حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 58864
ڈاؤنلوڈ: 5932

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58864 / ڈاؤنلوڈ: 5932
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہیں(1) ۔

اب دیکھیے ! رسول اللہ ص نے اپنی وفات تک متعہ سے منع نہیں کیا ۔جیسا کہ یہ صحابی تصریح کرتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ نہایت صاف الفاظ میں اور بغیر کسی ابہام کے متعہ کی حرمت  کو عمر سے منسوب کرتے ہیں  ۔اور یہ بھی  کہتے ہیں  کہ عمر نے جو کچھ کہا اپنی رائے سے کہا ۔

اور  دیکھیے :

جابر بن عبداللہ انصاری صاف کہتے  ہیں کہ ہم رسول اللہ  کے زمانے میں اور ابوبکر کرے عہد خلافت میں ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی  آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے ۔ آخر عمر نے عمرو بن حریث کے قصے میں اس کی ممانعت کردی(2) ۔

روایات  سے معلوم ہوتا ہے  کہ چند دوسرے  صحابہ بھی حضرت عمر  کی رائے  سے متفق تھے لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ بعض صحابہ تو اس وقت بھی عمر کے ساتھ تھے جب انھوں نے رسول اللہ پر ہذیان گوئی کی تہمت لگائی تھی اور کہا  تھا کہ ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے ۔

اور سنیے ! ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں جابر کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعین  کے بارےمیں  اختلاف  ہوگیا ہے ۔ اس پر جابر نے کہا : ہم نے رسول اللہ کے زمانے  میں دونوں متعے کیے ہیں ،بعد میں عمر نے ہمیں منع کردیا  تو  پھر ہم نے کوئی متعہ نہیں کیا(3) ۔

اس لیے ذاتی طور  پر میرا خیال یہ ہے کہ بعض صحابہ ن ےجو متعہ کی

---------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 158

(2)(3):- صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 131

۲۶۱

ممانعت  رسول اللہ سے منسوب کی ہے اس کامقصد محض عمر کی رائے  کی تصویب اور تائید تھا ۔ ورنہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ص کسی ایسی چیز کو حرام قراردیں  جسے قرآن نے حلال ٹھہرایا ہو ۔ تمام اسلامی احکام میں ہمیں ایک بھی ایسا حکم معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ نے کسی چیز کو حلال کیا ہو اور رسول اللہ ص نے اسے حرام کردیا ہو ۔ اس کا کوئی قائل بھی نہیں ۔ البتہ معاند اور متعصب کی بات اور ہے ۔

اگر ہم برائے بحث یہ مان بھی لیں کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی ،تو امام علی ع کو کیا ہوگیا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم ص کے خاص  مقرّب ہونے   کے باوجود اور اسلامی احکام کی سب سے زیادہ واقفیت رکھنے کے باوصف فرمادیا کہ

"متعہ تو اللہ کی رحمت  اور بندوں پر اس کا خاص احسان ہے  اگر عمر اس کی ممانعت نہ کردیتے تو کوئی بدبخت ہی زناکرتا "(1)

اس کے علاوہ  خود عمر بن خطاب نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت کردی تھی بلکہ صاف صاف یہ کہا تھا کہ" متعتان كانتا على عهدرسول الله وأنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما: متعة الحج ومتعة النساء."

دو متعے  رسول اللہ ص کے زمانے میں تھے ۔ اب میں ان کی ممانعت کرتاہوں اور جو یہ متعے کرے گا اسے سزادوں گا ۔ان میں ایک متعہ حج ہے اور دوسرا عورتوں کے ساتھ متعہ ہے ۔(2) حضرت عمر کا ییہ قول مشہور ہے ۔

مسند امام احمد  بن حنبل اس بات کی بہترین گواہ ہے کہ اہل سنت والجماعت میں متعہ کے بارے میں سخت اختلاف ہے : کچھ لوگ رسول اللہ کا اتباع کرتے ہوئے  اس کے حلال ہونے کے قائل ہیں اور کچھ لوگ عمربن خطاب کی پیروی میں اسے

------------------------

(1):- تفسیر ثعلبی ۔ تفسیر طبری۔

(2):- فخر الدین رازی ، تفسیر کبیر" فمااستمتعتم به منه ن " کی تفسیر کے ذیل میں ۔

۲۶۲

حرام کہتے ہیں ۔امام احمد نے روایت  کی ہے :

 ابن عباس بیان کرتے ہیں  کہ ایک دفعہ انھوں نے کہہ دیا کہ رسول اللہ نے متعہ کرنے کو کہا ہے ، تو عروہ بن زبیر نے کہا : متعہ سے تو ابوبکر اور عمر نے منع کردیا تھا ۔ ابن عباس بولے : یہ عروہ کا بچہ کیا کہتا ہے ؟ کسی نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے متعہ سے منع کردیا تھا ۔ابن عباس نے کہا :مجھے تو ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں گے ۔ میں کہتا ہوں : رسول اللہ ص نے کہا: اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر نے منع کردیا ۔(1)

جامع ترمذی میں ہے کہ

عبداللہ  بن عمر سے حج کے متعہ کے بارےمیں  کسی نے سوال کیا تو انھوں نے کہا: جائز ہے  ۔ پوچھنے  والے نے کہا :آپ کے والد نے تو اس سے منع کیا تھا ۔ ابن  عمر نے کہا: کیا خیال ہے ، اگر  میرے والد تمتع سے منع کریں اور رسول اللہ نے خود تمتع کیا ہو تو میں اپنے والد کی پیروی کروں یا رسول اللہ ص ے حکم  کی ؟ اس نے کہا: ظاہر ہے ،رسول اللہ ص کے حکم کی(2) :

اہل سنت  والجماعت نے عورتوں کے متعہ کے بارےمیں تو عمر کی بات مان لی لیکن متعہ حج کے بارے میں ان کی بات نہ مانی  ۔حالانکہ عمر نے ان دونوں سے ایک ہی موقع پر منع کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

اس پورے قصے میں اہم بات یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت  ع اور ان کے شیعوں نے عمر کی بات کو غلط بتایا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دونوں  متعے قیامت تک حلال  اور جائز رہیں گے کچھ علمائے اہلسنت نے بھی اس بارے میں ائمہ اہل بیت

------------------------

(1):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 11 صفحہ 337

(2):- جامع ترمذی جلد اول صفحہ 157

۲۶۳

کا اتباع کیا ہے ۔ میں ان میں سے تیونس کے مشہور عالم اور زیتونیہ یونیورسٹی سربراہ شیخ طاہر بن عاشور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر  کروں گا ۔ انھوں نے اپنی مشہور تفسیر  التحریر والتنویر میں آیت"  فمااستمتعتم به منهن" کی تفسیر کے ذیل میں متعہ کو حلال کہا ہے(1) ۔

علماء کو اسی طرح اپنے عقیدے میں آزاد ہونا چاہیے  اور جذبات اورعصبیت  سے متائثر نہیں ہونا چاہیے  اور نہ کسی کی مخالفت کی پروا کرنی چاہیے ۔ اس معاملے میں فیصلہ کن اورناقابل تردید دلائل شیعوں کی تایید میں موجود ہیں اور جن کے سامنے انصاف پسند اور ضدی طبیت دونوں کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے" الحق يعلو  ولايعلی عليه"

حق  ہی غالب رہتا ہے ، کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا ! مسلمانوں کو تو امام علی ع کا یہ قول یادرکھنا چاہیے کہ " متعہ رحمت ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے"۔

اور واقعی اس سے بڑی رحمت کیا ہوسکتی ہے کہ متعہ شہوت کی بھڑکتی  ہوئی آگ کو بجھا تا ہے جو کبھی کبھی انسان  کو مرد  ہویا عورت  اس طرح بے بس   کردیتی ہے کہ وہ درندہ بن جاتا ہے ۔کتنی ہی عورتوں  کو مرد اپنی شہوت کی آگ  بجھانے  کے بعد قتل کردیتے ہیں !! مسلمانوں خصوصا نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ نے زانی اور زانیہ کے لیے  اگر شادی شدہ ہوں تو سنگسار  کیےجانے  کی سزا مقررکی ہے ، اس لیے ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم  رکھے جبکہ اسی نے ان کو اور ان کی فطری خواہشات کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کی بہتری کسی چیز میں ہے ۔ جب خدائے غفور الرحیم ن ےاپنے بندوں کو اپنےفضل وکرم سے متعہ کی اجازت

--------------------

(1):-التحریر والتنویر جلد 3 صفحہ 5

۲۶۴

دے دی ہے تو اب زنا وہی کرے گا جو بالکل ہی بدبخت ہوگا ۔ یہی صورت چوری کی ہے ۔ چور کی سزا قطع ید ہے لیکن اگر مفلسوں اور محتاجوں کے لیے بیت المال موجود  ہے تو کوئی بدبخت  ہی چوری  کرےگا ۔

الہی ! میں معافی کا طلبگار ہوں اور توبہ کرتاہوں  کیونکہ میں نوجوانی میں  دین اسلام سے سخت  خفا  تھا اور اپنے دل  میں کہتا تھا کہ "اسلام  کے احکام  بہت سخت اورظالمانہ ہیں  جو مرد عورت دونوں کے لیے جنسی عمل پر  سزائے موت تجویز کرتے ہیں ،حالانکہ  ہوسکتاہے  کہ یہ جنسی عمل طرفین کی ایک دوسرے سے محبت کا نتیجہ ہو ۔ پھر سزائے  موت بھی کیسی ؟ بدترین  موت ! سنگسار  کرنے  کی سزا ! اور وہ بھی مجمع عام میں  کہ کل  عالم دیکھے "

اس طرح کا احساس  اکثر مسلمان نوجوانوں میں پایا جاتا ہے ، خصوصا آجکل  کے زمانے  میں ، جبکہ مخلوط  سوسائٹی ،بے پردگی  اور بے ہودہ طور طریقوں  کی وجہ سے ان نوجوانوں  کی لڑکیوں  سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ، اسکول کالج میں ، سڑک پر اور ہرجگہ ۔

یہ کوئی معقول بات نہیں ہوگی اگر ہم ایسے مسلمان کا موازنہ جس نے قدیم طرز کے اسلامی معاشرے میں تربیت پائی ہو اس مسلمان سے کریں جو نسبتا  ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہو جہاں ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کی جاتی ہو ۔

اکثر نوجوانوں  کی طرح  میری بھی جوانی مغربی تہذیب اور دین کے درمیان یوں کہہ لیجیے کہ جنسی جبلت اور خواہش  اورخوف خدا وآخرت کے درمیان مستقل اور دائمی کشمکش میں گزری ہے ۔ ہمارے ملکوں میں خوف خدا ہی رہ گیا ہے ، زنا کی دنیوی  سزا غائب ہوچکی ہے اس لیے مسلمان صرف اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے ۔اب یا تو وہ گھٹن میں وقت گزارے جس سے ایسے نفسیاتی امراض کا اندیشہ ہوتاہے جو خطرناک ہوسکتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو اوراپنے  پرودگار  کودھوکا دیکر وقتا فوقتا بدکاری کے گڑھے  میں گرتا رہے ۔

سچ تویہ ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت کے اسرار جب ہی میری سمجھ  میں آئے جب مجھے تشیع سے واقفیت ہوئی ۔

۲۶۵

میں نے شیعہ عقائد کو ایک رحمت جانا اور ان عقائد میں سماجی ، اقتصادی ، اور سیاسی مشکلات کا حل پایا ، ان ہی عقائد  کے ذریعے  سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین میں آسانی ہی آسانی ہے مشکل کانام نہیں ۔ اللہ نے ہمارے لیے دین میں تنگی نہیں رکھی ۔ امامت رحمت ہے ۔عصمت ائمہ  کا عقیدہ رحمت ہے ۔بداء رحمت ہے ،قضا وقدر سے متعلق  شیعہ جو کچھ کہتے  ہیں رحمت ہے ۔ تقیہ رحمت ہے ۔ نکاح متعہ رحمت ہے ۔ مختصر بات یہ  کہ یہ سب کچھ وہ حق ہے جس کی تعلیم خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی جو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے ۔

مسئلہ تحریف قرآن

یہ کہنا کہ "قرآن میں تحریف ہوئی ہے " بذات خود ایسی شرمناک بات ہے ، جسے کوئی مسلمان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو خواہ شیعہ ہو یا سنی  برداشت نہیں کرسکتا ۔

قرآن کی حفاظت ک ذمہ  دار خود رب العزت ہے جس نے کہا ہے :

"نا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون" ہم نے ہی یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔"

اس لیے کسی شخص کے لیے یہ ممکن  ہی نہیں کہ قرآن مین ایک حرف  کی بھی کمی بیشی کرسکے ۔ یہ ہمارے  نبی محتشم کا غیر فانی معجزہ ہے ۔قرآن میں باطل کا کسی طرف سے دخل نہیں ہوسکتا ، نہ آگے  سے نہ پیچھے سے کیونکہ یہ خدائے حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ،مسلمانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عملی طورپر قرآن میں تحریف کا ہونا ممکن ہی نہیں  تھا ، کیونکہ بہت سے صحابہ کو قرآن زبانی یاد تھا ۔ مسلمان شروع ہی سے قرآن کو خود حفظ کرنے اور اپنے بچوں کو حفظ کرانے میں ایک دوسرے سے

۲۶۶

بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے رہے ہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس لیے کسی فرد ،گروہ یا  حکومت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تحریف کرے یا قرآن کو بدل دے ۔

اگر ہم مشرق، مغرب ،شمال ،جنوب ہر طرف اسلامی ممالک میں گھوم پھر کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ساری دنیا میں بغیر ایک حرف  کی کمی بیشی کے وہی ایک قرآن ہے ۔ اگر چہ مسلمان خود  مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ لیکن قرآن وہ واحد  محرک ہے جو انھیں اکٹھا رکھے ہوئے ہے ۔ خود قرآن میں کوئی اختلاف  نہیں  ۔البتہ جہاں تک اس کی تفسیر یا تاویل  کا تعلق ہے ، ہر فرقے  کی اپنی تفسیر ہے جس پر وہ نازاں  اور مطمئن ہے ۔ یہ جوکہا جاتا ہے کہ شیعہ تحریف کے قائل  ہیں ، یہ محض شیعوں  پر بہتان ہے ۔ شیعہ عقائد  میں اس قسم کی کسی بات کا وجود نہیں ۔اگر ہم قرآن کریم کے بارے میں شیعہ عقیدے کے متعلق پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ شیعوں کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن  پاک ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے ۔ عقائد الامامیہ کے مولف شیخ مظفر کہتے ہیں :

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن وحی الہی ہے جو نبی اکرم ص پرنازل ہوئی اور ان کی زبان سے ادا ہوئی۔ اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔ قرآن آپ کا لافانی معجزہ ہے ۔انسان  اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے ، وہ نہ فصاحت وبلاغت میں اس کا مقابلہ کرسکتا  ہے اور نہ وہ ایسے حقائق ومعارف  بیان کرسکتا ہے جیسے قرآن میں موجود ہیں ۔ اس میں کسی قسم کی تحریف  نہیں ہوسکتی ۔

یہ قرآن  جو ہمارے پاس موجود ہے اور جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں ، بعینہ وہی قرآن ہے جو رسول  اکرم ص پر نازل ہوا ۔جو شخص اس کے علاوہ کچھ کہتا ہے  وہ گمراہ  ہےیا اس  کو غلط فہمی ہوئی ہے   بہر حال وہ صحیح راستے پر نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے ، باطل اس میں دخل انداز نہیں ہوسکتا ، نہ آگے سے نہ پیچھے سے "۔

۲۶۷

اس کے علاوہ یہ معلوم ہے کہ شیعہ کہاں کہاں آباد ہیں ۔ان کے فقہی احکام بھی معلوم ہیں ۔ اگر شیعوں کا کوئی  اور قرآن  ہوتا تو لوگوں  کو ضرور اس کا پتہ چل گیا  ہوتا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی مرتبہ  ایک شیعہ ملک میں گیا تو میرے دماغ میں اس قسم کی  کچھ افواہیں تھیں ۔ جہاں کہیں مجھے کوئی موٹی سی کتاب نظر آتی ، میں کس کو  اس خیال سے اٹھا لیتا  کہ یہ شاید شیعوں کا نام نہاد قرآن ہو ۔ لیکن جلد ہی میرا یہ خیال  بھاپ بن کر ہوا میں اڑ گیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ محض جھوٹا  الزام ہے جو شیعوں  پر اس لیے لگایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ان سے نفرت ہوجائے ۔لیکن بہر حال  ایک قابل اعتراض کتاب ضرور موجود ہے  اور اس کی وجہ سے شیعوں پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس کتاب کا نام ہے : فصل الخطاب  فی اثبات تحریف کتاب ربّ الارباب " اس کے مولف کا نام محمد تقی نوری طبرسی (متوفی سنہ 1320) ہے ۔یہ شخص شیعہ تھا ۔ معترضیں  یہ چاہتے  ہیں کہ اس کتاب کی ذمہ داری شیعوں پر ڈالدی جائے ۔لیکن یہ بات بعید از انصاف  ہے ۔

کتنی ہی ایسی کتابیں لکھی کئی ہیں جو صرف  اپنے مصنف یا مؤلف کے سوا کسی کی رائے کی نمائندہ گی نہیں کرتیں ۔ ان کتابوں میں ہرقسم  کی کچی پکی باتیں  اور غلط صحیح مضامین  ہوتے  ہیں ۔ اور یہ کوئی شیعوں  کی خصوصیت نہیں سب فرقوں  میں اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔بلکہ یہ الزام تو اہل سنت پر زیادہ چسپان ہوتا ہے ۔(1) اب  کیا یہ درست ہوگا کہ ہم قرآن اور زمانہ جاہلیت کے اشعار سے متعلق مصر کے سابق وزیر تعلیم عمید الادب العربی ڈاکٹر طہ حسین  کی تحریروں کی ذمہ داری اہل سنت پر ڈال دیں ؟

یا قرآن میں کمی بیشی سے متعلق  ان  راوایات کی ذمہ  جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم موجود  ہیں اہل اہل سنت پر ڈال دیں؟

اس سلسلے میں جامع ازہر کے شریعت کا لج کے پرنسپل پروفیسر مدنی نےبڑی

-----------------------

(1):- فصل الخطاب کی توشیعوں کے یہاں کوئی حیثیت نہیں ۔البتہ سنیوں کے یہاں قرآن میں کمی بیشی کی راوایات ان کی معتبر ترین کتابوں بخاری ،مسلم وغیرہ میں موجود ہیں ۔

۲۶۸

اچھی بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :

"یہ کہنا کہ شیعہ امامیہ اس کے قائل ہیں کہ موجودہ قرآن میں معاذاللہ کچھ کمی ہے ، تو یہ نہایت لغو بات ہے ۔ ان کی کتابوں میں کچھ  ایسی روایات ضرور ہیں لیکن ایسی روایات تو ہماری کتابوں میں بھی ہیں ۔مگر فریقین کے اہل تحقیق نے ان روایات کو ناقابل اعتبار اور وضعی کہا ہے ۔ جس طرح اہل سنت میں کوئی قرآن مجید میں کمی بیشی کا قائل نہیں اسی طرح اثناعشری شیعوں اورزیدی شیعوں میں بھی کوئی اس کا بھی قائل نہیں "۔

جو کوئی اس طرح کی روایات  دیکھنا چاہے وہ سیوطی کی الاتقان فی علوم القرآن میں دیکھ سکتا ہے ۔

سنہ 1498 ء میں ایک مصری نے ایک کتاب لکھی تھی جس کانام الفرقان  ہے اس کتاب میں اس نے اس قسم کی بہت سی موضوع اور ناقابل اعتبار روایات سنیوں کی کتابوں سے نقل کی ہیں ۔ جامعہ ازہر نے اس کتاب کی روایات  کےبطلان اور فساد کو علمی دلائل سے ثابت کرنے کے بعد حکومت سےمطالبہ کیا کہ اس کتاب کو ضبط کرلیا جائے ۔چنانچہ حکومت مصر نے یہ مطالبہ منظور کرکے کتاب کو ضبط کرلیا ۔ کتاب کےمصنف نے معاوضے کے لیے دعوی دائر کیا لیکن کونسل آف اسٹیٹ کی عدالتی کمیٹی نےیہ دعوی مسترد کردیا ۔

کیا ایسی کتابوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت قرآن کے تقدس کے منکر ہیں یا چونکہ فلاں شخص نے ایسی روایت بیان کی ہے یا ایسی کتاب لکھی ہے اس لیے اہل سنت قرآن میں نقص کے قائل ہیں ؟ یہی صورت شیعہ امامیہ کے ساتھ ہے  ۔جس طرح ہماری بعض کتابوں میں کچھ روایات ہیں ، اسی طرح ان کی بعض کتابوں میں بھی کچھ روایات ہیں ۔ اس بارے میں علامہ شیخ ابو الفضل  بن حسن طبرسی  جو چھٹی صدی ہجری کے بہت بڑے شیعہ عالم تھے  ، اپنی کتاب مجمع البیان فی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں : اس بات پر تو سب کا اتفاق  ہےکہ قرآن  میں کوئی زیادتی نہیں

۲۶۹

ہوئی ۔جہاں تک کمی کا تعلق کہے ،تو ہمارے ایک گروہ کا اور اہل سنت میں حشویہ  کایہ کہنا ہے کہ قرآن میں کمی ہوئی  ہے لیکن ہمارے اصحاب کا صحیح مذہب اس کے خلاف  ہے ۔ اسی کی تائید سید مرتضی علم الھدی (سنہ 436 ھ) نے کی ہے اور اس مسئلہ  پر بڑی تفصیل کے ساتھ مسائل الطرابلسیات کے جواب میں کئی جگہ  روشنی ڈالی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

" یہ قرآن بالکل صحیح نقل  ہوتا چلا آیا ہے ، اس کا ہمیں ایسا ہی یقین ہےجیسا کہ مختلف ملکوں کے وجود کا یقین ، بڑے بڑے واقعات کا یقین ، مشہور کتابوں کا یقین اور عربوں  کے اشعار کا یقین ،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قرآن کی نقل میں بہت احتیاط  سےکام لیا گیا ہے ۔ متعدد وجوہ  سےیہ ضروری  تھا کہ قرآن کو نقل کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی  پر خاص توجہ دی جائے : کیونکہ قرآن رسول اللہ ص کا معجزہ ہے اور علوم شرعیہ اور احکام دینیہ کا ماخذ ہے ۔مسلمان علماء نے قرآن شریف کی حفاظت اور حمایت  میں انتہائی کوشش صرف کی ہے ۔ انھیں ہر اختلافی معاملے کا مکمل  علم ہے :جیسے  اعراب کا اختلاف  ، مختلف  قرائتیں  ، قرآن شریف  کے حروف  اور آیات کی تعداد ۔ان تمام امور پر اس قدر دل وجان سے توجہ اور احتیاط کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کے کسی حصے کو بدل دیا جائے یا حذف کردیا جائے "(1)

ہم ذیل میں کچھ  روایات پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین  کرام ! آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ قرآن میں کمی بیشی کی تمہمت اہل سنت پر زیادہ چسپاں ہوتی ہے اور آپ کویہ بھی معلوم ہوجائے کہ اہل سنت کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو دوسروں سے منسوب کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ مجھے اپنے تمام عقائد پرنظر ثانی

-------------------------

(1):- رسالہ الاسلام شمارہ 4 جلد11 میں پروفیسر مدنی شریعت کالج جامعہ الازھر کا مقالہ ۔

۲۷۰

کرنی پڑی ، کیونکہ میں جب بھی کسی بات پر شیعوں پر نکتہ چینی یا اعتراض کرتا تھا شیعہ یہ ثابت کردیتے تھے  کہ یہ کمزوری ان میں نہیں بلکہ اہل سنت میں ہے اور مجھے جلد معلوم ہوجاتا کہ شیعہ سچ کہتے ہیں ۔ وقت گزرنے اور بحث ومباحثہ کے نتیجے میں بحمداللہ مجھے اطمینان حاصل ہوگیا ہے ۔ شاید آپ کو بھی یہ معلوم کرنے کا شوق ہو کہ اہل سنت کی اپنی کتابوں سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت قرآن میں تحریف اور کمی زیادتی کے قائل ہیں تو لیجیے سنئے :

 طبرانی اور بیہقی کی روایت ہے کہ قرآن میں دو سورتیں ہیں  :

ایک یہ ہے :

"بسم الله الرّحمان الرّحيم. إنانستعينك ونستغفرك ونستعينك ونستغفرك ونثنّى عليك الخيركلّه ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك."

دوسری سورت یہ ہے :

" بسم الله الرّحمان الرّحيم. أللهمّ إيّاك نعبدولك نصلّى ونسجدوإليك نسعى ونحفدنرجوارحمتك ونخشى عذابك إنّ عذابك بالكافرين ملحقٌ."

ان دونوں سورتوں کو ابو القاسم حسین بن محمد المعروف بہ راغب اصفہانی (سنہ 502 ھ)نے محاضرات الادباء میں  قنوت  کی سورتیں کہا ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب ان ہی سورتوں  کودعائے قنوت کے طور پ ر پڑھتے تھے ۔ یہ دونوں سورتیں ابن عباس کے مصحف اور زید بن ثابت کے مصحف میں موجود تھیں(1)

امام احمد بن حنبل شیبانی (سنہ 241ھ) نے اپنی کتاب مسند میں ابی بن کعب  سےروایت کی ہے کہ  :" ابی بن کعب نے پوچھا کہ سورہ احزاب تم کتنی پڑھتے ہو ؟

----------------------

(1):- سیوطی الاتقان  فی علوم القرآن ۔ الدر المنثور فی التفسیر بالماثور

۲۷۱

 کسی نے کہا : ستر سے کچھ اوپر آیتیں ہیں ۔ابی بن کعب نے کہاکہ میں نے یہ سورت رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھی ہے ، یہ سورہ بقرہ کے برابر یا اس سے بھی کچھ بڑی ہے ، اسی میں آیہ رجم ہے(1)

اب آپ دیکھیے کہ یہ دونوں سورتیں جو سیوطی کی اتقان اور درمنثور میں  موجود ہیں اور جن کے متعلق طبرانی اور بہیقی نے روایت بیان کی ہے اور جن کو قنوت کی سورتیں کہا ہے ان کا کتاب اللہ میں کہیں کوئی وجود نہیں ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ ان سورتوں  کی حدتک جو مصحف ابن عباس  اور مصحف زید بن ثابت  میں موجود تھیں ،  ناقص ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصحف کے علاوہ جو ہمارے پاس ہے اور بھی کئی مصحف تھے ۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ اہل سنت طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ  مصحف فاطمہ س کے قائل ہیں  ۔اب دیکھ لیجیے !

اہل سنت یہ دونوں سورتیں ہر روز صجح کو دعائے قنوت میں پڑھتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دونوں سورتیں زبانی یاد تھیں اور میں فجر کے وقت دعائے قنوت میں پڑھا کرتا تھا ۔ دوسری روایت جو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ  احزاب تین چوتھائی کم ہے ، کیونکہ سورہ بقرہ میں 286 آیات ہیں جبکہ موجودہ سورہ احزاب میں صرف 73 آیات ہیں ۔اگر ہم حزب کے اعتبار سے شمار کریں تو سورہ بقرہ  پانچ سے زیادہ احزاب پر مشتمل ہے جبکہ  سورہ احزاب صرف ایک حزب شمار ہوتی ہے (ایک حزب تقریبا نصف پارے کا ہوتا ہے )

حیرت کا مقام ہےکہ ابی بن کعب یہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ص کے ساتھ سورہ احزاب پڑھا کرتا تھا ، یہ سورت ، سورہ بقرہ کے مساوی یا اس سے کچھ زیادہ بڑی

--------------------

(1):- احمد بن حنبل مسند جلد 5صفحہ 132

۲۷۲

تھی ۔ یہ ابی بن کعب زمانہ نبوی کے مشہور ترین قاریوں میں سے ہیں ۔ حافظ قرآن تھے ، خلیفہ ثانی نے نماز تراویح کی  امامت کے لیے انھی کا انتخاب کیا تھا(1) ۔ ان کے اس قول سے شک بھی پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ ظاہر  ہے حیرت بھی ہوتی ہے ۔ امام احمد بن جنبل نے اپنی مسند میں ابی بن کعب سے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ :" رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قرآن پڑھ کر سناؤں  ۔چنانچہ آپ نے"لم يكن الّذين كفروامن أهل الكتاب" سے پڑھنا شروع کیا اس میں آپ نے یہ بھی پڑھا :

"ولوا أنّ ابن آدم سال وادياً مّن مّالٍ فأعطيه لسال ثانياً فلوسال ثالثاً ولايملأ جوف ابن آدم إلّا التراب ويتوب الله على من تاب وإنّ ذلك الدين القيم عندالله." (2)

حافظ ابن عساکر   کے حالات  کے ضمن میں روایت  بیان کی ہے کہ

"ابو الدرداء چند اہل دمشق کے ساتھ مدینہ گئے ، وہاں عمربن خطاب کے سامنے یہ آیت پڑھی :"إن جعل الّذين كفروا في قلوبهم الحمية حميّة الجاهلية ولوحميتهم كما حموا لفسدالمسجدالحرام."

عمر بن خطاب نے پوچھا : تمھیں یہ قراءت کس نے سکھائی ہے  ۔ ان لوگوں نےکہا :ابی بن کعب نے ۔ عمر نے ان کو بلایا ۔

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 252

(2):- امام احمد بن حنبل  ،مسند جلد 5 صفحہ 131

۲۷۳

جب وہ آگئے  تو ان لوگوں سے کہا : اب پڑھو ، انھوں نے پھر اسی طرح پڑھا :

"ولو حميتم كما حموا لفسدالمسجد الحرام." ابی بن کعب نے کہا کہ ہاں  یہ میں نے ان کو پڑھا یا ہے عمربن خطاب نے زید بن ثابت سے کہا : زید تم  پڑھو ! زید نے وہی معمول کی قراءت  کے مطابق تلاوت کی ۔ عمر نے کہا مجھے بھی بس یہی قراءت  معلوم ہے اس پر ۔ ابی بن کعب ن ےکہا کہ عمر آپ جانتے ہیں کہ میں رسول اللہ ص کی خدمت میں رہتا تھا اور یہ عائب ہوتے تھے ، میں  رسول اللہ ص کے قریب تھا  یہ دور تھے ۔ آپ چاہین تو واللہ میں اپنے گھر میں گوشہ نشین   ہوجاؤں ، پھر نہ کسی سے بات کروں گا نہ مرتے دم تک کسی کو پڑھاؤں گا ۔عمر نے کہا : اللہ مجھے معاف کرے ! ابی تم جانتے ہو کہ اللہ نے تمھیں علم عطا کیا ہے ، تو جو کچھ تمھیں معلوم  ہے لوگوں کو سکھاؤ ۔

کہتے ہیں ایک دفعہ ایک لڑکا حضرت عمر کے سامنے سے گزرا ، وہ قرآن میں دیکھ کر پڑھ رہا تھا :

"النبيّ أولى بالمومنين من أنفسهم وأزواجه امّهاتهم وهو أبٌ لّهم"

حضرت عمر نے کہا: لڑکے اسکو کاٹ دو ۔ لڑکے نے جواب دیا یہ ابی بن کعب کا مصحف ہے ۔ جب وہ لڑکا ابی بن کعب کے پاس پہنچا تو ان سے جاکر اس آیت کے بارے میں پوچھا ۔ ابی نے کہا : مجھے تو قرآن میں مزا آتا تھا تم بازاروں تالیاں بجاتے پھرتے ہو ۔(1)

-------------------

(1):- ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشسق جلد 2 صفحہ 228

۲۷۴

ایسی ہی روایات ابن اثیر نے جامع الاصول میں ، ابو داوؤد نے اپنی سنن میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کی ہے ۔

قارئین کرام! اب کی دفعہ یہ میں آپ پر چھوڑتاہوں کہ آپ ان روایات پر کیا تبصرہ کرتے ہیں ۔ ایسی روایات سے اہل سنت کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ۔ وہ شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی کتابوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔

ممکن ہے کہ اہل سنت  میں سے  بعض ضدی  طبیعت کے لوگ حسب عادت ان روایات کا انکار کردیں  اور امام احمد بن حنبل پر اعتراض کریں کہ انھوں نے ایسی  ضعیف  سند کی روایات  کو اپنی کتاب میں شامل کیا ۔ ممکن ہے کہ وہ  یہ بھی کہیں کہ  مسند امام احمد اہل سنت کے نزدیک صحاح  میں شامل نہیں ہے ۔  میں اہل سنت کی عادت خوب جانتا ہوں ۔ جب بھی میں ان کتابوں  سے کوئی ایسی حدیث  پیش کرتاتھا جو شیعوں کے لیے  برہان قاطع ہوتی تویہ سنی  بھاگ نکلتے تھے  اور ان کتابوں پر اعتراض کرنے لگے تھے جن کو وہ خود صحاح ستّہ  کہتے ہیں یعنی صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابنی داؤد ، سنن نسائی  اور سنن ابن ماجہ ۔ بعض  لوگ ان کتابوں  کے ساتھ  سنن دارمی ، موطاء مالک اور مسند امام احمد  کو بھی صحاح میں شامل سمجھتے ہیں ۔

میں چند ایسی ہی  روایت ان ضدی لوگوں کو گھر تک پہنچانے  کے لیے  صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے پیش کرتاہوں شاید ان کی حقیقت تک رسائی  ہوسکے اور شاید وہ حقیقت  کو بغیر کسی تعصب کے قبول لرکیں ۔

امام بخاری  نے اپنی صحیح میں(1) باب مناقب عمار وحذیفہ رضی اللہ عنہما میں علقمہ سے روایت کی ہے ، وہ کہتے  ہیں ۔" جب میں دمشق پہچا تو میں نے وہاں پہنچ کر دورکعت نماز پڑھی اور پھر دعا کی کہ " اے اللہ ! مجھے کوئی نیک اور اچھا ہمنشین عطا

-------------------

(1):-صحیح  بخاری جلد 4 صفحہ 215

۲۷۵

کردے " ۔ اس کے بعد میں کچھ  لوگوں کے پاس جاکر بیٹھا تو وہاں ایک بڑے میاں تشریف لے آئے ۔وہ آکر میرے پہلو میں بیٹھ گئے ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟  معلوم ہوا کہ ابوالدرداء میں میں نے ان سے کہا کہ میں نے دعا کی تھی کہ کوئی نیک اور اچھا ہمنشین مل جائے ، اللہ میاں نے آپ کو بھیج دیا ۔ انھوں نے مجھ  سے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں اہل کوفہ سے ہوں ۔ انھوں نے کہا : کیا تمھارا یہاں ابن ام عبد(1) نہیں ہیں جن کے پاس رسول اللہ ص کے نعلین آپ کا بچھونا  اورآپ کا لوٹا تھا ؟اور تمھارے یہاں ہو بھی تو ہیں جن کے متعلق خود رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ نے انھیں شیطان سے بچالیا ہے(2) ۔ اور کیا تمھارے  یہاں ہو بزرگ نہیں جو رسول اللہ ص کے راز دارتھے(3) جن کو وہ راز معلوم تھے جو اور کسی کو معلوم نہیں تھے ۔  پھر کہنے لگے : عبداللہ اس آیت کو کیسے پڑھتے  ہیں :"والّليل إذايغشى"؟

میں نے پڑھ کرسنایا :" والّليل إذايغشى  والنهارإذا تجلّى والّكروالأنثى." نیز یہ کہا :" مجھے رسول اللہ نے منہ در منہ ہی پڑھایا تھا "۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہے :" یہ لوگ میرے پیچھے لگے رہے ۔ یہ مجھ سے ہو چیز  چھڑانا چاہتے تھے  جو میں نے رسول اللہ ص سے سنی تھی"۔(4)

ایک روایت میں ہے کہ

" والّليل إذايغشى  والنهارإذا تجلّى والّكروالأنثى." یہ رسو ل اللہ ص نے مجھے بالمشافہہ بٹھا کر

--------------------

(1):- عبداللہ بن مسعود

(2):- عمار یاسر

(3):- حذیفہ یمانی (ناشر)

(4):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 216

۲۷۶

پڑھایا ہے ۔(1)

ان تمام روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو قرآن اب ہمارے پاس ہے  اس میں وماخلق کا لفظ اضافہ ہے ۔

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عباس  سے روایت  بیان کی ہے کہ عمربن الخطاب  کہتے تھے ۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کی مبعوث کیا اور ان پر کتاب نازل فرمائی ، اس  میں آیت رجم بھی تھی ، ہم نے اس آیت کو پڑھا  ، سمجھا ، یاد کیا  چنانچہ رسول اللہ ص نے بھی رجم کی سزا دی  ۔آپ کے بعد ہم نے بھی سنگسار کی ۔ میں ڈرتا  ہوں کہ اگر اسی طرح وقت گزرتارہا  تو کوئی کہیں یہ نہ کہہ دے : ہمیں تو رجم کی آیت کتاب اللہ میں  ملتی ہی نہیں ۔ اور اس طرح اللہ کے حکم کو جو اللہ نے نازل کیا ہے  ، ترک کرکے لوگ گمراہ نہ ہوجائیں ۔ رجم کی سزا  برحق ہے اگرکوئی  شادی شدہ مردیا عورت  زنا کرے تو اسے یہ سزادی جائے گی بشرطیکہ ثبوت موجود ہو یا حمل رہ جائے یا مجرم اقرارکرلے ۔

اس کے علاوہ ہم کتاب اللہ میں ایک اور آیت بھی پڑھا  کرتے تھے  جو اس طرح تھی :

"ولاترغبوا عن أبائكم فإنّه كفرٌ بكم أن ترغبوا عن آبائكم" ۔یا اس طرح تیھ کہ :

"إنّ كفراً بكم أن ترغبوا عن آبائكم." (2)

امام مسلم نے اپنی صحیح میں(باب لوان لابن آدم واديين لايبتغی

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 218  باب مناقب عبداللہ بن مسعود ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 8 باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت

۲۷۷

الثا ً میں)ایک روایت بیان کی ہے کہ

ابو موسی اشعری نے بصرہ  کے قاریوں کو بلا یا تو تین سو آدمی آئے جنھوں نے قرآن پڑھا ہوا تھا ۔ ابو موسی نے کہا : آپ لوگ بصرہ کے بہتر ین آدمی ہیں ، آپ نے قرآن پڑھا ہے ۔ آپ اس آیت سے قرآن پڑھ کر سنائیں :

"لايطولنّ عليكم الأمد فتقسوقلوبكم كما قست قلوب من كان قبلكم"

ابو موسی اشعری نے بھی کہا کہ ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم طوالت اور اس کے سخت لب ولہجہ کے لحاظ سے سورہ براءۃ  کے ساتھ  تشبیہ دیا کرتے تھے ۔ اب میں وہ بھول  گیا ہوں ، لیکن اس میں سے اتنا بھی یاد ہے :

"لوكان لإبن آدم واديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولايملاُ جوف ابن آدم إلّا التراب."

اور ہم نے ایک اور سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم کہتے تھے کہ یہ سورت  مسبحات(1) میں سے کسی ایک سورت کے برابر ہے ، وہ بھی میں بھول گیا ہوں ، اس میں سے اتنا البتہ یا د ہے :

"ياأيّها الذين آمنوا لم تقولون مالاتفعلون فكتب شهادةً فى أعناقكم فتسئلون عنها يوم القيامة"

یہ دو فرضی سورتیں جو ابو موسی بھول گئے تھے ان میں ایک بقول ان کے براءت کے برابر تھی ۔ یعنی 129 آیات کی اور دوسری مسبحات میں سے کسی کے برابر تھی ۔ دوسرے لفظوں میں تقریبا 20 آیات کے برابر ۔ ان دونوں

-------------------------

(1):-وہ سورتیں جو سبحان ، سبّح ، یسبح ،یا سبّح  سے شروع ہوتی ہیں ۔جیسے سورہ اسراء حدید، سورہ حشر ، سورہ جمعہ  ، سورہ تغابن ، اور سورہ اعلی ،(ناشر)

۲۷۸

سورتوں کا جود صرف ابو موسی اشعری کے ذہن میں تھا ۔ قارئین کرام ! اب آپ کو اختیار ہے  ، یہ سب پڑھ کر اور سن کر آپ حیرت سے ہنسیں یا روئیں ۔

جب اہل سنت کی کتابیں اور احادیث کے معتبر مجموعے اس طرح کی راوایات  سے پر ہیں جسن میں کبھی دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن ناقص ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس میں اضافہ کردیا گیا ہے ، پھر یہ شیعوں پر اعتراض کیسا جن کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسے سب دعوے غلط اور باطل ہیں ؟

اگر فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب کے مصنف نے جو سنہ 1320 ھ میں فوت ہوا ، اب سے تقریبا سوسال پہلے اپنی کتاب لکھی تھی ، تو اس سے پہلے الفرقان کا مصنف مصر میں چارسو برس ہوئے اپنی کتاب لکھاچکا تھاجیسا کہ شیخ محمد مدنی پرنسپل  شریعہ کالج جامعہ ازھر کا بیان ہے(1) ۔ہوسکتا ہے کہ شیعہ مصنف نےسنی مصنف کی کتاب  الفرقان پڑھی ہو ، جس نے اپنی کتاب  میں وہ تمام روایات جمع  کردی تھیں  جو اہل سنت کی صحاح میں آئی ہیں ۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس کتاب کو جامعہ ازھر کی درخواست پر مصری حکومت نے ضبط کرلیا تھا ۔یہ تو معلوم ہے کہ" الانسان حريص علی مامنع منه" کے بمصداق  جس چیز سے منع کیا جاتا ہے اس کا دگناشوق پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ کتاب گو مصر میں ممنوع تھی لیکن دوسرے اسلامی ممالک میں ممنوع نہیں تھی ۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ فصل الخطاب جو چارسو برس بعد لکھی گئی الفرقان ہی کا چربہ ہو یا بغل بچہ ہو ۔ اس تمام بحث  میں اہم بات یہ ہے کہ سنی اور شیعہ علماء اور محققین  نے اس طرح کی روایات  کو باطل اور شاذ کہا ہے اور اطمینا ن بخش دلائل  سے ثابت کای ہے کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے ،وہ بعینہ وہی قرآن ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا ۔ اس میں نہ کوئی کمی بیشی ہے اور نہ کوغی تغیر وتبدل ، پھر ان روایات کی بنیاد پر جو خود ان کے نزدیک ساقط الاعتبار ہیں ۔ یہ

--------------------

(1):- رسالہ الاسلام شمارہ 4 جلد 11 صفحہ 382 ۔383

۲۷۹

اہل سنت کیسے شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور خود کو بری الذمہ ٹھہراتے ہیں جبکہ ان کی صحاح ان روایات کی صحت کو ثابت کرتی ہیں ۔ مسلمانو! یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا ۔ سچ کہا ہے سیدنا عیسی علیہ السلام نے : "یہ لوگ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں مگر انھیں انپی آنکھ کاشیہتری نظر نہیں آتا " میں اس طرح کی راویات کا ذکر بڑے افسوس کےساتھ کررہا ہوں کیونکہ آج ضرورت اس ام کی ہے کہ ہم ان کے بارےمیں  سکوت اختیار کریں اور انھیں خاموشی سے رد ی کی ٹوکری کے حوالے کردیں ۔ کاش بعض مصنفین جو سنت رسول کی پیروی کے مدعی ہیں شیعوں  پررکیک  حملے نہ کرتے ۔کچھ معروف  ادارے شیعوں کی تکفیر کرنے میں ان مصنفین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انھیں سرمایہ فراہم کرتے ہیں ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے تو اس طرح کی کاروائیاں  اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ میں ان سے صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔"واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكروا نعمة الله عليكم إذ كنتم أعداء فألف بين قلوبكم فأصبحتم بنعمته إخوانا"

۲۸۰