کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 10%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

کامیابی کے اسرار ج 1

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات:

صفحے: 259
مشاہدے: 148166
ڈاؤنلوڈ: 4453


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148166 / ڈاؤنلوڈ: 4453
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج 1 جلد 1

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

تجربات فراموش نہ کریں

عقل تجربات کی نگہدا ری کی اساس ہے ۔ جن کے پاس کامل قوت عقل نہ ہو وہ زندگی میں حاصل ہونے والے تجربات کو بہلا دیتے ہیں جن موارد میں ان تجربات سے استفادہ کرنا چا ہیئے وہ اصلاً گزشتہ تجربات کی طرف متوجہ نہیں ہو تے ۔ لیکن عقل مند کسی صورت میں بہی تجربہ سے حاصل ہونے والے درس کو فراموش نہیں کر تا ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) اپنی وصیت میں امام حسن مجتبیٰ(ع) سے فرماتے ہیں :

'' والعقل حفظ التجارب و خیرمٰا جرّبت ما وعظک '' (1)

عقل مند ی تجربات کے محفووظ رکہنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو ۔

اس بناء پر تلخ یا شیریں، شخصی یا دوسروں سے حاصل ہو نے والے ، تمام تجربات کو محفوظ رکہنا اور ضروری موارد میں ان سے استفادہ کر نا ، انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے کیو نکہ تجربات کو محفوظ کرنا اور ان سے سبق سیکہنا ، قوت عقل سے صادر ہو تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحا را لا نوار :ج1 ص 0 6 1 ،نہج البلاغہ مکتوب: 31

۱۴۱

حضرت امیر المو منین(ع)  ایک اور روا یت میں فرما تے ہیں :

'' من التّوفیق حفظ التجر بة '' (1)

تجربات کو محفوظ کرنا توفیقات الٰہی میں سے ہے ۔

ہر حاصل ہونے والے تجربہ کو محفوظ کرو اگر چہ وہ دوسروں کے توسط سے ہی حاصل ہوا ہو ، اور ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کرو ۔ اس صورت میں تو فیق الٰہی انسان کے شامل حال ہو گی ، لہذا بہترین تجربہ وہ ہے کہ جس سے انسان درس لے ، عبرت لے اور اپنے آئندہ کے برناموں میں اس سے استفا دہ کرے ۔

پس اگر تجربہ فراموش کردیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور پہر اس سے مستفید نہیں ہو سکتے جس طرح تاریخ اپنے کو دہرا کے  بہت سے بہولے ہوئے مسائل کو زندہ کر دیتی ہے اسی طرح وقت گزرنے کے ساتہ ، زندگی کے اوراق کی  ورق گر دانی کرنے سے گزرے ہوئے تلخ تجربات بہی تکرار ہو تے ہیں اور گزشتہ تجربہ دوبارہ سے انسان کے ذہن میں نقش ہو جا تا ہے ۔

پس زندگی میں منتخب کئے گئے ہدف تک پہنچنے کے لئے حاصل ہونے والے تجربات کو محفوظ کریں اور ان سے پند و نصیحت لیں. نیز ایسا بہی نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے گزشتہ تلخ تجربات آپ کی زندگی میں دو بارہ تکرار ہو اور جس تجربہ و نتیجہ کا سالوں  پہلے سامنا ہوا تہا اب سالوں بعد پہر اس کا سامنا کرنا پڑے ۔

جی ہاں ! تجربات کو محفوظ کرنا اور  ضرورت کے وقت  ان اسے استفادہ کرنا بزرگان دین کی روش تہی چاہے انہیں وہ تجربات خود حاصل ہوئے ہوں یا انہوں نے دوسروں سے سیکہے ہو ں۔ اس برنامہ سے استفادہ کر تے ہوئے آ پ موجودہ فرصت سے بہترطور پر استفادہ کر سکتے ہیں اور بیشتر توفیقات کو اپنا مقدر بنا سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[2]۔ بحار الا نوار:ج 69ص  10 4

۱۴۲

نتیجہ ٔ بحث

جو عظیم اہداف کی جستجو میں ہوں اور اعلیٰ علمی و عملی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں وہ تجربہ کے ذریعہ اپنی علمی و معنوی قدرت و قوت کر بڑہائیں ۔

تجربہ آپ کی علمی  وعملی قوت کی افزائش کرتا ہے ، کیو نکہ تجربہ کے ذریعہ آپ کی عقل تجربی میں اضافہ ہو تا ہے اور آپ پہر اپنے حقیقی دوستوں کو احسن طریقہ سے پہچان سکتے ہیں اور فریبیوں اور مکاروں کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

تجربہ کے ذریعہ آپ اپنے ماضی کے نقصان و کمی کا جبران اور اپنے آئندہ کو درخشاں بناسکتے ہیں ان کے علمی و عملی تجربات کی بنیاد پر ہے اپنے اور بزرگ شخصیات کے تجربات سے اپنی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کریں اور ان سے استفادہ کر تے ہوئے دنیا کی علمی و معنوی فضا میں پرواز کر یں ۔ اس بناء پر ہم سب تجربہ کے محتاج و ضرورت مند ہیں ۔

یک نصیحت بشنو از من کا ندر آن نبود غرض

چون کنی رأی مہمی ، تجربت از پیش کن

مصلحت از لفظ دینداری کا مل عقل جو

مشورت با رأی نزدیکان دور اندیش کن

جب کسی امر میں اپنی رائے کا اظہار کرو تو اپنے سابقہ تجربات سے کام لو،دینداری اور عقل کامل سے امور کی مصلحتوں کو جاننے کی کوشش کرو ہمیشہ دور اندیش دوستوں سے مشورہ لو۔

۱۴۳

نواں  باب

نفس  کی  مخالفت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' عظَم ملکٍ ملک النَّفس ''

عظیم ترین ملکیت نفس کی ملکیت ہے۔

    مخالفت نفس یا نفس پر حکومت

    عقل پر نفس کا غلبہ

    نفس کا معالجہ

    اصلاح نفس کے لئے دعا

    مخالفت نفس کی عادت

    اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا

    قدرت نفس

    نتیجۂ بحث

۱۴۴

مخالفت نفس یا نفس پر حکومت

انسان نفس کی مخالفت اور خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرنے سے ذہنوں سے بالاتر روحانی طاقت حاصل کر سکتا ہے اور روح کی عجیب قوت سے بہرہ مند ہو سکتا ہے انسان روحانی قوت کے تشکّل اور حصول سے اپنی اور دوسروں کی بہت سی مشکلات کو آسان کر سکتا ہے ۔

جس طرح نفس کی مخالفت یا نفس پر حکومت پراکندہ روحانی قوتوں کو جمع کرتی ہے اور انہیں فعال اور کارساز بنا تی ہے ۔

مخالفت نفس کو پانی کے سامنے باندہے گئے بند سے تشبیہ دے سکتے کہ جو نہ صرف اسے ضائع ہونے سے بچا تا ہے بلکہ پانی کے جمع ہونے کی صورت میں بجلی کی پیداوار کا بہترین ذریعہ بہی ہے کہ جس سے شہر روشن اوربڑے بڑے کارخانے آباد ہوتے ہیں ۔

اسی طرح نفس کی مخالفت انسان کی روحانی اور آسمانی قوتوں کو ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ روحانی قوت کے جمع ہونے کی صورت میں یہ ایک عام اور معمولی انسان کو صاحب ارادہ اور باشخصیت انسان میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

عقل اسی بند کی مانند ہے خداوند تعالی نے جسے انسان کی ذات میں قرار دیا ہے تاکہ اس  کے ذریعہ نفس کو لگام ڈال سکے اور روحانی قوتوںکو متمرکز کر سکے۔

کیا آپ نفس کی مخالفت سے اس عظیم روحانی طاقت سے استفادہ کرنے کو تیار ہیں جسے خداوند کریم نے آپ کے وجود میں قرار دیا ہے ؟

۱۴۵

جس طرح زمین کی گہرائیوں میں بہت سے قیمتی خزانے موجود ہیں ، اسی طرح ہماری نفسانی خواہشات کے پس پردہ بہی عجیب روحانی طاقتیں موجود ہیں ۔ جس طرح خاک اور مٹی کو ہٹانے کے بعد خزانے تک پہنچ سکتے ہیں ، اسی طرح نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرکے روح کی قوت حاصل کر سکتے ہیں ۔

جس طرح نفس کی موافقت روحانی قوت وطاقت کو نابود کر دیتی ہے اسی طرح نفس کی مخالفت اور خواہشات نفسانی کو ترک کرنے سے آپ میں روحانی طاقت ظاہر ہوگی اور آپ کا دل صاحب حیات بن جائے گا۔ اس صورت میں آپ ایسی بزرگ طاقت کے مالک بن جائیں گے کہ جس کے وجود کی وجہ سے آپ خود تعجب کریں گے ۔

حضرت رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

'' بمَوت النَّفس یَکون حَیَاة القَلب '' (1)

نفس کی موت سے دل کو حیات ملتی ہے ۔

جب نفس سے حیوانی خصلت ختم ہوجائے تو رحمانی حالات اس میں مستقر ہوجاتے ہیں اور قلب کی حیات کا وقت آجاتا ہے ۔ اس روایت کے ضمن میں رسول اکرم(ص)  نے انوار معارف سے بیکراں دریا کو بیان فرمایا ہے حیات قلب سے روحانی ومعنوی توانائی  ایجاد ہوتی ہے اور بے مثال معنوی قدرت حاصل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج 70ص19۳،مصباح الشریعہ: 61

۱۴۶

عقل پر نفس کا غلبہ

قوت نفس اس قدر قوی و سرکش ہے کہ جو انسان کے فطری مسائل کو بہی تبدیل کر سکتا ہے اور اسے اپنے عزیز ترین اور قریبی ترین فرد کو قتل کرنے  کے لئے آمادہ کر سکتا ہے ۔ حالانکہ قرابتداروں سے محبت انسان کی فطرت وطبیعت میں شامل ہے ۔ لیکن نفس ان کی محبت کو دل سے نکال کر اس کی جگہ بغض و عداوت ڈال سکتا ہے قابیل وہ پہلا فرد ہے کہ جس سے یہ جنایت سرزد ہوئی اس بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے ۔

'' فَطَوَّعَت لَه نَفسَه قَتلَ اَخیه فَقَتَلَه فَاَ صبَحَ من الخَاسرینَ''(1)

پہر اس کے نفس نے اسے بہائی کے قتل پر آمادہ کیا اور اس نے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا ۔

اس بناء پر نفس نہ صرف انسان کی صفات کو تغییر دے سکتا ہے بلکہ وسوسہ کہ ذریعہ انسان کے فطری مسائل کو بہی بدل سکتا ہے ۔ جس طرح قابیل نے اپنے دل میں ہابیل کی محبت کے بجائے اس کے لئے بغض و عداوت اور دشمنی کو جگہ دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] سورہ مائدہ آیت30:

۱۴۷

اور اسے قتل کر کے اس کے خون سے اپنے ہاتہوں کو رنگین کیا۔ایسے موارد میں نفس عقل پرحکومت کرتا ہے ۔ کیونکہ کبہی نفس اتنا قوی ہوتا ہے کہ عقل اپنی تمام تر توانائی و طاقت کے باوجود ارشاد اور راہنمائی سے قاصر ہوتی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع)  فرماتے  ہیں :

'' وَکَم من عَقل ٍاَسیر تَحتَ هویٰ اَمیرٍ''(1)

عقل کا نفس کے تابع اور نفس کا حاکم ہونا بہت زیادہ ہے ۔

بہت سے افراد بہت زیادہ عقلی قوت سے آراستہ ہوتے ہیں اور ذاتاً اعلیٰ اہداف تک پہنچنے کے لئے آمادہ و تیار ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ نہ صرف اس پر ارزش معنوی سرمایہ سے استفادہ کرتے ہیں بلکہ نفس امّارہ کی پیروی سے عقل کو نفس کے تابع کرتے ہیں اور عقل کی ارشاد وراہنمائی کی قدرت کو نابود کردیتے ہیں ،اسی بناء پر اپنے نفس کا علاج کریں اور عقل کو اس کی اسارت سے نجات دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: 202

۱۴۸

نفس کا معالجہ

نفس ایک عجیب موجود ومخلوق ہے کیونکہ یہ انسان کو انسانیت کے بالاترین درجات تک  لے جاسکتا ہے جس طرح یہ اسے رذالت کے خوفناک درّوں میں قرار دے سکتا ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفس کو آزاد نہ چہوڑیں اور اس کی چاہت کو آزاد نہ چہوڑیں ۔

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

''  لَا تَدَع  النَّفسَ وَ هوَاها''(1)

نفس اور خواہشات کو آزاد نہ چہوڑیں۔

کیونکہ نفس ایک عظیم قوت ہے لیکن سرکش اور نا فرمان ہمیں اس پر غالب آنا چاہیئے تا کہ اس کی قدرت سے استفادہ کرسکیں۔

امام صادق (ع) ایک روایت کے آخر میں نفس کی دوا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

'' وَکَفّ النَّفس  عَمَّا تَهوی دَوَاها''(1)

نفس کو اس چیز سے روکنا کہ جس کی وہ ہوس یا خواہش کرے،نفس کی دوا ہے۔

نفس کے معالجہ سے اسے ایک سالم و رحمانی قدرت میں تبدیل کریں اور آپ کے وجود میں موجود اس روحانی قوّت سے بہرہ مند ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ اصول کافی:ج 2ص 336

۱۴۹

نفس کی مخالفت سے اپنے وجود میں بالقوة موجود قدرت اور عظیم قوّت کو فعلیت کی منزل پر لاکر آپ اس سے بہتر طریقہ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

جو اپنے مستقبل کو روشن و درخشان کرنا چاہیں وہ ولایت معصومین کے تابناک انوار سے منوّر ہوکر نفسانی حالات کو ختم کرکے ان میں تحول ایجاد کریں۔جب انسان اپنے نفسانی حالات کو تغیر دے تو اس کے معنوی حالات بہی تبدیل ہوجائیں گے۔

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

'' انَّ اللّٰه لَا غَیّر مَا بقَومٍ حتّٰی یغَیّروا  مَا باَنفسهم''(1)

خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے۔

اس بناء پر معاشرے کی سرنوشت ،نیک بختی اور بد بختی کی بنیاد ان کے نفسانی خواہشات ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ رعد آیت:11

۱۵۰

اصلاح نفس کے لئے دعا

ہوس نفسانی اور خواہشات نفسانی سے نجات کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا اور اہل بیت عصمت علیہم السلام سے متوسل ہوں ایسا کرنا بہت مئوثر ہے ۔ اسی وجہ سے اائمہ اطہار علیہم السلام  بہت سی روایات میں ہماری راہنمائی فرماتے ہیں کہ خواہشات نفسانی کے بر طرف ہونے کے لئے دعاکریں۔

نمونہ کے طور پر ہر شب چہار شنبہ پڑہی جانے والی دعا میں وارد ہوا ہے :

'' اللهم-----اَصلح مَا بَینی وَ بَینَکَ وَاجعَل هوَایَ فی تَقوٰکَ''(1)

پروردگارا ! میرے اور اپنے درمیان اصلاح فرما اور میری خواہشات کو اپنی مخالفت سے پرہیز کی صورت میں قرار دے ۔

مہذب نفس کی خواہشات نفسانی تقوی الہی کے علاوہ کچہ نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اگر ہم پست نفسانی خواہشات سے دور رہنا چاہیں تو تہذیب نفس و اصلاح نفس اور خود سازی کی دعا کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج 193ص90 ، البلد الامین127 ، المصباح 123

۱۵۱

مخالفت نفس کی عادت

جو عمل بہی نفس کی خاطر انجام پائے ، اگر چہ وہ بہت چہوٹا کام ہو تو وہ عمل روحانی طاقت کی کچہ مقدار کو زائل کر دیتا ہے نفس کی مخالفت سے انسان میں یہ قوت متمرکز ہوتی ہے کہ جس سے نورانیت ایجاد ہوتی ہے جس قدر نفس کی مخالفت زیادہ ہو اسی قدر روحانی قوت بہی بیشتر ہوجاتی ہے ۔ نفس کی مخالفت کے ہمراہ بہت سی مشکلات ا ور سختیاں بہی آتی ہیں کہ بہت سے لوگ ان ہی مشکلات کی  وجہ سے اس کام سے  ہاتہ روک لیتے ہیں دوسرا گروہ خواہشات نفسانی کے ساتہ مبارزہ آرائی کرتا ہے لیکن استقامت اور ثابت قدم نہ ہونے کی وجہ سے کچہ مدت کے بعد وہ اپنے کو آزاد چہوڑدیتا ہے اور پہر وہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچہے چل پڑتا ہے۔

ایک نکتہ کی جانب توجہ کرنے سے آپ ایسے افراد کو روحانی اعتبار سے تقویت دے سکتے ہیں اور جو اس راہ کو ادامہ نہیں دے سکے ، ان میں امید کی شمع روشن کر سکتے ہیں۔ وہ نکتہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی اہمیت سے عبارت ہے نفس کی مخالفت سے وجود میں آنے والی سختیاں اور زحمات نیک کاموں کے عادی ہوجانے سے بر طرف ہوجاتی ہیں کہ پہر مخالفت نفس کو ترک کرنا مشکل ہوجائے گا ، اسی وجہ سے حضرت امام باقر(ع) کا فرمان ہے :

'' عَوّدوا اَنفسَکم اَلخَیرَ'' (1)

اپنے نفوس کو نیک کاموں کی عادت ڈالو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار :ج46 ص244،الخرائج229

۱۵۲

کیونکہ نیک کاموں کی عادت سے نہ صرف انسان برے کاموں سے ہاتہ اٹہا لیتا ہے بلکہ نیک کاموں کی مزید عادت ڈالتا ہے اگرچہ وہ کام بہت مشکل اور پر زحمت ہی کیوں نہ ہو ں کسی بہی چیز کی عادت انسان کی ذات کا حصہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے ، پہر انہیں انجام دینا مشکل نہیں ہوتا بلکہ انہیں ترک کرنا رنج والم کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا کار خیر کو انجام دینے اور ان کی عادت سے آپ نہ صرف بہت آسانی سے نفس کی مخالفت کرسکتے ہیں ، بلکہ ان کی عادت ہوجانے سے ان کو ترک کرنا آپ کے لئے رنج آور ہوگا ۔

جب کوئی خائن شخص پہلی بار چوری یا کوئی اور خیانت انجام دے تو اس کا ضمیر شرم وگناہ محسوس کرے گا ، اس کا ضمیر قبول کر لے گا کہ اس کے نفس نے زشت وناپسندیدہ کام انجام دیا ہے لیکن گناہ کو تکرار کرنے سے آہستہ آہستہ اس میں سے احساس شرم وندامت ختم ہوجائے گی پہر گناہ کو انجام دینے سے اسے نہ گناہ وشرم کا احساس ہوگا بلکہ اس کی عادت پڑ جانے سے اس کو چہوڑنا بہی بہت مشکل ہوجائے گا ۔

جس طرح وقت گزرنے کے ساتہ ساتہ گناہ کو بارہا تکرار کرنے سے بعض اس کے عادی ہوجاتے ہیں پہر ان کے لئے ترک کرنا مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح اولیاء خدا اور اہل بیت کے تقرب کی راہ میں جستجو کوشش کرنے والوں کے لئے سخت عبادی برنامہ کو انجام دینے میں کوئی مشکل وزحمت نہیں ہوتی۔

بلکہ انہیں اس سے لگن ہوجاتی ہے کہ پہر وہ کسی صورت بہی اسے ترک نہیں کر سکتے مخصوصا ًجب وہ اپنے اور برنامہ کے مہم آثار کو جانتے ہوں تو اس طرح بعض افراد کے لئے مخالفت نفس مشکل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے لئے موافقت نفس مشکل ہوتی ہے۔

۱۵۳

بعض افراد کو مخالفت نفس کی عادت ڈالنے اور خواہشات نفسانی کو ختم کرنے کے لئے مرور زمان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ناگہانی تفسیر سے اپنے نفس میں تحول ایجاد کرتے ہیں اور ایک  نئی شخصیت  کے مالک بن جاتے ہیں۔ پوریا ولی ان ہی افراد میں سے ایک ہیں۔

پوریا ایک پہلوان تہا کہ اس کے شہر میں کوئی بہی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تہا وہ دوسرے شہروں میں جاکر بہی تمام پہلوانوں کو مغلوب کردیتا۔پہر اس نے دارالخلافہ جانے کا قصدکیا تاکہ وہاں جاکر بہی تمام پہلوانوں کو شکست دے اور خود ان کی جگہ بیٹہے۔

اس کی طاقت کا چرچابہت دور دور تک ہو ررہا تہا اسی وجہ سے جب اس نے دارالخلافہ جانے کا قصد کیا تو وہاں کے پہلوانوں کے دل میں اس کا بہت رعب بیٹہ گیا اور وہ مہموم  ومتفکر ہو گیا اس کی ماں نے پریشانی کی وجہ پوچہی تو ا س نے اپنی پریشانی کی علت بیان کی ۔

اس کی ماں ایک صالحہ اور بااعتقاد عورت تہی وہ متوسل ہوئی اورہر روز نذر کرتی وہ حلوا پکاتی اور شہر کے دروازے پر بیٹہے فقراء و مساکین میں  تقسیم کرتی ۔پہر ایک دن پوریا اس شہر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے دیکہا کہ ایک عورت بیٹہی ہے جس کے سامنے کچہ حلوا  پڑا ہے وہ قریب آیا اور پوچہا اس کی کتنی قیمت ہے؟ عورت نے کہا کہ فروخت کرنے کے لئے نہیںبلکہ نذر کی ہے؟

۱۵۴

عورت نے کہا : میرا بیٹا دارالخلافہ کا پہلوان ہے اور اب کسی پہلوان نے یہاں آکر اسے شکست دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ اگر ایسا ہو اتو ہمارا مال اور اعتبار دونوں برباد ہوجائیں گے ۔ پوریا نے دیکہا کہ وہ عورت حضرت حق سے متوسل ہوئی ہے یہاں اسے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی:

'' یا اَیّهاالَّذینَ اٰمَنوا کونوا اَنصَارَالله ''(1)

اس نے سوچا کہ اس جوان کو پچہاڑدوں تو سلطان کے دارالحکومت کا پہلوان بن سکتا ہوں اور اگر اپنے نفس کو شکست دے دوں تو خدا کے دارالحکومت کا پہلوان بن جائوں گا پس اس نے اپنے آپ سے کہا کہ رضائے خدا کے لئے اس بوڑہی عورت کو ناامید نہیں کروں گا۔

پہر اس نے عورت کی طرف دیکہ کر کہا کہ ماں تمہاری نذر قبول ہو گئی۔ اس نے اپنے چالیس حامیوں میں  حلوا تقسیم کیا اور شہر میں وارد ہو گئے ۔

معین دن میں  دارلحکومت کا پہلوان ، ہواس باختہ پوریا کے ساتہ کشتی لڑنے کے لئے حاضر ہوا۔پوریا کے حامیوں نے اس سے کہا کہ ہم میدان میں جاکر اس کو سبق سکہاتے ہیں۔انہوں نے بہت اصرار کیا لیکن پوریانے قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ میرا کام ہے اور کسی دوسرے کو اس سے سروکار نہیں۔

پوریا میدان میں گیا وہ اپنے نفس کو ہرانے کی ہمت رکہتا تہا دارالحکومت کا پہلوان اس سے لڑنے کے لئے آیا ۔پوریا نے اپنے آپ کو سست  کرلیا اور اس کے حریف نے دیکہا کہ وہ بہت سست ہے اس کا دل قوی ہوگیا اس نے پوریا کو اٹہا کر زمین پر دے مارا اور اس کے سینہ پر بیٹہ گیا ۔ جب پوریا کی پیٹہ زمین پہ لگی تو اس کے لئے بہت سے راز منکشف ہو گئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ صف آیت :14

۱۵۵

افتادگی  آموز اگر قابل فیضی         ہر گز نخورد آب زمینی کہ بلند است

اگرچہ اس جوان نے پوریا کو پچہاڑ دیا ۔ لیکن خدا نے اسے اولیاء پاک میں سے قرار دیا یہ شعر پوریا ولی کے سرود میں سے ہے ۔

گر بر نفس خود امیری مردی            وربر دگری نکتہ نگیری مردی

مردی نبود فتاد را پای زدن               گر دست فتادہ ای بگیری مردی

اگر تمہیں اپنے نفس پر اختیار ہواور دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو  تو تم مرد ہو،گرے ہوئے کو ٹہوکر مارنا مردانگی نہیں ہے  بلکہ گرے ہوئے کو تہامنا مردانگی ہے۔آپ بہی پوریا کی طرح پختہ عزم وارادہ اور خدا کی امداد اور مہربانی سے نفس کی مخالفت کر سکتے ہیں اور مختصر مدت میں اس پر قابو پا سکتے ہیں۔

۱۵۶

اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا

نفس کے بارے میں بحث بہت اہم ہے جالب اور قابل توجہ ہے جس کی تفصیل کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ۔ لیکن ہم خلاصتًا کہتے ہیں کہ جس طرح نفس ہمیں اپنے فطری مقام سے حیوانات کے درجہ پر گرادیتا ہے اسی طرح یہ ہمیں نورانی، روحانی اور ملکوتی ملکوت کے بلند مقام پر پہنچاسکتا ہے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فرماتے ہیں :

'' مَن اَصلَحَ نَفسَه مَلَکَها ''(1)

جو اپنے نفس کی اصلاح کرے وہ اس کا مالک ہے ۔

جو اپنے نفس کا مالک ہوا وہ اس کی قوت و قدرت سے بہرہ مند ہوتا ہے ۔کیونکہ اصلاح وتہذیب نفس سے نفس عقل کے تابع ہوجاتا ہے ۔ اس وقت پست نفسانی خواہشات کنٹرول ہوجاتی ہیں حتی کہ نفسانی خطورات بہی آسانی سے صفحہ ذہن کو آلودہ نہیں کرسکتے ۔

اب اس وقت نفسانی خواہشات نیز گرائش رحمانی حاصل کر لیتی ہیں۔پہر آہستہ آہستہ نفس عقل کے ہمراہ اور ہمقدم ہوجائے گا پہر وہ عقل سے مبارزہ نہیں کرے گا بلکہ قوت عقلی کی پشتیبانی کرے گا جب آپ کی نفسانی قدرت مکمل طور پر قوہ عقلی کے ماتحت وتابع ہوجائے تو حالت( تروّح) ایجاد ہوتی ہے اس دوران آپ اپنے جسم سے مادیت کے آثار کو نکال سکتے ہیں  اور مادہ کے اثرات کو ختم کرکے خوبصورت اور جذاب ترین حالات ایجاد کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص۱6۰

۱۵۷

قدرت نفس

بزرگوں میں  سے ایک بزرگ نفس کی قدرت یوں بیان کرتے ہیں ۔

نفس اپنے مقام میں خلّاقیت سے خالی نہیں ہے کیونکہ انشائ صور کرتا ہے اور اس وجہ سے خلاقیت حق کی صفت کا مظہر ہے ۔

اے عزیز ! تم میں بہی یہ مظہریت ہے لیکن تمہارا اثر مطلوب ضعیف ہے ،چونکہ تمہارا وجود ضعیف ہے۔ تم آگ کا دریا خلق کرتے ہو حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ صور خیالیہ اگر قوی ہوجائیں تو اثر پیدا کرتی ہیں انبیاء کے معجزات میں سے ایک قوت نفس تہی کہ جسے محض ارادہ کرنے سے خلق کردیتے تہے لیکن چونکہ ہمارا نفس ضیّق ہے جو اس سے بڑہ کر توان و قوت نہیں رکہتا اسی وجہ سے بہشت میں نفوس قوت پائیں گے پس ایسا کام کرو کہ یہ نفس اسی دنیا میں کامل ہوجائے

کیونکہ جب انسان کا نفس اصلاح وتکمیل کے ذریعہ خلّاقیہ قدرت سے آراستہ ہوگا محض فکر وخطور سے جس چیز کا ارداہ کرے اسے خارج میں متحقق کرسکے گا ۔

جی ہاں ! جس طرح حضرت امیرالمومنین (ع)  فرماتے ہیں :

'' مَن قَویَ عَلیٰ نَفسه تَنَاهٰی فی القدرَة''(1) جو اپنے نفس پر قوی ہوجائے وہ قدرت کے لحاظ سے انتہاء کو پہنچ جا تا ہے

آپ بہی پختہ ، سنجیدہ عزم و ارادہ کے ذریعہ خداوند متعال سے مدد طلب کرکے اپنے نیک رفتاروکردار سے اپنے مستقبل میں عظیم تحول ایجاد کریں اور ایک جدید اور ممتاز قدرت وشخصیت حاصل کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1]۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۵۴

۱۵۸

نتیجۂ بحث

خداوند کریم نے انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ جو اپنے اندر موجود عظیم روحانی قدرت سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن انسان کا نفس اسے نابود اور برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نفس کی مخالفت خود سازی کے اساسی عوامل وشرائط میں سے ہے اپنے نفس کو کنٹرول کریں تاکہ عقلی قوت رشد وپرورش پائے آپ اپنے نفس کی مخالفت سے اپنی عقل کو قوی بنائیں اور نہ صرف اس قوت کو نابودی کے خطرے سے بچائیں بلکہ اسے فعال بنا کر خلاقیت بخشیں ۔

روحانی قوت کے لحاظ سے پیشرفت کرکے تکامل تک پہنچیں بلکہ کاملاً نفس کی مہار اپنے ہاتہوں میں لیں اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرکے اس کی اصلاح کریں تاکہ آپ کے وجود میں عجیب اور ذہنوں سے بالاتر قدرت فعال ہوجائے اور پہر اس سے استفادہ کریں اور بزرگان کی طرح روحانی قوت کے ذریعہ دین اور مکتب اہل بیت کی بہترین طریقے سے خدمت کریں۔

زد سحر طایرقدسم زسرصد رہ صفیر کرد             کہ در  این دا مگہ حادثہ آرام مگیر

بال بگشا وصفیر از شجر طوبی زن                    حیف باشد چوتو مرغی کہ اسیرقفسی

طائر قدسی ہمہ وقت یہ آواز دے رہا ہے کہ خبردار اے جال میں پہنسے پرندے آرام سے نہ بیٹہو بلکہ دام سے نکل جانے کی بہرپور کوشش کرو ،اور ہمیشہ بال و پر مارتے رہو تاکہ قفس سے آزاد ہوجائو لیکن صد افسوس کہ تم جال میں پہنس چکے ہو۔

۱۵۹

دسواں باب

صبر و استقامت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''مَرَارَة الصَّبرتَذهبهاَ حَلَاوَة الظَّفر ''

صبر کی تلخی کامیابی کی حلاوت و شیرینی ختم کر دیتی ہے ۔

    صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی

    صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث

    صبر حضرت ایوب (ع)

    اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا

    مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

    صبر قوت وقدرت کا باعث

    نتیجۂ بحث

۱۶۰