حکم اذاں

حکم اذاں23%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63623 / ڈاؤنلوڈ: 7500
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

شرکت  کی تھی اور مہاجرین میں سے جو دراصل مکے کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ ص کے ساتھ ہجرت کرکے آئے تھے صرف تین یا چار اشخاص ہی شریک تھے جو قریش کی نمائندگی کررہے  تھے ۔اس کے ثبوت کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم یہ اندازہ لگائیں کہ سقیفہ  کتنا بڑا ہوگا ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ سقیفہ کیا ہوتا ہے ۔یہ مکان کے بیرونی دروازے  سے ملحق ایک کمرہ ہوتا ہے جس میں لوگ بیٹھک جماتے ہیں ۔ یہ مکان کے بیرونی دروازے  سے ملحق ایک کمرہ ہوتاہے جس میں لوگ بیٹھک جماتے ہیں ۔ یہ کوئی آڈیٹوریم یا  کانفرنس ہال نہیں تھا ۔اس لیے جب ہم یہ کہتے  ہیں کہ" سقیفہ  بنی ساعدہ " میں سوآدمی موجود ہوں گے تو درحقیقت ہم مبالغے  سے کام لیتے ہیں ۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ تحقیق کرنے والے  کو یہ معلوم جائے  کہ وہاں وہ ایک لاکھ آدمی نہیں تھے جو "غدیر خم"کے موقع پرموجود تھے ،بلکہ انھیں تو یہ معلوم بھی کافی عرصہ کے بعد ہوا ہوگا کہ سقیفہ  میں کیا کاروائی ہوئی ۔ کیونکہ ان دنوں نہ فضائی رابطہ تھا نہ ٹیلفون تھے اور نہ ہی مصنوعی سیارے تھے ۔ جب وہاں موجود زعماء کا ابوبکر کے تقرر پر انصار کے سردار سعدبن عبادہ اور ان کے بیٹے قیس کی مخالفت کے باوجود ، اتفاق ہوگیا اور غالب اکثریت سے معاملہ طے پاگیا اس وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد سقیفہ میں موجود نہیں تھی ۔ کچھ لوگ رسول اللہ ص کی تجہیز وتکفین میں مصروف تھے ،کچھ رسول اللہ ص کی وفات کی خبر سے حواس باختہ تھے ۔ عمر نے انھیں یہ کہہ کر اور بھی خوف زدہ کردیا تھا کہ خبر دار کوئی یہ بات زبان سے نہ نکالے  کہ رسول اللہ ص وفات پاگئے  ہیں ۔(1) اس کے علاوہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد کو رسول اللہ ص نے سپاہ اسامہ میں بھرتی کرلیا تھا اوریہ لوگ زیادہ تر جرف میں مقیم تھے ۔ لہذا یہ لوگ رسول اللہ ص  کی وفات کے وقت نہ تو مدینے میں موجود تھے اور نہ ہی سقیفہ کی کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ اس کے بعد بھی کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی قبیلے کے افراد اپنے سردار کی مخالفت کرتے اور اس سے جو فیصلہ کردیا تھا اسے نہ مانتے ۔خصوصا جب کہ یہ فیصلہ  ان کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا جس کو حاصل کرنے کی ہر قبیلہ کوشش کرتا تھا ۔

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 195

۱۰۱

کون جانتا ہے کہ کسی دن ان کے ہی قبیلہ یا خاندان کو تمام خلافت حاصل ہوجائے جب کہ اس کا شرعی حق دار تو راستے سے ہٹاہی دیاگیا تھا اور معاملہ شوری پر منحصر ہوگیا تھا ۔اس صورت میں باری باری سب  کے لیے  موقع تھا ۔ ایسی حالت میں وہ اس فیصلے سے کیوں نہ خوش ہوتے اور کیسے نہ اس کی تائید کرتے ؟

دوسری بات یہ ہے کہ  جب مدینے کے رہنے والے اہل حل وعقد نے ایک بات طے کردی تھی  تو جزیرہ نمائے عرب کے دور افتادہ باشندوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اس کی مزاحمت کریں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی عدم موجودگی میں کیا ہورہاہے جب کہ اس دور میں وسائل رسل ورسائل  بالکل ابتدائی  حالت میں تھے ۔

اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ اہل مدینہ رسول اللہ کےپڑوسی ہیں وہ احکام ربانی اور وحی سے جو کسی وقت کسی دن بھی نازل ہوسکتی تھی  زیادہ واقف ہیں ۔ پھر یہ کہ صدر مقام سے دور رہنے والے قبیلے کے سردار کو خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اسے  اس سے کیا کہ ابو بکر خلیفہ ہوں یا علی ع یا کوئی اور ۔گھر کا حال گھر والے جانیں ۔اس کے لیے تو اہم بات صرف یہ تھی کہ اس کی  سرداری برقراررہے ۔ اسے کوئی چھیننے کی کوشش نہ کرے ۔کون جانتا ہے ۔شاید کسی نے معاملے کے متعلق کچھ پوچھ گچھ کی بھی ہو ۔ اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کی ہوں ۔ لیکن حکومت کے کارندوں نے خواہ ڈرا دھمکا کر یالالچ دے کر اسے خاموش کردیا ہو ۔ شاید مالک بن نویرہ کے قصے کے متعلق ۔جس نے ابو بکر کو زکات دینے سے انکار کردیا تھا ۔ شیعوں ہی کی بات صحیح ہو ۔ حقیقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے ۔لیکن جو شخص مانعین زکاۃ  کے ساتھ جنگ کے دوران میں پیش آنے والے واقعات کا بغور مطالعہ کرےگا اس ےبہت سے ایسے تضادات ملیں گے جن کے متعلق بعض مورخین کی پیش کی ہوئی صفائی سے اطمینان نہیں ہوگا ۔

تیسری بات یہ ہےاس واقعہ کے اچانک پیش آجانے کا بھی اس کو بطور امر  واقعی FAIT ACCOMPLI تسلیم کرلیے جانے میں بڑا دخل رہا ہے سقیفہ کانفرنس اس وقت اچانک منعقد ہوئی تھی جب بہت سے صحابہ رسول اللہ ص کی تجہیز

۱۰۲

وتکفین میں مشغول تھے ان میں امام علی ع عباس ،دوسرے بنی ہاشم ،مقداد ،سلمان ابوذر ، عمار اور دوسرے بہت سے اصحاب شامل تھے ۔ جب تک سقیفہ کے شرکاء ابو بکر کو مسجد میں لے کرگئے  اور انھوں نے عام بیعت کی دعوت دی جس پر لوگ بادل خواستہ ناخواستہ بیعت کے لیے امنڈ پڑے ، اس وقت تک علی ع اور ان کے پیروکار اپنے شرعی اور اخلاقی فریضہ سے فارغ نہیں ہوئے تھے اور ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ  رسول اللہ ص کو بغیر غسل اور بغیر کفن دفن کے چھوڑ کر سقیفہ میں خلافت کے واسطے دوڑ پڑتے اور جب تک وہ اس فریضہ سے فارغ ہوئے ۔ اس وقت تک معاملہ ابو بکر کے حق میں فیصلہ بھی ہوچکا تھا ۔ اب جو کوئی ابوبکر کی بیعت سے پیچھے ہٹتا  اس کا شمار مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے ان فتنہ پردازوں میں ہوتا جن سے نمٹنا اور ضروری ہوتو انھیں قتل کردینا مسلمانوں پر واجب ہوگیا تھا ۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سعد بن عبادہ نے حضرت ابو بکر کی بیعت میں تامل کیا تو  عمربن خطاب نے انھیں قتل کی دھمکی دی تھی ۔(1)

اس کےبعد بیعت سے انکار کرنے والے ان صحابہ کو جو علی ع کے گھر میں جمع تھے ، زندہ جلادینے   کی اور علی ع کے گھر کو آگ  لگانے دینے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ اگر ہمیں بیعت سے متعلق عمر کی صحیح رائے معلوم ہوجائے تو بہت سے حیران کن معمّوں کا  حل نکل آئے ۔ معلوم ہوتاہے کہ عمر کا خیال یہ تھا کہ بیعت کے درست ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی ایک مسلمان بیعت میں سبقت کرلے۔ پھر باقی پر اس کی پیروی واجب ہوجاتی ہے ۔ اس پر بھی اگر کوئی مخالفت کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج  اور واجب القتل ہے ۔ آئیے دیکھیں خود عمر بیعت کےبارے میں کیا کہتے ہیں !صحیح بخاری  کی روایت  ہے ۔(2) عمر کہتے ہیں :

اس پر بڑی گڑبڑ ہوئی اورخوب شور مچا ۔ میں ڈرا کہ کہیں آپس میں

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 8صفحہ 26 ۔طبری ،تاریخ الامم والملوک ۔ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 29 ۔"باب رجم الحبلی عن الزنا اذا احصنت "

۱۰۳

تفرقہ پڑجائے ۔میں نے ابو بکر سے کہا:ہاتھ بڑھاؤ ۔انھوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کرلی ۔ مہاجرین(1) اور انصار نے بھی بیعت کرلی ۔ ہم سعد بن عبادہ پر کود پڑے ۔انصار میں سے کسی نے کہا : تم نے سعد بن عبادہ کو مارڈالا ! میں نے کہا سعد بن عبادہ پر اللہ کی مار !

عمر کہتے ہیں کہ " جو مسئلہ ہمارے سامنے تھا ، اس کا اس سے مضبوط کوئی حل نہیں تھا کہ ابو بکر کی بیعت کر لی جائے ۔ہمیں ڈرتھا کہ اگر وہاں موجود لوگوں کوچھوڑ کرچلے گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں وہ ہمارے جانے کے بعد اپنے ہی لوگوں سے بیعت نہ کرلیں ۔ پھر یا تو ہمیں اپنی مرضی کے خلاف بیعت کرنی پڑیگی  اور اگر ہم نے مخالفت کی تو فساد برپا ہوگا ۔ اگر کوئی کسی سے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بیعت کرے تو ان دونوں میں سے کسی کا ساتھ نہیں دیاجائیگا ۔

معلوم ہوا کہ عمر کے نزدیک سوال انتخاب ، اختیار اور شوری کا نہیں تھا ۔ صرف انتا کافی تھا کہ کوئی مسلمان بڑھ کر کسی سے بیعت کرلے تاکہ باقی لوگوں پر حجت  قائم ہوجائے ۔ اسی لیے عمر نے ابو بکر سے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ ۔ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا تو عمر نے بلاجھجک اور بلا کسی سے مشورہ کیے فورا اس خوف سے بیعت کرلی  کہ کہیں کوئی دوسرا ان سے بازی نہ لے جائے ۔ اس بات کو عمر نے اس طرح بیان کیا :

ہم ڈرتے تھے کہ اگر ہم ان لوگوں کے پاس چلے گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے جانے کے بعد اپنے ہی لوگوں میں سےکسی سے بیعت کرلیں ۔(عمر کوڈرتھا کہ کہیں انصار پہل کرکے

--------------------

(1):- سب مورخین کہتے ہیں کہ سقیفہ میں صرف چار مہاجر موجود تھے ۔ یہ کہنا کہ "میں نے بیعت کی اور مہاجرین نے بیعت کرلی " یہ اس قول سے متصادم ہے جو اسی خطبے میں آگے ہے کہ علی ع ،زبیر اور ان دونوں کے ساتھیوں نے مخالفت کی ۔ صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26

۱۰۴

اپنے میں کسی کی بیعت نہ کرلیں)۔

مزید وضاحت اگلے فقرے سے ہوجاتی ہے :

پھر یا تو ہمیں اپنی مرضی کے خلاف ان سے بیعت کرنی ہوگی یا اگر ہم نے مخالفت کی  تو فساد برپا ہوجائے گا ۔(1)

احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہاں یہ اعتراف کرلیں کہ عمر بن خطاب نے بیعت کے بارے میں اپنی رائے اپنی زندگی  کے آخری ایام میں بدل  لی تھی ۔ ہوا یوں  کہ انھوں نے جو آخری  حج کیا تھا اس کے دوران  ایک شخص نے عبدالرحمان  بن عوف کی موجودگی میں ان سے آکر کہا تھا : آپ کو معلوم ہے کہ فلاں شخص  کہتا ہے کہ اگر عمر مرجائیں تو میں فلاں سے بیعت کرلوں گا ۔ ابو بکر کی بیعت تو اچانک ہوگئی تھی جو اتفاق سے کامیاب ہوگئی ۔ یہ سن کر عمر بہت ناراض ہوئے  اور مدینے واپسی  کےفورا بعد ایک خطبہ دیا جس میں اور باتوں کے علاوہ کہا :

میں نے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی کہہ رہاتھا کہ اگر عمر مرگئے تو میں فلاں شخص کی بیعت کرلوںگا  ۔ کسی شخص کو اس  دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے کہ ابوبکر کی بیعت  اچانک ہوئی تھی لیکن کامیاب رہی ۔ یہ بات صحیح ہے اللہ نے اس کے برے نتائج سے محفوظ رکھا ۔(2)

پھر کہا کہ

"جو شخص مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی سےبیعت کرے گا تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت صحیح ہوگی اور نہ بیعت لینے والے کی بیعت ،بلکہ وہ دونوں قتل کردیے جائیں(3) ۔

کاش ! سقیفہ کے موقع پر بھی عمر کی یہی رائے ہوتی !

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 28

(2):- صحیح بخاری جلد8صفحہ 26

(3):- طبری ،تاریخ الامم والملوک ،استخلاف عمر۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ۔

۱۰۵

اب یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ عمر نے زندگی کے آخری ایام میں اپنی رائے تبدیل کیوں کرلی ۔کیونکہ انھیں دوسروں سے بہتر طورپر معلوم تھا کہ وہ اپنی رائے کی وجہ سے ابوبکر کی بیعت  کی بنیادیں ڈھارہے ہیں  ، اس لیے کہ انھوں نے بھی ابو بکر  کی بیعت  مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر اچانک کی تھی ۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے اس بیان سے

خود ان کی اپنی بیعت کی بنیادیں ہل گئی اس لیے ابوبکر نے اپنی وفات  کے قریب مسلمانوں  سے مشورہ کیے بغیر ان کے لیے بیعت لی تھی ،یہاں تک کہ بعض صحابہ انے ابو بکر  کی چٹھی سنانے کے لیے عمر باہر نکلے تو کسی نے ان سے پوچھا : ابو حفص ! اس چٹھی میں کیا ہے ؟ عمر نے جواب دیا  مجھے معلوم نہیں ۔ لیکن پہلا میں شخص  ہوں گا جو ابوبکر کے حکم کو سن کر اسے قبول کرےگا ۔ اس شخص نے  اس پر کہا : مگر مجھے معلوم ہے کہ اس میں  کیا ہے ؟ اگلی بار آپ نے انھیں حکمراں بنایا تھا ، اس بار وہ آپ کو حکمران بنارہے ہیں(1) ۔یہ ویسی ہی بات ہے جیسی امام علی ع نے اس وقت کہی تھی جب وہ لوگوں کو ابوبکر کی بیعت کی دعوت دے رہے تھے ، علی ع نے کہاتھا :دودھ دوہ لو ، تمھیں تمھارا حصہ مل جائے گا ۔ آج تم ان کی خلافت پکی کرو  ، کل وہ خلافت تمھیں لوٹا دیں گے(2) ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہمیں  یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بیعت کےبارے میں عمر نے اپنی رائے کیوں بدلی ؟ میرا خیال یہ ہے کہ انھوں نے سناتھا کہ بعض صحابہ ان کے مرنے کے بعد علی ابن ابی طالب ع سے بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر یہ بات انھیں قطعا پسند نہیں تھی ۔ عمر کو یہ گوارا نہیں تھا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر عمر مرگئے تو میں فلاں  شخص سے بیعت کرلوںگا ۔خصوصا ایسی حالت میں جب کہ وہ خود عمر کے اپنے فعل سے استدلال کررہا ہے ۔ اس کہنے والے کا نام تو معلوم نہیں مگر اس میں شک نہیں کہ

--------------------

(1):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد 1صفحہ 18

(2):- صحیح مسلم جلد 5 صفحہ 75 ۔صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 9

۱۰۶

یہ کبار صحابہ میں سے کوئی صاحب ہوں گے ۔ یہ صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی تھی مگر مکمل ہوگئی یعنی اگرچہ یہ بیعت مشورے کےبغیر اور دفعتا ہوگئی تھی مگر یہ مکمل ہو کر ایک حقیقت بن گئی ۔ اگر عمر اس طرح ابوبکر سے بیعت کرسکتے تھے تو وہ خود کیوں فلاں  سے اس طرح بیعت نہیں کرسکتے "۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عبّاس ، عبدالرحمن بن عوف اور عمر بن خطاب  اس شخص کا نام نہیں لیتے جس نےیہ بات کہی تھی اور نہ اس شخص کا نام لیتے ہیں ۔جن کی یہ بیعت کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں اشخاص مسلمانوں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے ، اس لیے عمر یہ بات سن کر بگڑے اور پہلے ہی جمعہ کو جو خطبہ دیا اس  میں خلافت کاذکر چھیڑ کر اپنی نئی رائے کا اظہار کیا ، تاکہ جو صاحب  پھر ایک بار اچانک بیعت کا ارادہ کررہے تھے ان کا راستہ روکا جاسکے  ۔کیونکہ اس بیعت کی صورت میں خلافت فریق مخالف کے ہاتھ میں جانے کا امکان تھا ۔ اس کے علاوہ اس بحث کے بین السطور سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص کی انفرادی رائے نہیں تھی ، یہ رائے بہت سے صحابہ کی تھی ، اس لیے بخاری کہتے ہیں  " اس پر عمر نے بگڑ کر کہا : میں انشااللہ شام کو  تقریر کرکے لوگوں کو ان سے خبر دار کردوں گا جو ان کے معاملات  پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتے ہیں(1) ۔

اس سے معلوم ہوا کہ عمر کی رائے میں تبدیلی کی اصل وجہ  ان لوگوں  کی مخالفت تھی جو بقول ان کے لوگوں کے معاملات  پر ناجائز قبضہ کرنااور علی ع کی بیعت کرنا چاہتے تھے اور یہ بات عمر کے لیے ناقابل قبول تھی ۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ خلافت  لوگوں کے طے کرنے کا مسئلہ ہے ۔یہ علی بن ابی طالب ع کا حق نہیں ۔لیکن اگر عمر کا یہ خیال صحیح تھا تو رسول اللہ ص کی وفات کے بعد انھوں نے خود لوگوں کا حق غصب کیوں کیا تھا اور مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر ابوبکر سے بیعت کرنے میں جلدی کیوں کی تھی ؟

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 25

۱۰۷

ابو حفص عمر کا رویہ ابو الحسن علی ع کے بارے میں سب کو معلوم ہے ۔عمر کی کوشش یہ تھی کہ جہاں تک ممکن ہو علی ع کو حکومت سے دور رکھا جائے ۔یہ نتیجہ ہم نے صرف مذکورہ بالا خطبے ہی سے اخذ نہیں کیا ہے بلکہ تاریخ کا متتبع کرنے والا ہر آدمی جانتا ہے کہ ابو بکر کے دور خلافت میں بھی عملا عمربن خطاب ہی حکمراں تھے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر نے اسامہ سے اجازت مانگی تھی کہ عمر کو ان کے پاس چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ امور خلافت میں ان سے مدد لیتے رہیں(1) ۔

ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ابو بکر ، عمر اور عثمان کے پورے دورمیں علی بن ابی طالب کو ذمہ داری کے عہدوں سے دوررکھا گیا ۔ نہ ان کو کوئی منصب دیاگیا ۔نہ کسی صوبے کا گورنر بنایا گیا ، نہ کسی لشکر کا سالار مقررکیا گیا اورنہ خزانہ ان کی تحویل  میں دیا گیا ۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ علی بن ابی طالب ع کون تھے ۔

تاریخ کی کتابوں میں اس سے زیادہ عجیب بات یہ لکھی ہے کہ عمر کو مرنے کے قریب اس بات کا افسوس تھا کہ ابو عبیدہ بن جرّاح یا حذیفہ بن یمان کے آزاد کردہ غلام یاسر ، ان دونوں میں سے کوئی اس وقت زندہ نہیں ورنہ وہ ان ہی میں سے کسی کو اپنے بعد خلافت نامزد کردیتے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ بعد میں انھیں خیال آیا کہ اس طرح کی  بیعت کے بارے میں تو وہ اپنی راۓ پہلے ہی بدل چکے ، اس لیے ضروری ہوا کہ بیعت کا کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا جائے جس کو درمیانی حل قرار دیا جاسکے ،جس میں نہ تو کوئی فر دواحد اس کی بیعت کرلے جس کو وہ اپنی ذاتی رائے میں مناسب سمجھتا ہو اور پھر دوسروں کو آمادہ کرے کہ وہ بھی اس کی پیروی کریں جیسا کہ خود عمر نے ابو بکر کی بیعت کے وقت کیا تھا ۔ یا جس طرح ابوبکر نے اپنے بعد خلافت کے لیے عمر کو نامزد کردیا تھا۔ یا جیسا کہ ان صاحب  کا ارادہ تھا جو حضرت عمر کی موت کا انتظار  کررہے تھے ۔تاکہ اپنے پسندیدہ شخص کی بیعت کرسکیں  ، لیکن عمر پیش  بندی کرکے ان کے

--------------------

(1):-ابن سعد نے طبقات  میں اس کی تصریح  کی ہے ۔ دوسرے مورخین نے بھی جنھوں نے سریہ اسامہ بن زید  کا ذکر کیا ہے ، ان بات کو بیان کیا ہے ۔

۱۰۸

منصوبے کو ناکام بنادیا تھا ۔ نہ ہی عمر کے لیے  یہ ممکن تھا کہ وہ خلافت  کے معاملے کا تصفیہ مسلمانوں کے شوری پر چھوڑ دیتے کیونکہ وہ اپنی  آنکھوں سے چکے تھے کہ رسول اللہ ص کی وفات کے بعد سقیفہ میں کیسے کیسے اختلاف پیدا ہوگئے تھے اور کس طرح کشت وخون کی نوبت آتے آتے وہ گئی تھی ۔

چنانچہ حضرت عمر نے بالآخر اصحاب شوری کا اصول وضع کیا اور اس اصول کے تحت  ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے خلیفہ کے انتخاب کا مکمل اختیار تھا اور اس کمیٹی کے ارکان  کے علاوہ مسلمانوں میں سے کسی کو اس معاملے میں دخل دینے کا حق نہیں تھا ۔ حضرت عمر کو معلوم تھا کہ ان چھ ارکان میں بھی اختلاف  پیدا ہونا ناگریز ہے اس لیے انھوں  ہدایت جاری کی کہ اختلاف کی صورت میں اس فریق کا ساتھ دیا جائے جس میں عبدالرحمان بن عوف ہوں ، خواہ  یہ ارکان  تین تین کے دو مساوی  گروہوں میں تقسیم ہوجائیں اور اس گروہ کو قتل ہی کردینا پڑے  جو عبدالرحمان بن عوف کے خلاف ہو۔لیکن عمر کو یہ بھی معلوم تھا  کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ کیونکہ سعد بن ابی وقاص عبدالرحمان  بن عوف کے چچازاد بھائی تھے اور ان دونوں کا تعلق قبیلہ بنی زہرہ تھا ۔ ۔۔۔۔عمر کو یہ بھی معلوم تھا کہ سعد بن ابی وقاص علی ع سے خوش نہیں ،ان کی دل ہیں علی ع کی طرفسے بعض ہے کیونکہ علی ع نے ان کی ننھیال عبد شمس  کے بعض افراد کو غزوات میں قتل کیا تھا ۔

عمر کو یہ بھی معلوم تھا کہ عبدالرحمان بن عوف عثمان کے بہنوئی کیونکہ ان کی بیوی  ام کلثوم عثمان کی بہن ہیں ۔

۔۔۔۔یہ بھی جانتے تھے کہ طلحہ کا بھی جھکاؤ عثمان کی طرف ہے بعض راویوں نے ان دونوں کے درمیان  تعلقات کا  ذکر کیا ہے ۔ عثمان کی طرف طلحہ  کے جھکاؤ کا ایک سبب یہ تھا کہ طلحہ علی ع کوپسند نہیں کرتے تھے ۔وجہ یہ تھی کہ طلحہ تیمی تھے اور حضرت ابو بکر کے منصب خلافت پر خلافت فائزہوجانے کے بعد سے بنی ہاشم اور بنی تیم کے تعلقات ناخوشگوار ہوگئے تھے(1) ۔

--------------------

(1):- شیخ محمد عبدہ ، شرح نہج البلاغہ جلد 1صفحہ 88

۱۰۹

حضرت عمر کو یہ سب معلوم تھا اور انھی باتوں کے پیش نظر انھوں نے خاص طور پر ان چھ افراد کا انتخاب کیا تھا ، جو سب کے سب مہاجر اور قریشی تھے ، کوئی بھی انصار میں سے نہیں تھا ۔ ان میں سے ہر ایک کسی ایسے قبیلے  کی نمائندگی  کرتا تھا جس کی اپنی  اہمیت تھی اور اپنا اثر ورسوخ تھا ۔

1:- علی بن ابی طالب ۔ بنی ہاشم کے بزرگ ۔2:- عثمان بن عفان ۔ بنی امیہ کے بزرگ ۔

3:- عبدالرحمن بن عوف ۔ بنی زہرہ کے بزرگ ۔4:- طلحہ بن عبیداللہ ۔بنی تیم کے بزرگ ۔

5:-سعد بن ابی وقاص ان کا تعلق بھی بنی زہرہ سے تھا ۔ ننھیال بنی امیہ تھی ۔

6:- زبیر بن العوام ۔رسول اللہ ص کی پھوپھی  صفیہ کے صاحبزادے  اور اسماء  بنت ابی بکر کے شوہر ۔

یہ تھے وہ زعماء اور ارباب حل وعقد جن کا فیصلہ سب مسلمانوں کے لیے واجب العمل تھا ۔ خواہ وہ مسلمان مدینے کے باشندے ہوں یا دنیائے اسلام  میں کسی اور جگہ کے ۔مسلمانوں  کا کام چون وچرا کے بغیر حکم کی تعمیل تھا ۔ اگر کوئی تعمیل حکم نہ کرتا تو پھر اس کا خون معاف تھا ۔ یہ تھے وہ حالات جو ہم قاری  کےذہن نشین کرانا چاہتے تھے ، بالخصوص اس مقصد سے کہ یہ معلوم ہوجائے  کہ نص غدیر کے سلسلے میں خاموشی کیوں اختیار کی گئی تھی ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر کو ان چھ افراد کے خیالات اور ان کے طبعی رجحانات کا علم تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی طرف سے عثمان بن عفان کوخلافت  کےلیے نامزد کردیا تھا ، یا یوں کہاجاسکتا کہے کہ انھیں پہلے سے  علم تھا کہ یہ چھ رکنی کمیٹی علی بن ابی طالب ع کے حق میں فیصلہ نہیں دے گی ۔

یہاں میں ذرا رک کر اہل سنت اور ان سب لوگوں سے شوری اور آزادی  خیال کے اصول پر فخر کرتے ہیں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ وہ شوری کے اصول میں اور اس نظریے میں جو عمرنے ایجاد کیا تھا کیسے ہم آہنگی پیدا کریں گے کیونکہ اس چھ رکنی کمیٹی کو مسلمانوں نے نہیں بلکہ حضرت عمر نے اپنی رائے سے منتخب اور مقرر

۱۱۰

کیا تھا ۔ اس صورت میں ہمیں کم از کم یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اس نظریے کے مطابق اسلام میں حکومت کا نظام جمہوری نہیں ہے جیسا کہ شوری اور انتخاب کے حامی فخریہ دعوی کرتے ہیں ۔

اس بنیاد پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاید عمر شوری کے قائل نہیں تھے  وہ خلافت کو صرف مہاجرین کا حق سمجھتے تھے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت ابو بکر  کی طرح ان کا خیال یہ تھا خلافت  صرف قریش سے مخصوص ہے کیونکہ مہاجرین میں تو بہت سے غیر قریشی بھی تھے بلکہ غیر  عرب بھی تھے ۔ اس لیے سلمان فارسی  ، عمار ، بلال حبشی ، صہیب رومی ، ابو ذرغفاری اور ہزاروں دوسرے صحابہ جو قریشی نہیں تھے ، انھیں کوئی حق نہیں تھا کہ  وہ خلافت کے معاملےمیں کچھ بولیں ۔ یہ محض  دعوی نہیں ۔ حاشا وکلا ! یہ ان کا عقیدہ تھا جو انہ ہی کی زبانی تاریخ اور حدیث میں محفوظ ہے ۔ آئیے ، اس خطبے کو دوبارہ دیکھیں جو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں قلمبند کیا ہے :

عمربن خطاب کہتے ہیں کہ :میرا ارادہ بولنے کا تھا ۔ میں نے ایک تقریر جو مجھے اچھی لگی تیار کرلی تھی۔ یہ تقریر میں  نے ابوبکر سے پہلے کرنا چاہتا تھا ۔ میں کسی حدتک ہوشیار ی سے کام لے رہا تھا ۔ جب میں نے بولنا چاہا ، ابو بکر نےکہا : ٹھہرو ! میں خاموش ہوگیا کیونکہ میں ابوبکر کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد ابو بکر نے خود تقریر کی ۔وہ میری نسبت زیادہ متانت اور وقار سے بولے ۔ میری تیار کی ہوئی تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں تھا جو مجھے اچھا لگتا ہو ، اور ابو بکر نے فی البدیہ وہی لفظ  یا اس سے بہتر  لفظ استعمال نہ کیا ہو ۔ ابو بکر نے انصار کو مخاطب کرکے کہا : تم نے جو اپنے فضائل ومحاسن بیان کیے ہیں واقعی تم ان کے مستحق ہو ، لیکن جہاں تک اس معاملہ

۱۱۱

کا تعلق ہے یہ قریش کا حق ہے(1)

اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر اور عمر شوری اور آزادی اظہار کے اصول کے قائل نہیں تھے ۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنی تائید میں انصار کے سامنے یہ حدیث نبوی پیش کی کہ"الخلافة فی قريش " اس میں شک نہیں کہ یہ صحیح حدیث ہے ،لیکن اس کی اصل وہ حدیث ہے جو بخاری ،مسلم اور سنی اور شیعہ تمام حدیث کی مستند کتابوں کی متفقہ روایت ہےکہ  رسول اللہ ص نے فرمایا :

"الخلفاء من بعدي اثنا عشركلّهم من قريش"

میرے بعد بارہ خلفاء ہوں گے جو سب  قریش میں سے ہونگے ۔ اس سے بھی زیادہ واضح یہ حدیث ہے :

"لا يزال هذا الأمر في قريشٍ ما بقي من النّاس اثنان."

یہ چیزیں قریش ہی میں رہے گی جب تک دوآدمی بھی باقی ہیں ۔(2) ایک اور حدیث ہے کہ

"النّاس تبع لقريشٍ في الخير والشّر."(3)

سب لوگ قریش کے تابع ہیں بھلائی میں بھی ، برائی میں بھی ،برائی میں بھی ۔ جب سب مسلمان ان احادیث پر یقین رکھتے ہیں تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ نے خلافت کا معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ باہمی مشورے سے جسے چاہیں خلیفہ منتخب کرلیں ، آپ ہی انصاف سے بتائیں کیا یہ تضاد نہیں ؟

اس تضاد سے چھٹکارا صرف اسی صورت میں ممکن ہےجب ہم ائمہ اہل بیت ع

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 27 ۔صحیح باب الوصیہ ۔

(2):- صحیح بخاری کتاب الاحکام باب الامراء من قریش ۔

(3)صحیح مسلم جلد 6 کتاب الامارہ۔

۱۱۲

ان کے شیعہ اور بعض علمائے اہل سنت کا یہ قول تسلیم کرلیں کہ جناب رسول اللہ ص نے خود خلفاء کے ناموں اور ان کی تعداد کی تصریح کردی تھی ۔ اس طرح ہم عمر کا موقف بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں گے جو ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی تھا ۔وہ نص کو علی کے حق میں جو قریش میں سب سے چھوٹے تھے ، قبول کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ مذکورہ بالا حدیث کا اطلاق عمومی طورسب قریش پر کرتے تھے ۔

اسی وجہ انھوں نے اپنے مرنے قبل چھ ممتاز قریشیوں کی ایک کمیٹی قائم کی تھی تاکہ احادیث نبوی کے درمیان  کہ خلافت پر صرف قریش کا حق ہے ،ہم آہنگی  پیدا کرسکیں ۔

اس کے باوجود کہ یہ پہلے  سے معلوم تھا کہ اس کمیٹی کے ارکان  علی ع کا انتخاب  نہیں کریں گے ، پھر بھی علی ع کو اس کمیٹی میں شامل کرنا شاید اس کی ایک تدبیر تھی  کہ علی ع کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی آجکل کی اصطلاح  کے مطابق سیاست کے کھیل میں شامل ہوجائیں تاکہ ان کے شیعوں اور حامیوں کے پاس جو ان کی اولیت کے قائل ہیں کوئی دلیل باقی نہ رہے ۔ لیکن امام علی ع نے اپنے ایک خطبہ میں عوام کے سامنے اس پر گفتگو کی ۔ آپ نے کہا :

میں نے بہت دن صبر کیا اور بہت تکلیف اٹھائی ۔آخر جب وہ (خلیفہ)دنیا سے جانے لگا تو معاملہ ایک جماعت کے ہاتھ میں سونپ گیا اور مجھے بھی اس جماعت کی ایک فردخیال کیا ، جبکہ واللہ مجھے اس  شوری سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ۔ ان میں کے پہلے صاحب (ابوبکر)کی نسبت میری فضلیت میں شک ہی کب تھا جو اب ان لوگوں نے مجھے اپنے جیسا سمجھ لیا ہے؟ (لیکن میں جی کڑا کرکے شوری میں حاضر ہوگیا ) اور نشیب وفراز میں ان کے ساتھ ساتھ چلامگر ان میں سے ایک نے بغض وحسد کے مارے میرا ساتھ نہ دیا اور دوسرا دامادی اور ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا ۔(1)

--------------------

(1):- شیخ محمد عبدہ ، شرح نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 87۔

۱۱۳

چھوتھی بات یہ ہے امام علی ع نے ہردلیل پیش کی گئیں بے سود ۔کیا امام علی ع ان لوگوں سے بیعت کی بھیک مانگتے جنھوں نے ان سے منہ پھیر لیا تھا ، اور جن کے دل دوسرے کی طرف جھک گئے تھے ۔ اور جو امام علی ع سے اس لیے حسد کرتے تھے  کہ ان پر اللہ کا فضل تھا یا اس لیے بغض رکھتے تھے کہ امام علی ع نے ان کے سرداروں کو قتل کیا تھا ، ان کےبہادروں کو کچل دیا تھا ، ان کی عزت خاک میں ملادی تھی ، ان کو نیچا دکھایا تھا ، ان کا غرور اپنی بہادری سے توڑدیا تھا ،یہاں تک  کہ وہ اسلام لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس پر بھی علی ع سربلند تھے اور اپنے ابن عم کا دفاع کرتے تھے ۔انھیں اللہ کے راستے میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں تھی ۔دنیا کی کوئی شے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتی تھی ۔ رسول اللہ ص کو اس کا بخوبی علم تھا اور ہو ہر موقع پر اپنے چچا زاد بھائی کے فضائل ومحاسن بیان کیاکرتے تھے کبھی فرماتے :

"حبّ عليّ ٍ إيمان وّبغضه نفاق"(1)

علی کی محبّت ایمان اور علی سے بغض نفاق ہے ۔

کبھی کہہتے :

"عليٌّ مّنّي وأنامن عليّ "ٍ (2) علی ع مجھ سے ہے اور میں علی ع سے ہوں ۔

"عليّ وّليّ كلّ مؤمن ٍ بعدي "(3) علی ع میرے بعد ہر مومن کے سرپرست ہیں ۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا:

"عليٌّ باب مدينة علمي وأبوولدي"(4)

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 411 ۔ مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 126

(2):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 168۔

(3):- مسند احمد جلد5 صفحہ 25 ۔مستدرک حاکم جلد3 صفحہ 124 ۔

(4):- مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 126۔

۱۱۴

علی ع میرے شہر علی کا دروازہ اور میرے بچوں کے باپ ہیں ۔ آپ نے فرمایا :

"عليٌّ سيّدالمسلمين وإمام المتقّين وقائدالغرّالمحجلين ."(1)

علی ع مسلمانوں کے سردار ،متقیوں کے پیشوا اور ان لوگوں کے سالار ہیں جو روزقیامت سرخرو ہوں گے ۔

لیکن افسوس کہ اس سب  کے باوجود ان لوگوں کا حسد اوربغض بڑھتا ہی  گیا اس لیے اپنی وفات سے چند روز قبل رسول اللہ ص نے علی ع کو بلا کر گلے سے لگایا اور روتے ہوئے کہا :

علی ! میں جانتا ہوں کہ لوگوں کے سینوں میں تمھاری طرف سے جو بغض ہے وہ میرے بعد کھل کر سامنے آجائے گا ۔ لہذا اگر تم سے بیعت کریں تو قبول کرلینا ورنہ صبر کرنا ، یہاں تک کہ تم مظلوم ہی میرے پاس آجاؤ ۔(2)

پس اگر ابو الحسن ع نے ابو بکر کی جبری بیعت کے بعد صبر کیا ، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ نے انھیں وصیت کی تھی ۔اس کی مصلحت صاف ظاہر ہے ۔

پانچویں بات یہ کہ پچھلی  باتوں کے ساتھ ایک اور بات کا اضافہ کرلیجیے ۔مسلمان جب قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کی آیات پر غور کرتا ہے ، تو اسے ان قرآنی قصّوں سے جن میں پہلی امّتوں کا ذکر ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ہم سے بھی زیادہ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ۔

یہ دیکھئے !

<>قابیل نے اپنے بھائی  کا سفاکی سے قتل کردیا ۔

<>جدّالانبیاء حضرت نوح ع کی ہزار سالہ کوشش کے بعد بھی بہت کم لوگ ان پر

--------------------

(1):- شیخ متقی ہندی ۔ متنخب کنزالعمال جلد 5 صفحہ 34

(2):- محبّ طبری ، الریاض النضرہ ، باب فضائل علی بن ابی طالب

۱۱۵

ایمان لائے ۔ان کا اپنا بیٹا اور بیوی کافر تھے ۔

<>حضرت لوط کے گاؤں میں صرف ایک ہی گھر مومنین کا تھا ۔

<>فراعنہ  جنھوں نے دنیا  میں کبریائی کا دعوی کیا اور لوگوں کو اپنا غلام بنایا  ان کے یہاں صرف ایک فرد مومن تھا ، وہ بھی تقیہ کیے ہوئے تھا یعنی اپنے ایمان  کو چھپائے ہوئے تھا ۔

<>حضرت یوسف ع کے بھائیوں کو لیجیے ، انھوں نے حسد کی وجہ سے اپنے بے قصور بھائی  کے قتل کی سازش کی اور اسے محض اس لیے قتل کرنا چاہا کہ وہ ان کے باپ حضرت یعقوب کو زیادہ محبوب تھا ۔

<>اور یہ بنی اسرائیل ہیں ، انھیں اللہ نے حضرت موسی ع کے ذریعے نجات دلائی ، ان کے لیے سمندر کے پانی کو پھاڑدیا ۔ انھیں جہاد کی تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑی اور اللہ نے ان کے دشمنوں ، فرعون اور اس کے لشکریوں کو ڈبودیا ۔مگر ہوا کیا؟ ابھی سمندر سے باہر نکل کر ان کے پاؤں سوکھے بھی نہیں تھے کہ یہ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کی پوجا کرتی تھی تو کہنے لگے :" موسی! جیسے ان کے دیوتا ہیں  ، ویسا ہی ایک دیوتا ہمارے لیے بھی بنادو ۔ موسی نے کہا : تم تو جاہل لوگ ہو ۔ اورجب  موسی اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے  اور اپنی عدم موجودگی میں اپنے بھائی ہارون  کو اپنا قائم مقام کرگئے تو لوگوں نے ان کے خلاف سازش کی اور قریب تھا کہ انھیں مارڈالتے ۔یہی نہیں انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی پوجا شروع کردی ۔ اس قوم کے لوگوں نے بہت سے انبیاء کو قتل کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ"

کیاایسا نہیں ہوا کہ جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ کچھ لایا جو تمھیں پسند نہیں تھا تو تم نے سرکشی اختیارکی اور کچھ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کردیا ؟(سورہ بقرہ ۔ آیت 87)

۱۱۶

<>حضرت  یحیی کو دیکھیے ! وہ نبی تھے ، پاک دامن تھے اور نیک تھے انھیں قتل کیا گیا اور ان کا سرتحفہ کے طور پر بنی اسرائیل کی ایک رنڈی کو بھیج دیا ۔

<>یہود ونصاری نے حضرت عیسی کو قتل کرنے  اور صلیب پرچڑھانے کی سازش کی ۔ خود اس امت محمدیہ نے تیس ہزار کا لشکر رسول اللہ ص کے لخت جگر اور اہل جنّت کے سردار امام حسین ع کو قتل کرنے کے لیے تیار کیا ۔ حالانکہ ان کے ساتھ فقط ستر بہتر اصحاب تھے ۔ لیکن ان لوگوں نے امام حسین ع اور ان کے سب اصحاب کو قتل کردیا ۔ حدیہ ہے کہ امام ع کے دودھ پیتے بچے تک کو نہ چھوڑا ۔

اس کے بعد حیرت کی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے ؟ رسول اللہ ص نے خود اپنے اصحاب سے فرمایا تھا :

تم جلد اپنے سے پہلوں کے طور،طریقوں پر چلو گے ۔تم وجب بہ وجب اور ذراح ذراع  یعنی ہو بہو ان کا اتباع کروگے ۔اگر وہ گوہ کے بھٹ میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ  صحابہ  نے پوچھا  : کیا آپ کی مراد یہود ونصاری سے ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو اور کس سے ؟(1)

حیرت کیسی ! ہم خود بخاری و مسلم میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ قول پڑھتے ہیں :

"قیامت  کے دن میرے اصحاب کو بائیں طرف لایا جائے گا تو میں پوچھوں گا : انھیں کدھر لے جارہے ہو؟ کہا جائے گا : جہنّم  کی طرف ۔میں کہوں گا : اے میرے پروردگار ! یہ تو میرے  اصحاب ہیں ۔ کہا جائے گا : آپ کو معلوم نہیں ، انھوں نے آپ کےبعد دین میں بدعت پیدا کی ۔ میں کہوں گا : دور ہو وہ جس نے

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 144 وجلد 8 صفحہ 151

۱۱۷

میرے بعد  دین میں تبدیلی کی میں دیکھتا ہوں کہ ان میں سے بہت ہی کم نجات پائیں گے ۔(1)

ایک اور حدیث ہے کہ

میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے "(2)

سچ کہا ربّ العزّت نےجو دلوں کےبھید جاننے والا ہے وہ فرماتا ہے :

" وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِي "

گو آپ کا کیسا ہی جی چاہے ، اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں (سورہ یوسف ۔آیت 103)

" بَلْ جَاءهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ "

بلکہ یہ رسول  ان کے پاس حق لے کر آئے لیکن ان میں سے بیشتر حق کو ناپسند کرتے ہیں ۔(سورہ  مومنون ۔آیت 70)

" لَقَدْ جِئْنَاكُم بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ "

ہم نے حق تم تک پہچادیا لیکن تم میں اکثر حق سے بیزار ہیں ۔(سورہ زخرف ۔آیت 78)

" أَلاَ إِنَّ وَعْدَ اللّهِ حَقٌّ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ "

یاد رکھو! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔(سورہ یونس ۔ آیت 55)

" يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ "

تمھیں باتوں سے خوش کرتے ہیں اور دل ان کے انکاری ہیں اور زیادہ تر ان میں بد عمل ہیں ۔(سورۃ توبہ ،آیت 8)

---------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 209 ۔صحیح مسلم ، باب الحوض ۔

(2):- سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن ،مسند احمد جلد3 صفحہ 120 ۔ جامع ترمذی کتاب الایمان ۔

۱۱۸

" إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ "

بے شک اللہ لوگوں پر بڑاافضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر ناشکر ہیں ۔(سورہ یونس ۔آیت 50)

" يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ "

یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس اس کا انکار کرتے ہیں اور اکثر ان میں سے کافر ہیں ۔(سورہ نحل ۔آیت 83)

" وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً "

ہم اس (پانی) گو ان کے درمیان تقیسم کردیتے ہیں تاکہ وہ  غور کریں ۔ تاہم اکثر لوگ ناشکرے ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔(سورہ فرقان ۔آیت 50)

" وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ "

ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں پھر بھی شرک کیے جاتے ہیں۔(سورہ یوسف ۔آیت 106)

" بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ "

لیکن اکثر لوگ حق سے ناواقف ہیں اس لیے اس سے روگردانی کرتے ہیں ۔(انبیاء۔آیت 24)

" أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ (٥٩) وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ (٦٠) وَأَنتُمْ سَامِدُونَ (٦١) "

کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ، تم غفلت میں پڑے ہوتے ہو ۔(سورہ نجم ۔آیات 59-61)

۱۱۹

حسرت وافسوس

یہ واقعات پڑھ کر نہ صرف مجھے بلکہ ہر مسلمان کو افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے امام علی ع کو خلافت سے دوررکھ کر اپنا کتنا بڑا نقصان کردیا ۔ امّت نہ صرف ان کی حکیمانہ قیادت سے محروم ہوگئی بلکہ ان کے علوم  کے بحر ذخار سے بھی صحیح معنی میں استفادہ نہ کرسکی ۔

اگر مسلمان تعصب اور جذباتیت  سے بالا ہوکر دیکھیں تو انھیں تو انھیں صاف نظر آئیگا  رسول اعظم  کےبعد علی ع ہی اعلم الناس ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ علمائے صحابہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو حضرت علی ع ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ فتوی دے کر ان کی مشکل کشائی فرماتے تھے ۔ عمربن خطاب تو اکثر کہا کرتے تھے ۔

"لولا عليٌّ لّهلك عمر".

اگر علی ع نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا ۔(1)

یہ بھی یادرہے کہ خود امام علی علیہ السلام نے کبھی کسی  صحابی ے کچھ بھی نہیں پوچھا ۔

تاریخ معترف ہے کہ علی ابن ابی طالب ع صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ طاقتور تھے ۔ کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ دشمن نے پیش قدمی کی  تو بہادر صحابہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے لیکن امام علی ع ہر موقع پر ثابت قدم رہے ۔اس کی دلیل کے لیے وہ امتیازی سند کافی ہے جو رسول اللہ ص نے اس

--------------------

(1):- 1:-صحیح بخاری کتاب المحاربین ،باب لایرجم المجنون ۔2:- سنن ابی داؤد باب مجنون یسرق  صفحہ 147۔3:- مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 140 ، 154۔ 4:- موطاء امام مالک بن انس کتاب الاشربہ صفحہ 186۔ 5:- مسند شافعی کتاب الاشربہ صفحہ 166۔ 6:- کنزالعمال  ملا علاء الدین متقی جلد 3 صفحہ 95۔7:- مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 375 ۔8:- سنن دراقطنی کتاب ۔۔۔۔۔9:- شرح المعانی آلاثار طحاوی کاب القضاء صفحہ 294۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

نے ہمیں حکم دیا لیکن اسے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار بھی دیا ہے ۔

یہی مطلب ہے اس کا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کا حکم دیا ہے ان کا اختیار بھی دیا ہے ۔ اسی طرح جن کا موں سے اللہ سبحانہ نے منع کیا ہے ان کے بارے میں تنبیہ بھی کردی ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں وہ  سزا کا مستحق ہوگا ۔امام علی علیہ السلام نے اس مسئلے کی کہہ کر مزید  توضیح فرمادی ہے کہ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور کرنا چاہتنا تو اس سے کون جیت تھا لیکن اللہ تعالی نے خود اپنے بندوں کو اطاعت اور نافرمانوں کی طالعت اور اختیا ردے دیا  ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے :

"وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ "

آپ کہہ دیجیے کے حق تمھارےپر دودگار کا طرف سے آچکا ہے اب جس کاجی چاہے ایمان لائے  اورجس کا جس چاہے کافر رہے ۔(سورہ کہف ۔آیت ۲۹)

اس کے بعد امام انسانی ضمیر کو مخاطب کرتے ہیں تاکہ ہیں تاکہ بات دل کی گہرائیوں تک اتر جائے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ

"انسان اپنے افعال میں مجبور ہوتا تو انبیاء کا بھیجا جانا اور کتابوں کا نازل کیا جاتا محض ایک مذاق ہوتا ،جس سے اللہ جلّ شافہ ، پاک ہے ،کیونکہ کا آنا اور کتابوں کانازل ہونا محض لوگوں کی اصلاح ،ان کی روحانی بیماریوں بیماریوں کے علاج اور کامیاب زندگی گزارنے کے بہترین طریقے  کی وضاحت کے لیے ہے ۔"

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ "

بیشک یہ قرآن ایسے طریقے کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا

۱۶۱

ہے "۔ (سورہ بنی اسرائیل ،آیت ۹)

امام ع اپنی بات کو یہ کہہ کر ختم کرتے ہیں کہ

"عقیدہ جبر کے یہ معنی ہیں کہ زمین وآسمان اور ان کے درمیان جوکچھ ہے اس کو بے مقصد پیدا کیا گیا ہے حالانکہ  ایسا کرنا کفرہے   جس  پر اللہ تعالی نے عذاب جہنم کی دھمکی دی ہے "

جب ہم قضا وقدر کے بارے میں شیعہ نظریے کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو اسے مناسب اور معقول پاتے ہیں جب کہ ان کے مقابل میں ایک گروہ نے تفریط سے کام لیا اور وہ جبر کا قائل ہوگیا ، دوسرے نے افراط سے کام لیا اور وہ تفویض کا قائل ہوگیا ۔ پھر عقائد کی درستگی کے لیے ائمہ آئے تو انھوں نے ان دونوں فریقوں کو حق کا راستہ دکھایا اور کہا کہ

"لاجبرولاتفويض ولكن أمرٌ بين الامرين "

کام میں نہ جبر ہے نہ تفویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے ۔ امام صادق ع نے اس بات کو ایک ایسی سادہ مثال سے سمجھایا ہے جس کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور جو ہر شخص  کی عقل کے مطابق  ہے ۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ "نہ جبر نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے دومیان ایک چیز ؟" آپ نے اس کے جواب  میں کہا تمھارے زمین پر چلنے اور زمین پر گرنے فرق ہے ۔ مطلب یہ تھا کہ زمین پر ہم اپنے اختیار سے چلتے ہیں لیکن جب  ہم گرتے ہیں تو یہ گرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا  کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی  گرنا نہیں چاہتا ۔کون چاہے گا کہ گرے تاکہ اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے اور وہ معذور ہوجائے ؟

اس لیے قضا وقدر جبر وتفویض کے درمیان ایک چیز ہے ۔ یعنی کچھ کام ایسے ہیں جو ہم اپنے ارادے اور اختیار سے کرتے ہیں ، اور کچھ کام ایسے ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا اور اگر ہم ان کو روکنا بھی چاہیں تو روک نہیں سکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گا اور دوسری قسم کے کاموں کا حساب

۱۶۲

نہیں ہوگا ۔اس طرح انسان کو بیک وقت اختیار ہے  بھی اور نہیں بھی ۔

الف :- جن کاموں کا انسان کو اختیار ہے وہ ان کو سوچ سمجھ کر کرتا ہے ۔ کیونکہ اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کام کو کرے  یا نہ کرے ۔اسی کی طرف اللہ تعالی نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا () فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا () قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا () وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ()"

قسم ہے جان کی اور جس نے اسے درست کیا ، پھرنیکی اور بدی کی دونوں راہیں اسے بتادیں ۔ وہ یقینا بامراد ہوگیا جس نے  اپنی جان کو پاک کرلیا ۔اور وہ یقینا نامراد ہوا جس نے اسے گناہ کرکے دبادیا ۔(سورہ شمس ۔آیت ۷تا ۱۰)

نفس کو پاک کرنا یا نہ کرنا نتیجہ ہے اس کا کہ انسانی ضمیر کو اختیار حاصل ہے ۔ اسی طرح  کامرانی اور نامرادی منصافانہ نتیجہ ہے اختیار کے استعمال کا ۔

ب:- جن کاموں کا انسانوں کو اختیار نہیں وہ ،وہ قوانین فطرت ہیں جو کلی طو  رپر اللہ کی مشیت کے تابع ہیں ۔ مثلا مرد یا عورت ہونا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ نہ اس کا رنگ روپ اس کے اپنے اختیارمیں ہے ، نہ یہ اس کے بس میں ہے کہ اس کے ماں باپ کون ہوں ، وہ غریب گھرانے میں پیدا ہو یا خوشحال گھرانے میں ۔ نہ اس کا اپنے  قدوقامت پربس ہے نہ اپنی شکل وصورت پر اختیار ہے ۔

انسان متعدد زبردست عوامل کے تابع ہے جیسے موروثی امراض ،یا طبعی قوانین جو اس کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں اور اسے ان کے سلسلے میں کوئی مشقت برداشت نہیں کرنی پڑتی ۔ چنانچہ انسان جب تھک جاتا ہے تو اسے نیند آجاتی ہے اور وہ سوجاتا ہے اورجب آرام کرچکتا ہے تو جاگ جاتا ہے جب بھوک لگتی ہے تو کھانا کھاتا ہے اورجب پیاس لگتی ہے تو پانی پیتا  ہے ۔ جب خوش ہوتا ہے کھلکھلا اٹھتا ہے ، ہنستا ہے اورجب غمگین ہوتا ہے ، پژمردہ ہوجاتا ہے ۔روتا ہے ۔ اس کے جسم کے اند فیکٹریاں اور ورکشاپیں کام کررہی ہیں ۔ جو

۱۶۳

ہارمون ، زندہ خلیے اور سیال مادے بناتی ہیں اور ساتھ ہی جسم کی عجب متوازن طریقے سے تعمیر کرتی ہیں ۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ النسان کو احساس  بھی نہیں ہونے پاتا کہ عنایت  ربّانی ہر لحاظہ اس کیے ہوئے ہے ، اس کی زندگی میں بھی بلکہ مرنے کے بعد بھی ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشادہے :

" أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى () أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى () ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى () فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى () أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى"

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا یہ پہلے ایک قطرہ منی نہ تھا جو ٹپکایا تھا ۔ پھر وہ خون کالوتھڑا ہوگیا ۔ پھر اللہ نے اسے بنایا اور درست کیا۔ پھر اس کی دوقسمیں  کردیں مرد اور عورت  ۔ تو کیا اللہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے ۔(سورہ قیامت ۔آیات ۳۶ تا ۴۰)

سچ کہا تونے اے ہمارے پالنہار ! تونے ہی ہمیں پیدا کیا اور ہمارے اعضاء کو درست کیا ۔ تو ہی موت دےگا اور تو ہی پھر زندہ کرےگا ۔ پھٹکار ان پر جو  تیری مخالفت کرتے ہیں اور تجھ سے دوری اختیار کرتے ہیں انھوں نے تجھے نہیں پہچانا ۔ ہم اس بحث کو امام علی رضا کے ایک قول پر ختم کرتے ہیں ۔ مامون الرشید کے عہد میں جب کہ ابھی آپ کی عمر پورے چودہ سال بھی نہیں تھی کہ آپ کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تسلیم کرلیاگیا تھا ۔(۱)

ایک دفعہ کسی شخص نے آپ سے آپ کے دادا امام جعفر صادق ع کے اس قول کے معنی پوچھے کہ

"لاجبرولاتفويض ولكن أمرٌ بين الامرين "

کو آپ نے فرمایا : جو شخص یہ کہتا ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کرتاہے پھر اللہ ان افعال پر ہمیں عذاب بھ دیتا ہے ، وہ جبر کا قائل ہے ۔اور جو شخص

------------------------

(۱):- ابن عبد ربہ اندلسی ، العقد الفرید جلد ۳ صفحہ ۴۲

۱۶۴

یہ کہتا ہے کہ اللہ نے پیدا کرنے اور رزق دینے کا کام اماموں کے سپرد کردیا ہے ، وہ تفویض کا قائل ہے ۔ جو شخص جبر  کا قائل ہے وہ کافر ہے اور جو تفویض کا قائل ہے وہ مشرک ہے۔

"الأمرٌ بين الامرين" کے معنی ہیں ان افعال کو بجالانا جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور افعال سے بچنا جن سے اس منع کیا ہے ۔بہ الفاظ دیگر اللہ تعالی نے انسان  کویہ قدرت بخشی ہے کہ وہ برائی کرے یا نہ کرے ۔ساتھ ہی اسے برائی سے منع کیا ہے ۔ اسی طرح اسے یہ بھی قدرت بخشی ہے کہ وہ نیکی کا کام کرے یا نہ کرے ۔لیکن اسے نیکی کے کام کرنے کاحکم دیا ہے ۔

جان عزیز کی قسم ! قضا وقدر کےبارے میں امام ثامن کا یہ بیان کافی وشافی ہے ،جس کو ہرشخص تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سمجھ سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ۔ جب آپ نے آئمہ  کے بارےمیں کہا :

"ان سے آگے نہ بڑھنا اور ان سے پیچھے نہ رہنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے  اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں "(۱)

قضا وقدر کی بحث کے ضمن میں خلافت پر تبصرہ

اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہوکر رہتا ہے ۔اوربندوں کے اعمال اللہ چلاتا ہے اور بندوں کو اس ضمن میں کوئی اختیار نہیں ۔ لیکن خلافت کے معاملے میں وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول اللہ ص نے شوری پرچھوڑ دیا تھا ۔ کہ لوگ جس کو پسند

---------------------

(۱):- ابن حجر ،الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۴۸ ۔ہیثمی ،مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۶۳ ۔سلیمان قندوزی ، ینابیع المودۃ صفحہ ۴۱ ۔ سیوطی ،الدر المنثور جلد ۲ صفحہ ۶۰ ۔ علی متقی ہندی کنزالعمال جلد ۱ صفحہ ۱۶۸

ابن اثیر اسدالغابہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۷ ۔ حامد حسین عبقات الانوار جلد ۱ صفحہ ۱۸۴

۱۶۵

کریں اسے خلیفہ بنالیں ۔

اس کے  بالکل برعکس ، اگر چہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے سب اعمال  کا اختیار ہے اوراللہ کے بندے جوچاہتے  ہیں کرتے ہیں ۔ مگر خلافت کےبارے میں میں وہ کہتے ہیں کہ یہاں بندوں کو پسند کا کوئی حق نہیں ۔

پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے نقطہ نظر میں بھی تضاد ہے  اور اہل تشیع کے نقطہ نظر میں بھی تضاد  ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔

جب اہل سنت یہ کہتے ہیں"اللہ اپنے بندوں کے اعمال  چلاتا ہے "توان  کایہ قول فی الواقع جو کچھ ہوتا ہے اس سے متضاد ہے ۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اگر چہ اصل اختیار اللہ کو ہے لیکن ظاہری طورپر کچھ اختیار بندوں کو بھی ہے چنانچہ بروز سقیفہ بظاہر تو ابو بکر کو عمر اور دوسرے بعض صحابہ نے منتخب  کیا تھا ، لیکن درحقیقت وہ اللہ کے حکم کو عملی جامہ پہنا رہے تھے اور ان کی حیثیت اہل سنت کے خیال کے مطابق محض ایک واسطے کی تھی اس سے زیادہ  کچھ نہیں ۔

اس کے بر خلاف شیعہ جب یہ کہتے  ہیں کہ اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں کو ان کے افعال کااختیار دیا ہے  تو ان کے اس قول میں اور اس قول میں کہ خلافت کے معاملے میں اختیار صرف اللہ کو ہے ، کوئی تضاد نہیں ہوتا ۔ کیونکہ نبوت کی طرح خلافت بھی بندوں کا عمل نہیں ، اورنہ اس کو طے کرنا  ان کے سپرد ہے ۔جس طرح اللہ تعالی اپنے رسول کو انسانوں  میں سے پسند کرکے مبعوث فرماتا ہے ، بالکل یہی صورت خلیفہ رسول کی  ہے۔لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کریں یا اس کی نافرمانی کریں ۔ خود انبیاء کی زندگی  میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتارہا ہے ۔اللہ کی پسند کےبارے میں بھی بندوں کو آزادی ہے ۔نیک اور مومن اللہ کی پسند کو قبول کرتے ہیں ۔ اور کفران نعمت کرنے والے  اللہ کی پسند کو قبول کرنے سے انکار کرتے اور اس کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

" فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى () وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ

۱۶۶

يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى () قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً ()قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى "

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرےگا وہ نہ بھٹکے گا اور نہ لکلیف میں پڑے گا اور جو کوئی میری نصیحت سے منہ موڑےگا  اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے اندھا کیوں  اٹھایا میں تو آنکھوں والاتھا؟ اللہ کہے گا : یہ  تو ٹھیک ہے لیکن جیسے تیرے پاس ہماری نشانیاں پہنچی تھیں اور تونے انھیں بھلادیا تھا ۔ اسی طرح آج ہم تجھے بھلادیں گے"۔(سورہ طہ ۔آیات ۱۲۳-۱۲۶)

پھر اہل سنت والجماعت  کانظریہ اس خاص مسئلے یعنی  خلافت کے بارے میں دیکھیے ۔وہ کسی فریق کو بھی الزام نہیں دیتے ۔کیونکہ جو کچھ ہوا اور جتنا خون بہایا گیا اور جو بھی بدعنوانیاں  ہوئیں ، سب اللہ کی طرف سے تھیں ۔ ایک شخص نےجو صاحب علم ہونے کا مدعی تھا مجھ سے کہا تھا :

"ولو شاء ربّك ما فعلوه"

اگر تیرا پروردگار نہ چاہتا تو وہ یہ سب ،کچھ نہ کرتے ،

لیکن شیعہ نظریہ یہ ہے کہ ہر اس شخص کو ذمہ داری اٹھانی پڑے گی جو بھی کجروی کا سبب بنا اور جس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی اس کو نہ صرف اپنی غلطی کا بو جھ  اٹھانا ہوگا بلکہ ان کی غلطیوں کا بھی جو قیامت تک اس کا اتباع کریں گے ،کیونکہ

"كلّكم راعٍ وكلّكم مسئولٌ عن رّعيّته"

*****

۱۶۷

رسول ص کے ترکہ کے بارےمیں اختلاف

گزشتہ  مباحث سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ خلافت کے بارے میں اہلسنت کی کیا رائے  ہے ، اور شیعوں کی کیا رائے  ہے ، اور ہر فریق کے قول کے بموجب رسول اللہ ص نے اس سلسلے میں کیا اقدام کیا تھا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے : کیا رسول اللہ نے کوئی ایسی قابل اعتماد چیز چھوڑی ہے جس کی طرف اختلاف کی صورت میں رجوع کیاجاسکے ، کیونکہ اختلاف کا ہونا فطری ہے جیسا کہ خود کتاب اللہ سے معلوم ہوتا ہے :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً "

اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور ان کی جو تم میں سے اولی الامر ہیں ۔ اگر تم میں کسی بات پر کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کو لوٹادو اللہ اور رسول  کی طرف ، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور روز آخرت  پر ۔یہ طریقہ اچھا ہے اور اس کا انجام بہتر ہے۔(سورہ نساء ۔آیت ۵۹)

جی ہاں ! رسول اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ امت کےلیے کوئی ایسی بنیاد چھوڑ جائیں جو امت کے لیے سہارے کا کام دے ۔ رسول اللہ ص تو رحمت للعالمین  تھے ۔ ان کی شدید ،خواہش تھی کہ ان کی امت دنیا میں بہتر ین امت ہو اور آپ کے بعد اس میں اختلاف پیدا نہ ہو ۔ اسی لیے صحابہ اور محدثین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔ تم جب تک ان کو تھارہوگے میرے بعدکبھی گمراہ نہیں ہونگے  کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ۔یہ دونوں ایک دوسرے سے

۱۶۸

کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں  تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ۔

یہ صحیح  حدیث ہے اور فریقین کے محدثین نے اپنی کتابوں میں تیس سے زیادہ صحابہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے ۔

چونکہ میری عادت ہے کہ میں شیعوں کی کتابوں اور شیعہ علماء کے اقوال سے استدلال نہیں کیا کرتا ۔ اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ میں ان علماء اہل سنت کے نام گنواؤں  جنھوں نے اس حدیث ثقلین  کی صحت  کا اعتراف کیا ہے اور اسے  اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ اگر چہ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ شیعہ اقوال سے بھی استدلال کیاجائے ۔بہر حال یہ ہے مختصر فہرست ان علمائے اہل سنت کی ، جنھوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے :

۱:- مسلم بن حجاج نیشاپوری ، صحیح مسلم فضائل علی بن ابی طالب ع جلد ۷ صفحہ ۱۲۲۔

۲:- محمد بن عیسی سلمی ترمذی ۔،جامع الترمذی جلد ۵ صفحہ ۳۲۸۔

۳:- احمد بن شعیب بن علی نسائی " خصائص امیر المومنین  صفحہ ۲۱۔

۴:- احمد بن محمد بن جنبل  مسند احمد جلد ۳ صفحہ ۱۷

۵:- محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری  المستدرک علی الصحیحین ، جلد ۳ صفحہ ۱۰۹۔

۶:- علاء الدین علی متقی ہندی کنز العمال من سنن الاقوال والافعال جلد ۱ صفحہ ۱۵۴۔

۷:- محمد بن سعد زہری بصری الطبقات الکبری جلد ۲ صفحہ ۱۹۴۔

۸:- عزالدین ابن اثیر جزری جامع الاصول جلد ۱ صفحہ ۱۸۷۔

۹:- حافظ جلال الدین سیوطی  الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۳۵۳۔

۱۰:- حافظ نورالدین علی بن ابی بکر ، ہیثمی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد ۹ صفحہ ۱۶۳

۱۶۹

۱۱:- نبہانی الفتح الکبیر جلد ۱ صفحہ ۴۵۱۔

۱۲:- عزالدین ابن اثیر جزری  اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۔

۱۳:- علی بن حسین  دمشقی المعروف بہ ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشق جلد ۵ صفحہ ۴۳۶۔

۱۴:- اسماعیل بن عمر المعروف بہ ابن کثیر  تفسیر القرآن العظیم جلد ۴ صفحہ ۱۱۳۔

۱۵:- منصور علی ناصف  التاج الجامع للاصول جلد ۳ صفحہ ۳۰۸۔

ان کے علاوہ ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے ۔نیز ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے علی شرط  الشیخین (بخاری ومسلم) صحیح قراردیا ہے ۔خوارزمی حنفی اور ابن مغازلی شافعی نے بھی یہ روایت بیان کی ہے ۔ طبرانی نے اپنی کتاب معجم میں اسے نقل کیا ہے  ۔علاوہ ازیں سیرت حلبیہ کے حاشیہ پر ، سیرت نبویہ میں اور ینابیع المودہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔

کیا اس کے بعد بھی کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ  حدیث ثقلین  (کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی )سے اہل سنت واقف نہیں ، یہ شیعوں کی وضع کی ہوئی ، احادیث میں سے ہے ، تعصب تنگ نظری ،فکری جمود  اورجاہلانہ کٹرپن پر خدا کی مار !

صحیح بات یہ ہے کہ حدیث ثقلین جس  میں رسول اللہ ص نے کتاب اللہ اور عترت طاہرہ سے وابستہ وپیوستہ رہنے کی وصیت کی ہے وہ اہل سنت کے نزدیک بھی صحیح حدیث ہے اور شیعوں کے یہاں تو اور بھی زیادہ تواتر اور صحت سند کے ساتھ

۱۷۰

ائمہ طاہرین سے منقول ہے ۔پھر نہیں معلوم بعض لوگ کیوں اس حدیث میں شک پیدا کرتے اور اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کے الفاظ کو ہو کتاب اللہ وسنتی سے بد ل دیں ۔ اس کے باوجود مفتاح کنوز السنۃ " نامی کتاب کے صفحہ ۴۷۸ پر مصنف نے  وصیتہ صلی اللہ علیہ وسلم بکتاب اللہ وسنتہ رسولہ " کا عنوان بخاری ومسلم ،ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے سے باندھا ہے لیکن اگر آپ ان چاروں کتابوں میں یہ حدیث تلاش کریں تو اس کا دور دور تک پتہ نہیں چلے گا۔ بخاری  میں ایک عنوان البتہ ہے "کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ "(۱) لیکن اس عنوان کے تحت  بھی کتاب میں اس حدیث کا وجود نہیں ۔

زیادہ سے زیادہ بخاری میں ایک حدیث ملتی ہے کہ :

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وصیت فرمائی تھی ،انھوں نے کہا: نہیں ۔ میں نے کہا :پھر باقی سب لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں ہے ؟ عبداللہ بن ابی اولی نے کہا : آپ نے کتاب اللہ کے متعلق وصیت کی تھی(۲) ۔

لیکن یہاں بھی  اس حدیث کا وجود  نہیں کہ رسول اللہ ص نے فرمایا :

"تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي".

میں تم میں دوگراں قدر چیزیں چھوڑرہا ہوں ، ایک کتاب اللہ ،دوسرے میری سنت ۔

اگر  فرض کرلیا جائے کہ کسی کتاب میں یہ حدیث موجود بھی ہے جب  بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اجماع حدیث کے دوسرے الفاظ پر ہے ۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ۔علاوہ ازیں اگر ہم کتاب اللہ وسنتی والی حدیث پر ذرا غور کریں تو مختلف وجوہ سے یہ حدیث واقعات کی کسوٹی  پر پوری نہیں اترتی ،نہ عقلا نہ نقلا :

----------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۳۷۔

(۲):- صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۱۶۸۔

۱۷۱

پہلی وجہ : مورخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے ہ رسول اللہ ص نے اپنی احادیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا۔

آپ کے زمانے میں کسی کو سنت نبوی کو مدون کنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس لیے یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ آپ نے "تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"فرمایا ہوگا۔ اس کے برخلاف جہاں تک کتا ب اللہ کا تعلق ہے وہ لکھی ہوئی موجود تھی۔ کا تبان وحی اس کے لکھنے پر مامور تھے نیز اسے صحابہ یاد کرتے تھے ، وہ سینوں میں محفوظ  تھی اس لیے ہر صحابی کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ کتاب اللہ سے رجوع کرسکے ، خواہ وہ حافظ قرآن ہویا نہ ہو۔جہاں تک سنت نبوی کا تعلق ہے وہ آپ کے زمانے میں لکھی ہوئی نہیں  تھی ، نہ آپ کے زمانے میں کوئی احادیث کا مجموعہ تحریری شکل میں موجود تھا ، جیسا کہ  معلوم ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سنت نبوی میں آنحضرت ص کے اقوال ، افعال اور وہ تمام امور شامل ہیں جن  کی آپ نے عملا تصویب کی ہو یعنی صحابہ کو کرتے دیکھ کر منع نہ کیا ہو ۔ یہ بھی معلوم  ہے کہ آپ صحابہ کو خاص طور پر سنت نبوی سکھانے کے لیے کبھی جمع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مختلف موقعوں  کی مناسبت سے گفتگو  فرماتے رہتے تھے ۔ ان موقعوں پر کچھ اصحاب موجود ہوتے تھے اورکبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کے ساتھ صرف ایک ہی صحابی ہوں ۔تو ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ ص یہ فرمادیتے کہ میں تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں ۔

دوسری وجہ : جب وفات سے تین دن قبل رسول اللہ ص کے مرض میں اضافہ ہوگیا اور تکلیف شدید ہوگئی تو آپ نے موجودین سے فرمایا کہ شانے کی ہڈی  اور دوات لے آؤ  میں کچھ  لکھ دوں تاکہ تم پھر کبھی گمراہ نہ ہو ۔ لیکن عمربن خطاب نے کہا : "حسبنا کتاب اللہ " (۱) (ہمارے لیے کتاب اللہ کافی ہے ) اگر اس سے پہلے  رسول اللہ ص یہ فرماچکے ہوتے کہ : "تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"تو اس صورت میں عمر بن خطاب کے لیے یہ کہنا کسی طرح جائز نہیں تھا کیونکہ اس

---------------------

(۱):- صحیح بخاری بات مرضی النبی ووفاتہ جلد ۵ صفحہ ۱۳۸ صحیح مسلم جلد ۲کتاب الوصیہ

۱۷۲

کے معنی  یہ ہوتے  کہ وہ اور دوسرے صحابہ جنھوں نے ان کی تائید کی تھی ، رسول اللہ  ص کی تردید  کررہے ہیں جب کہ معلوم ہے کہ رسول اللہ کی تردید  کرنے والا بلاشبہ کافر ہے ۔ میرے خیال میں اہل سنت والجماعت کویہ بات کبھی بھی پسند نہیں ہوگی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ کرلیجیے کہ عمر بن خطاب نے خود احادیث بیان کرنے پن پابندی عائد کررکھی  تھی ۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت ع کے کسی مخالف کی گھڑی(۱) ہوئی ہے اور غالبا اہل بیت ع کو خلافت سے محروم کرنے  کےبعد گھڑی گئی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے یہ حدیث وضع کی ہے وہ خود حیران تھا کہ کیا بات ہے کتاب اللہ سے تو لوگ تمسک کرتے ہیں مگر عترت کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرنےلگے ہیں ۔ اس لیے اس نے سوچا کہ وہ حدیث گھڑ کر ان لوگوں کی روش  کے لیے ایک وجہ جواز مہیا کردے تاکہ صحابہ پر یہ اعتراض نہ کیا جاسکے کہ انھوں نے رسو ل اللہ ص کی وصیت پر عمل کیوں نہیں کیا اور اس کے برخلاف کیوں کیا ۔

تیسری وجہ : ہمیں معلوم ہے کہ اپنی خلافت  کےاوائل  میں ابو بکر  کو جس مسئلے سے سب سے پہلے دوچار ہونا پڑا وہ ان کا یہ فیصلہ تھا کہ مانعین زکات  سےجںگ کی جائے ۔ عمر بن خطاب نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور دلیل کے طور پر کہا تھا کہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ

جو توحید ورسالت  کی گواہی دے اور لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کہے اس کی جان اور اس کا مال میری طرف سے محفوظ ہے ،بجز اس کے کہ کسی حق کی وجہ سے ہو اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔

اگر سنت رسول  ص کو ئی معلوم شے ہوتی تو ابوبکر اس سے ناواقف نہیں  ہوسکتے تھے۔ ان کو تو سب سے پہلے اس کا علم ہونا چاہیے تھا ۔ بعد میں عمر ان حدیث کی اس تاویل سے مطمئن ہوگئے جو ابوبکر نے کی ۔ اورابو بکر کی یہ بات تسلیم کرلی  کہ زکات مال کا حق ہے ۔لیکن رسول اللہ ص کی وہ فعلی

-----------------------

(۱):- احادیث کی گھڑنت کے بارے مین علامہ مرتضی عسکری کی کتاب "احیائے دین مین ائمہ اہلبیت ع کا کردار"دیکھیے !

۱۷۳

سنت جس کی تاویل ممکن نہیں دانستہ یا نادانستہ ان لوگوں نے نظر انداز کردی ۔یہ ثعلبہ کا قصہ ہے ، جس نے رسو ل اللہ  کو زکات ادا کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی لیکن رسول اللہ ص نے اس سے جنگ نہیں کی اورنہ اسے زکات ادا کرنے پر مجبور کیا ۔ کیا ابو بکر اور عمر کو اسامہ بن زید کا قصہ بھی معلوم نہیں تھا ؟ اسامہ بے بعد دشمن کا ایک آدمی اسامہ کو ملا جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی کہا :"لا الہ الا اللہ " لیکن اسامہ نے اسے قتل کردیا ۔ جب یہ بات رسول اللہ ص کو معلوم ہوئی تو آپ نے اسامہ سے کہا :

کیا تم نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا؟

اسامہ کہتے ہیں کہ : میں نے عرض کیا : اس نے تو اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا ۔لیکن رسول اللہ ص بار بار وہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا(۱)

ان تمام باتوں کے پیش نظر ہمارے  لیے کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جب صحابہ ہی کو سنت نبوی کا علم نہیں تھا تو بعد میں آنے والوں کا تو ذکر ہی کیا ؟ اور ان لوگوں کے متعلق کیا کہاجائے  جو مدینے سے دور رہتے تھے ۔

چوتھی وجہ : ہمیں معلوم ہے  کہ رسول اللہ ص کی وفات کے بعد صحابہ کے بہت سے اعمال  سنت رسول ص کے منافی تھ ے۔لہذا ہمارے سامنے اب دوہی صورتیں ہیں : یا تو کہیں کہ صحابہ سنت رسول ص سے ناواقف تھے یا پھر یہ کہیں کہ وہ عمدا  سنت رسول  کو چھوڑ کر اپنے اجتہاد سے کام لیتے  تھے۔ اگر ہم دوسری صورت کے قائل ہوجائیں تو وہ اس آیت  کامصداق ہوجائیں گے ۔:

"    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَ

-------------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۳۶ وصحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۶۷ کتاب الدیات ۔

۱۷۴

رَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً"

کسی مومن  یا مومنہ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول  ص کسی کا م کا فیصلہ کردیں تو وہ یہ کہیں کہ انھیں اپنے کام میں کچھ اختیار ہے ۔اورجس نے اللہ اور اس کے رسول ص کی نافرمانی کی تو وہ صریحا گمراہ ہوگیا ۔(سورہ اجزاب ۔آیت ۳۶)

اور اگر ہم یہ کہیں کہ صحابہ رسول  ص سے ناواقف تھے ، تو ایسی حالت میں رسول اللہ ص یہ کیسے  فرماسکتے تھے کہ میں تمھارے  درمیان اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں  جب کہ آپ  کو معلوم تھا کہ آپ کے اصحاب اور مقربین  سنت کا پورا علم نہیں رکھتے  بعد میں آنے والوں  کا تو ذکر کیا جنھوں نے آپ کو دیکھا تک نہیں ۔ایسی حالت میں تو آپ کے لیے ضروری  تھا کہ آپ صحابہ  کو احادیث لکھنے کا حکم دیتے تاکہ یہ مجموعہ احادیث مسلمانوں کے لیے قرآن کے بعد مرجع ثانی کا کام دیتا ۔ رہا یہ کہنا کہ آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قرآن وسنت خلط ملط نہ ہوجائیں تو اس کا لغو ہونا ظاہر ہے ۔کیونکہ یہ ممکن تھا کہ وحی ایک خاص  رجسٹر میں جمع کی جاتی اور سنت ایک دوسرے رجسٹر میں ۔ اس طرح دو الگ الگ کتابیں تیار  ہوجاتیں ، جیسا  کہ ہمارے یہاں آج کل قاعدہ ہے ، اس صورت میں ضرور یہ کہنا صحیح  ہوتا کہ میں تمھارے درمیان کتاب اللہ کو اپنی سنت کو چھوڑ رہا ہوں ۔

پانچویں وجہ : یہ تو معلوم ہے کہ سنت کی تدوین  عباسی دور مین ہوئی  اس سے پہلے نہیں ۔ حدیث کی جو پہلی کتاب لکھی گئی وہ موطاء امام مالک ہے یہ فاجعہ کربلااور واقعہ حرہ کے بعد کی بات ہے ۔ واقعہ حرّہ  میں تین دن تک  مدینہ منورہ میں وجیوں  کو آزاد چھوڑ  دیا گیا تھا کہ وہ جو جی چاہے کریں ۔ اس سانحے میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ۔ ان احادیث  کے بعد ان روایوں کا کیسے اعتبارکیا جاسکتا ہے جنھوں نے دنیا کمانے کی غرض سے حکام وقت کاقرب حاصل کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اضطراب اور تناقض پیدا ہوا اور امت مسلمہ

۱۷۵

فرقوں میں بٹ گئی ۔چنانچہ ایک فرقے کے نزدیک جو بات ثابت شدہ تھی وہ دوسرے کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی  اور جسے ایک فرقے نے صحیح قراردیا دوسرے نے اس کی تکذیب کی ۔ان حالات میں ہم کسیے مان لیں کہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہو کہ :

" تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"۔رسول اللہ کو خوب معلوم تھا کہ منافقین اور منحرفین  آپ سے جھوٹی باتیں منسوب کریں گے ۔ آپ نے خود فرمایا تھا :مجھ سے بہت سی جھوٹی باتیں منسوب کی گئی  ہیں ۔ پس جو شخص مجھ سے جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کرے ، وہ اپنا ٹھکانا  جہنّم میں بنالے ۔ (۱)جب آپ کی زندگی ہی میں آپ سے بکثرت جھوٹی  باتیں منسوب  کی گئی  ہوں ، تو آپ کیسے اپنی امت کو اپنی سنت کے اتباع کا حکم دے سکتے  تھے جب کہ آپ کے بعد صحیح وغلط مین تمییز  دشوار ہوگئی ۔

چھٹی وجہ : اہل سنت  کی صحاح میں روایت ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنے ثقلین  یعنی دوجانشین یا دوچیزیں  چھوڑیں ۔اہل سنت کبھی روایت کرتے ہیں کہ آپ نے کتاب اللہ وسنۃ رسولہ فرمایا اور کبھی کہتے ہیں کہ آپ نے  علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرّاشدین من بعدی فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث سے  کتاب اللہ  اور سنت رسول اللہ ص میں ، سنت خلفاء  کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح شریعت  کے ماخذ دو کے بجائے تین ہوجاتے ہیں ۔ مگر یہ سب اس حدیث ثقلین  کے منافی  ہے جس پر اہل سنت اور شیعوں کا اتفاق  ہے ۔ اس حدیث میں کتاب اللہ وعترتی  کے الفاظ ہیں اور اس کے لیے ہم نے بیس سے زیادہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کا حوالہ دیا ہے ۔ شیعہ ماخذ اس کے علاوہ ہیں جن کا ہم نے ذکر نہیں کیا ۔

ساتھویں وجہ : رسول اللہ ص کو بخوبی علم تھا کہ آپ کے اصحاب ۔گو

-----------------------

(۱):-صحیح بخاری کتاب العلم جلد ۱ صفحہ ۳۵

۱۷۶

قرآن ان کی زبان  میں اور جیسا کہ مشہور ہے ، ان کے لہجے میں نازل ہوا ہے ۔ بہت سے مقامات کی تفسیر اور تاویل سے ناواقف تھے ۔ پھریہ کیسے   توقع کی جاسکتی تھی کہ بعد میں آنے ولے ، خصوصا وہ رومی  ، ایرانی ،حبشی اور دوسرے عجمی  جن کی زبان  عربی نہیں تھی اور جو نہ عربی سمجھتے تھے اور نہ بولتے تھے ، قرآن کو کما  حقہ سمجھ پائیں گے روایت  ہے کہ  جب ابو بکر سے اللہ تعالی کے قول  وفاکھۃ وابا کے معنی پوچھے گئے تو انھوں نے کہا : میری کیا مجال کہ میں کتاب اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو ۔(۱)

اسی طرح عمر بن خطاب  کو بھی اس کے معنی معلوم نہیں تھے ۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دفعہ  عمربن خطاب نے منبر پر یہ آیت پڑھی ۔

"فأنبتنا فيها حبّاوّعنباوّقضباوّزيتوناوّنخلاوّحدايق غلباوّفاكهة وّأباً"

اس کے بعد کہا : اور تو سب ہمیں معلوم  ہےمگر یہ "ابّ" کیا ہے ؟ اس  کے بعد کہنے لگے :چھوڑو ایسی ٹوہ محض تکلیف ہے ۔اگر تمھیں اب کے معنی معلوم نہیں تو نہ ہوں  ، اس سے فرق کیا پڑتا ہے ۔کتاب اللہ میں جو واضح ہدایت ہے اس پر عمل کرو اور جو سمجھ مین نہ آئے  اسے اس کے رب پرچھوڑدو(۲)

جو کچھ یہاں کتا ب اللہ کی تفسیر  کےبارے میں کہا گیا ہے ،اس کا اطلاق سنت نبوی کی تفسیر پر بھی ہوتا ہے ۔چنانچہ  کتنی ہی احادیّث  ہیں جن  کے بارے میں  صحابہ میں مختلف فرقوں میں اور شیعوں اور سنیوں  میں اختلاف  رہا ہے کبھی  اس بارے میں کہ حدیث صحیح یا ضعیف اور کبھی اس بارے میں کہ حدیث کا مفہوم کیا ہے ۔ وضاحت کے لیے میں اس اختلاف  کی چند مثالیں  پیش کرتاہوں

--------------------

(۱):-قسطلانی ، ارشاد الساری جلد ۱۰ صفحہ ۲۹۸ ۔ ابن حجر ، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری  جلد ۱۳ صفحہ ۲۳۰

(۲):- تفسیر طبری جلد ۳ کنزالعمال  جلد ۱ صفحہ ۲۲۷ ۔ مستدرک جلد ۲ صفحہ ۱۴ ۔تاریخ بغداد جلد ۱۱ صفحہ ۴۶۸ ۔تفسیر کشّاف جلد۳  صفحہ ۲۵۳ ۔ تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۳۷۴ ۔ ابن تیمیہ ، مقدمہ اصول تفسیر صفحہ ۳۰ ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم جلد ۴ صفحہ ۴۷۳۔

۱۷۷

۱:- حدیث کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف

یہ صورت خلافت ابو بکر کے ابتدائی  ایام میں اس وقت پیش آئی جب فاطمہ بنت رسول  ص  ابو بکر کے پاس
آئیں  اورفدک کی واگزاری کا مطالبہ کیا ۔ جناب فاطمہ س کا دعوی تھا کہ فد ک ان کے والد نے اپنی زندگی میں انھیں عطا کردیا تھا لیکن ان کے والد کی وفات کے بعد ان سے لے لیا گیا ۔ ابوبکر نے اس  دعوے  کو غلط قراردیا  اور اس کی تردید کی کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں فدک جناب فاطمہ س کو دے دیا تھا۔ جناب فاطمہ س نےیہ مطالبہ بھی کیا  کہ ان کے والد کی میراث انھیں دے جائے ۔لیکن ابوبکر نے کہا کہ

رسول اللہ نے فرمایا ہے :

"نحن معاشر الأنبياء لانورث ما تركناه صدقة"

ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔

جناب فاطمہ س نے اس حدیث کو من گھڑت  قراردیا اور اس کے مقابلے  میں قرآنی آیات پیش کیں  نتیجہ یہ ہوا کہ اختلاف  او رجھگڑا بڑھ گیا ۔جناب فاطمہ مرتے دم تک ابو بکر سے ناراض رہیں ، ان سے بات نہیں کرتی تھیں ۔ جیسا کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آیا ہے ۔

ایک اور مثال ام المومنین عائشہ  اور ابوہریرہ  کےاختلاف کی ہے :

اگر کوئی شخص رمضان میں صبح کو ناپاک اٹھے تو عائشہ  کہتی تھیں کہ اس کا روزہ درست ہے ۔ابو ہریرہ  کی رائے  تھی کہ وہ افطار  کرے ۔ امام مالک نے موطا میں اوربخاری ن ےاپنی صحیح میں ام المومنین  عائشہ  اور ام المومنین  ام سلمہ  سے روایت کی ہے وہ دونوں کہتی ہیں کہ رمضان  میں رسول اللہ صبح کو جنب اٹھتے  تھے ہم بستری  کی وجہ سے ،  احتلام  کیوجہ سے نہیں ، پھر وہ روزہ رکھ لیتے تھے ۔ ابو بکر بن عبد الرحمن کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جن دنوں مروان بن حکم

۱۷۸

مدینے کا امیر تھا ،ایک دن میں اور میرے والد اس کے پاس تھے ۔ اس کے سامنے ذکر آیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو شخص صبح کو جنب  اٹھے وہ اس دن افطار کرے ۔

مروان کہنے لگا : عبدالرحمن ! میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ تم ام المومنین  عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ  کےپاس جاکر ذرا ! اس بارے میں دریافت تو کرو ۔ اس پر عبدالرحمان  اور میں حضرت عائشہ  کے پاس گئے ۔ وہاں جاکر عبدالرحمن  نے سلام کیا اور کہا : ام  المومنین ! ہم مروان بن حکم کے پاس تھے ، وہاں ذکر آیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو صبح کو جنب ہو وہ اس دن افطار کرے ، روزہ نہ رکھے ، عائشہ  نے کہا: اس طرح نہیں جیسے ابو ہریرہ کہتے ہیں ۔ عبدالرحمان  ! کیا تمھیں رسول اللہ ص کا طریقہ پسند نہیں؟ عبدالرحمن نے کہا: بخدا یہ بات نہیں ۔ عائشہ نے کہا : اگر ایسا ہے تو میں گواہی  دیتی ہوں کہ رسول اللہ ص احتلام کے بغیر ہم بستری سے صبح کو جنب  ہوتے تھے اور پھر اس دن کا روزہ رکھ لیتے تھے ۔ ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہم وہاں سے نکل کر حضرت ام سلمہ کے یہاں گئے ۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انھوں نے بھی وہی  کہاجو عائشہ  نے کہا تھا۔ اس کے بعد ہم واپس مروان بن حکم کے  پاس  پہنچے اورجو کچھ ان دونوں نے کہا تھا وہ مروان کو بتایا ۔

مروان نےکہا :ابو محمد  ! دروازے پر سواری  موجود ہے ۔تم فورا  سوار ہوکر ابوہریرہ  کےپاس جاؤ ، وہ عتیق میں اپنی زمین  پر ہیں ، انھیں جاکر سب بت بتلاؤ ۔ چنانچہ  عبدالرحمان سوار ہوئے میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا اور ہم دونوں ابوہریرہ کے پاس پہنچے ۔ عبدالرحمن  نے کچھ ویران سے ادھر ادھر کی باتیں پھر اصل موضوع  پر آئے ۔ابو ہریرہ نے کہا: مجھے تو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ، مجھ سے تو کسی نے کہا تھا (۱)۔

دیکھئے ! ابو ہریرہ  جیسے صحابی جو اہل سنت کے نزدیک اسلام  میں احادیث  کےسب سے بڑے راوی  ہیں ، کیسے دینی احکام سے متعلق محض ظن وتخمین کی بناپر

---------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۳۲ باب الصائم یصبح جنبا ۔  تنویر الحوالک شرح موطاء مالک جلد ۱ صفحہ ۲۷۲ "ما جا فی الذی  يصبح جنبا فی رمضان"

۱۷۹

فتوی دے دیتے ہیں اور پھر اسے رسول اللہ سے منسوب کردیتے حالانکہ انھیں یہ تک معلوم نہیں تا کہ یہ بات کس نے بتلائی تھی ۔ ایسے احکام جن کا ماخذ بھی معلوم نہیں اہل سنت ہی کو مبارک ہوں۔

ابو ہریرہ کا ایک اور قصہ

عبد اللہ بن محمد کہتے کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا ہشام بن یوسف نے اورہ کہتے ہیں کہ ہمیں بتلا یا معمر نے ، وہ روایت کرتے ہیں زہری سے ، وہ ابو سلمہ سے ، وہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے ، وہ کہتے ہیں کہ  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"چھوت ، یرقان اور ہامہ (ایک فرضی پرندہ جو جاہلی عربوں کے خیال کے مطابق  اس وقت چیختا رہتا ہے جب تک مقتول کا بدلہ نہ لے لیا جائے) کوئی چیز نہیں ۔ اس پر ایک اعرابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ص ! پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اونٹ صحرا میں  خوبصورت  ہر نوں کی طرح کلیلیں کرتے پھرتے  ہیں پھر ان میں کوئی خارش زدہ اونٹ آملتا ہے تو سب کو خارش ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہ ص نے کہا: یہ بتاؤ ، پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی  تھی ؟

ابو سلمہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے بعد میں ابو ہریرہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"بیماری کو تندرست کے پاس نہ لے جاؤ "

ابو ہریرہ نے پہلی حدیث کا انکار کیا تو ہم نے کہا : آپ نے نہیں کہا تھا کہ چھوت کوئی چیز نہیں ۔ اس پر ابوہریرہ حبشی زبان میں کچھ کہا جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ اور کوئی حدیث ہم نے ابو ہریرہ کو بھولتے نہیں دیکھا(۱)

----------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۳۱ باب لاہامہ ۔صحیح مسلم جلد ۷ صفحہ ۳۲ باب لاعدوی ولا طیرہ

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328