حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63947 / ڈاؤنلوڈ: 7546
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

صحیح بخاری کے ایک باب میں ایک عنوان ہے : "فی الرّکا ز الخمس"(دفینے میں خمس ہے)۔ مالک اور ابن ادریس کہتے ہیں کہ رکاز وہ مال ہے جو قبل از اسلام دفن کیا گیا تھا ۔ یہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں خمس ہے ۔جبکہ معدنی ذاخائر رکاز یا دفینہ نہیں ہیں ۔رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ رکاز میں خمس ہے ۔(۱)

ابن عباس کہتے  ہیں کہ عنبر رکاز نہیں ہے ۔ وہ تو ایک چیز ہے جسے سمندر پھینکتا لیکن حسن بصری کہتے ہیں کہ عنبر اور موتی میں بھی خمس ہے ۔(۲) اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غنیمت کا وہ مفہوم جس پر اللہ تعالی نے خمس واجب کیا ہے دار الحرب سے مخصوص  نہیں کیونکہ رکاز یا دفینہ وہ خزانہ ہے جو زمین کے اندر سےنکالا جائے ۔ یہ خزانہ ملکیت ہوتا ہے اسی کی جو اس کو نکالے لیکن اس پر خمس کی ا دائیگی واجب ہے اس لیے کہ دفینہ بھی مال غنیمت ہے ۔ اسی طرح عنبر اور موتی جو سمندر سے نکالے جائیں ان پر بھی خمس نکالنا واجب ہے ، کیونکہ وہ بھی مال غنیمت ہیں ۔بخاری نے اپنی صحیح  میں جو روایات بیان کی ہیں ان سے اور مذکور بالا احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کے اقوال اور ان کے افعال میں تضاد ہے ورنہ بخاری تو اہل سنت کے معتبر ترین محدث ہیں ، ان کی روایات پر عمل نہ کرنے کے کیا معنی ؟شیعوں کی ہمیشہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہے ۔ اس میں نہ کوئی تضاد ہوتا ہےنہ اختلاف ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بھی اور احکام میں بھی ائمہ اہلبیت ع کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر  اتری ہے اورجن کو رسول اللہ  نے کتاب اللہ کے ہمدوش قراردیا ہے ۔ پس جس نے ان کا دامن پکڑ لیا وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس نے ان کی پناہ حاصل کرلی وہ محفوظ ہوگیا ۔علاوہ ازیں اسلامی حکومت کے قیام  کے لیے ہم جنگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔یہ بات

---------------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۳۴ باب فی الرّکاز الخمس

(۲):- صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۳۶ باب ما یستخرج من البحر

۲۰۱

اسلام کی وسیع النظری  اور صلح پسندی کے خلاف ہے ۔ اسلام کوئی سامراجی حکومت نہیں ہے جس کامقصد دوسری قو موں کا استحصال کرنا ، ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور انھیں لوٹنا ہو ۔ یہ تو وہ الزام  ہےجو اہل مغرب ہم پر لگاتے ہیں ۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام  کا ذکر حقارت کے ساتھ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس کا مقصد غیر قوموں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا ہے ۔

مال زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔خصوصا ایسی حالت میں جبکہ اسلام کا اقتصادی نظریہ یہ ہے کہ لوگوں کو معاشی تحفظ کی ضمانت دی جائے جسے آج کال کی اصطلاح میں سوشل سیکیورٹی کہا جاتا ہے اور ہر فرد  کی ماہوار یا سالانہ  کفالت کا انتظام کیاجائے نیز معذوروں اورحاجت مندوں کو باعزت روزی کی ضمانت فراہم کی جائے ۔

ایسی حالت میں اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس آمدنی پر انحصار کرے جو اہل سنت زکات کے نام سے نکالتے ہیں جس کی مقدار زیادہ زیادہ ڈھائی فیصد ہوتی ہے ۔یہ تناسب اتنا کم ہوتا ہے کہ حکومت کی ایسی ضروریات کے لیے ناکافی  ہے مثلا افواج کو کیل کانٹے سے لیس کرنا ، اسکول اور کالج بنانا ، ڈسپنسر یاں اور ہسپتال قائم کرنا ، سڑکیں اور پل تعمیر کرنا وغیرہ ۔ حالانکہ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شہر کو اتنی آمدنی کی ضمانت دے جو اس کے گزربسر کے لیے کافی ہو ۔ اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے اداروں اور افرادکی بقا اورترقی کے لیے خوں ریز جنگوں پن انحصار کرے یا ان مقتولین کی قیمت پر ترقی کرے جو اسلام میں دلچسپی نہ رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیے گئے ہوں ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سب بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تمام اشیائے صرف پر ٹیکس لگاتی ہیں جس کی مقدار تقریبا بیس فیصد ہوتی ہے ، خمس کی بھی اتنی ہی مقدار اسلام نے اپنے ماننے والوں پر فرض کی ہے ۔ اہل فرانس  جو T.V.A ادا کرتے ہیں اس کی مقدار ۱۸۶۵ فیصد ہوتی ہے ۔ اسے کے ساتھ اگر انکم ٹیکس کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ مقدار ۲۰ فیصد یا کچھ زیادہ ہوجاتی ہے ۔

۲۰۲

ائمہ اہل بیت ع کو قرآن کے مقاصد کا دوسروں سے زیادہ  علم  تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ ترجمان قرآن تھے ۔ اسلامی  حکومت کی اقتصادی  اور اجتماعی  حکمت عملی وضع کرنا ان کا کام تھا بشرطیکہ ان کی بات مانی جاتی مگر افسوس کہ اقتدار اور اختیار دوسروں کے ہاتھ میں تھا ، جنھوں نے طاقت کے بل پر زبردستی خلافت پر قبضہ کرلیا تھا اور متعدد صحابہ صالحین  کو قتل کردیا تھا اور اپنی سیاسی اور دنیوی مصلحتوں کے مطابق اللہ کے احکام میں ردّ  وبدل کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ نتیجۃ امت پستی کے تحت الثری میں گرگئی جس سے وہ آج تک نہیں ابھرسکی ۔

ائمہ کی تعلیمات نے ایسے افکار اور نظریات کی شکل اختیار کر لی جن پر شیعہ آج بھی یقین رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی تطبیق کی کوئی صورت نہ رہی شیعوں کو مشرق ومغرب میں ہر طرف دھتکار دیا گیا ۔ اموی اور عباسی صدیوں تک ان کا پیچھا کرتے رہے ۔

جب یہ دونوں حکومتیں ختم ہوگئیں تب جاکر شیعوں کو ایسا معاشرہ قائم کرنے کا موقع ملاجس میں وہ خمس ادا کرسکتے تھے ۔ پہلے وہ خمس خفیہ طور پر ائمہ علیھم السلام  کو ادا کرتے تھے ، اب وہ اپنے مرجع تقلید کو امام مہدی علیہ السلام کے نائب کی حیثیت میں اداکرتے ہیں ۔ اور مراجع تقلید اس رقم  کو شرعی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔  مثلا وہ اس رقم سے دینی مدارس ،علمی مراکز ، اشاعت اسلام کے لیے اشاعتی ادارے نیز خیراتی ادارے ، پبلک لائبریاں اور یتیم خانے وغیرہ قائم کرتے  ہیں ۔دینی علوم کے طالب علموں کو ماہانہ وظائف وغیرہ بھی دیتے ہیں ۔

اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ علماء حکومت کے دست نگر نہیں اس لیے کہ خمس کی رقم ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں بلکہ وہ خود مستحقین کو ان کے حقوق پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے وہ حکمرانوں کا تقرّب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اس کے بر خلاف ، علمائے اہل سنت حکام وقت کے دست نگر اور ان کے ملازم ہیں ۔ حکام اپنی مصلحت کے مطابق جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں اور جس کو

۲۰۳

چاہتے ہیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس طرح علماء کا تعلق عوام سے کم اور ایوان اقتدار سے زیادہ ہوگیا ہے ۔

اب آپ خود دیکھیے کہ خمس کے حکم کی تاویل کا امت کے معاملات پر کیا اثر پڑا ۔ اس صورت میں ان  مسلمان نوجوانوں کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اسلام کو چھوڑ کر کمیونزم کا راستہ اس لیے اختیار کرلیا کہ انھیں کمیونزم کے نظریہ میں اس نظام کی نسبت جو ہمارے یہاں رائج ہے ،دولت کی تقسیم قوم کے تمام افراد میں زیادہ منصفانہ نظرآئی۔

ہمارے یہاں تو ایک  ظالم طبقہ ایسا ہے جو ملک کی ساری دولت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جبکہ ملگ کی غالب افلاس میں دن گزار رہی ہے ۔ جن دولت مندوں کے دل میں تھوڑا بہت اللہ کا خوف ہے ، وہ بھی سال میں ایک مرتبہ زکات نکالنے کو کافی سمجھتے ہیں جو فقط ڈھائی فیصد ہوتی ہے اور جس سے غریبوں کی سالانہ ضرورت کا دسواں حصہ بھی پورا نہیں ہوتا ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۲۰۴

تقلید

شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے : نماز ، روزہ ، زکات اور حج وغیرہ ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے :-

الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔

ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ  احتیاط کی گنجائش ہو ۔

ج:- یا پھر کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے ۔

جس کی تقلید کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ ، عاقل ، عادل  پر ہیز گار اور دین پر عامل ہو۔ اپنی خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو بلکہ احکامات الہی  کی پیروی کرتا ہو۔

فرعی احکام میں اجتہاد(۱) تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے ،اگر کوئی ایک بھی

--------------------

(۱):-اجتہاد کی اصطلاح  شیعوں کے ہاں بھی موجود ہے لیکن اس کے اس کے وہ معنی جو سنیوں نے عملی طور پر اسے دے دیے ہیں ۔ سنیوں کے ہاں عملا اجتہاد میں "ذاتی رائےکے اظہار" کا عنصر بھی موجود ہے جبکہ  شیعوں میں اجتہاد فقط احکام الہی کو سمجھنے  کی کوشش کا نام ہے اور مجتہد کسی طور پر بھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ اصطلاح کی تعریف کرتے وقت دونوں مکاتب کی اصولی کتابوں میں ایک ہی جملہ استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے سنیوں  میں فقیہ یا غیر معصوم  صحابی کی رائے   کا احکام میں دخل ہے ۔جبکہ شیعوں کا مکتب صرف خدا اور رسول کے احکامات وارشادات کو معتبر گردانتا ہے ۔مثلا امام محمد باقر ع یا امام جعفر صادق  ع یہ نہیں کہتے تھے کہ انا اقول :(میں کہتا ہوں ) کہ انا احرّم (میں حرام کرتاہوں ) بلکہ یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے : یا خدانے یوں فرمایا ہے ۔یہ مکتب اہل بیت ع کا امتیاز ہے ۔

مکتب اہل بیت ع کے اصول تفکر کے نمونے کے طورپر ہم آپ کے لیے ایک بزرگ عالم  

۲۰۵

مسلمان جس میں اس کا م کی علمی لیاقت اور استعداد ہے ، اس کام کو کرلے تو باقی مسلمانوں سےیہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔

شیعہ ان علماء کا اجتہاد کافی سمجھتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنے میں صرف کی ہو ۔ مسلمانوں کے لیے ایسے مجتہد کی تقلید کرنا اور فروع دین میں اس کی طرف رجوع کرنا جائز ہے ۔لیکن اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ اس کا حصول سب کے لیے ممکن ہے ۔ اس کے لیے بہت وقت اور بہت وسیع علمی  معلومات کی ضرورت ہوتی ہے ، اوریہ سعادت صرف اسے ہی میسّر آتی ہے جو سخت محنت  اور کوشش کرتا اور اپنی عمر تحقیق وتعلم میں کھپاتا ہے ۔ ان میں بھی اجتہاد  کا رتبہ صرف خاص خاص خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوتا ۔

رسو ل اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"من  أراد الله به خيرا يفقّهه فی الدين"

اللہ جس کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطاکردیتا ہے ۔

اس سلسلے میں شیعوں کا  یہ قول اہل سنت کے ایسے ہی قول سے مختلف  نہیں ۔ صرف بارے میں اختلا  ہے کہ تقلید کے لیے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ۔

لیکن شیعوں اور سنیوں میں واضح اختلاف اس میں  ہے کہ تقلید پر عمل کیسے

-------------------

عثمان بن سعید عمری کا قول ہے نقل کرتے ہیں جو حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے نائب خاص تھے جب انھوں نے ایک شیعہ کے سوال کے جواب میں ایک عمل کی حرمت کا فیصلہ دیا تو ان الفاظ کا اضافہ کیا :

"میں یہ فیصلہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔ میرے لیے کسی صورت میں روا نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قراردوں "(یعنی میں فقط امام علیہ السلام کا قول نقل کررہا ہوں )اصول کافی جلد ۱ ۔وسائل الشیعہ جلد ۱۸ صفحہ ۱۰۰)(ناشر)

۲۰۶

کیا جائے۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ مجتہد  جس میں مندرجہ ذیل بالا سب شرائط پائی جاتی ہوں امام علیہ السلام کا نائب ہے اور غیبت امام کے زمانے میں وہ حاکم اور سربراہ ہے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کے اسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام کوہیں ۔ مجتہد کے احکام کا انکار خود امام کا انکار ہے ۔

شیعوں کے نزدیک جامع الشرائط مجتہد کی طرف صرف فتوے کے لیے ہی رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اپنے مقلدین پر ولایت عامہ بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس لیے مقلدین اپنے مقدمات کے تصفیہ کے لیے بھی اپنے مجتہد ہی سے رجوع کرتے ہیں ، جو خمس اور زکات میں امام زمانہ کے نائب کی حیثیت سے شریعت کے مطابق تصرف کرتا ہے ۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک مجتہد کا یہ مرتبہ نہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ امام نائب رسول ہوتا ہے ۔ فقہی مسائل میں البتہ  وہ صاحب مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان ائمہ اربعہ کے نام یہ ہیں :

(۱):-ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی (سنہ ۸۰ ھ تا سنہ ۱۵۰ھ)۔(۲):-مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی (سنہ ۹۳ ھ تا سنہ ۱۷۹ ھ)۔(۳):- محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان شافع(سنہ ۱۵۰ ھ تا سنہ ۱۹۸ھ)۔(۴):- احمد بن محمد بن جنبل بن ہلال (سنہ ۱۶۴ ھ تا سنہ ۲۴۱ھ)

موجودہ  دور کے بعض اہل سنت ان میں کسی ایک معین امام کی تقلید نہیں کرتے ، بلکہ اپنی مصلحت کے مطابق بعض مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسائل میں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔ سید سابق جنہوں نے چاروں اماموں کے فقہ سے ماخود ایک کتاب مرتب کی ہے ، ایسا ہی کیا ہے  کیونکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اصحاب مذاہب کا اختلاف رحمت ہے ۔ اس لیے اگر کسی مالکی کو  اپنی مشکل کا حل اپنے امام کے یہاں نہ ملے اور امام ابو حنیفہ کے یہاں مل جائے تو وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرلے ۔میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے : ہمارے یہاں تیونس میں ایک بالغ لڑکی تھی ، یہ اس زمانے کی بات ہے

۲۰۷

جب یہاں قاضی کو رٹس ہوا کرتی تھیں ۔ اس لڑکی کو ایک شخص سے محبّت ہوگئی ۔ یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کا باپ اللہ جانے کیوں اس سے اس کے نکاح پر راضی نہیں تھا ۔ آخر باپ کے گھر سے بھاگ گئی اور اس نے اس نوجوان سے باپ  کی اجازت  کے بغیر نکاح کرلیا ۔ باپ نے شوہر کے خلاف دعوی دائر کردیا ۔ جب لڑکی اپنے شوہر  کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو قاضی نے اس سے گھر سے بھاگنے اور ولی سے اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ سے پوچھی تو اس نے کہا : "جناب عالی ! میری عمر ۲۵ سال ہے ۔ میں  اسے شخص سے اللہ رسول  کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کرنا چاہتی تھی ، لیکن میرا باپ میرا بیاہ ایسے شخص سے کرنا چاہتا تھا جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا ۔میں نے امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق شادی کرلی کیونکہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق مجھے بالغ ہونے کی وجہ سے حق ہے کہ میں جس سے چاہوں شادی کرلوں"۔

اللہ بخشے قاضی صاحب جنھوں نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا ، کہنے لگے : جب ہم نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہواکہ لڑکی ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خیال ہے شاید کسی جاننے والے عالم نے سکھایا تھا کہ عدالت میں جاکر کیا بیان دے ۔

قاضی صاحب کہتے تھے کہ میں باپ کادعوی خارج کردیا اور نکاح کو باقی رکھا ۔باپ غصہ میں بھرا ہوا عدالت سے باہر نکلا ۔وہ ہاتھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کتیا حنفی ہوگئی "یعنی امام مالک کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرلیا ۔ بعد میں وہ شخص کہتا تھا کہ میں اس کتیا کو عاق کردوں گا ۔

یہ مسئلہ اجتہادی اختلاف کا ہے :-

امام مالک کی رائے ہے کہ کنواری باکرہ لڑکی کا نکاح سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔بلکہ اگر مطلقہ یا بیوہ ہو تب بھی ولی کی اجازت ضروری ہے  ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بالغہ چاہے باکرہ ہویا مطلقہ و بیوہ اسے خود اپنا شوہر  پسند کرنے اور عقد کرنے کااختیار ہے ۔ تو اس فقہی مسئلے نے باپ بیٹی میں جدائی ڈال دی ۔ یہاں تک کہ باپ نے بیٹی کو عاق کردیا ۔

۲۰۸

پہلے زمانے میں تیونس میں اکثر باپ مختلف وجوہ سے بیٹیوں کو عاق کردیا کرتے تھے ،جن میں سے ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ لڑکی جس سے شادی کرناچاہتی تھی اس کے ساتھ بھاگ گئی ۔ عاق کرنے کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کیونکہ جب باپ بیٹی کو میراث سے محروم کردیتا ہے تو لڑکی اپنے بھائیوں کی دشمن بن جاتی ہے اور بھائی خود  بھی بہن کوچھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ بہن کے بھاگنے کو بھائی اپنے لیے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں ۔  اس طرح معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اہل  سنت  سمجھتے ہیں کہ اصحاب مذاہب فقہاء کا اختلاف  ہمیشہ رحمت ہوتا ہے ۔ کم از کم یہ اختلاف ہر مسئلے میں رحمت  نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے  لیے معاشرتی اور قبائلی اختلاف اور روایات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔

ایک ایسے معاشرے میں جس کی نشوونما مالکی افکار پر ہوئی ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو یہ حق ہو کہ گھر سے بھاگ جائے اور باپ کی اجازت  کے بغیر کسی سے نکاح کر لے ۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا  کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کرلے ۔ جو عورت ایسا کرےگی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کیا یا ایک ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا ۔ جبکہ دوسرے مذہب کی رو سے اس نے ایسا کا م کیا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اسے اس  کا حق بھی ہے ۔ اسی لیے مالکی معاشرے کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حنفی معاشرے میں نسبتا جنسی آزادی اور آوارگی ہے ۔ ان مذہبی اختلاف  کے نتیجے میں عورت اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے اور وہ اس صورت حال کا الزام دین اسلام کےو دیتی ہے ۔ اسی لیے ہم ان بعض نوجوان عورتوں کو الزام نہیں دے سکتے جو اپنے مذہب کا اس لیے انکار کرنے لگتی ہیں کیونکہ ان کے بڑے ان کے ساتھ خلاف شریعت ظالمانہ سلوک کرتے ہیں ۔

اس مثال کے بعد ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں :-

اہل سنت کے نزدیک جس امام کی تقلید  کی جائے اس تقلید سے وہ درجہ حاصل نہیں ہوجاتا جس کے شیعہ قائل ہیں یعنی نیابت رسول کا درجہ ۔ اس  کی وجہ شوری اور "خلیفہ یا امام کے انتخاب کا نظریہ ہے ۔ اہل سنت نے خود اپنے

۲۰۹

آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ یا بہتر الفاظ میں امام بنادیں ۔ اسی طرح ان کے خیال میں انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ چاہیں تو امام کو معزول کردیں  یا اس کے بجائے جس اپنی دانست میں بہتر سمجھیں اسے مقرر کردیں ، اس طرح درحقیقت وہ امام کے بھی امام ہوگئے ۔یہ صورت شیعہ عقیدہ کے بالکل برعکس ہے اگر ہم اہل سنت کے پہلے امام یعنی ابو بکر صدیق پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے امت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا :

" أيّهاالنّاس لقد ولّيت عليكم ولست بخيركم فإن أطعتُ فأعينوني وإن عصيتُ فقوّموني......."

لوگو! مجھے تمھارا والی چن لیا گیا ہے اگر چہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔چنانچہ جب تک میں صحیح راستے پر چلوں  میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں بھٹک جاؤں ، تو مجھے صحیح راہ پر چلادو۔۔۔۔۔"۔

اس طرح ابو بکر خود اعتراف کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کو پسند کیا ہے اور ان کی بیعت  کی  ہے انھیں یہ بھی حق ہے کہ معصیت اورخطا کی صورت میں وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ۔

اس کے برعکس  ، جب ہم شیعوں کے پہلے امام یعنی علی بن ابی طالب ع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان کو امام مان کر  دراصل  حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امام علی ع کو ایسی ہی ولایت مطلقہ کیا ہو بھلا اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خطا کرے کیس معصیت کا مرتکب ہو ؟اسی طرح امت  کے لیے بھی یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس کے کسی حکم کی  مخالفت کرے یا اس کا مقابلہ کرے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے :

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِيناً "

۲۱۰

چونکہ حضرت علی ع کو مسلمانوں کا امام اللہ اور اس کے رسول ص نے مقرر کیا تھا: اس لیے ان کی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی  تھی نہ یہ ممکن تھا کہ حضرت علی  ع کسی معصیت کا ارتکاب کریں اسی لیے رسول اللہ  ص نے فرمایا تھا :

"عليٌّ مع الحقّ والحقّ مع عليّ ٍ ولن يفرقا حتّى يردا عليّ الحوض ."

علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک میرے پاس حوض پر نہ آجائیں"(۱) ۔

تقلید کے بارے میں فریقین کا استدلال ان کے دو مختلف نظریوں کی بنیاد پر آسانی سے سجمھ میں آسکتا ہے ۔ مطلب ہے سنیوں کا شوری کا نظریہ  اور شیعوں کا نص کا نظریہ۔

اس کے بعد تقلید  کے متعلق شیعوں  اور سنیوں میں صرف ایک اور اختلافی مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے "تقلید میت کا مسئلہ "۔

اہل سنت جس ائمہ کی تقلید کرتے ہیں انھیں فوت ہوئے صدیاں گزرچکی ہیں ۔ اسی زمانے کے بعد سے اہل سنت کے یہاں  اجتہاد  کا دروازہ بند ہے ۔ ان ائمہ  کےبعد جو علماء ہوئے ان کی ساری توجہ صرف اگلی کتابوں کی شرحیں لکھنے اور مذاہب اربعہ کے مطابق فقہی مسائل کے نظم اور نثر میں مجموعے مرتب کرنے پر مرکوز رہی ۔ اب چونکہ بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن کا ائمہ کے زمانے میں وجود بھی نہیں تھا ۔ اس لیے بعض معاصرین آواز اٹھارہے ہیں کہ زمانے کی مصلحت کا

---------------------------

(۱):- محمد بن عیسی ترمذی جامع ترمذی جلد ۵ صفحہ ۲۹۷ ۔علاء الدین شقی ہندی کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۰ ۔محمد بن عبداللہ  حاکم نیشاپوری مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۲۴۔ جار اللہ زمخشری ربیع الابرار ۔ ابن حجر ہیثمی مکی صواعق محرقہ  صفحہ ۱۲۲ ۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد ۲ صفحہ ۵۷۲۔حافظ ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد ۱۴ صفحہ ۳۲۱ ۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق جلد ۳ صفحہ ۱۱۹ ۔ ابن قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ جلد ۱ صفحہ ۷۳۔

۲۱۱

 تقاضا یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ پھر سے کھول دیا جائے ۔

اس کے برعکس ، شیعہ میت کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے تمام احکام کے بارے میں ایسے زندہ مجتہد  کی طرف رجوع کرتے ہیں جس  میں وہ سب شرائط پائی جاتی ہون جن کا ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے یہ صورت امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں ہے ۔ جب تک امام معصوم دوبارہ ظاہر نہیں ہوتے ، شیعہ قابل اعتماد علماء ہی سے رجوع کرتے رہیں گے ۔

آج بھی ایک سنّی مالکی مثلا کہتا ہے کہ امام مالک قول کے مطابق یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔ حالانکہ امام مالک  کو فوت  ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ۔یہی صورت امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل کے پیرو کاروں کے ساتھ ہے  کیونکہ یہ سب مذاہب اور ائمہ ایک ہی  زمانے میں تھے اور ان کا ایک دوسرے سے  استاد شاگرد کا تعلق تھا ۔ اہل سنت اپنے ائمہ  کے معصوم ہونے کے بھی قائل نہیں ۔ نہ خود ان ائمہ نے کبھی عصمت کا دعوی کیا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ائمہ جو اجتہاد کرتے ہیں اس  میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہے ۔ صواب کی صورت میں انھیں دو اجر ملتے ہیں اور خطا کی صورت میں ایک اجر ۔ بہر کیف اجر ہر اجتہاد پر ملتا ہے ۔

شیعوں کے نزدیک تقلید کے دو دور ہیں :

۔ پہلا دورائمہ اثناعشر کا دور ہے ۔ یہ مرحلہ تقریبا ساڑھے تین سوسال پر محیط ہے ۔ اس دور میں ہر شیعہ امام معصوم کی تقلید کرتا تھا اور امام کوئی بات اپنی رائے یا اپنے اجتہاد  سے بیان نہیں کرتے تھے ۔ وہ جو کچھ کہتے تھے اسی علم اور ان روایات  کی بنیاد پر کہتے تھے جو انھیں ابا عن جد رسول اللہ ص سے پہنچی تھیں ۔ مثلا وہ کسی سوال کے جواب میں اس طرح کہتے تھے :"روایت بیان کی میرے والد نے ، انھوں یہ روایت سنی اپنے نانا سے ، انھوں نے جبریل سے انھوں نے اللہ عزوجل  سے "(۱)

--------------------

(۱):- ہشام بن سالم اورحمّاد بن عیسی سے روایت ہے  کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے امام جعفر صادق ع کو

۲۱۲

۔ دوسرا دور زمانہ غیبت کا دور ہے جو ابھی تک چل رہا ہے ۔ اب شیعہ یہ کہتا ہے کہ یہ چیز آیت اللہ خوئی کی رائے کے مطابق  یا آیت اللہ خمینی کی رائے کے مطابق حلال یا حرام ہے ۔یہ دونوں(۱) مجتہد زندہ ہیں ۔ ان کی رائے سے مراد ہے  قرآن اور ائمہ اہل بیت ع کی روایات کے مطابق سنت سے احکام کے استبناط  میں ان کا اجتہاد  ،ائمہ  اہل بیت  ع کی روایات کےبعد دوسرے درجے میں صحابہ عدول یعنی معتبر صحابہ کی روایات ہیں ۔ ائمہ اہل بیت ع کو ترجیح اس لیے ہے کہ وہ شریعت کے بارے میں اپنی رائے سے قطعی احتراز کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ :

------------------------

یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :

"میرے حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے داداکی حدیث  حسین کی حدیث ہے اور  حسین  کی حدیث حسن کی حدیث ہے اور حسن  کی حدیث امیر المومنین علیھم السلام کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ ص کی حدیث ارشاد الہی ہے "۔(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۵)

عنبسہ روایت کرتے ہیں کہ

"ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا ۔ اس  پر اس شخص نے کہا کہ اگر ایسا اور ایسا ہوتا تو اس میں دوسرا قول نہ ہوتا ۔ آپ نے فرمایا ۔" جب کبھی ہم کسی مسئلے کاجواب دیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے  اورہم کوئی جاوب اپنی رائے سے نہیں دیتے "۔(بصائر الدرجات صفحہ ۳۰۰-۳۰۱)

(۱):- جن دنوں مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی ، آیت اللہ خمینی حیات تھے ۔

۲۱۳

"مامن شئ ٍإلّا ولله فيه حكمٌ"

   یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارےمیں اللہ کا حکم نہ ہو ۔

اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ہمیں یہ حکم دستیاب نہ ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ یہ  ہمارا قصور ناواقفیت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس حکم کا علم نہیں ہوسکا ۔کسی چیز کا علم نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اس کا وجود ہی نہیں ۔ اللہ سبحانہ کا قول ہے :

"مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ"

اس کتاب میں ہم نے کوئی چیز نظر انداز نہیں کی۔(سورہ انعام ۔آیت ۳۸)

وہ عقائد  جن پر سنت شیعوں کو الزام دیتے ہیں

شیعوں کے کچھ عقائد ایسے ہیں جن پر اہل سنت محض اس تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جو امویوں اور عباسیوں نے اس لیے پھیلایا تھا  کیونکہ وہ امام علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے یہاں تک کہ امویوں نے علی الاعلان ۸۰ برس تک  منبروں سے افتخار ہر نبی وہر ولی حضرت علی ع پر لعنت کی(۱) اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ لوگ ہر اس شخص کو گالیاں دیتے تھے اور اس پر ہر طرح کے بہتان  باندھتے تھے جس کا ذرا بھی علی ع کی جماعت سے تعلق ہو ۔ نوبت یہاں  تک پہنچ گئی تھی مگر کسی کو یہ کہا جاتا تھا کہ تو یہودی ہے تو وہ اس کا اتنا برا نہیں مانتا تھا جتنا اگر اس کو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ تو شیعہ ہے ۔ ان کے حامیوں اور پیروکاروں کا بھی ہر زمانے میں اور ہرملک میں یہی طریقہ رہا۔یہاں تک کہ اہل سنت کے لیے لفظ شیعہ ایک گالی بن گیا ۔ کیونکہ شیعوں کے عقائد مختلف تھے اور سنیوں کی  جماعت سے باہر تھے ، اس لیے سنی ان پر جو چاہتے الزام لگادیتے تھے ، جس طرح چاہتے نام دھرتے تھے اور ہر بات میں ان کے طریقے کے

----------------------

(۱):- تفصیلات کے لیے دیکھیے تاریخ عاشورا ،مطبوعہ تعلیمات اسلامی ۔کراچی پاکستان

۲۱۴

خلاف کرتے تھے ۔(۱)

آپ کو شاید علم ہو کہ علمائے اہل سنت میں سے ایک مشہور عالم(۲) کا کہنا ہے تھا کہ "اگر چہ دائیں ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا سنت رسول ہے ، لیکن چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس کا تر ک واجب ہے"۔

اور سنئے حجۃ الاسلام  ابو حامد غزالی کہتے ہیں کہ " قبر کی سطح کو ہموار کرنا اسلام میں مشروع ہے مگر رافضیوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ،اس لیے ہم اسے چھوڑ کے قبروں کو اونٹ کے کوہان کی شکل دے دی "۔

---------------------

(۱):- آج بھی بعض اتنہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈے کرتےہیں کہ " شیعہ کافر ہیں ، سبائی ہیں اور ان کی جان اور ان کا مال  محترم نہیں ہے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے "۔اس طرح انھوں نے نفرت اور افتراق کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء ہمیشہ ملت کی وحدت ویگانگت  کے داعی رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی " لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ "کہہ دے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان اور املاک محترم ہیں ۔

تاریخ گواہ ہے کہ جمال الدین افغانی سے لے کر آیت اللہ خمینی تک ہمارے علماء نے اتحاد  اسلامی کیلئے بھر پور کوشش کی ہیں ۔ہمارے ان ہی علماء میں سے ایک آیت اللہ کاشف الغطاء ہیں جنھوں نے قابل قدر سیاسی وسماجی خدمات انجام دی نہیں ۔ سنہ ۱۳۵۰ ھ میں جب آیت اللہ کاشف الغطاء موتمر اسلامی میں شرکت کے لیے القدس الشریف پہنچے تو موتمر کے بیشتر مندوبین نے آپ ہی کی اقتدا میں مسجد اقصی میں نماز پڑھی تھی ۔(ناشر)

(۲):-یہ الھدایہ کے مولف شیخ الاسلام براہانن الدین علی بن ابی بکر المرغینانی (۵۹۳ھ)ہیں ۔

زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابراء میں لکھا ہے کہ

" معاویہ بن ابی سفیان نے سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کی جو خلاف سنت ہے "۔

لہذا ہم معاویہ کے طرفدار سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبادیکھ

۲۱۵

اور ابن تیمیہ(۱) کہتے ہیں :

بعض فقہاء کیا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مستحب شیعوں کا شعار بن جائے تو اس مستحب کو ترک کردینا بہتر ہے گو ترک کرنا واجب نہیں ۔کیونکہ اس مستحب پر عمل میں بہ ظاہر شیعوں سے مشابہت ہے ۔ سنیوں اور رافضیوں میں فرق کی مصلحت  مستحب پر عمل کی مصلحت سے زیادہ قوی ہے ۔(۲)

حافظ عراقی سے جب یہ پوچھ گیا کہ تحت الحنک کس طرف کیاجائے ؟ تو انھوں نے کہا کہ

مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے داہنی طرف کی تعیین  ہوتی ہو ، سوائے اس کے طبرانی کے یہاں ایک ضعیف حدیث ضرور ہے ، لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو تو شاید آپ داہنی طرف لٹکا کر بائیں طرف لپیٹ لیتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں مگر چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے ، اس لیے تشبہ سے بچنے کے لیے اس سے احتراز ہی مناسب ہے(۳)

سبحان اللہ ! یہ اندھا تعصب ملاحظہ ہو ۔یہ علماء کیسے سنت رسول ص کی مخالفت کی اجازت صرف اس بنا پر دیتے ہیں کہ اس  پر شیعوں نے پابندی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ان کا شعار بن گئی ہے  ۔ پھر دیدہ دلیری دیکھیے

-------------------------

(۱):-کہا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے جب سرزمین حجاز میں "وہابی تحریک "کا آغاز کیا تو انھوں نے ۔مستشرقین کی تجویز کے بموجب جو اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس تحریک کے ذریعہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف بہ اب تیمیہ حرّانی  کے افکار ونظریات کو فروغ دیا کہ کیونکہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنا پر مطعون تھالیکن بیسویں صدی کے لوگوں نے اسے "مجدد "اور" مصلح" کاخطاب دے دیا ۔(ناشر)

(۲):- منہاج السنۃ النبویہ ، ابن تیمیہ

(۳):-شرح المواہب ،زرقانی ۔

۲۱۶

کہ اس بات کا علانیہ اعتراف کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے ،میں تو کہتاہوں کہ شکر خدا کہ ہر صاحب بصیرت اور جویائے حقیقت پر حق واضح ہوگیا ۔ سنت کا نام لینے والو ! دیکھ سنت کا دامن کسے نے تھاما ہوا ہے ۔

الحمداللہ کہ ظاہر ہوگیا کہ یہ شیعہ ہی ہیں جو سنت رسول ص کااتباع کرتے ہیں جس کی گواہی تم خود دے رہے ہو ۔ اور تم خود ہی اس کے بھی اقراری مجرم ہو کہ تم نے سنت رسول ص کو عمدا اور دیدہ ودانستہ محض اس لیے  چھوڑدیا تاکہ تم اہل بیت ع اور ان کے شیعیان  با اخلاص  کی روش کی مخالفت کرسکو ۔ تم نے معاویہ بن ابی سفیان کی سنت اختیار کرلی جن کے شاہد عادل امام زمخشری ہیں جو کہتے ہیں کہ سنت رسول ص کے برخلاف سب سے پہلے بائیں ہاتھ  میں انگوٹھی  معاویہ  ابن ابی سفیان  نے پہنی تھی ۔ تم نے  باجماعت تراویح کی بدعت میں سنت عمر کی پیروی کی ۔حالانکہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں کو نافلہ نمازیں گھر میں فرادی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا(۱) ۔ حضرت عمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہ نماز بدعت ہے :

بخاری میں عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایک دن رات کے وقت ،میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کہیں کوئی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند لوگ مل کر ۔ عمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں ایسا انتظام کردوں کہ یہ سب ایک قاری کے پیچھے نماز  پڑھیں ۔چنانچہ عمر نے ایسا ہی کیا اور ابی بن کعب کوامام مقرر کردیا ایک رات پھر مین عمر کے ساتھ گیا ۔ اس وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ انھیں دیکھ کر  عمر نے کہا : کتنی اچھی بدعت ہے یہ(۲) ۔عمر ، جب آپ نے یہ بدعت شروع کی تھی تو آپ خود کیوں اس میں شریک نہیں ہوئے ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آپ ان کے امیر تھے تو آپ بھی ان کے

---------------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۹۹ باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ عزوجل ۔

(۲):- صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۵۲ کتاب صلاۃ التراویح

۲۱۷

ساتھ نماز پڑھتے ۔ یہ کیا کہ آپ ان کا تماشا دیکھنے نکل کھڑے ہوئے ؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔یہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے جب رسول اللہ ص نے اس سے اس وقت منع کردیا تھا جب لوگوں نے آپ کے دروازے  پر جمع ہوکر شور مچایا تھا کہ آپ آکر نافلہ رمضان پڑھادیں ۔ اس پر رسول اللہ ص غصّے میں بھرے ہوئے نکلے اورآپ نے فرمایا ۔

"مجھے اندیشہ تھا کہ یہ نماز تم پر فرض ہوجائے گی ۔ جاؤ اپنے گھروں میں جاکر نماز  پڑھو۔ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز آدمی کے لیے گھر میں پڑھنا ہی بہتر ہے "۔ تم نے سفر کی حالت میں پوری نماز پرھنے کی بدعت میں عثمان بن عفان کی سنت کی پیروی کی ہے ۔ تمھارا یہ عمل سنت رسول کے خلاف ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ص تو سفر میں قصر نماز پڑھا کرتے تھے(۱) ۔ اگر میں وہ سب مثالیں گنانے  لگوں جہاں تم نے سنت رسول کے خلاف طریقہ اختیار کیا ہے  تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن تمھارے خلاف تو تمھاری اپنی شہادت ہی کافی ہے جو تمھارے اپنے اقرار پر مبنی ہے ۔تم نے یہ بھی اقرارکیا ہے کہ یہ شیعہ رافضی ہیں جو سنت رسول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں !

کیا اس کے بعد بھی ان جاہلوں کی تردید کرے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیعہ علی بن ابی طالب ع کا اتباع کرتے ہیں اور اہل سنت رسول اکرم ص کا ؟ کیا یہ لوگ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ علی ع رسول اللہ ص کے مخالف تھے اور انھوں نے کوئی نیا دین ایجاد کیا تھا ؟ کیسی سخت بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ علی ع تو سرتاپا سنت رسول ص تھے ۔ وہ سنت رسول ص کے شارح تھے اور سنت پر سختی سے قائم تھے ۔ ان کےمتعلق رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ

"عليٌّ مّنّي بمنزلتي من رّبي."(۲)

--------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۵  "وکذالک تاوّلت عائشۃ فصلّت اربعا صفحہ ۳۶

(۲):- ابن حجر عسقلانی ، لسان المیزان جلد ۵ صفحہ ۱۶۱ ۔ محب طبری ،ذخائر العقبی صفحہ ۶۴ نور اللہ حسینی مرعشی ۔ احقاق الحق جلد ۷ صفحہ ۲۱۷

۲۱۸

"علی ص کا مجھ سے وہی تعلق ہے جو میرا میرے پروردگار سے ہے " یمنی جس طرح کہ تنہا محمد ص ہی وہ شخص تھے جو اللہ تعالی  کا پیغام پہنچاتے تھے ایسے ہی تنہا علی ص وہ شخص تھے جو رسول اللہ ص کا پیغام پہنچاتے تھے ۔ علی ع کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے سے سابق خلفاء کی خلافت تسلیم نہیں  کی اور شیعوں کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے  میں علی ع کی پیروی کی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے انکار کردیا ۔ اسی لیے اہل سنت انھیں "رافضی م"یعنی منکر کہنے لگے ۔

اگر اہل سنت شیعہ عقائد اور شیعہ اقوال کا انکار کرتے ہیں تو اس کے دو سبب ہیں :

پہلا سبب تو وہ دشمنی ہےجس کی آگ اموی حکمرانوں نے جھوٹے پروپیگنڈے اور منگھڑت روایات کے ذریعے سے بھڑکائی تھی ۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل سنت جو خلفاء کی تائید کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں اور ان کے اجتھادات کو صحیح ٹھہراتے ہیں ، خصوصا اموی حکمرانوں کی غلطیوں کو جن میں معاویہ کا نام سر فہرست ہے ۔شیعہ عقائد ان کے اس طرز عمل کے منافی ہیں ۔جو شخص واقعات کا متتبع کرے گا ۔ اس  پر واضح ہوجائے گا کہ شیعہ  ،سنی اختلافات کی داغ بیل تو سقیفہ کے دن ہی پڑگئی تھی ۔ اس کے بعد اختلافات کی خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی ۔ بعد میں جو بھی اختلاف پیدا ہوا اس کی اصل سقیفہ کا واقعہ ہی تھا ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ شیعوں کے وہ سب عقائد جن پر اہل سنت اعتراض کرتے ہیں ، ان کا خلافت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے اور ان سب کی جڑ خلافت ہے ۔مثلا ۔ ائمہ کی تعداد ، امام کا منصوص ہونا ، ائمہ کی عصمت ، ا ن کا علم ،بدا ، تقیہ ، مہدی منتظر وغیرہ ۔

اگر ہم طرفین کے اقوال پر غیر جذباتی ہو کر غور کریں تو ہمیں طرفین کے عقائد میں بہت زیادہ بعدنظر نہیں آئے گا اور نہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا کوئی جواز ملیگا کیونکہ  جب آپ اہل سنت کی وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں شیعوں کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ کو ذرا دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیعہ اسلامی اصولوں  اور اسلامی احکام

۲۱۹

کے مخالف ہیں اور انھوں نے کوئی نیا دین گھڑا ہوا ہے ۔ حالانکہ جو بھی منصف مزاج شخص شیعہ عقائد پر غور کرےگا وہ ان کی اصل قرآن وسنت میں پائیگا حتی کہ جو مخالفین ان عقائد پر اعتراض کرتے ہیں خود ان کی کتابوں سے بھی ان ہی عقائد کی تایید ہوتی ہے ۔ پھر ان عقائد میں کوئی بات خلاف عقل ونقل اورمنافی اخلاق نہیں ہے!

آیئے  ان عقائد پر ایک نظر ڈالیں  تاکہ میرے دعوے کی صحت ظاہر ہوجاتے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مخالفین کے اعتراضات دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ  نہیں !

ائمہ کی عصمت

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کی طرحی امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام ظاہری اور باطنی برائیوں سے بچپن سے لے کر موت تک محفوظ رہے ۔ اس سے عمدا یا سہوا کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور بھول چوک اور خطا سے محفوظ ہو ۔ کیونکہ ائمہ شریعت کے نگراں اور محافظ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی کی ہے ۔جس کی دلیل کی رو سے ہمارے لیے ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ بھی ضروری ہے ۔ اس معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں (۱)

یہ عصمت کے باے  میں شیعوں کی رائے ہے ۔لیکن کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے جو قرآن وسنت کے منافی ہو یا عقلا محال ہو یا جس سے اسلام پر حرف آتا ہو اور اس کے شایان شان نہ ہو یا جس سے کسی نبی  یا امام کی قدرومنزلت میں فرق آتا ہو؟ ہر گز نہیں !

بلکہ اس عقیدے سے تو کتاب وسنت کی تائید ہوتی ہے ۔ یہ عقیدہ عقل سلیم کے عین مطابق ہے اور اس سے نبی اور امام کی شان میں اضافہ ہوتا ہے

-----------------------

(۱):- شیخ محمد رضا مظفر  ،عقائد الامامیہ صفحہ ۶۷ ۔یہ کتاب جامعہ تعلمیات اسلامی نے مکتب تشیع کرے نام سے شایع کردی ہے ۔

۲۲۰

احمقانہ اور غلط بات تو یہ ہے کہ یہ کہاجائے  کہ نبی غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح دوسرے لوگ کرتے ہیں ۔

عصمت ازروئے قرآن

اللہ تعالی کاارشاد ہے :

" إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "

اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ اسے اہل بیت ع تم سے رجس کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک وپاکیزہ رکھے ۔(سورہ احزاب ۔آیت 33)

اگر رجس سے دور رکھنے کے معنی سب برائیوں اور گناہوں سے حفاظت ہے تو کیا اس کا مطلب عصمت نہیں ؟ ورنہ پھر اس کا مطلب اور کیا ہے؟

اللہ تعالی کا ارشادہے :

"إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ"

جو لوگ متقی ہیں ، جب انھیں کوئی شیطانی خیال ستاتا ہے تو وہ اللہ کویادہ کرتے ہیں جس سے انھیں یکایک صحیح راستہ  سمجھائی دینے لگتاہے (سورہ اعراف ۔ آیت 201)

جب شیطان کسی متقی شخص کو بہکانا اور گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اگر وہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ اسے شیطان کے دام فریب سے بچالیتا ہے اور اسے راہ حق دکھادیتا ہے جس پر و ہ چل پڑتا ہے جب عام مومن کی یہ صورت ہے تو ان لوگوں کا

کیا کہنا  جو اللہ کے چنیدہ بندے ہیں جنھیں اللہ نے ہر آلودگی سے پاک رکھا ہے" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "

پھر ہم نے وارث بنادیا کتاب کا ان کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا ۔ (سورہ فاطر ۔آیت 32)

جسے اللہ چنے گا وہ بلاشک معصوم عن الخطاء ہوگا ۔ خاص اسی آیت سے

۲۲۱

امام رضا ع نے ان علما کے سامنے استدلال کیا تھا جنھیں عباسی خلیفہ مامون نے جمع کیا تھا ۔ امام رضا ع نے یہ ثابت کیا تھا کہ اس آیت میں چنیدہ بندوں سے مراد ائمہ اہل بیت ہی ہین جنھیں اللہ نے کتاب کا وارث بنایا ہے ۔جو علماء وہاں موجود تھے انھوں نے امام کی یہ بات تسلیم کرلی تھی(1)

یہ قرآن کریم سے بعض مثالیں ہیں ۔ ان کے علاوہ اوربھی آیات ہیں جن سے ائمہ کی عصمت ثابت ہوتی ہے ۔جیسے مثلا"أﺋﻤﺔ يهدون ﺑﺄﻣﺮﻧﺎ" وغیرہ لیکن ہم بہ اختصار اتنے ہی پر اکتفاء کرتے ہیں

عصمت ازروئے حدیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ جب تک تم ان سے جڑے رہوگے ، ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ، اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت ع(2) ۔

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، یہ حدیث ائمہ اہل بیت ع کے معصوم ہونے کے بارےمیں صریح شہادت ہے :

اولا:- اس لیے اللہ کی کتاب معصوم ہے ، اس  میں باطل کا کسی طرف سے کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے اور جو اس میں شک کرے ،وہ کافر ہے ۔

ثانیا :- اس لیے کہ جو کتاب اور عترت کو تھامے رہے ، وہ گمراہی سے محفوظ ومامون رہتا ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب وعترت میں غلطی کی گنجائش نہیں ۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ ص نے فرمایا :"میرے اہل بیت ع کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پر

-----------------------

(1):- ابن عبدربہ اندلسی العقد الفرید جلد 3 صفحہ 42

(2):- محمدبن عیسی ترمذی جامع الترمذی جلد 5 صفحہ 328

۲۲۲

سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جس نے گریز کیا وہ ڈوب گیا "(1)

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، اس حدیث میں تصریح ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام معصوم ہیں ۔ اس وجہ سے جو ان کی کشتی میں سوار ہو جائے گا وہ نجات پاجائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا ،گمراہی کے سمندر میں ڈوب جائے گا ۔

رسول اللہ ص نے فرمایا :

جو میری طریح کی زندگی چاہتا ہے اور میری طرح مرناچاہتا ہے اور اس جنت الخلد میں جانا چاہتا ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ،تو وہ علی ع سے اور ان کے بعد ان کی اولاد سے دوستی رکھے ،اس لیے کہ وہ تمھیں ہدایت کے دروازے سے باہر نکلنے نہیں دیں گے اور گمراہی کے دروازے میں گھسنے نہیں دیں گے ۔(2)

اس حدیث میں تصریح ہے کہ ائمہ اہل بیت ع جو علی اور اولاد علی ہیں ہو معصوم عن الخطا ہیں کیونکہ جو لوگ ان کا اتباع کریں گے وہ انھیں گمراہی کے دروازے میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ ظاہر ہے کہ جو خود غلطی  کرسکتا ہے وہ دوسروں کو ہدایت کیسے کرےگا ۔رسول اللہ ص نے فرمایا :

" أنا المنذر وعليٌّ الهادي وبك يا علي يهتدي المهتدون من بعدي".

میں ڈرانے والا ہوں اور علی ہدایت دینے والے ہیں ۔ اے علی ع ! ہدایت کے طالب میرے بعد تم سے ہدایت حاصل کریں گے(3)

-------------------------

(1):- مستدرک حاکم جلد 2 صفحہ 243 ۔کنز العمال جلد 5 صفحہ 95 ۔صواعق محرقہ صفحہ 184

(2):-کنز العمال جلد 6 صفحہ 155 ۔ مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 108 ۔ تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 99۔ مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ128 ۔حلیۃ الاولیاء  جلد 4 صفحہ 359 ۔ احقاق الحق جلد 5 صفحہ 108

(3):- طبری ،جامع البیان فی تفسیر القرآن  جلد 13 صفحہ 108 ۔رازی ،تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 271 ۔ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم جلد 3 صفحہ 503  ۔شوکانی ،تفسیر فتح القدیر  جلد 3 صفحہ 70 ۔سیوطی تفسیر درمنثور  جلد 4 صفحہ 45 ۔حسکانی شواہد التنزیل جلد 1 صفحہ 293۔

۲۲۳

اہل نظر پر مخفی نہیں کہ اس حدیث میں بھی عصمت امام کی تصریحج ہے ۔ امام علی ع نے خود بھی  اپنے معصوم ہونے اور اپنی اولاد میں سے دوسرے ائمہ کے معصوم ہونے کی تصرح کی ہے آپ نے کہا:

"تم کہا ں جارہے ہو اور تمھیں کدھر موڑا جارہا ہے ؟ حالانکہ ہدایت کے پرچم اڑرہے ہیں ، نشانیاں صاف اور واضح ہیں ، منارہ نور ایستادہ ہے تم کہاں بھٹک رہے ہو اور کیوں بہک رہے ہو ؟ نبی کی عترت تمھارے درمیان موجود ہے ،جو حق کی باگ ڈور ہیں ، دین کے نشان ہیں اور سچائی کی زبان ہیں ۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو ، وہیں ان کو بھی جگہ دو ۔ ان کی طرف اس طرح دوڑ و جیسے پیاسے پانی کی طرف دوڑتے ہیں ۔

اے لوگو! خاتم النبییں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشادکو سنوکہ (انھوں نے فرمایا ):

ہم میں سے جو مرتا ہے وہ مرتوجاتا ہے مگر مردہ(1) نہیں ہوتا ۔ ہم میں سے جو بظاہر مرکربوسیدہ ہوجاتا ہے ،وہ درحقیقت کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا ۔ تم وہ بات نہ کہو جو تمھیں معلوم نہیں ۔ کیونکہ اکثر وہی بات صحیح ہوتی ہے جس کا تم انکار کرتے ہو ۔جس کے خلاف تمھارے پاس کوئی دلیل نہ ہو اسے معذور سمجھو ۔اورمیں ایسا ہی شخص  ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان ثقل اکبر (قرآن )پر عمل نہیں کیا ؟ اب میں تمھارے درمیان ثقل اصغر چھوڑرہا ہوں  میں نے تمھارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑدیا ہے ۔"(2)

کیا ان تمام آیات قرآنی ،احادیث نبوی اور اقوال علی ع کے بعد بھی عقل

------------------------

(1):- فرشتہ موت کا چھوتا ہے گوبدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دوررہتا ہے (اقبال

(2):-نہج البلاغہ خطبہ 85

۲۲۴

ان ائمہ کی عصمت کاا نکار کرسکتی ہے جنھیں اللہ نے چنیدہ وبرگزیدہ قراردیا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ نہیں ،ہرگز نہیں ۔ بلکہ عقل تو یہ کہتی ہے کہ ان کی عصمت ایک حتمی اور لابدی امر ہے ۔ اس لیے کہ انسانوں کی قیادت وہدایت کامنصب جن کے  سپرد کیا گیا ہو ممکن نہیں کہ وہ معمولی انسان ہوں ، جو بھول چوک اور غلطی کاشکار ہوتے ہوں اور جس کی پیٹھ پر گناہوں کی گٹھڑی لدی ہوئی ہو جن پر لوگ نکتہ چینی کرتے ہوں ، عیب لگاتے ہوں اور کیڑے نکالتے ہوں ،بلکہ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے مین سب سے زیادہ سب سے زیادہ عالم ، سب سے زیادہ نیک ، سب سے  بہادر اور سب سے بڑھ کر متقی اور پرہیز گارہون کہ

یہی ہےرخت سفر میر کارواں کے لیے

یہی وہ صفات  ہیں جن سے قائد کی شان بڑھتی ہے لوگوں کی نگاہ اس کی عزت وعظمت میں اضافہ ہوتا ہے ، سب اس کا احترام کرتے ہیں اور پھر دل وجان سے کسی ہچکچاہٹ  اور خوشامد کے بغیر  کے بغیر ، اس کی اطاعت کرنے لگتے  ہیں ۔ جب یہ بات ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے خلاف یہ طعن وتشنیع کیوں اور یہ شوروغوغا کیسا ؟

اس سلسلے میں اہلسنت نے شیعوں پر جو تنقید کی ہے اگر وہ آپ سنیں اور پڑھیں تو آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا شیعہ جس کو چاہتے ہیں تمغہ عصمت پہنا دیتے ہیں ۔ یا جو عصمت کا قائل  ہے ہو کوئی کلمہ کفر منہ سے نکال رہا ہے یا گویا وہ معصوم کے متعلق کہہ ہے کہ یہ ایسا دیوتا ہے کہ نہ اس کو اونگھ آتی ہے نہ نیند درحقیقت ایسی کوئی بھی بات نہیں ۔

عصمت ائمہ نہ کوئی عجیب وغریب بات ہے نہ محال وناممکن ۔شیعوں کے نزدیک عصمت کے معنی فقط  یہ ہیں کہ معصوم اللہ تعالی کی خاص   رحمت وحفاظت میں ہوتا ہے کہ شیطان اس کو ورغلا نہیں سکتا اور نفس امارہ اس پر غلبہ پا نہیں سکتا کہ اسے معصیت کی طرف لے جائے ۔ یہ وو بات ہے جس سے اللہ کے دوسرے متقی بندے بھی محروم نہیں ۔ ابھی یہ آیت گزرچکی ہے"إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوا إِذا مَسَّهُم طائِفٌ مِنَ الشَّيطانِ تَذَکَّروا فَإِذا هُم مُبصِرونَ"

۲۲۵

مگر عام اہل تقوی  کی یہ عصمت وقتی اور عارضی ہوتی ہے اور اسکا تعلق ایک خاص حالت سے ہوتا ہے ۔اگر بندہ تقوی کی کیفیت سے دور ہٹ جائے تو اللہ تعالی  پھر اسے گناہوں سے محفوظ  نہیں رکھتا  مگر امام جسے اللہ منتخب کرتا ہے کسی حالت میں بھی تقوی اور خوف خدا کی راہ سے بال برابر بھی نہیں سرکتا ۔ ہمیشہ گناہوں اور خطاؤں سے محفوظ رہتا ہے

قرآن حکیم میں حضرت یوسف کے قصے میں ہے :

" وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ "

اس عورت نے ان کا قصد کیا اور وہ بھی اگر اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو قصد کربیٹھتے ۔ پس ہم نے انھیں بچالیا تاکہ ہم ان سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں ۔ بیشک وہ ہمارے خاص بندوں میں سے تھے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 24)

واضح رہے کہ حضرت یوسف ع نے ہرگز زنا کا قصد نہیں کیا تھا ، کیونکہ معاذاللہ اس قبیح فعل کا قصد انبیاء کی شان نہیں ہے ۔ البتہ آپ نے اس عورت  کوروکنے ، دھکادینے اور ضرورت  ہو تو اس کو مارنے کاقصد  ضرو رکیا تھا ۔ لیکن اللہ تعالی  نے ایسی غلطی کے ارتکاب سے آپ کو بچالیا ۔کیونکہ اگر یہ غلطی ہوجاتی تو آپ پر زنا کی کوشش کا الزام لگ جاتا اور ان لوگوں سے آپ کو نقصان پہنچتا ۔

قرآن شریف میں ایا ہے :

" وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ'

میں اپنے نفس کی برائت کااظہار نہیں کرتا ۔کیونکہ نفس تو برائی ہی سکھا تار ہتا ہے مگر یہ کہ جس پر پر وردگار رحم کرے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 53)

جب اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے اپنے دوستوں کو چن لیتا ہے تو پھر

۲۲۶

ان کو سکھاتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے ۔اور ان کو برائی اور گندی باتوں سے بچاتا ہےاور جب ان پر کرتا ہے ، تو انھیں کسی برائی میں ملوث نہیں ہونے دیتا ۔یہ سب اس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر معنی میں خاص بندے ہوتے ہیں۔لیکن اگر کوئی یہ تسلیم کرنا ہی چاہتا کہ اللہ تعالی اپنے خاص الخاص بندوں کو برائیوں سےبچاتا اور گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے تو وہ آزاد ہے ، اس پر  کوئی زبردستی نہیں ۔ ہم اس کی را ئے کا بھی احترام کرتے ہیں ۔ لیکن ان کا بھی فرض ہے کہ دوسروں کی رائے کا احترام کرے جو عصمت ائمہ کے قائل ہیں اور جن کے پاس اپنے دلائل ہیں ۔ خواہ مخواہ انھیں بدنام کرنے کی کوشش نہ کرے ۔جیسا کہ ایک شخص نے کی تھی جو پیرس میں لکچر دینے آیا تھا، یا جیسا کہ افسوس سےکہنا پڑتا ہے کہ اکثر علمائے اہل سنت کرتے ہیں ۔جب وہ اپنی  تحریروں میں اس موضوع کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

ائمہ کی تعداد

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد ائمہ معصومین کی تعداد بارہ ہے ۔ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ رسول اللہ ص نے ان ائمہ کی تعداد کے ساتھ  ان کے نام بھی گنوائے ہیں(1) ان کے نام یہ ہیں :

(1):- امام علی بن ابی طالب ع(2):-حسن بن علی ع

(3):-حسین بن علی ع

(4):-علی بن الحسین ع (زین العابدین)

(5):- امام محمد بن علی ع (باقر)

(6):-امام جعفربن محمد ع(صادق)

(7):- امام موسی بن جعفر ع(کاظم)

---------------------

(1):-سلیمان قندوزی حنفی ینابیع المودۃ جزو3 صفحہ 99

۲۲۷

(8):- امام علی بن موسی ع (رضا)

(9):- امام محمد بن علی ع (تقی)

(10):- امام علی بن محمد ع (نقی)

(11):-امام حسن بن علی ع(عسکری)

(12):- امام محمد بن حسن ع(مہدی منتظر)

یہ ہیں ائمہ اثناعشر ! جن کی عصمت کے شیعہ قائل ہیں ۔بعض افترا پرداز یہ کہہ کر کچھ مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ شیعہ  اہل بیت کی عصمت کے قائل ہیں اور دیکھو شاحسین بادشاہ  اردن بھی اہل بیت ع  میں سے ہیں اور اسی طرح شاہ حسن ثانی بادشاہ مراکش بھی اہل بیت ع میں سے ہیں ۔ اب تو کچھ لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ شیعہ امام خمینی کو بھی معصوم مانتے ہیں ۔

یہ ہے مسخرا پن ، افتراء اور سفید جھوٹ ،شیعہ علماء اور اعلی تعلیم یافتہ تو درکنار ، ایسی بات تو شیعہ عوام بھی نہیں کہتے ، ان مسخروں کی جب اور کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی تو وہ سوچتے ہیں کہ شاید اسی طرح وہ لوگوں کو خصوصا توجوانوں کو جو اس قسم کے پروپیگنڈے پر آسانی سا یقین کرلیتے ہیں ، شیعوں سے متنفر  کرسکیں ۔ شیعہ پہلے بھی اور آج بھی فقط ان ہی ائمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہیں جن کے نام رسول اللہ نے اس وقت بتلادیے تھے جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ جیسا کہ ہو پہلے  ذکر کرچکے ہیں ، خود بعض علمائے اہل سنت نے ایسی روایات  نقل کی ہیں ۔بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں ائمہ  کی تعداد سے متعلق حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق ائمہ  بارہ ہیں اور وہ سب قریش میں سے ہیں(1) ان احادیث کا مطلب اسی وقت ٹھیک بیٹھتا ہے جب ہم بارہ اماموں  سے مراد ائمہ اہلبیت ع لین جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ ورنہ اہل سنت بتلائیں کہ

----------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 127 ۔صحیح مسلم جلد6 صفحہ 3

۲۲۸

اس چیستان کا حل کیا ہے؟

اہل سنت نے اپنی صحاح میں ائمہ اثناعشرو الی احادیث تو  نقل کی ہیں لیکن یہ آج تک معماہے کہ ان مراد کون سے بارہ امام ہیں ۔مگر پھر بھی سنیوں  کو یہ توفیق کہاں کہ وہ اس بات کو مان لیں جس کے شیعہ قائل ہیں ۔

ائمہ علم

اہل سنت کا ایک اوراعتراض یہ ہے کہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ع سلام اللہ علیھم کو اللہ تعالی نے ایسا خصوصی  علم عطا کیا ہے جس  میں کوئی ان کا  شریک وسہیم نہیں ہے ۔ اور یہ کہ امام اپنے زمانے کاسب سے بڑا عالم ہوتا ہے  اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص امام سے کوئی سوال کرے اور امام سے اس کا جواب بن نہ پڑے

تو کیا شیعوں کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے ؟؟؟

ہم حسب معمول اپنی اس بحث کا آغاز بھی قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "

پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا۔

اس آیت سے واضح طور پ ر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ  نے اپنے کچھ  بندوں کو چن لیا ہے اور انھیں کتاب کا وارث بنادیا ہے ۔کیا معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ چنیدہ بندے کون ہیں ؟

ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ امام علی رضا ع  نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آیت ائمہ اہل بیت ع کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ اس موقع کی بات ہے جب مامون نے چالیس مشہور قاضیوں کو جمع کیا تھا اور اس میں سے ہر  قاضی نے 40 سوال امام ثامن کے لیے تیار کیے تھے ۔امام نے ان سب سوالوں

۲۲۹

کے مسکت جواب دیے اور بالآخر سب قاضیوں کو ان کی اعلمیت کا اعتراف کرنا پڑا(1)

جس وقت ان قاضیوں اور امام کے درمیان یہ مناظرہ ہوا اور قاضیوں نے ان کی اعلمیت کا اقرار کیا ، اس وقت امام کی عمر چودہ سال سے بھی کم تھی ۔پھر اگر شیعہ  ان ائمہ کی اعلمیت کے قائل ہیں تو اس میں حیرت کای  کیا بات ہیے جبکہ خود اہل سنت  علماء بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں ۔

اگر ہم قرآن کی تفسیر سے کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ متعدد آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے ائمہ  اہل بیت  کو ہو علم لدنی عطا کیا تھا جو ان ہی سے مختص تھا اور یہ ائمہ واقعی ہادیوں کے پیشوا اور اندھیروں کے چراغ تھے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ"

ہو جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت عطا ہوگئی اسے بڑی نعمت عطا ہوگئی ۔ اور نصیحت  تو صاحبان  عقل وفہم ہی قبول کرتے ہیں (سورہ بقرہ ۔آیت 269)

ایک اور جگہ ارشاد ہے :

" فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ () وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ()إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ () فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ () لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ "

پس میں قسم کھاتا ہوں  ستاروں کی جگہ  کی اور اگر تم سجھوں تو یہ ایک بڑی قسم ہے  ۔واقعی یہ قابل احترام  قرآن ہے  ایک محفوض کتاب میں جسے کوئی مس نہیں کرسکتا بجز ان کے جو پاک

----------------------

(1):-ابن عبد ربّہ اندلسی عقد الفرید جلد 3 صفحہ 42۔

۲۳۰

کیے گئے ہیں "۔

اس آیت میں اللہ نے ایک بڑی قسم کھا کر کہا ہے کہ قرآن کریم میں ایسے باطنی اسرار ہیں جن کی حقیقت صرف ان کو معلوم ہے جو  پاک کیے گئے ہیں ۔یہ پاکیزہ حضرات اہل بیت ع ہیں جن سے اللہ نے ہر طرح کی آلودگی کو دور رکھا ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قران سے متعلق کچھ باطنی علوم ہیں ، جن کو سبحانہ نے صرف ائمہ اہل بیت سےمختص کیا ہے ۔کسی  دوسرے کو اگر  ان علوم سے آگہی حاصل کرنا ہو تو فقط ان ائمہ کے واسطے سے ہوسکتی ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

"هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ"

وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پرکتاب اتاری ۔اس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور جو اس کتاب کامدار ہیں اور بعض متشابہ  ہیں ۔ توجن لوگوں کے دلوں میں کجی  ہے وہ اس حصہ کے پیچھے ہولیتے  ہیں جو متشابہ ہے تاکہ فتنہ برپا کریں اور غلط مطلب نکالیں ،جبکہ اس کا صحیح  کوئی نہیں جانتا سوائے  اللہ کے اور ان لوگوں کے جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ۔ یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے ۔ اور نصیحت تو عقل والے ہی قبول کرتے ہیں (سورہ آل عمران ۔آیت 7)

اس آیہ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے،  اللہ سبحانہ نے قرآن میں ایسے اسرار ورموز  رکھے ہیں جن کی تاویل یا وہ خود جانتا ہے یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں

۲۳۱

جیسا کہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے جو گزشتہ اوراق میں نقل کی جاچکی ہیں ،  علم میں دستگاہ  رکھنے والے  یعنی راسخوں فی العلم سے مراد اہل بیت رسول ع ہیں ۔

اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :" ان سےآگے نہ بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاؤ
گے  اور ان سے پیچھے بھی نہ رہو  ورنہ گمراہ ہوجاؤگے  اور انھیں پڑھانے  کی کوشش نہ کرو کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں "(1) امام علی ع نے خود بھی کہا تھا :

"کہاں ہیں وہ جو یہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ راسخون فی العلم ہم نہیں وہ ہیں ، وہ ہماری مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اونچا درجہ دیا ہے اور ان کو ادنی درجہ ۔ ہمیں اللہ نے منصب امامت دیا اور ان کو محروم رکھا ۔ ہمیں (زمرہ  خواص میں )داخل کیا اور ان کو باہر نکال دیا ۔ہم ہی ہیں جن سے ہدایت  طلب کی جاسکتی ہے اور جن سے بے بصیر تی دور کرنے کے لیے روشنی  مانگی جاسکتی ہے ۔ بلاشبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے  کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے ۔ نہ امامت کسی کو زیب دیتی  ہے اور نہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے(2) "

اگر ائمہ اہل بیت راسخوں فی العلم نہیں ، تو پھر کون ہے ؟ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ امت میں سے آج تک ان سے بڑھ کر عالم ہونے کا دعوی کسی نے نہیں کیا ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

"فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ "

اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھ لو ۔

-------------------------

(1):- صواعق محرقہ صفحہ 148 ۔ درمنثور جلد 2 صفحہ 60 ۔ کنزالعمال جلد ا صفحہ 168 ۔ اسد الغابہ فی معرفۃ ۔الصحابہ جلد3 صفحہ 137۔

(3):- نہج البلاغہ خطبہ 142

۲۳۲

یہ آیت بھی اہل بیت ع کی شان میں نازل ہوئی تھی ۔(1)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقائق  معلوم کرنے کے لیے اہل بیت سے رجوع کرے ۔ چنانچہ صحابہ کو جب کوئی بات مشکل معلوم ہوتی تھی  تو وہ اس کی وضاحت  کے لیے امام  علی ع سے رجوع کرتے تھے ۔ اسی طرح عوام مدتوں  ائمہ اہل بیت ع سے حلال وحرام معلوم کرنے کے لیے  رجوع کرتے رہے اور ان کے علوم ومعارف کے چشموں سے فیض یاب ہوتے رہے ۔

ابو حنیفہ کہا کرتے تھے ۔" اگر وہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوگا ہوتا "(2)

یہ ان دوسالوں کی طرف اشارہ تھا جن کے دوران میں انھوں نے امام جعفر صادق سے تعلیم حاصل کی تھی ۔

امام مالک کہتے تھے کہ :

"علم وفضل ، عبادت اور زہد ،تقوی کے لحاظ سے جعفر صادق ع سے بہتر کوئی شخص نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا  اور نہ کسی کے تصور میں آیا "۔(3)

جب ائمہ اہل سنت کے اعتراف کے بموجب یہ صورت ہو تو ان تمام دلائل  کے باوجود شیعوں پر طعن وتشنیع کیوں ؟ جب اسلامی تاریخ سے ثابت ہے کہ ائمہ اہل بیت اپنے زمانے میں علم میں سب سے برتر تھے،تو پھر اس  میں حیرت کی کیا بات ہے کہ اللہ سبحانہ ، نے اپنے اولیاء کو جنھیں اس نے چن لیا تھا مخصوص حکمت اور علم لدنی سے نوازا اور انھیں مومنین کا پیشوا اور مسلمانوں کا امام مقرر کردیا ۔اگر مسلمان ایک دوسرے کے دلائل سنیں تووہ ضرور اللہ اور رسول ص کے فرمان

------------------------

(1):-تفسیر طبری جلد 14 صفحہ 134 ۔ تفسیر ابن کثیر جلد 2صفحہ 540 ۔تفسیر قرطبی جلد 11 صفحہ 272۔

(2):- شبلی نعمانی ،سیرت نعمان ۔

(3):-علامہ  ابن شہر آشوب ۔مناقب آل ابی طالب ۔ حالات صادق ع

۲۳۳

کو تسلیم کرلیں اور ایسی امت واحدہ بن جائیں  جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہو ۔ پھر نہ کوئی اختلاف  رہے نہ تفرقہ ، نہ مختلف نظریات  ومذاہب  ، نہ مسالک یہ سب ہوگا  اور ضرور ہوگا اور جو ہونے والا ہے اس کے مطابق اللہ اپنا فیصلہ ضرور دےگا ۔

" تاکہ جسے برباد ہونا ہو وہ کھلی نشانیاں آنے کے بعد برباد ہو اور جسے زندہ رہنا ہو وہ بھی کھلی نشانیاں آنے کے بعد زندہ رہے "۔(سورہ انفال ۔آیت 48)

بداء

اس کے معنی ہیں کہ اللہ کے سامنے کوئی بات جس کو کرنے کا اس کا ارادہ ہو پھر اس کی رائے بدل جائے  اور پہلے  جس کام کا ارادہ تھا ، وہ اس کے بجائے کچھ اور کرلے ۔

اہل سنت شیعوں کو مطعون کرنے کے لیے بداء کا مطلب اس طرح لیتے ہیں گویا یہ نتیجہ ہے اللہ تعالی کی ذات میں جہل یا نقص کا ۔ اور کہتے ہیں کہ "شیعہ اللہ تعالی کے جہل قائل ہیں "۔

دراصل بداء کا یہ مطلب بالکل غلط ہے ۔ شیعہ اس کے کبھی قائل نہیں رہے ۔ اور جو شخص اس طرح  کاعقیدہ ان سے منسوب کرتا ہے ۔ وہ افتراء پردازی کرتا ہے ۔قدیم وجدید شیعہ علماء کے اقوال  اس کے گواہ ہیں ۔

شیح محمد رضا مظفر اپنی کتاب عقائد الامامیہ  میں کہتے ہیں :

 اس معنی میں اللہ تعالی کے لیے بداء محال ہے کیونکہ یہ نقص ہے اور اللہ تعالی کی لاعلمی ظاہر  کرتا ہے ۔ شیعہ اس معنی بداء  کے ہرگزقائل نہیں ۔ "

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"جو شخص یہ کہتا ہے کہ بداء کے معنی " ابداء ندامہ کے ہیں ،یعنی اللہ تعالی اپنی کسی رائے کو غلط پاکر اور اس  پر نادم ہوکر

۲۳۴

اپنی وہ ر ائے بدل دیتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے "۔ امام صادق ہی نے فرمایا ہے کہ

"جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالی  کے بداء کی وجہ سے اس کی لاعلمی ہے ،تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں "  بالفاظ دیگر شیعہ جس بداء  کے قائل ہیں وہ اس قرآنی آیت کے حدود کے اندر ہے:

"يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ" اور اللہ جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتاہے ۔ اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اصل کتاب اس کے پاس  ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت 39)

اس بات کے اہل سنت بھی اسی طرح قائل ہیں  جس طرح شیعہ ۔ پھر شیعوں ہی پر اعتراض کیوں کیاجاتا ہے سنیوں پرکیوں نہیں ۔ وہ بھی تو یہ مانتے  ہیں کہ اللہ تعالی احکام میں تغییر کردیتا ہے ۔ موت کا وقت بدل دیتا ہے اور رزق گھٹا بڑھا دیتا ہے ۔

کیا کوئی پوچھنے والا اہل سنت سے پوچھ سکتا ہے کہ جب سب کچھ  ازل سے ام الکتاب میں لکھا ہوا ہے تو پھر اللہ تعالی اپنی مرضی کے مطابق یہ تغیر وتبدل کیوں کرتا رہتا ہے ؟

ابن مردویہ اور ابن عساکر نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ :

حضرت علی ع نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے  "يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ"  کے بارے میں دریافت  کیا تو رسول اللہ نے فرمایا : میں اس کا ایسا مطلب بیان کروں گا کہ خوش ہوجاؤگے  اور میرے  بعد میری امت کی آنکھیں بھی اس سے ٹھنڈی ہوں گی ۔ اگر صدقہ صحیح طریقے سے دیا جائے ، والدین کے ساتھ نیکی کی جائے ، کسی پر احسان کیا جائے ، تو یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان سے بدبختی خوش بختی

۲۳۵

میں بدل جاتی ہے ، عمر بڑھتی ہے اور بری موت سے حفاظت رہتی ہے "

ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے شعب الایمان یمں قیس بن عبّاد  رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ

"رسول اللہ نے فرمایا کہ اشہر حرم میں سے ہر مہینے کی دسویں تاریخ کی رات کو اللہ تعالی کا ایک خاص معاملہ ہوتاہے رجب کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی  کا ایک خاص معاملہ ہوتا ہے ۔رجب کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا باقی رکھتا ہے "۔

عبد بن حمید ، ابن جدیر اور ابن منذر نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ

"عمر بن خطاب بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورکہتے جاتے تھےکہ "یا الہی! اگر تونے میری قسمت میں کوئی برائی یا گناہ لکھا ہو تو اسے مٹادے اور اسے سعادت ومغفرت سے بدل دے ۔کیونکہ  تو جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور تیرے ہی پاس ام الکتاب ہے "۔(1)

بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عجیب وغریب قصہ بیان کیا ہے ۔معراج النبی کے دوران اپنے پرودرگار سے ملاقات  کا واقعہ بیان کرتے ہو ئے رسول اکرم ص فرماتے ہیں :

"اس کے بعد مجھ پر پچاس  نمازیں فرض کردی گئیں ۔ میں چلتا ہوا موسی ع کے پاس آیا ۔ انھوں نے پوچھا کیا گزری ؟ میں نے کہا : مجھ پر پچاس نمازیں فرض کردی گئی ہیں۔ موسی ع نے کہا : مجھے لوگوں کی حالت کا آپ سے زیادہ علم ہے ۔ مجھے بنی اسرائیل کو قابو میں لانے میں بڑی دشواری کا سامنا کرناپڑا تھا ۔ مناسب یہ ہے

---------------------

(1):- سیوطی ،درمنثور جلد 4 صفحہ 661

۲۳۶

کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس دوبارہ جائیے اور اس سے کچھ تخفیف کی درخواست کیجیے۔

چنانچہ میں نے واپس جاکر تخفیف کی درخواست کی ۔ اللہ تعالی نے چالیس نمازیں کردیں ۔ میں پھر موسی کے پاس پہنچا تو انھوں نے پھروہی  بات کہی ۔ میں نے واپس جاکر پھر درخواست کی تو تیس نمازیں ہوگیئیں ۔پھر یہی کچھ  ہوا تو بیس ہوگئیں  پھر دس ہوئیں ۔ میں موسی کے پاس گیا تو انھوں نے پھروہی بات کہی اب کے پانچ ہوگئیں ۔ میں پھر موسی کے پاس پہنچا ، انھوں  نے پوچھا کہ کیا کیا ؟میں نے کہا : اللہ تعالی  نے پانچ نمازیں کردیں موسی نے پھر وہی بات کہی ۔ اس مرتبہ جو میں نے سلام کیا تو آواز آئی :" اب میں نے اپنے فریضہ کے بارے میں پختہ حکم دے دیا ہے ۔میں نے اپنے بندوں کا بوجھ کرم کردیا ہے اور میں نیکی کا دس گنا اجر دوں گا "(1)

بخاری ہی میں ایک اور روایت ہے ۔ اس میں ہے کہ : کئی مرتبہ کی مراجعت کے بعد جب پانچ نمازیں  فرض رہ گئیں  تو حضرت موسی نے رسول اکر م ص  سے ایک بار پھر مراجعت  کرنے کےلیے کہا۔ اور یہ بھی کہا کہ آپ کی امت پانچ نمازوں  کی  بھی طاقت نہیں رکھتی  ۔لیکن رسول اکرم ص نے فرمایا : اب مجھے اپنے رب سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔(2)

جی ہاں پڑھیے ا ور علمائے اہل سنت کے ان عقائد پر سردھنیے ، اس پر بھی وہ ائمہ اہل بیت ع کے پیروکار شیعوں پر اس لیے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بداء کے قائل ہیں ۔

-----------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 78 کباب بدء الخلق باب ذکر الملائکہ ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 250 باب المعراج ۔صحیح مسلم جلد1 صفحہ 101 باب الاسراء برسول اللہ وفرض الصلوات

۲۳۷

اس قصے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی  نے محمد ص اور امت محمدیہ پر اول پچاس نمازیں فرض کی تھیں پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مراجعت کرنے پر اسے یہ مناسب معلوم ہوا کہ نمازوں  کی تعداد چالیس کردے ۔ پھر دوسری دفعہ مراجعت کرنے پر یہ مناسب معلوم ہوا کہ نمازوں کی تعداد تیس  کردے ۔ تیسری دفعہ مراجعت کرنے پر یہ مناسب معلوم  ہوا کہ اس تعداد  کو گھٹا کر بیس کردے ۔ پھر چوتھی دفعہ مراجعت کرنے پر مناسب معلوم ہوا کہ دس کردے ۔پانچویں دفعہ مراجعت کرنے پر مناسب معلوم ہوا کہ پانچ کردے ۔

اور کون جانتا ہے کہ اگر محمد ص اپنے رب سے شرما نہ جاتے تو وہ یہ تعداد ایک ہی کردیتا یا بالکل  معاف کردیتا ۔

استغفراللہ ۔کیسی شرمناک بات ہے !

میرا اعتراض  اس پر نہیں کہ اس قصے میں بداء کیوں ہے ؟ نہیں ، بالکل نہیں  ۔"يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ"

ہم پہلے اہل سنت کا یہ عقیدہ بیان کرچکے ہیں کہ والدین سے حسن سلوک صدقات اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان  سے بدبختی ،نیک بختی میں بدل جاتی ہے ، عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور برے طریقے سے موت سے حفاظت ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ اسلامی اصولوں اور قرآن کی روح کے عین مطابق ہے ۔ قرآن میں ہے کہ :

"إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسهم"

اللہ تعالی  کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت نہ بدلیں ۔

اگر ہمارا سب کا یعنی شیعہ اور سنی دونوں کا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ اللہ تعالی تغیر وتبدل کرتا رہتا ہے ،  تو ہماری یہ نمازیں او ردعائیں سب بیکار تھیں ۔ ان کا نہ کوئی فائدہ تھا اور نہ کوئی مقصد۔

ہم سب اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی  احکام تبدیل کرتا ہے ۔ اسی لیےہر نبی کی شریعت جداہے بلکہ خود ہمارے نبی کی شریعت میں بھی ناسخ ومنسوخ کا

۲۳۸

سلسلہ رہا ہے ، ایسی صورت  میں بداء کاعقیدہ نہ کفر ہے نہ دین سے بغاوت ، اہلسنت  کوکوئی حق نہیں کہ اس عقیدے کی وجہ سے شیعون  کو طعنے  دیں ۔ اسی طرح شیعوں کو بھی حق نہیں کہ اہل سنت پن اعتراض کریں ۔

لیکن مجھے مذکورہ بالا قصے پر ضرور اعتراض ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نماز کے بارے میں اپنے پروردگار سے سودے بازی پر ۔ کیونکہ اس میں اللہ جل شانہ ، کی طرف جہل کی نسبت لازم آتی ہے اور تاریخ بشریت کے سب سے بڑے انسان یعنی ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی شخصیت کی توہین ہوتی ہے ۔ اس روایت میں جناب موسی ع حضرت محمد ص سے کہتے ہیں کہ

" أنا أعلم بالنّاس منك"

میں لوگوں کے حالات اور مزاج سے تمھاری نسبت زیادہ واقف ہوں ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ موسی ع زیادہ افضل  ہیں  اور اگر وہ نہ  ہوتے تو امت محمدیہ کی عیادت کے بوجھ میں تخفیف نہ ہوتی۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت موسی ع کو کیسے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ پانچ نمازوں کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی جبکہ خود اللہ تعالی  کو یہ بات معلوم نہیں تھی ، کیونکہ اس نے ناقابل برداشت عبادت کا بو جھ اپنے بندوں پر ڈال دیا تھا اور پچاس  نمازیں ان پر فرض کردی  تھیں ۔

میرے بھائی ذرا تصور کیجیے !پچاس نمازیں  ایک دن میں کیسے ادا کی جاسکتی ہیں ؟ ایسا ہوا تو پھر نہ کوئی مشغلہ ہوگا ، نہ کوئی کام ، نہ تعلیم نہ کمائی ، نہ کوشش نہ ذمہ داری ۔ سب آدمی فرشتے  بن جائیں  گے ، جن کا کام صرف  نمازیں پڑھنا  اور عبادت  کرنا ہوگا ۔ آپ معمولی  حساب لگائیں  تو آپ کو معلوم ہوجائے گا  کہ یہ روایت صحیح نہیں ہوسکتی ۔ اگر ایک نماز میں دس منٹ بھی لگیں  اور یہ ایک باجماعت نماز کے وقت کا معقول اندازہ ہے ، تو دس منٹ کو پچاس  سے ضرب دس لیجیے  تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچاس نمازیں ادا کرنے میں تقریبا دس گھنٹے لگیں گے ۔ اب یا تو آپ اس افتاد پر صبر کریں یا اس دین کا ہی انکار کردیں جو اپنے ماننے والوں پر یہ  ناقابل برداشت

۲۳۹

بوجھ ڈالتا ہے ۔

ہوسکتا ہے یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس حضرت موسی اور حضرت عیسی ع کے خلاف سرکشی کی کوئی قابل قبول وجہ ہو ۔ لیکن اب تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کا بوجھ  اتار دیا ہے اور ان کی سب زنجیریں  کاٹ دی ہیں ۔ اب محمد  صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرنے کا ان کےپاس کیا بہانہ ہے ۔

اگر اہل  سنت شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں  کہ شیعہ بداء کے قائل  ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ جیسے مناسب سمجھتا ہے تغیّر  تبدل کرلیتا ہے تو وہ اپنے اوپر کیوں اعتراض نہیں کرتے جب  وہ خود یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ  نے جب مناسب سمجھا تو ایک ہی حکم ایک ہی رات یعنی شب معراج میں پانچ دفعہ بدل دیا ۔

براہو اندھے تعصب اور عناد  کاجو حقائق   کو چھپاتا اور الٹا کرکے پیش کرتا ہے ۔ متعصب اپنے مخالف پر حملہ کرنے کے لیے صاف اور واضح امور کا انکار کرگزرتا ہے اور بات بے بات مخالف پر اعتراض کرتا ہے ، اس کے خلاف افواہیں  پھیلاتا ہے  اور ذراسی بات کا بتنگز بنادیتا ہے جبکہ خود بہت زیادہ قابل اعتراض باتیں کہتا ہے ۔ یہاں تک مجھے وہ بات یادآگئی  جو حضرت عیسی علیہ السلام نے یہود سے کہی تھی ۔ آپ نے کہا تھا:

"تم دوسروں کی آنکھ کا تنکادیکھتے  ہو اور اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتے " ایک مثال ہے کہ :

بیماری تو اسے تھی مگر وہ مجھ سے یہ کہہ کر کہ یہ بیماری تمھیں ہے خود کھسک گئی "۔

شاید کوئی یہ کہے کہ اہل سنت کے یہاں بداء کا لفظ نہیں آیا ، گو اس کے معنی تو حکم بدلنے ہی کے ہیں لیکن پھر بھی بدا للہ کے الفاظ اہل سنت کے یہاں نہیں ۔

میں اکثر دلیل کے طور پر کہ بداء اہل سنت کے یہاں بھی ہے ۔ معراج

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328