اس مسئلے میں میری بھی ایک رائے ہے ۔ہم سب نے  کہا تو فرمائیے ۔کہنے لگے :بھائی تیجانی شیعوں کی طرف سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ، ہمارے لیے یہی ضروری کہ رسول اللہ ص  کے علی الاطلاق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھیں ورنہ خود قرآن میں شک پڑجائےگا ۔ سب نے کہا : وہ کیسے ؟ پروفیسر  صاحب نے فورا جواب دیا : کیا تم نے دیکھا ہے کہ کسی سورت کے نیچے اللہ تعالی کے دستخط ہوں ۔ دستخط سے ان کی مراد وہ مہر تھی جو دستاویزات  اور مراسلات کے آخر میں اس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ یہ شناخت ہوسکے کہ یہ کس کی طرف سے ہے ۔ سب لوگ اس لطیفے پر ہنسنے لگے مگر یہ لطیفہ بڑا معنی  خیز ہے ،کوئی بھی غیر متعصب انسان اگر اپنی عقل استعمال کرکے غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح  طور  پر سامنے آئے گی کہ قرآن کو کلام الہی تسلیم کرنے  کا مطلب یہ ہے  کہ صاحب وحی کی عصمت مطلقہ کا بھی عقیدہ بغیر کیس کاٹ چھانٹ کے رکھا جائے کیونکہ یہ توکوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ اس نے اللہ تعالی کو بولتے ہوئے سنا ہے  یا جبرئیل کو وحی لاتے ہوئے دیکھا ہے ۔

------------------

(1):- منطقہ جرید تیونس کے جنوب میں قفصہ سے 92 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ عربی کے مشہور شاعر ابو القاسم شابی اور خضر حسین کا جائے والادت ہے ۔خضر حسین جامعۃ الازہر کے شیخ الجامعہ تھے ۔ تیونس کے علماء میں سے بہت سے علماء اسی علاقے میں پیدا ہوئے ہیں ۔

۳۹

خلاصہ کلام یہ ہے کہ " عصمت انبیاء ع" کے بارے میں شیعہ عقیدہ ہی وہ محکم اور مضبوط عقیدہ ہے جس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور تمام تفسانی وشیطانی وسوسوں کی جڑکٹ جاتی ہے اور مفسدوں خصوصا یہودیوں ،عیسائیوں اور دشمنان دین کا راستہ بند ہوجاتا ہےجو ہر وقت  اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کہیں سےراستہ ملے تو اندر گھس کر ہمارے معتقدات  کو بھک سے اڑا دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالیں ۔ایسے راستے انھیں صرف اہل سنت ہی  کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں  کہ وہ اکثر وبیشتر  ہمارے خلاف ان ہی اقوال وافعال سے دلیل  لاتے  ہیں جو بخاری ومسلم میں غلط طور پر رسول اللہ سے منسوب کیے گئے  ہیں۔ (1)

ابہم  انھیں کیسے یقین دلائیں  کہ بخاری ومسلم میں بعض غلط روایات بھی ہیں ۔ یہ بات قدرتی طور پر خطر ناک  ہےکیونکہ اہل سنت والجماعت اسے کبھی نہیں مانیں گے  ۔ان کے نزدیک تو بخاری  کتاب باری کے بعد صحیح ترین کتاب ہے اور اسی طرح مسلم بھی ۔

فریقین کے نزدیک امامت کا عقیدہ

اس بحث میں امامت سے مراد مسلمانوں کی امامت کبری ہے ، یعنی خلافت ،حکومت ،قیادت اور ولایت کا مجموعہ ۔امامت سے مراد محض نماز کی امامت نہیں جیسا کہ آج کل اکثر لوگ سمجھتے ہیں ۔

چونکہ میری کتاب میں بحث کا مدار مذہب تسنن اور مذہب تشیع کے

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 3 باب شہادۃ الاعمی میں عبید بن میمون کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مسجد میں ایک نابینا شخص کو قرآن  کی تلاوت  کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے اس نے فلاں سور  کی فلاں فلاں آیتیں یاد دلادیں جو میں بھول گیا تھا ۔

آپ یہ روایت پڑھیے اورحیرت کیجیے کہ رسول اللہ آیات بھول گئے اور اگر یہ نابینا شخص وہ آیات یاد نہ دلاتا تو وہ آیات غائب ہی ہوگئی ہوتیں ۔ حد ہے اس لغویت کی !

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328