حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 58865
ڈاؤنلوڈ: 5932

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58865 / ڈاؤنلوڈ: 5932
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جمع بین الصلاتین

جن باتوں پر شیعوں  پر اعتراض کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے  ہیں ۔ اہل سنت جب اس سلسلے میں شیعوں  پر اعتراض کرتے ہیں تو عموما اس طرح کی تصویر کھینچتے ہیں گویا ہو خود نماز کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " مومنین پر نماز وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے ۔

اہل سنت اکثر شیعوں کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ نماز کی پروا نہیں کرتے اور اس طرح خدا ورسول ص کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ۔

اس سے پہلے کہ ہم شیعوں کے حق میں یا ان کے خلاف کوئی فیصلہ کریں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس موضوع کا ہر پہلو سے جائزہ لیں ،  طرفین  کے اقوال اور دلائل  سنیں اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ جلد بازی میں کسی کسی کے خلاف کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کربیٹھیں ۔

اہل سنت کا اس  پر تو اتفاق ہے کہ 9 ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جائیں ، اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی جائیں ،اسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ۔ یہاں تک تو شیعہ  سنی کیا تمام ہی فرقوں کا اتفاق ہے ۔

شیعہ سنی اختلاف اس میں ہے کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں پورے سال سفر کے عذر کے بغیر بھی جمع کرنی جائز ہیں ؟ حنفی حضرات صریح نصوص کے باوجود نمازیں جمع کرنے کی اجازت کے قائل  نہیں حتی کہ سفر کی حالت  میں بھی نمازیں اکٹھی پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اس طرح حنفیوں کاطرز عمل اس اجماع امت کے خلاف ہےجس پر شیعوں اور سنیوں

دونوں کا اتفاق ہے ۔

۲۸۱

لیکن مالکی ، شافعی اور حنبلی سفر کی حالت میں تو دو فرض نمازوں کے اکٹھا پڑھ لینے کے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن ان میں ان میں اس پر اختلاف ہے کہ کیا خوف ،بیماری بارش وغیرہ کے عذر  کی وجہ سے بھی دونماز وں کا اکٹھا پڑھ لینا جائز ہے ۔شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جمع بین الصلاتین  مصطلقا جائز ہے اور اس کے لیے سفر ، بیماری یا خوف وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ۔ وہ اس سلسلے میں ائمہ اہل بیت کی ان روایات پر عمل کرتے ہیں جو شیعہ کتابوں میں موجود ہیں ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شیعہ موقف کو شک کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ جب بھی اہل سنت ان کے طریقے کے خلاف کوئی دلیل پیش کرتے ہیں وہ اسے یہ کہہ کر  رد کردیتے ہیں کہ انھیں تو ائمہ اہل بیت نے خود تعلیم دی ہے اور ان کی تمام مشکلات  کو حل کیا ہے ۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ان ائمہ معصومین کی پیروی کرتے ہیں جو قرآن وسنت کا پورا علم رکھے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ  میں نے پہلی مرتبہ جو ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں وہ  شہید محمد باقر صدر کی امامت میں پڑھی تھیں ۔ ورنہ اس سے قبل میں نجف میں بھی ظہر اور عصر کی نمازیں الگ الگ ہی پڑھا کرتاتھا ۔ آخر وہ مبارک دن بھی آگیا جب میں آیت اللہ صدر کے ساتھ ان کے گھر سے اس مسجد میں گیا جہاں وہ اپنے مقلدین کو نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ ان کے مقلدین نے میرے لیے احتراما عین ان کے پیچھے جگہ چھوڑدی ۔ جب ظہر کی نماز ختم ہوگئی اور عصر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میری جی نے کہا اب یہاں سے نکل چلو ۔ لیکن میں دووجہ سے ٹھہرارہا ۔ ایک تو سید صدر کی ہیبت تھی ۔جس خشوع سے وہ نماز پڑھا رہے تھے ،میرا دل چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھا تے ہی رہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جس جگہ میں تھا وہ جگہ اور سب نمازیوں کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھی ۔مجھے ایسا محسوس  ہورہاتھا جیسے کسی زبردست طاقت نے مجھے ان کے ساتھ باندھ دیا ہو ۔نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ ان سے سوالات  پوچھنے  کے لیے امنڈ پڑے  میں ان کے پیچھے بیٹھا ہوا لوگوں کےسوال اور ان کے جواب سنتا رہا ۔بعض سوال جواب

۲۸۲

بہت آہستہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آئے ۔لیکن مجھے شرم  آرہی تھی ۔میں ان  پر اور ۔زیادہ بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد وہ مجھے کھانا کھلانے کے لیے اپنے گھر لےگئے ۔ وہاں جاکر مجھے معلوم ہوا کہ اس دعوت کاخاص مہمان اور میر محفل میں ہی ہوں ۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے جمع بین الصلاتین کے بارے میں دریافت کیا ۔

آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے جواب دیا ۔ ہمارے یہاں ائمہ معصومین علیھم السلام سے بہت سی روایات ہیں کہ رسول اللہ ص نے یہ نماز پڑھی یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا ۔ اوریہ نماز یں خوف یا سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ امت سے حرج دورکرنے کے لیے اکٹھی پڑھیں ۔

میں :- میں حرج کا مطلب نہیں سجمھا ۔قرآن شریف میں بھی ہے :

"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"

سید صدر :- اللہ سبحانہ کو ہر شے کا علم ہے ۔اسے معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں وہ چیزیں ہوںگی جنھیں ہمارے یہاں پبلک ڈیوٹیز کہا جاتا ہے پھر اس طرح کی سرکاری ملازمتیں : جیسے گارڈ ، پولیس ،  لویز ، فوج ،پبلک اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ،حتی کہ طلبہ اور اساتذہ بھی ۔ اگر دین ان سب کو پانچ متفرق اوقات میں نماز پڑھنے کا پابند کرے ، تویقینا ان کے لیے  تنگی اورپریشانی ہوگی ، اس لیے رسول اللہ ص کے پاس وحی آئی کہ وہ دو فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھا دیں  تاکہ نماز کے اوقات پانچ کے بجائے  تین ہوجائیں ،یہ صورت مسلمانوں کے لیے زیادہ سہل تھی اور اس میں کوئی حرج یعنی تنگی بھی نہیں ہے ۔ میں : لیکن سنت نبوی قرآن کو تو منسوخ نہیں کرسکتی ۔

سید صدر:- میں نے کب کہا کہ سنت نے قرآن کو منسوخ کردیا ۔لیکن اگر کسی چیز کو سمجھنے میں دقت ہو تو سنت قرآن کی تفسیر وتوضیح تو کرسکتی ہے ۔

میں :- اللہ سبحانہ کہتاہے کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

۲۸۳

كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اور مشسہور حدیث مین ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ کے پاس آئے اور آپ نے دن رات میں  پانچ وقت نماز پڑھی ۔ اسی پر ان نمازوں  کے نام ظہر ، عصر ، مغرب ،عشاء اور فجر رکھے گئے ۔

سید صدر :- :" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

کی تفسیر رسول اللہ نے دو طرح سے کی ہے ۔ الگ الگ نمازوں سے بھی اور جمع بین الصلاتین سے بھی ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پانچ نمازیں پانچ مختلف  اوقات میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔اور تین  اوقات میں بھی جمع کی جاسکتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں وہ صحیح وقت پر ادا ہوںگی ۔

میں :- قبلہ ! میں سمجھا نہیں ۔ اللہ تعالی نے پھر" كِتَابًا مَّوْقُوتًا " کیوں کہا ہے ؟

سید صدر : (مسکراتے ہوئے ) آپ کا خیال ہے ، مسلمان حج میں وقت پرنماز نہیں پڑھتے ؟ کیا وہ اس وقت احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کے لیے اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ ص کی پیروی میں جمع ہوتے ہیں ۔

میں نے ذرا سوچ کر کہا : شاید عذر کی وجہ سے ہو حجاج تھا جاتے ہیں اس لیے اللہ نے اس موقع پر ان کے لیے کچھ سہولت کردی ۔

سید صدر:- یہاں بھی اللہ تعالی نے اس امت کے متاخرین  سے تنگی دورکردی اوردین کو آسان بنادیا ۔

میں :- آپ ابھی کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے  نبی کے پاس وحی بھیجی کہ دو وقت کی فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھائیں تاکہ نمازوں کے وقت پانچ کے بجائے تین ہوجائیں ۔ تو یہ اللہ نے کس آیت میں کہا ہے ؟

سید صدر نے فورا جواب دیا : کون سی آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول  کو حکم دیا ہے کہ وہ دونمازیں عرفات میں اور دومزدلفہ میں جمع کریں ، اور پانچ وقتوں کہ کس آیت میں ذکر ہے ؟

میں اس دفعہ خاموش ہوگیا ، کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ میں مطمئن ہوچکا تھا ۔

۲۸۴

سید صدر نے مزید کہا : اللہ تعالی اپنے نبی کو جووحی بھیجتا ہے ،ضروری نہیں کہ وہ قرآن میں ہی ہو اور وحی متلو ہی ہو :

" قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً "

آپ کہہ دیجیے کہ اگر سب سمندر میرے پروردگار کی باتون کے لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائیں گے مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی  اگر چہ ہم ایسا ہی سمندر اس کی مدد کے لیے آئیں ۔ (سورہ کہف ۔آیت 109)

جسے ہم سنت نبوی کہتے ہیں ، وہ بھی وحی الہی ہی ہے ، اسی لیے اللہ سبحانہ نے کہا ہے :

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"

جس چیز کا رسول ص تمھیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ۔

باالفاظ دیگر ۔ جب رسول اللہ صحابہ کو کسی کام کا حکم دیتے تھے یا کسی کام سے منع کرتے تھے تو صحابہ کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ آپ  پر کوئی اعتراض  کرتے یا آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ کلام اللہ کی کوئی آیت پیش کریں ۔ وہ آپ کے حکم کی تعمیل  سمجھ کر کرتے تھے  کہ آپ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وحی الہی ہوتا ہے ۔

سید باقر صدرنے ایسی ایسی باتیں بتلائیں کہ میں حیران رہ گیا ۔اس سے پہلے میں ان حقائق سے ناواقف تھا ۔

میں نے جمع بین الصلاتین  کے موضوع سے متعلق ان سے مزیدپوچھا : قبلہ! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان دونمازیں ضرورت کی صورت میں جمع کرلے ؟

"دو نمازوں کا جمع کرنا ہرحالت میں جائز ہے ، ضرورت ہو یانہ ہو "۔

۲۸۵

میں نے کہا : اس کے لیے آپکے پاس دلیل  کیا ہے؟

انھوں نےکہا : اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے مدینہ میں دو فرض نمازوں کو جمع کیا ہے اور اس وقت آپ سفر میں نہ تھے ۔ نہ کوئی خوف تھا نہ بارش ہورہی تھی اور نہ کوئی ضرورت تھی ، صرف ہم لوگوں سےتنگی رفع کرنے کے لیے آپ نے دونمازوں کو اکٹھا پڑھا ۔ اور یہ بات ہمارے یہاں ائمہ اطہار کے واسطے سے بھی ثابت ہے اورآپ کے یہاں ثابت ہے ۔

مجھے بہت تعجب ہوا : ہائیں ! ہمارے یہاں کیسے ثابت ہے ۔ میں نے آج تک نہیں سنا ! اورنہ میں نے اہل سنت والجماعت کو ایسا کرتے دیکھا ۔بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اکر اذان  سے ایک منٹ پہلے بھی نماز پڑھ لی جائے تو نماز باطل ہے ،چہ جائیکہ  گھنٹوں پہلے عصر کی نماز ظہر کے ساتھ یا عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھ  لی جائے ۔ یہ بات بالکل  غلط معلوم ہوتی ہے ۔

آیت اللہ صدر  میری حیرت کو بھانپ گئے ۔ انھوں نے ایک طالب علم کو آہستہ سے کچھ کہا ۔ وہ اٹھ کر پلک جھپکتے میں دو کتابیں لےآیا ۔ معلوم ہوا کہ ایک صحیح بخاری ہے ،دوسری صحیح مسلم ۔آقائے صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ وہ مجھے جمع بین الفریضتین  سے متعلق  احادیث دکھائے ۔میں نے خود صحیح بخاری میں  پڑھا کہ رسول اللہ ص نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو اور اسی طرح مغرب اور عشاء  کی نمازوں کو جمع کیا ۔ صحیح مسلم میں تو بغیر خوف ، بغیر بارش اور بغیر سفر کے دونمازوں  کوجمع کرنے  کے بارے میں پوراایک باب ہے ۔

میں اپنے تعجب  اور حیرت  کو تو چھپا نہ سکا ۔مگر پھر بھی مجھے کچھ شک ہوا کہ شاید بخاری  اور مسلم جو ان کے پاس ہیں ان میں کچھ جعل سازی کی گئی ہے میں  نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ تیونس جاکر میں ان کتابوں کو پھر دیکھوں گا ۔

آیت اللہ سیدمحمد باقر صدر  رح  نے مجھ سے پوچھا : اب کہیے کیا خیال ہے ؟

میں نے کہا:آپ حق پر ہیں اورجو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں ۔ لیکن میں آپ سے ایک بات اور پوچھناچاہتاہوں ۔

۲۸۶

"فرمائیے " ، انھوں نے کہا ۔

میں نے کہا : کیا چاروں نمازوں کا جمع کرنا بھی جائز ہے ؟ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں ، جب رات کو کام پر سے گھر واپس آتے ہیں ، تو ظہر ،عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازین قضا پڑھ لیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا: یہ تو جائز نہیں ، البتہ مجبوری کی بات دوسری ہے کیونکہ مجبوری میں بہت سی باتیں جائز ہوجاتی ہیں ، ورنہ تو نماز کا وقت مقرر ہے" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

میں آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ رسول اللہ ص نے نمازیں الگ الگ  بھی پڑھی ہیں اور ملا کر بھی پڑھی ہیں اور اسی سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ نمازوں کے اوقات کون سے ہیں ۔

اس پر انھوں نےکہا : ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت مشترک ہے اور یہ وقت زوال آفتاب سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک رہتا ہے ۔مغرب اور عشاء کا وقت بھی مشترک ہے جو غروب  آفتاب سے نصف شب تک رہتا ہے ۔ فجر کی نماز کا وقت الگ ہے جو طلوع فجر سے دن نکلنے تک ہے(1) ۔ جو اس کے خلاف کرے گا ۔ وہ اس آیت کریمہ کی خلاف ورزی کرے گا کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اس لیے یہ ممکن  نہیں کہ ہم مثلا  صبح  کی نماز طلوع فجر نہیں ظہر اور عصر کی نماز زوال سے پہلے  یا غروب آفتاب کے بعد پڑھیں یا مغرب اورعشاء کی نمازیں غروب سےپہلے یا آدھی رات کے بعد پڑھیں ۔

میں نے آقائے صد ر کا شکرییہ ادا کیا ، گو مجھے ان کی باتوں سے پورا اطمینان ہوگیا تھا ، لیکن میں نے نمازوں کو جمع کرنا اس وقت شروع کیا جب میں تیونس  واپس آکر تحقیق اورمطالعہ میں پوری طرح مشغول ہوگیا اور میری آنکھیں

--------------------

(1):-" أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ " (سورہ بنی اسرائیل ۔آیت 78)۔(ناشر )

۲۸۷

کھل گئیں ۔

جمع بین الصلاتین کےبارے میں شہید صدر سے جو میری گفتگو رہی ، یہ اس کی داستان ہے اور یہ داستان میں نے دو وجہ سے بیان کی ہے :

ایک تویہ کہ میرے اہل سنت بھائیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو علما ء واقعی انبیاء کے وارث ہیں ان کا اخلاق کیسا  ہوتا ہے ۔

دوسرے یہ بھی احساس ہوجائے کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ ہماری حدیث کی معتبر  کتابوں میں کیا لکھا ہوا ہے ۔ ہم ایسی باتوں پر دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں جن کی صحت کے ہم خود قائل ہیں اور جن کو ہم  صحیح سنت نبوی تسلیم کرتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان باتوں کا  مذاق اڑاتے ہیں جن پر خود رسول اللہ ص نے عمل کیا تھا اور اس کے باوجود دعوی ہمارا یہ ہے کہ ہم اہل سنت ہیں :

میں پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتاہوں ۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں شیعوں کے اقوال کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوگا کیونکہ وہ اپنے  ہر عقیدے اور عمل کی سند ائمہ اہل بیت  ع سے لاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ نسبت صحیح نہ ہو ۔ لیکن ہم اپنی صحاح میں تو شک نہیں کرسکتے  ، ان کی صحت تو ہمیں تسلیم ہے اوراگر ہم ان میں بھی شک کرنے لگے تو میں نہین کہہ سکتا کہ پھر ہمارے پاس دین میں سے کچھ باقی بچے گا بھی  کہ نہیں !

اس لیے تحقیق کرنے والے کے لیےضروری ہےکہ وہ انصاف سے کام لے اور تحقیق سے اس کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہو۔ اس طرح امید ہےک ہ اللہ تعالی ضرور صراط  مستقیم  کی طرف رہنمائی کرے گا ، اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اسے جنت النعیم میں داخل کرے گا ۔ اور یہ ہیں وہ روایات جو جمع بین الصلاتین کے بارے میں علمائے اہل سنت نے بیان کی ہیں ۔ ان کو پڑھ کر آپ کو یقین ہوجائے گا کہ جمع بین الصلاتین کوئی شیعہ بدعت نہیں ہے :

<> امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ

۲۸۸

رسول اللہ ص نےجب وہ مدینے میں مقیم تھے ،مسافر نہیں تھے  سات اورآٹھ  رکعتیں پڑھیں ۔(1)

<>امام مالک نے موطاء میں ابن عباس  سے روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ :

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں  اکٹھی پڑھیں اور مغرب اور عشاء کی اکٹھی ۔(2)

<>صحیح مسلم باب الجمع  بین الصلاۃ فی الحضر میں ابن عباس سے  روایت ہے کہ:

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور مغرب اورعشاء کی اکٹھی ۔

<>صحیح مسلم میں ابن عباس ہی سے  روایت ہے کہ  رسول اللہ ص نے مدینہ میں بغیر خوف اوربغیر بارش کے ظہر ،عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ رسول اللہ ص نے ایساکیوں کیا ؟ ابن عباس نے کہا : اپنی امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ۔

<>اسی باب میں صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جمع بین الصلاتین کی سنت صحابہ میں مشہور تھی ۔ اور اس  پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے ۔

<>صحیح مسلم کے اسی باب کی روایت ہے کہ :

ایک روز ابن عباس نے عصر کے بعد خطبہ دیا ۔ ابھی ان کا خطبہ جاری تھا کہ سورج ڈوب گیا ، ستارے نکل آئے ، لوگ بے چین ہو کر الصلاۃ ، الصلاۃ پکارنے لگے ۔ بنی تمیم میں سے

--------------------

(1):- امام احمد بن حنبل مسند جلد 1 صفحہ 221

(2):- امام مالک  موطاء ،شرح الحوالک جلد 1 صفحہ 160

۲۸۹

ایک گستاخ شخص الصلاۃ ،الصلاۃ کہتا ہوا ابن عباس تک پہنچ گیا ۔ ابن عباس نے کہا : تیری ماں مرے، تو مجھے سنت سکھاتا ہے ! میں نے رسول اللہ ص کو ظہر اور  عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے دیکھا ہے "۔

<>ایک اورروایت میں ہے کہ :

"ابن عباس نے اس شخص سے کہاں تیری ماں مرے ، تو ہمیں نماز سکھاتا ہے ۔ ہم رسول اللہ ص کے زمانے میں جمع الصلاتین کیا کرتے تھے "۔(1)

<>باب وقت المغرب میں صحیح بخاری کی روایت ہے ،جابر بن زید کہتےہیں کہ ابن عباس کہتے تھے کہ

"رسول اللہ ص نے سات رکعتیں اکٹھی اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں "(2)

<>اسی طرح بخاری نے باب وقت العصر میں روایت کی ہےکہ ابو امہ کہتے تھے :

"ہم نے عمر بن عبدالعزیز کےساتھ ظہر کی نماز پڑھی ،پھر ہم وہاں سے نکل کر انس بن مالک کے پاس پہنچے ۔دیکھا تو عصر  کی نماز پڑھ لی ؟ کہنے لگے عصر کی ، اور یہ رسول اللہ ص کی نماز ہے جو ہم رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھا کرتے تھے "۔(3)

اہل سنت کی صحاح کی احادیث کے اس مختصر  جائزے کے بعد ہم پوچھنا چاہیں گے کہ ان روایات کے ہوتے ہوئے اہل سنت آخر شیعوں کو برا بھلا کیوں

-----------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 151۔152 باب الجمع بین الصلاتین

(2):-صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 140 باب وقت المغرب

(3):- صحیح بخاری جلد1 صفحہ باب وقت العصر

۲۹۰

کہتے ہیں اور ان پرکیوں اعتراض کرتے ہیں ۔ہم پھر حسب عادت وہی بات کہیں گے کہ اہل سنت کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں اور ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی صحت کے خود قائل ہیں ۔ہمارے شہر قفصہ میں ایک دن امام صاحب نمازیوں کے درمیان کھڑے ہو کر ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہم پر لعن طعن کرتے ہوئے کہتے لگے : "تم نے دیکھا ان لوگوں نے کیا دین نکالا ہے ۔ ظہر کی نماز کے فورا بعد عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ یہ دین محمدی نہیں ہے کوئی نیادین ہے ۔یہ قرآن کے خلاف کرتے ہیں ۔قرآن تو کہتا ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " غرض امام صاحب نے کوئی ایسی گالی نہ چھوڑیں جو انھوں نے ان لوگوں کو نہ دی ہو جو نئے نئے شیعہ ہوئے تھے ۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جس نے شیعہ مذہب قبول کرلیا تھا ،ایک دن میرے پاس آیا اور بڑے رنج وافسوس کے ساتھ امام صاحب کی باتیں میرے سامنے دہرائیں ۔میں نے اسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم دیں اور اس سے کہا کہ امام صاحب کو جاکر بتاؤ کہ جمع بین الصلاتین درست ہے اور سنت نبوی ہے میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میں امام صاحب کے پاس جاؤں گا نہیں ، کیونکہ میں ان سےجھگڑنا نہیں چاہتا ، ایک دن  میں نے ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ سنجیدہ  بحث کرنی چاہی تھی مگر وہ گالیوں  پر اتر آئے اور غلط سلط الزامات لگانے لگے ۔ اس گفتگو میں اہم بات یہ تھی کہ میرے اس دوست نے ابھی تک ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی ترک  نہیں کی تھی ۔ جب نماز کے بعد امام صاحب حسب معمول درس کے لیے بیٹھے  ،میرے دوست نے بڑھ کر ان سے جمع بین الصلاتین کے متعلق سوال کیا ۔

امام صاحب نے کہا :یہ شیعوں کی نکالی ہوئی بدعت ہے !

میرے دوست نےکہا: لیکن یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ثابت ہے ۔

امام صاحب جھٹ سے بولے : بالکل غلط ۔میرے دوست نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم نکال کر انھیں دیں۔ انھوں نے باب الجمع بین الصلاتین پڑھا ۔ میرا دوست کہتا ہے کہ جب انھیں ان نمازیوں کے سامنے

۲۹۱

جو ان کا درس سنا کرتے تھے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ چکرائے اور انھوں نے کتابیں بند کرکے مجھےواپس کردیں اورکہنے لگے کہ "یہ رسول اللہ ص کی خصوصیت تھی جب تم رسول اللہ ص کے درجے پر پہنچ جاؤگے  اس وقت اس طرح نماز پڑھنا " ۔میرا دوست سمجھ گیا یہ جاہل متعصب شخص ہے اور اس دن سے میرے دوست نے ان کے پیچھے نماز  پڑھنی چھوڑدی ۔

قارئین کرام! دیکھیے  تعصب کیسے آنکھوں کو اندھا کردیتا ہے اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتا ہے ، پھر حق سجھائی نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ"عنز ۃولو طارت" تھی تو بکری ہی ،اڑگئی تو کیا ہوا ۔(1)

میں نے اپنے دوست سے کہا کہ تم امام صاحب کے پاس ایک دفعہ پھر جاکر انھیں بتلاؤ کہ ابن عباس اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح انس مالک اور دوسرے صحابہ بھی پڑھتے تھے، تو پھر اس میں رسول اللہ ص کی کیا خصوصیت  ہوئی ؟

لیکن میرے دوست نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس کی ضرورت نہیں ، امام صاحب کبھی نہیں مانیں گے خواہ رسو ل اللہ ص خود ہی کیوں نہ آجائیں ۔

رسول اللہ ص کا آنا توخیر ناممکن بات ہے مگر اس سے اس تلخ حقیقت کا اظہار ہوتا ہے جس کو اللہ عزوجل  نے سورہ روم میں اس طرح بیان کیا ہے ۔

" فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ () وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ "

--------------------

(1):-کہتے ہیں ،دوآدمی شکار کے لیے نکلے ۔دورسے کوئی سیاہ چیز دکھائی دی ۔ ایک نے کہا کہ یہ کوا ہے ۔ دوسرے نے کہا : نہیں بکری ہے ۔دونوں اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ قریب پہنچے تو کوا پھڑا پھڑا کر اڑ گیا ۔ پہلے شخص  نےکہا : دیکھا میں نہیں کہتاتھا کہ کوا ہے ، اب مان گئے ؟ لیکن اس کا دوست پھر بھی نہ مانا ۔کہنے لگا :

"بھائی ! تھی تو بکری ہی ،مگر اڑنے والی بکری تھی ۔"

۲۹۲

آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلے جارہے ہوں ۔ اور آپ اندھوں کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے ۔ آپ صرف ان کو سنا سکتے ہیں جوہماری نشانیوں پر ایمان لائے ہوں اور انھیں مانتے ہوں ۔(سورہ روم ۔آیت52- 53)

الحمد اللہ کہ بہت سے نوجوان جمع بین الصلاتین کی حقیقت سے واقف ہو کے بعد دوبارہ نماز  پڑھنے لگے ، نہیں تو وہ نماز ہی چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ وہ وقت پر تو نماز پڑھ نہیں سکتے تھے ۔ رات کو چار وقت کی اکٹھی  نماز پڑھتے بھی تھے تو دل کو اطمینان نہیں ہوتا تھا ۔ اب ان کی سمجھ میں آیا  کہ جمع بین الصلاتین  میں کیا حکمت ہے ۔جمع بین الصلاتین کی صورت میں سب ملازمت پیشہ ،طلبہ اور عوام نماز  وقت پر ادا کرسکتے ہیں اور ان کا دل مطمئن رہتا ہے ۔ رسول اللہ ص کے ارشاد کا مطلب کہ"کی لا اٌحرج اُمّتی " (میں اپنی امت کو ضیق میں نہ ڈالوں )ان کی سمجھ میں آگیا تھا ۔

خاک پر سجدہ

شیعوں کا اس پر اتفاق ہے کہ زمین پر سجدہ افضل ہے ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع سے ان کے جد رسول اللہ ص کا قول نقل کرتے ہیں کہ" أفضل السّجود على الأرض"

سجدہ زمین پر افضل ہے  ۔ایک اور روایت میں ہے کہ"لايجوزالسجود إلّا على الأرض أومآ أنبتت الأرض غيرماءكولٍ وّلاملبوس ٍ." سجدہ جائز نہیں ہے مگر زمین پر یا اس چیز پر جو زمین سے اگی ہو مگر نہ کھائی جاتی ہو اور نہ پہنی جاتی ہو ۔

۲۹۳

صاحب وسائل الشیعہ محدّث حر عاملی نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے کہ ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ امام جعفر الصادق  علیہ السلام نے فرمایا ہے :

"السجود على الأرض أفضل لانّه أبلغ في النّواضع والخضوع لله عزّوجلّ.

زمین پر سجدہ افضل ہے کیونکہ اس سے انتہائی تواضع اور خشوع وخضوع  کا اظہار ہوتاہے ۔ ایک اور روایت میں اسحاق بن فضل کہتے ہیں کہ : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا چٹائیوں پر اور سرکنڈوں  سےبنے ہوئے بوریوں پن سجدہ جائز ہے ؟ آپ نےکہا : کوئی حرج نہیں ۔مگر میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ زمین پرسجدہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ ص کو یہ بات پسند تھی کہ آپ کی پیشانی زمین پر ہو ۔ اور میں تمھارے لیے وہی بات پسند کرتاہوں جو رسول اللہ ص کو پسند تھی ۔

مگر علمائے اہل سنت قالین یا دری وغیرہ بھی بھی سجدہ میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ اگر چہ ان کے نزدیک بھ افضل  یہ ہے کہ چٹائی پر سجدہ کیاجائے ۔ بخاری اور مسلم کی بعض روایات بتلاتی ہیں کہ رسول اللہ ص کے پاس کجھورکے

پتوں اور مٹی سے بنی ہوئی نہایت چھوٹی سی جانماز تھی جس پر آپ سجدہ کیا کرتے تھے ۔

صحیح مسلم کتاب الحیض میں عن قاسم بن محمد عن عائشہ کے حوالے سے روایت ہے  ۔ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ص نے مجھے  سے کہا کہ ذرا یہ خمرہ مجھے مسجد سے اٹھادینا ۔میں نے کہا : مجھے  توماہوری آرہی ہے  آپ نے فرمایا :تمھاری ماہواری تمھارے ہاتھ میں تھوڑا ہی ہے۔(1) (مسلم کہتے ہیں کہ خمرہ کا مطلب ہے چھوٹی سی جانماز

--------------------

(1):-صحیح مسلم جلد اول باب جواز غسل الحائض راس زوجہا ۔سنن ابی داؤد جلد 1 باب الحائض تناول من المسجد

۲۹۴

اتنی چھوٹی کہ بس اس پر سجدہ کیا جاسکے ۔)

بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ص زمین پن سجدہ کرناپسند فرماتے تھے ۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف  کیا کرتے تھے  ۔ایک سال آپ نے اعتکاف  کیا ۔جب اکیسویں کی شب ہوئی  اوریہ وہ رات تھی جس کی صبح کوآپ  اعتکاف  سے نکلنے والے تھے ، اس رات آپ نے کہا :

"جس نے میرے  ساتھ اعتکاف  کیا ہو وہ رمضان  کے آخری دس دنوں کا بھی اعتکاف کرے ۔میں نے وہ رت (لیلۃ القدر) دیکھی  تھی  پھر مجھے بھلادی گئی۔ میں نے دیکھا تھا کہ میں اس رات کی  صبح  کو گیلی مٹی پر سجدہ کررہاہوں  ۔اس لیے  تم اسے آخری دس راتوں  میں اور طاق راتوں میں تلاش کرو "۔ اس کے بعد اس رات  بارش ہوئی ۔ مسجد کجھور  کی ٹہنیوں  اور پتوں کی تو تھی ہی ٹپکنے لگی۔ میری آنکھوں نے 21 کی صبح کو رسول اللہ ص کی پیشانی  پر گیلی مٹی کا نشان دیکھا ۔(1)

صحابہ بھی خود رسول اللہ ص  کی موجودگی میں زمین پرہی سجدہ کرنا پسند کرتے تھے ۔ امام نسائی نے اپنی سنن میں روایت بیان کی ہے کہ :

جابر بن عبداللہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ص کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے ۔ میں ایک مٹھی کنکریاں ٹھنڈی کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتا تھا پھر دوسرے ہاتھ میں لے لیتا تھا ۔جب سجدہ کرتا تو انھیں وہاں رکھ دیتا جہاں  پیشانی رکھنی ہوتی ۔(2) اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :

-------------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 باب الاعتکاف فی العشر الاواخر۔

(2):- سنن امام نسائی جلد 2 باب تبرید الحصی للسجود علیہ ۔

۲۹۵

"جعلت لى الأرض مسجدًا وّطهورًا."

میرے لیے تمام زمین سجدہ کرنے اور پاک کرنے کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔(1)

" جعلت لنا الأرض كلّهامسجدًا وّجعلت تربتها لنا طهورًا."

ہمارے لیے تمام زمین سجدہ گاہ اور اس کی خاک پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے ۔(2)

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان شیعوں کے خلاف اس لیے ضد رکھتے ہیں کہ شیعہ قالینوں کے بجائے مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ۔؟

یہاں تک  کیسے نوبت پہنچی  کہ شیعوں  کی تکفیر کی گئی ،انھیں برابھلا کہا گیا اور ان پر بہتان باندھا گیا کہ کہ ہو بت پرست ہیں ۔

اگر شیعوں کی جیب  یا سوٹ  کیس میں سے خاک کربلا کی ٹکیہ(3) نکل آئے تو اتنی  سی بات پر شیعوں  کو سعودی عرب میں زدوکوب کیاجاتا ہے ؟

---------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 1 کتاب التیمم ۔

(2):-صحیح مسلم جلد 4 کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ۔

(3):-آیت اللہ العظمی  آقائے خوئی البیان فی تفسیر القرآن  میں فرماتے ہیں :

"شیعہ عقیدے  کی رو سے امام حسین  علیہ السلام  کی قبر کی خاک بھی اللہ کی اسی وسیع  وعریض زمین کا ایک حصہ ہے جسے اس نے اپنے پیغمبر کے لیے ظاہر  مطہر اورجائے  سجود قراردیا ہے ۔ تاہم کیسی طاہر اور مقدس ہے وہ خاک جو جگر گوشہ رسول ص کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور جس میں جوانان بہشت کے سردار آرام فرمارہے  ہیں ! اس خاک کے پہلو میں وہ عظیم ہستی محوخواب ہےجس نے اپنے فرزندوں ،عزیزوں اور وفادارساتھیوں  کو راہ خدا میں قربان کردیا ۔ یہ خاک ! خاک کربلا انسانوں  کو راہ خدا میں جاں  بازی اور فداکاری کا سبق سکھاتی ہے ،انھیں شرافت وفضیلت کا درس دیتی ہے اور ایک عدیم النظیر جگر دوز

۲۹۶

کیا یہی  وہ اسلام ہےجو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کلمہ گو موحد مسلمان کی جو نماز پڑھتا  ہو ، زکواۃ دیتا ہو ، رمضان  کے روزے رکھتا ہو اور بیت اللہ کاحج کرتا ہو ۔ توہین نہ کریں ۔ کیا کوئی شخص بقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ اگر بعض لوگوں کا یہ الزام درست ہوتا کہ شیعہ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں تو کوئی شیعہ اتنی تکلیف اٹھاکر اور اتنا مالی بوجھ برداشت کرکے حج بیت اللہ اور زیارت قبر رسول ص کے لیے آتا ؟

کیا اہل سنت آیت اللہ سید محمد باقر صدر شہید کے اس قول سےمطمئن نہیں ہوسکتے ،جو میں نے اپنی پہلی کتاب "ثم اھتدیت " (تجلّی ) میں نقل کیا ہے کہ جب میں نے ان سے خاک کربلا پر سجدے کرے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ : "ہم مٹی پر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ مٹی پر سجدہ کرنے میں اور مٹی کو سجدہ کرنے میں فرق ہے "

اگر شیعہ احتیاط کرتے ہیں کہ ان کا سجدہ  پاک جگہ پر ہو اور عنداللہ مقبول ہو تو وہ رسول اللہ اور ائمہ اطہار کے حکم  کی تعمیل کرتے ہیں ۔ خصوصا ہمارے زمانے میں جب سب مساجد میں موٹے موٹے روئیں دار قالینوں کے فرش بچھ گئے ہیں ، ان

-------------------

تاریخی واقعے  کی یاد ذہن انسانی میں تازہ کرتی ہے ۔ انھی وجوہ کی بنا پر اس خاک کی ایک خاص اہمیت اور عظمت ہے اور اس پر سجدہ کرنا شرعا صحیح ہے ۔ اس سب کے علاوہ خاک کربلا کی فضیلت میں متعدد روایات  رسول اکرم ص سے منقول  ہیں جو شیعہ اور سنی دونوں ذرائع سے آتی ہیں "۔

استاد شہید مرتضی مطہّری اپنی کتاب شہید میں فرماتے ہیں :

"جب رسول اللہ ص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا س کو مشہور تسبیحات (34 بار اللہ اکبر 33بار الحمدللہ اور 33بار سبحان اللہ )پڑھنے کو کہا تو وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی  قبر پر گئیں  اور تسبیح تیار کرنے کے لیے وہاں سے کچھ مٹی حاصل کی ۔ان کے اس فعل کی کیا اہمیت ہے ؟ اس کی اہمیت یہ ہے کہ شہید  کی قبر متبرک ہے اور اس کے ارد گرد کی مٹی بھی متبرک ہے ۔انسان کو تسبیحات  پڑھنے  کے لیے ایک تسبیح  کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد  کے لیے پتھر ، لکڑی اور مٹی کی بنی ہوئی تسبیح استعمال  کی جاسکتی ہے لیکن ہم شہید کی قبر کے پاس کی مٹی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس سے ہمارا مقصد شہید کی تعظیم  بجالاتا ہوتا ہے "۔(ناشر)

۲۹۷

قالینوں میں سے بعض کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاجاتا ہے جس سے عام مسلمان ناواقف ہیں ۔ یہ قالین مسلمان  ملکوں کے بنے ہوئے بھی نہیں ہوتے ، اس لیے ممکن ہے کہ ان میں سے بعض  کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاگیا  ہو جو جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس شیعہ  کو جو نماز  کی صحت کا اہتمام  کرتا ہوں ، دھتکاریں اور محض بے بنیادشبہ کی وجہ سے اس پر کفر وشرک کا الزام لگائیں ؟

 شیعہ جو دینی امور میں خیال رکھتا ہے خصوصا نماز کا جو دین کاستون ہے اور اس کا اتنا اہتمام کرتا ہے کہ نماز کے وقت اپن پیٹی اتاردیتا ہے ،گھڑی بھی اتاردیتا ہے کیونکہ اس کا تسمہ چمڑے  کا ہے جس کی اصل معلوم نہیں ۔ بعض اوقات پتلون اتار کر ڈھیلا ڈھالا پاجامہ پہن لیتا ہے اور یہ سب احتیاط اور اہتمام اس لیے کرتا ہے کہ اسے نماز میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ اپنے رب کے سامنے اس حال میں جائے کہ اس کے رب کو اس کی کوئی بات ناپسند ہو ۔

کیا ایسا شیعہ اس بات کامستحق ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے ، اس سے نفرت کی جائے ؟ وہ تو اس قابل ہے کہ اس کا احترام کیا جائے ، اس کی تعظیم کی جائے کیونکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے جو تقوی کی بنیاد ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کہو !

اگر تم پر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا دنیا  میں بھی اور آخرت میں بھی ، تو جس مشغلے  میں تم پڑے تھے اس میں تم پرسخت  عذاب نازل ہوتا ۔ اس وقت جب تم اس کو اپنی زبانوں سے دہرارہے تھے اور اپنے منہ سے  وہ کچھ  کہہ رہے تھے جس کا تمھیں علم نہیں تھا اور تم اس کو معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی ۔(سورہ نور ۔آیت 15)

۲۹۸

رجعت

رجعت ان مسائل میں سے ہے جن کے صرف شیعہ قائل ہیں ۔

میں نے حدیث کی کتابوں میں ڈھونڈا مگر مجھے اس کا کہیں ذکر نہیں ملا ۔ بعض صوفی عقائد میں البتہ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق مغیبات سے ہے ۔ جو ان باتوں کو نہ مانے وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ ایمان نہ ان امور کے ماننے پر موقوف ہے نہ ان پر اعتقاد سے ایمان  کی تکمیل ہوتی ہے ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے سے نہ کوئی نفع ہوتا ہے نہ نقصان ۔ یہ صرف روایات ہیں جن کو شیعہ ائمہ اطہار  ع سے روایت کرتے ہیں کہ

"اللہ سبحانہ ،بعض مومنین اور بعض مجرمین مفسدین کو زندہ کرے گا تاکہ مومنین آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اپنے دشمنوں سے انتقام لیں ۔"

اگر یہ روایتیں صحیح ہیں ۔ اورشیعوں کے نزدیک تو یہ صحیح اور متواتر ہیں ۔جب بھی یہ اہل سنت کو پابند نہیں بناتیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ان پر اعتقاد رکھنا اس لیے واجب ہے کہ اہل بیت ع نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ہر کز نہیں ۔کیونکہ ہم نے بحث میں انصاف اور بے تعصبی کا عہد کیا ہوا ہے ۔

اس لیے ہم اہل سنت کو انھی روایات کا پابند سمجھتے ہیں جو ان کی اپنی حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ چونکہ رجعت کی احادیث ان کی اپنی کتابوں میں نہیں آئی ہیں اس لیے وہ ان کو قبول نہ کرنے میں آزاد ہیں اور یہ بھی جب ہے ، جب کوئی شیعہ ان روایات کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرے ۔

لیکن شیعہ کسی کو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہیں کرتے اورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جو رجعت کا قائل ہونے  پر مجبور نہیں کرتے اور نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ رجعت کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ اس لیے  کوئی وجہ نہیں کہ شیعہ ، جو

۲۹۹

رجعت کے قائل ہیں ان کو اس قدر برابھلا کہا جائے اور ان کے خلاف اس قدر شوروغوغا برپا کیا جائے !

شیعہ  مسئلہ رجعت کا ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثابت ہیں اور جن کی تائید بعض آیات سے بھی ہوتی ہے ،جیسے "

" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ "

اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان کی صف بندی کی جائے گی۔(سورہ نمل ۔آیت 83)

تفسیر قمی میں ہے کہ "

امام جعفر صادق ع نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً " ؟ حمّاد کہتے ہیں کہ میں نے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق روزقیامت سے ہے ۔ امام نے کہا : یہ بات نہیں ،یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے ، قیامت میں کیا اللہ تعالی ہر امت میں سے صرف  ایک ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا اور باقی کو چھوڑ دے گا ؟

قیامت کے بارے میں دوسری آیت ہے :

" وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً "

اور ہم ان سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ۔(سورہ کہف ۔آیت 47)

شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ میں ہے : اہل بیت علیھم السلام سے جو روایات آئی ہیں ان کی بنا پر شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مردوں میں سے کچھ کو اسی دنیا میں زندہ کرے گا، ان کی شکلیں وہی ہوں گی جو ان کی زندگی میں تھیں ۔پھر ان میں سے ایک گروہ کو عزت دے گا اور ایک گروہ

۳۰۰