کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 120218
ڈاؤنلوڈ: 4946


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120218 / ڈاؤنلوڈ: 4946
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 توسّلات میں یقین کا کردار

شک کو برطرف کرنا اور یقین کی حالت پیدا کرنا ان اہم مسائل میں سے ہے کہ جس میں تطہیر قلب کی بحث بھی شامل ہے۔لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں اور اس میں اضافہ کرنیکے طریقے بیان کرتے ہیں:

اہلبیت اطہار علیھم السلام کے لطف و کرم سے توسّلات میں اعتقاد اور یقین بہت اہم  کردار کے حامل ہیں۔اگر توسّلات میں ہمیں ان ہستیوں کی عنائت کا یقین ہو تو ہم اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے اورہماری حاجت پوری ہو جائے گی۔

ان  بزرگ ہستیوں کے لطف وکرم سے اعتقاد اور یقین کے اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ بہت سے موارد میں اپنی حاجت اور مقصد تک پہنچنے والے افراد تطہیر قلب کے مالک نہیں ہوتے لیکن ان کا قطع و یقین ان کی اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔اگرچہ ان کا دل گناہوں سے پاک نہیں ہوتا لیکن ان کا اہلبیت علیھم السلام کی عنایات پر یقین انہیں ان کے توسّلات میں نتیجہ تک پہنچانے کا باعث بنتاہے۔

مجھے  1348 شمشی میں کچھ مہینوں تک مقامات مقدسہ کی زیارت کی توفیق حاصل ہوئی اور میں حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں مکرر بیماروں کے شفایاب ہونے اور لوگوں کی حاجتیں پوری ہونے کا شاھد ہوں۔

بعض اوقات جو لوگ اپنے بیماروں کو حضرت عباس علیہ السلام کی مقدس ضریح کے ساتھ باندھ دیتے تھے ،ایک گھنٹے سے بھی کم  وقت میں ان کی حاجت پوری ہو جاتی تھی اور جب ان کی حاجت روا  ہو جاتی توعرب کی عورتیں اپنی رسم کے مطابق  ہلہلہ کرتیں اور ضریح مقدس اور زائرین کی طرف خشک میوے  نچھاور کرتی ہیںاور حرم مطہر کی فضا خوشی کے نعروں سے جھوم جاتی۔کبھی کبھار وہ زیادہ تشکر کا اظہار کرنے کے لئے نقل کے ساتھ عراق میں رائج پیسے بھی پھینکتے۔

۱۶۱

ان کا اعتقاد و یقین اس حد تک تھا کہ بعض اوقات وہ اپنے بیمار کے ساتھ خشک میوے اور پیسے بھی لے کر آتے تھے اور جونہی ان کے بیمار کو شفا ملتی ،وہ فوراً ہلہلہ کرتے اور پھر خشک میوے اور پیسے نچھاور کرنے میں مشغول ہو جاتے اور خوشی سے تشکر کا ظہار کرتے اور کہتے''ابو فاضل نشکرک''

ایک دن وہ کسی پاگل جوان کو حرم میں لائے اور انہوں نے اسے تین دن تک ضریح کے ساتھ باندھ دیا اس کے رشتہ دار اس کے اردگرد  جمع تھے ۔یہ  بڑے تعجب کی بات تھی کہ کس طرح اتنا زیادہ وقت گزر انے کے باوجود بھی ان کی حاجت پوری نہیں ہوئی!

ایک بیمار کا تین دن تک شفا یاب نہ ہونا  ہمارے لئے تعجب کی بات تھی چونکہ معمولاً ایسا نہیں ہوتا تھا ؛کیونکہ آنحضرت  سے متوسّل ہونے والوں کا بڑاعجیب اعتقاد تھا اور اس کے لئے زیادہ لمبی مدت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔وہ اپنے یقین کامل سے یہ اظہار کرتے ہیں''ابوفاضل باب الحوائج'' اور حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام بھی ان کی حاجتوں کوپورا فرماتے کیونکہ وہ لوگ حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے لطف و کرم پر مکمل یقین کے ساتھ آپ  سے متوسّل ہوتے ۔

اس بات کو بیان کرنے کا یہ مقصد تھا کہ بہت سے توسّلات میں کچھ دوسری جہات بھی ہوتی ہیں جو تطہیر قلب کی جگہ لے لیتی ہیں۔اہلبیت علیھم السلام کے لطف و کرم کے موارد میں  اور دوسرے موارد میں لوگوں کا یقین و اعتقاد ان ہستیوں کی عنایات کا باعث بنتا ہے۔

۱۶۲

 معرفت، انسان کے یقین میں اضافہ کا باعث

اہلبیت اطہار علیھم السلام کی قدرت کے بارے میں یقین پیدا کرنا ان ہستیوں کی معرفت ہ کا دوسرا نام ہے ۔ان کے ذریعے حاجتوں کے پورا ہونے کا یقین حاصل کرنے کے لئے ان کے بارے میں اپنی معرفت میں اضافہ کریں اور لازم وضروری آگاہی حاصل کریں جو کہ ہم پر واجب ہے۔

مرحوم محدث قمی اہلبیت علیھم السلام کی معرفت رکھتے تھے ۔وہ اپنے توسلات کا ایک نمونہ مرحوم علامہ سید عبداللہ شبّر  کا بہترین واقعہ بیان کرنے کے بعد ذکر کرتے ہیں ۔اب آپ ان کے اس واقعہ پر غور کریں:

مرحوم عبداللہ شبّر  بزرگ علماء میں سے ہیں ان کی بہت زیادہ تألیفات ہونے کی وجہ سے وہ اپنے زمانے میں مجلسی ثانی کے نام سے مشہور تھے۔ایک دن علامہ محقق  اور مرحوم شیخ اسد اللہ (صاحب کتاب مقابس الانوار) مرحوم عبداللہ شبّر سے ملاقات کے لئے گئے اور وہ مرحوم شبّر کی بہت زیادہ تألیفات پر حیران ہوئے کیونکہ اس کے مقابل میں ان کی تالیفات بہت کم تھیں۔اگرچہ وہ بہت علمی شخصیت کے مالک تھے۔

انہوں نے مرحوم عبداللہ شبّر  سے ان کی کثرت تألیفات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا:

مجھے زیادہ کتابیں لکھنے کی توفیق حاصل ہوئی اس کی وجہ حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی عنایات ہیں ۔کیونکہ میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے ایک قلم عطا کیااور فرمایا: لکھو۔اس وقت سے میں تصنیف و تألیف میں کامیاب ہوں۔پس میں نے جو کچھ بھی لکھا یہ اسی مبارک قلم کی برکت ہے۔

۱۶۳

مرحوم محدث قمی یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:

یہ بات یوں ہے کہ مرحوم عبداللہ شبّر نے فرمایا :کیونکہ میں جب بھی اہلبیت نبوت علیھم السلام سے  متوسّل ہوتا ہوں تو مجھے بہت عظیم توفیق حاصل ہو جاتی ہے اور میرا قلم لکھنے لگتا ہے  اور جب مجھے توسّل کی توفیق نہ ہو تو کئی مہینے گزر جانے کے باوجود میں کوئی چھوٹی سی کتاب بھی نہیں لکھ سکتا ۔پس میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کی برکات و عنایات سے ہے۔(1)

اس بزرگ کی معرفت اس چیز کا باعث بنی کہ یقین کامل کے ساتھ اس حقیقت کے معتقد ہوں جسے انہوں نے بیان کیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:250

۱۶۴

 توسّلات میں اضطرار کا کردار

کبھی نا امیدی اور پریشانی کی شدت اور ثابت قدمی اس قدر مہم اور کارساز ہوتی ہے جس سے تمام روحانی آلودگی اور باطنی زنجیر کو توڑ سکتے ہیں تا کہ انسان کی روح معنویت کی نورانی فضا میں انبیاء و اولیاء کے ساتھ راز و نیاز کر سکے۔

یہ جاننے کے لئے کہ کس طرح  اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے متوسل ہوکربعض گناہگار افراد کی حاجتیں پوری ہوجاتی  ہیں اور ان کے گناہ ان کی حاجتوں کے پورا ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے  اور وہ کس طرح اپنے گریہ و زاری سے آئمہ اطہار علیھم السلام اور اولیاء کرام سے متوسّل ہو کر ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ہم اس کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں تا کہ ان افراد کے توسّل  کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے جو پاکیزہ روح کے مالک نہیں ہیں۔

اگر کسی خلائی شٹل کو خلا میں بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے بہت طاقتور وسیلے کی ضرورت ہے جو خلائی شٹل کو فضا سے نکال کر زمین کے قوت جاذبہ سے بچا ئے تا کہ وہ آرام  سے خلا ء میں چکر لگا سکے کیونکہ جب تک اسے زمین کی قوت جاذبہ سے نہ نکال لیا جائے تب تک زمین کی قوت جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچے گی اور اس کی پرواز کی قوت کم ہو جائے گی ۔قوت جاذبہ سے نکالنے کے لئے اس خلائی  شٹل   میں اتنی توانائی ہوکہ وہ زمین کی قید جاذبہ سے نکل کر آزاد ہو جائے۔

معنوی و روحانی مسائل میں بھی اس کی مثال موجود ہے کیونکہ گناہ انسان کو روحانی سیر اور معنوی نتائج اخذ کرنے سے روک دیتے ہیں  اور جس طرح زمین کی قوت جاذبہ خلائی شٹل کو اپنی طرف کھینچتی ہے اسی طرح گناہگار انسان کے گناہ اسے پرواز سے روکتے ہیں اور گناہوں کا جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ لیکن کبھی مشکلات اور مصائب  اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ پریشانیوں کی شدت انسان کو گناہوں کے جاذبہ سے نجات دے دیتی ہے۔اگرچہ  اس کا باطن آلودگیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ گناہوں کی قوت جاذبہ سے رہائی پا لینے کی وجہ سے کامیاب ہو جاتا ہے۔

۱۶۵

اس بناء پر توسّلات میں بہت جلدی کامیابی کے لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کو پاک کرے تا گذشتہ گناہوں کی قوت جاذبہ درہم برہم ہو جائے اور وہ اسے پرواز سے نہ روک سکے  یا انسان  پر اتنی زیادہ پریشانیاں ہوں کہ جس طرح  مخصوص مشین خلائی شٹل کو زمین کی قوت جاذبہ سے  نکال کر خلا ء میں بھیجتی ہے اسی طرح انسان  پر پریشانیوں اور مشکلوں کی شدت اتنی زیادہ ہو جو اسے گناہوں کی قید اور ان کی قوت جاذبہ سے نکال کر نجات دے اسی صورت میں وہ اہلبیت علیھم السلام کی توجہ اور عنایات حاصل کر سکتا ہے۔

اس بناء پر توسّل کے نتائج اخذ کرنے کے لئے اگر انسان مردانہ ہمت سے اپنے باطن کو پاک کرے تو وہ اپنے مقصد تک پہنچ جائے گا اور اسی طرح اگر مشکلات کی شدّت اتنی زیادہ ہو جو انسان میں انقطاع کی حالت پیدا کر ے تو وہ اسی طرح گناہوں کی قوت جاذبہ سے نجات حاصل کر لے گا جس طرح خلائی شٹل کو قوت کے ذریعے زمین کے قوت جاذبہ سے دور کیا جاتا ہے۔ اسی صورت میں اس کا توسّل نتیجہ بخش ہو سکتا ہے۔

۱۶۶

  حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں ایک پریشان لڑکی

جن موارد میں پریشانی اور بے چینی کی وجہ سے امید ٹوٹ  جائے توان حالات میں خاندان نبوت  علیھم السلام سے توسّل فوری اثر رکھتاہے۔

اس رو سے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار اور محب پریشانیوں اور مصیبتوں میں انہی ہستیوں کے دامن توسل سے متمسک ہوتے ہیں اور ان کے توسّل سے اپنی مشکلات حل کرتے ہیں ۔اب ہم ان توسّلات کی ایک بہترین مثال آپ کے لئے بیان کرتے ہیں:

قم کے ایک بزرگ نقل کرتے  ہیں:ایک دن میں حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں زیارت کے لئے مشرّف ہوا ۔میں نے اچانک دیکھا کہ اعراب کی بہت زیادہ تعداد ایک لڑکی کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے  اور حرم مطہر لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔

اس لڑکی نے ضریح کو پکڑ رکھا تھا اور اس نے بلند آواز سے کچھ کلمات کہے۔تمام زائرین اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔میں  نے غور کیا کہ اچانک وہ لڑکی اور سب لوگ خاموش ہوگئے ہیں جیسے سب کی سانس رک گئی ہو ۔

ایک مرتبہ آواز بلند ہوئی جسے سب لوگوں نے سنا اور جس کا مضمون  یہ تھا کہ''میرا باپ میری ماں کا شوہر ہے''یہ آواز اس لڑکی کے شکم میں موجود بچے سے آرہی تھی۔اس کے بعد اچانک حرم کی فضا نعروں سے گونجنے لگی۔عورتیں اس لڑکی کی طرف بڑھیں اور کچھ نے اسے بڑی مشکلوں سے دوسری عورتوں سے چھڑا کر ایک کمرے میں لے آئیں جوحضرت عباس علیہ السلام کے آستانہ کے متولی کا مرکز تھا۔

۱۶۷

اس کے بعد جب اس لڑکی کو لے گئے تو وہاں خلوت ہو گئی چونکہ میں حرم کے متولی سے آشنا تھا لہذا میں ان کے پاس گا اور ان سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا:

یہ کربلا کے اطراف میں رہنے والے صحرا نشین عربوں کا ایک قبیلہ ہے۔انہوں نے اس لڑکی کی  شادی اس کے چچا زاد سے کی تھی لیکن چونکہ عقد کے زمانے میں یہ لوگ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے رابطیکو بہت برا مانتے ہیں ۔لیکن وہ جوان چھپ کر اپنی بیوی سے ملا اور اس سیتعلقات قائم کئے جس کی وجہ سے وہ لڑکی حاملہ ہو گئی اور وہ جوان ڈر کر بھاگ جاتا ہے اور لڑکی کا حمل آشکار ہوجانے تک چھپ جاتا ہے۔لڑکی کے گھر والے اس سے اس بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ لڑکی یہی کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر سے حاملہ ہوئی ہوں۔لیکن جب وہ اس لڑکے کو ڈھونڈ کر لاتے ہیں تو وہ خوف کی وجہ سے اس کا انکار کر دیتاہے ۔

لڑکی  کے رشتہ دار اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔لڑکی بہت فریادا ور واویلا کرتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں لیکن وہ اس کی ایک نہیں سنتے اورآخر میں وہ کہتے ہیں:

ہم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کو حاکم قرار دیں  گے اور انہوں نے جو فیصلہ کیا ہم اسی پر عمل کریں گے ۔اس لئے وہ حرم میں مشرّف ہوئے اور حضرت عباس علیہ السلام کے معجزے کی وجہ سے ماں کے شکم میں موجود بچے نے اپنی ماں کے پارسا ہونے کی گواہی دی۔(1)

یہ ہزاروں معجزوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو خاندان نبوت علیھم السلام کے لطف و کرم اور عنایات کی وجہ سے رونما ہوا۔

--------------

[1] ۔ جامع الدرر:4082

۱۶۸

 دوسرا نکتہ

ایک دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ بعض توسّلات میں متوسّل ہونے والا نہ تو پاک روح کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اضظرار ،مشکلات اور شدید پریشانیوں کی وجہ سے اس نے خود کو گناہوں کے جاذبہ سے آزاد کیا ہوتاہے لیکن ا ئمہ اطہار علیہ السلام اپنے علم و آگاہی سے اس کے ماضی یا مستقبل میں کچھ وجوہات(جو ہماری نظر میں نامعلوم ہوتی ہیں) کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد پر بھی نظر کرم کرتے   ہیں  اور ایک ہی لحظہ میں غموں کے پہاڑ سرسبز و شاداب گلستان میں تبدیل ہو جاتے ہیںکیونکہ وہ ایک ہی نظر میں ذرّے کو چمکتے سورج میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

بہ ذرّہ گر نظر لطف بو تراب کند

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

اس نکتہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کی ولایت و امامت ذمہ داری وہی لے سکتا ہے جو تمام جہات سے کام کے ہر پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو اور اس پر مکمل مسلط ہو ۔اس صورت میں وہ خاک کے ذرّات کو بھی تابناک گوہر میں بدل سکتے ہیں ورنہ صرف کھوکھلے دعووئں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

 عالم غیب سے مدد

بہت سے موارد میں اضطراری مسائل کوختم کرنے کے لئے عالم غیب سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔کیونکہ جب چاقو ہڈی تک پہنچ جائے تو تمام مادّی وسائل عاجز ہو جاتے ہیں

۱۶۹

 اس صورت میں کس طرح مادّی طاقت سے اس کا راہ حل تلاش کیا جا سکتاہے  جب کہ مادی توانائی اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار کر چکی ہے؟

ایسے موارد میں مشکلات کو رفع کرنے کے لئے عالم غیب سے مدد مانگنی چاہے اور عظیم الٰہی غیبی طاقتوں سے مشکلوں کو حل کریں۔

ایسے موارد میں خاندان وحی علیھم ا لسلام (جو مخلوق پر  خدا کے جانشین ہیں)کے ذریعے توسّل عالم غیب سے مدد لینے کا بہترین نمونہ ہے۔

ایسے موارد میں کچھ لوگ ''یا علی ،یا حسین ''کہنے یا پھر ''یا صاحب الزمان''کہنے سے اسے اپنے اضطراب وبے چینی کو رفع کرتے ہیں اور ان ناموں کے وسیلے سے خدا سے ارتباط پیدا کرکے اپنی  حاجتوں تک پہنچتے ہیں۔

تا دلی آتش نگیدر،حرف جانسوزی نگوید

حال ما خواھی بیا از گفتۂ ما جستجو کن

اس بناء پر توسل کے معنی خدا کے ساتھ ارتباط کا وسیلہ تلاش کرنا ، مشکلوں کی چارہ جوئی کرنا اور مادّی معنوی پریشانیوں  کا راہ حل تلاش کرناہے۔اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار پوری طول تاریخ میں انبیاء و پیغمبروں سے لے کر ایک عام انسان تک اور ابتدائے خلقت سے روز قیامت تک خدا کے تقرب کے لئے اور اپنی مشکلوں کی چارہ جوئی کے لئے ان ہستیوں سے متوسل ہوتے ہیں۔

۱۷۰

 علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل

بزرگ لوگ مجہولات کو کشف کرنے اور علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل کرتے ہیں تاکہ خاندان وحی علیھم السلام کے معنوی فیض سے اپنی علمی مشکلات کی گرہیں سلجھائیں۔

اس کے نمونہ کے طور پر مرحوم سید علی(صاحب شرح کبیر)کاواقعہ ذکر کرتے ہیں ۔ بہت سے عرب اور عجم علماء ان کے شاگرد ہیں۔یہ بزرگ عالم دین علم و فقہ و اصول میں بہت مہارت رکھتے تھے لیکن علم ہیئت سے بے خبر تھے۔اسی لئے کتاب شرح کبیر لکھتے وقت  قبلہ کی بحث میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ قبلہ کی بحث علم ہیئت سے مربوط ہے ۔انہوں نے اپنے ایک شاگرد(جو علم ہیئت میں ماہر تھا ) سے قبلہ کی بحث سے مربوط علم ہیئت کے ضروری مسائل سیکھنا چاہے تا کہ وہ کتاب شرح کبیر میںمکمل طور پر قبلہ کی بحث ذکر کر سکیں۔لیکن شاگرد نے استاد کے احترام کو ملحوظ نہ رکھا اوراس نے استاد کی درخواست کا جواب یوں دیا:جس طرح ہم کتاب بغل میں دبائے آپ کی خدمت میں آتے ہیں اور آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے ہیں اسی طرح آپ بھی کتاب بغل میں دبائے میرے گھر تشریف لائیں  تا  کہ آپ علم ہیئت کے مسائل سیکھ سکیں!

استاد کو شاگرد سے اس تند جواب کی توقع نہیں تھی لہذ وہ اپنی علمی مشکل حل کرنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام سے متوسل ہوئے  اسی لئے وہ اسی رات حرم مطہر میں متوسّل ہوئے اور صبح تک خدا کی عبادت انجام دی اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے اپنی علمی مشکلات کو رفع کرنے ے لئے درخواست کی ۔ان کے اسی توسّل کی وجہ سے اسی دن کی صبح ان کی وہ تمام علمی مشکلات حل ہو گئیں جن کی انہیں ضرورت تھی ۔ پھر انہوں نے کتاب شرح کبیر میں قبلہ کی بحث ماہرانہ طریقے سے تحریر کی۔(1)

--------------

[1]۔ تذکرة العلماء مرحوم تنکابنی:104

۱۷۱

 توسّل سے دوری، گناہ کی علامت

اہلبیت عصمت علیھم السلام سے توسّل کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض روایات میں فرمایا گیا ہے :خدا کی اطاعت کا وسیلہ فراہم نہیں ہوسکتا مگر جب تک انسان ان معصوم ہستیوں کے دامن ولایت سے متمسک نہ ہو۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَلاٰ یَقْبَلُ تَوْحِیْدَهُ اِلاّٰ بِاعْتِرٰافِ لِنَبِیِّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِنُبُوَّتِهِ وَلاٰ یَقْبَلُ دِیْناً اِلاّٰبِوِلاٰیَةِ مِمَّنْ أَمَرَ بِوِلاٰیَتِهِ ، وَلاٰ یَنْتَظِمُ اَسْبٰابَ طٰاعَتِهِ اِلاّٰ بِالتَّمَسُّکِ بِعِصَمِهِ  وَ عِصَمِ أَهْلِ وِلاٰیَتِهِ'' (1)

خداوند کسی کے عقیدۂ توحید کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت کا اعتراف کیا جائے اور کسی دین کو قبول نہیں کرتا مگر اس کی ولایت کے ساتھ کہ جس کی ولایت کو قبول کرنےکا حکم دیا گیا ہو اور خدا کی اطاعت کا وسیلہ فراہم نہیں ہوتا مگر خداکی عصمت اور اس کے صاحبان ولایت سے تمسک کر ذریعے۔

اس فرمان میں امیر المؤمنین علیہ السلام خدا کی اطاعت کے اسباب کی فراہمی کو اسی صورت میں ممکن سمجھتے ہیں کہ جب انسان خدا اور اولیائے خدا کی عصمت سے متمسک ہو۔لیکن اگر انسان ان ہستیوں کی طرف متوجہ نہ ہو تو خدا کے احکامات کی اطاعت کا وسیلہ مہیا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بزرگ ہستیاں خالق و مخلوق کے درمیان فیض کا واسطہ ہیں۔

اس روایت کی بناء پر گناہگاروں کے گناہ کی اہم  علت اہلبیت علیھم السلام سے توسّل و تمسک کسے دوری ہے۔ پس اگر توسّل کو ترک کر دیں تو شیطان کے جال میں پھنس کر معصیت کے مرتکب ہوں گے  اور یہی گناہوں کی علامت ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج97ص114

۱۷۲

 نتیجہ ٔبحث

توسّل کثافت قلبی کو پاک کرتا ہے اور غافل دلوں میں خداکی یاد پیدا کرتا ہے ۔ جب مختلف قسم کے فتنہ وفساد انسانوں کو گرداب میں مبتلا کر دیں تو اہلبیت علیھم السلام سے توسّل  کشتینجات کی طرح انہیں ساحل پر پہنچاتے ہیں۔

اگر خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں خدا کے سامنے آبرومند ہونا چاہتے ہیں تو توسّل ہی آپ کو اس ہدف تک پہنچا سکتا ہے۔

اہلبیت علیھم السلام کی نسبت سے ہمارے اہم ترین اعتقادی مسائل جیسے ان کا ایمان و یقین ، علم و آگاہی  اور ان کی قدرت و ولایت توسّل کے مسئلہ میں ہی پوشیدہ ہے۔

عالی ترین اخلاقی مسائل جیسے تطہر قلب، تمرکز فکر وغیرہ توسل سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

مشکل ترین شخصی مسائل کو خاندان نبوت علیھم السلام کے توسّل سے حل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ یہی ہستیاں خدا کی جانشین اور ولایت مطلقہ کی مالک ہیں۔

خاندان وحی علیھم السلام سے توسّل کرنا خدا کی اطاعت کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا وسیلہ مہیا کرتا ہے ۔ اس طریقے سے خدا  کی قدرت سے مدد لی جا سکتی ہے۔

آنان کہ خاک را بہ نظر کیمیا کند

آیا شودکہ گوشۂ چشمی بہ ماکند

۱۷۳

ساتواں باب

محبت اہلبیت علیہم السلام

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَحْسَنُ الْحَسَنٰاتِ حُبُّنٰا وَ أَسْوَئُ السَیِّئٰاتِ بُغْضُنٰا''

بہترین نیکیاں ہماری (خاندان نبوت علیھم السلام) محبت ہے اور بدترین برائیاں، ہم سے دشمنی  ہے۔

    محبت کی کشش    خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

    آسمانی موجودات اور خاندان وحی علیھم السلام کی محبت    تقرّب خدا کے کیا آثار ہیں؟

    اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

    خاندان نبوت علیھم السلام کے محبوں کی ذمہ داری

    1۔ مودّت پیدا کرنا

    2۔ اہلبیت علیھم السلام کے محبوں سے محبت

    3۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

    4۔ خاندان وحی کی پیروی

    5۔ دوسرں کے دل میں اہلبیت علیھم السلام کی محبت کو تقویت دیں

    سچی محبت

    جھوٹی محبتیں

    نتیجۂ بحث

۱۷۴

 محبت کی کشش

محبت اپنی کشش کی وجہ سے محبت کرنے والے کو اپنے محبوب کی طرف  مائل کرتی ہے اور اس کے افکار و عقائد محب کے دل میںڈال دیتیہے۔اس بناء پر محبت جتنی زیادہ ہوگی محبت کرنے والے اور محبوب کے درمیان روحانی مماثلت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

اس بناء پر اگر محبت زیادہ ہو تو میں ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے جو محبوب اور محب کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے حالات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔جیسے دو جڑواں بھائیوں میں زیادہ محبت ہوتی ہے اور دونوں کا بہت قریبی واسطہ ہوتا ہے اور وہاں پر حالات کاایک دوسرے پر زیادہ اثرانداز ہونا بہتر طریقہ سے دکھائی دیتا ہے۔

چند سال پہلے لندن میں رہنے والی ایک لڑکی کو تکلیف کااحساس ہوا ۔وہ اس قدر درد محسوس کر رہی تھی کہ اس کی حالت کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے یہ تشخیص دی کہ یہ درد وضع حمل کی علامت ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ۔لیکن تحقیق کے بعد پتا چلاکہ اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی!!اور پھر ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ حاملہ بھی نہیں ہے۔لیکن وہ ابھی تک  ہسپتال کے بستر پر درد سے کراہ  رہی تھی  اور اس کا پورا بدن پسینے میں شرابور تھا۔

ڈاکٹروں کے کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد  بالآخر اسے کچھ سکون  محسوس ہوا اور وہ مسکرائی اور پھر کہنے لگی:اب مجھے آرام ہے ۔مولود بیٹاہے!

۱۷۵

ڈاکٹروں نے سوچا کہ شاید ان کا واسطہ کسی پاگل لڑکی سے پڑا ہے لیکن بعد میں وہ متوجہ ہوئے  کہ اس مں دیوانگی اور پاگل پن کی علامات نہیں ہیں۔

اس کے بعد معلوم ہوا کہ عین اسی وقت جب وہ لندن میں درد کی وجہ سے ہسپتال گئی تھی اس کی جڑواں بہن آسٹریا کے شہر ''وین''میں  وضع حمل کے درد کی و جہ سے ہسپتال  میںداخل ہوئی تھی  اور چند گھنٹوں کے بعد اس نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔(1)

ایسے حالات لوگوں میں بہت زیادہ محبت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔کبھی بہت شدید محبت کی وجہ سے محب مادّی  قیدوں کو پیچھے چھوڑ  کر میلوں  دور اپنے محبوب تک پہنچ جاتا ہے ۔جس طرح کبھی بھی بخار کی حرار ت جسم سے روح کے نکل جانے اور نامرئی مسائل کو درک کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح محبت کیگرمی محبت کرنے والے  کو عالمِ ظاہر سے نکال کر محبوب تک پہنچا دیتی ہے۔

محبوب تک پہنچنا اور اس کا دیدار کرنا اس جذبہ اور کشش کی وجہ سے ہوتاہے جو محبت کی شدّت سے  پیدا ہوتاہے۔

کبھی محبت ان کی علمی مجہولات کو کشف کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ دانشوروں کا مجہولات کو کشف کرنے کے لئے شدید محبت و رغبت انہیں ان کے مقصد تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔

 واضح الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے: شدید محبت و رغبت انہیں دقیق علمی مسائل کو سلجھانےمیں مدد کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مجہولات کو کشف کرنے اور اپنی جستجو میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

--------------

[1]۔ عجائب حسّ ششم:34

۱۷۶

 خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

محبت اور دوستی میں موجود ایسے حیات بخش آثار کی وجہ سے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی محبت کو صحیح سمت دے اور بہترین مقصد کی طرف اس کی رہنمائی کرے ۔اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے انسان کی دوستی و محبت کو اہلبیت علیھم السلام کی طرف متوجہ کیا ہے تاکہ اس ذریعے سے افراد کی آلودگیوں کو پاک کیا جا سکے اور ان میں اچھی عادتیں اور خوبیاں پیدا ہو سکیں  جو انہیں خدا کا مقرّب بنائے۔

کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت خدا کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے بہت مؤثر ہے۔روایات میں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی محبت کو خدا کے تقرب کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''لِکُلِّ أَمْرٍ سَیِّد وَحُبِّْ وَ حُبُّ عَلِی  علیه السلام سَیِّدُ مٰا تَقَرَّبَ بِهِ الْمُتَقَرِّبُوْنَ مِنْ طٰاعَةِ رَبِّهِمْ'' (1)

ہر چیز کا ایک سردار ہے ،اور میری اور علی علیہ السلام کی محبت ان چیزوں کی سردار ہے کہ جن کے ذریعے تقرب حاصل کرنے والے مقرب ہوتے ہیں جو کہ پروردگار کی اطاعت ہے۔

یہ روایت اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ خاندان  نبوت علیھم السلام کی محبت  خدا کے احکام کی اطاعت اوراس کے تقرب کا ذریعہ ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوارج:27ص129

۱۷۷

پیغمبر اکرم (ص) ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''حُبُّ عَلِّیِ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ یُحْرِقُ الذُّنُوْبَ کَمٰا تُحْرِقُ النّٰارُ اَلْحَطَبَ'' (1)

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی محبت کناہوں کو اس طرح راکھکر دیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے۔

اس بناء پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی محبت گناہوں کے وجود کو جلا دیتی ہے اور آپ کی دوستی گناہوں کے پہاڑ کو ایک ڈرّے میں  بدل دیتی ہے  اور اسے انسان کے وجود سے نکال کر نیست و نابود کر دیتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی محبت نہ صرف گذشتہ گناہوں  کے آثار ختم کر دیتی ہے بلکہ یہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح انسان کو گناہ انجام دینے سے روکتی ہے۔محمد و آل محمد علیھم السلام سے محبت کے ذریعے آپ خود کو گناہوں سے بچا سکتے ہیں۔

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''أَلاٰ وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِیًّا لاٰ یَخْرُجُ مِنَ الدُّنْیٰا حَتّٰی یَشْرِبَ مِنَ الْکَوْثَرِ وَ یَأْکُلَ مِنْ طُوْبٰی وَ یَرٰی مَکٰانَهُ فِی الْجَنَّةِ'' (2)

جان لو! جو علی علیہ السلام سے محبت کرے وہ دنیا سے نہیں جائے گا مگریہ کہ وہ آب کوثر پی لے اور طوبی سے کھالے ا و ر جنت میں  اپنی جگہ دیکھ لے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج39ص266

[2]۔ سفینة البحار،مادۂ حبب

۱۷۸

ہمیں خدا سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کے آخری لمحہ تک محبت اہلبیت علیھم السلام ہمارے دلوں میں باقی رہیتا کہ ہم آخری لمحوں میں اس لطف و کرم کے بھی شاہد بنیں جن کا انہوں نے وعدہ فرمایا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں آیا ہے:

''أَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِْ مَحَبَّةِ أَوْلِیٰائِکَ'' (1)

جب محبت اہلبیت علیھم السلام کا دم بھرتے ہوئے ہماری جان نکلے گی  تو موت کا پہلالمحہ ہی وہ لمحہ ہو گا کہ جب ہم ان کی محبت و عظمت اور جلال کے آثار (جو ایمان و تقوی ٰ کی علامت ہے)کو بخوبی دیکھیں گے۔  انشاء اللہ۔

چند روایات میں اہلبیت نبوت علیھم السلام سے محبت کو ایمان کی جڑ اور بنیادقرار دیا گیا ہے،جس طرح ان سے دشمنی اور بغض کو کفر و نفاق قرار دیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''یٰا عَلِّیُ حُبُّکَ تَقْویٰ وَ اِیْمٰانوَ بُغْضُکَ کُفْر وَ نِفٰاق'' (2)

اے علی! آپ  کی محبت تقویٰ و ایمان ہے اور آپ کی دشمنی کفر و نفاق ہے۔

جو کوئی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کرے وہ ہمارے مکتب کی نظر میں کافر اور خدا کے منکروں کے زمرے میں آتا ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج101ص232 اور 357،مصباح الزائر:116

[2] ۔ ۔حار الانوار:ج39ص263

۱۷۹

آن راکہ دوستی علی نیست،کافر است

گو  زاھد زمانہ  و گو  شیخ  راہ  باشد

اسی طرح جن کے وجود میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی محبت رچ بس چکی ہو ،وہ تقویٰ و ایمان سے سرشار ہوتے ہیں۔

جی ہاں!حبّ و بغض کے ایسے ہی بنیادی اثرات ہوتے ہیں:

خواھی کہ زدوزخ برھانی دل و تن               اثنی عشری شو و گزین مذھب من

ایشان سہ محمدندو چھار ست علی          با موسی جعفر و حسین  و دو حسن

ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے اور وہ رسول اکرم(ص) سے روایت   کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''حُبُّنٰا أَهْلُ الْبَیْتِ یُکَفِّرُ الذُّنُوْبَ وَ یُضٰاعِفُ الْحَسَنٰاتَ'' (1)

ہم اہلبیت علیھم السلام کی محبت گناہوں کا کفارہ ہے اور نیکیوں کو کئی گنا زیادہ کر دیتی ہے۔

کیونکہ محبت اکسیر ہے جس میں توڑ دینے اور نابود کر دینے کی طاقت پائی جاتی ہے اور گناہوں کے آثار کوختم کر دیتی ہے  ور انہیں نیکیوں میں تدبیل کر دیتی ہے ،  جس طرح شنجرف(2) تانبے کو سونے میں تبدیل کر دیتی ہے اسی وجہ سے محبت کو ''اکسیر روح ''کہا گیا ہے کیونکہ آلودہ روح  جو گناہوں کی وجہ سے خدا سے دور ہوگئی ہے ،وہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت جو دلوں کو جلا دینی والی اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی ہے  ،اپنے تقرب کو واپس پا لیتی ہے اور گناہوں کو ترک کرکے خدا کی مقرّب بن جاتی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج6۸ص۱۰۰،امالی شیخ طوسی:ج۱ص۱66

[2]۔ ایک سرخ معدنی چیز

۱۸۰