حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63958 / ڈاؤنلوڈ: 7552
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تو قارئین  ! یہ ہے سنت رسول ص بلکہ یوں کہیے ، یہ ہیں وہ روایات جو خدا کے رسول ص سے منسوب کی گئی ہیں ۔ کبھی تو ابوہریرہ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے جو  حدیث سنائی تھی اس کا انھیں کچھ علم نہیں ،ان سے تو یہ بات کسی نے کہی تھی ۔ اور کبھی جب ان کی بیان کردہ احادیث میں تناقض کی نشان دہی کی جاتی ہے تو وہ کچھ  جواب نہیں دیتے بلکہ حبشی زبان میں کچھ بڑابڑادیتے ہیں ۔

معلوم نہیں اہل سنت کیسے انھیں اسلام کا سب سے بڑا راوی حدیث قرار دیتے ہیں ؟

عائشہ اور ابن عمر کا اختلاف

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر ام المومنین عائشہ کے حجرے کے ساتھ پیٹھ لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں ان کے مسواک کرنے کی آواز آرہی تھی ، اتنے میں میں نے پوچھا : اے ابو عبدالرحمان ! کیا رسول اللہ ص نے رجب کے مہینے میں بھی عمرہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں کیا ہے ۔ میں نے عائشہ سے کہا: اماں جاں ! آپ سن رہی ہیں ابو عبدالرحمان کیا کہتے ہیں  ؟ انھوں نے کہا : کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے رجب میں عمرہ کیا ہے ۔ انھوں نے کہا : ابو عبدالرحمن کو اللہ معاف کرے۔ آپ نے رجب میں کبھی عمرہ نہیں کیا ۔ اور جب بھی عمرہ کیا یہ تو ہر واقعہ آنحضرت کے ساتھ تھے ۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابن عمر یہ گفتگو سن رہے تھے مگر انھوں نے نہ ام المومنین کی تصدیق کی نہ تردید ،بس چپکے ہورہے ۔(۱)

عائشہ  اور ازواج نبی کا اختلاف

ام المومنین  عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سہلہ بت سہیل  ابو حذیفہ کی جو رو جو بنی عامر کی اولاد میں سے تھی  رسول اللہ کے پاس آئی اور بو لی : یارسول اللہ !

---------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۵ بات عمرۃ القضا۔صحیح مسلم جلد ۲ کتاب الحج ۔

۱۸۱

ہم ابو حذیفہ کے غلام !سالم کو اپنا بچہ سمجھتے تھے او ر یہ کہ جب میں بے لباس ہوتی تھی وہ گھر میں اندر چلاآتا تھا ۔اب کیا کرناچاہیے کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک ہی گھر  ہے ۔یہ سن کر رسو ل اللہ ص نے فرمایا : اسے دودھ پلادو ۔ سہلہ نے کہا: میں اسے کیونکر دودھ پلاسکتی ہوں ، اب تووہ جوان ہوگیا ہے اور اس کے داڑھی مونچھ ہے ۔ اس پر رسول اللہ ص مسکرائے اور بولے : اسے دودھ پلاؤ ، اس میں تمھارا کیا جائے گا ، اگر کچھ جائے گا تو ابو حذیفہ کا جائے گا ۔

ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کیا کرتی تھیں اورجس آدمی کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے تو اپنی بہن ام کلثوم کو حکم کرتیں اور اپنی بھتیجوں کو بھی کہ اس آدمی کو اپنا دودھ پلادیں لیکن دوسری امہات المومنین  اس کا انکار کرتی تھیں کہ بڑھ پن میں رضاعت کے سبب کوئی ان کا محرم بن کر ان کے پاس آجاسکتا ہے ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ص نے یہ رخصت خاص سہلہ بنت سہیل کودی بخدا !ایسی رضاعت  کے سبب کوئی ہمارا محرم نہیں بن سکتا(۱)۔

تحقیق کرنے والا جب ایسی روایات دیکھتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا ،لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایسی روایات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت پر حرف آتا ہے حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہ روایات رسول اللہ ص کو ۔ جو خصائل حسنہ کے پیکر تھے اور مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ ایک ایسے شخض کو روپ میں پیش کرتی ہیں جو اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیرتا ہے اور دین اسلام  میں ایسی مضحکہ خیز باتیں داخل کرتا ہے کہ فرزانے تو کیا دیوانے بھی بس ساختہ ہنس پڑیں ۔(غلامی رسول ص میں ،موت بھی قبول  ہے کا نعرہ بلند کرنےوالے )مسلمان کیا ایسی کوئی حدیث قبول کرسکتے ہیں جو خداکے عظیم الشان رسول ص کا اسخفاف کرتی ہو ،عقل کی کسوٹی اور اخلاق  کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو ، ایمانی غیرت کے منافی ہو اور شرم وحیا کا جنازہ نکال دے۔

کیا کوئی غیرت مند مسلمان اپنی بیوی کو اس بات کی اجازت دےسکتا ہے

----------------------

(۱):- صحیح مسلم کتاب الرضاع جلد ۴ صفحہ ۱۱۶ ۔ موطاء امام مالک کتاب الرضاع جلد ۲ صفحہ ۱۱۶

۱۸۲

کہ وہ کسی جوان آدمی کو دودھ پلائے تاکہ وہ اس کی ماں بن جائے ؟؟

اے اللہ کے رسول ص! آپ کی ذات والا صفات ایسی بیہودہ باتوں سے بہت بلند ہے اور یہ آپ پر بہتان عظیم ہے ۔ میں کیسے باورکرلوں کہ وہ رسول ص ، جس نے مرد کے لیے نامحرم عورت کو چھونا اور اس سے ہاتھ ملانا حرام قراردیا ہے ، وہ بڑھ پن میں عورت کا دودھ پینا جائز قراردے سکتاہے ۔(العیاذ باللہ)

میں اس حدیث سازی کا مقصد تو نہیں جانتا یہ جانتا ہوں کہ بات اس حدیث کی حدود سے نکل  کرآگے بڑھ گئی اور سنت جاریہ بن گئی ۔ کیونکہ ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کرتی تھیں ۔ وہ جس شخص کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے اسے رضاعت کے لیے اپنی بہن ام کلثوم کے پاس بھیجاکرتی تھیں۔

ذوق آگہی رکھنے والوں کی معلومات کےلیے بتاتا چلوں کہ لوگوں کا ام المومنین عائشہ کا محرم بن کر ان کے پاس آنا جانا صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا تھا جب ان کی رضاعت پانچ دفعہ ہوئی ہو کیونکہ ام المومنین ہی کی روایت ہے کہ اللہ نے دس دفعہ رضاعت والی آیت اتاری تھی ، پھریہ پانچ دفعہ رضاعت والی آیت سے منسوخ ہوگئی ۔پس یہ آیت برابر پڑھی جاتی تھی ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے بعد بھی قرآن میں تھی۔(۱) (لیکن اب قرآن میں موجود نہیں ہے(۲)۔

--------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۶۷ باب التحریم بخمس رضعات۔

(۲):- یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے  وہی ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی تحریف  نہیں ہوئی ہے ۔ تیسری صدی کے  شیخ صدوق علیہ الرحمۃ سے لے کر پندرھویں صدی کے آیت اللہ خوئی دام ظلہ العالی تک شیعہ علماء کبھی تحریف قرآن کے قائل نہیں رہے، ان کی کتابیں  اور ان کے فتوے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔لیکن خدا معلوم کیوں کچھ لوگ مقطوع السند اخبار آحاد کے سہارے شیعہ دشمنی کی بھڑاس نکالتے ہیں اور شیعوں پریہ سنگین تہمت لگاتے ہیں کہ ان کا قرآن چالیس پاروں کا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اگر کچھ مرسل ،ضعیف یا مقطوع السند  روایتیں شیعہ کتب میں ہین تو اس سے کہیں زیادہ روایات سنی کتب ،احادیث میں بھی ہیں لیکن  یہ کسی طرح بھی قائل اعتبار نہیں مثلا

۱۸۳

<>ام المومنین بی بی عائشہ  آیہ رضاعتعشر رضعات معلومات (شیر خواری کو دس مرتبہ دودھ پلانا معین ہے) کو جزو قرآن بتاتی ہیں اور یہ صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ، سنن دارمی  اور موطاء مالک میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب آیہ رجم(الشيخ والشيخة فارجموهما البتة ) جو  جز و قرآن بتاتے ہیں اور یہ آیت صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،سنن ابی داؤد  ،سنن ابن ماجہ اور موطاء میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ آیت : لاترغبوا عن آبائکم فانّہ کفر بکم"لاترغبواعن آبائكم فإنّه كفرٌ بكم إن ترغبواعن آبائكم" قرآن کا جزو تھی اور ہم اسے پڑھا کرتے تھے ۔یہ آیت صحیح بخاری  ومسند احمد بن  حنبل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

<>سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ام المومنین نےکہا:

 زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کی آیت (آیہ رجم )نازل ہوئی تھی ۔نیز یہ کہ بڑھ  پن میں دس دفعہ دودھ پلانے کی آیت(ورضاعة الکبير عشرا") نازل ہوئی تھی اور ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے رکھی تھی ،جب رسول اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم افراتفری کے عالم میں تھے  توبکری اسے کھاگئی ۔

<>اور صحیح مسلم میں ترقیم ہے کہ ابو موسی اشعری نے بصرے میں تین سو قاریان قرآن کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

ہم  ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو طویل تھا اور  اورجس کا مضمون سورہ توبہ کی طرح سخت تھا ۔بعد میں ہم وہ سورہ بھول گئے  البتہ  اس کی یہ آیت میرے حافظہ میں باقی ہیں :"لوكان لإبن آدم وأديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولا يملاٌ إبن آدم إلّا التراب"

<>اسی طرح ہم ایک سورہ بھی پڑھا کرتے تھے جو "مسبحات " میں سے ایک مشابہ تھا ۔ ہم ہو سورہ بھول گئے  اور مجھے  اس کی فقط  یہ آیت یاد رہ گئی ہے ۔"يايّها الذين آمنوالم تقولون ما لاتفعلون فكتب شهادة في أعناقكم فتسئلون عنهايوم القيامة."

۱۸۴

۲:- سنت رسول ص کے بارے میں فقہی مذاہب کا اختلاف

سنت رسول ص کے بارے میں ابوبکر اور عمر میں اختلاف تھا(۱) ۔ابو برک کا فاطمہ سے اختلاف تھا ۔(۲) ازواج رسول  ص کا آپس میں اختلاف تھا ۔(۳) ۔ ابو ہریرہ کاعائشہ سے اختلاف تھا ۔(۴) عبداللہ بن عمر اور عائشہ کے مابین اختلاف تھا ۔(۵)

-----------------------

حدیث کی معتبر کتابوں سے یہ چند نمونے ہم نے ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے پیش کیے ہیں جو کہتے  پھرتے ہیں کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ۔ حالانکہ قرآن یہی ہے جو دفتین کے بیچ ہے ، نہ کم  نہ زیادہ ۔ اور سب مسلمانوں  کا سی پر ایمان  ہے ۔جو ہم پر بہتان باندھتا ہے ،ہم اس کا اور اپنا معاملہ  اللہ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ وہ احکم الحاکمین ہے ۔

ہم تو بس اتنی سی بات جانتے ہیں کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ، کیونکہ یہ آخری آسمانی شریعت اور خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے :

"انا نحن نزلنا الذکر وانا لة لحافظون "( ناشر)

(۱):- مانعین زکواۃ سے جنگ کے بارےمیں اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔ ہم نے اس قصہ کے ماخذ بیان کردیے ہیں ۔

(۲):- قصہ فدک اور حدیثنحن معشر الانبياء لانورث کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے ماخذ کا بیان بھی گزرچکا

(۳):-بالغ مرد کو دودھ پلانے کے قصے کی طرف اشارہ ہے کہ جو عائشہ سے مروی ہے ۔لیکن دیگر ازواج رسول ص نے اس کے برخلاف کہا ہے۔

(۴):- ابو ہریرہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ص صبح کو جنب ہوتے تھے اور روزہ رکھ لیتے تھے ۔ عائشہ نے ابو ہریرہ کی  اس بات غلط بتلایا ہے ۔

(۵):- اشارہ ہے اس روایت کی طرف کہ رسول اللہ ص نے چار عمرے کیے جن میں سے ایک رجب میں تھا عائشہ نے اس کی تردید کی ہے۔

۱۸۵

عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان اختلاف تھا ۔(۱) علی بن ابی طالب ع اور عثمان بن عفان کے درمیان اختلاف تھا(۲) ۔ جب  صحابہ کے درمیان ہی اتنا اختلاف تھا(۳) تو تابعین  کے درمیان  تو اور بھی بڑھ گیا حتی کہ فقہی مذاہب ستر سے بھی زیادہ ہوگئے ۔ابن مسعود صاحب مذہب تھے ، اسی طرح ابن عمر ، ابن عباس  ، ابن زبیر ، ابن عینیہ ، ابن جریج ، حسن بصری ، سفیان ثوری ،مالک بن انس ،ابو حنیفہ ، شافعی ،احمد بن حنبل سب کے سب صاحب مذہب تھے ۔ ان کے علاوہ اور بہت ہیں ۔ لیکن سلطنت عباسیہ نے اہل سنت کے چار مشہور مذاہب کو چھوڑ کر باقی سب کاخاتمہ کردیا ۔

اگر چہ اب فقہی مذاہب چند ہی رہ گئے ہیں ، پھر بھی ان کے درمیان اکثر فقہی مسائل میں اختلاف ہے ۔ اور اس کی وجہ وہی سنت رسول ص کے بارے میں اختلاف ہے ۔ایک مذہب کسی مسئلے میں حکم کی بنیاد کسی حدیث پررکھتا ہے جسے وہ اپنے زعم میں صحیح سمجھتا ہے ، تو دوسرا مذھب اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے یا کسی دوسرے مسئلے پر نص اور حدیث کی عدم موجودگی کی وجہ سے قیاس کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ، مثلا رضاعت کے مسئلے میں بہت اختلاف ہے ،کیونکہ اس بارےمیں احادیث باہم متضاد ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ایک مذہب کے مطابق ایک قطرہ دودھ پینے  سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ جبکہ دوسرے مذہب  کی رو سے دس یا پندرہ دفعہ دودھ پلانا ضروری ہے ۔

۳:- سنت رسول ص کے بارے میں شیعہ سنی اختلافات

اس معاملے میں شیعہ سنی اختلاف عموما دووجہ سے ہوتا ہے  ایک تویہ کہ

---------------------

(۱):-اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔ دیکھیے صحیح بخاری جلد ۶ صفحہ ۱۲۹۔

(۲):- اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ حج کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔دیکھیے صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۵۳

(۳):- بسم اللہ کےبارے میں ، وضو کے بارےمیں ،مسافر کی نماز کے بارے میں اور ایسے ہی ان گنت دوسرے مسائل

۱۸۶

شیعہ اس حدیث  کو صحیح نہیں مانتے جس کے راوی کی عدالت پائیہ اعتبار سے ساقط ہو خواہ وہ صحابی ہیں کیوں نہ ہو ۔

اہل سنت کے برخلاف  شیعہ اس بات کے قائل نہیں کہ تمام صحابہ ثقہ اور عادل تھے ۔

اس کے علاوہ شیعہ کسی ایسی حدیث کو بھی قبول نہیں کرسکتے جو ائمہ اہل بیت ع کی روایت سےمتصادم ہو ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع کی روایت کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دیتے ہیں خواہ دوسروں کا مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو ۔ اس سلسلے میں ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جن کی قرآن وسنت سے تائید ہوتی ہے اور جن کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ ان میں بعض چیزوں کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔ شیعہ سنی اختلاف  کا ایک اور سبب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک  حدیث کا مفہوم کچھ ہے اور شیعہ اس کے کچھ اور معنی بیان کرتے ہیں ۔ مثلا وہ حدیث جس کا ہم پہلے تذکرہ کرچکے ہیں یعنی :

اختلاف امّتی رحمۃ

اہل سنت تو اس حدیث کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ فقہی مسائل میں مذاہب اربعہ کا اختلاف مسلمانوں کے لیے رحمت ہے ۔

جبکہ  شیعوں کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پاس سفر کرکے جانا اور ایک دوسرے سے علم حاصل کرنا رحمت ہے ۔یہ تشریح امام جعفر صادق کی ہے اور ہم اسے پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

بعض دفعہ شیعہ سنی اختلاف حدیث رسول ص کے مفہوم میں نہیں ہوتا بلکہ اس بارےمیں ہوتا ہے کہ جس شخص یا اشخاص کا حدیث میں ذکر ہے اس سے کون مراد ہے ۔مثلا قول رسول ص ہے کہ

"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين من بعدي"

اہل سنت خلفائے راشدین سے  ابو بکر ، عمر ،عثمان اور علی مراد لیتے ہیں مگر شیعہ بارہ ائمہ مراد لیتے ہیں ۔

اسی طرح رسو ل اللہ کا ایک اور قول ہے :

"الخلفاءمن بعدي اثنى عشركلّّهم من قريشٍ."

۱۸۷

"میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب قریش سے ہوں گے "۔

شیعہ بارہ خلفاء سے بارہ ائمہ اہل بیت ع مراد لیتے ہیں جبکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں  اس کی کوئی تشریح ہے ہی نہیں ۔

کبھی شیعہ سنی اختلاف ان تاریخی واقعات کے بارے میں ہوتا جن کا تعلق رسول اللہ کی ذات سے ہے ۔ جیسا کہ آپ کے یوم بارے میں اختلاف ہے ۔ اہل سنت ۱۲ ربیع الاول کو میلاد النبی مناتے ہیں جبکہ شیعہ اس مہینے کی ۱۷ تاریخ کو محافل میلاد منعقد کرتے ہیں ۔

سنت نبوی کے بارے میں ایسا اختلاف  ہونا قدرتی ہے ۔ اس سے بچنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ کوئی ایسا مرجع موجود نہیں جس کی طرف سب رجوع کرسکیں اور جس کے حکم کو سب مانیں اور جس کی رائے کو سب قبول کریں اور جس پر سب کو اسی طرح اعتمادہو جیسے رسول اللہ ص کی زندگی میں آپ پر تھا ۔

امت کی زندگی میں ایسے شخص کا وجود ہر وقت ضروری ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ رسول اللہ ص اس ضرورت کو نظر انداز کردیتے ۔ آپ کو معلوم تھا اور علام الغیوب نے آپ کو اطلاع دے دی تھی کہ آپ کی امت آپ کے بعد قرآن کی  تاویل کرےگی ۔ اس لیے آپ کے لیے ضروری تھا کہ آپ کوئی معلم مقرر کریں کہ اگر امت کے لیے واقعی ایک ایسے عظیم قائد کا انتظام کردیا تھا جس کی تعلیم وتربیت میں آپ نے ابتدا ہی سے پوری کوشش صرف کی تھی اور جب وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا اور آپ سے اس نسبت وہ ہوگئی جو حضرت ہارون ع کی جناب موسی ع سے تھی ۔تو آپ نے یہ جلیل القدر کام یہ کہہ کر اس کے سپر دکردیا کہ

"أناأُقاتلهم على تنزيل القرآن وأنت تقاتلهم على تاويله".(۱)

--------------------

(۱):-مناقب خوارزمی صفحہ ۴۴۔ ینابیع المودۃ صفحہ ۳۳۲۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد ۱ صفحہ ۲۵ ۔کفایت الطالب صفحہ ۳۳۴ ۔ منتخب کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۶ ۔ احقاق الحق جلد ۶ صفحہ ۳۷

۱۸۸

"اے علی ع! میں تنزیل قرآن کی خاطر جنگ لڑتا ہوں ، اب تم تاویل قرآن کے لیے لڑو۔"

آپ نے یہ بھی فرمایا :

"أنت يا عليّ ! تبيّن لأُمّتي ما اختلفوافيه من بعدي"

علی !جس بات میں میری امت میں میرے بعد اختلاف ہو تم اس بات کو واضح کردینا ۔(۱)

قرآن جو اللہ کی کتاب ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کی تفسیر  اور توضیح کے لیے لڑے یعینی جانفشانی کرے کیونکہ یہ ایک خاموش کتاب ہے جو خود نہیں بولتی  مگر ساتھ ہی متعدد معانی کی حامل ہے ۔ اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔جب قرآن  کی ہ صورت ہے تو سنّت  کی تشریح وتوضیح تو اور بھی ضروری  ہے اور جب قرآن وسنت دونوں تشریح طلب ہوں تو رسول اللہ ص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں ثقلین  ایسے چھوڑیں  جو خاموش اور گونگے ہوں اور جن کی حسب منشاء تاویل وہ لوگ کرسکیں  جسن کے دل میں کجی  ہے اور جو فتنہ برپا کرنا اور دنیا کمانا چاہتے  ہیں اور جن کے متعلق معلوم ہے کہ بعدمیں آنے والوں کے لیے گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ لوگ ان کے ساتھ حسن ظن رکھیں گے ۔ انھیں عادل سمجھیں گے لیکن بعد میں قیامت کے دن پشیمان ہوں گے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا () وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا () رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً"

جس دن  ان کے چہرے آگ میں الٹائے جائیں گے تو وہ کہیں گے اے کاش !ہم اللہ اور رسول ص کی اطاعت کرتے ۔ اورکہیں گے

-------------------

(۱):-مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۱۲۲ ۔تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۴۸۸ ۔ مناقب خوارزمی صفحہ ۲۳۶۔ کنوز الحقائق صفحہ ۲۰۳ ۔ منتخب کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۳۔ ینابیع المودۃ صفحہ ۱۸۲

۱۸۹

کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انھوں نے ہمیں گمراہ کردیا ۔ اے پروردگار ! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر (سورہ احزاب ۔آیات ۶۶ تا ۶۸)

"كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعاً قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لأُولاَهُمْ رَبَّنَا هَـؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ"

جب ایک کے بعد ایک جماعت (جہنم میں)داخل ہوگی تو  وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب ساری جماعتیں جمع ہوجائیں گی تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار  یہ تھے  وہ جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ۔ پس تو ان کو آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ اللہ کہے گا تم میں  سےہر جماعت  کے لیے دوہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔(سورہ اعراف ۔آیت ۳۸)

گمراہی کا سبب یہی ہے ۔کوئی امت ایسی نہیں گزری جس کے پاس  اللہ نے نبی ہادی نہ بھیجا ہو ۔ اور اس کی امت نے اس کے بعد اللہ کے کلام میں تحریف  نہ کی ہو ۔ کیا کوئی شخص بشرط صحت اوربقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام  نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہوگا کہ میں خدا ہوں ، ہرگز نہیں ! قرآن شریف میں ہے :

"مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ"

 خدایا ! میں نے ان سے وہی کہاجس کا تو نے مجھے حکم دیا ۔

لکان لالچ  اورحب دنیا نے عیسائیوں  کو تثلیث کےعقیدے کی طرف دھکیل دیا ۔ حضرت عیسی نے اپنے پیروکاروں کو حضرت محمد ص کی آمد کی بشارت دی تھی ۔

۱۹۰

اسی طرح ان سے پہلے حضرت موسی ع نے بھی یہ بشارت دی تھی لیکن عیسائیوں نے محمد اور احمد ناموں کی تاویل کرکے ان کا مطلب نجات دہندہ بنالیا اورآج تک وہ اس نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں ۔

امت محمدیہ بھی تاویل کی بدولت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئی جس میں سوائے ایک کے سب جہنمی ہیں ۔ اب ہم انھی فرقوں کے درمیان زندگی بسر کررہے ہیں ۔لیکن کیا کوئی ایک فرقہ بھی ایسا ہے جو خود کو گمراہ سمجھتا ہو؟ بالفاظ دیگر کیا کوئی ایک فرقہ ایسا ہے جو یہ کہتاہو کہ ہم کتاب وسنت کی مخالفت کرتے ہیں ؟ اس کے برعکس ہر فرقے کا یہی دعوی ہے کہ ہم کتاب وسنت پر قائم ہیں ۔ آخر پھر حل کیا ہے ؟

کیا رسول اللہ ص کو اس کا حل معلوم نہیں تھا یا خود اللہ تعالی کو حل معلوم نہیں تھا ۔ کیونکہ رسول اللہ ص تو عبد مامور تھے یعنی وہ تو وہی کرتے تھے جو انھیں حکم ملتا تھا ۔ جیسا کہ قرآن مین ہے ۔ :

" فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ () لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ " (۱)

اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے ، اس لیے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ہو اس مشکل کا کوئی  حل تجویز نہ کرے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ بھی دلائل کو دیکھنے کے بعد ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلائل  کو دیکھنے کے بعد زندہ رہے ۔ اللہ تعالی کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نظر انداز کردے اور انھیں بغیر ہدایت کے چھوڑ دے ۔سوائے اس صورت کے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالی کامنشاہی یہ ہے کہ اس کے بندے افتراق وانتشار اور گمراہی میں مبتلا ہوں تاکہ وہ انھیں آتش دوزخ میں جھونک  دے ۔ یہ اعتقاد بالکل غلط اور باطل ہے  میں اللہ سے عفو کا طلب گار ہوں اور توبہ کرتاہوں اس قول سے جو اللہ کی جلالت اور حمکت کے منافی ہے ۔

-----------------------

(۱):-آپ انھیں نصیحت کرتے رہیں کہ آپ نصیحت کرنے والے ہیں ۔ آپ ان  پر داروغہ نہیں ہیں ۔سورہ غاشیہ

۱۹۱

اس لیے رسول اللہ ص سے منسوب یہ قول کہ آپ نے اپنے بعد کتاب اور سنت چھوڑی ہے ، ہماری مشکل کا کوئی معقول حل نہیں ہے ، بلکہ اس سے پیچیدگی مزیدبڑھتی ہے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کی جڑ نہیں کٹتی ۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ جب لوگوں نے اپنے امام کے خلاف بغاوت کی تو انھوں نے یہی نعرہ لگایا  یا تھا کہ :

"ليس الحكم لك يا علي ُّ وإنّما الحكم للّه".

علی ! تمھارا نہیں اللہ کا حکم چلے گا ۔

بہ ظاہر یہ نعرہ بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے  کہ نعرہ لگانے والا اللہ کے حکم کا نفاذ چاہتا ہے اور غیراللہ کا حکم ماننے سے انکاری ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ "

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی گفتگو  دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر  پر اللہ کو گواہ بناتے  ہیں حالانکہ وہ سخت جھگڑا لو ہیں "۔(سورہ بقرہ ۔آیت ۲۰۴)

جی ہاں ! ایسا اکثر ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیاگیا ہے ۔آئیے اس کو سمجھ لیں کہ کیسے ؟:

جب خوارج امام علی ع سے یہ کہتے تھے کہ حکم آپ کا نہیں اللہ کا چلے گا ،  تو کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ زمین پراتر کر آئے گا اور سب کے سامنے ظاہر ہو کر ان کے اختلافی مسائل  کا تصفیہ کے گا ۔ یا وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کا حکم تو قرآن میں ہےلیکن یہ سمجھتے تھے کہ علی ع نے قرآن کی غلط تاویل کی ہے ۔ اگر ایسا تھا تو ان کے پاس

۱۹۲

اس کی کیا دلیل تھی  ، جب کہ علی ع ان سے زیادہ عالم تھے ، ان سے زیادہ  راستباز تھے اور ان سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ کیا علی ع سے بڑھ کربھی کوئی اسلام کا ہمددرد اور وفادار ہوسکتا تھا ؟

معلوم ہوا کہ یہ محض دل فریب نعرہ تھا جس کا مقصد سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف  بنا کر ان کی تائید اور جنگ میں ان کی معاونت حاصل کرنا تھا ۔ آج بھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔وہی زمانہ وہی لوگ ۔ مکر وفریب کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ آج کے مکار اور عیار ۔لوگ اگلوں  کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہمارے زمانے میں بھی کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

آج بھی چمکتے دمکتے ہوئے دل فریب نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ مثلا " وہابی ، توحید  کی حمایت اور شرک کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ اب کون مسلمان ہے جو اس اصول سے اتفاق  نہیں کریگا ۔ ایک فرقے نے تو اپنا نام ہی اہل سنت والجماعت رکھ چھوڑا ہے ۔کون مسلمان نہیں چاہے گا کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ہو جو سنت رسول  کا اتباع کرتی ہو ۔

بعث پارٹی کا نعرہ ہے :

"أُمّةٌ عربيّةٌ وّاحدةٌ ذات رسالةٍ خالدةٍ"

غیر فانی پیغام کی حامل ایک متحد عرب قوم  کو ن مسلمان اس نعرے سے دھوکا نہیں کھاجائےگا اگر اسے اس پارٹی اور اس کے عیسائی بانی مائیکل عفلق کے خفیہ عزائم  کا علم نہیں ۔آفرین ہے آپ کو اے علی بن  ابی طالب ع ! آپ کے حکیمانہ اقوال آج بھی قائم ودائم ہیں اور ہمیشہ زمانے کے کانوں میں گونجتے رہیں گے !

" فکم من کلمةٍ حق يراد بها باطل "

کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ صحیح بات کا غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

ایک عالم نے منبر پر چڑھ کر بہ آواز بلند فرمایا :

۱۹۳

جو کہے گا میں شیعہ ہوں ، ہم اس سے کہیں گے کہ تو کافر ہے اور جو کوئی کہے گا میں سنی ہوں ، ہم اس سے بھی کہیں گے تو کافر ہے ۔ہمیں شیعہ چاہییں نہ سنی ۔ہمیں فقط مسلمان چاہیئیں۔

یہاں بھی صحیح بات کا غلط مطلب لیا گیا ہے ۔ معلوم نہیں یہ عالم  کس اسلام کی بات کررہا تھا ؟

آج دنیا میں متعدد اسلام ہیں بلکہ قرن اول ہی میں متعدد اسلام تھے ۔ علی ع کا بھی اسلام تھا اور معاویہ کا بھی اسلام تھا اور دونوں کے پیروکار بھی تھے ، آخر لڑائی تک کی نوبت پہنچی ۔

پھر حسین  ع کا بھی  اسلام تھا اور یزید کا بھی اسلام تھا جس نے اہلبیت  کو اسلام ہی کے نام پر تہہ تیغ کیا ۔ اس سے دعوی کیا تھا کہ چونکہ حسین ع نے اس کے خلاف خروج  کیا ہے اس لیے وہ اسلام  سےخارج ہوگئے ہیں ۔ پھر ائمہ اہل بیت اور اس کے حامیوں کا اسلام تھا اور حکمرانوں اور ان کے عوام کا اسلام تھا ۔ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں  میں اس طرح کا اختلاف رہا ہے ۔ آج بھی ایک طرف تو ان لوگوں کا اسلام ہے جنھیں مغرب اعتدال پسند اور روشن خیال کہتا ہے کیونکہ اسلام کے پیروکار وں نے یہود ونصاری کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے اور یہ لوگ سپر پاورز کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ دوسرا اسلام   ان کے کٹر مسلمانوں کا ہے جنھیں مغرب بنیاد پرست ، متعصب ، دقیانوسی اور مذہبی دیوانے کہتا ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس  عالم اور خطیب نے بعد میں اپنے خیالات سے رجوع کرلیا تھا ۔

ان اسباب کے پیش نظر جو ہم نے گزشتہ اوراق میں بیان کیے ۔ اس کی گنجائش  باقی نہیں رہتی کہ کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث کو صحیح تسلیم کیا جاسکے ۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ دوسری  حدیث  کتاب اللہ وعترتی ہی صحیح ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ اس حدیث سے تمام مشکلات حل  ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم اہل بیت ع کی طرف رجوع کریں جن کی

۱۹۴

رجوع کر نے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ تو پھر کسی آیت کی تفسیر میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ۔ خصوصا اگر یہ ذہن میں رکھیں  کہ یہ ائمہ جن کو خود رسول اللہ ص نے مقرر کیا وہیک اس کام کے اہل ہیں اور مسلمانوں میں کوئی ان کے علم کی وسعت  میں اور ان کے زہد وتقوی میں شک نہیں کرتا ۔ وہ تمام فضائل  میں دوسروں  سے بڑھ کر ہیں ۔ لہذا وہ قرآن کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور نہ اس کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ۔ بلکہ تا قیامت اس سے جدا نہیں ہوں گے  ۔رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔

"میں تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑرہا ہوں :ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو مثل رسی کے آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے اور دوسری میری عترت ہے یعنی میرے اہل بیت ع یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک  کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیںگے۔

چونکہ میں سچوں  کےساتھ شامل ہوناچاہتا ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں فقط حق بات کہوں گا اورکسی کی ملامت یا اعتراض کی پرواہ نہ کروں ۔ میرا مقصد لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے  اللہ سبحانہ  کی رضا کا حصول اور خود انپے ضمیر کا اطمینان  ہو کیونکہ غیروں کا تو یہ حال ہے کہ

"وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ"

تم سے ہر گز خوش نہیں ہوں گے نہ یہود اور نہ نصاری ،جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگو ۔

اس کی تمام بحث میں شیعہ ہی حق پر ہیں ۔ کیونکہ اہل بیت ع کے معاملے میں انھوں نے رسول اللہ کی وصیت پر عمل کیا  ہے اہل بیت ع کی امامت کو تسلیم کیا ہے اور اہل بیت ع کی اطاعت اور ان کی متابعت کے ذریعے  اللہ کا قرب  حاصل کرنے  کی کوشش کی ہے ۔ پس شیعوں کو دنیا اور آخرت کی یہ کامیابی مبارک ہو ۔حدیث میں

۱۹۵

ہے کہ " آدمی حشر ان کےساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے ۔" پھر کیا کہنے اس شخص کے جو اہل بیت سے محبت بھی رکھتا ہو اور ان کا اتباع بھی کرتا ہو ۔ زمخشری نے اس بارے مین کہا :

"كثرالشّكُّ والإختلاف و كلّ

يدّعى أنّه الصّراطُ السّويّ

فتسّكتُ بلآ إله إلّا الله

وحبّي لأحمد وعلى

فازكلبٌ بحبّ أصحاب كهف

فكيف أشقى بحبّ آل النّبي

شک اور اختلاف بہت بڑھ گیا ہے اور ہر شخص کا دعوی ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے ۔ ایسے میں دو چیزوں  کو مضبوطی سے تھا م لیا ہے : ایک ریسمان لا الہ الّا اللہ کو اور دوسرے احمد ص وعلی ع کی محبت کو ۔ اصحاب کہف سے محبت کے سبب اگر ایک کتا کامیاب ہوسکتا ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ آل محمد سے محبت کے باوجود مجھے درمقصد نہ ملے ۔

سعدی گر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد ص بس است وآل محمد

اے اللہ ! تو ہمیں ان لوگوں میں سے بنادے جنھوں نے ولائے اہل بیت ع کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے ۔ جو ان کے راستے پر گامزن ہیں ، ان کی کشتی پر سوار ہیں ۔ ان کی امامت کے قائل ہیں اور جو ان کی جماعت میں محشور ہوں گے بے شک تو جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلنے  کی توفیق دے دیتا ہے ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۱۹۶

خمس

یہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن پر شیعوں اورسنیوں میں اختلاف ہے اس سے قبل کہ ہم کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کریں ، خمس کے موضوع پرمختصر بحث ضروری ہے ،جس کی ابتدا ہم قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔:

"وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ "

اور یہ جان لو کہ جو مال تمھیں حاصل  ہو اس کا پانچواں  حصہ اللہ اور رسول  ص کے لیے ، رسول ص کے قرابتداروں کے لیے اور یتیموں  ناداروں اورمسافروں کے لیے ہے ۔(سورہ انفال ۔ آیت ۴۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

" أمركم بأربعٍ :الأيمان بالله وإقام الصّلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تؤدّوا الله خمس ما غنمتم ."

اللہ تعالی نے تمھیں چار چیزوں کا حکم دیا ہے : ایمان با اللہ کا ، نماز قائم کرنے کا ،زکات دینے کا اور اس کا کہ تم جو کچھ  کماؤ اس کا پانچواں حصہ اللہ کو ادا کرو۔(۱)

چناںچہ شیعہ تو ائمہ اہل بیت ع کی پیروی کرتے ہوئے جو مال انھیں سال بھر میں حاصل ہوتا ہے اس کا خمس نکالتے ہیں ۔ اور غنیمت کی تشریح یہ کرتے ہیں

-----------------------

(۱):- صحیح بخاری  جلد ۴ صفحہ ۴۴

۱۹۷

کہ اس سے مراد نفع ہے جو آدمی کو عام طور پر حاصل ہوتا ہے ۔

اس کے برخلاف اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ خمس(۱) اس مال غنیمت سے مخصوص ہے جو کفار سے جنگ کے دوران میں حاصل ہو ۔ ان کے نزدیک "ماغنمتم من شیء " کے معنی ہیں کہ جو کچھ تمھیں جنگ کے دوران میں لوٹ کے مال سے حاصل ہو(جبکہ آیت میں دارالحرب کا خصوصیت سے ذکر نہیں اور من شیء کے الفاظ عمومیت کے حامل  ہیں )

-------------------------

(۱):-خمس کے موضوع پر صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد  ،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث  موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے نماز اور زکواۃ کے ساتھ خمس کی ادائیگی  کو بھی واجب قراردیا تھا ۔

اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف صحیح مسلم سے ایک روایت کامتن درج کررہے ہیں ۔طالبان تفصیل  علامہ سید ابن حسن نجفی صاحب کی کتاب مسئلہ خمس ملاحظہ فرمائیں ۔

"ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض  کی یا رسول اللہ ! ہم ربیعہ کے قبیلے سے ہیں اور ہمارے دور آپ کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل ہے اور حرمت والے مہینوں کے علاوہ  دوسرے زمانے میں ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے ! لہذا آپ ہمیں کوئی ایسی ہدایت  فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل  پیراہوں  اوراپنے دوسرے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیں ۔ آپ نے فرمایا : تم کو حکم دیتاہوں چار باتوں کے لیے اور منع کرتا ہوں چارباتون سے ۔پھر آپ نے تو ضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ گواہی  دو اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے خداکے اور محمد ص اس  کے رسول  ہیں ۔ نیز نماز قائم کرو ، زکواۃ دو اور اپنی کمائی میں سے خمس اداکرو ۔(صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۹۳ مطبوعہ لاہور) (ناشر)

۱۹۸

یہ خلاصہ ہے خمس کے بارے میں فریقین کے اقوال کا ۔ میں حیران ہوں کہ کیسے میں خود کو یاکسی اور کو اہل سنت کے قول کی صحت کیایقین دلاؤں  جب کہ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں اہل سنت نے اموی حکمرانوں کے قول پر اعتماد کیا ہے خصوصا معاویہ بن ابی سفیان کی رائے پر ۔جب کہ معاویہ بن ابی سفیان نے مسلمانوں کے اموال  پر قبضہ کرکے  سب سونا چاندی  اپنے لیے  اور اپنے  مقربین  کے لیے مخصوص  کرلیا تھا اور اس کا نگران اپنے بیٹے یزید کوبنالیا تھا جو بندروں اور کتوں کو سونے کے کنگن پہنا تا تھا جب  کہ بعض مسلمان بھوکے مرتے تھے ۔

اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں  کہ اہل سنت خمس کو دارالحرب سے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ یہ آیت ان آیات کے درمیان واقع ہوئی ہے جن کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی تفسیر اہل سنت اگر کوئی مصلحت  اس کی مقتضی  ہو تو ان سے پہلی یا بعد کی آیات کے معنی کی مناسبت سے کرتے ہیں ۔مثلا وہ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر ازواج رسول ص سے مخصوص ہے کیونکہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات میں ازواج رسول ص ہی کا ذکر ہے ۔اسی طرح  اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ اہل کتاب سے  مخصوص ہے :

" وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"

جو لوگ سونا چاندی جوڑ کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیدیجیے ۔(سورہ توبہ ۔آیت ۳۴)

اس سلسلے میں ابوذرغفاری رض  کے معاویہ اور عثمان سے اختلاف کا اور ابوذر کا ربذہ میں شہر بدر  کیے جانے کا قصہ مشہور ہے ۔ابو ذر جو سونا چاندی جمع کرنے پر اعتراض کرتے تھے ۔ وہ اسی آیت سے استدلال کرتے تھے ۔ لیکن عثمان نے کعب الاحبار سے مشورہ کیا تو کعب الاحبار نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب سے مخصوص ہے ۔ اس پر ابوذر غفاری رض غصّے  سے بولے : یہودی کے بچے ! تیری ماں تجھے روئے اب تو ہمیں ہمار دین سکھائے گا ؟اس پر عثمان ناراض ہوگئے اور ابوذر کو ربذہ

۱۹۹

میں شہر بدر کردیا ۔ وہ وہیں ! کیلے پڑے پڑے کس مپرسی کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی بیٹی کو کوئی ایسا شخص بھی دستیاب نہ ہوسکا جو ان کو غسل وکفن دے سکتا ۔

اہل سنت نے آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کی تاویل کو ایک فن بنادیا ہے ۔ ان کی فقہ اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ اس معاملے میں وہ ان خلفائے اولین اور مشاہیر صحابہ کا اتباع کرتے ہیں ۔ جو نصوص صریحہ کی تاویل کرتے ہیں (۱)

اگر ہم ایسے تمام نصوص گنوانے لگیں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی  تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے کافی ہے کہ وہ النص والاجتہاد نامی کتاب کا مطالعہ کرے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ تاویل کرنے والوں نے کس طرح اللہ کے احکام کو کھیل بنادیا ۔

اگر میرا مقصد تحقیق ہے تو پھر مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی اپنی  خواہش کے مطابق یا جس مذہب  کی طرف میرا رجحان ہے اس کے تقاضوں کے مطابق تاویل کرنے لگوں ۔

لیکن اس کاکیا علاج کہ اہل سنت نے خود ہی اپنی صحاح میں وہ روایات بیان  کی ہیں جن کے مطابق دارالحرب سے باہر خمس کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے اور اس طرح اپنے مذہب اور اپنی تاویل کی خود ہی تغلیط  اور تردید کردی ہے ۔مگر معما پھر بھی حل نہیں ہوتا ۔

معما یہ ہے کہ آخر اہل سنت ایسی بات کیوں کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے ۔وہ اپنی حدیث کی کتابوں  میں وہی اقوال بیان کرتے ہیں جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ لیکن ان کا عمل سراسر مختلف  ہے ۔آخر کیوں  ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ خمس کا موضوع بھی ان ہی مسائل میں سے ہے جن کےبارے میں سنی خود اپنی روایات پر عمل نہیں کرتے ۔

------------------------

(۱):- علامہ شرف الدین اپنی کتاب النص والاجتھاد میں نصوص صریحہ میں تاویل کی سور سے زیادہ مثالیں جمع کی ہیں جسے تحقیق مقصود ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے

۲۰۰

صحیح بخاری کے ایک باب میں ایک عنوان ہے : "فی الرّکا ز الخمس"(دفینے میں خمس ہے)۔ مالک اور ابن ادریس کہتے ہیں کہ رکاز وہ مال ہے جو قبل از اسلام دفن کیا گیا تھا ۔ یہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں خمس ہے ۔جبکہ معدنی ذاخائر رکاز یا دفینہ نہیں ہیں ۔رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ رکاز میں خمس ہے ۔(1)

ابن عباس کہتے  ہیں کہ عنبر رکاز نہیں ہے ۔ وہ تو ایک چیز ہے جسے سمندر پھینکتا لیکن حسن بصری کہتے ہیں کہ عنبر اور موتی میں بھی خمس ہے ۔(2) اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غنیمت کا وہ مفہوم جس پر اللہ تعالی نے خمس واجب کیا ہے دار الحرب سے مخصوص  نہیں کیونکہ رکاز یا دفینہ وہ خزانہ ہے جو زمین کے اندر سےنکالا جائے ۔ یہ خزانہ ملکیت ہوتا ہے اسی کی جو اس کو نکالے لیکن اس پر خمس کی ا دائیگی واجب ہے اس لیے کہ دفینہ بھی مال غنیمت ہے ۔ اسی طرح عنبر اور موتی جو سمندر سے نکالے جائیں ان پر بھی خمس نکالنا واجب ہے ، کیونکہ وہ بھی مال غنیمت ہیں ۔بخاری نے اپنی صحیح  میں جو روایات بیان کی ہیں ان سے اور مذکور بالا احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کے اقوال اور ان کے افعال میں تضاد ہے ورنہ بخاری تو اہل سنت کے معتبر ترین محدث ہیں ، ان کی روایات پر عمل نہ کرنے کے کیا معنی ؟شیعوں کی ہمیشہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہے ۔ اس میں نہ کوئی تضاد ہوتا ہےنہ اختلاف ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بھی اور احکام میں بھی ائمہ اہلبیت ع کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر  اتری ہے اورجن کو رسول اللہ  نے کتاب اللہ کے ہمدوش قراردیا ہے ۔ پس جس نے ان کا دامن پکڑ لیا وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس نے ان کی پناہ حاصل کرلی وہ محفوظ ہوگیا ۔علاوہ ازیں اسلامی حکومت کے قیام  کے لیے ہم جنگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔یہ بات

---------------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 134 باب فی الرّکاز الخمس

(2):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 136 باب ما یستخرج من البحر

۲۰۱

اسلام کی وسیع النظری  اور صلح پسندی کے خلاف ہے ۔ اسلام کوئی سامراجی حکومت نہیں ہے جس کامقصد دوسری قو موں کا استحصال کرنا ، ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور انھیں لوٹنا ہو ۔ یہ تو وہ الزام  ہےجو اہل مغرب ہم پر لگاتے ہیں ۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام  کا ذکر حقارت کے ساتھ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس کا مقصد غیر قوموں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا ہے ۔

مال زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔خصوصا ایسی حالت میں جبکہ اسلام کا اقتصادی نظریہ یہ ہے کہ لوگوں کو معاشی تحفظ کی ضمانت دی جائے جسے آج کال کی اصطلاح میں سوشل سیکیورٹی کہا جاتا ہے اور ہر فرد  کی ماہوار یا سالانہ  کفالت کا انتظام کیاجائے نیز معذوروں اورحاجت مندوں کو باعزت روزی کی ضمانت فراہم کی جائے ۔

ایسی حالت میں اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس آمدنی پر انحصار کرے جو اہل سنت زکات کے نام سے نکالتے ہیں جس کی مقدار زیادہ زیادہ ڈھائی فیصد ہوتی ہے ۔یہ تناسب اتنا کم ہوتا ہے کہ حکومت کی ایسی ضروریات کے لیے ناکافی  ہے مثلا افواج کو کیل کانٹے سے لیس کرنا ، اسکول اور کالج بنانا ، ڈسپنسر یاں اور ہسپتال قائم کرنا ، سڑکیں اور پل تعمیر کرنا وغیرہ ۔ حالانکہ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شہر کو اتنی آمدنی کی ضمانت دے جو اس کے گزربسر کے لیے کافی ہو ۔ اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے اداروں اور افرادکی بقا اورترقی کے لیے خوں ریز جنگوں پن انحصار کرے یا ان مقتولین کی قیمت پر ترقی کرے جو اسلام میں دلچسپی نہ رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیے گئے ہوں ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سب بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تمام اشیائے صرف پر ٹیکس لگاتی ہیں جس کی مقدار تقریبا بیس فیصد ہوتی ہے ، خمس کی بھی اتنی ہی مقدار اسلام نے اپنے ماننے والوں پر فرض کی ہے ۔ اہل فرانس  جو T.V.A ادا کرتے ہیں اس کی مقدار 1865 فیصد ہوتی ہے ۔ اسے کے ساتھ اگر انکم ٹیکس کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ مقدار 20 فیصد یا کچھ زیادہ ہوجاتی ہے ۔

۲۰۲

ائمہ اہل بیت ع کو قرآن کے مقاصد کا دوسروں سے زیادہ  علم  تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ ترجمان قرآن تھے ۔ اسلامی  حکومت کی اقتصادی  اور اجتماعی  حکمت عملی وضع کرنا ان کا کام تھا بشرطیکہ ان کی بات مانی جاتی مگر افسوس کہ اقتدار اور اختیار دوسروں کے ہاتھ میں تھا ، جنھوں نے طاقت کے بل پر زبردستی خلافت پر قبضہ کرلیا تھا اور متعدد صحابہ صالحین  کو قتل کردیا تھا اور اپنی سیاسی اور دنیوی مصلحتوں کے مطابق اللہ کے احکام میں ردّ  وبدل کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ نتیجۃ امت پستی کے تحت الثری میں گرگئی جس سے وہ آج تک نہیں ابھرسکی ۔

ائمہ کی تعلیمات نے ایسے افکار اور نظریات کی شکل اختیار کر لی جن پر شیعہ آج بھی یقین رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی تطبیق کی کوئی صورت نہ رہی شیعوں کو مشرق ومغرب میں ہر طرف دھتکار دیا گیا ۔ اموی اور عباسی صدیوں تک ان کا پیچھا کرتے رہے ۔

جب یہ دونوں حکومتیں ختم ہوگئیں تب جاکر شیعوں کو ایسا معاشرہ قائم کرنے کا موقع ملاجس میں وہ خمس ادا کرسکتے تھے ۔ پہلے وہ خمس خفیہ طور پر ائمہ علیھم السلام  کو ادا کرتے تھے ، اب وہ اپنے مرجع تقلید کو امام مہدی علیہ السلام کے نائب کی حیثیت میں اداکرتے ہیں ۔ اور مراجع تقلید اس رقم  کو شرعی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔  مثلا وہ اس رقم سے دینی مدارس ،علمی مراکز ، اشاعت اسلام کے لیے اشاعتی ادارے نیز خیراتی ادارے ، پبلک لائبریاں اور یتیم خانے وغیرہ قائم کرتے  ہیں ۔دینی علوم کے طالب علموں کو ماہانہ وظائف وغیرہ بھی دیتے ہیں ۔

اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ علماء حکومت کے دست نگر نہیں اس لیے کہ خمس کی رقم ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں بلکہ وہ خود مستحقین کو ان کے حقوق پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے وہ حکمرانوں کا تقرّب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اس کے بر خلاف ، علمائے اہل سنت حکام وقت کے دست نگر اور ان کے ملازم ہیں ۔ حکام اپنی مصلحت کے مطابق جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں اور جس کو

۲۰۳

چاہتے ہیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس طرح علماء کا تعلق عوام سے کم اور ایوان اقتدار سے زیادہ ہوگیا ہے ۔

اب آپ خود دیکھیے کہ خمس کے حکم کی تاویل کا امت کے معاملات پر کیا اثر پڑا ۔ اس صورت میں ان  مسلمان نوجوانوں کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اسلام کو چھوڑ کر کمیونزم کا راستہ اس لیے اختیار کرلیا کہ انھیں کمیونزم کے نظریہ میں اس نظام کی نسبت جو ہمارے یہاں رائج ہے ،دولت کی تقسیم قوم کے تمام افراد میں زیادہ منصفانہ نظرآئی۔

ہمارے یہاں تو ایک  ظالم طبقہ ایسا ہے جو ملک کی ساری دولت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جبکہ ملگ کی غالب افلاس میں دن گزار رہی ہے ۔ جن دولت مندوں کے دل میں تھوڑا بہت اللہ کا خوف ہے ، وہ بھی سال میں ایک مرتبہ زکات نکالنے کو کافی سمجھتے ہیں جو فقط ڈھائی فیصد ہوتی ہے اور جس سے غریبوں کی سالانہ ضرورت کا دسواں حصہ بھی پورا نہیں ہوتا ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۲۰۴

تقلید

شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے : نماز ، روزہ ، زکات اور حج وغیرہ ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے :-

الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔

ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ  احتیاط کی گنجائش ہو ۔

ج:- یا پھر کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے ۔

جس کی تقلید کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ ، عاقل ، عادل  پر ہیز گار اور دین پر عامل ہو۔ اپنی خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو بلکہ احکامات الہی  کی پیروی کرتا ہو۔

فرعی احکام میں اجتہاد(1) تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے ،اگر کوئی ایک بھی

--------------------

(1):-اجتہاد کی اصطلاح  شیعوں کے ہاں بھی موجود ہے لیکن اس کے اس کے وہ معنی جو سنیوں نے عملی طور پر اسے دے دیے ہیں ۔ سنیوں کے ہاں عملا اجتہاد میں "ذاتی رائےکے اظہار" کا عنصر بھی موجود ہے جبکہ  شیعوں میں اجتہاد فقط احکام الہی کو سمجھنے  کی کوشش کا نام ہے اور مجتہد کسی طور پر بھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ اصطلاح کی تعریف کرتے وقت دونوں مکاتب کی اصولی کتابوں میں ایک ہی جملہ استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے سنیوں  میں فقیہ یا غیر معصوم  صحابی کی رائے   کا احکام میں دخل ہے ۔جبکہ شیعوں کا مکتب صرف خدا اور رسول کے احکامات وارشادات کو معتبر گردانتا ہے ۔مثلا امام محمد باقر ع یا امام جعفر صادق  ع یہ نہیں کہتے تھے کہ انا اقول :(میں کہتا ہوں ) کہ انا احرّم (میں حرام کرتاہوں ) بلکہ یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے : یا خدانے یوں فرمایا ہے ۔یہ مکتب اہل بیت ع کا امتیاز ہے ۔

مکتب اہل بیت ع کے اصول تفکر کے نمونے کے طورپر ہم آپ کے لیے ایک بزرگ عالم  

۲۰۵

مسلمان جس میں اس کا م کی علمی لیاقت اور استعداد ہے ، اس کام کو کرلے تو باقی مسلمانوں سےیہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔

شیعہ ان علماء کا اجتہاد کافی سمجھتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنے میں صرف کی ہو ۔ مسلمانوں کے لیے ایسے مجتہد کی تقلید کرنا اور فروع دین میں اس کی طرف رجوع کرنا جائز ہے ۔لیکن اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ اس کا حصول سب کے لیے ممکن ہے ۔ اس کے لیے بہت وقت اور بہت وسیع علمی  معلومات کی ضرورت ہوتی ہے ، اوریہ سعادت صرف اسے ہی میسّر آتی ہے جو سخت محنت  اور کوشش کرتا اور اپنی عمر تحقیق وتعلم میں کھپاتا ہے ۔ ان میں بھی اجتہاد  کا رتبہ صرف خاص خاص خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوتا ۔

رسو ل اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"من  أراد الله به خيرا يفقّهه فی الدين"

اللہ جس کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطاکردیتا ہے ۔

اس سلسلے میں شیعوں کا  یہ قول اہل سنت کے ایسے ہی قول سے مختلف  نہیں ۔ صرف بارے میں اختلا  ہے کہ تقلید کے لیے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ۔

لیکن شیعوں اور سنیوں میں واضح اختلاف اس میں  ہے کہ تقلید پر عمل کیسے

-------------------

عثمان بن سعید عمری کا قول ہے نقل کرتے ہیں جو حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے نائب خاص تھے جب انھوں نے ایک شیعہ کے سوال کے جواب میں ایک عمل کی حرمت کا فیصلہ دیا تو ان الفاظ کا اضافہ کیا :

"میں یہ فیصلہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔ میرے لیے کسی صورت میں روا نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قراردوں "(یعنی میں فقط امام علیہ السلام کا قول نقل کررہا ہوں )اصول کافی جلد 1 ۔وسائل الشیعہ جلد 18 صفحہ 100)(ناشر)

۲۰۶

کیا جائے۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ مجتہد  جس میں مندرجہ ذیل بالا سب شرائط پائی جاتی ہوں امام علیہ السلام کا نائب ہے اور غیبت امام کے زمانے میں وہ حاکم اور سربراہ ہے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کے اسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام کوہیں ۔ مجتہد کے احکام کا انکار خود امام کا انکار ہے ۔

شیعوں کے نزدیک جامع الشرائط مجتہد کی طرف صرف فتوے کے لیے ہی رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اپنے مقلدین پر ولایت عامہ بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس لیے مقلدین اپنے مقدمات کے تصفیہ کے لیے بھی اپنے مجتہد ہی سے رجوع کرتے ہیں ، جو خمس اور زکات میں امام زمانہ کے نائب کی حیثیت سے شریعت کے مطابق تصرف کرتا ہے ۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک مجتہد کا یہ مرتبہ نہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ امام نائب رسول ہوتا ہے ۔ فقہی مسائل میں البتہ  وہ صاحب مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان ائمہ اربعہ کے نام یہ ہیں :

(1):-ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی (سنہ 80 ھ تا سنہ 150ھ)۔(2):-مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی (سنہ 93 ھ تا سنہ 179 ھ)۔(3):- محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان شافع(سنہ 150 ھ تا سنہ 198ھ)۔(4):- احمد بن محمد بن جنبل بن ہلال (سنہ 164 ھ تا سنہ 241ھ)

موجودہ  دور کے بعض اہل سنت ان میں کسی ایک معین امام کی تقلید نہیں کرتے ، بلکہ اپنی مصلحت کے مطابق بعض مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسائل میں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔ سید سابق جنہوں نے چاروں اماموں کے فقہ سے ماخود ایک کتاب مرتب کی ہے ، ایسا ہی کیا ہے  کیونکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اصحاب مذاہب کا اختلاف رحمت ہے ۔ اس لیے اگر کسی مالکی کو  اپنی مشکل کا حل اپنے امام کے یہاں نہ ملے اور امام ابو حنیفہ کے یہاں مل جائے تو وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرلے ۔میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے : ہمارے یہاں تیونس میں ایک بالغ لڑکی تھی ، یہ اس زمانے کی بات ہے

۲۰۷

جب یہاں قاضی کو رٹس ہوا کرتی تھیں ۔ اس لڑکی کو ایک شخص سے محبّت ہوگئی ۔ یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کا باپ اللہ جانے کیوں اس سے اس کے نکاح پر راضی نہیں تھا ۔ آخر باپ کے گھر سے بھاگ گئی اور اس نے اس نوجوان سے باپ  کی اجازت  کے بغیر نکاح کرلیا ۔ باپ نے شوہر کے خلاف دعوی دائر کردیا ۔ جب لڑکی اپنے شوہر  کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو قاضی نے اس سے گھر سے بھاگنے اور ولی سے اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ سے پوچھی تو اس نے کہا : "جناب عالی ! میری عمر 25 سال ہے ۔ میں  اسے شخص سے اللہ رسول  کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کرنا چاہتی تھی ، لیکن میرا باپ میرا بیاہ ایسے شخص سے کرنا چاہتا تھا جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا ۔میں نے امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق شادی کرلی کیونکہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق مجھے بالغ ہونے کی وجہ سے حق ہے کہ میں جس سے چاہوں شادی کرلوں"۔

اللہ بخشے قاضی صاحب جنھوں نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا ، کہنے لگے : جب ہم نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہواکہ لڑکی ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خیال ہے شاید کسی جاننے والے عالم نے سکھایا تھا کہ عدالت میں جاکر کیا بیان دے ۔

قاضی صاحب کہتے تھے کہ میں باپ کادعوی خارج کردیا اور نکاح کو باقی رکھا ۔باپ غصہ میں بھرا ہوا عدالت سے باہر نکلا ۔وہ ہاتھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کتیا حنفی ہوگئی "یعنی امام مالک کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرلیا ۔ بعد میں وہ شخص کہتا تھا کہ میں اس کتیا کو عاق کردوں گا ۔

یہ مسئلہ اجتہادی اختلاف کا ہے :-

امام مالک کی رائے ہے کہ کنواری باکرہ لڑکی کا نکاح سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔بلکہ اگر مطلقہ یا بیوہ ہو تب بھی ولی کی اجازت ضروری ہے  ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بالغہ چاہے باکرہ ہویا مطلقہ و بیوہ اسے خود اپنا شوہر  پسند کرنے اور عقد کرنے کااختیار ہے ۔ تو اس فقہی مسئلے نے باپ بیٹی میں جدائی ڈال دی ۔ یہاں تک کہ باپ نے بیٹی کو عاق کردیا ۔

۲۰۸

پہلے زمانے میں تیونس میں اکثر باپ مختلف وجوہ سے بیٹیوں کو عاق کردیا کرتے تھے ،جن میں سے ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ لڑکی جس سے شادی کرناچاہتی تھی اس کے ساتھ بھاگ گئی ۔ عاق کرنے کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کیونکہ جب باپ بیٹی کو میراث سے محروم کردیتا ہے تو لڑکی اپنے بھائیوں کی دشمن بن جاتی ہے اور بھائی خود  بھی بہن کوچھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ بہن کے بھاگنے کو بھائی اپنے لیے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں ۔  اس طرح معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اہل  سنت  سمجھتے ہیں کہ اصحاب مذاہب فقہاء کا اختلاف  ہمیشہ رحمت ہوتا ہے ۔ کم از کم یہ اختلاف ہر مسئلے میں رحمت  نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے  لیے معاشرتی اور قبائلی اختلاف اور روایات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔

ایک ایسے معاشرے میں جس کی نشوونما مالکی افکار پر ہوئی ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو یہ حق ہو کہ گھر سے بھاگ جائے اور باپ کی اجازت  کے بغیر کسی سے نکاح کر لے ۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا  کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کرلے ۔ جو عورت ایسا کرےگی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کیا یا ایک ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا ۔ جبکہ دوسرے مذہب کی رو سے اس نے ایسا کا م کیا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اسے اس  کا حق بھی ہے ۔ اسی لیے مالکی معاشرے کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حنفی معاشرے میں نسبتا جنسی آزادی اور آوارگی ہے ۔ ان مذہبی اختلاف  کے نتیجے میں عورت اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے اور وہ اس صورت حال کا الزام دین اسلام کےو دیتی ہے ۔ اسی لیے ہم ان بعض نوجوان عورتوں کو الزام نہیں دے سکتے جو اپنے مذہب کا اس لیے انکار کرنے لگتی ہیں کیونکہ ان کے بڑے ان کے ساتھ خلاف شریعت ظالمانہ سلوک کرتے ہیں ۔

اس مثال کے بعد ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں :-

اہل سنت کے نزدیک جس امام کی تقلید  کی جائے اس تقلید سے وہ درجہ حاصل نہیں ہوجاتا جس کے شیعہ قائل ہیں یعنی نیابت رسول کا درجہ ۔ اس  کی وجہ شوری اور "خلیفہ یا امام کے انتخاب کا نظریہ ہے ۔ اہل سنت نے خود اپنے

۲۰۹

آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ یا بہتر الفاظ میں امام بنادیں ۔ اسی طرح ان کے خیال میں انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ چاہیں تو امام کو معزول کردیں  یا اس کے بجائے جس اپنی دانست میں بہتر سمجھیں اسے مقرر کردیں ، اس طرح درحقیقت وہ امام کے بھی امام ہوگئے ۔یہ صورت شیعہ عقیدہ کے بالکل برعکس ہے اگر ہم اہل سنت کے پہلے امام یعنی ابو بکر صدیق پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے امت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا :

" أيّهاالنّاس لقد ولّيت عليكم ولست بخيركم فإن أطعتُ فأعينوني وإن عصيتُ فقوّموني......."

لوگو! مجھے تمھارا والی چن لیا گیا ہے اگر چہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔چنانچہ جب تک میں صحیح راستے پر چلوں  میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں بھٹک جاؤں ، تو مجھے صحیح راہ پر چلادو۔۔۔۔۔"۔

اس طرح ابو بکر خود اعتراف کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کو پسند کیا ہے اور ان کی بیعت  کی  ہے انھیں یہ بھی حق ہے کہ معصیت اورخطا کی صورت میں وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ۔

اس کے برعکس  ، جب ہم شیعوں کے پہلے امام یعنی علی بن ابی طالب ع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان کو امام مان کر  دراصل  حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امام علی ع کو ایسی ہی ولایت مطلقہ کیا ہو بھلا اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خطا کرے کیس معصیت کا مرتکب ہو ؟اسی طرح امت  کے لیے بھی یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس کے کسی حکم کی  مخالفت کرے یا اس کا مقابلہ کرے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے :

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِيناً "

۲۱۰

چونکہ حضرت علی ع کو مسلمانوں کا امام اللہ اور اس کے رسول ص نے مقرر کیا تھا: اس لیے ان کی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی  تھی نہ یہ ممکن تھا کہ حضرت علی  ع کسی معصیت کا ارتکاب کریں اسی لیے رسول اللہ  ص نے فرمایا تھا :

"عليٌّ مع الحقّ والحقّ مع عليّ ٍ ولن يفرقا حتّى يردا عليّ الحوض ."

علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک میرے پاس حوض پر نہ آجائیں"(1) ۔

تقلید کے بارے میں فریقین کا استدلال ان کے دو مختلف نظریوں کی بنیاد پر آسانی سے سجمھ میں آسکتا ہے ۔ مطلب ہے سنیوں کا شوری کا نظریہ  اور شیعوں کا نص کا نظریہ۔

اس کے بعد تقلید  کے متعلق شیعوں  اور سنیوں میں صرف ایک اور اختلافی مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے "تقلید میت کا مسئلہ "۔

اہل سنت جس ائمہ کی تقلید کرتے ہیں انھیں فوت ہوئے صدیاں گزرچکی ہیں ۔ اسی زمانے کے بعد سے اہل سنت کے یہاں  اجتہاد  کا دروازہ بند ہے ۔ ان ائمہ  کےبعد جو علماء ہوئے ان کی ساری توجہ صرف اگلی کتابوں کی شرحیں لکھنے اور مذاہب اربعہ کے مطابق فقہی مسائل کے نظم اور نثر میں مجموعے مرتب کرنے پر مرکوز رہی ۔ اب چونکہ بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن کا ائمہ کے زمانے میں وجود بھی نہیں تھا ۔ اس لیے بعض معاصرین آواز اٹھارہے ہیں کہ زمانے کی مصلحت کا

---------------------------

(1):- محمد بن عیسی ترمذی جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 297 ۔علاء الدین شقی ہندی کنزالعمال جلد 5 صفحہ 30 ۔محمد بن عبداللہ  حاکم نیشاپوری مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 124۔ جار اللہ زمخشری ربیع الابرار ۔ ابن حجر ہیثمی مکی صواعق محرقہ  صفحہ 122 ۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 572۔حافظ ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد 14 صفحہ 321 ۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 119 ۔ ابن قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 73۔

۲۱۱

 تقاضا یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ پھر سے کھول دیا جائے ۔

اس کے برعکس ، شیعہ میت کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے تمام احکام کے بارے میں ایسے زندہ مجتہد  کی طرف رجوع کرتے ہیں جس  میں وہ سب شرائط پائی جاتی ہون جن کا ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے یہ صورت امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں ہے ۔ جب تک امام معصوم دوبارہ ظاہر نہیں ہوتے ، شیعہ قابل اعتماد علماء ہی سے رجوع کرتے رہیں گے ۔

آج بھی ایک سنّی مالکی مثلا کہتا ہے کہ امام مالک قول کے مطابق یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔ حالانکہ امام مالک  کو فوت  ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ۔یہی صورت امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل کے پیرو کاروں کے ساتھ ہے  کیونکہ یہ سب مذاہب اور ائمہ ایک ہی  زمانے میں تھے اور ان کا ایک دوسرے سے  استاد شاگرد کا تعلق تھا ۔ اہل سنت اپنے ائمہ  کے معصوم ہونے کے بھی قائل نہیں ۔ نہ خود ان ائمہ نے کبھی عصمت کا دعوی کیا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ائمہ جو اجتہاد کرتے ہیں اس  میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہے ۔ صواب کی صورت میں انھیں دو اجر ملتے ہیں اور خطا کی صورت میں ایک اجر ۔ بہر کیف اجر ہر اجتہاد پر ملتا ہے ۔

شیعوں کے نزدیک تقلید کے دو دور ہیں :

۔ پہلا دورائمہ اثناعشر کا دور ہے ۔ یہ مرحلہ تقریبا ساڑھے تین سوسال پر محیط ہے ۔ اس دور میں ہر شیعہ امام معصوم کی تقلید کرتا تھا اور امام کوئی بات اپنی رائے یا اپنے اجتہاد  سے بیان نہیں کرتے تھے ۔ وہ جو کچھ کہتے تھے اسی علم اور ان روایات  کی بنیاد پر کہتے تھے جو انھیں ابا عن جد رسول اللہ ص سے پہنچی تھیں ۔ مثلا وہ کسی سوال کے جواب میں اس طرح کہتے تھے :"روایت بیان کی میرے والد نے ، انھوں یہ روایت سنی اپنے نانا سے ، انھوں نے جبریل سے انھوں نے اللہ عزوجل  سے "(1)

--------------------

(1):- ہشام بن سالم اورحمّاد بن عیسی سے روایت ہے  کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے امام جعفر صادق ع کو

۲۱۲

۔ دوسرا دور زمانہ غیبت کا دور ہے جو ابھی تک چل رہا ہے ۔ اب شیعہ یہ کہتا ہے کہ یہ چیز آیت اللہ خوئی کی رائے کے مطابق  یا آیت اللہ خمینی کی رائے کے مطابق حلال یا حرام ہے ۔یہ دونوں(1) مجتہد زندہ ہیں ۔ ان کی رائے سے مراد ہے  قرآن اور ائمہ اہل بیت ع کی روایات کے مطابق سنت سے احکام کے استبناط  میں ان کا اجتہاد  ،ائمہ  اہل بیت  ع کی روایات کےبعد دوسرے درجے میں صحابہ عدول یعنی معتبر صحابہ کی روایات ہیں ۔ ائمہ اہل بیت ع کو ترجیح اس لیے ہے کہ وہ شریعت کے بارے میں اپنی رائے سے قطعی احتراز کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ :

------------------------

یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :

"میرے حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے داداکی حدیث  حسین کی حدیث ہے اور  حسین  کی حدیث حسن کی حدیث ہے اور حسن  کی حدیث امیر المومنین علیھم السلام کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ ص کی حدیث ارشاد الہی ہے "۔(اصول کافی جلد 1 صفحہ 35)

عنبسہ روایت کرتے ہیں کہ

"ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا ۔ اس  پر اس شخص نے کہا کہ اگر ایسا اور ایسا ہوتا تو اس میں دوسرا قول نہ ہوتا ۔ آپ نے فرمایا ۔" جب کبھی ہم کسی مسئلے کاجواب دیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے  اورہم کوئی جاوب اپنی رائے سے نہیں دیتے "۔(بصائر الدرجات صفحہ 300-301)

(1):- جن دنوں مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی ، آیت اللہ خمینی حیات تھے ۔

۲۱۳

"مامن شئ ٍإلّا ولله فيه حكمٌ"

   یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارےمیں اللہ کا حکم نہ ہو ۔

اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ہمیں یہ حکم دستیاب نہ ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ یہ  ہمارا قصور ناواقفیت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس حکم کا علم نہیں ہوسکا ۔کسی چیز کا علم نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اس کا وجود ہی نہیں ۔ اللہ سبحانہ کا قول ہے :

"مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ"

اس کتاب میں ہم نے کوئی چیز نظر انداز نہیں کی۔(سورہ انعام ۔آیت 38)

وہ عقائد  جن پر سنت شیعوں کو الزام دیتے ہیں

شیعوں کے کچھ عقائد ایسے ہیں جن پر اہل سنت محض اس تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جو امویوں اور عباسیوں نے اس لیے پھیلایا تھا  کیونکہ وہ امام علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے یہاں تک کہ امویوں نے علی الاعلان 80 برس تک  منبروں سے افتخار ہر نبی وہر ولی حضرت علی ع پر لعنت کی(1) اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ لوگ ہر اس شخص کو گالیاں دیتے تھے اور اس پر ہر طرح کے بہتان  باندھتے تھے جس کا ذرا بھی علی ع کی جماعت سے تعلق ہو ۔ نوبت یہاں  تک پہنچ گئی تھی مگر کسی کو یہ کہا جاتا تھا کہ تو یہودی ہے تو وہ اس کا اتنا برا نہیں مانتا تھا جتنا اگر اس کو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ تو شیعہ ہے ۔ ان کے حامیوں اور پیروکاروں کا بھی ہر زمانے میں اور ہرملک میں یہی طریقہ رہا۔یہاں تک کہ اہل سنت کے لیے لفظ شیعہ ایک گالی بن گیا ۔ کیونکہ شیعوں کے عقائد مختلف تھے اور سنیوں کی  جماعت سے باہر تھے ، اس لیے سنی ان پر جو چاہتے الزام لگادیتے تھے ، جس طرح چاہتے نام دھرتے تھے اور ہر بات میں ان کے طریقے کے

----------------------

(1):- تفصیلات کے لیے دیکھیے تاریخ عاشورا ،مطبوعہ تعلیمات اسلامی ۔کراچی پاکستان

۲۱۴

خلاف کرتے تھے ۔(1)

آپ کو شاید علم ہو کہ علمائے اہل سنت میں سے ایک مشہور عالم(2) کا کہنا ہے تھا کہ "اگر چہ دائیں ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا سنت رسول ہے ، لیکن چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس کا تر ک واجب ہے"۔

اور سنئے حجۃ الاسلام  ابو حامد غزالی کہتے ہیں کہ " قبر کی سطح کو ہموار کرنا اسلام میں مشروع ہے مگر رافضیوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ،اس لیے ہم اسے چھوڑ کے قبروں کو اونٹ کے کوہان کی شکل دے دی "۔

---------------------

(1):- آج بھی بعض اتنہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈے کرتےہیں کہ " شیعہ کافر ہیں ، سبائی ہیں اور ان کی جان اور ان کا مال  محترم نہیں ہے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے "۔اس طرح انھوں نے نفرت اور افتراق کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء ہمیشہ ملت کی وحدت ویگانگت  کے داعی رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی " لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ "کہہ دے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان اور املاک محترم ہیں ۔

تاریخ گواہ ہے کہ جمال الدین افغانی سے لے کر آیت اللہ خمینی تک ہمارے علماء نے اتحاد  اسلامی کیلئے بھر پور کوشش کی ہیں ۔ہمارے ان ہی علماء میں سے ایک آیت اللہ کاشف الغطاء ہیں جنھوں نے قابل قدر سیاسی وسماجی خدمات انجام دی نہیں ۔ سنہ 1350 ھ میں جب آیت اللہ کاشف الغطاء موتمر اسلامی میں شرکت کے لیے القدس الشریف پہنچے تو موتمر کے بیشتر مندوبین نے آپ ہی کی اقتدا میں مسجد اقصی میں نماز پڑھی تھی ۔(ناشر)

(2):-یہ الھدایہ کے مولف شیخ الاسلام براہانن الدین علی بن ابی بکر المرغینانی (593ھ)ہیں ۔

زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابراء میں لکھا ہے کہ

" معاویہ بن ابی سفیان نے سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کی جو خلاف سنت ہے "۔

لہذا ہم معاویہ کے طرفدار سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبادیکھ

۲۱۵

اور ابن تیمیہ(1) کہتے ہیں :

بعض فقہاء کیا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مستحب شیعوں کا شعار بن جائے تو اس مستحب کو ترک کردینا بہتر ہے گو ترک کرنا واجب نہیں ۔کیونکہ اس مستحب پر عمل میں بہ ظاہر شیعوں سے مشابہت ہے ۔ سنیوں اور رافضیوں میں فرق کی مصلحت  مستحب پر عمل کی مصلحت سے زیادہ قوی ہے ۔(2)

حافظ عراقی سے جب یہ پوچھ گیا کہ تحت الحنک کس طرف کیاجائے ؟ تو انھوں نے کہا کہ

مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے داہنی طرف کی تعیین  ہوتی ہو ، سوائے اس کے طبرانی کے یہاں ایک ضعیف حدیث ضرور ہے ، لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو تو شاید آپ داہنی طرف لٹکا کر بائیں طرف لپیٹ لیتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں مگر چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے ، اس لیے تشبہ سے بچنے کے لیے اس سے احتراز ہی مناسب ہے(3)

سبحان اللہ ! یہ اندھا تعصب ملاحظہ ہو ۔یہ علماء کیسے سنت رسول ص کی مخالفت کی اجازت صرف اس بنا پر دیتے ہیں کہ اس  پر شیعوں نے پابندی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ان کا شعار بن گئی ہے  ۔ پھر دیدہ دلیری دیکھیے

-------------------------

(1):-کہا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے جب سرزمین حجاز میں "وہابی تحریک "کا آغاز کیا تو انھوں نے ۔مستشرقین کی تجویز کے بموجب جو اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس تحریک کے ذریعہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف بہ اب تیمیہ حرّانی  کے افکار ونظریات کو فروغ دیا کہ کیونکہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنا پر مطعون تھالیکن بیسویں صدی کے لوگوں نے اسے "مجدد "اور" مصلح" کاخطاب دے دیا ۔(ناشر)

(2):- منہاج السنۃ النبویہ ، ابن تیمیہ

(3):-شرح المواہب ،زرقانی ۔

۲۱۶

کہ اس بات کا علانیہ اعتراف کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے ،میں تو کہتاہوں کہ شکر خدا کہ ہر صاحب بصیرت اور جویائے حقیقت پر حق واضح ہوگیا ۔ سنت کا نام لینے والو ! دیکھ سنت کا دامن کسے نے تھاما ہوا ہے ۔

الحمداللہ کہ ظاہر ہوگیا کہ یہ شیعہ ہی ہیں جو سنت رسول ص کااتباع کرتے ہیں جس کی گواہی تم خود دے رہے ہو ۔ اور تم خود ہی اس کے بھی اقراری مجرم ہو کہ تم نے سنت رسول ص کو عمدا اور دیدہ ودانستہ محض اس لیے  چھوڑدیا تاکہ تم اہل بیت ع اور ان کے شیعیان  با اخلاص  کی روش کی مخالفت کرسکو ۔ تم نے معاویہ بن ابی سفیان کی سنت اختیار کرلی جن کے شاہد عادل امام زمخشری ہیں جو کہتے ہیں کہ سنت رسول ص کے برخلاف سب سے پہلے بائیں ہاتھ  میں انگوٹھی  معاویہ  ابن ابی سفیان  نے پہنی تھی ۔ تم نے  باجماعت تراویح کی بدعت میں سنت عمر کی پیروی کی ۔حالانکہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں کو نافلہ نمازیں گھر میں فرادی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا(1) ۔ حضرت عمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہ نماز بدعت ہے :

بخاری میں عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایک دن رات کے وقت ،میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کہیں کوئی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند لوگ مل کر ۔ عمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں ایسا انتظام کردوں کہ یہ سب ایک قاری کے پیچھے نماز  پڑھیں ۔چنانچہ عمر نے ایسا ہی کیا اور ابی بن کعب کوامام مقرر کردیا ایک رات پھر مین عمر کے ساتھ گیا ۔ اس وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ انھیں دیکھ کر  عمر نے کہا : کتنی اچھی بدعت ہے یہ(2) ۔عمر ، جب آپ نے یہ بدعت شروع کی تھی تو آپ خود کیوں اس میں شریک نہیں ہوئے ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آپ ان کے امیر تھے تو آپ بھی ان کے

---------------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 99 باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ عزوجل ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 252 کتاب صلاۃ التراویح

۲۱۷

ساتھ نماز پڑھتے ۔ یہ کیا کہ آپ ان کا تماشا دیکھنے نکل کھڑے ہوئے ؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔یہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے جب رسول اللہ ص نے اس سے اس وقت منع کردیا تھا جب لوگوں نے آپ کے دروازے  پر جمع ہوکر شور مچایا تھا کہ آپ آکر نافلہ رمضان پڑھادیں ۔ اس پر رسول اللہ ص غصّے میں بھرے ہوئے نکلے اورآپ نے فرمایا ۔

"مجھے اندیشہ تھا کہ یہ نماز تم پر فرض ہوجائے گی ۔ جاؤ اپنے گھروں میں جاکر نماز  پڑھو۔ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز آدمی کے لیے گھر میں پڑھنا ہی بہتر ہے "۔ تم نے سفر کی حالت میں پوری نماز پرھنے کی بدعت میں عثمان بن عفان کی سنت کی پیروی کی ہے ۔ تمھارا یہ عمل سنت رسول کے خلاف ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ص تو سفر میں قصر نماز پڑھا کرتے تھے(1) ۔ اگر میں وہ سب مثالیں گنانے  لگوں جہاں تم نے سنت رسول کے خلاف طریقہ اختیار کیا ہے  تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن تمھارے خلاف تو تمھاری اپنی شہادت ہی کافی ہے جو تمھارے اپنے اقرار پر مبنی ہے ۔تم نے یہ بھی اقرارکیا ہے کہ یہ شیعہ رافضی ہیں جو سنت رسول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں !

کیا اس کے بعد بھی ان جاہلوں کی تردید کرے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیعہ علی بن ابی طالب ع کا اتباع کرتے ہیں اور اہل سنت رسول اکرم ص کا ؟ کیا یہ لوگ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ علی ع رسول اللہ ص کے مخالف تھے اور انھوں نے کوئی نیا دین ایجاد کیا تھا ؟ کیسی سخت بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ علی ع تو سرتاپا سنت رسول ص تھے ۔ وہ سنت رسول ص کے شارح تھے اور سنت پر سختی سے قائم تھے ۔ ان کےمتعلق رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ

"عليٌّ مّنّي بمنزلتي من رّبي."(2)

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 35  "وکذالک تاوّلت عائشۃ فصلّت اربعا صفحہ 36

(2):- ابن حجر عسقلانی ، لسان المیزان جلد 5 صفحہ 161 ۔ محب طبری ،ذخائر العقبی صفحہ 64 نور اللہ حسینی مرعشی ۔ احقاق الحق جلد 7 صفحہ 217

۲۱۸

"علی ص کا مجھ سے وہی تعلق ہے جو میرا میرے پروردگار سے ہے " یمنی جس طرح کہ تنہا محمد ص ہی وہ شخص تھے جو اللہ تعالی  کا پیغام پہنچاتے تھے ایسے ہی تنہا علی ص وہ شخص تھے جو رسول اللہ ص کا پیغام پہنچاتے تھے ۔ علی ع کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے سے سابق خلفاء کی خلافت تسلیم نہیں  کی اور شیعوں کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے  میں علی ع کی پیروی کی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے انکار کردیا ۔ اسی لیے اہل سنت انھیں "رافضی م"یعنی منکر کہنے لگے ۔

اگر اہل سنت شیعہ عقائد اور شیعہ اقوال کا انکار کرتے ہیں تو اس کے دو سبب ہیں :

پہلا سبب تو وہ دشمنی ہےجس کی آگ اموی حکمرانوں نے جھوٹے پروپیگنڈے اور منگھڑت روایات کے ذریعے سے بھڑکائی تھی ۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل سنت جو خلفاء کی تائید کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں اور ان کے اجتھادات کو صحیح ٹھہراتے ہیں ، خصوصا اموی حکمرانوں کی غلطیوں کو جن میں معاویہ کا نام سر فہرست ہے ۔شیعہ عقائد ان کے اس طرز عمل کے منافی ہیں ۔جو شخص واقعات کا متتبع کرے گا ۔ اس  پر واضح ہوجائے گا کہ شیعہ  ،سنی اختلافات کی داغ بیل تو سقیفہ کے دن ہی پڑگئی تھی ۔ اس کے بعد اختلافات کی خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی ۔ بعد میں جو بھی اختلاف پیدا ہوا اس کی اصل سقیفہ کا واقعہ ہی تھا ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ شیعوں کے وہ سب عقائد جن پر اہل سنت اعتراض کرتے ہیں ، ان کا خلافت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے اور ان سب کی جڑ خلافت ہے ۔مثلا ۔ ائمہ کی تعداد ، امام کا منصوص ہونا ، ائمہ کی عصمت ، ا ن کا علم ،بدا ، تقیہ ، مہدی منتظر وغیرہ ۔

اگر ہم طرفین کے اقوال پر غیر جذباتی ہو کر غور کریں تو ہمیں طرفین کے عقائد میں بہت زیادہ بعدنظر نہیں آئے گا اور نہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا کوئی جواز ملیگا کیونکہ  جب آپ اہل سنت کی وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں شیعوں کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ کو ذرا دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیعہ اسلامی اصولوں  اور اسلامی احکام

۲۱۹

کے مخالف ہیں اور انھوں نے کوئی نیا دین گھڑا ہوا ہے ۔ حالانکہ جو بھی منصف مزاج شخص شیعہ عقائد پر غور کرےگا وہ ان کی اصل قرآن وسنت میں پائیگا حتی کہ جو مخالفین ان عقائد پر اعتراض کرتے ہیں خود ان کی کتابوں سے بھی ان ہی عقائد کی تایید ہوتی ہے ۔ پھر ان عقائد میں کوئی بات خلاف عقل ونقل اورمنافی اخلاق نہیں ہے!

آیئے  ان عقائد پر ایک نظر ڈالیں  تاکہ میرے دعوے کی صحت ظاہر ہوجاتے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مخالفین کے اعتراضات دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ  نہیں !

ائمہ کی عصمت

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کی طرحی امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام ظاہری اور باطنی برائیوں سے بچپن سے لے کر موت تک محفوظ رہے ۔ اس سے عمدا یا سہوا کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور بھول چوک اور خطا سے محفوظ ہو ۔ کیونکہ ائمہ شریعت کے نگراں اور محافظ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی کی ہے ۔جس کی دلیل کی رو سے ہمارے لیے ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ بھی ضروری ہے ۔ اس معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں (1)

یہ عصمت کے باے  میں شیعوں کی رائے ہے ۔لیکن کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے جو قرآن وسنت کے منافی ہو یا عقلا محال ہو یا جس سے اسلام پر حرف آتا ہو اور اس کے شایان شان نہ ہو یا جس سے کسی نبی  یا امام کی قدرومنزلت میں فرق آتا ہو؟ ہر گز نہیں !

بلکہ اس عقیدے سے تو کتاب وسنت کی تائید ہوتی ہے ۔ یہ عقیدہ عقل سلیم کے عین مطابق ہے اور اس سے نبی اور امام کی شان میں اضافہ ہوتا ہے

-----------------------

(1):- شیخ محمد رضا مظفر  ،عقائد الامامیہ صفحہ 67 ۔یہ کتاب جامعہ تعلمیات اسلامی نے مکتب تشیع کرے نام سے شایع کردی ہے ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328