حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63956 / ڈاؤنلوڈ: 7552
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

ہیں(۱) ۔

اب دیکھیے ! رسول اللہ ص نے اپنی وفات تک متعہ سے منع نہیں کیا ۔جیسا کہ یہ صحابی تصریح کرتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ نہایت صاف الفاظ میں اور بغیر کسی ابہام کے متعہ کی حرمت  کو عمر سے منسوب کرتے ہیں  ۔اور یہ بھی  کہتے ہیں  کہ عمر نے جو کچھ کہا اپنی رائے سے کہا ۔

اور  دیکھیے :

جابر بن عبداللہ انصاری صاف کہتے  ہیں کہ ہم رسول اللہ  کے زمانے میں اور ابوبکر کرے عہد خلافت میں ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی  آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے ۔ آخر عمر نے عمرو بن حریث کے قصے میں اس کی ممانعت کردی(۲) ۔

روایات  سے معلوم ہوتا ہے  کہ چند دوسرے  صحابہ بھی حضرت عمر  کی رائے  سے متفق تھے لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ بعض صحابہ تو اس وقت بھی عمر کے ساتھ تھے جب انھوں نے رسول اللہ پر ہذیان گوئی کی تہمت لگائی تھی اور کہا  تھا کہ ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے ۔

اور سنیے ! ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں جابر کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعین  کے بارےمیں  اختلاف  ہوگیا ہے ۔ اس پر جابر نے کہا : ہم نے رسول اللہ کے زمانے  میں دونوں متعے کیے ہیں ،بعد میں عمر نے ہمیں منع کردیا  تو  پھر ہم نے کوئی متعہ نہیں کیا(۳) ۔

اس لیے ذاتی طور  پر میرا خیال یہ ہے کہ بعض صحابہ ن ےجو متعہ کی

---------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۵ صفحہ ۱۵۸

(۲)(۳):- صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۳۱

۲۶۱

ممانعت  رسول اللہ سے منسوب کی ہے اس کامقصد محض عمر کی رائے  کی تصویب اور تائید تھا ۔ ورنہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ص کسی ایسی چیز کو حرام قراردیں  جسے قرآن نے حلال ٹھہرایا ہو ۔ تمام اسلامی احکام میں ہمیں ایک بھی ایسا حکم معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ نے کسی چیز کو حلال کیا ہو اور رسول اللہ ص نے اسے حرام کردیا ہو ۔ اس کا کوئی قائل بھی نہیں ۔ البتہ معاند اور متعصب کی بات اور ہے ۔

اگر ہم برائے بحث یہ مان بھی لیں کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی ،تو امام علی ع کو کیا ہوگیا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم ص کے خاص  مقرّب ہونے   کے باوجود اور اسلامی احکام کی سب سے زیادہ واقفیت رکھنے کے باوصف فرمادیا کہ

"متعہ تو اللہ کی رحمت  اور بندوں پر اس کا خاص احسان ہے  اگر عمر اس کی ممانعت نہ کردیتے تو کوئی بدبخت ہی زناکرتا "(۱)

اس کے علاوہ  خود عمر بن خطاب نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت کردی تھی بلکہ صاف صاف یہ کہا تھا کہ" متعتان كانتا على عهدرسول الله وأنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما: متعة الحج ومتعة النساء."

دو متعے  رسول اللہ ص کے زمانے میں تھے ۔ اب میں ان کی ممانعت کرتاہوں اور جو یہ متعے کرے گا اسے سزادوں گا ۔ان میں ایک متعہ حج ہے اور دوسرا عورتوں کے ساتھ متعہ ہے ۔(۲) حضرت عمر کا ییہ قول مشہور ہے ۔

مسند امام احمد  بن حنبل اس بات کی بہترین گواہ ہے کہ اہل سنت والجماعت میں متعہ کے بارے میں سخت اختلاف ہے : کچھ لوگ رسول اللہ کا اتباع کرتے ہوئے  اس کے حلال ہونے کے قائل ہیں اور کچھ لوگ عمربن خطاب کی پیروی میں اسے

------------------------

(۱):- تفسیر ثعلبی ۔ تفسیر طبری۔

(۲):- فخر الدین رازی ، تفسیر کبیر" فمااستمتعتم به منه ن " کی تفسیر کے ذیل میں ۔

۲۶۲

حرام کہتے ہیں ۔امام احمد نے روایت  کی ہے :

 ابن عباس بیان کرتے ہیں  کہ ایک دفعہ انھوں نے کہہ دیا کہ رسول اللہ نے متعہ کرنے کو کہا ہے ، تو عروہ بن زبیر نے کہا : متعہ سے تو ابوبکر اور عمر نے منع کردیا تھا ۔ ابن عباس بولے : یہ عروہ کا بچہ کیا کہتا ہے ؟ کسی نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے متعہ سے منع کردیا تھا ۔ابن عباس نے کہا :مجھے تو ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں گے ۔ میں کہتا ہوں : رسول اللہ ص نے کہا: اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر نے منع کردیا ۔(۱)

جامع ترمذی میں ہے کہ

عبداللہ  بن عمر سے حج کے متعہ کے بارےمیں  کسی نے سوال کیا تو انھوں نے کہا: جائز ہے  ۔ پوچھنے  والے نے کہا :آپ کے والد نے تو اس سے منع کیا تھا ۔ ابن  عمر نے کہا: کیا خیال ہے ، اگر  میرے والد تمتع سے منع کریں اور رسول اللہ نے خود تمتع کیا ہو تو میں اپنے والد کی پیروی کروں یا رسول اللہ ص ے حکم  کی ؟ اس نے کہا: ظاہر ہے ،رسول اللہ ص کے حکم کی(۲) :

اہل سنت  والجماعت نے عورتوں کے متعہ کے بارےمیں تو عمر کی بات مان لی لیکن متعہ حج کے بارے میں ان کی بات نہ مانی  ۔حالانکہ عمر نے ان دونوں سے ایک ہی موقع پر منع کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

اس پورے قصے میں اہم بات یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت  ع اور ان کے شیعوں نے عمر کی بات کو غلط بتایا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دونوں  متعے قیامت تک حلال  اور جائز رہیں گے کچھ علمائے اہلسنت نے بھی اس بارے میں ائمہ اہل بیت

------------------------

(۱):- مسند امام احمد بن حنبل جلد ۱۱ صفحہ ۳۳۷

(۲):- جامع ترمذی جلد اول صفحہ ۱۵۷

۲۶۳

کا اتباع کیا ہے ۔ میں ان میں سے تیونس کے مشہور عالم اور زیتونیہ یونیورسٹی سربراہ شیخ طاہر بن عاشور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر  کروں گا ۔ انھوں نے اپنی مشہور تفسیر  التحریر والتنویر میں آیت"  فمااستمتعتم به منهن" کی تفسیر کے ذیل میں متعہ کو حلال کہا ہے(۱) ۔

علماء کو اسی طرح اپنے عقیدے میں آزاد ہونا چاہیے  اور جذبات اورعصبیت  سے متائثر نہیں ہونا چاہیے  اور نہ کسی کی مخالفت کی پروا کرنی چاہیے ۔ اس معاملے میں فیصلہ کن اورناقابل تردید دلائل شیعوں کی تایید میں موجود ہیں اور جن کے سامنے انصاف پسند اور ضدی طبیت دونوں کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے" الحق يعلو  ولايعلی عليه"

حق  ہی غالب رہتا ہے ، کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا ! مسلمانوں کو تو امام علی ع کا یہ قول یادرکھنا چاہیے کہ " متعہ رحمت ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے"۔

اور واقعی اس سے بڑی رحمت کیا ہوسکتی ہے کہ متعہ شہوت کی بھڑکتی  ہوئی آگ کو بجھا تا ہے جو کبھی کبھی انسان  کو مرد  ہویا عورت  اس طرح بے بس   کردیتی ہے کہ وہ درندہ بن جاتا ہے ۔کتنی ہی عورتوں  کو مرد اپنی شہوت کی آگ  بجھانے  کے بعد قتل کردیتے ہیں !! مسلمانوں خصوصا نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ نے زانی اور زانیہ کے لیے  اگر شادی شدہ ہوں تو سنگسار  کیےجانے  کی سزا مقررکی ہے ، اس لیے ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم  رکھے جبکہ اسی نے ان کو اور ان کی فطری خواہشات کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کی بہتری کسی چیز میں ہے ۔ جب خدائے غفور الرحیم ن ےاپنے بندوں کو اپنےفضل وکرم سے متعہ کی اجازت

--------------------

(۱):-التحریر والتنویر جلد ۳ صفحہ ۵

۲۶۴

دے دی ہے تو اب زنا وہی کرے گا جو بالکل ہی بدبخت ہوگا ۔ یہی صورت چوری کی ہے ۔ چور کی سزا قطع ید ہے لیکن اگر مفلسوں اور محتاجوں کے لیے بیت المال موجود  ہے تو کوئی بدبخت  ہی چوری  کرےگا ۔

الہی ! میں معافی کا طلبگار ہوں اور توبہ کرتاہوں  کیونکہ میں نوجوانی میں  دین اسلام سے سخت  خفا  تھا اور اپنے دل  میں کہتا تھا کہ "اسلام  کے احکام  بہت سخت اورظالمانہ ہیں  جو مرد عورت دونوں کے لیے جنسی عمل پر  سزائے موت تجویز کرتے ہیں ،حالانکہ  ہوسکتاہے  کہ یہ جنسی عمل طرفین کی ایک دوسرے سے محبت کا نتیجہ ہو ۔ پھر سزائے  موت بھی کیسی ؟ بدترین  موت ! سنگسار  کرنے  کی سزا ! اور وہ بھی مجمع عام میں  کہ کل  عالم دیکھے "

اس طرح کا احساس  اکثر مسلمان نوجوانوں میں پایا جاتا ہے ، خصوصا آجکل  کے زمانے  میں ، جبکہ مخلوط  سوسائٹی ،بے پردگی  اور بے ہودہ طور طریقوں  کی وجہ سے ان نوجوانوں  کی لڑکیوں  سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ، اسکول کالج میں ، سڑک پر اور ہرجگہ ۔

یہ کوئی معقول بات نہیں ہوگی اگر ہم ایسے مسلمان کا موازنہ جس نے قدیم طرز کے اسلامی معاشرے میں تربیت پائی ہو اس مسلمان سے کریں جو نسبتا  ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہو جہاں ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کی جاتی ہو ۔

اکثر نوجوانوں  کی طرح  میری بھی جوانی مغربی تہذیب اور دین کے درمیان یوں کہہ لیجیے کہ جنسی جبلت اور خواہش  اورخوف خدا وآخرت کے درمیان مستقل اور دائمی کشمکش میں گزری ہے ۔ ہمارے ملکوں میں خوف خدا ہی رہ گیا ہے ، زنا کی دنیوی  سزا غائب ہوچکی ہے اس لیے مسلمان صرف اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے ۔اب یا تو وہ گھٹن میں وقت گزارے جس سے ایسے نفسیاتی امراض کا اندیشہ ہوتاہے جو خطرناک ہوسکتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو اوراپنے  پرودگار  کودھوکا دیکر وقتا فوقتا بدکاری کے گڑھے  میں گرتا رہے ۔

سچ تویہ ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت کے اسرار جب ہی میری سمجھ  میں آئے جب مجھے تشیع سے واقفیت ہوئی ۔

۲۶۵

میں نے شیعہ عقائد کو ایک رحمت جانا اور ان عقائد میں سماجی ، اقتصادی ، اور سیاسی مشکلات کا حل پایا ، ان ہی عقائد  کے ذریعے  سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین میں آسانی ہی آسانی ہے مشکل کانام نہیں ۔ اللہ نے ہمارے لیے دین میں تنگی نہیں رکھی ۔ امامت رحمت ہے ۔عصمت ائمہ  کا عقیدہ رحمت ہے ۔بداء رحمت ہے ،قضا وقدر سے متعلق  شیعہ جو کچھ کہتے  ہیں رحمت ہے ۔ تقیہ رحمت ہے ۔ نکاح متعہ رحمت ہے ۔ مختصر بات یہ  کہ یہ سب کچھ وہ حق ہے جس کی تعلیم خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی جو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے ۔

مسئلہ تحریف قرآن

یہ کہنا کہ "قرآن میں تحریف ہوئی ہے " بذات خود ایسی شرمناک بات ہے ، جسے کوئی مسلمان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو خواہ شیعہ ہو یا سنی  برداشت نہیں کرسکتا ۔

قرآن کی حفاظت ک ذمہ  دار خود رب العزت ہے جس نے کہا ہے :

"نا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون" ہم نے ہی یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔"

اس لیے کسی شخص کے لیے یہ ممکن  ہی نہیں کہ قرآن مین ایک حرف  کی بھی کمی بیشی کرسکے ۔ یہ ہمارے  نبی محتشم کا غیر فانی معجزہ ہے ۔قرآن میں باطل کا کسی طرف سے دخل نہیں ہوسکتا ، نہ آگے  سے نہ پیچھے سے کیونکہ یہ خدائے حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ،مسلمانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عملی طورپر قرآن میں تحریف کا ہونا ممکن ہی نہیں  تھا ، کیونکہ بہت سے صحابہ کو قرآن زبانی یاد تھا ۔ مسلمان شروع ہی سے قرآن کو خود حفظ کرنے اور اپنے بچوں کو حفظ کرانے میں ایک دوسرے سے

۲۶۶

بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے رہے ہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس لیے کسی فرد ،گروہ یا  حکومت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تحریف کرے یا قرآن کو بدل دے ۔

اگر ہم مشرق، مغرب ،شمال ،جنوب ہر طرف اسلامی ممالک میں گھوم پھر کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ساری دنیا میں بغیر ایک حرف  کی کمی بیشی کے وہی ایک قرآن ہے ۔ اگر چہ مسلمان خود  مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ لیکن قرآن وہ واحد  محرک ہے جو انھیں اکٹھا رکھے ہوئے ہے ۔ خود قرآن میں کوئی اختلاف  نہیں  ۔البتہ جہاں تک اس کی تفسیر یا تاویل  کا تعلق ہے ، ہر فرقے  کی اپنی تفسیر ہے جس پر وہ نازاں  اور مطمئن ہے ۔ یہ جوکہا جاتا ہے کہ شیعہ تحریف کے قائل  ہیں ، یہ محض شیعوں  پر بہتان ہے ۔ شیعہ عقائد  میں اس قسم کی کسی بات کا وجود نہیں ۔اگر ہم قرآن کریم کے بارے میں شیعہ عقیدے کے متعلق پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ شیعوں کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن  پاک ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے ۔ عقائد الامامیہ کے مولف شیخ مظفر کہتے ہیں :

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن وحی الہی ہے جو نبی اکرم ص پرنازل ہوئی اور ان کی زبان سے ادا ہوئی۔ اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔ قرآن آپ کا لافانی معجزہ ہے ۔انسان  اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے ، وہ نہ فصاحت وبلاغت میں اس کا مقابلہ کرسکتا  ہے اور نہ وہ ایسے حقائق ومعارف  بیان کرسکتا ہے جیسے قرآن میں موجود ہیں ۔ اس میں کسی قسم کی تحریف  نہیں ہوسکتی ۔

یہ قرآن  جو ہمارے پاس موجود ہے اور جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں ، بعینہ وہی قرآن ہے جو رسول  اکرم ص پر نازل ہوا ۔جو شخص اس کے علاوہ کچھ کہتا ہے  وہ گمراہ  ہےیا اس  کو غلط فہمی ہوئی ہے   بہر حال وہ صحیح راستے پر نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے ، باطل اس میں دخل انداز نہیں ہوسکتا ، نہ آگے سے نہ پیچھے سے "۔

۲۶۷

اس کے علاوہ یہ معلوم ہے کہ شیعہ کہاں کہاں آباد ہیں ۔ان کے فقہی احکام بھی معلوم ہیں ۔ اگر شیعوں کا کوئی  اور قرآن  ہوتا تو لوگوں  کو ضرور اس کا پتہ چل گیا  ہوتا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی مرتبہ  ایک شیعہ ملک میں گیا تو میرے دماغ میں اس قسم کی  کچھ افواہیں تھیں ۔ جہاں کہیں مجھے کوئی موٹی سی کتاب نظر آتی ، میں کس کو  اس خیال سے اٹھا لیتا  کہ یہ شاید شیعوں کا نام نہاد قرآن ہو ۔ لیکن جلد ہی میرا یہ خیال  بھاپ بن کر ہوا میں اڑ گیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ محض جھوٹا  الزام ہے جو شیعوں  پر اس لیے لگایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ان سے نفرت ہوجائے ۔لیکن بہر حال  ایک قابل اعتراض کتاب ضرور موجود ہے  اور اس کی وجہ سے شیعوں پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس کتاب کا نام ہے : فصل الخطاب  فی اثبات تحریف کتاب ربّ الارباب " اس کے مولف کا نام محمد تقی نوری طبرسی (متوفی سنہ ۱۳۲۰) ہے ۔یہ شخص شیعہ تھا ۔ معترضیں  یہ چاہتے  ہیں کہ اس کتاب کی ذمہ داری شیعوں پر ڈالدی جائے ۔لیکن یہ بات بعید از انصاف  ہے ۔

کتنی ہی ایسی کتابیں لکھی کئی ہیں جو صرف  اپنے مصنف یا مؤلف کے سوا کسی کی رائے کی نمائندہ گی نہیں کرتیں ۔ ان کتابوں میں ہرقسم  کی کچی پکی باتیں  اور غلط صحیح مضامین  ہوتے  ہیں ۔ اور یہ کوئی شیعوں  کی خصوصیت نہیں سب فرقوں  میں اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔بلکہ یہ الزام تو اہل سنت پر زیادہ چسپان ہوتا ہے ۔(۱) اب  کیا یہ درست ہوگا کہ ہم قرآن اور زمانہ جاہلیت کے اشعار سے متعلق مصر کے سابق وزیر تعلیم عمید الادب العربی ڈاکٹر طہ حسین  کی تحریروں کی ذمہ داری اہل سنت پر ڈال دیں ؟

یا قرآن میں کمی بیشی سے متعلق  ان  راوایات کی ذمہ  جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم موجود  ہیں اہل اہل سنت پر ڈال دیں؟

اس سلسلے میں جامع ازہر کے شریعت کا لج کے پرنسپل پروفیسر مدنی نےبڑی

-----------------------

(۱):- فصل الخطاب کی توشیعوں کے یہاں کوئی حیثیت نہیں ۔البتہ سنیوں کے یہاں قرآن میں کمی بیشی کی راوایات ان کی معتبر ترین کتابوں بخاری ،مسلم وغیرہ میں موجود ہیں ۔

۲۶۸

اچھی بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :

"یہ کہنا کہ شیعہ امامیہ اس کے قائل ہیں کہ موجودہ قرآن میں معاذاللہ کچھ کمی ہے ، تو یہ نہایت لغو بات ہے ۔ ان کی کتابوں میں کچھ  ایسی روایات ضرور ہیں لیکن ایسی روایات تو ہماری کتابوں میں بھی ہیں ۔مگر فریقین کے اہل تحقیق نے ان روایات کو ناقابل اعتبار اور وضعی کہا ہے ۔ جس طرح اہل سنت میں کوئی قرآن مجید میں کمی بیشی کا قائل نہیں اسی طرح اثناعشری شیعوں اورزیدی شیعوں میں بھی کوئی اس کا بھی قائل نہیں "۔

جو کوئی اس طرح کی روایات  دیکھنا چاہے وہ سیوطی کی الاتقان فی علوم القرآن میں دیکھ سکتا ہے ۔

سنہ ۱۴۹۸ ء میں ایک مصری نے ایک کتاب لکھی تھی جس کانام الفرقان  ہے اس کتاب میں اس نے اس قسم کی بہت سی موضوع اور ناقابل اعتبار روایات سنیوں کی کتابوں سے نقل کی ہیں ۔ جامعہ ازہر نے اس کتاب کی روایات  کےبطلان اور فساد کو علمی دلائل سے ثابت کرنے کے بعد حکومت سےمطالبہ کیا کہ اس کتاب کو ضبط کرلیا جائے ۔چنانچہ حکومت مصر نے یہ مطالبہ منظور کرکے کتاب کو ضبط کرلیا ۔ کتاب کےمصنف نے معاوضے کے لیے دعوی دائر کیا لیکن کونسل آف اسٹیٹ کی عدالتی کمیٹی نےیہ دعوی مسترد کردیا ۔

کیا ایسی کتابوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت قرآن کے تقدس کے منکر ہیں یا چونکہ فلاں شخص نے ایسی روایت بیان کی ہے یا ایسی کتاب لکھی ہے اس لیے اہل سنت قرآن میں نقص کے قائل ہیں ؟ یہی صورت شیعہ امامیہ کے ساتھ ہے  ۔جس طرح ہماری بعض کتابوں میں کچھ روایات ہیں ، اسی طرح ان کی بعض کتابوں میں بھی کچھ روایات ہیں ۔ اس بارے میں علامہ شیخ ابو الفضل  بن حسن طبرسی  جو چھٹی صدی ہجری کے بہت بڑے شیعہ عالم تھے  ، اپنی کتاب مجمع البیان فی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں : اس بات پر تو سب کا اتفاق  ہےکہ قرآن  میں کوئی زیادتی نہیں

۲۶۹

ہوئی ۔جہاں تک کمی کا تعلق کہے ،تو ہمارے ایک گروہ کا اور اہل سنت میں حشویہ  کایہ کہنا ہے کہ قرآن میں کمی ہوئی  ہے لیکن ہمارے اصحاب کا صحیح مذہب اس کے خلاف  ہے ۔ اسی کی تائید سید مرتضی علم الھدی (سنہ ۴۳۶ ھ) نے کی ہے اور اس مسئلہ  پر بڑی تفصیل کے ساتھ مسائل الطرابلسیات کے جواب میں کئی جگہ  روشنی ڈالی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

" یہ قرآن بالکل صحیح نقل  ہوتا چلا آیا ہے ، اس کا ہمیں ایسا ہی یقین ہےجیسا کہ مختلف ملکوں کے وجود کا یقین ، بڑے بڑے واقعات کا یقین ، مشہور کتابوں کا یقین اور عربوں  کے اشعار کا یقین ،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قرآن کی نقل میں بہت احتیاط  سےکام لیا گیا ہے ۔ متعدد وجوہ  سےیہ ضروری  تھا کہ قرآن کو نقل کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی  پر خاص توجہ دی جائے : کیونکہ قرآن رسول اللہ ص کا معجزہ ہے اور علوم شرعیہ اور احکام دینیہ کا ماخذ ہے ۔مسلمان علماء نے قرآن شریف کی حفاظت اور حمایت  میں انتہائی کوشش صرف کی ہے ۔ انھیں ہر اختلافی معاملے کا مکمل  علم ہے :جیسے  اعراب کا اختلاف  ، مختلف  قرائتیں  ، قرآن شریف  کے حروف  اور آیات کی تعداد ۔ان تمام امور پر اس قدر دل وجان سے توجہ اور احتیاط کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کے کسی حصے کو بدل دیا جائے یا حذف کردیا جائے "(۱)

ہم ذیل میں کچھ  روایات پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین  کرام ! آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ قرآن میں کمی بیشی کی تمہمت اہل سنت پر زیادہ چسپاں ہوتی ہے اور آپ کویہ بھی معلوم ہوجائے کہ اہل سنت کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو دوسروں سے منسوب کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ مجھے اپنے تمام عقائد پرنظر ثانی

-------------------------

(۱):- رسالہ الاسلام شمارہ ۴ جلد۱۱ میں پروفیسر مدنی شریعت کالج جامعہ الازھر کا مقالہ ۔

۲۷۰

کرنی پڑی ، کیونکہ میں جب بھی کسی بات پر شیعوں پر نکتہ چینی یا اعتراض کرتا تھا شیعہ یہ ثابت کردیتے تھے  کہ یہ کمزوری ان میں نہیں بلکہ اہل سنت میں ہے اور مجھے جلد معلوم ہوجاتا کہ شیعہ سچ کہتے ہیں ۔ وقت گزرنے اور بحث ومباحثہ کے نتیجے میں بحمداللہ مجھے اطمینان حاصل ہوگیا ہے ۔ شاید آپ کو بھی یہ معلوم کرنے کا شوق ہو کہ اہل سنت کی اپنی کتابوں سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت قرآن میں تحریف اور کمی زیادتی کے قائل ہیں تو لیجیے سنئے :

 طبرانی اور بیہقی کی روایت ہے کہ قرآن میں دو سورتیں ہیں  :

ایک یہ ہے :

"بسم الله الرّحمان الرّحيم. إنانستعينك ونستغفرك ونستعينك ونستغفرك ونثنّى عليك الخيركلّه ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك."

دوسری سورت یہ ہے :

" بسم الله الرّحمان الرّحيم. أللهمّ إيّاك نعبدولك نصلّى ونسجدوإليك نسعى ونحفدنرجوارحمتك ونخشى عذابك إنّ عذابك بالكافرين ملحقٌ."

ان دونوں سورتوں کو ابو القاسم حسین بن محمد المعروف بہ راغب اصفہانی (سنہ ۵۰۲ ھ)نے محاضرات الادباء میں  قنوت  کی سورتیں کہا ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب ان ہی سورتوں  کودعائے قنوت کے طور پ ر پڑھتے تھے ۔ یہ دونوں سورتیں ابن عباس کے مصحف اور زید بن ثابت کے مصحف میں موجود تھیں(۱)

امام احمد بن حنبل شیبانی (سنہ ۲۴۱ھ) نے اپنی کتاب مسند میں ابی بن کعب  سےروایت کی ہے کہ  :" ابی بن کعب نے پوچھا کہ سورہ احزاب تم کتنی پڑھتے ہو ؟

----------------------

(۱):- سیوطی الاتقان  فی علوم القرآن ۔ الدر المنثور فی التفسیر بالماثور

۲۷۱

 کسی نے کہا : ستر سے کچھ اوپر آیتیں ہیں ۔ابی بن کعب نے کہاکہ میں نے یہ سورت رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھی ہے ، یہ سورہ بقرہ کے برابر یا اس سے بھی کچھ بڑی ہے ، اسی میں آیہ رجم ہے(۱)

اب آپ دیکھیے کہ یہ دونوں سورتیں جو سیوطی کی اتقان اور درمنثور میں  موجود ہیں اور جن کے متعلق طبرانی اور بہیقی نے روایت بیان کی ہے اور جن کو قنوت کی سورتیں کہا ہے ان کا کتاب اللہ میں کہیں کوئی وجود نہیں ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ ان سورتوں  کی حدتک جو مصحف ابن عباس  اور مصحف زید بن ثابت  میں موجود تھیں ،  ناقص ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصحف کے علاوہ جو ہمارے پاس ہے اور بھی کئی مصحف تھے ۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ اہل سنت طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ  مصحف فاطمہ س کے قائل ہیں  ۔اب دیکھ لیجیے !

اہل سنت یہ دونوں سورتیں ہر روز صجح کو دعائے قنوت میں پڑھتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دونوں سورتیں زبانی یاد تھیں اور میں فجر کے وقت دعائے قنوت میں پڑھا کرتا تھا ۔ دوسری روایت جو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ  احزاب تین چوتھائی کم ہے ، کیونکہ سورہ بقرہ میں ۲۸۶ آیات ہیں جبکہ موجودہ سورہ احزاب میں صرف ۷۳ آیات ہیں ۔اگر ہم حزب کے اعتبار سے شمار کریں تو سورہ بقرہ  پانچ سے زیادہ احزاب پر مشتمل ہے جبکہ  سورہ احزاب صرف ایک حزب شمار ہوتی ہے (ایک حزب تقریبا نصف پارے کا ہوتا ہے )

حیرت کا مقام ہےکہ ابی بن کعب یہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ص کے ساتھ سورہ احزاب پڑھا کرتا تھا ، یہ سورت ، سورہ بقرہ کے مساوی یا اس سے کچھ زیادہ بڑی

--------------------

(۱):- احمد بن حنبل مسند جلد ۵صفحہ ۱۳۲

۲۷۲

تھی ۔ یہ ابی بن کعب زمانہ نبوی کے مشہور ترین قاریوں میں سے ہیں ۔ حافظ قرآن تھے ، خلیفہ ثانی نے نماز تراویح کی  امامت کے لیے انھی کا انتخاب کیا تھا(۱) ۔ ان کے اس قول سے شک بھی پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ ظاہر  ہے حیرت بھی ہوتی ہے ۔ امام احمد بن جنبل نے اپنی مسند میں ابی بن کعب سے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ :" رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قرآن پڑھ کر سناؤں  ۔چنانچہ آپ نے"لم يكن الّذين كفروامن أهل الكتاب" سے پڑھنا شروع کیا اس میں آپ نے یہ بھی پڑھا :

"ولوا أنّ ابن آدم سال وادياً مّن مّالٍ فأعطيه لسال ثانياً فلوسال ثالثاً ولايملأ جوف ابن آدم إلّا التراب ويتوب الله على من تاب وإنّ ذلك الدين القيم عندالله." (۲)

حافظ ابن عساکر   کے حالات  کے ضمن میں روایت  بیان کی ہے کہ

"ابو الدرداء چند اہل دمشق کے ساتھ مدینہ گئے ، وہاں عمربن خطاب کے سامنے یہ آیت پڑھی :"إن جعل الّذين كفروا في قلوبهم الحمية حميّة الجاهلية ولوحميتهم كما حموا لفسدالمسجدالحرام."

عمر بن خطاب نے پوچھا : تمھیں یہ قراءت کس نے سکھائی ہے  ۔ ان لوگوں نےکہا :ابی بن کعب نے ۔ عمر نے ان کو بلایا ۔

--------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۲۵۲

(۲):- امام احمد بن حنبل  ،مسند جلد ۵ صفحہ ۱۳۱

۲۷۳

جب وہ آگئے  تو ان لوگوں سے کہا : اب پڑھو ، انھوں نے پھر اسی طرح پڑھا :

"ولو حميتم كما حموا لفسدالمسجد الحرام." ابی بن کعب نے کہا کہ ہاں  یہ میں نے ان کو پڑھا یا ہے عمربن خطاب نے زید بن ثابت سے کہا : زید تم  پڑھو ! زید نے وہی معمول کی قراءت  کے مطابق تلاوت کی ۔ عمر نے کہا مجھے بھی بس یہی قراءت  معلوم ہے اس پر ۔ ابی بن کعب ن ےکہا کہ عمر آپ جانتے ہیں کہ میں رسول اللہ ص کی خدمت میں رہتا تھا اور یہ عائب ہوتے تھے ، میں  رسول اللہ ص کے قریب تھا  یہ دور تھے ۔ آپ چاہین تو واللہ میں اپنے گھر میں گوشہ نشین   ہوجاؤں ، پھر نہ کسی سے بات کروں گا نہ مرتے دم تک کسی کو پڑھاؤں گا ۔عمر نے کہا : اللہ مجھے معاف کرے ! ابی تم جانتے ہو کہ اللہ نے تمھیں علم عطا کیا ہے ، تو جو کچھ تمھیں معلوم  ہے لوگوں کو سکھاؤ ۔

کہتے ہیں ایک دفعہ ایک لڑکا حضرت عمر کے سامنے سے گزرا ، وہ قرآن میں دیکھ کر پڑھ رہا تھا :

"النبيّ أولى بالمومنين من أنفسهم وأزواجه امّهاتهم وهو أبٌ لّهم"

حضرت عمر نے کہا: لڑکے اسکو کاٹ دو ۔ لڑکے نے جواب دیا یہ ابی بن کعب کا مصحف ہے ۔ جب وہ لڑکا ابی بن کعب کے پاس پہنچا تو ان سے جاکر اس آیت کے بارے میں پوچھا ۔ ابی نے کہا : مجھے تو قرآن میں مزا آتا تھا تم بازاروں تالیاں بجاتے پھرتے ہو ۔(۱)

-------------------

(۱):- ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشسق جلد ۲ صفحہ ۲۲۸

۲۷۴

ایسی ہی روایات ابن اثیر نے جامع الاصول میں ، ابو داوؤد نے اپنی سنن میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کی ہے ۔

قارئین کرام! اب کی دفعہ یہ میں آپ پر چھوڑتاہوں کہ آپ ان روایات پر کیا تبصرہ کرتے ہیں ۔ ایسی روایات سے اہل سنت کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ۔ وہ شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی کتابوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔

ممکن ہے کہ اہل سنت  میں سے  بعض ضدی  طبیعت کے لوگ حسب عادت ان روایات کا انکار کردیں  اور امام احمد بن حنبل پر اعتراض کریں کہ انھوں نے ایسی  ضعیف  سند کی روایات  کو اپنی کتاب میں شامل کیا ۔ ممکن ہے کہ وہ  یہ بھی کہیں کہ  مسند امام احمد اہل سنت کے نزدیک صحاح  میں شامل نہیں ہے ۔  میں اہل سنت کی عادت خوب جانتا ہوں ۔ جب بھی میں ان کتابوں  سے کوئی ایسی حدیث  پیش کرتاتھا جو شیعوں کے لیے  برہان قاطع ہوتی تویہ سنی  بھاگ نکلتے تھے  اور ان کتابوں پر اعتراض کرنے لگے تھے جن کو وہ خود صحاح ستّہ  کہتے ہیں یعنی صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابنی داؤد ، سنن نسائی  اور سنن ابن ماجہ ۔ بعض  لوگ ان کتابوں  کے ساتھ  سنن دارمی ، موطاء مالک اور مسند امام احمد  کو بھی صحاح میں شامل سمجھتے ہیں ۔

میں چند ایسی ہی  روایت ان ضدی لوگوں کو گھر تک پہنچانے  کے لیے  صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے پیش کرتاہوں شاید ان کی حقیقت تک رسائی  ہوسکے اور شاید وہ حقیقت  کو بغیر کسی تعصب کے قبول لرکیں ۔

امام بخاری  نے اپنی صحیح میں(۱) باب مناقب عمار وحذیفہ رضی اللہ عنہما میں علقمہ سے روایت کی ہے ، وہ کہتے  ہیں ۔" جب میں دمشق پہچا تو میں نے وہاں پہنچ کر دورکعت نماز پڑھی اور پھر دعا کی کہ " اے اللہ ! مجھے کوئی نیک اور اچھا ہمنشین عطا

-------------------

(۱):-صحیح  بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۱۵

۲۷۵

کردے " ۔ اس کے بعد میں کچھ  لوگوں کے پاس جاکر بیٹھا تو وہاں ایک بڑے میاں تشریف لے آئے ۔وہ آکر میرے پہلو میں بیٹھ گئے ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟  معلوم ہوا کہ ابوالدرداء میں میں نے ان سے کہا کہ میں نے دعا کی تھی کہ کوئی نیک اور اچھا ہمنشین مل جائے ، اللہ میاں نے آپ کو بھیج دیا ۔ انھوں نے مجھ  سے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں اہل کوفہ سے ہوں ۔ انھوں نے کہا : کیا تمھارا یہاں ابن ام عبد(۱) نہیں ہیں جن کے پاس رسول اللہ ص کے نعلین آپ کا بچھونا  اورآپ کا لوٹا تھا ؟اور تمھارے یہاں ہو بھی تو ہیں جن کے متعلق خود رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ نے انھیں شیطان سے بچالیا ہے(۲) ۔ اور کیا تمھارے  یہاں ہو بزرگ نہیں جو رسول اللہ ص کے راز دارتھے(۳) جن کو وہ راز معلوم تھے جو اور کسی کو معلوم نہیں تھے ۔  پھر کہنے لگے : عبداللہ اس آیت کو کیسے پڑھتے  ہیں :"والّليل إذايغشى"؟

میں نے پڑھ کرسنایا :" والّليل إذايغشى  والنهارإذا تجلّى والّكروالأنثى." نیز یہ کہا :" مجھے رسول اللہ نے منہ در منہ ہی پڑھایا تھا "۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہے :" یہ لوگ میرے پیچھے لگے رہے ۔ یہ مجھ سے ہو چیز  چھڑانا چاہتے تھے  جو میں نے رسول اللہ ص سے سنی تھی"۔(۴)

ایک روایت میں ہے کہ

" والّليل إذايغشى  والنهارإذا تجلّى والّكروالأنثى." یہ رسو ل اللہ ص نے مجھے بالمشافہہ بٹھا کر

--------------------

(۱):- عبداللہ بن مسعود

(۲):- عمار یاسر

(۳):- حذیفہ یمانی (ناشر)

(۴):- صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۱۶

۲۷۶

پڑھایا ہے ۔(۱)

ان تمام روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو قرآن اب ہمارے پاس ہے  اس میں وماخلق کا لفظ اضافہ ہے ۔

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عباس  سے روایت  بیان کی ہے کہ عمربن الخطاب  کہتے تھے ۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کی مبعوث کیا اور ان پر کتاب نازل فرمائی ، اس  میں آیت رجم بھی تھی ، ہم نے اس آیت کو پڑھا  ، سمجھا ، یاد کیا  چنانچہ رسول اللہ ص نے بھی رجم کی سزا دی  ۔آپ کے بعد ہم نے بھی سنگسار کی ۔ میں ڈرتا  ہوں کہ اگر اسی طرح وقت گزرتارہا  تو کوئی کہیں یہ نہ کہہ دے : ہمیں تو رجم کی آیت کتاب اللہ میں  ملتی ہی نہیں ۔ اور اس طرح اللہ کے حکم کو جو اللہ نے نازل کیا ہے  ، ترک کرکے لوگ گمراہ نہ ہوجائیں ۔ رجم کی سزا  برحق ہے اگرکوئی  شادی شدہ مردیا عورت  زنا کرے تو اسے یہ سزادی جائے گی بشرطیکہ ثبوت موجود ہو یا حمل رہ جائے یا مجرم اقرارکرلے ۔

اس کے علاوہ ہم کتاب اللہ میں ایک اور آیت بھی پڑھا  کرتے تھے  جو اس طرح تھی :

"ولاترغبوا عن أبائكم فإنّه كفرٌ بكم أن ترغبوا عن آبائكم" ۔یا اس طرح تیھ کہ :

"إنّ كفراً بكم أن ترغبوا عن آبائكم." (۲)

امام مسلم نے اپنی صحیح میں(باب لوان لابن آدم واديين لايبتغی

-------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۱۸  باب مناقب عبداللہ بن مسعود ۔

(۲):- صحیح بخاری جلد ۸ باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت

۲۷۷

الثا ً میں)ایک روایت بیان کی ہے کہ

ابو موسی اشعری نے بصرہ  کے قاریوں کو بلا یا تو تین سو آدمی آئے جنھوں نے قرآن پڑھا ہوا تھا ۔ ابو موسی نے کہا : آپ لوگ بصرہ کے بہتر ین آدمی ہیں ، آپ نے قرآن پڑھا ہے ۔ آپ اس آیت سے قرآن پڑھ کر سنائیں :

"لايطولنّ عليكم الأمد فتقسوقلوبكم كما قست قلوب من كان قبلكم"

ابو موسی اشعری نے بھی کہا کہ ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم طوالت اور اس کے سخت لب ولہجہ کے لحاظ سے سورہ براءۃ  کے ساتھ  تشبیہ دیا کرتے تھے ۔ اب میں وہ بھول  گیا ہوں ، لیکن اس میں سے اتنا بھی یاد ہے :

"لوكان لإبن آدم واديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولايملاُ جوف ابن آدم إلّا التراب."

اور ہم نے ایک اور سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم کہتے تھے کہ یہ سورت  مسبحات(۱) میں سے کسی ایک سورت کے برابر ہے ، وہ بھی میں بھول گیا ہوں ، اس میں سے اتنا البتہ یا د ہے :

"ياأيّها الذين آمنوا لم تقولون مالاتفعلون فكتب شهادةً فى أعناقكم فتسئلون عنها يوم القيامة"

یہ دو فرضی سورتیں جو ابو موسی بھول گئے تھے ان میں ایک بقول ان کے براءت کے برابر تھی ۔ یعنی ۱۲۹ آیات کی اور دوسری مسبحات میں سے کسی کے برابر تھی ۔ دوسرے لفظوں میں تقریبا ۲۰ آیات کے برابر ۔ ان دونوں

-------------------------

(۱):-وہ سورتیں جو سبحان ، سبّح ، یسبح ،یا سبّح  سے شروع ہوتی ہیں ۔جیسے سورہ اسراء حدید، سورہ حشر ، سورہ جمعہ  ، سورہ تغابن ، اور سورہ اعلی ،(ناشر)

۲۷۸

سورتوں کا جود صرف ابو موسی اشعری کے ذہن میں تھا ۔ قارئین کرام ! اب آپ کو اختیار ہے  ، یہ سب پڑھ کر اور سن کر آپ حیرت سے ہنسیں یا روئیں ۔

جب اہل سنت کی کتابیں اور احادیث کے معتبر مجموعے اس طرح کی راوایات  سے پر ہیں جسن میں کبھی دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن ناقص ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس میں اضافہ کردیا گیا ہے ، پھر یہ شیعوں پر اعتراض کیسا جن کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسے سب دعوے غلط اور باطل ہیں ؟

اگر فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب کے مصنف نے جو سنہ ۱۳۲۰ ھ میں فوت ہوا ، اب سے تقریبا سوسال پہلے اپنی کتاب لکھی تھی ، تو اس سے پہلے الفرقان کا مصنف مصر میں چارسو برس ہوئے اپنی کتاب لکھاچکا تھاجیسا کہ شیخ محمد مدنی پرنسپل  شریعہ کالج جامعہ ازھر کا بیان ہے(۱) ۔ہوسکتا ہے کہ شیعہ مصنف نےسنی مصنف کی کتاب  الفرقان پڑھی ہو ، جس نے اپنی کتاب  میں وہ تمام روایات جمع  کردی تھیں  جو اہل سنت کی صحاح میں آئی ہیں ۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس کتاب کو جامعہ ازھر کی درخواست پر مصری حکومت نے ضبط کرلیا تھا ۔یہ تو معلوم ہے کہ" الانسان حريص علی مامنع منه" کے بمصداق  جس چیز سے منع کیا جاتا ہے اس کا دگناشوق پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ کتاب گو مصر میں ممنوع تھی لیکن دوسرے اسلامی ممالک میں ممنوع نہیں تھی ۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ فصل الخطاب جو چارسو برس بعد لکھی گئی الفرقان ہی کا چربہ ہو یا بغل بچہ ہو ۔ اس تمام بحث  میں اہم بات یہ ہے کہ سنی اور شیعہ علماء اور محققین  نے اس طرح کی روایات  کو باطل اور شاذ کہا ہے اور اطمینا ن بخش دلائل  سے ثابت کای ہے کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے ،وہ بعینہ وہی قرآن ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا ۔ اس میں نہ کوئی کمی بیشی ہے اور نہ کوغی تغیر وتبدل ، پھر ان روایات کی بنیاد پر جو خود ان کے نزدیک ساقط الاعتبار ہیں ۔ یہ

--------------------

(۱):- رسالہ الاسلام شمارہ ۴ جلد ۱۱ صفحہ ۳۸۲ ۔۳۸۳

۲۷۹

اہل سنت کیسے شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور خود کو بری الذمہ ٹھہراتے ہیں جبکہ ان کی صحاح ان روایات کی صحت کو ثابت کرتی ہیں ۔ مسلمانو! یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا ۔ سچ کہا ہے سیدنا عیسی علیہ السلام نے : "یہ لوگ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں مگر انھیں انپی آنکھ کاشیہتری نظر نہیں آتا " میں اس طرح کی راویات کا ذکر بڑے افسوس کےساتھ کررہا ہوں کیونکہ آج ضرورت اس ام کی ہے کہ ہم ان کے بارےمیں  سکوت اختیار کریں اور انھیں خاموشی سے رد ی کی ٹوکری کے حوالے کردیں ۔ کاش بعض مصنفین جو سنت رسول کی پیروی کے مدعی ہیں شیعوں  پررکیک  حملے نہ کرتے ۔کچھ معروف  ادارے شیعوں کی تکفیر کرنے میں ان مصنفین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انھیں سرمایہ فراہم کرتے ہیں ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے تو اس طرح کی کاروائیاں  اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ میں ان سے صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔"واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكروا نعمة الله عليكم إذ كنتم أعداء فألف بين قلوبكم فأصبحتم بنعمته إخوانا"

۲۸۰

جمع بین الصلاتین

جن باتوں پر شیعوں  پر اعتراض کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے  ہیں ۔ اہل سنت جب اس سلسلے میں شیعوں  پر اعتراض کرتے ہیں تو عموما اس طرح کی تصویر کھینچتے ہیں گویا ہو خود نماز کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " مومنین پر نماز وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے ۔

اہل سنت اکثر شیعوں کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ نماز کی پروا نہیں کرتے اور اس طرح خدا ورسول ص کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ۔

اس سے پہلے کہ ہم شیعوں کے حق میں یا ان کے خلاف کوئی فیصلہ کریں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس موضوع کا ہر پہلو سے جائزہ لیں ،  طرفین  کے اقوال اور دلائل  سنیں اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ جلد بازی میں کسی کسی کے خلاف کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کربیٹھیں ۔

اہل سنت کا اس  پر تو اتفاق ہے کہ 9 ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جائیں ، اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی جائیں ،اسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ۔ یہاں تک تو شیعہ  سنی کیا تمام ہی فرقوں کا اتفاق ہے ۔

شیعہ سنی اختلاف اس میں ہے کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں پورے سال سفر کے عذر کے بغیر بھی جمع کرنی جائز ہیں ؟ حنفی حضرات صریح نصوص کے باوجود نمازیں جمع کرنے کی اجازت کے قائل  نہیں حتی کہ سفر کی حالت  میں بھی نمازیں اکٹھی پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اس طرح حنفیوں کاطرز عمل اس اجماع امت کے خلاف ہےجس پر شیعوں اور سنیوں

دونوں کا اتفاق ہے ۔

۲۸۱

لیکن مالکی ، شافعی اور حنبلی سفر کی حالت میں تو دو فرض نمازوں کے اکٹھا پڑھ لینے کے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن ان میں ان میں اس پر اختلاف ہے کہ کیا خوف ،بیماری بارش وغیرہ کے عذر  کی وجہ سے بھی دونماز وں کا اکٹھا پڑھ لینا جائز ہے ۔شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جمع بین الصلاتین  مصطلقا جائز ہے اور اس کے لیے سفر ، بیماری یا خوف وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ۔ وہ اس سلسلے میں ائمہ اہل بیت کی ان روایات پر عمل کرتے ہیں جو شیعہ کتابوں میں موجود ہیں ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شیعہ موقف کو شک کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ جب بھی اہل سنت ان کے طریقے کے خلاف کوئی دلیل پیش کرتے ہیں وہ اسے یہ کہہ کر  رد کردیتے ہیں کہ انھیں تو ائمہ اہل بیت نے خود تعلیم دی ہے اور ان کی تمام مشکلات  کو حل کیا ہے ۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ان ائمہ معصومین کی پیروی کرتے ہیں جو قرآن وسنت کا پورا علم رکھے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ  میں نے پہلی مرتبہ جو ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں وہ  شہید محمد باقر صدر کی امامت میں پڑھی تھیں ۔ ورنہ اس سے قبل میں نجف میں بھی ظہر اور عصر کی نمازیں الگ الگ ہی پڑھا کرتاتھا ۔ آخر وہ مبارک دن بھی آگیا جب میں آیت اللہ صدر کے ساتھ ان کے گھر سے اس مسجد میں گیا جہاں وہ اپنے مقلدین کو نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ ان کے مقلدین نے میرے لیے احتراما عین ان کے پیچھے جگہ چھوڑدی ۔ جب ظہر کی نماز ختم ہوگئی اور عصر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میری جی نے کہا اب یہاں سے نکل چلو ۔ لیکن میں دووجہ سے ٹھہرارہا ۔ ایک تو سید صدر کی ہیبت تھی ۔جس خشوع سے وہ نماز پڑھا رہے تھے ،میرا دل چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھا تے ہی رہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جس جگہ میں تھا وہ جگہ اور سب نمازیوں کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھی ۔مجھے ایسا محسوس  ہورہاتھا جیسے کسی زبردست طاقت نے مجھے ان کے ساتھ باندھ دیا ہو ۔نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ ان سے سوالات  پوچھنے  کے لیے امنڈ پڑے  میں ان کے پیچھے بیٹھا ہوا لوگوں کےسوال اور ان کے جواب سنتا رہا ۔بعض سوال جواب

۲۸۲

بہت آہستہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آئے ۔لیکن مجھے شرم  آرہی تھی ۔میں ان  پر اور ۔زیادہ بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد وہ مجھے کھانا کھلانے کے لیے اپنے گھر لےگئے ۔ وہاں جاکر مجھے معلوم ہوا کہ اس دعوت کاخاص مہمان اور میر محفل میں ہی ہوں ۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے جمع بین الصلاتین کے بارے میں دریافت کیا ۔

آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے جواب دیا ۔ ہمارے یہاں ائمہ معصومین علیھم السلام سے بہت سی روایات ہیں کہ رسول اللہ ص نے یہ نماز پڑھی یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا ۔ اوریہ نماز یں خوف یا سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ امت سے حرج دورکرنے کے لیے اکٹھی پڑھیں ۔

میں :- میں حرج کا مطلب نہیں سجمھا ۔قرآن شریف میں بھی ہے :

"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"

سید صدر :- اللہ سبحانہ کو ہر شے کا علم ہے ۔اسے معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں وہ چیزیں ہوںگی جنھیں ہمارے یہاں پبلک ڈیوٹیز کہا جاتا ہے پھر اس طرح کی سرکاری ملازمتیں : جیسے گارڈ ، پولیس ،  لویز ، فوج ،پبلک اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ،حتی کہ طلبہ اور اساتذہ بھی ۔ اگر دین ان سب کو پانچ متفرق اوقات میں نماز پڑھنے کا پابند کرے ، تویقینا ان کے لیے  تنگی اورپریشانی ہوگی ، اس لیے رسول اللہ ص کے پاس وحی آئی کہ وہ دو فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھا دیں  تاکہ نماز کے اوقات پانچ کے بجائے  تین ہوجائیں ،یہ صورت مسلمانوں کے لیے زیادہ سہل تھی اور اس میں کوئی حرج یعنی تنگی بھی نہیں ہے ۔ میں : لیکن سنت نبوی قرآن کو تو منسوخ نہیں کرسکتی ۔

سید صدر:- میں نے کب کہا کہ سنت نے قرآن کو منسوخ کردیا ۔لیکن اگر کسی چیز کو سمجھنے میں دقت ہو تو سنت قرآن کی تفسیر وتوضیح تو کرسکتی ہے ۔

میں :- اللہ سبحانہ کہتاہے کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

۲۸۳

كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اور مشسہور حدیث مین ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ کے پاس آئے اور آپ نے دن رات میں  پانچ وقت نماز پڑھی ۔ اسی پر ان نمازوں  کے نام ظہر ، عصر ، مغرب ،عشاء اور فجر رکھے گئے ۔

سید صدر :- :" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

کی تفسیر رسول اللہ نے دو طرح سے کی ہے ۔ الگ الگ نمازوں سے بھی اور جمع بین الصلاتین سے بھی ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پانچ نمازیں پانچ مختلف  اوقات میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔اور تین  اوقات میں بھی جمع کی جاسکتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں وہ صحیح وقت پر ادا ہوںگی ۔

میں :- قبلہ ! میں سمجھا نہیں ۔ اللہ تعالی نے پھر" كِتَابًا مَّوْقُوتًا " کیوں کہا ہے ؟

سید صدر : (مسکراتے ہوئے ) آپ کا خیال ہے ، مسلمان حج میں وقت پرنماز نہیں پڑھتے ؟ کیا وہ اس وقت احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کے لیے اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ ص کی پیروی میں جمع ہوتے ہیں ۔

میں نے ذرا سوچ کر کہا : شاید عذر کی وجہ سے ہو حجاج تھا جاتے ہیں اس لیے اللہ نے اس موقع پر ان کے لیے کچھ سہولت کردی ۔

سید صدر:- یہاں بھی اللہ تعالی نے اس امت کے متاخرین  سے تنگی دورکردی اوردین کو آسان بنادیا ۔

میں :- آپ ابھی کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے  نبی کے پاس وحی بھیجی کہ دو وقت کی فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھائیں تاکہ نمازوں کے وقت پانچ کے بجائے تین ہوجائیں ۔ تو یہ اللہ نے کس آیت میں کہا ہے ؟

سید صدر نے فورا جواب دیا : کون سی آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول  کو حکم دیا ہے کہ وہ دونمازیں عرفات میں اور دومزدلفہ میں جمع کریں ، اور پانچ وقتوں کہ کس آیت میں ذکر ہے ؟

میں اس دفعہ خاموش ہوگیا ، کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ میں مطمئن ہوچکا تھا ۔

۲۸۴

سید صدر نے مزید کہا : اللہ تعالی اپنے نبی کو جووحی بھیجتا ہے ،ضروری نہیں کہ وہ قرآن میں ہی ہو اور وحی متلو ہی ہو :

" قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً "

آپ کہہ دیجیے کہ اگر سب سمندر میرے پروردگار کی باتون کے لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائیں گے مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی  اگر چہ ہم ایسا ہی سمندر اس کی مدد کے لیے آئیں ۔ (سورہ کہف ۔آیت 109)

جسے ہم سنت نبوی کہتے ہیں ، وہ بھی وحی الہی ہی ہے ، اسی لیے اللہ سبحانہ نے کہا ہے :

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"

جس چیز کا رسول ص تمھیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ۔

باالفاظ دیگر ۔ جب رسول اللہ صحابہ کو کسی کام کا حکم دیتے تھے یا کسی کام سے منع کرتے تھے تو صحابہ کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ آپ  پر کوئی اعتراض  کرتے یا آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ کلام اللہ کی کوئی آیت پیش کریں ۔ وہ آپ کے حکم کی تعمیل  سمجھ کر کرتے تھے  کہ آپ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وحی الہی ہوتا ہے ۔

سید باقر صدرنے ایسی ایسی باتیں بتلائیں کہ میں حیران رہ گیا ۔اس سے پہلے میں ان حقائق سے ناواقف تھا ۔

میں نے جمع بین الصلاتین  کے موضوع سے متعلق ان سے مزیدپوچھا : قبلہ! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان دونمازیں ضرورت کی صورت میں جمع کرلے ؟

"دو نمازوں کا جمع کرنا ہرحالت میں جائز ہے ، ضرورت ہو یانہ ہو "۔

۲۸۵

میں نے کہا : اس کے لیے آپکے پاس دلیل  کیا ہے؟

انھوں نےکہا : اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے مدینہ میں دو فرض نمازوں کو جمع کیا ہے اور اس وقت آپ سفر میں نہ تھے ۔ نہ کوئی خوف تھا نہ بارش ہورہی تھی اور نہ کوئی ضرورت تھی ، صرف ہم لوگوں سےتنگی رفع کرنے کے لیے آپ نے دونمازوں کو اکٹھا پڑھا ۔ اور یہ بات ہمارے یہاں ائمہ اطہار کے واسطے سے بھی ثابت ہے اورآپ کے یہاں ثابت ہے ۔

مجھے بہت تعجب ہوا : ہائیں ! ہمارے یہاں کیسے ثابت ہے ۔ میں نے آج تک نہیں سنا ! اورنہ میں نے اہل سنت والجماعت کو ایسا کرتے دیکھا ۔بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اکر اذان  سے ایک منٹ پہلے بھی نماز پڑھ لی جائے تو نماز باطل ہے ،چہ جائیکہ  گھنٹوں پہلے عصر کی نماز ظہر کے ساتھ یا عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھ  لی جائے ۔ یہ بات بالکل  غلط معلوم ہوتی ہے ۔

آیت اللہ صدر  میری حیرت کو بھانپ گئے ۔ انھوں نے ایک طالب علم کو آہستہ سے کچھ کہا ۔ وہ اٹھ کر پلک جھپکتے میں دو کتابیں لےآیا ۔ معلوم ہوا کہ ایک صحیح بخاری ہے ،دوسری صحیح مسلم ۔آقائے صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ وہ مجھے جمع بین الفریضتین  سے متعلق  احادیث دکھائے ۔میں نے خود صحیح بخاری میں  پڑھا کہ رسول اللہ ص نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو اور اسی طرح مغرب اور عشاء  کی نمازوں کو جمع کیا ۔ صحیح مسلم میں تو بغیر خوف ، بغیر بارش اور بغیر سفر کے دونمازوں  کوجمع کرنے  کے بارے میں پوراایک باب ہے ۔

میں اپنے تعجب  اور حیرت  کو تو چھپا نہ سکا ۔مگر پھر بھی مجھے کچھ شک ہوا کہ شاید بخاری  اور مسلم جو ان کے پاس ہیں ان میں کچھ جعل سازی کی گئی ہے میں  نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ تیونس جاکر میں ان کتابوں کو پھر دیکھوں گا ۔

آیت اللہ سیدمحمد باقر صدر  رح  نے مجھ سے پوچھا : اب کہیے کیا خیال ہے ؟

میں نے کہا:آپ حق پر ہیں اورجو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں ۔ لیکن میں آپ سے ایک بات اور پوچھناچاہتاہوں ۔

۲۸۶

"فرمائیے " ، انھوں نے کہا ۔

میں نے کہا : کیا چاروں نمازوں کا جمع کرنا بھی جائز ہے ؟ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں ، جب رات کو کام پر سے گھر واپس آتے ہیں ، تو ظہر ،عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازین قضا پڑھ لیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا: یہ تو جائز نہیں ، البتہ مجبوری کی بات دوسری ہے کیونکہ مجبوری میں بہت سی باتیں جائز ہوجاتی ہیں ، ورنہ تو نماز کا وقت مقرر ہے" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

میں آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ رسول اللہ ص نے نمازیں الگ الگ  بھی پڑھی ہیں اور ملا کر بھی پڑھی ہیں اور اسی سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ نمازوں کے اوقات کون سے ہیں ۔

اس پر انھوں نےکہا : ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت مشترک ہے اور یہ وقت زوال آفتاب سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک رہتا ہے ۔مغرب اور عشاء کا وقت بھی مشترک ہے جو غروب  آفتاب سے نصف شب تک رہتا ہے ۔ فجر کی نماز کا وقت الگ ہے جو طلوع فجر سے دن نکلنے تک ہے(1) ۔ جو اس کے خلاف کرے گا ۔ وہ اس آیت کریمہ کی خلاف ورزی کرے گا کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اس لیے یہ ممکن  نہیں کہ ہم مثلا  صبح  کی نماز طلوع فجر نہیں ظہر اور عصر کی نماز زوال سے پہلے  یا غروب آفتاب کے بعد پڑھیں یا مغرب اورعشاء کی نمازیں غروب سےپہلے یا آدھی رات کے بعد پڑھیں ۔

میں نے آقائے صد ر کا شکرییہ ادا کیا ، گو مجھے ان کی باتوں سے پورا اطمینان ہوگیا تھا ، لیکن میں نے نمازوں کو جمع کرنا اس وقت شروع کیا جب میں تیونس  واپس آکر تحقیق اورمطالعہ میں پوری طرح مشغول ہوگیا اور میری آنکھیں

--------------------

(1):-" أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ " (سورہ بنی اسرائیل ۔آیت 78)۔(ناشر )

۲۸۷

کھل گئیں ۔

جمع بین الصلاتین کےبارے میں شہید صدر سے جو میری گفتگو رہی ، یہ اس کی داستان ہے اور یہ داستان میں نے دو وجہ سے بیان کی ہے :

ایک تویہ کہ میرے اہل سنت بھائیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو علما ء واقعی انبیاء کے وارث ہیں ان کا اخلاق کیسا  ہوتا ہے ۔

دوسرے یہ بھی احساس ہوجائے کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ ہماری حدیث کی معتبر  کتابوں میں کیا لکھا ہوا ہے ۔ ہم ایسی باتوں پر دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں جن کی صحت کے ہم خود قائل ہیں اور جن کو ہم  صحیح سنت نبوی تسلیم کرتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان باتوں کا  مذاق اڑاتے ہیں جن پر خود رسول اللہ ص نے عمل کیا تھا اور اس کے باوجود دعوی ہمارا یہ ہے کہ ہم اہل سنت ہیں :

میں پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتاہوں ۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں شیعوں کے اقوال کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوگا کیونکہ وہ اپنے  ہر عقیدے اور عمل کی سند ائمہ اہل بیت  ع سے لاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ نسبت صحیح نہ ہو ۔ لیکن ہم اپنی صحاح میں تو شک نہیں کرسکتے  ، ان کی صحت تو ہمیں تسلیم ہے اوراگر ہم ان میں بھی شک کرنے لگے تو میں نہین کہہ سکتا کہ پھر ہمارے پاس دین میں سے کچھ باقی بچے گا بھی  کہ نہیں !

اس لیے تحقیق کرنے والے کے لیےضروری ہےکہ وہ انصاف سے کام لے اور تحقیق سے اس کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہو۔ اس طرح امید ہےک ہ اللہ تعالی ضرور صراط  مستقیم  کی طرف رہنمائی کرے گا ، اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اسے جنت النعیم میں داخل کرے گا ۔ اور یہ ہیں وہ روایات جو جمع بین الصلاتین کے بارے میں علمائے اہل سنت نے بیان کی ہیں ۔ ان کو پڑھ کر آپ کو یقین ہوجائے گا کہ جمع بین الصلاتین کوئی شیعہ بدعت نہیں ہے :

<> امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ

۲۸۸

رسول اللہ ص نےجب وہ مدینے میں مقیم تھے ،مسافر نہیں تھے  سات اورآٹھ  رکعتیں پڑھیں ۔(1)

<>امام مالک نے موطاء میں ابن عباس  سے روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ :

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں  اکٹھی پڑھیں اور مغرب اور عشاء کی اکٹھی ۔(2)

<>صحیح مسلم باب الجمع  بین الصلاۃ فی الحضر میں ابن عباس سے  روایت ہے کہ:

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور مغرب اورعشاء کی اکٹھی ۔

<>صحیح مسلم میں ابن عباس ہی سے  روایت ہے کہ  رسول اللہ ص نے مدینہ میں بغیر خوف اوربغیر بارش کے ظہر ،عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ رسول اللہ ص نے ایساکیوں کیا ؟ ابن عباس نے کہا : اپنی امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ۔

<>اسی باب میں صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جمع بین الصلاتین کی سنت صحابہ میں مشہور تھی ۔ اور اس  پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے ۔

<>صحیح مسلم کے اسی باب کی روایت ہے کہ :

ایک روز ابن عباس نے عصر کے بعد خطبہ دیا ۔ ابھی ان کا خطبہ جاری تھا کہ سورج ڈوب گیا ، ستارے نکل آئے ، لوگ بے چین ہو کر الصلاۃ ، الصلاۃ پکارنے لگے ۔ بنی تمیم میں سے

--------------------

(1):- امام احمد بن حنبل مسند جلد 1 صفحہ 221

(2):- امام مالک  موطاء ،شرح الحوالک جلد 1 صفحہ 160

۲۸۹

ایک گستاخ شخص الصلاۃ ،الصلاۃ کہتا ہوا ابن عباس تک پہنچ گیا ۔ ابن عباس نے کہا : تیری ماں مرے، تو مجھے سنت سکھاتا ہے ! میں نے رسول اللہ ص کو ظہر اور  عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے دیکھا ہے "۔

<>ایک اورروایت میں ہے کہ :

"ابن عباس نے اس شخص سے کہاں تیری ماں مرے ، تو ہمیں نماز سکھاتا ہے ۔ ہم رسول اللہ ص کے زمانے میں جمع الصلاتین کیا کرتے تھے "۔(1)

<>باب وقت المغرب میں صحیح بخاری کی روایت ہے ،جابر بن زید کہتےہیں کہ ابن عباس کہتے تھے کہ

"رسول اللہ ص نے سات رکعتیں اکٹھی اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں "(2)

<>اسی طرح بخاری نے باب وقت العصر میں روایت کی ہےکہ ابو امہ کہتے تھے :

"ہم نے عمر بن عبدالعزیز کےساتھ ظہر کی نماز پڑھی ،پھر ہم وہاں سے نکل کر انس بن مالک کے پاس پہنچے ۔دیکھا تو عصر  کی نماز پڑھ لی ؟ کہنے لگے عصر کی ، اور یہ رسول اللہ ص کی نماز ہے جو ہم رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھا کرتے تھے "۔(3)

اہل سنت کی صحاح کی احادیث کے اس مختصر  جائزے کے بعد ہم پوچھنا چاہیں گے کہ ان روایات کے ہوتے ہوئے اہل سنت آخر شیعوں کو برا بھلا کیوں

-----------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 151۔152 باب الجمع بین الصلاتین

(2):-صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 140 باب وقت المغرب

(3):- صحیح بخاری جلد1 صفحہ باب وقت العصر

۲۹۰

کہتے ہیں اور ان پرکیوں اعتراض کرتے ہیں ۔ہم پھر حسب عادت وہی بات کہیں گے کہ اہل سنت کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں اور ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی صحت کے خود قائل ہیں ۔ہمارے شہر قفصہ میں ایک دن امام صاحب نمازیوں کے درمیان کھڑے ہو کر ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہم پر لعن طعن کرتے ہوئے کہتے لگے : "تم نے دیکھا ان لوگوں نے کیا دین نکالا ہے ۔ ظہر کی نماز کے فورا بعد عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ یہ دین محمدی نہیں ہے کوئی نیادین ہے ۔یہ قرآن کے خلاف کرتے ہیں ۔قرآن تو کہتا ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " غرض امام صاحب نے کوئی ایسی گالی نہ چھوڑیں جو انھوں نے ان لوگوں کو نہ دی ہو جو نئے نئے شیعہ ہوئے تھے ۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جس نے شیعہ مذہب قبول کرلیا تھا ،ایک دن میرے پاس آیا اور بڑے رنج وافسوس کے ساتھ امام صاحب کی باتیں میرے سامنے دہرائیں ۔میں نے اسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم دیں اور اس سے کہا کہ امام صاحب کو جاکر بتاؤ کہ جمع بین الصلاتین درست ہے اور سنت نبوی ہے میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میں امام صاحب کے پاس جاؤں گا نہیں ، کیونکہ میں ان سےجھگڑنا نہیں چاہتا ، ایک دن  میں نے ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ سنجیدہ  بحث کرنی چاہی تھی مگر وہ گالیوں  پر اتر آئے اور غلط سلط الزامات لگانے لگے ۔ اس گفتگو میں اہم بات یہ تھی کہ میرے اس دوست نے ابھی تک ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی ترک  نہیں کی تھی ۔ جب نماز کے بعد امام صاحب حسب معمول درس کے لیے بیٹھے  ،میرے دوست نے بڑھ کر ان سے جمع بین الصلاتین کے متعلق سوال کیا ۔

امام صاحب نے کہا :یہ شیعوں کی نکالی ہوئی بدعت ہے !

میرے دوست نےکہا: لیکن یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ثابت ہے ۔

امام صاحب جھٹ سے بولے : بالکل غلط ۔میرے دوست نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم نکال کر انھیں دیں۔ انھوں نے باب الجمع بین الصلاتین پڑھا ۔ میرا دوست کہتا ہے کہ جب انھیں ان نمازیوں کے سامنے

۲۹۱

جو ان کا درس سنا کرتے تھے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ چکرائے اور انھوں نے کتابیں بند کرکے مجھےواپس کردیں اورکہنے لگے کہ "یہ رسول اللہ ص کی خصوصیت تھی جب تم رسول اللہ ص کے درجے پر پہنچ جاؤگے  اس وقت اس طرح نماز پڑھنا " ۔میرا دوست سمجھ گیا یہ جاہل متعصب شخص ہے اور اس دن سے میرے دوست نے ان کے پیچھے نماز  پڑھنی چھوڑدی ۔

قارئین کرام! دیکھیے  تعصب کیسے آنکھوں کو اندھا کردیتا ہے اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتا ہے ، پھر حق سجھائی نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ"عنز ۃولو طارت" تھی تو بکری ہی ،اڑگئی تو کیا ہوا ۔(1)

میں نے اپنے دوست سے کہا کہ تم امام صاحب کے پاس ایک دفعہ پھر جاکر انھیں بتلاؤ کہ ابن عباس اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح انس مالک اور دوسرے صحابہ بھی پڑھتے تھے، تو پھر اس میں رسول اللہ ص کی کیا خصوصیت  ہوئی ؟

لیکن میرے دوست نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس کی ضرورت نہیں ، امام صاحب کبھی نہیں مانیں گے خواہ رسو ل اللہ ص خود ہی کیوں نہ آجائیں ۔

رسول اللہ ص کا آنا توخیر ناممکن بات ہے مگر اس سے اس تلخ حقیقت کا اظہار ہوتا ہے جس کو اللہ عزوجل  نے سورہ روم میں اس طرح بیان کیا ہے ۔

" فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ () وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ "

--------------------

(1):-کہتے ہیں ،دوآدمی شکار کے لیے نکلے ۔دورسے کوئی سیاہ چیز دکھائی دی ۔ ایک نے کہا کہ یہ کوا ہے ۔ دوسرے نے کہا : نہیں بکری ہے ۔دونوں اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ قریب پہنچے تو کوا پھڑا پھڑا کر اڑ گیا ۔ پہلے شخص  نےکہا : دیکھا میں نہیں کہتاتھا کہ کوا ہے ، اب مان گئے ؟ لیکن اس کا دوست پھر بھی نہ مانا ۔کہنے لگا :

"بھائی ! تھی تو بکری ہی ،مگر اڑنے والی بکری تھی ۔"

۲۹۲

آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلے جارہے ہوں ۔ اور آپ اندھوں کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے ۔ آپ صرف ان کو سنا سکتے ہیں جوہماری نشانیوں پر ایمان لائے ہوں اور انھیں مانتے ہوں ۔(سورہ روم ۔آیت52- 53)

الحمد اللہ کہ بہت سے نوجوان جمع بین الصلاتین کی حقیقت سے واقف ہو کے بعد دوبارہ نماز  پڑھنے لگے ، نہیں تو وہ نماز ہی چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ وہ وقت پر تو نماز پڑھ نہیں سکتے تھے ۔ رات کو چار وقت کی اکٹھی  نماز پڑھتے بھی تھے تو دل کو اطمینان نہیں ہوتا تھا ۔ اب ان کی سمجھ میں آیا  کہ جمع بین الصلاتین  میں کیا حکمت ہے ۔جمع بین الصلاتین کی صورت میں سب ملازمت پیشہ ،طلبہ اور عوام نماز  وقت پر ادا کرسکتے ہیں اور ان کا دل مطمئن رہتا ہے ۔ رسول اللہ ص کے ارشاد کا مطلب کہ"کی لا اٌحرج اُمّتی " (میں اپنی امت کو ضیق میں نہ ڈالوں )ان کی سمجھ میں آگیا تھا ۔

خاک پر سجدہ

شیعوں کا اس پر اتفاق ہے کہ زمین پر سجدہ افضل ہے ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع سے ان کے جد رسول اللہ ص کا قول نقل کرتے ہیں کہ" أفضل السّجود على الأرض"

سجدہ زمین پر افضل ہے  ۔ایک اور روایت میں ہے کہ"لايجوزالسجود إلّا على الأرض أومآ أنبتت الأرض غيرماءكولٍ وّلاملبوس ٍ." سجدہ جائز نہیں ہے مگر زمین پر یا اس چیز پر جو زمین سے اگی ہو مگر نہ کھائی جاتی ہو اور نہ پہنی جاتی ہو ۔

۲۹۳

صاحب وسائل الشیعہ محدّث حر عاملی نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے کہ ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ امام جعفر الصادق  علیہ السلام نے فرمایا ہے :

"السجود على الأرض أفضل لانّه أبلغ في النّواضع والخضوع لله عزّوجلّ.

زمین پر سجدہ افضل ہے کیونکہ اس سے انتہائی تواضع اور خشوع وخضوع  کا اظہار ہوتاہے ۔ ایک اور روایت میں اسحاق بن فضل کہتے ہیں کہ : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا چٹائیوں پر اور سرکنڈوں  سےبنے ہوئے بوریوں پن سجدہ جائز ہے ؟ آپ نےکہا : کوئی حرج نہیں ۔مگر میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ زمین پرسجدہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ ص کو یہ بات پسند تھی کہ آپ کی پیشانی زمین پر ہو ۔ اور میں تمھارے لیے وہی بات پسند کرتاہوں جو رسول اللہ ص کو پسند تھی ۔

مگر علمائے اہل سنت قالین یا دری وغیرہ بھی بھی سجدہ میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ اگر چہ ان کے نزدیک بھ افضل  یہ ہے کہ چٹائی پر سجدہ کیاجائے ۔ بخاری اور مسلم کی بعض روایات بتلاتی ہیں کہ رسول اللہ ص کے پاس کجھورکے

پتوں اور مٹی سے بنی ہوئی نہایت چھوٹی سی جانماز تھی جس پر آپ سجدہ کیا کرتے تھے ۔

صحیح مسلم کتاب الحیض میں عن قاسم بن محمد عن عائشہ کے حوالے سے روایت ہے  ۔ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ص نے مجھے  سے کہا کہ ذرا یہ خمرہ مجھے مسجد سے اٹھادینا ۔میں نے کہا : مجھے  توماہوری آرہی ہے  آپ نے فرمایا :تمھاری ماہواری تمھارے ہاتھ میں تھوڑا ہی ہے۔(1) (مسلم کہتے ہیں کہ خمرہ کا مطلب ہے چھوٹی سی جانماز

--------------------

(1):-صحیح مسلم جلد اول باب جواز غسل الحائض راس زوجہا ۔سنن ابی داؤد جلد 1 باب الحائض تناول من المسجد

۲۹۴

اتنی چھوٹی کہ بس اس پر سجدہ کیا جاسکے ۔)

بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ص زمین پن سجدہ کرناپسند فرماتے تھے ۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف  کیا کرتے تھے  ۔ایک سال آپ نے اعتکاف  کیا ۔جب اکیسویں کی شب ہوئی  اوریہ وہ رات تھی جس کی صبح کوآپ  اعتکاف  سے نکلنے والے تھے ، اس رات آپ نے کہا :

"جس نے میرے  ساتھ اعتکاف  کیا ہو وہ رمضان  کے آخری دس دنوں کا بھی اعتکاف کرے ۔میں نے وہ رت (لیلۃ القدر) دیکھی  تھی  پھر مجھے بھلادی گئی۔ میں نے دیکھا تھا کہ میں اس رات کی  صبح  کو گیلی مٹی پر سجدہ کررہاہوں  ۔اس لیے  تم اسے آخری دس راتوں  میں اور طاق راتوں میں تلاش کرو "۔ اس کے بعد اس رات  بارش ہوئی ۔ مسجد کجھور  کی ٹہنیوں  اور پتوں کی تو تھی ہی ٹپکنے لگی۔ میری آنکھوں نے 21 کی صبح کو رسول اللہ ص کی پیشانی  پر گیلی مٹی کا نشان دیکھا ۔(1)

صحابہ بھی خود رسول اللہ ص  کی موجودگی میں زمین پرہی سجدہ کرنا پسند کرتے تھے ۔ امام نسائی نے اپنی سنن میں روایت بیان کی ہے کہ :

جابر بن عبداللہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ص کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے ۔ میں ایک مٹھی کنکریاں ٹھنڈی کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتا تھا پھر دوسرے ہاتھ میں لے لیتا تھا ۔جب سجدہ کرتا تو انھیں وہاں رکھ دیتا جہاں  پیشانی رکھنی ہوتی ۔(2) اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :

-------------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 باب الاعتکاف فی العشر الاواخر۔

(2):- سنن امام نسائی جلد 2 باب تبرید الحصی للسجود علیہ ۔

۲۹۵

"جعلت لى الأرض مسجدًا وّطهورًا."

میرے لیے تمام زمین سجدہ کرنے اور پاک کرنے کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔(1)

" جعلت لنا الأرض كلّهامسجدًا وّجعلت تربتها لنا طهورًا."

ہمارے لیے تمام زمین سجدہ گاہ اور اس کی خاک پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے ۔(2)

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان شیعوں کے خلاف اس لیے ضد رکھتے ہیں کہ شیعہ قالینوں کے بجائے مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ۔؟

یہاں تک  کیسے نوبت پہنچی  کہ شیعوں  کی تکفیر کی گئی ،انھیں برابھلا کہا گیا اور ان پر بہتان باندھا گیا کہ کہ ہو بت پرست ہیں ۔

اگر شیعوں کی جیب  یا سوٹ  کیس میں سے خاک کربلا کی ٹکیہ(3) نکل آئے تو اتنی  سی بات پر شیعوں  کو سعودی عرب میں زدوکوب کیاجاتا ہے ؟

---------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 1 کتاب التیمم ۔

(2):-صحیح مسلم جلد 4 کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ۔

(3):-آیت اللہ العظمی  آقائے خوئی البیان فی تفسیر القرآن  میں فرماتے ہیں :

"شیعہ عقیدے  کی رو سے امام حسین  علیہ السلام  کی قبر کی خاک بھی اللہ کی اسی وسیع  وعریض زمین کا ایک حصہ ہے جسے اس نے اپنے پیغمبر کے لیے ظاہر  مطہر اورجائے  سجود قراردیا ہے ۔ تاہم کیسی طاہر اور مقدس ہے وہ خاک جو جگر گوشہ رسول ص کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور جس میں جوانان بہشت کے سردار آرام فرمارہے  ہیں ! اس خاک کے پہلو میں وہ عظیم ہستی محوخواب ہےجس نے اپنے فرزندوں ،عزیزوں اور وفادارساتھیوں  کو راہ خدا میں قربان کردیا ۔ یہ خاک ! خاک کربلا انسانوں  کو راہ خدا میں جاں  بازی اور فداکاری کا سبق سکھاتی ہے ،انھیں شرافت وفضیلت کا درس دیتی ہے اور ایک عدیم النظیر جگر دوز

۲۹۶

کیا یہی  وہ اسلام ہےجو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کلمہ گو موحد مسلمان کی جو نماز پڑھتا  ہو ، زکواۃ دیتا ہو ، رمضان  کے روزے رکھتا ہو اور بیت اللہ کاحج کرتا ہو ۔ توہین نہ کریں ۔ کیا کوئی شخص بقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ اگر بعض لوگوں کا یہ الزام درست ہوتا کہ شیعہ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں تو کوئی شیعہ اتنی تکلیف اٹھاکر اور اتنا مالی بوجھ برداشت کرکے حج بیت اللہ اور زیارت قبر رسول ص کے لیے آتا ؟

کیا اہل سنت آیت اللہ سید محمد باقر صدر شہید کے اس قول سےمطمئن نہیں ہوسکتے ،جو میں نے اپنی پہلی کتاب "ثم اھتدیت " (تجلّی ) میں نقل کیا ہے کہ جب میں نے ان سے خاک کربلا پر سجدے کرے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ : "ہم مٹی پر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ مٹی پر سجدہ کرنے میں اور مٹی کو سجدہ کرنے میں فرق ہے "

اگر شیعہ احتیاط کرتے ہیں کہ ان کا سجدہ  پاک جگہ پر ہو اور عنداللہ مقبول ہو تو وہ رسول اللہ اور ائمہ اطہار کے حکم  کی تعمیل کرتے ہیں ۔ خصوصا ہمارے زمانے میں جب سب مساجد میں موٹے موٹے روئیں دار قالینوں کے فرش بچھ گئے ہیں ، ان

-------------------

تاریخی واقعے  کی یاد ذہن انسانی میں تازہ کرتی ہے ۔ انھی وجوہ کی بنا پر اس خاک کی ایک خاص اہمیت اور عظمت ہے اور اس پر سجدہ کرنا شرعا صحیح ہے ۔ اس سب کے علاوہ خاک کربلا کی فضیلت میں متعدد روایات  رسول اکرم ص سے منقول  ہیں جو شیعہ اور سنی دونوں ذرائع سے آتی ہیں "۔

استاد شہید مرتضی مطہّری اپنی کتاب شہید میں فرماتے ہیں :

"جب رسول اللہ ص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا س کو مشہور تسبیحات (34 بار اللہ اکبر 33بار الحمدللہ اور 33بار سبحان اللہ )پڑھنے کو کہا تو وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی  قبر پر گئیں  اور تسبیح تیار کرنے کے لیے وہاں سے کچھ مٹی حاصل کی ۔ان کے اس فعل کی کیا اہمیت ہے ؟ اس کی اہمیت یہ ہے کہ شہید  کی قبر متبرک ہے اور اس کے ارد گرد کی مٹی بھی متبرک ہے ۔انسان کو تسبیحات  پڑھنے  کے لیے ایک تسبیح  کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد  کے لیے پتھر ، لکڑی اور مٹی کی بنی ہوئی تسبیح استعمال  کی جاسکتی ہے لیکن ہم شہید کی قبر کے پاس کی مٹی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس سے ہمارا مقصد شہید کی تعظیم  بجالاتا ہوتا ہے "۔(ناشر)

۲۹۷

قالینوں میں سے بعض کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاجاتا ہے جس سے عام مسلمان ناواقف ہیں ۔ یہ قالین مسلمان  ملکوں کے بنے ہوئے بھی نہیں ہوتے ، اس لیے ممکن ہے کہ ان میں سے بعض  کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاگیا  ہو جو جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس شیعہ  کو جو نماز  کی صحت کا اہتمام  کرتا ہوں ، دھتکاریں اور محض بے بنیادشبہ کی وجہ سے اس پر کفر وشرک کا الزام لگائیں ؟

 شیعہ جو دینی امور میں خیال رکھتا ہے خصوصا نماز کا جو دین کاستون ہے اور اس کا اتنا اہتمام کرتا ہے کہ نماز کے وقت اپن پیٹی اتاردیتا ہے ،گھڑی بھی اتاردیتا ہے کیونکہ اس کا تسمہ چمڑے  کا ہے جس کی اصل معلوم نہیں ۔ بعض اوقات پتلون اتار کر ڈھیلا ڈھالا پاجامہ پہن لیتا ہے اور یہ سب احتیاط اور اہتمام اس لیے کرتا ہے کہ اسے نماز میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ اپنے رب کے سامنے اس حال میں جائے کہ اس کے رب کو اس کی کوئی بات ناپسند ہو ۔

کیا ایسا شیعہ اس بات کامستحق ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے ، اس سے نفرت کی جائے ؟ وہ تو اس قابل ہے کہ اس کا احترام کیا جائے ، اس کی تعظیم کی جائے کیونکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے جو تقوی کی بنیاد ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کہو !

اگر تم پر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا دنیا  میں بھی اور آخرت میں بھی ، تو جس مشغلے  میں تم پڑے تھے اس میں تم پرسخت  عذاب نازل ہوتا ۔ اس وقت جب تم اس کو اپنی زبانوں سے دہرارہے تھے اور اپنے منہ سے  وہ کچھ  کہہ رہے تھے جس کا تمھیں علم نہیں تھا اور تم اس کو معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی ۔(سورہ نور ۔آیت 15)

۲۹۸

رجعت

رجعت ان مسائل میں سے ہے جن کے صرف شیعہ قائل ہیں ۔

میں نے حدیث کی کتابوں میں ڈھونڈا مگر مجھے اس کا کہیں ذکر نہیں ملا ۔ بعض صوفی عقائد میں البتہ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق مغیبات سے ہے ۔ جو ان باتوں کو نہ مانے وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ ایمان نہ ان امور کے ماننے پر موقوف ہے نہ ان پر اعتقاد سے ایمان  کی تکمیل ہوتی ہے ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے سے نہ کوئی نفع ہوتا ہے نہ نقصان ۔ یہ صرف روایات ہیں جن کو شیعہ ائمہ اطہار  ع سے روایت کرتے ہیں کہ

"اللہ سبحانہ ،بعض مومنین اور بعض مجرمین مفسدین کو زندہ کرے گا تاکہ مومنین آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اپنے دشمنوں سے انتقام لیں ۔"

اگر یہ روایتیں صحیح ہیں ۔ اورشیعوں کے نزدیک تو یہ صحیح اور متواتر ہیں ۔جب بھی یہ اہل سنت کو پابند نہیں بناتیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ان پر اعتقاد رکھنا اس لیے واجب ہے کہ اہل بیت ع نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ہر کز نہیں ۔کیونکہ ہم نے بحث میں انصاف اور بے تعصبی کا عہد کیا ہوا ہے ۔

اس لیے ہم اہل سنت کو انھی روایات کا پابند سمجھتے ہیں جو ان کی اپنی حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ چونکہ رجعت کی احادیث ان کی اپنی کتابوں میں نہیں آئی ہیں اس لیے وہ ان کو قبول نہ کرنے میں آزاد ہیں اور یہ بھی جب ہے ، جب کوئی شیعہ ان روایات کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرے ۔

لیکن شیعہ کسی کو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہیں کرتے اورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جو رجعت کا قائل ہونے  پر مجبور نہیں کرتے اور نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ رجعت کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ اس لیے  کوئی وجہ نہیں کہ شیعہ ، جو

۲۹۹

رجعت کے قائل ہیں ان کو اس قدر برابھلا کہا جائے اور ان کے خلاف اس قدر شوروغوغا برپا کیا جائے !

شیعہ  مسئلہ رجعت کا ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثابت ہیں اور جن کی تائید بعض آیات سے بھی ہوتی ہے ،جیسے "

" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ "

اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان کی صف بندی کی جائے گی۔(سورہ نمل ۔آیت 83)

تفسیر قمی میں ہے کہ "

امام جعفر صادق ع نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً " ؟ حمّاد کہتے ہیں کہ میں نے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق روزقیامت سے ہے ۔ امام نے کہا : یہ بات نہیں ،یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے ، قیامت میں کیا اللہ تعالی ہر امت میں سے صرف  ایک ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا اور باقی کو چھوڑ دے گا ؟

قیامت کے بارے میں دوسری آیت ہے :

" وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً "

اور ہم ان سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ۔(سورہ کہف ۔آیت 47)

شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ میں ہے : اہل بیت علیھم السلام سے جو روایات آئی ہیں ان کی بنا پر شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مردوں میں سے کچھ کو اسی دنیا میں زندہ کرے گا، ان کی شکلیں وہی ہوں گی جو ان کی زندگی میں تھیں ۔پھر ان میں سے ایک گروہ کو عزت دے گا اور ایک گروہ

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328