حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 58883
ڈاؤنلوڈ: 5932

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58883 / ڈاؤنلوڈ: 5932
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کو ذلیل کرے گا ۔ اس وقت حق پرست ،باطل پرستوں سے ، اور مظلوم ، ظالموں سے بدلہ لیں گے ۔ بدلہ لینے کا یہ واقعہ قائم آل محمد کے ظہور بعد ہوگا ۔

رجعت صرف ان مومنین کی ہوگی جن کے ایمان کا درجہ بہت بلند تھا اور مفسدین میں سے صرف ان کی جو حد درجہ بہت بلند تھا اور مفسدین میں سے صرف ان کی جو حد درجہ فسادی تھے  اس کے بعد یہ لوگ پھر مرجائیں گے اور روزقیامت دوبارہ محشور ہوں گے اور ان کے استحقاق کے مطابق ثواب ثواب وعذاب دیا جائے گا ۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان دوبارہ  زندگی پانے والوں اور لوٹ کر آنے والوں کی ایک تمنا کا بھی ذکر کیا ہے ۔جب دوسری دفعہ بھی ان کی اصطلاح نہیں ہوگی اور خدا کے غضب کے سوا انھیں  کچھ نہیں ملے گا ، تویہ تیسری دفعہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے ۔:

" قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ"

اور وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! تونے ہمیں دوفعہ موت اور دودفعہ زندگی دی سو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں ، تو کیا  کوئی صورت ہے نکلنے کی ؟(سورہ مومن ۔آیت 116)

میں کہتاہوں کہ اگر اہل سنت والجماعت رجعت پر یقین نہیں رکھتے ، تو انھیں اس کا پورا حق ہے ،لیکن انھیں یہ حق نہیں ہے کہ جو اس کے قائل ہیں اور جن کے نزدیک یہ نصوص سے ثابت ہے ان کو برا بھلا کہیں  اس لیے کہ کسی شخص  کا کسی بات  کو نہ جاننا اس کی دلیل نہیں کہ جو شخص  جانتا ہے ہو غلطی پر ہے اسی طرح کسی کے کسی چیز کو نہ ماننے یا نہ جاننے  کا یہ مطلب نہیں کہ اس چیز کا وجود ہی نہین مسلمانوں کے کتنے  ہی ناقابل  تردید دلائل ہیں  جنھیں اہل کتاب یعنی یہود ونصاری تسلیم نہیں کرتے ۔

اہل سنت کی بھی کتنی ہی روایات اور کتنے ہی اعتقادات ایسے ہیں ،خصوصا

۳۰۱

وہ جن کا تعلق اولیاء اور صوفیا سے ہے جو ناممکن اور کریہہ نظر آتے ہیں ، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اہل سنت کے عقیدے کہ مذمت کی جائے اور اس سے ڈرایا جائے ۔

رجعت کا ثبوت قرآن اور سنت نبوی میں ملتا ہے اور ایسا کرنا اللہ تعالی  کے لیے ناممکن اور محال بھی نہیں ہے ۔ خود قرآن شریف میں رجعت کی کئی مثالیں  ملتی ہیں ۔ مثلا قرآن میں ہے :

" أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ "

کیا تم نے اس شخص کے حل پر غور کیاجسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں کے بل  گرچکا اتفاق گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اللہ اس بستی کے باشندوں کومرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا ، تو اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور اس کو سوسال تک مردہ رکھا ، پھر زندہ کردیا ۔(سورہ بقرہ ۔ آیت 259)

یا ایک اور آیت میں ہے :

" أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ "

کیا تمھیں ان لوگوں کی خبر  ہے جو شمار میں ہزاروں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل  بھاگے تھے ، تو اللہ نے ان سے کہا کہ مرجاؤ ، پھر انھیں زندہ کردیا ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 243)

اللہ تعالی نے بنی اسرائیل  کے ایک گروہ کو پہلے موت دے دی اور پھر انھیں زندہ کردیا :

" وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ () ثُمَّ

۳۰۲

بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ()"

اور جب تم نے کہاتھا کہ اے موسی ! ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا مامنے نہیں دیکھ  لیں گے ۔ اس پر تمھاری دیکھتے دیکھتے بجلی کی کڑک نے آکر تمھیں دبوچ لیا ۔ پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تمھیں ازسر نوزندہ کردیا تاکہ تم احسان مانو۔(سورہ  بقرہ ۔آیت 56)

اصحاب کہف تین سوسال سے زیادہ غار میں مردہ پڑے رہے :

" ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَداً"

پھر ہم نے انھیں زندہ کرکے اٹھا یا تاکہ معلوم کریں کہ ان دونوں گروہوں میں سے کونسا گروہ اس حالت میں رہنے کی مدت سے زیادہ واقف ہے ۔(سورہ کہف ۔آیت 12)

دیکھیے ۔ کتاب اللہ کہتی ہے کہ سابقہ امتوں میں رجعت کے واقعات ہوتے رہے ہیں ، تو امت محمدیہ میں بھی ایسے کسی واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں ہے ، خصوصا جبکہ ائمہ اہل بیت ع اس کی خبر دے رہے ہوں جو سچے  ہیں اور باخبر ہیں ۔ بعض بے جا دخل اندازی کرنے والے کہتے ہیں کہ رجعت کو تسلیم کرنا تناسخ (آواگون)کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو کہ کفار کا عقیدہ ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اس کامقصد محض شیعوں پر الزام تراشی اور انھیں بدنام کرنا ہے۔

تناسخ کے ماننے والے یہ نہیں کہتے کہ انسان اسی جسم ، اسی روح اور اسی شکل کے ساتھ دنیا میں واپس آتاہے ۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو مرجاتا ہے ، اس کی روح ایک دوسرے انسان کے جسم میں جو دوبارہ پیدا ہوتا ہے داخل ہوجاتی ہے بلکہ اس کی روح کسی جانور کے جسم مین بھی داخل ہوسکتی ہے۔جیسا کہ ظاہر  ہے یہ عقیدہ اس اسلامی عقیدے سے بالکل  مختلف ہے جس کے مطابق اللہ تعالی مردوں کو اسی جسم اور اسی روح کے ساتھ اٹھاتا ہے ۔رجعت کا تناسخ

۳۰۳

سے قطعا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ان جاہلوں کا کہنا ہے کہ جو شیعہ اور شیوعیّہ(1) میں بھی تمیز نہیں کرسکتے ۔

مہدی منتظر علیہ السلام

مہدی موعود کا مسئلہ بھی ان موضوعات میں شامل ہے جن کی وجہ سے اہل سنت شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں بلکہ بعض تو اس حدتک بڑھ جاتے ہیں  کہ تمسخر واستہزاء سے بھی نہیں چوکتے ۔ کیونکہ اہل سنت اس کو بعید ازعقل اور محال سمجھتے ہیں کہ کوئی انسان  بارہ سو برس تک زندہ مگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے ۔

بعض ہمعصر مصنفین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شیعوں نے امام عائب کا خیال اس لیے گھڑا ہے کہ انھیں مختلف ادوارمیں کثرت سے حکمرانوں کے ظلم وستم سہنے پڑے ہیں چنانچہ انھوں نے اس تصور سے اپنے دل کو تسلی دے  دی کہ مہدی منتظر ع کے زمانے میں جو زمین کو عدل وانصاف سےبھر دیں گے نہ صرف انھیں امن چین نصیب ہوگا بلکہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کا بھی موقع ملے گا ۔

پچھلے چند سالوں میں مہدی منتظرع کے ظہور سے متعلق چرچا بڑھ گیاہے ، خصوصا ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب پاسداران انقلاب ن ےیہ اپنا خاص طریقہ اور شعار بنالیا کہ وہ اپنی دعاؤں میں امام خمینی کے لیے یہ دعا کرتے تھے کہ خدایا خدایا تا انقلاب مہدی خمینی را نگہدار!

اس وقت سے مسلمان اور خصوصا تعلیم یافتہ مسلمان یہ پوچھنے لگے کہ مہدی ع کی اصلیت کیا ہے ؟۔کیا اسلامی عقائد میں مہدی کاواقعی وجود ہے یاہے یا یہ محض شیعوں کی من گھڑنت ہے ۔

اگر چہ شیعہ علماء نے ہر دور میں مہدی سے متعلق کتابوں لکھی ہیں اور

---------------------

(1):-شیوعیّہ کے معنی ہیں کمیونزم۔

۳۰۴

داد تحقیق دی ہے ۔ نیز شیعہ اور سنی علماء کو اکثر کانفرسوں وغیرہ میں ایک دوسرے سے ملنے اور عقائد سے متعلق مختلف مسئلوں پرگفتگو کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے ، اس کے باوجود اہل سنت کے لیے یہ موضوع چیستان بنا ہوا ہے اس لیے کہ انھیں اس سے متعلق روایات سننے کا کم ہی اتفاق ہوتا ہے ۔

اسلامی عقائد میں مہدی منتظر ع کی حقیقت کیا ہے؟

اس بحث کے دوجزو ہیں :- پہلے جزو کا تعلق کتاب وسنت کے حوالے سے مہدی کی بحث سے ہے اور دوسرے کا تعلق مہدی کی زندگی ، ان کے غائب ہونے اور دوبارہ ظاہر ہونے سے ہے ۔

جہاں تک اس بحث کے پہلے جزو کا تعلق ہے ، شیعہ اورسنی دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ص نے مہدی کی بشارت دی ہے ۔ آپ نے اپنے اصحاب کو بتلایا ہے کہ اللہ تعالی مہدی کو آخری زمانے میں ظاہر  کرے گا ۔ مہدی کی احادیث شیعہ اور اہل سنت دونوں کی معتبر  کتابوں میں ملتی ہیں ۔

میں اپنی عادت کے مطابق صرف ان روایات سے استدلال کروں گا جن کو اہل سنت صحیح اور معتبر سمجھتے ہیں ۔

سنن ابو داؤد میں ہے کہ

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :اگر دنیا کا فقط ایک دن باقی رہ جائے تو ایک ہی دن کو اللہ تعالی  اتنا طول دے گا کہ اس میں ایک شخص بھیجے گا جس کا نام میے نام پر ہوگا اور اس کی کنیت میری کنیت پر ہوگی ۔ وہ اس زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی ۔(1)

ابن ماجہ میں ہے کہ

"رسول اللہ ص نے فرمایا : ہم اہل بیت کے لیے اللہ نے دنیا سے

-----------------------

(1):- سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 422۔

۳۰۵

زیادہ آخرت کو پسند کیا ہے ۔ میرے بعد میرے اہل بیت ع کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا ، انھیں دھتکارا جائے گا ۔ پھر ایک قوم  مشرق کی طرف سے آئے گی جس کے ساتھ کا لے جھنڈے ہوں گے وہ لوگ  بھلائی مانگیں گے مگر انھیں ملے گی نہیں ۔ اس پر وہ لڑیں گے اور کامیاب ہوںگے  ۔ پھر جو وہ مانگتے تھے اس کی انھیں  پیشکش کی جائے گی مگر وہ قبول نہیں کریں گے ۔ آخر وہ (حکومت ) میرے اہل بیت ع میں سے ایک شخص کے حوالے کردیں گے جو زمین کو جو ظلم سے بھری ہوئی ہوگی ، انصاف سے بھردےگا ۔(1)

سنن ابن ماجہ میں ہے :

رسول اللہ نے فرمایا : مہدی ہم اہل بیت ع سے ہے ،

مہدی فاطمہ س کی اولاد سے ہوگا ۔

سنن ابن ماجہ ہی میں ہے کہ

" رسول اللہ ص نے فرمایا : میری امت میں مہدی ہوگا ۔ اس کا زمانہ اگر کم ہوا تو سات سال ورنہ نو سال ہوگا ۔ اس عرصے میں میری امت کو وہ آرام واطمینان ہوگا  جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا ۔ غلہ کی اتنی فراوانی ہوگی کہ ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔جو شخص مہدی سے کچھ مانگےگا  وہ اسے مل جائے گا ۔(2)

صحیح ترمذی میں آیا ہے :

رسول اللہ ص نے فرمایا : ایک شخص میری امت میں سے حکمراں ہوگا ۔ اس کا نام وہی ہوگا جو میرا نام ہے ۔ اگر قیامت آنے میں ایک دن بھی باقی ہوگا تو اللہ اس دن کو اتنا طویل

--------------------

(1):-سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4082۔

(2):- سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4086۔

۳۰۶

کردے گا کہ یہ شخص  حمکراں ہوسکے گا ۔(1)

رسول اللہ ص نے فرمایا : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حکومت ایک عرب کو نہ مل جائے جو میرے اہل بیت میں ہوگا اور جس کانام میرے نام پر ہوگا ۔

صحیح بخاری میں ابو قتادہ انصاری کے آزاد کردہ غلام نافع سے روایت ہے کہ ان سے ابو ہریرہ نے کہا کہ :"رسول اللہ ص نے فرمایا : کیسا ہوگا جب ابن مریم ع تم میں نازل ہوں گے اور تمھارے امام تم میں سے ہوں گے ۔(2)

قاضی ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ

اس بارے میں متواتر احادیث ہیں کہ اس امت میں مہدی ہوں گے ۔ اور عیسی بن مریم  آسمان سے اتر کے آئیں گے اور مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔(3)

ابن حجر مکی ہیثمی نے صواعق محرقہ میں لکھا ہے :

 ظہور مہدی کی متواتر احادیث بکثرت آئی ہیں ۔(4)

صاحب غایۃ المامول کہتے ہیں کہ :

قدیم زمانے  سے علماء میں یہ مشہور ہے کہ آخری زمانے میں اہل بیت ع میں ایک شخص کا ضرور ظہور ہوگا جسے مہدی کہا جائے گا ۔ مہدی  کی احادیث  بہت سے صحابہ نے روایت کی ہیں اور اکابر محدثین نے انھیں اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ، جیسے : ابو داؤد ،ترمذی ، ابن ماجہ ،طبرانی ، ابو یعلی ، بزاز،

-------------------------

(1):- جامع ترمذی جلد 9 صفحہ 74- 75

(2):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 143 باب نزول عیسی بن مریم س ۔

(3):- فتح الباری جلد 5 صفحہ 362

(4):- صواعق محرقہ جلد 2 صفحہ 211-

۳۰۷

امام احمد بن حنبل ،حاکم ،وغیرہ ۔جس نے بھی مہدی سے متعلق تمام احادیث  کو ضعیف کہا ہے وہ غلطی پر ہے ۔ معاصرین  میں سے اخوان المسلمین کے مفتی سید سابق نے اپنی کتاب العقائد الاسلامیہ میں مہدی  کی احادیث  نقل کی ہیں ۔ ان کے نزدیک مہدی کا تصور اسلامی عقائد کا جزو ہے جس کی تصدیق واجب ہے ۔

شیعہ  کتابوں میں بھی مہدی کی احادیث کثرت سے نقل کی گئی ہیں ۔یہ تک کہا گیا ہے کہ احادیث مہدی سے زیادہ کوئی حدیث   رسول اللہ ص سے روایت نہیں  کی گئی ہے ۔

محقق لطف اللہ صافی گلپائیگانی نے اپنی مفصل کتاب منتخب الاثر میں مہدی علیہ السلام کے متعلق ساٹھ سے زیادہ سنی ماخذوں سے نقل  کی  ہیں ، ان میں صحاح ستہ  بھی شامل ہیں اور نوے سے زیادہ شیعہ ماخذوں سے نقل کی ہیں جن میں کتب اربعہ بھی شامل ہیں ۔(1)

---------------------

(1):- اسلام میں مہدی پر اعتقاد کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ بعض علماء نے اس عقیدے کو دین کے واجبات  میں شمار  کیا ہے ۔ مہدی کی خصوصیات اور شخصیت کے بارے میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے متعلق زیادہ تر روایات صحیح ہیں اور جو خوشخبری ان کے بارے میں دی گئی ہے وہ متواتر ہے ۔

اس سلسلے میں یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ جیسا کہ مشہور  مورخ طبری نے لکھا ہے :

" مہدی کی غیبت سے متعلق روایات شیعہ محدثین نے امام محمد باقر ع اور امام جعفر صادق ع کی زندگی ہی میں (یعنی ولادت مہدی ع سے  150 سال پہلے )اپنی کتابوں مین درج کردی تھی ۔ یہ امر بجائے خود ان روایات کی صحت کا منہ بولتا ثبوت ہے "۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی مقامات پر مہدی کے بارے میں روایات بلاواسطہ نقل کی گئی ہیں ۔اور اسی قبیل کی تقریبا پچاس احادیث دوسری معروف تالیفات میں بھی درج ہیں ،جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :

۳۰۸

دوسری بحث مہدی کی ولادت ، ان کی زندگی ، ان کی غیبت اور ان کی عدم وفات سے متعلق ہے ۔

یہاں بھی علمائے اہل سنت کی ایک خاصی بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ مہدی ، محمد بن الحسن العسکری ہیں جو ائمہ اہل بیت ع میں سے بارہویں امام ہیں وہ زندہ موجود ہیں اور آخر ی زمانے میں ظاہر  ہوکر زمین کو عدل وانصاف سے بھردیں گے ۔ ان سے دین  کو کامیابی حاصل ہوگی ۔ یہ علمائے اہل سنت  اس طرح شیعہ امامیہ کے اقوال کی تائید کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض علماء کے نام یہ ہیں :

(1):- محی الدین ابن عربی  سنہ 638 ھ  فتوحات مکیہ ۔(2):-سبط ابن جوزی سنہ 654ھ تذکرۃ الخواص ۔

(3):- عبدالوہاب شعرانی مصری سنہ 976 ھ عقائد الاکابر ۔(4) ابن خشاب سنہ ۔ توریخ موالید الائمہ ووفیّاتھم ۔

(5):- محمد بخاری حنفی سنہ ۔ فصل الخطاب

--------------------

جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن ابو داؤد ، مسند احمد بن حنبل ، معجم طبرانی ، طبقات ابن سعد ، مستدرک حاکم ، صواعق  محرقہ ، منہاج النبویہ  ، ینابیع المودۃ ، دلائل النبوۃ ، فتوحات مکیہ ، الملاحم ، تاریخ بغداداور کتاب الفتن ۔

ان معتبر مآخذ میں رسول اکرم ص سے تقریبا پچاس  ایسی احادیث نقل کی گئی ہی جن میں یوم قیامت  سے پیشتر مہدی کے ظہور کے بارے میں واضح پیشین گوئی کی گئی ہے ۔ ان میں سے بیشتر احادیث صحیح ہیں اور ان کو 33 معروف صحابیوں  اور صحابیات نے آنحضرت  ص سے بلاواسطہ نقل کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں :

امام علی ع۔ امام حسین ع۔ ابو سعید خدری ۔ عبداللہ بن مسعود ۔ثوبان ۔ابو ہریرہ ۔ طلحہ بن مالک ۔ جبیر بن عبداللہ ۔ عثمان بن عفان ۔ عوف بن مالک ۔طلحہ بن عبیداللہ ۔ حذیفہ بن یمان ۔ عمران بن حصین ۔ عبداللہ بن عمر ۔ ام سلمہ ۔ ام حبیبہ ۔عائشہ ۔ عبدالرحمان بن عوف ۔ ابو ایوب انصاری ۔ عباس بن عبدالمطلب ۔ ابن عباس اور عمار یاسر ۔(ناشر)

۳۰۹

(6):- احمد بن ابراہیم بلاذری سنہ الحدیث المتسلسل ۔(7):- ابن الصباغ مالکی سنہ 855ھ الفصول المہمہ ۔

(8):- العارف عبدالرحمان سنہ ۔ مرآۃ الاسرار۔ (9):- کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی  سنہ 652ھ مطالب المسئول فی مناقب آل الرّسول ع ۔(10):- سلیمان ابراہیم قندوزی حنفی  سنہ 1294 ھ ینابیع المودۃ ۔

اگر کوئی شخص متتبع  اور تحقیق سے کام لے تو ایسے علماء کی تعداد جو مہدی ع کی ولادت ، اور ان کے اس وقت تک زندہ باقی رہنے میں یقین رکھتے ہیں جب تک ان کا ظاہر ہونا اللہ کو منظور نہ ہو ۔ اس سے کئی گناہ بڑھ جائے گی۔ اس کے بعد وہ اہل سنت باقی رہ جاتے ہیں جو احادیث کی صحت کا اعتراف کرنے کے باوجود مہدی کی ولادت  وار ان کے زندہ باقی رہنے کا انکار کرتے ہیں ، ان کا یہ انکار دوسروں پر حجت نہیں ، کیونکہ ان کا ان باتوں سے انکار اور ان کو مستبعد سمجھنے کی وجہ محض ضد اور تعصب ہے ،ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ قرآن کریم کسی ایسے نظریے کی نفی نہیں کرتا بلکہ خود اللہ نے متعدد مثالیں  بیان کی ہیں تاکہ جمود  کا شکار لوگ آزادی سے سوچ سکیں اور اپنی عقلوں کی باگ  ذرا ڈھیلی چھوڑ دیں تاکہ انھیں یقین آجائے اور وہ مان لیں کہ اللہ تعالی نے متعدد معجزات اپنے پیغمبروں کے واسطے سے دکھائے ہیں تاکہ معاندین  صرف ان چیزوں کے ساتھ نہ چمٹے رہیں  جو ان کی محدود اور ناقص  عقلوں کے مطابق ممکن الوقوع ہیں یا وہ ایسے واقعات ہیں جو عام طور پر ہوتے رہتے ہیں ۔

لیکن !

<>وہ مسلمان جس کادل نور ایمان سے روشن ہے اسے اس پر حیرت نہیں ہوتی کہ اللہ نے عزیر کو سوسال تک مردہ رکھنے کے بعد پھر زندہ کردیا ۔ حضرت عزیر نے اپنی کھانے پینے  کی چیزوں کو دیکھا تو وہ ابھی خراب نہیں ہوئی تھیں ۔ اپنے گدھے کو دیکھا تو اللہ نے اسی کی ہڈیاں درست کردیں اور ان پر گوشت چڑھادیا ۔ گدھا دوبارہ ویسا ہی ہوگیا جیسا پہلے تھا ۔حالانکہ  اس کی ہڈیاں  گل سڑ چکی تھیں۔حضرت عزیر ع نے یہ سب دیکھ کر کہا : میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

۳۱۰

دیکھیے ! کتنی جلدی حضرت عزیر کے خیالات بدل گئے ۔ابھی تو اجڑی ہوئی بستی کو دیکھ کر انھوں نے حیرت سےکہا تھا کہ اسے موت کے بعد اللہ کیسے زندہ کرے گا ؟

<>جو مسلمان قرآن کریم میں یقین رکھتا ہے ۔ اسے اس بات پرکوئی حیرانی نہیں  کہ حضرت ابراہیم نے پرندوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کے اجزا پہاڑوں پربکھیر دیے اور پھر جب ان کو بلایا تو وہ دوڑتے ہوئے آگئے ۔

<>وہ ایمان مسلمان جسے اس پر کوئی حیرانی نہیں کہ جب حضرت ابراہیم کو  آگ میں ڈالا گیا ، تو وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی ۔ اور اس نے حضرت ابراہیم کو نہ جلایا اور نہ کوئی ضرر پنہچایا ۔

<>وہ بایمان  مسلمان جسے ان پر کوئی حیرانی نہیں کہ حضرت عیسی بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور وہ ابھی زندہ ہیں اور ایک نہ ایک دن زمین پرواپس آئیں گے ۔

<>وہ باایمان مسلمان جسے اس پرکوئی حیرانی نہیں  کہ حضرت عیسی ع مردوں کو زندہ کردیتے تھے اور پیدائشی مبروص اور اندھے کو اچھا کردیتے تھے ۔

<>وہ با ایمان  مسلمان جسے اس پر کوئی حیرانی نہیں کہ حضرت  موسی ع اور بنی اسرائیل  کے لئے سمندر پھٹ گیا  تھا اور یہ لوگ اسے کے بیچ میں سے اس طرح گزر گئے تھے کہ ان کے بدن بھی گیلے نہیں ہوئے تھ ے۔حضرت موسی ع کا عصا سانپ بن گیا تھا اور دریائے نیل کا پانی خون میں تبدیل ہوگیا تھا ۔

<>وہ باایمان مسلمان جسے اس پر تعجب نہیں کہ حضرت سلیمان پرندوں ، جنوں اور چیونٹیوں سے باتیں کیا کرتے تھے ، ان کا تخت ہوا پر اڑتا  تھا اور وہ لمحوں میں ملکہ بلقیس کا تخت منگو لیتے تھے ۔

<>وہ باایمان مسلمان جس اس پر  تعجب نہیں  کہ حضرت خضر ع ،جن کی ملاقات حضرت موسی ع سے ہوئی تھی زندہ سلامت ہیں ۔

۳۱۱

<>وہ باایمان  مسلمان جسے اس پر تعجب نہیں کہ ابلیس ملعون زندہ ہے حالانکہ وہ حضرت آدم سے بھی پہلے کی مخلوق ہے اور ساری تاریخ انسانیت اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزری اور وہ ہر موڑ پر اس کے ساتھ رہا ہے ۔ ہو خود پوشیدہ ہے ۔ ان کی بد اعمالیوں سے سب واقف ہیں ، نہ کسی نے اس کو دیکھا ہے اور نہ کوئی دیکھے گا ۔ وہ اور اس کے چیلے چانٹے سب لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں دیکھتا ۔

<>پس جو مسلمان ان سب باتوں پر یقین رکھتا ہے اور ان کے وقوع پذیر ہونے پر اسے کوئی حیرانی نہیں ہوتی ، اس کے لیے اس میں کیا تعجب کی بات ہے کہ مہدی ایک عرصے تک اللہ تعالی کی کسی مصلحت کی وجہ سے پوشیدہ رہیں ؟

جن واقعات کا ہم نے ذکر کیا ہے اس سے کئی گنازیادہ غیر معمولی واقعات قرآن میں مذکور ہیں ۔ یہ خارق العادت واقعات عام طور پر نہیں ہوتے ، نہ لوگ ان سے مانوس ہیں بلکہ سب لوگ مل کر بھی چاہیں تو اس قسم کے واقعات پر قادر نہیں ہوسکتے ۔ یہ سب اللہ کے اپنے کیے ہوئے کام ہیں اور اللہ کو کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں کسی کام کے کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ مسلمان ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں جو کچھ آیاہے مسلمان اس پ ر بغیر کسی استثناء یا ذہنی تحفظ کے ایمان لاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ، مہدی سے متعلق امور سے شیعہ زیادہ واقف ہیں کیونکہ مہدی ان کے امام ہیں اور شیعہ ان کے اور ان کے آباء واجداد کے ساتھ رہے ہیں ، مثل  مشہور ہے کہ :

"أهل مكّة أدرى بشعابها"

مکے کی راویوں کو اہل مکہ سے بڑھ کوئی نہیں جانتا ۔ شیعہ اپنے ائمہ کا احترام اور تعظیم کرتے ہیں ۔انھوں نے اپنے ائمہ قبروں کو پختہ اور شاندار بنایا ہے جو زیارت گاہ خلاف ہیں ۔ اگر بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام  کی وفات ، ہوچکی ہوتی تو آج ان کے قبر بھی مشہور ہوتی ۔ شیعہ یہ کہہ سکتے تھ ےکہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہوں گے ۔ کیونکہ دوبارہ زندہ ہونا ممکن ہے

۳۱۲

جیسا کہ قرآن میں متعدد ایسے واقعات کاذکر ہے ۔ اور شیعہ تورجعت کے بھی قائل ہیں ۔

لیکن شیعہ من گھڑت اور فرضی  باتیں نہیں کرتے ، نہ ہو بہتان باندھے ہیں ، نہ خیال دنیا میں رہتے ہیں ، جیسا کہ ان کے متعصب دشمن سمجھتے ہیں ۔ اس لیے ان کا اصرار اس پر ہے کہ امام مہدی علیہ السلام زندہ ہیں ، ان کو اللہ کی طرف سے رزق  ملتا ہے ، وہ اللہ کی کسی مصلحت کے تحت پوشیدہ ہیں ۔ ممکن ہے کہ راسخون فی العلم کو یہ مصلحت معلوم بھی ہو ۔ شیعہ اپنی دعاؤں میں کہتے ہیں :

"عجّل الله تعالى فرجه"

کیونکہ مہدی کے ظہور سے مسلمانوں کی عزت وحرمت ،کامیابی وکامرانی اور صلاحج وفلاح وابستہ ہے ۔

امام مہدی علیہ السلام کے بارےمیں شیعہ سنی ، اختلاف کوئی ٹھوس اور حقیقی اختلاف نہیں ہے کیونکہ اہل سنت کا بھی عقیدہ ہے کہ امام مہدی آخری زمانے میں ظاہر ہوں گے ، زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے ، ان کے دور میں مسلمان تمام روئے زمین کے مالک ہوں گے خوشحالی عام ہوگی اور کوئی غریب نہیں رہے گا ۔

اختلاف فقط اس میں بے کہ شیعہ کہتے کہتے ہیں کہ ان کی ولادت ہوچکی ہے جبکہ اہل سنت کہتے ہیں کہ وہ ابھی پیداہوں گے ۔(1) لیکن  اس بات پر فریقین کا اتفاق  ہے کہ ان کا  ظہور  قیامت کے قریب ہوگا اس لیے مسلمان میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے اور پرانے زخموں پر پھایا رکھنے کے لیے سب مسلمانوں کو چاہے کہ مل کر کیا شیعہ کیاسنی خلوص سےاپنی دعاؤں اور نمازی میں اللہ تعالی سے التجاء کریں کہ وہ امام مہدی ع کے ظہور جلدی فرمایے :

--------------------

(1):- یہ اسی خیال کا شاخسانہ تھاکہ انڈونشی خاتون زہرہ فونا مہدی کی والدہ ہونے کا ڈرامہ رچایا ۔ اور یہ کہ متعدد لوگوں نے مختلف زمانے میں "مہدویت " کا جھوٹا دعوی کیا ۔(ناشر)

۳۱۳

کیونکہ ان کے ظہور میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہے اور ان کے خروج سے امت محمدیہ کی کامیابی وخوشحالی وابستہ ہے ۔ بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مہدی اکر زمین کو عدل وانصاف سے بھردیں ۔

سب مسلمان کیا سنی اور کیا شیعہ امام مہدی ع کے آنے پر یقین رکھتے ہیں ۔خواہ اہل سنت کے قول کے بموجب ہو پیدا ہوں یا شیعوں کے کہنے کے مطابق وہ غائب رہنے کے بعد ظاہر ہوں ۔

اہم  بات یہ ہے کہ یہ کوئی فرضی اور خیالی قصہ نہیں ہے جیسا کہ بعض شرپسند ظاہر کرناچاہتے ہیں ، بلکہ مہدی کی شخصیت  ایک حقیقی شخصیت ہے جس کی بشارت رسول اللہ ص نے دی ہے اور جواب پوری انسانیت کاخواب بن گئی ہے ۔

مسلمانوں کے علاوہ یہ عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ ایک منجی  یا نجات دہندہ آئیگا جو دنیا کی اصلاح کرے گا ۔ اس نجات دہندہ کے یہود ونصاری بھ منتظر ہیں ، اسی لیے مہدی کے دادا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام "مہدی منتظر " رکھا ہے ۔

اے اللہ ! سب مسلمانوں کو خیر وتقوی کی توفیق دے ، ان کو صفوں مین اتحاد اور دلوں میں اتفاق پیدا کر، ان کی خرابیوں کی اصلاح کر ، اور انھیں دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی عطا کر ۔

ائمہ کی محبت میں غلو

یہاں غلوّ سے مردا حق کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کا اتباع کرنا اور محبوب کو معبود بنالینا نہیں ، ایسا کرنا تو کفر وشرک ہے جس کا کوئی مسلمان  جو اسلام کے پیغام اور حضرت محمد ص کی رسالت پر یقین رکھتا ہو قائل نہیں ہوسکتا ۔

ر سول اللہ ص نے محبت کی حدود مقرر کردی تھیں جب آپ نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ :

"هلك فيك اثنان محبُّ غالٍ ومبغضٌ قالٍ".

۳۱۴

تمھارے بارے میں اپنے خیال کو بنا پر دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے ، ایک حد سے زیادہ محبت کرنے والا اور دوسرا حد سے زیادہ بغض رکھنے والا ۔

رسول اللہ کا ایک اور قول ہے :

"يا على إنّ فيك مثلا ًمّن عيسى بن مريم أبغضته اليهود حتى بهتوا اُمّه وأحبّه النصارى حتّى أنزلوه بالمنزلة الّتي ليس بها ."

اے علی ع ! تمھاری مثال عیسی بن مریم ع کی سی ہے ۔ یہودی  ان سے اتنا بغض رکھتے تھے کہ ان کی والدہ پر بہتان باندھتے تھے ۔ اور عیسائیوں نے ان سے ایسی محبّت  کی کہ انھیں اس درجے  پر پہنچادیا جس درجے پر وہ نہیں تھے ۔(1)

غلو یہ ہے کہ محبت کسی پر اس طرح چھا جائے کہ وہ محبوب کو معبود بنادے اور اس کو وہ درجہ دے دے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں یا بغض اس قدر غالب آجائے  کہ بہتان باندھنے اور جھوٹے اتہام لگانے لگے ۔

شیعوں  نے علی ع اور اولاد علی میں سے ائمہ  کی محبت میں غلو نہیں کیا بلکہ انھیں وہی درجہ دیا جو رسول اللہ ص نے دیا دتھا ۔ یعنی یہ کہ وہ آ پ کے وصی اور خلیفہ تھے ۔ الوہیت تو کجا کوئی شیعہ ائمہ کی نبوت کا بھی قائل نہیں ۔ فتنہ انگیزوں کو چھوڑیے جو یہ تک کہتے ہیں کہ "شیعہ تو علی کو خدا مانتے ہیں "(2) اگر یہ صحیح ہے

--------------------

(1):-مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 123۔ حافظ ابن عساکر ،تاریخ دمشق  جلد 2 صفحہ 234۔ امام نسائی ،خصائص امیرالمومنین ۔ امام بخاری ،تاریخ کبیر جلد 2 صفحہ 281 ۔حافظ سیوطی ،تاریخ الخلفاء صفحہ 173 ۔ محب طبری ذخائر العقبی صفحہ 92۔ابن حجر صواعق محرقہ صفحہ 84۔

(2):- مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کویہ بتادیا جائے کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی ابن مریم ع کی شخصیت کو اور یہودیوں نے حضرت عزیر کی شخصیت کو ایک سماوی جوہر بنادیا تھا اسی طرح مسلمانوں میں سے کچھ بد عقیدہ لوگو ں نے حضر ت علی ع کو خدائی کے درجے تک پہنچا دیا تھا ۔ انسان کو خدا بنانے کا

۳۱۵

کہ کچھ لوگ واقعی ایسا مانتے ہیں تو ان کا تعلّق نہ شیعوں نہ شیعوں سے ہے نہ خوارج سے ۔ بہر حال یہ شیعوں کا تصور نہیں کہ قرآن کہتا ہے :

"قُلْ لا اَسْئَلُكُمْ عَلَيْه اَجْراً اِلاَّ المَوَدَّهَ في الْقُربى"

اے رسول ! اپنی امت سے کہہ دیجیے کہ میں تم سے اپنی رسالت  کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتا بجز اپنے قرابتداروں سے مودت کے ۔یاد رہے کہ مودت کا درجہ محبت محبت سے بڑھ کرہے ۔ مودت کاتقاضایہ ہے کہ دوسرے کے لیے کچھ قربانی دی جائے ۔

--------------------

یہ عمل حضرت علی ع تک محدود نہ تھا، ان کے جانشینوں کو بھی خدائی کا رتبہ دے دیا گیا تھا ۔ ایسے بدعقیدہ لوگوں کی طرف  اشارہ کرتے ہوئے  امام ثامن امام علی بن موسی رضا اپنی دعائیں فرماتے ہیں :

 خدایا ! میں بیزار ہوں ان لوگوں سے جو ہمارے لیے ایسی بات کہتے ہیں جس کے ہم سزاوار نہیں ۔ اور میں بیزار ہوں  ان لوگوں سے جو ہم سے ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو ہم نے کبھی کہی ہی نہیں

خدایا !زندگی اور موت دینا تجھ س مخصوص ہے اور روزی رساں بھی  صرف تو ہے ۔ میں تو فقط تیری  عبادت کرتا ہوں اور تجھی سے مدد مانگتاہوں ۔توہی میرا ، میرے آباء واجداد  کا  اور میری اولاد کا خالق ہے اور ربوبیت تیرے  سوا کسی اور کو زیبا نہیں "۔

پس جاننا چاہیے کہ جن لوگوں نے عبد کو معبود بنادیا انھوں نے عبد سے محبّت  مین غلو  کیا جو کفر کی حدوں میں آتا ہے ، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین  ع کا قول ہے ،آپ فرماتے ہیں :

"کفر ان چار ستونوں پر قائم ہے : گناہ ۔ شک ۔ شبہ اور ۔ غلو ۔"

علامہ مجلسی رح فراتے ہیں:

<>جو شخص یہ مانے کہ اللہ نے حضرت محمد مصطفی ص اور ان کے اولیاء باصفاء کو خلق فرمایا اور پھر ساری مخلوق کی خلقت اور تربیت ان کو سونپ دی "۔وہ غالی ہے۔

۳۱۶

اس میں شیعوں کی کیا خطا اگر رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ

"علی ع! تم دنیا میں بھی سردار ہو اورآخرت میں بھی سردار ہو، جس نے تم سے محبّت  کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے تم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔ تمھارا دوست اللہ کا دوست ہے اور تمھارا دشمن اللہ کا دشمن ہے ۔ خرابی اس کی ہے جو تم سے دشمنی رکھے! "(مستدرک حاکم جلد 3 ۔حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث علی الشرط الشیخین صحیح ہے ۔ ینابیع المودۃ ۔الریاض النضرۃ جلد 2 صفحہ 185)

--------------------

<>شیخ مفید فرماتے ہیں :

"جو شخص حضرات امیرالمومنین ع یا آپ کی اولاد میں سے کسی امام کو  خدا یا نبی مانے وہ غالی ہے"۔

<>شیخ صدوق فرماتے ہیں :

"غلات (جمع ہے غالی  کی ) یہودیوں اور نصرانیوں سے بد تر اور کافر ہیں"

غالی فرقوں میں سے (جن کا ذکر شہرستانی نے الملل والنحل میں ، نوبختی نے فرق الشیعہ میں اور مقریزی نے خطط میں کیا ہے) اکثر تو مٹ گئے ہیں مگر کچھ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں  اور کہیں نہ کہیں باقی ہیں ۔ انھوں نے ائمہ اہل بیت ع سے محبت وعقیدت ہی میں جوش اور  مبالغے  سے کام نہیں لیا بلکہ بہت سے ایسے عقائد بھی اختیار کر لیے جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔جیسے تناسخ اور حلول وغیرہ ۔ حتی کہ بعض نے تو حلال حرام کی تمییز ہی اٹھادی اور حشر نشر کا بھی انکار کردیا ۔

غالیوں کا ایک فرقہ نصیری ہے جو محمد بن نصیر نمیری کی طرف منسوب ہے ۔ یہ شخص حضرت امام حسن عسکری ع کا صحابی تھا ، بعد میں آپ کی امامت کا منکر ہوگیا ۔ اور اپنی امامت کا دعوی کر بیٹھا ۔نصیری فرقہ آج بھی غالبا ملک شام کے شمالی اطراف میں آباد ہے ۔یہ فرقہ حضرت علی ع کی خدائی  کا قائل ہے ۔ اس کے علاوہ ترکی کا تختاجی فرقہ اور ترکستان کا علی اللھی فرقہ بھی آپ کی خدائی کے معتقد ہیں ۔واللہ اعلم 

۳۱۷

رسو ل اللہ ص نے یہ بھی فرمایا :

علی ع سے محبت ایمان ہے اور علی ع سے بغض نفاق ہے ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 48 ۔کنز العمال جلد 15 صفحہ 105)

آپ نے یہ بھی فرمایا :

 "جو شخص آخر دم تک آل محمد کی محبّت پر قائم رہا وہ شہید مرا ۔ یاد رکھوں جو آل محمد کی محبت پر مرا اس کی بخشش ہوگئی ،

یا درکھو جو آل محمد ص کی محبت پر مرا ہو گویا سب گناہوں سے توبہ کرکے مرا

-------------------------

شہر ستانی الملل والنحل میں لکھتے ہیں کہ :

ایک غالی فرقہ دعوی کرتا  تھا کہ حضرت علی ع قتل نہیں ہوئے ہیں ، وہ اب بھی زندہ ہیں ۔ ایک اور دیومالائی تصورات رکھنے والا فرقہ کہتا تھا کہ بادل حضرت علی کی دیولوک ہے ۔ یہ بادلوں کی گرج  اور بجلی کی چمک  آپ ہی کی آواز ہے "۔

ابن ابی الحدید  شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ

"ایک شخص مغیرہ بن سعید کہا کرتا تھا کہ حضرت علی ع اگر چاہیں تو عاد وثمود ارو ان دونوں قوموں کے درمیان کی صدیوں کے سب لوگوں کوزندہ کردیں "۔

غلات کے ایسے ہی باطل عقائد کی بنا پر ائمہ  اہل بیت ع  میں سے حضرت امام محمد باقر ع حضرت امام جعفر صادق ع ، حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن  عسکری علیھم السلام  نے ان سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ ان پر بار لعنت کی اور اپنے اصحاب سے بھی  لعنت کرنے کو کہا ۔

پس یہ کہنا صحیح ہے کہ غالیوں کا شیعہ اثنا عشریوں سے قطعا کوئی تعلق نہیں اور ان  کے اقوال وعقائد کی وجہ سے ان پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ شیعہ اپنے محبوب کو معبود نہیں کہتے ، بلکہ ان کے لیے وہ کچھ کہتے اور مانتے ہیں جو ان کا حق ہے اور جو کچھ  اللہ اور اس کے رسول ص نے ان کے مناقب میں کہا ہے ۔مختصر  یہ کہ ائمہ اہل بیت  ع کای ولایت شیعوں کی شناخت ہے کیونکہ :

ائمہ  اہل بیت ع اللہ کی حجت اور رسول اللہ ص کی ذریت ہیں ۔ یہ نفوس قدسیہ درود میں رسول اللہ ص کے ساتھ شامل ہیں ۔ یہ ساری امت سے افضل اور ممتاز ہیں کیونکہ رسول اللہ ص انھیں کو

۳۱۸

یاد رکھو جو آل محمد ع کی محبت پرمرا وہ کامل الایمان مرا ۔ یاد رکھو جو آل محمدص کی محبت پر مرا اسے موت کا فرشتہ جنت کی بشارت دےگا۔ (تفسیر ثعلبی، تفسیر زمخشری ، تفسیر  فخرالدین رازی)

اس میں شیعوں  کی کیا خطا اگر وہ ایسے شخص سے محبت کرتے ہیں جس کے بارے میں رسول اللہ ص نے فرمایا :

کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ص سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول ص کو اس سے

--------------------

مباھلہ  میں لے کر گئے تھے ۔ یہ اصحاب کساء اورآیہ تطہیر کا مصداق ہیں ۔ انھیں کے بارے میں رسول اللہ ص نے کہا تھا کہ ان کا دوست میرا دوست ہے اور ان کا دشمن میرا دشمن ہے ۔ انھیں کی شان میں سورہ کوثر بھی اتری ۔ اور سورہ ھل اتی بھی اتری ۔ یہی رسول اللہ ص کے وہ قرابت دار ہیں جن کی مودت کو اللہ نے واجب کیا ہے ۔ یہی ائمہ  قرآن کےترجمان اور رسالت کے پاسبان ہیں اور یہی ائمہ انسانیت کے لیے ملجاواماوی ہیں ۔

ائمہ اہل بیت ع رسول اللہ ص کے بعد دین کی تبلیغ میں مصروف رہے کیونکہ رسول اللہ ص نے انھیں اپنی منیت میں قراردیا تھا ۔ انھوں نے ہی دنیا کو عبادت کاڈھنگ ار دعاء کا آہنگ سکھایا اور حلال وحرام سمجھایا ۔ یہی خانوادہ رسالت  شریعت کا امین ہے اور اس نے شریعت کی بدعت  سے انھیں کی محنتوں اورقربانیوں  کےصدقے میں باقی ہیں ۔ انھیں میں باب  مدینہ علی ہیں اور انھیں میں باب الحواج ہیں ۔ انھیں کا نام ناامیدی اور مایوسی میں مژدہ جانفزا ہے ۔ انھیں کے توسل سے  دعائیں مستجاب  ہوتی ہیں اور انھیں کی شفاعتیں باریاب ہوتی ہوئی کیونکہ انھیں اذن شفاعت دیا گیا ہے ۔

ائمہ  اہل بیت ع ہی اولی الامر ہیں  اور راسخون فی العلم ہیں ۔ یہی لوگ تو ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والے ہیں۔ یہی نجات کا سفینہ اور علوم ربانی کا خزینہ ہیں ۔ یہی لوگ توہیں جن کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور جن کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے ۔ کیونکہ یہ اللہ کے چنیدہ اور برگزیرہ بندے ہیں ۔ انھیں کے سروروسردار حضرت علی ع کو قرآن نے تاج ولایت پہنایا ہے ۔ اور رسول اللہ ص نے ان کی ولایت کبرکی کو اللہ کا حصار بتایا ہے ۔

۳۱۹

محبت ہے ۔ (صحیح مسلم جلد 4)

معلو ہوا کہ جس کو علی محبوب ہے وہ اللہ اور اس کے رسول ص کو محبوب ہے اور وہ مومن ہے ۔ اور جس کو علی ع ناپسند ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے اور وہ منافق ہے ۔

امام شافعی نے حب اہل بیت ع کے بارے میں کہا ہے :

"يا أهل بيت رسول الله حبّكم

فرضٌ مّن الله فى القرأن أنزله

اے  اہل بیت رسول ص ! تمھاری محبت اللہ نے قرآن میں فرض کی ہے

"كفاكم من عظيم القدرانكم

من لم يصل عليكم لاصلواة له

تمھاری فضیلت کے بیان میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ جس نے نماز میں تم پر درود نہیں پڑھا  اس کی نماز نہیں ہوئی ۔

--------------------

کون ہے جو اس سے انکار کرے  کہ

حضرت علی ع سید المسلمین ہیں ، امیرا لمومنین ہیں ، امام المتقین ہیں قائد الغرّ المحجلین  ہیں ۔یا یہ کہ آپ ہی بت شکن ، خیبر شکن اور یعسوب الدین ہیں ۔ لیلۃ المبیت آپ نے بستر رسول ص پر سوکر جان نثاری کی اعلی مثال قائم کی ۔

حضرت علی ع نہج البلاغہ  میں ائمہ  اہلبیت کا تعارف کراتے ہوے فرماتے ہیں :

اس امت میں کسی کو آل محمد ص پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں ۔ حق ولایت کی خصوصیات انھیں کے لیے ہیں اور یہی رسول اللہ کے وصی اور وارث ہیں "

بلاشبہ حضرت علی علم رسول  ص کے وارث ہیں کیونکہ رسول اللہ ص نے فرمایا تھا:"

أنا مدينة العلم وعليٌّ بابهااورخود حضرت علی ع فرماتے ہیں :

لقد علّمنى رسول الله صلّى الله عليه وآله ألف باب ٍ يفتح ألف بابٍ .ایک موقع پر آپ نے اپنے سینہ

۳۲۰