حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 58890
ڈاؤنلوڈ: 5932

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58890 / ڈاؤنلوڈ: 5932
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تھی(1) ۔

ابو عبیدہ نے ضمرہ بن حبیب اور عطیہ بن قیس سے روایت کی ہے ، وہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : نزول کے اعتبار سے مائدہ آخری سورت ہے جو اس میں حلال ہے اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام ہے اسے حرام سمجھو(2) ۔اب ان تمام روایات کی موجودگی میں کوئی انصاف پسند سمجھ دار شخص کیسے یہ دعوی تسلیم کرسکتا ہے کہ مندرجہ
بالا آیت بعثت رسول ص کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی ۔ جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے ان  میں اس بارے میں کوئی اختلاف  نہیں  کہ نزول کے اعتبار سے سورہ مائدہ قرآن کی آخری سورت ہے اور خاص کر آیہ تبلیغ حجۃ الوداع کے بعد 18 ذی الحجۃ کو امام علی ع کے منصب امامت پر تقرر سے پہلے غدیر خم میں نازل ہوئی ۔ اس دن جمعرات تھی ۔پانچ ساعت دن گذر جانے کے بعد جبریل نازل ہوئے اورآنحضرت سے بولے :اے محمد ص ! اللہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ :

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ"۔اللہ تعالی کا " وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ " کہنا واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یا تو رسالت کا کام ختم ہوچکا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے اور صرف ایک اہم کام باقی رہ گیا ہے جس کے بغیر دین کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔اس آیت کریمہ سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ رسول اللہ ص کو یہ اندیشہ تھا کہ جب وہ اس اہم کا م کی طرف لوگوں کو بلائیں گے تو لوگ ان کو جھٹلائیں گے ۔لیکن اللہ تعالی نے ان کو تاخیر ک اجازت نہیں دی کیونکہ وقت موعود نزدیک تھا اور یہ اس کام کے لیے بہتریں موقع تھا آپ کے ساتھ ایک لاکھ سے زیادہ اصحاب موجود تھے جنھوں نے ابھی ایک ہفتہ پہلے آپ کے ساتھ حج کیا تھا ، ابھی تک ان کے قلوب مراسم حج کے نور سے معمور تھے ، انھیں یہ بھی یاد تھا کہ رسول اللہ ص نے انھیں اپنی وفات کے قریب

-------------------

(1)(2):- سیوطی ،تفسیر درمنثور جلد 3 صفحہ 3۔

۶۱

ہونے کی خبر دی ہے ۔آپ نے فرمایا تھا :

" لعلّى لآ ألقاكم بعد عامي هذا ويوشك أن يّاتي ربّي وأدعى فاُجيب."

شاید اس سال کے بعد میں تم سے نہ مل سکوں ۔ وہ وقت قریب ہے جب پروردگار کا بلاوا آجائے گا اور مجھے جانا ہوگا ۔اب وہ وقت قریب تھا جب لوگ اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے منتشر ہونے والے تھے ۔ شاید پھر اتنے بڑے مجمع سے ملاقات کا موقع نہ مل سکے ۔غدیر کئی راستوں کے سنگم پرواقع تھا ۔ رسول اللہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی طرح بھی ایسے سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے دیں ۔ اور کیسے جانے دے سکتے تھے جب وحی آچکی تھی جس میں ایک کو ہاتھ سے جانے دیں ۔ اور کیسے جانے دے سکتے تھے جب وحی آچکی تھی جس  میں ایک طرح کی تنبیہ بھی  تھی اور کہا گیا تھا کہ آپ کی رسالت کا دارومدار اسی پیغام کو پہنچانے پر ہے ۔ اللہ سبحانہ نے آپ کو لوگوں کے شر سے بچانے کی ضمانت بھی دیدی تھی اور کہہ دیا تھا کہ تکذیب سے خوف کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ آپ سے پہلے  بھی کتنے ہی رسول کو جھٹلائے جاچکے ہیں لیکن اس کی وجہ سے جو پیغام ان کو دیا گیا  تھا وہ اس کو پہچانے سے باز نہیں رہے ، اس لیے کہ رسول کا فریضہ ہی پہنچانا ہے ۔"ما على الرّسول إلّا البلاغ" گو اللہ کو پہلے  سے معلوم تھا  کہ اکثر لوگ حق کو پسند نہیں کرتے(1) ۔جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے : گو اللہ کو معلوم ہے کہ ان میں جھٹلانے والے ہیں(2) ۔جب بھی اللہ انھیں حجّت  قائم کیے بغیر چھوڑ نے والا نیں ۔" لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزاً حَكِيماً " اس کے علاوہ آپ کے سامنے ان رسولوں کی مثال تھی جن کو ان کی قوموں نے جھٹلایا ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :

" وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ () وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ () وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ وَكُذِّبَ مُوسَى فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ

--------------------

(1):-سورہ زخرف ۔آیت 78 ۔ (2):- سورہ الحاقّہ ۔آیت 49 ۔(3):- سورہ نساء ۔آیت 165

۶۲

فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ "

اگر یہ لوگ تم کو جھٹلاتے ہیں تو کیا ہوا ، ان سے پہلے قوم نوح اور عاد وثمود اور قوم ابراہیم ، قوم لوط اور اہل مدین بھی تو اپنے اپنے پیغمبروں کو جھٹلاچکے  ہیں اور موسی  بھی تو جھٹلائے جا چکے ہیں ۔ چنانچہ پہلے تو میں کافروں کو مہلت دیتا رہا پھر میں نے انھیں پکڑلیا ۔سود یکھو میرا عذاب کیسا ہوا ۔ (سورہ حج ۔آیت 42-44)

اگر ہم تعصّب اور اپنے مذہب  کی جیت  سے محبّت کا خیال چھوڑدیں تو یہ تشریح زیادہ سمجھ میں آنے والی ہے اور اس آیت کے نزول سے پہلے اور بعد میں جو واقعات پیش آئے ان سے بھی زیادہ ہم آہنگ ہے ۔

علمائے اہلسنت کی ایک بڑی تعداد نے اس آیت کے امام علی ع کے تقرر کے بارے میں غدیر خم کے مقام پر نازل ہونے کی روایت  بیان کی ہیں اور ان کو صحیح کہا ہے اور اس طرح اپنے شیعہ بھائیوں کے ساتھ اتفاق رائے  کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہم مثال کے طور پر ذیل میں چند علمائے اہل سنت کاذکر کرتے ہیں :

1:- حافظ ابو نعیم اصفہانی متوفی سنہ 430ھ نزول  قرآن ۔2:- امام ابوالحسن واحدی نیشاپوری، متوفی سنہ 468اسباب النزول صفحہ 150-3:- امام ابو اسحاق ثعلبی نیشاپوری، متوفی سنہ 427ھ تفسیر الکشف والبیان-4:- حافظ حاکم حسکانی حنفی شواھد التنزیل لقواعد المنفصل والتاویل جلد 1 صفحہ 187۔5:- امام فخر الدین رازی شافعی متوفی سنہ 606 ھ تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 50۔6:- حافظ جلا الدین سیوطی شافعی سنہ 911ھ تفسیر الدر المنثور جلد 3 صفحہ 117۔7:- مفتی شیخ محمد عبدہ سنہ 1323 ھ تفسیر المنار جلد 2 صفحہ 86 وجلد6 صفحہ 463۔8:-حافظ ابو القاسم ابن عساکر شافعی سنہ 571ھ تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 86۔

9:- قاضی محمد بن علی شوکانی سنہ 1250ھ تفسیر فتح القدیر جلد 2 صفحہ 60۔10:- ابن طلحہ شافعی سنہ 652ھ مطالب السئول جلد 1 صفحہ 44۔11:- حافظ سلیمان قندوزی حنفی سنہ 1294 ینابیع المودۃ صفحہ 120ھ۔12:- محمد عبدالکریم شہرستانی شافعی سنہ 548ھ المللوالنحل جلد 1 صفحہ 163۔

۶۳

13:- نورالدین ابن الصباغ مالکی سنہ 855ھ الفصول المہمہ صفحہ 25۔14:- حافظ محمد بن جریر طبری سنہ 310 ھ کتاب الولایہ ۔ 15:- حافظ ابو سعید سجستانی سنہ 477 ھ کتاب الولایہ ۔ 16:- بدر الدین ابن عینی حنفی سنہ 855ھ عمدۃ القاری فی شرح البخاری جلد 8 صفحہ 584- 17:- سید عبدالوہاب البخاری سنہ 932 ھ تفسیر القرآن ۔

18:- سید شہاب الدین آلوسی شافعی سنہ 1270ھ روح المعانی جلد 2 صفحہ 384۔

19:- شیخ الاسلام محمد بن ابراہیم حموینی حنفی سنہ 722 ھ  فرائد السمطین جلد 1 صفحہ 185۔

20:- سید صدیق حسن خان فتح البیان فی مقاصد القرآن جلد 3 صفحہ 63 ۔(1)

اب دیکھنا یہ ہے کہ جب رسول اللہ ص کو حکم دیا گیا کہ جو کچھ آپ پر اترا ہے ایسے لوگوں تک پہنچا دیجیے تو اس پر آپ نے کیا کیا ؟

شیعہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے لوگوں کو ایک جگہ غدیر خم کے مقام پر جمع کیا اور ایک طویل اور نہایت بلیغ خطبہ دیا ۔ آپ کے گواہی مانگنے پر لوگوں نے گواہی دی کہ آپ کا ان پر خود ان سے زیادہ حق ہے ۔ اس پر آپ نے علی بن ابی طالب ع کا ہاتھ بلند کرکے کہا :-

"من كنت مولاه فهذا علىٌّ مولاه أللهمّ وال من وّالاه وعاد من عاداه وانصرمن نّصره وخذل من خذله وأدرالحقّ حيث ما دار".(2)

میں جس کا مولا ہوں یہ علی بھی اس کے مولا ہیں ۔ خداوندا! جو علی ع سے دوستی رکھے اس سے دوستی رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو بھ اس سے دشمنی رکھ ۔ جو ان کی مدد کرے تو  بھی اس کی مدد کر اور جو ان کا ساتھ چھوڑ دے تو بھی اس کا ساتھ

------------------

(1):- میں نے یہاں کچھ علماء کا ذکر کیا ہے جبکہ علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں تفصیل سے علمائے  اہل سنت کا ذکر کیا ہے ۔

(2):- یہ حدیث حدیث غدیر کے نام سے موسوم ہے ۔ شیعہ اور سنی علماء نے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۶۴

چھوڑ دے ۔ جس طرف علی ع کا رخ ہو اسی طرف حق کا رخ پھیردے ۔

اس کے بعد آپ نے حضرت علی ع کو عمامہ پہنایا اور اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ علی ع کو امیرالمومنین  ہوجانے کی مبارک باد دیں ۔ چنانچہ سب نے مبارک باد دی ۔ابو بکر اور عمر نے بھی تبریک وتہنیت پیش کی اور کہا : اے فرزند ابو طالب ع ! تمھیں امت کی پیشوائی مبارک ہو ۔ آج سے تم ہمر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ۔(1)

اس تقریب تقریب کے اختتام پر یہ آیت نازل ہوئی :

"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً "

آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل  کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ۔(سورہ مائدہ ۔آیت 3)

یہ شیعوں کا نظریہ ہے جو ان کے نزدیک  مسلّمات میں سے ہے اور جس کے متعلق ان کےیہاں دورائیں نہیں ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس واقعہ کا ذکر اہل سنت کے یہاں بھی موجود ہے ؟

ہم نہیں چاہتے کہ جانبداری سے کام لیں اور شیعوں کی باتوں میں آجائیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں تنبیہ کی ہے :

" وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ"

کچھ لوگ ایسے ہیں جب وہ دنیا  وی غرض سے باتیں کرتے ہیں تو ان کی باتیں آپ کو اچھی معلوم ہوتی ہیں اور جو ان کے دل میں ہے وہ اللہ کو اس پر گواہ لاتے ہیں مگر (درحقیقت) وہ سخت جھگڑا لو ہیں ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 204)

--------------------

(1):- مسند امام احمد بن حنبل ۔تفسیر جامع البیان ،طبری ۔تفسیر کبیر، رازی ۔ صوعق محرقع ،ابن حجر ہیثمی مکی ۔دارقطنی  ۔بیہقی ۔خطیب بغداد اور شہرستانی وغیرہ نے بھی یہ واقعہ اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔

۶۵

اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے پوری احتیاط سے کام لیں ، فریقین کے دلائل پر دیانت داری سے غور کریں اور ایسا کرتے ہوئے ہمارا مقصد اللہ کی رضا ہو ۔ رہا یہ سوال کہ کیا اس واقعہ کا ذکر اہل سنت کے یہاں بھی ہے ؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ جی ہاں ! بہت علمائے اہل سنت نے اس واقعے کے ہر مرحلے کا ذکر کیا ہے ۔ آپ کی خدمت میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں :

امام احمد بن جنبل  نے زید بن ارقم کی حدیث نقل کی ہے ۔وہ کہتے  ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ ہم ایک وادی میں اترے جو وادی خم کے نام سے موسوم تھی ، رسول اللہ ص نے نماز کا حکم دیا ۔چنانچہ ہم نے دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں نماز پڑھی اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا ۔ دھوپ سےبچاؤ کی غرض سے آپ کے لیے ایک درخت پرکپڑا پھیلا دیا گیا تھا ۔ رسول اللہ ص نے فرمایا  : کیا تم نہیں جانتے کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ میرا تم پر خود تم سے زیادہ حق ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں بے شک ! آپ نے کہا :"من كنت مولاه فهذا علىٌّ مولاه أللهمّ وال من وّالاه وعاد من عاداه"

پس جس ک میں مولا ہوں ۔اس کا علی ع بھی مولا ہیں ۔ بارالہا ! جو ان سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔۔۔۔۔(1)

امام نسائی نے کتاب الخصائص میں زید بن ارقم سے روایت نقل کی  ہے۔ زید بن ارقم نےکہا :جب حجۃالوداع  سے واپس آتے ہوئے رسول اللہ ص غدیر خم کے مقام پر اترے تو آپ نے درختوں کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنے کا حکم دیا ۔ پھر آپ نے کہا : "ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بلاوا آگیا اور میں جارہا ہوں ۔ میں تمھارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ، ایک چیز دوسری چیز سے بڑی ہے ،کتاب اللہ اور میری عترت ! یعنی میرے اہلبیت ع ۔دیکھو میرے بعد تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔ یہ دونوں چیزیں حوض پر آنے تک ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گی ۔ " بیشک اللہ

-------------------

(1):-مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 372

۶۶

میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا ولی ہوں ۔ پھر آپ نے علی ع کا ہاتھ پکڑ کر کہا :

"من كنت وليّه فهذا وليّه أللهمّ وال من وّالاه وعادمن عاداه".

جس کا میں ولی ہوں ،یہ بھی اس کے ولی ہیں ۔ اے اللہ ! جو علی ع سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔

ابو طفیل کہتے ہیں میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : کیاتم نے خود رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ زید نے کہا : جتنے لوگ بھی وہاں درختوں کے قریب تھے ، سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا(1) ۔

حاکم نیشاپوری نے زید بن ارقم سے دو طریقوں  سےیہ روایت بیان  کی ہے اور ان دونوں طریقے  علی شرط الشیخین (بخاری ومسلم )صحیح  ہیں ۔ زیدبن ارقم نے کہا کہ : جب رسول اللہ حجۃ الوداع سے واپسی میں غدیر خم کے مقام پر اترے ،آپ نے درختوں کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنے کا حکم دیا ۔ صفائی کے بعد آپ نے فرمایا کہ : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بلاوا  آگیا ہے اور میں جارہا  ہوں مگر میں تمھارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ، ان میں ایک دوسری سے بڑی ہے ۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری عترت  یعنی اہل بیت  ع ۔ اب دیکھو تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو کیونکہ وہ دونوں  ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہونگی یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں گے ۔ اس کے بعد کہا : اللہ تعالی میرا مولی ہے اور میں ہر مومن کا مولی ہوں ۔ پھر علی ع کا ہاتھ پکڑ کر کہا :

"من كنت مولاه فهذا وليّه أللهمّ وال من وّالاه وعاد من عاداه"

جس ک میں مولا ہوں ۔اس کے یہ ولی  ہیں ۔ اے خدا ! جو علی ع کو  دوست رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو علی ع سے دشمنی

--------------------

(1):- نسائی خصائص امیرالمومنین  صفحہ 21

۶۷

رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔(1) یہ حدیث مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اپنی سند سے زید بن ارقم ہی کے حوالے سے بیان کی ہے لیکن مختصر کرکے ۔ زید بن ارقم نے کہا:

ایک دن رسول اللہ ص نے اس تالاب کے قریب خطبہ دیا جسے خم کہا جاتا ہے اور جو مکے اور مدینے کے درمیان واقع ہے ۔ آپ نے حمد وثنا اور وعظ ونصیحت کے بعد فرمایا کہ : لوگو! میں بھی انسان ہوں ، وہ وقت قریب ہے جب میرے پروردگار کا بلاوا آجائے اور میں چلاجاؤں ۔ میں تم میں دوگراں قدر چیزیں چھوڑ رہاہوں ۔ پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ۔ کتاب اللہ کا دامن پکڑلو اور اس سے چمٹے رہو ۔ آپ نے کتاب اللہ سے تعلق پر لوگوں کو اکسایا اور رغبت دلائی ۔پھر کہا : دوسرے میرے اہل بیت ع ۔میں اپنے اہل بیت ع کے بارے مین تمھیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں ، میں اپنے اہل بیت ع کے بارے مین تمھیں اللہ کو یاد لاتا ہوں میں اپنے اہل بیت ع کے بارے مین تمھیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں "۔ (آپ نے زیادہ تاکید کے لیے تین بار کہا)(2) ۔

اگر چہ امام مسلم نے واقعہ کو مختصر کرکے بیان کیا ہے اور پورا واقعہ بیان نہیں کیا لیکن بحمداللہ اتنا بھی کافی وشافی ہے ۔ اختصار شاید زید بن ارقم نے خود کیا ہے ، کیونکہ وہ سیاسی حالات کی وجہ سے "حدیث غدیر " کو چھپانے پر مجبور تھے ۔ یہ بات سیاق حدیث سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ راوی کہتا ہے کہ میں  ،حصین بن سبرہ اور عمربن مسلم ہم تینوں زید بن ارقم کے پاس گئے ،جب ہم بیٹھ گئے تو حصین نے زید سے کہا : آپ نے بڑے اچھے دن دیکھے ہیں ، آپ نے رسول اللہ ص کو دیکھا ہے ، آپ کی باتیں سنیں ، آپ کے ساتھ غزوات میں شرکت کی ،آپ کے پیچھے نماز پڑھی ،ہمیں بھی کچھ سنائیے جو آپ نے رسول اللہ ص سے سنا ہو ۔زید نے کہا : بھتیجے ! میں بڈھا ہوگیا ہوں اور

--------------------

(1):-مستدرک علی الصحیحین  جلد 3 صفحہ 109

(2):- صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 122 باب فضائل علی بن ابی طالب ع ۔اس حدیث کو امام احمد بن حبنل ،ترمذی ۔۔۔۔نے نقل کیا ہے ۔

۶۸

میری عمر زیادہ ہو گئی ۔ رسو ل اللہ ص کی بعض باتیں جو مجھے یاد تھیں ، اب بھول گیا ہوں  اس لیے میں جو کچھ سناؤں ، وہ سن لو اور جو نہ سناؤں وہ سن لو اور جو نہ سناؤں تو مجھے اس کے سنانے کی تکلیف نہ دو ، اس کے بعد کہا : ایک دن رسول اللہ ص نے ہمیں اس تالاب کے قریب خطبہ دیا ، جسے خم کہا جاتا ہے ۔ الخ ۔اس سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حصین نے زید بن ارقم سے غدیر کے بارےمیں دریافت کیا تھا اور یہ سوال دوسرے لوگوں  کی موجودگی میں پوچھ کر زید کو مشکل میں ڈال دیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زید کو معلوم تھا کہ اس سوال کا صاف  جواب ایسی حکومت کے ہوتے ہوئے انھیں مشکلات میں مبتلا کرسکتا تھا ۔ جو لوگوں سے یہ کہتی ہو کہ علی بن ابی طالب ع پر لعنت کریں ۔ اسی لیے انھوں نے سائل سے معذرت کر لی تھی کہ ان کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اور وہ بہت کچھ بھول گئے ہیں ۔ پھر انھوں نے حاضرین سے مزید کہا کہ جو کچھ میں سناؤں وہ سن لو اور جو نہ سنانا چاہوں اس کے سنانے کی تکلیف نہ دو ۔

اگر چہ خوف کے مارے زید بن ارقم نے واقعہ کو بہت مختصر کرکے بیان کیا ہے پھر بھی ، اللہ انھیں جزائے خیر دے انھوں نے بہت سے حقائق بیان کردیتے اور نام لیے بغیر " حدیث غدیر" کی طرف اشارہ بھی کردیا ۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ص نے ہمیں خطبہ دیا اس تالاب کے نزدیک جسے خم کہا جاتا ہے اور جو مکے اور مدینے کے درمیان واقع ہے ۔ اس کے بعد حضرت علی ع کی فضیلت بیان کی  اور بتلایا کہ علی ع حدیث ثقلین کی رو سے کتاب اللہ کے ساتھ شریک ہیں ، لیکن یہاں بھی علی ع کا نام نہیں لیا اور یہ لوگوں کی ذہانت پر چھوڑ دیا کہ وہ خود نتیجہ نکال لیں ۔کیونکہ یہ سب مسلمانوں کو معلوم ہے کہ علی ع ہی اہلبیت نبوّت کے سردار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود امام مسلم نے بھی حدیث کا وہی مطلب سمجھا جو ہم نے سمجھا ہے کیونکہ انھوں  نے یہ حدیث باب فضائل علی بن ابی طالب ع میں بیان کی ہے حالانکہ حدیث میں علی بن ابی طالب ع کا نام تک نہیں ۔طبرانی نے صحیح سند سے معجم کبیر میں زید بن ارقم اور حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے غدیر خم میں درختوں کے نیچے

۶۹

خطبہ دیا ۔آپ نے فرمایا : اب وقت آگیا ہے کہ میرا بلا آجائے اور میں چلاجاؤں ۔ میری بھی ذمہ داری ہے اور تمھاری  بھی ذمہ داری ہے ۔ اب تم کیا کہتے ہو ؟ سب نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچایا  اور  کوشش کی اور ہمیں نصیحت کی ،اللہ  آپ کو جزائے خیر دے ۔آپ نے فرمایا " کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ص اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ جنت حق ، دوزخ حق ہے ، موت حق ہے اور موت کے بعد زندہ ہونا برحق ہے ۔قیامت ضرور آنے والی  ہے اس میں کوئی اور اللہ قبر کے مردوں کو ضرور زندہ کرےگا " حاضرین نے کہا : جی ہاں ! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں ۔آپ نے فرمایا :" اے  اللہ تو اس کا گواہ رہنا " پھر فرمایا :" لوگو! اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولی ہوں  ۔ میرا ان پر خود ان سے زیادہ حق ہے ۔ پس جس کا میں مولا ہوں  اس کے یہ (علی ع)بھی مولا ہیں ۔ اے اللہ ! جو ان سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اورجو ان سے دشمنی رکھےتو بھ اس سے دشمنی رکھ"۔ پھر فرمایا :میں تم سے آگے جارہا ہوں ، تم حوض پر ضرور آؤ گے ، حوض یہاں سے لے کر صنعاء تک کے فاصلے سےچوڑا ہے ۔اس میں اتنے چاندی کے پیالے ہیں جتنے آسمان پر ستارے ، جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں ثقلین کےبارے مین پوچھوں گا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا ۔ ثقل اکبر کتاب اللہ ہے ۔ یہ  ایک ڈوری ہے جن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں  ہے اور ایک سرا تمھارے ہاتھ میں ۔اس لیے اسے مضبوط  پکڑے رہنا ۔ نہ گمراہی اختیار کرنا اور نہ اپنی روش بدلنا ۔ثقل اصغر میری عترات میرے اہل بیت ع ہیں ۔ خدائے لطیف وخبیر نے مجھے خبردی ہے کہ وہ دونوں ختم نہیں ہوں گے جب تک میرے پا س حوض پر نہ آجائیں ۔(1)

اسی طرح امام احمد بن حنبل نے براء بن عذاب سے دو طریقوں سے یہ روایت بیا ن کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ  ص کے ساتھ تھے ۔جب ہم غدیر پر اترے تو

--------------------

(1):- یہ روایت ابن حجر نے صواعق محرقہ میں طبرانی اور ترمذی سے نقل کی ہے ۔

۷۰

موذّن کو رسول اللہ ص نے پکار کر کہا:" الصلاة جامعة " (1) رسو ل اللہ ص کے لیے درختوں کے نیچے جگہ صاف کردی گئی ۔آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر علی ع کا ہاتھ پکز کر فرمایا : کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میرا مومنین پر خود  ان سے زیادہ حق ہے ۔سب نے کہا :جی ہاں معلوم ہے ۔ آپ نے دوبارہ دریافت کیا : کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میرا ہر مومن پرخود اس سے زیادہ حق ہے ۔سب نے اقرارکیا تب آپ نے علی ع کا ہاتھ پکڑ کر کہا:

"من كنت مولاه فهذا علىٌّ مولاه أللهمّ وال من وّالاه وعاد من عاداه"

جس کا میں مولا ہوں ، علی ع بھی اس کے مولا ہیں ۔اے اللہ ! جو ان سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو بھی ان سے دشمنی رکھ ۔

اس کے بعد عمرجب علی ع سے ملے تو بولے : ابن ابی طالب مبارک ہو تم ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے(2) ۔

خلاصہ یہ کہ جن محدثین  کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی سربرآوردہ علمائے اہل سنت نے حدیث غدیر کی روایت اپن کتابوں میں بیان کی ہے ، جیسے ترمذی ،ابن ماجہ ، ابن عساکر ، ابن صبّاغ  مالکی ، ابن اثیر ،ابن مغازلی ،ابن حجر ، ابو نعیم ، سیوطی ،خوارزمی ، ہیثمی ، سلیمان قندوزی ، حموینی ،حاکم حسکانی اور امام غزالی ،امام بخاری نے یہ روایت اپنی تاریخ میں بیان کی ہے ۔

مختلف مسلک ومذاہب کے پہلی صدی سے چودھویں صدی ہجری تک کے ان علماء کی تعداد جنھوں نے اپنی کتابوں میں یہ روایت  بیان کی ہے تین سو ساتھ سے

-------------------

(1):- جب کبھی رسول اللہ ص صحابہ کرام کو کوئی اہم حکم دینا چاہتے تھے تو انھیں نماز جماعت میں شمولیت کی دعوت دیتے تھے ۔اس نماز میں حاضر ہونا ان کے لیے نماز جمعہ کی طرح فرض ہوتا تھا ۔ اس اجتماعی نماز کے لیے منادی " الصلا ۃجامعة " پکارتا تھا نیز نماز استسقاء اور نماز آیات وغیرہ میں بھی اسی شعار سے لوگوں کو جمع کیاجاتا تھا ۔(ناشر)

(2):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 117۔فضائل الخمسۃ ون الصحا ح الستہ  جلد 1 صفحہ 350۔

۷۱

سے اوپر ہے ۔ جو شخص مزید تحقیق کرنا چاہے وہ علامہ امینی کی کتاب الغدیر کا مطالعہ کرے(1) ۔

کیا اس پر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ "حدیث غدیر " شیعوں کی گھڑی ہوئی ہے ؟

عجیب وغریب بات ہے یہ ہے کہ جب حدیث غدیر کا ذکر کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے اس کا نام بھی نہیں سنا ۔ اس سے بھی زیادہ  عجیب بات یہ ہے کہ اس حدیث کے بعد بھی جس کی صحت پر سب کا ن اتفاق  ہے علمائے اہل سنت  یہ دعوی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا اور معاملہ شوری پر چھوڑ دیا تھا ۔

اللہ کے بندو! کیا خلافت سے متعلق اس سے بھی زیادہ صاف اور صریح کوئی حدیث ہوسکتی ہے ؟

یہاں میں اپنی اس بحث کا ذکر کروں گا جوایک  دفعہ تیونس کی جامعہ زیتونہ کے ایک عالم سے ہوئی تھی ۔ جب میں نے ان صاحب سے خلافت علی ع کے ثبوت میں حدیث غدیر کاذکر کیا تو انھوں نے اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا لیکن ایک پیوند لگادیا ۔ انھوں نے مجھے اپنی لکھی ہوئی قرآن کی تفسیر دکھائی ،جس میں "حدیث غدیر  کاذکر تھا اور اس کو صحیح بھی تسلیم کیا تھا ۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے لکھا تھا :

شیعوں کا خیال  ہے کہ یہ حدیث سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت پر نص ہے لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ دعوی غلط ہے ۔کیونکہ یہ دعوی سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان ذوالنورین  کی خلافت کے منافی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ حدیث میں جو لفظ مولی آیا ہے اس کے معنی محب ومددگار

------------------

(1):- علامہ امینی کی کتاب الغدیر گیارہ جلد وں میں ہے ۔ یہ بڑی نفیس کتاب ہے ۔اس میں مصنف نے برسوں تحقیق کے بعد غدیر سے متعلق سب مواد اہل سنت کی کتابوں سے جمع کیا ہے ۔

۷۲

کے لیے جائیں ، جیسا کہ یہ لفظ ان معنوں میں قرآن کریم میں بھی آیا ہے ۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس لفظ کے یہی معنی سمجھے ہیں ۔ تابعین اور مسلمان علماء نے ان سے یہی معنی سیکھے ہیں اس لیے رافضی جو اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ خلفاء کی خلافت  کو تسلیم نہیں کرتے اور صحابہ رسول ص پر لعن طعن کرتے ہیں ۔ صرف یہی بات ان کے جھوٹے اور غلط دعوؤں کے بطلان کے لیے کافی ہے ۔

میں نے ان عالم سے پوچھا ۔یہ بتلائیے کہ کیا واقعی یہ قصّہ غدیر خم میں پیش آیاتھا ؟

انھوں نے جواب دیا : اگر پیش نہ آتا تو علماء ۔اور محدثین اسے کیوں بیان کرتے ۔

میں نے کہا : کیا یہ بات رسول اللہ ص کے شایان شان ہے کہ وہ جلتی ہوئی دھوپ میں اپنے اصحاب کو جمع کرکے طویل خطبہ صرف یہ کہنے کے لیے دیں کہ علی ع تمھارا محب وناصر ہے ۔ یہ تشریح آپ کی سمجھ میں آتی ہے ؟

کہنے لگے کہ بعض صحابہ نے علی ع کی شکایت کی تھی ، ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو علی ع سے بغض اور اختلاف رکھتے تھے ۔ رسول اللہ ص نے اس بغض کے ازالے کے لیے فرمایا : علی ع تو تمھارا محب وناصر ہے ۔ مطلب یہ تھا کہ علی سے محبت رکھو بغض وعناد نہ رکھو ۔

میں نے کہا: اتنی سی بات کے لیے سب کو روکنے ، ان کے ساتھ نماز پڑھنے اور خطبے کو ان الفاظ سے شروع کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ :کیا میرا تم پر تم سے زیادہ حق نہیں ؟ " یہ آپ نے مولا کے معنی کی وضاحت کے لیے ہی تو کہا تھا ۔ اگر جو آپ کہتے ہیں وہی صحیح ہے تویہ بھی ہوسکتا تھا کہ جن لوگوں کو علی ع سے شکایت تھی آپ ان کو بلا کر کہہ دیتے کہ علی ع تو تمھارا دوست اور مدد گار ہے ۔ بات ختم ہوجاتی ۔ایک لاکھ سے زیادہ مجمع کو دھوپ میں روکنے  کی جس میں بڈھے اور عورتیں بھی شامل تھیں ، کیا ضرورت تھی ؟ کوئی ہوشمند تویہ بات کبھی مان نہیں سکتا !

۷۳

کہنے لگے : کیا کوئی ہوشمند یہ مان سکتا ہے کہ جو بات تم اور شیعہ سمجھ گئے وہ ایک لاکھ صحابہ نہ سمجھ سکے ؟

میں نےکہا : پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں صرف تھوڑے سے لوگ تھے جو مدینہ منورہ میں رہتے تھے ۔دوسرے ،وہ بالکل  وہی سمجھے میں وار شیعہ سمجھے ہیں ۔ جب ہی تو علماء راوی  ہیں کہ ابو بکر اور عمریہ کہہ کر علی ع کو تبریک پیش کررہے تھے کہ مبارک ہو ابن ابی طالب ! اب تم ہر مومن اور مومنہ کےمولا ہوگئے ہو !کہنے لگے : پھر رسول اللہ ص کی وفات کے بعد انھوں نے علی ع کی بیعت کیوں نہیں کی ؟ کیا وہ نعوذ بااللہ  رسول اللہ ص کے حکم کی مخالفت اورحکم عدولی کررہے تھے ۔میں نے کہا : علمائے اہل سنت اپنی کتابوں میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ بعض صحابہ تو خود آپ کی زندگی اور آپ کی موجودگی ہی  میں آپ کے حکام کی مخالفت کیا کرتے تھے ۔تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اگر انھوں نے آپ کی وفات کےبعد آپ کے احکام پر عمل نہیں کیا ۔ پھر جب صحابہ کی اکثریت اسامہ بن زید کو امیر لشکر بنانے پر ان کی کم عمری کی وجہ سے معترض تھی حالانکہ وہ محض محدود نوعیت کی قلیل المدت مہم تھی تو وہ علی ع کا نوعمری کے باوجود مدت العمر کے لیے خلیفہ اور حکمران بنایا جانا کیسے قبول کرسکتے تھے ؟ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ بعض صحابہ علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے ۔گھبراکر کہنے لگے :اگر علی کرّم اللہ وجہہ ورضی اللہ عنہ کو معلوم ہوتا کہ رسول اللہ ص نے انھیں خلیفہ نامزد کیا ہے ، تو وہ کبھی اپنا حق نہیں چھوڑ سکتے تھے اور نہ خاموشی اختیار کرسکتے تھے ۔وہ تو اتنے دلیر اور بہادر تھے کہ سب صحابہ ان سے ڈرتے تھےمگر وہ کسی سے خوف نہیں کھاتے تھے ۔میں نے کہا: حضرت ! یہ ایک الگ موضوع ہے ،میں اس میں الجھنا نہیں چاہتا کیونکہ آپ صحیح احادیث نبوی ہی کو نہیں مانتے بلکہ ناموس صحابہ کے تحفظ کے لیے ان کی تاویل کرتے اور ان کے کچھ کے کچھ معنی بیان کرتے ہیں ۔ میں ایسے میں کیسے آپ یقین دلاسکوں گا  کہ  امام علی ع نے کیوں خاموشی اختیار  کی اور خلافت پر اپنے حق کے لیے احتجاج نہیں کیا۔وہ صاحب مسکرائے اور کہا : میں تو خود سیدنا علی ع کو سب سے افضل سمجھتا ہوں اور اگر معاملہ میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں صحابہ میں سے کسی کو بھی ان پر ترجیح نہ دیتا ،

۷۴

کیونکہ وہ شہر علم کا دروازہ تھے ، شیر خدا تھے لیکن اللہ سبحانہ کی مشیت جس کو چاہتی ہے آگے بڑھاتی ہے اورجس کوچاہتی ہے پیچھے ہٹاتی ہے ۔" لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ " (اللہ سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ کیا کرتا ہے ہاں اللہ سب سے جواب طلب کرسکتا ہے )۔

اب مسکرانے کی میری باری تھی ۔ میں نے کہا : یہ بھی ایک دوسرا موضوع ہے اگر اس پر گفتگو شروع ہوئی تو تقدیر کی بحث چھڑجائیگی  جس پر ہم پہلے بات چیت کرچکے ہیں ۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں اپنی اپنی رائے پر قائم رہے ۔

جناب والا! مجھے تعجّب اس پر ہے کہ جب بھی میری گفتگو کسی سنی عالم سے ہوتی ہے اور میں اسے لاجواب کردیتا ہوں ،وہ فورا ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف بھاگنا شروع کردیتا ہے اور اصل بات بیچ میں ہی رہ جاتی ہے ۔وہ صاحب بولے : میں تو اپنی رائے  پر قائم  ہوں ، میں نے تو بات نہیں بدلی ۔بہر حال میں ان سے رخصت ہوکرچلا آیا اور دیر تک سوچتا رہا کہ کیا وجہ ہے کہ مجھے اپنے علماء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملتا جو اس مٹرگشت  میں آخر تک   میرا ساتھ دے اور ہمارے یہاں کے محاورے کےمطابق دروازے کو اس کی ٹانگ پر کھڑا رکھے ۔

بعض سنی بات تو شروع کرتے ہیں لیکن جب اپنے اقوال کی دلیل پیش نہیں کرسکتے تو یہ کہہ کر بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں کہ:" ت ِلْکَ أمَّة قَدْ خَلَتْ لهَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ " وہ لوگ تھے جو گزرگے ۔ ان کے اعمال ان کے ساتھ ،تمھارے اعمال تمھارے ساتھ ۔

بعض لوگ کہتے ہیں :ہمیں گڑے مردے اکھیڑنے اور جھگڑے کھڑے کرنے  سے کیا؟اہم بات یہ ہے کہ شیعہ سنی دونوں ایک خدا کو مانتے ہیں ، ایک رسول کو مانتے ہیں ، انتا کافی ہے ۔

بعض تو مختصر بات کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : صحابہ کے معاملے میں خدا سے

۷۵

ڈرو ۔" اب ایسے لوگوں کے ساتھ کسی علمی بحث کی گنجائش کہاں ۔ اور رجوع الی الحق کی کیا صورت ۔حق سے ہٹ کر تو گمراہی ہی ہے ۔ ان لوگوں کو اس قرآنی اسلوب کی کیا خبر ، جس میں دلیل پیش کرنے کو کہاگیا ہے ۔قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ اگر تم سچھے ہو تو اپنی دلیل لاؤ)

اکمال دین کی آیت کا تعلق بھی خلافت سے ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً "

شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت امام علی ع کے خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے تقرر کے بعد غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی ۔یہ روایت ائمہ اہل بیت ع کی ہے ۔اور اسی پر شیعہ امامت کو اصول دین میں شمار کرتے ہیں ۔جن سنی علماء نے یہ روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں امام علی ع کے تقرر کےبعد نازل ہوئی ، ان کی تعداد تو بہت ہے ۔ ہم مثال کے طور پر چند ناموں کا  تذکرہ کرتے ہیں :

1:- ابن مغازلی شافعی مناقب علی بن ابی طالب ع صفحہ 19 ۔متوفی سنہ 483ھ۔

2:- خطیب بغدادی ،تاریخ بغداد جلد 8 صفحہ 592 ۔ متوفی سنہ 463ھ۔3:- ابن عساکر  ،تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 75۔

4:- حافظ سیوطی  ،تفسیر ،الاتقان  جلد 1 صفحہ 13۔5:-حافظ سیوطی، تفسیر الدر المنثور جلد 3صفحہ 19۔

6:- خوارزمی حنفی ۔مناقب امیر المومنین صفحہ 80 متوفی سنہ 568ھ۔

7:- سبط ابن جوزی تذکرۃ الخواص صفحہ 30 متوفی سنہ 654۔

8:- حافظ ابن کثیر   تفسیر القران العظیم جلد 2 صفحہ 14 متوفی سنہ 774ھ۔9:- حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 312۔

10:- آلوسی ،تفسیر روح المعانی جلد 6 صفحہ 55

۷۶

11:-حافظ قندوزی حنفی ینابیع المودۃ صفحہ 115۔12:- حافظ حسکانی حنفی تفسیر شواھد التنزیل جلد 1 صفحہ 157 متوفی سنہ 490 ھ۔

اس سبب کےباوجود علمائے اہل سنت نے "عظمت صحابہ" کے پیش نظر یہ ضروری سمجھا ہے کہ اس آیت کا نزول کسی اور موقع پر دکھایا  جائے ۔ کیونکہ اگر علمائے اہل سنت یہ تسلیم کرلیتے  ہیں کہ کہ یہ آیت غدیر خم میں نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے ضمنی طور پر اس کا بھی اعتراف کرلیا کہ علی بن ابی طالب ع کی ولایت ہی وہ چیز تھی جس سے اللہ تعالی نے دین کو کامل کیا اور مسلمانوں پر اپنی نعمت تمام کی ۔ اعتراف کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حضرت علی ع سےپہلے تین خلفاء کی خلافت ہوا بن کر اڑجائے گی ، صحابہ کی عدالت کی بنیاد ہل جائے گی ۔دبستان  خلافت منہدم ہوجائیگا اور بہت سی احادیث اس طرح پگھل جائیں گی جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ اصحاب مذاہب غبار بن کر اڑجائیں گے ، بہت سے راز افشا ہوں گے اور عیب کھل جائیں گے ۔ لیکن یہ ہونا ناممکن ہے کیونکہ معاملہ ایک بہت بڑے گروہ کے عقیدے کا ہے جس کی اپنی تاریخ ہے ، اپنے علماء ہیں اور اپنے سربرآوردہ حضرات ہیں اس لیے ممکن نہیں کہ ہو بخاری  ومسلم جیسے لوگوں کی تکذیب کریں جن کی روایت  کے مطابق یہ آیت عرفہ کی شام کو جمعہ  کے دن نازل  ہوئی ۔اس طرح پہلی روایات  محض شیعوں کی خرافات  بن جاتی ہیں  جن کی کوئی بنیاد نہیں اور شیعوں کو مطعون کرنا صحابہ کو مطعون کرنے سے بہتر بن جاتا ہے ،کیونکہ صحابہ تو معصوم عن الخطا ہیں(1) ۔ اور کسی کو یہ حق نہیں کہ ان کے افعال واقوال پر نکتہ چینی کرے ۔ رہے شیعہ ! وہ تو مجوسی ہیں ، کافر ہیں ، زندیق ہیں ، ملحد ہیں ، ان کے مذہب کا بانی عبداللہ بن سبا ہے ،(2) جو یہودی تھا اور اسلام اور مسلمانوں

--------------------

(1):- اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، جس کی بھی اقتداکروگے ہدایت پاوگے۔

(2):- عبداللہ بن سبا کا کوئی وجود نہیں ۔ دیکھیے کتاب عبداللہ بن سبا مولفہ علامہ مرتضی عسکری ،کتاب الفتنۃ الکبری  مولفہ حسین اور کتاب الصلۃ بین التصوف والتشیع مولفہ ڈاکٹر مصطفی کا مل شیبی ۔آخر الذکر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن سبا سیدنا عمار یاسر کو کہا گیا ہے ،دل چاہے تو کتاب کا مطالعہ کیجئے ۔!

۷۷

کے خلاف سازش کے مقصد سے حضرت عثمان کے عہد میں مسلمان ہوگیا تھا ۔ اس طرحی کی باتیں کرکے ان کو دھوکا  دینا آسان ہے جن کی بچپن سے تربیت ہی " تقدس صحابہ" کے  ماحول  میں ہوتی ہو ۔ (خواہ کسی صحابی نے رسول اللہ  کو صرف ایک دفعہ ہی دیکھا ہو ) ۔ ہم کیسے لوگوں کو یقین دلائیں کہ شیعہ روایات محض شیعوں کی خرافات نہیں ، بلکہ ائمہ اثناعشرکی احادیث ہیں جن کی امامت نصّ رسول ص سے ثابت ہے ۔ بات یہ ہے کہ قرن اول کی حکومتوں نے امام علی ع اور ان کی اولاد کے خلاف امت میں نفرت پھیلائی ،یہاں تک کہ ان پر منبروں سے لعنت کی گئی اور "شیعان علی" کو قتل کیاگیا اور ان کے گھروں سےنکال دیا گیا ۔ شیعوں کے خلاف  نفرت پھیلانے کے لیے ڈس انفارمیشن سیل قائم کیا گیا اور طرح طرح کی  افواہیں پھیلائی گئیں ۔شیعوں سے بے بنیاد قصے اور غلط عقائد منسوب کیے گئے ۔ آج کل کی اصطلاح میں اس وقت شیعہ " حزب مخالف " تھے ، اس لیے  اس وقت کی حکومت شیعوں کو ختم کرنے والا الگ تھلگ کرنے میں کوشاں تھیں ۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے کے مصنفین اور مورخین بھی شیعوں کو رافضی کہتے ہیں ،ان کی تکفیر کرتے ہیں اور حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے شیعوں کا خون کرنا حلال قراردیتے ہیں ۔

جب اموی حکومت ختم ہوگئی اور عباسی حکومت برسراقتدار آئی تو بعض مورخین اپنی ڈگر  پر چلتے رہے جبکہ بعض نے اہل بیت ع کی حقیقت کو  پہچانا(1) اور انصاف  کرنے کی کوشش کی ۔ نتیجہ  یہ ہوا کہ علی ع کا شمان بھی خلفائے راشدین " میں کرلیا گیا لیکن  کسی کو یہ اعلان کرنے کی جراءت نہیں ہوئی کہ خلافت پر سب سے زیادہ حق علی ع کا تھا ۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کی صحاح میں بہت ہی کم فضائل علی ع

-------------------

(1):- وجہ یہ ہے کہ اہل بیت ع نے اپنے اخلاق ، اپنے علوم ، اپنے  زہد وتقوی اور اپنی ان کرامات سے جو اللہ نے ان کو عطا کی تھیں ، اپنے آپ کو منوالیا تھا ۔

۷۸

کی روایات آئی ہیں اور جو آئی ہیں وہ بھی صرف وہی ہیں جو علی ع سے پہلے کے خلفاء کی خلافت سے کسی طرح متصادم نہیں ہیں ۔ بعض نے تو کثیر تعداد میں ایسی روایات وضع کی ہیں جن میں  خود علی ع کی زبان  سے ابو بکر ،عمر ،عثمان کے فضائل بیان  کیے گئے ہیں مقصد یہ کہ بزعم خویش کوشش یہ کی گئی  ہے کہ شیعوں  کا راستہ بند کردیا جائے جو علی ع کی افضلیت کے قائل ہیں ۔

اپنی تحقیق کے دوران مجھ پر یہ بھی انکشاف ہو ا کہ لوگوں کی شہرت اور عظمت کا اندازہ اس سے لگا یا جاتا تھا کہ وہ علی ابن ابی طالب ع کے ساتھ کس قدر بغض رکھتے ہیں ۔ امویوں اور عباسیوں کی سرکار میں وہی مقرب تھے اور ان ہی کو بڑھایا جاتا  تھا جنھوں نے امام علی ع کے خلاف یا تو جنگ کی تھی ۔ یا تلوار یا زبان سے ان کی مخالفت  کی تھی ۔ چنانچہ بعض صحابہ کا درجہ بڑھایا جاتا تھا ، بعض کاگھٹایا جاتا تھا ۔بعض شعراء پر انعام واکرام کی بارش ہوتی تھی اور بعض کو قتل کرادیا جاتا تھا ۔ شاید ام المومنین  عائشہ کی بھی یہ قدرومنزلت نہ ہوتی اگرانھیں علی ع سے بغض نہ ہوتا اور انھوں نے علی ع کے خلاف "جنگ جمل " نہ لڑی ہوتی ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ عباسیوں نے بخاری ،مسلم اور امام مالک کو شہرت دی کیونکہ انھوں نے اپنی کتابوں میں فضائل علی ع کی احادیث بہت کم نقل کی ہیں بلکہ ان کتابوں میں تویہ تصریح بھی ہے کہ علی بن ابی طالب ع کو کوئی فضیلت اور فوقیت حاصل ہی نہیں تھی ۔ بخاری نے تو اپنی صحیح میں ابن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ : رسول اللہ ص کے زمانے میں ہم ابو بکر کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے ، پھر عمر کا درجہ تھا پھر عثمان کا ، پھر باقی صحابہ میں ہم کسی کو دوسروں پر فوقیت نہیں دیتے تھے ۔(1) گویا بخاری

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 191 اور صفحہ 201 ۔باب مناقب عثمان ۔

بخاری نے جلد 4 صفحہ 195 پر حضرت علی ع کے فرزند محمد بن حنفیہ سے ایک روایت منسوب کی ہے کہ انھوں نے کہا : میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ رسول اللہ ص کےبعد سب سے بہترین شخص کون ہے ؟انھوں نے کہا : ابو بکر ۔ میں نے پوچھا : ان کے بعد کہا : عمر ۔میں ڈرا کہ کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ ان کے بعد عثمان ۔ اسی لیے میں نے کہا ان کے بعد آپ کہا یمں تو فقط ایک مسلمان ہوں ۔

۷۹

کے نزدیک علی ع بھی دوسرے عام لوگوں کے برابر تھے ۔(پڑھیے اور سردھنیے !)

اسی طرح امت مسلمہ میں اور بھی فرقے ہیں جیسے  معتزلہ  اورخوارج وغیرہ ۔ یہ بھی وہ نہیں کہتے  جو شیعہ کہتے ہیں ۔کیونکہ علی اور اولاد علی ع کی امامت کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے خلافت  تک  پہنچنے ، عوام کی گردنوں پر سوار ہونے اور ان کی قسمت اور املاک سے کھیلنے کا راستہ مسدود ہوگیا تھا ۔ بنی امیہ اوربنی عباس نے عہد صحابہ وتابعین میں  کیا گل نہیں کھلائے  اور آج تک حکمراں کیا نہیں کرتے آرہے ہیں ؟ اسی لیے حکمرانوں کوخواہ وہ وراثت کے ذریعے اقتدار تک پہنچے ہوں جیسے بادشاہ ، خواہ وہ صدور ہوں جنھیں ان کی قوم نے منتخب کیا ہوا ۔ انھیں خلافت اہل بیت ع کا عقیدہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اسےTHEORACY یا ملاؤں  کی حکومت  کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں جس کا شیعوں کے علاوہ کوئی قائل نہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیعہ اپنی حماقت سے مہدی منتظر کی امامت کےبھی قائل ہیں ، جو عنقریب زمین  کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھردیں گے جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی ہے ۔

اب ہم دوبارہ سکون اور غیر جانبداری کے ساتھ فریقین کے اقوال پر غور کرتے ہیں کہ تاکہ یہ تصفیہ ہوسکے کہ آیت اکمال کسی موقع پر نازل ہوئی تھی ۔ اور اس کی شان نزول کیا ہے  تاکہ حق واضح ہوجائے اور ہم اس کی پروا کیے بغیر کہ کون خوش ہوتا ہے اور کون ناراض  حق کا اتباع کرسکیں ۔ اصل اور سب سے ضروری بات رضائے الہی کا  حصول ہے تاکہ اس کے عذاب سے اس دن بچ سکیں جب نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد ۔ کام آئے گا تو قلب سلیم ۔

یہ دعوی کہ آیت اکمال عرفہ کے دن نازل ہوئی ۔

صحیح بخاری میں طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ کچھ یہودی کہتے تھے کہ اگر آیت ہماری قوم پر نازل ہوئی ہوتی تم ہم اس دن کو اپنی عید بنالیتے ۔عمر نے پوچھا کون سی آیت ان لوگوں نے کہا "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " الخ(1)

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 127

۸۰