حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 58950
ڈاؤنلوڈ: 5935

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58950 / ڈاؤنلوڈ: 5935
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تقابل پر ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ میں یہ ظاہر کردوں کہ امامت کے اصول کی فریقین کے نزدیک کیا نوعیت ہے تاکہ قارئین کویہ علم ہوسکے کہ فریقین کے نقطہ نظر کی بنیاد کیا ہے اور ضمنا یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس یقین اور اطمینان نے مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا ۔

شیعوں کے نزدیک امامت اپنی زبردست اہمیت کے باعث اصول دین میں شامل ہے ۔ امامت خیرالامم کو قیادت فراہم کرتی ہے ۔ اس قیادت کے متعدد فضائل ہیں اور اس کی خصوصیات میں سے قابل ذکر ہیں : علم ،حلم ،شجاعت ،نزاہت ،عفت ،زہد ،تقوی  وغیرہ وغیرہ ۔

شیعوں کا اعتقاد  ہے کہ امامت  ایک خدائی منصب ہے جو اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے جسے منتخب کرتا ہے ، اسے عطا کردیتا ہے تاکہ وہ اپنا اہم کردار ادا کرے اور یہ کردار نبی کے بعد دنیا کی قیادت ہے ۔ اسی اصول کی بنیاد پر امام علی بن ابی طالب ع مسلمانوں  کے امام تھے ،انھیں اللہ نے منتخب کیا تھااور اس سے بذریعہ وحی اپنے رسول  ص سےکہا تھا  کہ علی ع کا منصب امامت پر تقرر کردیں چنانچہ رسول اللہ نے ان کا تقرر کیا اور حجۃ الوداع کےبعد غدیر خم کے مقام پر امت کو اس تقرر کی اطلاع دی ، اس پر لوگوں نے امام علی ع کی بیعت کرلی ،" یہ شیعہ کہتے ہیں "

جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے وہ بھی امت کی قیادت کے لئے امامت ضروری ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق امت کو حق ہے کہ وہ جس کو چاہے اپنا امام اور قائد بنالے ۔چنانچہ مسلمانوں نے رسول اللہ کی وفات کے بعد ابو بکر بن ابی قحافہ کو امام منتخب کیا تھا ۔ خود رسول اللہ نے خلافت کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا تھا بلکہ اس کا فیصلہ شوری پر چھوڑ دیا تھا ۔ یہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں "۔

حقیقت کیا ہے ؟

تحقیق کرنے والا اگر غیر جانبداری کے ساتھ فریقین کے دلائل پر غور کرے تو یقینا وہ حقیقت تک رسائی حاصل کرلے گا ۔جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے چونکہ

۴۱

 یہ کتاب میرے ہدایت پانے اور مذہب بدلنے کا قصّہ بیان کرتی ہے اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ میں قارئین کرام کے سامنے اپنا نقطہ نظر اور اپنا عقیدہ واضح کردوں ۔ اب یہ قارئین پر ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا رد کریں کیونکہ آزادی فکر ہر دوسری چیز سے زیادہ اہم ہے قرآن کہتا ہے :

"ولا تزروازرةٌ وّزراُخرى"

کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔(سورہ فاطر ۔آیت 18)

اور

"كلّ نفسٍ بما كسبت رهينةٌ"

ہر شخص کا دار ومدار اس کے اعمال پر ہے ۔(سورہ مدّثر ۔آیت 38)

شروع کتاب سے ہی میں نے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کی ہے کہ میں قرآن اور متفق بین الفریقین  احادیث سے تجاوز نہیں کروں گا اور اس سارے عمل میں کوئی خلاف عقل بات تسلیم نہیں کروں گا کیونکہ عقل سلیم متضاد اور متنا قض باتوں کو نہیں مانتی ۔حق تعالی کا ارشاد ہے :" وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفاً كَثِيراً "

اگر قرآن غیراللہ کے پاس سے آیا ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے ۔(سورہ نساء ۔آیت 82)

امامت قرآن کی رو سے

اللہ تعالی فرماتا ہے :

" وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِي "

جب ابراہیم کو ان کے رب نے کچھ  باتوں سے جانچا اور

۴۲

ابراہیم  نے ان کو پورا کردیا تو اللہ نے کہا: میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہاہوں ۔ابراہیم  نے کہا : اور میری اولاد میں سے ؟ اللہ تعالی نے کہا : میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچتا ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 124)

یہ آیت کریمہ ہمیں بتلاتی ہے کہ امامت ایک خدائی منصب ہے اور خدا یہ منصب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے کیونکہ وہ خود کہتا ہے :"إنّي جاعلك للنّاس إماما" میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ۔

اس آیت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امامت اللہ کی طرف سے ایک عہد ہے جو صرف اللہ کے ان نیک بندوں تک پہنچتا ہے جنھیں وہ خاص طور پر اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کیونکہ یہ صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ظالم اللہ کے اس عہد کے مستحق نہیں ۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے :" وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ "

ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے  تھے اور ہم نے ان کو وحی بھیجی کہ نیک کام کریں ، نماز قائم کریں اور زکات دیں ۔ اور وہ ہماری عبادت کرتے تھے ۔(سورہ انبیاء ۔آیت 73)

ایک اور  آیت ہے :

" وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ "

ہم نے ان امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے کیونکہ وہ صابر  تھے اور ہماری نشانیوں پر یقین

۴۳

رکھتے تھے ۔ (سورہ سجدہ ۔آیت 24)

ایک اور آیت ہے :" وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ "

ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جنھیں دنیا میں کمزور سمجھ لیاگیا ہے ، ان کو امام بنائیں  اور انھیں (زمین کا )وارث بنائیں ۔(سورہ قصص ۔آیت 5)

ممکن  ہے کسی کویہ خیال پیدا ہو کر مذکورہ بالا آیات قرآن سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہاں امامت سے مراد نبوت ہے  لیکن یہ صحیح نہیں  کیونکہ امامت کا مفہوم زیادہ عام ہے ،ہر رسول اور نبی امام ہوتا ہے لیکن ہر امام رسول یا نبی نہیں ہوتا۔

اسی وجہ  سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں واضح کردیا ہے کہ اس کے نیک  بندے اس منصب کے لیے اس سے دعا کرسکتے ہیں تاکہ وہ لوگوں  کی ہدایت کا شرف حاصل کرسکیں اور اس طرح اجر عظیم کے مستحق ہوسکیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً   وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً   وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً "

وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، جب انھیں بیہودہ چیزوں  کے پاس   سے گذرنے کا اتفاق  ہوتا ہے  تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں ۔ اور جب انھیں ان کے پروردگار کی باتین  سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے  ،اندھے  ہو کر نہیں گر تے (بلکہ غور سے سنتے ہیں ) اور وہ لوگ جو ہم سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا ۔(سورہ فرقان ۔آیات 72-74)

۴۴

اسی طرح قرآن کریم میں ائمہ کالفظ  ان ظالم سرداروں  اور حکمرانوں  کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو اپنے پیروکاروں  اور اپنی قوموں  کو گمراہ کرتے ، فساد پھیلاتے میں ان کی رہنمائی کرتے اور دنیا وآخرت کے عذاب  کی انھیں دعوت دیتے ہیں ۔ فرعون اور اس کے لشکر یوں کے متعلق قرآن کریم میں ہے :

" فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِي وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ   وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِينَ"

ہم نے اسے اور اس کے لشکر یوں کو پکز کردریا میں پھینک دیا ۔ پھر دیکھو  ! طالموں کا کیا انجام ہوا ۔ ہم نے انھیں ایسے امام بنایا جو جہنم کی دعوت دیتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔ اس کے بعد ہم نے اس  دنیا میں ان پر لعنت بیھجی  اور قیامت میں وہ ان میں سے ہونگے  جن کا ہولناک انجام ہوگا ۔(سورہ قصص ۔آیت 40-42)

اس بنیاد پر شیعہ جو کچھ کہتے ہیں وہی صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالی نے واضح کردیا  ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش  نہیں کہ امامت  ایک من جانب اللہ منصب ہے جو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے ،وہ اللہ کا عہد ہے جس کا اطلاق ظالموں پر نہیں ہوتا ۔چونکہ ابو بکر ، عمر، اور عثمان  کی عمروں  کا بڑا حصّہ  شرک  کی حالت میں گزرا  کیونکہ وہ بتوں  کوپوجتے رہے تھے اس لیے وہ اس کے مستحق  نہیں ۔اسی طرح شیعوں کا یہ قول درست ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امام علی بن ابی طالب  ہی امامت کے مستحق  ہیں اور امامت کے متعلق اللہ کے دعوے کا اطلاق صرف انھی پر ہوتا ہے کیونکہ وہ کبھی بتوں  کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام لانے کے بعد اس سے پہلے کے سب گناہ محو ہوجاتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ واقعی صحیح ہے ، لیکن پھر بھی بڑا فرق ہے اس شخص   جو پہلے  مشرک تھا  بعد میں  اس

۴۵

نے توبہ کرلی اور اس شخص میں جس کا دامن شروع سے شرک کی آلائش سے پاک صاف رہا اور جس نے بجز اللہ کے کبھی کسی کے سامنے جبیں نیاز خم نہیں کی ۔

امامت سنّت نبوی کی رو سے

امامت کے بارے میں رسول اللہ ص کے متعدد اقوال  ہیں جن کو شیعوں اورسنیوں  دونوں نے اپنی احادیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ رسول اللہ نے کہیں اسے امامت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور کہیں خلافت کے لفظ سے ، کہیں ولایت کے لفظ سے اور کہیں امارت کے لفظ سے ۔

امامت کے بارے میں ایک حدیث نبوی ہے :

"خيارأئمتكم الّذين  تحبّونهم ويحبّونكم وتصلّون عليهم و يصلّون عليكم .وشرارأئمتكم الّذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعبونكم .قالوا يارسول الله أفلا ننا بذهم بالسّيف فقال لا ما أقاموا فيكم الصلاة."

تمھارے اماموں میں سب سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبّت کریں ، تم ان کے لیے دعا کرو ، وہ تمھارے لیے دعاکریں ۔اور بد ترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں ، جن پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت  بھیجیں ۔صحابہ نے پوچھا : تو کیا ہم تلوار سے ان کا مقابلہ نہ کریں رسول اللہ نے فرمایا : نہیں ، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں(1) ۔

رسول اللہ ص نے یہ بھی فرمایا ہے :

"يكون بعدي أئمة لّا يهتدون بهداى ولا يستنّون بسنّتي وسيقوم فيهم رجالٌ قلوبُ الشياطين

--------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 24 باب خیار الائمۃ وشرارھم۔

۴۶

في جثمان إنس".

میرے بعد کچھ ایسے امام ہوں گے جو نہ میری روش پرچلیں گے اور نہ میری سنت کا اتباع کریں گے ۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم تو انسان کے سے ہونگے مگر دل شیطانوں کے سے(1)

خلافت کے بارے میں حدیث نبوی ہے :

"لا يزال الدّين قآئماً حتىّ تقوم السّاعة أويكون عليكم اثناعشرخليفةً كلّهم من قريشٍ.

دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جو سب قریش میں سے ہوں گے ۔(2)

جابر بن سمرہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو سنا کہ آپ فرماتے تھے :

"لايزال الإسلام عزيزًا إلى إثبى عشر خليفةٍ ثمّ قال كلمةً لم أفهمها فقلت لابي: ما قال؟ فقال : كلّهم من قريشٍ."

بارہ خلفاء تک اسلام کی عزت باقی رہے گی ۔ پھر کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا ۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا فرمایا تھا ؟ انھوں نے کہا کہ یہ فرمایا تھا کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے(3)

امارت کےبارے میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

"ستكون اُمراءَ فتعرفون وتنكرون فمن عرف

--------------------

(1):-صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 20 باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن

(2):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 4 باب النّاس تبع لقریش والخلافۃ فی قریش

(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 105 ۔اور صفحہ 128۔صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 3۔

۴۷

بر‎‎ئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوا أفلانقاتلهم قال :لا ما صلّوا.

جلد ہی کچھ امراء ہوں گے جن کو تم میں سے کچھ پہچانیں گے ، کچھ نہیں ۔جس نے پہچانا بچ گیا ، جن نے نہیں پہچانا محفوظ رہا مگر جس نے خوشی ان کا اتباع کیا ۔۔۔۔۔ لوگوں  نے پوچھا  کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ نے فرمایا " جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں اس وقت تک نہیں(1) ۔

امارت سے متعلق ایک حدیث میں آپ نے فرمایا :"يكون اثناعشر أميراً كلّّهم من قريشٍ."

میرے بعد بارہ امیر ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے(2) ۔

آپ نے اپنے اصحاب کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :

"ستحرصون على الإمارة وستكون ندامةً يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة".

تمھیں جلد امارت حاصل کرنے کا لالچ ہوگا لیکن یہ امارت قیامت کے دن باعث ندامت ہوگی ۔ امارت دودھ پلانے والی تو اچھی ہے مگر دودھ چھڑانے والی اچھی نہیں(3) ۔

ولایت کا لفظ  لفظ بھی حدیث میں آیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"ما من وّالٍ يّلي رعيّةً مّن المسلمين فيموت وهو غاشٌ لّهم إلّا حرّم الله عليه الجنّة.

--------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 23 باب وجوب الانکار علی الامراء۔

(2):-صحیح بخاری جلد 4 کتاب الاحکام ۔

(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 127 باب الاستخلاف۔

۴۸

جس مسلمان  والی نے مسلمان رعایا پر حکومت کی لیکن وہ انھیں دھوکا دیتا رہا  تو مرنے کے بعد اس پر جنت حرام ہے(1) ۔

ایک اور حدیث میں آپ نے فرماتے ہیں :

"لايزال أمرالنّاس ماضياً ما وليهم اثناعشررجلاً كلّهم مّن قريشٍ."

لوگوں  کا کام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ان کے والی بارہ اشخاص ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے(2) ۔

امامت  اور خلافت کے مفہوم کا یہ مختصر ساجائزہ میں نے قرآن وسنّت سے بغیر کسی تشریح اور توضیح کے پیش کیا ہے بلکہ میں نے سب احادیث اہل سنت  کی صحاح  پر اعتماد کیا ہے اور شیعہ کتابوں سے کوئی روایت نہیں لی ، کیونکہ شیعوں کے نزدیک تو یہ بات یعنی بارہ خلفاء کی خلافت جو سب قریش میں سے ہوں گے مسلّمات  میں سے ہے جس سے کسی کو اختلاف  نہیں  اور جس کے متعلق دورائیں نہیں ہوسکتیں ۔ بعض اہل سنت والجماعت علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

" يكون بعدي اثناعشرخليفةً كلّهم من بني هاشمٍ."

میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب بنی ہاشم میں سے ہوںگے ۔(ینابیع المودّۃ جلد 3 صفحہ 104)۔

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 106باب ما يکر ہمن الحرص علی الامار ۃ ۔

(2):- صحیح مسلم جلد 2 صفحہ باب الخلافۃ فی قریش ۔

(3):- امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

"إنّ الأئمّة من قريشٍ غرسوا في هذاالبطن من هاشمٍ لا تصلح على سواهم ولا تصلح الولاة من غيرهم"

بلاشبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے نہ امامت کسی  اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے ۔(ناشر)

۴۹

شعبی سے روایت ہے کہ مسروق نے کہا : ایک دن  ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے انھیں اپنے مصاحف دکھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان نے ان سے پوچھا : کیا آپ کے نبی نے آپ کو کچھ بتلایا ہے کہ ان کے بعد کتنے خلیفہ ہوں گے ابن مسعود نے اس شخص سے کہا :تم ہو تو نو عمر ،لیکن تم نے بات ایسی پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی ۔ہاں  ! ہمارے نبی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ بنی اسرائیل  کے نقیبوں  کی تعداد کے برابر ان کے بھی خلفاء ہوں گے(1) ۔

اب ہم اس مسئلے سے متعلق فریقین کے اقوال پر غور کریں گے اور یہ دیکھیں گے  کہ جن صریح نصوص کو دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں ، وہ کس طرح ان کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں ، کیونکہ یہی وہ اہم مسئلہ ہے جو اس دن سے جس دن رسول اللہ ص نے وفات پائی آجتک مسلمانوں میں نزاع کا باعث بنا ہوا ہے ۔ اسی مسئلے سے مسلمانوں میں وہ اختلاف  پیدا ہوئے جن کی وجہ سے وہ مختلف فرقوں اور اعتقادی وفکری دبستانوں میں تقسیم ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک امّت تھے ۔ ہر اختلاف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا خواہ وہ فقہ کےبارے میں ہو ، قرآن کی تفسیر کے بارے  ہو یا سنّت نبوی کو سمجھنے کے بارے میں ہو ، اس  کا منشا اور اس کیا سبب مسئلہ خلافت ہی ہے ۔

آپ مسئلہ خلافت کو کیا سمجھتے ہیں ؟

سقیفہ(2) کے بعد خلافت ایک "امر واقعہ" بن گئی اور اس کی وجہ سے بہت سی صحیح احادیث اور صریح آیات ردّ  کی جانے لگیں اور ایسی احادیث گھڑی جانے لگیں ، جن کی صحیح سنت نبوی میں کوئی بنیاد نہیں تھی ۔اس پر مجھے اسرائیل اور "امر وقعہ" کا قصہ یاد آگیا ۔عرب بادشاہوں اور سربراہوں کا اجلاس ہوا اور اس میں اتفاق رائۓ سے طے پایا اسرائیل  کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ،

------------------

(1):- ینابیع المودہ جلد 3 ص 105

(2):- سقیفہ بنی ساعدہ: یہ سعد بن عبادہ انصاری کی بیٹھک تھی جس میں اہل مدینہ اکثر اپنے معاشرتی مسائل حل کرنے کے لئے جمع ہوتے تھے ۔ (ناشر)

۵۰

اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیسے جائیں گے ، صلح نہیں ہوگی کیونکہ جس چیز پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا گیا ہے وہ طاقت استعمال کیے بغیر واپس نہیں مل سکتی ۔چند سال بعد ایک اور اجلاس ہوا ، اس میں فیصلہ ہوا کہ مصر سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں کیونکہ اس نے صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے ۔ چند سال اور گزر گئے ۔ عرب سربراہان مملکت پھر جمع ہوئے ۔ اس بار انھوں نے مصر سے پھر تعلقات قائم کرلیے  اور سب نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم  کرلیا ۔ حالانکہ اسرائیل نے فلسطینی قوم کے حق کو تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا کی تھی بلکہ اس کی ہٹ دھرمی بڑھ گئی تھی اور فلسطینی قوم  کو کچلنے  کی  کاروائیوں میں اضافہ ہوگیا تھا ۔ اس طرح ترایخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ امر واقعہ کو تسلیم کرلینا عربوں کی عادت ہے ۔

خلافت کے بارے میں اہل سنت کی رائے

اس بارے میں اہل سنت کی رائے سب کو معلوم ہے اوروہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں  کیا ۔ لیکن صحابہ میں سے اہل حلّ وعقد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور انھوں نے ابو بکر صدیق  کو اپنا خلیفہ چن لیا کیونکہ ایک تو ابو بکر رسول اللہ سے بہت نزدیک تھے ، دوسرے انھی کو رسول اللہ ص نے اپنے مرض الوفات میں نماز پڑھانے کے لیے اپنا جانشین مقررکیاتھا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابو بکر کو ہمارے دین کے کام کے لیے پسند کیا تو ہم انھیں اپنے دنیا کے کام کے لیے کیوں پسند نہ کریں ۔اہل سنت  کے نقطہ نظر کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

1:- رسول اللہ ص نےکسی کو نامزد نہیں کیا ۔ اس سلسلے میں کوئی نص نہیں ۔

2:- خلیفہ کا تعیّن صرف شوری سے ہوتا ہے ۔3:- ابوبکر کو کبار صحابہ نے خلیفہ منتخب کیا تھا ۔

یہی میری خود اپنی رائے تھی اس وقت جب کہ میں مالکی تھا ۔ اس رائے کا دفاع میں پوری طاقت سے کیا کرتا تھا اور جن آیات میں شوری کا ذکر ہے انھیں میں

۵۱

اپنی رائے کے ثبوت میں پیش کرتا ۔ میں جہاں تک ہوسکتا تھا ، فخریہ کہا کرتا تھا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو جمہوری نظام حکومت کا قائل ہے ۔ اسلام نے اس انسانی اصول کو جس پر دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں فخر کرتی ہیں اور وں سے پہلے اپنا لیا تھا ۔ مغرب میں جو جمہوری نظام انیسویں صدی میں متعارف ہوا اسلام اس سے چھٹی صدی ہی میں واقف ہوچکا تھا ۔

لیکن شیعہ علماء سے ملاقات کرنے ،ا ن کی کتابیں پڑھنے اور ان کے اطمینان بخش دلائل معلوم کرنے کے بعد میں نے اپنی رائے بدل دی ۔ اب حقیقت ظاہر ہوچکی تھی اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ یہ اللہ سبحانہ کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی امت کو بغیر امام کے چھوڑ دے ۔جب کہ وہ خود فرماتا ہے :

" إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ"

آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت 7)

اسی طرح کیار سول اللہ ص کی رحمت ورافت کا تقاضہ یہ تھاکہ آپ اپنی امت کو بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ دیں خصوصا ایسی حالت میں جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے  کہ آپ کو خود اپنی امت میں تفرقہ کا اندیشہ تھا(1) ۔ اوریہ ڈر تھا کہ کہیں لوگ الٹے پاؤں نہ پھر جائیں(2) ۔ دنیا کے حصول  میں ایک دوسرے پر بازی  لیجانے  کی کوشش نہ کرنے لگیں(3) ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے لگیں(4) ۔ اور یہودو نصاری کے طور طریقوں کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔(5)

یہ بھی یاد رہے کہ جب عمر بن الخطاب زخمی ہوگئے تو ام المومنین عائشہ نے آدمی

-------------------

(1):-جامع ترمذی۔سنن ابو داؤد ۔سنن ابن ماجہ ۔مسندامام احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 332۔

(2):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 902 باب الحوض اور جلد 5 صفحہ 192

(3):- صحیح بخاری جلد4 صفحہ 63۔

(4):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 112

(5):-

۵۲

بھیج کر انھیں کہلوایا تھا کہ : اپنے بعد امت محمّدیہ کا کوئی خلیفہ مقرر کردیجیئے اور اسے اپنے بعد بے یارو مددگار نہ چھوڑیے ۔ کیونکہ مجھے فتنے  کا اندیشہ ہے ۔(1)

اسی طرح حضرت  عمر کے زخمی ہوجانے کے بعد عبداللہ بن عمر نے بھی اپنے والد سے کہا تھا کہ : لوگوں  کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کررہے ہیں لیکن اگر آپ کا کوئی اونٹ یا بھیڑ یں چرانے والا ہو اور وہ گلے کو چھوڑ کو آپ کے پاس چلا آئے تو کیا آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ اس نے گلے کو کھودیا ۔ انسانوں کی دیکھ بھال تو اور بھی زیادہ ضروری ہے ۔(2)

حضرت ابو بکر نے جن کومسلمانوں نے  اجماع کے ذریعے خلیفہ بنایا تھا خود ہی اس اصول کو توڑدیا  تاکہ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف ،تفرقہ اور فتنہ کے امکان  کا سد باب کیا جاسکے ۔یہ توجیہ اس صورت میں ہوگی جب ہم حسن ظن سے کام لیں ورنہ امام علی ع نے جو اس قضیے میں تمام پہلوؤں سے سب سے زیادہ واقف تھے ، پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب ہی کے پاس جائے گی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمر نے امام علی ع پر ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے زورڈالا تھا ۔ امام علی ع نے کہا تھا :

"إحلب حلباً لّك شطره واشدد له اليوم يردّده عليك غداً."

آج تم دودھ دھولو، کل تمہیں اس کا آدھا حصّہ مل جائے گا ۔آج تم اس کی حیثیت مضبوط کردو ، کل وہ تمھیں واپس لوٹا دیگا ۔(3)

میں کہتا ہوں کہ جب ابوبکر ہی کو شوری کے اصول پر یقین نہیں تھا تو ہم کیسے مان لیں کہ رسول اللہ نے یہ معاملہ کسی کو خلیفہ نامزد کیے بغیر ایسے چھوڑ دیا ہوگا ۔کیا آپ کو اس مصلحت کا علم نہیں تھا جس کا علم ابو بکر ،عائشہ اور عبداللہ بن عمر کو

-------------------

(1):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 28

(2):- ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 18 اورمابعد

(3):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 5 باب الاستخلاف وترکہ

۵۳

تھا اورجس سے سب لوگ صاف طور پر واقف تھے کہ اگر انتخاب کا اختیار عوام کو دیدیا جائے گا تو اس کا نتیجہ اختلاف کی شکل میں ظاہر ہوگا خاص کر جب معاملہ حکومت اور خلافت کا ہو ۔ خود حضرت ابو بکر کے انتخاب کے موقع پر سقیفہ میں ایسا ہوبھی چکا تھا ۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ ، ان کے بیٹے قیس بن سعد ، علی بن ابی طالب  ع، زبیر ابن العوّام(1) ،عباس بن عبدالمطلب ، اور دوسرے بنی ہاشم اوربعض دوسرے صحابہ نے جو خلافت کو علی ع کا حق سمجھتے تھے(2) ، مخالفت کی تھی اور وہ علی ع کے مکان پر جمع ہوگئے تھے جہاں ان کو جلادیے جانے کی دھمکی دی گئی تھی ۔(3)

اس کے  علاوہ  ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ نے اپنی پوری عملی زندگی میں کبھی ایک دفعہ بھی کسی غزوہ یا سریہ کے کمانڈر کے تعین  کے وقت اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ہو ۔

اسی طرح مدینہ سے باہر جاتے وقت کسی سے مشورہ کیے بغیر جس کو مناسب سمجھے تھے اپنا جانشین مقرر کرجاتے تھے ۔ جب آپ کے پاس وفود آتے تھے اور اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اس وقت بھی ان سے مشورہ کیے بغیر ان میں سے جس کو چاہتے تھے ان کا سربراہ مقرر کردیتے تھے ۔

آپ نے اپنے اس طریق کار کو اس وقت مزید واضح کردیا جب آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسامہ بن زید کو لشکر کا امیر مقرر کیا حالانکہ ان کی نوعمری اور صغر سنی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا مگر آپ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے ان لوگوں پر لعنت ک جو اس لشکر میں شامل ہونے سے گریز کریں(4) ۔ اور واضح کردیا کہ امارت ،ولایت اور خلافت میں لوگوں کی مرضی داخل نہیں ، یہ معاملہ رسول ص کے حکم سے طے ہوتاہے اور رسول کا حکم اللہ کا حکم ہے ۔جب صورت یہ ہو تو ہم کیوں نہ دوسرے فریق کے دلائل پر بھی غور کریں ۔دوسرے

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26 باب رجم الحبلی من الزنا

(2) (3):-ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد اول صفحہ 18 اورمابعد ۔

(4):- الملل والنحل ،شہرستانی۔

۵۴

فریق سےمیری مراد شیعہ ہیں جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے امام علی ع کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور مختلف موقعوں پر اس کی تصریح بھی کردی تھی جن میں سب سے مشہور " غدیر خم" کا جلسہ ہے ۔

انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اختلاف  کی صورت میں آپ نے اپنے مخالف کی رائے  اور دلیل کوسنیں ، خصوصا ایسی حالت میں جب کہ مخالف ایسے حقائق سے استدلال کررہا ہو جن کو آپ بھی تسلیم کرتے ہوں ۔(1)

شیعوں کی دلیل میں کوئی واہی یا کمزور بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے ۔بلکہ معاملہ قرآنی آیات  کا ہے جو اس بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ جن کو خود رسول اللہ ص نے جو اہمیت دی وہ اس قدر مشہور ومعروف اور زبان زد خاص وعام ہے کہ حدیث اور تاریخ کی کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں اور راوی اسے نسلا بعد نسل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ۔

1:- ولایت علی ع قرآن کریم میں

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون "

تمھارے ولی تو بس اللہ اور اس کا رسول اور وہ مومنین ہیں جو پابندی سے نماز پڑھتے ہیں ، رکوع کی حالت میں زکوات دیتے

--------------------

(1):- قرآن کریم بھی ہمیں انصاف سے کام لینے کی تلقین کرتاہے اور کہتا ہے :

اے ایمان والو! ۔۔۔۔ لوگوں کی دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 8)

واضح رہے کہ شیعوں کی کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جس کی اصل اہل سنت کی کتابوں میں موجود نہ ہو ۔

۵۵

ہیں ۔جو کوئی اللہ ، اس کے رسول اور ان مومنین کی ولایت قبول  کرےگا (وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا )بے شک اللہ ہی کی جماعت غلبہ پانے والا ہے ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 55-56)

ابو اسحاق ثعلبی(1) نے اپنی تفسیر کبیر میں اپنی اسناد سے ابو ذر غفاری سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان کانوں سے سنا ،نہ سنا ہو تو یہ کان نپٹ بہرے ہوجائیں اور اپنی ان آنکھوں سے دیکھا  ،نہ دیکھا ہو تو یہ آنکھیں پٹم اندھی ہوجائیں ۔آپ فرماتے تھے کہ "علی "نیکیوں کو رواج دینے والے اور کفر کو مٹانے والے ہیں ۔ کامیاب ہے وہ جوان  کی مدد کرے گا اور ناکام ہے وہ جو ان کی مدد چھوڑ دے گا ۔ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک مانگنے والا مسجد میں آگیا ،اسے کسی نے کچھ نہیں دیا ۔ علی ع نماز پڑھ رہے تھے ، انھوں نے اپنی چھوٹی انگلی سے انگوٹھی  اتارلی ۔اس پر رسول اللہ ص نے عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا کی کاور کہا : یا الہی میرے بھائی موسی  نے تجھ سے دعا کی تھی اور کہا تھا : "اے میرے پروردگار ! میرا سینہ کھول دے اور میرا کا آسان کردے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ، اور میرے اپنوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں تقویت حاصل کرسکوں اور انھیں میرا شریک کار بنادے تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور بکثرت تجھے یاد کیا کریں "۔تب تو نے انھیں وحی  بھیجی کہ اے موسی ! تمھاری دعا قبول ہوگئی ۔اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ میرا بھی سینہ کھول دے ،میرا کام بھی آسان کردے اور میرے اپنوں میں سے علی ع کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں اس سے اپنی کمر مضبوط کرسکوں "۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ ابھی رسول اللہ نے اپنی بات پوری کی ہی تھی جبریل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے :" إنما وليكم الله ورسوله " (2) ۔

--------------------

(1):-ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری  ،ثعلبی المتوفی سنہ 437ھ ۔ابن خلکان کہتے ہیں کہ علم تفسیر میں یکتا ئے زمانہ تھے ، روایت میں ثقہ اور قابل اعتماد تھے ۔

(2):-۔۔۔۔ ،سنن نسائی  ، مسند احمد بن حنبل ، صواعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔ شرح نہج البلاغہ ۔

۵۶

شیعوں  میں سے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت امام علی بن ابی طالب ع کی شان مین اتری ہے ۔ اس کی توثیق ائمہ اہل بیت ع کی روایت سے ہوتی ہے جو شیعوں کے نزدیک قطعا مسلم الثبوت روایت ہے اور ان کی متعدد معتبر کتابوں میں موجود ہے جیسے :1:- اثبات الہداۃ ۔علامہ محمد بن حسن عاملی سنہ 1104 ھ۔2:- بحار الانوار ۔علامہ محمد باقر مجلسی سنہ 1111ھ۔3:- تفسیر المیزان ۔علامہ محمد حسین طباطبائی سنہ 1402 ھ۔4:- تفسیر الکاشف ۔ علامہ محم جواد مغنیہ -5:- الغدیر۔علامہ عبدالحسین احمد امینی سنہ 1390ھ علمائے اہل سنت کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس آیت کے علی بن ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام کےبارے میں نازل  ہونے کے متعلق روایت کی ہے ۔ میں ان میں سے فقط علمائے تفسیر کا ذکر کرتا ہوں :

1:- تفسیر کشّاف عن حقائق التنزیل ۔جار اللہ محمود بن عمر زمخشری سنہ 538 ھ جل 1 صفحہ 649

2:-تفسیر الجامع البیان ۔(1) حافظ محمد بن جریر طبری سنہ 310 ھ جلد 6 صفحہ 288

3:-تفسیر زاد المسیر فی علم التفسیر ۔سبط ابن جوزی سنہ 654ھجلد 2صفحہ 219۔4:- تفسیر الجامع الاحکام القرآن ۔محمد بن احمد قرطبی سنہ 671ھ جلد 63صفحہ 219

5:- تفسیر کبیر ۔امام فخر الدین رازی شافعی سنہ 606ھ جلد12 صفحہ 26۔6:- تفسیر القرآن العظیم ۔اسماعیل بن المعروف ابن کثیر سنہ 774ھ جلد 2 صفحہ 71

7:-تفسیر القرآن الکریم ۔ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی سنہ 710 ھ جلد 1صفحہ 289۔8:- تفسیر شواہد التنزیل لقواعد التفصیل والتاویل ۔حافظ حاکم حسکانی جلد 1 صفحہ 161۔9:- تفسیر درّمنثور ۔حافظ جلال الدین سیوطی سنہ 911 ھ جلد 2 صفحہ 293

--------------------

(1):-اہل سنت میں راویان حدیث کے القاب کی درجہ بندی مندرجہ ذیل ہے :

1:- محدّث : جسےدرایت حدیث پر عبور ہو            2:-حافظ:  جسے ایک لاکھ حدیثیں یاد ہوں

3:- حجّت : جسے تین لاکھ حدیثیں یاد ہوں         4:- حاکم : جسے سب حدیثیں یاد ہوں (ناشر)

۵۷

10:- اسباب النزول ۔ امام ابو الحسن واحدی نیشاپوری سنہ 468ھ صفحہ 148

11:- احکام القرآن ۔ابو بکر احمد بن علی الجصاص حنفی سنہ 370ھ جلد 4 صفحہ 103

12:- التسہیل لعلوم التنزیل ۔حافظ کلبی غرناطوی سنہ ھ جلد 1 صفحہ 181

علمائے اہل سنت میں سے جن کے نام میں نے لیے ہیں ، ان سے زیادہ وہ ہیں جن کے نام میں نے نہیں لیے ۔لیکن وہ علمائے شیعہ سے اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت ولایت علی بن ابی طالب ع کی بابت نازل ہوئی ہے ۔

2:- آیہ تبلیغ کا تعلق بھی ولایت علی ع سے ہے

اللہ تعالی کا فرما تا ہے :

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ "

اے رسول !جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس آیا ہے اسے پہونچادو ۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے اسے کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا ۔اور اللہ تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 67)

بعض اہل سنت مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ ص قتل اور ہلاکت کے خوف سے اپنے ساتھ محافظ  رکھتے تھے  جب آیت نازل ہوئی کہ " وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آپ نے اپنے محافظوں سے کہا : تم جاؤ ،اب اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔

ابن جریر اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن شقیق سے روایت بیان کی ہے کہ کچھ صحابہ رسول اللہ کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے ۔ جب آیت نازل ہوئی" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ" تو  آپ نے باہر نکل کر فرمایا : لوگو ! اپنے گھر والوں کے پاس  چلے جاؤ ،اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔(تفسیر درّ منثور ۔سیوطی جلد 3 صفحہ 119)

۵۸

ابن حبّان اور ابن مردویہ نے ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی سفر میں رسول اللہ کے ساتھ ہوتے تھے تو سب سے بڑا اور سایہ دار درخت ہم آپ کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔آپ اسی کے نیچے اترتے تھے ایک دن آپ ایک درخت کے نیچے اترے اور اس پر اپنی تلوار لٹکادی ۔ ایک شخص آیا اور اس نے تلوار اٹھالی ۔کہنے لگا : محمد ! بتاؤ اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ " آپ نے فرمایا :" اللہ بچائے گا تو تلوار کھ دے :" اس نے تلوار رکھ دی ۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔ :" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " (1)

ترمذی ،حاکم اور ابو نعیم  نے عائشہ سے روایت  کی ہے ۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ محافظ رہتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آپ نے قبّہ سے سر نکال کر  کہا : تم لوگ چلے جاؤ ، اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔

طبرانی ، ابو نعیم ، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عّباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ص کے ساتھ محافظ رہتے تھے ۔ آپ کے چچا ابو طالب ہر روز بنی ہاشم میں سے کسی شخص کو آپ کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۔پھر آپ نے ان سے کہہ دیا : چچا جان ! اللہ نے میری حفاظت کاذمہ لے لیا ہے اب کسی کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ۔

جب ہم ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مضمون آیت کریمہ کے ساتھ میل نہیں کھاتا اور نہ اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ٹھیک بیٹھتا ہے ۔ ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ۔ایک روایت میں تصریح ہے کہ یہ واقعہ ابو طالب کی زندگی کا ہے یعنی ہجرت سے کئی سال قبل کا ۔ خصوصا ابو ہریرہ تو یہ تک کہتے ہیں کہ جب ہم سفر میں رسول اللہ ص کے ہمراہ ہوتے تھے تو ان کے لیے سب سے بڑا درخت چھوڑ دیتے تھے ظاہر ہے یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ابو ہریرہ جیسا کہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں

--------------------

(1):- تفسیر در منثور ۔سیوطی

۵۹

سنہ 7 ہجری سے قبل اسلام اور رسول اللہ کو جانتے بھی نہیں تھے ۔(1) عائشہ اس وقت تک یا تو پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں یا ان کی عمر دوسال سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ یہ معلوم ہے کہ ان کا نکاح رسول اللہ سے ہجرت کے بعد ہوا اور اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ بااختلاف  روایت گیارہ سال تھی ۔ پھر یہ روایتیں کیسے صحیح ہوسکتی ہیں ؟ تمام سنی اور شیعہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورہ مائدہ مدنی سورت ہے ۔اور یہ قرآن کی سب سے آخری سورت ہے جو نازل ہوئی ۔

احمد اور ابو عبید اپنی کتاب فضائل میں ، نحاس اپنی کتاب ناسخ میں ۔ نسائی ، ابن منذر ،حاکم ابن مردویہ اور بیہقی اپنی سنن میں جبیر بن نفیر سے روایت کرتے ہیں کہ جبیر نے کہا : میں حج کرنے گیا تو حضرت عائشہ سے بھی ملنے گیا ۔انھوں نے کہا : جبیر! تم نے سورہ مائدہ پڑھی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔کہنے لگیں یہ آخری سورت ہے جو نازل ہوئی ۔اس میں تم جس چیز کو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جسے حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔(2)

احمد اور ترمذی نے روایت کی ہے کہ اور حاکم نے اسے صحیح اور حسن کہا ہے ابن مردویہ اور بیہقی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے نزول کے اعتبار سے سورہ مائدہ کو آخری سورت بتایا ہے(3) ۔

ابو عبیدہ نے محمد بن کعب قرطنی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ سورہ مائدہ رسول اللہ ص پر حجّۃ الوداع میں اتری ۔اس وقت آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک اونٹنی پر سوار تھے ،وحی کے بوجھ سے اونٹنی کا کندھا ٹوٹ گیا تو آپ اترگئے(4) ۔

ابن جریر نے ربیع بن انس سے روایت کی ہے کہ جب سورہ مائدہ رسول اللہ پرنازل ہوئی اس وقت آپ اپنی سواری پرسوار تھے ۔ وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ گئی

------------------

(1):- فتح الباری جلد 6 صفحہ 31 ۔البدایۃ والنہایہ جلد 8 صفحہ 102 ۔ سیر اعلام النبلاء ذہبی جلد 2 صفحہ ۔۔ الاصابہ ، ابن حجر جلد 3 صفحہ 287

(2)(3)(4):- تفسیر در منثور ،سیوطی جلد 3 صفحہ 3

۶۰