حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63710 / ڈاؤنلوڈ: 7524
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۵۰&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کا یہ قول ہے کہ" علمائ امتی افضل من انبياء بنی اسرائيل " (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں )یا یہ قول کہ  :" العلماء ورثة الأنبياء " (علماء انبیاء کے وارث ہیں )(۱) ۔اہل سنّت کےنزدیک یہ حدیث عام ہے اور اس کا مصداق سب علمائے امت ہیں ۔ جبکہ شیعوں کے نزدیک یہ حدیث صرف بارہ اماموں سے مخصوص ہے اور اسی بنا پر وہ ائمہ  اثناعشر کو اولوالعزم انبیاء کو چھوڑ کر سب انبیاء سے افضل قراردیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کارجحان بھی اسی تخصیص کی طرف ہے :اوّل تواس لئے کہ کلام الہی کے مطابق قرآن کی تاویل کا علم صرف راسخوں فی العلم سے مخصوص ہے ۔ اسی طرح قرآن  کے علم کا وارث بھی اللہ  تعالی نے اپنے چیدہ وچنیدہ بندوں کو ہی قراردیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تخصیص ہے ۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت ع کو " سفینۃ النجاۃ ۔ ائمۃ الھدی" اور"مصابیح الدجی" کہا ہے اور وہ ثقل ثانی قراردیا ہے جو گمراہی سے بچانے والا ہے ۔

دوسرے اس لئے کہ اہل سنت والجماعت کا قول اس تخصیص کے منافی ہے جو قرآن اور حدیث نبوی سے ثابت ہے ۔ عقل بھی اس قول کو قبول نہیں کرتی کیونکہ اس میں ابہام ہے اس لئے کہ اس میں حقیقی علماء اوربناوٹی  علماء میں فرق نہیں کیا گیا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ یہاں وہ علماء بھی  جنھیں اللہ تعالی نے ہمہ اقسام رجس سے پاک رکھا ہے اور وہ علماء بھی ہیں جنھیں اموی اور عباسی حکمرانوں نے امّت پر سوار کردیا تھا ۔زیادہ واضح الفاظ میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ دوقسم کے علماء ہیں : ایک وہ جن کو علم لدنی عطا ہوا ہے ۔ اور دوسرے وہ جنھوں نے استادوں سے راہ نجات کی تعلیم  حاصل کی ۔یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تاریخ کسی ایسے استاد کاذکر نہیں کرتی جس سے ائمہ اہلبیت ع نے تعلیم  حاصل کی ہو ۔ بجز اس کے کہ بیٹے نے باپ سے علم حاصل کیا ہے ۔ اس کے باوجود خود علمائے اہل سنت  نے اپنی کتابوں  میں ان ائمہ کی علمیت کی حیرت انگیز داستانیں بیان کی ہیں ۔خصوصا امام باقر ع ، امام صادق ع

--------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد اول کتاب العلم اور صحیح ترمذی کتاب العلم

۲۱

اورامام رضا ع سے متعلق ۔امام رضا ع کا تو ابھی لڑکپن ہی تھا جب انھوں نے اپنی کثرت معلومات چالیس قاضیوں کو مبہوت کردیا تھا جنھیں مامون نے ان کے مقابلے کے لئے جمع کیاتھا (۱) ۔

اسی سےیہ راز بھی آشکار  ہوجاتا ہے کہ سنیوں کے مذاہب اربعہ کے اماموں میں تو ہر مسئلے میں اختلاف ہے اوراہل بیت ع کے بارہ اماموں میں کسی ایک مسئلہ میں بھی اختلاف نہیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر اہلسنت  کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ آیات اور احادیث بلا امتیاز علمائے امت کے بارے میں ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ آراء اور مذاہب  کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلاجائے گا ۔ شاید علمائے اہل سنت نے اپنی رائے کی اسی کمزوری کو بھانپ لیا تھا جس کی وجہ سے انھوں نے عقیدے کی تفریق سے بچنے کی خاطر ائمہ اربعہ کے وقت سے ہی اجتہاد کا دروازہ بندکردیا ۔

اس کے بر عکس ، شیعوں کا نظریہ یہ اتفاق  اور ان ائمہ سے وابستگی کی دعوت دیتا ہے ۔ جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے خصوصی طورپر ان سب علوم ومعارف سے نوازا ہے جن کی ہرزمانے میں مسلمانوں  کوضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے اب یہ کسی مدعی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے کوئی غلط بات منسوب کرکے کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالے اور لوگوں کو اس کے اتباع پرمجبور کرے ۔اس مسئلے میں شیعہ ، سنی اختلاف کی نوعیت بالکل وہی ہے جو مہدی موعودسے متعلق احادیث کے بارے میں ان کے اختلاف  کی ہے ۔ مہدی موعود سے متعلق حدیث کی صحت کے د ونوں فریق قائل ہیں ۔

شیعوں کےیہاں مہدی کی شخصیت معلوم ہے ۔ یہ بھی علم ہے کہ ان کے باپ دادا کون ہں ۔لیکن اہل سنت کے خیال میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ مہدی کون صاحب ہوںگے ۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ آخری زمانے میں  پیدا ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتک

--------------------

(۱):-العقدالفرید ابن عبد ربہ اور الفصول المہمہ ابن صباغ مالکی جلد ۳۔

۲۲

بہت سے لوگ مہدی ہونے کا دعوی کرچکے ہیں ۔خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہادفی نے کہا کہ وہ منتظر مہدی ہیں ۔ یہ بات انھوں نے میرے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہی جو اس وقت انکا مرید تھا ۔بعد میں شیعہ ہوگیا ۔

بہت سے اہل سنت اپنے بچے کا نام مہدی اس امید میں رکھتے ہیں کہ شاید وہی امام منتظر وموعود ہو ۔لیکن شیعوں کے یہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ اب پیدا ہونے والا کوئی شخص ایسا دعوی کرسکے ۔کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام مہدی برکت کے لئے ضرور رکھتے ہیں جیسے بعض لوگ اپنے بیٹے کا نام محمد یا احمد یا علی رکھتے ہیں ۔شیعوں کے نزدیک مہدی کا ظہور خود ایک معجزہ ہے کیونکہ وہ اب سےبارہ سو سال پہلے پیدا ہوئے  تھے ، اس کے بعد غائب ہوگئے ۔ اس طرح شیعہ خود بھی آرام سے ہوگئے اور انھوں نے مہدی ہونے کا دعوی کرنے والوں کے لئے بھی راستہ بند کردیا ۔اسی طرح بہت سی صحیح احادیث کے معنی میں بھی شیعوں اورسنیوں کےدرمیان اختلاف ہے ۔ حتی کہ ایسی احادیث کے معنی میں اختلاف ہے جن کا تعلق اشخاض سے نہیں مثلا ایک حدیث ہے :"إختلاف اُمتي رحمة"

سنی کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی فقہی مسئلہ فقہاء کے مابین اختلاف مسلمان کے لئے رحمت ہےکیونکہ اس طرح وہ مسئلہ کا وہ حل اختیار کرسکتا ہے جو اس کے حالات کےمناسب ہو اور اسے پسند ہو ۔ مثلا اگر کسی مسئلہ میں امام  مالک کا فتوی سخت ہو تو وہ مالکی ہونے کے باوجود امام ابو حنیفہ کی تقلید کرسکتا ہے اگر اسے ان کا مذہب سہل اورآسان معلوم ہو ۔

مگر شیعہ اس حدیث کا مطلب کچھ اور بیان کرتے ہیں ۔ ان کےیہاں روایت ہے کہ جب امام صادق علیہ السلام سے اس حدیث کےبارےمیں پوچھا گیا  تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ نے صحیح فرمایا ۔ سائل نے پوچھا کہ اگر اختلاف رحمت ہے تو کیا اتفاق مصیبت ہے ؟ امام صادق ع نے کہا : نہیں یہ بات نہیں تم غلط راستے پر چل پڑے اوراکثر لوگ اس حدیث کا مطلب غلط سمجھتے ہیں ۔ رسول اللہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ" حصول علم کے لئے ایک دوسرے کے پاس جانا اور سفر کرنا رحمت ہے " آپ نے

۲۳

اپنے قول کی تائید میں یہ آیت پڑھی :

" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"

ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ تحصیل علم کے لئے  نکلا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرے ، پھر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس آکر ان کوڈرائے ۔ کیا عجب کہ وہ غلط کاموں سے بچیں(۱) ۔ پھر فرمایا کہ اگر لوگ دین میں اختلاف کریں گے تو وہ شیطانی جماعت بن جائیں گے ۔جیسا کہ ظاہر ہے ، یہ تفسیر اطمینان بخش ہے کیونکہ اس میں عقائد میں اختلاف کے بجائے اتحاد کی تعلیم دی گئی ہے ۔ یہ نہیں کہ لوگ جماعتوں اور گروہوں میں بٹ جائیں ایک اپنی رائے  کے مطابق کسی چیز کو حلال قراردے تو دوسرا اپنے قیاس کی بنا پر اسی چیز کو حرام دے دے ۔ ایک اگر کراہت کا قائل ہو تو دوسرا استحباب کا تیسرا وجوب کا(۲) عربی زبان میں دومختلف ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں ۔

"إختلفت إليك "اور"إختلفت معك"

دونوں کےمعنی میں فرق ہے ۔"إختلفت إليك " کے معنی ہیں : میں تیرے پاس آیا " اور"إختلفت معك" کے معنی ہیں" میں نے تیری رائے سے اختلاف کیا "۔

اس کے علاوہ اہل سنت والجماعت نے حدیث کا جو مفہوم اختیار کیا ہے وہ اس لحاظ سے بھی نامناسب ہے کہ اس اختلاف اور تفرقہ کی دعوت ہے جو قرآن کریم کی اس تعلیم کے منافی ہے جس میں اتحاد واتفاق اور ایک مرکز پر جمع ہونے کی تلقین کی گئی ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :

--------------------

(۱):-سورہ توبہ آیت ۱۲۲

(۲):- مالکیوں کے نزدیک نماز میں بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے ۔شافعیوں کے نزدیک واجب ہے ۔حنفیوں اورحنبلیوں کے نزدیک مستحب ہے مگر کہتے ہیں کہ جہری نماز میں بھی آہستہ پڑھی جائے ۔

۲۴

" وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ "

اور یہ تمھاری امت ایک امت ہے اورمیں تمھارا پروردگار ہوں اس لئے مجھ سے ڈرتے رہو۔(سورہ مومنون ۔آیت ۵۲)

" وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ "

اللہ کی رسی کو مضبوطی سےتھامے رہو اور نااتفاقی نہ کرو۔(سورہ آل عمران ۔آیت ۱۰۳)

" وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ "

آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ناکام رہوگے اورتمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔(سورہ انفال ۔آیت ۴۶)

اس سے بڑھ کر اور کیا پھوٹ اور تفرقہ ہوگا کہ امت واحدہ ایسے مختلف فرقوں اور گرہوں میں بٹ جائے جو ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوں ، ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہوں بلکہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہوں یہاں تک کہ ایک دوسرے کا خون بہانا جائز سمجھتے ہوں ۔یہ کوئی خیالی  بات نہیں بلکہ مختلف ادوار میں فی الواقع ایسا ہوتا رہا ہے جس کی سب سے بڑی گواہ تاریخ ہے اور امت میں پھوٹ کے اسی انجام سے خود اللہ تعالی نے ڈرایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے :

" وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ "

ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو دلائل آجانے کے باوجود آپس میں بٹ گئے اور ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے ۔(سورہ آل عمران ۔آیت ۱۰۵)

" إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ میں بٹ گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ۔(سورہ انعام ۔آیت ۱۶۰)

"وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ () مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ

۲۵

وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ "

مشرکوں میں سے نہ بن جاؤ نہ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود فرقے فرقے ہوگئے ۔سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے ۔(سورہ روم ۔آیت ۳۱-۳۲)

یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا  کہ لفظ شیعا کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ ایک سادہ لوح شخص نے سمجھا تھا  جو ایک دفعہ میرے پاس آکر مجھے نصیحت کرنے لگا : "بھائی جان! خدا کے واسطے ان شیعوں کوچھوڑیئے ،اللہ  ان سے نفرت کرتا ہے :اس نے اپنے رسول کو متنبہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ نہ ہوں "۔

میں نے کہا : یہ کیسے ؟

اس نے یہ آیت پڑی دی : " إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "

 میں نے اسے سمجھانے کی بہیتری کوشش کی کہ شیعا کے معنی ہیں گروہ ،جماعتیں ،پارٹیاں ۔اس کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ شیعہ کا لفظ تو اچھے معنی میں آیا ہے مثلا :" وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ "

یا حضرت موسی ع  کے قصے میں آیا ہے کہ" فوجد فيها رجلين يقتتلان هذا من شيعته وهذا من عدوه "

مگر افسوس ! یہ شخص کسی طرح میری بات مان کر نہ دیاکیونکہ اسے تومسجد کے امام صاحب نے شیعوں کے خلاف سکھا پڑھا دیا تھا ۔ پھر وہ کوئی اور بات کیوں سنتا ؟

اب میں اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ میں شیعہ ہونے سے پہلے سخت شش وپنچ میں تھا ۔جب میں یہ حدیث پڑھتا تھا کہ :"إختلاف اُمتي رحمة" اور اس کا مقابلہ اس دوسری حدیث سے کرتا تھا جس میں آیا ہے کہ "میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو ایک کو چھوڑ کر سب جہنم میں جائیں گے "(۱) تو میں دل ہی دل

-------------------

(۱):-سنن ابن ماجہ کتاب الفتن جلد ۲۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۲۰ ۔جامع ترمذی کتاب الایمان ۔

۲۶

میں حیران  ہوتا تھا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو امت کا اختلاف ہو اور ساتھ ہی وہ دخول جہنم کا موجب بھی ہو ؟؟

پھر جب میں نے اس حدیث کی وہ تشریح پڑھی جو امام جعفر صادق نے کی ہے تومیری حیرت دور ہوگئی کیونکہ معما حل ہوگیا تھا۔ اس وقت میں سمجھا کہ ائمہ اہل بیت ع واقعی بہترین رہنما ،اندھیروں میں چراغ اور صحیح معنی میں قرآن وسنت کے ترجمان ہیں ۔ جب ہی تو رسول اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :

"مثل أهل بيتي فيكم كسفينة نوحٍ من ركبها نجا ومن تخلّف عنها غرق .لاتقدّمواهم فتهلكواولاتتخلّفواعنهم فتهلكوا,ولا تعلّموهم فإنّهم أعلم منكم"

میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح  کی سی ہے جو اس پر سوار ہوگیا بچ گیا اور جو اس سے بچھڑ گیا ڈوب گیا ۔ ان سے نہ توآگے نکلو نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے ۔انھیں کچھ سکھانے  کی کوشش نہ کرو کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں (۱)۔

امام علی ع نے بھی ان کے حق میں فرمایا ہے :

" اپنے نبی کے اہل بیت پر نظر جمائے رکھو ،ان ہی کے رخ پر ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہو وہ تمھیں راستے سے بھٹکنے نہیں دیں گے  نہ تمھیں کسی گڑھے میں گرنے دیں گے ۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو ۔ ان سے آگے نہ نکلو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ تباہ ہوجاؤ گے (۲)

ایک اور خطبے میں اہل بیت ع کی قدر ومنزلت بیان کرتے ہوے امام

--------------------

(۱):- صوعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔جامع الصغیر سیوطی جلد ۲ صفحہ ۱۵۷ ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۷ وجلد ۴ صفحہ ۲۶۶

(۲):-نہج البلاغہ خطبہ ۹۵

۲۷

علی ع نے فرمایا :

"وہ علم  کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ۔ان کا حلم ان کے علم کی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کی خبر دیتا ہے ۔ ان کی خاموشی ان کی عاقلانہ گفتگو  کی غمازی کرتی ہے ۔ وہ نہ حق کے خلاف کرتے ہیں اور نہ امر حق  میں اختلاف کرتے ہیں ۔ وہ اسلام کے ستون ہیں ۔ تعلق  مع اللہ  ان کی فطرت ہے ۔ ان کی وجہ سے حق کا بول بالا ہوا ، باطل کی جڑیں کٹ گئیں اور اس کی زبان گدی سے کھینچ گئی ان کے پاس وہ عقل ہے کہ انھوں نے دین کو سمجھا اور برتا، یہ نہیں کہ سنا اور بیان کردیا ۔علم کو بیان کرنے والے بہت ہیں اور اسے سمجھنے اور برتنے والے کم ہیں "(۱)

جی ہاں  سچ فرمایا امام علی ع نے ، کیونکہ وہ شہر علم کا دروازہ ہیں ۔ بڑا فرق ہے  اس عقل میں جو دین کو سمجھتی اور برتتی  ہے اور اس عقل میں جو سنتی اور بیان کردیتی ہے ۔ سننے اور بیان کردینے والے بہت ہیں کتنے صحابہ ہیں جنھیں رسول اللہ ص کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے ۔ وہ احادیث سنتے تھے اور بغیر سمجھے بوجھے نقل کردیتے  تھے جس سے حدیث کے معنی کچھ کےکچھ ہوجاتے تھے بلکہ بعض دفعہ تو مطلب بالکل الٹا ہوجاتا تھا ۔یہاں تک کہ صحابی کے سخن شناس نہ ہونے اور اصل مطلب نہ سمجھنے  کی وجہ سے بات کفر تک جاپہنچی(۲) ۔

لیکن جو علم پر پوری طرح حاوی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔آدمی اپنی پوری

--------------------

(۱):-نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۶

(۲):- اس کی مثال ابو ہریرہ  کی یہ روایت ہے کہ " انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ " اس کی وضاحت امام جعفر صادق ع نے کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ص نے سنا کہ دو آدمی ایک دوسرے کو برابھلا کہہ رہے ہیں ۔ایک نے کہا " تیری شکل پر پھٹکار  اور تیرے جیسی جس کی شکل ہو اس پر بھی پھٹکار ۔"

اس پر رسول اللہ ص نے فرمایا :" " انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ "" مطلب یہ کہ اس کی شکل تو حضرت آدم ع جیسی ہے ۔گویا تو حضرت آدم کو گالی دے رہا ہے کیونکہ ان کی شکل اس جیسی تھی ۔

۲۸

عمر تحصیل علم میں صرف کردیتا ہے لیکن بسا اوقات اسے بہت ہی کم علم حاصل ہوتا ہے ۔یا زیادہ سے زیادہ وہ علم کی کسی ایک شاخ یا کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرپاتا ہے لیکن علم کی تمام شاخوں پر حاوی ہوجانا یہ بالکل ناممکن ہے  مگر جیسا کہ معلوم ہے ائمہ اہل بیت مختلف علوم سے کماحقہ ، واقف تھے اور ان میں مہارت رکھتے تھے ۔ اس چیز کو امام علی ع نے ثابت کردیا تھا جس کی شہادت مورخین نے بھی دی ہے ۔ اسی طرح امام محمد باقر ع اور امام جعفر صادق سے ہزاروں علماء کو مختلف علوم میں تلمذ حاصل تھا ، جیسے فلسفہ ، طب  ،کیمیا اور طبیعیات وغیرہ ۔

شیعہ اور سنی عقائد

جس بات سےمجھے یقین ہوگیا کہ شیعہ امامیہ ہی نجات پانے والا فرقہ ہے ،وہ یہ ہے کہ شیعہ عقائد فراخ دلانہ ،آسان اورہر ہوشمند اورباذوق شخص کے لئے قابل قبول ہیں ۔ شیعوں کے یہاں ہر مسئلے اور ہر عقیدے کی مناسب اور اطمینان بخش وضاحت موجود ہے جو ائمہ اہل بیت ع میں سے کسی نہ کسی سے منسوب ہے ۔ جب کہ ممکن ہے کہ ایسی کافی وشافی وضاحت اہل سنت اوردوسرے فرقوں کے یہاں نہ مل سکے ۔

میں اس فصل میں فریقین کے بعض اہم عقائد کے بارے میں گفتگو کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کے متعلق اپنی سوچی سمجھی رائے  ظاہر کروں ۔ قارئین کو آذادی اور اختیار ہے کہ وہ میری رائے کو مانیں یا نہ مانیں ،مجھ سے اتفاق کریں  یا اختلاف ۔

میں یہاں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بنیادی عقیدہ سب مسلمانوں کا ایک ہے ۔ سب مسلمان اللہ تعالی پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے  ہیں اور اس کے رسولوں میں کوئی تمییز نہیں کرتے ۔

اسی طرح سب مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جہنّم حق ہے ، جنت حق ہے ، اللہ سب مردوں کو زندہ کرےگا اور انھیں محشر میں حساب کتاب کے لئے جمع کرےگا ۔ اسی طرح قرآن پر بھی اتفاق ہے اور سب کا ایمان ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ سب کا قبلہ ایک ہے ، ان کا دین ایک ہے ،لیکن ان عقائد کے مفہوم میں اختلاف ہوگیا ۔ اور اس طرح یہ عقائد مختلف کلامی فقہی اورسیاسی مکاتب فکر کی جولان گاہ بن گئے ہیں ۔

۲۹

اللہ تعالی کے متعلق فریقین کا عقیدہ

اس سلسلے میں ایک اہم اختلاف رویت باری تعالی کے متعلق ہے :- اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ جنّت میں سب مومنین کو رویت باری تعالی نصیب ہوگی ۔ان کی حدیث کی مستند کتابوں ،مثلا بخاری اور مسلم وغیرہ میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں اس پر زوردیا گیا ہے کہ یہ رویت مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہوگی (۱)۔

بلکہ ان میں ایسی روایات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے گویا خدا انسانوں کے مشابہ ہے ، وہ ہنستاہے (۲)،آتا جاتا ہے ،چلتا ہے پھرتاہے اور ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر اترتا ہے (۳)۔حتی کہ اپنی پنڈلی کھولتا ہے جس پر شناختی علامت بنی ہوئی ہے (۴)۔ اور یہ کہ جب وہ اپنا ایک پاؤں دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ بھر جائے گی ۔ غرض ایسی باتیں اور ایسے اوصاف حق تعالی سے منسبوب کیے گئے ہیں جن سے وہ  پاک اور منزہ ہے (۵)۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار کینیا (مشرقی افریقہ)کے شہر لامو سےمیر اگزر ہوا ۔ وہاں مسجد میں ایک وہابی امام صاحب نمازیوں  کوخطاب کررہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کے دو ہاتھو ہیں ۔ دوپاؤں ہیں ، دوآنکھیں اور چہرہ ہے ۔ جب میں نے اس پر اعتراض کیاتو انھوں نے اپنی تائید میں قرآن کی کچھ آیات پڑھیں ، فرمایا :-" وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ

--------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۲صفحہ ۴۷ ۔جلد ۵ صفحہ ۱۷۸ اور جلد ۶صفحہ ۳۳

(۲):-صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۲۵۔جلد ۵صفحہ ۴۷۔۴۸ ۔صحیح مسلم جلد۱ صفحہ ۱۱۴۔۱۲۲

(۳):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۹۷

(۴):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۸۲

(۵):- صحیح بخاری جلد ۸صفحہ ۱۸۷ ،صفحہ ۲۰۲ سےثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی کے ہاتھ اور انگلیاں ہیں ۔

نوٹ:- واضح ہو کہ یہ تو خدا کو حادث ماننا  ہوا جبکہ وہ قدیم ہے ۔(ناشر)

۳۰

وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ...... "

یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ تو بندھا ہوا ہے ۔ بندھیں ان کے ہاتھ ! اورلعنت ہو ان پر یہ بات کہنے کی وجہ سے ۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہیں "۔

اس کے بعد دوآیتیں اور پڑھیں :" وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا " ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ، اور

" کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " جو مخلوق بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے اور تمھارے پروردگار کا چہرہ جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گا ۔

میں نے کہا :- بھائی صاحب !جو آیات آپ نے پڑھی ہیں مجاز ہیں حقیقت  نہیں ۔ کہنے لگے سارا قرآن حقیقت ہے اس میں مجاز کچھ نہیں ۔ اس پر میں نے کہا : پھر اس آیت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں:" وَمَن كَانَ فِي هَـذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى " کیا آپ آیت  کو اس کے حقیقی معنی میں لیں گے ؟ کیا واقعی دنیا میں جو بھی اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا ؟

امام صاحب نے جواب دیا : ہم اللہ کے ہاتھ ، اللہ کی آنکھ اور اللہ کےچہرے کی بات کررہے ہیں ، اندھوں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ۔(فکری جمود کی انتہا ملاحظہ ہو۔)

میں نے کہا :- اچھا اندھوں کو چھوڑیۓ ! آپ نے جو آیت پڑھی ہے : " کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " اس کی تشریح آپ کیسے کریں گے ؟

امام صاحب نے حاضر ین کو مخاطب کرکے کہا :کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اس

۳۱

آیت کا مطلب نہ سمجھتا ہو؟اس کا مطلب صاف ظاہر ہے ۔یہ بالکل ویسی ہی آیت ہے جیسی"كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه".

میں نے کہا:- آپ نے اور بھی گڑبڑکردی ۔بھائی صاحب میرا آپ کا اختلاف  قرآن کے بارے میں ہے ۔آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میں مجاز نہیں سب حقیقت ہے ، میں کہتا ہوں مجاز بھی ہے خصوصا ان آیات  میں جس میں تجسیم   یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے ۔ اگر آپ کو اپنی رائے پر اصرارہے تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ"كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه"

کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ ،پاؤں اور اس کا پورا جسم فنا ہوجائے گا اور صرف چہرہ باقی بچے گا ۔ (نعوذ باللہ)پھر میں نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا : کیا آپ کو یہ تفسیر منظور ہے ؟

پورے مجمع پر سکوت طاری ہوگیا اور امام صاحب کو بھی ایسی چپ لگ گئی جیسے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہوں ۔ میں انھیں رخصت کرکے یہ دعا کرتا ہوا چلاآیا کہ اللہ انھیں نیک ہدایت کی توفیق دے ۔

جی ہاں ! یہ ہے ان کا عقیدہ جو ان کی معتبر کتابوں میں اور جو ان کے مواعظ وخطبات میں بیان کیا جاتا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کچھ علمائے اہل سنت اس کے انکاری نہیں ہیں لیکن اکثریت کو یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار ہوگا اور وہ اس کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں کا چاند دیکھتے ہیں ۔ ان کا استدلال اس آیت سے ہے :

" وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة "

کچھ چہرے اس دن ہشاش بشاش اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔

جیسے  ہی آپ کو اس بارے میں شیعوں  کا عقیدہ معلوم ہوگا آپ کے دل کو اطمینان ہوجائے گا  اور آپ کی عقل اسے تسلیم کرلے گی ۔ کیونکہ شیعہ ان قرآنی آیات کی جن میں

--------------------

(۱):- سورہ قیامہ ۔آیت ۲۲۔ ائمہ اہل بیت ع نے " اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوںگے " کی تفسیر یہ کی ہےکہ اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار ہوںگے ۔

۳۲

تجسیم یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے تاویل کرتے ہیں اور انھیں مجاز پر محمول کرتے ہیں ، حقیقت پر نہیں ۔ اور وہ مطلب نہیں لیتے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ، یا جیسا بعض دوسرے لوگ سجمھتے ہیں ۔

اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام کہتے ہیں : "ہمت کتنی ہی بلند پروازی سے کام لے اورعقل کتنی ہی گہرائی میں غوطے لگائے ، اللہ کی ذات کا ادراک ناممکن ہے ۔ اس کی صفات کی کوئی حد نہیں اور نہ اس کی تعریف ممکن ہے نہ اس کا وقت متعین ہے اورنہ زمانہ مقررہے "(۱) امام محمد باقر علیہ السلام  تجسیم الہی کی تردید کرتے ہوئے کتنی فلسفیانہ ،علمی ،نازک اور جچی تلی بات کہتے ہیں : "ہم چاہے جس چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس کے بارے میں جتنا بھی سوچیں ہمارے ذہن میں جو بھی تصویر ابھرے گی وہ ہماری طرح کی مخلوق ہوگی "(۲) جو عقل میں گھر  گیا لاانتہا کیوں کر ہوا

                                       جو سمجھ میں آگیا وہ خدا کیوں کر ہوا

(اکبر آلہ آبادی)

تجسیم  اور تشبیہ کی رد میں ہمارے لیے تو اللہ پاک کا اپنی کتاب محکم میں یہ قول کافی ہے:

"ليس كمثله شيءٌ"اور "لاتدرکه الأبصار"

اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔ اور ۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔

جب حضرت موسی نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا :"ربّ أرني أنظر إليك " تو جواب ملا"لن ترانی" تم مجھے  کبھی نہیں دیکھ سکو گے ۔ اوربقول زمخشری

--------------------

(۱):-نہج البلاغہ ۔پہلا خطبہ ۔

(۲):- عقائد الامامیہ ۔شیخ مظفر ۔یہ کتاب جامعہ تعلیمات اسلامی نے مکتب تشیع کے نام سے شایع کی ہے

لن کے مفہوم  میں تابید  شامل ہے ۔یعنی ابد تک کبھی بھی نہیں دیکھ سکو گے ۔

۳۳

یہ سب شیعہ اقوال کی صحت  کی دلیل قاطع ہے ۔بات یہ ہے کہ شیعہ ان ائمہ اہل بیت کے اقوال نقل کرتے  ہیں جو سرچشمہ علم تھے ۔ اور جنھیں کتاب اللہ کا علم میراث میں ملا تھا ۔

جو شخص اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہے وہ اس موضوع پر مفصل کتابوں  کی طرف رجو ع کرے ۔ مثلا المراجعات کے مولف سید شرف الدین عاملی کی کتاب "کلمۃ حول الرویہ "

نبوت کے بارے میں فریقین  کا عقیدہ

نبوت  کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت  کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ  کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں  کی طرح ہیں ۔ اس بارے میں حدیث کی کتابوں میں متعدد روایات موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے کئی موقعوں پر غلط فیصلہ کیا اور صحابہ نے  آپ  کی اصلاح کی ۔جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں ہوا ۔جہاں اللہ کے رسول  ص کی رائے درست نہیں تھی اور عمر کی رائے صحیح تھی ۔(۱)

اسی طرح جب رسول اللہ مدینہ آئے تو وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کجھور کے درخت میں گا بھادے رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :- گابھا دینے کی ضرورت نہیں ، ایسے بھی کجھوریں لگیں گی ، لیکن ایسا نہ ہوا ۔ لوگوں نے آپ سے آکر شکایت  کی تو آپ نے کہا :" تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے کہا : میں بھی انسان ہوں ،جب میں تمھیں دین کی کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو ۔ مگر جب میں کسی دنیا وی معاملے میں اپنی رائے دوں

------------------

(۱):-البدائیہ والنہائیہ کے علاوہ صحیح مسلم ۔ سنن ابوداؤد ۔جامع ترمذی ۔

۳۴

تو میں محض انسان ہوں ۔(۱) یہ بھی روایت  ہے کہ ایک مرتبہ آپ پر جادو کے اثر سے آپ کو یہ نہیں پتہ چلتا تھا کہ آپ نے کیا کیا ۔ بعض دفعہ یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے ازدواج سے صحبت کی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا تھا(۲) ۔یا کسی اور کام کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ یہ کام کیا ہے مگر دراصل وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا(۳) ۔ اہل سنت کی ایک اور روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کو نماز میں سہو ہوگیا ۔یہ یاد نہیں رہا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔(۴) ایک دفعہ آپ کو نماز میں بے خبر سوگئے ،یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی ،پھر جاگ گئے اور وضو کی تجدید کے بغیر نماز پوری گی(۵) ۔اہل سنت یہ بھی کہتے  کہیں کہ آپ  بعض دفعہ کسی پر بلاوجہ ناراض ہوجاتے ، اسے برابلا کہتے اور اس کو لعنت ملامت کرتے تھے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :   یا الہی ! میں انسان ہوں ، اگر میں کسی مسلمان کو لعنت ملامت کروں یا برابھلا کہوں تو تو اسے اس کے لئے رحمت بنادے(۶) ۔اہل سنت  کی ایک اور روایت  ہے کہ ایک دن آپ حضرت عائشہ کے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ران کھلی ہوئی تھی ، اتنے میں ابوبکر آئے ، آپ اسی طرح لیٹے ہوئے ان سے باتیں کرتے رہے ۔کچھ دیر بعد عمر آئے تو آپ ان سے بھی اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ جب عثمان نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ اٹھ کربیٹھ  گئے اور کپڑے ٹھیک کرلیے ۔ جب عائشہ نے اس بارے میں پوچھا  تو آپ نے کہا : میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں جس سے ملائکہ بھی شرماتے ہیں ۔(۷)

------------------

(۱):-صحیح مسلم کتاب الفضائل  جلد ۷ صفحہ ۹۵ ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۶۲ اورجلد ۳ صفحہ ۱۵۲

(۲):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۲۹

(۳):- صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۶۷

(۴):- صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۲۳

(۵):- صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۷ وصفحہ ۴۴ وصفحہ ۱۷۱

(۶):- سنن دارمی کتاب الرقاق

(۷):- صحیح مسلم باب فضائل عثمان جلد ۷ صفحہ ۱۱۷

۳۵

اہل سنت  کے ہاں ایک روایت یہ بھی ہےکہ رمضان  المبارک میں آپ جنب ہوئے تھے اور صبح ہوجاتی  تھی اور آپ کی نماز فوت ہوجاتی تھی(۱) ۔اسی طرح اور جھوٹ ہیں جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے ،نہ دین اور نہ شرافت اس کامقصد رسول اللہ کی توہین کرنا اور آپ  کی شان  میں گستاخی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اہل سنت ایسی باتیں رسول اللہ سے منسوب کرتے ہیں جو خود اپنے سے منسوب کرنا پسند نہیں کرتے ۔

اس کے برخلاف شیعہ ائمہ اہلبیت ع کے اقوال سے استدلال کرتے ہوئے انبیاء کو ان تمام لغویات سے پاک قراردیتے ہیں خصوصا ہمارے نبی محمد  علیہ افضل الصلاۃ وازکی السلام کو ۔شیعہ کہتے ہیں کہ آنحضرت تمام خطاؤں ،لغزشوں اورگناہوں سے پاک ہیں چاہے وہ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے ۔اس طرح آپ پاک ہیں ہر غلطی اوربھول چوک سے ،جادو کے اثر سے اور ہر اس چیز سے جس سے عقل متاثر ہوتی ہو ۔ آپ پاک ہیں ہر اس چیز سے جو شرافت اوراخلاق  حمیدہ  کےمنافی ہو جیسے راستے میں کچھ کھانا یا ٹھٹھامارنا یا ایسا مذاق کرنا جس میں جھوٹ کی آمیزش ہو ۔آپ پاک ہیں ہر اس فعل سے جو عقلاء کے نزدیک ناپسندیدہ ہو یا عرف عام میں اچھا نہ سمجھا جاتا ہو ۔چہ جائیکہ  آپ دوسروں  کے سامنے اپنا رخسار بیوی کے رخسار پررکھیں اور اس کے ساتھ حبشیوں کا ناچ دیکھیں(۲) ۔یا بیوی کو کسی جنگ کے موقع ساتھ لے کرجائیں  اور وہاں اس کے ساتھ دوڑلگائیں  کہ کبھی وہ آگے نکل جائے اور کبھی آپ اور اس پر آپ کہیں کہ " یہ اس کے بدلے  میں "(۳) ۔

شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم  کی ساری روایات جو عصمت انبیاء سے متناقض ہیں امویوں  اور ان کے حامیوں  کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ مقصد ان کے دو ہیں :

-------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۳۲-۲۳۴  یہ اور ایسی بے شمار روایتیں راجپال کو رنگیلا رسول  رشدی ملعون کو STANNIC VERSESاور مستشرقین کو ہتک رسول کے لئے مواد فراہم کرتی ہیں ۔ (ناشر)

(۳):- صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۲۲۸

(۴):- مسند امام احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۷۵       

۳۶

         ایک تو رسول اللہ  کی عزت وتوقیر  کو کم کرنا تاکہ اہل بیت ع کی وقعت کو گھٹایا جاسکے ۔ دوسرے اپنے ان افعال بد کے لیے وجہ تلاش کرنا جن کا ذکر تاریخ میں ہے  اب اگر رسول اللہ بھی غلطیاں کرتے تھے اور خواہشات نفسانی سے متاثر ہوتے تھے  جیسا کہ اس قصے میں بیان  کیا گیا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ جب زینب بنت جحش ابھی زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں  ،آپ انھیں بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے  دیکھ کر ان  پر فریفتہ ہوگئے تھے ، اس وقت آپ کی زبان سے نکلا تھا :سبحان الله مقّلب القلوب     (۱)           

ایک اور سنی روایت کے مطابق آپ کی طبیعت کا زیادہ جھکاؤ حضرت عائشہ  کی طرف تھا اور بقیہ ازواج کے ساتھ ویسا سلوک نہیں تھا ۔ چنانچہ ازواج نے ایک دفعہ حضرت فاطمہ زہرا س کو اور ایک دفعہ زینب بن جحش  کو عدل کا مطالبہ کرنے کے لئے  آپ کے پاس اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا تھا(۲) ۔            

اگر خود رسول اللہ کی یہ حالت  ہو تو معاویہ بن ابی سفیان  ،مروان بن حکم ،عمرو بن عاص ،یزید بن معاویہ  اور ان تمام اموی حکمرانوں  کو کیا الزام دیا جاسکتا  ہے جنھوں نے سنگین جرائم  کا ارتکاب کیا اور بے گناہوں کو قتل کیا ۔بقول شخصی ،اگر گھر کا مالک ہی طبلہ بجارہا ہو تو اگر بچے ناچنے لگیں تو ان کا کیا قصور !

ائمہ اہل بیت ع جو شیعوں کے ائمہ ہیں وہ حضرت رسالتمآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عصمت کے قائل  ہیں اور ظاہر ہے کہ گھر والوں سے زیادہ گھر کا حال  کون جان سکتا ہے ؟ اسی لئے وہ ان تمام آیات قرآنی کی تاویل کرتے ہیں جن  سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو عتاب کررہا ہے جیسے" عبس وتولّی" یا جن سے گناہوں   کے اقرار کا مفہوم نکلتا ہے جیسے" ليغفر لک الله ما تقدّم من ذنبک وما تاخّر " یا ایک دوسری آیت" لقد تاب الله علی النبیّ " یا"عفا الله عنک لم اذنت لهم" 

--------------------

(۱):- تفسیر جلالین" وتخفی فی نفسک ماالله مبديه " کی تفسیر کی ذیل میں ۔

(۲):- صحیح مسلم جلد ۷ صفحہ ۱۳۶ باب فضائل عائشہ ۔

۳۷

ان تمام آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت مجروح نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ بعض آیات آپ سے متعلق ہی نہیں ہیں اور بعض آیات ظاہری الفاظ پر محمول نہیں ہیں بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے مجازا کہا گیا ہے ۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے : اے پڑوسن سن لے یہ بات تیرے لیے ہے " مجاز کا استعمال عربی زبان میں کثرت سے ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے بھی اس کا استعمال قرآن مجید میں کیا ہے ۔جو شخص تفصیل معلوم کرنا اور حقیقت حال سے آگاہی حاصل کرناچاہیے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ شیعہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے جیسے علامہ طبا طبائی کی المیزان  ،آیت اللہ  خوئی کی البیان ،محمد جواد مغنیہ کی الکاشف ،علامہ طبرسی کی  الاحتجاج ، وغیرہ وغیرہ ۔

میں اختصار کے کام لے رہا ہوں کیونکہ میرا مقصد صرف عمومی طورپر فریقین کا عقیدہ بیان کرنا ہے ۔اس کتاب سےمیرا مقصد صرف ان امور کا بیان کرنا ہے جن سے مجھے ذاتی طور پر اطمینان نصیب ہوا اور انبیاء اور ان کے بعد اوصیاء کی عصمت کا مجھے یقین ہوگیا ۔ میرا شک اورحیرت یقین میں بدل گئے اور ان شیطانی وسوسوں کا ازالہ ہوگیا جن کی وجہ سے کبھی کبھی میری خطائیں ، میرے گناہ اور میرے غلط اعمال مجھے اچھے ،صحیح اوردرست معلوم ہوتے تھے ۔ کبھی تو مجھے  افعال واقوال رسول میں بھی شک  ہونے لگتا تھااور آپ کے بتلائے ہوئے احکام  پر بھی اطمینان نہیں ہوتا تھا بلکہ نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ بعض دفعہ اللہ کے اس قول میں بھی شک ہونے لگتا تھا کہ

"ومآ اتاكم الرّسول فخذوه ومآ نهاكم عنه فانتهوا"

رسول  تمھیں جو بتلائیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ ۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کلا م اللہ  نہ ہو رسول کا اپنا ہی کلام ہو ! سنیوں کا یہ کہنا کہ " رسول اللہ صرف اللہ کے کلام کی تبلیغ کی حد تک معصوم ہیں " بالکل بیکار بات ہے ۔اس لیے کہ اس کی کوئی پہچان نہیں کہ اس قسم کا کلام تو اللہ کی طرف سے ہے اور اس طرح کا کلام خود آپ کی اپنی طرف سے ، تاکہ یہ کہا جاسکے کہ اس کلام میں تو آپ معصوم ہیں اور اس میں معصوم نہیں ، اس لیے یہاں غلطی کا

۳۸

احتمال ہے ۔

اللہ کی پناہ اس متضاد قول سے ! اس سے تو رسول اللہ کی شان تقدس میں شک پیدا ہوتا ہے اور آپ کی شان میں طعن  کی گنجائش نکلتی ہے ۔

اس پر مجھے وہ گفتگو یاد آگئی  جو میرے شیعہ ہوجانے کےبعد میرے اور چند دوستوں کے درمیان ہوئی تھی ۔ میں انھیں قائل  کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ رسول اللہ ص ہر بات میں معصوم ہیں اور وہ مجھے سمجھارہے تھے کہ آپ صرف قرآن کی تبلیغ  کی حد تک معصوم ہیں ۔ ان میں ایک تو زر کے پروفیسر تھے ۔ توزر منطقہ  جرید کا ایک شہر ہے(۱) ۔یہاں کے لوگ علم وفن ،ذہانت وفطانت  اور لطیفہ گوئی کے لئے مشہور ہیں ۔یہ پروفیسر صاحب ذرا دیر سوچتے رہے ، پھر کہنے لگے : حضرات ! اس مسئلے میں میری بھی ایک رائے ہے ۔ہم سب نے  کہا تو فرمائیے ۔کہنے لگے :بھائی تیجانی شیعوں کی طرف سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ، ہمارے لیے یہی ضروری کہ رسول اللہ ص  کے علی الاطلاق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھیں ورنہ خود قرآن میں شک پڑجائےگا ۔ سب نے کہا : وہ کیسے ؟ پروفیسر  صاحب نے فورا جواب دیا : کیا تم نے دیکھا ہے کہ کسی سورت کے نیچے اللہ تعالی کے دستخط ہوں ۔ دستخط سے ان کی مراد وہ مہر تھی جو دستاویزات  اور مراسلات کے آخر میں اس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ یہ شناخت ہوسکے کہ یہ کس کی طرف سے ہے ۔ سب لوگ اس لطیفے پر ہنسنے لگے مگر یہ لطیفہ بڑا معنی  خیز ہے ،کوئی بھی غیر متعصب انسان اگر اپنی عقل استعمال کرکے غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح  طور  پر سامنے آئے گی کہ قرآن کو کلام الہی تسلیم کرنے  کا مطلب یہ ہے  کہ صاحب وحی کی عصمت مطلقہ کا بھی عقیدہ بغیر کیس کاٹ چھانٹ کے رکھا جائے کیونکہ یہ توکوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ اس نے اللہ تعالی کو بولتے ہوئے سنا ہے  یا جبرئیل کو وحی لاتے ہوئے دیکھا ہے ۔

------------------

(۱):- منطقہ جرید تیونس کے جنوب میں قفصہ سے ۹۲ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ عربی کے مشہور شاعر ابو القاسم شابی اور خضر حسین کا جائے والادت ہے ۔خضر حسین جامعۃ الازہر کے شیخ الجامعہ تھے ۔ تیونس کے علماء میں سے بہت سے علماء اسی علاقے میں پیدا ہوئے ہیں ۔

۳۹

خلاصہ کلام یہ ہے کہ " عصمت انبیاء ع" کے بارے میں شیعہ عقیدہ ہی وہ محکم اور مضبوط عقیدہ ہے جس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور تمام تفسانی وشیطانی وسوسوں کی جڑکٹ جاتی ہے اور مفسدوں خصوصا یہودیوں ،عیسائیوں اور دشمنان دین کا راستہ بند ہوجاتا ہےجو ہر وقت  اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کہیں سےراستہ ملے تو اندر گھس کر ہمارے معتقدات  کو بھک سے اڑا دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالیں ۔ایسے راستے انھیں صرف اہل سنت ہی  کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں  کہ وہ اکثر وبیشتر  ہمارے خلاف ان ہی اقوال وافعال سے دلیل  لاتے  ہیں جو بخاری ومسلم میں غلط طور پر رسول اللہ سے منسوب کیے گئے  ہیں۔ (۱)

ابہم  انھیں کیسے یقین دلائیں  کہ بخاری ومسلم میں بعض غلط روایات بھی ہیں ۔ یہ بات قدرتی طور پر خطر ناک  ہےکیونکہ اہل سنت والجماعت اسے کبھی نہیں مانیں گے  ۔ان کے نزدیک تو بخاری  کتاب باری کے بعد صحیح ترین کتاب ہے اور اسی طرح مسلم بھی ۔

فریقین کے نزدیک امامت کا عقیدہ

اس بحث میں امامت سے مراد مسلمانوں کی امامت کبری ہے ، یعنی خلافت ،حکومت ،قیادت اور ولایت کا مجموعہ ۔امامت سے مراد محض نماز کی امامت نہیں جیسا کہ آج کل اکثر لوگ سمجھتے ہیں ۔

چونکہ میری کتاب میں بحث کا مدار مذہب تسنن اور مذہب تشیع کے

--------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۳ باب شہادۃ الاعمی میں عبید بن میمون کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مسجد میں ایک نابینا شخص کو قرآن  کی تلاوت  کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے اس نے فلاں سور  کی فلاں فلاں آیتیں یاد دلادیں جو میں بھول گیا تھا ۔

آپ یہ روایت پڑھیے اورحیرت کیجیے کہ رسول اللہ آیات بھول گئے اور اگر یہ نابینا شخص وہ آیات یاد نہ دلاتا تو وہ آیات غائب ہی ہوگئی ہوتیں ۔ حد ہے اس لغویت کی !

۴۰

تقابل پر ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ میں یہ ظاہر کردوں کہ امامت کے اصول کی فریقین کے نزدیک کیا نوعیت ہے تاکہ قارئین کویہ علم ہوسکے کہ فریقین کے نقطہ نظر کی بنیاد کیا ہے اور ضمنا یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس یقین اور اطمینان نے مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا ۔

شیعوں کے نزدیک امامت اپنی زبردست اہمیت کے باعث اصول دین میں شامل ہے ۔ امامت خیرالامم کو قیادت فراہم کرتی ہے ۔ اس قیادت کے متعدد فضائل ہیں اور اس کی خصوصیات میں سے قابل ذکر ہیں : علم ،حلم ،شجاعت ،نزاہت ،عفت ،زہد ،تقوی  وغیرہ وغیرہ ۔

شیعوں کا اعتقاد  ہے کہ امامت  ایک خدائی منصب ہے جو اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے جسے منتخب کرتا ہے ، اسے عطا کردیتا ہے تاکہ وہ اپنا اہم کردار ادا کرے اور یہ کردار نبی کے بعد دنیا کی قیادت ہے ۔ اسی اصول کی بنیاد پر امام علی بن ابی طالب ع مسلمانوں  کے امام تھے ،انھیں اللہ نے منتخب کیا تھااور اس سے بذریعہ وحی اپنے رسول  ص سےکہا تھا  کہ علی ع کا منصب امامت پر تقرر کردیں چنانچہ رسول اللہ نے ان کا تقرر کیا اور حجۃ الوداع کےبعد غدیر خم کے مقام پر امت کو اس تقرر کی اطلاع دی ، اس پر لوگوں نے امام علی ع کی بیعت کرلی ،" یہ شیعہ کہتے ہیں "

جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے وہ بھی امت کی قیادت کے لئے امامت ضروری ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق امت کو حق ہے کہ وہ جس کو چاہے اپنا امام اور قائد بنالے ۔چنانچہ مسلمانوں نے رسول اللہ کی وفات کے بعد ابو بکر بن ابی قحافہ کو امام منتخب کیا تھا ۔ خود رسول اللہ نے خلافت کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا تھا بلکہ اس کا فیصلہ شوری پر چھوڑ دیا تھا ۔ یہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں "۔

حقیقت کیا ہے ؟

تحقیق کرنے والا اگر غیر جانبداری کے ساتھ فریقین کے دلائل پر غور کرے تو یقینا وہ حقیقت تک رسائی حاصل کرلے گا ۔جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے چونکہ

۴۱

 یہ کتاب میرے ہدایت پانے اور مذہب بدلنے کا قصّہ بیان کرتی ہے اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ میں قارئین کرام کے سامنے اپنا نقطہ نظر اور اپنا عقیدہ واضح کردوں ۔ اب یہ قارئین پر ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا رد کریں کیونکہ آزادی فکر ہر دوسری چیز سے زیادہ اہم ہے قرآن کہتا ہے :

"ولا تزروازرةٌ وّزراُخرى"

کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔(سورہ فاطر ۔آیت 18)

اور

"كلّ نفسٍ بما كسبت رهينةٌ"

ہر شخص کا دار ومدار اس کے اعمال پر ہے ۔(سورہ مدّثر ۔آیت 38)

شروع کتاب سے ہی میں نے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کی ہے کہ میں قرآن اور متفق بین الفریقین  احادیث سے تجاوز نہیں کروں گا اور اس سارے عمل میں کوئی خلاف عقل بات تسلیم نہیں کروں گا کیونکہ عقل سلیم متضاد اور متنا قض باتوں کو نہیں مانتی ۔حق تعالی کا ارشاد ہے :" وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفاً كَثِيراً "

اگر قرآن غیراللہ کے پاس سے آیا ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے ۔(سورہ نساء ۔آیت 82)

امامت قرآن کی رو سے

اللہ تعالی فرماتا ہے :

" وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِي "

جب ابراہیم کو ان کے رب نے کچھ  باتوں سے جانچا اور

۴۲

ابراہیم  نے ان کو پورا کردیا تو اللہ نے کہا: میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہاہوں ۔ابراہیم  نے کہا : اور میری اولاد میں سے ؟ اللہ تعالی نے کہا : میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچتا ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 124)

یہ آیت کریمہ ہمیں بتلاتی ہے کہ امامت ایک خدائی منصب ہے اور خدا یہ منصب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے کیونکہ وہ خود کہتا ہے :"إنّي جاعلك للنّاس إماما" میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ۔

اس آیت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امامت اللہ کی طرف سے ایک عہد ہے جو صرف اللہ کے ان نیک بندوں تک پہنچتا ہے جنھیں وہ خاص طور پر اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کیونکہ یہ صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ظالم اللہ کے اس عہد کے مستحق نہیں ۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے :" وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ "

ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے  تھے اور ہم نے ان کو وحی بھیجی کہ نیک کام کریں ، نماز قائم کریں اور زکات دیں ۔ اور وہ ہماری عبادت کرتے تھے ۔(سورہ انبیاء ۔آیت 73)

ایک اور  آیت ہے :

" وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ "

ہم نے ان امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے کیونکہ وہ صابر  تھے اور ہماری نشانیوں پر یقین

۴۳

رکھتے تھے ۔ (سورہ سجدہ ۔آیت 24)

ایک اور آیت ہے :" وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ "

ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جنھیں دنیا میں کمزور سمجھ لیاگیا ہے ، ان کو امام بنائیں  اور انھیں (زمین کا )وارث بنائیں ۔(سورہ قصص ۔آیت 5)

ممکن  ہے کسی کویہ خیال پیدا ہو کر مذکورہ بالا آیات قرآن سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہاں امامت سے مراد نبوت ہے  لیکن یہ صحیح نہیں  کیونکہ امامت کا مفہوم زیادہ عام ہے ،ہر رسول اور نبی امام ہوتا ہے لیکن ہر امام رسول یا نبی نہیں ہوتا۔

اسی وجہ  سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں واضح کردیا ہے کہ اس کے نیک  بندے اس منصب کے لیے اس سے دعا کرسکتے ہیں تاکہ وہ لوگوں  کی ہدایت کا شرف حاصل کرسکیں اور اس طرح اجر عظیم کے مستحق ہوسکیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً   وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً   وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً "

وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، جب انھیں بیہودہ چیزوں  کے پاس   سے گذرنے کا اتفاق  ہوتا ہے  تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں ۔ اور جب انھیں ان کے پروردگار کی باتین  سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے  ،اندھے  ہو کر نہیں گر تے (بلکہ غور سے سنتے ہیں ) اور وہ لوگ جو ہم سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا ۔(سورہ فرقان ۔آیات 72-74)

۴۴

اسی طرح قرآن کریم میں ائمہ کالفظ  ان ظالم سرداروں  اور حکمرانوں  کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو اپنے پیروکاروں  اور اپنی قوموں  کو گمراہ کرتے ، فساد پھیلاتے میں ان کی رہنمائی کرتے اور دنیا وآخرت کے عذاب  کی انھیں دعوت دیتے ہیں ۔ فرعون اور اس کے لشکر یوں کے متعلق قرآن کریم میں ہے :

" فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِي وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ   وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِينَ"

ہم نے اسے اور اس کے لشکر یوں کو پکز کردریا میں پھینک دیا ۔ پھر دیکھو  ! طالموں کا کیا انجام ہوا ۔ ہم نے انھیں ایسے امام بنایا جو جہنم کی دعوت دیتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔ اس کے بعد ہم نے اس  دنیا میں ان پر لعنت بیھجی  اور قیامت میں وہ ان میں سے ہونگے  جن کا ہولناک انجام ہوگا ۔(سورہ قصص ۔آیت 40-42)

اس بنیاد پر شیعہ جو کچھ کہتے ہیں وہی صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالی نے واضح کردیا  ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش  نہیں کہ امامت  ایک من جانب اللہ منصب ہے جو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے ،وہ اللہ کا عہد ہے جس کا اطلاق ظالموں پر نہیں ہوتا ۔چونکہ ابو بکر ، عمر، اور عثمان  کی عمروں  کا بڑا حصّہ  شرک  کی حالت میں گزرا  کیونکہ وہ بتوں  کوپوجتے رہے تھے اس لیے وہ اس کے مستحق  نہیں ۔اسی طرح شیعوں کا یہ قول درست ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امام علی بن ابی طالب  ہی امامت کے مستحق  ہیں اور امامت کے متعلق اللہ کے دعوے کا اطلاق صرف انھی پر ہوتا ہے کیونکہ وہ کبھی بتوں  کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام لانے کے بعد اس سے پہلے کے سب گناہ محو ہوجاتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ واقعی صحیح ہے ، لیکن پھر بھی بڑا فرق ہے اس شخص   جو پہلے  مشرک تھا  بعد میں  اس

۴۵

نے توبہ کرلی اور اس شخص میں جس کا دامن شروع سے شرک کی آلائش سے پاک صاف رہا اور جس نے بجز اللہ کے کبھی کسی کے سامنے جبیں نیاز خم نہیں کی ۔

امامت سنّت نبوی کی رو سے

امامت کے بارے میں رسول اللہ ص کے متعدد اقوال  ہیں جن کو شیعوں اورسنیوں  دونوں نے اپنی احادیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ رسول اللہ نے کہیں اسے امامت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور کہیں خلافت کے لفظ سے ، کہیں ولایت کے لفظ سے اور کہیں امارت کے لفظ سے ۔

امامت کے بارے میں ایک حدیث نبوی ہے :

"خيارأئمتكم الّذين  تحبّونهم ويحبّونكم وتصلّون عليهم و يصلّون عليكم .وشرارأئمتكم الّذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعبونكم .قالوا يارسول الله أفلا ننا بذهم بالسّيف فقال لا ما أقاموا فيكم الصلاة."

تمھارے اماموں میں سب سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبّت کریں ، تم ان کے لیے دعا کرو ، وہ تمھارے لیے دعاکریں ۔اور بد ترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں ، جن پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت  بھیجیں ۔صحابہ نے پوچھا : تو کیا ہم تلوار سے ان کا مقابلہ نہ کریں رسول اللہ نے فرمایا : نہیں ، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں(1) ۔

رسول اللہ ص نے یہ بھی فرمایا ہے :

"يكون بعدي أئمة لّا يهتدون بهداى ولا يستنّون بسنّتي وسيقوم فيهم رجالٌ قلوبُ الشياطين

--------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 24 باب خیار الائمۃ وشرارھم۔

۴۶

في جثمان إنس".

میرے بعد کچھ ایسے امام ہوں گے جو نہ میری روش پرچلیں گے اور نہ میری سنت کا اتباع کریں گے ۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم تو انسان کے سے ہونگے مگر دل شیطانوں کے سے(1)

خلافت کے بارے میں حدیث نبوی ہے :

"لا يزال الدّين قآئماً حتىّ تقوم السّاعة أويكون عليكم اثناعشرخليفةً كلّهم من قريشٍ.

دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جو سب قریش میں سے ہوں گے ۔(2)

جابر بن سمرہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو سنا کہ آپ فرماتے تھے :

"لايزال الإسلام عزيزًا إلى إثبى عشر خليفةٍ ثمّ قال كلمةً لم أفهمها فقلت لابي: ما قال؟ فقال : كلّهم من قريشٍ."

بارہ خلفاء تک اسلام کی عزت باقی رہے گی ۔ پھر کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا ۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا فرمایا تھا ؟ انھوں نے کہا کہ یہ فرمایا تھا کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے(3)

امارت کےبارے میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

"ستكون اُمراءَ فتعرفون وتنكرون فمن عرف

--------------------

(1):-صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 20 باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن

(2):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 4 باب النّاس تبع لقریش والخلافۃ فی قریش

(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 105 ۔اور صفحہ 128۔صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 3۔

۴۷

بر‎‎ئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوا أفلانقاتلهم قال :لا ما صلّوا.

جلد ہی کچھ امراء ہوں گے جن کو تم میں سے کچھ پہچانیں گے ، کچھ نہیں ۔جس نے پہچانا بچ گیا ، جن نے نہیں پہچانا محفوظ رہا مگر جس نے خوشی ان کا اتباع کیا ۔۔۔۔۔ لوگوں  نے پوچھا  کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ نے فرمایا " جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں اس وقت تک نہیں(1) ۔

امارت سے متعلق ایک حدیث میں آپ نے فرمایا :"يكون اثناعشر أميراً كلّّهم من قريشٍ."

میرے بعد بارہ امیر ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے(2) ۔

آپ نے اپنے اصحاب کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :

"ستحرصون على الإمارة وستكون ندامةً يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة".

تمھیں جلد امارت حاصل کرنے کا لالچ ہوگا لیکن یہ امارت قیامت کے دن باعث ندامت ہوگی ۔ امارت دودھ پلانے والی تو اچھی ہے مگر دودھ چھڑانے والی اچھی نہیں(3) ۔

ولایت کا لفظ  لفظ بھی حدیث میں آیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"ما من وّالٍ يّلي رعيّةً مّن المسلمين فيموت وهو غاشٌ لّهم إلّا حرّم الله عليه الجنّة.

--------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 23 باب وجوب الانکار علی الامراء۔

(2):-صحیح بخاری جلد 4 کتاب الاحکام ۔

(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 127 باب الاستخلاف۔

۴۸

جس مسلمان  والی نے مسلمان رعایا پر حکومت کی لیکن وہ انھیں دھوکا دیتا رہا  تو مرنے کے بعد اس پر جنت حرام ہے(1) ۔

ایک اور حدیث میں آپ نے فرماتے ہیں :

"لايزال أمرالنّاس ماضياً ما وليهم اثناعشررجلاً كلّهم مّن قريشٍ."

لوگوں  کا کام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ان کے والی بارہ اشخاص ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے(2) ۔

امامت  اور خلافت کے مفہوم کا یہ مختصر ساجائزہ میں نے قرآن وسنّت سے بغیر کسی تشریح اور توضیح کے پیش کیا ہے بلکہ میں نے سب احادیث اہل سنت  کی صحاح  پر اعتماد کیا ہے اور شیعہ کتابوں سے کوئی روایت نہیں لی ، کیونکہ شیعوں کے نزدیک تو یہ بات یعنی بارہ خلفاء کی خلافت جو سب قریش میں سے ہوں گے مسلّمات  میں سے ہے جس سے کسی کو اختلاف  نہیں  اور جس کے متعلق دورائیں نہیں ہوسکتیں ۔ بعض اہل سنت والجماعت علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

" يكون بعدي اثناعشرخليفةً كلّهم من بني هاشمٍ."

میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب بنی ہاشم میں سے ہوںگے ۔(ینابیع المودّۃ جلد 3 صفحہ 104)۔

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 106باب ما يکر ہمن الحرص علی الامار ۃ ۔

(2):- صحیح مسلم جلد 2 صفحہ باب الخلافۃ فی قریش ۔

(3):- امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

"إنّ الأئمّة من قريشٍ غرسوا في هذاالبطن من هاشمٍ لا تصلح على سواهم ولا تصلح الولاة من غيرهم"

بلاشبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے نہ امامت کسی  اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے ۔(ناشر)

۴۹

شعبی سے روایت ہے کہ مسروق نے کہا : ایک دن  ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے انھیں اپنے مصاحف دکھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان نے ان سے پوچھا : کیا آپ کے نبی نے آپ کو کچھ بتلایا ہے کہ ان کے بعد کتنے خلیفہ ہوں گے ابن مسعود نے اس شخص سے کہا :تم ہو تو نو عمر ،لیکن تم نے بات ایسی پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی ۔ہاں  ! ہمارے نبی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ بنی اسرائیل  کے نقیبوں  کی تعداد کے برابر ان کے بھی خلفاء ہوں گے(1) ۔

اب ہم اس مسئلے سے متعلق فریقین کے اقوال پر غور کریں گے اور یہ دیکھیں گے  کہ جن صریح نصوص کو دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں ، وہ کس طرح ان کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں ، کیونکہ یہی وہ اہم مسئلہ ہے جو اس دن سے جس دن رسول اللہ ص نے وفات پائی آجتک مسلمانوں میں نزاع کا باعث بنا ہوا ہے ۔ اسی مسئلے سے مسلمانوں میں وہ اختلاف  پیدا ہوئے جن کی وجہ سے وہ مختلف فرقوں اور اعتقادی وفکری دبستانوں میں تقسیم ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک امّت تھے ۔ ہر اختلاف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا خواہ وہ فقہ کےبارے میں ہو ، قرآن کی تفسیر کے بارے  ہو یا سنّت نبوی کو سمجھنے کے بارے میں ہو ، اس  کا منشا اور اس کیا سبب مسئلہ خلافت ہی ہے ۔

آپ مسئلہ خلافت کو کیا سمجھتے ہیں ؟

سقیفہ(2) کے بعد خلافت ایک "امر واقعہ" بن گئی اور اس کی وجہ سے بہت سی صحیح احادیث اور صریح آیات ردّ  کی جانے لگیں اور ایسی احادیث گھڑی جانے لگیں ، جن کی صحیح سنت نبوی میں کوئی بنیاد نہیں تھی ۔اس پر مجھے اسرائیل اور "امر وقعہ" کا قصہ یاد آگیا ۔عرب بادشاہوں اور سربراہوں کا اجلاس ہوا اور اس میں اتفاق رائۓ سے طے پایا اسرائیل  کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ،

------------------

(1):- ینابیع المودہ جلد 3 ص 105

(2):- سقیفہ بنی ساعدہ: یہ سعد بن عبادہ انصاری کی بیٹھک تھی جس میں اہل مدینہ اکثر اپنے معاشرتی مسائل حل کرنے کے لئے جمع ہوتے تھے ۔ (ناشر)

۵۰

اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیسے جائیں گے ، صلح نہیں ہوگی کیونکہ جس چیز پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا گیا ہے وہ طاقت استعمال کیے بغیر واپس نہیں مل سکتی ۔چند سال بعد ایک اور اجلاس ہوا ، اس میں فیصلہ ہوا کہ مصر سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں کیونکہ اس نے صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے ۔ چند سال اور گزر گئے ۔ عرب سربراہان مملکت پھر جمع ہوئے ۔ اس بار انھوں نے مصر سے پھر تعلقات قائم کرلیے  اور سب نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم  کرلیا ۔ حالانکہ اسرائیل نے فلسطینی قوم کے حق کو تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا کی تھی بلکہ اس کی ہٹ دھرمی بڑھ گئی تھی اور فلسطینی قوم  کو کچلنے  کی  کاروائیوں میں اضافہ ہوگیا تھا ۔ اس طرح ترایخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ امر واقعہ کو تسلیم کرلینا عربوں کی عادت ہے ۔

خلافت کے بارے میں اہل سنت کی رائے

اس بارے میں اہل سنت کی رائے سب کو معلوم ہے اوروہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں  کیا ۔ لیکن صحابہ میں سے اہل حلّ وعقد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور انھوں نے ابو بکر صدیق  کو اپنا خلیفہ چن لیا کیونکہ ایک تو ابو بکر رسول اللہ سے بہت نزدیک تھے ، دوسرے انھی کو رسول اللہ ص نے اپنے مرض الوفات میں نماز پڑھانے کے لیے اپنا جانشین مقررکیاتھا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابو بکر کو ہمارے دین کے کام کے لیے پسند کیا تو ہم انھیں اپنے دنیا کے کام کے لیے کیوں پسند نہ کریں ۔اہل سنت  کے نقطہ نظر کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

1:- رسول اللہ ص نےکسی کو نامزد نہیں کیا ۔ اس سلسلے میں کوئی نص نہیں ۔

2:- خلیفہ کا تعیّن صرف شوری سے ہوتا ہے ۔3:- ابوبکر کو کبار صحابہ نے خلیفہ منتخب کیا تھا ۔

یہی میری خود اپنی رائے تھی اس وقت جب کہ میں مالکی تھا ۔ اس رائے کا دفاع میں پوری طاقت سے کیا کرتا تھا اور جن آیات میں شوری کا ذکر ہے انھیں میں

۵۱

اپنی رائے کے ثبوت میں پیش کرتا ۔ میں جہاں تک ہوسکتا تھا ، فخریہ کہا کرتا تھا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو جمہوری نظام حکومت کا قائل ہے ۔ اسلام نے اس انسانی اصول کو جس پر دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں فخر کرتی ہیں اور وں سے پہلے اپنا لیا تھا ۔ مغرب میں جو جمہوری نظام انیسویں صدی میں متعارف ہوا اسلام اس سے چھٹی صدی ہی میں واقف ہوچکا تھا ۔

لیکن شیعہ علماء سے ملاقات کرنے ،ا ن کی کتابیں پڑھنے اور ان کے اطمینان بخش دلائل معلوم کرنے کے بعد میں نے اپنی رائے بدل دی ۔ اب حقیقت ظاہر ہوچکی تھی اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ یہ اللہ سبحانہ کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی امت کو بغیر امام کے چھوڑ دے ۔جب کہ وہ خود فرماتا ہے :

" إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ"

آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت 7)

اسی طرح کیار سول اللہ ص کی رحمت ورافت کا تقاضہ یہ تھاکہ آپ اپنی امت کو بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ دیں خصوصا ایسی حالت میں جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے  کہ آپ کو خود اپنی امت میں تفرقہ کا اندیشہ تھا(1) ۔ اوریہ ڈر تھا کہ کہیں لوگ الٹے پاؤں نہ پھر جائیں(2) ۔ دنیا کے حصول  میں ایک دوسرے پر بازی  لیجانے  کی کوشش نہ کرنے لگیں(3) ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے لگیں(4) ۔ اور یہودو نصاری کے طور طریقوں کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔(5)

یہ بھی یاد رہے کہ جب عمر بن الخطاب زخمی ہوگئے تو ام المومنین عائشہ نے آدمی

-------------------

(1):-جامع ترمذی۔سنن ابو داؤد ۔سنن ابن ماجہ ۔مسندامام احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 332۔

(2):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 902 باب الحوض اور جلد 5 صفحہ 192

(3):- صحیح بخاری جلد4 صفحہ 63۔

(4):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 112

(5):-

۵۲

بھیج کر انھیں کہلوایا تھا کہ : اپنے بعد امت محمّدیہ کا کوئی خلیفہ مقرر کردیجیئے اور اسے اپنے بعد بے یارو مددگار نہ چھوڑیے ۔ کیونکہ مجھے فتنے  کا اندیشہ ہے ۔(1)

اسی طرح حضرت  عمر کے زخمی ہوجانے کے بعد عبداللہ بن عمر نے بھی اپنے والد سے کہا تھا کہ : لوگوں  کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کررہے ہیں لیکن اگر آپ کا کوئی اونٹ یا بھیڑ یں چرانے والا ہو اور وہ گلے کو چھوڑ کو آپ کے پاس چلا آئے تو کیا آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ اس نے گلے کو کھودیا ۔ انسانوں کی دیکھ بھال تو اور بھی زیادہ ضروری ہے ۔(2)

حضرت ابو بکر نے جن کومسلمانوں نے  اجماع کے ذریعے خلیفہ بنایا تھا خود ہی اس اصول کو توڑدیا  تاکہ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف ،تفرقہ اور فتنہ کے امکان  کا سد باب کیا جاسکے ۔یہ توجیہ اس صورت میں ہوگی جب ہم حسن ظن سے کام لیں ورنہ امام علی ع نے جو اس قضیے میں تمام پہلوؤں سے سب سے زیادہ واقف تھے ، پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب ہی کے پاس جائے گی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمر نے امام علی ع پر ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے زورڈالا تھا ۔ امام علی ع نے کہا تھا :

"إحلب حلباً لّك شطره واشدد له اليوم يردّده عليك غداً."

آج تم دودھ دھولو، کل تمہیں اس کا آدھا حصّہ مل جائے گا ۔آج تم اس کی حیثیت مضبوط کردو ، کل وہ تمھیں واپس لوٹا دیگا ۔(3)

میں کہتا ہوں کہ جب ابوبکر ہی کو شوری کے اصول پر یقین نہیں تھا تو ہم کیسے مان لیں کہ رسول اللہ نے یہ معاملہ کسی کو خلیفہ نامزد کیے بغیر ایسے چھوڑ دیا ہوگا ۔کیا آپ کو اس مصلحت کا علم نہیں تھا جس کا علم ابو بکر ،عائشہ اور عبداللہ بن عمر کو

-------------------

(1):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 28

(2):- ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 18 اورمابعد

(3):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 5 باب الاستخلاف وترکہ

۵۳

تھا اورجس سے سب لوگ صاف طور پر واقف تھے کہ اگر انتخاب کا اختیار عوام کو دیدیا جائے گا تو اس کا نتیجہ اختلاف کی شکل میں ظاہر ہوگا خاص کر جب معاملہ حکومت اور خلافت کا ہو ۔ خود حضرت ابو بکر کے انتخاب کے موقع پر سقیفہ میں ایسا ہوبھی چکا تھا ۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ ، ان کے بیٹے قیس بن سعد ، علی بن ابی طالب  ع، زبیر ابن العوّام(1) ،عباس بن عبدالمطلب ، اور دوسرے بنی ہاشم اوربعض دوسرے صحابہ نے جو خلافت کو علی ع کا حق سمجھتے تھے(2) ، مخالفت کی تھی اور وہ علی ع کے مکان پر جمع ہوگئے تھے جہاں ان کو جلادیے جانے کی دھمکی دی گئی تھی ۔(3)

اس کے  علاوہ  ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ نے اپنی پوری عملی زندگی میں کبھی ایک دفعہ بھی کسی غزوہ یا سریہ کے کمانڈر کے تعین  کے وقت اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ہو ۔

اسی طرح مدینہ سے باہر جاتے وقت کسی سے مشورہ کیے بغیر جس کو مناسب سمجھے تھے اپنا جانشین مقرر کرجاتے تھے ۔ جب آپ کے پاس وفود آتے تھے اور اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اس وقت بھی ان سے مشورہ کیے بغیر ان میں سے جس کو چاہتے تھے ان کا سربراہ مقرر کردیتے تھے ۔

آپ نے اپنے اس طریق کار کو اس وقت مزید واضح کردیا جب آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسامہ بن زید کو لشکر کا امیر مقرر کیا حالانکہ ان کی نوعمری اور صغر سنی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا مگر آپ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے ان لوگوں پر لعنت ک جو اس لشکر میں شامل ہونے سے گریز کریں(4) ۔ اور واضح کردیا کہ امارت ،ولایت اور خلافت میں لوگوں کی مرضی داخل نہیں ، یہ معاملہ رسول ص کے حکم سے طے ہوتاہے اور رسول کا حکم اللہ کا حکم ہے ۔جب صورت یہ ہو تو ہم کیوں نہ دوسرے فریق کے دلائل پر بھی غور کریں ۔دوسرے

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26 باب رجم الحبلی من الزنا

(2) (3):-ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد اول صفحہ 18 اورمابعد ۔

(4):- الملل والنحل ،شہرستانی۔

۵۴

فریق سےمیری مراد شیعہ ہیں جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے امام علی ع کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور مختلف موقعوں پر اس کی تصریح بھی کردی تھی جن میں سب سے مشہور " غدیر خم" کا جلسہ ہے ۔

انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اختلاف  کی صورت میں آپ نے اپنے مخالف کی رائے  اور دلیل کوسنیں ، خصوصا ایسی حالت میں جب کہ مخالف ایسے حقائق سے استدلال کررہا ہو جن کو آپ بھی تسلیم کرتے ہوں ۔(1)

شیعوں کی دلیل میں کوئی واہی یا کمزور بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے ۔بلکہ معاملہ قرآنی آیات  کا ہے جو اس بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ جن کو خود رسول اللہ ص نے جو اہمیت دی وہ اس قدر مشہور ومعروف اور زبان زد خاص وعام ہے کہ حدیث اور تاریخ کی کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں اور راوی اسے نسلا بعد نسل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ۔

1:- ولایت علی ع قرآن کریم میں

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون "

تمھارے ولی تو بس اللہ اور اس کا رسول اور وہ مومنین ہیں جو پابندی سے نماز پڑھتے ہیں ، رکوع کی حالت میں زکوات دیتے

--------------------

(1):- قرآن کریم بھی ہمیں انصاف سے کام لینے کی تلقین کرتاہے اور کہتا ہے :

اے ایمان والو! ۔۔۔۔ لوگوں کی دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 8)

واضح رہے کہ شیعوں کی کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جس کی اصل اہل سنت کی کتابوں میں موجود نہ ہو ۔

۵۵

ہیں ۔جو کوئی اللہ ، اس کے رسول اور ان مومنین کی ولایت قبول  کرےگا (وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا )بے شک اللہ ہی کی جماعت غلبہ پانے والا ہے ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 55-56)

ابو اسحاق ثعلبی(1) نے اپنی تفسیر کبیر میں اپنی اسناد سے ابو ذر غفاری سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان کانوں سے سنا ،نہ سنا ہو تو یہ کان نپٹ بہرے ہوجائیں اور اپنی ان آنکھوں سے دیکھا  ،نہ دیکھا ہو تو یہ آنکھیں پٹم اندھی ہوجائیں ۔آپ فرماتے تھے کہ "علی "نیکیوں کو رواج دینے والے اور کفر کو مٹانے والے ہیں ۔ کامیاب ہے وہ جوان  کی مدد کرے گا اور ناکام ہے وہ جو ان کی مدد چھوڑ دے گا ۔ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک مانگنے والا مسجد میں آگیا ،اسے کسی نے کچھ نہیں دیا ۔ علی ع نماز پڑھ رہے تھے ، انھوں نے اپنی چھوٹی انگلی سے انگوٹھی  اتارلی ۔اس پر رسول اللہ ص نے عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا کی کاور کہا : یا الہی میرے بھائی موسی  نے تجھ سے دعا کی تھی اور کہا تھا : "اے میرے پروردگار ! میرا سینہ کھول دے اور میرا کا آسان کردے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ، اور میرے اپنوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں تقویت حاصل کرسکوں اور انھیں میرا شریک کار بنادے تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور بکثرت تجھے یاد کیا کریں "۔تب تو نے انھیں وحی  بھیجی کہ اے موسی ! تمھاری دعا قبول ہوگئی ۔اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ میرا بھی سینہ کھول دے ،میرا کام بھی آسان کردے اور میرے اپنوں میں سے علی ع کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں اس سے اپنی کمر مضبوط کرسکوں "۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ ابھی رسول اللہ نے اپنی بات پوری کی ہی تھی جبریل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے :" إنما وليكم الله ورسوله " (2) ۔

--------------------

(1):-ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری  ،ثعلبی المتوفی سنہ 437ھ ۔ابن خلکان کہتے ہیں کہ علم تفسیر میں یکتا ئے زمانہ تھے ، روایت میں ثقہ اور قابل اعتماد تھے ۔

(2):-۔۔۔۔ ،سنن نسائی  ، مسند احمد بن حنبل ، صواعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔ شرح نہج البلاغہ ۔

۵۶

شیعوں  میں سے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت امام علی بن ابی طالب ع کی شان مین اتری ہے ۔ اس کی توثیق ائمہ اہل بیت ع کی روایت سے ہوتی ہے جو شیعوں کے نزدیک قطعا مسلم الثبوت روایت ہے اور ان کی متعدد معتبر کتابوں میں موجود ہے جیسے :1:- اثبات الہداۃ ۔علامہ محمد بن حسن عاملی سنہ 1104 ھ۔2:- بحار الانوار ۔علامہ محمد باقر مجلسی سنہ 1111ھ۔3:- تفسیر المیزان ۔علامہ محمد حسین طباطبائی سنہ 1402 ھ۔4:- تفسیر الکاشف ۔ علامہ محم جواد مغنیہ -5:- الغدیر۔علامہ عبدالحسین احمد امینی سنہ 1390ھ علمائے اہل سنت کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس آیت کے علی بن ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام کےبارے میں نازل  ہونے کے متعلق روایت کی ہے ۔ میں ان میں سے فقط علمائے تفسیر کا ذکر کرتا ہوں :

1:- تفسیر کشّاف عن حقائق التنزیل ۔جار اللہ محمود بن عمر زمخشری سنہ 538 ھ جل 1 صفحہ 649

2:-تفسیر الجامع البیان ۔(1) حافظ محمد بن جریر طبری سنہ 310 ھ جلد 6 صفحہ 288

3:-تفسیر زاد المسیر فی علم التفسیر ۔سبط ابن جوزی سنہ 654ھجلد 2صفحہ 219۔4:- تفسیر الجامع الاحکام القرآن ۔محمد بن احمد قرطبی سنہ 671ھ جلد 63صفحہ 219

5:- تفسیر کبیر ۔امام فخر الدین رازی شافعی سنہ 606ھ جلد12 صفحہ 26۔6:- تفسیر القرآن العظیم ۔اسماعیل بن المعروف ابن کثیر سنہ 774ھ جلد 2 صفحہ 71

7:-تفسیر القرآن الکریم ۔ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی سنہ 710 ھ جلد 1صفحہ 289۔8:- تفسیر شواہد التنزیل لقواعد التفصیل والتاویل ۔حافظ حاکم حسکانی جلد 1 صفحہ 161۔9:- تفسیر درّمنثور ۔حافظ جلال الدین سیوطی سنہ 911 ھ جلد 2 صفحہ 293

--------------------

(1):-اہل سنت میں راویان حدیث کے القاب کی درجہ بندی مندرجہ ذیل ہے :

1:- محدّث : جسےدرایت حدیث پر عبور ہو            2:-حافظ:  جسے ایک لاکھ حدیثیں یاد ہوں

3:- حجّت : جسے تین لاکھ حدیثیں یاد ہوں         4:- حاکم : جسے سب حدیثیں یاد ہوں (ناشر)

۵۷

10:- اسباب النزول ۔ امام ابو الحسن واحدی نیشاپوری سنہ 468ھ صفحہ 148

11:- احکام القرآن ۔ابو بکر احمد بن علی الجصاص حنفی سنہ 370ھ جلد 4 صفحہ 103

12:- التسہیل لعلوم التنزیل ۔حافظ کلبی غرناطوی سنہ ھ جلد 1 صفحہ 181

علمائے اہل سنت میں سے جن کے نام میں نے لیے ہیں ، ان سے زیادہ وہ ہیں جن کے نام میں نے نہیں لیے ۔لیکن وہ علمائے شیعہ سے اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت ولایت علی بن ابی طالب ع کی بابت نازل ہوئی ہے ۔

2:- آیہ تبلیغ کا تعلق بھی ولایت علی ع سے ہے

اللہ تعالی کا فرما تا ہے :

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ "

اے رسول !جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس آیا ہے اسے پہونچادو ۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے اسے کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا ۔اور اللہ تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 67)

بعض اہل سنت مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ ص قتل اور ہلاکت کے خوف سے اپنے ساتھ محافظ  رکھتے تھے  جب آیت نازل ہوئی کہ " وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آپ نے اپنے محافظوں سے کہا : تم جاؤ ،اب اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔

ابن جریر اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن شقیق سے روایت بیان کی ہے کہ کچھ صحابہ رسول اللہ کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے ۔ جب آیت نازل ہوئی" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ" تو  آپ نے باہر نکل کر فرمایا : لوگو ! اپنے گھر والوں کے پاس  چلے جاؤ ،اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔(تفسیر درّ منثور ۔سیوطی جلد 3 صفحہ 119)

۵۸

ابن حبّان اور ابن مردویہ نے ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی سفر میں رسول اللہ کے ساتھ ہوتے تھے تو سب سے بڑا اور سایہ دار درخت ہم آپ کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔آپ اسی کے نیچے اترتے تھے ایک دن آپ ایک درخت کے نیچے اترے اور اس پر اپنی تلوار لٹکادی ۔ ایک شخص آیا اور اس نے تلوار اٹھالی ۔کہنے لگا : محمد ! بتاؤ اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ " آپ نے فرمایا :" اللہ بچائے گا تو تلوار کھ دے :" اس نے تلوار رکھ دی ۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔ :" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " (1)

ترمذی ،حاکم اور ابو نعیم  نے عائشہ سے روایت  کی ہے ۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ محافظ رہتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آپ نے قبّہ سے سر نکال کر  کہا : تم لوگ چلے جاؤ ، اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔

طبرانی ، ابو نعیم ، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عّباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ص کے ساتھ محافظ رہتے تھے ۔ آپ کے چچا ابو طالب ہر روز بنی ہاشم میں سے کسی شخص کو آپ کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۔پھر آپ نے ان سے کہہ دیا : چچا جان ! اللہ نے میری حفاظت کاذمہ لے لیا ہے اب کسی کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ۔

جب ہم ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مضمون آیت کریمہ کے ساتھ میل نہیں کھاتا اور نہ اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ٹھیک بیٹھتا ہے ۔ ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ۔ایک روایت میں تصریح ہے کہ یہ واقعہ ابو طالب کی زندگی کا ہے یعنی ہجرت سے کئی سال قبل کا ۔ خصوصا ابو ہریرہ تو یہ تک کہتے ہیں کہ جب ہم سفر میں رسول اللہ ص کے ہمراہ ہوتے تھے تو ان کے لیے سب سے بڑا درخت چھوڑ دیتے تھے ظاہر ہے یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ابو ہریرہ جیسا کہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں

--------------------

(1):- تفسیر در منثور ۔سیوطی

۵۹

سنہ 7 ہجری سے قبل اسلام اور رسول اللہ کو جانتے بھی نہیں تھے ۔(1) عائشہ اس وقت تک یا تو پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں یا ان کی عمر دوسال سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ یہ معلوم ہے کہ ان کا نکاح رسول اللہ سے ہجرت کے بعد ہوا اور اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ بااختلاف  روایت گیارہ سال تھی ۔ پھر یہ روایتیں کیسے صحیح ہوسکتی ہیں ؟ تمام سنی اور شیعہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورہ مائدہ مدنی سورت ہے ۔اور یہ قرآن کی سب سے آخری سورت ہے جو نازل ہوئی ۔

احمد اور ابو عبید اپنی کتاب فضائل میں ، نحاس اپنی کتاب ناسخ میں ۔ نسائی ، ابن منذر ،حاکم ابن مردویہ اور بیہقی اپنی سنن میں جبیر بن نفیر سے روایت کرتے ہیں کہ جبیر نے کہا : میں حج کرنے گیا تو حضرت عائشہ سے بھی ملنے گیا ۔انھوں نے کہا : جبیر! تم نے سورہ مائدہ پڑھی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔کہنے لگیں یہ آخری سورت ہے جو نازل ہوئی ۔اس میں تم جس چیز کو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جسے حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔(2)

احمد اور ترمذی نے روایت کی ہے کہ اور حاکم نے اسے صحیح اور حسن کہا ہے ابن مردویہ اور بیہقی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے نزول کے اعتبار سے سورہ مائدہ کو آخری سورت بتایا ہے(3) ۔

ابو عبیدہ نے محمد بن کعب قرطنی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ سورہ مائدہ رسول اللہ ص پر حجّۃ الوداع میں اتری ۔اس وقت آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک اونٹنی پر سوار تھے ،وحی کے بوجھ سے اونٹنی کا کندھا ٹوٹ گیا تو آپ اترگئے(4) ۔

ابن جریر نے ربیع بن انس سے روایت کی ہے کہ جب سورہ مائدہ رسول اللہ پرنازل ہوئی اس وقت آپ اپنی سواری پرسوار تھے ۔ وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ گئی

------------------

(1):- فتح الباری جلد 6 صفحہ 31 ۔البدایۃ والنہایہ جلد 8 صفحہ 102 ۔ سیر اعلام النبلاء ذہبی جلد 2 صفحہ ۔۔ الاصابہ ، ابن حجر جلد 3 صفحہ 287

(2)(3)(4):- تفسیر در منثور ،سیوطی جلد 3 صفحہ 3

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328