حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 58870
ڈاؤنلوڈ: 5932

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58870 / ڈاؤنلوڈ: 5932
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نے ہمیں حکم دیا لیکن اسے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار بھی دیا ہے ۔

یہی مطلب ہے اس کا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کا حکم دیا ہے ان کا اختیار بھی دیا ہے ۔ اسی طرح جن کا موں سے اللہ سبحانہ نے منع کیا ہے ان کے بارے میں تنبیہ بھی کردی ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں وہ  سزا کا مستحق ہوگا ۔امام علی علیہ السلام نے اس مسئلے کی کہہ کر مزید  توضیح فرمادی ہے کہ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور کرنا چاہتنا تو اس سے کون جیت تھا لیکن اللہ تعالی نے خود اپنے بندوں کو اطاعت اور نافرمانوں کی طالعت اور اختیا ردے دیا  ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے :

"وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ "

آپ کہہ دیجیے کے حق تمھارےپر دودگار کا طرف سے آچکا ہے اب جس کاجی چاہے ایمان لائے  اورجس کا جس چاہے کافر رہے ۔(سورہ کہف ۔آیت 29)

اس کے بعد امام انسانی ضمیر کو مخاطب کرتے ہیں تاکہ ہیں تاکہ بات دل کی گہرائیوں تک اتر جائے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ

"انسان اپنے افعال میں مجبور ہوتا تو انبیاء کا بھیجا جانا اور کتابوں کا نازل کیا جاتا محض ایک مذاق ہوتا ،جس سے اللہ جلّ شافہ ، پاک ہے ،کیونکہ کا آنا اور کتابوں کانازل ہونا محض لوگوں کی اصلاح ،ان کی روحانی بیماریوں بیماریوں کے علاج اور کامیاب زندگی گزارنے کے بہترین طریقے  کی وضاحت کے لیے ہے ۔"

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ "

بیشک یہ قرآن ایسے طریقے کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا

۱۶۱

ہے "۔ (سورہ بنی اسرائیل ،آیت 9)

امام ع اپنی بات کو یہ کہہ کر ختم کرتے ہیں کہ

"عقیدہ جبر کے یہ معنی ہیں کہ زمین وآسمان اور ان کے درمیان جوکچھ ہے اس کو بے مقصد پیدا کیا گیا ہے حالانکہ  ایسا کرنا کفرہے   جس  پر اللہ تعالی نے عذاب جہنم کی دھمکی دی ہے "

جب ہم قضا وقدر کے بارے میں شیعہ نظریے کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو اسے مناسب اور معقول پاتے ہیں جب کہ ان کے مقابل میں ایک گروہ نے تفریط سے کام لیا اور وہ جبر کا قائل ہوگیا ، دوسرے نے افراط سے کام لیا اور وہ تفویض کا قائل ہوگیا ۔ پھر عقائد کی درستگی کے لیے ائمہ آئے تو انھوں نے ان دونوں فریقوں کو حق کا راستہ دکھایا اور کہا کہ

"لاجبرولاتفويض ولكن أمرٌ بين الامرين "

کام میں نہ جبر ہے نہ تفویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے ۔ امام صادق ع نے اس بات کو ایک ایسی سادہ مثال سے سمجھایا ہے جس کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور جو ہر شخص  کی عقل کے مطابق  ہے ۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ "نہ جبر نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے دومیان ایک چیز ؟" آپ نے اس کے جواب  میں کہا تمھارے زمین پر چلنے اور زمین پر گرنے فرق ہے ۔ مطلب یہ تھا کہ زمین پر ہم اپنے اختیار سے چلتے ہیں لیکن جب  ہم گرتے ہیں تو یہ گرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا  کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی  گرنا نہیں چاہتا ۔کون چاہے گا کہ گرے تاکہ اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے اور وہ معذور ہوجائے ؟

اس لیے قضا وقدر جبر وتفویض کے درمیان ایک چیز ہے ۔ یعنی کچھ کام ایسے ہیں جو ہم اپنے ارادے اور اختیار سے کرتے ہیں ، اور کچھ کام ایسے ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا اور اگر ہم ان کو روکنا بھی چاہیں تو روک نہیں سکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گا اور دوسری قسم کے کاموں کا حساب

۱۶۲

نہیں ہوگا ۔اس طرح انسان کو بیک وقت اختیار ہے  بھی اور نہیں بھی ۔

الف :- جن کاموں کا انسان کو اختیار ہے وہ ان کو سوچ سمجھ کر کرتا ہے ۔ کیونکہ اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کام کو کرے  یا نہ کرے ۔اسی کی طرف اللہ تعالی نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا () فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا () قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا () وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ()"

قسم ہے جان کی اور جس نے اسے درست کیا ، پھرنیکی اور بدی کی دونوں راہیں اسے بتادیں ۔ وہ یقینا بامراد ہوگیا جس نے  اپنی جان کو پاک کرلیا ۔اور وہ یقینا نامراد ہوا جس نے اسے گناہ کرکے دبادیا ۔(سورہ شمس ۔آیت 7تا 10)

نفس کو پاک کرنا یا نہ کرنا نتیجہ ہے اس کا کہ انسانی ضمیر کو اختیار حاصل ہے ۔ اسی طرح  کامرانی اور نامرادی منصافانہ نتیجہ ہے اختیار کے استعمال کا ۔

ب:- جن کاموں کا انسانوں کو اختیار نہیں وہ ،وہ قوانین فطرت ہیں جو کلی طو  رپر اللہ کی مشیت کے تابع ہیں ۔ مثلا مرد یا عورت ہونا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ نہ اس کا رنگ روپ اس کے اپنے اختیارمیں ہے ، نہ یہ اس کے بس میں ہے کہ اس کے ماں باپ کون ہوں ، وہ غریب گھرانے میں پیدا ہو یا خوشحال گھرانے میں ۔ نہ اس کا اپنے  قدوقامت پربس ہے نہ اپنی شکل وصورت پر اختیار ہے ۔

انسان متعدد زبردست عوامل کے تابع ہے جیسے موروثی امراض ،یا طبعی قوانین جو اس کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں اور اسے ان کے سلسلے میں کوئی مشقت برداشت نہیں کرنی پڑتی ۔ چنانچہ انسان جب تھک جاتا ہے تو اسے نیند آجاتی ہے اور وہ سوجاتا ہے اورجب آرام کرچکتا ہے تو جاگ جاتا ہے جب بھوک لگتی ہے تو کھانا کھاتا ہے اورجب پیاس لگتی ہے تو پانی پیتا  ہے ۔ جب خوش ہوتا ہے کھلکھلا اٹھتا ہے ، ہنستا ہے اورجب غمگین ہوتا ہے ، پژمردہ ہوجاتا ہے ۔روتا ہے ۔ اس کے جسم کے اند فیکٹریاں اور ورکشاپیں کام کررہی ہیں ۔ جو

۱۶۳

ہارمون ، زندہ خلیے اور سیال مادے بناتی ہیں اور ساتھ ہی جسم کی عجب متوازن طریقے سے تعمیر کرتی ہیں ۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ النسان کو احساس  بھی نہیں ہونے پاتا کہ عنایت  ربّانی ہر لحاظہ اس کیے ہوئے ہے ، اس کی زندگی میں بھی بلکہ مرنے کے بعد بھی ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشادہے :

" أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى () أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى () ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى () فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى () أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى"

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا یہ پہلے ایک قطرہ منی نہ تھا جو ٹپکایا تھا ۔ پھر وہ خون کالوتھڑا ہوگیا ۔ پھر اللہ نے اسے بنایا اور درست کیا۔ پھر اس کی دوقسمیں  کردیں مرد اور عورت  ۔ تو کیا اللہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے ۔(سورہ قیامت ۔آیات 36 تا 40)

سچ کہا تونے اے ہمارے پالنہار ! تونے ہی ہمیں پیدا کیا اور ہمارے اعضاء کو درست کیا ۔ تو ہی موت دےگا اور تو ہی پھر زندہ کرےگا ۔ پھٹکار ان پر جو  تیری مخالفت کرتے ہیں اور تجھ سے دوری اختیار کرتے ہیں انھوں نے تجھے نہیں پہچانا ۔ ہم اس بحث کو امام علی رضا کے ایک قول پر ختم کرتے ہیں ۔ مامون الرشید کے عہد میں جب کہ ابھی آپ کی عمر پورے چودہ سال بھی نہیں تھی کہ آپ کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تسلیم کرلیاگیا تھا ۔(1)

ایک دفعہ کسی شخص نے آپ سے آپ کے دادا امام جعفر صادق ع کے اس قول کے معنی پوچھے کہ

"لاجبرولاتفويض ولكن أمرٌ بين الامرين "

کو آپ نے فرمایا : جو شخص یہ کہتا ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کرتاہے پھر اللہ ان افعال پر ہمیں عذاب بھ دیتا ہے ، وہ جبر کا قائل ہے ۔اور جو شخص

------------------------

(1):- ابن عبد ربہ اندلسی ، العقد الفرید جلد 3 صفحہ 42

۱۶۴

یہ کہتا ہے کہ اللہ نے پیدا کرنے اور رزق دینے کا کام اماموں کے سپرد کردیا ہے ، وہ تفویض کا قائل ہے ۔ جو شخص جبر  کا قائل ہے وہ کافر ہے اور جو تفویض کا قائل ہے وہ مشرک ہے۔

"الأمرٌ بين الامرين" کے معنی ہیں ان افعال کو بجالانا جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور افعال سے بچنا جن سے اس منع کیا ہے ۔بہ الفاظ دیگر اللہ تعالی نے انسان  کویہ قدرت بخشی ہے کہ وہ برائی کرے یا نہ کرے ۔ساتھ ہی اسے برائی سے منع کیا ہے ۔ اسی طرح اسے یہ بھی قدرت بخشی ہے کہ وہ نیکی کا کام کرے یا نہ کرے ۔لیکن اسے نیکی کے کام کرنے کاحکم دیا ہے ۔

جان عزیز کی قسم ! قضا وقدر کےبارے میں امام ثامن کا یہ بیان کافی وشافی ہے ،جس کو ہرشخص تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سمجھ سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ۔ جب آپ نے آئمہ  کے بارےمیں کہا :

"ان سے آگے نہ بڑھنا اور ان سے پیچھے نہ رہنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے  اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں "(1)

قضا وقدر کی بحث کے ضمن میں خلافت پر تبصرہ

اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہوکر رہتا ہے ۔اوربندوں کے اعمال اللہ چلاتا ہے اور بندوں کو اس ضمن میں کوئی اختیار نہیں ۔ لیکن خلافت کے معاملے میں وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول اللہ ص نے شوری پرچھوڑ دیا تھا ۔ کہ لوگ جس کو پسند

---------------------

(1):- ابن حجر ،الصواعق المحرقہ صفحہ 148 ۔ہیثمی ،مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 163 ۔سلیمان قندوزی ، ینابیع المودۃ صفحہ 41 ۔ سیوطی ،الدر المنثور جلد 2 صفحہ 60 ۔ علی متقی ہندی کنزالعمال جلد 1 صفحہ 168

ابن اثیر اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 137 ۔ حامد حسین عبقات الانوار جلد 1 صفحہ 184

۱۶۵

کریں اسے خلیفہ بنالیں ۔

اس کے  بالکل برعکس ، اگر چہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے سب اعمال  کا اختیار ہے اوراللہ کے بندے جوچاہتے  ہیں کرتے ہیں ۔ مگر خلافت کےبارے میں میں وہ کہتے ہیں کہ یہاں بندوں کو پسند کا کوئی حق نہیں ۔

پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے نقطہ نظر میں بھی تضاد ہے  اور اہل تشیع کے نقطہ نظر میں بھی تضاد  ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔

جب اہل سنت یہ کہتے ہیں"اللہ اپنے بندوں کے اعمال  چلاتا ہے "توان  کایہ قول فی الواقع جو کچھ ہوتا ہے اس سے متضاد ہے ۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اگر چہ اصل اختیار اللہ کو ہے لیکن ظاہری طورپر کچھ اختیار بندوں کو بھی ہے چنانچہ بروز سقیفہ بظاہر تو ابو بکر کو عمر اور دوسرے بعض صحابہ نے منتخب  کیا تھا ، لیکن درحقیقت وہ اللہ کے حکم کو عملی جامہ پہنا رہے تھے اور ان کی حیثیت اہل سنت کے خیال کے مطابق محض ایک واسطے کی تھی اس سے زیادہ  کچھ نہیں ۔

اس کے بر خلاف شیعہ جب یہ کہتے  ہیں کہ اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں کو ان کے افعال کااختیار دیا ہے  تو ان کے اس قول میں اور اس قول میں کہ خلافت کے معاملے میں اختیار صرف اللہ کو ہے ، کوئی تضاد نہیں ہوتا ۔ کیونکہ نبوت کی طرح خلافت بھی بندوں کا عمل نہیں ، اورنہ اس کو طے کرنا  ان کے سپرد ہے ۔جس طرح اللہ تعالی اپنے رسول کو انسانوں  میں سے پسند کرکے مبعوث فرماتا ہے ، بالکل یہی صورت خلیفہ رسول کی  ہے۔لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کریں یا اس کی نافرمانی کریں ۔ خود انبیاء کی زندگی  میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتارہا ہے ۔اللہ کی پسند کےبارے میں بھی بندوں کو آزادی ہے ۔نیک اور مومن اللہ کی پسند کو قبول کرتے ہیں ۔ اور کفران نعمت کرنے والے  اللہ کی پسند کو قبول کرنے سے انکار کرتے اور اس کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

" فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى () وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ

۱۶۶

يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى () قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً ()قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى "

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرےگا وہ نہ بھٹکے گا اور نہ لکلیف میں پڑے گا اور جو کوئی میری نصیحت سے منہ موڑےگا  اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے اندھا کیوں  اٹھایا میں تو آنکھوں والاتھا؟ اللہ کہے گا : یہ  تو ٹھیک ہے لیکن جیسے تیرے پاس ہماری نشانیاں پہنچی تھیں اور تونے انھیں بھلادیا تھا ۔ اسی طرح آج ہم تجھے بھلادیں گے"۔(سورہ طہ ۔آیات 123-126)

پھر اہل سنت والجماعت  کانظریہ اس خاص مسئلے یعنی  خلافت کے بارے میں دیکھیے ۔وہ کسی فریق کو بھی الزام نہیں دیتے ۔کیونکہ جو کچھ ہوا اور جتنا خون بہایا گیا اور جو بھی بدعنوانیاں  ہوئیں ، سب اللہ کی طرف سے تھیں ۔ ایک شخص نےجو صاحب علم ہونے کا مدعی تھا مجھ سے کہا تھا :

"ولو شاء ربّك ما فعلوه"

اگر تیرا پروردگار نہ چاہتا تو وہ یہ سب ،کچھ نہ کرتے ،

لیکن شیعہ نظریہ یہ ہے کہ ہر اس شخص کو ذمہ داری اٹھانی پڑے گی جو بھی کجروی کا سبب بنا اور جس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی اس کو نہ صرف اپنی غلطی کا بو جھ  اٹھانا ہوگا بلکہ ان کی غلطیوں کا بھی جو قیامت تک اس کا اتباع کریں گے ،کیونکہ

"كلّكم راعٍ وكلّكم مسئولٌ عن رّعيّته"

*****

۱۶۷

رسول ص کے ترکہ کے بارےمیں اختلاف

گزشتہ  مباحث سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ خلافت کے بارے میں اہلسنت کی کیا رائے  ہے ، اور شیعوں کی کیا رائے  ہے ، اور ہر فریق کے قول کے بموجب رسول اللہ ص نے اس سلسلے میں کیا اقدام کیا تھا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے : کیا رسول اللہ نے کوئی ایسی قابل اعتماد چیز چھوڑی ہے جس کی طرف اختلاف کی صورت میں رجوع کیاجاسکے ، کیونکہ اختلاف کا ہونا فطری ہے جیسا کہ خود کتاب اللہ سے معلوم ہوتا ہے :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً "

اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور ان کی جو تم میں سے اولی الامر ہیں ۔ اگر تم میں کسی بات پر کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کو لوٹادو اللہ اور رسول  کی طرف ، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور روز آخرت  پر ۔یہ طریقہ اچھا ہے اور اس کا انجام بہتر ہے۔(سورہ نساء ۔آیت 59)

جی ہاں ! رسول اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ امت کےلیے کوئی ایسی بنیاد چھوڑ جائیں جو امت کے لیے سہارے کا کام دے ۔ رسول اللہ ص تو رحمت للعالمین  تھے ۔ ان کی شدید ،خواہش تھی کہ ان کی امت دنیا میں بہتر ین امت ہو اور آپ کے بعد اس میں اختلاف پیدا نہ ہو ۔ اسی لیے صحابہ اور محدثین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔ تم جب تک ان کو تھارہوگے میرے بعدکبھی گمراہ نہیں ہونگے  کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ۔یہ دونوں ایک دوسرے سے

۱۶۸

کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں  تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ۔

یہ صحیح  حدیث ہے اور فریقین کے محدثین نے اپنی کتابوں میں تیس سے زیادہ صحابہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے ۔

چونکہ میری عادت ہے کہ میں شیعوں کی کتابوں اور شیعہ علماء کے اقوال سے استدلال نہیں کیا کرتا ۔ اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ میں ان علماء اہل سنت کے نام گنواؤں  جنھوں نے اس حدیث ثقلین  کی صحت  کا اعتراف کیا ہے اور اسے  اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ اگر چہ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ شیعہ اقوال سے بھی استدلال کیاجائے ۔بہر حال یہ ہے مختصر فہرست ان علمائے اہل سنت کی ، جنھوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے :

1:- مسلم بن حجاج نیشاپوری ، صحیح مسلم فضائل علی بن ابی طالب ع جلد 7 صفحہ 122۔

2:- محمد بن عیسی سلمی ترمذی ۔،جامع الترمذی جلد 5 صفحہ 328۔

3:- احمد بن شعیب بن علی نسائی " خصائص امیر المومنین  صفحہ 21۔

4:- احمد بن محمد بن جنبل  مسند احمد جلد 3 صفحہ 17

5:- محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری  المستدرک علی الصحیحین ، جلد 3 صفحہ 109۔

6:- علاء الدین علی متقی ہندی کنز العمال من سنن الاقوال والافعال جلد 1 صفحہ 154۔

7:- محمد بن سعد زہری بصری الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 194۔

8:- عزالدین ابن اثیر جزری جامع الاصول جلد 1 صفحہ 187۔

9:- حافظ جلال الدین سیوطی  الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 353۔

10:- حافظ نورالدین علی بن ابی بکر ، ہیثمی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 9 صفحہ 163

۱۶۹

11:- نبہانی الفتح الکبیر جلد 1 صفحہ 451۔

12:- عزالدین ابن اثیر جزری  اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 12۔

13:- علی بن حسین  دمشقی المعروف بہ ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشق جلد 5 صفحہ 436۔

14:- اسماعیل بن عمر المعروف بہ ابن کثیر  تفسیر القرآن العظیم جلد 4 صفحہ 113۔

15:- منصور علی ناصف  التاج الجامع للاصول جلد 3 صفحہ 308۔

ان کے علاوہ ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے ۔نیز ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے علی شرط  الشیخین (بخاری ومسلم) صحیح قراردیا ہے ۔خوارزمی حنفی اور ابن مغازلی شافعی نے بھی یہ روایت بیان کی ہے ۔ طبرانی نے اپنی کتاب معجم میں اسے نقل کیا ہے  ۔علاوہ ازیں سیرت حلبیہ کے حاشیہ پر ، سیرت نبویہ میں اور ینابیع المودہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔

کیا اس کے بعد بھی کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ  حدیث ثقلین  (کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی )سے اہل سنت واقف نہیں ، یہ شیعوں کی وضع کی ہوئی ، احادیث میں سے ہے ، تعصب تنگ نظری ،فکری جمود  اورجاہلانہ کٹرپن پر خدا کی مار !

صحیح بات یہ ہے کہ حدیث ثقلین جس  میں رسول اللہ ص نے کتاب اللہ اور عترت طاہرہ سے وابستہ وپیوستہ رہنے کی وصیت کی ہے وہ اہل سنت کے نزدیک بھی صحیح حدیث ہے اور شیعوں کے یہاں تو اور بھی زیادہ تواتر اور صحت سند کے ساتھ

۱۷۰

ائمہ طاہرین سے منقول ہے ۔پھر نہیں معلوم بعض لوگ کیوں اس حدیث میں شک پیدا کرتے اور اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کے الفاظ کو ہو کتاب اللہ وسنتی سے بد ل دیں ۔ اس کے باوجود مفتاح کنوز السنۃ " نامی کتاب کے صفحہ 478 پر مصنف نے  وصیتہ صلی اللہ علیہ وسلم بکتاب اللہ وسنتہ رسولہ " کا عنوان بخاری ومسلم ،ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے سے باندھا ہے لیکن اگر آپ ان چاروں کتابوں میں یہ حدیث تلاش کریں تو اس کا دور دور تک پتہ نہیں چلے گا۔ بخاری  میں ایک عنوان البتہ ہے "کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ "(1) لیکن اس عنوان کے تحت  بھی کتاب میں اس حدیث کا وجود نہیں ۔

زیادہ سے زیادہ بخاری میں ایک حدیث ملتی ہے کہ :

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وصیت فرمائی تھی ،انھوں نے کہا: نہیں ۔ میں نے کہا :پھر باقی سب لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں ہے ؟ عبداللہ بن ابی اولی نے کہا : آپ نے کتاب اللہ کے متعلق وصیت کی تھی(2) ۔

لیکن یہاں بھی  اس حدیث کا وجود  نہیں کہ رسول اللہ ص نے فرمایا :

"تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي".

میں تم میں دوگراں قدر چیزیں چھوڑرہا ہوں ، ایک کتاب اللہ ،دوسرے میری سنت ۔

اگر  فرض کرلیا جائے کہ کسی کتاب میں یہ حدیث موجود بھی ہے جب  بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اجماع حدیث کے دوسرے الفاظ پر ہے ۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ۔علاوہ ازیں اگر ہم کتاب اللہ وسنتی والی حدیث پر ذرا غور کریں تو مختلف وجوہ سے یہ حدیث واقعات کی کسوٹی  پر پوری نہیں اترتی ،نہ عقلا نہ نقلا :

----------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 137۔

(2):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 168۔

۱۷۱

پہلی وجہ : مورخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے ہ رسول اللہ ص نے اپنی احادیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا۔

آپ کے زمانے میں کسی کو سنت نبوی کو مدون کنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس لیے یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ آپ نے "تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"فرمایا ہوگا۔ اس کے برخلاف جہاں تک کتا ب اللہ کا تعلق ہے وہ لکھی ہوئی موجود تھی۔ کا تبان وحی اس کے لکھنے پر مامور تھے نیز اسے صحابہ یاد کرتے تھے ، وہ سینوں میں محفوظ  تھی اس لیے ہر صحابی کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ کتاب اللہ سے رجوع کرسکے ، خواہ وہ حافظ قرآن ہویا نہ ہو۔جہاں تک سنت نبوی کا تعلق ہے وہ آپ کے زمانے میں لکھی ہوئی نہیں  تھی ، نہ آپ کے زمانے میں کوئی احادیث کا مجموعہ تحریری شکل میں موجود تھا ، جیسا کہ  معلوم ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سنت نبوی میں آنحضرت ص کے اقوال ، افعال اور وہ تمام امور شامل ہیں جن  کی آپ نے عملا تصویب کی ہو یعنی صحابہ کو کرتے دیکھ کر منع نہ کیا ہو ۔ یہ بھی معلوم  ہے کہ آپ صحابہ کو خاص طور پر سنت نبوی سکھانے کے لیے کبھی جمع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مختلف موقعوں  کی مناسبت سے گفتگو  فرماتے رہتے تھے ۔ ان موقعوں پر کچھ اصحاب موجود ہوتے تھے اورکبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کے ساتھ صرف ایک ہی صحابی ہوں ۔تو ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ ص یہ فرمادیتے کہ میں تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں ۔

دوسری وجہ : جب وفات سے تین دن قبل رسول اللہ ص کے مرض میں اضافہ ہوگیا اور تکلیف شدید ہوگئی تو آپ نے موجودین سے فرمایا کہ شانے کی ہڈی  اور دوات لے آؤ  میں کچھ  لکھ دوں تاکہ تم پھر کبھی گمراہ نہ ہو ۔ لیکن عمربن خطاب نے کہا : "حسبنا کتاب اللہ " (1) (ہمارے لیے کتاب اللہ کافی ہے ) اگر اس سے پہلے  رسول اللہ ص یہ فرماچکے ہوتے کہ : "تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"تو اس صورت میں عمر بن خطاب کے لیے یہ کہنا کسی طرح جائز نہیں تھا کیونکہ اس

---------------------

(1):- صحیح بخاری بات مرضی النبی ووفاتہ جلد 5 صفحہ 138 صحیح مسلم جلد 2کتاب الوصیہ

۱۷۲

کے معنی  یہ ہوتے  کہ وہ اور دوسرے صحابہ جنھوں نے ان کی تائید کی تھی ، رسول اللہ  ص کی تردید  کررہے ہیں جب کہ معلوم ہے کہ رسول اللہ کی تردید  کرنے والا بلاشبہ کافر ہے ۔ میرے خیال میں اہل سنت والجماعت کویہ بات کبھی بھی پسند نہیں ہوگی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ کرلیجیے کہ عمر بن خطاب نے خود احادیث بیان کرنے پن پابندی عائد کررکھی  تھی ۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت ع کے کسی مخالف کی گھڑی(1) ہوئی ہے اور غالبا اہل بیت ع کو خلافت سے محروم کرنے  کےبعد گھڑی گئی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے یہ حدیث وضع کی ہے وہ خود حیران تھا کہ کیا بات ہے کتاب اللہ سے تو لوگ تمسک کرتے ہیں مگر عترت کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرنےلگے ہیں ۔ اس لیے اس نے سوچا کہ وہ حدیث گھڑ کر ان لوگوں کی روش  کے لیے ایک وجہ جواز مہیا کردے تاکہ صحابہ پر یہ اعتراض نہ کیا جاسکے کہ انھوں نے رسو ل اللہ ص کی وصیت پر عمل کیوں نہیں کیا اور اس کے برخلاف کیوں کیا ۔

تیسری وجہ : ہمیں معلوم ہے کہ اپنی خلافت  کےاوائل  میں ابو بکر  کو جس مسئلے سے سب سے پہلے دوچار ہونا پڑا وہ ان کا یہ فیصلہ تھا کہ مانعین زکات  سےجںگ کی جائے ۔ عمر بن خطاب نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور دلیل کے طور پر کہا تھا کہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ

جو توحید ورسالت  کی گواہی دے اور لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کہے اس کی جان اور اس کا مال میری طرف سے محفوظ ہے ،بجز اس کے کہ کسی حق کی وجہ سے ہو اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔

اگر سنت رسول  ص کو ئی معلوم شے ہوتی تو ابوبکر اس سے ناواقف نہیں  ہوسکتے تھے۔ ان کو تو سب سے پہلے اس کا علم ہونا چاہیے تھا ۔ بعد میں عمر ان حدیث کی اس تاویل سے مطمئن ہوگئے جو ابوبکر نے کی ۔ اورابو بکر کی یہ بات تسلیم کرلی  کہ زکات مال کا حق ہے ۔لیکن رسول اللہ ص کی وہ فعلی

-----------------------

(1):- احادیث کی گھڑنت کے بارے مین علامہ مرتضی عسکری کی کتاب "احیائے دین مین ائمہ اہلبیت ع کا کردار"دیکھیے !

۱۷۳

سنت جس کی تاویل ممکن نہیں دانستہ یا نادانستہ ان لوگوں نے نظر انداز کردی ۔یہ ثعلبہ کا قصہ ہے ، جس نے رسو ل اللہ  کو زکات ادا کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی لیکن رسول اللہ ص نے اس سے جنگ نہیں کی اورنہ اسے زکات ادا کرنے پر مجبور کیا ۔ کیا ابو بکر اور عمر کو اسامہ بن زید کا قصہ بھی معلوم نہیں تھا ؟ اسامہ بے بعد دشمن کا ایک آدمی اسامہ کو ملا جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی کہا :"لا الہ الا اللہ " لیکن اسامہ نے اسے قتل کردیا ۔ جب یہ بات رسول اللہ ص کو معلوم ہوئی تو آپ نے اسامہ سے کہا :

کیا تم نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا؟

اسامہ کہتے ہیں کہ : میں نے عرض کیا : اس نے تو اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا ۔لیکن رسول اللہ ص بار بار وہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا(1)

ان تمام باتوں کے پیش نظر ہمارے  لیے کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جب صحابہ ہی کو سنت نبوی کا علم نہیں تھا تو بعد میں آنے والوں کا تو ذکر ہی کیا ؟ اور ان لوگوں کے متعلق کیا کہاجائے  جو مدینے سے دور رہتے تھے ۔

چوتھی وجہ : ہمیں معلوم ہے  کہ رسول اللہ ص کی وفات کے بعد صحابہ کے بہت سے اعمال  سنت رسول ص کے منافی تھ ے۔لہذا ہمارے سامنے اب دوہی صورتیں ہیں : یا تو کہیں کہ صحابہ سنت رسول ص سے ناواقف تھے یا پھر یہ کہیں کہ وہ عمدا  سنت رسول  کو چھوڑ کر اپنے اجتہاد سے کام لیتے  تھے۔ اگر ہم دوسری صورت کے قائل ہوجائیں تو وہ اس آیت  کامصداق ہوجائیں گے ۔:

"    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَ

-------------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 36 وصحیح مسلم جلد 1 صفحہ 67 کتاب الدیات ۔

۱۷۴

رَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً"

کسی مومن  یا مومنہ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول  ص کسی کا م کا فیصلہ کردیں تو وہ یہ کہیں کہ انھیں اپنے کام میں کچھ اختیار ہے ۔اورجس نے اللہ اور اس کے رسول ص کی نافرمانی کی تو وہ صریحا گمراہ ہوگیا ۔(سورہ اجزاب ۔آیت 36)

اور اگر ہم یہ کہیں کہ صحابہ رسول  ص سے ناواقف تھے ، تو ایسی حالت میں رسول اللہ ص یہ کیسے  فرماسکتے تھے کہ میں تمھارے  درمیان اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں  جب کہ آپ  کو معلوم تھا کہ آپ کے اصحاب اور مقربین  سنت کا پورا علم نہیں رکھتے  بعد میں آنے والوں  کا تو ذکر کیا جنھوں نے آپ کو دیکھا تک نہیں ۔ایسی حالت میں تو آپ کے لیے ضروری  تھا کہ آپ صحابہ  کو احادیث لکھنے کا حکم دیتے تاکہ یہ مجموعہ احادیث مسلمانوں کے لیے قرآن کے بعد مرجع ثانی کا کام دیتا ۔ رہا یہ کہنا کہ آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قرآن وسنت خلط ملط نہ ہوجائیں تو اس کا لغو ہونا ظاہر ہے ۔کیونکہ یہ ممکن تھا کہ وحی ایک خاص  رجسٹر میں جمع کی جاتی اور سنت ایک دوسرے رجسٹر میں ۔ اس طرح دو الگ الگ کتابیں تیار  ہوجاتیں ، جیسا  کہ ہمارے یہاں آج کل قاعدہ ہے ، اس صورت میں ضرور یہ کہنا صحیح  ہوتا کہ میں تمھارے درمیان کتاب اللہ کو اپنی سنت کو چھوڑ رہا ہوں ۔

پانچویں وجہ : یہ تو معلوم ہے کہ سنت کی تدوین  عباسی دور مین ہوئی  اس سے پہلے نہیں ۔ حدیث کی جو پہلی کتاب لکھی گئی وہ موطاء امام مالک ہے یہ فاجعہ کربلااور واقعہ حرہ کے بعد کی بات ہے ۔ واقعہ حرّہ  میں تین دن تک  مدینہ منورہ میں وجیوں  کو آزاد چھوڑ  دیا گیا تھا کہ وہ جو جی چاہے کریں ۔ اس سانحے میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ۔ ان احادیث  کے بعد ان روایوں کا کیسے اعتبارکیا جاسکتا ہے جنھوں نے دنیا کمانے کی غرض سے حکام وقت کاقرب حاصل کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اضطراب اور تناقض پیدا ہوا اور امت مسلمہ

۱۷۵

فرقوں میں بٹ گئی ۔چنانچہ ایک فرقے کے نزدیک جو بات ثابت شدہ تھی وہ دوسرے کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی  اور جسے ایک فرقے نے صحیح قراردیا دوسرے نے اس کی تکذیب کی ۔ان حالات میں ہم کسیے مان لیں کہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہو کہ :

" تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"۔رسول اللہ کو خوب معلوم تھا کہ منافقین اور منحرفین  آپ سے جھوٹی باتیں منسوب کریں گے ۔ آپ نے خود فرمایا تھا :مجھ سے بہت سی جھوٹی باتیں منسوب کی گئی  ہیں ۔ پس جو شخص مجھ سے جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کرے ، وہ اپنا ٹھکانا  جہنّم میں بنالے ۔ (1)جب آپ کی زندگی ہی میں آپ سے بکثرت جھوٹی  باتیں منسوب  کی گئی  ہوں ، تو آپ کیسے اپنی امت کو اپنی سنت کے اتباع کا حکم دے سکتے  تھے جب کہ آپ کے بعد صحیح وغلط مین تمییز  دشوار ہوگئی ۔

چھٹی وجہ : اہل سنت  کی صحاح میں روایت ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنے ثقلین  یعنی دوجانشین یا دوچیزیں  چھوڑیں ۔اہل سنت کبھی روایت کرتے ہیں کہ آپ نے کتاب اللہ وسنۃ رسولہ فرمایا اور کبھی کہتے ہیں کہ آپ نے  علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرّاشدین من بعدی فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث سے  کتاب اللہ  اور سنت رسول اللہ ص میں ، سنت خلفاء  کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح شریعت  کے ماخذ دو کے بجائے تین ہوجاتے ہیں ۔ مگر یہ سب اس حدیث ثقلین  کے منافی  ہے جس پر اہل سنت اور شیعوں کا اتفاق  ہے ۔ اس حدیث میں کتاب اللہ وعترتی  کے الفاظ ہیں اور اس کے لیے ہم نے بیس سے زیادہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کا حوالہ دیا ہے ۔ شیعہ ماخذ اس کے علاوہ ہیں جن کا ہم نے ذکر نہیں کیا ۔

ساتھویں وجہ : رسول اللہ ص کو بخوبی علم تھا کہ آپ کے اصحاب ۔گو

-----------------------

(1):-صحیح بخاری کتاب العلم جلد 1 صفحہ 35

۱۷۶

قرآن ان کی زبان  میں اور جیسا کہ مشہور ہے ، ان کے لہجے میں نازل ہوا ہے ۔ بہت سے مقامات کی تفسیر اور تاویل سے ناواقف تھے ۔ پھریہ کیسے   توقع کی جاسکتی تھی کہ بعد میں آنے ولے ، خصوصا وہ رومی  ، ایرانی ،حبشی اور دوسرے عجمی  جن کی زبان  عربی نہیں تھی اور جو نہ عربی سمجھتے تھے اور نہ بولتے تھے ، قرآن کو کما  حقہ سمجھ پائیں گے روایت  ہے کہ  جب ابو بکر سے اللہ تعالی کے قول  وفاکھۃ وابا کے معنی پوچھے گئے تو انھوں نے کہا : میری کیا مجال کہ میں کتاب اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو ۔(1)

اسی طرح عمر بن خطاب  کو بھی اس کے معنی معلوم نہیں تھے ۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دفعہ  عمربن خطاب نے منبر پر یہ آیت پڑھی ۔

"فأنبتنا فيها حبّاوّعنباوّقضباوّزيتوناوّنخلاوّحدايق غلباوّفاكهة وّأباً"

اس کے بعد کہا : اور تو سب ہمیں معلوم  ہےمگر یہ "ابّ" کیا ہے ؟ اس  کے بعد کہنے لگے :چھوڑو ایسی ٹوہ محض تکلیف ہے ۔اگر تمھیں اب کے معنی معلوم نہیں تو نہ ہوں  ، اس سے فرق کیا پڑتا ہے ۔کتاب اللہ میں جو واضح ہدایت ہے اس پر عمل کرو اور جو سمجھ مین نہ آئے  اسے اس کے رب پرچھوڑدو(2)

جو کچھ یہاں کتا ب اللہ کی تفسیر  کےبارے میں کہا گیا ہے ،اس کا اطلاق سنت نبوی کی تفسیر پر بھی ہوتا ہے ۔چنانچہ  کتنی ہی احادیّث  ہیں جن  کے بارے میں  صحابہ میں مختلف فرقوں میں اور شیعوں اور سنیوں  میں اختلاف  رہا ہے کبھی  اس بارے میں کہ حدیث صحیح یا ضعیف اور کبھی اس بارے میں کہ حدیث کا مفہوم کیا ہے ۔ وضاحت کے لیے میں اس اختلاف  کی چند مثالیں  پیش کرتاہوں

--------------------

(1):-قسطلانی ، ارشاد الساری جلد 10 صفحہ 298 ۔ ابن حجر ، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری  جلد 13 صفحہ 230

(2):- تفسیر طبری جلد 3 کنزالعمال  جلد 1 صفحہ 227 ۔ مستدرک جلد 2 صفحہ 14 ۔تاریخ بغداد جلد 11 صفحہ 468 ۔تفسیر کشّاف جلد3  صفحہ 253 ۔ تفسیر خازن جلد 4 صفحہ 374 ۔ ابن تیمیہ ، مقدمہ اصول تفسیر صفحہ 30 ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم جلد 4 صفحہ 473۔

۱۷۷

1:- حدیث کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف

یہ صورت خلافت ابو بکر کے ابتدائی  ایام میں اس وقت پیش آئی جب فاطمہ بنت رسول  ص  ابو بکر کے پاس
آئیں  اورفدک کی واگزاری کا مطالبہ کیا ۔ جناب فاطمہ س کا دعوی تھا کہ فد ک ان کے والد نے اپنی زندگی میں انھیں عطا کردیا تھا لیکن ان کے والد کی وفات کے بعد ان سے لے لیا گیا ۔ ابوبکر نے اس  دعوے  کو غلط قراردیا  اور اس کی تردید کی کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں فدک جناب فاطمہ س کو دے دیا تھا۔ جناب فاطمہ س نےیہ مطالبہ بھی کیا  کہ ان کے والد کی میراث انھیں دے جائے ۔لیکن ابوبکر نے کہا کہ

رسول اللہ نے فرمایا ہے :

"نحن معاشر الأنبياء لانورث ما تركناه صدقة"

ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔

جناب فاطمہ س نے اس حدیث کو من گھڑت  قراردیا اور اس کے مقابلے  میں قرآنی آیات پیش کیں  نتیجہ یہ ہوا کہ اختلاف  او رجھگڑا بڑھ گیا ۔جناب فاطمہ مرتے دم تک ابو بکر سے ناراض رہیں ، ان سے بات نہیں کرتی تھیں ۔ جیسا کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آیا ہے ۔

ایک اور مثال ام المومنین عائشہ  اور ابوہریرہ  کےاختلاف کی ہے :

اگر کوئی شخص رمضان میں صبح کو ناپاک اٹھے تو عائشہ  کہتی تھیں کہ اس کا روزہ درست ہے ۔ابو ہریرہ  کی رائے  تھی کہ وہ افطار  کرے ۔ امام مالک نے موطا میں اوربخاری ن ےاپنی صحیح میں ام المومنین  عائشہ  اور ام المومنین  ام سلمہ  سے روایت کی ہے وہ دونوں کہتی ہیں کہ رمضان  میں رسول اللہ صبح کو جنب اٹھتے  تھے ہم بستری  کی وجہ سے ،  احتلام  کیوجہ سے نہیں ، پھر وہ روزہ رکھ لیتے تھے ۔ ابو بکر بن عبد الرحمن کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جن دنوں مروان بن حکم

۱۷۸

مدینے کا امیر تھا ،ایک دن میں اور میرے والد اس کے پاس تھے ۔ اس کے سامنے ذکر آیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو شخص صبح کو جنب  اٹھے وہ اس دن افطار کرے ۔

مروان کہنے لگا : عبدالرحمن ! میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ تم ام المومنین  عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ  کےپاس جاکر ذرا ! اس بارے میں دریافت تو کرو ۔ اس پر عبدالرحمان  اور میں حضرت عائشہ  کے پاس گئے ۔ وہاں جاکر عبدالرحمن  نے سلام کیا اور کہا : ام  المومنین ! ہم مروان بن حکم کے پاس تھے ، وہاں ذکر آیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو صبح کو جنب ہو وہ اس دن افطار کرے ، روزہ نہ رکھے ، عائشہ  نے کہا: اس طرح نہیں جیسے ابو ہریرہ کہتے ہیں ۔ عبدالرحمان  ! کیا تمھیں رسول اللہ ص کا طریقہ پسند نہیں؟ عبدالرحمن نے کہا: بخدا یہ بات نہیں ۔ عائشہ نے کہا : اگر ایسا ہے تو میں گواہی  دیتی ہوں کہ رسول اللہ ص احتلام کے بغیر ہم بستری سے صبح کو جنب  ہوتے تھے اور پھر اس دن کا روزہ رکھ لیتے تھے ۔ ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہم وہاں سے نکل کر حضرت ام سلمہ کے یہاں گئے ۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انھوں نے بھی وہی  کہاجو عائشہ  نے کہا تھا۔ اس کے بعد ہم واپس مروان بن حکم کے  پاس  پہنچے اورجو کچھ ان دونوں نے کہا تھا وہ مروان کو بتایا ۔

مروان نےکہا :ابو محمد  ! دروازے پر سواری  موجود ہے ۔تم فورا  سوار ہوکر ابوہریرہ  کےپاس جاؤ ، وہ عتیق میں اپنی زمین  پر ہیں ، انھیں جاکر سب بت بتلاؤ ۔ چنانچہ  عبدالرحمان سوار ہوئے میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا اور ہم دونوں ابوہریرہ کے پاس پہنچے ۔ عبدالرحمن  نے کچھ ویران سے ادھر ادھر کی باتیں پھر اصل موضوع  پر آئے ۔ابو ہریرہ نے کہا: مجھے تو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ، مجھ سے تو کسی نے کہا تھا (1)۔

دیکھئے ! ابو ہریرہ  جیسے صحابی جو اہل سنت کے نزدیک اسلام  میں احادیث  کےسب سے بڑے راوی  ہیں ، کیسے دینی احکام سے متعلق محض ظن وتخمین کی بناپر

---------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 232 باب الصائم یصبح جنبا ۔  تنویر الحوالک شرح موطاء مالک جلد 1 صفحہ 272 "ما جا فی الذی  يصبح جنبا فی رمضان"

۱۷۹

فتوی دے دیتے ہیں اور پھر اسے رسول اللہ سے منسوب کردیتے حالانکہ انھیں یہ تک معلوم نہیں تا کہ یہ بات کس نے بتلائی تھی ۔ ایسے احکام جن کا ماخذ بھی معلوم نہیں اہل سنت ہی کو مبارک ہوں۔

ابو ہریرہ کا ایک اور قصہ

عبد اللہ بن محمد کہتے کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا ہشام بن یوسف نے اورہ کہتے ہیں کہ ہمیں بتلا یا معمر نے ، وہ روایت کرتے ہیں زہری سے ، وہ ابو سلمہ سے ، وہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے ، وہ کہتے ہیں کہ  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"چھوت ، یرقان اور ہامہ (ایک فرضی پرندہ جو جاہلی عربوں کے خیال کے مطابق  اس وقت چیختا رہتا ہے جب تک مقتول کا بدلہ نہ لے لیا جائے) کوئی چیز نہیں ۔ اس پر ایک اعرابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ص ! پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اونٹ صحرا میں  خوبصورت  ہر نوں کی طرح کلیلیں کرتے پھرتے  ہیں پھر ان میں کوئی خارش زدہ اونٹ آملتا ہے تو سب کو خارش ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہ ص نے کہا: یہ بتاؤ ، پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی  تھی ؟

ابو سلمہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے بعد میں ابو ہریرہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"بیماری کو تندرست کے پاس نہ لے جاؤ "

ابو ہریرہ نے پہلی حدیث کا انکار کیا تو ہم نے کہا : آپ نے نہیں کہا تھا کہ چھوت کوئی چیز نہیں ۔ اس پر ابوہریرہ حبشی زبان میں کچھ کہا جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ اور کوئی حدیث ہم نے ابو ہریرہ کو بھولتے نہیں دیکھا(1)

----------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 31 باب لاہامہ ۔صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 32 باب لاعدوی ولا طیرہ

۱۸۰