حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63851 / ڈاؤنلوڈ: 7543
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

کا قصہ پیش کیا کرتا تھا ۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیاکہ اس میں بداء کا لفظ  نہیں ہے ۔لیکن بعد میں جب میں نے انھیں صحیح بخاری کی ایک راویت رکھائی جس میں صراحت کے ساتھ بداء کا لفظ ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش بھی نہیں ، تو وہ مان گئے ۔

روایت حسب ذیل ہے :

بخاری نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے : ایک کے جسم پربرص کے سفید داغ تھے ، دوسرا نابینا تھا اور تیسرا گنجا تھا ۔ بد ا للہ ان یبتلیھم " اللہ کویہ (مناسب )معلوم ہوا کہ ان کا امتحان  لے ۔چنانچہ ایک فرشتے کو بھیجا ، جو پہلے مبروص کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : تمھیں  سب سے زیادہ کیاچیز پسند ہے؟ اس نے کہا : صاف ستھری جلد اوراچھا رنگ ، کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔ فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری جاتی رہی اور خوبصورت رنگ نکل آیا ۔ پھر فرشتے  نے پوچھا ۔ تمھیں کس قسم کا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا :اونٹ فرشتے نے اسے ایک دس مہینے کی گیا بھن اونٹنی دے  دی ۔

اس کے بعد فرشتہ گنجے   کے  پاس آیا ۔اس سے پوچھا : تمھیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا : خوبصورت  بال اور میری یہ بیماری جاتی رہے ، مجھ سے لوگ گھن کرتے ہیں ۔ فرشتے  نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کاگنج جاتا رہا  اور عمدہ بال نکل آئے ۔ اس کے بعد فرشتے  نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس شخص نے کہا: گائیں  فرشتے نے اسے ایک گیا بھن گائے دے دی ۔

اس کے بعد فرشتہ اندھے  کے پاس آیا ۔ اس سے پوچھا !تمھیں

۲۴۱

کون سی چیز سب سے زیادہ پسند  ہے؟ اس نے کہا: میں تو بس یہی چاہتا ہون کہ اللہ میری بینائی لوٹادے ۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا تو بینائی وآپس آگئی۔فرشتے  نے پوچھا تمھیں کونسا مال پسند ہے؟ اس شخص نے کہا: بھڑیں ۔ فرشتے نے اسے ایک بچوں والی بھیڑ دے دی ۔

ایک مدت کے بعد جب ان لوگوں کے پاس اونٹ گائیں اور بھیڑیں خوب ہوگئیں  اور ہر ایک کے پاس پورا گلہ ہوگیا تو وہ فرشتہ اسی شکل میں پھر آیا  اور مبروص ،گنجے اور نابینا میں سے ہر ایک کے پاس جاکر ان کے پاس جو جانور تھے ان میں سے کچھ جانور مانگے ،مبروص اورگنجے نے انکار کردیا ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کو پھر ان کی شکل پرلوٹا دیا ۔ نابینا نے جانور دیدیے تو حق تعالی نے اس کے مال میں اور برکت دی اور اسی کی بینائی بھی بحال رکھی(۱) "

اس لیے میں اپنے بھائیوں کو یہ ارشاد ربانی یاد دلاتا ہوں :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْراً مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْراً مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"

اے ایمان والو ! نہ مرد مردوں کا مذاق  اڑائیں ، کیا عجب  کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا ،کیا عجب کہ ہو ان سے بہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کا نام رکھو ۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام ہی برا ہے

------------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل

۲۴۲

اور جو اب بھی توبہ نہ کریں گے ، وہی ظالم ٹھہریں گے ۔ !(سورہ حجرات ۔آیت ۱۱)

میری ولی خواہش ہے کہ کاش مسلمانوں کو عقل آجائے ، وہ تعصب کو چھوڑیں دیں اور دشمن کے مقابلے میں بھی جذبات سے کام نہ لیں تاکہ ہر بحث میں فیصلہ جذبات کے بجائے عقل سے ہو ۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ ہو بحث وجدال میں قرآن کریم کا اسلوب اختیار کریں۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول پر وحی نازل کی تھی کہ وہ مخالفین سے کہہ دیں کہ :

"َإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِين"

کہہ دیجیے :یا ہم راہ راست پر ہیں یا تم ، اسی طرح یا ہم گمراہی میں ہیں یا تم ۔(سورہ سبا ۔آیت ۲۴)

یہ کہہ کر رسول  اللہ نے مشترکین کی  قدر منزلت بڑھادی اور خود ان کی سطح پر آنا منظور کرلیا تاکہ مشرکین کے ساتھ انصاف ہو اور اگر ہو سچے ہوں  تو انھیں بھی اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع مل سکے۔

اب ہمیں اپنا جائزہ لینا چالینا چاہیے کہ ہم ان اعلی اخلاق پر کہاں تک عمل پیرا ہیں !

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۲۴۳

تقیّہ

ہم گزشتہ بحث میں کہہ چکے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک "بداء" بہت ہی قابل اعتراض اور مکروہ عقیدہ ہے ، اسی طرح تقیہ کو بھی وہ برا سمجھتے ہیں اور اس پر شیعہ  بھائیوں کا مذاق  اڑاتے ہیں بلکہ شیعوں کو منافق سمجھتے  ہیں اور کہتے ہیں  کہ شیعوں  کہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں ۔

میں نے اکثر اہل سنت سے گفتگو کرکے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی  کہ تقیہ نفاق نہیں ہے لیکن انھیں تو کسی بات کا یقین ہی نہیں آتا سوائے اس  کے جو انھیں ان کی مذہبی عصبیت نے سکھادیا ہے ۔یا جو ان کے بڑوں بزرگوں  نے ان کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔

یہ بڑے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان انصاف پسند اور تحقیق کے طالب لوگوں سے جو شیعوں  اور شیعہ عقائد کے متعلق معلومات حاصل کرناچاہتے ہیں ۔ حقائق کو چھپائیں اور یہ کہہ کر انھیں شیعوں سے متنفر کرنے کی کوشش کریں کہ یہ   عبداللہ بن سبایہودی کا فرقہ ہے جو رجعت ، بدا، تقیہ ، عصمت اور متعہ کا قائل ہے اور اس کے عقائد میں بہت سے خرافات اور فرضی باتین شامل ہیں جیسے مثلا مہدی منتظر وغیرہ کا عقیدہ ۔جو شخص ان کی باتوں کو سنتا ہے وہ کبھی اظہار نفرت کرتا ہے اور کبھی اظہار حیرت ۔ اور یہی سمجھتا ہے کہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ سب شیعوں کی منگھڑت اور فرضی باتیں ہیں ۔ مگر جب کوئی شخص تحقیق کرتا ہے اور انصاف سے کام لیتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب عقائد کا اسلام سے گہرا تعلق ہے اور یہ قرآن وسنت کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں سچ تو یہ ہے کہ اسلامی عقائد وتصورات ان کے بغیر اپنی صحیح شکل اختیار ہی نہیں کرسکتے۔

اہل سنت میں عجیب بات یہ ہے کہ جن عقائد کو وہ با سمجھتے ہیں ، ان ہی

۲۴۴

عقائد سے ان کی کتابیں اور احادیث کے معتبر مجموعے بھرے ہوئے ہیں ۔ اب ایسے لوگوں کا کیا علاج جو کہتے ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ اور جو خود اپنے عقائد کی اس لیے ہنسی اڑاتے ہیں کیونکہ شیعہ ان پر عامل ہیں ۔

ہم بداء کی بحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ اہل سنت خود بداء کے قائل ہیں لیکن اگر دوسرے بداء کے قائل ہوں تو ان پر اعتراض کرنے سے نہیں چوکتے ۔اب آئیے دیکھیں تقیہ کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کیا کہتے ہیں ؟

اس کی بنا پر تو وہ شیعوں پر منافق ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔

ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے عوفی کے واسطے سے ابن عباس سے روایت بیا ن کی ہے کہ اس آیت"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" کے بارے میں ابن عباس کہتے تھے :"تقیہ" زبان سے ہوتاہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کو ایسی بات کہنے پر مجبور کرے جو اصل میں مصیت ہے تو وہ اگر لوگوں کے ڈر کے مارے وہ بات کہہ دے جب کہ اس کا دل پوری طرح ایمان پر قائم  ہو تو اسے کچھ نقصان نہیں ہوگا یہ بھی یاد رکھو کہ تقیہ محض زبان سے ہوتا ہے "(۱)

یہ روایت حاکم نے نقل کی ہے اور اسے صحیح کہا ہے ۔ بیہقی نے بھی اپنی سنن میں عطا عن ابن عباس کے حوالے سے"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" (مگر ہاں ایسی صورت میں کہ تم کو ان  سے کچھ اندیشہ ضرر ہو)(سورہ آل عمران ۔آیت ۲۸)۔کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ "تقۃ " کا تعلق زبان سے کہنے سے ہے بشرطیکہ دل ایمان پر قائم ہو "۔عبد بن حمید نے حسن بصری سے روایت بیان کی ہے کہ

"حسن بصری کہتے تھے کہ تقیہ روزقیامت تک جائز ہے "(۲)

--------------------

(۱):-سیوطی ،تفسیر درمنثور

(۲):- سنن بہیقی۔مستدرک حاکم

۲۴۵

عبد بن ابی رجاء نے نقل کیا ہے کہ حسن بصری اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے :"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقيةً" (۱)

عبدالرزاق ، ابن سعد ، ابن جریر طبری ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے  مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہے ، حاکم نے مستدر ک میں اسے صحیح کہا ہے ، بیہقی نے دلائل میں اس کو نقل کیا ہے ،روایت یہ ہے: مشرکین نے عمّار یاسر کو پکڑلیا اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک عمّار نے نبی اکرم کو گالی نہ دی اور مشرکین کے معبودوں کی تعریف نہ کی۔

آخر جب عمار کو مشرکین نے چھوڑدیا تو وہ رسول اللہ ص کے پاس آئے ۔رسول اللہ نے پوچھا : کہو کیا گزری ؟ عمارکے کہا : بہت بری گزری ، انھوں نے مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک جب تک میں نے آپ کی شان میں گستاخی نہ کی اور ان کے معبودوں کی تعریف  نہ کی ۔ رسول اکرم ص نے پوچھا : تمھارا دل کیا کہتا ہے ؟ عمار نے کہا : میرا دل تو ایمان  پر پختہ اور قائم  ہے ۔ رسول اللہ ص نے فرمایا : اگر وہ لوگ تم پر پھر زبردستی کریں تو پھر ایسے ہی کہہ دینا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

"مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ " یعنی جو شخص ایمان لانے کے خداکے ساتھ کفر کرے مگر  وہ نہیں جو کفر پر زبردستی مجبورکردیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطئمن ہو ۔(سورہ نحل ۔ آیت ۱۰۶)

ابن سعد نے محمد بن سیرین سے روایت بیان  کی ہے کہ رسول اللہ نے دیکھا کہ عمار روہ رہے ہیں ۔ آپ نے ان کے آنسو پونچھے اور کہا : (مجھے معلوم ہے کہ ) کفار

--------------------------

(۱):-سیوطی ، درمنثور

(۲):-ابن سعد ، طبقات الکبری

۲۴۶

نے تمھیں پانی ڈبودیا تھا تب تم نے ایسا کہا ۔اگر ہو پھر تمھارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں ، تو پھر یہی کہہ دینا ۔(۱)

ابن جریر ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے اپنی سنن میں عن علی عن ابن عباس  کے حوالے سے بیان  کیا ہے کہ

ابن عباس اس آیت کی تفسیر  میں کہتے  تھے" من کفر با لله" کہ اللہ نے خبر دی ہے کہ جس نے ایمان  کے بعد کفر کیا ، اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور اس کے لیے سخت عذاب ہے مگر جسے  مجبور کیاگیا اور اس نے دشمن سے بچنے  کے لیے زبان سے کچھ  کہہ دیا مگر اس کے دل میں ایمان ہے اور اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہیں ، تو کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے صرے اس بات کا مواخذہ کرتا ہے جس پر ان کا دل  جم جائے(۲)

ابن ابی شیبہ ، ابن جریر طبری ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت مکے کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ ہوا یوں کہ یہ لوگ ایمان  لے آئے  تو انھیں بعض صحابہ  نے مدینے سے لکھا کہ ہجرت کرکے یہاں آجاؤ ۔جب تک تم ہجرت کرکے یہاں نہیں آؤگے  ، ہم تمھیں اپنا ساتھی نہیں سمجھیں گے ۔ اس پر وہ مدینہ کے اردے سے نکلے  ۔راستے میں انھیں  قریش نے پکڑ لیا اور ان پر سختی کی ۔مجبورا انھیں کچھ کلمات کفر کہہنے پڑے  ۔ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی :" إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ " (۳) ۔

بخاری نے اپنی صحیح میں باب المداراۃ مع الناس میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ابو لدرداء کہتے تھے ۔

کچھ لوگ ہیں جن سے ہم بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ،

-------------------

(۱):-ابن سعد ،طبقات الکبری

(۲):- حافظ احمد بن حسین بیہقی ، سنن الکبری

(۳):- سیوطی ، تفسیر درمنثور جلد ۲ صفحہ ۱۷۸

۲۴۷

لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔(۱)

حلبی نے اپنی سیرت میں یہ روایت بیان کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ "جب رسول اللہ ص نے شہر خیبر فتح کیا تو حجاج بن علاط نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ص ! مکے میں میرا کچھ سامان ہے  اور وہاں میرے گھر والے بھی ہیں ، میں انھیں  لانا چاہتا ہوں ، کیا مجھے اجازت ہے اگر میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جو آپ کی شان میں گستاخی ہو ؟ رسول اللہ ص نے اجازت دے دی اور کہا : جو چاہے کہو "(۲)

امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم میں ہے کہ :

" مسلمان کی جان بچانا واجب ہے ۔اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو قتل کرناچاہتا ہو اور وہ شخص چھپ جائے تو ایسے موقع پر جھوٹ بول دینا واجب ہے "۔(۳)

جلال الدین  سیوطی نے اپنی کتاب الاشباہ والنظائر میں ایک راویت بیان کی ہے ۔ اس میں لکھا ہے :

"فاقہ کشی  کی حالت میں مردار کھانا ،شراب میں لقمہ ڈبونا اور کفر کاکلمہ زبان سے نکالنا جائز ہے ۔اگر کسی جگہ حرام ہی حرام ہو اور حلال شاذ ونادر ہی ملتا ہو تو حسب ضرورت حرام  کاا ستعمال  جائز ہے ۔"

ابو بکر رازی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں اس آیت"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

مطلب یہ ہے کہ تمھیں جان جانے یا کسی عضو کے تلف

---------------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۱۰۲

(۲):- علی بن برہان الدین شافعی ، انسان العیون المعروف بہ سیرت حلبیہ جلد۳ صفحہ ۶۱

(۳):-حجۃ الاسلام ابو حامد غزالی ، احیاء علوم الدین  ،

۲۴۸

ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تم کفار سے بہ ظاہر دوستی کا اظہار کرکے اپنی جان بچاسکتے ہو ۔آیت اللہ کے الفاظ سے یہی معنی نکلتے ہیں اور اکثر اہل علمی اسی کے قائل ہیں ۔ قتادہ نے بھی"لا يتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکافِرينَ أَوْلِباءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ" کی تفسیر کرتے ہوئے  یہی کہا ہے کہ مومن کے لیے جائز نہیں کہ کسی کافر کادین کے معاملے میں اپنا دوست یا سرپرست بنائے سوائے اس کے ضرر کااندیشہ ہو ۔ قتادہ نے مزید کہا ہے کہ"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً"  سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقیہ کی صورت میں زبانی کفر کا اظہار جائز ہے "(۱)

صحیح بخاری میں عروہ بن زبیر سے روایت ہےکہ حضرت عائشہ نے انھیں بتلایا کہ

ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہون ےکی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا : لغو آدمی ہے ، خیر آنے دو ، جب وہ شخص آیا تو آپ نے بڑی نرمی سے اس سے بات چیت کی ۔میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ابھی تو آپ نے کیا فرمایا  تھا   پھر آپ نے اس سے گفتگو اتنی خوش اخلاقی  سے کی ؟ آپ نے جواب دیا : عائشہ ! اللہ کے نزدیک وہ بدترین آدمی ہے جس سے لوگ اس کی بد زبانی کی وجہ سے بچیں یا اس  کی بد زبانی کی وجہ سے چھوڑدیں(۲) ۔

اس قدر تبصرہ یہ دکھانے کے لیے کافی ہے کہ اہل سنت تقیہ کے جواز کے پوری طرح قائل ہیں ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ تقیہ قیامت  تک جائز رہے گا اور ۔ جیسا کہ غزالی نے کہا ہے ، ان کے نزدیک بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا واجب

--------------------------

(۱):- ابوبکر رازی ، احکام القرآن جلد ۲ صفحہ ۱۰

(۲):-صحیح بخاری  جلد ۷ ،باب " لم یکن النبی فاحشا ولا متفحشا"

۲۴۹

ہے اور بقول رازی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ بعض صورتوں میں اظہار کفر بھی جائز ہے اور ۔ جیسا کہ بخاری اعتراف کرتے ہیں بہ ظاہر مسکرانا اور دل میں لعنت کرنا بھی جائز ہے اور ۔ جیسا کہ صاحب سیرۃ حلبیۃ  نےلکھا ہے ، اپنے مال کے ضائع ہوجانے کے خوف سے رسول اللہ ص کی شان میں گستاخی کرنا بلکہ کچھ بھی کہہ دینا روا ہے اور ۔جیسا کہ سیوطی نے اعتراف کیا ہے لوگوں کے خوف سے ایسی باتیں  کہنا بھی جائز ہے جو گناہ ہیں ۔

اب اہل سنت کے لیے اس کاقطعا جواز نہیں  کہ وہ شیعوں پر ایک ایسے عقیدے کی وجہ سے اعتراض کریں جس کے وہ خود بھی قائل ہیں اور جس کی روایات ان کی مستند حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جو تقیہ کو نہ صرف جائز بلکہ واجب بتلاتی ہی جن باتوں کے اہل سنت قائل ہیں ، شیعہ ان سے زیادہ کچھ نہیں کہتے ۔ یہ بات البتہ ہے کہ وہ تقیہ پر عمل کرنے میں دوسروں سے زیادہ مشہور ہوگئے ہیں ۔ اوروجہ اس کی وہ ظلم وتشدد ہے جس سے شیعوں  کو اموی اور عباسی  دور میں سابقہ پڑا ۔اس دور میں کسی شخص کے قتل کردیے جانے کے لیے کسی کا اتنا کہہ دینا تھا کہ "یہ بھی شیعیان اہل بیت ع میں سے ہے"۔

ایسی صورت میں شیعوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کارہی نہیں تھا کہ وہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں تقیہ پر عمل کریں ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :"

"التقية دبنی ودبن آبائی "

تقیہ میرا اور میرے آباء واجداد کا دین ہے ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ" من لا تقية له لا دين له"

جو تقیہ نہیں کرتا ، اس کا دین ہی نہیں ۔

تقیہ خود ائمہ اہل بیت ع کا شعار تھا ، اور اس کامقصد اپنےآپ کو اور اپنے  پیروکاروں  اور دوستوں کو ضرر سے محفوظ رکھنا  ،ان کی جانیں بچانا اور ان مسلمانوں  کی بہتری کا سامان کرنا تھا جو اپنے معتقدات کی وجہ سے تشدد کا شکار ہورہے تھے ،

۲۵۰

جیسے مثلا عمار بن یاسر ۔بعض کو تو عمار بن یاسر سے بھی زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی ۔ اہل سنت ان مصائب  سے محفوظ تھے کیونکہ ان کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مکمل اتحاد تھا ۔ اس لیے انھیں نہ قتل کا سامنا کرنا پڑا ، نہ لوٹ کھسوٹ کا ، نہ ظلم  وستم کا ۔ اس لیے یہ قدرتی امر ہے کہ وہ نہ صرف  تقیہ کا انکار کرتے ہیں  بلکہ تقیہ کرنے والوں کی بنا پر شیعوں کو بدنام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ان ہی کی پیروی اہل سنت والجماعت نے کی ہے ۔

جب اللہ تعالی نے قرآن میں تقیہ کا حکم نازل فرمایا ہے اورجب خود رسول اللہ نے اس پر عمل کیا ہے ، جیسا کہ بخاری کی روایت میں آپ پڑھ چکے  ہیں ۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے عمار بن یاسر  کو اجازت دی کہ اگر کفار پھر ان پر تشدد کریں اور اذیت دیں تو جو کلمات   کفر کفار کہلوانا چاہیں وہ کہہ دیں ۔ نیز یہ کہ قرآن وسنت پر عمل کرتے ہوئے  علماء نے بھی تقیہ کی اجازت دی ہے تو پھر  آپ ہی انصاف سے بتائیں  کہ کیا اس کے بعد بھی شیعوں  پر طعن کرنا اور ان پر اعتراض کرنا درست ہے ؟

صحابہ کرام نے ظالم حمکرانوں کے عہد میں تقیہ پر عمل کیا ہے ۔ اس وقت جبکہ ہرشخص کو جو علی بن ابی طالب پر لعنت کرنے سے انکار کرتا ہے  تھا قتل کردیا جاتا تھا حجر بن عدی کندی اور  ان کے ساتھیوں کاقصہ تو مشہور ہے ۔اگر میں صحابہ کے تقیہ کی مثالیں جمع کروں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت  ہوگی ۔ لیکن میں نے اہل سنت کے حوالوں سے جو دلائل پیش کیسے ہیں وہ بحمداللہ کافی ہیں ۔

لیکن اس موقع پر ایک دلچسپ واقعہ ضروربیان کروں گا جو خود میرے ساتھ پیش آیا ۔ ایک دفعہ ہوائی جہاز میں میری ملاقات اہل سنت کے ایک  عالم سے ہوگئی ہم دونوں برطانیہ میں منعقد ہونے والی ایک اسلامی کانفرنس میں مدعوتھے ۔ دوگھنٹے تک ہم شیعہ سنی مسئلے پر گفتگو کرتے رہے ۔ یہ صاحب اسلامی اتحاد کے داعی  اور حامی تھے ۔ مجھے بھی ان میں دلچسپی پیدا ہوگئی  تھی کہ لیکن اس وقت مجھے برا معلوم  ہوا جب انھوں نے یہ کہا شیعوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بعض ایسے عقائد چھوڑدیں جو

۲۵۱

مسلمانوں میں پھوٹ ڈالتے اور ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا سبب بنتے ہیں ۔ میں نے پوچھا : مثلا؟

انھوں نے بے دھڑک جواب دیا : مثلا متعہ اور تقیہ ۔

میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ متعہ تو جائز ہے اور قانونی نکاح کی ایک صورت ہے اور تقیہ اللہ کی طرف  سے ایک رعایت اور اجازت ہے۔لیکن وہ حضرت اپنی بات پر اڑے رہے اور میری ایک نہ مانے ، نہ ہی میرے دلائل انھیں قائل کرسکے ۔

کہنے لگے : جو کچھ آپ نے کہا ہے ، ممکن ہے کہ وہ صحیح ہو ،لیکن مصلحت یہی ہے کہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر ان چیزوں کو ترک کردیا جائے ۔

مجھے  ان کی منطق عجیب معلوم ہوئی ، کیونکہ وہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر اللہ کے احکام کو ترکرنے کامشورہ دے رہے  تھے ۔ پھر بھی میں نے ان کا دل رکھنے  کو کہا : اگر مسلمانوں کا اتحاد اسی پر موقوف ہوتا تو میں پہلا شخص ہوتا جو یہ بات مان جاتا ۔

ہم لندن ایرپورٹ پر اترے تومیں ان کے پیچھے چل رہاتھا ۔ جب ہم ائر پورٹ پولیس کے پاس پہنچے تو ہم سے برطانیہ آنے کی وجہ پوچھی گئی ۔

ان صاحب نے کہا: میں علاج کے لیے آیا ہوں ۔ میں نے کہا کہ میں اپنے دوستوں سے ملنے آیا ہوں ۔ اس طرح ہم دونوں  کسی وقت کے بغیر وہاں سے گزر کر اس ہال میں پہنچ گئے جہاں سامان وصول کرنا تھا ۔ اس وقت میں نے چپکے سے ان کے کان میں کہا کہ :آپ نے دیکھا  کہ کیسے تقیہ (نظریہ ضرورت) ہر زمانے میں کارآمد ہے ؟ کہنے لگے : کیسے ؟

 میں نے کہا: ہم دونوں نے پولیس سے جھوٹ بولا ۔میں نے کہا میں دوستوں سے ملاقات کے لیے آیا ہوں ، اور آپ نے کہا کہ میں  علاج کے لیے آیا ہوں ۔ حالانکہ ہم دونوں کا نفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔

وہ صاحب کچھ دیر مسکرائے ۔سمجھ گئے تھے کہ میں نے ان کا جھوٹ سن لیا ۔

۲۵۲

پھر کہنے لگے :کیا اسلامی  کانفرنسوں میں ہمارا روحانی علاج نہیں ہوتا ؟

میں  نے ہنس کر کہا : تو کیا اس کانفرنسوں میں ہماری اپنے دوستوں سے ملاقات نہیں ہوتی ؟

اب میں پھر اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں ۔میں کہتا ہوں کہ اہل سنت  کیا یہ کہنا غلط ہے کہ تقیہ نفاق کی کوئی شکل ہے بلکہ بات اس کی الٹ ہے کیونکہ نفاق کے معنی ہیں : ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر ۔ اور تقیہ کے معنی ہیں ظاہر میں کفر اور باطن میں  ایمان ۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ نفاق کے متعلق اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے :

" وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ " جب وہ منوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں اور جب اپنے شیطان کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔ ہم تو مذاق کررہے تھے (سورہ بقرہ ۔آیت ۱۴)

اس کا مطلب ہوا: ایمان ظاہر + کفر باطن = نفاق

تقیہ کے بار ے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے کہا ہے :

"وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ"

فرعون کی قوم  میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہا  ۔۔۔۔

اس کا مطلب یہ ہوا : کفر ظاہر + ایمان باطن =تقیہ

یہ مومن آل فرعون  اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا جس کا علم سوائے  اللہ کے کسی کو نہیں تھا ۔ وہ فرعون  اور ایک دوسرے سب لوگوں کے سامنے یہی ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعون کے دن پر ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کا ذکر قرآن کریم میں تعریف کرے انداز میں کیا ہے ۔

۲۵۳

اب قارئین  باتمکین آئیے  دیکھیں ! خود شیعہ تقیہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تاکہ ان کے بارے میں جو غلط سلط باتیں مشہور ہیں ۔ جو جھوٹ بولا جاتا ہ اور طوفان اٹھایا جاتا ہے ، ہم اس سے دھوکا نہ کھانے پائیں ۔

شیخ محمد رضا مظفّر اپنی کتاب عقائد الامامیہ میں لکھتے  ہیں :

تقیہ بعض موقعوں پر واجب ہے اور بعض موقعوں پر  واجب نہیں ۔ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ ضرر کا کتنا خوف ہے  تقیہ کے احکام فقہی کتابوں کے مختلف ابواب میں علماء نے لکھے ہیں ۔ ہر حالت میں تقیہ واجب نہیں ۔ صرف بعض صورتوں میں تقیہ کرنا جائز ہے ۔ بعض صورتوں میں تو تقیہ نہ کرنا واجب ہے ۔ مثلا اس صورت  میں جب کہ حق کا اظہار ، دین کی مدد ، اسلام کی خدمت اور جہاد ہو ۔ ایسے موقع پر جان ومال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا بعض صورتوں میں تقیہ حرام ہے یعنی ان صورتوں میں جب تقیہ کا نتیجہ خون ناحق ، باطل کا رواج یا دین میں بگاڑ  ہو یا تقیہ کے باعث مسلمانوں کا سخت  نقصان ہونے مسلمانوں میں گمراہی پھیلنے یا ظلم وجور کے فروغ پانے کا اندیشہ ہو۔

بہر حال شیعوں کے نزدیک تقیہ کا جو مطلب ہے وہ ایسا نہیں کہ اس کی بنا پر شیعوں کو تخریبی مقاصد کی کوئی خفیہ پارٹی سمجھ لیا  جائے ، جیسا کہ شیعوں کے بعض وہ غیر محتاط دشمن چاہتے ہیں جو صحیح بات کو سمجھنے  کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔ اہم  غیر محتاط شیعوں سے بھی کہیں گے کہ

اقوال غیر جو پئے اسلام ہیں مضر

اپنی زباں سے ان کی حکایت نہ کیجیئے

اسی طرح تقیہ کے یہ بھی معنی نہیں کہ اس کی وجہ سے دین اور اس کے احکام ایسا راز بن جائیں جسے شیعہ مذہب کو نہ

۲۵۴

ماننے   والوں کے سامنے ظاہر نہ کیا جاسکے  ۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ شیعہ  علماء کی تصانیف خصوصا ان کی فقہ  ،احکام عقائد اور علم کلام سے متعلق کتابیں مشرق ومغرب میں ہر جگہ  اتنی تعداد میں پھیلی ہوئی ہیں کہ اس سے زیادہ تعداد کی  کسی مذہب  کے ماننے والوں سے توقع نہیں کی جاسکتی "۔

اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ دشمنوں کے خیال کے بر خلاف یہاں نہ نفاق  ہے نہ مکر وفریب ، نہ دھوکا ہے نہ جھوٹ!

متعہ : معین مدت کا نکاح

 جس طر ح تمام  مسلمان فقہوں  میں نکاح کے لیے  یہ شرط ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی طرف سے ایجاب وقبول کیاجائے اور مہر معین کیا جائے ، اسی طرح سے متعہ میں بھی مہر کو معین  کیاجانا ضروری ہے ۔ نیز طرفین کی طرف سے ایجاب وقبول بھی شرط ہے : مثلا :

لڑکی لڑکے سے کہے : " زوّجتك نفسي بمهرٍ قدره كذا ولمدّةٍ كذا .(۱)

اس پر لڑکا کہے :قبلتُ       یا کہے :رضيتُ

شریعت اسلام میں عام طور سےجتنی شرطیں  نکاح کےلیے مقرر کی گئی ہیں کم وبیش وہ تمام شرطیں  متعہ کے لیے بھی مقرر کی گئی ہیں ۔ مثلا جس طرح محرم سے(یا ایک ہی وقت میں دوبہنوں سے ) نکاح نہیں ہوسکتا  اسی طرح متعہ بھی نہین ہوسکتا (اور جس طرح بعض فقہا کے نزدیک اہل کتاب سے نکاح جائز ہے اسی طرح متعہ بھی جائز ہے ) اور جس طرح نکاح کے بعد طلاق ہوجانے پر منکوحہ کے لیے عدت ضروری ہے جس کے بعد ہی وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے اسی طرح ممتوعہ بھی متعہ کے بعد

--------------------

(۱):- کذا وکذا کی بجائے  رقم اور متعہ کی مدت بولے ۔

۲۵۵

عدت  میں بیٹھی ہے اور عدت پوری کرنے کے بعد ہی دوسرا متعہ یا نکاح کرسکتی ہے ۔ممتوعہ کی عدت دو طہر (یا پینتالیس دن) ہے لیکن شوہر  کے مرجانے کی صورت میں یہ مدت چار ماہ دس دن ہے ۔

متعہ کی خصوصیت  یہ ہے کہ  اس میں نہ  نفقہ ہے نہ میراث ، اس لیے متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے  سے میراث نہیں پاتے ۔

متعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ نفقہ ہے  نہ میراث ، اس لیے  متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے  سے میراث نہیں پاتے ۔ متعہ سے پیدا ہونے والے   بچے نکاح سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح حلالی ہوتے ہیں اور انھیں عام بچوں  کی طرح میراث اور نفقہ (روٹی ،کپڑا ،مکان ،دوا  دارو وغیرہ )کے تمام حقوق  حاصل ہوتے  ہیں  اوران کا نسب اپنے باپ  سے چلتا ہے ۔ یہ ہیں متعہ کی شرائط اور حدود ۔اس کا حرام کاری سے دور کا بھی تعلق نہیں ، جیسا کہ بعض غلط الزام لگانے والے  اوربیجا شورمچانے والے سمجھتے ہیں ۔ اپنے شیعہ بھائیوں  کی طرح اہل سنت والجماعت کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ سورہ نساء کی آیت ۲۴  میں اللہ تعالی کی طرف سے متعہ کی تشریع کی گئی ہے آیت یہ ہے :

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً"

پس جن عورتوں س تم نے متعہ کیا ہے تو انھیں جو مہر مقرر کیا ہے دے دو اور مہر کے مقرر ہونے کے بعد اگر آپس میں (کم وبیش پر راضی ہوجاؤ تو اس میں  تم پر کچھ گناہ نہیں پیشک  خدا ہر چیز سے واقف اور مصلحتوں کا جاننے والا ہے ۔ اسی طرح اس پر بھی شیعہ اور سنی دونوں کا اتفاق  ہے کہ رسول اللہ نے متعہ کی اجازت دی تھی اورصحابہ نے عہد نبوی میں متعہ کیا تھا ۔

اختلاف  صرف اس پر ہے کہ کیا متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا یا اب بھی باقی  اہل سنت اس کے منسوخ ہوجانے کے قائل  ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے متعہ حلال تھا پھر حرام کردیاگیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ نسخ حدیث سے ہوا ہے قرآن سے نہیں

۲۵۶

اس کے برخلاف شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ منسوخ ہی نہیں ہوا ۔یہ قیامت تک جائز رہے گا ۔

فریقین کے اقوال پر ایک نظر ڈالنے  سے حقیقت واضح  ہوجائے گی  اور قارئین  باتمکین کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ تعصب  اور جذبات  سے بالاتر ہوکر حق کا اتباع کرسکیں ۔

شیعہ  جو یہ کہتے ہیں کہ  متعہ منسوخ نہیں ہوا اور یہ قیامت تک جائز رہے گا  ۔ اس کے متعلق ان کے اپنی دلیل ہے ۔ وہ کہتے  ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ نے کبھی متعہ سے منع کیا ہو۔

اس کے علاوہ ہمارے ائمہ جو عترت طاہرہ سے ہیں اسے کے حلال اور جائز ہونے کے قائل ہیں ۔ اگر متعہ منسوخ ہوگیا ہوتا تو ائمہ اہل بیت کو اور خصوصا امام علی ع کی ضرور اس کا علم  ہوتا کیونکہ گھر کا حال  گھر والوں  سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ۔!

ہمارے نزدیک جو بات ہے ، وہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب نے اپنے  عہد  خلافت میں اسے حرام قراردیا تھا ، لیکن یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا ۔ اس بات کو علمائے  اہل سنت بھی  تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اللہ اور اس کے رسول ص کے احکام کو عمر بن خطاب کی رائے  اور اجتہاد  کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتے ۔

یہ ہے متعہ کے بارے میں شیعوں کی رائے  کا  خلاصہ ، جو بظاہر بالکل درست اور صحیح ہے ۔کیونکہ سب مسلمان اللہ اوراس کے  رسول  ص کے احکام کی پیروی کرنے کے مکلف  ہیں ، کسی اور کی رائے کی نہیں ، خواہ اس کا رتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو خصوصا اگر اس کا اجتہاد  قرآن وحدیث کے نصوص کے خلاف ہو ۔

اس کے برعکس ، اہل سنت  والجماعت یہ کہتے ہیں کہ  متعہ پہلے حلال تھا ، اس کے متعلق قرآن میں آیت بھی اتر آئی  تھی ، رسول اللہ ص نے اس کی اجازت بھی دی تھی ، صحابہ ن ےاس پر عمل بھی کیا تھا لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا  کسی نے منسوخ کیا ۔ اس میں اختلاف کیا ہے :

 کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود انپی وفات

۲۵۷

سے قبل منسوخ کردیا تھا۔(۱)

کچھ کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب نے متعہ کو حرام کیا اور ان کاحرام کرنا ہمارے لیے حجت ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کافرمان ہے کہ " میری سنت اورمیرے بعد آنے والے خلفا ئے راشدین کی سنت پر چلو اور اسے دانتوں  سے مضبوط پکڑ لو۔"

اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ  متعہ اس لیے حرام ہے کہ عمر بن خطاب نے اسے حرام کیا تھا اور سنت عمر کی پابندی  اور پاسداری ضروری ہے ، توایسے لوگوں سے تو کوئی گفتگو اور بحث  بیکار  ہے ،کیونکہ ان کا یہ قول  محض تعصب  اور تکلف بے جاہے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان  اللہ اور رسول  ص کا قول چھوڑ کر اور ان کی مخالفت کرکے کسی ایسے مجتہد  کی رائے پر چلنے لگے جس کی رائے  بنا بر بشریت صحیح کم ہوتی ہے  اور غلط زیادہ ۔ یہ صورت بھی اس وقت ہے جب اجتہاد کسی ایسے مسئلے  میں ہو جس کے بارے میں قرآن وسنت میں کوئی تصریح  نہ ہو ۔ لیکن اگر کوئی تصریح موجود  ہو تو پھر حکم خداوندی یہ ہے :

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً"

جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو پھر اس بات میں کسی  مومن  مرد  اور کسی مومن عورت کو کوئی اختیار نہیں ۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول  کی نافرمانی  کی وہ بالکل گمراہ ہوگیا ۔(سورہ  احزاب ۔آیت ۳۶)

جسے اس قاعدہ  پر مجھ سے اتفاق نہ ہو اس کے لیے اسلامی قوانین کے

------------------------

(۱):-یہ بات وثوق سے معلوم نہیں کہ رسول اللہ ص نےکب منسوخ کیا تھا: کچھ لوگ  کہتے ہیں کہ روزخیبر اور کچھ کہتے ہیں  کہ روزفتح  مکہ اور کچھ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں اور کچھ  کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں اور کچھ کہتے ہیں عمرۃ القضا میں  رسول اللہ  ص نے منسوخ کیا تھا (ناشر)

۲۵۸

بارے میں اپنی معلومات پر نظر ثانی کرنی اور قرآن وحدیث کا مطالعہ کرناضروری ہے کیونکہ قرآن خود مذکورہ بالا آیت میں بتلاتا ہے کہ جو قرآن سنت کو حجت  نہیں مانتا وہ کافر اورگمراہ ہے ۔ اور ایک اسی آیت پر کیا موقوف ہے  قرآن میں ایسی  متعدد آیات موجود ہیں ۔ اسی طرح اس بارے میں احادیث بھی بہت ہیں ، ہم صرف ایک حدیث نبوی پر اکتفاء کریں گے ۔

رسو ل اللہ نے فرمایا  : "جس چیز  کو محمد  ص نے حلال  کیا وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اورجس چیز کو محمد ص نے حرام کیا وہ قیامت  تک کے لیے حرام ہے "۔

اس لیے کسی کو  یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ  کسی ایسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے جس کے متعلق اللہ یا اس کے رسول  کا حکم موجود ہو

تکمیل  دین کے بعد  نہ ترمیم سوچیے

بندہ نواز ! آپ رسالت نہ کجیے

اس کے باوجود  بھی جو لوگ یہ چاہتے  ہیں گہ ہم یہ مان لیں کہ خلفائے  راشدین کے افعال واقوال اور ان کے اجتہادات پر عمل ہمارے لیے ضروری  ہے ، ہم ان سے صرف اتنا عرض کریں گے کہ :

"کیا تم ہم سے  اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ ہو تو ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمھارا  بھی ۔ ہمارے  اعمال  ہمارے لئے ہیں  اور تمھارے  اعمال  تمھارے  لیے ۔ اور ہم تو اسی کے لیے  خالص ہیں ۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۱۳۹)

لہذا ہماری بحث کا تعلق صرف اس گروہ سے ہے جو یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ص نے خود متعہ کو حرام قراردیا تھا اور یہ کہ  قرآن کا حکم حدیث سے منسوخ ہوگیا(۱)

---------------------------

(۱):- واضح رہے کہ حدیث سے قرآن کا حکم منسوخ نہیں ہوتا کیونکہ قانون سازی انبیاء کا کام نہیں ہے ، ان کا کام تو بس یہ ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون  اسے کے بندوں تک پہنچادیں" وما علی الرّسول الّا البلاغ المبين" (ناشر)

۲۵۹

مگر  ان لوگوں کے اقوال میں بھی تضاد ہے اور ان کی دلیل کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ۔اگر چہ ممانعت  روایت صحیح مسلم میں آئی ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خود رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی  تو اس کے علم ان صحابہ کو کیوں  نہیں ہوا جنھوں ن ےعہد ابو بکر میں ان عہد عمر کے اوائل میں متعہ کیا ، جیسا کہ اس کی روایت خود صحیح مسلم میں ہے(۱)

عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری کے لیے آئے تو ہم ان کی قیام گاہ پر گئے ۔ لوگ ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے  رہے ۔ پھر متعہ کا ذکر چھڑ گیا ۔جابر نے کہا : ہاں ہم نے رسول اللہ کے زمانے  میں بھی متعہ کیا ہے(۲) اور ابو بکر  اور عمر کے عہد میں بھی ۔

اگر رسول اللہ ص متعہ کی ممانعت کرچکے ہوتے تو پھر ابو بکر اور عمر کے زمانے میں صحابہ کے لیے  متعہ کرنا جائز نہ ہوتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے نہ متعہ کی ممانعت کی تھی اور نہ اسے حرام قراردیا تھا ۔ ممانعت تو عمر بن خطاب نے کی ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں آیا ہے :

ابو رجاء ن ےعمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ ابن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ متعہ کی آیت کتاب اللہ میں نازل ہوئی تھی چنانچہ ہم نے اس وقت متعہ کی جب ہم رسول اللہ ص کے  ساتھے تھے ، قرآن میں کبھی متعہ کی حرمت نازل نہیں ہوئی ، اور نہ رسول اللہ ص نے اپنی وافات تک متعہ سے منع کیا ۔ اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے  سے جو چاہا کہا ۔

محمد کہتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ایک شخص سے مراد عمر

--------------------------

(۱):-صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۵۸

(۲):- مثلا زبیر بن العوام نے حضرت ابوبکر کی بیٹی اسماء سے متعہ کیا تھا ۔ اس متعہ کے نتیجے  میں عبداللہ بن زبیر اور عروہ بن زبیر پیداہوئے تھے ۔ جیسا کہ امام اہلسنت راغب اصفہانی نے محاضرات الادباء میں لکھا ہے (ناشر)

۲۶۰

ہیں(1) ۔

اب دیکھیے ! رسول اللہ ص نے اپنی وفات تک متعہ سے منع نہیں کیا ۔جیسا کہ یہ صحابی تصریح کرتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ نہایت صاف الفاظ میں اور بغیر کسی ابہام کے متعہ کی حرمت  کو عمر سے منسوب کرتے ہیں  ۔اور یہ بھی  کہتے ہیں  کہ عمر نے جو کچھ کہا اپنی رائے سے کہا ۔

اور  دیکھیے :

جابر بن عبداللہ انصاری صاف کہتے  ہیں کہ ہم رسول اللہ  کے زمانے میں اور ابوبکر کرے عہد خلافت میں ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی  آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے ۔ آخر عمر نے عمرو بن حریث کے قصے میں اس کی ممانعت کردی(2) ۔

روایات  سے معلوم ہوتا ہے  کہ چند دوسرے  صحابہ بھی حضرت عمر  کی رائے  سے متفق تھے لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ بعض صحابہ تو اس وقت بھی عمر کے ساتھ تھے جب انھوں نے رسول اللہ پر ہذیان گوئی کی تہمت لگائی تھی اور کہا  تھا کہ ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے ۔

اور سنیے ! ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں جابر کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعین  کے بارےمیں  اختلاف  ہوگیا ہے ۔ اس پر جابر نے کہا : ہم نے رسول اللہ کے زمانے  میں دونوں متعے کیے ہیں ،بعد میں عمر نے ہمیں منع کردیا  تو  پھر ہم نے کوئی متعہ نہیں کیا(3) ۔

اس لیے ذاتی طور  پر میرا خیال یہ ہے کہ بعض صحابہ ن ےجو متعہ کی

---------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 158

(2)(3):- صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 131

۲۶۱

ممانعت  رسول اللہ سے منسوب کی ہے اس کامقصد محض عمر کی رائے  کی تصویب اور تائید تھا ۔ ورنہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ص کسی ایسی چیز کو حرام قراردیں  جسے قرآن نے حلال ٹھہرایا ہو ۔ تمام اسلامی احکام میں ہمیں ایک بھی ایسا حکم معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ نے کسی چیز کو حلال کیا ہو اور رسول اللہ ص نے اسے حرام کردیا ہو ۔ اس کا کوئی قائل بھی نہیں ۔ البتہ معاند اور متعصب کی بات اور ہے ۔

اگر ہم برائے بحث یہ مان بھی لیں کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی ،تو امام علی ع کو کیا ہوگیا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم ص کے خاص  مقرّب ہونے   کے باوجود اور اسلامی احکام کی سب سے زیادہ واقفیت رکھنے کے باوصف فرمادیا کہ

"متعہ تو اللہ کی رحمت  اور بندوں پر اس کا خاص احسان ہے  اگر عمر اس کی ممانعت نہ کردیتے تو کوئی بدبخت ہی زناکرتا "(1)

اس کے علاوہ  خود عمر بن خطاب نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت کردی تھی بلکہ صاف صاف یہ کہا تھا کہ" متعتان كانتا على عهدرسول الله وأنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما: متعة الحج ومتعة النساء."

دو متعے  رسول اللہ ص کے زمانے میں تھے ۔ اب میں ان کی ممانعت کرتاہوں اور جو یہ متعے کرے گا اسے سزادوں گا ۔ان میں ایک متعہ حج ہے اور دوسرا عورتوں کے ساتھ متعہ ہے ۔(2) حضرت عمر کا ییہ قول مشہور ہے ۔

مسند امام احمد  بن حنبل اس بات کی بہترین گواہ ہے کہ اہل سنت والجماعت میں متعہ کے بارے میں سخت اختلاف ہے : کچھ لوگ رسول اللہ کا اتباع کرتے ہوئے  اس کے حلال ہونے کے قائل ہیں اور کچھ لوگ عمربن خطاب کی پیروی میں اسے

------------------------

(1):- تفسیر ثعلبی ۔ تفسیر طبری۔

(2):- فخر الدین رازی ، تفسیر کبیر" فمااستمتعتم به منه ن " کی تفسیر کے ذیل میں ۔

۲۶۲

حرام کہتے ہیں ۔امام احمد نے روایت  کی ہے :

 ابن عباس بیان کرتے ہیں  کہ ایک دفعہ انھوں نے کہہ دیا کہ رسول اللہ نے متعہ کرنے کو کہا ہے ، تو عروہ بن زبیر نے کہا : متعہ سے تو ابوبکر اور عمر نے منع کردیا تھا ۔ ابن عباس بولے : یہ عروہ کا بچہ کیا کہتا ہے ؟ کسی نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے متعہ سے منع کردیا تھا ۔ابن عباس نے کہا :مجھے تو ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں گے ۔ میں کہتا ہوں : رسول اللہ ص نے کہا: اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر نے منع کردیا ۔(1)

جامع ترمذی میں ہے کہ

عبداللہ  بن عمر سے حج کے متعہ کے بارےمیں  کسی نے سوال کیا تو انھوں نے کہا: جائز ہے  ۔ پوچھنے  والے نے کہا :آپ کے والد نے تو اس سے منع کیا تھا ۔ ابن  عمر نے کہا: کیا خیال ہے ، اگر  میرے والد تمتع سے منع کریں اور رسول اللہ نے خود تمتع کیا ہو تو میں اپنے والد کی پیروی کروں یا رسول اللہ ص ے حکم  کی ؟ اس نے کہا: ظاہر ہے ،رسول اللہ ص کے حکم کی(2) :

اہل سنت  والجماعت نے عورتوں کے متعہ کے بارےمیں تو عمر کی بات مان لی لیکن متعہ حج کے بارے میں ان کی بات نہ مانی  ۔حالانکہ عمر نے ان دونوں سے ایک ہی موقع پر منع کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

اس پورے قصے میں اہم بات یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت  ع اور ان کے شیعوں نے عمر کی بات کو غلط بتایا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دونوں  متعے قیامت تک حلال  اور جائز رہیں گے کچھ علمائے اہلسنت نے بھی اس بارے میں ائمہ اہل بیت

------------------------

(1):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 11 صفحہ 337

(2):- جامع ترمذی جلد اول صفحہ 157

۲۶۳

کا اتباع کیا ہے ۔ میں ان میں سے تیونس کے مشہور عالم اور زیتونیہ یونیورسٹی سربراہ شیخ طاہر بن عاشور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر  کروں گا ۔ انھوں نے اپنی مشہور تفسیر  التحریر والتنویر میں آیت"  فمااستمتعتم به منهن" کی تفسیر کے ذیل میں متعہ کو حلال کہا ہے(1) ۔

علماء کو اسی طرح اپنے عقیدے میں آزاد ہونا چاہیے  اور جذبات اورعصبیت  سے متائثر نہیں ہونا چاہیے  اور نہ کسی کی مخالفت کی پروا کرنی چاہیے ۔ اس معاملے میں فیصلہ کن اورناقابل تردید دلائل شیعوں کی تایید میں موجود ہیں اور جن کے سامنے انصاف پسند اور ضدی طبیت دونوں کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے" الحق يعلو  ولايعلی عليه"

حق  ہی غالب رہتا ہے ، کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا ! مسلمانوں کو تو امام علی ع کا یہ قول یادرکھنا چاہیے کہ " متعہ رحمت ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے"۔

اور واقعی اس سے بڑی رحمت کیا ہوسکتی ہے کہ متعہ شہوت کی بھڑکتی  ہوئی آگ کو بجھا تا ہے جو کبھی کبھی انسان  کو مرد  ہویا عورت  اس طرح بے بس   کردیتی ہے کہ وہ درندہ بن جاتا ہے ۔کتنی ہی عورتوں  کو مرد اپنی شہوت کی آگ  بجھانے  کے بعد قتل کردیتے ہیں !! مسلمانوں خصوصا نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ نے زانی اور زانیہ کے لیے  اگر شادی شدہ ہوں تو سنگسار  کیےجانے  کی سزا مقررکی ہے ، اس لیے ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم  رکھے جبکہ اسی نے ان کو اور ان کی فطری خواہشات کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کی بہتری کسی چیز میں ہے ۔ جب خدائے غفور الرحیم ن ےاپنے بندوں کو اپنےفضل وکرم سے متعہ کی اجازت

--------------------

(1):-التحریر والتنویر جلد 3 صفحہ 5

۲۶۴

دے دی ہے تو اب زنا وہی کرے گا جو بالکل ہی بدبخت ہوگا ۔ یہی صورت چوری کی ہے ۔ چور کی سزا قطع ید ہے لیکن اگر مفلسوں اور محتاجوں کے لیے بیت المال موجود  ہے تو کوئی بدبخت  ہی چوری  کرےگا ۔

الہی ! میں معافی کا طلبگار ہوں اور توبہ کرتاہوں  کیونکہ میں نوجوانی میں  دین اسلام سے سخت  خفا  تھا اور اپنے دل  میں کہتا تھا کہ "اسلام  کے احکام  بہت سخت اورظالمانہ ہیں  جو مرد عورت دونوں کے لیے جنسی عمل پر  سزائے موت تجویز کرتے ہیں ،حالانکہ  ہوسکتاہے  کہ یہ جنسی عمل طرفین کی ایک دوسرے سے محبت کا نتیجہ ہو ۔ پھر سزائے  موت بھی کیسی ؟ بدترین  موت ! سنگسار  کرنے  کی سزا ! اور وہ بھی مجمع عام میں  کہ کل  عالم دیکھے "

اس طرح کا احساس  اکثر مسلمان نوجوانوں میں پایا جاتا ہے ، خصوصا آجکل  کے زمانے  میں ، جبکہ مخلوط  سوسائٹی ،بے پردگی  اور بے ہودہ طور طریقوں  کی وجہ سے ان نوجوانوں  کی لڑکیوں  سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ، اسکول کالج میں ، سڑک پر اور ہرجگہ ۔

یہ کوئی معقول بات نہیں ہوگی اگر ہم ایسے مسلمان کا موازنہ جس نے قدیم طرز کے اسلامی معاشرے میں تربیت پائی ہو اس مسلمان سے کریں جو نسبتا  ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہو جہاں ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کی جاتی ہو ۔

اکثر نوجوانوں  کی طرح  میری بھی جوانی مغربی تہذیب اور دین کے درمیان یوں کہہ لیجیے کہ جنسی جبلت اور خواہش  اورخوف خدا وآخرت کے درمیان مستقل اور دائمی کشمکش میں گزری ہے ۔ ہمارے ملکوں میں خوف خدا ہی رہ گیا ہے ، زنا کی دنیوی  سزا غائب ہوچکی ہے اس لیے مسلمان صرف اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے ۔اب یا تو وہ گھٹن میں وقت گزارے جس سے ایسے نفسیاتی امراض کا اندیشہ ہوتاہے جو خطرناک ہوسکتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو اوراپنے  پرودگار  کودھوکا دیکر وقتا فوقتا بدکاری کے گڑھے  میں گرتا رہے ۔

سچ تویہ ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت کے اسرار جب ہی میری سمجھ  میں آئے جب مجھے تشیع سے واقفیت ہوئی ۔

۲۶۵

میں نے شیعہ عقائد کو ایک رحمت جانا اور ان عقائد میں سماجی ، اقتصادی ، اور سیاسی مشکلات کا حل پایا ، ان ہی عقائد  کے ذریعے  سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین میں آسانی ہی آسانی ہے مشکل کانام نہیں ۔ اللہ نے ہمارے لیے دین میں تنگی نہیں رکھی ۔ امامت رحمت ہے ۔عصمت ائمہ  کا عقیدہ رحمت ہے ۔بداء رحمت ہے ،قضا وقدر سے متعلق  شیعہ جو کچھ کہتے  ہیں رحمت ہے ۔ تقیہ رحمت ہے ۔ نکاح متعہ رحمت ہے ۔ مختصر بات یہ  کہ یہ سب کچھ وہ حق ہے جس کی تعلیم خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی جو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے ۔

مسئلہ تحریف قرآن

یہ کہنا کہ "قرآن میں تحریف ہوئی ہے " بذات خود ایسی شرمناک بات ہے ، جسے کوئی مسلمان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو خواہ شیعہ ہو یا سنی  برداشت نہیں کرسکتا ۔

قرآن کی حفاظت ک ذمہ  دار خود رب العزت ہے جس نے کہا ہے :

"نا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون" ہم نے ہی یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔"

اس لیے کسی شخص کے لیے یہ ممکن  ہی نہیں کہ قرآن مین ایک حرف  کی بھی کمی بیشی کرسکے ۔ یہ ہمارے  نبی محتشم کا غیر فانی معجزہ ہے ۔قرآن میں باطل کا کسی طرف سے دخل نہیں ہوسکتا ، نہ آگے  سے نہ پیچھے سے کیونکہ یہ خدائے حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ،مسلمانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عملی طورپر قرآن میں تحریف کا ہونا ممکن ہی نہیں  تھا ، کیونکہ بہت سے صحابہ کو قرآن زبانی یاد تھا ۔ مسلمان شروع ہی سے قرآن کو خود حفظ کرنے اور اپنے بچوں کو حفظ کرانے میں ایک دوسرے سے

۲۶۶

بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے رہے ہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس لیے کسی فرد ،گروہ یا  حکومت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تحریف کرے یا قرآن کو بدل دے ۔

اگر ہم مشرق، مغرب ،شمال ،جنوب ہر طرف اسلامی ممالک میں گھوم پھر کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ساری دنیا میں بغیر ایک حرف  کی کمی بیشی کے وہی ایک قرآن ہے ۔ اگر چہ مسلمان خود  مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ لیکن قرآن وہ واحد  محرک ہے جو انھیں اکٹھا رکھے ہوئے ہے ۔ خود قرآن میں کوئی اختلاف  نہیں  ۔البتہ جہاں تک اس کی تفسیر یا تاویل  کا تعلق ہے ، ہر فرقے  کی اپنی تفسیر ہے جس پر وہ نازاں  اور مطمئن ہے ۔ یہ جوکہا جاتا ہے کہ شیعہ تحریف کے قائل  ہیں ، یہ محض شیعوں  پر بہتان ہے ۔ شیعہ عقائد  میں اس قسم کی کسی بات کا وجود نہیں ۔اگر ہم قرآن کریم کے بارے میں شیعہ عقیدے کے متعلق پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ شیعوں کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن  پاک ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے ۔ عقائد الامامیہ کے مولف شیخ مظفر کہتے ہیں :

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن وحی الہی ہے جو نبی اکرم ص پرنازل ہوئی اور ان کی زبان سے ادا ہوئی۔ اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔ قرآن آپ کا لافانی معجزہ ہے ۔انسان  اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے ، وہ نہ فصاحت وبلاغت میں اس کا مقابلہ کرسکتا  ہے اور نہ وہ ایسے حقائق ومعارف  بیان کرسکتا ہے جیسے قرآن میں موجود ہیں ۔ اس میں کسی قسم کی تحریف  نہیں ہوسکتی ۔

یہ قرآن  جو ہمارے پاس موجود ہے اور جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں ، بعینہ وہی قرآن ہے جو رسول  اکرم ص پر نازل ہوا ۔جو شخص اس کے علاوہ کچھ کہتا ہے  وہ گمراہ  ہےیا اس  کو غلط فہمی ہوئی ہے   بہر حال وہ صحیح راستے پر نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے ، باطل اس میں دخل انداز نہیں ہوسکتا ، نہ آگے سے نہ پیچھے سے "۔

۲۶۷

اس کے علاوہ یہ معلوم ہے کہ شیعہ کہاں کہاں آباد ہیں ۔ان کے فقہی احکام بھی معلوم ہیں ۔ اگر شیعوں کا کوئی  اور قرآن  ہوتا تو لوگوں  کو ضرور اس کا پتہ چل گیا  ہوتا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی مرتبہ  ایک شیعہ ملک میں گیا تو میرے دماغ میں اس قسم کی  کچھ افواہیں تھیں ۔ جہاں کہیں مجھے کوئی موٹی سی کتاب نظر آتی ، میں کس کو  اس خیال سے اٹھا لیتا  کہ یہ شاید شیعوں کا نام نہاد قرآن ہو ۔ لیکن جلد ہی میرا یہ خیال  بھاپ بن کر ہوا میں اڑ گیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ محض جھوٹا  الزام ہے جو شیعوں  پر اس لیے لگایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ان سے نفرت ہوجائے ۔لیکن بہر حال  ایک قابل اعتراض کتاب ضرور موجود ہے  اور اس کی وجہ سے شیعوں پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس کتاب کا نام ہے : فصل الخطاب  فی اثبات تحریف کتاب ربّ الارباب " اس کے مولف کا نام محمد تقی نوری طبرسی (متوفی سنہ 1320) ہے ۔یہ شخص شیعہ تھا ۔ معترضیں  یہ چاہتے  ہیں کہ اس کتاب کی ذمہ داری شیعوں پر ڈالدی جائے ۔لیکن یہ بات بعید از انصاف  ہے ۔

کتنی ہی ایسی کتابیں لکھی کئی ہیں جو صرف  اپنے مصنف یا مؤلف کے سوا کسی کی رائے کی نمائندہ گی نہیں کرتیں ۔ ان کتابوں میں ہرقسم  کی کچی پکی باتیں  اور غلط صحیح مضامین  ہوتے  ہیں ۔ اور یہ کوئی شیعوں  کی خصوصیت نہیں سب فرقوں  میں اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔بلکہ یہ الزام تو اہل سنت پر زیادہ چسپان ہوتا ہے ۔(1) اب  کیا یہ درست ہوگا کہ ہم قرآن اور زمانہ جاہلیت کے اشعار سے متعلق مصر کے سابق وزیر تعلیم عمید الادب العربی ڈاکٹر طہ حسین  کی تحریروں کی ذمہ داری اہل سنت پر ڈال دیں ؟

یا قرآن میں کمی بیشی سے متعلق  ان  راوایات کی ذمہ  جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم موجود  ہیں اہل اہل سنت پر ڈال دیں؟

اس سلسلے میں جامع ازہر کے شریعت کا لج کے پرنسپل پروفیسر مدنی نےبڑی

-----------------------

(1):- فصل الخطاب کی توشیعوں کے یہاں کوئی حیثیت نہیں ۔البتہ سنیوں کے یہاں قرآن میں کمی بیشی کی راوایات ان کی معتبر ترین کتابوں بخاری ،مسلم وغیرہ میں موجود ہیں ۔

۲۶۸

اچھی بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :

"یہ کہنا کہ شیعہ امامیہ اس کے قائل ہیں کہ موجودہ قرآن میں معاذاللہ کچھ کمی ہے ، تو یہ نہایت لغو بات ہے ۔ ان کی کتابوں میں کچھ  ایسی روایات ضرور ہیں لیکن ایسی روایات تو ہماری کتابوں میں بھی ہیں ۔مگر فریقین کے اہل تحقیق نے ان روایات کو ناقابل اعتبار اور وضعی کہا ہے ۔ جس طرح اہل سنت میں کوئی قرآن مجید میں کمی بیشی کا قائل نہیں اسی طرح اثناعشری شیعوں اورزیدی شیعوں میں بھی کوئی اس کا بھی قائل نہیں "۔

جو کوئی اس طرح کی روایات  دیکھنا چاہے وہ سیوطی کی الاتقان فی علوم القرآن میں دیکھ سکتا ہے ۔

سنہ 1498 ء میں ایک مصری نے ایک کتاب لکھی تھی جس کانام الفرقان  ہے اس کتاب میں اس نے اس قسم کی بہت سی موضوع اور ناقابل اعتبار روایات سنیوں کی کتابوں سے نقل کی ہیں ۔ جامعہ ازہر نے اس کتاب کی روایات  کےبطلان اور فساد کو علمی دلائل سے ثابت کرنے کے بعد حکومت سےمطالبہ کیا کہ اس کتاب کو ضبط کرلیا جائے ۔چنانچہ حکومت مصر نے یہ مطالبہ منظور کرکے کتاب کو ضبط کرلیا ۔ کتاب کےمصنف نے معاوضے کے لیے دعوی دائر کیا لیکن کونسل آف اسٹیٹ کی عدالتی کمیٹی نےیہ دعوی مسترد کردیا ۔

کیا ایسی کتابوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت قرآن کے تقدس کے منکر ہیں یا چونکہ فلاں شخص نے ایسی روایت بیان کی ہے یا ایسی کتاب لکھی ہے اس لیے اہل سنت قرآن میں نقص کے قائل ہیں ؟ یہی صورت شیعہ امامیہ کے ساتھ ہے  ۔جس طرح ہماری بعض کتابوں میں کچھ روایات ہیں ، اسی طرح ان کی بعض کتابوں میں بھی کچھ روایات ہیں ۔ اس بارے میں علامہ شیخ ابو الفضل  بن حسن طبرسی  جو چھٹی صدی ہجری کے بہت بڑے شیعہ عالم تھے  ، اپنی کتاب مجمع البیان فی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں : اس بات پر تو سب کا اتفاق  ہےکہ قرآن  میں کوئی زیادتی نہیں

۲۶۹

ہوئی ۔جہاں تک کمی کا تعلق کہے ،تو ہمارے ایک گروہ کا اور اہل سنت میں حشویہ  کایہ کہنا ہے کہ قرآن میں کمی ہوئی  ہے لیکن ہمارے اصحاب کا صحیح مذہب اس کے خلاف  ہے ۔ اسی کی تائید سید مرتضی علم الھدی (سنہ 436 ھ) نے کی ہے اور اس مسئلہ  پر بڑی تفصیل کے ساتھ مسائل الطرابلسیات کے جواب میں کئی جگہ  روشنی ڈالی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

" یہ قرآن بالکل صحیح نقل  ہوتا چلا آیا ہے ، اس کا ہمیں ایسا ہی یقین ہےجیسا کہ مختلف ملکوں کے وجود کا یقین ، بڑے بڑے واقعات کا یقین ، مشہور کتابوں کا یقین اور عربوں  کے اشعار کا یقین ،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قرآن کی نقل میں بہت احتیاط  سےکام لیا گیا ہے ۔ متعدد وجوہ  سےیہ ضروری  تھا کہ قرآن کو نقل کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی  پر خاص توجہ دی جائے : کیونکہ قرآن رسول اللہ ص کا معجزہ ہے اور علوم شرعیہ اور احکام دینیہ کا ماخذ ہے ۔مسلمان علماء نے قرآن شریف کی حفاظت اور حمایت  میں انتہائی کوشش صرف کی ہے ۔ انھیں ہر اختلافی معاملے کا مکمل  علم ہے :جیسے  اعراب کا اختلاف  ، مختلف  قرائتیں  ، قرآن شریف  کے حروف  اور آیات کی تعداد ۔ان تمام امور پر اس قدر دل وجان سے توجہ اور احتیاط کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کے کسی حصے کو بدل دیا جائے یا حذف کردیا جائے "(1)

ہم ذیل میں کچھ  روایات پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین  کرام ! آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ قرآن میں کمی بیشی کی تمہمت اہل سنت پر زیادہ چسپاں ہوتی ہے اور آپ کویہ بھی معلوم ہوجائے کہ اہل سنت کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو دوسروں سے منسوب کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ مجھے اپنے تمام عقائد پرنظر ثانی

-------------------------

(1):- رسالہ الاسلام شمارہ 4 جلد11 میں پروفیسر مدنی شریعت کالج جامعہ الازھر کا مقالہ ۔

۲۷۰

کرنی پڑی ، کیونکہ میں جب بھی کسی بات پر شیعوں پر نکتہ چینی یا اعتراض کرتا تھا شیعہ یہ ثابت کردیتے تھے  کہ یہ کمزوری ان میں نہیں بلکہ اہل سنت میں ہے اور مجھے جلد معلوم ہوجاتا کہ شیعہ سچ کہتے ہیں ۔ وقت گزرنے اور بحث ومباحثہ کے نتیجے میں بحمداللہ مجھے اطمینان حاصل ہوگیا ہے ۔ شاید آپ کو بھی یہ معلوم کرنے کا شوق ہو کہ اہل سنت کی اپنی کتابوں سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت قرآن میں تحریف اور کمی زیادتی کے قائل ہیں تو لیجیے سنئے :

 طبرانی اور بیہقی کی روایت ہے کہ قرآن میں دو سورتیں ہیں  :

ایک یہ ہے :

"بسم الله الرّحمان الرّحيم. إنانستعينك ونستغفرك ونستعينك ونستغفرك ونثنّى عليك الخيركلّه ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك."

دوسری سورت یہ ہے :

" بسم الله الرّحمان الرّحيم. أللهمّ إيّاك نعبدولك نصلّى ونسجدوإليك نسعى ونحفدنرجوارحمتك ونخشى عذابك إنّ عذابك بالكافرين ملحقٌ."

ان دونوں سورتوں کو ابو القاسم حسین بن محمد المعروف بہ راغب اصفہانی (سنہ 502 ھ)نے محاضرات الادباء میں  قنوت  کی سورتیں کہا ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب ان ہی سورتوں  کودعائے قنوت کے طور پ ر پڑھتے تھے ۔ یہ دونوں سورتیں ابن عباس کے مصحف اور زید بن ثابت کے مصحف میں موجود تھیں(1)

امام احمد بن حنبل شیبانی (سنہ 241ھ) نے اپنی کتاب مسند میں ابی بن کعب  سےروایت کی ہے کہ  :" ابی بن کعب نے پوچھا کہ سورہ احزاب تم کتنی پڑھتے ہو ؟

----------------------

(1):- سیوطی الاتقان  فی علوم القرآن ۔ الدر المنثور فی التفسیر بالماثور

۲۷۱

 کسی نے کہا : ستر سے کچھ اوپر آیتیں ہیں ۔ابی بن کعب نے کہاکہ میں نے یہ سورت رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھی ہے ، یہ سورہ بقرہ کے برابر یا اس سے بھی کچھ بڑی ہے ، اسی میں آیہ رجم ہے(1)

اب آپ دیکھیے کہ یہ دونوں سورتیں جو سیوطی کی اتقان اور درمنثور میں  موجود ہیں اور جن کے متعلق طبرانی اور بہیقی نے روایت بیان کی ہے اور جن کو قنوت کی سورتیں کہا ہے ان کا کتاب اللہ میں کہیں کوئی وجود نہیں ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ ان سورتوں  کی حدتک جو مصحف ابن عباس  اور مصحف زید بن ثابت  میں موجود تھیں ،  ناقص ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصحف کے علاوہ جو ہمارے پاس ہے اور بھی کئی مصحف تھے ۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ اہل سنت طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ  مصحف فاطمہ س کے قائل ہیں  ۔اب دیکھ لیجیے !

اہل سنت یہ دونوں سورتیں ہر روز صجح کو دعائے قنوت میں پڑھتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دونوں سورتیں زبانی یاد تھیں اور میں فجر کے وقت دعائے قنوت میں پڑھا کرتا تھا ۔ دوسری روایت جو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ  احزاب تین چوتھائی کم ہے ، کیونکہ سورہ بقرہ میں 286 آیات ہیں جبکہ موجودہ سورہ احزاب میں صرف 73 آیات ہیں ۔اگر ہم حزب کے اعتبار سے شمار کریں تو سورہ بقرہ  پانچ سے زیادہ احزاب پر مشتمل ہے جبکہ  سورہ احزاب صرف ایک حزب شمار ہوتی ہے (ایک حزب تقریبا نصف پارے کا ہوتا ہے )

حیرت کا مقام ہےکہ ابی بن کعب یہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ص کے ساتھ سورہ احزاب پڑھا کرتا تھا ، یہ سورت ، سورہ بقرہ کے مساوی یا اس سے کچھ زیادہ بڑی

--------------------

(1):- احمد بن حنبل مسند جلد 5صفحہ 132

۲۷۲

تھی ۔ یہ ابی بن کعب زمانہ نبوی کے مشہور ترین قاریوں میں سے ہیں ۔ حافظ قرآن تھے ، خلیفہ ثانی نے نماز تراویح کی  امامت کے لیے انھی کا انتخاب کیا تھا(1) ۔ ان کے اس قول سے شک بھی پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ ظاہر  ہے حیرت بھی ہوتی ہے ۔ امام احمد بن جنبل نے اپنی مسند میں ابی بن کعب سے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ :" رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قرآن پڑھ کر سناؤں  ۔چنانچہ آپ نے"لم يكن الّذين كفروامن أهل الكتاب" سے پڑھنا شروع کیا اس میں آپ نے یہ بھی پڑھا :

"ولوا أنّ ابن آدم سال وادياً مّن مّالٍ فأعطيه لسال ثانياً فلوسال ثالثاً ولايملأ جوف ابن آدم إلّا التراب ويتوب الله على من تاب وإنّ ذلك الدين القيم عندالله." (2)

حافظ ابن عساکر   کے حالات  کے ضمن میں روایت  بیان کی ہے کہ

"ابو الدرداء چند اہل دمشق کے ساتھ مدینہ گئے ، وہاں عمربن خطاب کے سامنے یہ آیت پڑھی :"إن جعل الّذين كفروا في قلوبهم الحمية حميّة الجاهلية ولوحميتهم كما حموا لفسدالمسجدالحرام."

عمر بن خطاب نے پوچھا : تمھیں یہ قراءت کس نے سکھائی ہے  ۔ ان لوگوں نےکہا :ابی بن کعب نے ۔ عمر نے ان کو بلایا ۔

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 252

(2):- امام احمد بن حنبل  ،مسند جلد 5 صفحہ 131

۲۷۳

جب وہ آگئے  تو ان لوگوں سے کہا : اب پڑھو ، انھوں نے پھر اسی طرح پڑھا :

"ولو حميتم كما حموا لفسدالمسجد الحرام." ابی بن کعب نے کہا کہ ہاں  یہ میں نے ان کو پڑھا یا ہے عمربن خطاب نے زید بن ثابت سے کہا : زید تم  پڑھو ! زید نے وہی معمول کی قراءت  کے مطابق تلاوت کی ۔ عمر نے کہا مجھے بھی بس یہی قراءت  معلوم ہے اس پر ۔ ابی بن کعب ن ےکہا کہ عمر آپ جانتے ہیں کہ میں رسول اللہ ص کی خدمت میں رہتا تھا اور یہ عائب ہوتے تھے ، میں  رسول اللہ ص کے قریب تھا  یہ دور تھے ۔ آپ چاہین تو واللہ میں اپنے گھر میں گوشہ نشین   ہوجاؤں ، پھر نہ کسی سے بات کروں گا نہ مرتے دم تک کسی کو پڑھاؤں گا ۔عمر نے کہا : اللہ مجھے معاف کرے ! ابی تم جانتے ہو کہ اللہ نے تمھیں علم عطا کیا ہے ، تو جو کچھ تمھیں معلوم  ہے لوگوں کو سکھاؤ ۔

کہتے ہیں ایک دفعہ ایک لڑکا حضرت عمر کے سامنے سے گزرا ، وہ قرآن میں دیکھ کر پڑھ رہا تھا :

"النبيّ أولى بالمومنين من أنفسهم وأزواجه امّهاتهم وهو أبٌ لّهم"

حضرت عمر نے کہا: لڑکے اسکو کاٹ دو ۔ لڑکے نے جواب دیا یہ ابی بن کعب کا مصحف ہے ۔ جب وہ لڑکا ابی بن کعب کے پاس پہنچا تو ان سے جاکر اس آیت کے بارے میں پوچھا ۔ ابی نے کہا : مجھے تو قرآن میں مزا آتا تھا تم بازاروں تالیاں بجاتے پھرتے ہو ۔(1)

-------------------

(1):- ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشسق جلد 2 صفحہ 228

۲۷۴

ایسی ہی روایات ابن اثیر نے جامع الاصول میں ، ابو داوؤد نے اپنی سنن میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کی ہے ۔

قارئین کرام! اب کی دفعہ یہ میں آپ پر چھوڑتاہوں کہ آپ ان روایات پر کیا تبصرہ کرتے ہیں ۔ ایسی روایات سے اہل سنت کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ۔ وہ شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی کتابوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔

ممکن ہے کہ اہل سنت  میں سے  بعض ضدی  طبیعت کے لوگ حسب عادت ان روایات کا انکار کردیں  اور امام احمد بن حنبل پر اعتراض کریں کہ انھوں نے ایسی  ضعیف  سند کی روایات  کو اپنی کتاب میں شامل کیا ۔ ممکن ہے کہ وہ  یہ بھی کہیں کہ  مسند امام احمد اہل سنت کے نزدیک صحاح  میں شامل نہیں ہے ۔  میں اہل سنت کی عادت خوب جانتا ہوں ۔ جب بھی میں ان کتابوں  سے کوئی ایسی حدیث  پیش کرتاتھا جو شیعوں کے لیے  برہان قاطع ہوتی تویہ سنی  بھاگ نکلتے تھے  اور ان کتابوں پر اعتراض کرنے لگے تھے جن کو وہ خود صحاح ستّہ  کہتے ہیں یعنی صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابنی داؤد ، سنن نسائی  اور سنن ابن ماجہ ۔ بعض  لوگ ان کتابوں  کے ساتھ  سنن دارمی ، موطاء مالک اور مسند امام احمد  کو بھی صحاح میں شامل سمجھتے ہیں ۔

میں چند ایسی ہی  روایت ان ضدی لوگوں کو گھر تک پہنچانے  کے لیے  صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے پیش کرتاہوں شاید ان کی حقیقت تک رسائی  ہوسکے اور شاید وہ حقیقت  کو بغیر کسی تعصب کے قبول لرکیں ۔

امام بخاری  نے اپنی صحیح میں(1) باب مناقب عمار وحذیفہ رضی اللہ عنہما میں علقمہ سے روایت کی ہے ، وہ کہتے  ہیں ۔" جب میں دمشق پہچا تو میں نے وہاں پہنچ کر دورکعت نماز پڑھی اور پھر دعا کی کہ " اے اللہ ! مجھے کوئی نیک اور اچھا ہمنشین عطا

-------------------

(1):-صحیح  بخاری جلد 4 صفحہ 215

۲۷۵

کردے " ۔ اس کے بعد میں کچھ  لوگوں کے پاس جاکر بیٹھا تو وہاں ایک بڑے میاں تشریف لے آئے ۔وہ آکر میرے پہلو میں بیٹھ گئے ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟  معلوم ہوا کہ ابوالدرداء میں میں نے ان سے کہا کہ میں نے دعا کی تھی کہ کوئی نیک اور اچھا ہمنشین مل جائے ، اللہ میاں نے آپ کو بھیج دیا ۔ انھوں نے مجھ  سے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں اہل کوفہ سے ہوں ۔ انھوں نے کہا : کیا تمھارا یہاں ابن ام عبد(1) نہیں ہیں جن کے پاس رسول اللہ ص کے نعلین آپ کا بچھونا  اورآپ کا لوٹا تھا ؟اور تمھارے یہاں ہو بھی تو ہیں جن کے متعلق خود رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ نے انھیں شیطان سے بچالیا ہے(2) ۔ اور کیا تمھارے  یہاں ہو بزرگ نہیں جو رسول اللہ ص کے راز دارتھے(3) جن کو وہ راز معلوم تھے جو اور کسی کو معلوم نہیں تھے ۔  پھر کہنے لگے : عبداللہ اس آیت کو کیسے پڑھتے  ہیں :"والّليل إذايغشى"؟

میں نے پڑھ کرسنایا :" والّليل إذايغشى  والنهارإذا تجلّى والّكروالأنثى." نیز یہ کہا :" مجھے رسول اللہ نے منہ در منہ ہی پڑھایا تھا "۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہے :" یہ لوگ میرے پیچھے لگے رہے ۔ یہ مجھ سے ہو چیز  چھڑانا چاہتے تھے  جو میں نے رسول اللہ ص سے سنی تھی"۔(4)

ایک روایت میں ہے کہ

" والّليل إذايغشى  والنهارإذا تجلّى والّكروالأنثى." یہ رسو ل اللہ ص نے مجھے بالمشافہہ بٹھا کر

--------------------

(1):- عبداللہ بن مسعود

(2):- عمار یاسر

(3):- حذیفہ یمانی (ناشر)

(4):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 216

۲۷۶

پڑھایا ہے ۔(1)

ان تمام روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو قرآن اب ہمارے پاس ہے  اس میں وماخلق کا لفظ اضافہ ہے ۔

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عباس  سے روایت  بیان کی ہے کہ عمربن الخطاب  کہتے تھے ۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کی مبعوث کیا اور ان پر کتاب نازل فرمائی ، اس  میں آیت رجم بھی تھی ، ہم نے اس آیت کو پڑھا  ، سمجھا ، یاد کیا  چنانچہ رسول اللہ ص نے بھی رجم کی سزا دی  ۔آپ کے بعد ہم نے بھی سنگسار کی ۔ میں ڈرتا  ہوں کہ اگر اسی طرح وقت گزرتارہا  تو کوئی کہیں یہ نہ کہہ دے : ہمیں تو رجم کی آیت کتاب اللہ میں  ملتی ہی نہیں ۔ اور اس طرح اللہ کے حکم کو جو اللہ نے نازل کیا ہے  ، ترک کرکے لوگ گمراہ نہ ہوجائیں ۔ رجم کی سزا  برحق ہے اگرکوئی  شادی شدہ مردیا عورت  زنا کرے تو اسے یہ سزادی جائے گی بشرطیکہ ثبوت موجود ہو یا حمل رہ جائے یا مجرم اقرارکرلے ۔

اس کے علاوہ ہم کتاب اللہ میں ایک اور آیت بھی پڑھا  کرتے تھے  جو اس طرح تھی :

"ولاترغبوا عن أبائكم فإنّه كفرٌ بكم أن ترغبوا عن آبائكم" ۔یا اس طرح تیھ کہ :

"إنّ كفراً بكم أن ترغبوا عن آبائكم." (2)

امام مسلم نے اپنی صحیح میں(باب لوان لابن آدم واديين لايبتغی

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 218  باب مناقب عبداللہ بن مسعود ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 8 باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت

۲۷۷

الثا ً میں)ایک روایت بیان کی ہے کہ

ابو موسی اشعری نے بصرہ  کے قاریوں کو بلا یا تو تین سو آدمی آئے جنھوں نے قرآن پڑھا ہوا تھا ۔ ابو موسی نے کہا : آپ لوگ بصرہ کے بہتر ین آدمی ہیں ، آپ نے قرآن پڑھا ہے ۔ آپ اس آیت سے قرآن پڑھ کر سنائیں :

"لايطولنّ عليكم الأمد فتقسوقلوبكم كما قست قلوب من كان قبلكم"

ابو موسی اشعری نے بھی کہا کہ ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم طوالت اور اس کے سخت لب ولہجہ کے لحاظ سے سورہ براءۃ  کے ساتھ  تشبیہ دیا کرتے تھے ۔ اب میں وہ بھول  گیا ہوں ، لیکن اس میں سے اتنا بھی یاد ہے :

"لوكان لإبن آدم واديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولايملاُ جوف ابن آدم إلّا التراب."

اور ہم نے ایک اور سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم کہتے تھے کہ یہ سورت  مسبحات(1) میں سے کسی ایک سورت کے برابر ہے ، وہ بھی میں بھول گیا ہوں ، اس میں سے اتنا البتہ یا د ہے :

"ياأيّها الذين آمنوا لم تقولون مالاتفعلون فكتب شهادةً فى أعناقكم فتسئلون عنها يوم القيامة"

یہ دو فرضی سورتیں جو ابو موسی بھول گئے تھے ان میں ایک بقول ان کے براءت کے برابر تھی ۔ یعنی 129 آیات کی اور دوسری مسبحات میں سے کسی کے برابر تھی ۔ دوسرے لفظوں میں تقریبا 20 آیات کے برابر ۔ ان دونوں

-------------------------

(1):-وہ سورتیں جو سبحان ، سبّح ، یسبح ،یا سبّح  سے شروع ہوتی ہیں ۔جیسے سورہ اسراء حدید، سورہ حشر ، سورہ جمعہ  ، سورہ تغابن ، اور سورہ اعلی ،(ناشر)

۲۷۸

سورتوں کا جود صرف ابو موسی اشعری کے ذہن میں تھا ۔ قارئین کرام ! اب آپ کو اختیار ہے  ، یہ سب پڑھ کر اور سن کر آپ حیرت سے ہنسیں یا روئیں ۔

جب اہل سنت کی کتابیں اور احادیث کے معتبر مجموعے اس طرح کی راوایات  سے پر ہیں جسن میں کبھی دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن ناقص ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس میں اضافہ کردیا گیا ہے ، پھر یہ شیعوں پر اعتراض کیسا جن کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسے سب دعوے غلط اور باطل ہیں ؟

اگر فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب کے مصنف نے جو سنہ 1320 ھ میں فوت ہوا ، اب سے تقریبا سوسال پہلے اپنی کتاب لکھی تھی ، تو اس سے پہلے الفرقان کا مصنف مصر میں چارسو برس ہوئے اپنی کتاب لکھاچکا تھاجیسا کہ شیخ محمد مدنی پرنسپل  شریعہ کالج جامعہ ازھر کا بیان ہے(1) ۔ہوسکتا ہے کہ شیعہ مصنف نےسنی مصنف کی کتاب  الفرقان پڑھی ہو ، جس نے اپنی کتاب  میں وہ تمام روایات جمع  کردی تھیں  جو اہل سنت کی صحاح میں آئی ہیں ۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس کتاب کو جامعہ ازھر کی درخواست پر مصری حکومت نے ضبط کرلیا تھا ۔یہ تو معلوم ہے کہ" الانسان حريص علی مامنع منه" کے بمصداق  جس چیز سے منع کیا جاتا ہے اس کا دگناشوق پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ کتاب گو مصر میں ممنوع تھی لیکن دوسرے اسلامی ممالک میں ممنوع نہیں تھی ۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ فصل الخطاب جو چارسو برس بعد لکھی گئی الفرقان ہی کا چربہ ہو یا بغل بچہ ہو ۔ اس تمام بحث  میں اہم بات یہ ہے کہ سنی اور شیعہ علماء اور محققین  نے اس طرح کی روایات  کو باطل اور شاذ کہا ہے اور اطمینا ن بخش دلائل  سے ثابت کای ہے کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے ،وہ بعینہ وہی قرآن ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا ۔ اس میں نہ کوئی کمی بیشی ہے اور نہ کوغی تغیر وتبدل ، پھر ان روایات کی بنیاد پر جو خود ان کے نزدیک ساقط الاعتبار ہیں ۔ یہ

--------------------

(1):- رسالہ الاسلام شمارہ 4 جلد 11 صفحہ 382 ۔383

۲۷۹

اہل سنت کیسے شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور خود کو بری الذمہ ٹھہراتے ہیں جبکہ ان کی صحاح ان روایات کی صحت کو ثابت کرتی ہیں ۔ مسلمانو! یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا ۔ سچ کہا ہے سیدنا عیسی علیہ السلام نے : "یہ لوگ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں مگر انھیں انپی آنکھ کاشیہتری نظر نہیں آتا " میں اس طرح کی راویات کا ذکر بڑے افسوس کےساتھ کررہا ہوں کیونکہ آج ضرورت اس ام کی ہے کہ ہم ان کے بارےمیں  سکوت اختیار کریں اور انھیں خاموشی سے رد ی کی ٹوکری کے حوالے کردیں ۔ کاش بعض مصنفین جو سنت رسول کی پیروی کے مدعی ہیں شیعوں  پررکیک  حملے نہ کرتے ۔کچھ معروف  ادارے شیعوں کی تکفیر کرنے میں ان مصنفین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انھیں سرمایہ فراہم کرتے ہیں ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے تو اس طرح کی کاروائیاں  اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ میں ان سے صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔"واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكروا نعمة الله عليكم إذ كنتم أعداء فألف بين قلوبكم فأصبحتم بنعمته إخوانا"

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328