حکم اذاں

حکم اذاں17%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63796 / ڈاؤنلوڈ: 7541
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

رسول خدا (ص) نے فر مايا :

''تم نے اس كى غيبت كى ہي_''۱

(۵)_غيبت كے اسباب:

غيبت ايك قسم كى روحا نى بيمارى ہي،جس ميں غيبت كر نے والا مختلف اسباب و عوامل كى وجہ سے مبتلا ہو جا تا ہے ،حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام نے ايك روايت ميںاس كے دس اسباب ذكر فرمائے ہيں،ملا حظہ كيجئي:

''واصل الغيبة متنوع بعشرة انواع،شفاء غيظ و مسا عدة قوم و تهمة و تصديق بلا خبر كشفه و سو ء ظن و حسد و سخرية و تعجب و تبرم وتزين'' (۲)

غيبت كے سرزد ہونے كے مند رجہ ذيل دس اسبا ب ہيں:

۱) ......غصّہ اور غيظ و غضب جو انسان كے اندر موجود ہو تا ہے ،وہ غيبت كے ذريعہ اسے ٹھنڈا كر كے خود كو تسكين پہنچاتا ہي_

۲) ......غيبت كر نے والوں كے گروہ كے ساتھ تعاون اور انكى مدد كر تا ہي_

۳) ......كسى پر الزام لگانے كے لئے غيبت كا سہارا ليتا ہي_

۴) ......كسى كى با ت كى تحقيق اور چھان بين كئے بغير تصديق كرتا ہے اور اسے سچّا ثا بت كرنے كے لئے غيبت كر تا ہي_

۵) ......دو سروں پر بد گمانى ،اسے غيبت پر اكساتى ہي_

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳

۲_ مصباح الشريعة _ ص ۲۰۶

۶۱

۶) ......حسد ،اسے غيبت پر بھڑ كا تا ہي_

۷) ......كسى كا مذاق اڑانے كے لئے اس كى غيبت كرتا_

۸) ......اس كا تعجّب كر نا بھى غيبت ہي_

۹) ......كسى سے تنگدل ہو جا تاہي، تو اس كى غيبت كر تا ہي_

۱۰) ......اپنى با ت كو بنا سنوار كر پيش كر نے كے لئے كسى كى غيبت كر تا ہي_

۶)غيبت كا كفا رہ :

چو نكہ غيبت خد اكے حرام كردہ امور ميں سے ايك ہے ،لہذا غيبت كر ناحُّق ُاللہ غصب كر نے كے زمرہ ميں اتى ہي،اور چونكہ كسى انسان كى ابرو كو بر با د كر تى ہے لہذا حق النّاس پر تجا وز _ بھى شما ر ہو تى ہي_پس غيبت كر نے والے كو چاہيئے كہ پہلے تو وہ خدا كى با ر گا ہ ميںتوبہ كر ے اور اور اپنے اس گنا ہ كى معا فى مانگے ،تا كہ خدا وند تعالى اس كے اس گنا ہ كو بخش دے اور اس كى توبہ كو قبول كرے ،پھر وہ اس انسان كے حق كاتدارك كرے جس جس كى اس نے غيبت كى ہي،اگر وہ زندہ ہے اور اس تك رسائي ممكن ہے ،اگر اس كے رنجيدہ خا طر يا غصّے ہو نے كا مو جب نہيں بنتا تو اس سے معا فى ما نگے ،بہر حال ہر طريقے سے اسے راضى كر نے كى كو شش كرے _اور اگر وہ اس دنيا سے رخصت ہو گيا ہے يا زندہ ہي،ليكن اس تك رسا ئي مشكل ہے تو خدا سے اس كے لئے گناہوں كى بخشش كى دعا كرے ، اور اگر اس تك رسائي ممكن ہي،ليكن وہ غيبت سن كر نا را ض يا رنجيدہ خا طر ہو جا تا ہي،يا فتنہ كھڑا ہو نے كا با عث ہو تا ہے تو بھى اس كے لئے استغفار اور گناہوں كى بخشش كى دعا كرے _ ايك

۶۲

حديث ميں ہے كہ رسول صلّى اللہ عليہ و الہ وسّلم سے كسى نے سوال كيا:''غيبت كا كيا كفّارہ ہي''؟تو انحضرت (ص) نے فرمايا:

''تستغفر الله لمن اغتبته كلما ذكرته'' (۱)

''يعنى جب بھى تم اس شخص كو ياد كرتے ہو جس كى غيبت كى ہے ، تو اس كے لئے خدا سے استغفار كرو''_

حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''فان اغتبت فبلغ المغتاب فاستحل منه وان لم تبلغه ولم تلحقه فاستغفر الله له'' (۲)

'' اگر تم نے كسى كى غيبت كى ہے اور وہ اس كے كان تك جا پہنچى ہے تو تم اس سے معافى مانگ كر بخشش طلب كر ليا كرو ، اور اگراس تك نہيں پہنچى ہو تو اس كے لئے خدا سے دعائے مغفرت كرو'' _

قرآن و حديث ميں تہمت كى مذمّت :

جو برائياں ہم نے غيبت كے لئے ذكر كى ہيں وہ سب تہمت كو بھى شامل ہيں، علاوہ بريں تہمت لگانے والا جانتا ہے كہ جو متہَّم كى طرف نسبت دے رہا ہے وہ جھوٹى اور حقيقت كے خلاف ہے _

قران مجيد نے تہمت كو ''اثم مبين''(كھلا گناہ)كے نام سے ياد كيا ہي،اور خبر دار كيا ہے كہ تہمت لگانے والا اچھى طرح جا نتا ہے كہ وہ جو كام كر ر ہا ہے وہ نا جائز

____________________

۱_ اصول كافي_ ج۲ ص ۳۵۷

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۰۵

۶۳

اور گناہ ہي،قر ان مجيد كا ارشادہي:

( والذين يو ذون المو منين والمومنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملو ابهتانا وا ثما مبينا'' ) (۱)

''جو لوگ مومن مر دوں اور عورتوں كو ان كے نا كر دہ گنا ہوں كى وجہ سے تكليف پہنچاتے ہيں، وہ بھتان اور كھلم كھلّا گناہ كے متحمل ہو تے ہيں_''

حضرت امام جعفر صادق _نے تہمت كو دين و ايمان كے تباہ كر نے والے مادّہ كا نام ديا ہي،فر ماتے ہيں:

''اذا اتهم المومن اخاه انماث الايمان من قبله كما ينماث الملح فى المائ'' (۲)

''جب مو من اپنے كسى بھائي پر تہمت لگاتا ہے تو اس كے دل سے ايمان يوں نيست ونابود ہو جاتا ہے جس طرح نمك پانى ميں گُھل جا تا ہي_''

حضرت امام ر ضا عليہ السّلام فر ما تے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فر مايا:

''من بهت مو منا او مو منة او قال فيه ما ليس فيه ا قامه الله يوم القيامة على تل من نا ر حتى يخرج مما قال فيه'' (۳)

''جو شخص كسى مو من مرد يا عورت پر تہمت لگا تا ہے يا اس كے بارے ميں كوئي ايسى بات كر تا ہے جو اس ميں نہيں ہي، تو خدا وند عالم اسے بروز قيامت آگ كے ايك ٹيلے پر اس وقت تك كھڑ ركھے گا جب تك وہ اس

____________________

۱_ سورہ احزاب _ آيت ۵۸

۲_ اصول كافى _ ج۲ ص ۳۶۱

۳_ بحارالانوار _ ج ۷۲_ ص ۱۹۴

۶۴

كے عہدہ سے بر نہيں ائے گا (اپنى با توں كا ثبوت پيش نہيں كر يگا)_ليكن يہ با ت واضح ہے كہ وہ اس كا ثبوت تو نہيں پيش كر سكے گا ،لہذا عذاب ميں ہميشہ مبتلا رہے گا''

دعا ہے كہ خدا وند عا لم ہميں ان دو نوں گنا ہوں سے ہميشہ محفوظ ركھي_

آمين_

۶۵

چھٹا سبق:

بھائي چارہ اور اتّحاد

۱) تمہيد

۲) ......ا خوّت ،ايك خدا ئي نعمت

۳) ......دينى بھا ئيوں كے حقوق

۴) ......بہترين بھائي

۵) ......ا تحاد ايك قرانى حكم

۶) ......فرقہ بندى كے خطرات

۷) تفرقہ پردازى ايك سا مر اجى شيوہ

۸) ......فرقہ بندي،خدا كا ايك عذاب

۶۶

(۱) _ تمہيد:

رسول خدا (ص) كے مكّہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے فوراًبعد اور اسلامى حكومت كى تشكيل كے آغاز ہى ميں خدا وند عالم نے مومنين كو آپس ميں بھائي كے نام سے ياد فرمايا ، قرآن مجيد كا ارشاد ہے :

''انما المئومنون اخوة فاصلحو ابين اخويكم ،،(۱)

''يقينا تمام مومنين آپس ميں بھائي ہيں ، الہذا تم اپنے دو بھائيوں كے درميان صلح كرا ديا كرو _ ،،

رسول خدا (ص) نے بھى اسى آيت كى بنياد پر اپنے صحابہ كرام كے درميان اخوّت و بھائي چارہ قائم كيا ، اور حضرت على عليہ السلام كو اپنا بھائي بنايا(۲) _ بھائي چارے كى يہ رسم محض لفظى كاروائي نہيں تھى ، بلكہ اس كے عملى انجام كو پيش نظر ركھا گيا

____________________

۱_ سورہ حجرات _ آيت ۱۰

۲_ يرت ابن ہشام _ ج ۱_ ص ۵۰۵

۶۷

تھا، اس طرح كے رشتے سے مومنين كا ايك دوسرے پر حق پيدا ہو گيا، وہ مشكلات ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹاتے تھے ، كسى مومن كى غير حاضرى كى صورت ميں اس كا مومن بھائي اس كے گھريلو امور اور مال كى نگہداشت كرتا تھا ، اس قسم كا رشتہ ، كسى اور دين ميں نہيں ملتا اور يہ خصوصيت صرف اور صرف اسلام كو ہى حاصل ہے _

اسى طرح مسلمانان عالم خدائي محبت كے رشتہ كے تحت ايك دوسرے سے منسلك ہيں ، اور ان كے دل ايك دوسرے سے اس طرح نزديك ہيں گويا كہ سب كا دل ايك ہى ہے اور صرف خدا ہى كى خوشنودى كے لئے دھڑكتا ہے _

مسلمانوں كے درميان تفرقہ يا جدائي ايك بے معنى سى بات ہے ، وہ سب ايك دوسرے كى خوشى اور غم ميں برابر كے شريك ہيں _ بقول شاعر :

مومنان بى حدولى ايمان يكي --- جسمشان معدود وليكن جان يكي

جان حيوانى ندارد اتحاد ----- تو مجو اين اتحّاد از روح باد

جان گُر گان و سگان از ہم جداست --- متّحد جانہاى شيران خداست

مومنين تو حّد و حساب سے باہر ہيں ، ليكن ان سب كا ايمان ايك ہے _ ان كے جسم زيادئہ ليكن جان ايك ہے _ جانوروں كى جانوں ميں اتّحاد نہيں ہوتا ، تمہيں يہ اتحاد ہوا كى روح ميں تلاش نہيں كرنا چاہيئے بھيڑيوں اور كتّوں كى جانيں ايك

۶۸

دوسرے سے عليحدہ ہيں ، اللہ كے شيروں كى جانيں متّحد اور ايك ہيں _

(۲) _اخّوت ، ايك خدائي نعمت :

د لوں كا ايك دوسر ے سے جو ڑ،دائمى اور اٹوٹ ہي_خدا كى يہ عظيم نعمت ، اسلامى اخوت اور بھا ئي چا رہ كے سا يہ ميں حاصل ہو تى ہي_اللہ تعا لى مسلمانو ں كو اس با ت كى تا كيد فر ما تا ہے كہ ميرى اس نعمت كو ہميشہ يا دركھيں،اس كى قدر جا نيں اور اس كا شكر بجا لا ئيں _ارشاد فر ما تا ہي:

''واذكروا نعمة الله عليكم اذكنتم اعداء فا لف بين قلو بكم فا صبحتم بنعمته ا خوا نا'' (۱)

''خدا كى نعمت كو ياد كرو جو اس نے تمہيں عطا كى ہي،كيو نكہ تم ايك دوسرے كے دشمن تھي_پس خدا نے تمہا رے دلوں كو الفت كے ر شتے ميں منسلك كر ديا اور اس كى نعمت كى وجہ سے تم ايك دوسرے كے بھا ئي بن گئي''_

مو من كے فر ائض ميں شا مل ہے كہ وہ خدا كى بے انتہا نعمتوں كا شكر ادا كر ے ،اور ہر ايك نعمت كا شكر ايك مخصوص طر يقہ سے ادا ہو تا ہي_اخوت اور بھائي چا رہ كى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو تا ہے كہ اسلامى احكام پر صحيح عمل كيا جائے اور اپنے دينى بھا ئيوں كے حقوق كا احترام ركھا جا ئي،ان حقوق ميں سے چند كى طرف ہم ذيل ميں اشارہ كر تے ہيں:

____________________

۱_ آل عمران آيہ ۱۰۳

۶۹

(۳)_دينى بھا ئيوں كے حقوق:

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام مو من كے حق كى ادائيگى كو ايك بہت بڑى عبا دت سے تعبير فر ما تے ہيں،چنا نچہ ارشاد ہي:

''ما عبد اللہ بشيئي افضل من اداء حق المو من ''(۱) ''مو من كے حق كى ادا ئيگى سے بہتر خدا كى كو ئي اور عبا دت نہيںہي_''

ايك اور روايت ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام كى طرف سے مو من كے مند رجہ سا ت حق بتلائے گئے ہيں :

۱) ......جو كچھ تم اپنے لئے پسند كر تے ہو،اپنے مو من بھائي كے لئے بھى و ہى چيز پسند كرو_اور جو اپنے لئے پسند نہيں كر تے اس كے لئے بھى پسند نہ كرو_

۲) ......جو با ت اس كى نا ر ضگى كا سبب ہي،اس سے پر ہيز كرو،اور اس كى خوشنودى حاصل كر نے كى كو شش كرو اور اس كى با تو ں پر عمل كرو _

۳) ......اپنى جان،مال،ہا تھ پا ئوں اور ز بان كے سا تھ اس كى مدد كيا كرو_

۴) ......اس كى انكھ كى مانند بنو اور اس كى راہ نمائي كرو_

۵) ......ايسا نہ ہو كے تم تو سيراب رہو اور وہ بھو كا اور پيا سا رہ جا ئي،تم كپڑے پہنو اور وہ عر يان رہي_

۶) ......ا گر تمہا رے بھائي كى خدمت كر نے والا كو ئي نہيں،تو كسى كو اس كے پاس بھيجو جو اس كے كپڑے دھوئي،اس كے لئے كھا نا تيار كرے اور

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۷

۷۰

اس كى زندگى كو سنواري_

۷) ......اس كى قسم كا اعتبار كر و،اس كى دعوت كو قبول كرو،اس كى بيما رى ميں عيادت كرو،اس كے جناز ميں شر كت كرو ،اگر اسے كوئي ضرورت پيش ہو تو اسكے اظہار سے پہلے اسے پورا كرو اگر ايسا كرديا تو يقين كرو كہ تم نے اپنى دو ستى كو مضبوط اور مستحكم كر ديا ہي''(۱) مو من كے حقوق ميں مند رجے ذيل امور كو بھى شا مل كيا جا سكتا ہي:

الف: ......نصيحت اور خير خو اہي_حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''يحب للمومن على المومن ان ينا صحه '' (۲) ''مو من پر وا جب ہے كہ وہ دو سرے مو من كے لئے خير خواہ ہو_''

ب: ......مہر با نى اور احترام_حضرت رسول اكرم صلّى اللہ عليہ وا لہ وسلّم سے روايت ہے كہ:

''ما فى امتى عبد الطف اخاه فى الله بشي من لطف اخدمه الله من خدام الجنته'' (۳) ''ميرى امت ميں كو ئي ايسا بندہ نہيں ہے جو خدا كى رضا كى خاطر اپنے بھائي پر مہر با نى كري،مگر يہ كہ خدا وند عا لم جنت كے خد مت كا روں ميں سے كچھ خد مت گار اس كے لئے بھيج ديتا ہي_''

____________________

۱_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۶

۳_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۴

۷۱

ج: حاجت برآوري، حضرت امام محمد باقر _ سے منقول ہے كہ خداوند عالم نے حضرت موسى عليه السلام كى طرف وحى فرمايا كہ ميرے بندوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو ''حسنہ'' يعنى نيكى كے ذريعہ ميرا قرب حاصل كرتے ہيں ' اور ميں انہيں جنت كا حاكم بنائوں گا، موسى عليه السلام نے عرض كيا:' 'خداوندا وہ حسنہ يعنى نيكى كيا ہے ؟''_ خداوند تعالى نے فرمايا: ''كسى مومن كا اپنے بھائي كے لئے اس كى حاجت برآورى كے لئے چل پڑنا ' خواہ وہ حاجت پورى ہو يا نہ ہو ''(۱) د: ......خوش كرنا _ حضرت رسالتمآب (ص) فرماتے ہيں :

''ان الله احبَّ الاعمال الى الله عزوجل ادخال السُّرور على المومنين'' (۲) ''يقينا خدا كے نزديك بہترين عمل ' مومنين كو مسرور كرنا ہے ''_

(۴)_ بہترين بھائي :

ہم يہاں اميرالمومنين على عليه السلام كے فرمان كى روشنى ميں ايك بہترين بھائي كى چند صفات كو بيان كر رہے ہيں :

الف: ''خير اخوانك من دلك على هديً واكسبك تُقيً و صدَّك عن اتباع هويً'' )

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج۳_ ص ۲۸۱

۲_ اصول كافى (مترج) _ ج۳ _ ص ۲۸۱

۳_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۸

۷۲

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو تمہيں ہدايت اور راہ راست كى راہنمائي كري' تمہارى پرہيزگارى ميں اضافہ كرے اور تمہيں خواہشات نفسانى كى پيروى سے باز ركھي''_

ب:''خير إخوانك مَن دعاك الى صدق المقال بصدق مقاله وندبك إلى افضل الا عمال بحسن اعماله'' (۱)

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو اپنى سچى باتوں كے ذريعہ تمہيں سچ بولنے كى دعوت دي' اوراپنے اچھے كردار كے ذريعہ تمہيں نيك كاموں كى طرف پكاري''_

ج: ''خيرا الإخوان من كانت فى الله مَوَدته'' (۲)

''بہترين بھائي (اور دوست) وہ ہے جس كى دوستى خدا كيلئے ہو''_

۵)_ اتحاد' ايك قرآنى حكم:

اتحاد و اتّفاق ميں برادرى كا راز مضمر ہي، جب اسلامى معاشرہ كے تمام افراد آپس ميں برادرى اور اخوت كا مظاہرہ كريں گے تو ان كے درميان وسيع پيمانے پر اتحاد اور ہم آہنگى پيدا ہوگي_

عزّت و وقار اور سربلندى اور سرفرازى كا جامہ ايسے معاشرہ كے لئے زيبا ہے جس كے افراد كے دل اور افكار ايك ہوں' تفرقہ اور جدائي سے پرہيز كرتے ہوں' آپس ميں مہربان ہوں اور سينوں سے كينوں اور كدورتوں كو اكھاڑ پھنكا ہو''_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۸

۲_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۹

۷۳

اتحاد اور اتفاق ايسى چيز ہے جس كے بارے ميں قرآن مجيد نے بڑى تاكيد كى ہي_ ارشاد خداوندى ہے :

( واعتصوا بحبل الله جميعاً وَّ لا تفرقوا'' ) (۱)

''تم سب (ملكر) خداكى رسى كو مضبوطى سے پكڑے رہو اور ايك دوسرے سے تفرقہ وجدائي اختيار نہ كرو ''_

پھر فرماتاہي:

( ولا تكونوا كالذين تفرَّقوا واختلفوا من بعد ما جآئهم البينات ) ''(۲)

''تم لوگ (مسلمان) ان لوگوں كى طرح مت ہوجانا جو اپنے پاس روشن آيات اور نشانيوں كے آجانے كے بعد تفرقہ اور اختلاف ميں پڑگئے تھے ''_

۶)_ فرقہ بندى كے خطرات :_

مسلمانوں كا ايك دوسرے كے خلاف فرقہ بندى اور باہمى اختلاف كے بہت سے نقصانات ہيں' جن ميں سے چند يہاں بيان كئے جاتے ہيں :

الف: صراط مستقيم سے ہٹ جانا ; جب رشتہ وحدت ٹوٹ جاتا ہے تو انسان كو شرك كى طرف كھينچ كر لے جانے كے لئے شيطان كو آسانى ہوجاتى ہے اور انسانى تخليق كا اصل مقصد جو كہ خدا كى عبادت اور اسكے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ہے اس سے ہٹ كر وہ طاغوت كى

____________________

۱_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۳

۲_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۵

۷۴

اطاعت كرنے لگتا ہي_ اس سلسلے ميںقرآن مجيد فرماتا ہي:

( وانَّ هذا صراطى مستقيماً فاتبعوه ولا تتبعوا السُّبُل فتفرق بكم عن سبيله ذلكم وصى كم به لعلَّكم تتقون '' ) (۱) ''اور يہ (دين) ميرا سيدھا راستہ ہے ' لہذا تم اس كى پيروى كرو اور دوسرى راہوں كى پيروى نہ كرو كہ (وہ راہيں) تم كو اس (اللہ) كى راہ سے متفرق اور جدا كرديں گي، اللہ تعالى نے تمہيں اس كا حكم ديا ہے ( كہ اس كے خلاف چلنے سے اجتناب كرو) تاكہ شايد تم پرہيز گار بن جائو''_

ب: عظمت ختم ہوجاتى ہي: عظمت و اقتدار كاراز ' وحد ت اور اتحاد ميں مضمر ہي' جب كہ اس كے برعكس ضعف و ناتواني' اختلاف وانتشار كا نتيجہ ہوتى ہي_ چنانچہ قرآن مجيد مسلمانوں كو باہمى اختلاف سے باز ركھنے كے ساتھ ساتھ اسكے برے انجام سے بھى خبردار كر رہاہي، ارشاد ہي:

( واطيعواالله و رسوله ولا تناز عوا فتفشلوا وتذهب ريحكم'' ) (۲)

''خدا اور اس كے رسول (ص) كى اطاعت كرو ' اور آپس ميں جھگڑا نہ كرو كہ اس طرح تم سست ہوجائو گے اور تمہارى عظمت كى روح تم سے رخصت ہوجائے گي''_

ج: ذلّت; كوئي بھى قوم كہ جو وحدت كى حامل ہوتى ہي' وہ سرى طاقتوں كى يلغار سے محفوظ رہتى ہے اور كسى كو اس كى طرف آنكھ اٹھاكرديكھنے كى جرا ت نہيں ہوتي، ليكن اگر اتحاد كا دامن چھوڑ دے تو

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۱۵۳

۲_ سورہ انفال _ آيت ۴۶

۷۵

معاشرہ كى عزت و عظمت اور حشمت و شوكت خاك ميں مل جاتى ہے ' اور وہ اغيار كى يلغار اور يورش كا تختہ مشق بن جاتا ہے ، تاريخ ہمارے اس دعوے كى گواہ ہي_ حضرت اميرالمومنين على عليه السلام نہج البلاغہ كے ايك خطبہ ميں اس چيز كو اس طرح بيان فرماتے ہيں :

''اب ذرا اسماعيل كى اولاد' اسحاق كے فرزندوں اور يعقوب كے بيٹوں كے حالات سے عبرت ونصيحت حاصل كرو_ (اقوام وملل كي) حالات كس قدر ملتے جلتے اور طور طريقے كتنے يكساں ہيں' ان كے منتشر اور پراگندہ ہوجانے كے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہيں ان ميں غور وخوض كرو كہ جب كسرى (شاہان عجم) اور قيصر (سلاطين دوم) ان پر حكمران تھي، واقعات نے انہيں اطراف عالم كے سبزہ زاروں ' عراق كے دريائوں اور دنيا كى شادابيوں سے خاردار جھاڑيوں' ہوائوں كے بے روك گذرگاہوں اور معيشت كى دشواريوں كى طرف دھكيل ديا اور آخر كار انہيںفقير و نادار اور زخمى پيٹھ والے اونٹوں كا چرواہا اور بالوں كى جھونپڑيوں كا باشندہ بناكر چھوڑديا_ ' ان كے گھر بار دنيا سے بڑھ كر خستہ و خراب اور ان كے ٹھكانے خشك ساليوں سے تباہ حال تھي، نہ ان كى كوئي آواز تھى جس كے پرو بال كا سہارا ليں ' نہ انس ومحبت كى چھائوں تھى جس كے بل بوتے پر بھروسہ كريں، ان كے حالات پراگندہ' ہاتھ الگ الگ تھي' كثرت وجمعيت بٹى ہوئي تھي' جانگداز مصيبتوں اور جہالت كى تہ بہ تہ تہوں ميں پڑے ہوئے تھي' اور وہ يوں كہ لڑكياں زندہ در گور تھيں' (گھر

۷۶

گھر) مورتى كى پوجاہوتى تھي، رشتے ناتے توڑے جاچكے تھي' اور لوٹ كھسوٹ كى گرم بازارى تھي''(۱)

بقول مولانا روم:

گفت پيغمبر (ص) كہ اندر ساق عرش ---- مُنشى نور اين چنين بنوشتہ نقش

ذلّت اولاد آدم بى خلاف ---- زاختلاف است' اختلاف است اختلاف

حضرت پيغمبر اكرم(ص) نے فر مايا كہ عرش كے ستون پر نور كے كا تب نے يہ لكھ ديا ہے كہ بنى ادم كى ذلّت كے اس راز ميںكسى كو اختلاف نہيں، ہے اور وہ اختلاف اختلاف ہے اور صرف اختلاف ہي_

۷)_تفرقہ پر دازى ايك سامراجى كا شيوہ:

شير و شكر اور اتّحاد كى دولت سے مالامال معا شرے كو منتشر اور پر اگندہ كرنا ايسے سامراجى عناصركا شيوہ ہے جس كے دل و دماغ ميںعالمى سطح پر لوٹ ما ر كر نے كا سودہ سما يا ہوا ہي،اور اقوام عالم كو اپنا محكومم بنانے كى فكر ميں ہي_چو نكہ كسى قوم پر فتح پانا اور اسے زير كر نا پہلے ہى مر حلہ ميں ممكن نہيں ہي،لہذا مر حلے وار اپنے مذموم مقا صد كو حاصل كر نے كے لئے ان كے در ميان فر قہ و اريت كا بيج بو ديتے ہيں،پھر اہستہ

____________________

۱_ نہج البلاغہ _ خطبہ ۱۹۲_ (خطبہ قاصعہ )_

۷۷

اہستہ ان كے جان اور مال پر ڈاكے ڈالنا شروع كر ديتے ہيں 'اور اس طرح ان پر مسّلط ہو جا تے ہيں_فر عون،ہما رے اس دعوے كى روشن دليل ہي،جس كے بارے ميں قران فر ماتا ہي:

( ان فرعون علا فى الارض و جعل اهلها شيعا يستضعف طائفة منهم يذيح ابنا هم و يستحى نسا ئهم انه كان من المفسدين ) (۱) ''بے شك فرعون نے زميں ميں بہت سر اٹھايا تھا،اور اس نے وہاں كے رہنے والو ں كو كئي گرو ہوں ميں با نٹ ديا تھا،اُن ميں سے ايك گر وہ بنى اسرائيل كو عا جز اور كمزور كر ليا تھا اُن كے بيٹوں كو ذبح كر ديتا تھا اور ان كى عورتوں اور بيٹيوں كو زندہ رہنے ديتا تھا،بے شك وہ مفسدين ميں سے تھا_''

اس حقيقت كے پيش نظر،مسلمانوں پر وا جب ہے كہ وہ بيدارى اور ہو شيارى كا ثبوت ديں اور اپنى تقدير اور بھا گ دوڑ تفرقہ پر داز اور مفسدوں كے ہا تھوں ميں نہ ديں_

فرقہ بعدى ، خدا كا ايك عذاب :

قرآن مجيد ، ايسے لوگوں كو مختلف قسم كے عذابوں سے ڈراتا ہے جو خدائي قوانين سے رو گردانى كرتے ہيں، ان مختلف عذابوں ميں سے ايك '' فرقہ بندى ،، ہے ، ارشاد ہوتا ہے :

( قل هوا القادر على ان يبعث عليكم عذابا من فوقكم او من تحت ار جلكم او يلبسكم شيعا و يذيق بعضكم باس بعض انظر كيف

____________________

۱_ سورہ قصص _ آيت ۴

۷۸

نصرف الاى ت لعلهم يفقهون ) ،،(۱)

''اے رسول (ص) ،، تم كہدو وہى ( خدا ) اس پر اچھى طرح قادر ہے كہ تم پر تمہارے سر كے اوپر سے كوئي عذاب نازل كرے يا تمہارے پائوں تلے سے ، يا تمہيں مختلف فرقوں ميں تقسيم كر دے ، اور تم ميں سے بعض كو بعض كے عذاب كا مزہ چكھا دے _ ذرا ديكھو كہ ہم كس طرح اپنے دلائل كو مختلف پہلوئوں سے بيان كرتے ہيں تاكہ شايد وہ سمجھ جا ئيں _''

جى ہاں جس طرح ارضى اور سماوى مصيبتيں اور بلائيں گناہگار قوموں كو نيسّت ونابود كر ديتى ہيں ، اسى طرح فرقہ بندى بھى معاشروں كى سردارى اور سعادت و خوشبختى كو تہس نہيں كر ديتى ہے _

ہميں اميد ہے كہ مسلمانان عالم باہم اتّحاد اور اتّفاق كے ساتھ ايك امّت بن جائيں گے ' اور خدا وند كريم ورحيم كے فضل وكرم سے اپنى عظمت رفتہ كو پاليں گے _ مثل مشہور ہے ، ''آرى بااتّفاق '' جھان را مى تو ان گرفت ،، جى ہاں اتّفاق كى بدولت ،كائنات كو مسّخر كيا جا سكتا ہے _

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۶۵

۷۹

ساتواں سبق :

والدين كے حقوق

۱) .........معصومين(ع) كے كلام كى روشنى ميں

۲) اويس قرنى كا سبق آموز كردار

۳) .........باپ كا احترام ' امام زمانہ(ع) كا فرمان

۴) .........والدين كے لئے اولاد كا فريضہ

۵) .........مرنے كے بعد ياد ركھنا

۶) .........والدين سے نيك سلوك كى جزائ

۷) خدا كا فرمان ، يا والدين كى خواہش كى تكميل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تو قارئین  ! یہ ہے سنت رسول ص بلکہ یوں کہیے ، یہ ہیں وہ روایات جو خدا کے رسول ص سے منسوب کی گئی ہیں ۔ کبھی تو ابوہریرہ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے جو  حدیث سنائی تھی اس کا انھیں کچھ علم نہیں ،ان سے تو یہ بات کسی نے کہی تھی ۔ اور کبھی جب ان کی بیان کردہ احادیث میں تناقض کی نشان دہی کی جاتی ہے تو وہ کچھ  جواب نہیں دیتے بلکہ حبشی زبان میں کچھ بڑابڑادیتے ہیں ۔

معلوم نہیں اہل سنت کیسے انھیں اسلام کا سب سے بڑا راوی حدیث قرار دیتے ہیں ؟

عائشہ اور ابن عمر کا اختلاف

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر ام المومنین عائشہ کے حجرے کے ساتھ پیٹھ لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں ان کے مسواک کرنے کی آواز آرہی تھی ، اتنے میں میں نے پوچھا : اے ابو عبدالرحمان ! کیا رسول اللہ ص نے رجب کے مہینے میں بھی عمرہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں کیا ہے ۔ میں نے عائشہ سے کہا: اماں جاں ! آپ سن رہی ہیں ابو عبدالرحمان کیا کہتے ہیں  ؟ انھوں نے کہا : کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے رجب میں عمرہ کیا ہے ۔ انھوں نے کہا : ابو عبدالرحمن کو اللہ معاف کرے۔ آپ نے رجب میں کبھی عمرہ نہیں کیا ۔ اور جب بھی عمرہ کیا یہ تو ہر واقعہ آنحضرت کے ساتھ تھے ۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابن عمر یہ گفتگو سن رہے تھے مگر انھوں نے نہ ام المومنین کی تصدیق کی نہ تردید ،بس چپکے ہورہے ۔(۱)

عائشہ  اور ازواج نبی کا اختلاف

ام المومنین  عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سہلہ بت سہیل  ابو حذیفہ کی جو رو جو بنی عامر کی اولاد میں سے تھی  رسول اللہ کے پاس آئی اور بو لی : یارسول اللہ !

---------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۵ بات عمرۃ القضا۔صحیح مسلم جلد ۲ کتاب الحج ۔

۱۸۱

ہم ابو حذیفہ کے غلام !سالم کو اپنا بچہ سمجھتے تھے او ر یہ کہ جب میں بے لباس ہوتی تھی وہ گھر میں اندر چلاآتا تھا ۔اب کیا کرناچاہیے کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک ہی گھر  ہے ۔یہ سن کر رسو ل اللہ ص نے فرمایا : اسے دودھ پلادو ۔ سہلہ نے کہا: میں اسے کیونکر دودھ پلاسکتی ہوں ، اب تووہ جوان ہوگیا ہے اور اس کے داڑھی مونچھ ہے ۔ اس پر رسول اللہ ص مسکرائے اور بولے : اسے دودھ پلاؤ ، اس میں تمھارا کیا جائے گا ، اگر کچھ جائے گا تو ابو حذیفہ کا جائے گا ۔

ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کیا کرتی تھیں اورجس آدمی کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے تو اپنی بہن ام کلثوم کو حکم کرتیں اور اپنی بھتیجوں کو بھی کہ اس آدمی کو اپنا دودھ پلادیں لیکن دوسری امہات المومنین  اس کا انکار کرتی تھیں کہ بڑھ پن میں رضاعت کے سبب کوئی ان کا محرم بن کر ان کے پاس آجاسکتا ہے ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ص نے یہ رخصت خاص سہلہ بنت سہیل کودی بخدا !ایسی رضاعت  کے سبب کوئی ہمارا محرم نہیں بن سکتا(۱)۔

تحقیق کرنے والا جب ایسی روایات دیکھتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا ،لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایسی روایات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت پر حرف آتا ہے حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہ روایات رسول اللہ ص کو ۔ جو خصائل حسنہ کے پیکر تھے اور مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ ایک ایسے شخض کو روپ میں پیش کرتی ہیں جو اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیرتا ہے اور دین اسلام  میں ایسی مضحکہ خیز باتیں داخل کرتا ہے کہ فرزانے تو کیا دیوانے بھی بس ساختہ ہنس پڑیں ۔(غلامی رسول ص میں ،موت بھی قبول  ہے کا نعرہ بلند کرنےوالے )مسلمان کیا ایسی کوئی حدیث قبول کرسکتے ہیں جو خداکے عظیم الشان رسول ص کا اسخفاف کرتی ہو ،عقل کی کسوٹی اور اخلاق  کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو ، ایمانی غیرت کے منافی ہو اور شرم وحیا کا جنازہ نکال دے۔

کیا کوئی غیرت مند مسلمان اپنی بیوی کو اس بات کی اجازت دےسکتا ہے

----------------------

(۱):- صحیح مسلم کتاب الرضاع جلد ۴ صفحہ ۱۱۶ ۔ موطاء امام مالک کتاب الرضاع جلد ۲ صفحہ ۱۱۶

۱۸۲

کہ وہ کسی جوان آدمی کو دودھ پلائے تاکہ وہ اس کی ماں بن جائے ؟؟

اے اللہ کے رسول ص! آپ کی ذات والا صفات ایسی بیہودہ باتوں سے بہت بلند ہے اور یہ آپ پر بہتان عظیم ہے ۔ میں کیسے باورکرلوں کہ وہ رسول ص ، جس نے مرد کے لیے نامحرم عورت کو چھونا اور اس سے ہاتھ ملانا حرام قراردیا ہے ، وہ بڑھ پن میں عورت کا دودھ پینا جائز قراردے سکتاہے ۔(العیاذ باللہ)

میں اس حدیث سازی کا مقصد تو نہیں جانتا یہ جانتا ہوں کہ بات اس حدیث کی حدود سے نکل  کرآگے بڑھ گئی اور سنت جاریہ بن گئی ۔ کیونکہ ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کرتی تھیں ۔ وہ جس شخص کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے اسے رضاعت کے لیے اپنی بہن ام کلثوم کے پاس بھیجاکرتی تھیں۔

ذوق آگہی رکھنے والوں کی معلومات کےلیے بتاتا چلوں کہ لوگوں کا ام المومنین عائشہ کا محرم بن کر ان کے پاس آنا جانا صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا تھا جب ان کی رضاعت پانچ دفعہ ہوئی ہو کیونکہ ام المومنین ہی کی روایت ہے کہ اللہ نے دس دفعہ رضاعت والی آیت اتاری تھی ، پھریہ پانچ دفعہ رضاعت والی آیت سے منسوخ ہوگئی ۔پس یہ آیت برابر پڑھی جاتی تھی ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے بعد بھی قرآن میں تھی۔(۱) (لیکن اب قرآن میں موجود نہیں ہے(۲)۔

--------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۶۷ باب التحریم بخمس رضعات۔

(۲):- یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے  وہی ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی تحریف  نہیں ہوئی ہے ۔ تیسری صدی کے  شیخ صدوق علیہ الرحمۃ سے لے کر پندرھویں صدی کے آیت اللہ خوئی دام ظلہ العالی تک شیعہ علماء کبھی تحریف قرآن کے قائل نہیں رہے، ان کی کتابیں  اور ان کے فتوے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔لیکن خدا معلوم کیوں کچھ لوگ مقطوع السند اخبار آحاد کے سہارے شیعہ دشمنی کی بھڑاس نکالتے ہیں اور شیعوں پریہ سنگین تہمت لگاتے ہیں کہ ان کا قرآن چالیس پاروں کا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اگر کچھ مرسل ،ضعیف یا مقطوع السند  روایتیں شیعہ کتب میں ہین تو اس سے کہیں زیادہ روایات سنی کتب ،احادیث میں بھی ہیں لیکن  یہ کسی طرح بھی قائل اعتبار نہیں مثلا

۱۸۳

<>ام المومنین بی بی عائشہ  آیہ رضاعتعشر رضعات معلومات (شیر خواری کو دس مرتبہ دودھ پلانا معین ہے) کو جزو قرآن بتاتی ہیں اور یہ صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ، سنن دارمی  اور موطاء مالک میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب آیہ رجم(الشيخ والشيخة فارجموهما البتة ) جو  جز و قرآن بتاتے ہیں اور یہ آیت صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،سنن ابی داؤد  ،سنن ابن ماجہ اور موطاء میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ آیت : لاترغبوا عن آبائکم فانّہ کفر بکم"لاترغبواعن آبائكم فإنّه كفرٌ بكم إن ترغبواعن آبائكم" قرآن کا جزو تھی اور ہم اسے پڑھا کرتے تھے ۔یہ آیت صحیح بخاری  ومسند احمد بن  حنبل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

<>سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ام المومنین نےکہا:

 زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کی آیت (آیہ رجم )نازل ہوئی تھی ۔نیز یہ کہ بڑھ  پن میں دس دفعہ دودھ پلانے کی آیت(ورضاعة الکبير عشرا") نازل ہوئی تھی اور ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے رکھی تھی ،جب رسول اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم افراتفری کے عالم میں تھے  توبکری اسے کھاگئی ۔

<>اور صحیح مسلم میں ترقیم ہے کہ ابو موسی اشعری نے بصرے میں تین سو قاریان قرآن کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

ہم  ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو طویل تھا اور  اورجس کا مضمون سورہ توبہ کی طرح سخت تھا ۔بعد میں ہم وہ سورہ بھول گئے  البتہ  اس کی یہ آیت میرے حافظہ میں باقی ہیں :"لوكان لإبن آدم وأديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولا يملاٌ إبن آدم إلّا التراب"

<>اسی طرح ہم ایک سورہ بھی پڑھا کرتے تھے جو "مسبحات " میں سے ایک مشابہ تھا ۔ ہم ہو سورہ بھول گئے  اور مجھے  اس کی فقط  یہ آیت یاد رہ گئی ہے ۔"يايّها الذين آمنوالم تقولون ما لاتفعلون فكتب شهادة في أعناقكم فتسئلون عنهايوم القيامة."

۱۸۴

۲:- سنت رسول ص کے بارے میں فقہی مذاہب کا اختلاف

سنت رسول ص کے بارے میں ابوبکر اور عمر میں اختلاف تھا(۱) ۔ابو برک کا فاطمہ سے اختلاف تھا ۔(۲) ازواج رسول  ص کا آپس میں اختلاف تھا ۔(۳) ۔ ابو ہریرہ کاعائشہ سے اختلاف تھا ۔(۴) عبداللہ بن عمر اور عائشہ کے مابین اختلاف تھا ۔(۵)

-----------------------

حدیث کی معتبر کتابوں سے یہ چند نمونے ہم نے ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے پیش کیے ہیں جو کہتے  پھرتے ہیں کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ۔ حالانکہ قرآن یہی ہے جو دفتین کے بیچ ہے ، نہ کم  نہ زیادہ ۔ اور سب مسلمانوں  کا سی پر ایمان  ہے ۔جو ہم پر بہتان باندھتا ہے ،ہم اس کا اور اپنا معاملہ  اللہ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ وہ احکم الحاکمین ہے ۔

ہم تو بس اتنی سی بات جانتے ہیں کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ، کیونکہ یہ آخری آسمانی شریعت اور خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے :

"انا نحن نزلنا الذکر وانا لة لحافظون "( ناشر)

(۱):- مانعین زکواۃ سے جنگ کے بارےمیں اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔ ہم نے اس قصہ کے ماخذ بیان کردیے ہیں ۔

(۲):- قصہ فدک اور حدیثنحن معشر الانبياء لانورث کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے ماخذ کا بیان بھی گزرچکا

(۳):-بالغ مرد کو دودھ پلانے کے قصے کی طرف اشارہ ہے کہ جو عائشہ سے مروی ہے ۔لیکن دیگر ازواج رسول ص نے اس کے برخلاف کہا ہے۔

(۴):- ابو ہریرہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ص صبح کو جنب ہوتے تھے اور روزہ رکھ لیتے تھے ۔ عائشہ نے ابو ہریرہ کی  اس بات غلط بتلایا ہے ۔

(۵):- اشارہ ہے اس روایت کی طرف کہ رسول اللہ ص نے چار عمرے کیے جن میں سے ایک رجب میں تھا عائشہ نے اس کی تردید کی ہے۔

۱۸۵

عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان اختلاف تھا ۔(۱) علی بن ابی طالب ع اور عثمان بن عفان کے درمیان اختلاف تھا(۲) ۔ جب  صحابہ کے درمیان ہی اتنا اختلاف تھا(۳) تو تابعین  کے درمیان  تو اور بھی بڑھ گیا حتی کہ فقہی مذاہب ستر سے بھی زیادہ ہوگئے ۔ابن مسعود صاحب مذہب تھے ، اسی طرح ابن عمر ، ابن عباس  ، ابن زبیر ، ابن عینیہ ، ابن جریج ، حسن بصری ، سفیان ثوری ،مالک بن انس ،ابو حنیفہ ، شافعی ،احمد بن حنبل سب کے سب صاحب مذہب تھے ۔ ان کے علاوہ اور بہت ہیں ۔ لیکن سلطنت عباسیہ نے اہل سنت کے چار مشہور مذاہب کو چھوڑ کر باقی سب کاخاتمہ کردیا ۔

اگر چہ اب فقہی مذاہب چند ہی رہ گئے ہیں ، پھر بھی ان کے درمیان اکثر فقہی مسائل میں اختلاف ہے ۔ اور اس کی وجہ وہی سنت رسول ص کے بارے میں اختلاف ہے ۔ایک مذہب کسی مسئلے میں حکم کی بنیاد کسی حدیث پررکھتا ہے جسے وہ اپنے زعم میں صحیح سمجھتا ہے ، تو دوسرا مذھب اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے یا کسی دوسرے مسئلے پر نص اور حدیث کی عدم موجودگی کی وجہ سے قیاس کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ، مثلا رضاعت کے مسئلے میں بہت اختلاف ہے ،کیونکہ اس بارےمیں احادیث باہم متضاد ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ایک مذہب کے مطابق ایک قطرہ دودھ پینے  سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ جبکہ دوسرے مذہب  کی رو سے دس یا پندرہ دفعہ دودھ پلانا ضروری ہے ۔

۳:- سنت رسول ص کے بارے میں شیعہ سنی اختلافات

اس معاملے میں شیعہ سنی اختلاف عموما دووجہ سے ہوتا ہے  ایک تویہ کہ

---------------------

(۱):-اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔ دیکھیے صحیح بخاری جلد ۶ صفحہ ۱۲۹۔

(۲):- اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ حج کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔دیکھیے صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۵۳

(۳):- بسم اللہ کےبارے میں ، وضو کے بارےمیں ،مسافر کی نماز کے بارے میں اور ایسے ہی ان گنت دوسرے مسائل

۱۸۶

شیعہ اس حدیث  کو صحیح نہیں مانتے جس کے راوی کی عدالت پائیہ اعتبار سے ساقط ہو خواہ وہ صحابی ہیں کیوں نہ ہو ۔

اہل سنت کے برخلاف  شیعہ اس بات کے قائل نہیں کہ تمام صحابہ ثقہ اور عادل تھے ۔

اس کے علاوہ شیعہ کسی ایسی حدیث کو بھی قبول نہیں کرسکتے جو ائمہ اہل بیت ع کی روایت سےمتصادم ہو ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع کی روایت کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دیتے ہیں خواہ دوسروں کا مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو ۔ اس سلسلے میں ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جن کی قرآن وسنت سے تائید ہوتی ہے اور جن کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ ان میں بعض چیزوں کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔ شیعہ سنی اختلاف  کا ایک اور سبب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک  حدیث کا مفہوم کچھ ہے اور شیعہ اس کے کچھ اور معنی بیان کرتے ہیں ۔ مثلا وہ حدیث جس کا ہم پہلے تذکرہ کرچکے ہیں یعنی :

اختلاف امّتی رحمۃ

اہل سنت تو اس حدیث کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ فقہی مسائل میں مذاہب اربعہ کا اختلاف مسلمانوں کے لیے رحمت ہے ۔

جبکہ  شیعوں کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پاس سفر کرکے جانا اور ایک دوسرے سے علم حاصل کرنا رحمت ہے ۔یہ تشریح امام جعفر صادق کی ہے اور ہم اسے پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

بعض دفعہ شیعہ سنی اختلاف حدیث رسول ص کے مفہوم میں نہیں ہوتا بلکہ اس بارےمیں ہوتا ہے کہ جس شخص یا اشخاص کا حدیث میں ذکر ہے اس سے کون مراد ہے ۔مثلا قول رسول ص ہے کہ

"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين من بعدي"

اہل سنت خلفائے راشدین سے  ابو بکر ، عمر ،عثمان اور علی مراد لیتے ہیں مگر شیعہ بارہ ائمہ مراد لیتے ہیں ۔

اسی طرح رسو ل اللہ کا ایک اور قول ہے :

"الخلفاءمن بعدي اثنى عشركلّّهم من قريشٍ."

۱۸۷

"میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب قریش سے ہوں گے "۔

شیعہ بارہ خلفاء سے بارہ ائمہ اہل بیت ع مراد لیتے ہیں جبکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں  اس کی کوئی تشریح ہے ہی نہیں ۔

کبھی شیعہ سنی اختلاف ان تاریخی واقعات کے بارے میں ہوتا جن کا تعلق رسول اللہ کی ذات سے ہے ۔ جیسا کہ آپ کے یوم بارے میں اختلاف ہے ۔ اہل سنت ۱۲ ربیع الاول کو میلاد النبی مناتے ہیں جبکہ شیعہ اس مہینے کی ۱۷ تاریخ کو محافل میلاد منعقد کرتے ہیں ۔

سنت نبوی کے بارے میں ایسا اختلاف  ہونا قدرتی ہے ۔ اس سے بچنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ کوئی ایسا مرجع موجود نہیں جس کی طرف سب رجوع کرسکیں اور جس کے حکم کو سب مانیں اور جس کی رائے کو سب قبول کریں اور جس پر سب کو اسی طرح اعتمادہو جیسے رسول اللہ ص کی زندگی میں آپ پر تھا ۔

امت کی زندگی میں ایسے شخص کا وجود ہر وقت ضروری ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ رسول اللہ ص اس ضرورت کو نظر انداز کردیتے ۔ آپ کو معلوم تھا اور علام الغیوب نے آپ کو اطلاع دے دی تھی کہ آپ کی امت آپ کے بعد قرآن کی  تاویل کرےگی ۔ اس لیے آپ کے لیے ضروری تھا کہ آپ کوئی معلم مقرر کریں کہ اگر امت کے لیے واقعی ایک ایسے عظیم قائد کا انتظام کردیا تھا جس کی تعلیم وتربیت میں آپ نے ابتدا ہی سے پوری کوشش صرف کی تھی اور جب وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا اور آپ سے اس نسبت وہ ہوگئی جو حضرت ہارون ع کی جناب موسی ع سے تھی ۔تو آپ نے یہ جلیل القدر کام یہ کہہ کر اس کے سپر دکردیا کہ

"أناأُقاتلهم على تنزيل القرآن وأنت تقاتلهم على تاويله".(۱)

--------------------

(۱):-مناقب خوارزمی صفحہ ۴۴۔ ینابیع المودۃ صفحہ ۳۳۲۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد ۱ صفحہ ۲۵ ۔کفایت الطالب صفحہ ۳۳۴ ۔ منتخب کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۶ ۔ احقاق الحق جلد ۶ صفحہ ۳۷

۱۸۸

"اے علی ع! میں تنزیل قرآن کی خاطر جنگ لڑتا ہوں ، اب تم تاویل قرآن کے لیے لڑو۔"

آپ نے یہ بھی فرمایا :

"أنت يا عليّ ! تبيّن لأُمّتي ما اختلفوافيه من بعدي"

علی !جس بات میں میری امت میں میرے بعد اختلاف ہو تم اس بات کو واضح کردینا ۔(۱)

قرآن جو اللہ کی کتاب ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کی تفسیر  اور توضیح کے لیے لڑے یعینی جانفشانی کرے کیونکہ یہ ایک خاموش کتاب ہے جو خود نہیں بولتی  مگر ساتھ ہی متعدد معانی کی حامل ہے ۔ اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔جب قرآن  کی ہ صورت ہے تو سنّت  کی تشریح وتوضیح تو اور بھی ضروری  ہے اور جب قرآن وسنت دونوں تشریح طلب ہوں تو رسول اللہ ص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں ثقلین  ایسے چھوڑیں  جو خاموش اور گونگے ہوں اور جن کی حسب منشاء تاویل وہ لوگ کرسکیں  جسن کے دل میں کجی  ہے اور جو فتنہ برپا کرنا اور دنیا کمانا چاہتے  ہیں اور جن کے متعلق معلوم ہے کہ بعدمیں آنے والوں کے لیے گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ لوگ ان کے ساتھ حسن ظن رکھیں گے ۔ انھیں عادل سمجھیں گے لیکن بعد میں قیامت کے دن پشیمان ہوں گے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا () وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا () رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً"

جس دن  ان کے چہرے آگ میں الٹائے جائیں گے تو وہ کہیں گے اے کاش !ہم اللہ اور رسول ص کی اطاعت کرتے ۔ اورکہیں گے

-------------------

(۱):-مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۱۲۲ ۔تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۴۸۸ ۔ مناقب خوارزمی صفحہ ۲۳۶۔ کنوز الحقائق صفحہ ۲۰۳ ۔ منتخب کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۳۔ ینابیع المودۃ صفحہ ۱۸۲

۱۸۹

کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انھوں نے ہمیں گمراہ کردیا ۔ اے پروردگار ! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر (سورہ احزاب ۔آیات ۶۶ تا ۶۸)

"كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعاً قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لأُولاَهُمْ رَبَّنَا هَـؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ"

جب ایک کے بعد ایک جماعت (جہنم میں)داخل ہوگی تو  وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب ساری جماعتیں جمع ہوجائیں گی تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار  یہ تھے  وہ جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ۔ پس تو ان کو آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ اللہ کہے گا تم میں  سےہر جماعت  کے لیے دوہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔(سورہ اعراف ۔آیت ۳۸)

گمراہی کا سبب یہی ہے ۔کوئی امت ایسی نہیں گزری جس کے پاس  اللہ نے نبی ہادی نہ بھیجا ہو ۔ اور اس کی امت نے اس کے بعد اللہ کے کلام میں تحریف  نہ کی ہو ۔ کیا کوئی شخص بشرط صحت اوربقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام  نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہوگا کہ میں خدا ہوں ، ہرگز نہیں ! قرآن شریف میں ہے :

"مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ"

 خدایا ! میں نے ان سے وہی کہاجس کا تو نے مجھے حکم دیا ۔

لکان لالچ  اورحب دنیا نے عیسائیوں  کو تثلیث کےعقیدے کی طرف دھکیل دیا ۔ حضرت عیسی نے اپنے پیروکاروں کو حضرت محمد ص کی آمد کی بشارت دی تھی ۔

۱۹۰

اسی طرح ان سے پہلے حضرت موسی ع نے بھی یہ بشارت دی تھی لیکن عیسائیوں نے محمد اور احمد ناموں کی تاویل کرکے ان کا مطلب نجات دہندہ بنالیا اورآج تک وہ اس نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں ۔

امت محمدیہ بھی تاویل کی بدولت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئی جس میں سوائے ایک کے سب جہنمی ہیں ۔ اب ہم انھی فرقوں کے درمیان زندگی بسر کررہے ہیں ۔لیکن کیا کوئی ایک فرقہ بھی ایسا ہے جو خود کو گمراہ سمجھتا ہو؟ بالفاظ دیگر کیا کوئی ایک فرقہ ایسا ہے جو یہ کہتاہو کہ ہم کتاب وسنت کی مخالفت کرتے ہیں ؟ اس کے برعکس ہر فرقے کا یہی دعوی ہے کہ ہم کتاب وسنت پر قائم ہیں ۔ آخر پھر حل کیا ہے ؟

کیا رسول اللہ ص کو اس کا حل معلوم نہیں تھا یا خود اللہ تعالی کو حل معلوم نہیں تھا ۔ کیونکہ رسول اللہ ص تو عبد مامور تھے یعنی وہ تو وہی کرتے تھے جو انھیں حکم ملتا تھا ۔ جیسا کہ قرآن مین ہے ۔ :

" فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ () لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ " (۱)

اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے ، اس لیے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ہو اس مشکل کا کوئی  حل تجویز نہ کرے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ بھی دلائل کو دیکھنے کے بعد ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلائل  کو دیکھنے کے بعد زندہ رہے ۔ اللہ تعالی کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نظر انداز کردے اور انھیں بغیر ہدایت کے چھوڑ دے ۔سوائے اس صورت کے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالی کامنشاہی یہ ہے کہ اس کے بندے افتراق وانتشار اور گمراہی میں مبتلا ہوں تاکہ وہ انھیں آتش دوزخ میں جھونک  دے ۔ یہ اعتقاد بالکل غلط اور باطل ہے  میں اللہ سے عفو کا طلب گار ہوں اور توبہ کرتاہوں اس قول سے جو اللہ کی جلالت اور حمکت کے منافی ہے ۔

-----------------------

(۱):-آپ انھیں نصیحت کرتے رہیں کہ آپ نصیحت کرنے والے ہیں ۔ آپ ان  پر داروغہ نہیں ہیں ۔سورہ غاشیہ

۱۹۱

اس لیے رسول اللہ ص سے منسوب یہ قول کہ آپ نے اپنے بعد کتاب اور سنت چھوڑی ہے ، ہماری مشکل کا کوئی معقول حل نہیں ہے ، بلکہ اس سے پیچیدگی مزیدبڑھتی ہے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کی جڑ نہیں کٹتی ۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ جب لوگوں نے اپنے امام کے خلاف بغاوت کی تو انھوں نے یہی نعرہ لگایا  یا تھا کہ :

"ليس الحكم لك يا علي ُّ وإنّما الحكم للّه".

علی ! تمھارا نہیں اللہ کا حکم چلے گا ۔

بہ ظاہر یہ نعرہ بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے  کہ نعرہ لگانے والا اللہ کے حکم کا نفاذ چاہتا ہے اور غیراللہ کا حکم ماننے سے انکاری ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ "

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی گفتگو  دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر  پر اللہ کو گواہ بناتے  ہیں حالانکہ وہ سخت جھگڑا لو ہیں "۔(سورہ بقرہ ۔آیت ۲۰۴)

جی ہاں ! ایسا اکثر ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیاگیا ہے ۔آئیے اس کو سمجھ لیں کہ کیسے ؟:

جب خوارج امام علی ع سے یہ کہتے تھے کہ حکم آپ کا نہیں اللہ کا چلے گا ،  تو کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ زمین پراتر کر آئے گا اور سب کے سامنے ظاہر ہو کر ان کے اختلافی مسائل  کا تصفیہ کے گا ۔ یا وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کا حکم تو قرآن میں ہےلیکن یہ سمجھتے تھے کہ علی ع نے قرآن کی غلط تاویل کی ہے ۔ اگر ایسا تھا تو ان کے پاس

۱۹۲

اس کی کیا دلیل تھی  ، جب کہ علی ع ان سے زیادہ عالم تھے ، ان سے زیادہ  راستباز تھے اور ان سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ کیا علی ع سے بڑھ کربھی کوئی اسلام کا ہمددرد اور وفادار ہوسکتا تھا ؟

معلوم ہوا کہ یہ محض دل فریب نعرہ تھا جس کا مقصد سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف  بنا کر ان کی تائید اور جنگ میں ان کی معاونت حاصل کرنا تھا ۔ آج بھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔وہی زمانہ وہی لوگ ۔ مکر وفریب کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ آج کے مکار اور عیار ۔لوگ اگلوں  کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہمارے زمانے میں بھی کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

آج بھی چمکتے دمکتے ہوئے دل فریب نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ مثلا " وہابی ، توحید  کی حمایت اور شرک کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ اب کون مسلمان ہے جو اس اصول سے اتفاق  نہیں کریگا ۔ ایک فرقے نے تو اپنا نام ہی اہل سنت والجماعت رکھ چھوڑا ہے ۔کون مسلمان نہیں چاہے گا کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ہو جو سنت رسول  کا اتباع کرتی ہو ۔

بعث پارٹی کا نعرہ ہے :

"أُمّةٌ عربيّةٌ وّاحدةٌ ذات رسالةٍ خالدةٍ"

غیر فانی پیغام کی حامل ایک متحد عرب قوم  کو ن مسلمان اس نعرے سے دھوکا نہیں کھاجائےگا اگر اسے اس پارٹی اور اس کے عیسائی بانی مائیکل عفلق کے خفیہ عزائم  کا علم نہیں ۔آفرین ہے آپ کو اے علی بن  ابی طالب ع ! آپ کے حکیمانہ اقوال آج بھی قائم ودائم ہیں اور ہمیشہ زمانے کے کانوں میں گونجتے رہیں گے !

" فکم من کلمةٍ حق يراد بها باطل "

کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ صحیح بات کا غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

ایک عالم نے منبر پر چڑھ کر بہ آواز بلند فرمایا :

۱۹۳

جو کہے گا میں شیعہ ہوں ، ہم اس سے کہیں گے کہ تو کافر ہے اور جو کوئی کہے گا میں سنی ہوں ، ہم اس سے بھی کہیں گے تو کافر ہے ۔ہمیں شیعہ چاہییں نہ سنی ۔ہمیں فقط مسلمان چاہیئیں۔

یہاں بھی صحیح بات کا غلط مطلب لیا گیا ہے ۔ معلوم نہیں یہ عالم  کس اسلام کی بات کررہا تھا ؟

آج دنیا میں متعدد اسلام ہیں بلکہ قرن اول ہی میں متعدد اسلام تھے ۔ علی ع کا بھی اسلام تھا اور معاویہ کا بھی اسلام تھا اور دونوں کے پیروکار بھی تھے ، آخر لڑائی تک کی نوبت پہنچی ۔

پھر حسین  ع کا بھی  اسلام تھا اور یزید کا بھی اسلام تھا جس نے اہلبیت  کو اسلام ہی کے نام پر تہہ تیغ کیا ۔ اس سے دعوی کیا تھا کہ چونکہ حسین ع نے اس کے خلاف خروج  کیا ہے اس لیے وہ اسلام  سےخارج ہوگئے ہیں ۔ پھر ائمہ اہل بیت اور اس کے حامیوں کا اسلام تھا اور حکمرانوں اور ان کے عوام کا اسلام تھا ۔ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں  میں اس طرح کا اختلاف رہا ہے ۔ آج بھی ایک طرف تو ان لوگوں کا اسلام ہے جنھیں مغرب اعتدال پسند اور روشن خیال کہتا ہے کیونکہ اسلام کے پیروکار وں نے یہود ونصاری کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے اور یہ لوگ سپر پاورز کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ دوسرا اسلام   ان کے کٹر مسلمانوں کا ہے جنھیں مغرب بنیاد پرست ، متعصب ، دقیانوسی اور مذہبی دیوانے کہتا ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس  عالم اور خطیب نے بعد میں اپنے خیالات سے رجوع کرلیا تھا ۔

ان اسباب کے پیش نظر جو ہم نے گزشتہ اوراق میں بیان کیے ۔ اس کی گنجائش  باقی نہیں رہتی کہ کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث کو صحیح تسلیم کیا جاسکے ۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ دوسری  حدیث  کتاب اللہ وعترتی ہی صحیح ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ اس حدیث سے تمام مشکلات حل  ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم اہل بیت ع کی طرف رجوع کریں جن کی

۱۹۴

رجوع کر نے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ تو پھر کسی آیت کی تفسیر میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ۔ خصوصا اگر یہ ذہن میں رکھیں  کہ یہ ائمہ جن کو خود رسول اللہ ص نے مقرر کیا وہیک اس کام کے اہل ہیں اور مسلمانوں میں کوئی ان کے علم کی وسعت  میں اور ان کے زہد وتقوی میں شک نہیں کرتا ۔ وہ تمام فضائل  میں دوسروں  سے بڑھ کر ہیں ۔ لہذا وہ قرآن کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور نہ اس کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ۔ بلکہ تا قیامت اس سے جدا نہیں ہوں گے  ۔رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔

"میں تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑرہا ہوں :ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو مثل رسی کے آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے اور دوسری میری عترت ہے یعنی میرے اہل بیت ع یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک  کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیںگے۔

چونکہ میں سچوں  کےساتھ شامل ہوناچاہتا ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں فقط حق بات کہوں گا اورکسی کی ملامت یا اعتراض کی پرواہ نہ کروں ۔ میرا مقصد لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے  اللہ سبحانہ  کی رضا کا حصول اور خود انپے ضمیر کا اطمینان  ہو کیونکہ غیروں کا تو یہ حال ہے کہ

"وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ"

تم سے ہر گز خوش نہیں ہوں گے نہ یہود اور نہ نصاری ،جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگو ۔

اس کی تمام بحث میں شیعہ ہی حق پر ہیں ۔ کیونکہ اہل بیت ع کے معاملے میں انھوں نے رسول اللہ کی وصیت پر عمل کیا  ہے اہل بیت ع کی امامت کو تسلیم کیا ہے اور اہل بیت ع کی اطاعت اور ان کی متابعت کے ذریعے  اللہ کا قرب  حاصل کرنے  کی کوشش کی ہے ۔ پس شیعوں کو دنیا اور آخرت کی یہ کامیابی مبارک ہو ۔حدیث میں

۱۹۵

ہے کہ " آدمی حشر ان کےساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے ۔" پھر کیا کہنے اس شخص کے جو اہل بیت سے محبت بھی رکھتا ہو اور ان کا اتباع بھی کرتا ہو ۔ زمخشری نے اس بارے مین کہا :

"كثرالشّكُّ والإختلاف و كلّ

يدّعى أنّه الصّراطُ السّويّ

فتسّكتُ بلآ إله إلّا الله

وحبّي لأحمد وعلى

فازكلبٌ بحبّ أصحاب كهف

فكيف أشقى بحبّ آل النّبي

شک اور اختلاف بہت بڑھ گیا ہے اور ہر شخص کا دعوی ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے ۔ ایسے میں دو چیزوں  کو مضبوطی سے تھا م لیا ہے : ایک ریسمان لا الہ الّا اللہ کو اور دوسرے احمد ص وعلی ع کی محبت کو ۔ اصحاب کہف سے محبت کے سبب اگر ایک کتا کامیاب ہوسکتا ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ آل محمد سے محبت کے باوجود مجھے درمقصد نہ ملے ۔

سعدی گر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد ص بس است وآل محمد

اے اللہ ! تو ہمیں ان لوگوں میں سے بنادے جنھوں نے ولائے اہل بیت ع کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے ۔ جو ان کے راستے پر گامزن ہیں ، ان کی کشتی پر سوار ہیں ۔ ان کی امامت کے قائل ہیں اور جو ان کی جماعت میں محشور ہوں گے بے شک تو جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلنے  کی توفیق دے دیتا ہے ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۱۹۶

خمس

یہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن پر شیعوں اورسنیوں میں اختلاف ہے اس سے قبل کہ ہم کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کریں ، خمس کے موضوع پرمختصر بحث ضروری ہے ،جس کی ابتدا ہم قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔:

"وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ "

اور یہ جان لو کہ جو مال تمھیں حاصل  ہو اس کا پانچواں  حصہ اللہ اور رسول  ص کے لیے ، رسول ص کے قرابتداروں کے لیے اور یتیموں  ناداروں اورمسافروں کے لیے ہے ۔(سورہ انفال ۔ آیت ۴۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

" أمركم بأربعٍ :الأيمان بالله وإقام الصّلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تؤدّوا الله خمس ما غنمتم ."

اللہ تعالی نے تمھیں چار چیزوں کا حکم دیا ہے : ایمان با اللہ کا ، نماز قائم کرنے کا ،زکات دینے کا اور اس کا کہ تم جو کچھ  کماؤ اس کا پانچواں حصہ اللہ کو ادا کرو۔(۱)

چناںچہ شیعہ تو ائمہ اہل بیت ع کی پیروی کرتے ہوئے جو مال انھیں سال بھر میں حاصل ہوتا ہے اس کا خمس نکالتے ہیں ۔ اور غنیمت کی تشریح یہ کرتے ہیں

-----------------------

(۱):- صحیح بخاری  جلد ۴ صفحہ ۴۴

۱۹۷

کہ اس سے مراد نفع ہے جو آدمی کو عام طور پر حاصل ہوتا ہے ۔

اس کے برخلاف اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ خمس(۱) اس مال غنیمت سے مخصوص ہے جو کفار سے جنگ کے دوران میں حاصل ہو ۔ ان کے نزدیک "ماغنمتم من شیء " کے معنی ہیں کہ جو کچھ تمھیں جنگ کے دوران میں لوٹ کے مال سے حاصل ہو(جبکہ آیت میں دارالحرب کا خصوصیت سے ذکر نہیں اور من شیء کے الفاظ عمومیت کے حامل  ہیں )

-------------------------

(۱):-خمس کے موضوع پر صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد  ،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث  موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے نماز اور زکواۃ کے ساتھ خمس کی ادائیگی  کو بھی واجب قراردیا تھا ۔

اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف صحیح مسلم سے ایک روایت کامتن درج کررہے ہیں ۔طالبان تفصیل  علامہ سید ابن حسن نجفی صاحب کی کتاب مسئلہ خمس ملاحظہ فرمائیں ۔

"ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض  کی یا رسول اللہ ! ہم ربیعہ کے قبیلے سے ہیں اور ہمارے دور آپ کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل ہے اور حرمت والے مہینوں کے علاوہ  دوسرے زمانے میں ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے ! لہذا آپ ہمیں کوئی ایسی ہدایت  فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل  پیراہوں  اوراپنے دوسرے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیں ۔ آپ نے فرمایا : تم کو حکم دیتاہوں چار باتوں کے لیے اور منع کرتا ہوں چارباتون سے ۔پھر آپ نے تو ضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ گواہی  دو اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے خداکے اور محمد ص اس  کے رسول  ہیں ۔ نیز نماز قائم کرو ، زکواۃ دو اور اپنی کمائی میں سے خمس اداکرو ۔(صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۹۳ مطبوعہ لاہور) (ناشر)

۱۹۸

یہ خلاصہ ہے خمس کے بارے میں فریقین کے اقوال کا ۔ میں حیران ہوں کہ کیسے میں خود کو یاکسی اور کو اہل سنت کے قول کی صحت کیایقین دلاؤں  جب کہ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں اہل سنت نے اموی حکمرانوں کے قول پر اعتماد کیا ہے خصوصا معاویہ بن ابی سفیان کی رائے پر ۔جب کہ معاویہ بن ابی سفیان نے مسلمانوں کے اموال  پر قبضہ کرکے  سب سونا چاندی  اپنے لیے  اور اپنے  مقربین  کے لیے مخصوص  کرلیا تھا اور اس کا نگران اپنے بیٹے یزید کوبنالیا تھا جو بندروں اور کتوں کو سونے کے کنگن پہنا تا تھا جب  کہ بعض مسلمان بھوکے مرتے تھے ۔

اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں  کہ اہل سنت خمس کو دارالحرب سے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ یہ آیت ان آیات کے درمیان واقع ہوئی ہے جن کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی تفسیر اہل سنت اگر کوئی مصلحت  اس کی مقتضی  ہو تو ان سے پہلی یا بعد کی آیات کے معنی کی مناسبت سے کرتے ہیں ۔مثلا وہ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر ازواج رسول ص سے مخصوص ہے کیونکہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات میں ازواج رسول ص ہی کا ذکر ہے ۔اسی طرح  اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ اہل کتاب سے  مخصوص ہے :

" وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"

جو لوگ سونا چاندی جوڑ کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیدیجیے ۔(سورہ توبہ ۔آیت ۳۴)

اس سلسلے میں ابوذرغفاری رض  کے معاویہ اور عثمان سے اختلاف کا اور ابوذر کا ربذہ میں شہر بدر  کیے جانے کا قصہ مشہور ہے ۔ابو ذر جو سونا چاندی جمع کرنے پر اعتراض کرتے تھے ۔ وہ اسی آیت سے استدلال کرتے تھے ۔ لیکن عثمان نے کعب الاحبار سے مشورہ کیا تو کعب الاحبار نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب سے مخصوص ہے ۔ اس پر ابوذر غفاری رض غصّے  سے بولے : یہودی کے بچے ! تیری ماں تجھے روئے اب تو ہمیں ہمار دین سکھائے گا ؟اس پر عثمان ناراض ہوگئے اور ابوذر کو ربذہ

۱۹۹

میں شہر بدر کردیا ۔ وہ وہیں ! کیلے پڑے پڑے کس مپرسی کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی بیٹی کو کوئی ایسا شخص بھی دستیاب نہ ہوسکا جو ان کو غسل وکفن دے سکتا ۔

اہل سنت نے آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کی تاویل کو ایک فن بنادیا ہے ۔ ان کی فقہ اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ اس معاملے میں وہ ان خلفائے اولین اور مشاہیر صحابہ کا اتباع کرتے ہیں ۔ جو نصوص صریحہ کی تاویل کرتے ہیں (۱)

اگر ہم ایسے تمام نصوص گنوانے لگیں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی  تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے کافی ہے کہ وہ النص والاجتہاد نامی کتاب کا مطالعہ کرے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ تاویل کرنے والوں نے کس طرح اللہ کے احکام کو کھیل بنادیا ۔

اگر میرا مقصد تحقیق ہے تو پھر مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی اپنی  خواہش کے مطابق یا جس مذہب  کی طرف میرا رجحان ہے اس کے تقاضوں کے مطابق تاویل کرنے لگوں ۔

لیکن اس کاکیا علاج کہ اہل سنت نے خود ہی اپنی صحاح میں وہ روایات بیان  کی ہیں جن کے مطابق دارالحرب سے باہر خمس کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے اور اس طرح اپنے مذہب اور اپنی تاویل کی خود ہی تغلیط  اور تردید کردی ہے ۔مگر معما پھر بھی حل نہیں ہوتا ۔

معما یہ ہے کہ آخر اہل سنت ایسی بات کیوں کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے ۔وہ اپنی حدیث کی کتابوں  میں وہی اقوال بیان کرتے ہیں جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ لیکن ان کا عمل سراسر مختلف  ہے ۔آخر کیوں  ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ خمس کا موضوع بھی ان ہی مسائل میں سے ہے جن کےبارے میں سنی خود اپنی روایات پر عمل نہیں کرتے ۔

------------------------

(۱):- علامہ شرف الدین اپنی کتاب النص والاجتھاد میں نصوص صریحہ میں تاویل کی سور سے زیادہ مثالیں جمع کی ہیں جسے تحقیق مقصود ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328