کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123898 / ڈاؤنلوڈ: 5402
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:بے شک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے ، اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے۔

اس بناء پر جو لوگ بلندمعنوی مقامات  و مراتب تک پہنچنے کے خواہاں ہوں وہ خدا کی دی ہوئی پوری زندگی میں خدا اور اولیائے خداکے ساتھ ہی انس رکھیں اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریںکہ اس سے بہتر کوئی اور خزانہ نہیں ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ التَّقْویٰ أَفْضَلُ کَنْزٍ'' ( ۱ )

بیشک تقویٰ بہترین خزانہ ہے۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے اس خزانے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں اور اس کی حفاظت کریں ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ فِ الْغَیْبِ وَالشَّهٰادَةِ'' ( ۲ )

تم پرخلوت اور جلوت میں تقویٰ الٰہی کے ساتھ رہنا لازم ہے۔

''شریک ''کے برخلاف کچھ لوگوں نے لقمہ ٔ حرام سے پرہیز کیا،تنہائی اور آشکار دونوں صورتوں  میں تقویٰ کا خیال رکھاجس کے نتیجہ میں عالی معنوی مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۳۷۶، امالی مرحوم شیخ طوسی:ج۲ص۲۹۶

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷ ۷ص۲۹۰، تحف العقول:۹۲

۱۰۱

اب ہم جو واقعہ بیان کر رہے ہیں ،وہ اسی کا ایک نمونہ ہے:

تبریز کے ایک بہت مالدار تاجر کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہورہاتھا۔اس نے بہت سے ڈاکٹروں اور حکیموںکی طرف رجوع کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ وہ نجف اشرف چلا گیا اور وہاں امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں توسل کیا اور استجارہ کے عمل میں مشغول ہو گیا۔گذشتہ زمانے میں اور اب بھی یہ رائج ہے کہ نجف کے صالح افراد ،یا مسافرین چالیس ہفتوں تک ہر بدھ کی رات مسجد سہلہ جاتے ہیںاور وہاں نماز اور مسجد کے اعمال انجام دینے کے بعد مسجد کوفہ چلے جاتے ہیںاور رات سے صبح تک  وہیں رہتے یہاں تک کہ وہ اسی مدت یا پھر آخری رات امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت سے مشرّف ہوتے۔اگرچہ ان میں سے بہت آنحضرت  کو اس وقت نہ پہچانتے اور پھر بعد میں متوجہ ہوتے۔

اب تک بہت سے افراد نے اس عمل کو انجام دیاہے اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔تبریز کے تاجر نے بھی بدھ کی چالیس راتوں تک یہ عمل انجام دیا اور آخری رات اس نے خواب اور بیداری کے عالم میں ایک شخص کو دیکھا جو اس سے فرما رہے ہیں کہ محمد علی جولایی دزفولی کے پاس جاؤ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی اور اس نے کسی اور کو نہ دیکھا۔

وہ کہتاہے:میں نے اب تک دزفول کا نام نہیں سنا تھامیں نجف آیا اور میں نے دزفول کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے اس کا پتہ بتا دیا ۔میں  اپنے نوکر کے ہمراہ اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جب میں شہر میں پہنچا تو میں نے اپنے نوکر سے کہا:ہمارے پاس جو سامان ہے تم لے کر جاؤ ،میں تمہیں بعد میں ڈھونڈ لوںگا۔

وہ چلا گیا اور میں محمد علی جولایی کو تلاش کرنے لگا۔لوگ اسے نہیں پہچانتے تھے  بالآخر ایک شخص ملا جو جولایی کو جانتا تھا ۔اس نے کہا:وہ کپڑے بُنتاہے اور فقراء میں سے ہے جو آپ کی حالت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔میں نے ان کا پتہ لیا اور ان کی دکان کی طرف چلا گیا اور آخر کار وہ مجھے مل ہی گیا:

۱۰۲

میں نے دیکھا کہ انہوں نے کرباس سے بنی شلوار قمیض پہن رکھیہے اور ایک چھوٹی تقریبا ڈیڑھ میٹر کی دکان میں کپڑے بننے میں مشغول ہیں۔جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً کہا: حاج محمد حسین تمہاری حاجت پوری ہو گئی ۔میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔میں ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی دکان میں داخل ہواغروب کا وقت تھا انہوں نے اذان کہی اور نماز ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ان سے کہا:میں مسافر ہوں اور آج رات آپ کا مہمان ہوں ۔انہوں نے قبول کر لیا۔

رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک کاسہ میرے سامنے رکھا ۔اگرچہ مجھے لذیذ غذائیںکھانے کی عادت تھی لیکن میں ان کے ساتھ کھانا کھانے لگا ۔پھر انہوں نے مجھے کھال کا ایک ٹکڑا دیا اور مجھ سے کہا :تم میرے مہمان ہو اس لئے تم اس پر سو جاؤاور خود زمین پر سو گئے ۔

صبح کے قریب وہ نیند سے بیدار ہوئے ،وضو کرنے کے بعد انہوں نے اذان کہی اور صبح کی نماز ادا کرنے میں مصروف ہو گئے اس کے بعد انہوں نے مختصر سی تعقیبات انجام دیں ۔اس کے بعد میں نے ان سے کہا:میرے یہاں آنے کے دو مقصد تھے ایک کو آپ نے بیان کر دیا اور دوسرا یہ ہے کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بلند مقام کس طرح سے حاصل ہوا کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے میرا کام آپ پر چھوڑ دیا  اور آپ کو کس طرح میرے نام اور ضمیر و باطن کا علم ہے؟

انہوں نے کہا:یہ کیسا سوال ہے؟تمہاری حاجت تھی جو پوری ہو گئی ۔

میں نے ان  سے کہا :جب تک میں یہ نہ سمجھ لوںمیں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور چونکہ میں آپ کا مہمان ہوں لہذا مہمان کا احترام کرتے ہوئے آپ مجھے یہ ضرور بتائیں۔

۱۰۳

انہوں نے بات کاآغازکیا اور کہا:میں اس جگہ کام میں مصروف تھا میری دکان کے سامنے ایک ظالم شخص رہتا تھا اور ایک سپاہی اس کی حفاظت کرتا تھا ایک دن وہ سپاہی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا:تم اپنے لئے کھانے کا انتظام کہاں سے کرتے ہو؟

میں نے اس سے کہا:میں سال میں گندم کی ایک بوری خریدکر ا س کا آٹا پسوا لیتا ہوں جسے میں کھاتا ہوں اور نہ ہی تو میری کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ۔

اس نے کہا:میں  یہاں محافظ ہوں ۔مجھے اس ظالم کے اموال سے استفادہ کرنا پسند نہیں ہے ۔ اگر تم زحمت قبول کرو تو میرے لئے بھی جو کی ایک بوری خرید لو اور ہر دن دوروٹیاں مجھے بھی دے دو ۔ میں نے اس کی بات مان لی  اور وہ ہر دن آتا اور مجھ سے دوروٹیاں لے کر چلا جاتا ۔پھر ایک دن وہ نہ آیا میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے اور مسجد میں سو رہا ہے ۔میں نے سوچا کے اس کے لئے طبیب اور دوا لے جاؤں تواس نے کہا:اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں آج رات اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔جب آدھی رات ہوگی تو ایک شخص تمہاری دکان میں آئے گا اور تمہیں میری موت سے  باخبرکر دے گا۔تم ان کے ساتھ آنا اور وہ تم سے جو کچھ کہیں اسے انجام دو اور بقیہ آٹا بھی اب تمہاری ملکیت ہے۔

میں نے چاہا کہ رات اس شخص کے ساتھ گذاروں لیکن انہوں نے اجازت نہ دی اور کہا:تم چلے جاؤ میں نے بھی ان کی بات مان لی ۔آدھی رات کے وقت کسی نے میری دکان پر دستک دی اور فرمایا:محمد علی باہر آؤ ۔میں دکان سے باہر آیا اور ان کے ساتھ مسجد میں چلا گیا ۔میں نے دیکھا کہ وہ محافظ اب اس دنیامیں نہیں  ہے ۔اس کے پاس دو افراد بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس کے جسم کو نہر کی طرف لے چلو میں اس کا بدن نہر کے کنارے لے گیا ،ان دو افرادنے اسے غسل وکفن دیا اور اس پر نماز پڑھی ۔پھر اسے لا کر مسجد کے دروازے کی جگہ دفن کر دیا ۔

۱۰۴

میں دکان کی طرف واپس چلا گیا ۔کچھ راتوں کے بعد کچھ لوگوں نے میری دکان پر دستک دی ۔کسی نے کہا:باہر آؤ میں دکان سے باہر آیا ۔میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا کہ  آقا نے تمہں بلایا ہے تم میرے ساتھ چلو ۔میں ان کی بات مان کر ان کے ساتھ چلا گیا ۔وہ مہینے کی آخری راتیں تھیں ۔لیکن صحرا چاندنی راتوں کی طرح روشن اور زمین سبز و خرم تھی لیکن چاند کہیں دکھائی نہیں  دے رہا تھا ۔میں سوچنے لگا اور تعجب کرنے لگا ۔اچانک میں صحرائے نو(نو،دزفول کے شمال میں ایک شہر کا نام  ہے) میں پہنچ گیا۔

میں نے دو بزرگ شخصیتوں کو دیکھا کہ جو ایک ساتھ تشریف فرما ہیں  اور ایک شخص ان کے سامنے کھڑا تھا ۔اس مجمع میں ایک شخص سب سے اوپر اور سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ۔ان کو دیکھتے ہی مجھ میں ایک عجیب خوف وہراس  اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔

جو شخص میرے ساتھ تھا اسنے مجھ سے کہا:کچھ آگے آ جاؤ ۔میں کچھ آگے چلا گیا  تو جو شخص ان میں سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ،انہوں نے ان میں سے ایک شخص سے فرمایا:اس سپاہی کا منصب اسے دے دو اور مجھ سے فرمایا:تم  نے میرے شیعہ کی جو خدمت کی اسی کی وجہ سے میں تمہیں  اس سپاہی کا عہدہ دینا چاہتا ہوں۔میںنے سوچا کہ شاید یہ مجھے اسی سپاہی کی  جگہ محافظ قرار دینا چاہتے ہیں ۔لیکن میں محافظ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔میں نے ان سے کہا:میں کپڑے بنتا ہوں ،مجھے سپاہی اور محافظ بننے سے کیا مطلب؟

۱۰۵

ان میں سے ایک نے کہا:ہم سپاہی  کا عہدہ تمہیں دیتے ہیں  اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم سپاہی بنو،ہم نے اس کا عہدہ تمہیں دے دیا،اب تم جاؤ۔

میں واپس لوٹا اور دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ اب وہ صحرا بہت تاریک ہے  اور صحرا میں روشنی، سبزی اور خرمی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

اس رات کے بعد مجھے میرے آقا حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے احکامات ملتے ہیں ۔آنحضرت (عج) کے احکامات و دستورات میں سے ایک تمہاری حاجت کا پورا ہونا تھا۔( ۱ )

اس سپاہی نے حرام مال  سے پرہیز کرکے اپنے لئے یہ مقام خود بنایا ۔ان کا عباسی خلیفہ کے دربار کے قاضی''شریک ''سے مقائسہ کریں جس نے خود کو حرام مال کھانے کے نتیجے میں آلودہ کیا۔

ان دونوں میں سے کس کی راہ بہتر ہے؟امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں حاضر ہونا یا عباسی خلیفہ کی خدمت میں ؟!

یہ بزرگان دین کی زندگی کا منشور رتھا ۔تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات نے تقویٰ اختیار کیا اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کاآئین اپنی مذہبی ذمہ داری کے مطابق تشکیل دیا۔اسی وہ بلند مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

 [۱]۔ زندگی و شخصیت شیخ انصاری:۵۲

۱۰۶

 پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اولیائے خدا نہ صرف خود تقویٰ و پرہیز گاری کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ وہ اپنے روحانی حالات کی حفاظت کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے  اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں تقویٰ ایجاد کریں۔وہ اپنے عمل اور رفتار و کردار سے اپنے ہمنشین اور معاشرے کے تمام افراد کو تقویٰ و پرہیز گاری کا درس دیتے ہیں ۔ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ معاشرہ پرہیزگار رہے اور گناہوں سے دور رہے ۔

کیونکہ  معاشرے میں خاندان نبوت علیھم السلام کے تابناک انوار کا ظہور ایسے ہی متحقق ہو سکتا ہے لہذا تمام افراد پر لازم ہے کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے حصول کی کوشش کریں اور خود سے نفسانی خواہشات ،ہوا و ہوس اور شیطانی افکار کو دور کریں ۔

عظیم لوگ مقام و مرتبہ اور دنیاوی چیزوں کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتے ۔ان کا ہدف و مقصد اس سے کہیں زیادہ عظیم ہوتاہے بلکہ اگر انہیں مقام و مرتبہ اور تمام دنیاوی منصب بھی مل جائے تو وہ انہیں تقویٰ و پرہیز گاری جیسے اعلی ہدف کے لئے استفادہ کرتے ہیں نہ کہ وہ مقام و مرتبہ کے لئے  تقویٰ و پرہیز گاری چھوڑ دیں ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے تقویٰ کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ  نے فرمایا:

''.....أَنْ لاٰ یَفْقِدُکَ اللّٰهَ حَیْثُ أَمْرَکَ وَ لٰا یَرٰاکَ حَیْثُ نَهٰاکَ'' (۱)

تقویٰ یہ ہے کہ خداوند نے تمہیں جس چیز کا حکم دیا ہے تمہیں اس سے دور نہ پائے اور جس چیز سے منع کیا ہے، اس میں تمہیں ملوث نہ پائے۔ اس بیان کی رو سے اگر انسان میں کسی منصب کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن اس کے  باوجود اسے قبول کرے تو یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ کس طرح ساز گار ہو سکتا ہے؟

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص ۲۸۵

۱۰۷

  تقویٰ کو ترک کرنے کی  وجہ سے تبدیلی

کبھی روحانی حالات بعض مسائل کے درپیش آنے کی وجہ سے نابود ہو جاتے ہیں اور کبھی نابود نہیں ہوتے لیکن یہ دوسری حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس کی وضاحت کے لئے ہم یوں کہتے ہیں :کبھی خداوند کریم گناہوں کو بخش دیتاہے اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتا ہے اور کبھی خدا انہیں نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔لہذا  خدا کو پکارتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

پہلی صورت میں گناہ کسی دوسری حالت میں تبدیل ہونے کے بجائے بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں  اور دوسری صورت میں گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔تقویٰ کا بھی یہی حال ہے کیونکہ تقویٰ کبھی گناہوں کی وجہ سے ختم ہو جاتاہے اور کبھی شہوت اور کسی دوسری معصیت کے غلبہ کی وجہ سے فاسد ہو جاتاہے لیکن نابود نہیں ہوتا بلکہ یہ شیطانی حالات میں تبدیل ہو جاتاہے ۔

مولائے کائنات علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''لاٰیُفْسِدُ التَّقْویٰ اِلاّٰ غَلَبَةُ الشَّهْوَةِ'' (۱)

تقویٰ کو شہوت کے غلبہ پانے کے علاوہ کوئی چیز فاسد نہیں کرتی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت  نے یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ کو شہوت کے غالب آنے کے علاوہ کوئی چیز ختم نہیں کرتی بلکہ فرمایا:تقویٰ کو شہوت کے غلبہ کے علاوہ  کوئی چیز فاسد نہیں کرتی  اور یہ تعبیر تغیر و تبدل کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی۔

--------------

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج۶ص۳۷۶

۱۰۸

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تقویٰ ایک خاص قسم کی حالت ہے جس کے روحانی ومعنوی پہلو ہیں اور یہ اسی صورت میں فاسد ہوتا ہے جب اس میں موجود معنویت ختم  ہو جائے۔

جب کوئی شخص اپنی روحانی حالت کھو بیٹھے تو اس کی روحانی حالت شیطانی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے  اس بناء پر با تقویٰ شخص پر شہوت کا غلبہ ہو جانے اور تقویٰ کے فاسد ہو جانے کی وجہ سے اس میں روحانی روپ میں ایک شیطانی حالت ایجاد ہوتی ہے ۔

اس بناء پر اگر کسی باتقویٰ شخص  پر کسی مقام و منصب کی شہوت غالب آ جائے تو یہ اس منصب تک پہنچنے والے عام شخص سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

رحمانی حالات کا شیطانی اور شیطانی حالات کا رحمانی حالات میں تبدیل ہونا مسلّم ہے۔جن کا تذکرہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات میں بھی  ہے۔

انسان جستجو ،تلاش،کوشش اور انجام دیئے جانے والے اعمال کی وجہ سے روحانی و معنوی توانائیاں کسب کرتا ہے ۔روحانی حالات اس میں نفوذ کرکے اس کے دل و جان میں راسخ ہو جاتے ہیں  اور اس میں مادّی حالات اور طبعی کیفیات کم ہو جاتی ہیں اور اس پر معنوی و روحانی حالات کا غلبہ ہو جاتاہے۔

جس انسان میں روحانی و معنوی حالات پیدا ہو جائیں اور اگر فرض کریں کہ اس میں کوئی تبدّل وتغیّر پیدا ہوجائے تو پھر وہ ایک عام اور طبیعی انسان نہیں رہے گا بلکہ بہت سے مقامات پر اس کے روحانی و رحمانی حالت  شیطانی حالات میں تبدیل ہو جائیں گے۔

۱۰۹

جس طرح سالہا سال سے انجام پانے والے بہت سے گناہوں اور خدا کی نافرمانی  کی وجہ سے اس میں شیطانی حالات راسخ ہو جاتے ہیں  اور وہ ارواح خبیثہ اور شیاطین کے ساتھ مل جاتاہے  لیکن توبہ کی وجہ سے نہ صرف وہ خدا کی طرف پلٹ آتاہے بلکہ اس کے حالات ،رحمانی حالات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبھی توبہ کرنے کی وجہ سے گناہگاروں کے گنا ہ بخش دیتاہے اور کبھی نہ صرف یہ کہ ان کے گناہوںکو بخش دیتاہے بلکہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

خدا کے اسماء میں سے ایک ایسا اسم ہے جو گناہگاروں اور معنویت کے قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور وہ یہ  ہے:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

اے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے ۔

گناہوں کا نیکیوں میں تبدیل ہو جانا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کے آثار بھی تبدیل ہو جائیں۔

۱۱۰

 پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

انسان کس طرح  تقویٰ کوکھو دیتاہے اور کس طرح حقیقی تقویٰ حاصل کر سکتاہے؟کیا صرف گناہوں سے دوری کے ذریعے ہی خود کو متقی سمجھ سکتے ہیں؟یا تقویٰ صرف سخت اور مشکل امتحانات میں قبول ہونے سے ہی حاصل ہو سکتاہے؟

یہ سوالات بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

اس  سوال کا جواب مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے:

''عِنْدَ حُضُوْرِ الشَّهْوٰاتِ وَ اللَّذّٰاتِ یَتَبَیَّنُ وَرَعُ الْاَتْقِیٰاء'' (۱)

جب کوئی شہوت انگیز اور لذت بخش واقعہ پیش آئے ،تو متقی افراد کی پرہیزگاری واضح وروشن ہو جاتی ہے۔

اس صورت میں حقیقی تقویٰ اختیار کرنے والے دکھاوے اور خود نمائی سے بھی کام لیتے ہیں  اور اپنی توانائی پر کنٹرول کرتے ہیں  اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کو معنوی قوت کے ذریعے نیست و نابود کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر وہ ان پر کنٹرول نہ کر سکتے ہوں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری میں ثابت قدم نہیں ہیں۔

--------------

[۱] شرح غرر الحکم: ۴ / ۳۲۶

۱۱۱

 نتیجہ ٔبحث

دل اسرار و رموز سے بھرپور ایک اہم مشین ہے  جسے خدا نے آپ کے وجود میں قرار دیاہے  تا کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے ذریعے اس کی اصلاح کریں اور اس پر زنگ اور تاریکی آ جانے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کرکے اس سے استفادہ کریں۔

تقویٰ دکھائی نہ دینے والے دشمنوں کے ساتھ جنگ اور ان پر حملے کے لئے بہت طاقتور ہتھیار ہے ۔اسے خود میں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کریں۔

تقویٰ آپ کے دیرینہ دشمنوں یعنی شیاطین کے نفوذ سے بچنے کے لئے ایک مضبوط ڈھال کی مانند ہے۔یہ آپ کو ان سے بچاتا ہے۔ آپ کو  ان  کے حملوں اور مکاریوں سے آگاہ کرتا ہے اور آپ  کی حفاظت کرتا ہے۔

 تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے شیطانی و رحمانی افکار میں تشخیص دیں  اور تقویٰ کی وجہ سے خود کو زندگی کے سراب میں گرفتار نہ کریں بلکہ اس کے آب حیات سے سیراب ہوں۔

کوشش کریں کہ آپ پر ہوا و ہوس اور شہوت کو غلبہ نہ ہو ورنہ آپ کا تقویٰ و پرہیزگاری تباہ و برباد ہو جائے گا اور وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔

پیرایۂ  فقر  پادشاہی تقویٰ است          سرمایۂ طاعت تقویٰ الٰہی است

از سختی روز محشر و زدوزخ              فرمودہ خدا،نجات خواہی تقویٰ است

۱۱۲

 پانچواں باب

کام اور کوشش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' مَنْ أَعْمَلَ اِجْتِهٰادَهُ بَلَغَ مُرٰادَهُ ''

جو کسی کام کے لئے  اپنی کوشش کرے ،وہ اپنے مقصد تک پہنچ جاتاہے۔

    کام و کوشش

    کس حد تک کوشش کریں؟

    اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

    مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

    حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

    آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

    کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

    کام اور کوشش کے موانع

    ۱۔ بے ارزش کاموں کی عادت

    ۲۔ تھکاوٹ اور بے حالی

    دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

    غور و فکرسے کام کرنا

    نتیجۂ بحث

۱۱۳

کام و کوشش

اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنے کے لئے اور نیک اور اہم اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش کریں ور اس کی جستجو کرنے میں کوتاہی  نہ کریں۔

تاریخ کے صفحات کو اپنے ناموں سے روشن کرنے والی عظیم اور معروف شخصیات اپنے بلند اہداف کی راہ میں کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ا ور انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ جستجو اور کوشش کی  اور اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔

آپ بھی اپنے اہم اور الٰہی اہداف کے حصول کی کوشش کریں کیونکہ نیک اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔متعدد آیات و روایات میں ان کا بارہا تذکرہ موجود ہے۔

 کس حد تک کوشش کریں؟

بعض لوگوں کی جستجو اور کوشش صرف اورصرف دنیاوی منافع اور خیالی اعتبارات میں ہی منحصر ہے  اور وہ کائنات کے حقائق سے مکمل طور پر غافل ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ رہنے والے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کا باعث بننے والے روحانی و معنوی امور سے غفلت برتتے ہیں ۔ان کا ہدف فقط تجارت اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتاہے۔ان کا زندگی میں حقیقی مقصد زیادہ سے ززیادہ دولت کا حصول ہوتاہے۔

۱۱۴

بہت سے لوگ اپنے ہدف سے مربوط آئین میں تمام مسائل پر بڑی دقت سے غور و فکر کرتے  ہیںاور جب انہیں اس میں کامیاب ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ اسے انجام دیتے ہیں ۔لیکن وہ عبادی امور میں بالکل توجہ نہیں کرتے جو کہ خدا کے نزدیک بہت اہم ہیں ۔حالانکہ خدا کے نزدیک کسی عمل کا قبول ہوجانا اس عمل کو باثمر بنا دیتاہے۔اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے  ہیں:

''کُوْنُوْا عَلٰی قُبُوْلِ الْعَمَلِ أَشَدَّ عِنٰایَةً مِنْکُمْ عَلَی الْعَمَلِ'' (۱)

خود عمل کی بنسبت ،عمل کے قبول ہونے کی طرف زیادہ توجہ کرو۔

خدا کی بارگاہ میں عمل کا قبول ہو جانا اہمیت رکھتا ہے نہ کہ اصل عمل۔پس اگر خدا کسی عمل کو قبول نہ کرے تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بناء پر ہمیں ایسی راہ میں کوشش کرنی چاہئے کہ جو خدا کی رضائیت کا سبب ہو  نیز ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی قبولیت کو بھی مدنظر رکھیں!

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۱۷۳، خصال:۱۱۰

۱۱۵

 اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

کام اور کوشش حقیقی رغبت کے ساتھ انجام پایا جانا چاہئے کیونکہ اگر یہ نفسانی مجبوری سے انجام پائے تو کبھی اس کے منفی اثرات بھی  ہوتے ہیںاور پھر فائدے کی بجائے اس کا نقصان زیادہ ہوتاہے۔

اس بناء پر مشکل امور میں جستجو اور کوشش  صرف انہی لوگوں  کے لئے مفید ہے جو نفسانی لحاظ سے اسے انجام دینے کے لئے تیار ہوں  اور جو افراد اس طرح نہ ہوں انہیں چاہئے کہ وہ پہلے اپنے اندر نفسانی آمادگی پیدا کریں۔

پس انہیں صرف اس بناء پر نیک کاموں میں  جستجو اور کوشش سے دستبردار نہیں ہو جانا چاہئے کہ   وہ ان کے میل و رغبت کے مطابق نہیں ہیں۔بلکہ ا نہیں نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی مخالفت کرنی چاہئے  یہاں تک کہ ان کا نفس ان کی عقل اور وجدان کے مطابق ہو جائے  اور اسے نیک اعمال انجام دینے کی طرف مائل کریں۔

جو انجام دی جانے والی جستجو اور کوشش کے ذریعے اپنے نفس کو عقل کے تابع کرتے ہیں اور ذوق و شوق اور دلچسپی سے مشکل امور کو انجام دیتے ہیںاور بہت اہم نتائج حاصل کرتے ہیں۔

اس رو سے دین کی نامور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اہداف اور اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ جستجو اور کوشش کی اور اپنے نفس کو اپنی عقل کے تابع قرار دیا ، وہ اسی بنا پر علم  و عمل کے بلند درجوں تک پہنچ پائے ہیں۔

انہوں  نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی الہامات اور ارشادات کی روشنی میں بہت سی مصیبتوں کو برداشت کرکے بلند علمی و معنوی مقام حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ کر ہر طوفان کا مقابلہ کیا  اور وہ کبھی بھی تھک ہار کرنہیں بیٹھے  اور اسی طرح جستجو اور کوشش کرتے رہے۔

۱۱۶

 مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

اب ہم بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم ملّا مہدی نراقی کی زندگی کے کچھ پہلو بیان کرتے ہیں:

اس عظیم شخصیت کو درس و بحث کا اس قدر شوق تھا کہ یہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط بھی نہیں پڑھتے تھے کہ شاید اس میں کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ جو ان کی پریشانی کا باعث ہو  اور جس سے ان کا درس اور بحث ومباحثہ متاثر ہو۔ یہاں تک کہ ان کے والد کو قتل کر دیا گیا اور ان کے قتل کی خبر خط میں لکھ کر انہیں بھیج دی گئی ۔ انہیں خط ملا لیکن انہوں نے خط نہ پڑھا  اور خط کے مضمون سے آگاہ نہ ہوئے  اور اسی طرح درس و بحث میں مشغول رہے۔جب ان کے رشتہ دار ان کے آنے سے نامید ہو گئے تو انہوں نے ان کے استاد کو خط لکھ کر انہیں مرحوم نراقی  کے والد کے قتل کی خبر دی تا کہ وہ انہیں واپس ''نراق''بھیج دیں۔مرحوم ملا مہدی نراقی جب درس میں گئے تو انہوں نے اپنے استاد کو غمگین پایا اور ان سے پوچھا:آپ آج کیوں پریشان ہیں؟ اور آج آپ کیوں درس شروع نہیں کررہے ہیں؟ ان کے استاد نے کہا: تمہیں چاہئے کہ تم نراق چلے جاؤ کیونکہ تمہارے والد بیمار اور زخمی ہیں۔مرحوم نراقی نے کہا: خداوند کریم ان کی حفاظت فرمائے گا ۔ آپ  درس شروع کریں ۔ پھر ان کے استاد نے انہیں ان کے والد کی خبر دی اور انہوں نے مرحوم نراقی کو نراق جانے کا حکم دیا۔

مرحوم ملا نراقی  نراق چلے گے اور صرف تین دن وہاں رہے  اور پھر واپس نجف چلے گئے ۔ انہوں نے اس طرح اپنے نفس کو تحصیل علم کے لئے تیار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ علم و عمل کے بلند مقامات تک پہنچ پائے۔(۱)

کن وھم و ھراس برون از دل خویش      یاور چہ کنی؟ توخویش شو یاورخویش

مرغان کہ بہ شاخة ھا نلغزند از باد         ز آنست کہ تکیہ شان بود بر پرخویش

--------------

[۱]۔ فوائد الرضویہ:۶۶۹

۱۱۷

 حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

حقیقت تک پہنچنے اور حق کے حصول  کے لئے کوشش کرنی چاہئے  اور اس راہ کی مشکلات اور  تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے۔کیونکہ سعی و کوشش اور مشکلات میں صبر اور انہیں  برداشت کئے بغیر  حقیقت کو درک نہیں کر سکتے۔

مولائے کائنات حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یُدْرَکُ الْحَقُّ اِلاّٰ بِالْجِدِّ وَ الصَّبْرِ'' (۱)

جدیّت اور صبر کے بغیر حقیقت درک نہیں کر سکتے۔

اس بنا پر حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش اور جدیّت کی ضرورت ہے  تا کہ ہماری تمام تر فعالیت اور کام خاندان نبوت علیھم السلام سے صادر ہونے والے دستورات کے مطابق ہو۔

اس بناء پر اگر آپ اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنا چاہیں اور اس چیز کو جاننا چاہیں جسے ہر کوئی درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس راہ میں کوشش کریں۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْعَمَلُ، اَلْعَمَلُ، ثُمَّ النِّهٰایَةُ، النِّهٰایَةُ'' (۲)

کام!کام !پھر نہایت! نہایت!

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۴ص۱۳۲،امالی مرحوم شیخ طوسی: ج۱ص۱۱۳

[۲]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:۱۷۶

۱۱۸

جس نے ابھی تک قدم نہ بڑھایاہو یا کسی دوسرے راستے کی طرف چل دیاہو تو وہ کس طرح حقیقت کو درک کر سکتاہے  اور کس طرح اپنی منزل  اور مقصد تک پہنچ سکتا ہے؟

ھر کہ چون سایہ گشت خانہ نشین                تابش ماہ و خور کجا یابد؟

و آن کہ پہلو تھی کند از کار              سرۂ سیم و زر کجا یابد؟

گر ھنر مند گوشہ گیر بود                گام دل از ھنر کجا یابد؟

و آنکہ در بحر ،غوطہ می نخورد            سلک درّ و گھر کجا یابد؟

اس بناء پردل کو دریاسے ملانے کی کوشش کریں کیونکہ نجات کی کشتی دریا میں ہی ہے ۔یقین  کریںکہ جو دریائے محبت میں نجات کی کشتی کا ناخدا ہو وہ کبھی بھی بلاؤں کے گرداب میں غرق نہیں ہو گا ۔

اب ہم جو واقعہ ذکر کر رہے ہیں ،وہ بھی انہی میں سے ایک ہے:

مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔  ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔  میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

۱۱۹

اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں۔اس نے کہا:

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا  ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کو ہمیشہ تالا لگا رہتا ۔پہلے والے لوگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا نہ کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اور خاص کر جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ  ہے ''الانسان حریص علی ما منع''یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مراد حضرت يعقوب كے پوتے و نواسے ہيں _ البتہ بعض مفسرين كے مطابق اسباط سے مراد اسحاقعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _ واضح ر ہے كہ ''يعقوب'' كے بعد كلمہ ''الاسباط'' لانے سے پہلے نكتہ كى تائيد ہوتى ہے_

۶_ وحى اور انبياءعليه‌السلام كا مبعوث كياجانا تاريخ ميں مداوم اور مسلسل رہا ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و آتينا داود زبوراً

۷_ وحي، پيغمبرى كے دعوے ميں حقانيت انبياءعليه‌السلام كى ضامن ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح والنبينمن بعده

۸_ ديگر انبيائے خداعليه‌السلام پر ايمان لانے كا لازمہ يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لايا جائے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح و النبين خداوند متعال يہ نكتہ بيان كركے كہ وحى كے لحاظ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبياء ميں كوئي فرق نہيں ، انبياءعليه‌السلام پر ايمان كے دعويداروں كو يہ ياد دہانى كرا دينا چاہتا ہے كہ اگر ان كى نبوت پر ايمان ركھتے ہو تو پھر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھى ايمان لانا پڑے گا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرو گے تو در حقيقت تمام انبياءعليه‌السلام كا انكار كرر ہے ہو_

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كے نزول كا انكار در اصل ديگر انبياءعليه‌السلام پر وحى كے نزول كا انكار ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و اوحينا

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ان تمام خصوصيات كى حامل ہے جو گذشتہ انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و النبين من بعده

چونكہ وحى كو گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى سے تشبيہ دى گئي ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى ميں گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام كى وحى والى خصوصيات پائي جاتى تھيں _

۱۱_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے پيغمبر ہيں جنہيں كتاب اور شريعت سے نوازا گيا_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے بھى پيغمبر موجود تھے لہذا ان سے پہلے كسى پيغمبرعليه‌السلام كا نام لئے بغير ان كا ذكر كرنے كى وجہ يہ ہوسكتى ہے كہ وہ پہلے پيغمبر تھے جنہيں شريعت عطا كى گئي_

۱۲_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر خدا نے وحى نازل فرمائي_

۲۰۱

كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ مورد بحث آيت نے نہ تفصيلى اور نہ اجمالى كسى بھى لحاظ سے حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كسى پيغمبر پر وحى كے نزول كے بارے ميں كچھ نہيں كہا لہذا كہا جا سكتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كوئي ايسا نبى موجود نہيں تھا جس پر وحى نازل ہوئي ہو_ بنابريں حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر وحى نازل ہوئي_

۱۳_ خدا وند عالم كى بارگاہ ميں حضرت عيسيعليه‌السلام كو خاص عظمت و احترام حاصل ہے_و اوحينا الى عيسي و ايوب و يونس و هارون و سليمان حضرت عيسيعليه‌السلام كے بعد ذكر شدہ انبياء زمانےعليه‌السلام كے لحاظ سے ان پر مقدم ہيں اور ان سے پہلے گذرے ہيں ليكن خدا وند متعال نے انہيں سب سے پہلے ذكر كيا ہے تا كہ ان كى خاص عظمت كى طرف اشارہ كرے_

۱۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد آنے والے انبياءعليه‌السلام ميں سے ايك حضرت داؤدعليه‌السلام ہيں _ جنہيں خدا وند عالم كى جانب سے زبور نامى كتاب عطا كى گئي_و آتينا داود زبوراً

۱۵_ زبور گراں بہا اور خاص اہميت كى حامل كتاب ہے_و آتينا داود زبوراً

۱۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ميں وہ تمام خصوصيات موجود تھيں جو دوسرے انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں جدا طور پر پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح حضرت امام باقرعليه‌السلام اور امام صادقعليه‌السلام مذكورہ آيت كے مضمون كى طرف اشارہ كرنے كے بعد فرماتے ہيں ( فجمع لہ كل وحي)(۱) يعنى اس ميں تمام وحى كى خصوصيات اكٹھى كى گئي تھيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كا نزول ۱، ۹، ۱۰، ۱۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا برگزيدہ ہونا ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۱

ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نبوت ۴

اديان: اديان كى تاريخ ۳، ۱۱، ۱۴

اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كى نبوت ۴

اسماعيل: حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نبوت ۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح ۳۰۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۳ ح ۶۷۰_

۲۰۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۳، ۴، ۵، ۹، ۱۰، ۱۶;انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۳; انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا تداوم ۶; انبياءعليه‌السلام كى حقانيت ۷;انبياءعليه‌السلام كى ہم آہنگى ۱۰;انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸ ;انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۸ ; ايمان كا متعلق ۸

ايوبعليه‌السلام : حضرت ايوبعليه‌السلام كى نبوت ۴ برگزيدہ لوگ: ۱، ۲، ۵

عيسيعليه‌السلام : حضرت عيسيعليه‌السلام كا احترام ۱۳;حضرت عيسيعليه‌السلام كى عظمت ۳; حضرت عيسي كى نبوت ۴;حضرت عيسيعليه‌السلام كے فضائل ۱۳

داؤدعليه‌السلام : حضرت داؤدعليه‌السلام كى كتاب ۱۴;حضرت داؤدعليه‌السلام كى نبوت ۱۴

دين: پہلا دين ۱۱

روايت: ۱۶

زبور: زبور كاآسمانى كتاب ہونا ۱۴ ;زبور كى اہميت ۱۵;زبور كى قدر و قيمت ۱۵

سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۴

مقربين: ۱۳

نوحعليه‌السلام : حضرت نوحعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۲، ۱۲ ;حضرت نوحعليه‌السلام كا چنا جانا ۲;حضرت نوحعليه‌السلام كا دين ۱۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كى كتاب ۱۱;حضرت نوحعليه‌السلام كى نبوت ۲، ۴

وحي: وحى كا تداوم ۶; وحى كا كردار ۷;وحى كو جھٹلانا ۹;وحى كى تاريخ ۱۲

وحى كے مخاطبين: ۴

ہارونعليه‌السلام : حضرت ہارونعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام كى اولاد: حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كا چنا جانا ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كى نبوت ۵

يونسعليه‌السلام : حضرت يونس كى نبوت ۴

۲۰۳

آیت ۱۶۴

( وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيماً )

كچھ رسول ہيں جن كے قصے ہم آپ سے بيان كرچكے ہيں او ركچھ رسول ہيں جن كا تذكرہ ہم نے نہيں كيا ہے او رالله نے موسي سے باقاعدہ گفتگو كى ہے _

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ديگر انبياءعليه‌السلام اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبروں كى مانند رسول اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر ہيں _

و رسلاً قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلا لم نقصصهم عليك ''رسلاً'' فعل محذوف ''ارسلنا'' كيلئے مفعول ہے يعنى و ارسلنا رسلا اور يہ جملہ ''اوحينا الى ...'' پر عطف ہے_ بنابرايں يہ بھى تشبيہ ميں اس كے ساتھ شريك ہے_ البتہ اس فرق كے ساتھ كہ مشبہ (انا اوحينا اليك)كے معنى كا لازمہ رسالت ہے اور اسى كا ارادہ كيا گيا ہے_ يعنى اے پيغمبر آپ ہمارے رسول ہيں جيسا كہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام بھى ہمارے رسول تھے_

۲_ پيغمبر اكرمعليه‌السلام كى رسالت كا انكار دوسرے تمام انبياءعليه‌السلام كى رسالت كا انكار ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و رسلا قد قصصناهم عليك مذكورہ بالا مطلب ميں گذشتہ مطلب كے بارے ميں دى گئي توضيح سے استفادہ كيا گيا ہے_

۳_ خداوند متعال نے صرف اپنے چند انبياءعليه‌السلام كے حالات كوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے بيان كيا ہے_

رسلا قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلاً لم نقصصهم عليك

۴_ خداوند متعال نے قرآن كريم ميں بعض انبياء كے حالات بيان نہيں كئے_و رسلا لم نقصصهم عليك

۵_ خداوند متعال نے كسى واسطے كے بغير حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_و كلم الله موسي تكليماً

گذشتہ جملات ميں خدا وند عالم نے اپنے اسم ''الله '' كا ذكر نہيں فرمايابلكہ صرف (اوحينا)

۲۰۴

جيسے افعال استعمال كيے ہيں _ جبكہ اس جملہ ''كلم اللہ موسي'' ميں اسم جلالہ ''اللہ'' استعمال كيا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے بذات خود حضرت موسيعليه‌السلام سے بات كى اور ان كے درميان كوئي واسطہ نہيں تھا_

۶_ خداوند متعال كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام كرنا وحى كى ايك قسم ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و كلم الله موسي تكليماً اگر ''كلم اللہ'' ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو تو جملہ يوں ہوگا ''اوحينا اليك كما كلم اللہ موسي تكليماً'' يعنى پيغمبر پر نازل ہونے والى وحى الہى كى مثال اس كلام كى سى ہے جو خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام سے كيا_ بنابريں خدا كا كلام كرنا بھى ايك قسم كى وحى ہے_

۷_ بارگاہ خداوندى ميں حضرت موسيعليه‌السلام كو خاص عظمت حاصل ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت موسيعليه‌السلام كا دوسرے انبياءعليه‌السلام سے جدا طور پر نام لينا اور انہيں ''كليم اللہ'' كہنا ان كے بلند و بالا مقام پر دلالت كرتا ہے_

۸_ حضرت موسيعليه‌السلام پر حقيقى ايمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے كا باعث بنتا ہے_اوحينا اليك كما كلم الله موسي تكليماً مذكورہ مطلب اس مبنى پر استوار ہے كہ جب جملہ ''كلم اللہ ...'' گذشتہ آيت ميں جملہ ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو_ يعنى اے رسول جس طرح ہم نے آپ پر وحى نازل كى اور موسي سے كلام كيا اور چونكہ يہ ان لوگوں سے خطاب كيا جارہا ہے جو حضرت موسيعليه‌السلام كى نبوت كا اقرار كرتے ہيں لہذا انہيں اس مشابہت كو مدنظر ركھتے ہوئے رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا بھى اقرار كرنا چاہيئے_

۹_ حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والى مدت ميں گذرنے والے بعض انبياءعليه‌السلام كا نام قرآن كريم ميں ذكر نہ كرنے كى وجہ ان كى رسالت كا مخفى ہونا ہے_و رسلا لم نقصصهم عليك

حضرت امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :كان ما بين آدم و بين نوح من الانبياء مستخفين و مستعلنين و لذلك خفى ذكرهم فى القرآن فلم يسموا كما سمى من استعلن من الانبياء و هو قول الله_ ''رسلا لم نقصصهم عليك'' يعنى لم اسم المستخفين كما سميت المستعلنين من الانبياء (۱) يعنى حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والے زمانے ميں بعض انبياءعليه‌السلام ايسے

__________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح۳۰۶; تفسير برھان ج۱ ص ۴۲۷ ح۴_

۲۰۵

بھى ہيں جنہيں پنہاں ركھا گيا اور اسى وجہ سے قرآن كريم ميں بھى ان كا ذكر نہيں آيا_ چنانچہ جس طرح بعض انبياءعليه‌السلام كا على الاعلان نام ليا گيا ہے اسى طرح بعض كا نام نہيں ليا گيا اور خدا وند عالم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے: ''اے رسول: ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بعض انبياءعليه‌السلام كے حالاتنہيں سنائے'' يعنى جس طرح بعض ظاہر شدہ انبياءعليه‌السلام كا نام ليا ہے اسى طرح بعض پنہاں انبياءعليه‌السلام كا نام نہيں ليا_

۱۰_ خداوند متعال نے حضرت موسي سے تين دن اور رات ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں كلام كيا_

و كلم الله موسي تكليماً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہيں :ان الله ناجي موسي بن عمران بمائة الف كلمة و اربعة و عشرين الف كلمة فى ثلاثة ايام و لياليهن .(۱) يعنى خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام بن عمران كے ساتھ تين شب و روز ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں گفتگو كي_

۱۱_ خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام سے طور سينا ميں درخت سے ايسى آواز پيدا كركے گفتگو كى جسے ہر طرف سے ان كے تمام ہمراہى سن سكتے تھے_و كلم الله موسي تكليماً امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا وند عالم كى گفتگو كے بارے ميں فرماتے ہيں :فخرج بهم الى طور سيناء فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه لان الله عزوجل احدثه فى الشجرة ثم جعله منبعثاً منها حتى سمعوه من جميع الوجوه (۲) يعنى وہ اپنے تمام ساتھيوں كے ہمراہ طور سينا كى طرف روانہ ہوئے ...پھر خداوند متعال نے ان سے كلام كيا جسے ان كے تمام ساتھيوں نے سنا كيونكہ خدائے عزوجل نے درخت ميں آواز ايجاد كى اور اسے چاروں طرف پھيلا ديا جس كى وجہ سے وہ تمام ساتھيوں كو سنائي دي_

۱۲_ خداوند متعال نے زبان اور دہن سے استفادہ كيے بغير كلام ايجاد كركے حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_

و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا كے كلام كے بارے ميں فرماتے ہيں :... كلام الخالق للمخلوق ليس ككلام المخلوق لمخلوق و لا يلفظ بشق فم و لسان و لكن يقول له ''كن'' فكان بمشيته ما خاطب به موسي من الامر والنهى من غير تردد فى نفس (۳) يعنى خالق كى مخلوق

_________________

۱) خصال صدوق ص ۶۴۱ ح۲۰ باب ما بعد الالف: نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۵_

۲) توحيد صدوق ص ۱۲۱ ح ۲۴ ب ۸:نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۶_

۳) احتجاج طبرسى ج۲ ص ۱۸۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵، ح۶۸۱_

۲۰۶

كے ساتھ كلام كى كيفيت ايسى نہيں ہے جيسے مخلوق كے كلام كى مخلوق كے ساتھ اور نہ ہى خالق كا كلام مخلوق كے كلام كى مانند منہ كے كھلنے اور زبان كے مخصوص انداز ميں ہلنے كى وجہ سے الفاظ كى صورت ميں ايجاد ہوتا ہے بلكہ وہ اسے ہوجانے كا حكم ديتا ہے تو وہ اس كى مشيئت سے ہوجاتا ہے

۱۳_ خداوند متعال كا كلام حادث ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام صادقعليه‌السلام كلام خدا كے حادث يا قديم ہونے كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :ان الكلام صفة محدثة ليس بازلية كان الله عزوجل و لا متكلم (۱) يعنى كلام ايك ازلى نہيں بلكہ محدث صفت ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱، ۱۲; اللہ تعالى كے كلام كا حادث ہونا ۱۳; اللہ تعالى كے كلام كى كيفيت ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى مخفى رسالت ۹;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كو جھٹلانا ۲; انبياءعليه‌السلام كے درميان ہم آہنگى ۸ ; انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳، ۴، ۹

ايك لاكھ چوبيس ہزار كا عدد: ۱۰

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸;ايمان كا متعلق ۸;حضرت موسيعليه‌السلام پر ايمان ۸

درخت: درخت كا كلام كرنا ۱۱

روايت: ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳

قرآن كريم: قرآن كريم كے قصے ۴

كوہ سينا: ۱۱

مقربين: ۷ موسيعليه‌السلام : حضرت موسيعليه‌السلام كا قصہ ۱۰، ۱۱;حضرت موسيعليه‌السلام كا مقام و مرتبہ۵، ۷، ۱۰;حضرت موسيعليه‌السلام كى عظمت ۷

وحي: وحى كى اقسام ۶

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۱۰۷ ح۱; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵ ح ۶۸۲_

۲۰۷

آیت ۱۶۵

( رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزاً حَكِيماً )

يہ سارے رسول بشارت دينے والے اورڈرا نے والے اس لئے بھيجے گئے تا كہ رسولوں كے آنے كے بعد انسانوں كى حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے او رخدا سب پر غالب او رصاحب حكمت ہے _

۱_ انبياءعليه‌السلام رسالت كى تبليغ اور انسانوں كى تربيت كيلئے بشارت اور انذار جيسى روشوں سے استفادہ كرتے تھے_

رسلا مبشرين و منذرين

۲_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے تشويق كو تہديدپر مقدم كرناضرورى ہے_رسلا مبشرين و منذرين

۳_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے بشارت كى روش انذار سے زيادہ مؤثر ہوتى ہے_رسلاً مبشرين و منذرين

بشارت كو انذار پر مقدم كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ بشارت كانقش انسانوں كى ہدايت ميں زيادہ مؤثر ہوتا ہے_

۴_ ا نبياءعليه‌السلام روش ہدايت كے انتخاب ميں انسان ميں موجود منفعت طلبى اور خطرات سے بچنے كى خصلت كو مد نظر ركھتے تھے_رسلاً مبشرين و منذرين

۵_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا مقصد لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۶_ انبياءعليه‌السلام لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنے كا وسيلہ ہيں _رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۷_ انسان كو ہدايت اور ہدف تك پہنچنے كيلئے ہميشہ انبياءعليه‌السلام كى ضرورت ہوتى ہے_

۲۰۸

رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۸_ خداوند عالم كسى كو اتمام حجت كے بغير عذاب نہيں ديتا_رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۹_ خداوند متعال ہميشہ عزيز (ناقابل شكست فاتح) اور حكيم (دانا) ہے_و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كا بھيجا جانا، خداوند عالم كى عزت و حكمت كا تقاضا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۱_ خداوندعالم، دليل و استدلال ميں قاہر اور غالب ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً

اللہ تعالى كى عزت اور ناقابل شكست ہونے كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق وہى ہے جو جملہ ''لئلا يكون ...'' ميں بيان ہوا ہے_

۱۲_ خداوند عالم كے دليل و استدلال پر غلبہ اور تسلط كا منبع اس كى بے كراں حكمت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۳_ خدا وند عالم كے سامنے لوگوں كے پاس كسى حجت كا نہ ہونا اس كى عزت كا ايك مصداق ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل و كان الله عزيزاً حكيماً عزيز اور اتمام حجت ميں پائے جانے والے ارتباط كو سامنے ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداوند عالم اتمام حجت نہ كرتا تو لوگ اس كے سامنے دليل پيش كرتے اور يہ اس كى عزت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

اتمام حجت: ۵، ۶، ۸، ۱۳

اسماء و صفات: حكيم ۹;عزيز ۹

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا استدلال ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى حكمت ۱۰، ۱۲;اللہ تعالى كى عزت ۱۰، ۱۳;اللہ تعالى كى قدرت ۱۱، ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا انذار ۱; انبياءعليه‌السلام كا كردار ۶، ۷;انبياءعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۴; انبياءعليه‌السلام كى بشارت ۱;انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا

۲۰۹

فلسفہ ۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱۰

انذار : انذار كى اہميت ۲

انسان: انسان كى معنوى ضروريات ۷;انسان كى منفعت طلبى ۴

تبليغ: تبليغ كى روش۱

تربيت: تربيت كى روش ۱، ۲، ۳; تربيت ميں انذار ۱، ۲، ۳; تربيت ميں بشارت ۳; تربيت ميں تشويق ۲

تشويق: تشويق كى اہميت ۲

سزا: بيانكيے بغير سزا دينا ۸

فقہى قواعد: ۸

نبوت: نبوت كى اہميت ۷

ہدايت: ہدايت كا طريقہ ۴;ہدايت ميں انذار ۲; ہدايت ميں تشويق ۲

آیت ۱۶۶

( لَّـكِنِ اللّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلآئِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً )

(يہ مانيں يانہ مانيں ) ليكن خدا نے جو كچھ آپ پر نازل كيا ہے وہ خود اس كى گواہى ديتا ہے كہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل كيا ہے او رملائكہ بھى گواہى ديتے ہيں او رخدا خود بھى شہادت كے لئے كافى ہے _

۱_ خدا وند متعال اور اس كے فرشتے قرآن كى حقانيت اور رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر گواہ ہيں _

لكن الله يشهد بما انزل اليك و الملائكة يشهدون

۲۱۰

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و الملائكة يشهدون'' كو''الله يشهد'' پر عطف كيا گيا ہے اور اس كا نتيجہ يہ ہے كہ ''يشھدون'' كا متعلق بھى''بما انزل اليك'' ہوگا_

۲_ قرآن كريم كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر خداوند عالم نے نازل كيا ہے_يشهد بما انزل اليك انزله

۳_ خداوند متعال نے اہل كتاب كے انكار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دل ميں پيدا ہونے والى رنجيدگى اور افسردگى دور كرنے كيلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دى ہے_فلا يؤمنون الا قليلا لكن الله يشهد بما انزل اليك اكثر اہل كتاب كى جانب سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار كا ذكر كرنے كے بعد خداوند متعال كا استدراك كے ساتھ حقانيت قرآن پر گواہى دينے كا مقصد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا ہے_

۴_ قرآن كريم ;خدا وند عالم كے علم و دانش كا جلوہ ہے_انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ضمير مفعولى كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور اس ميں موجود ''بائ'' معيت كے معنى ميں ہے: يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والے قرآن كريم كے ہمراہ علم الہى بھى تھا_

۵_ قرآن كريم ميں علم الہى كى تجلي، قرآن و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خداوند متعال كى گواہى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه جملہ ''انزلہ بعلمہ'' ''يشھد'' كيلئے تفسير ہوسكتا ہے_ يعنى خود نزول قرآن جو علم الہى كا ايك مظہر ہے قرآن كريم كى اور اس كے نتيجے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خدا وند متعال كى گواہى ہے_

۶_ قرآن كا نزول خدا وند متعال كى نظارت ميں ہے اور شياطين كى دخالت سے محفوظ ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ چونكہ يہاں پر علم خدا ، حفاظت و نگہبانى سے كنايہ ہے، لہذا جملہ ''انزلہ بعلمہ'' كا معنى يہ بنتا ہے كہ خداوند متعال نے قرآن كريم اس طرح سے نازل كيا كہ خود اس كى حفاظت اور نگہبانى فرمائي ہے تا كہ شياطين دخالت اور كمى بيشى نہ كرسكيں _

۷_ حقانيت قرآن كريم پر خداوند متعال كى گواہى كا منبع اس كا علم و آگاہى ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه

۸_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت سے آگاہ

۲۱۱

ہونے كى وجہ سے قرآن كريم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمايا ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ''انزلہ'' كے فاعل كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور علم كا متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت ہے_ جس كى وجہ سے قرآن كريم ان پر نازل ہوا يعنى''انزله عالماً بانك اهل لذلك'' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرقرآن كريم نازل فرمايا كيونكہ وہ جانتا تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كى اہليت ركھتے ہيں _

۹_ ضرورى ہے كہ علم و آگاہى كى اساس پر گواہى دى جائے_و لكن الله يشهد انزله بعلمه

۱۰_ رسالت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر يقين كرنے كيلئے قرآن كريم بحيثيت دليل كافى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمہ ممكن ہے ''بما انزل اليك'' ميں موجود ''بائ'' سببيت كيلئے ہو_ اس صورت ميں گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر شہادت و گواہى كا متعلق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہوگي_ اس مبنا كے مطابق جملہ ''يشھد بما انزل ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت پر خدا كى گواہى كا سبب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن كا نزول ہے يعنى جو بھى قرآن كريم كو ملاحظہ كرے وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى حقانيت پر گواہى ديگا_

۱۱_ خدا كے فرشتے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول قرآن كے شاہد اور ناظر تھے_والملائكة يشهدون

جملہ ''و الملائكة يشھدون'' ميں ''واو'' حاليہ ہے اور ''يشھدون'' كا معنى ''وہ نظارت كرتے ہيں ''كيا گيا ہے_

۱۲_ مختلف امور كے اثبات و نفى پر خدا وند عالم كى شہادت كافى و مكمل ہے_و كفى بالله شهيداً

۱۳_ حقانيت قرآن كريم كے اثبات كيلئے خدا وند عالم كى گواہى كافى ہے_لكن الله يشهد بما انزل و كفي بالله شهيداً

۱۴_ قرآن كريم لوگوں پر خدا وند عالم كى طرف سے اتمام حجت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل لكن الله يشهد بما انزل اليك

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم و اندوہ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كى حقاينت ۱، ۱۰; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۸

اتمام حجت: ۱۴

۲۱۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ۷، ۸; اللہ تعالى كى گواہى ۱، ۵، ۷، ۱۲، ۱۳;اللہ تعالى كے افعال ۲; اللہ تعالى كے علم كى تجلى ۴، ۵

اہل كتاب: اہل كتاب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

قرآن كريم: قرآن كريم كا كردار ۱۰، ۱۴ ;قرآن كريم كا محفوظ

ہونا۶;قرآن كريم كا نزول ۲، ۶، ۸، ۱۱;قرآن كريم كى حقانيت ۱، ۵، ۷، ۱۳;قرآن كريم كى فضيلت ۴

گواہي: گواہى كى شرائط ۹; گواہى ميں علم ۹

ملائكہ: ملائكہ كى گواہى ۱،۱۱

آیت ۱۶۷

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ ضَلاَلاً بَعِيداً )

بيشك جن لوگوں نے كفراختيار كيا او رراہ خداسے منع كرديا وہ گمراہى ميں بہت دور تك چلے گئے ہيں _

۱_ راہ خدا سے روكنے والے كفار ، ايسے بھٹكے ہوئے لوگ ہيں جو سخت گمراہ ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً كلمہ ''الذين'' كے تكرار كے بغير ''صدوا ...'' كو ''كفروا'' پر عطف كرنا اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفر اختيار كرنا اور راہ خدا سے روكنا دونوں صفات مجموعى طور پر ضلالت بعيد ہے_

۲_ اہل كتاب; قرآن كريم اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار اور لوگوں كو اسلام كى طرف آنے سے روكنے كى وجہ سے ايسے منحرف لوگ ہيں جو سخت بھٹكے ہوئے ہيں _ان الذين كفروا و صد وا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً گذشتہ (۱۵۳ سے بعد والي) آيات كے قرينہ كى بناپر''الذين كفروا ...'' كے مورد نظر

۲۱۳

مصاديق ميں سے اہل كتاب كا وہ گروہ ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور قرآن كريم كو وحى كے طور پر قبول نہيں كرتا تھا اور گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''سبيل اللہ'' سے مراد دين اسلام ہے_

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور قرآن كريم كے بارے ميں كفراور دوسروں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا بہت بڑى گمراہى ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً

گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۴_ لوگوں كو راہ خدا كى طرف آنے سے روكنا كفر كى علامت ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و صد وا'' كو جملہ ''كفروا'' كيلئے مفسر و مبين كے طور پر اخذ كيا گيا ہے يعنى راہ خدا سے روكنا كفر ہے_

۵_ انسان كے طرز عمل كا سرچشمہ اس كى آراء و افكار اور اعتقادات ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''صدوا'' كا ''كفروا'' پر عطف از باب عطف سبب بر مسبب ہو _

۶_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان راہ خدا ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

اس چيز كو سامنے ركھتے ہوئے كہ ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں يہ كہا جا سكتا ہے كہ ''سبيل اللہ'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان لانا ہے_

۷_ گمراہى كے متعدد مراتب ہيں _قد ضلوا ضلالاً بعيداً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۳

اہل كتاب: اہل كتاب كى گمراہى ۲

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۶;ايمان كا متعلق ۶;ايمان كے اثرات ۵;قرآن كريم پر ايمان ۶

راہ خدا: ۶

راہ خدا سے روكنا ۱، ۲، ۳، ۴

طرز عمل:

۲۱۴

طرز عمل كى بنياديں ۵

علم: علم كے اثرات ۵

كفار: كفار كى گمراہى ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲،۳;كفر كي

علامت ۴;كفر كے اثرات ۲

گمراہ لوگ: ۱

گمراہي: گمراہى كے مراتب ۱، ۲، ۳، ۷;گمراہى كے موارد ۳

منحرف لوگ: ۱، ۲

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيا لوجى ۵

آیت ۱۶۸

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَظَلَمُواْ لَمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقاً )

او رجن لوگوں نے كفراختيار كرنے كے بعد ظلم كيا ہے خدا انہيں ہرگز معاف نہيں كرسكتا او رنہ انہيں كسى راستہ كى ہدايت كرسكتا ہے _

۱_ ظالم كفار; خدا وند متعال كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً جملہ ''و ظلموا'' ميں ''الذين'' كا تكرار نہ ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ''كفر اور ظلم'' دونوں صفات مجموعاً خدا وند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنتى ہيں _

۲_ رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور دوسروں كو راہ خدا وند عالم سے روكنا خداوند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا سبب بنتا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''كفر'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۲۱۵

۳_ ظالم كفار اور راہ خدا سے روكنے والوں كو ايمان لانے اور توبہ كرنے كى توفيق نہيں ہوگي_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم بديہى ہے كہ كفار، كفر كے جس مرتبہ پر بھى ہوں اگر ايمان لے آئيں تو وہ مغفرت و ہدايت الہى كے حقدار و مستحق ہوتے ہيں : بنابريں جملہ ''لم يكن ...'' سے مراد يہ ہے كہ انہيں ايمان لانے كى توفيق نصيب نہيں ہوگى جس كے نتيجے ميں وہ بخشے نہيں جائيں گے_

۴_ لوگوں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا ظلم ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله ان الذين كفروا و ظلموا گذشتہ آيت شريفہ كے قرينہ كى بناپر ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۵_ سعادت و خوشبختى كى تمام راہيں ظالم كفار پر بند ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً

۶_ بعض اہل كتاب كا كفر اور ظلم ان كيلئے خدا كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنا_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''الذين كفروا و ظلموا'' كا مورد نظر مصداق بعض اہل كتاب ہيں _

۷_ بعض اہل كتاب كافر اور ستمگر لوگ ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۸_ ستمگر كفار كا مغفرت و ہدايت سے محروم ہونا، خدا وند عالم كى سنتوں ميں سے ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۹_ انسان كى مغفرت اور ہدايت خدا كے ہاتھ ميں ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۱۰_ انسان كے گناہوں كى بخشش اس كيلئے ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى سے مختص امور ۹; اللہ تعالى كى بخشش ۹;اللہ تعالى كى سنتيں ۸; اللہ تعالى كى مغفرت سے

۲۱۶

محروم ہونا ۲;اللہ تعالى كى ہدايت ۹، ۱۰; اللہ تعالى كى ہدايت سے محروم ہونا۲

انسان: انسان كى مغفرت ۹;انسان كى ہدايت ۹

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۶ ،۸; اہل كتاب كے گروہ ۷; كافر اہل كتاب ۶، ۷

ايمان: ايمان سے محروميت۳

توبہ: توبہ سے محروميت۳

راہ خدا: راہ خدا سے روكنا ۲، ۳;راہ خدا سے روكنے كا ظلم ۴

سعادت: سعادت سے محروم ہونا ۵

ظلم: ظلم كے اثرات ۶;ظلم كے موارد ۴

كفار: ظالم كفار كا محروم ہونا ۳، ۸; كفار كا ظلم۱، ۵;كفار كى شقاوت۵; كفار كى محروميت ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲;كفر كے اثرات ۶

گناہ: گناہ كى بخشش كے اثرات۱۰

مغفرت: مغفرت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸

ہدايت: ہدايت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸;ہدايت كا پيش خيمہ۱۰

آیت ۱۶۹

( إِلاَّ طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيراً ) .

سوائے جہنم كے راستے كے جہاں ان كو ہميشہ ہميشہ رہنا ہے او ريہ خدا كے لئے بہت آسان ہے _

۱_ خداوند متعال، قيامت كے دن ظالم كفار كو صرف راہ جہنم كى طرف ہدايت كرے گا_

۲۱۷

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

مذكورہ بالامطلب ميں جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمانہ اور وقت قيامت كو قرار ديا گيا ہے يعنى خداوند عالم اس دن كفار كو صرف جہنم كى طرف راہنمائي كرے گا_

۲_ كفر، باطل اديان كى طرف رجحان اور ناروا اعمال دوزخ كى جانب جانے والا راستہ ہے_

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمان اور وقت دنيا كى زندگى ہو اس مبني كے مطابق كفار كو راہ جہنم كى طرف ہدايت كرنے سے مراد ان كيلئے كفر كے ارتكاب اور ناروا اعمال كا پيش خيمہ فراہم كرنا ہے كہ جس كا انجام دوزخ ہوگا_

۳_ خداوندمتعال نے ظالم كفار كا تمسخر اڑايا ہے_و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

ممكن ہے كہ كفار كو جہنم كى طرف لے جانےكيلئے ہدايت كا كلمہ ان كا تمسخر اڑانے كيلئے استعمال كيا گيا ہو_

۴_ بعض اہل كتاب اپنے كفر اور ظلم كى وجہ سے ہميشہ جہنم ميں رہيں گے_ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم خالدين فيها گذشتہ آيات كى روشنى ميں مذكورہ آيت كا مورد نظر مصداق كافر اہل كتاب ہيں _

۵_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور لوگوں كو دائرہ اسلام ميں آنے سے روكنا ہميشہ جہنم ميں رہنے كا سبب بنے گا_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۶_ ہميشہ جہنم ميں رہنا ظالم كفار كى سزا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۷_ جہنم ابدى اور ہميشگى ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً

۸_ خداوند متعال كيلئے دوزخ اور دوزخيوں كو جاويدان اور ابدى بنانا بہت آسان كام ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً_ و كان ذلك على الله يسيراً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۵

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى جانب سے تمسخر اڑانا۳;اللہ تعالى

۲۱۸

كے افعال ۱، ۸

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۴;اہل كتاب كا كفر ۴

جہنم: جہنم كا ہميشگى و ابدى ہونا ۷، ۸;جہنم كے موجبات ۲ ، ۴،۵; جہنم ميں ہميشہ كيلئے رہنا ۴، ۵، ۶

جہنمي: جہنميوں كا ہميشہ جہنم ميں رہنا ۸

رجحان: ناپسنديدہ رجحان۲

ظالمين: ۶

ظلم: ظلم كے اثرات ۴

عمل: ناپسنديدہ عمل ۲;

كفار: ظالم كفار ۳، ۶;كفار جہنم ميں ۱،۶; كفار قيامت ميں ۱;كفار كا مذاق اڑانا ۳;كفار كى سزا ۶

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۵;كفر كے اثرات ۲، ۴،۵

آیت ۱۷۰

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْراً لَّكُمْ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً )

اے انسانو تمہارے پاس پروردگار كى طرف سے حق لے كر رسول آگيا ہے لہذا اس پر ايمان لے آؤ اسى ميں تمہارى بھلائي ہے اور اگر تم نے كفراختيار كيا تو ياد ركھو كہ زمين و آسمان كى كل كائنات خداكے لئے ہے او روہى علم والا بھى ہے اور حكمت والابھى ہے _

۱_ پيغمبر اكرم، رسالت اور سراسر حق پر مبنى معارف كے ساتھ خدا وند عالم كى جانب سے بھيجے گئے _

۲۱۹

قد جاء كم الرسول بالحق مذكورہ بالا مطلب ميں ''بالحق'' ميں موجود ''بائ'' كو معيت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ہو سكتا ہے كہ اس سے مراد تعليمات اور معارف الہى ہوں كہ يہ وہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہے_

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت سے پہلے اہل كتاب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے منتظر تھے_

يايها الناس قد جاء كم الرسول ''قد جاء كم'' ميں ''قد'' توقع كے معنى ميں اور ''الرسول'' ميں ال عہد ذہنى كيلئے ہے جو يہ مطلب ادا كررہا ہے كہ مخاطبين آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے منتظر تھے_

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت عالمگير اور سب لوگوں كيلئے ہے_يا ايها الناس قد جاء كم الرسول

۴_ قرآن كريم خدا وند متعال كى جانب سے بھيجى گئي اور سراسر حق پر مبنى كتاب ہے_

قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم مذكورہ بالا مطلب ميں كلمہ ''الحق'' سے مراد قرآن كريم اور ''من ربكم'' كو اس كيلئے حال قرار ديا گيا ہے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت اور قرآن كريم كا نزول ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۶_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت اور آسمانى كتب كے نزول كا مقصد تمام انسانوں كى ہدايت اور تربيت ہے_

يا ايها الناس قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان بشريت كيلئے خير و سعادت كا باعث ہے_

يا ايها الناس قد جائكم الرسول بالحق فامنوا خيراً لكم مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''خيرا'' محذوف فعل ''يكن'' كيلئے خبر ہو_ يعنى پورا كلام يوں ہے ''فامنوا ان تؤمنوا يكن خيراً لكم''_

۸_ انسان ايك ايسى مخلوق ہے جو خير كى طالب اور كمال كى متلاشى ہے_يا ايها الناس فامنوا خيراً لكم

جملہ ''خيراً لكم'' انسان ميں خير طلبى اور سعادت كى جستجو كى صفت كو طبيعى اور فطرى امر بتلارہا ہے اور اسے صرف حقيقى خيرو سعادت كے مصداق يعنى قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كى طرف ہدايت و راہنمائي كررہا ہے_

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273