حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63661 / ڈاؤنلوڈ: 7515
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

وقت عطا فرمائی  جب آپ نےیہ کہا کہ

" کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت رکھتے  ہیں ۔ جو آگے بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے ، پیٹھ دکھانے والا نہیں ! اللہ نے اس کے دل کو ایمان  کے لیے جانچ لیا ہے ۔

سب صحابہ کی نظریں علم پر لگی تھیں مگر رسو اللہ نے علم  علی بن ابی طالب ع کو عطا فرمایا ۔(۱)

مختصر یہ کہ علم وحکمت اور قوت وشجاعت امام علی ع کی ایسی خصوصیات ہیں جن سے شیعہ وسنی سب ہی واقف ہیں اور اس بارے میں دوراتیں نہیں ہوسکتیں(۲) نص غدیر سے قطع نظر جس سے امام علی ع کی امامت ثابت ہوتی ہے ۔قرآن کریم قیادت وامامت کا مستحق صرف عالم  ،شجاع اور قوی کو قراردیتا ہے ۔علماء کی پیروی واجب ہونے کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہ ہے :

" أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ "

کیا وہ شخص جو حق کا راستہ دکھائے زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو اس وقت تک راستہ نہیں دکھاسکتا  جب تک خود اسے راستہ نہ دکھایا جائے تمھیں کیا ہوگیا ہے ،تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟(سورہ یونس ۔آیت ۳۵)

بہادر اور جری کی قیادت کے واجب الاتباع ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں ہے ۔:

" قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ

--------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۵ ۔صفحہ ۱۲ ۔جلد ۵ صفحہ ۷۶-۷۷ ۔ صحیح مسلم جلد ۷ صفحہ ۔۔۔

(۲):- بقول بو علی سینا :- علی ع صحابہ میں ایسے ہی جیسے محسوس میں معقول (یعنی جسے جسم میں روح)(ناشر)

۱۲۱

اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ "

وہ کہنے لگے : اسے ہم پر حکمرانی کا حق کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ بہ نسبت اس کے ہم حکمرانی کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اور اس کو  تو کچھ مالی وسعت بھی نہیں دی گئی ۔ پیغمبر  نے جواب میں کہا : اول تو اللہ تعالی نے اس کو تمھارے مقابلے میں منتخب فرمایا ہے  دوسرے یہ کہ علم  اورجسامت دونوں میں اللہ نے اس کو زیادتی دی ہے ۔ اللہ تعالی اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اللہ تعالی وسعت دینے والا ، جاننے والا ہے ۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۴۶)

اللہ تعالی نے امام علی ع کو بہ نسبت دوسرے صحابہ کے علم میں بڑی وسعت عطا کی تھی اور وہ صحیح معنی میں شہر علی کا دروازہ تھے ۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ ان ہی سے رجوع کرتے تھے ۔ صحابہ کو جب کوئی ایسا مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تھا جسے  وہ حل نہیں کرپاتے تھے تو کہا کرتے تھے :

"معضلةٌ وّليس لهآ إلّا أبو الحسن ".

یہ وہ مشکل  ہےجسے ابو الحسن کے سوا کوئی حل نہیں کرسکتا(۱)

امام علی ع کو اللہ تعالی نے جسم میں بھی وسعت عطافرمائی تھی بہ این معنی کہ وہ واقعی اسداللہ الغالب تھے ۔ ان کی قوت وشجاعت صدیوں سے زبان زدخاص وعام ہے ۔ مورخین نے ان کی قوت وشجاعت کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جو معجزہ  سے کم نہیں ۔مثلا :

باب خیبر  کو اکھاڑنا جسے بعد میں ۲۰ صحابی مل کر  ہلا بھی نہ سکے(۲)

کعبے کی چھت  پر سے بڑے بت ہبل کو اکھاڑنا ۔(۳) اور

اس مضبوط چٹان کو الٹ دینا جسے پورا لشکر بھی نہیں ہلا سکتاتھا ۔(۴)

----------------------

(۱):- مناقب الخوارزمی صفحہ ۵۸ ۔تذکرۃ السبط صفحہ ۸۷  اب مغازلی ترجمہ علی ع صفحہ ۷۹

(۲)(۳)(۴):- شرح نہج البلاغہ

۱۲۲

جب بھی موقع ہوتا رسول اللہ ص اپنے چچازاد بھائی کی خوبیاں اورفضائل بیان فرماتے اور لوگوں کو ان کی خصوصیات اور امتیازات  سےباخبر کرتے رہتے تھے ۔ کبھی فرماتے :

"إنّ هذا أخي وصيّي وخليفتي من بعدي فاسمعواله وأطيعوه."

یہ میرے بھائی ، میرے وصی اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں اس لیے ان کی بات سنو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرو(۱)

کبھی فرماتے :

"أنت منّي بمنزلة هارون من مو سى إلّا أنّه لانبي بعدي ".

یعنی جو نسبت ہارون کو موسی سے تھی وہی نسبت تمھیں مجھ سے  ہے ، بس یہ فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔(۲)

کبھی فرماتے :

"من أرادأن يّحيا حياتي ويموت مماتي ويسكن جنّة الخلد الّتي وعدني فليوال على بن أبي طالبٍ فإنّه  لن يخرجكم من هدىً ولن يدخلكم في ضلالةٍ."

جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ میری طرح جیے اور میری موت مرے اورخلد بریں میں رہے  جس کا مجھ سے میرے پروردگار نے وعدہ کیا ہے اسے چاہے کہ علی بن ابی طالب ع کا دوست بن جائے کیونکہ علی ع تمھیں کھبی ہدایت کے دائرہ سے خارج نہیں کریں گے اور نہ کبھی گمراہی کے دائرے میں داخل کریں گے ۔(۳)

----------------------

(۱):- طبری ،تاریخ الامم والملوک جلد ۲ صفحہ ۳۱۹ ۔ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ جلد ۲ صفحہ ۶۲

(۲):- صحیح بخاری باب فضائل علی ع صحیح مسلم جلد ۷ صفحہ ۱۲۰

(۳):-مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ۱۲۸ ۔طبرانی ،معجم کبیر ۔

۱۲۳

سیرت رسول ص کا متبّع کرنےوالے کو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ص نے کبھی صرف اقوال پر اکتفاء نہیں فرمایا  بلکہ ان اقوال پر عمل بھی کرکے دکھایا ہے ۔ چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں کسی صحابی کو علی ع پر امیر مقررنہیں فرمایا جب کہ دوسرے صحابہ ایک دوسرے پر امیر مقرر ہوتے رہتے تھے ۔ غزوہ ذات السلاسل میں ابو بکر اور عمر پر عمر وبن عاص کو امیر مقرر فرمایا تھا(۱)

اسی طرح آپ نے تمام کبار صحابہ پر ایک کم عمر نوجوان اسامہ بن زید کو اپنی وفات سے کچھ قبل امیر مقرر فرمادیا تھا ۔ مگر علی بن ابی طالب ع کو جب بھی کسی دستہ کے ساتھ بھیجا آپ ہی امیر ہوئے ۔

ایک مرتبہ آپ نے دو دستے روانہ فرمائے ایک کا امیر علی کو بنایا اور دوسرے کا خالد بن ولید کو ۔ اس موقع پر آپ نے کہا کہ تم دونوں الگ الگ رہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے لشکر کا امیر ہے لیکن اگر اکٹھے ہوجاؤ تو علی ع پورے لشکر کے سالا ہوں گے ۔

اس تمام بحث سے ہمارے نزدیک یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے بعد علی ع ہی مومنین کے ولی ہیں اور کسی کو ان سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے ۔لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس سلسلے میں سخت نقصان اٹھایا اور آج اٹھارہے ہیں کیونکہ اس وقت جو بویا تھا اسی کا پھل کاٹ رہے ہیں ۔ اگلوں نے جو بنیادرکھی تھی پچھلوں نے اس کا انجام دیکھ لیا !کیا علی ع کی خلافت سے بہتر خلافت راشدہ کا کوئی تصور کرسکتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ص نے اس بارے میں جو پسند کیا تھا اگر مسلمان اس کا اتباع کرتے تو علی ع ایک ہی طریقے پر اس امت کی قیادت تیس سال تک بالکل اسی طرح کرسکتے تھے جیسے رسول اللہ ص نے کی تھی ۔ یہ اس اس لیے ضروری تھا کہ ابو بکر اور عمر نے متعدد موقعوں پر اپنی رائے  سے اجتہاد کیا اور بعد میں ان کا اجتھاد بھی ایسی سنت بن گیا  جس کی پیروی ضروری خیال کی جانے لگی تھی ۔ جب عثمان خلیفہ ہوئے تو انھوں نے اور بھی

--------------------

(۱):- سیرۃ حلبیہ ،غزوہ ذات السلاسل ۔ابن سعد طبقات کبری

۱۲۴

زیادہ تبدیلیاں کیں ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے توکتاب اللہ ، سنت رسول   اللہ ص اور سنت شیخین سب کو بد ل دیا ۔ اس پر صحابہ نے اعتراض بھی کیا : اور باالآخر ایک عوامی انقلاب میں خود ان کی جان بھی گئی  لیکن اس سے امت میں ایسا فتنہ پیدا ہوا کہ آج تک اس کے زخم مندمل نہیں ہوسکے ۔

اس  کےبرخلاف علی ع سختی سے قرآن وسنت کی پابندی کرتے تھے اور ان سے سرموانحراف کے لیے تیار نہیں تھے ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جب ان پر یہ شرط عائد  کی گئی تھی کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ص کے ساتھ سنت شیخین کا بھی اتباع کریں گے پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے کہ علی ع کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پابندی پر اس قدر زورکیوں دیتے تھے جب کہ ابو بکر ، عمر اور عثمان اجتہاد اور تغییر پر مجبور ہوگئے تھے ؟

اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ علی  ع کے پاس وہ علم تھا جو اور کسی کے پاس نہیں تھا ۔رسول اللہ  ص نے انہیں خاص طور پر علم کے ہزار دروازوں سے ممتاز فرمایا تھا اور ان ہزاروں میں سے ہر ایک سے ہزار اور دروازے کھلتے تھے(۱) ۔ رسو ل اللہ ص  علی سے کہا تھا کہ :

"اے علی  ! میرے بعد میری امت میں جن امور کےبارے میں اختلاف ہوگا تم ان کو صاف صاف بیان کروگے(۲) ۔رہے دوسرے خلفاء ! انھیں قرآن کی تاویل تو درکنا ر قرآن کے بہت سے ظاہری احکام بھی معلوم نہیں تھے ۔مثلا ،بخاری اور مسلم کےباب التیمم میں ایک روایت ہے کہ کسی شخص نے عمر بن خطاب سے ان کے ایام خلافت میں  پوچھا : امیر المومنین ! میں جنب ہوجاؤں اور

---------------------

(۱):- ملا علاؤالدین متقی ، کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۳۹۲ حدیث ۶۰۰۹ ۔ابو نعیم اصفہانی ،حلیۃ الاولیاء ،حافظ قندوزی حنفی ، ینابیع المودۃ  صفحہ ۷۳ ۔ ۷۷ ۔ابن عساکر ،تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۴۸۳۔

(۲):-مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۲۳ ۔ابن عساکر ،تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۴۸۸

۱۲۵

پانی نہ ملے تو کیا کروں ؟ عمر نے کہا تو ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو۔

اسی طرح انھیں "کلالۃ"(۱) کا حکم معلوم نہیں تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ " کاش میں "کلالۃ" کا حکم رسول اللہ سے پوچھ لیتا "۔ حالانکہ یہ حکم قرآن میں  مذکور ہے ۔

کوئی شخص کہہ سکتا  ہے کہ اگر یہ بات تھی تو امام علی ع نے ان امور کی وضاحت کیوں نہ کردی جن میں رسول اللہ ص کی وفات  کے بعد اختلاف پیدا ہوا ؟اس کا جواب یہ ہے کہ جس مسئلے  میں بھی امّت  کو مشکل پیش آئی ، امام علی ع نے اس کے بیان کرنے میں کوئی کسے نہیں چھوڑی ۔ ہر مشکل  میں صحابہ ان ہی سے رجوع کرتے تھے ، وہ ہر بات کی وضاحت کرتے تھے ، مسئلے کا حل  بیان کرتے تھے اور نصیحت  کرتے تھے ۔ مگر صحابہ کو جو بات پسند آتی  تھی اور جو ان کی سیاست سے متصادم نہیں ہوئی تھی وہ اسے قبول کرلیتے تھے اور باقی کو چھوڑ دیتے تھے ۔ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس  کی سب سے بڑی گواہ خود تاریخ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر علی بن ابی طالب ع اور ان کی اولاد میں سے ائمہ نہ ہوتے تو  عوام اپنے دین کی امتیازی خصوصیات سے ناواقف ہی رہتے ۔لیکن  لوگ ۔ جیسا کہ قرآن نے ہمیں بتایا ہے ۔حق کو پسند نہیں کرتے ، اس لیے انھوں نے اپنی خواہشات کی پیروی شروع کردی اور ائمہ اہل بیت ع کے بالمقابل  نئے نئے  مذاہب ایجاد  کرلیے ۔ ادھر حکومتیں  بھی ائمہ  اہل بیت  پر پابندیاں عائد کرتی تھیں اور انھیں کہیں آنے  جانے اور لوگوں سے براہ راست رابطہ قائم  کرنے کی آزادی نہیں دیتی تھیں ۔ امام علی ع منبر پر سے فرمایا کرتے تھے :

"سلو ني قبل أن تفقدوني!"لوگو! اس سے پہلے کہ میں تم میں نہ رہوں ، جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔

امام ع کے علم وفضل کی یہی ایک دلیل کافی ہے کہ آپ نے نہج البلاغہ جیسا عظیم علمی سرمایہ چھوڑا ۔ائمہ اہل بیت ع نے علم کی اس قدر کثیر مقدار چھوڑی ہے کہ

---------------------

(۱):- کلالۃ کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بظاہر معنی ماں باپ اور اولاد کے علاوہ وارث ک ے ہیں ۔

۱۲۶

اس نے چار دانگ عالم کو بھر دیا ۔ سب ہی ائمہ مسلمین خواہ سنی ہوں خواہ شیعہ اس کے گواہ  ہیں ۔اس بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اکر قسمت  علی ع کا ساتھ دیتی اور انھیں سیرت رسول ص کے مطابق تیس سال تک امت کی قیادت کرنے  موقع ملتا تو اسلام عام ہوجاتا اور اسلامی عقائد لوگوں کے دلوں میں پختگی  کے ساتھ جاگزیں ہوجاتے ، پھر نہ کوئی فتنہ صغری ہوتا نہ کوئی فتنہ کبری ،نہ واقعہ کربلا ہوتا نہ یوم عاشورا ۔

اگر علی ع کے بعد گیارہ  ائمہ  کو قیادت کا موقع ملتا جن کا تعلق  رسول اللہ ص نے کیاتھا اورجن کی مدت حیات تقریبا  تین صدی پرمحیط ہے ، تو دنیا میں ہر جگہ  صرف مسلمان ہوتے اور کرہ ارض کی تقدیر بدل جاتی اور ہماری زندگی صحیح معنی میں انسانی زندگی ہوتی ۔ مگر اللہ تعالی کا تو فرمان ہے :

"الم () أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ()"

کیا ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو چھوڑ دیا جائے  کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے  اور ان کو امتحان میں نہیں ڈالا جائیگا ۔(سورہ  عنکبوت ۔آیت ۱-۲)

امم سابقہ کی طرح مسلم امہ بھی اس امتحان میں ناکام رہی ۔ اس کی تصریح متعدد موقعوں پر خود رسول اللہ نے فرمائی(۱)   اور اسی طرح قرآن کریم متعدد آیات میں بھی اس کی صراحت ہے ۔(۲) انسان  وہ ناانصاف اور جاہل ہستی ہے

-----------------------

(۱):- جیسا کہ بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان یہودی ونصاری کے طریقوں پر قدم بقدم چلیں گے اور اگر وہ گوہ کے بھٹ گھسیں گے تو مسلمان  بھی ایسا ہی کریں گے ۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے ، اسی طرح حدیث حوض میں روسول اللہ ص نے فرمایا  : میں دیکھتا ہوں کہ ان میں بہت ہی کم نجات پائیں گے ۔

(۲):- جیسا کہ سورہ آل عمران میں ہے :" أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ" اور سورہ فرقان میں ہے:"يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً"

۱۲۷

جس کے بارے میں رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :

"لن يدخل الجنّة أحد بعمله إلّا أن يتغمده الله برحمته وفضله"

کوئی شیخص جنت میں اپنے اعمال  کی وجہ سے داخل نہیں ہوگا بجز اس کے کہ اللہ تعالی اپنا فضل فرمادے اور اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ۔(۱)

بحث کے آخر میں کچھ تبصرہ

میں اس طرح کے اقوال دیکھ کر اکثر دانشوروں اور پروفیسروں کی مجلس میں اس پر افسوس کیا کرتا تھا کہ خلافت اس کے صحیح حقدار علی بن ابی طالب ع کے  ہاتھ سے نکل گئی ۔ آخر ایک دن ان میں سے ایک پروفیسر صاحب نے یہ کہہ کر مجھ پر اعتراض کیا کہ

" علی بن ابی طالب ع نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے کیا کیا ہے؟انھوں نے اپنی پوری زندگی خلافت کی تگ و دو  میں گزاردی  اور اس کے لیے ہزاروں مسلمانوں کو مروادیا ۔ اس کی ساری جنگیں خلافت ہی کے لیے  تھیں ۔ اس کے برعکس ان سے پہلے خلفائے  ثلاثہ  نے اپنی زندگی اسلام کی اشاعت میں صرف کردی اور عمر بھر  اسلام کی عزت ووقار کے لیے کام کیا ۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ملک فتح کیے اور شہرآباد کیے ۔ اگرابو بکر صدیق  نہ ہوتے تو عرب اسلام سے مرتد ہوگئے ہوتے ۔ اور اگر عمر بن خطاب نہ ہوتے تو ایران اور روم اسلام کی اطاعت قبول نہ کرتے ۔ اور اگر عثمان بن عفان نہ ہوتے تو آج آپ مسلمان نہ ہوتے "(۲)

پھر ان صاحب نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا :

--------------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۱۰ ۔ صحیح مسلم ، کتاب صفات المنافقین ۔

(۲):- ان صاحب کا اشارہ عثمان بن عفّان کے عہد میں شمالی افریقہ کے فتح ہونےکی طرف تھا ۔مطلب یہ کہ اگر یہ فتح نہ ہوتی تو ہم بربر ہی رہتے ۔ ہمارا اسلام سے کوئی واسطہ نہ ہوتا ۔

۱۲۸

جب علی ع کو خلافت  ملی  تو انھوں نے وہ طوفان کھڑا کیا کہ سارا کاروبار خلافت ہی درہم برہم کردیا ۔ انتظام بگڑگیا  اور وہ  اسلام جو ان خلفاء  کےعہد میں طاقتور  تھا ، جن کی تیجانی صاحب تنقیص کرتے اور جن کی نیکی اور پارسائی میں شک پیدا کرتے ہیں ، وہ پیچھے ہٹنے اور ناکام ہونے لگا ۔ اب اس آخری الزام کا جس پر انھوں نے اپنی بات ختم کی میں کیا جواب دیتا  بہر حال میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا اور جوش میں نہیں آیا ۔ میں نے استغفار پڑھ کرکہا :

"برادران عزیز! یہ پروفیسر صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں آپ اس سے متفق ہیں ؟ اکثر نےکہا :ہاں اور بعض نے جواب  نہیں دیا ،خواہ اسے لیے کہ میرا لحاظ کیا یا اس لیے کہ انھیں ان صاحب کی باتوں پر یقین نہیں تھا ۔

میں نے کہا کہ آپ کی اجازت سے میں پروفیسر صاحب کی ایک ایک بات  کو لے کر اس پر گفتگو کروں گا ، اس کے بعد فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے ۔خواہ آپ میرے حق میں فیصلہ دیں خواہ میرے خلاف ۔ میں آپ سے صرف یہ چاہوں گا  کہ آپ حق کا ساتھ دیں اور تعصب سے کام نہ لیں ۔

سب نے کہا :بسم اللہ فرمائیے !

میں نے کہا :" پہلی بات تو یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ع نے اپنی تمام زندگی خلافت کی تگ ودو میں نہیں گزاری ،جیسا کہ پروفیسر صاحب نے فرمایا ہے ،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ خلافت سے گریزاں تھے ۔ اگر وہ خلافت کے پیچھے دوڑتے تو رسول اللہ ص کی تجیہز وتکفین کو چھوڑ کر دوسروں کی طرح جلدی سقیفہ پہنچتے اور وہاں انھیں کی بات  ور رہتی خصوصا ایسی حالت میں کہ اکثر صحابہ ان کی رائے سے اتفاق کرتے تھے ۔ پھر ہم دیکھتے  ہیں کہ جب ابو بکر کی موت کے بعد خلافت حضرت عمر  کو مل گئی ،جب بھی انھوں نے صبر سے کام لیا اور کوئی مخالفت نہیں کی ۔ پھر عمر کے بعد جب انھیں خلافت  کی پیش کش ہوئی تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ اس پیشکش کے ساتھ جو شرائط تھیں وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں تھیں ۔اس سے پروفیسر صاحب کے خیالات کی بالکل تردید ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اگر علی ع خلافت کے پیچھے دوڑرہے ہوتے

۱۲۹

تو ان کا  کیا نقصان تھا ، وہ سنت شیخین پر عمل کی شرائط کو منظور کرلیتے اور پھر جو دل چاہتا کرتے جیسا کہ عثمان نے کیا۔ اسی رویہ سے علی ع کی عظمت کا اظہار ہوتاہے ۔ علی ع نے اپنی زندگی میں ہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ کبھی وعدہ خلافی کی ۔ ان ہی اعلی اصولوں  کی پابندی کی جہ سے علی ناکام رہے جب کہ دوسرے کامیاب ہوگئے کیونکہ وہ اپنی مقصد برآری کے لیے جوچاہتے سوکرتے تھے ۔ مگر علی ع کہا کرتے تھے ۔

"میں جانتا ہوں کہ تمھاری بہتری کسی بات میں ہے ۔مگر مجھے تمھاری بہتری کے لیے اپنی برباد ی منظور نہیں " سبحان اللہ ! کیا کہنا امام ع کی عظمت کا !  سب مورخین بیان کرتے ہیں کہ قضیہ سقیفہ کے بعد ابو سفیان نے  علی ع کے پاس آکر انھیں خلافت کا لالچ دیا اور کہا کہ میں ابو بکر اور ان کے حلیفوں سے قتال کے لیے آدمیوں کا روپیوں کا انتظام کردیتا ہوں تو آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور فرمایا:

" اے ابو سفیان ! فتنہ نہ پھیلا ، میں جانتا ہوں کہ تیرے دل میں کیا ہے ۔میں مسلمانوں مین فتنہ وآشوب پسند نہیں کرتا ،بہتر یہی  ہے کہ الگ رہوں اور افتراق پسندی سے اپنا دامن بچائے رکھوں "

اگر آپ خلافت کے پیچھے دوڑتے ہوتے تو اس پیشکش کو ضرورقبول کرلیتے ۔لیکن آپ نے اسلام او رمسلمانوں کی سلامتی  کی خاطر قربانی دی اور صبر سے کام لیا ۔ علی ع ہی نے تو ابن عباس سے کہاتھا کہ تمھاری دنیا کی میرے نزدیک بس اتنی وقعت ہے جتنی اس پتے کی جس کو کوئی ٹڈی اپنے منہ میں لے چبا ڈالے(۱) یا اتنی جتنی کسی بکری کی رینٹ کی ہوتی ہے(۲)

--------------------

(۱):-"إنّ دنياكم عندي لاهون من وّرقةٍ في جرادةٍ تقمضها". (نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۱)

(۲):-" ولا لفيتم دنياكم هذه أزهد عندي من عطفة عنزٍ". ( نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ)

۱۳۰

(ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب امیر المومنین  امام علی ع اہل بصرہ سے جنگ کے لیے نکلے تو میں مقام ذی قار مین آنجناب کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا  کہ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں ۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن عباس ! اس جوتے کی کیا  قیمت ہوگی ؟ میں نےکہا : اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہوگی ۔یہ سن کر آپ نے فرمایا : "بخدا ! اگر میرے پیش نظر حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی  نہ ہو تو مجھے یہ جوتا تم  لوگوں  پر حکومت کرنے سے زیادہ عزیز ہے )

تو جناب آپ کا یہ فرمانا کہ علی ع خلافت کے پیچھے دوڑ تھے تھے ، اس کی تاریخی واقعات سے تردید ہوجاتی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا یہ دعوی کہ انھوں نے خلافت کے حصول کی خاطر  ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرادیا اور اس کی سب لڑائیاں صرف اسی مقصد کے لیے تھیں تو یہ دعوع بھی بالکل جھوٹ اور سراسر بہتان ہے اور حقائق  کومسخ کرنا ہے ۔ اگر آپ نے ناواقفیت  کی بنا پر ایسا کہا  ہے  تو اللہ معافی مانگیں اورتوبہ استغفار کریں اور اگر آپ نے جان بوجھ کر ایسا کہا ہے تو آپ کی سب معلومات بالکل غلط اور جھوٹ ہیں کیونکہ امام ع کی وہ لڑائیاں جن کا آپ نے ذکر کیا اس کے بعد  کی ہیں جب خلافت آپ کے پیچھے دوڑتی ہوئی آپ کے پاس آچکی تھی ۔ آپ کو خلافت کے قبول کرنے پر  لوگوں نے مجبور کیا تھا بلکہ انکار کرنے کی صورت میں آپ کو قتل کرنے دھمکی بھی دی گئی تھی ۔ تاریخ شاہد ہے کہ علی چوتھا ئی صدی تک خاموش اور خانہ نشین رہے ۔ اس طویل مدّت  میں نہ خلفاء کی کسی جنگ میں حصہ لیا اور نہ تلوار میان سے نکالی  توجناب ! پھر آپ کیسے  یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کی جنگیں خلافت کے حصول کی خاطر تھیں ؟ اورکیسے یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے حصول خلافت کے لیے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ؟۔جنگ جمل تو عائشہ(۱) ، طلحہ اور زبیر نے شروع کی تھی ۔ ان ہی لوگوں نے بصرہ

--------------------

(۱):- رسول اللہ ص کی ان زوجہ  محترمہ نے یہ آیہ قرآن "وقرن فی بیوتکنّ " کی خلاف ورزی کرکے سیاسی فتنوں کو عالم اسلام  میں راہ دی اگر چہ بعد میں وہ اس پر پشیمان  ہوئیں اور بولیں : کاش میرے رسول اللہ ص سے بہت سارے بچے ہوتے اور سارے مرجاتے مگر میں اس قضیے میں ہاتھ نہ ڈالتی ! (اسدالغابہ جلد ۳ صفحہ ۳۸۴ )(ناشر)

۱۳۱

میں داخل ہوکر لوگوں  کو قتل کیا تھا اور بیت المال لوٹ لیا تھا(۱) ۔ جنگ جمل کو جنگ عہد شکنان بھی کہاجاتا ہے کیونکہ طلحہ اور زبیر نے اس وقت بیعت توڑدی تھی جب امام علی ع نے انھیں کوفے اوربصرے کا والی بنانے سے انکار کردیا تھا ۔(۲)

رہی جنگ صفین تویہ معاویہ نے گلے منڈھی تھی ۔ معاویہ ہی نے ہزاروں  مسلمانوں  کو قتل کیا ۔ سب سے بڑھ کر عمار بن یاسر کو ۔اور یہ سب کچھ خلافت کے حصول کے لیے کیا ۔تو میرے بھائی ! آپ کیوں  حقائق کو  مسخ کرتے ہیں ۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ صفین کی ابتدا معاویہ نے خون عثمان  کا دعوی لے کر شروع کی تھی لیکن اصل میں معاویہ  کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا تھا ۔ اس کی گواہی(۳) خود معاویہ نے اس خطبہ میں دی جو انھوں نے جنگ کے بعد کوفہ میں داخل ہونے کےبعد دیا تھا ۔ معاویہ نے کہا:

"میں نے تمھارے ساتھ اس لیے جنگ نہیں کہ تم نماز پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو اور زکواۃ دو ۔ یہ سب کام تو تم پہلے کرتے ہو ۔ میں نے جنگ تمھارا امیر بننے کے لیے لڑی تھی ۔ اللہ نے مجھے اس میں کامیابی دی گو تمھیں یہ بات پسند نہیں تھی ۔"

جنگ صفین کو ظالموں اور باغیوں کی لڑائی کہا جاتا ہے ۔رہی جنگ  نہروان ! یہ خوارج کی لڑائی تھی۔  یہ جنگ بھی باغیوں  نے امام علی ع پر مسلط  کی تھی ۔ یہ ہیں وہ لڑائیاں جو امام علی ع نے لڑیں ۔ امام علی ع ہر موقع پر لوگوں کو کتاب اللہ کی طرف بلاتے رہے اور اپنے مخالفین پر حجّت قائم کرتے رہے ۔

جناب! آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ

---------------------

(۱):-طبری ابن  اثیر ، یعقوبی ، مسعودی اور وہ تمام مورخین جنھوں نے جنگ جمل کا حال لکھا ہے۔

(۲):- طبری ،تاریخ الامم والملوک جلد ۵ صفحہ ۱۵۳ ۔ابن کثیر ،البدایہ والنہایہ جلند ۷ صفحہ ۲۲۷۔ ابن واضح یعقوبی ،تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۱۲۷۔

(۳):- ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۱۳۱ ۔ابو الفرج اصفہانی ، مقابل الطالبین صفحہ ۷۰ ۔ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ جلد ۴ صفحہ ۱۶

۱۳۲

حق وباطل کو پہچان سکیں اور اولیاء اللہ پر بیجا الزام لگانے سے بچ سکیں ۔

اس موقع پر ایک اور پروفیسر صاحب نے جوشاید تاریخ کے ماہر تھے ،اپنی رائے ظاہر کرتے ہوۓ کہا:

آپ نے جو کچھ کہا بالکل صحیح ہے ۔ معاذا اللہ امام علی کرّم اللہ وجہہ خلافت کے لالچی نہیں تھے اور نہ وہ خلافت کی طمع میں کسی کو بھی قتل کرسکتے تھے ،سخت افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک بعض مسلمان علی ع پر شک کرتے ہیں جبکہ عیسائی بھی ان کا احترام کرتے ہیں ۔ میں نے حال ہی ایک عیسائی مصنف جارج جرداق کی ایک کتاب پڑھی ہے جس کا نام ہے "صوت العدالۃ الانسانیہ "(ندائے عدالت انسانی ) اس کتاب میں اس نے حیران کن واقعات بیان کیے ہیں جو شخص بھی اس کتاب کوپڑھے گا ، امام علی ع کی عظمت کےسامنے سرجھکادے گا ۔ اس پر ایک تیسرے پروفیسر صاحب ان کی بات کاٹ کر بولے : آ پ نے  شروع سے ہی یہ با  کیوں نہ کہی؟

انھوں نے جواب دیا : میں درحقیقت تیجانی بھائی کی باتیں سن رہا تھا میں انھیں پہلے سے نہیں جانتا تھا اس لیے چاہتا تھا کہ ان کا جواب سنوں اور ان کی معلومات کا اندازہ لگاؤں ۔ الحمداللہ !انھوں نے اپنے دلائل سے ہمیں لاجواب کردیا ۔دوسری بات یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ صاحب بھی امام علی ع کی فضیلت  کے قائل ہیں لیکن انھیں ابو بکر اور عمر کی حمایت میں جوش آگیا ، اس لیے وہ تیجانی بھائی کی باتوں کے ردّ عمل کے طور پر امام علی ع کی شان میں گستاخی کربیٹھے جس کا انھیں احساس بھی نہیں ہوا ۔

پہلے پروفیسر صاحب نے بھی اپنے ساتھی  کی اس بات کو پسند کیا کیونکہ اس طرح انھیں اس مخمصے سے نجات مل گئی  جن میں وہ سب کے سامنے اپنی ہی باتوں  کی وجہ سے پھنس گئے تھے ۔گرچہ اب حق ظاہر ہوچکا تھا  اور ان صاحب کے لیے بہتر تھا کہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے صحابہ کا دفاع کرتے مگر وہ ازروئے  جہالت حقائق کو مسخ کرتے ہوئے کہنےلگے :

جی ہاں ! میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خلفاء کا اسلام  اور مسلمانوں پر بڑا احسان ہے

۱۳۳

چاہے انھوں نے کچھ بھی  کیا ہو ۔آخر کو وہ بشر تھے اور کسی نے بھی ان کے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کیا ۔ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی خوبیاں بیان کریں (اور خامیوں پر پردہ پڑا رہنے دیں ) یہ صحیح نہیں ہے کہ شیعوں کی طرح خلفاء  کی فضلیت  کا انکار کریں اور حبّ علی میں  غلو سے کام لیں ۔

میں نے کہا : اگر اجازت ہوتو میں اپنا جواب مکمّل کرلوں تاکہ آپ میں سے کسی کے ذہن میں کوئی شبہ باقی نہ رہے ۔

"ان صاحب کا یہ کہنا کہ امام علی ع سے پہلے جو تین خلفاء ہوئے ان کی زندگیاں اشاعت  اسلام میں صرف ہوئیں اور ان کے عہد میں بڑی  فتوحات ہوئیں ، نیز کہ اگر وہ نہ ہوتے تو آج مسلمان نہ ہوتا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر فتوحات کا مقصد اللہ کی رضا اور اسلام کی عزت تھا تو اللہ اس کی جزا دےگا ، لیکن اکر مقصد اپنی فوقیت جتانا ،مال غنیمت حاصل کرنا اور عورتوں کو باندیاں بنانے کے لیے قید کرنا تھا توپھر اس کانہ کوئی اجر ہے اور نہ ثواب۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب عثمان بن عفّان کی مخالفت نے زورپکڑا اور لوگ ان پر اعتراض کرنے لگے تو انھوں نے مروان بن حکم اور معاویہ بن ابی سفیان سے  مشورہ کیا ۔انھوں نے کہا " افریقہ  فتح کرنے کے لیے فوجیں بھیج دو تاکہ لوگوں کا دھیان بٹ جائے ، پھر چاہے ان کی پیٹھ پر جوئیں رینگتی رہیں انھیں فکر ہوگی تو اس کی کاٹھی  سے ان کے گھوڑوں  کی پیٹھ پر زخم پڑجائیں "(۱) ۔چنانچہ  عثمان  نے اپنے  دودھ شریک بھائی عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں افریقہ فتح کرنے کے لیے  فوج بھیج دی اور فتح کے بعد بلاشرکت غیرے عبداللہ بن ابی سرح کو افریقہ کا پورا خراج  دے دیا ۔ یہ عبداللہ بن ابی سرح  ایک دفعہ ایمان لانے کے بعدمرتد ہوگیا تھا اور رسول اللہ ھ نے اعلان کردیا تھا کہ اس کا خون  مباح ہے ،جو شخص چاہے  اسے قتل کردے ۔ جب رسول اللہ ص فتح مکہ کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے اصحاب کو ہدایت  کی عبداللہ  بن ابی سرح جہاں کہین ملے اس کو قتل کردو چاہے وہ کعبے کے

-------------------------

(۱):-طبری ،تاریخ الامم والملوک  باب خلافت عثمان ۔ابن اثیر الکامل فی التاریخ باب خلافت عثمان۔

۱۳۴

پردے پکڑے ہوئے کیوں نہ ہو ۔ لیکن عثمان نے اسے  چھپالیا اور فتح کے بعد اسے رسول اللہ ص کے پاس لے کرآئے اور اس کی سفارش کی ۔ رسول اللہ ص خاموش  اور اس بات کے منتظر رہے کہ کوئی اٹھ کر اسے قتل کردے ، جیسا کہ

آپ نے بعد میں فرمایا ۔ اس پر عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ ص مجھے آنکھ سے اشارہ کردیا ہوتا ۔ آپ نے فرمایا :

"نحن معاشر الأنبياء لاينبغي أن تكون لنا خائنة الأعين."

ہم انبیاء کے لیے آنکھ سے دھوکا دینا نامناسب  ہے "(۱)

یہ تھے فتح افریقہ کے اسباب اور ایسے شخص کے ہاتھوں افریقہ کے لوگ مسلمان ہوئے ۔میں بھی اسی شخص کے توسط سے مسلمان ہوا ! یہ تو ہوئی ایک بات ۔دوسری بات یہ ہے کہ کس نے کہا ہے کہ اگر سقیفہ کا قصہ نہ ہوتا اور علی کو خلافت  سے دور نہ رکھا جاتا تو بڑے پیمانے پر اور زیادہ نفع  بخش نہ ہوتیں اورآج پورے کرہ ارض پر اسلام چھایا ہوا نہ ہوتا ؟؟ پھر یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا کو  خلفاء نے فتح نہیں کیا تھا ، وہاں اسلام تلواروں کے ذریعے نہیں بلکہ سوداگروں کے ذریعے پہنچا تھا اور آج بھی وہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں ۔ اور انڈونشیا اس اسپین سے بہتر ہے جو ان لوگوں کے ہاتھوں تلوار سے فتح ہواتھا اور جوآج اسلام اور مسلمانوں کامخالف ہے ۔

برادران گرامی ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا قصہ آپ کو سناؤں :

ایک بادشاہ نے حج کو جانے سے پہلے وزیر کو اپنا قائم مقام مقررکیا تھا ۔ ان دنوں حج کے سفر میں پورا ایک سال لگتا تھا ۔ بادشاہ کے جانے کےبعد اس کے کچھ درباریوں نے وزیر کے خلاف سازش کرکے اسے قتل کردیا اور اپنے میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ وزیر مقررکردیا ۔ اس نئے وزیر نے بڑے بڑے کام کیے ۔سڑکیں اور مسجدیں بنوائیں ، سرائے اور حمام بنوائے ۔بعض سرکش قبائل کو زیر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ

--------------------

(۱):-طبری ،تاریخ الامم والملوک باب خلافت عثمان ۔ابن عبدالبر ،استیعاب ترجمہ بن ابی سرح ۔

۱۳۵

مملکت پہلے سے بھی زیادہ  وسیع ہوگئی ۔لیکن جب بادشاہ کو حج سے لوٹنے پریہ معلوم ہوا کہ اس کے قائم مقام  کو قتل کردیا گیا  ہے تو وہ بہت افروختہ ہوا اور سب سازشیوں کے قتل کا حکم دے دیا ۔ایک نے آگے بڑھ کر کہا: سرکار عالیجاہ ! ہم نے جو آپ کی حکومت کی توسیع کے لیے بڑے بڑے کارنامے اور خدمات لائقہ انجام دی ہیں ، کیا ان کے صلے میں ہمارے جرم کو معاف نہیں کیا جاسکتا ؟ بادشاہ نے بگڑ  کر کہا : چپ رہ خبیث ! تم نے میرے وزیر کو قتل کرکے ۔ جسے میں نے اپنا قائم مقام مقررکرکے گیا تھا ۔میرےساتھ نمک حرامی کی ہے ۔ رہی وہ خدمات جو تم نے انجام دی ہیں تو وہ اکیلا اس سے کئی گناہ زیادہ کرسکتا تھا جو تم سب نےمل کرکیا ہے " یہ قصّہ سن کر سب ہنسنے لگے اورکہنے لگے کہ ہم مطلب سمجھ گئے ۔

 میں نے کہا : اب اس آخری فقرے پر آئیے جو ان پروفیسر صاحب نے کہا تھا کہ جب علی ع کو خلافت مل گئی تو انھوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا اور ہر چیز کو اتھل پتھل کردیا !

ہم سب کو معلوم ہے کہ اورتاریخ شاہد ہے کہ طوفان تو حضرت عثمان کے عہد میں مچا اور ہرچیز اس وقت اتھل پتھل ہوئی جب انھوں نے اقربا پروری کے نتیجے میں اپنے فاسق وفاجر رشتہ داروں کو مسلمانوں پر مسلط کردیا حالانکہ اس وقت بہترین صحابہ موجود تھے ،جنھیں اس کے سوا کیا ملا کہ انھیں زدوکوب کیا گیا(۱)

شہر بدر کیا گیا(۲) اور ان کی ہڈی پسلیاں توڑی گیئیں(۳) اسلام اس وقت پیچھے ہٹنے اور ناکام ہونے لگا جب مسلمان بنی امیّہ کے غلام بن گئے ۔

پروفیسر صاحب !آپ یہ سب حقائق لوگوں کو اور خصوصا اپنے شاگردوں کو

--------------------

(۱):- جیسے عمّار بن یاسر کو زدوکوب کیا گیا ،ان کی آنت اتر آئی ، مہینوں علاج کراتے رہے ۔

(۲):- ابوذر غفاری نے بورژوا طبقے کی مخالفت کی تو شہر بدر کیے گئے ۔اکیلے پڑے ہوئے جان دے دی۔

(۳):- عبداللہ بن مسعود نے فاسقوں کو مسلمانوں کا مال دینے پر اعتراض کیا تو وہ ماردی گئی کہ پسلیا ں ٹوٹ گئیں ۔

۱۳۶

کیوں نہیں بتلاتے اور ان کی صحیح رہنمائی کیوں نہیں کرتے ۔جب امام علی ع کو خلافت ملی تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ بے دین ہیں ، کچھ ظالم ہیں اور کچھ غدّار ہیں باقی جو بچے ہو سب منافق ہیں ۔ حقیقی مسلمان صرف چند تھے جنھوں نے علی ع کی ان ہی امورپر بیعت کی جن امور پر رسول اللہ ص کی بیعت کی تھی  ۔امام علی ع نے بگاڑ کر دور کرنے ، عدالت کو قائم کرنے اور معاملات کو روبراہ لانے کی اپنی سی پوری کوشش کی یہاں تککہ وہ اسی اصلاح کی کوشش میں شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد ان کے بیٹے شیہد ہوئے انھیں زہر دیا گیا اور وہ بھی اصلاح کی راہ میں قربان  ہوگئے ۔ اس کےبعد امام علی ع کے دوسرے بیٹے امام حسین اپنے ساتھیوں ،بھائیوں ،بیٹوں اور اہل بیت سمیت شہید(۱) ہوئے ۔ ائمہ اہلبیت ع میں سے ہر امام نے شہادت پائی خواہ تلوار سے مقتول ہوکریا زبیر سے مسموم ہوکر ۔ ان سب ائمہ نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح  کی خاطر  اپنی جان کی قربانی دی ۔

میں یہاں ایک لطیفہ بیان کرنا چاہتاہوں ، اس سے آپ کو امام علی بن ابی طالب ع کی قدرومنزلت کا اندازہ ہوگا :

ایک دفعہ ایک شخص امام علی ع کے پاس آیا اور کہنے لگا : یا امیر المومنین! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ امام ع نے فرمایا : جو چاہو پوچھو ۔ اس نے کہا: یہ کیا بات ہے کہ ابو بکر اور عمر کے زمانے میں تو حالات ٹھیک رہے لیکن آپ کے زمانے میں ٹھیک نہ ہوسکے ،امام علی ع نے برجستہ جواب دیا : ابوبکر اور عمر مجھ جیسے لوگوں پر حکومت کرتے تھے اور میں تم جیسے لوگوں پر حکومت کرتاہوں ۔ اسی لیے یہ انتشار پیداہوگیا ۔

کیا خوب اورشافی جواب ہے اس کی طر ف سے کہ تاریخ نے رسول اللہ ص کے بعد اس جیسا معلّم نہیں دیکھا ۔

اس قصّے کو سن کر سب حاضرین بہت محفوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ آخر علی ع

------------------------

(۱):- ذرا غور فرمائیے کہ وہ کون سے حالات اور اسباب تھے کہ رسول  اللہ کی رحلت کے صرف پچاس سال بعد رسول اللہ ص کے نام لیواؤں نے رسول اللہ  ص کی اولاد کو بھوکا پیاسا شہید کردیا ۔ (ناشر)

۱۳۷

شہر علم کا دروازہ تھے ۔

میں نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کردی کہ :ہمارے پروفیسر نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں خلفائے ثلاثہ  کی تنقیص  کرتاہوں اور ان کے کردار کی پاکیزگی میں شبہ پیدا کرتا ہوں ، تو یہ محض تہمت ہے ۔کیونکہ میں نے فقط وہی کچھ کہا  جو  بخاری ومسلم نے کہا ہے اور اہل سنت مورخین نے کہا ہے ۔ اگر آپ اس تنقیص اور کردار کشی تصور کرتے ہیں تومجھے الزام دینے سے پہلے ان لوگوں پر الزام دیں ۔ مجھ سے تو فقط یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ میں کوئی ایسی سند دکھاؤں جو اہلسنت  کےنزدیک  قابل اعتماد ہو مجھے آپ صرف اس وقت الزام دے سکتے جب آپ خود ان سندوں کو دیکھ کر میرا کوئی ایک بھی جھوٹ پکڑسکیں ۔

سب نے یک زبان ہوکر کہا : واقعی اس طرح کی بحثوں میں یہی ہونا بھی چاہیے ۔ سب نے پروفیسر پر زوردیا کہ مجھ سے معذرت کریں چنانچہ انھوں نے معذرت کرلی ۔ فلللہ الحمد

امام علی ع کی ولایت کے دوسرے شواہد

چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی مشیت یہ ہوئی کہ امام علی ع کی ولایت کو مسلمانوں کے لیے آزمائش قراردیا جائے ۔ اس لیے اس بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔ مگر چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں پر مہربان بھی ہے اور وہ اگلوں کی حرکتوں کا پچھلوں  سے مواخذہ  نہیں کرتا ، اس لیے  اس کی حکمت کا اقتضاء یہ ہوا کہ اس واقعہ میں موجود لوگ  اس واقعہ کو نقل کرتے رہیں اور بعد میں آنے والے اس واقعہ سے منسلک دوسرے واقعات سے عبرت پکڑیں ، شاید اس طرح اس واقعہ پر مسلسل گفتگو کے نتیجہ میں لوگ راہ حق پر گامزن ہوسکیں ۔

پہلا واقعہ : اس واقعے کا تعلق اس شخص کی سزا سے ہے جس نے ولایت علی ع کو اس وقت جھٹلایا تھا جب غدیر خم میں امام علی ع کے مسلمانوں پر

۱۳۸

خلیفہ مقرر ہونے کی خبر مشہور ہوچکی تھی اور سب لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ رسول اللہ ص نے فرمایا  ہے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں ، وہ یہ خبر ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ۔

ہوا یوں کہ جب حارث بن نعمان فہری کو یہ خبر ملی تو اسے ذرا پسند نہیں آئی ۔ وہ رسول اللہ ص کے پاس آیا اور اپن اونٹنی مسجد کے دروازے  کے سامنے بٹھا کر سیدھا رسول اللہ ص کی خدمت میں پہنچا  اور کہنے لگا : اے محمد! تم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم یہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تم اللہ  کے رسول  ہو ، ہم نے تمھاری یہ بات مان لی ۔ تم نے ہمیں  حکم دیا ک ہ ہم دن رات میں پانچ نمازیں پڑھیں رمضان  کے روزے رکھیں ،بیت اللہ کا طواف  کریں ، اپنے اموال  کی زکواۃ  دیں ہم نے یہ بات بھی مان لی ۔لیکن تم نے اس پر بس نہیں کی ،اپنے چچا کے بیٹے کو اونچا اٹھادیا ۔ اسے سب لوگوں سے بڑھا دیا کہہ دیا :"من كنت مولاه فعلىٌّ مولاه" اب یہ بات تمھاری اپنی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے(۱) ۔

رسول اللہ  کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔آپ نے فرمایا : خدائے واحد کی قسم ! یہ اللہ کی طرف سے ہے ،میری طرف سے نہیں ۔ آپ نے اس بات کوتین بار دہرایا ۔ حارث وہاں سے اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ محمد ص جو کہہ رہے ہیں اگر وہ

--------------------

(۱):-اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بدّو مدینے سے باہر رہتے تھے ، وہ علی بن ابی طالب ع کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے بغض رکھتے تھے بلکہ وہ تو رسول اللہ ص کو بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ گنوار رسول اللہ ص کے پاس آتا ہے تو سلام نہیں کرتا ، آپ کا نام لے کر پکارتا ہے ۔ سچ کہا اللہ تعالی نے :

"الأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفَاقاً وَأَجْدَرُ أَلاَّ يَعْلَمُواْ حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ " عرب کے بدو سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول ص پر نازل کیا ہے اس کی حدوں  سے واقف ہی نہ ہوں "(سورہ ت توبہ ۔آیت ۹۷)

۱۳۹

سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر دردناک عذاب بھیج ۔

راوی کہتاہے کہ وہ ابھی اپنی اونٹنی تک نہیں پہنچا تھا کہ آسمان سے ایک پتھر آیا جو اس کے سرپر گرا اور وہ وہیں ہلاک ہوگیا ۔ تب آیہ"سأل سائل" اتری ۔علاوہ ان مآخذوں کے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے (۱)، اور بھی بہت سے علمائے اہل سنت نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔جسے مزید حوالوں کی تلاش ہو ، ہو علامہ امینی کی الغدیر کامطالعہ کرے ۔

دوسرا واقعہ : اس کا تعلق ان لوگوں  کی سزا سے ہے جنھوں نے واقعہ غدیر کوچھپانے  کی کوشش کی اور انھیں امام علی ع کی بد دعا لگی ۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب امام علی ع نے یوم رحبہ ، کوفہ میں لوگوں  کےمجمع  میں منبر پر سے اعلان  کیا کہ :

" میں ہر مسلمان  کو اللہ کی قسم دیتاہوں  کہ اگر  اس نے غدیر خم میں رسول اللہ  کو یہ کہتے ہوئے سنا  ہو کہ : "من كنت مولاه فعلىٌّ مولاه" تو وہ کھڑے ہوکر جو کچھ اس نے سنا ہو اس کی گواہی دے  لیکن وہ شخص کھڑا  ہو جس نے اپنی  آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے سنا ہو"۔

یہ سن کر تیس صحابہ  کھڑے ہوگئے ،جن میں سے سولہ اصحاب بدر تھے ، ان سب نے شہادت دی کہ رسول اللہ  نے علی ع کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے کہا تھا کہ : کیا تمھیں معلوم ہے کہ مومنین پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میرا حق ہے ؟ سب نے کہا : جی ہاں ! پھر آپ نے کہا :

"من كنت مولاه فهذا مولاه أللهمّ وال من وّالاه وعاد من عاداه"

---------------------

(۱):-حافظ حسکانی ، شوہد التنزیل جل ۲ صفحہ ۲۸۶ ۔ ابو اسحاق  ثعلبی ، تفسیر  الکشف والبیان ۔ محمد بن احمد قرطبی  تفسیر الجامع لاحکام القرآن  جلد ۱۸ صفحہ ۲۷۸ ۔ محمد رشید رضا ،تفسیر المنار جلد ۸ صفحہ ۲۶۸ ۔حافظ قندوزی حنفی ینابیع المودۃ صفحہ ۸۲۳ ۔حاکم نیشاپوری ۔ مستدرک علی الصحیحین  جلد ۲ صفحہ ۵۰۲  ۔علی بن برہان الدین حلبی  ،سیرت حلبیہ جلد ۳ صفحہ ۲۷۵

۱۴۰

لیکن بعض صحابہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھے ، علی سے حسد اور بغض کی وجہ سے بیٹھے رہے اور شہادت دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوئے ، ان میں انس بن مالک  بھی تھے ، جب امام علی ع منبر پر سے اترے  تو آپ  نے ان سے کہا : انس ! کیا بات ہے تم دوسرے صحابہ  کے ساتھ اس دن جو کچھ  تم نے سنا تھا اس  کی شہادت  دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ؟ انس نے کہا: امیر المومنین !  اب میں بڈھا  ہوگیا ہوں مجھے  یاد نہیں رہا کیا بات ہوئی تھی ۔ امام علی ع نے کہا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہوتو اللہ  تمھیں برص  کی بیماری میں مبتلا کردے ۔ چنانچہ انس  ابھی وہاں سے اٹھے  بھی نہ تھے کہ ان کے چہرے پر برص کے داغ پڑگئے ۔انس روتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے شہادت کو چھپایا تھا ، اس لیے مجھے عبد صالح  کی بد دعا لگ گئی ۔ یہ مشہور قصہ ہے اس کو ابن قتیبہ نے کتاب المعارف (1) میں بیان کیا ہے جہاں باب  البرص میں انس بن مالک کاشمار  ان لوگوں میں کیا ہے جن کی بیماری شے شکل بگڑ گئی تھی ۔

امام احمد بن حنبل نے بھی مسند(2) میں اس واقعہ  کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ سب کھڑے ہوگئے  سوائے تین آدمیوں  کے جنھیں علی ع کی بد دعا لگ گئی ۔ مناسب ہوگا یہا ں ان تین اشخاص کی تصریح کردیں جن کا ذکر امام احمد بن جنبل  نے احمد بن یحیی بلاذری کے حوالے سے کیا ہے ۔ وہ کہتے  ہیں:

"جب امام علی ع نے شہادت طلب کی اس وقت  منبر کے نیچے انس بن مالک ، براء بن عازب اور جریر بن عبداللہ  بجلی  بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان تین میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا ۔ امام علی نے اپنی بات کو دہرایا  پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس پر امام نے کہا " یا الہی ! جو کوئی جانتے بوجھتے اس شہادت کوچھپائے اسے اس وقت تک  دنیا سے نہ اٹھانا جب تک اس پر کوئی ایسی نشانی نہ لگ جائے جس سے وہ پہچانا جائے " چنانچہ انس بن مالک کو برص

-----------------------

(1):- ابن قتیبہ ،کتاب المعارف صفحہ 251۔

(2):- امام احمد بن جنبل ، مسند جلد1 صفحہ 119

۱۴۱

کی بیماری لگ گئی ۔ براء بن عازب کی بینائی جاتی رہی  اورجریر ہجرت کے بعد دوبارہ بدّو بن گئے اور شرات جاکر اپنی ماں کے گھر مرے ۔ یہ ایک مشہور قصہ ہے جس کو بہت سے مورخین  نے نقل کیا ہے(1)

"فاعتبروايآ اَولى الألباب"

جو شخص  بھی اس واقعہ کے مختلف(2) پہلوؤں پر غور کرے گا ، جو تقریبا فراموش کیا جاچکا تھا اور جسے امام علی ع نے چوتھائی صدی گزرنے کےبعد دوبارہ زندہ گیا تھا ۔ وہ امام علی ع کی عظمت ،بلند ہمتی اور خلوص کا قائل ہوجائے گا انھوں نے نہ صرف صبر کا حق ادا کردیا بلکہ صبر کے حق سے بھی زیادہ صبر کیا ۔ جب بھی انھوں نے اسلام اور مسلمانوں  کے مفاد میں ضرورت  محسوس کی توبے کہے ، ابوبکر  ،عمر اور عثمان کو نصیحت  کرنے اور مفید مشورے دینے سے گریز نہیں کیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود واقعہ غدیر ان کےذہن میں ہمیشہ مستحضر رہا اور جب بھی موقع ملا انھوں نے اسے زندہ کیا ۔ یہاں تک کہ بھرے مجمع میں علی الاعلان  انھوں نے دوسروں سے بھی اس واقعہ کی گواہی چاہی ۔

دیکھیے امام علی ع نے اس واقعہ  کی یاد کو زندہ کرنے اور سب مسلمانوں پر خواہ وہ اس واقعہ کے وقت موجود تھے یا نہیں اتمام حجّت  کرنے کا کیا دانشمندانہ طریقہ اختیار کیا ہے ۔ اگر امام علی ع یہ کہتے کہ لوگو! غدیر خم میں رسول اللہ  نے خلافت  کے لیے مجھے نامزد  کیا تھا ، تو حاضرین  پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا بلکہ وہ الٹا اعتراض کرتے کہ امام نے اتنی طویل مدت تک خاموشی کیوں اختیار کی۔

---------------------

(1):- ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 7 اور جلد 3 صفحہ 150 ۔شرح نہج البلاغہ تحقیق محمد ابو الفضل جلد 19 صفحہ 217 ۔میر حامد حسین موسوی ،عبقات الانوار جلد 2 صفحہ 309 ۔ ابن مغازلی ،مناقب علی بن ابی طالب صفحہ 23 ۔ علی بن برہان الدین حلبی ، سیرۃ حلبیہ  جلد 3 صفحہ 337

(2):- ایک پہلو یہ ہے کہ امام علی ع نے صحابہ  کو دعوت دی تھی کہ حدیث غدیر کی شہادت دیں ۔ اس واقعہ کو محدثین اور مورخین  کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔جن کاذکرپہلے  ہوچکا ۔جیسے امام احمد بن حنبل  ،ابن عساکر ،ابن ابی الحدید وغیرہ ۔

۱۴۲

لیکن جب آپ نے یہ کہا کہ میں ہر مسلمان کو قسم دیتاہوں کہ اگر  اس نے وہ سنا ہو جو رسول اللہ ص نے غدیر کے دن فرمایا تھا ، تو وہ کھڑے  ہو کر اس کی شہادت دے ، تو اس واقعہ کو حدیث نبوی  کے طور پر تیس 30 صحابیوں نے بیان کیا جن میں  16 بدری تھے ۔ اس طرحی امام نے جھٹلانے  والوں ، شک کرنے والوں اور اتنی طویل مدت تک خاموشی اختیار کرنے پر اعتراض کرنے والو  کا منہ بند کردیا ۔ کیونکہ  اب آپ کے ساتھ ساتھ ان تیس صحابہ کا سکوت اس بات کی روشن  دلیل تھا کہ معاملہ دراصل نازک تھا اور جیسا کہ ظاہر ہے اس موقع پر سکوت ہی میں اسلام کا مفاد تھا ۔

شوری پر تبصرہ

گزشتہ اوراق میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ شیعوں کے بقول خلیفہ کا تعین اللہ کے ہاتھ میں ہے جو رسول اللہ ص وحی آنے پر کرتے تھے ۔ یہ قول  احکام اسلامی کے  فلسفے  سے مکمل مطابقت رکھتا ہے ۔کیونکہ سورہ قصص میں ہے ۔ "وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ"

اور چونکہ اللہ سبحانہ  کی مشیت یہ کہ امت محمدیہ بہترین امت ہو جو انسانوں کے لیے پیدا کی گئی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس قیادت  دانشمندی ،پختگی ، قوت ،شجاعت ، ایمان اور زہد وتقوی کے اعلی معیار پر فائز ہو ۔ یہ صفات  صرف اس فرد  میں پائی جاسکتی ہیں جس کو اللہ تعالی نے منتخب  کیا ہو اور قیادت وسیادت کی خصوصی  صفات سے نوازا ہو ۔ سورہ حج آیت 75 میں ہے :

" اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ " اللہ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کا اور اسی طرح آدمیوں میں سے بھی ۔بے شک اللہ خوب سننے  والا خوب دیکھنے والا  ہے ۔

جس طرح اللہ سبحانہ انبیاء کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح اوصیاء کا بھی ۔

۱۴۳

وہی انتخاب کرتا ہے ۔

رسو ل اللہ ص نے فرمایا ہے :

"لكلّ نبيّ ٍ وصيّ ٌ وأنا وصيّي عليّ ُبن أبي طالب "

ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے ۔ میرے وصی علی بن ابی طالب ع ہیں(1)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ص نے فرمایا :

"أنا خاتم الأنبياء وعليّ خاتم الأوصياء ".

میں خاتم الانبیاء ہوں اور علی ع خاتم الاوصیاء ہیں (2)

اس طرح شیعوں  نے دوسروں  کوبھی بے فکر کردیا اور خود بھی آرام سے ہوگئے انھوں نے اپنا معاملہ  اللہ اور اس کے رسول  ص کے سپرد کردیا ہے ۔اب ان میں نہ کوئی خلافت کا دعوی کرسکتا ہے ۔ نہ کسی کو خلافت  کا لالچ  ہوسکتا ہے ، نہ کسی نص کی بنیاد پر اور نہ خود اپنی مرضی سے ۔کیونکہ ایک تو نص اختیار اور شوری کی  نفی کرتی ہے ، دوسرے نص میں رسول اللہ ص نے خود مخصوص اشخاص کا ناموں کے ساتھ تعیّن کردیا ہے(3) ۔اسی لیے شیعوں میں تو کسی کو خلافت کا دعوی  کرنے کی جراءت  ہی نہیں ہوسکتی ۔اور اگر بالفرض کوئی ایسی جسارت کرے بھی تو اسے فاسق اور دین سے خارج سمجھا جائے گا۔

 لیکن اہل سنت کے نزدیک خلافت کا فیصلہ شوری اور لوگوں کی پسند سے ہوتا ہے ۔ اس طرح اہل سنت نے ایسا دروازہ  کھول دیا ہے جسے امت میں سے کسی شخص کے لیے بھی بند نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح ہر ایرے غیرے  نتھوخیرے کے لیے موقع ہے کہ وہ خلافت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ خلافت کا حصول

--------------------

(1):-ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 5 ۔ خوارزمی ،مناقب خوارزمی صفحہ 42  ۔ینابیع المودۃ صفحہ 79 ۔

(2):- حافظ قندوزی حنفی ، ینابیع المودۃ جلد 2 صفحہ 3 بحوالہ دیلمی ۔خوارزمی ،مناقب خوارزمی  ۔محب طبری ، زخائر العقبی ۔

(3):- تعداد کی روایت  بخاری ومسلم میں ہے ۔ اورتعداد  اور اسماء کی روایت کے لیے دیکھیے ینابیع المودۃ جلد 3 صفحہ 99

۱۴۴

قریش ہی کے لیے نہیں بلکہ ایرانیوں ،ترکوں ، مغلوں حتی کہ غلاموں  کے لیے بھی ممکن ہوکیا ۔ایک شاعر نے خلافت اسلامیہ کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔

"هزلت حتّى بان من الهزال

كلاها وحتَى استامّها كلّ مفلس "

خلافت اس قدر لاغر ہوگئی ہے کہ دبلے  پن سے اس کے گردے نظر آنے لگے اور ہر مفلس  قلّاش  نے اسے اپنا بنا لیا ۔  وہ سب اقدار  اور شرائط  جن کا خلیفہ  میں ہونا ضروری تھا ، بھاپ بن کر ہوا میں اڑگئیں ۔ ایسا ہونا قدرتی تھا کہ کیونکہ بشر آخر بشر ہے ۔ اس کے انسانی جذبات ہیں ، خود غرضی اس کی جبلّت ہے ۔وہ اقتدار ملتے ہی بدل جاتا ہے اور پہلے سے بد تر ہوجاتا ہے ۔

ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی  تصدیق اسلامی تاریخ سے ہوتی ہے ۔مسلمانوں  پر ایسے ایسے بد کاروں اور بد کرداروں نے حکومت کی ہے جن میں نہ حیا تھی ، نہ اخلاق اورنہ ہی ایمان ۔

مجھے دڑ ہے کہ بعض قارئین  اسے مبالغہ تصور کریں گے ۔ لیکن اگر وہ امویوں اورعباسیوں وغیرہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائےگا کہ کوئی امیر المومنین کھلم کھلا شراب پیتے تھے ، بندروں سے کھیلتے تھے ، اور بندروں کو سونے کے زیور پہناتے تھے ۔ کسی امیرالمومنین  نے اپنی ایک کنیز کو اپنا لباس پہنا کر مسلمانوں  کو نماز پڑھانے کے لیے بھیج دیا تھا ۔ ایک امیر المومنین کی حبابہ نامی باندی  مرگئی تو یہ حضرت ہوش وحواس ہی کھو بیٹھے تھے ۔ ایک امیر المومنین کسی شاعر کے شعر سن کر ایسے مستائے کہ لگے اس کا عضو تناسل چومتے ۔ہم ان لوگوں کے حالات  بیان کرنے میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے ، کیونکہ ان کے متعلق مسلمانوں کا پہلے ہی فیصلہ ہے کہ یہ محض کٹ کھنی بادشاہت کی نمائندگی  کرتے تھے خلافت کی قطعا نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ص سے ایک قول منسوب ہے کہ

"الخلافة من بعدي ثلاثون عاما ً ثمّ تكون ملكا ً عضوضا ً."

۱۴۵

میرے بعد تیس سال خلافت رہے گی اس کےبعد کٹ کھنی بادشاہت ہوگی ۔

میرے خیال میں اس قول کو رسول اللہ ص سے  منسوب کرنا درست نہیں ہے ۔کیونکہ ثالث حضرت عثمان کو۔ جنھیں حضرت علی ع سے افضل شمار کیا جاتا ہے بلکہ ذوالنورین اور کامل الحیاء والایمان کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں نے قتل  کردیا تھا کیونکہ وہ ان سے تنگ آئے ہوئے تھے یہاں تک کہ انھوں نے حضرت عثمان کو  مسلمانوں کے قبر ستان "جنت البقیع " میں دفن بھی نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ ان ان کو بے غسل وکفن بقیع سے ملحق یہودیوں کے قبرستان " حش کوکب" میں سپر د خاک کیا گیا ۔

جو شخص تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا ، اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوگا  کہ خلفاء کے کرتوت عام لوگوں سے بھی بد تر تھے لیکن اس وقت ہماری بحث  کاموضوع یہ نہیں ہے ۔ جسے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق ہو  ۔وہ طبری  کی تاریخ الامم والملوک ، ابن اثیر  کی  کامل التاریخ ، ابو الفداء کی المختصر فی تاریخ البشر اور ابن قتیبہ دینوری کی الامامۃ والسیاسۃ  وغیرہ سے رجوع کرے ۔ میں صرف اپنی پسند سے خلیفہ مقرر کرنے کی خرابی اور اس نظریہ کابنیادی بانجھ پن دکھانا چاہتا تھا ۔کیونکہ جس کو ہم آج پسند کرتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کل وہ ہماری نظروں میں مردود قرارپائے اوریہ معلوم ہو کہ ہم نے غلطی کی تھی اور ہماری پسند صحیح نہیں تھی ۔ ایسا ہوچکا ہے ۔ عبدالرحمن بن عوف نے خود عثمان  بن عفان کو خلافت کے لیے پسند کیا لیکن بعد میں پچھتا ئے مگر اس وقت کیا ہوسکتا تھاجب چڑیاں چگ گئین کھیت ۔ عبدالرحمن بن عوف سابقین اولین میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ جب ان کی پسند درست ثابت نہیں ہوئی تو کیسے کوئی ہوش مند شخص  ایسے بانجھ  اوربے ثمر نظریے  سے مطمئن  ہوسکتا ہے جس نے صرف فتنہ وفساد ، افراتفری  اور خونریزی  کو جنم دیا ہو ۔ جب ابو بکر  کی بیعت کی جارہی تھی ۔ جو بقول عمر بن خطاب اچانک ہوگئی تھی لیکن اللہ نے اس کے برے نتائج  سے محفوظ رکھا ۔جس کی کتنے ہی صحابہ نے مخالفت کی اورجب علی ع کی بیعت جو بر سر عام ہوئی تھی بعض صحابہ نے

۱۴۶

توڑ دی جس کے نتیجے  میں جنگ جمل ، جنگ صفین ، اور جنگ نہروان واقع ہوئیں  تو کیسے کوئی دانش مند اس نظریے سے مطمئن ہوسکتا ہے جو آزمایاگیا  لیکن شروع ہی سے قطعی  ناکام  رہا بلکہ مسلمانوں کے لیے وبال ثابت ہوا ۔ بالخصوص جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ جو شوری کے ذریعے سے خلیفہ کے انتخاب کے قائل ہیں ایک دفعہ کسی کے خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد نہ اسے تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ معزول کرسکتے ہیں ۔ جب عثمان کو مسلمانوں نے معزول کرنا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ جو قمیص اللہ مجھے پنہائی ہے میں اسے نہیں اتاروں گا ۔

مغرب کی متمدن قومیں جو جمہوریت  کی چمپئین  بنی  ہوئی ہیں سربراہ مملکت  کے انتخاب سے متعلق ان کے طریقہ کار کو دیکھ کر ہمیں اس نظریے سے اور بھی نفرت ہوجاتی ہے ۔ہوتایہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدارکی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے  کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ، مختلف  اداروں سے سودے بازی کرتی ہیں اور ہر قیمت پر اقتدارکی کرسی تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اربوں ڈالرپروپیگنڈے پر خرچ کیے جاتے ہیں ، جب کہ قوم کے غریب اور کمزور طبقے  کو اس رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی کوئی شخص اس سیاسی کھیل کے ذریعے  اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتا  ہے تو ہو فورا  اپنے حامیوں ، پارٹی ممبروں ، دوستوں اور عزیزرشتہ داروں کا وزارت کے منصوبوں ، اعلی عہدوں اور کلیدی  انتظامی ذمہ داریوں پر تقرکردیتا ہے اور دوسرے لوگ سربراہی کی معینہ مدت ختم ہونے تک حزب اختلاف  میں رہنے ہیں ۔ اور اس پوری مدت میں نہ صرف سربراہ کے لیے مشکلات اور رکاوٹیں  پیداکرتے رہتے ہیں  بلکہ حتّی  الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اسے بدنام کریں اور ہوسکے تو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اس کا اقتدار ہی ختم کردیں ۔ اس سارے قضیے میں مجبور اوربے دست وپا قوم کی تقدیر میں صرف خسارہ ہی خسارہ ہے ۔

مغربی نظام جمہورت کے نتیجے میں کتنی انسانی اقدار پامال  ہوتی ہیں اور  آزادی اور جمہوریت کے نام پر اور پرکشش نعروں  کی آڑ میں کتنی سیاہ کاریاں فروغ پاتی ہیں !! یہاں تک کہ (بعض یورپی ملکوں مثلا برطانیہ میں ) لواطت کو قانونا جائز

۱۴۷

قرار دے دیا گیا ۔اور نکاح کے بجائے  زنا کو ترقی پسندی شمار کیاگیا ۔ میں حیران ہوں کہ مغربی تہذیبی  کی برکات  کو کہاں تک گنواؤں !

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ہو اب زرکم عیار ہوگا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرےگی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہوگا

اب دیکھیے ! شیعہ عقیدہ کتنا عظیم اور کتنا فراخدلانہ ہے کہ اس کے مطابق خلافت اصول دین میں شامل ہے ، کیونکہ معاشرتی اور انفرادی زندگی  کی درستگی کا دارومدار اسی پر ہے ۔

شیعوں کا یہ قول کہ منصب خلافت اللہ کے اختیار میں ہے ایک عاقلانہ  اور صحت مندانہ نظریہ ہے ،جس کو عقل قبول کرتی ہے ، ضمیر کا اطمینان ہوتا ہے اور جس کی تائید  قرآن وسنت سے ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس سے لالچیوں ، غدّاروں  اور منافقوں کی ہمّت شکنی ہوتی ہے اور ظالموں ،گردن کشوں اور ملوک وسلاطین کا غرور خاک میں ملتا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے "

"فَرِيقاً هَدَى وَفَرِيقاً حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ "

ایک گروہ اس نے راہ دکھا دی اور ایک گروہ ہے کہ اس پر گمراہی ثابت ہوچکی ۔انھوں نے شیطان کو اپنا رفیق بنالیا  ہے اور سمجھے ہیں کہ ہم راہ پائے ہوئے ہیں ۔(سورہ اعراف ۔آیت 30)

۱۴۸

مسئلہ تقدیر ۔ اہل سنت کی نظر میں

میری گذشتہ زندگی میں قضا وقدر کا موضوع میرے لیے ایک چیستان بنا ہوا تھا کیونکہ مجھے اس کی کوئی ایسی وضاحت نہیں ملتی تھی جو میرے دل کو لگے اور جس سے مجھے اطمینا ن حاصل ہو ۔ میں اس سلسلے میں حیران وپریشان تھا ۔

مجھے اہل سنت کے مدرسے میں سکھایا گیا تھا کہ انسان اپنے افعال میں آزاد نہیں ، وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور وہی کچھ بنتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے پاس دوفرشتے بھیجتا ہے جو اس کی عمر ، اس کی روزی اور اس کے اعمال کےبارے میں تفصیل لکھ دیتے  ہیں کہ وہ شقی ہوگیا یا سعید(1)یعنی خوش نصیب ہوگا یا بد نصیب ۔

میں عجب مخمصے میں گرفتار تھا کیونکہ ایک طرف تو مجھے یہ تعلیم دی گئی تھی،  دوسری طرف میری عقل اور میرا ضمیر یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالی عادل ہے ، وہ اپنی مخلوق  پر ظلم نہیں کرتا ۔یہ کیسے  ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کو ایسے افعال پر مجبور کرے جس کاو ہ بعد میں محاسبہ کرے یاکسی کو ایسے جرم کی پاداش میں عذاب دے جو خود اس سے  اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہو اور جس کے ارتکاب پر اسے مجبور کیا ہو ۔ دوسرے مسلمان نوجوانوں کی طرح میں بھی اسی فکری تضاد میں مبتلا تھا اور میرا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالی قوی اور جبار ہے ، اس کی شان یہ ہے کہ

اس سے کچھ نہیں کی جاسکتی اور وں سے بازپرس ہوگی (2)

---------------------

(1):- صحیح بخاری کتاب القدر۔

(2):-"لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ" (سورہ انبیاء ۔آیت 23)

۱۴۹

وہفعّا لٌ لّما يريد جو چاہتا ہے کرتا ہے  اس نے مخلوق کو پیدا کیا ، کچھ کو جنتی بنایا اور کچھ کو جہنمی ۔پھر یہ کہ وہ رحمان ورحیمی ہے وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ،جیسا کہ قرآن میں ہے :

" تمھارا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔(1)

ایک اور آیت میں ہے :

"بے شک اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں "(2)

اوریہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ شفیق ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے "(3)

میں اسی فکری تضاد کے پیچ وخم میں الجھا ہوا تھا اور اس کی جھلک میرے قرآن کے سمجھنے میں بھی نظر آتی تھی ۔ میں کبھی کہتا تھا کہ انسان خود اپنا نگران ہے اور وہی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے :

"جو کوئی ذراسی نیکی کرے گا ، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو کوئی ذراسی بدی کرے گا ،وہ اس کو دیکھ لے گا (4)۔

کبھی تومیں یہ سمجھتا تھاکہ انسان کو کوئی دوسری طاقت چلاتی ہے ،اس کی اپنی کوئی قوت ہے اورنہ طاقت ،وہ خود انپے کو نہ نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان  اور نہ اپنے لیے روزی کا بندوبست کرسکتا ہے کیونکہ بفحوائے قرآن

---------------------

(1):-" وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلَعَبِيد" (سورہ حم سجدہ ۔آیت 46)

(2):-" إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئاً وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ " (سورہ یونس ۔آیت 44)

(3):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 75

(4):-" فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ () وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ ()" (سورہ زلزال ۔آیت 7-8)

۱۵۰

تم تو بس وہی چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے(1) ۔

میں ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان اسی فکر تضاد میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء ومشائخ  سےجب قضا وقدر کےبارےمیں گفتگو کی جائے تو ان سے کوئی  تو ان سے کوئی ایسا جواب نہیں بن پڑتا جس سے دوسروں کو تو کیا خود انھیں بھی اطمینان ہوسکے ۔بس کہہ دیتے ہیں کہ اس موضوع پرزیادہ بحث کی ضرورت نہیں بلکہ بعض تو تقدیر کی اس بحث کو ہی حرام قراردیتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ مسلمان  کے لیے صرف اتنا ایمان لانا ضروری ہے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے ۔اگر کوئی  ضدی ان سے پوچھ بیٹھے کہ " یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ پہلے تو اپنے بندے  کو گناہ کے ارتکاب  پر مجبور کرے اور پھر اسے نار جہنم میں جھونک دے " تو فورا اس پر کافر وزندیق ہونے کا فتوی جڑدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم دین سے نکل گئے ۔غرض ایسے ہی لغو الزام لگائے جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقلیں ٹھٹر  کررہ گئی ہیں اور لوگوں کا عقیدہ یہ ہوگیا ہے کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں یعنی نکاح پہلے سے قسمت میں لکھا ہوتا ہے اور اسی طرح طلاق بھی ۔ اورحد تو یہ ہے کہ زنا بھی مقدر ہوتا ہے ۔ تقدیر مبرم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ عورت کی شرمگاہ پر ان سب مردوں کے نام لکھے ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ صحبت کرنے والے ہیں ۔ یہی حال شراب پینے اور کسی کو قتل کرنے کا ہے ۔ بلکہ یہی صورت کھانے پینے کی ہے ۔ تم وہ چیز کھاپی سکتےہو جو اللہ نے تمھارے مقدر میں لکھ دی ہے ۔

ایک مرتبہ یہ مسائل پیش کرنے کےبعد میں نے اپنے یہاں کے ایک عالم سے کہا کہ قرآن تو ان خیالات کی تکذیب کرتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ رسول ص ، قرآن کے برعکس کچھ کہے ، نکاح کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

جو عورتیں تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔(2)

-----------------------

(1):-" وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ" (سورہ انسان ۔آیت30)

(2):-"فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء" (سورہ نساء ۔آیت 3)

۱۵۱

اس آیت سے صاف اختیار اور آزادی کا اظہار ہوتا ہے ۔ طلاق کے متعلق قرآن کریم میں سے ہے :

"طلاق  تو دو ہی مرتبہ ہے ،پھر یا تو رکھ لینا ہے قاعدے کے مطابق یاچھوڑ دینا ہے خوش دلی کےساتھ "(1)

یہاں بھی وہی اختیار کی بات ہے ۔

زنا کے متعلق ارشاد ہے :

"زنا کے پاس نہ پھٹکو کہ وہ بے حیائی اوربری راہ ہے "(2)

اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادہ واختیار سے کرتا ہے ۔ شراب کے بارے میں حق تعالی فرماتاہے :

"شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اورجوئے کے ذریعے تمھارے آپس میں دشمنی اور کینہ ڈال دے اور تمھیں ذکر الہی اور نماز سے روک دے ۔ تو کیا تم ان کاموں سے باز آجاؤگے ؟"(3)

اس آیت میں شراب اورجوئے کی ممانعت کی گئی ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے تو شراب پئے اور جواکھیلنے یا پھر یہ کام نہ کرے ۔ قتل عمدکے بارے میں ارشاد ہے۔

"اللہ نے جس انسان کی جان کو محترم قراردیا ہے اس ناحق قتل مت کرو"(4)

--------------------

(1):-" الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ " (سورہ بقرہ۔آیت 229)

(2):-" وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً" (سورہ بنی اسرائیل۔آیت32)

(3):-" إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ " (سورہ مائدہ ۔آیت 91)

(4):-" وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ" (سورہ انعام ۔آیت 151)

۱۵۲

ایک اور آیت میں ہے :

جو کوئی کسی مسلمان کو قصدا قتل کرےگا اس کا ٹھکانا جہنم  ہے جہاں ہو ہمیشہ رہےگا ۔ اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرےگا اور اس کے لیے دردناک عذاب تیار رکھے گا"(1)

اس آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قتل کرے یانہ کے ۔

کھانے پینے کے متعلق بھی اللہ تعالی نے کچھ حدود  مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ارشادہے :

" کھاؤ پیور لیکن اسراف نہ کرو ۔اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا "(2)

یہ آیت بھی آدمی کے اختیار پر ہی دلالت کرتی ہے ۔یہ تمام آیات سنانے کے بعد میں نے ان عالم سے کہا : قبلہ ! ان تمام قرآنی دلائل کے بعد بدی آپ یہی کہتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور بندہ اپنے افعال میں مختار نہیں ، مجبور ہے ؟

ان عالم نے جواب دیا : تنہا اللہ تعالی ہی ہے جو کائنات میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتاہے ، اور دلیل کے طورپر انھوں نے یہ آیت پڑھی :

" اسے دنیا جہاں کے مالک توجسے چاہے دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلیل کرے ۔ ہرطرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔

----------------------

(1):-" وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً " (سورہ نساء ۔آیت 93)

(2):-" وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ " (سورہ اعراف ۔آیت 21)

۱۵۳

بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔(1)

میں نے کہا کہ ہمارا اختلاف اللہ تعالی کی مشیّت کے بارے میں نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جب اللہ تعالی کوئی کام کرنا چاہے تو سب جن وانس اور دیگر تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مشیت کے خلاف نہیں کرسکتے ۔سوال بندوں کے افعال کا ہے کہ آیا وہ ان کے افعال ہیں یا وہ اللہ کی طرف سے ہیں ؟؟

اس پر ان عالم صاحب نے "لکم دينکم ولی دين" (تمھار عقیدہ تمھارے ساتھ اور میرا عقیدہ میرے ساتھ )کہہ کر بحث کا دروازہ بند کردیا ۔ہمارے جو علمائے کرام اپنی رائے پر قانع رہتے ہیں اور اسے بدلنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے عموما ان کی آخری دلیل ہی ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ دو دن کے بعد میں ان عالم صاحب سے پھر ملا اور میں نے کہا:

اگر آپ کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ کرتاہے اور بندوں  کو کچھ اختیار نہیں ، تو آپ خلافت کے بارے میں بھی یہی کیوں نہیں کہتے  کہ اللہ سبحانہ ، جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسند کرتا ہے ، بندوں کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ۔

وہ :- جی ہاں ! میں  یہی تو کہتاہوں ۔ اللہ نے ہی پہلے ابو بکر کو پسند کیا ،پھر ابو بکر کو ، پھر عثمان کو ۔ اگر اللہ تعالی یہ چاہتا کہ علی خلیفہ اول ہوں تو جن وانس مل کر بھی علی ع کو خلیفہ اول ہونے سے نہیں روک سکتے تھے ۔

میں :-یہ کہہ کر تو آپ پھنس گئے ۔

وہ :- میں کیسے پھنس گیا ؟

----------------------

(1):-" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (سورہ آل عمران ۔آیت 28)

۱۵۴

میں :-اب یا تو آپ یہ کہیں کہ اللہ نے چار خلفاء راشدین  کو تو خود پسند کرلیا ، اس کے بعد یہ کام لوگوں پر چھوڑ دیا کہ جس کو چاہیں پسند کرلیں یا پھر یہ کہیں کہ اللہ نے لوگوں کو بالکل اختیار نہیں دیا بلکہ رسول اللہ ص کی وفات سے لے کر تا قیام قیامت سب خلفاء کو وہی پسند کرتا ہے؟وہ :- دوسری شق کا قائل ہوں" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء  "

میں:- اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ  اسلام میں بادشاہوں او رکجکلاہوں  کی وجہ سے کجی واقع ہوئی ہو اللہ کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اللہ نے ہی انھیں حکومت  عطا کرکے مسلمانوں پر مسلط کیا تھا ۔وہ:-جی ہاں ! یہی بات ہے ۔بعض صلحاء نے اس آیت میں "امرنا" کو تشدید کسے ساتھ پڑھا ہے یعین"وإذا أردنا أن نهلك قريةً أمرنا مترفيها" مطلب یہ کہ ہم نے انھیں حاکم بنادیا ۔

میں :-(تعجب سے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے ہی چاہا تھا کہ ابن ملجم  علی ع کو قتل کرے اور یزید کے ہاتھوں حسین  بن علی کا قتل ہو ۔وہ :- (فتحمندانہ لہجے میں)جی ہاں ! بالکل ۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا کہ بعد میں آنے والوں میں س ب سے شقی وہ ہوگا جو تمھارے سر کو دوپارہ کرکے چہرے کو خون سے تربتر کردےگا ۔ اسی طرح  رسول اللہ ص نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی تھی کہ سیدنا حسین ع کو کربلا میں قتل کردیا جائے گا ۔ نیز آپ نے خبر بھی دی تھی کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرائیں  گے اس طرح ہر شے ازل سے لکھی ہوئی ہے ۔ جو کچھ مقدر میں لکھا ہے اس سے انسان کو مفر نہیں ۔ اس طرح آپ ہارگئے ہیں میں نہیں ۔

میں کچھ دیر خاموش رہا ۔میں دیکھ رہاتھا کہ وہ پھولے نہیں سمارہے ہیں ۔کیونکہ بخیال خویش وہ میرے مقابلے میں جیت گئے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان حضرت کو کیسے سمجھاؤں کہ اللہ تعالی کو کسی واقعے کا علم ہونے کے قطعی یہ معنی نہیں کہ اللہ

۱۵۵

نے وہ واقعہ تقدیر میں لکھ دیا ہے یا لوگوں کو اس پر مجبور کردیا ہے ۔ مجھے پہلے سے معلوم تھاکہ یہ نظریہ ان صاحب کے دماغ میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا ۔ اس لیے میں نے ایک اور سوال کیا کہ :کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے اور پرانے سب بادشاہ اور وہ سب لوگ جو اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رہے ہیں ، اللہ کے مقررکیے ہوئے ہیں ؟

وہ :- اس میں کیا شک ہے ۔

میں :- کیا وہ فرانسیسی نو آباد یاتی حکومت جس نے تیونس ، الجزائر اور مراکش پر قبضہ کررکھا تھا ، وہ بھی اللہ کی طرف سے تھی ؟

وہ :- جی ہاں ! اور جب مقررہ وقت آیا تو فرانس ان ملکوں سے نکل گیا ۔

میں:- بہت خوب ! پھر آپ پہلے کیسے اہل سنت کے اس نظریہ کا دفاع کررہے تھے کہ رسول اللہ  ص نے وفات پائی مگر خلافت کا معاملہ شوری پر چھوڑدیا کہ مسلمان جسے چاہیں خلیفہ بنالیں؟

وہ :- جی ہاں ! میں اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انشااللہ قائم رہوں گا ۔

میں :- پھر آپ ان دونوں باتوں میں کیسے تطبیق دیتے ہیں : ایک اللہ کا اختیار اور دوسرے شوری کے ذریعے مسلمانوں کا اختیار؟

وہ جب مسلمانوں نے ابوبکر کو پسند کرلیا تو اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ نے بھی انھیں پسند کرلیا ۔

میں:- کیا سقیفہ میں خلیفہ کو منتخب کرنے کے بارےمیں کوئی وح نازل ہوئی تھی ؟

وہ :-استغفراللہ ! محمد ص کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ۔ یہ شیعوں کا عقیدہ ہے ۔

میں :- شیعوں  کو اور ان کے باطل عقائد کو چھوڑیے ۔ آپ نے اپنے عقیدے کے مطابق ہمیں قائل کیجئے ۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ابو بکر کو پسندکرلیا تھا؟

وہ :- اگر اللہ کا ارادہ کچھ اور ہوتا تو مسلمان اور سارا جہان مل کر بھی اللہ

۱۵۶

کے ارادے کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اس وقت میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ نہ سوچتے ہیں ، نہ قرآنی آیات پر غور کرتے ہیں ۔ ان کی رائے کبھی بھی کسی علمی نظریے کے مطابق نہیں ہوسکتی ۔

اس پر مجھے ایک اور قصہ یاد آگیا :

ایک دن میں اپنے دوست کےساتھ کجھور  کے باغ میں ٹہل رہا تھا اور ہم قضا وقدر کےبارےمیں  باتیں  کررہے تھے۔اتنے میں میرے سرپر ایک پکی ہوئی کجھور گری ۔میں نے اسے کھانے کے لیے گھاس پر سے  اٹھا کر منہ میں رکھ لیا ۔ میرے دو ست نے کہا : تم وہی چیز کھاسکتے ہو جو تمھارے نصیب میں ہو کیونکہ دانے دانے پرکھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔

میں نے کہا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لکھی ہوئی ہے تو پھر میں اسے نہیں کھاؤں گا  یہ کہہ کر میں نے اسے پھینک دیا ۔

میرے دوست نے کہا: سبحان اللہ اگر کوئی چیز تمھارے نام پر لکھی ہوئی نہ ہو  تو اللہ اسے تمھارے پیٹ میں سے بھی نکال لے گا ۔

میں نے کہا : اگر بات یہ ہے تو میں اسے کھالیتاہوں ۔یہ کہہ کر میں نے اسے دوبارہ اٹھالیا ۔ میں یہ ثابت کرناچاہتا تھا کہ اس کا کھانا یا نہ کھانا میرے اختیار میں ہے ۔ میرا دوست مجھے دیکھتا رہا ، یہاں تک کہ میں اس کجھور کو چباکر نگل  گیا ۔ اس وقت میرے دوست نے کہا : دیکھا یہ تمھارے نام پر ہی لکھی ہوئی تھی  اس طرح وہ اپنے خیال میں مجھ سے جیت گیا ۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اب میں اس کجھو ر کو پیٹ میں سے نکال لیتا ۔

جی ہاں ! اہل سنت کا قضاوقدر کے بارے میں یہی عقیدہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جب میں سنی تھا تو میرایہی عقیدہ تھا ۔

قدرتی بات ہے کہ میں اس عقیدے  کی وجہ سے جو فکری تضاد پر مبنی تھا پریشان رہتا تھا اور یہ بھی قدرتی بات ہے کہ اس عقیدے کی وجہ سے ہم لوگ جمود کا شکار ہیں ۔ ہم اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ اللہ ہماری حالت بدل دے

۱۵۷

ہم اپنی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو اللہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر آپ کسی چور ، ڈاکو سے یا شرابی ،زانی اور جواری سے یا اس مجرم سے بات کریں جس نےکی نابالغ لڑکی  کو اغوا کرکے اس سے اپنی شہوت کی آگ بجھانے کے بعد اسے قتل کردیا ہو،تو وہ یہی کہے گا کہ " وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے" میں کیا کرسکتا تھا ، میری تقدیر میں یہی لکھا تھا " ۔ یہ عجب خدا ہے جو پہلے تو انسان کو حکم دیتاہے کہ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ۔ پھر پوچھتا ہے کہے" بأيّ ذنبٍ قتلت" یہ بھی   جان لیجیے کہ ان باتوں کی وجہ سے مغربی مفکرین اور دانشور ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے   ہیں اور ہماری کم سمجھی پر ہنستے ہیں ۔ اہل یورپ اسی عقیدہ تقدیر کو عربوں کی جہالت اور ان کی پس ماندگی کا خاص سبب بتلاتے ہیں ۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کہ محققین نے دریافت کیا ہے کہ اس عقیدہ کو اموی حکمرانوں نے رواج دیا ۔ وہ کہتے تھے چونکہ  اللہ تعالی نے انھیں حکومت  عطا کی ہے ، اس لیے ان کی اطاعت فرض ہے ،جس نے ان کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی او رجو ان کی مخالفت کرتاہے وہ باغی ہے اور بغاوت کی سزاموت ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں ۔

عثمان بن عفان ہی کی مثال لیں ۔ جب لوگوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں ، تو انھوں نے کہا کہ میں وہ قمیص نہیں اتاروں گا جو اللہ نے مجھے پہنائی ہے ۔(1) گویا  ان کی رائے  کے مطابق خلافت وہ لباس تھا جو  اللہ نے انھیں پہنایا تھا کسی کو حق نہیں تھا کہ وہ یہ لباس ان سے چھین لے ، بجز اللہ تعالی کے کہ وہی یہ لباس اتار سکتا ہے یعنی ان کی موت  کی صورت میں ۔ اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے ایک "خطبے میں کہا تھا کہ " میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی تھی کہ تم نماز  پڑھو ،روزے رکھو  یا حج کرو اور زکات دو ۔ میں نے تو اس لیے جنگ کی تھی  کہ تم پر حکومت

-----------------------

(1):- تاریخ طبری اور تاریخ ابر اثیر "عثمان کا محاصرہ"

۱۵۸

کروں ۔اللہ نے میری یہ خواہش پوری کردی حالانکہ تمھیں یہ بات ناگوار ہے "۔

یہ عثمان سے بھی ایک قدم آگے ہیں ۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی پر الزام ہے  کہ اس نے مسلمانوں کے قتل میں مدد دی ۔ معاویہ کا یہ خطبہ مشہور ہے ۔(1)

لوگوں کی مرضی کے خلاف یزید کو زبردستی ولی عہد مقرر کرتے وقت بھی معاویہ نے یہی دعوی کیا تھا کہ اللہ نے یزید کو میرا جانشین بنادیا ہے ۔ مورخین نے معاویہ کا وہ مکتوب نقل کیا ہے جو اس نے اس موقع پر چہار طرف بھیجاتھا ۔ والی مدینہ مروان بن حکم کو لکھا تھا کہ

"اللہ نے میری زبان سے بیعت یزید کا فیصلہ صادر کرادیا ہے "(2)

جب امام زین العابدین  ع کو زنجیروں میں باندھ کر فاسق وفاجر ابن زیاد کے سامنے  لے جایا گیا تو ان نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا  کہ یہ علی بن الحسین ع ہیں ۔ اس نے کہا : کیا اللہ نے حسین بن علی کو ہلاک نہیں کردیا ؟ امام زین العابدین ع کی پھوپھی جناب زینب نے جواب دیا : نہیں ! انھیں نے اللہ اور اس کے رسول  ص کے دشمنوں نے قتل کردیا ہے ۔ ابن زیاد نے کہا: دیکھا! اللہ نے تمھارے گھروالوں کے ساتھ کیا کیا ؟ اس پر جناب زینب  نےکہا : میں نے تو جو کچھ دیکھا  اچھا ہی دیکھا ہے ۔ اللہ نے ان کے لیے قتل ہونا لکھاتھا سو وہ اپنی قبروں  میں جا سوئے عنقریب اللہ تجھے اور انھیں ایک جگہ جمع کرےگا وہاں دیکھ لینا کیا ہوتا ہے تیری ماں تجھ پر روئے اے اب مرجانہ !(3)

اس طرح یہ عقیدہ  بنی امیہ اور ان کے حامیوں سے چل کر امت اسلامیہ میں پھیل گیا ۔

---------------------

(1):- ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبیین صفحہ 70 ۔حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 131 ۔شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 16

(2):- ابن قتیبہ ،الامامہ والسیاسہ جلد1 صفحہ 151

(3):- ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین مقتل حسین۔

۱۵۹

قضا وقد رکے بارے میں شیعہ عقیدہ

جیسے ہی شیعہ(1) علماء سے میری واقفیت ہوئی اور میں نے ان کی کتابیں پڑھیں ،قضاوقدر کے بارے میں بالکل  نیا علم مجھ پر منکشف ہوگیا ۔ ایک مرتبہ کسی نے امام علی علیہ السلام سے قضاوقدر کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے غیر مبہم ،صاف اور جامع الفاظ میں اس کی وضاحت  کرتے ہوئے فرمایا :

"افسوس ! شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ قضاوقدر نے لازمی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر جزا وسزا  کاسوال ہی نہ ہوتا اور نہ وعدہ وعید کا کچھ مطلب ہوتا ۔اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کاحکم دیا ہے ، ان کا اختیار بھی دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان کا نقصان بھی بتلادیا ہے اللہ نے انسان کو تھوڑے سے کام کا مکلف ٹھہرایا ہے اور کوئی مشکل کام نہیں بتلایا ۔پھر یہ کہ تھوڑے کام پر بہت زیادہ اجر کا وعدہ کیا ہے ۔ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور ہے اور نہ کسی پر اس کی اطاعت  کے لیے زبردستی ہے ۔ اس نے انبیاء کو کھیل کے طور نہیں بھیجا اور کتابوں کو فضول نہیں اتارا ۔ اس نے آسمانوں کو زمین کو انو جو کچھ ان کے درمیان ہے بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ یہ تو کافروں کا گمان ہے ۔ ان کا فروں  کی تو دوزخ میں شامت آجائےگی "۔(2)

یہ بیان کتنا واضح اور کتنا غیر مبہم ہے ۔میں نے اس موضوع پر اس سے جامع اور قاطع بیان اور حقیقت کے اظہار میں اس سے بہتر دلیل نہیں دیکھی ۔اللہ

-------------------------

(1):- جیسے آیت اللہ محمد باقر صدر جن سے میں  خوب استفادہ کیا ۔آیت اللہ سید ابو بوالقاسم خوئی ،علامہ علی طباطبائی اورسید حکیم وغیرہ ۔

(2):- شیخ محمد عبدہ ،شرح نہج البلاغہ جلد 4 صفحہ 673

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328