حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63660 / ڈاؤنلوڈ: 7515
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

جمع بین الصلاتین

جن باتوں پر شیعوں  پر اعتراض کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے  ہیں ۔ اہل سنت جب اس سلسلے میں شیعوں  پر اعتراض کرتے ہیں تو عموما اس طرح کی تصویر کھینچتے ہیں گویا ہو خود نماز کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " مومنین پر نماز وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے ۔

اہل سنت اکثر شیعوں کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ نماز کی پروا نہیں کرتے اور اس طرح خدا ورسول ص کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ۔

اس سے پہلے کہ ہم شیعوں کے حق میں یا ان کے خلاف کوئی فیصلہ کریں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس موضوع کا ہر پہلو سے جائزہ لیں ،  طرفین  کے اقوال اور دلائل  سنیں اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ جلد بازی میں کسی کسی کے خلاف کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کربیٹھیں ۔

اہل سنت کا اس  پر تو اتفاق ہے کہ ۹ ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جائیں ، اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی جائیں ،اسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ۔ یہاں تک تو شیعہ  سنی کیا تمام ہی فرقوں کا اتفاق ہے ۔

شیعہ سنی اختلاف اس میں ہے کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں پورے سال سفر کے عذر کے بغیر بھی جمع کرنی جائز ہیں ؟ حنفی حضرات صریح نصوص کے باوجود نمازیں جمع کرنے کی اجازت کے قائل  نہیں حتی کہ سفر کی حالت  میں بھی نمازیں اکٹھی پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اس طرح حنفیوں کاطرز عمل اس اجماع امت کے خلاف ہےجس پر شیعوں اور سنیوں

دونوں کا اتفاق ہے ۔

۲۸۱

لیکن مالکی ، شافعی اور حنبلی سفر کی حالت میں تو دو فرض نمازوں کے اکٹھا پڑھ لینے کے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن ان میں ان میں اس پر اختلاف ہے کہ کیا خوف ،بیماری بارش وغیرہ کے عذر  کی وجہ سے بھی دونماز وں کا اکٹھا پڑھ لینا جائز ہے ۔شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جمع بین الصلاتین  مصطلقا جائز ہے اور اس کے لیے سفر ، بیماری یا خوف وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ۔ وہ اس سلسلے میں ائمہ اہل بیت کی ان روایات پر عمل کرتے ہیں جو شیعہ کتابوں میں موجود ہیں ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شیعہ موقف کو شک کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ جب بھی اہل سنت ان کے طریقے کے خلاف کوئی دلیل پیش کرتے ہیں وہ اسے یہ کہہ کر  رد کردیتے ہیں کہ انھیں تو ائمہ اہل بیت نے خود تعلیم دی ہے اور ان کی تمام مشکلات  کو حل کیا ہے ۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ان ائمہ معصومین کی پیروی کرتے ہیں جو قرآن وسنت کا پورا علم رکھے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ  میں نے پہلی مرتبہ جو ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں وہ  شہید محمد باقر صدر کی امامت میں پڑھی تھیں ۔ ورنہ اس سے قبل میں نجف میں بھی ظہر اور عصر کی نمازیں الگ الگ ہی پڑھا کرتاتھا ۔ آخر وہ مبارک دن بھی آگیا جب میں آیت اللہ صدر کے ساتھ ان کے گھر سے اس مسجد میں گیا جہاں وہ اپنے مقلدین کو نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ ان کے مقلدین نے میرے لیے احتراما عین ان کے پیچھے جگہ چھوڑدی ۔ جب ظہر کی نماز ختم ہوگئی اور عصر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میری جی نے کہا اب یہاں سے نکل چلو ۔ لیکن میں دووجہ سے ٹھہرارہا ۔ ایک تو سید صدر کی ہیبت تھی ۔جس خشوع سے وہ نماز پڑھا رہے تھے ،میرا دل چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھا تے ہی رہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جس جگہ میں تھا وہ جگہ اور سب نمازیوں کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھی ۔مجھے ایسا محسوس  ہورہاتھا جیسے کسی زبردست طاقت نے مجھے ان کے ساتھ باندھ دیا ہو ۔نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ ان سے سوالات  پوچھنے  کے لیے امنڈ پڑے  میں ان کے پیچھے بیٹھا ہوا لوگوں کےسوال اور ان کے جواب سنتا رہا ۔بعض سوال جواب

۲۸۲

بہت آہستہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آئے ۔لیکن مجھے شرم  آرہی تھی ۔میں ان  پر اور ۔زیادہ بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد وہ مجھے کھانا کھلانے کے لیے اپنے گھر لےگئے ۔ وہاں جاکر مجھے معلوم ہوا کہ اس دعوت کاخاص مہمان اور میر محفل میں ہی ہوں ۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے جمع بین الصلاتین کے بارے میں دریافت کیا ۔

آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے جواب دیا ۔ ہمارے یہاں ائمہ معصومین علیھم السلام سے بہت سی روایات ہیں کہ رسول اللہ ص نے یہ نماز پڑھی یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا ۔ اوریہ نماز یں خوف یا سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ امت سے حرج دورکرنے کے لیے اکٹھی پڑھیں ۔

میں :- میں حرج کا مطلب نہیں سجمھا ۔قرآن شریف میں بھی ہے :

"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"

سید صدر :- اللہ سبحانہ کو ہر شے کا علم ہے ۔اسے معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں وہ چیزیں ہوںگی جنھیں ہمارے یہاں پبلک ڈیوٹیز کہا جاتا ہے پھر اس طرح کی سرکاری ملازمتیں : جیسے گارڈ ، پولیس ،  لویز ، فوج ،پبلک اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ،حتی کہ طلبہ اور اساتذہ بھی ۔ اگر دین ان سب کو پانچ متفرق اوقات میں نماز پڑھنے کا پابند کرے ، تویقینا ان کے لیے  تنگی اورپریشانی ہوگی ، اس لیے رسول اللہ ص کے پاس وحی آئی کہ وہ دو فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھا دیں  تاکہ نماز کے اوقات پانچ کے بجائے  تین ہوجائیں ،یہ صورت مسلمانوں کے لیے زیادہ سہل تھی اور اس میں کوئی حرج یعنی تنگی بھی نہیں ہے ۔ میں : لیکن سنت نبوی قرآن کو تو منسوخ نہیں کرسکتی ۔

سید صدر:- میں نے کب کہا کہ سنت نے قرآن کو منسوخ کردیا ۔لیکن اگر کسی چیز کو سمجھنے میں دقت ہو تو سنت قرآن کی تفسیر وتوضیح تو کرسکتی ہے ۔

میں :- اللہ سبحانہ کہتاہے کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

۲۸۳

كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اور مشسہور حدیث مین ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ کے پاس آئے اور آپ نے دن رات میں  پانچ وقت نماز پڑھی ۔ اسی پر ان نمازوں  کے نام ظہر ، عصر ، مغرب ،عشاء اور فجر رکھے گئے ۔

سید صدر :- :" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

کی تفسیر رسول اللہ نے دو طرح سے کی ہے ۔ الگ الگ نمازوں سے بھی اور جمع بین الصلاتین سے بھی ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پانچ نمازیں پانچ مختلف  اوقات میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔اور تین  اوقات میں بھی جمع کی جاسکتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں وہ صحیح وقت پر ادا ہوںگی ۔

میں :- قبلہ ! میں سمجھا نہیں ۔ اللہ تعالی نے پھر" كِتَابًا مَّوْقُوتًا " کیوں کہا ہے ؟

سید صدر : (مسکراتے ہوئے ) آپ کا خیال ہے ، مسلمان حج میں وقت پرنماز نہیں پڑھتے ؟ کیا وہ اس وقت احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کے لیے اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ ص کی پیروی میں جمع ہوتے ہیں ۔

میں نے ذرا سوچ کر کہا : شاید عذر کی وجہ سے ہو حجاج تھا جاتے ہیں اس لیے اللہ نے اس موقع پر ان کے لیے کچھ سہولت کردی ۔

سید صدر:- یہاں بھی اللہ تعالی نے اس امت کے متاخرین  سے تنگی دورکردی اوردین کو آسان بنادیا ۔

میں :- آپ ابھی کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے  نبی کے پاس وحی بھیجی کہ دو وقت کی فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھائیں تاکہ نمازوں کے وقت پانچ کے بجائے تین ہوجائیں ۔ تو یہ اللہ نے کس آیت میں کہا ہے ؟

سید صدر نے فورا جواب دیا : کون سی آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول  کو حکم دیا ہے کہ وہ دونمازیں عرفات میں اور دومزدلفہ میں جمع کریں ، اور پانچ وقتوں کہ کس آیت میں ذکر ہے ؟

میں اس دفعہ خاموش ہوگیا ، کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ میں مطمئن ہوچکا تھا ۔

۲۸۴

سید صدر نے مزید کہا : اللہ تعالی اپنے نبی کو جووحی بھیجتا ہے ،ضروری نہیں کہ وہ قرآن میں ہی ہو اور وحی متلو ہی ہو :

" قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً "

آپ کہہ دیجیے کہ اگر سب سمندر میرے پروردگار کی باتون کے لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائیں گے مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی  اگر چہ ہم ایسا ہی سمندر اس کی مدد کے لیے آئیں ۔ (سورہ کہف ۔آیت ۱۰۹)

جسے ہم سنت نبوی کہتے ہیں ، وہ بھی وحی الہی ہی ہے ، اسی لیے اللہ سبحانہ نے کہا ہے :

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"

جس چیز کا رسول ص تمھیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ۔

باالفاظ دیگر ۔ جب رسول اللہ صحابہ کو کسی کام کا حکم دیتے تھے یا کسی کام سے منع کرتے تھے تو صحابہ کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ آپ  پر کوئی اعتراض  کرتے یا آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ کلام اللہ کی کوئی آیت پیش کریں ۔ وہ آپ کے حکم کی تعمیل  سمجھ کر کرتے تھے  کہ آپ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وحی الہی ہوتا ہے ۔

سید باقر صدرنے ایسی ایسی باتیں بتلائیں کہ میں حیران رہ گیا ۔اس سے پہلے میں ان حقائق سے ناواقف تھا ۔

میں نے جمع بین الصلاتین  کے موضوع سے متعلق ان سے مزیدپوچھا : قبلہ! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان دونمازیں ضرورت کی صورت میں جمع کرلے ؟

"دو نمازوں کا جمع کرنا ہرحالت میں جائز ہے ، ضرورت ہو یانہ ہو "۔

۲۸۵

میں نے کہا : اس کے لیے آپکے پاس دلیل  کیا ہے؟

انھوں نےکہا : اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے مدینہ میں دو فرض نمازوں کو جمع کیا ہے اور اس وقت آپ سفر میں نہ تھے ۔ نہ کوئی خوف تھا نہ بارش ہورہی تھی اور نہ کوئی ضرورت تھی ، صرف ہم لوگوں سےتنگی رفع کرنے کے لیے آپ نے دونمازوں کو اکٹھا پڑھا ۔ اور یہ بات ہمارے یہاں ائمہ اطہار کے واسطے سے بھی ثابت ہے اورآپ کے یہاں ثابت ہے ۔

مجھے بہت تعجب ہوا : ہائیں ! ہمارے یہاں کیسے ثابت ہے ۔ میں نے آج تک نہیں سنا ! اورنہ میں نے اہل سنت والجماعت کو ایسا کرتے دیکھا ۔بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اکر اذان  سے ایک منٹ پہلے بھی نماز پڑھ لی جائے تو نماز باطل ہے ،چہ جائیکہ  گھنٹوں پہلے عصر کی نماز ظہر کے ساتھ یا عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھ  لی جائے ۔ یہ بات بالکل  غلط معلوم ہوتی ہے ۔

آیت اللہ صدر  میری حیرت کو بھانپ گئے ۔ انھوں نے ایک طالب علم کو آہستہ سے کچھ کہا ۔ وہ اٹھ کر پلک جھپکتے میں دو کتابیں لےآیا ۔ معلوم ہوا کہ ایک صحیح بخاری ہے ،دوسری صحیح مسلم ۔آقائے صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ وہ مجھے جمع بین الفریضتین  سے متعلق  احادیث دکھائے ۔میں نے خود صحیح بخاری میں  پڑھا کہ رسول اللہ ص نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو اور اسی طرح مغرب اور عشاء  کی نمازوں کو جمع کیا ۔ صحیح مسلم میں تو بغیر خوف ، بغیر بارش اور بغیر سفر کے دونمازوں  کوجمع کرنے  کے بارے میں پوراایک باب ہے ۔

میں اپنے تعجب  اور حیرت  کو تو چھپا نہ سکا ۔مگر پھر بھی مجھے کچھ شک ہوا کہ شاید بخاری  اور مسلم جو ان کے پاس ہیں ان میں کچھ جعل سازی کی گئی ہے میں  نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ تیونس جاکر میں ان کتابوں کو پھر دیکھوں گا ۔

آیت اللہ سیدمحمد باقر صدر  رح  نے مجھ سے پوچھا : اب کہیے کیا خیال ہے ؟

میں نے کہا:آپ حق پر ہیں اورجو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں ۔ لیکن میں آپ سے ایک بات اور پوچھناچاہتاہوں ۔

۲۸۶

"فرمائیے " ، انھوں نے کہا ۔

میں نے کہا : کیا چاروں نمازوں کا جمع کرنا بھی جائز ہے ؟ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں ، جب رات کو کام پر سے گھر واپس آتے ہیں ، تو ظہر ،عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازین قضا پڑھ لیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا: یہ تو جائز نہیں ، البتہ مجبوری کی بات دوسری ہے کیونکہ مجبوری میں بہت سی باتیں جائز ہوجاتی ہیں ، ورنہ تو نماز کا وقت مقرر ہے" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

میں آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ رسول اللہ ص نے نمازیں الگ الگ  بھی پڑھی ہیں اور ملا کر بھی پڑھی ہیں اور اسی سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ نمازوں کے اوقات کون سے ہیں ۔

اس پر انھوں نےکہا : ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت مشترک ہے اور یہ وقت زوال آفتاب سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک رہتا ہے ۔مغرب اور عشاء کا وقت بھی مشترک ہے جو غروب  آفتاب سے نصف شب تک رہتا ہے ۔ فجر کی نماز کا وقت الگ ہے جو طلوع فجر سے دن نکلنے تک ہے(۱) ۔ جو اس کے خلاف کرے گا ۔ وہ اس آیت کریمہ کی خلاف ورزی کرے گا کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اس لیے یہ ممکن  نہیں کہ ہم مثلا  صبح  کی نماز طلوع فجر نہیں ظہر اور عصر کی نماز زوال سے پہلے  یا غروب آفتاب کے بعد پڑھیں یا مغرب اورعشاء کی نمازیں غروب سےپہلے یا آدھی رات کے بعد پڑھیں ۔

میں نے آقائے صد ر کا شکرییہ ادا کیا ، گو مجھے ان کی باتوں سے پورا اطمینان ہوگیا تھا ، لیکن میں نے نمازوں کو جمع کرنا اس وقت شروع کیا جب میں تیونس  واپس آکر تحقیق اورمطالعہ میں پوری طرح مشغول ہوگیا اور میری آنکھیں

--------------------

(۱):-" أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ " (سورہ بنی اسرائیل ۔آیت ۷۸)۔(ناشر )

۲۸۷

کھل گئیں ۔

جمع بین الصلاتین کےبارے میں شہید صدر سے جو میری گفتگو رہی ، یہ اس کی داستان ہے اور یہ داستان میں نے دو وجہ سے بیان کی ہے :

ایک تویہ کہ میرے اہل سنت بھائیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو علما ء واقعی انبیاء کے وارث ہیں ان کا اخلاق کیسا  ہوتا ہے ۔

دوسرے یہ بھی احساس ہوجائے کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ ہماری حدیث کی معتبر  کتابوں میں کیا لکھا ہوا ہے ۔ ہم ایسی باتوں پر دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں جن کی صحت کے ہم خود قائل ہیں اور جن کو ہم  صحیح سنت نبوی تسلیم کرتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان باتوں کا  مذاق اڑاتے ہیں جن پر خود رسول اللہ ص نے عمل کیا تھا اور اس کے باوجود دعوی ہمارا یہ ہے کہ ہم اہل سنت ہیں :

میں پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتاہوں ۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں شیعوں کے اقوال کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوگا کیونکہ وہ اپنے  ہر عقیدے اور عمل کی سند ائمہ اہل بیت  ع سے لاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ نسبت صحیح نہ ہو ۔ لیکن ہم اپنی صحاح میں تو شک نہیں کرسکتے  ، ان کی صحت تو ہمیں تسلیم ہے اوراگر ہم ان میں بھی شک کرنے لگے تو میں نہین کہہ سکتا کہ پھر ہمارے پاس دین میں سے کچھ باقی بچے گا بھی  کہ نہیں !

اس لیے تحقیق کرنے والے کے لیےضروری ہےکہ وہ انصاف سے کام لے اور تحقیق سے اس کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہو۔ اس طرح امید ہےک ہ اللہ تعالی ضرور صراط  مستقیم  کی طرف رہنمائی کرے گا ، اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اسے جنت النعیم میں داخل کرے گا ۔ اور یہ ہیں وہ روایات جو جمع بین الصلاتین کے بارے میں علمائے اہل سنت نے بیان کی ہیں ۔ ان کو پڑھ کر آپ کو یقین ہوجائے گا کہ جمع بین الصلاتین کوئی شیعہ بدعت نہیں ہے :

<> امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ

۲۸۸

رسول اللہ ص نےجب وہ مدینے میں مقیم تھے ،مسافر نہیں تھے  سات اورآٹھ  رکعتیں پڑھیں ۔(۱)

<>امام مالک نے موطاء میں ابن عباس  سے روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ :

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں  اکٹھی پڑھیں اور مغرب اور عشاء کی اکٹھی ۔(۲)

<>صحیح مسلم باب الجمع  بین الصلاۃ فی الحضر میں ابن عباس سے  روایت ہے کہ:

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور مغرب اورعشاء کی اکٹھی ۔

<>صحیح مسلم میں ابن عباس ہی سے  روایت ہے کہ  رسول اللہ ص نے مدینہ میں بغیر خوف اوربغیر بارش کے ظہر ،عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ رسول اللہ ص نے ایساکیوں کیا ؟ ابن عباس نے کہا : اپنی امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ۔

<>اسی باب میں صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جمع بین الصلاتین کی سنت صحابہ میں مشہور تھی ۔ اور اس  پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے ۔

<>صحیح مسلم کے اسی باب کی روایت ہے کہ :

ایک روز ابن عباس نے عصر کے بعد خطبہ دیا ۔ ابھی ان کا خطبہ جاری تھا کہ سورج ڈوب گیا ، ستارے نکل آئے ، لوگ بے چین ہو کر الصلاۃ ، الصلاۃ پکارنے لگے ۔ بنی تمیم میں سے

--------------------

(۱):- امام احمد بن حنبل مسند جلد ۱ صفحہ ۲۲۱

(۲):- امام مالک  موطاء ،شرح الحوالک جلد ۱ صفحہ ۱۶۰

۲۸۹

ایک گستاخ شخص الصلاۃ ،الصلاۃ کہتا ہوا ابن عباس تک پہنچ گیا ۔ ابن عباس نے کہا : تیری ماں مرے، تو مجھے سنت سکھاتا ہے ! میں نے رسول اللہ ص کو ظہر اور  عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے دیکھا ہے "۔

<>ایک اورروایت میں ہے کہ :

"ابن عباس نے اس شخص سے کہاں تیری ماں مرے ، تو ہمیں نماز سکھاتا ہے ۔ ہم رسول اللہ ص کے زمانے میں جمع الصلاتین کیا کرتے تھے "۔(۱)

<>باب وقت المغرب میں صحیح بخاری کی روایت ہے ،جابر بن زید کہتےہیں کہ ابن عباس کہتے تھے کہ

"رسول اللہ ص نے سات رکعتیں اکٹھی اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں "(۲)

<>اسی طرح بخاری نے باب وقت العصر میں روایت کی ہےکہ ابو امہ کہتے تھے :

"ہم نے عمر بن عبدالعزیز کےساتھ ظہر کی نماز پڑھی ،پھر ہم وہاں سے نکل کر انس بن مالک کے پاس پہنچے ۔دیکھا تو عصر  کی نماز پڑھ لی ؟ کہنے لگے عصر کی ، اور یہ رسول اللہ ص کی نماز ہے جو ہم رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھا کرتے تھے "۔(۳)

اہل سنت کی صحاح کی احادیث کے اس مختصر  جائزے کے بعد ہم پوچھنا چاہیں گے کہ ان روایات کے ہوتے ہوئے اہل سنت آخر شیعوں کو برا بھلا کیوں

-----------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۱۵۱۔۱۵۲ باب الجمع بین الصلاتین

(۲):-صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۴۰ باب وقت المغرب

(۳):- صحیح بخاری جلد۱ صفحہ باب وقت العصر

۲۹۰

کہتے ہیں اور ان پرکیوں اعتراض کرتے ہیں ۔ہم پھر حسب عادت وہی بات کہیں گے کہ اہل سنت کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں اور ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی صحت کے خود قائل ہیں ۔ہمارے شہر قفصہ میں ایک دن امام صاحب نمازیوں کے درمیان کھڑے ہو کر ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہم پر لعن طعن کرتے ہوئے کہتے لگے : "تم نے دیکھا ان لوگوں نے کیا دین نکالا ہے ۔ ظہر کی نماز کے فورا بعد عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ یہ دین محمدی نہیں ہے کوئی نیادین ہے ۔یہ قرآن کے خلاف کرتے ہیں ۔قرآن تو کہتا ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " غرض امام صاحب نے کوئی ایسی گالی نہ چھوڑیں جو انھوں نے ان لوگوں کو نہ دی ہو جو نئے نئے شیعہ ہوئے تھے ۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جس نے شیعہ مذہب قبول کرلیا تھا ،ایک دن میرے پاس آیا اور بڑے رنج وافسوس کے ساتھ امام صاحب کی باتیں میرے سامنے دہرائیں ۔میں نے اسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم دیں اور اس سے کہا کہ امام صاحب کو جاکر بتاؤ کہ جمع بین الصلاتین درست ہے اور سنت نبوی ہے میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میں امام صاحب کے پاس جاؤں گا نہیں ، کیونکہ میں ان سےجھگڑنا نہیں چاہتا ، ایک دن  میں نے ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ سنجیدہ  بحث کرنی چاہی تھی مگر وہ گالیوں  پر اتر آئے اور غلط سلط الزامات لگانے لگے ۔ اس گفتگو میں اہم بات یہ تھی کہ میرے اس دوست نے ابھی تک ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی ترک  نہیں کی تھی ۔ جب نماز کے بعد امام صاحب حسب معمول درس کے لیے بیٹھے  ،میرے دوست نے بڑھ کر ان سے جمع بین الصلاتین کے متعلق سوال کیا ۔

امام صاحب نے کہا :یہ شیعوں کی نکالی ہوئی بدعت ہے !

میرے دوست نےکہا: لیکن یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ثابت ہے ۔

امام صاحب جھٹ سے بولے : بالکل غلط ۔میرے دوست نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم نکال کر انھیں دیں۔ انھوں نے باب الجمع بین الصلاتین پڑھا ۔ میرا دوست کہتا ہے کہ جب انھیں ان نمازیوں کے سامنے

۲۹۱

جو ان کا درس سنا کرتے تھے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ چکرائے اور انھوں نے کتابیں بند کرکے مجھےواپس کردیں اورکہنے لگے کہ "یہ رسول اللہ ص کی خصوصیت تھی جب تم رسول اللہ ص کے درجے پر پہنچ جاؤگے  اس وقت اس طرح نماز پڑھنا " ۔میرا دوست سمجھ گیا یہ جاہل متعصب شخص ہے اور اس دن سے میرے دوست نے ان کے پیچھے نماز  پڑھنی چھوڑدی ۔

قارئین کرام! دیکھیے  تعصب کیسے آنکھوں کو اندھا کردیتا ہے اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتا ہے ، پھر حق سجھائی نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ"عنز ۃولو طارت" تھی تو بکری ہی ،اڑگئی تو کیا ہوا ۔(۱)

میں نے اپنے دوست سے کہا کہ تم امام صاحب کے پاس ایک دفعہ پھر جاکر انھیں بتلاؤ کہ ابن عباس اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح انس مالک اور دوسرے صحابہ بھی پڑھتے تھے، تو پھر اس میں رسول اللہ ص کی کیا خصوصیت  ہوئی ؟

لیکن میرے دوست نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس کی ضرورت نہیں ، امام صاحب کبھی نہیں مانیں گے خواہ رسو ل اللہ ص خود ہی کیوں نہ آجائیں ۔

رسول اللہ ص کا آنا توخیر ناممکن بات ہے مگر اس سے اس تلخ حقیقت کا اظہار ہوتا ہے جس کو اللہ عزوجل  نے سورہ روم میں اس طرح بیان کیا ہے ۔

" فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ () وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ "

--------------------

(۱):-کہتے ہیں ،دوآدمی شکار کے لیے نکلے ۔دورسے کوئی سیاہ چیز دکھائی دی ۔ ایک نے کہا کہ یہ کوا ہے ۔ دوسرے نے کہا : نہیں بکری ہے ۔دونوں اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ قریب پہنچے تو کوا پھڑا پھڑا کر اڑ گیا ۔ پہلے شخص  نےکہا : دیکھا میں نہیں کہتاتھا کہ کوا ہے ، اب مان گئے ؟ لیکن اس کا دوست پھر بھی نہ مانا ۔کہنے لگا :

"بھائی ! تھی تو بکری ہی ،مگر اڑنے والی بکری تھی ۔"

۲۹۲

آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلے جارہے ہوں ۔ اور آپ اندھوں کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے ۔ آپ صرف ان کو سنا سکتے ہیں جوہماری نشانیوں پر ایمان لائے ہوں اور انھیں مانتے ہوں ۔(سورہ روم ۔آیت۵۲- ۵۳)

الحمد اللہ کہ بہت سے نوجوان جمع بین الصلاتین کی حقیقت سے واقف ہو کے بعد دوبارہ نماز  پڑھنے لگے ، نہیں تو وہ نماز ہی چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ وہ وقت پر تو نماز پڑھ نہیں سکتے تھے ۔ رات کو چار وقت کی اکٹھی  نماز پڑھتے بھی تھے تو دل کو اطمینان نہیں ہوتا تھا ۔ اب ان کی سمجھ میں آیا  کہ جمع بین الصلاتین  میں کیا حکمت ہے ۔جمع بین الصلاتین کی صورت میں سب ملازمت پیشہ ،طلبہ اور عوام نماز  وقت پر ادا کرسکتے ہیں اور ان کا دل مطمئن رہتا ہے ۔ رسول اللہ ص کے ارشاد کا مطلب کہ"کی لا اٌحرج اُمّتی " (میں اپنی امت کو ضیق میں نہ ڈالوں )ان کی سمجھ میں آگیا تھا ۔

خاک پر سجدہ

شیعوں کا اس پر اتفاق ہے کہ زمین پر سجدہ افضل ہے ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع سے ان کے جد رسول اللہ ص کا قول نقل کرتے ہیں کہ" أفضل السّجود على الأرض"

سجدہ زمین پر افضل ہے  ۔ایک اور روایت میں ہے کہ"لايجوزالسجود إلّا على الأرض أومآ أنبتت الأرض غيرماءكولٍ وّلاملبوس ٍ." سجدہ جائز نہیں ہے مگر زمین پر یا اس چیز پر جو زمین سے اگی ہو مگر نہ کھائی جاتی ہو اور نہ پہنی جاتی ہو ۔

۲۹۳

صاحب وسائل الشیعہ محدّث حر عاملی نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے کہ ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ امام جعفر الصادق  علیہ السلام نے فرمایا ہے :

"السجود على الأرض أفضل لانّه أبلغ في النّواضع والخضوع لله عزّوجلّ.

زمین پر سجدہ افضل ہے کیونکہ اس سے انتہائی تواضع اور خشوع وخضوع  کا اظہار ہوتاہے ۔ ایک اور روایت میں اسحاق بن فضل کہتے ہیں کہ : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا چٹائیوں پر اور سرکنڈوں  سےبنے ہوئے بوریوں پن سجدہ جائز ہے ؟ آپ نےکہا : کوئی حرج نہیں ۔مگر میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ زمین پرسجدہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ ص کو یہ بات پسند تھی کہ آپ کی پیشانی زمین پر ہو ۔ اور میں تمھارے لیے وہی بات پسند کرتاہوں جو رسول اللہ ص کو پسند تھی ۔

مگر علمائے اہل سنت قالین یا دری وغیرہ بھی بھی سجدہ میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ اگر چہ ان کے نزدیک بھ افضل  یہ ہے کہ چٹائی پر سجدہ کیاجائے ۔ بخاری اور مسلم کی بعض روایات بتلاتی ہیں کہ رسول اللہ ص کے پاس کجھورکے

پتوں اور مٹی سے بنی ہوئی نہایت چھوٹی سی جانماز تھی جس پر آپ سجدہ کیا کرتے تھے ۔

صحیح مسلم کتاب الحیض میں عن قاسم بن محمد عن عائشہ کے حوالے سے روایت ہے  ۔ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ص نے مجھے  سے کہا کہ ذرا یہ خمرہ مجھے مسجد سے اٹھادینا ۔میں نے کہا : مجھے  توماہوری آرہی ہے  آپ نے فرمایا :تمھاری ماہواری تمھارے ہاتھ میں تھوڑا ہی ہے۔(۱) (مسلم کہتے ہیں کہ خمرہ کا مطلب ہے چھوٹی سی جانماز

--------------------

(۱):-صحیح مسلم جلد اول باب جواز غسل الحائض راس زوجہا ۔سنن ابی داؤد جلد ۱ باب الحائض تناول من المسجد

۲۹۴

اتنی چھوٹی کہ بس اس پر سجدہ کیا جاسکے ۔)

بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ص زمین پن سجدہ کرناپسند فرماتے تھے ۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف  کیا کرتے تھے  ۔ایک سال آپ نے اعتکاف  کیا ۔جب اکیسویں کی شب ہوئی  اوریہ وہ رات تھی جس کی صبح کوآپ  اعتکاف  سے نکلنے والے تھے ، اس رات آپ نے کہا :

"جس نے میرے  ساتھ اعتکاف  کیا ہو وہ رمضان  کے آخری دس دنوں کا بھی اعتکاف کرے ۔میں نے وہ رت (لیلۃ القدر) دیکھی  تھی  پھر مجھے بھلادی گئی۔ میں نے دیکھا تھا کہ میں اس رات کی  صبح  کو گیلی مٹی پر سجدہ کررہاہوں  ۔اس لیے  تم اسے آخری دس راتوں  میں اور طاق راتوں میں تلاش کرو "۔ اس کے بعد اس رات  بارش ہوئی ۔ مسجد کجھور  کی ٹہنیوں  اور پتوں کی تو تھی ہی ٹپکنے لگی۔ میری آنکھوں نے ۲۱ کی صبح کو رسول اللہ ص کی پیشانی  پر گیلی مٹی کا نشان دیکھا ۔(۱)

صحابہ بھی خود رسول اللہ ص  کی موجودگی میں زمین پرہی سجدہ کرنا پسند کرتے تھے ۔ امام نسائی نے اپنی سنن میں روایت بیان کی ہے کہ :

جابر بن عبداللہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ص کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے ۔ میں ایک مٹھی کنکریاں ٹھنڈی کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتا تھا پھر دوسرے ہاتھ میں لے لیتا تھا ۔جب سجدہ کرتا تو انھیں وہاں رکھ دیتا جہاں  پیشانی رکھنی ہوتی ۔(۲) اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :

-------------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۲ باب الاعتکاف فی العشر الاواخر۔

(۲):- سنن امام نسائی جلد ۲ باب تبرید الحصی للسجود علیہ ۔

۲۹۵

"جعلت لى الأرض مسجدًا وّطهورًا."

میرے لیے تمام زمین سجدہ کرنے اور پاک کرنے کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔(۱)

" جعلت لنا الأرض كلّهامسجدًا وّجعلت تربتها لنا طهورًا."

ہمارے لیے تمام زمین سجدہ گاہ اور اس کی خاک پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے ۔(۲)

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان شیعوں کے خلاف اس لیے ضد رکھتے ہیں کہ شیعہ قالینوں کے بجائے مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ۔؟

یہاں تک  کیسے نوبت پہنچی  کہ شیعوں  کی تکفیر کی گئی ،انھیں برابھلا کہا گیا اور ان پر بہتان باندھا گیا کہ کہ ہو بت پرست ہیں ۔

اگر شیعوں کی جیب  یا سوٹ  کیس میں سے خاک کربلا کی ٹکیہ(۳) نکل آئے تو اتنی  سی بات پر شیعوں  کو سعودی عرب میں زدوکوب کیاجاتا ہے ؟

---------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۱ کتاب التیمم ۔

(۲):-صحیح مسلم جلد ۴ کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ۔

(۳):-آیت اللہ العظمی  آقائے خوئی البیان فی تفسیر القرآن  میں فرماتے ہیں :

"شیعہ عقیدے  کی رو سے امام حسین  علیہ السلام  کی قبر کی خاک بھی اللہ کی اسی وسیع  وعریض زمین کا ایک حصہ ہے جسے اس نے اپنے پیغمبر کے لیے ظاہر  مطہر اورجائے  سجود قراردیا ہے ۔ تاہم کیسی طاہر اور مقدس ہے وہ خاک جو جگر گوشہ رسول ص کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور جس میں جوانان بہشت کے سردار آرام فرمارہے  ہیں ! اس خاک کے پہلو میں وہ عظیم ہستی محوخواب ہےجس نے اپنے فرزندوں ،عزیزوں اور وفادارساتھیوں  کو راہ خدا میں قربان کردیا ۔ یہ خاک ! خاک کربلا انسانوں  کو راہ خدا میں جاں  بازی اور فداکاری کا سبق سکھاتی ہے ،انھیں شرافت وفضیلت کا درس دیتی ہے اور ایک عدیم النظیر جگر دوز

۲۹۶

کیا یہی  وہ اسلام ہےجو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کلمہ گو موحد مسلمان کی جو نماز پڑھتا  ہو ، زکواۃ دیتا ہو ، رمضان  کے روزے رکھتا ہو اور بیت اللہ کاحج کرتا ہو ۔ توہین نہ کریں ۔ کیا کوئی شخص بقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ اگر بعض لوگوں کا یہ الزام درست ہوتا کہ شیعہ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں تو کوئی شیعہ اتنی تکلیف اٹھاکر اور اتنا مالی بوجھ برداشت کرکے حج بیت اللہ اور زیارت قبر رسول ص کے لیے آتا ؟

کیا اہل سنت آیت اللہ سید محمد باقر صدر شہید کے اس قول سےمطمئن نہیں ہوسکتے ،جو میں نے اپنی پہلی کتاب "ثم اھتدیت " (تجلّی ) میں نقل کیا ہے کہ جب میں نے ان سے خاک کربلا پر سجدے کرے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ : "ہم مٹی پر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ مٹی پر سجدہ کرنے میں اور مٹی کو سجدہ کرنے میں فرق ہے "

اگر شیعہ احتیاط کرتے ہیں کہ ان کا سجدہ  پاک جگہ پر ہو اور عنداللہ مقبول ہو تو وہ رسول اللہ اور ائمہ اطہار کے حکم  کی تعمیل کرتے ہیں ۔ خصوصا ہمارے زمانے میں جب سب مساجد میں موٹے موٹے روئیں دار قالینوں کے فرش بچھ گئے ہیں ، ان

-------------------

تاریخی واقعے  کی یاد ذہن انسانی میں تازہ کرتی ہے ۔ انھی وجوہ کی بنا پر اس خاک کی ایک خاص اہمیت اور عظمت ہے اور اس پر سجدہ کرنا شرعا صحیح ہے ۔ اس سب کے علاوہ خاک کربلا کی فضیلت میں متعدد روایات  رسول اکرم ص سے منقول  ہیں جو شیعہ اور سنی دونوں ذرائع سے آتی ہیں "۔

استاد شہید مرتضی مطہّری اپنی کتاب شہید میں فرماتے ہیں :

"جب رسول اللہ ص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا س کو مشہور تسبیحات (۳۴ بار اللہ اکبر ۳۳بار الحمدللہ اور ۳۳بار سبحان اللہ )پڑھنے کو کہا تو وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی  قبر پر گئیں  اور تسبیح تیار کرنے کے لیے وہاں سے کچھ مٹی حاصل کی ۔ان کے اس فعل کی کیا اہمیت ہے ؟ اس کی اہمیت یہ ہے کہ شہید  کی قبر متبرک ہے اور اس کے ارد گرد کی مٹی بھی متبرک ہے ۔انسان کو تسبیحات  پڑھنے  کے لیے ایک تسبیح  کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد  کے لیے پتھر ، لکڑی اور مٹی کی بنی ہوئی تسبیح استعمال  کی جاسکتی ہے لیکن ہم شہید کی قبر کے پاس کی مٹی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس سے ہمارا مقصد شہید کی تعظیم  بجالاتا ہوتا ہے "۔(ناشر)

۲۹۷

قالینوں میں سے بعض کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاجاتا ہے جس سے عام مسلمان ناواقف ہیں ۔ یہ قالین مسلمان  ملکوں کے بنے ہوئے بھی نہیں ہوتے ، اس لیے ممکن ہے کہ ان میں سے بعض  کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاگیا  ہو جو جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس شیعہ  کو جو نماز  کی صحت کا اہتمام  کرتا ہوں ، دھتکاریں اور محض بے بنیادشبہ کی وجہ سے اس پر کفر وشرک کا الزام لگائیں ؟

 شیعہ جو دینی امور میں خیال رکھتا ہے خصوصا نماز کا جو دین کاستون ہے اور اس کا اتنا اہتمام کرتا ہے کہ نماز کے وقت اپن پیٹی اتاردیتا ہے ،گھڑی بھی اتاردیتا ہے کیونکہ اس کا تسمہ چمڑے  کا ہے جس کی اصل معلوم نہیں ۔ بعض اوقات پتلون اتار کر ڈھیلا ڈھالا پاجامہ پہن لیتا ہے اور یہ سب احتیاط اور اہتمام اس لیے کرتا ہے کہ اسے نماز میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ اپنے رب کے سامنے اس حال میں جائے کہ اس کے رب کو اس کی کوئی بات ناپسند ہو ۔

کیا ایسا شیعہ اس بات کامستحق ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے ، اس سے نفرت کی جائے ؟ وہ تو اس قابل ہے کہ اس کا احترام کیا جائے ، اس کی تعظیم کی جائے کیونکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے جو تقوی کی بنیاد ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کہو !

اگر تم پر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا دنیا  میں بھی اور آخرت میں بھی ، تو جس مشغلے  میں تم پڑے تھے اس میں تم پرسخت  عذاب نازل ہوتا ۔ اس وقت جب تم اس کو اپنی زبانوں سے دہرارہے تھے اور اپنے منہ سے  وہ کچھ  کہہ رہے تھے جس کا تمھیں علم نہیں تھا اور تم اس کو معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی ۔(سورہ نور ۔آیت ۱۵)

۲۹۸

رجعت

رجعت ان مسائل میں سے ہے جن کے صرف شیعہ قائل ہیں ۔

میں نے حدیث کی کتابوں میں ڈھونڈا مگر مجھے اس کا کہیں ذکر نہیں ملا ۔ بعض صوفی عقائد میں البتہ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق مغیبات سے ہے ۔ جو ان باتوں کو نہ مانے وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ ایمان نہ ان امور کے ماننے پر موقوف ہے نہ ان پر اعتقاد سے ایمان  کی تکمیل ہوتی ہے ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے سے نہ کوئی نفع ہوتا ہے نہ نقصان ۔ یہ صرف روایات ہیں جن کو شیعہ ائمہ اطہار  ع سے روایت کرتے ہیں کہ

"اللہ سبحانہ ،بعض مومنین اور بعض مجرمین مفسدین کو زندہ کرے گا تاکہ مومنین آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اپنے دشمنوں سے انتقام لیں ۔"

اگر یہ روایتیں صحیح ہیں ۔ اورشیعوں کے نزدیک تو یہ صحیح اور متواتر ہیں ۔جب بھی یہ اہل سنت کو پابند نہیں بناتیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ان پر اعتقاد رکھنا اس لیے واجب ہے کہ اہل بیت ع نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ہر کز نہیں ۔کیونکہ ہم نے بحث میں انصاف اور بے تعصبی کا عہد کیا ہوا ہے ۔

اس لیے ہم اہل سنت کو انھی روایات کا پابند سمجھتے ہیں جو ان کی اپنی حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ چونکہ رجعت کی احادیث ان کی اپنی کتابوں میں نہیں آئی ہیں اس لیے وہ ان کو قبول نہ کرنے میں آزاد ہیں اور یہ بھی جب ہے ، جب کوئی شیعہ ان روایات کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرے ۔

لیکن شیعہ کسی کو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہیں کرتے اورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جو رجعت کا قائل ہونے  پر مجبور نہیں کرتے اور نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ رجعت کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ اس لیے  کوئی وجہ نہیں کہ شیعہ ، جو

۲۹۹

رجعت کے قائل ہیں ان کو اس قدر برابھلا کہا جائے اور ان کے خلاف اس قدر شوروغوغا برپا کیا جائے !

شیعہ  مسئلہ رجعت کا ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثابت ہیں اور جن کی تائید بعض آیات سے بھی ہوتی ہے ،جیسے "

" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ "

اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان کی صف بندی کی جائے گی۔(سورہ نمل ۔آیت ۸۳)

تفسیر قمی میں ہے کہ "

امام جعفر صادق ع نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً " ؟ حمّاد کہتے ہیں کہ میں نے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق روزقیامت سے ہے ۔ امام نے کہا : یہ بات نہیں ،یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے ، قیامت میں کیا اللہ تعالی ہر امت میں سے صرف  ایک ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا اور باقی کو چھوڑ دے گا ؟

قیامت کے بارے میں دوسری آیت ہے :

" وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً "

اور ہم ان سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ۔(سورہ کہف ۔آیت ۴۷)

شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ میں ہے : اہل بیت علیھم السلام سے جو روایات آئی ہیں ان کی بنا پر شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مردوں میں سے کچھ کو اسی دنیا میں زندہ کرے گا، ان کی شکلیں وہی ہوں گی جو ان کی زندگی میں تھیں ۔پھر ان میں سے ایک گروہ کو عزت دے گا اور ایک گروہ

۳۰۰

کو ذلیل کرے گا ۔ اس وقت حق پرست ،باطل پرستوں سے ، اور مظلوم ، ظالموں سے بدلہ لیں گے ۔ بدلہ لینے کا یہ واقعہ قائم آل محمد کے ظہور بعد ہوگا ۔

رجعت صرف ان مومنین کی ہوگی جن کے ایمان کا درجہ بہت بلند تھا اور مفسدین میں سے صرف ان کی جو حد درجہ بہت بلند تھا اور مفسدین میں سے صرف ان کی جو حد درجہ فسادی تھے  اس کے بعد یہ لوگ پھر مرجائیں گے اور روزقیامت دوبارہ محشور ہوں گے اور ان کے استحقاق کے مطابق ثواب ثواب وعذاب دیا جائے گا ۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان دوبارہ  زندگی پانے والوں اور لوٹ کر آنے والوں کی ایک تمنا کا بھی ذکر کیا ہے ۔جب دوسری دفعہ بھی ان کی اصطلاح نہیں ہوگی اور خدا کے غضب کے سوا انھیں  کچھ نہیں ملے گا ، تویہ تیسری دفعہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے ۔:

" قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ"

اور وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! تونے ہمیں دوفعہ موت اور دودفعہ زندگی دی سو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں ، تو کیا  کوئی صورت ہے نکلنے کی ؟(سورہ مومن ۔آیت 116)

میں کہتاہوں کہ اگر اہل سنت والجماعت رجعت پر یقین نہیں رکھتے ، تو انھیں اس کا پورا حق ہے ،لیکن انھیں یہ حق نہیں ہے کہ جو اس کے قائل ہیں اور جن کے نزدیک یہ نصوص سے ثابت ہے ان کو برا بھلا کہیں  اس لیے کہ کسی شخص  کا کسی بات  کو نہ جاننا اس کی دلیل نہیں کہ جو شخص  جانتا ہے ہو غلطی پر ہے اسی طرح کسی کے کسی چیز کو نہ ماننے یا نہ جاننے  کا یہ مطلب نہیں کہ اس چیز کا وجود ہی نہین مسلمانوں کے کتنے  ہی ناقابل  تردید دلائل ہیں  جنھیں اہل کتاب یعنی یہود ونصاری تسلیم نہیں کرتے ۔

اہل سنت کی بھی کتنی ہی روایات اور کتنے ہی اعتقادات ایسے ہیں ،خصوصا

۳۰۱

وہ جن کا تعلق اولیاء اور صوفیا سے ہے جو ناممکن اور کریہہ نظر آتے ہیں ، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اہل سنت کے عقیدے کہ مذمت کی جائے اور اس سے ڈرایا جائے ۔

رجعت کا ثبوت قرآن اور سنت نبوی میں ملتا ہے اور ایسا کرنا اللہ تعالی  کے لیے ناممکن اور محال بھی نہیں ہے ۔ خود قرآن شریف میں رجعت کی کئی مثالیں  ملتی ہیں ۔ مثلا قرآن میں ہے :

" أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ "

کیا تم نے اس شخص کے حل پر غور کیاجسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں کے بل  گرچکا اتفاق گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اللہ اس بستی کے باشندوں کومرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا ، تو اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور اس کو سوسال تک مردہ رکھا ، پھر زندہ کردیا ۔(سورہ بقرہ ۔ آیت 259)

یا ایک اور آیت میں ہے :

" أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ "

کیا تمھیں ان لوگوں کی خبر  ہے جو شمار میں ہزاروں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل  بھاگے تھے ، تو اللہ نے ان سے کہا کہ مرجاؤ ، پھر انھیں زندہ کردیا ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 243)

اللہ تعالی نے بنی اسرائیل  کے ایک گروہ کو پہلے موت دے دی اور پھر انھیں زندہ کردیا :

" وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ () ثُمَّ

۳۰۲

بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ()"

اور جب تم نے کہاتھا کہ اے موسی ! ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا مامنے نہیں دیکھ  لیں گے ۔ اس پر تمھاری دیکھتے دیکھتے بجلی کی کڑک نے آکر تمھیں دبوچ لیا ۔ پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تمھیں ازسر نوزندہ کردیا تاکہ تم احسان مانو۔(سورہ  بقرہ ۔آیت 56)

اصحاب کہف تین سوسال سے زیادہ غار میں مردہ پڑے رہے :

" ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَداً"

پھر ہم نے انھیں زندہ کرکے اٹھا یا تاکہ معلوم کریں کہ ان دونوں گروہوں میں سے کونسا گروہ اس حالت میں رہنے کی مدت سے زیادہ واقف ہے ۔(سورہ کہف ۔آیت 12)

دیکھیے ۔ کتاب اللہ کہتی ہے کہ سابقہ امتوں میں رجعت کے واقعات ہوتے رہے ہیں ، تو امت محمدیہ میں بھی ایسے کسی واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں ہے ، خصوصا جبکہ ائمہ اہل بیت ع اس کی خبر دے رہے ہوں جو سچے  ہیں اور باخبر ہیں ۔ بعض بے جا دخل اندازی کرنے والے کہتے ہیں کہ رجعت کو تسلیم کرنا تناسخ (آواگون)کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو کہ کفار کا عقیدہ ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اس کامقصد محض شیعوں پر الزام تراشی اور انھیں بدنام کرنا ہے۔

تناسخ کے ماننے والے یہ نہیں کہتے کہ انسان اسی جسم ، اسی روح اور اسی شکل کے ساتھ دنیا میں واپس آتاہے ۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو مرجاتا ہے ، اس کی روح ایک دوسرے انسان کے جسم میں جو دوبارہ پیدا ہوتا ہے داخل ہوجاتی ہے بلکہ اس کی روح کسی جانور کے جسم مین بھی داخل ہوسکتی ہے۔جیسا کہ ظاہر  ہے یہ عقیدہ اس اسلامی عقیدے سے بالکل  مختلف ہے جس کے مطابق اللہ تعالی مردوں کو اسی جسم اور اسی روح کے ساتھ اٹھاتا ہے ۔رجعت کا تناسخ

۳۰۳

سے قطعا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ان جاہلوں کا کہنا ہے کہ جو شیعہ اور شیوعیّہ(1) میں بھی تمیز نہیں کرسکتے ۔

مہدی منتظر علیہ السلام

مہدی موعود کا مسئلہ بھی ان موضوعات میں شامل ہے جن کی وجہ سے اہل سنت شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں بلکہ بعض تو اس حدتک بڑھ جاتے ہیں  کہ تمسخر واستہزاء سے بھی نہیں چوکتے ۔ کیونکہ اہل سنت اس کو بعید ازعقل اور محال سمجھتے ہیں کہ کوئی انسان  بارہ سو برس تک زندہ مگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے ۔

بعض ہمعصر مصنفین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شیعوں نے امام عائب کا خیال اس لیے گھڑا ہے کہ انھیں مختلف ادوارمیں کثرت سے حکمرانوں کے ظلم وستم سہنے پڑے ہیں چنانچہ انھوں نے اس تصور سے اپنے دل کو تسلی دے  دی کہ مہدی منتظر ع کے زمانے میں جو زمین کو عدل وانصاف سےبھر دیں گے نہ صرف انھیں امن چین نصیب ہوگا بلکہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کا بھی موقع ملے گا ۔

پچھلے چند سالوں میں مہدی منتظرع کے ظہور سے متعلق چرچا بڑھ گیاہے ، خصوصا ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب پاسداران انقلاب ن ےیہ اپنا خاص طریقہ اور شعار بنالیا کہ وہ اپنی دعاؤں میں امام خمینی کے لیے یہ دعا کرتے تھے کہ خدایا خدایا تا انقلاب مہدی خمینی را نگہدار!

اس وقت سے مسلمان اور خصوصا تعلیم یافتہ مسلمان یہ پوچھنے لگے کہ مہدی ع کی اصلیت کیا ہے ؟۔کیا اسلامی عقائد میں مہدی کاواقعی وجود ہے یاہے یا یہ محض شیعوں کی من گھڑنت ہے ۔

اگر چہ شیعہ علماء نے ہر دور میں مہدی سے متعلق کتابوں لکھی ہیں اور

---------------------

(1):-شیوعیّہ کے معنی ہیں کمیونزم۔

۳۰۴

داد تحقیق دی ہے ۔ نیز شیعہ اور سنی علماء کو اکثر کانفرسوں وغیرہ میں ایک دوسرے سے ملنے اور عقائد سے متعلق مختلف مسئلوں پرگفتگو کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے ، اس کے باوجود اہل سنت کے لیے یہ موضوع چیستان بنا ہوا ہے اس لیے کہ انھیں اس سے متعلق روایات سننے کا کم ہی اتفاق ہوتا ہے ۔

اسلامی عقائد میں مہدی منتظر ع کی حقیقت کیا ہے؟

اس بحث کے دوجزو ہیں :- پہلے جزو کا تعلق کتاب وسنت کے حوالے سے مہدی کی بحث سے ہے اور دوسرے کا تعلق مہدی کی زندگی ، ان کے غائب ہونے اور دوبارہ ظاہر ہونے سے ہے ۔

جہاں تک اس بحث کے پہلے جزو کا تعلق ہے ، شیعہ اورسنی دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ص نے مہدی کی بشارت دی ہے ۔ آپ نے اپنے اصحاب کو بتلایا ہے کہ اللہ تعالی مہدی کو آخری زمانے میں ظاہر  کرے گا ۔ مہدی کی احادیث شیعہ اور اہل سنت دونوں کی معتبر  کتابوں میں ملتی ہیں ۔

میں اپنی عادت کے مطابق صرف ان روایات سے استدلال کروں گا جن کو اہل سنت صحیح اور معتبر سمجھتے ہیں ۔

سنن ابو داؤد میں ہے کہ

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :اگر دنیا کا فقط ایک دن باقی رہ جائے تو ایک ہی دن کو اللہ تعالی  اتنا طول دے گا کہ اس میں ایک شخص بھیجے گا جس کا نام میے نام پر ہوگا اور اس کی کنیت میری کنیت پر ہوگی ۔ وہ اس زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی ۔(1)

ابن ماجہ میں ہے کہ

"رسول اللہ ص نے فرمایا : ہم اہل بیت کے لیے اللہ نے دنیا سے

-----------------------

(1):- سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 422۔

۳۰۵

زیادہ آخرت کو پسند کیا ہے ۔ میرے بعد میرے اہل بیت ع کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا ، انھیں دھتکارا جائے گا ۔ پھر ایک قوم  مشرق کی طرف سے آئے گی جس کے ساتھ کا لے جھنڈے ہوں گے وہ لوگ  بھلائی مانگیں گے مگر انھیں ملے گی نہیں ۔ اس پر وہ لڑیں گے اور کامیاب ہوںگے  ۔ پھر جو وہ مانگتے تھے اس کی انھیں  پیشکش کی جائے گی مگر وہ قبول نہیں کریں گے ۔ آخر وہ (حکومت ) میرے اہل بیت ع میں سے ایک شخص کے حوالے کردیں گے جو زمین کو جو ظلم سے بھری ہوئی ہوگی ، انصاف سے بھردےگا ۔(1)

سنن ابن ماجہ میں ہے :

رسول اللہ نے فرمایا : مہدی ہم اہل بیت ع سے ہے ،

مہدی فاطمہ س کی اولاد سے ہوگا ۔

سنن ابن ماجہ ہی میں ہے کہ

" رسول اللہ ص نے فرمایا : میری امت میں مہدی ہوگا ۔ اس کا زمانہ اگر کم ہوا تو سات سال ورنہ نو سال ہوگا ۔ اس عرصے میں میری امت کو وہ آرام واطمینان ہوگا  جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا ۔ غلہ کی اتنی فراوانی ہوگی کہ ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔جو شخص مہدی سے کچھ مانگےگا  وہ اسے مل جائے گا ۔(2)

صحیح ترمذی میں آیا ہے :

رسول اللہ ص نے فرمایا : ایک شخص میری امت میں سے حکمراں ہوگا ۔ اس کا نام وہی ہوگا جو میرا نام ہے ۔ اگر قیامت آنے میں ایک دن بھی باقی ہوگا تو اللہ اس دن کو اتنا طویل

--------------------

(1):-سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4082۔

(2):- سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4086۔

۳۰۶

کردے گا کہ یہ شخص  حمکراں ہوسکے گا ۔(1)

رسول اللہ ص نے فرمایا : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حکومت ایک عرب کو نہ مل جائے جو میرے اہل بیت میں ہوگا اور جس کانام میرے نام پر ہوگا ۔

صحیح بخاری میں ابو قتادہ انصاری کے آزاد کردہ غلام نافع سے روایت ہے کہ ان سے ابو ہریرہ نے کہا کہ :"رسول اللہ ص نے فرمایا : کیسا ہوگا جب ابن مریم ع تم میں نازل ہوں گے اور تمھارے امام تم میں سے ہوں گے ۔(2)

قاضی ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ

اس بارے میں متواتر احادیث ہیں کہ اس امت میں مہدی ہوں گے ۔ اور عیسی بن مریم  آسمان سے اتر کے آئیں گے اور مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔(3)

ابن حجر مکی ہیثمی نے صواعق محرقہ میں لکھا ہے :

 ظہور مہدی کی متواتر احادیث بکثرت آئی ہیں ۔(4)

صاحب غایۃ المامول کہتے ہیں کہ :

قدیم زمانے  سے علماء میں یہ مشہور ہے کہ آخری زمانے میں اہل بیت ع میں ایک شخص کا ضرور ظہور ہوگا جسے مہدی کہا جائے گا ۔ مہدی  کی احادیث  بہت سے صحابہ نے روایت کی ہیں اور اکابر محدثین نے انھیں اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ، جیسے : ابو داؤد ،ترمذی ، ابن ماجہ ،طبرانی ، ابو یعلی ، بزاز،

-------------------------

(1):- جامع ترمذی جلد 9 صفحہ 74- 75

(2):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 143 باب نزول عیسی بن مریم س ۔

(3):- فتح الباری جلد 5 صفحہ 362

(4):- صواعق محرقہ جلد 2 صفحہ 211-

۳۰۷

امام احمد بن حنبل ،حاکم ،وغیرہ ۔جس نے بھی مہدی سے متعلق تمام احادیث  کو ضعیف کہا ہے وہ غلطی پر ہے ۔ معاصرین  میں سے اخوان المسلمین کے مفتی سید سابق نے اپنی کتاب العقائد الاسلامیہ میں مہدی  کی احادیث  نقل کی ہیں ۔ ان کے نزدیک مہدی کا تصور اسلامی عقائد کا جزو ہے جس کی تصدیق واجب ہے ۔

شیعہ  کتابوں میں بھی مہدی کی احادیث کثرت سے نقل کی گئی ہیں ۔یہ تک کہا گیا ہے کہ احادیث مہدی سے زیادہ کوئی حدیث   رسول اللہ ص سے روایت نہیں  کی گئی ہے ۔

محقق لطف اللہ صافی گلپائیگانی نے اپنی مفصل کتاب منتخب الاثر میں مہدی علیہ السلام کے متعلق ساٹھ سے زیادہ سنی ماخذوں سے نقل  کی  ہیں ، ان میں صحاح ستہ  بھی شامل ہیں اور نوے سے زیادہ شیعہ ماخذوں سے نقل کی ہیں جن میں کتب اربعہ بھی شامل ہیں ۔(1)

---------------------

(1):- اسلام میں مہدی پر اعتقاد کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ بعض علماء نے اس عقیدے کو دین کے واجبات  میں شمار  کیا ہے ۔ مہدی کی خصوصیات اور شخصیت کے بارے میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے متعلق زیادہ تر روایات صحیح ہیں اور جو خوشخبری ان کے بارے میں دی گئی ہے وہ متواتر ہے ۔

اس سلسلے میں یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ جیسا کہ مشہور  مورخ طبری نے لکھا ہے :

" مہدی کی غیبت سے متعلق روایات شیعہ محدثین نے امام محمد باقر ع اور امام جعفر صادق ع کی زندگی ہی میں (یعنی ولادت مہدی ع سے  150 سال پہلے )اپنی کتابوں مین درج کردی تھی ۔ یہ امر بجائے خود ان روایات کی صحت کا منہ بولتا ثبوت ہے "۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی مقامات پر مہدی کے بارے میں روایات بلاواسطہ نقل کی گئی ہیں ۔اور اسی قبیل کی تقریبا پچاس احادیث دوسری معروف تالیفات میں بھی درج ہیں ،جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :

۳۰۸

دوسری بحث مہدی کی ولادت ، ان کی زندگی ، ان کی غیبت اور ان کی عدم وفات سے متعلق ہے ۔

یہاں بھی علمائے اہل سنت کی ایک خاصی بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ مہدی ، محمد بن الحسن العسکری ہیں جو ائمہ اہل بیت ع میں سے بارہویں امام ہیں وہ زندہ موجود ہیں اور آخر ی زمانے میں ظاہر  ہوکر زمین کو عدل وانصاف سے بھردیں گے ۔ ان سے دین  کو کامیابی حاصل ہوگی ۔ یہ علمائے اہل سنت  اس طرح شیعہ امامیہ کے اقوال کی تائید کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض علماء کے نام یہ ہیں :

(1):- محی الدین ابن عربی  سنہ 638 ھ  فتوحات مکیہ ۔(2):-سبط ابن جوزی سنہ 654ھ تذکرۃ الخواص ۔

(3):- عبدالوہاب شعرانی مصری سنہ 976 ھ عقائد الاکابر ۔(4) ابن خشاب سنہ ۔ توریخ موالید الائمہ ووفیّاتھم ۔

(5):- محمد بخاری حنفی سنہ ۔ فصل الخطاب

--------------------

جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن ابو داؤد ، مسند احمد بن حنبل ، معجم طبرانی ، طبقات ابن سعد ، مستدرک حاکم ، صواعق  محرقہ ، منہاج النبویہ  ، ینابیع المودۃ ، دلائل النبوۃ ، فتوحات مکیہ ، الملاحم ، تاریخ بغداداور کتاب الفتن ۔

ان معتبر مآخذ میں رسول اکرم ص سے تقریبا پچاس  ایسی احادیث نقل کی گئی ہی جن میں یوم قیامت  سے پیشتر مہدی کے ظہور کے بارے میں واضح پیشین گوئی کی گئی ہے ۔ ان میں سے بیشتر احادیث صحیح ہیں اور ان کو 33 معروف صحابیوں  اور صحابیات نے آنحضرت  ص سے بلاواسطہ نقل کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں :

امام علی ع۔ امام حسین ع۔ ابو سعید خدری ۔ عبداللہ بن مسعود ۔ثوبان ۔ابو ہریرہ ۔ طلحہ بن مالک ۔ جبیر بن عبداللہ ۔ عثمان بن عفان ۔ عوف بن مالک ۔طلحہ بن عبیداللہ ۔ حذیفہ بن یمان ۔ عمران بن حصین ۔ عبداللہ بن عمر ۔ ام سلمہ ۔ ام حبیبہ ۔عائشہ ۔ عبدالرحمان بن عوف ۔ ابو ایوب انصاری ۔ عباس بن عبدالمطلب ۔ ابن عباس اور عمار یاسر ۔(ناشر)

۳۰۹

(6):- احمد بن ابراہیم بلاذری سنہ الحدیث المتسلسل ۔(7):- ابن الصباغ مالکی سنہ 855ھ الفصول المہمہ ۔

(8):- العارف عبدالرحمان سنہ ۔ مرآۃ الاسرار۔ (9):- کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی  سنہ 652ھ مطالب المسئول فی مناقب آل الرّسول ع ۔(10):- سلیمان ابراہیم قندوزی حنفی  سنہ 1294 ھ ینابیع المودۃ ۔

اگر کوئی شخص متتبع  اور تحقیق سے کام لے تو ایسے علماء کی تعداد جو مہدی ع کی ولادت ، اور ان کے اس وقت تک زندہ باقی رہنے میں یقین رکھتے ہیں جب تک ان کا ظاہر ہونا اللہ کو منظور نہ ہو ۔ اس سے کئی گناہ بڑھ جائے گی۔ اس کے بعد وہ اہل سنت باقی رہ جاتے ہیں جو احادیث کی صحت کا اعتراف کرنے کے باوجود مہدی کی ولادت  وار ان کے زندہ باقی رہنے کا انکار کرتے ہیں ، ان کا یہ انکار دوسروں پر حجت نہیں ، کیونکہ ان کا ان باتوں سے انکار اور ان کو مستبعد سمجھنے کی وجہ محض ضد اور تعصب ہے ،ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ قرآن کریم کسی ایسے نظریے کی نفی نہیں کرتا بلکہ خود اللہ نے متعدد مثالیں  بیان کی ہیں تاکہ جمود  کا شکار لوگ آزادی سے سوچ سکیں اور اپنی عقلوں کی باگ  ذرا ڈھیلی چھوڑ دیں تاکہ انھیں یقین آجائے اور وہ مان لیں کہ اللہ تعالی نے متعدد معجزات اپنے پیغمبروں کے واسطے سے دکھائے ہیں تاکہ معاندین  صرف ان چیزوں کے ساتھ نہ چمٹے رہیں  جو ان کی محدود اور ناقص  عقلوں کے مطابق ممکن الوقوع ہیں یا وہ ایسے واقعات ہیں جو عام طور پر ہوتے رہتے ہیں ۔

لیکن !

<>وہ مسلمان جس کادل نور ایمان سے روشن ہے اسے اس پر حیرت نہیں ہوتی کہ اللہ نے عزیر کو سوسال تک مردہ رکھنے کے بعد پھر زندہ کردیا ۔ حضرت عزیر نے اپنی کھانے پینے  کی چیزوں کو دیکھا تو وہ ابھی خراب نہیں ہوئی تھیں ۔ اپنے گدھے کو دیکھا تو اللہ نے اسی کی ہڈیاں درست کردیں اور ان پر گوشت چڑھادیا ۔ گدھا دوبارہ ویسا ہی ہوگیا جیسا پہلے تھا ۔حالانکہ  اس کی ہڈیاں  گل سڑ چکی تھیں۔حضرت عزیر ع نے یہ سب دیکھ کر کہا : میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

۳۱۰

دیکھیے ! کتنی جلدی حضرت عزیر کے خیالات بدل گئے ۔ابھی تو اجڑی ہوئی بستی کو دیکھ کر انھوں نے حیرت سےکہا تھا کہ اسے موت کے بعد اللہ کیسے زندہ کرے گا ؟

<>جو مسلمان قرآن کریم میں یقین رکھتا ہے ۔ اسے اس بات پرکوئی حیرانی نہیں  کہ حضرت ابراہیم نے پرندوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کے اجزا پہاڑوں پربکھیر دیے اور پھر جب ان کو بلایا تو وہ دوڑتے ہوئے آگئے ۔

<>وہ ایمان مسلمان جسے اس پر کوئی حیرانی نہیں کہ جب حضرت ابراہیم کو  آگ میں ڈالا گیا ، تو وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی ۔ اور اس نے حضرت ابراہیم کو نہ جلایا اور نہ کوئی ضرر پنہچایا ۔

<>وہ بایمان  مسلمان جسے ان پر کوئی حیرانی نہیں کہ حضرت عیسی بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور وہ ابھی زندہ ہیں اور ایک نہ ایک دن زمین پرواپس آئیں گے ۔

<>وہ باایمان مسلمان جسے اس پرکوئی حیرانی نہیں  کہ حضرت عیسی ع مردوں کو زندہ کردیتے تھے اور پیدائشی مبروص اور اندھے کو اچھا کردیتے تھے ۔

<>وہ با ایمان  مسلمان جسے اس پر کوئی حیرانی نہیں کہ حضرت  موسی ع اور بنی اسرائیل  کے لئے سمندر پھٹ گیا  تھا اور یہ لوگ اسے کے بیچ میں سے اس طرح گزر گئے تھے کہ ان کے بدن بھی گیلے نہیں ہوئے تھ ے۔حضرت موسی ع کا عصا سانپ بن گیا تھا اور دریائے نیل کا پانی خون میں تبدیل ہوگیا تھا ۔

<>وہ باایمان مسلمان جسے اس پر تعجب نہیں کہ حضرت سلیمان پرندوں ، جنوں اور چیونٹیوں سے باتیں کیا کرتے تھے ، ان کا تخت ہوا پر اڑتا  تھا اور وہ لمحوں میں ملکہ بلقیس کا تخت منگو لیتے تھے ۔

<>وہ باایمان مسلمان جس اس پر  تعجب نہیں  کہ حضرت خضر ع ،جن کی ملاقات حضرت موسی ع سے ہوئی تھی زندہ سلامت ہیں ۔

۳۱۱

<>وہ باایمان  مسلمان جسے اس پر تعجب نہیں کہ ابلیس ملعون زندہ ہے حالانکہ وہ حضرت آدم سے بھی پہلے کی مخلوق ہے اور ساری تاریخ انسانیت اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزری اور وہ ہر موڑ پر اس کے ساتھ رہا ہے ۔ ہو خود پوشیدہ ہے ۔ ان کی بد اعمالیوں سے سب واقف ہیں ، نہ کسی نے اس کو دیکھا ہے اور نہ کوئی دیکھے گا ۔ وہ اور اس کے چیلے چانٹے سب لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں دیکھتا ۔

<>پس جو مسلمان ان سب باتوں پر یقین رکھتا ہے اور ان کے وقوع پذیر ہونے پر اسے کوئی حیرانی نہیں ہوتی ، اس کے لیے اس میں کیا تعجب کی بات ہے کہ مہدی ایک عرصے تک اللہ تعالی کی کسی مصلحت کی وجہ سے پوشیدہ رہیں ؟

جن واقعات کا ہم نے ذکر کیا ہے اس سے کئی گنازیادہ غیر معمولی واقعات قرآن میں مذکور ہیں ۔ یہ خارق العادت واقعات عام طور پر نہیں ہوتے ، نہ لوگ ان سے مانوس ہیں بلکہ سب لوگ مل کر بھی چاہیں تو اس قسم کے واقعات پر قادر نہیں ہوسکتے ۔ یہ سب اللہ کے اپنے کیے ہوئے کام ہیں اور اللہ کو کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں کسی کام کے کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ مسلمان ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں جو کچھ آیاہے مسلمان اس پ ر بغیر کسی استثناء یا ذہنی تحفظ کے ایمان لاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ، مہدی سے متعلق امور سے شیعہ زیادہ واقف ہیں کیونکہ مہدی ان کے امام ہیں اور شیعہ ان کے اور ان کے آباء واجداد کے ساتھ رہے ہیں ، مثل  مشہور ہے کہ :

"أهل مكّة أدرى بشعابها"

مکے کی راویوں کو اہل مکہ سے بڑھ کوئی نہیں جانتا ۔ شیعہ اپنے ائمہ کا احترام اور تعظیم کرتے ہیں ۔انھوں نے اپنے ائمہ قبروں کو پختہ اور شاندار بنایا ہے جو زیارت گاہ خلاف ہیں ۔ اگر بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام  کی وفات ، ہوچکی ہوتی تو آج ان کے قبر بھی مشہور ہوتی ۔ شیعہ یہ کہہ سکتے تھ ےکہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہوں گے ۔ کیونکہ دوبارہ زندہ ہونا ممکن ہے

۳۱۲

جیسا کہ قرآن میں متعدد ایسے واقعات کاذکر ہے ۔ اور شیعہ تورجعت کے بھی قائل ہیں ۔

لیکن شیعہ من گھڑت اور فرضی  باتیں نہیں کرتے ، نہ ہو بہتان باندھے ہیں ، نہ خیال دنیا میں رہتے ہیں ، جیسا کہ ان کے متعصب دشمن سمجھتے ہیں ۔ اس لیے ان کا اصرار اس پر ہے کہ امام مہدی علیہ السلام زندہ ہیں ، ان کو اللہ کی طرف سے رزق  ملتا ہے ، وہ اللہ کی کسی مصلحت کے تحت پوشیدہ ہیں ۔ ممکن ہے کہ راسخون فی العلم کو یہ مصلحت معلوم بھی ہو ۔ شیعہ اپنی دعاؤں میں کہتے ہیں :

"عجّل الله تعالى فرجه"

کیونکہ مہدی کے ظہور سے مسلمانوں کی عزت وحرمت ،کامیابی وکامرانی اور صلاحج وفلاح وابستہ ہے ۔

امام مہدی علیہ السلام کے بارےمیں شیعہ سنی ، اختلاف کوئی ٹھوس اور حقیقی اختلاف نہیں ہے کیونکہ اہل سنت کا بھی عقیدہ ہے کہ امام مہدی آخری زمانے میں ظاہر ہوں گے ، زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے ، ان کے دور میں مسلمان تمام روئے زمین کے مالک ہوں گے خوشحالی عام ہوگی اور کوئی غریب نہیں رہے گا ۔

اختلاف فقط اس میں بے کہ شیعہ کہتے کہتے ہیں کہ ان کی ولادت ہوچکی ہے جبکہ اہل سنت کہتے ہیں کہ وہ ابھی پیداہوں گے ۔(1) لیکن  اس بات پر فریقین کا اتفاق  ہے کہ ان کا  ظہور  قیامت کے قریب ہوگا اس لیے مسلمان میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے اور پرانے زخموں پر پھایا رکھنے کے لیے سب مسلمانوں کو چاہے کہ مل کر کیا شیعہ کیاسنی خلوص سےاپنی دعاؤں اور نمازی میں اللہ تعالی سے التجاء کریں کہ وہ امام مہدی ع کے ظہور جلدی فرمایے :

--------------------

(1):- یہ اسی خیال کا شاخسانہ تھاکہ انڈونشی خاتون زہرہ فونا مہدی کی والدہ ہونے کا ڈرامہ رچایا ۔ اور یہ کہ متعدد لوگوں نے مختلف زمانے میں "مہدویت " کا جھوٹا دعوی کیا ۔(ناشر)

۳۱۳

کیونکہ ان کے ظہور میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہے اور ان کے خروج سے امت محمدیہ کی کامیابی وخوشحالی وابستہ ہے ۔ بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مہدی اکر زمین کو عدل وانصاف سے بھردیں ۔

سب مسلمان کیا سنی اور کیا شیعہ امام مہدی ع کے آنے پر یقین رکھتے ہیں ۔خواہ اہل سنت کے قول کے بموجب ہو پیدا ہوں یا شیعوں کے کہنے کے مطابق وہ غائب رہنے کے بعد ظاہر ہوں ۔

اہم  بات یہ ہے کہ یہ کوئی فرضی اور خیالی قصہ نہیں ہے جیسا کہ بعض شرپسند ظاہر کرناچاہتے ہیں ، بلکہ مہدی کی شخصیت  ایک حقیقی شخصیت ہے جس کی بشارت رسول اللہ ص نے دی ہے اور جواب پوری انسانیت کاخواب بن گئی ہے ۔

مسلمانوں کے علاوہ یہ عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ ایک منجی  یا نجات دہندہ آئیگا جو دنیا کی اصلاح کرے گا ۔ اس نجات دہندہ کے یہود ونصاری بھ منتظر ہیں ، اسی لیے مہدی کے دادا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام "مہدی منتظر " رکھا ہے ۔

اے اللہ ! سب مسلمانوں کو خیر وتقوی کی توفیق دے ، ان کو صفوں مین اتحاد اور دلوں میں اتفاق پیدا کر، ان کی خرابیوں کی اصلاح کر ، اور انھیں دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی عطا کر ۔

ائمہ کی محبت میں غلو

یہاں غلوّ سے مردا حق کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کا اتباع کرنا اور محبوب کو معبود بنالینا نہیں ، ایسا کرنا تو کفر وشرک ہے جس کا کوئی مسلمان  جو اسلام کے پیغام اور حضرت محمد ص کی رسالت پر یقین رکھتا ہو قائل نہیں ہوسکتا ۔

ر سول اللہ ص نے محبت کی حدود مقرر کردی تھیں جب آپ نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ :

"هلك فيك اثنان محبُّ غالٍ ومبغضٌ قالٍ".

۳۱۴

تمھارے بارے میں اپنے خیال کو بنا پر دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے ، ایک حد سے زیادہ محبت کرنے والا اور دوسرا حد سے زیادہ بغض رکھنے والا ۔

رسول اللہ کا ایک اور قول ہے :

"يا على إنّ فيك مثلا ًمّن عيسى بن مريم أبغضته اليهود حتى بهتوا اُمّه وأحبّه النصارى حتّى أنزلوه بالمنزلة الّتي ليس بها ."

اے علی ع ! تمھاری مثال عیسی بن مریم ع کی سی ہے ۔ یہودی  ان سے اتنا بغض رکھتے تھے کہ ان کی والدہ پر بہتان باندھتے تھے ۔ اور عیسائیوں نے ان سے ایسی محبّت  کی کہ انھیں اس درجے  پر پہنچادیا جس درجے پر وہ نہیں تھے ۔(1)

غلو یہ ہے کہ محبت کسی پر اس طرح چھا جائے کہ وہ محبوب کو معبود بنادے اور اس کو وہ درجہ دے دے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں یا بغض اس قدر غالب آجائے  کہ بہتان باندھنے اور جھوٹے اتہام لگانے لگے ۔

شیعوں  نے علی ع اور اولاد علی میں سے ائمہ  کی محبت میں غلو نہیں کیا بلکہ انھیں وہی درجہ دیا جو رسول اللہ ص نے دیا دتھا ۔ یعنی یہ کہ وہ آ پ کے وصی اور خلیفہ تھے ۔ الوہیت تو کجا کوئی شیعہ ائمہ کی نبوت کا بھی قائل نہیں ۔ فتنہ انگیزوں کو چھوڑیے جو یہ تک کہتے ہیں کہ "شیعہ تو علی کو خدا مانتے ہیں "(2) اگر یہ صحیح ہے

--------------------

(1):-مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 123۔ حافظ ابن عساکر ،تاریخ دمشق  جلد 2 صفحہ 234۔ امام نسائی ،خصائص امیرالمومنین ۔ امام بخاری ،تاریخ کبیر جلد 2 صفحہ 281 ۔حافظ سیوطی ،تاریخ الخلفاء صفحہ 173 ۔ محب طبری ذخائر العقبی صفحہ 92۔ابن حجر صواعق محرقہ صفحہ 84۔

(2):- مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کویہ بتادیا جائے کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی ابن مریم ع کی شخصیت کو اور یہودیوں نے حضرت عزیر کی شخصیت کو ایک سماوی جوہر بنادیا تھا اسی طرح مسلمانوں میں سے کچھ بد عقیدہ لوگو ں نے حضر ت علی ع کو خدائی کے درجے تک پہنچا دیا تھا ۔ انسان کو خدا بنانے کا

۳۱۵

کہ کچھ لوگ واقعی ایسا مانتے ہیں تو ان کا تعلّق نہ شیعوں نہ شیعوں سے ہے نہ خوارج سے ۔ بہر حال یہ شیعوں کا تصور نہیں کہ قرآن کہتا ہے :

"قُلْ لا اَسْئَلُكُمْ عَلَيْه اَجْراً اِلاَّ المَوَدَّهَ في الْقُربى"

اے رسول ! اپنی امت سے کہہ دیجیے کہ میں تم سے اپنی رسالت  کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتا بجز اپنے قرابتداروں سے مودت کے ۔یاد رہے کہ مودت کا درجہ محبت محبت سے بڑھ کرہے ۔ مودت کاتقاضایہ ہے کہ دوسرے کے لیے کچھ قربانی دی جائے ۔

--------------------

یہ عمل حضرت علی ع تک محدود نہ تھا، ان کے جانشینوں کو بھی خدائی کا رتبہ دے دیا گیا تھا ۔ ایسے بدعقیدہ لوگوں کی طرف  اشارہ کرتے ہوئے  امام ثامن امام علی بن موسی رضا اپنی دعائیں فرماتے ہیں :

 خدایا ! میں بیزار ہوں ان لوگوں سے جو ہمارے لیے ایسی بات کہتے ہیں جس کے ہم سزاوار نہیں ۔ اور میں بیزار ہوں  ان لوگوں سے جو ہم سے ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو ہم نے کبھی کہی ہی نہیں

خدایا !زندگی اور موت دینا تجھ س مخصوص ہے اور روزی رساں بھی  صرف تو ہے ۔ میں تو فقط تیری  عبادت کرتا ہوں اور تجھی سے مدد مانگتاہوں ۔توہی میرا ، میرے آباء واجداد  کا  اور میری اولاد کا خالق ہے اور ربوبیت تیرے  سوا کسی اور کو زیبا نہیں "۔

پس جاننا چاہیے کہ جن لوگوں نے عبد کو معبود بنادیا انھوں نے عبد سے محبّت  مین غلو  کیا جو کفر کی حدوں میں آتا ہے ، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین  ع کا قول ہے ،آپ فرماتے ہیں :

"کفر ان چار ستونوں پر قائم ہے : گناہ ۔ شک ۔ شبہ اور ۔ غلو ۔"

علامہ مجلسی رح فراتے ہیں:

<>جو شخص یہ مانے کہ اللہ نے حضرت محمد مصطفی ص اور ان کے اولیاء باصفاء کو خلق فرمایا اور پھر ساری مخلوق کی خلقت اور تربیت ان کو سونپ دی "۔وہ غالی ہے۔

۳۱۶

اس میں شیعوں کی کیا خطا اگر رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ

"علی ع! تم دنیا میں بھی سردار ہو اورآخرت میں بھی سردار ہو، جس نے تم سے محبّت  کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے تم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔ تمھارا دوست اللہ کا دوست ہے اور تمھارا دشمن اللہ کا دشمن ہے ۔ خرابی اس کی ہے جو تم سے دشمنی رکھے! "(مستدرک حاکم جلد 3 ۔حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث علی الشرط الشیخین صحیح ہے ۔ ینابیع المودۃ ۔الریاض النضرۃ جلد 2 صفحہ 185)

--------------------

<>شیخ مفید فرماتے ہیں :

"جو شخص حضرات امیرالمومنین ع یا آپ کی اولاد میں سے کسی امام کو  خدا یا نبی مانے وہ غالی ہے"۔

<>شیخ صدوق فرماتے ہیں :

"غلات (جمع ہے غالی  کی ) یہودیوں اور نصرانیوں سے بد تر اور کافر ہیں"

غالی فرقوں میں سے (جن کا ذکر شہرستانی نے الملل والنحل میں ، نوبختی نے فرق الشیعہ میں اور مقریزی نے خطط میں کیا ہے) اکثر تو مٹ گئے ہیں مگر کچھ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں  اور کہیں نہ کہیں باقی ہیں ۔ انھوں نے ائمہ اہل بیت ع سے محبت وعقیدت ہی میں جوش اور  مبالغے  سے کام نہیں لیا بلکہ بہت سے ایسے عقائد بھی اختیار کر لیے جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔جیسے تناسخ اور حلول وغیرہ ۔ حتی کہ بعض نے تو حلال حرام کی تمییز ہی اٹھادی اور حشر نشر کا بھی انکار کردیا ۔

غالیوں کا ایک فرقہ نصیری ہے جو محمد بن نصیر نمیری کی طرف منسوب ہے ۔ یہ شخص حضرت امام حسن عسکری ع کا صحابی تھا ، بعد میں آپ کی امامت کا منکر ہوگیا ۔ اور اپنی امامت کا دعوی کر بیٹھا ۔نصیری فرقہ آج بھی غالبا ملک شام کے شمالی اطراف میں آباد ہے ۔یہ فرقہ حضرت علی ع کی خدائی  کا قائل ہے ۔ اس کے علاوہ ترکی کا تختاجی فرقہ اور ترکستان کا علی اللھی فرقہ بھی آپ کی خدائی کے معتقد ہیں ۔واللہ اعلم 

۳۱۷

رسو ل اللہ ص نے یہ بھی فرمایا :

علی ع سے محبت ایمان ہے اور علی ع سے بغض نفاق ہے ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 48 ۔کنز العمال جلد 15 صفحہ 105)

آپ نے یہ بھی فرمایا :

 "جو شخص آخر دم تک آل محمد کی محبّت پر قائم رہا وہ شہید مرا ۔ یاد رکھوں جو آل محمد کی محبت پر مرا اس کی بخشش ہوگئی ،

یا درکھو جو آل محمد ص کی محبت پر مرا ہو گویا سب گناہوں سے توبہ کرکے مرا

-------------------------

شہر ستانی الملل والنحل میں لکھتے ہیں کہ :

ایک غالی فرقہ دعوی کرتا  تھا کہ حضرت علی ع قتل نہیں ہوئے ہیں ، وہ اب بھی زندہ ہیں ۔ ایک اور دیومالائی تصورات رکھنے والا فرقہ کہتا تھا کہ بادل حضرت علی کی دیولوک ہے ۔ یہ بادلوں کی گرج  اور بجلی کی چمک  آپ ہی کی آواز ہے "۔

ابن ابی الحدید  شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ

"ایک شخص مغیرہ بن سعید کہا کرتا تھا کہ حضرت علی ع اگر چاہیں تو عاد وثمود ارو ان دونوں قوموں کے درمیان کی صدیوں کے سب لوگوں کوزندہ کردیں "۔

غلات کے ایسے ہی باطل عقائد کی بنا پر ائمہ  اہل بیت ع  میں سے حضرت امام محمد باقر ع حضرت امام جعفر صادق ع ، حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن  عسکری علیھم السلام  نے ان سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ ان پر بار لعنت کی اور اپنے اصحاب سے بھی  لعنت کرنے کو کہا ۔

پس یہ کہنا صحیح ہے کہ غالیوں کا شیعہ اثنا عشریوں سے قطعا کوئی تعلق نہیں اور ان  کے اقوال وعقائد کی وجہ سے ان پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ شیعہ اپنے محبوب کو معبود نہیں کہتے ، بلکہ ان کے لیے وہ کچھ کہتے اور مانتے ہیں جو ان کا حق ہے اور جو کچھ  اللہ اور اس کے رسول ص نے ان کے مناقب میں کہا ہے ۔مختصر  یہ کہ ائمہ اہل بیت  ع کای ولایت شیعوں کی شناخت ہے کیونکہ :

ائمہ  اہل بیت ع اللہ کی حجت اور رسول اللہ ص کی ذریت ہیں ۔ یہ نفوس قدسیہ درود میں رسول اللہ ص کے ساتھ شامل ہیں ۔ یہ ساری امت سے افضل اور ممتاز ہیں کیونکہ رسول اللہ ص انھیں کو

۳۱۸

یاد رکھو جو آل محمد ع کی محبت پرمرا وہ کامل الایمان مرا ۔ یاد رکھو جو آل محمدص کی محبت پر مرا اسے موت کا فرشتہ جنت کی بشارت دےگا۔ (تفسیر ثعلبی، تفسیر زمخشری ، تفسیر  فخرالدین رازی)

اس میں شیعوں  کی کیا خطا اگر وہ ایسے شخص سے محبت کرتے ہیں جس کے بارے میں رسول اللہ ص نے فرمایا :

کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ص سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول ص کو اس سے

--------------------

مباھلہ  میں لے کر گئے تھے ۔ یہ اصحاب کساء اورآیہ تطہیر کا مصداق ہیں ۔ انھیں کے بارے میں رسول اللہ ص نے کہا تھا کہ ان کا دوست میرا دوست ہے اور ان کا دشمن میرا دشمن ہے ۔ انھیں کی شان میں سورہ کوثر بھی اتری ۔ اور سورہ ھل اتی بھی اتری ۔ یہی رسول اللہ ص کے وہ قرابت دار ہیں جن کی مودت کو اللہ نے واجب کیا ہے ۔ یہی ائمہ  قرآن کےترجمان اور رسالت کے پاسبان ہیں اور یہی ائمہ انسانیت کے لیے ملجاواماوی ہیں ۔

ائمہ اہل بیت ع رسول اللہ ص کے بعد دین کی تبلیغ میں مصروف رہے کیونکہ رسول اللہ ص نے انھیں اپنی منیت میں قراردیا تھا ۔ انھوں نے ہی دنیا کو عبادت کاڈھنگ ار دعاء کا آہنگ سکھایا اور حلال وحرام سمجھایا ۔ یہی خانوادہ رسالت  شریعت کا امین ہے اور اس نے شریعت کی بدعت  سے انھیں کی محنتوں اورقربانیوں  کےصدقے میں باقی ہیں ۔ انھیں میں باب  مدینہ علی ہیں اور انھیں میں باب الحواج ہیں ۔ انھیں کا نام ناامیدی اور مایوسی میں مژدہ جانفزا ہے ۔ انھیں کے توسل سے  دعائیں مستجاب  ہوتی ہیں اور انھیں کی شفاعتیں باریاب ہوتی ہوئی کیونکہ انھیں اذن شفاعت دیا گیا ہے ۔

ائمہ  اہل بیت ع ہی اولی الامر ہیں  اور راسخون فی العلم ہیں ۔ یہی لوگ تو ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والے ہیں۔ یہی نجات کا سفینہ اور علوم ربانی کا خزینہ ہیں ۔ یہی لوگ توہیں جن کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور جن کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے ۔ کیونکہ یہ اللہ کے چنیدہ اور برگزیرہ بندے ہیں ۔ انھیں کے سروروسردار حضرت علی ع کو قرآن نے تاج ولایت پہنایا ہے ۔ اور رسول اللہ ص نے ان کی ولایت کبرکی کو اللہ کا حصار بتایا ہے ۔

۳۱۹

محبت ہے ۔ (صحیح مسلم جلد 4)

معلو ہوا کہ جس کو علی محبوب ہے وہ اللہ اور اس کے رسول ص کو محبوب ہے اور وہ مومن ہے ۔ اور جس کو علی ع ناپسند ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے اور وہ منافق ہے ۔

امام شافعی نے حب اہل بیت ع کے بارے میں کہا ہے :

"يا أهل بيت رسول الله حبّكم

فرضٌ مّن الله فى القرأن أنزله

اے  اہل بیت رسول ص ! تمھاری محبت اللہ نے قرآن میں فرض کی ہے

"كفاكم من عظيم القدرانكم

من لم يصل عليكم لاصلواة له

تمھاری فضیلت کے بیان میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ جس نے نماز میں تم پر درود نہیں پڑھا  اس کی نماز نہیں ہوئی ۔

--------------------

کون ہے جو اس سے انکار کرے  کہ

حضرت علی ع سید المسلمین ہیں ، امیرا لمومنین ہیں ، امام المتقین ہیں قائد الغرّ المحجلین  ہیں ۔یا یہ کہ آپ ہی بت شکن ، خیبر شکن اور یعسوب الدین ہیں ۔ لیلۃ المبیت آپ نے بستر رسول ص پر سوکر جان نثاری کی اعلی مثال قائم کی ۔

حضرت علی ع نہج البلاغہ  میں ائمہ  اہلبیت کا تعارف کراتے ہوے فرماتے ہیں :

اس امت میں کسی کو آل محمد ص پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں ۔ حق ولایت کی خصوصیات انھیں کے لیے ہیں اور یہی رسول اللہ کے وصی اور وارث ہیں "

بلاشبہ حضرت علی علم رسول  ص کے وارث ہیں کیونکہ رسول اللہ ص نے فرمایا تھا:"

أنا مدينة العلم وعليٌّ بابهااورخود حضرت علی ع فرماتے ہیں :

لقد علّمنى رسول الله صلّى الله عليه وآله ألف باب ٍ يفتح ألف بابٍ .ایک موقع پر آپ نے اپنے سینہ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328