کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار14%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123952 / ڈاؤنلوڈ: 5405
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چھٹاباب

توسل

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' هُمُ الْوَسِیْلَةُ اِلَی اللّٰهِ وَالْوُصْلَةُ اِلٰی عَفْوِهِ وَ رِضٰاه''

معصومین علیھم السلام خدا کی طرف وسیلہ ہیں اور اس کی بخشش اور رضائیت تک پہنچنے کا راستہ ہیں۔

    خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد    توسل ، قرآن کی نظر میں

    دعاؤں اور زیارات میں توسّل    توسّل تقرب الٰہی کا ذریعہ    توسّل دعاؤں کے مستجاب ہونے کا ذریعہ

    توسّل میں اعتقادی مسائل    توسّل کے بارے میں کچھ بنیادی نکات

    ۱۔ پاکیزگی قلب

    ۲۔ توسّل میں توجہ اور فکر کا تمرکز

    توسّلات میں یقین کا کردار    معرفت، انسان کے یقین میں اضافہ کا باعث

    توسّلات میں اضطرار کا کردار    حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں ایک پریشان لڑکی

    دوسرا نکتہ

    عالم غیب سے مدد    علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل

    توسّل سے دوری، گناہ کی علامت

    نتیجہ ٔبحث

۱۴۱

 خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد

خدا کی یاد افسردہ  و غمگین اور پریشان دلوں کو آرام بخشتی ہے  اور انہیں مشکلات سے نجات دیتی ہے ۔ لیکن غفلت اور خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا قلب کی تاریکی کا باعث ہے جو دل کو ہمیشہ کے لئے پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔

خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی:

''یٰا مُوْسیٰ لاٰ تَفْرَحْ بِکَثْرَةِ الْمٰالِ وَ لاٰ تَدَعْ ذِکْرِ عَلٰی کُلِّ حٰالٍ فَاِنَّ کَثْرَةَ الْمَالِ تُنْسِی الذُّنُوْبَ وَ اِنَّ تَرْکَ ذِکْرِیْ یُقْسِ الْقُلُوْبَ'' (۱)

اے موسی!مال کی کثرت کی وجہ سے خوش نہ ہو  اور کسی بھی حال میں میری یاد کو ترک نہ کرو کیونکہ مال کی کثرت گناہوں کوبھلا دیتی ہے اور بیشک میری یاد کو ترک کردینا قساوت قلب ایجاد کر تی ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۲ ص۶۳۔علل الشرائع: ج۱ص۷۷

۱۴۲

کیونکہ خدا کی یاد کو ترک کرنے کی وجہ سے شیطان انسان پر مسلط ہو جاتا ہے اور اس سے آرام و سکون کو سلب کر لیتاہے۔

خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

(وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَهُ شَیْْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِیْن ) (۱)

اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا ۔

گناہوں کو فراموش کر دینا،قساوت قلب اور شیطان کامسلط ہو جانا  یاد خدا کو ترک کر دینے کے نتائج میں سے ہے۔خدا کی یاد انسان کو روحانی گرفتاریوں سے نجات دیتی ہے اور اسے اطمینان قلب اور روحانی سکون عطا کرتی ہے۔ہمیں اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ اہلبیت علیھم السلام کی یاد بھی یاد خدا ہے نیز ذکر خدا سے پیدا ہونے والے اثرات اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ذکر بھی  ایجاد ہو جاتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ ذِکْرَنٰا مِنْ ذِکْرِ اللّٰهِ'' (۲)

بیشک ہمارا ذکر ،خدا کا ہی ذکرہے۔

--------------

[۱]۔ سورۂ زخرف،آیت:۳۶

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۴۶۸

۱۴۳

ہمیں صرف ان معصوم ہستیوں کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ مشکلات اور پریشانیوں میں ان سے متوسل بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ خاندان نبوت و رسالت علیھم  السلام نجات کی کشتی ہیں اور بے سہارا لوگوں کے لئے پناہگاہ ہیں۔خاندان رسالت   علیھم  السلام پریشانیوں کے دریا میں گرفتار   بے چاروں کی فریاد سننے والے ہیں ۔وہ گمراہی کے وحشتناک گرداب میں پھنسے ہوئے افراد کے لئے نجات کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم  ان بزرگ اور معصوم ہستیوں کو پریشانیوں اور مشکلوں میں گرفتار امت کے منجی(نجات دینے والا)کے طور پر پہچانیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''أَیُّهَا النّٰاسُ شُقُّوْا أَمْوٰاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجٰاةِ'' (۱) اے لوگو!فتنے کی لہروں کو کشتی نجات  کی مدد سے چیر دو۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''مَنْ رَکِبَ غَیْرَسَفِیْنَتِنٰا غَرِقَ'' (۲) جو کوئی ہماری کشتی کے سوا کسی اور میں سوار ہو گیا وہ غرق ہو جائے گا۔

اس بناء پر انسان اپنی تمام مشکلات حتی کے اعتقادی مسائل و مشکلات میں بھی حقیقی ہادی و ورہنما  سے ہی ہدایت لینا چاہئے ورنہ وہ گمراہ ہو جائے گا۔ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ یَطْلُبِ الهِدٰایَةَ مِنْ غَیْرِ أَهْلِهٰا یَضِلُّ'' (۳) جو کوئی ہدایت کے اہل افراد کے علاوہ کسی اور سے ہدایت لے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔

--------------

[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:۵

[۲]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۱۸۴

[۳]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۳۰۸

۱۴۴

اب ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے معاشرے کے پست اور نا اہل افراد کی پیروی کو قبول کر لیا؟!

مشکلات، فتنہ،فساد اور تباہ و برباد کر دینے والے طوفان (جب طوفان کی خطرناک لہریں ہوشیار بھی کر رہی ہوں)میں خدا اور اولیائے خدا کے علاوہ کسی اور کا دامن تھامنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔لیکن اہلبیت اطہار علیھم السلام سے متمسک ہونا اور ان معصوم  ہستوں سے مدد مانگنا آپ کو  گمراہی و ہلاکت سے نجات دلا کر ساحل تک پہنچا دے گا۔

اگرچہ سمندر میں   مدّوجذرتمام چھوٹی بڑی کشتیوں کو ایک ساتھ اوپرنیچے کر دیتاہے لیکن دریا کا طلاطم تمام کشتیوں کو غرق نہیں کر سکتا ۔مصیبتیں اور فتنہ و فساد بھی ایسے ہی ہیں یہ جتنے بھی خطرناک کیوں نہ ہوں لیکن پھر بھی یہ تمام انسانوں کو نابودنہیں کر سکتے بلکہ کچھ کو کشتی نجات ساحل تک پہنچا ہی دیتی ہے۔

رہ ملک سعادت را تواند بی  خطر  رفتن

بہ دست خود زآئین ادب ھرکس عصا دارد

انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی افراد موجود ہیں جو نہ صرف آخری زمانے کے فتنوں کے سامنے سینہ سپر رہتےہیں بلکہ اپنی قدر و منزلت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

اگر آپ ایسے افراد میں سے ہونا پسند کرتے ہیں تو مشکلات اور مصائبکے طوفان کی خطرناک لہروں میں اہلبیت اطہار علیھم السلام کی کشتی سے متمسک ہوجائیں اور ولایت الٰہیہ کا عظیم مقام رکھنے والی ہستیوں سے توسل کے ذریعے خود کو گمراہی اور حیرانگی سے نجات دیں۔

۱۴۵

 توسل ، قرآن کی نظر میں

اس بناء پر اپنی مشکلات اور پریشانیوں میں اہلبیت علیھم السلام سے متوسل ہوں اور اس خاندان کی کریمانہ عنایات سے استفادہ کریں ۔حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اذٰا نَزَلَتْ بِکُمْ شِدَّةً فَاسْتَعِیْنُوا بَنٰا عَلَی اللّٰهِ،وَهُوَ قَوْلُ اللّٰهِ: (وَلِلّهِ الأَسْمَاء  الْحُسْنَی فَادْعُوهُ بِها (۱) قٰالَ:قٰالَ اَبُو عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السلام:نَحْنُ وَاللّٰهِ اْلاَسْمٰائُ الْحُسْنَی الَّذِ لاٰ یُقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ اِلاّٰ بِمَعْرِفَتِنٰا قٰالَ:فَادْعُوْهُ بِهٰا'' (۲)

جب بھی تم کسی سخت مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو ہمارے وسیلہ سے خدا سے مدد مانگو۔یہی خدا کے فرمان کا معنی ہے کہ خدا نے فرمایا''اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں لہذا اسے ان ہی کے ذریعہ پکارو''

پھر حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایاکہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:

خدا کی قسم ہم خدا کے وہ بہترین نام ہیں ،کوئی عمل بھی قبول نہیں ہو سکتا مگر ہماری معرفت کے ذریعے سے۔پھر حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

خدا کو ان کے وسیلے سے پکارو۔

--------------

[۱]۔ سورۂ اعراف،آیت:۱۸۰

[۲]۔ بحار الانوار:ج۹۴ص۶،تفسیر عیاشی: ج۲ص۴۲

۱۴۶

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام خدا کے بہترین نام ہیں اور اس دور میں حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف اس کا مجسم نمونہ اور ہم پر خدا کی عنایات کا مظہر ہیں۔

ہمیں تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنا چاہئے اور اس ہستی کی عنایات سے توسل کرکے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہئے۔

قرآن مجید میں پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ ِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاهِدُواْ فِیْ سَبِیْلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) (۱)

ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجا ؤ۔

ہم اہلبیت اطہار علیھم السلام سے توسّل کے ذریعے عالم غیب سیمددطلب کرتے ہیں اور ان بزرگ ہستیوں کی عنایات حاصل کرتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ امائدہ،آیت:۳۵

۱۴۷

 دعاؤں اور زیارات میں توسّل

لوگوں نے اہلبیت  عصمت و طہارت علیھم السلام سے توسّل کے اس قدر نتائج دیکھے ہیں جو کہ ناقابل انکار ہیں ۔خاندان وحی علیھم السلام کے تمام محب  اپنی مشکلات  انہیں ہستیوں کے توسّل سے حل کرتے ہیں  نیز وہ دوسروں کی حاجات کے مستجاب ہونے کے  شاہد بھی ہیں ان کے توسّل سے ایسی مشکلیں حل ہو جاتی ہیں جن کا ہماری عقل کی محدویت کے اعتبار سے حل ہونا ممکن  نہیں ہوتا۔

اہلبیت اطہار  علیھم السلام سے توسّل کی اہمیت کی وجہ سے نہ صرف قرآن مجید اور خاندان وحی علیھم السلام کی روایات میں اس کا حکم کیاگیا ہے بلکہ عاؤں اور زیارتوں کے ضمن میں بھی ہمیں توسّل کی طرف دعوت دی گئی ہے۔اب اس کے دو نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں عرض کرتے ہیں:

''اَتَوَسَّلُ اِلَی اللّٰهِ بِکَ فِْحَوٰائِجِیْ مِنْ أَمْرِ آخِرَتِْ وَ دُْنْیٰاَ وَ بِکَ یَتَوَسَّلُ الْمُتَوَسِّلُوْنَ اِلَی اللّٰهِ فِ حَوٰائِجِهِمْ'' (۱)

میں اپنی تمام حاجتوں میںچاہے وہ دنیاوی ہوں یااخروی آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوسل ہوتا ہوں اور خدا کی بارگاہ  میں متوسل ہونے والے سب کے سب اپنی حاجات میں آپ  کے وسیلہ سے ہی توسل کرتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۱۰۱ص۱۶۸

۱۴۸

حضرت امام حسین علیہ السلام سے متوسّل ہونا اور آپ کے لئے گریہ و عزاداری کرنا سب لوگوں کے لئے ایک کھلا باب ہے حتی گناہوں سے آلودہ اور اپنے رفتار و کردار میں پشیمان افراد بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف رخ کرسکتے ہیں کیونکہ آنحضرت تمام گناہگاروں کو بخشنے والے ہیں ۔یقین جانیں  کہ یہ مظلوم امام  سارے بے سہارا لوگوں کی دلجوئی و دلنوازی فرماتے ہیں۔

۲۔ روز عرفہ کے دن کی دعا میں پڑھتے ہیں:

''.....أَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ نَبِیِّکَ وَ آلِهِ الطّٰاهِرِیْنَ وَ اَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِاْلآئِمَّةِ الَّذِیْنَ اِخْتَرْتَهُمْ لِسِرِّکَ وَ اطَّلَعْتَهُمْ عَلٰی وَحْیِکَ'' (۱) خدایا! میں تجھ سے تیرے پیغمبر حضرت محمد(ص) اور ان کی پاک آل کے حق سے سوال کرتا ہوں اور تجھ سے اس امام کے وسیلہ سے متوسّل ہوتا ہوں جسے تونے اپنے سرّ کے لئے منتخب کیا اور اسے اپنی وحی سے آگاہ کیا۔

مکتب اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار نہ صرف ان بزرگ ہستیوں کوخدا کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اور شفیع قرار دیتے ہیں اور توسّلات کے ذریعے اہلبیت علیھم السلام کی توجہات اور عنایات حاصل کرتے ہیںبلکہ ان بزرگوں کے اسم سے متوسّل ہو کر ان کے نام کو خداکے تقرب کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ہم حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

''اَلسَّلاٰمُ عَلٰی مَنْ أَسْمٰائُهُمْ وَسِیْلَةُ السّٰائِلِیْنَ وَ هَیٰاکِلُهُمْ أَمٰانُ الْمَخْلُوْقِیْنَ وَ حُجَجُهُمْ اِبْطٰالُ شُبَهِ الْمُلْحِدِیْنَ.....'' (۲) ان پر سلام ہو جن کے اسماء سوال کرنے والوں کے لئے وسیلہ ہیں اور جن کا پیکر مخلوقین کے لئے امان ہے اور جن کا استدلال ملحدین کے شبہہ کو باطل کرنے والا ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۹۸ص۲۳۱

[۲]۔ بحار الانوار:ج۱۰۱ص۱۶۸

۱۴۹

اس بناء پر ان ہستیوں کے اسماء خدا کی بارگاہ میں تقرب کا ذریعہ ہیں اسی لئے محبان اہلبیت علیھم السلام خاندان نبوت علیھم السلام کی یاد میں برپا کی جانے والی مجالس میں انہیں کے اسماء کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے ورد کے ذریعے اپنے قلوب کو منور کرتے ہیں۔ہمارے بزرگ نہ صرف ان معصوم ہستیوں کے اسماء سے مستفید ہوتے ہیں بلکہ ان کی درگاہ کی تربت سے بھی تبرّک کے طور پر استفادہ کرتے ہیں اور اپنے درد کا مداوا کرتے ہیں۔

مرحوم محدث قمی  لکھتے ہیں:مرحوم سید نعمت اللہ جزائری  اپنے زمانۂ تحصیل کے اوائل میں فقر کی وجہ سے مطالعہ کے لئے چراغ جلانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے اسی لئے وہ چاند کی روشنی سے استفادہ کرتے تھے ۔چاند کی روشنی میں کثرت مطالعہ کی وجہ سے آپ کی آنکھیں کمزور ہو گئیں تھیں۔ وہ اپنی آنکھوں کے نور کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام اور عراق میں دوسرے آئمہ علیھم السلام کے روضوں کی خاک اپنی آنکھوں پر ملتے تھے جس کی برکت سے آپ کی انکھوں کا نور ٹھیک ہو گیا۔

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:جب بھی میری آنکھیں زیادہ لکھنے کی وجہ سے کمزور ہو جاتیں تو میں بھی آئمہ اطہار علیھم السلام کے حرم سے استفادہ کرتا ہوںاور کبھی اہلبیت عصمت طہارت علیھم السلام کی احادیث و روایات کو اپنی انکھوں سے لگاتا ہوں ۔الحمد اللہ میری آنکھوں کا نور بالکل ٹھیک ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ دنیا و آخرت میں میری آنکھیں انہیںکی برکتوں سے ہمیشہ روشن رہیں۔(۱)

--------------

[۱]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:۶۹۵

۱۵۰

 توسّل تقرب الٰہی کا ذریعہ

اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے توسّل خدا کی بارگاہ میں انسان کی آبرو میں اضافہ کرتاہے اور یہ خدا کے نزدیک تقرب کا ذریعہ ہے۔اسی لئے ہم بعض دعاؤں اور مناجات میں خدا وند کریم سے درخواست کرتے ہیں کہ اہلبیت علیھم السلام کے توسّل کی وجہ سے ہمیں اپنی بارگاہ میں آبرومند قرار دے اور اپنا مقام قرب عطا فرما۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مناجات انجیلیہ میں آیا ہے:

''أَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بِیْتِهِ الطّٰاهِرِیْنَ وَ اجْعَلْنِْ بِحُبِّهِمْ یَوْمَ الْعَرْضِ عَلَیْکَ نَبِیْهاً وَ مِنَ الْاَنْجٰاسِ وَ الْاَرْجٰاسِ نَزِیْهاً وَ بِالتَّوَسُّلِ بِهِمْ اِلَیْکَ مُقَرَّباً وَجِیْهاً'' (۱)

خداوندا!اپنا درود اور رحمت محمد(ص) اور ان کے پاک اہلبیت علیھم السلام پر نازل فرما اور مجھے ان سے محبت کی وجہ سے قیامت کے دن گرامی قرار دے اور نجاسات و پلیدیوں سے پاک رکھ اور ان سے توسّل کی وجہ سے اپنے نزدیک مقرّب اور آبرومند قرار دے۔

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۹۴ص۱۶۸

۱۵۱

 توسّل دعاؤں کے مستجاب ہونے کا ذریعہ

پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت امام علی علیہ السلام  سے فرمایا:

''یٰا عَلِیُّ مَنْ تَوَسَّلَ اِلَی اللّٰهِ بِحُبِّکُمْ فَحَقّ عَلَی اللّٰهِ أَنْ لاٰ یَرُدَّهُ،یٰا عَلِیُّ مَنْ أَحَبَّکُمْ وَ تَمَسَّکَ بِکُمْ ،فَقَدْ تَمَسَّکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی'' (۱)

یا علی!جو کوئی بھی  آپ کے خاندان کی محبت کے وسیلے سے خدا سے توسّل کرے تو پس یہ خدا پر حق ہے کہ وہ اسے ردّ نہ کرے ۔یا علی!جو کوئی بھی آپ سے محبت کرتاہو اور آپ کے خاندان سے متمسک ہو گویا اس نے مضبوط رسّی کو تھام لیا۔

توسّل میں اعتقادی مسائل

جو کوئی بھی خاندان نبوت علیھم السلام سے متوسل ہو گویا اس نے اہم اعتقادی مسائل میں اپنے ایمان کا اظہار کیا ہے اور اسے تقویت دی ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۶ص۳۰۲

۱۵۲

۱۔اس فانی دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اہلبیت علیھم السلام کی حیات کا عقیدہ:

خداوند کریم کا ارشاد ہے:

( وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَائ عِندَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ) (۱)

اور خبردار! راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ گمان تک نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں ۔

۲۔ معصومین علیھم السلام کے علم و آگاہی کا عقیدہ اور اس نکتہ پر اعتقاد کہ انسان دنیا کے جس کونے میں بھی ہو ، ان ہستیوں سے متوسل ہو سکتاہے اور وہ سب کی حاجتوں سے آگاہ ہیں ۔کیونکہ اہلبیت علیھم السلام سے توسّل اسی صورت میں متین ہو سکتا ہے جب ہم معتقد ہوں کہ ہم انہیں جہاں سے بھی پکاریں وہ ہماری حاجات سے پوری طرح علم و آگاہی رکھتے ہیں۔

۳۔ خداکی طرف سے معصومین  علیھم السلام کی ولایت و قدرت کا عقیدہ:

یہ ایک دوسری حقیقت ہے ۔توسّل کے ضمن میں ہم اس کے بارے میں اپنے باطنی ایمان و عقیدہ کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ عقلی لحاظ سے اس سے مدد مانگی جائے جو مدد کرنے اور دلجوئی کرنے کی قدرت رکھتاہو۔ان ہستیوں سے ہمارے توسّل کا یہ معنی ہے کہ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں ،اس کے معتقد ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں  جس طرح آسمانی مخلوقات اس پر فخر کرتی ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ آل عمران،آیت:۱۶۹

۱۵۳

پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''یٰا عَلِیُّ یَتَفٰاخَرُوْنَ أَهْلَ السَّمٰاء بِمَعْرِفَتِکَ وَ یَتَوَسَّلُوْنَ اِلَی اللّٰهِ بِمَعْرِفَتِکَ وَ اِنْتِظٰارِ أَمْرِکَ'' (۲)

یا علی!آسمانی موجودات و مخلوقات تمہاری معرفت پر فخر کرتی ہیں اور  تمہاری معرفت اور تمہارے امر کے انتظار سے خدا وند کریم سے متوسّل ہوتے ہیں۔

اس بناء پر اہل آسمان کی معرفت افتخار و شناخت اور آسمان کے ساکنین کا انتظار ان کے توسّل کے سبب ہی ہے۔

جی ہاں!حتی کہ آسمانی موجودات و مخلوقات بھی اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب پوری کائنات پر امیر المؤمنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی مطلق ولایت کابول بالاہو گا اور حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے دست قدرت سے کوئی طاغوت اور شیطانی طاقت بچ نہیں پائے گی۔اس   دن کسی گھر میں کوئی غم نہیں ہو گا اور پوری دنیا پر معارف اہلبیت علیھم السلام کا نور پھیل جائے گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۴۰ص۶۴

۱۵۴

 توسّل کے بارے میں کچھ بنیادی نکات

جو اہلبیت علیھم السلام سے توسّل کے ذریعے غیبی قدرت حاصل کرنا چاہتے ہوں اور جو یہ چاہتے ہوں کہ ان کے توسّل ہمیشہ سود مند ہوں  تو انہیں پہلے توسّل کے  بہت اہم نکات اور اس کی شرائط کی طرف مکمل توجہ کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بہت زیادہ اثرات ہیں ۔توسّل کرتے وقت ان کی رعایت کریں تاکہ آخرت میں ثواب اور معنویت کے علاوہ دنیا میں بھی اس کے نتائج حاصل کر سکیں  اور جس حاجت کی وجہ سے متوسّل ہوئے ہوں ،وہ حاصل ہو جائے۔لیکن اگر ان شرائط اور نکات کا خیال نہ رکھا جاے تو اگرچہ ثواب اور معنوی اجر تو مل جائے گا لیکن ممکن ہے کچھ موارد کے علاوہ مورد نظر حاجت پوری نہ سکے  اور آپ جس طرح چاہتے ہوں اس طرح اپنے مقصد تک نہ پہنچ پائیں۔

اب توسّل کے اثرات مرتب کرنے والی شرطوں  پر غور کریں:

 ۱۔ پاکیزگی قلب

باطنی پاکیزگی اور  قلب کیطہارت معنوی امور کی طرف توجہ کرنے کے بہت اہم شرائط میں سے ہے ۔ صرف توسّل میں ہی نہیں بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بھی دل کا روحانی بیماریوںں سے پاک ہونا بہت  اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی لئے اولیائے خدا اور بارگاہ خدا میں تقرب رکھنے والے اشخاص سے توسّل اور دعا حیرت انگز اثرات رکھتاہے اور اس سے بہت عالی نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔لیکن نیک کردار نہ رکھنے والے افراد سے توسّل کرنے میں ایسا نہیں ہے ،اسی لئے ہم بہت سے مواردمیں دیکھتے ہیں کہ ان سے توسّل کرنے  کے ویسے نتائج نہیں ہوتے جیسے ہونے چاہئیں۔

۱۵۵

مستجاب الدعوة افراد کی دعا کے مستجاب ہونے کے اہم رازمیں سے ایک راز ان کے باطن کا آلودگیوں سے پاک ہونا ہے۔ان کے نفس کا پاک ہونااس چیز کا باعث بنتاہے کہ ان کی دعائیں اور توسّلات، شخصی اغراض و مقاصد سے پاک ہوں۔

ناپسند اخلاق،روحانی بیماریاں انسان کی روح کوجکڑ لیتی ہیں جس کی وجہ سے انسان کی روح ترقی کے مدارج طے نہیںکر سکتی ۔ لیکن خدا کے حقیقی بندے روح کی اس وزنی زنجیر کو توڑ کر خود کو آزاد کر لیتے ہیں اسی لئے کبھی بھی ان کی دعائیں اور توسّل تظاہر اور خودنمائی کی بنیاد پر نہیں ہوتیں اور وہ گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں جو انسان کی روح کر قید کرنے لکاسبب بنتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ اپنے توسّلات میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اہلبیت علیھم السلام سے توسل کے ذریعے غیبی طاقتوں سے مستفید ہوں  اور آپ کے توسّل مستفید ہوں تو آپ کو ''پاکیزگی قلب ''جیسے لازمی نکتہ پر توجہ کرنا چاہئے۔ اپنے باطن کو آلودگیوں سے پاک کر کے اپنی راہ سے تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیں اور پھر خدا کی رسّی کوتھامنے کے بعد معنوی صراط مستقیم پر گامزن  ہو جائیں۔اس بناء پر اس حیاتی اور حسّاس نکتے سے غافل نہ رہیں اور اپنی قیمتی زندگی کو باطن کی آلودگیوں کے ساتھ ضائع نہ کریں!

اگر آپ اپنے باطن کو پاک کرلیں تو آپ کی کامیابی کی چابی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اور آپ اپنی دعاؤں اور توسّلات میںاس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

۱۵۶

۲۔ توسّل میں  توجہ اور فکر کا تمرکز

کسی بھی عبادت کی انجام دہی میں فکر کا تمرکز،توجہ اور مکمل  دقّت اس کے اثرات میں اضافے کا باعث ہے۔ اب ہم جو واقعہ ذکر کررہے ہیں یہ دعا اور توسّل کے دوران توجہ کی اہمیت کی دلیل ہے۔

ایک شخص اولیائے خدا میں سے کسی کے ساتھ واسطہ تھا اور کبھی کبھار ماضی اور مستقبل کے مطالب ان سے پوچھتا ۔ان کی سچائی  اور امور کی صحت اس کے لئے ثابت تھی۔میں نے ان سے پوچھا:وہ کس طرح اس مقام تک پہنچے اور وہ جو اسرار بیان کرتے ہیں وہ خود کس طرح انہیں جانتے ہیں؟

انہوں نے فرمایا:یہ شخص پہلے میرے شاگردوں میں سے تھا اور کبھی مجھ سے کچھ اذکار سیکھتا اور انہیں انجام دیتا ۔اگرچہ وہ بہت زیادہ دیر تک ان اذکار کو انجام نہیں دیتا تھا کیونکہ وہ کوئی طولانی اذکار اور دعائیں نہیں تھے ۔لیکن اس شخص کی ایک خصوصیت تھی جس کی وجہ سے اس نے یہ  ساری ترقی کی  اور اب وہ میرا استاد ہے۔اب میں ان سے اپنے مجہولات کے بارے میں پوچھتا ہوں اور وہ ان کا صحیح جواب دیتے ہیں اگرچہ ہر بار میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے ان سوالوں کے جواب بتائے جنہیںمیں  ان سے پوچھنا چاہتا تھا۔

پھر انہوں نے فرمایا:ان کی یہ خصوصیت ہے کہ انہیں جو بھی دعا اور ذکر بتایا جائے وہ اسے مکمل توجہ سے انجام دیتے ہیں ۔وہ اپنی توجہ اور حضور قلب کی حالت کی وجہ سے ہی اس مقام تک پہنچے ہیں۔

۱۵۷

  اب آپ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے اس مختصر مگر عظیم کلام کی  طرف توجہ کریں ۔ آپ نے فرمایا:

''اَلدِّقَّةُ اِسْتِکٰانَة'' (۱)

مکمل توجہ تواضع و انکساری ہے۔

جو خدا اور اہلبیت علیھم السلام کے سامنے تواضع کرے ،خدا اسے سر بلند کر دیتاہے اور جو امور ظاہراً ناممکن  ہیں اس کے لئے ممکن بنا دیتا ہے ۔

جی ہاں!مکمل توجہ ناممکن کو آپ کے لئے ممکن بنا دیتی ہے اور آپ کو ایسے بلند مقامات تک پہنچا دیتی ہے جسے آپ ناممکن اور محال سمجھتے ہیں  ۔جس طرح ایک عام شخص (جن کا واقعے کی طرف ہم نے اشارہ کیا) دعا اور توسّل کے دوران توجہ کی وجہ سے عالم غیب سے ارتباط جیسے مقام تک پہنچ گیا۔

اسی وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''فَاِذٰا دَعَوْتَ فَأَقْبِلْ بِقَلْبِکَ ثُمَّ اسْتَیْقِنْ بِالْاِجٰابَةِ'' (۲)

جب بھی دعا کرو تو توجہ اور اقبال قلب کی حالت میں دعا کرو،پھر تمہیں اس کی اجابت کا یقین ہونا چاہئے۔

دعا اور توسّل میں توجہ اور اقبال قلب اس طرح مؤثر اور مفید ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیںکہ توجہ کی حالت کے بعد تم اس دعا کی اجابت کا یقین کر لو!

اس بناء پر باطنی طہارت اور پاکیزگی کے بعد دعاؤں،مناجات اور توسّلات میں تمرکز فکر اور حواس کی توجہ کا مسئلہ بہت اہم اثرات کا حامل ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۲ص۱۹۳

[۲]۔ بحار الانوار:ج۹۳ص۳۲۳،مکارم الاخلاق:۳۱۴

۱۵۸

جس طرح توجہ  کے بغیر عبادتوں کا کوئی اہم اثر نہیں ہوتا اسی طرح ان توسلات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتاجن میں توجہ نہ ہواور یہ انسان کو اسکے مقصد و حاجت تک نہیں پہنچاتے۔

وہی توسّل مکمل اثرات رکھتاہے جس میں توجہ موجود ہو کیونکہ توسّل اسی صورت میں خدا اور خاندان وحی علیھم السلام سے ارتباط برقرار کر سکتا ہے جب وہ توجہ  سے ہو اور پاک دل سے نکلے۔ایسے توسّلات کے نتیجہ میں بند راہیں بھی کھل جاتی ہیں اور بند دروازے بھی کھل جاتے ہیں ۔جب انسان کا خدا اور اہلبیت علیھم السلام سے ارتباط برقرا رہو جائے تو کوئی دعا اور توسّل  پورا ہوئے بغیر نہیں  رہ سکتا۔

اس بنا پر اگر اپ چاہتے ہیں کہ آپ کے توسّل کا فوری اثر ہو اور اس کابہترین نتیجہ بھی ہو تو خودسازی کے علاوہ توسّل کے وقت آپ کی توجہ منتشر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مکمل توجہ اور تمرکز سے خاندان وحی علیھم السلام کا دامن تھامیں اور انہیں اپنی حاجتوں کے پورا ہونے کے لئے وسیلہ قرار دیں۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''نَحْنُ الْوَسِیْلَةُ اِلَی اللّٰهِ'' (۱)

ہم خدا کی طرف وسیلہ ہیں۔

جی ہاں !ہر آگاہ اور روشن دل انسان کایہی عقیدہ ہے کہ خاندان نبوت علیھم السلام اس کے پشت پناہ اور خدا کی طرف اس کا وسیلہ ہیں ۔

--------------

 [۱]۔ بحار الانوار:ج۲۵ص۲۳

۱۵۹

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں بیان ہوا ہے:

''بِکُمْ یٰا آلَ مُحَمَّدٍ أَتَوَسَّلُ،اَلْاٰخِرُ مِنْکُمْ وَالْاَوَّلُ'' (۱)

اے آل محمد!آپ کے وسیلے سے ہم متوسل ہوتے ہیں ،آپ میں سے اوّل سے آخر تک۔

ہمیں ان معصوم ہستیوں سے کبھی کبھار نہیں  بلکہ ہمیشہ اپنی حاجتوں اور مشکلات میں ان بزرگ ہستیوں سے متوسل ہونا چاہئے۔

ہم زیارت جامعہ کبیرہ (جسے حضرت امام ہادی علیہ السام نے نور کے دریا کو مختصر بیان میں سمو دیا ہے )میں پڑھتے ہیں:

''وَمَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِکُمْ'' (۲) جو خدا کا قصد کرے ، وہ آپ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

گذشتہ بیانات کی رو سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اپنی حاجتوں کے روا ہونے اور آرزؤں  کے پورا ہونے کے لئے دل کی پاکیزگی کے علاوہ توجہ اور سوچ و فکر کا متمرکز ہونا ضروری ہے۔اس بناء پر ''باطنی تطہیر اور فکر کی توجہ ''توسّل کے اثرات کے لئے دو اہم راہ ہیں۔اس بیان سے یہ ملاحظہ کریں کہ توسّل کی کتنی زیادہ عظمت ہے اور توسّل کرنے والے کی روحانی حالت کیاہونی چاہئے؟

اگر وہابیوں کی طرح کے مغرض افراد توسّل کو کوئی اہمیت نہ دیں تو یہ ان کی باطل سوچ ،تنگ نظری اور ان کی لاعلمی کی  وجہ سے ہے ورنہ جو کوئی یہ جانتا ہو کہ توسّل کیا ہے  اورتوسّل کن بنیادوں پر   استوار ہے تووہ کس طرح انسان کے بہترین روحانی حالات کا انکار کر سکتے ہیں اور کس طرح عظیم روحانی خزانے کاانکار کر سکتے ہیں؟

متفکّر انسان کس طرح پر کشش ترین روحانی حالات کو صرف اسبناء پر ردّ کر سکتا ہیکہ وہ خود انہیں حاصل  نہیں کر سکا؟!!

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۱۰۱ص۲۲۷

[۲]۔ مفاتیح الجنان ،زیارت جامعہ کبیرہ

۱۶۰

 توسّلات میں یقین کا کردار

شک کو برطرف کرنا اور یقین کی حالت پیدا کرنا ان اہم مسائل میں سے ہے کہ جس میں تطہیر قلب کی بحث بھی شامل ہے۔لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں اور اس میں اضافہ کرنیکے طریقے بیان کرتے ہیں:

اہلبیت اطہار علیھم السلام کے لطف و کرم سے توسّلات میں اعتقاد اور یقین بہت اہم  کردار کے حامل ہیں۔اگر توسّلات میں ہمیں ان ہستیوں کی عنائت کا یقین ہو تو ہم اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے اورہماری حاجت پوری ہو جائے گی۔

ان  بزرگ ہستیوں کے لطف وکرم سے اعتقاد اور یقین کے اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ بہت سے موارد میں اپنی حاجت اور مقصد تک پہنچنے والے افراد تطہیر قلب کے مالک نہیں ہوتے لیکن ان کا قطع و یقین ان کی اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔اگرچہ ان کا دل گناہوں سے پاک نہیں ہوتا لیکن ان کا اہلبیت علیھم السلام کی عنایات پر یقین انہیں ان کے توسّلات میں نتیجہ تک پہنچانے کا باعث بنتاہے۔

مجھے  1348 شمشی میں کچھ مہینوں تک مقامات مقدسہ کی زیارت کی توفیق حاصل ہوئی اور میں حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں مکرر بیماروں کے شفایاب ہونے اور لوگوں کی حاجتیں پوری ہونے کا شاھد ہوں۔

بعض اوقات جو لوگ اپنے بیماروں کو حضرت عباس علیہ السلام کی مقدس ضریح کے ساتھ باندھ دیتے تھے ،ایک گھنٹے سے بھی کم  وقت میں ان کی حاجت پوری ہو جاتی تھی اور جب ان کی حاجت روا  ہو جاتی توعرب کی عورتیں اپنی رسم کے مطابق  ہلہلہ کرتیں اور ضریح مقدس اور زائرین کی طرف خشک میوے  نچھاور کرتی ہیںاور حرم مطہر کی فضا خوشی کے نعروں سے جھوم جاتی۔کبھی کبھار وہ زیادہ تشکر کا اظہار کرنے کے لئے نقل کے ساتھ عراق میں رائج پیسے بھی پھینکتے۔

۱۶۱

ان کا اعتقاد و یقین اس حد تک تھا کہ بعض اوقات وہ اپنے بیمار کے ساتھ خشک میوے اور پیسے بھی لے کر آتے تھے اور جونہی ان کے بیمار کو شفا ملتی ،وہ فوراً ہلہلہ کرتے اور پھر خشک میوے اور پیسے نچھاور کرنے میں مشغول ہو جاتے اور خوشی سے تشکر کا ظہار کرتے اور کہتے''ابو فاضل نشکرک''

ایک دن وہ کسی پاگل جوان کو حرم میں لائے اور انہوں نے اسے تین دن تک ضریح کے ساتھ باندھ دیا اس کے رشتہ دار اس کے اردگرد  جمع تھے ۔یہ  بڑے تعجب کی بات تھی کہ کس طرح اتنا زیادہ وقت گزر انے کے باوجود بھی ان کی حاجت پوری نہیں ہوئی!

ایک بیمار کا تین دن تک شفا یاب نہ ہونا  ہمارے لئے تعجب کی بات تھی چونکہ معمولاً ایسا نہیں ہوتا تھا ؛کیونکہ آنحضرت  سے متوسّل ہونے والوں کا بڑاعجیب اعتقاد تھا اور اس کے لئے زیادہ لمبی مدت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔وہ اپنے یقین کامل سے یہ اظہار کرتے ہیں''ابوفاضل باب الحوائج'' اور حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام بھی ان کی حاجتوں کوپورا فرماتے کیونکہ وہ لوگ حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے لطف و کرم پر مکمل یقین کے ساتھ آپ  سے متوسّل ہوتے ۔

اس بات کو بیان کرنے کا یہ مقصد تھا کہ بہت سے توسّلات میں کچھ دوسری جہات بھی ہوتی ہیں جو تطہیر قلب کی جگہ لے لیتی ہیں۔اہلبیت علیھم السلام کے لطف و کرم کے موارد میں  اور دوسرے موارد میں لوگوں کا یقین و اعتقاد ان ہستیوں کی عنایات کا باعث بنتا ہے۔

۱۶۲

 معرفت، انسان کے یقین میں اضافہ کا باعث

اہلبیت اطہار علیھم السلام کی قدرت کے بارے میں یقین پیدا کرنا ان ہستیوں کی معرفت ہ کا دوسرا نام ہے ۔ان کے ذریعے حاجتوں کے پورا ہونے کا یقین حاصل کرنے کے لئے ان کے بارے میں اپنی معرفت میں اضافہ کریں اور لازم وضروری آگاہی حاصل کریں جو کہ ہم پر واجب ہے۔

مرحوم محدث قمی اہلبیت علیھم السلام کی معرفت رکھتے تھے ۔وہ اپنے توسلات کا ایک نمونہ مرحوم علامہ سید عبداللہ شبّر  کا بہترین واقعہ بیان کرنے کے بعد ذکر کرتے ہیں ۔اب آپ ان کے اس واقعہ پر غور کریں:

مرحوم عبداللہ شبّر  بزرگ علماء میں سے ہیں ان کی بہت زیادہ تألیفات ہونے کی وجہ سے وہ اپنے زمانے میں مجلسی ثانی کے نام سے مشہور تھے۔ایک دن علامہ محقق  اور مرحوم شیخ اسد اللہ (صاحب کتاب مقابس الانوار) مرحوم عبداللہ شبّر سے ملاقات کے لئے گئے اور وہ مرحوم شبّر کی بہت زیادہ تألیفات پر حیران ہوئے کیونکہ اس کے مقابل میں ان کی تالیفات بہت کم تھیں۔اگرچہ وہ بہت علمی شخصیت کے مالک تھے۔

انہوں نے مرحوم عبداللہ شبّر  سے ان کی کثرت تألیفات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا:

مجھے زیادہ کتابیں لکھنے کی توفیق حاصل ہوئی اس کی وجہ حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی عنایات ہیں ۔کیونکہ میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے ایک قلم عطا کیااور فرمایا: لکھو۔اس وقت سے میں تصنیف و تألیف میں کامیاب ہوں۔پس میں نے جو کچھ بھی لکھا یہ اسی مبارک قلم کی برکت ہے۔

۱۶۳

مرحوم محدث قمی یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:

یہ بات یوں ہے کہ مرحوم عبداللہ شبّر نے فرمایا :کیونکہ میں جب بھی اہلبیت نبوت علیھم السلام سے  متوسّل ہوتا ہوں تو مجھے بہت عظیم توفیق حاصل ہو جاتی ہے اور میرا قلم لکھنے لگتا ہے  اور جب مجھے توسّل کی توفیق نہ ہو تو کئی مہینے گزر جانے کے باوجود میں کوئی چھوٹی سی کتاب بھی نہیں لکھ سکتا ۔پس میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کی برکات و عنایات سے ہے۔(1)

اس بزرگ کی معرفت اس چیز کا باعث بنی کہ یقین کامل کے ساتھ اس حقیقت کے معتقد ہوں جسے انہوں نے بیان کیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:250

۱۶۴

 توسّلات میں اضطرار کا کردار

کبھی نا امیدی اور پریشانی کی شدت اور ثابت قدمی اس قدر مہم اور کارساز ہوتی ہے جس سے تمام روحانی آلودگی اور باطنی زنجیر کو توڑ سکتے ہیں تا کہ انسان کی روح معنویت کی نورانی فضا میں انبیاء و اولیاء کے ساتھ راز و نیاز کر سکے۔

یہ جاننے کے لئے کہ کس طرح  اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے متوسل ہوکربعض گناہگار افراد کی حاجتیں پوری ہوجاتی  ہیں اور ان کے گناہ ان کی حاجتوں کے پورا ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے  اور وہ کس طرح اپنے گریہ و زاری سے آئمہ اطہار علیھم السلام اور اولیاء کرام سے متوسّل ہو کر ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ہم اس کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں تا کہ ان افراد کے توسّل  کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے جو پاکیزہ روح کے مالک نہیں ہیں۔

اگر کسی خلائی شٹل کو خلا میں بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے بہت طاقتور وسیلے کی ضرورت ہے جو خلائی شٹل کو فضا سے نکال کر زمین کے قوت جاذبہ سے بچا ئے تا کہ وہ آرام  سے خلا ء میں چکر لگا سکے کیونکہ جب تک اسے زمین کی قوت جاذبہ سے نہ نکال لیا جائے تب تک زمین کی قوت جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچے گی اور اس کی پرواز کی قوت کم ہو جائے گی ۔قوت جاذبہ سے نکالنے کے لئے اس خلائی  شٹل   میں اتنی توانائی ہوکہ وہ زمین کی قید جاذبہ سے نکل کر آزاد ہو جائے۔

معنوی و روحانی مسائل میں بھی اس کی مثال موجود ہے کیونکہ گناہ انسان کو روحانی سیر اور معنوی نتائج اخذ کرنے سے روک دیتے ہیں  اور جس طرح زمین کی قوت جاذبہ خلائی شٹل کو اپنی طرف کھینچتی ہے اسی طرح گناہگار انسان کے گناہ اسے پرواز سے روکتے ہیں اور گناہوں کا جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ لیکن کبھی مشکلات اور مصائب  اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ پریشانیوں کی شدت انسان کو گناہوں کے جاذبہ سے نجات دے دیتی ہے۔اگرچہ  اس کا باطن آلودگیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ گناہوں کی قوت جاذبہ سے رہائی پا لینے کی وجہ سے کامیاب ہو جاتا ہے۔

۱۶۵

اس بناء پر توسّلات میں بہت جلدی کامیابی کے لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کو پاک کرے تا گذشتہ گناہوں کی قوت جاذبہ درہم برہم ہو جائے اور وہ اسے پرواز سے نہ روک سکے  یا انسان  پر اتنی زیادہ پریشانیاں ہوں کہ جس طرح  مخصوص مشین خلائی شٹل کو زمین کی قوت جاذبہ سے  نکال کر خلا ء میں بھیجتی ہے اسی طرح انسان  پر پریشانیوں اور مشکلوں کی شدت اتنی زیادہ ہو جو اسے گناہوں کی قید اور ان کی قوت جاذبہ سے نکال کر نجات دے اسی صورت میں وہ اہلبیت علیھم السلام کی توجہ اور عنایات حاصل کر سکتا ہے۔

اس بناء پر توسّل کے نتائج اخذ کرنے کے لئے اگر انسان مردانہ ہمت سے اپنے باطن کو پاک کرے تو وہ اپنے مقصد تک پہنچ جائے گا اور اسی طرح اگر مشکلات کی شدّت اتنی زیادہ ہو جو انسان میں انقطاع کی حالت پیدا کر ے تو وہ اسی طرح گناہوں کی قوت جاذبہ سے نجات حاصل کر لے گا جس طرح خلائی شٹل کو قوت کے ذریعے زمین کے قوت جاذبہ سے دور کیا جاتا ہے۔ اسی صورت میں اس کا توسّل نتیجہ بخش ہو سکتا ہے۔

۱۶۶

  حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں ایک پریشان لڑکی

جن موارد میں پریشانی اور بے چینی کی وجہ سے امید ٹوٹ  جائے توان حالات میں خاندان نبوت  علیھم السلام سے توسّل فوری اثر رکھتاہے۔

اس رو سے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار اور محب پریشانیوں اور مصیبتوں میں انہی ہستیوں کے دامن توسل سے متمسک ہوتے ہیں اور ان کے توسّل سے اپنی مشکلات حل کرتے ہیں ۔اب ہم ان توسّلات کی ایک بہترین مثال آپ کے لئے بیان کرتے ہیں:

قم کے ایک بزرگ نقل کرتے  ہیں:ایک دن میں حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں زیارت کے لئے مشرّف ہوا ۔میں نے اچانک دیکھا کہ اعراب کی بہت زیادہ تعداد ایک لڑکی کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے  اور حرم مطہر لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔

اس لڑکی نے ضریح کو پکڑ رکھا تھا اور اس نے بلند آواز سے کچھ کلمات کہے۔تمام زائرین اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔میں  نے غور کیا کہ اچانک وہ لڑکی اور سب لوگ خاموش ہوگئے ہیں جیسے سب کی سانس رک گئی ہو ۔

ایک مرتبہ آواز بلند ہوئی جسے سب لوگوں نے سنا اور جس کا مضمون  یہ تھا کہ''میرا باپ میری ماں کا شوہر ہے''یہ آواز اس لڑکی کے شکم میں موجود بچے سے آرہی تھی۔اس کے بعد اچانک حرم کی فضا نعروں سے گونجنے لگی۔عورتیں اس لڑکی کی طرف بڑھیں اور کچھ نے اسے بڑی مشکلوں سے دوسری عورتوں سے چھڑا کر ایک کمرے میں لے آئیں جوحضرت عباس علیہ السلام کے آستانہ کے متولی کا مرکز تھا۔

۱۶۷

اس کے بعد جب اس لڑکی کو لے گئے تو وہاں خلوت ہو گئی چونکہ میں حرم کے متولی سے آشنا تھا لہذا میں ان کے پاس گا اور ان سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا:

یہ کربلا کے اطراف میں رہنے والے صحرا نشین عربوں کا ایک قبیلہ ہے۔انہوں نے اس لڑکی کی  شادی اس کے چچا زاد سے کی تھی لیکن چونکہ عقد کے زمانے میں یہ لوگ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے رابطیکو بہت برا مانتے ہیں ۔لیکن وہ جوان چھپ کر اپنی بیوی سے ملا اور اس سیتعلقات قائم کئے جس کی وجہ سے وہ لڑکی حاملہ ہو گئی اور وہ جوان ڈر کر بھاگ جاتا ہے اور لڑکی کا حمل آشکار ہوجانے تک چھپ جاتا ہے۔لڑکی کے گھر والے اس سے اس بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ لڑکی یہی کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر سے حاملہ ہوئی ہوں۔لیکن جب وہ اس لڑکے کو ڈھونڈ کر لاتے ہیں تو وہ خوف کی وجہ سے اس کا انکار کر دیتاہے ۔

لڑکی  کے رشتہ دار اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔لڑکی بہت فریادا ور واویلا کرتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں لیکن وہ اس کی ایک نہیں سنتے اورآخر میں وہ کہتے ہیں:

ہم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کو حاکم قرار دیں  گے اور انہوں نے جو فیصلہ کیا ہم اسی پر عمل کریں گے ۔اس لئے وہ حرم میں مشرّف ہوئے اور حضرت عباس علیہ السلام کے معجزے کی وجہ سے ماں کے شکم میں موجود بچے نے اپنی ماں کے پارسا ہونے کی گواہی دی۔(1)

یہ ہزاروں معجزوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو خاندان نبوت علیھم السلام کے لطف و کرم اور عنایات کی وجہ سے رونما ہوا۔

--------------

[1] ۔ جامع الدرر:4082

۱۶۸

 دوسرا نکتہ

ایک دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ بعض توسّلات میں متوسّل ہونے والا نہ تو پاک روح کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اضظرار ،مشکلات اور شدید پریشانیوں کی وجہ سے اس نے خود کو گناہوں کے جاذبہ سے آزاد کیا ہوتاہے لیکن ا ئمہ اطہار علیہ السلام اپنے علم و آگاہی سے اس کے ماضی یا مستقبل میں کچھ وجوہات(جو ہماری نظر میں نامعلوم ہوتی ہیں) کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد پر بھی نظر کرم کرتے   ہیں  اور ایک ہی لحظہ میں غموں کے پہاڑ سرسبز و شاداب گلستان میں تبدیل ہو جاتے ہیںکیونکہ وہ ایک ہی نظر میں ذرّے کو چمکتے سورج میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

بہ ذرّہ گر نظر لطف بو تراب کند

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

اس نکتہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کی ولایت و امامت ذمہ داری وہی لے سکتا ہے جو تمام جہات سے کام کے ہر پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو اور اس پر مکمل مسلط ہو ۔اس صورت میں وہ خاک کے ذرّات کو بھی تابناک گوہر میں بدل سکتے ہیں ورنہ صرف کھوکھلے دعووئں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

 عالم غیب سے مدد

بہت سے موارد میں اضطراری مسائل کوختم کرنے کے لئے عالم غیب سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔کیونکہ جب چاقو ہڈی تک پہنچ جائے تو تمام مادّی وسائل عاجز ہو جاتے ہیں

۱۶۹

 اس صورت میں کس طرح مادّی طاقت سے اس کا راہ حل تلاش کیا جا سکتاہے  جب کہ مادی توانائی اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار کر چکی ہے؟

ایسے موارد میں مشکلات کو رفع کرنے کے لئے عالم غیب سے مدد مانگنی چاہے اور عظیم الٰہی غیبی طاقتوں سے مشکلوں کو حل کریں۔

ایسے موارد میں خاندان وحی علیھم ا لسلام (جو مخلوق پر  خدا کے جانشین ہیں)کے ذریعے توسّل عالم غیب سے مدد لینے کا بہترین نمونہ ہے۔

ایسے موارد میں کچھ لوگ ''یا علی ،یا حسین ''کہنے یا پھر ''یا صاحب الزمان''کہنے سے اسے اپنے اضطراب وبے چینی کو رفع کرتے ہیں اور ان ناموں کے وسیلے سے خدا سے ارتباط پیدا کرکے اپنی  حاجتوں تک پہنچتے ہیں۔

تا دلی آتش نگیدر،حرف جانسوزی نگوید

حال ما خواھی بیا از گفتۂ ما جستجو کن

اس بناء پر توسل کے معنی خدا کے ساتھ ارتباط کا وسیلہ تلاش کرنا ، مشکلوں کی چارہ جوئی کرنا اور مادّی معنوی پریشانیوں  کا راہ حل تلاش کرناہے۔اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار پوری طول تاریخ میں انبیاء و پیغمبروں سے لے کر ایک عام انسان تک اور ابتدائے خلقت سے روز قیامت تک خدا کے تقرب کے لئے اور اپنی مشکلوں کی چارہ جوئی کے لئے ان ہستیوں سے متوسل ہوتے ہیں۔

۱۷۰

 علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل

بزرگ لوگ مجہولات کو کشف کرنے اور علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل کرتے ہیں تاکہ خاندان وحی علیھم السلام کے معنوی فیض سے اپنی علمی مشکلات کی گرہیں سلجھائیں۔

اس کے نمونہ کے طور پر مرحوم سید علی(صاحب شرح کبیر)کاواقعہ ذکر کرتے ہیں ۔ بہت سے عرب اور عجم علماء ان کے شاگرد ہیں۔یہ بزرگ عالم دین علم و فقہ و اصول میں بہت مہارت رکھتے تھے لیکن علم ہیئت سے بے خبر تھے۔اسی لئے کتاب شرح کبیر لکھتے وقت  قبلہ کی بحث میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ قبلہ کی بحث علم ہیئت سے مربوط ہے ۔انہوں نے اپنے ایک شاگرد(جو علم ہیئت میں ماہر تھا ) سے قبلہ کی بحث سے مربوط علم ہیئت کے ضروری مسائل سیکھنا چاہے تا کہ وہ کتاب شرح کبیر میںمکمل طور پر قبلہ کی بحث ذکر کر سکیں۔لیکن شاگرد نے استاد کے احترام کو ملحوظ نہ رکھا اوراس نے استاد کی درخواست کا جواب یوں دیا:جس طرح ہم کتاب بغل میں دبائے آپ کی خدمت میں آتے ہیں اور آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے ہیں اسی طرح آپ بھی کتاب بغل میں دبائے میرے گھر تشریف لائیں  تا  کہ آپ علم ہیئت کے مسائل سیکھ سکیں!

استاد کو شاگرد سے اس تند جواب کی توقع نہیں تھی لہذ وہ اپنی علمی مشکل حل کرنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام سے متوسل ہوئے  اسی لئے وہ اسی رات حرم مطہر میں متوسّل ہوئے اور صبح تک خدا کی عبادت انجام دی اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے اپنی علمی مشکلات کو رفع کرنے ے لئے درخواست کی ۔ان کے اسی توسّل کی وجہ سے اسی دن کی صبح ان کی وہ تمام علمی مشکلات حل ہو گئیں جن کی انہیں ضرورت تھی ۔ پھر انہوں نے کتاب شرح کبیر میں قبلہ کی بحث ماہرانہ طریقے سے تحریر کی۔(1)

--------------

[1]۔ تذکرة العلماء مرحوم تنکابنی:104

۱۷۱

 توسّل سے دوری، گناہ کی علامت

اہلبیت عصمت علیھم السلام سے توسّل کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض روایات میں فرمایا گیا ہے :خدا کی اطاعت کا وسیلہ فراہم نہیں ہوسکتا مگر جب تک انسان ان معصوم ہستیوں کے دامن ولایت سے متمسک نہ ہو۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَلاٰ یَقْبَلُ تَوْحِیْدَهُ اِلاّٰ بِاعْتِرٰافِ لِنَبِیِّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِنُبُوَّتِهِ وَلاٰ یَقْبَلُ دِیْناً اِلاّٰبِوِلاٰیَةِ مِمَّنْ أَمَرَ بِوِلاٰیَتِهِ ، وَلاٰ یَنْتَظِمُ اَسْبٰابَ طٰاعَتِهِ اِلاّٰ بِالتَّمَسُّکِ بِعِصَمِهِ  وَ عِصَمِ أَهْلِ وِلاٰیَتِهِ'' (1)

خداوند کسی کے عقیدۂ توحید کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت کا اعتراف کیا جائے اور کسی دین کو قبول نہیں کرتا مگر اس کی ولایت کے ساتھ کہ جس کی ولایت کو قبول کرنےکا حکم دیا گیا ہو اور خدا کی اطاعت کا وسیلہ فراہم نہیں ہوتا مگر خداکی عصمت اور اس کے صاحبان ولایت سے تمسک کر ذریعے۔

اس فرمان میں امیر المؤمنین علیہ السلام خدا کی اطاعت کے اسباب کی فراہمی کو اسی صورت میں ممکن سمجھتے ہیں کہ جب انسان خدا اور اولیائے خدا کی عصمت سے متمسک ہو۔لیکن اگر انسان ان ہستیوں کی طرف متوجہ نہ ہو تو خدا کے احکامات کی اطاعت کا وسیلہ مہیا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بزرگ ہستیاں خالق و مخلوق کے درمیان فیض کا واسطہ ہیں۔

اس روایت کی بناء پر گناہگاروں کے گناہ کی اہم  علت اہلبیت علیھم السلام سے توسّل و تمسک کسے دوری ہے۔ پس اگر توسّل کو ترک کر دیں تو شیطان کے جال میں پھنس کر معصیت کے مرتکب ہوں گے  اور یہی گناہوں کی علامت ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج97ص114

۱۷۲

 نتیجہ ٔبحث

توسّل کثافت قلبی کو پاک کرتا ہے اور غافل دلوں میں خداکی یاد پیدا کرتا ہے ۔ جب مختلف قسم کے فتنہ وفساد انسانوں کو گرداب میں مبتلا کر دیں تو اہلبیت علیھم السلام سے توسّل  کشتینجات کی طرح انہیں ساحل پر پہنچاتے ہیں۔

اگر خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں خدا کے سامنے آبرومند ہونا چاہتے ہیں تو توسّل ہی آپ کو اس ہدف تک پہنچا سکتا ہے۔

اہلبیت علیھم السلام کی نسبت سے ہمارے اہم ترین اعتقادی مسائل جیسے ان کا ایمان و یقین ، علم و آگاہی  اور ان کی قدرت و ولایت توسّل کے مسئلہ میں ہی پوشیدہ ہے۔

عالی ترین اخلاقی مسائل جیسے تطہر قلب، تمرکز فکر وغیرہ توسل سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

مشکل ترین شخصی مسائل کو خاندان نبوت علیھم السلام کے توسّل سے حل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ یہی ہستیاں خدا کی جانشین اور ولایت مطلقہ کی مالک ہیں۔

خاندان وحی علیھم السلام سے توسّل کرنا خدا کی اطاعت کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا وسیلہ مہیا کرتا ہے ۔ اس طریقے سے خدا  کی قدرت سے مدد لی جا سکتی ہے۔

آنان کہ خاک را بہ نظر کیمیا کند

آیا شودکہ گوشۂ چشمی بہ ماکند

۱۷۳

ساتواں باب

محبت اہلبیت علیہم السلام

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَحْسَنُ الْحَسَنٰاتِ حُبُّنٰا وَ أَسْوَئُ السَیِّئٰاتِ بُغْضُنٰا''

بہترین نیکیاں ہماری (خاندان نبوت علیھم السلام) محبت ہے اور بدترین برائیاں، ہم سے دشمنی  ہے۔

    محبت کی کشش    خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

    آسمانی موجودات اور خاندان وحی علیھم السلام کی محبت    تقرّب خدا کے کیا آثار ہیں؟

    اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

    خاندان نبوت علیھم السلام کے محبوں کی ذمہ داری

    1۔ مودّت پیدا کرنا

    2۔ اہلبیت علیھم السلام کے محبوں سے محبت

    3۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

    4۔ خاندان وحی کی پیروی

    5۔ دوسرں کے دل میں اہلبیت علیھم السلام کی محبت کو تقویت دیں

    سچی محبت

    جھوٹی محبتیں

    نتیجۂ بحث

۱۷۴

 محبت کی کشش

محبت اپنی کشش کی وجہ سے محبت کرنے والے کو اپنے محبوب کی طرف  مائل کرتی ہے اور اس کے افکار و عقائد محب کے دل میںڈال دیتیہے۔اس بناء پر محبت جتنی زیادہ ہوگی محبت کرنے والے اور محبوب کے درمیان روحانی مماثلت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

اس بناء پر اگر محبت زیادہ ہو تو میں ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے جو محبوب اور محب کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے حالات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔جیسے دو جڑواں بھائیوں میں زیادہ محبت ہوتی ہے اور دونوں کا بہت قریبی واسطہ ہوتا ہے اور وہاں پر حالات کاایک دوسرے پر زیادہ اثرانداز ہونا بہتر طریقہ سے دکھائی دیتا ہے۔

چند سال پہلے لندن میں رہنے والی ایک لڑکی کو تکلیف کااحساس ہوا ۔وہ اس قدر درد محسوس کر رہی تھی کہ اس کی حالت کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے یہ تشخیص دی کہ یہ درد وضع حمل کی علامت ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ۔لیکن تحقیق کے بعد پتا چلاکہ اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی!!اور پھر ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ حاملہ بھی نہیں ہے۔لیکن وہ ابھی تک  ہسپتال کے بستر پر درد سے کراہ  رہی تھی  اور اس کا پورا بدن پسینے میں شرابور تھا۔

ڈاکٹروں کے کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد  بالآخر اسے کچھ سکون  محسوس ہوا اور وہ مسکرائی اور پھر کہنے لگی:اب مجھے آرام ہے ۔مولود بیٹاہے!

۱۷۵

ڈاکٹروں نے سوچا کہ شاید ان کا واسطہ کسی پاگل لڑکی سے پڑا ہے لیکن بعد میں وہ متوجہ ہوئے  کہ اس مں دیوانگی اور پاگل پن کی علامات نہیں ہیں۔

اس کے بعد معلوم ہوا کہ عین اسی وقت جب وہ لندن میں درد کی وجہ سے ہسپتال گئی تھی اس کی جڑواں بہن آسٹریا کے شہر ''وین''میں  وضع حمل کے درد کی و جہ سے ہسپتال  میںداخل ہوئی تھی  اور چند گھنٹوں کے بعد اس نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔(1)

ایسے حالات لوگوں میں بہت زیادہ محبت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔کبھی بہت شدید محبت کی وجہ سے محب مادّی  قیدوں کو پیچھے چھوڑ  کر میلوں  دور اپنے محبوب تک پہنچ جاتا ہے ۔جس طرح کبھی بھی بخار کی حرار ت جسم سے روح کے نکل جانے اور نامرئی مسائل کو درک کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح محبت کیگرمی محبت کرنے والے  کو عالمِ ظاہر سے نکال کر محبوب تک پہنچا دیتی ہے۔

محبوب تک پہنچنا اور اس کا دیدار کرنا اس جذبہ اور کشش کی وجہ سے ہوتاہے جو محبت کی شدّت سے  پیدا ہوتاہے۔

کبھی محبت ان کی علمی مجہولات کو کشف کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ دانشوروں کا مجہولات کو کشف کرنے کے لئے شدید محبت و رغبت انہیں ان کے مقصد تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔

 واضح الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے: شدید محبت و رغبت انہیں دقیق علمی مسائل کو سلجھانےمیں مدد کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مجہولات کو کشف کرنے اور اپنی جستجو میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

--------------

[1]۔ عجائب حسّ ششم:34

۱۷۶

 خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

محبت اور دوستی میں موجود ایسے حیات بخش آثار کی وجہ سے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی محبت کو صحیح سمت دے اور بہترین مقصد کی طرف اس کی رہنمائی کرے ۔اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے انسان کی دوستی و محبت کو اہلبیت علیھم السلام کی طرف متوجہ کیا ہے تاکہ اس ذریعے سے افراد کی آلودگیوں کو پاک کیا جا سکے اور ان میں اچھی عادتیں اور خوبیاں پیدا ہو سکیں  جو انہیں خدا کا مقرّب بنائے۔

کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت خدا کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے بہت مؤثر ہے۔روایات میں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی محبت کو خدا کے تقرب کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''لِکُلِّ أَمْرٍ سَیِّد وَحُبِّْ وَ حُبُّ عَلِی  علیه السلام سَیِّدُ مٰا تَقَرَّبَ بِهِ الْمُتَقَرِّبُوْنَ مِنْ طٰاعَةِ رَبِّهِمْ'' (1)

ہر چیز کا ایک سردار ہے ،اور میری اور علی علیہ السلام کی محبت ان چیزوں کی سردار ہے کہ جن کے ذریعے تقرب حاصل کرنے والے مقرب ہوتے ہیں جو کہ پروردگار کی اطاعت ہے۔

یہ روایت اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ خاندان  نبوت علیھم السلام کی محبت  خدا کے احکام کی اطاعت اوراس کے تقرب کا ذریعہ ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوارج:27ص129

۱۷۷

پیغمبر اکرم (ص) ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''حُبُّ عَلِّیِ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ یُحْرِقُ الذُّنُوْبَ کَمٰا تُحْرِقُ النّٰارُ اَلْحَطَبَ'' (1)

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی محبت کناہوں کو اس طرح راکھکر دیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے۔

اس بناء پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی محبت گناہوں کے وجود کو جلا دیتی ہے اور آپ کی دوستی گناہوں کے پہاڑ کو ایک ڈرّے میں  بدل دیتی ہے  اور اسے انسان کے وجود سے نکال کر نیست و نابود کر دیتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی محبت نہ صرف گذشتہ گناہوں  کے آثار ختم کر دیتی ہے بلکہ یہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح انسان کو گناہ انجام دینے سے روکتی ہے۔محمد و آل محمد علیھم السلام سے محبت کے ذریعے آپ خود کو گناہوں سے بچا سکتے ہیں۔

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''أَلاٰ وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِیًّا لاٰ یَخْرُجُ مِنَ الدُّنْیٰا حَتّٰی یَشْرِبَ مِنَ الْکَوْثَرِ وَ یَأْکُلَ مِنْ طُوْبٰی وَ یَرٰی مَکٰانَهُ فِی الْجَنَّةِ'' (2)

جان لو! جو علی علیہ السلام سے محبت کرے وہ دنیا سے نہیں جائے گا مگریہ کہ وہ آب کوثر پی لے اور طوبی سے کھالے ا و ر جنت میں  اپنی جگہ دیکھ لے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج39ص266

[2]۔ سفینة البحار،مادۂ حبب

۱۷۸

ہمیں خدا سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کے آخری لمحہ تک محبت اہلبیت علیھم السلام ہمارے دلوں میں باقی رہیتا کہ ہم آخری لمحوں میں اس لطف و کرم کے بھی شاہد بنیں جن کا انہوں نے وعدہ فرمایا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں آیا ہے:

''أَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِْ مَحَبَّةِ أَوْلِیٰائِکَ'' (1)

جب محبت اہلبیت علیھم السلام کا دم بھرتے ہوئے ہماری جان نکلے گی  تو موت کا پہلالمحہ ہی وہ لمحہ ہو گا کہ جب ہم ان کی محبت و عظمت اور جلال کے آثار (جو ایمان و تقوی ٰ کی علامت ہے)کو بخوبی دیکھیں گے۔  انشاء اللہ۔

چند روایات میں اہلبیت نبوت علیھم السلام سے محبت کو ایمان کی جڑ اور بنیادقرار دیا گیا ہے،جس طرح ان سے دشمنی اور بغض کو کفر و نفاق قرار دیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''یٰا عَلِّیُ حُبُّکَ تَقْویٰ وَ اِیْمٰانوَ بُغْضُکَ کُفْر وَ نِفٰاق'' (2)

اے علی! آپ  کی محبت تقویٰ و ایمان ہے اور آپ کی دشمنی کفر و نفاق ہے۔

جو کوئی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کرے وہ ہمارے مکتب کی نظر میں کافر اور خدا کے منکروں کے زمرے میں آتا ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج101ص232 اور 357،مصباح الزائر:116

[2] ۔ ۔حار الانوار:ج39ص263

۱۷۹

آن راکہ دوستی علی نیست،کافر است

گو  زاھد زمانہ  و گو  شیخ  راہ  باشد

اسی طرح جن کے وجود میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی محبت رچ بس چکی ہو ،وہ تقویٰ و ایمان سے سرشار ہوتے ہیں۔

جی ہاں!حبّ و بغض کے ایسے ہی بنیادی اثرات ہوتے ہیں:

خواھی کہ زدوزخ برھانی دل و تن               اثنی عشری شو و گزین مذھب من

ایشان سہ محمدندو چھار ست علی          با موسی جعفر و حسین  و دو حسن

ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے اور وہ رسول اکرم(ص) سے روایت   کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''حُبُّنٰا أَهْلُ الْبَیْتِ یُکَفِّرُ الذُّنُوْبَ وَ یُضٰاعِفُ الْحَسَنٰاتَ'' (1)

ہم اہلبیت علیھم السلام کی محبت گناہوں کا کفارہ ہے اور نیکیوں کو کئی گنا زیادہ کر دیتی ہے۔

کیونکہ محبت اکسیر ہے جس میں توڑ دینے اور نابود کر دینے کی طاقت پائی جاتی ہے اور گناہوں کے آثار کوختم کر دیتی ہے  ور انہیں نیکیوں میں تدبیل کر دیتی ہے ،  جس طرح شنجرف(2) تانبے کو سونے میں تبدیل کر دیتی ہے اسی وجہ سے محبت کو ''اکسیر روح ''کہا گیا ہے کیونکہ آلودہ روح  جو گناہوں کی وجہ سے خدا سے دور ہوگئی ہے ،وہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت جو دلوں کو جلا دینی والی اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی ہے  ،اپنے تقرب کو واپس پا لیتی ہے اور گناہوں کو ترک کرکے خدا کی مقرّب بن جاتی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج6۸ص۱۰۰،امالی شیخ طوسی:ج۱ص۱66

[2]۔ ایک سرخ معدنی چیز

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273