کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 10%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

کامیابی کے اسرار ج 1

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات:

صفحے: 259
مشاہدے: 148154
ڈاؤنلوڈ: 4453


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148154 / ڈاؤنلوڈ: 4453
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج 1 جلد 1

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

اس کم فر صت اور محدود عمر میں وقت کو ضائع کرنے والے امور سے گریز کریں اور ایسے مہم اور ضروری مسائل میں وقت صرف کریں کہ جو دنیا و آخرت کے لئے سود مند ہو ں ۔

ہم مہم ترین اور ضروری مسائل کو اپنا ہدف قرار دیں اور ان  تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ۔ کیونکہ غیر ضروری اور غیر مہم مسائل میں وقت صرف کرنے سے ہم اساسی و باارزش امور بہول جائیںگے اورخلقت کے عالی ہدف و مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اشتغل بغیر المهمّ ، ضیّع الدهمّ ''(1)

جو غیر مہم امور میں لگا رہے وہ مہمترین امور کا ضائع کر دیتا ہے  ۔

اہمیت نہ رکہنے والے غیر ضروری مسائل میں مصروف رہنے سے بزرگ و اعلیٰ اہداف سے پیچہے رہ جائیں  گے یہ ایک حقیقت ہے کہ جسے حضرت امیر المو منین نے مختصر سے کلام کے ضمن میں بیان فر مایا ہے تا کہ اس سے بشریت بالخصو ص جوان و نو جوان نسل درس لے ۔ اگر بشریت مولا کے اس فرمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5ص  0 33

۴۱

سے درس لے تو دنیا میں عظیم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے چو نکہ ہماری عمر محدود ہے اور ہم میں تمام امور کو احاطہ کرنے کی قدرت و توانا ئی نہیں ہے ، لہذا اسے بہترین اور باعظمت امور میں صرف کریں اور بے ارزش امور میں وقت صرف کرنے سے پر ہیز کریں کہ جو عمر کے ضیاں و تبا ہی وبربادی کے علاوہ کچہ نہیں ۔عمر سے اچہے طریقہ سے استفادہ کرنے اور اسے مہم و با ارزش امور پر صرف کرنے کے لئے ہماری فکر جزئی مسائل کی طرف مشغول نہیں ہو نی چاہئیے تا کہ ہم بہترین اہداف ومقاصد کو حاصل کرسکیں ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' انّ رأ یک لا یتّسع بکلّ شیئٍ فضرّ عنه للمهمّ ''(1)

تمہاری فکر تمام امور کو احاطہ کرنے کی وسعت نہیں رکہتی لہذا اسے مہم امور کے لئے استعمال کرو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ شرح غرر الحکم :ج2ص  606

۴۲

ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

مہم ترین و بہترین ہدف کے انتخاب کے لئے اس کاانجام و نتیجہ کا ملاً واضح و معلوم ہو لہذا ایسے کام اور پروگرام ترتیب دیں کہ جس کے انجام کو ہم اپنا ہدف قرار دیں اور اس کے بارے میں ہمیں مکمل شناخت ہو اور تحقیق و بررسی کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے لئے روشن ہو ۔

اس کے نتیجہ کو خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے حاصل ہونے والی فر ما ئشات سے موازنہ کے بعد اپنی ہمت کو ہدف تک پہنچنے کے لئے تقویت دیں اور سستی و غفلت اور فراموشی کو ترک کر دیں ۔

پیغمبر اکرم(ص) نے فر ما یا :

'' اذا هممت بامرٍ فتدبّر عاقبته فان کان خیراً فَاَشرع الیه و ان کان شرّاً فانته عنه ''(1)

جب کسی کام کو کرنے کے لئے ہمت کرو تو اس کے انجام کے بارے میں تدبر کرو اگر وہ کام اچہا اور پسندیدہ ہو تو اس کو انجام دو اور اگر وہ برا اوربرا ہو تو  اسے انجام دینے سے باز رہو ۔جب آ پ کسی کام کو اپنا ہدف قرار دیں تو اس کے انجام کے بارے میں بررسی و تحلیل کریں اور اس کے آئندہ کو اچہی طرح تشخیص دینے کے بعد اس کام کو شروع کریں پہر اسے آج کل انجام دینے کی بجائے فر صت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں کہ جب تک آپ کے لئے کوئی مانع درپیش نہ آئے یہ وہ راستہ ہے کہ جس پر بزرگان چلے آپ بہی ان کے نقش قدم ہر چلتے ہوئے اس مسیر کو طے کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج 72ص  342

۴۳

انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

جس طرح ہم نے کہا کہ انسان کا زندگی میں کوئی ہدف ہونا چاہیئے لہذا اسے عا لی ترین اہداف کی شناخت ہو ،تا کہ ان میں سے بہترین کا انتخاب کرے خلقت انسان کے سر و راز سے آشنائی ہماری راہنمائی کر سکتی ہے اور ہمارے لئے حقیقت کو آ شکار کر سکتی ہے ۔خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا ہے : '' وما خلقت الجنّ والا نس الاَّ ما لیعبدون ''   (1) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔تفسیر نو ر الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں امام صادق سے ایک روایت کو ذکر کیا گیا ہے :'' قال خرج الحسین بن علیّ  علیٰ اصحابه- فقال : ایّها النّاس انّ اللّٰه عزّ وجلّ ذکره ، ماخلق العباد الاَّ لیعرفوه، فاذا عر فوه عبدوه ، فقال له رجل یابن رسول اللّٰه بابی انت و امّی فما معرفت اللّٰه - قال: معرفة اهل کلّ زمان امامهم الّذی تجب علیهم طاعته ''(2)

امام صادق نے فرمایا : کہ امام حسین  اپنے اصحاب پر وارد ہوئے اور فرمایا : اے لوگو ! خدا نے بندوں کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اسے پہچانیں جب وہ اسے پہچان لیں تو پہر اس کی عبادت کریں اور  پہر اس کی عبادت کے ذریعہ غیر کی بندگی سے بے نیاز ہوجائیں ۔ ایک شخص نے آنحضرت سے عرض کی اے فرزند پیغمبر میرے ماں  ، باپ آپ پر قربان ہوں ،معرفت خدا سے کیا مراد ہے ؟ امام حسین  نے فرمایا : معرفت خدا سے یہ مراد ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے وقت کے امام کو پہچانیں کہ جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ الذا ریات آ یت: 56

[2] ۔ تفسیر نو ر الثقلین:ج 5ص 122

۴۴

اس یہ آیہ شریفہ اور وایت مذکورہ سے واضح و روشن ہو جا تا ہے کہ جنّ وا نس کی خلقت کا مقصد مقام عبودبیت تک پہنچنا ہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب معرفت خدا کے ہمراہ ہو جو خدا کی معرفت و شناخت رکہتا ہو وہ امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مقام سے بہی آشنائی رکہے ۔

پس آج کے زمانے میں ہمارا یہ وظیفہ ہے کہ ہمیں امام زمان  ارواحنا لہ فداہ کی معرفت و پہچان ہو اور امام کی خدمت کو اپنی زندگی کا ہدف و مقصد قرار دیں ۔ کیو نکہ امام صادق اپنے زرین کلام میں اس زمانے کے تمام شیعوں اور مقام ولایت کے پروانوں کا وظیفہ یوں بیان فرما تے ہیں :

'' لو ادرکته لخدمته ایّام حیاتی ''(1)

اگرمیں  انہیں( امام زمانہ)کو درک کر لوں تو ساری  زندگی ان کی خدمت کروں۔  

گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہو ہم مقام عبودیت تک پہنچنے اور معارف دینی کو کسب  کرنے کے بعد امام ز مان ارواحنا فداہ کی بہتر خدمت کریں تا کہ اس وجود مقدس کے لطف و کرم سے بہرہ مند ہوں اور اس بزرگوار کے خدمت گاروں میں شمار ہوں ۔

جی ہاں ، ہر زمانے میں دین ، امام اور حجت زمان کی خدمت ان لوگوں کا شیوہ رہا ہے کہ جنہوں نے مقام عبودیت کو پالیا ، سلمان ، ابو ذر ، قنبرو مقداد اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے تمام خاص اصحاب مقام بندگی اور پرور دگار کی عبودیت کے بعد پوری زندگی اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میںکوشاں رہے اور کامیاب ہو گئے ۔

یہ ان لوگوںکی راہ ہے کہ جو ہدف خلقت کے ہدف کو پہچان گئے آپ بہی ان کے راستے پر چلیں تا کہ کامیاب ہو جائیں ۔

در زندگی اگر ہدف نہ داری     از گنج جہان بہ جز خزف نداری

اگرتمہا ر ا  زندگی میں کوئی ہدف و مقصد نہ ہو تو تمہیں  دنیا کے گنج و خزانے سے اینٹ کے علاوہ کچہ حا صل نہیں ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [3] ۔ بحار الانوار :ج51ص  148

۴۵

مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

1 ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

بہت سے لوگ علوم و معارف میں بلند مقام اور پیشرفت کے خواہاں ہو تے ہیں تا کہ وہ بہی بزرگ افراد کی طرح اپنی ملت کیتقدیر کے لئے مؤثر کردار ادا کر سکیں اور لوگوں کو معنویت کا راستہ دکہا ئیں اور ان کی راہنا ئی کریں ۔

یہ ایک ایسی چاہت ہے کہ جو بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے لیکن وہ عظیم لوگوں کی کامیابی کے راز سے مطلع نہیں ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے صفحات کو اپنے نام سے روشن کیا ۔وہ اس آرزو سے نا امید ہو کر اسے صرف خام خیالی سمجہتے ہیں ۔ مکتب اہل بیت علیہم السلام سےسیکہے ہوئے انسان سازی کے دروس کو مد نظر رکہتے ہوئے اور ان بزرگان کی حیات بخش راہنما ئی (جو ہمارے قلوب کو منور کر تی ہے ، اس سے یہ حقیقت آشکار ہو تی ہے کہ عالی مقاصد و اہداف اور بزرگ آرزو ایسے امور میں سے ہے کہ خاندان وحی و عصمت و طہارت نے اپنے پیرو کاروں اور محبّوں کو اس کی تلقین کی اور انہیں یأس و ناامیدی سے نکا لا ۔

ان عظیم ہستیوں نے نہ صرف اپنی گفتار و فرامین بلکہ اپنی دعاؤں میں بھی ہمیں امید و آرزو کا درس دیا ، لہذا انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ جمعہ کے روز یہ دعا پڑھو :'' الّلهمّ اجعلنا من اقرب من تقرّب الیک '' (1) پرور دگار ا ہمیں انکے نزدیک قرار دے کہ جنہوں نے تم سے تقرب پالیا ۔ ایسی دعا ئیں ہر اس شخص کے لئے امید کا درس ہے کہ جو اپنے میں حقارت کا احساس کر تے ہیں اور یہ دعا ئیں مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکا روں کے دلوں میں عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے امید کی شمع ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار :ج90ص  339

۴۶

ایک نکتہ کا تذکر

اپنے اہداف کے مخالف اور نا امید افراد سے  ہمنشینی نہ کریں ان کے ساتہ بیٹہنے سے یأس وناامیدی ایجاد ہوتی ہے جو  اور آپ کے ارادہ و ہدف تک پہنچنے پر اثر انداز ہو گی ، اگر آپ ایسے افراد کے ساتہ بیٹہنے پر مجبور ہوں تو ان کو اپنے ارادہ  و ہدف سے آگاہ نہ کریں اور یہ راز اپنے دل میں مخفی رکہیں ۔

بعض لوگ دوسروں کا تمسخر و مذاق اڑانے سے ان کے مستقبل کو بدل دیتے ہیں اور وہ اپنی طرح  انہیں بہی عالی و عظیم اہداف تک پہنچنے سے مایوس کر دیتے ہیں اور ان کی کامیابی کی راہ میں روڑہے  اٹکاتے ہیں ۔ ایسے افراد آپ کی ترقی کی راہ میں رکا وٹ ہیں وہ چند کلمات کے ذریعہ آپ کو آپ کے اہداف و کا میابی سے منحرف کر سکتے ہیں ایسی صورت میں آپ کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو پہچانیں اور ان کے زہر آلود کلمات سے دل سرد اور مسموم نہ ہوں ۔

۴۷

2 ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

انسان کو بلند و عالی مرتبہ مقا مات کے حصول سے روکنے میں شیطان کی سازشیں بہی اثر انداز ہوتی ہیں ۔ شیطان مختلف قسم کے وسواس ڈالتا ہے کہ کیا تمام مشکلات کے با وجود اس راستے پر چلنا ممکن ہے ؟ کیا اپنے ہدف کو اس کی پوری عظمت کے ساتہ مکمل کر سکتے ہو ؟ اور کیا ؟

کبہی شیطان نہ صرف فعالیت کو شروع کرنے سے پہلے وسوسوں اور گمراہ کنندہ خیالات سے یأس وناامید ی کو ایجاد کر تا ہے بلکہ کبہی آدہے راستے میں راہ سے گمراہ کر دیتا ہے ۔

عظیم مقاصد و اہداف کے طالب توجہ کریں کہ انسان اس طرح سے خلق ہوا ہے کہ اگر کچہ   مدت تک سختیوںکو برداشت کرے تو اس کی مشکلات و سختیاں ،سہل و راحت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ اگر ابتداء میں  کوئی کام مشکل بہی ہو تو تکرار کے ذریعہ اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خداوندمتعال عظیم اہداف رکہنے والوں کی مشکلات کو آسان فرما تا ہے اور اہل بیت عصمت و طہارت  کی مدد ودستگیری فر ما کر ان کی مشکلا ت کو حل فر ماتا ہے۔ خداوند کریم بہت سے سنگین ا و ر بڑے مسائل کو بر طرف کردیتا ہے ۔

حقیقت بہی ان ہی مسائل میں سے ایک ہے کیو نکہ حق تلخ و سنگین ہو تاہے  بالخصوص ایسے افراد کے لئے کہ جو گناہوں کی آلودگی ہیں غرق اور نفسانی  خواہشات  اور  شیطانی  وسوسوں کے تابع ہوں  ، ایسے افراد کے لئے حق بہت سنگین ہو تا ہے کیو نکہ یہ ان کی چاہت سے ساز گار نہیں ہو تا لیکن حقیقت کے طلبگار اور حقیقت تک  پہنچنے کی خواہش رکہنے والوں کے لئے حق سنگین نہیں ہو تا  ۔

۴۸

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' والحق کلّه ثقیل و قد یخففه اللّٰه علیٰ اقوام طلبوه العاقبة ''(1)

تمام حق سنگین ہیں ، لیکن خدا عاقبت کی جستجو کرنے والوں کے لئے اسے سبک کر دیتا ہے۔

ان فرامین سے یہ معلوم ہو تاہے کہ طلب و جستجو مشکلات کی آسانی میں بہت مؤثر ہے بڑے اہداف کو مشکل اور ان تک دسترس کو محال سمجہنے والے ایسے افراد ہیں کہ جو آرزو و طلب کو پانے کی ہمت نہیں رکہتے ۔

جنہوں نے صمیم قلب کے ساتہ اپنی چاہت و مقصد کو پانے کی کوشش کی ، وہ اپنے مقصد تک   پہنچ گئے ۔ اگر چہ ان کا مقصد و چاہت بہت مشکل تہا ، لیکن کیو نکہ وہ مکمل طور پر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے بالآخر ان کی سختیاں اور مشکلات سہو لت و آسانی میں تبدیل ہو گئیں کہ و ہ خود بہی یہ تصور نہیں کر سکتے تہے کہ انہوں نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے ۔

یقین کریں کہ کسی چیز کی طلب کے لئے جستجو کرنا اور اس کے حصو ل کی سر توڑ کو شش سے اس کے حصول کے بعد مسرت و راحت ہو تی ہے ۔

لہذا کامیابی اور عظیم مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ، اس کے حصول کی جستجو کریں تا کہ اس کے حصول کا زمینہ فراہم ہو سکے ۔ گوشہ نشینی اور ہاتہ پر ہاتہ دہرے ، خیا لات میں کہوئے رہنے سے انسان اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ لوگ اپنی دلی خوا ہشات  اور مقاصد حاصل  کر سکتے ہیں جو ان کے حصو ل کی کوشش کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔  شرح غرر الحکم :ج5ص  05 3

۴۹

اگرکوئی اپنے مقصد کو پانے کی جستجو و طلب کرے تو ایسا نہیں کہ اسے اس سے کچہ بہی حاصل نہ ہو، اگر وہ تمام مقصد کو نہ پاسکے تو اسے کسی حد تک ضرور حا صل ہو گا ۔ یہ بذات خود ایک اہم نتیجہ ہے کہ جو طلب میں پو شیدہ ہے ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من طلب شیئاً ناله او بعضه ''(1)

اگر کوئی کسی چیز کی طلب کرے تو وہ اس تمام چیز یا ا س کی کچہ مقدار کو حاصل کرے گا ۔

 اس بناء پر بڑے اور با ارزش ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کی تلاش و جستجو کریں اس صورت میں آپ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے یااپنے ہدف کی کچہ مقدار کو پالیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5ص  05 2

۵۰

3 ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

مکتب اہل بیت علیہم السلام میں کمال کے عالی مراتب و مراحل تک پہنچنے کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے اسی وجہ سے آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کے بہت سے ہدایت کنندہ کلمات میں اس بارے میں وارد ہواہے اگر انسان ان پر عمل کرے تو اس کا مستقبل روشن ہو گا ۔ ان فرمائشات و ارشادات میں سے ایک بزرگ ہستیوں کے ہمرا ہ ان کی خدمت میں رہنا ہے کہ جو عظیم اہداف کو پانے میں کامیاب ہو گئے ۔ امام صادق(ع) سے ایک شعر کے ضمن میں نقل ہوا ہے :

'' عَلَیکَ باَهل العلیٰ ''(1)

تم پر لازم ہے کہ تم اعلیٰ مرتبہ شخصیات کے ساتہ رہو ۔

کیونکہ ایسے افراد کو دیکہنا ،ان سے ہمنشینی ان کی صحبت اور ان کی محافل میں بیٹہنا ، انسان کے افکار و رفتار پر اثر انداز ہو تا ہے اور یہ انسان کے ارادہ کو قوی بنا کر ا سے بلند اہداف کی راہ دکہا تا ہے ۔ایسے افراد کی ہمت ، ضعیف و کمزور ارادہ کے مالک افراد کی ہمت کو بلند کر تا ہے ان کا عالی مقام بے ہدف افراد کو بیدار کر تا ہے ۔

جی ہاں ، آپ ان بزرگ ہستیوں کے محضر مقدس میں با ارزش ہدف سے آ شنا ہوں گے اور آپ   میں ان اہداف تک پہنچنے کا اشتیاق بڑے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔  بحار الانوار:ج 4ص7  24

۵۱

4 ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

جو بلند اہداف کو پانا چاہتا ہے وہ سستی و کاہلی کو چہوڑ دے اور نفسانی خوا ہشات سے مردانہ وار مبارزہ کرے ۔

حضرت امیر المو منین  فر ماتے ہیں :

'' من احبّ نیل الدرجات العلیٰ فلیغلب الهویٰ ''

جو بلند درجات تک پہنچنے کو دوست رکہتا ہے وہ اپنے ہواء نفس پر غالب آئے 

یہ ملکوتی فرمان صاحب ولایت ملک و ملکوت حضرت امیر المو منین  کی زبان سے صادر ہوا ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ جو بلند اہداف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور جو بلند دینی و معنوی مقاما ت کے لئے کوشاںہیں ۔

یہ آسمانی فرمان تمام ا نسانوں بالخصوص نو جوانوں  اور جوانوں کے لئے بہت بڑا پیغام ہے کہ جو روشن مستقبل کی آرزو رکہتے ہیں

۵۲

5 ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت  سے توسل

جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے کہ انسان کو ہر نیک اور پسندیدہ کام کو انجام دینے کے لئے  تین چیزوں کی احتیاج ہوتی ہے ۔

1 ۔ارادہ

2 ۔ مورد نظر ہدف کوانجام دینے کی قدرت

3 ۔ خدا وند متعال کی جانب سے توفیق کہ جو ا س کی دستگیری فر مائے

ان تین موارد میں سے اگرکسی میں بہی ضعف ہو تو کام کو انجام دینے میں پیشرفت نہیں ہو گی اور  کام متوقف ہو جائے گا ۔

ان تین شرائط کے لے اور ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خاندا ن وحی کو وسیلہ قرار دیں ہم زیارت امیرالمومنین (ع)  میں پڑہتے ہیں :

'' بک اتوسّل الی اللّٰه فی بلوغ مقصودی ''(1)

اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خدا کی طرف آپ کو وسیلہ قرار دیتا ہوں ۔

 نہ صرف کام کی ابتداء اور مذکورہ شرائط کے حصول کے لئے بلکہ ہدف و مقصد کے حصول تک متوسل رہیں اور جانشیناں خدا ور امیران کائنات کو فیوضات الٰہی اور اہداف تک پہنچنے کے لئے واسطہ قرار دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار:ج 100ص 332

۵۳

نتیجۂ بحث

بہترین و عالی ترین ہدف کو پہچانیں اور اس کا انتخاب کریں پختہ و مصمم ارادے سے ہدف تک پہنچنے کی جستجو کریں ۔

بے ہمت افراد سے پر ہیز کریں اور بلند اہداف رکہنے والے افراد سے مصاحبت و ہمنشینی رکہیں تاکہ اس ذریعہ سے آپ کا عالی و با ارزش ہدف مشخص ہو سکے جب آپ حقیقی و واقعی طور پر بہترین ہدف کے حصول کی سعی کر یں گے تو خداوند مہربان آپ کے لئے سختیوں اور مشکلات کو آسان فر مائے گا ۔

ہوشیار رہیں کہ یہ رنگا رنگ دنیا آپ کو آپ کے عالی انسا نی ہدف سے دور نہ کردے اور آپ سراب کو آب نہ سمجہ بیٹہیں ۔

خلقت انسان کا ہدف خدا وند کریم کی عبادت و بندگی اور مقام عبودیت تک پہنچناہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب مقام ولایت کی شناخت ہو اور کسب معارف الٰہی سے مستفید ہو ں کہ جو تقرب خداوند کانتیجہ ہے ۔

یقین رکہیں کہ مقام عبودیت اور معارف کو کسب کرنے کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے حیات بخش مکتب اور بالا خص امام زمان  کی خدمت کریں ۔ یہ تقرب خداوند کی بہترین راہ ہے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس راہ کو اپنا ہدف قرار دیں اور اس تک پہنچنے کی سعی و کوشش کریں ۔

تا رشتہ زندگی بہ کف می باشد               اقبال تو در برخ شرف می باشد

عمر تو بود صدف در این بحر وجود درّ صدف عمر ، ہدف می باشد

جب تک انسان کا زندگی سے رشتہ و ناطہ رہے تمہا ری عزت ، شرف کی بلندیوں کو چہوتی رہے ۔ تمہاری عمر وجود کے اس سمندر میں ایک صدف کی طرح ہو اور عمر کا گوہر صدف تمہارا ہدف رہے ۔

۵۴

چوتھاباب

بلند  ہمت  اورمستحکم  ارادہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' ما رفع امرئً کهمّته ولا وضعه کشهوته ''

ہمت سے بڑہ کر کوئی چیز انسان کو سر بلند نہیں کر تی اور شہوت سے بڑہ کر کوئی چیز پست نہیں کرتی  ۔

    ارادہ کی اہمیت

    ارادہ سے پہلے اخلاص

    اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

    بلند حوصلہ رکہیں

    اپنے ارادہ پر عمل کریں

    قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

    ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

    اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

    ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

   1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

   2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

   3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں :

    نتیجہ ٔبحث

۵۵

ارادہ  کی  اہمیت

انسان اپنے نفس کو پہچا نے اور اس کی ذات میں خدا وند مہربان نے جو قوت و طاقت و توا نائی ودیعت کی ہے ، اس سے آشنا ہو اور آہستہ آہستہ انہیں قوت و طاقت کے مرحلہ سے فعلیت تک  پہنچائے انہی مہم قوت و طاقت میں سے ایک قوة ارادہ ہے ۔ اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور اسے تقویت دے تو اس با عظمت قوت کے ذریعہ اپنی روحا نی و جسما نی اور معاشرے کی مشکلات کو   حل کرسکتاہے ۔

جو انسان اپنے نفس کو نا پاکیوں سے پاک کرلے تو اس کا ارادہ بہی پاک ہو جا تا ہے اور خدا کے پسندید ہ کاموں میں مد د گار ثابت ہو تاہے ۔ پس اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور پختہ ارادے کا مالک ہو تو وہ اسے احیاء دین کے راستے اور انسا نوں کو اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب اور لوگوں کی خدمت میں استعمال کر سکتاہے ۔

تاریخ انسانیت پر مختصر سی نگاہ میں آپ ملاحظہ کریں گے کہ دنیا کے نامور لوگ بلند ہمت کے مالک تہے ۔ جو روحانی ضعف ،کم ہمت یا احساس کمتری میں مبتلا ہوں وہ کبہی بہی عظیم اہداف تک نہیں پہنچ سکتے ۔

پس وہ احساس کمتری کو چہوڑ کر رو حانی ضعف  سے نجات حاصل کریں  اپنے ارادہ کو قوی کریں اور یقین رکہیں کہ جس خدا نے بزرگان دین کو توفیق عطا کی وہ آپ کو بہی کامیابی و کامرانی تک پہنچاسکتا ہے ۔

۵۶

ارادہ سے پہلے اخلاص

کسی بہی پروگرام ا ور کام کو انجام دینے سے پہلے اس کام کی طرف متحرک کرنے وا لی قوت کو پہچا ننا ضروری ہے کیا آپ کو کوئی رحمانی قوت مورد نظر ہدف کی طرف دعوت دیتی ہے یا یہ انگیزہ کوئی شیطانی محرک  ہے ؟ یا کوئی نفسانی عامل آپ کو آپ کے ہدف کی طرف کہینچتا ہے ؟

تحریک نفس اور شیطانی وسوسہ کے شکار نہ ہونے کے لئے کب ھ ی ب ھ ی آپ کے عمل میں یہ دو محرک نہیں ہونے چاہئیں ۔ ارادہ سے پہلے اپنے دل سے تمام وسوسے اور غیر رحمانی تحریکات کو نکال دیں ۔ پ ھ ر رضائے الٰہی کے لئے مورد نظر پروگرام کا ارادہ  کریں ۔حضرت امام صادق (ع) فرما تے ہیں : '' اذا اردت الحجّ فجرّد للّٰه من قبل عزمک من کلّ شاغلٍ وحجاب کلّ حاجب ''(1)

جب بہی حج پر جانے کا ارادہ کرو تو ارادہ کرنے سے پہلے اپنے دل سے ہر اس چیز کو نکال دو کہ جو تمہیں اپنی طرف مشغول کرے اورجو تمہارے اور خدا کے در میان حائل ہو ۔

اگر چہ یہ فرمان حج کے بارے میں صادر ہوا ہے لیکن اس میں عظیم مقصد و ہدف تک پہنچنے کے خواہاں ہر شخص کے لئے ایک کلی راہنمائی ہے ۔

ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنے دل کو دنیا وی اغراض سے پاک کر کے فقط خداکی رضا  کو  مد نظر رکہیں ۔ پہر اپنے ارادے کی ابتداء کریں اور اپنے ہدف کے لئے عملی اقدام کر یں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحا ر الانوار:ج 99ص  124

۵۷

اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

ہمارے ذہن میں موجود خیالا ت ہماری زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں نہ کہ ہم جسے زبان پر لائیں ، ہمارے افکار و اعتقادات اور دل کی عمیق آرزوئیں  ہماری زندگی میں تحولات ایجاد کر تی ہیں نہ کہ جن چیزوں پر ہمارا قلبی اعتقاد نہیں ۔

بہت سے انسان اپنے لئے کسی ہدف کا انتخاب کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کا دم بہر تے ہیں ۔ لیکن اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتے ، لہذا وہ کبہی بہی اسے حا صل نہیں ہو تا ۔ ان کے مقابل کچہ ایسے افراد بہی ہوتے ہیں جو وقت گزر نے کے ساتہ ساتہ اپنے ہدف تک پہنچ جا تے ہیں  اور ان کا قیل و قال کہنا واقعیت پیدا کرتا ہے اور ان کی دیر ینہ آرزو پوری ہو جاتی ہے ۔

کیوں کچہ لوگ اس طرح ہیں اور کچہ اپنی پوری زندگی اپنی آرزو وخوا ہش کے پوارا ہونے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہو تی ؟

حا لا نکہ  ہر انسان کو ارادہ  جیسی نعمت حاصل ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں حتی کہ جو افرادخود کو قوة ارادہ سے عاری سمجہتے اور گمان کر تے ہیں کہ ان کے ارادہ  کی قوت ختمہو چکی ہے ، ان میں بہی  ارادہ  کی قدرت ہو تی ہے

۵۸

مثال کے طور پر منشیات کے عادی افراد یہ خیال کر تے ہیں کہ منشیات کے استعمال سے ان کی قوت ارادہ ختم ہو گئی ہے اور وہ کسی چیزکا ارادہ  کرنے کی قدرت کو کہو چکے ہیں ۔ لیکن اس کے با وجود جب وہ نشہ آور چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں تو ان کا ارادہ قوی و پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بہی صورت میں نشہ حاصل کریں گے ۔

اسی طرح اگر کسی تن پرور شخص کو قید کیا جائے اور قید خانے میں اس سے مشقت لی جا جائے تو وہ زندان سے فرار کرنے کے لئے ہر مشکل اور خطر ناک کام کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گا ۔

اس بناء پر معلوم ہو اکہ ایسے افراد بہی  نعمت ارادہ کے مالک ہیں ، لیکن ان کا ارادہ کوئی سمت نہیں رکہتا ۔ وہ بہی اپنے ارادے کو سمت دیں اور اس کی سیدہے راستے کی طرف  ہدا یت کریں اور ان سے صحیح راستے میں ان سے استفادہ کریں نہ کہ اپنے ارادہ کو منشیات کے حصول یا کام سے فرار کے لئے استعمال کریں پس جو اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیتا ہے وہ اپنی ترقی کے لئے  اسباب فراہم کر تا ہے ۔

۵۹

بلند حوصلہ رکھیں

اگر اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنا چاہو تو معنویت کی وسیع فضا میں پرواز کرو ۔ بلند حوصلے اور مردانہ ہمت کے ساتہ عالم معنی کی فضا میں سیر کرو ۔ جس طرح پرندے اپنے بال و پر کے ذریعہ پرواز کر تے ہیں ، اسی طرح بزرگ شخصیات اپنی ہمت و ارادے کے ذریعہ عالم معنی کے نورانی آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے مادی دنیا سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ بزرگ   اس واقعیت کو ایک چہوٹی مگر پر معنی مثال کے ذریعہ یوں بیان کرتے   ہیں :

'' المرء یطیر بهمّته ''(1) انسان اپنی ہمت کے ذریعہ پرواز کر تا ہے۔

انسان کی ہمت جتنی بلند ہو وہ معنوی فضا میں اتنا ہی اوج پر پرواز کر تا ہے اور اگر عالی ہمت کا مالک نہ ہو تو یوں پرواز نہیں کر سکتا ہے ۔

لہذا اگر انسان کا ہدف تو بڑا ہو لیکن اس ہدف تک پہنچنے کی ہمت نہ ہو تو وہ کبہی بہی اپنے ہدفتک نہیں  پہنچ سکتا ۔ انسان عظیم ہدف کے علاوہ پختہ ارادہ ، بلند حوصلہ اور ہمت کا بہی مالک ہو ۔

 اولیاء خدا مقاما ت عالیہ تک پہنچنے کے لئے قوی ارادے اور بلند ہمت سے آراستہ تہے اور انہوں نے ہمیشہ معنوی مسیر میں استقامت سے کام لیا اورضعف و سستی سے  پر ہیز کیا ، عظیم مقصد ، مردا نہ ہمت ، بلند حوصلہ اور اعلیٰ ہدف ان بزرگون کی صفات تہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ، بحار الانوار:ج 18ص  0 8 3

۶۰