کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 10%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

کامیابی کے اسرار ج 1

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات:

صفحے: 259
مشاہدے: 148168
ڈاؤنلوڈ: 4453


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148168 / ڈاؤنلوڈ: 4453
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج 1 جلد 1

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی

جن تلخیوں میں صبر سے کام لیں تو پہر انسان ان تلخیوں کو بہول جاتا ہے اور انسان کے لئے سختیاں آسان ہوجاتی ہیں ۔

بزرگان الہی شیریں نتائج تک پہنچنے کے لئے صبر سے کام لیتے اور صبر کو اسرار کے خزانوں کی چابی سمجہتے ۔ وہ معتقد تہے کہ ان خزانوں تک پہنچنے کے لئے ان کی چابی یعنی صبر کا ہونا ضروری ہے ۔

حضرت امام حسن (ع)  اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :

فَلَستم اَیّهاالناس نَائلین مَا تحبّونَ الَّا بالصَّبرعَلیٰ مَا تکرهون(1)

اے لوگو ! تم جسے چاہتے ہو اس تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ جس چیز سے تمہیں کراہت ہو اس پر صبر کرو ۔

اس فرمان میں امام حسن مجتبی (ع) ہدف تک پہنچنے کے لئے صبر کومستقیم راہ قرار دیتے ہیں ۔ مورد نظر اہداف تک پہنچنے کے لئے شرط موانع اور مشکلات کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے کیونکہ صبر قوت وارادہ کی ہمت میں اضافہ کا باعث ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الانوار:ج 50ص44

۱۶۱

صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث

ارادہ کی بحث میں ہم نے اس کے مثبت اثرات کو ذکر کیا اور ہم نے عرض کیا کہ کہ ہر بلند اہداف رکہنے والے کے لئے ارادہ کا وجود ضروری ہے نیز ہم نے ارادہ کو ایجاد اور اسے تقویت دینے کے طریقے بہی ذکر کئے اب ہم مورد بحث موضوع میں اس کی اہمیت کو بیان کریں گے ۔

صبر ارادہ کی مئوثر ترین راہ ہے اس کی وجہ سے صبر کرنے والے شخص کی قدرت ارادہ قوی ہوجاتی ہے۔ قدرت ارادہ کے قوی ہونے سے مشکلات اور سختیاں آسانی سے حل ہوجاتی ہیں خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

''  وَاصبر عَلیٰ مَا اَصَابَکَ انَّ ذٰلکَ من عَزم الامور'' (1)

اس راہ میں جو مصیبت پڑے اس پر صبر کرو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ لقمان آیت:۱۷

۱۶۲

اگر ز سہم حوادث مصیبتی رسدت

درین نشین حرمان کہ موطن خطر ست

مکن بہ دست جزع دام صبوری چاک

کہ آہ ونالہ دراینجا مصیبت دگر ست

اگر تمہیں زمانے کے حوادث میں سے کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کی وجہ سے مایوس نہ ہو جانا کیونکہ دنیا مصیبتوں کا گہر ہے مصیبتوں پر واویلا کرکے صبر کا دامن چاک نہ کرناکیونکہ یہاں آہ و واویلا کرنا ایک اور مصیبت ہے۔

جو مصیبتوں سختیوں اور مشکلات کے سامنے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو مشکلات کو تحمل کرنے سے ان میں عزم وارادہ قوی اور راسخ ہوجاتاہے ۔کیونکہ صابر انسان جب مشکلات و مصائب کو برداشت کرتا ہے تواس سے اس میں قوت ارادہ تقویت پاتی ہے اور اسے دیگر موانع کے سامنے بہی صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرتا ہے۔کبہی قوت مقاومت اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ اس کا دل لوہے کی طرح مضبوط ہوجاتاہے ۔

پہر وہ ہر قسم کے شیطانی وسوسہ اور خواہشات نفسانی کے مقابلے میں مقاومت کر سکتا ہے ایسا انسان اپنی توانائی کے مطابق امر ولایت آل اللہ کو قبول کرتا ہے اور خاندان وحی کے عقائدومعارف کو دل وجان سے قبول کرتا ہے اور خدا کے امتحان سے عہدہ برآمد ہوتا ہے ۔

۱۶۳

صبر حضرت ایوب (ع)

حضرت ایوب (ع) وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے مشکلات ومصائب کے سامنے صبر کیا اور خداوند متعال کے سخت امتحان سے بخوبی عہدہ برآمد ہوئے ۔

وہ مختلف گرفتاریوں اور مصائب میں مبتلا ہونے سے پہلے چالیس سال تک انہیں خدا کی عظیم نعمتیں میسر رہیں ۔ہر دن ہزار افراد ان کی نعمتوں کے دسترخوان سے استفادہ کرتے اور ان کی زراعتی زمین اس حدتک تہی کہ انہوں نے امر فرمایا تہا کہ ہرانسان یا حیوان ان کی زراعت سے جس چیز سے بہی چاہے استفادہ کر سکتا ہے چار سو غلام ان کے اونٹوں کے ساربان تہے ۔

پہر ایک دن حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا ! اے ایوب  تمہاری نعمتوں کا زمانہ ختم ہوگیا اب مصیبتوں اور گرفتاریوں کا وقت آپہنچاہے، اب ان کے لئے آمادہ و تیار رہو ۔

حضرت ایوب (ع)مصیبتوں کے آنے کے منتظر تہے ۔ ایک دن نماز صبح کے بعد اچانک ایک آواز آئی یہ پر دردناک آواز تہی جس کی طرف آپ متوجہ ہوئے،یہ شبان کی آواز تہی۔

جناب  ایوب (ع) نے پوچہا شبان کیا ہوا ہے ؟ شبان نے کہا پہاڑوں کے دامن سے آنے والے سیلاب میں تمام گلّہ بہہ گیا ہے اسی وقت ساربان اپنی گریبان چاک کرکے آیا اور کہا ! سمانی بجلی گرنے سےتمام اونٹ ہلاک ہوگئے ۔

۱۶۴

اسی وقت باغبان ہراسان ہوکر آیا اور کہا آندہی چلنے سے تمام درخت گر گئے ۔حضرت ایوب() یہ سب سن رہے تہے اور ذکر خدا میں مشغول تہے کہ ان کے بیٹوں کا معلم آہ وفغاں کرتا ہوا آیا اور کہا کہ آپ کے بارہ بیٹے آپ  کے بڑے بہائی کے گہر مہمان تہے اچانک گہر کی چہت ان پر گری اور تمام کے تمام اس دنیا سے چلے گئے ۔

اس وقت حضرت ایوب (ع) کی حالت تہوڑی تبدیل ہوگئی لیکن وہ جلد ہی متوجہ ہوگئے اور سجدہ میں گرکر کہا:

پروردگارا! جب تم میرے ساتہ ہو تو گویا میں ہر چیز رکہتا ہوں جب ان کا تمام مال اور اولاد ختم ہوگئے تو پہر ان پر طرح طرح کی بیماریوں  نے حملہ کیا وہ کئی سال تک بدترین وضعیت وکیفیت میں رہے لیکن انہوں نے اسی طرح صبر واستقامت کا دامن نہ چہوڑا اور خدا کے سخت ترین امتحان میں کامیاب ہوئے یہاں تک کہ امتحان کا وقت تمام ہوا ۔

انہوں نے سالوں بعد خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:

''انّی مَسَّنی الضّرّوَ اَنتَ اَرحَمَ الرَّاحمین'' (1)

مجہے بیماری نے چہو لیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے ۔

پہر ان کی دعا مستجاب ہوئی اور انہیں مشکلات ومصائب سے نجات ملی ۔

ترسم بہ عجز حمل نماید وگرنہ من      شرمندہ می کنم بہ تحمل زمانہ را

میں اپنے عجز و ناتوانی سے خائف ہوں کہ کہیں وہ مجہے اپنی لپیٹ میں نہ لے ورنہ میں زمانے کی سختیوں کو برداشت کرکے شرمندہ کر سکتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ انبیاء آیت :83

۱۶۵

اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا

بعض لوگ مصائب ومشکلات  کے مقابل میں صبور وبردبار ہوتے ہیں اور بعض لوگ زندگی کی تلخیوں اور مصائب اور مشکل امور کے مقابل میں تحمل وبرداشت کی طاقت نہیں رکہتے ۔

ایسے افراد کچہ ایسی مشکلات جنہیں صبر واستقامت کے ذریعہ ختم کر سکتے ہیں ۔ ان کو ختم کرنے کے بجائے کچہ اور مشکلات ایجاد کرتے ہیں  جو ان کی زندگی کو برباد کردیتی ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین  (ع) فرماتے ہیں :

'' وَ عَوّد نَفسکَ باالتَّصَبّر'' (1)

اپنے نفس کو صبر و استقامت کی عادت ڈالو ۔

کیونکہ نفس آرام پسند ہے جو کہ سختیوں اور تلخیوں سے بہاگتا ہے ۔

جو انہیں تحمل کرنے کی تاب نہیں رکہتا  وہ کبہی بہی بلند مقامات تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اگر چاہتے ہیںکہ  نفس مشکلات  ودشواریوں کو تحمل کر سکے تو صبر کا درس سیکہیں اور اپنے نفس کو صبر کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ عظیم واعلی اہداف تک پہنچ سکیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔  نہج البلاغہ مکتوب: 31

۱۶۶

کیونکہ کہ کسی بہی کام میں اکراہ واجبار کاکوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ بہت سے موارد میں اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں ، حتی کہ صبر واستقامت بہی اس صورت میں نافع ہے کہ نفس اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو ۔ اسی وجہ سے حضرت خضر(ع)نے حضرت موسیٰ    (ع)سے فرمایا :'' وَ طّن نَفسَکَ عَلی الصَّبر'' (1) اپنے نفس کو صبر کے لئے آمادہ کرو۔

جب  انساں صبر واستقامت سے کام لے تو وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔

صبر وظفر ہردو از دوستان قدیمند          بر اثر صبر ، نوبت ظفر آید

یعنی صبر اور کامیابی دونوں قدیم دوست ہیں صبر سے کام لینے کے بعد پہر کامیابی کی باری آتی ہے۔ اسی طرح ان کے ارشادات میں سے ہے:'' رَضّ نَفسَکَ عَلی الصَّبر تخَلّص من الاثم'' (2)

اپنے نفس کو صبر پر راضی کرو  تاکہ گناہوں  سے نجات پا سکو ۔

کیونکہ جب آپ نے اپنے نفس کو صبر کے لئے آمادہ و راضی نہ کیا تو باطنی اکراہ اور نفس کی بے میلی برے اثرات کا موجب بنے گی ۔ پہر نفس کی طغیانی اور سرکشی آپ کی شکست کا باعث بنے گی۔

جی ہاں! اہل بیت عصمت و طہارت نے ہمیں صبر و استقامت کا امر فرمایا اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ صبر امتحانات الہی میں کامیابی کا وسیلہ ہے صبر کے ذریعہ انسان آزمائش کے طور پر آنے والے مشکلات ومصائب کے مقابلے میں اپنے اعمال وا عتقادات پر ثابت قدم رہتا ہے   تمام اولیاء خدا کو یہ امتحانات در پیش آئے اور انہوں نے شدید مشکلات میں بہی مشیت خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔  بحار  الانوار:ج  34 ص 61

[2] ۔ بحار الانوار:ج 1ص 227

۱۶۷

مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

جنہوں نے مشکلات کے مقابلہ میں صبر سے کام لیا اور اپنے راسخ عزم اور ایمان کو ثابت کیا ان میں سے ایک ملّا علی کَنی ہے ۔ وہ نجف اشرف میں انتہائی فقر و احتیاج کے عالم میں زندگی بسر کررہے تہے وہ ہر ہفتہ میں ایک رات مسجد سہلہ میںجاتے اور دوسروں کو متوجہ کئے بغیر مسجد کے اردگرد کناروں میں ڈالے گئے روٹی کے ٹکڑوں کو جمع کرتے اور مدرسہ لے جاتے اور ایک ہفتہ اسی پر گزر بسر کرتے وہ مدتوں اسی طرح کرتے رہے اور صبر استقامت کو اپنی عادت بنا لیا پہر وہ نجف اشرف سے عازم کربلا ہوئے انہوں نے وہاں بہی انتہائی سختی اور تنگدستی میں زندگی گزاری لیکن کبہی صبر کا دامن نہ چہوڑا، اور   استقامت سے کام لیتے رہے پہر وہ اپنی مشکلات سے نجات پانے کے لئے حضرت حر سے متوسل ہوئے یہ رسم تہی کہ تنگدست افراد چہار شنبہ کے چندہفتے حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ان سے متوسل ہوتے۔ جناب حر سے متوسل ہونے سے ان کی مادی مشکلات حل ہوجاتیں مرحوم علی کَنی چہار شنبہ کی رات حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ایک رات حضرت حر نے خواب میں ان سے فرمایا میرے آقا نے تمہیں تہران کا آقا قرار دیا ہے ۔

اگلے روز ایک مومن ملا اور اسے پانی کا مشکیزہ عطا کیا دوسرے شخص نے اس سے وہ مشکیزہ ایک سال کے لئے25 تومان پر اجارہ پہ لے لیا  ۔ مرحوم علی ان پیسوں کے ذریعہ تہران پہنچ گئے دوسرے سال وہ مشکیزہ چار سوتومان پر اجارہ دیا آہستہ آہستہ ان کا حکم مانا جانے لگا ۔ یہاں تک کے ناصر الدین شاہ ان سے خائف ہونے لگا ۔

۱۶۸

کہتے ہیں کہ شاہ کے حکم پہ تہران میں ایک خیابان بنا ئی گئی کہ جس کی وجہ سے ایک چہوٹی سی مسجد کو خراب کیا گیا چونکہ یہ شاہ کا حکم تہا لہٰذا تہران کے علماء اس کی مخالفت نہ کرسکے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ اس مسجد کے عوض دوسری جگہ ایک بڑی مسجد بنائی جائے مرحوم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے شاہ کو ایک خط لکہا جس کی ابتداء میں لکہا تہا۔

'' بسم اللّٰه الرَّحمٰن الرَّحیم اَ لَم تَرَ کَیفَ فَعَلَ رَبّکَ باَصحَاب الفیل''

شاہ مسجد کو توڑنے سے باز رہا اور خیابان کا راستہ تبدیل کردیا ایک دن ناصر الدین شاہ اپنے خدام کے ہمراہ شکار کے قصد سے شہر کے دروازے سے باہر گیا شہر سے نکلنے کے بعد تہران کا نظارہ کیا اور کچہ دیر فکر کرنے کے بعد اپنے ارادہ پر پشیمان ہوا اور واپس شہر چلا گیا اس کے بعض قرابت داروں نے اس کی وجہ پوچہی تو شاہ نے یہ جواب دیا جب شہر سے باہر نکلا تو میری نظر شہر کے دروازوں پر پڑی تہی تو مجہے خیال آیا کہ اگر حاجی علی نے حکم کیا کہ شہر کے دروازوں کو بند کردو اور پہر نہ کہولیں تو میں کیا کروں گا؟ اس خوف و وحشت سے میں نے سوچا بہتر یہ ہی ہے کہ واپس شہر چلا جائوں مرحوم علی کنی کہ تجملات ایسے تہے کہ جو شہزادوں کے لئے بہی مورد توجہ تہے۔ کہتے ہیں کہ ناصرالدین شاہ کی بیٹی عراق  گئی اور نجف اشرف میں مرحوم شیخ انصاری کی زیارت سے شرفیاب ہوئی اس نے زہد عیسوی اور ورع یحیوی کی علائم شیخ میں پائے  ۔ شیخ کے کمرے  کے آدہے فرش پر ایک بوریا بچہا ہوا تہا حصیر کا ایک دستر خوان دیار پر آویزان تہا اور ایک چراغ تہا کہ جس سے نصف کمرے میں روشنی تہی جب اس نے کمرے کی یہ حالت دیکہی تو اس سے رہا نہ گیا اور کہا کہ اگر مجتہد وملّا ایسے ہیں تو پہر ملّا علی کیا کہتا ہے ؟

ابہی اس کی بات مکمل نہ ہوئی تہی کہ مرحوم شیخ انصاری اس حد تک غضبناک ہوئے کہ وہ رونے لگی اور کہا آقا میں تو بہ کرتی ہوں مجہے علم نہیں تہا ۔ مجہے معاف فرمائیں  ۔ شیخ نے اس کی غلطی سے در گذر فرمایا اور کہا جناب علی کنی کو حق ہے کہ وہ ویسی زندگی گذاریں ۔ کیونکہ وہ تمہارے باپ کے سامنے ویسی ہی زندگی گزارے لیکن میں طلّاب کے درمیان رہتا ہوں لہٰذامیری زندگی بہی طلّاب کے مانند ہونی چاہئے اگر مرحوم علی مشکلات کے مقابل میں صبر و استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے تو انہیں یہ تمام محبوبیت ، قدرت وعظمت کیسے حاصل ہوتی۔

۱۶۹

صبر قوت وقدرت کا باعث

خداوندتعالیٰ صبر کو مدد اور استعانت کا وسیلہ قرار دیتا ہے اور قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''وَاستَعینوا با الصَّبر وَ الصَّلٰوة '' (1)

صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔

خداوند متعال نے  صبر کو نماز کے ساتہ بلکہ اس پر مقدم فرمایاہے جو اس بات کا اشارہ

ہے کہ صبر کی وجہ سے انسان میں ایجاد ہونے والی قوت  بخش آثار سےبخوبی مدد لے سکتے ہیں انسان صبر کی وجہ سے خدا کی غیبی امداد سے بہی بہرہ مند ہوتا ہے یہ غیبی امداد ملائکہ صبر کرنے والوں تک پہنچاتے ہیں قرآن نہ صرف صبرواستقامت کو انسان وظیفہ قرار دیتا ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ حکم بہی دیتا ہے کہ دوسروں کو بہی صبر کا امر کرو ۔

خدا وند متعال قرآن میں فرماتا ہے :

'' یا  ایها الَّذینَ اٰمَنوا اصبروا وَ صَابروا وَ رَابطوا ''(2)

اے ایمان والو صبر کرو صبر کی تعلیم دو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ بقرہ آیت: 45

[2] ۔ سورہ آل عمران آیت: 200

۱۷۰

انسان صبر واستقامت کے ذریعہ بیشتر قوت و قدرت حاصل کرتا ہے جس سے وہ مشکلات اور سختیوں کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے ۔ مشکلات کو تحمل کرنے کے لئے آمادگی اورمخالف قوت کے سامنے مقاومت میں مہم نقش رکہتا ہے ۔

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

'' ان یَکن منکم عشرونَ صَابرون یَغلبوا '' (1)

اگر ان میں سے بیس بہی صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آجائیں ۔

کیونکہ صبر انسان کی جسمانی قوت میں اضافہ کرتا ہے اوراسے دشمن کے سامنے مقاوم اور ثابت قدم رکہتا ہے ۔

پافشاری واستقامت میخ               سزد از عبر ت بشر گردد

بر سرش ہرچہ بیشتر کوبی         پافشاریش بیشتر گردد

یعنی استقامت اور ثابت قدمی میخ کی شان ہے جس میں انسانوںکے لئے سبق ہے کیونکہ   میخ کے سر پر جتنا زیادہ  مارو  وہ اتنا ہی زیادہ  محکم اور ثابت قدم ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1]۔ سورہ انفال آیت: 65

۱۷۱

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کی شرائط میں سے ایک مہم شرط صبر واستقامت ہے اپنے نفس کو صبرواستقامت پرتیار کرو تاکہ بڑی سے بڑی مشکل بہی آپ کے لئے آسان ہوجائے ۔ صبر واستقامت سے آپ کی قوت ارادہ میں بہی اضافہ ہوتا ہے ۔

صبر واستقامت پانی کے ایسے بند کی مانند ہے جو پانی کو ضائع ہونے سے روکتا ہے یہ آپ کی توانائی کو متمرکز کرتا ہے ۔

بزرگوں نے بڑے سے بڑے موانع کو بہی صبر واستقامت سے برطرف کیا اور اپنی دیرینہ آرزو کو پورا کیا اس وقت زندگی کی تمام تلخیاں ، ناکامیاں صبر کی وجہ سے لذائذ میں تبدیل ہوجاتی ہیں آپ بہی صبر واستقامت کا دامن ہاتہ سے نہ چہوٹنے دیں اور بڑی بڑی مشکلات اور مصائب کے سامنے ثابت قدم رہیں تاکہ آپ بہی کامیاب بزرگان کی طرح اپنے اعلی ٰ اور باارزش مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔

باغبان گر پنج روزی صحبت گل بایدش

بر جفا ی خار ہجران ، صبر بلبل بایدش

اگر باغبان پانچ دن پہول کی صحبت میں رہے تو کانٹوں کی جفا سے رونما ہونے والی جدائی میں وہ بلبل کی مانند صبر سے کام لے۔

۱۷۲

گیارہواں باب

اخلاص

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' عندَ تَحَقّق الاخلَاص تَستَنیر البَصَائر ''

جب اخلاص متحقق ہوجائے تو بصیرت نورانی ہوجاتی ہے۔

    اہمیت اخلاص

    اخلاص کا نتیجہ

    صاحب جواہر الکلام کا اخلاص

    ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

    زحمت اخلاص

    نتیجۂ بحث

۱۷۳

اہمیت اخلاص

اخلاص ،یعنی انسان کے کردار ورفتار کا ریا، تظاہر اور تمام شرک آمیز امور سے پاک ہونا یہ بہت اہم اور باارزش صفات میں سے ہے کہ خداوند کریم نے اپنے بعض بندوں کو عطا کی جو عالی مراتب رکہتے ہیں ۔خداوند متعال حضرت موسیٰ (ع)  کے بارے میں فرماتا ہے :

'' وَ اذکر فی الکتاب موسیٰ انَّه کَانَ مخلصاًوَ کَانَ رَسولاًنَبیّاً ''(1)

اور اس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے وہ یقیناً برگزیدہ نبی مرسل تہے ۔

اور حضرت یوسف (ع) کے بارے میں فرمایا :

''انَّه من عبَادنَا المخلصین ''(2)

کیونکہ یوسف ہمارے برگذیدہ و مخلص بندوں میں سے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ مریم  آیت: 51

[2]۔ سورہ یوسف آیت: 24

۱۷۴

امام جواد (ع) اخلاص کو امام زمانہ کے تین سو تیرہ سپاہیوں کی صفات میں سے ایک قراردیتے ہیں اور انہیں اس صفت و خصلت سے آراستہ ہونے کا حکم دیتے ہیں۔

حضرت امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں :

'' فَاذا اجتَمَعَت لَه هٰذه العدَّة من اَهل الاخلَاص اَظهر اَمرَه ''(1)

جب اہل اخلاص میں سے یہ گروہ حضرت مہدی  کی خدمت میں آئے تو امام زمان اپنے امر کو ظاہر فرمائیں گے ۔

کیونکہ وہ بزرگان غیر معمولی توانائی اور غیر عادی قدرت سے بہرہ مند ہیں ، اخلاص ان کی ضروری صفات میں سے ہے تاکہ وہ اپنی روحانی طاقت سے کاملا ًامام زمان کی ولایت وحکومت کے تحت استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج28ص352

۱۷۵

اخلاص کا نتیجہ

اگر ہمارا کردار ورفتار نفس کی پیروی کی بنیاد پر ہو تو ہماری زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اور آخرت میں نقصان کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہوگا لیکن ہمارے اعمال میں خدا کے لئے اخلاص ہو تو ہماری زندگی پر ثمر ہوجائے گی اور دنیا و آخرت میں بہترین نتیجہ حاصل ہوگا ۔

حضرت امام صادق (ع)  اپنی گفتار میں فرماتے ہیں :

'' اَلاخلَاص یَجمَع حَوَاصلَ الاَعمَال '' (1)

اخلاص اعمال کے نتیجہ کو جمع کرتا ہے ۔

جب انسان کے کردار کے ثمرات و نتائج جمع ہوتے ہیں تو اس اجتماع سے ایک عظیم قوت وطاقت تشکیل پاتی ہے جس طرح پانی کا قطرہ قطرہ  دریابن جاتا ہے ۔ اخلاص بہی انسان کے رفتارو  کردارکے ثمرات کو جمع کرتا ہے اور نفس میں ایک عظیم قوت کو ایجاد کرتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار  :ج70 ص245

۱۷۶

صاحب جواہر الکلام کا اخلاص

تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی سے اس حقیقت کے بہت سے شواہد ملیں گے نمونہ کے طور پر صاحب جواہرالکلام کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

مرحوم محدث قمی لکہتے ہیں :

اسلام میں حلال وحرام کے متعلق جواہر الکلام جیسی کتاب نہیں لکہی گئی    صاحب جواہرالکلام نے پچیس سال کی عمر میں شرح شرائع یعنی جواہرالکلام کو تحریر کرناشروع کیا۔

وہ فقر وتنگدستی کے باعث ضروری کتب خرید کرنے کی قدرت نہیں رکہتے تہے لہذا انہوں نے جواہر الکلام لکہنا شروع کی تاکہ یہ شخصاً ان کے سفر میں ہمراہ ہو اور جب لوگ ان سے کوئی مسئلہ دریافت کریں تو وہ ضرورت کے وقت اس کی طرف رجوع کریں ۔

انہوں نے وہ کتاب اپنے لئے لکہی تہی نہ کہ دوسروں کے لئے ان میں کسی قسم کا ریا وتظاہر نہیں تہا۔ ان کے زمانے میں بیس علماء شرح شرائع لکہنے میں مشغول تہے ۔ لیکن ان میں سے نہ تو کوئی منتشر ہوئی اور نہ ہی مکمل ہوئی ۔

مرحوم صاحب جواہر الکلام کے ایک فرزند تہے کہ جن کا نام شیخ حمید تہا کہ جو ان کے کام اور دیگر امور انجام دیتے اور وہ اپنی کتاب کے تکمیل میں مصروف رہتے   لیکن شیخ ناگہانی موت سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور صاحب جواہر الکلام کو داغ مفارقت دے گئے ۔

۱۷۷

وہ خود فرماتے تہے کہ اپنے فرزند کی موت کے بعد مجہے دن رات چین وقرار نہیں تہا ۔ میں ہمیشہ مضطرب ومتفکر رہتا ۔

ایک رات میں کسی مجلس سے گہر جانے کے لئے نکلا تو میں راستہ میں فکر کے عالم میں جارہا تہا کہ کسی ہاتف نے میرے پیچہے سے آواز دی:

'' لَا تَفکر ،لَکَ اللّه ''

فکر نہ کرو خداتمہارے ساتہ ہے ۔

جب میں نے پیچہے مڑ کر دیکہا تو وہاں کوئی بہی نہیں تہا اس وقت خدا کی حمد کی اور خدا کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ اس رات کے بعد خدا نے اپنی رحمت کے دروازے مجہ پر کہول دیئے ۔ میرے امور منظم ہوگئے اور حالات بہی بہتر ہو گئے ۔اس آواز کو سننے کے بعد اطمینان قلب کے ساتہ صاحب جواہر الکلام کتاب کو لکہنے میں اور اسے تمام کرنے میں مصروف ہوگئے ۔

یہ ان کے مخلصانہ عمل کا نتیجہ تہا سخت ترین حالات میں ان کی مدد کی گئی ایک ندائے غیبی کو سننے کے بعد وہ ایک علمی وپرارزش کتاب جواہرالکلام کو تکمیل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

اگر ہاتف غیبی سے ان کی مدد نہ ہو تو ایک مفصل ترین فقہی کتاب  یعنی جواہر الکلام کی تالیف مکمل نہ ہوتی ۔مرحوم  صاحب جواہرالکلام ، حضرت علی (ع) کے فرمان کے روشن مصداق ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :''طوبیٰ لمَن اَخلَصَ لله العبَادَة وَ الدّعَائَ''(1)

خوش بخت ہے وہ شخص کہ جو خدا کے لئے عبادت اور دعا کو خالص کرے ۔

وہ اپنے اس اخلاص کے ذریعہ نہ صرف اس دنیا میں سعادتمند ہوئے بلکہ آخرت میں بہی کامیاب و سرفراز ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانور :ج۷۰ص۲۲۹

۱۷۸

ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

فرمودات اہل بیت علیہم السلام میں اخلاص کے لئے مہم و قیمتی آثار ذکر ہوئے ہیں ۔ اخلاص  اس حد تک اہمیت کا حامل ہے شاید کچہ لوگ گمان کریں کہ اخلاص کا حصول، سب کا وظیفہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف ممتاز شخصیات اور اولیاء خدا کے لئے ضروری ہے فقط وہ ہی اخلاص کی نعمت سے بہرہمند ہوں ۔ لیکن قرآن مجید ایک عمومی دعوت میں فرماتا ہے :

'' فَادعوا الله مخلصینَ لَه الدّ ینَ وَ لَوکَرهَ الکَافرونَ''(1)

پس دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرکے اللہ ہی کو پکارو اگرچہ کفار کو برا لگے۔

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دینی اعمال ریاء سے پاک ہوں اور انہیں اخلاص اور خشوع اور خضوع سے بجا لائے۔ بلکہ اس طرح روایات میں آیا ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال اور رفتار وکردار میں تظاہر ریاء اور خود نمائی سے پرہیز کرے ۔

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' اخلص حَرَکَاتکَ من الرّیَائ'' (2)

اپنی حرکات کو ریاء سے پاک کرو ۔

کیونکہ انسان کی رفتار وکردار اس وقت ارزشمند ہوتی ہے جب اس میں ریاء وتظاہر نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ غافر آیت: 14

[2]۔ بحارالانوار:ج 71 ص 216

۱۷۹

می فروشد زاہد خود بین بہ دنیا دین خویش

گشتہ معلومش کہ در عقبی متاعش باب نیست

جب متکبر اور خود پسند عبادت گزار کو یہ معلوم ہوا کہ آخرت میں اس کے لئے کوئی متاع نہیں ہے تو اس نے دنیا کے مقابل میں اپنے دین کو فروخت کر دیا ۔

پس اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ہم سب کو اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیئے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ غفلت کی وجہ سے خدا کو صرف سخت مشکلات میں مخلصانہ یاد کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہے:

''هو الَّذی یسَیّرکم فی البرّ وَالبَحر حَتّیٰ اذَا کنتم فی الفلک وَ جَرَینَ بهم بریحٍ وَ فَر حوا بها جَائَتها بریحٍ عَاسفٍ وَ جَا ئَهم المَوج من کلّ مَکَانٍ وَ ظَنّوا اَنَّهم احیطَ بهم دَعَواللّٰه مخلصینَ لَه الدّ ین لَئن اَنجَیتَنَا من هٰذه لَنَکونَنَّ من الشَّاکرین''(1)

وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے چنانچہ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر موافق ہوا کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں ۔ اتنے میں کشتی کومخالف تیز ہوا کاتہپیڑا لگتا ہے اور ہرطرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں ) گہر گئے ہیں تو اس وقت وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ یونس آیت: 22

۱۸۰