کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123912 / ڈاؤنلوڈ: 5402
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:بے شک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے ، اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے۔

اس بناء پر جو لوگ بلندمعنوی مقامات  و مراتب تک پہنچنے کے خواہاں ہوں وہ خدا کی دی ہوئی پوری زندگی میں خدا اور اولیائے خداکے ساتھ ہی انس رکھیں اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریںکہ اس سے بہتر کوئی اور خزانہ نہیں ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ التَّقْویٰ أَفْضَلُ کَنْزٍ'' ( ۱ )

بیشک تقویٰ بہترین خزانہ ہے۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے اس خزانے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں اور اس کی حفاظت کریں ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ فِ الْغَیْبِ وَالشَّهٰادَةِ'' ( ۲ )

تم پرخلوت اور جلوت میں تقویٰ الٰہی کے ساتھ رہنا لازم ہے۔

''شریک ''کے برخلاف کچھ لوگوں نے لقمہ ٔ حرام سے پرہیز کیا،تنہائی اور آشکار دونوں صورتوں  میں تقویٰ کا خیال رکھاجس کے نتیجہ میں عالی معنوی مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۳۷۶، امالی مرحوم شیخ طوسی:ج۲ص۲۹۶

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷ ۷ص۲۹۰، تحف العقول:۹۲

۱۰۱

اب ہم جو واقعہ بیان کر رہے ہیں ،وہ اسی کا ایک نمونہ ہے:

تبریز کے ایک بہت مالدار تاجر کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہورہاتھا۔اس نے بہت سے ڈاکٹروں اور حکیموںکی طرف رجوع کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ وہ نجف اشرف چلا گیا اور وہاں امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں توسل کیا اور استجارہ کے عمل میں مشغول ہو گیا۔گذشتہ زمانے میں اور اب بھی یہ رائج ہے کہ نجف کے صالح افراد ،یا مسافرین چالیس ہفتوں تک ہر بدھ کی رات مسجد سہلہ جاتے ہیںاور وہاں نماز اور مسجد کے اعمال انجام دینے کے بعد مسجد کوفہ چلے جاتے ہیںاور رات سے صبح تک  وہیں رہتے یہاں تک کہ وہ اسی مدت یا پھر آخری رات امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت سے مشرّف ہوتے۔اگرچہ ان میں سے بہت آنحضرت  کو اس وقت نہ پہچانتے اور پھر بعد میں متوجہ ہوتے۔

اب تک بہت سے افراد نے اس عمل کو انجام دیاہے اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔تبریز کے تاجر نے بھی بدھ کی چالیس راتوں تک یہ عمل انجام دیا اور آخری رات اس نے خواب اور بیداری کے عالم میں ایک شخص کو دیکھا جو اس سے فرما رہے ہیں کہ محمد علی جولایی دزفولی کے پاس جاؤ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی اور اس نے کسی اور کو نہ دیکھا۔

وہ کہتاہے:میں نے اب تک دزفول کا نام نہیں سنا تھامیں نجف آیا اور میں نے دزفول کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے اس کا پتہ بتا دیا ۔میں  اپنے نوکر کے ہمراہ اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جب میں شہر میں پہنچا تو میں نے اپنے نوکر سے کہا:ہمارے پاس جو سامان ہے تم لے کر جاؤ ،میں تمہیں بعد میں ڈھونڈ لوںگا۔

وہ چلا گیا اور میں محمد علی جولایی کو تلاش کرنے لگا۔لوگ اسے نہیں پہچانتے تھے  بالآخر ایک شخص ملا جو جولایی کو جانتا تھا ۔اس نے کہا:وہ کپڑے بُنتاہے اور فقراء میں سے ہے جو آپ کی حالت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔میں نے ان کا پتہ لیا اور ان کی دکان کی طرف چلا گیا اور آخر کار وہ مجھے مل ہی گیا:

۱۰۲

میں نے دیکھا کہ انہوں نے کرباس سے بنی شلوار قمیض پہن رکھیہے اور ایک چھوٹی تقریبا ڈیڑھ میٹر کی دکان میں کپڑے بننے میں مشغول ہیں۔جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً کہا: حاج محمد حسین تمہاری حاجت پوری ہو گئی ۔میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔میں ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی دکان میں داخل ہواغروب کا وقت تھا انہوں نے اذان کہی اور نماز ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ان سے کہا:میں مسافر ہوں اور آج رات آپ کا مہمان ہوں ۔انہوں نے قبول کر لیا۔

رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک کاسہ میرے سامنے رکھا ۔اگرچہ مجھے لذیذ غذائیںکھانے کی عادت تھی لیکن میں ان کے ساتھ کھانا کھانے لگا ۔پھر انہوں نے مجھے کھال کا ایک ٹکڑا دیا اور مجھ سے کہا :تم میرے مہمان ہو اس لئے تم اس پر سو جاؤاور خود زمین پر سو گئے ۔

صبح کے قریب وہ نیند سے بیدار ہوئے ،وضو کرنے کے بعد انہوں نے اذان کہی اور صبح کی نماز ادا کرنے میں مصروف ہو گئے اس کے بعد انہوں نے مختصر سی تعقیبات انجام دیں ۔اس کے بعد میں نے ان سے کہا:میرے یہاں آنے کے دو مقصد تھے ایک کو آپ نے بیان کر دیا اور دوسرا یہ ہے کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بلند مقام کس طرح سے حاصل ہوا کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے میرا کام آپ پر چھوڑ دیا  اور آپ کو کس طرح میرے نام اور ضمیر و باطن کا علم ہے؟

انہوں نے کہا:یہ کیسا سوال ہے؟تمہاری حاجت تھی جو پوری ہو گئی ۔

میں نے ان  سے کہا :جب تک میں یہ نہ سمجھ لوںمیں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور چونکہ میں آپ کا مہمان ہوں لہذا مہمان کا احترام کرتے ہوئے آپ مجھے یہ ضرور بتائیں۔

۱۰۳

انہوں نے بات کاآغازکیا اور کہا:میں اس جگہ کام میں مصروف تھا میری دکان کے سامنے ایک ظالم شخص رہتا تھا اور ایک سپاہی اس کی حفاظت کرتا تھا ایک دن وہ سپاہی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا:تم اپنے لئے کھانے کا انتظام کہاں سے کرتے ہو؟

میں نے اس سے کہا:میں سال میں گندم کی ایک بوری خریدکر ا س کا آٹا پسوا لیتا ہوں جسے میں کھاتا ہوں اور نہ ہی تو میری کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ۔

اس نے کہا:میں  یہاں محافظ ہوں ۔مجھے اس ظالم کے اموال سے استفادہ کرنا پسند نہیں ہے ۔ اگر تم زحمت قبول کرو تو میرے لئے بھی جو کی ایک بوری خرید لو اور ہر دن دوروٹیاں مجھے بھی دے دو ۔ میں نے اس کی بات مان لی  اور وہ ہر دن آتا اور مجھ سے دوروٹیاں لے کر چلا جاتا ۔پھر ایک دن وہ نہ آیا میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے اور مسجد میں سو رہا ہے ۔میں نے سوچا کے اس کے لئے طبیب اور دوا لے جاؤں تواس نے کہا:اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں آج رات اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔جب آدھی رات ہوگی تو ایک شخص تمہاری دکان میں آئے گا اور تمہیں میری موت سے  باخبرکر دے گا۔تم ان کے ساتھ آنا اور وہ تم سے جو کچھ کہیں اسے انجام دو اور بقیہ آٹا بھی اب تمہاری ملکیت ہے۔

میں نے چاہا کہ رات اس شخص کے ساتھ گذاروں لیکن انہوں نے اجازت نہ دی اور کہا:تم چلے جاؤ میں نے بھی ان کی بات مان لی ۔آدھی رات کے وقت کسی نے میری دکان پر دستک دی اور فرمایا:محمد علی باہر آؤ ۔میں دکان سے باہر آیا اور ان کے ساتھ مسجد میں چلا گیا ۔میں نے دیکھا کہ وہ محافظ اب اس دنیامیں نہیں  ہے ۔اس کے پاس دو افراد بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس کے جسم کو نہر کی طرف لے چلو میں اس کا بدن نہر کے کنارے لے گیا ،ان دو افرادنے اسے غسل وکفن دیا اور اس پر نماز پڑھی ۔پھر اسے لا کر مسجد کے دروازے کی جگہ دفن کر دیا ۔

۱۰۴

میں دکان کی طرف واپس چلا گیا ۔کچھ راتوں کے بعد کچھ لوگوں نے میری دکان پر دستک دی ۔کسی نے کہا:باہر آؤ میں دکان سے باہر آیا ۔میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا کہ  آقا نے تمہں بلایا ہے تم میرے ساتھ چلو ۔میں ان کی بات مان کر ان کے ساتھ چلا گیا ۔وہ مہینے کی آخری راتیں تھیں ۔لیکن صحرا چاندنی راتوں کی طرح روشن اور زمین سبز و خرم تھی لیکن چاند کہیں دکھائی نہیں  دے رہا تھا ۔میں سوچنے لگا اور تعجب کرنے لگا ۔اچانک میں صحرائے نو(نو،دزفول کے شمال میں ایک شہر کا نام  ہے) میں پہنچ گیا۔

میں نے دو بزرگ شخصیتوں کو دیکھا کہ جو ایک ساتھ تشریف فرما ہیں  اور ایک شخص ان کے سامنے کھڑا تھا ۔اس مجمع میں ایک شخص سب سے اوپر اور سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ۔ان کو دیکھتے ہی مجھ میں ایک عجیب خوف وہراس  اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔

جو شخص میرے ساتھ تھا اسنے مجھ سے کہا:کچھ آگے آ جاؤ ۔میں کچھ آگے چلا گیا  تو جو شخص ان میں سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ،انہوں نے ان میں سے ایک شخص سے فرمایا:اس سپاہی کا منصب اسے دے دو اور مجھ سے فرمایا:تم  نے میرے شیعہ کی جو خدمت کی اسی کی وجہ سے میں تمہیں  اس سپاہی کا عہدہ دینا چاہتا ہوں۔میںنے سوچا کہ شاید یہ مجھے اسی سپاہی کی  جگہ محافظ قرار دینا چاہتے ہیں ۔لیکن میں محافظ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔میں نے ان سے کہا:میں کپڑے بنتا ہوں ،مجھے سپاہی اور محافظ بننے سے کیا مطلب؟

۱۰۵

ان میں سے ایک نے کہا:ہم سپاہی  کا عہدہ تمہیں دیتے ہیں  اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم سپاہی بنو،ہم نے اس کا عہدہ تمہیں دے دیا،اب تم جاؤ۔

میں واپس لوٹا اور دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ اب وہ صحرا بہت تاریک ہے  اور صحرا میں روشنی، سبزی اور خرمی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

اس رات کے بعد مجھے میرے آقا حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے احکامات ملتے ہیں ۔آنحضرت (عج) کے احکامات و دستورات میں سے ایک تمہاری حاجت کا پورا ہونا تھا۔( ۱ )

اس سپاہی نے حرام مال  سے پرہیز کرکے اپنے لئے یہ مقام خود بنایا ۔ان کا عباسی خلیفہ کے دربار کے قاضی''شریک ''سے مقائسہ کریں جس نے خود کو حرام مال کھانے کے نتیجے میں آلودہ کیا۔

ان دونوں میں سے کس کی راہ بہتر ہے؟امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں حاضر ہونا یا عباسی خلیفہ کی خدمت میں ؟!

یہ بزرگان دین کی زندگی کا منشور رتھا ۔تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات نے تقویٰ اختیار کیا اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کاآئین اپنی مذہبی ذمہ داری کے مطابق تشکیل دیا۔اسی وہ بلند مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

 [۱]۔ زندگی و شخصیت شیخ انصاری:۵۲

۱۰۶

 پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اولیائے خدا نہ صرف خود تقویٰ و پرہیز گاری کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ وہ اپنے روحانی حالات کی حفاظت کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے  اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں تقویٰ ایجاد کریں۔وہ اپنے عمل اور رفتار و کردار سے اپنے ہمنشین اور معاشرے کے تمام افراد کو تقویٰ و پرہیز گاری کا درس دیتے ہیں ۔ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ معاشرہ پرہیزگار رہے اور گناہوں سے دور رہے ۔

کیونکہ  معاشرے میں خاندان نبوت علیھم السلام کے تابناک انوار کا ظہور ایسے ہی متحقق ہو سکتا ہے لہذا تمام افراد پر لازم ہے کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے حصول کی کوشش کریں اور خود سے نفسانی خواہشات ،ہوا و ہوس اور شیطانی افکار کو دور کریں ۔

عظیم لوگ مقام و مرتبہ اور دنیاوی چیزوں کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتے ۔ان کا ہدف و مقصد اس سے کہیں زیادہ عظیم ہوتاہے بلکہ اگر انہیں مقام و مرتبہ اور تمام دنیاوی منصب بھی مل جائے تو وہ انہیں تقویٰ و پرہیز گاری جیسے اعلی ہدف کے لئے استفادہ کرتے ہیں نہ کہ وہ مقام و مرتبہ کے لئے  تقویٰ و پرہیز گاری چھوڑ دیں ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے تقویٰ کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ  نے فرمایا:

''.....أَنْ لاٰ یَفْقِدُکَ اللّٰهَ حَیْثُ أَمْرَکَ وَ لٰا یَرٰاکَ حَیْثُ نَهٰاکَ'' (۱)

تقویٰ یہ ہے کہ خداوند نے تمہیں جس چیز کا حکم دیا ہے تمہیں اس سے دور نہ پائے اور جس چیز سے منع کیا ہے، اس میں تمہیں ملوث نہ پائے۔ اس بیان کی رو سے اگر انسان میں کسی منصب کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن اس کے  باوجود اسے قبول کرے تو یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ کس طرح ساز گار ہو سکتا ہے؟

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص ۲۸۵

۱۰۷

  تقویٰ کو ترک کرنے کی  وجہ سے تبدیلی

کبھی روحانی حالات بعض مسائل کے درپیش آنے کی وجہ سے نابود ہو جاتے ہیں اور کبھی نابود نہیں ہوتے لیکن یہ دوسری حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس کی وضاحت کے لئے ہم یوں کہتے ہیں :کبھی خداوند کریم گناہوں کو بخش دیتاہے اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتا ہے اور کبھی خدا انہیں نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔لہذا  خدا کو پکارتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

پہلی صورت میں گناہ کسی دوسری حالت میں تبدیل ہونے کے بجائے بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں  اور دوسری صورت میں گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔تقویٰ کا بھی یہی حال ہے کیونکہ تقویٰ کبھی گناہوں کی وجہ سے ختم ہو جاتاہے اور کبھی شہوت اور کسی دوسری معصیت کے غلبہ کی وجہ سے فاسد ہو جاتاہے لیکن نابود نہیں ہوتا بلکہ یہ شیطانی حالات میں تبدیل ہو جاتاہے ۔

مولائے کائنات علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''لاٰیُفْسِدُ التَّقْویٰ اِلاّٰ غَلَبَةُ الشَّهْوَةِ'' (۱)

تقویٰ کو شہوت کے غلبہ پانے کے علاوہ کوئی چیز فاسد نہیں کرتی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت  نے یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ کو شہوت کے غالب آنے کے علاوہ کوئی چیز ختم نہیں کرتی بلکہ فرمایا:تقویٰ کو شہوت کے غلبہ کے علاوہ  کوئی چیز فاسد نہیں کرتی  اور یہ تعبیر تغیر و تبدل کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی۔

--------------

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج۶ص۳۷۶

۱۰۸

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تقویٰ ایک خاص قسم کی حالت ہے جس کے روحانی ومعنوی پہلو ہیں اور یہ اسی صورت میں فاسد ہوتا ہے جب اس میں موجود معنویت ختم  ہو جائے۔

جب کوئی شخص اپنی روحانی حالت کھو بیٹھے تو اس کی روحانی حالت شیطانی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے  اس بناء پر با تقویٰ شخص پر شہوت کا غلبہ ہو جانے اور تقویٰ کے فاسد ہو جانے کی وجہ سے اس میں روحانی روپ میں ایک شیطانی حالت ایجاد ہوتی ہے ۔

اس بناء پر اگر کسی باتقویٰ شخص  پر کسی مقام و منصب کی شہوت غالب آ جائے تو یہ اس منصب تک پہنچنے والے عام شخص سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

رحمانی حالات کا شیطانی اور شیطانی حالات کا رحمانی حالات میں تبدیل ہونا مسلّم ہے۔جن کا تذکرہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات میں بھی  ہے۔

انسان جستجو ،تلاش،کوشش اور انجام دیئے جانے والے اعمال کی وجہ سے روحانی و معنوی توانائیاں کسب کرتا ہے ۔روحانی حالات اس میں نفوذ کرکے اس کے دل و جان میں راسخ ہو جاتے ہیں  اور اس میں مادّی حالات اور طبعی کیفیات کم ہو جاتی ہیں اور اس پر معنوی و روحانی حالات کا غلبہ ہو جاتاہے۔

جس انسان میں روحانی و معنوی حالات پیدا ہو جائیں اور اگر فرض کریں کہ اس میں کوئی تبدّل وتغیّر پیدا ہوجائے تو پھر وہ ایک عام اور طبیعی انسان نہیں رہے گا بلکہ بہت سے مقامات پر اس کے روحانی و رحمانی حالت  شیطانی حالات میں تبدیل ہو جائیں گے۔

۱۰۹

جس طرح سالہا سال سے انجام پانے والے بہت سے گناہوں اور خدا کی نافرمانی  کی وجہ سے اس میں شیطانی حالات راسخ ہو جاتے ہیں  اور وہ ارواح خبیثہ اور شیاطین کے ساتھ مل جاتاہے  لیکن توبہ کی وجہ سے نہ صرف وہ خدا کی طرف پلٹ آتاہے بلکہ اس کے حالات ،رحمانی حالات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبھی توبہ کرنے کی وجہ سے گناہگاروں کے گنا ہ بخش دیتاہے اور کبھی نہ صرف یہ کہ ان کے گناہوںکو بخش دیتاہے بلکہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

خدا کے اسماء میں سے ایک ایسا اسم ہے جو گناہگاروں اور معنویت کے قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور وہ یہ  ہے:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

اے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے ۔

گناہوں کا نیکیوں میں تبدیل ہو جانا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کے آثار بھی تبدیل ہو جائیں۔

۱۱۰

 پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

انسان کس طرح  تقویٰ کوکھو دیتاہے اور کس طرح حقیقی تقویٰ حاصل کر سکتاہے؟کیا صرف گناہوں سے دوری کے ذریعے ہی خود کو متقی سمجھ سکتے ہیں؟یا تقویٰ صرف سخت اور مشکل امتحانات میں قبول ہونے سے ہی حاصل ہو سکتاہے؟

یہ سوالات بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

اس  سوال کا جواب مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے:

''عِنْدَ حُضُوْرِ الشَّهْوٰاتِ وَ اللَّذّٰاتِ یَتَبَیَّنُ وَرَعُ الْاَتْقِیٰاء'' (۱)

جب کوئی شہوت انگیز اور لذت بخش واقعہ پیش آئے ،تو متقی افراد کی پرہیزگاری واضح وروشن ہو جاتی ہے۔

اس صورت میں حقیقی تقویٰ اختیار کرنے والے دکھاوے اور خود نمائی سے بھی کام لیتے ہیں  اور اپنی توانائی پر کنٹرول کرتے ہیں  اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کو معنوی قوت کے ذریعے نیست و نابود کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر وہ ان پر کنٹرول نہ کر سکتے ہوں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری میں ثابت قدم نہیں ہیں۔

--------------

[۱] شرح غرر الحکم: ۴ / ۳۲۶

۱۱۱

 نتیجہ ٔبحث

دل اسرار و رموز سے بھرپور ایک اہم مشین ہے  جسے خدا نے آپ کے وجود میں قرار دیاہے  تا کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے ذریعے اس کی اصلاح کریں اور اس پر زنگ اور تاریکی آ جانے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کرکے اس سے استفادہ کریں۔

تقویٰ دکھائی نہ دینے والے دشمنوں کے ساتھ جنگ اور ان پر حملے کے لئے بہت طاقتور ہتھیار ہے ۔اسے خود میں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کریں۔

تقویٰ آپ کے دیرینہ دشمنوں یعنی شیاطین کے نفوذ سے بچنے کے لئے ایک مضبوط ڈھال کی مانند ہے۔یہ آپ کو ان سے بچاتا ہے۔ آپ کو  ان  کے حملوں اور مکاریوں سے آگاہ کرتا ہے اور آپ  کی حفاظت کرتا ہے۔

 تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے شیطانی و رحمانی افکار میں تشخیص دیں  اور تقویٰ کی وجہ سے خود کو زندگی کے سراب میں گرفتار نہ کریں بلکہ اس کے آب حیات سے سیراب ہوں۔

کوشش کریں کہ آپ پر ہوا و ہوس اور شہوت کو غلبہ نہ ہو ورنہ آپ کا تقویٰ و پرہیزگاری تباہ و برباد ہو جائے گا اور وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔

پیرایۂ  فقر  پادشاہی تقویٰ است          سرمایۂ طاعت تقویٰ الٰہی است

از سختی روز محشر و زدوزخ              فرمودہ خدا،نجات خواہی تقویٰ است

۱۱۲

 پانچواں باب

کام اور کوشش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' مَنْ أَعْمَلَ اِجْتِهٰادَهُ بَلَغَ مُرٰادَهُ ''

جو کسی کام کے لئے  اپنی کوشش کرے ،وہ اپنے مقصد تک پہنچ جاتاہے۔

    کام و کوشش

    کس حد تک کوشش کریں؟

    اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

    مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

    حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

    آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

    کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

    کام اور کوشش کے موانع

    ۱۔ بے ارزش کاموں کی عادت

    ۲۔ تھکاوٹ اور بے حالی

    دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

    غور و فکرسے کام کرنا

    نتیجۂ بحث

۱۱۳

کام و کوشش

اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنے کے لئے اور نیک اور اہم اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش کریں ور اس کی جستجو کرنے میں کوتاہی  نہ کریں۔

تاریخ کے صفحات کو اپنے ناموں سے روشن کرنے والی عظیم اور معروف شخصیات اپنے بلند اہداف کی راہ میں کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ا ور انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ جستجو اور کوشش کی  اور اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔

آپ بھی اپنے اہم اور الٰہی اہداف کے حصول کی کوشش کریں کیونکہ نیک اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔متعدد آیات و روایات میں ان کا بارہا تذکرہ موجود ہے۔

 کس حد تک کوشش کریں؟

بعض لوگوں کی جستجو اور کوشش صرف اورصرف دنیاوی منافع اور خیالی اعتبارات میں ہی منحصر ہے  اور وہ کائنات کے حقائق سے مکمل طور پر غافل ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ رہنے والے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کا باعث بننے والے روحانی و معنوی امور سے غفلت برتتے ہیں ۔ان کا ہدف فقط تجارت اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتاہے۔ان کا زندگی میں حقیقی مقصد زیادہ سے ززیادہ دولت کا حصول ہوتاہے۔

۱۱۴

بہت سے لوگ اپنے ہدف سے مربوط آئین میں تمام مسائل پر بڑی دقت سے غور و فکر کرتے  ہیںاور جب انہیں اس میں کامیاب ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ اسے انجام دیتے ہیں ۔لیکن وہ عبادی امور میں بالکل توجہ نہیں کرتے جو کہ خدا کے نزدیک بہت اہم ہیں ۔حالانکہ خدا کے نزدیک کسی عمل کا قبول ہوجانا اس عمل کو باثمر بنا دیتاہے۔اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے  ہیں:

''کُوْنُوْا عَلٰی قُبُوْلِ الْعَمَلِ أَشَدَّ عِنٰایَةً مِنْکُمْ عَلَی الْعَمَلِ'' (۱)

خود عمل کی بنسبت ،عمل کے قبول ہونے کی طرف زیادہ توجہ کرو۔

خدا کی بارگاہ میں عمل کا قبول ہو جانا اہمیت رکھتا ہے نہ کہ اصل عمل۔پس اگر خدا کسی عمل کو قبول نہ کرے تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بناء پر ہمیں ایسی راہ میں کوشش کرنی چاہئے کہ جو خدا کی رضائیت کا سبب ہو  نیز ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی قبولیت کو بھی مدنظر رکھیں!

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۱۷۳، خصال:۱۱۰

۱۱۵

 اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

کام اور کوشش حقیقی رغبت کے ساتھ انجام پایا جانا چاہئے کیونکہ اگر یہ نفسانی مجبوری سے انجام پائے تو کبھی اس کے منفی اثرات بھی  ہوتے ہیںاور پھر فائدے کی بجائے اس کا نقصان زیادہ ہوتاہے۔

اس بناء پر مشکل امور میں جستجو اور کوشش  صرف انہی لوگوں  کے لئے مفید ہے جو نفسانی لحاظ سے اسے انجام دینے کے لئے تیار ہوں  اور جو افراد اس طرح نہ ہوں انہیں چاہئے کہ وہ پہلے اپنے اندر نفسانی آمادگی پیدا کریں۔

پس انہیں صرف اس بناء پر نیک کاموں میں  جستجو اور کوشش سے دستبردار نہیں ہو جانا چاہئے کہ   وہ ان کے میل و رغبت کے مطابق نہیں ہیں۔بلکہ ا نہیں نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی مخالفت کرنی چاہئے  یہاں تک کہ ان کا نفس ان کی عقل اور وجدان کے مطابق ہو جائے  اور اسے نیک اعمال انجام دینے کی طرف مائل کریں۔

جو انجام دی جانے والی جستجو اور کوشش کے ذریعے اپنے نفس کو عقل کے تابع کرتے ہیں اور ذوق و شوق اور دلچسپی سے مشکل امور کو انجام دیتے ہیںاور بہت اہم نتائج حاصل کرتے ہیں۔

اس رو سے دین کی نامور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اہداف اور اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ جستجو اور کوشش کی اور اپنے نفس کو اپنی عقل کے تابع قرار دیا ، وہ اسی بنا پر علم  و عمل کے بلند درجوں تک پہنچ پائے ہیں۔

انہوں  نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی الہامات اور ارشادات کی روشنی میں بہت سی مصیبتوں کو برداشت کرکے بلند علمی و معنوی مقام حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ کر ہر طوفان کا مقابلہ کیا  اور وہ کبھی بھی تھک ہار کرنہیں بیٹھے  اور اسی طرح جستجو اور کوشش کرتے رہے۔

۱۱۶

 مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

اب ہم بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم ملّا مہدی نراقی کی زندگی کے کچھ پہلو بیان کرتے ہیں:

اس عظیم شخصیت کو درس و بحث کا اس قدر شوق تھا کہ یہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط بھی نہیں پڑھتے تھے کہ شاید اس میں کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ جو ان کی پریشانی کا باعث ہو  اور جس سے ان کا درس اور بحث ومباحثہ متاثر ہو۔ یہاں تک کہ ان کے والد کو قتل کر دیا گیا اور ان کے قتل کی خبر خط میں لکھ کر انہیں بھیج دی گئی ۔ انہیں خط ملا لیکن انہوں نے خط نہ پڑھا  اور خط کے مضمون سے آگاہ نہ ہوئے  اور اسی طرح درس و بحث میں مشغول رہے۔جب ان کے رشتہ دار ان کے آنے سے نامید ہو گئے تو انہوں نے ان کے استاد کو خط لکھ کر انہیں مرحوم نراقی  کے والد کے قتل کی خبر دی تا کہ وہ انہیں واپس ''نراق''بھیج دیں۔مرحوم ملا مہدی نراقی جب درس میں گئے تو انہوں نے اپنے استاد کو غمگین پایا اور ان سے پوچھا:آپ آج کیوں پریشان ہیں؟ اور آج آپ کیوں درس شروع نہیں کررہے ہیں؟ ان کے استاد نے کہا: تمہیں چاہئے کہ تم نراق چلے جاؤ کیونکہ تمہارے والد بیمار اور زخمی ہیں۔مرحوم نراقی نے کہا: خداوند کریم ان کی حفاظت فرمائے گا ۔ آپ  درس شروع کریں ۔ پھر ان کے استاد نے انہیں ان کے والد کی خبر دی اور انہوں نے مرحوم نراقی کو نراق جانے کا حکم دیا۔

مرحوم ملا نراقی  نراق چلے گے اور صرف تین دن وہاں رہے  اور پھر واپس نجف چلے گئے ۔ انہوں نے اس طرح اپنے نفس کو تحصیل علم کے لئے تیار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ علم و عمل کے بلند مقامات تک پہنچ پائے۔(۱)

کن وھم و ھراس برون از دل خویش      یاور چہ کنی؟ توخویش شو یاورخویش

مرغان کہ بہ شاخة ھا نلغزند از باد         ز آنست کہ تکیہ شان بود بر پرخویش

--------------

[۱]۔ فوائد الرضویہ:۶۶۹

۱۱۷

 حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

حقیقت تک پہنچنے اور حق کے حصول  کے لئے کوشش کرنی چاہئے  اور اس راہ کی مشکلات اور  تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے۔کیونکہ سعی و کوشش اور مشکلات میں صبر اور انہیں  برداشت کئے بغیر  حقیقت کو درک نہیں کر سکتے۔

مولائے کائنات حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یُدْرَکُ الْحَقُّ اِلاّٰ بِالْجِدِّ وَ الصَّبْرِ'' (۱)

جدیّت اور صبر کے بغیر حقیقت درک نہیں کر سکتے۔

اس بنا پر حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش اور جدیّت کی ضرورت ہے  تا کہ ہماری تمام تر فعالیت اور کام خاندان نبوت علیھم السلام سے صادر ہونے والے دستورات کے مطابق ہو۔

اس بناء پر اگر آپ اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنا چاہیں اور اس چیز کو جاننا چاہیں جسے ہر کوئی درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس راہ میں کوشش کریں۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْعَمَلُ، اَلْعَمَلُ، ثُمَّ النِّهٰایَةُ، النِّهٰایَةُ'' (۲)

کام!کام !پھر نہایت! نہایت!

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۴ص۱۳۲،امالی مرحوم شیخ طوسی: ج۱ص۱۱۳

[۲]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:۱۷۶

۱۱۸

جس نے ابھی تک قدم نہ بڑھایاہو یا کسی دوسرے راستے کی طرف چل دیاہو تو وہ کس طرح حقیقت کو درک کر سکتاہے  اور کس طرح اپنی منزل  اور مقصد تک پہنچ سکتا ہے؟

ھر کہ چون سایہ گشت خانہ نشین                تابش ماہ و خور کجا یابد؟

و آن کہ پہلو تھی کند از کار              سرۂ سیم و زر کجا یابد؟

گر ھنر مند گوشہ گیر بود                گام دل از ھنر کجا یابد؟

و آنکہ در بحر ،غوطہ می نخورد            سلک درّ و گھر کجا یابد؟

اس بناء پردل کو دریاسے ملانے کی کوشش کریں کیونکہ نجات کی کشتی دریا میں ہی ہے ۔یقین  کریںکہ جو دریائے محبت میں نجات کی کشتی کا ناخدا ہو وہ کبھی بھی بلاؤں کے گرداب میں غرق نہیں ہو گا ۔

اب ہم جو واقعہ ذکر کر رہے ہیں ،وہ بھی انہی میں سے ایک ہے:

مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔  ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔  میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

۱۱۹

اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں۔اس نے کہا:

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا  ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کو ہمیشہ تالا لگا رہتا ۔پہلے والے لوگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا نہ کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اور خاص کر جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ  ہے ''الانسان حریص علی ما منع''یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273