کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار14%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123947 / ڈاؤنلوڈ: 5405
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

 توسّلات میں یقین کا کردار

شک کو برطرف کرنا اور یقین کی حالت پیدا کرنا ان اہم مسائل میں سے ہے کہ جس میں تطہیر قلب کی بحث بھی شامل ہے۔لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں اور اس میں اضافہ کرنیکے طریقے بیان کرتے ہیں:

اہلبیت اطہار علیھم السلام کے لطف و کرم سے توسّلات میں اعتقاد اور یقین بہت اہم  کردار کے حامل ہیں۔اگر توسّلات میں ہمیں ان ہستیوں کی عنائت کا یقین ہو تو ہم اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے اورہماری حاجت پوری ہو جائے گی۔

ان  بزرگ ہستیوں کے لطف وکرم سے اعتقاد اور یقین کے اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ بہت سے موارد میں اپنی حاجت اور مقصد تک پہنچنے والے افراد تطہیر قلب کے مالک نہیں ہوتے لیکن ان کا قطع و یقین ان کی اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔اگرچہ ان کا دل گناہوں سے پاک نہیں ہوتا لیکن ان کا اہلبیت علیھم السلام کی عنایات پر یقین انہیں ان کے توسّلات میں نتیجہ تک پہنچانے کا باعث بنتاہے۔

مجھے  ۱۳۴۸ شمشی میں کچھ مہینوں تک مقامات مقدسہ کی زیارت کی توفیق حاصل ہوئی اور میں حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں مکرر بیماروں کے شفایاب ہونے اور لوگوں کی حاجتیں پوری ہونے کا شاھد ہوں۔

بعض اوقات جو لوگ اپنے بیماروں کو حضرت عباس علیہ السلام کی مقدس ضریح کے ساتھ باندھ دیتے تھے ،ایک گھنٹے سے بھی کم  وقت میں ان کی حاجت پوری ہو جاتی تھی اور جب ان کی حاجت روا  ہو جاتی توعرب کی عورتیں اپنی رسم کے مطابق  ہلہلہ کرتیں اور ضریح مقدس اور زائرین کی طرف خشک میوے  نچھاور کرتی ہیںاور حرم مطہر کی فضا خوشی کے نعروں سے جھوم جاتی۔کبھی کبھار وہ زیادہ تشکر کا اظہار کرنے کے لئے نقل کے ساتھ عراق میں رائج پیسے بھی پھینکتے۔

۱۶۱

ان کا اعتقاد و یقین اس حد تک تھا کہ بعض اوقات وہ اپنے بیمار کے ساتھ خشک میوے اور پیسے بھی لے کر آتے تھے اور جونہی ان کے بیمار کو شفا ملتی ،وہ فوراً ہلہلہ کرتے اور پھر خشک میوے اور پیسے نچھاور کرنے میں مشغول ہو جاتے اور خوشی سے تشکر کا ظہار کرتے اور کہتے''ابو فاضل نشکرک''

ایک دن وہ کسی پاگل جوان کو حرم میں لائے اور انہوں نے اسے تین دن تک ضریح کے ساتھ باندھ دیا اس کے رشتہ دار اس کے اردگرد  جمع تھے ۔یہ  بڑے تعجب کی بات تھی کہ کس طرح اتنا زیادہ وقت گزر انے کے باوجود بھی ان کی حاجت پوری نہیں ہوئی!

ایک بیمار کا تین دن تک شفا یاب نہ ہونا  ہمارے لئے تعجب کی بات تھی چونکہ معمولاً ایسا نہیں ہوتا تھا ؛کیونکہ آنحضرت  سے متوسّل ہونے والوں کا بڑاعجیب اعتقاد تھا اور اس کے لئے زیادہ لمبی مدت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔وہ اپنے یقین کامل سے یہ اظہار کرتے ہیں''ابوفاضل باب الحوائج'' اور حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام بھی ان کی حاجتوں کوپورا فرماتے کیونکہ وہ لوگ حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے لطف و کرم پر مکمل یقین کے ساتھ آپ  سے متوسّل ہوتے ۔

اس بات کو بیان کرنے کا یہ مقصد تھا کہ بہت سے توسّلات میں کچھ دوسری جہات بھی ہوتی ہیں جو تطہیر قلب کی جگہ لے لیتی ہیں۔اہلبیت علیھم السلام کے لطف و کرم کے موارد میں  اور دوسرے موارد میں لوگوں کا یقین و اعتقاد ان ہستیوں کی عنایات کا باعث بنتا ہے۔

۱۶۲

 معرفت، انسان کے یقین میں اضافہ کا باعث

اہلبیت اطہار علیھم السلام کی قدرت کے بارے میں یقین پیدا کرنا ان ہستیوں کی معرفت ہ کا دوسرا نام ہے ۔ان کے ذریعے حاجتوں کے پورا ہونے کا یقین حاصل کرنے کے لئے ان کے بارے میں اپنی معرفت میں اضافہ کریں اور لازم وضروری آگاہی حاصل کریں جو کہ ہم پر واجب ہے۔

مرحوم محدث قمی اہلبیت علیھم السلام کی معرفت رکھتے تھے ۔وہ اپنے توسلات کا ایک نمونہ مرحوم علامہ سید عبداللہ شبّر  کا بہترین واقعہ بیان کرنے کے بعد ذکر کرتے ہیں ۔اب آپ ان کے اس واقعہ پر غور کریں:

مرحوم عبداللہ شبّر  بزرگ علماء میں سے ہیں ان کی بہت زیادہ تألیفات ہونے کی وجہ سے وہ اپنے زمانے میں مجلسی ثانی کے نام سے مشہور تھے۔ایک دن علامہ محقق  اور مرحوم شیخ اسد اللہ (صاحب کتاب مقابس الانوار) مرحوم عبداللہ شبّر سے ملاقات کے لئے گئے اور وہ مرحوم شبّر کی بہت زیادہ تألیفات پر حیران ہوئے کیونکہ اس کے مقابل میں ان کی تالیفات بہت کم تھیں۔اگرچہ وہ بہت علمی شخصیت کے مالک تھے۔

انہوں نے مرحوم عبداللہ شبّر  سے ان کی کثرت تألیفات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا:

مجھے زیادہ کتابیں لکھنے کی توفیق حاصل ہوئی اس کی وجہ حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی عنایات ہیں ۔کیونکہ میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے ایک قلم عطا کیااور فرمایا: لکھو۔اس وقت سے میں تصنیف و تألیف میں کامیاب ہوں۔پس میں نے جو کچھ بھی لکھا یہ اسی مبارک قلم کی برکت ہے۔

۱۶۳

مرحوم محدث قمی یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:

یہ بات یوں ہے کہ مرحوم عبداللہ شبّر نے فرمایا :کیونکہ میں جب بھی اہلبیت نبوت علیھم السلام سے  متوسّل ہوتا ہوں تو مجھے بہت عظیم توفیق حاصل ہو جاتی ہے اور میرا قلم لکھنے لگتا ہے  اور جب مجھے توسّل کی توفیق نہ ہو تو کئی مہینے گزر جانے کے باوجود میں کوئی چھوٹی سی کتاب بھی نہیں لکھ سکتا ۔پس میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کی برکات و عنایات سے ہے۔(۱)

اس بزرگ کی معرفت اس چیز کا باعث بنی کہ یقین کامل کے ساتھ اس حقیقت کے معتقد ہوں جسے انہوں نے بیان کیا۔

--------------

[۱]۔ فوائد الرضویہ:۲۵۰

۱۶۴

 توسّلات میں اضطرار کا کردار

کبھی نا امیدی اور پریشانی کی شدت اور ثابت قدمی اس قدر مہم اور کارساز ہوتی ہے جس سے تمام روحانی آلودگی اور باطنی زنجیر کو توڑ سکتے ہیں تا کہ انسان کی روح معنویت کی نورانی فضا میں انبیاء و اولیاء کے ساتھ راز و نیاز کر سکے۔

یہ جاننے کے لئے کہ کس طرح  اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے متوسل ہوکربعض گناہگار افراد کی حاجتیں پوری ہوجاتی  ہیں اور ان کے گناہ ان کی حاجتوں کے پورا ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے  اور وہ کس طرح اپنے گریہ و زاری سے آئمہ اطہار علیھم السلام اور اولیاء کرام سے متوسّل ہو کر ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ہم اس کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں تا کہ ان افراد کے توسّل  کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے جو پاکیزہ روح کے مالک نہیں ہیں۔

اگر کسی خلائی شٹل کو خلا میں بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے بہت طاقتور وسیلے کی ضرورت ہے جو خلائی شٹل کو فضا سے نکال کر زمین کے قوت جاذبہ سے بچا ئے تا کہ وہ آرام  سے خلا ء میں چکر لگا سکے کیونکہ جب تک اسے زمین کی قوت جاذبہ سے نہ نکال لیا جائے تب تک زمین کی قوت جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچے گی اور اس کی پرواز کی قوت کم ہو جائے گی ۔قوت جاذبہ سے نکالنے کے لئے اس خلائی  شٹل   میں اتنی توانائی ہوکہ وہ زمین کی قید جاذبہ سے نکل کر آزاد ہو جائے۔

معنوی و روحانی مسائل میں بھی اس کی مثال موجود ہے کیونکہ گناہ انسان کو روحانی سیر اور معنوی نتائج اخذ کرنے سے روک دیتے ہیں  اور جس طرح زمین کی قوت جاذبہ خلائی شٹل کو اپنی طرف کھینچتی ہے اسی طرح گناہگار انسان کے گناہ اسے پرواز سے روکتے ہیں اور گناہوں کا جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ لیکن کبھی مشکلات اور مصائب  اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ پریشانیوں کی شدت انسان کو گناہوں کے جاذبہ سے نجات دے دیتی ہے۔اگرچہ  اس کا باطن آلودگیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ گناہوں کی قوت جاذبہ سے رہائی پا لینے کی وجہ سے کامیاب ہو جاتا ہے۔

۱۶۵

اس بناء پر توسّلات میں بہت جلدی کامیابی کے لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کو پاک کرے تا گذشتہ گناہوں کی قوت جاذبہ درہم برہم ہو جائے اور وہ اسے پرواز سے نہ روک سکے  یا انسان  پر اتنی زیادہ پریشانیاں ہوں کہ جس طرح  مخصوص مشین خلائی شٹل کو زمین کی قوت جاذبہ سے  نکال کر خلا ء میں بھیجتی ہے اسی طرح انسان  پر پریشانیوں اور مشکلوں کی شدت اتنی زیادہ ہو جو اسے گناہوں کی قید اور ان کی قوت جاذبہ سے نکال کر نجات دے اسی صورت میں وہ اہلبیت علیھم السلام کی توجہ اور عنایات حاصل کر سکتا ہے۔

اس بناء پر توسّل کے نتائج اخذ کرنے کے لئے اگر انسان مردانہ ہمت سے اپنے باطن کو پاک کرے تو وہ اپنے مقصد تک پہنچ جائے گا اور اسی طرح اگر مشکلات کی شدّت اتنی زیادہ ہو جو انسان میں انقطاع کی حالت پیدا کر ے تو وہ اسی طرح گناہوں کی قوت جاذبہ سے نجات حاصل کر لے گا جس طرح خلائی شٹل کو قوت کے ذریعے زمین کے قوت جاذبہ سے دور کیا جاتا ہے۔ اسی صورت میں اس کا توسّل نتیجہ بخش ہو سکتا ہے۔

۱۶۶

  حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں ایک پریشان لڑکی

جن موارد میں پریشانی اور بے چینی کی وجہ سے امید ٹوٹ  جائے توان حالات میں خاندان نبوت  علیھم السلام سے توسّل فوری اثر رکھتاہے۔

اس رو سے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار اور محب پریشانیوں اور مصیبتوں میں انہی ہستیوں کے دامن توسل سے متمسک ہوتے ہیں اور ان کے توسّل سے اپنی مشکلات حل کرتے ہیں ۔اب ہم ان توسّلات کی ایک بہترین مثال آپ کے لئے بیان کرتے ہیں:

قم کے ایک بزرگ نقل کرتے  ہیں:ایک دن میں حضرت ابا الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں زیارت کے لئے مشرّف ہوا ۔میں نے اچانک دیکھا کہ اعراب کی بہت زیادہ تعداد ایک لڑکی کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے  اور حرم مطہر لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔

اس لڑکی نے ضریح کو پکڑ رکھا تھا اور اس نے بلند آواز سے کچھ کلمات کہے۔تمام زائرین اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔میں  نے غور کیا کہ اچانک وہ لڑکی اور سب لوگ خاموش ہوگئے ہیں جیسے سب کی سانس رک گئی ہو ۔

ایک مرتبہ آواز بلند ہوئی جسے سب لوگوں نے سنا اور جس کا مضمون  یہ تھا کہ''میرا باپ میری ماں کا شوہر ہے''یہ آواز اس لڑکی کے شکم میں موجود بچے سے آرہی تھی۔اس کے بعد اچانک حرم کی فضا نعروں سے گونجنے لگی۔عورتیں اس لڑکی کی طرف بڑھیں اور کچھ نے اسے بڑی مشکلوں سے دوسری عورتوں سے چھڑا کر ایک کمرے میں لے آئیں جوحضرت عباس علیہ السلام کے آستانہ کے متولی کا مرکز تھا۔

۱۶۷

اس کے بعد جب اس لڑکی کو لے گئے تو وہاں خلوت ہو گئی چونکہ میں حرم کے متولی سے آشنا تھا لہذا میں ان کے پاس گا اور ان سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا:

یہ کربلا کے اطراف میں رہنے والے صحرا نشین عربوں کا ایک قبیلہ ہے۔انہوں نے اس لڑکی کی  شادی اس کے چچا زاد سے کی تھی لیکن چونکہ عقد کے زمانے میں یہ لوگ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے رابطیکو بہت برا مانتے ہیں ۔لیکن وہ جوان چھپ کر اپنی بیوی سے ملا اور اس سیتعلقات قائم کئے جس کی وجہ سے وہ لڑکی حاملہ ہو گئی اور وہ جوان ڈر کر بھاگ جاتا ہے اور لڑکی کا حمل آشکار ہوجانے تک چھپ جاتا ہے۔لڑکی کے گھر والے اس سے اس بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ لڑکی یہی کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر سے حاملہ ہوئی ہوں۔لیکن جب وہ اس لڑکے کو ڈھونڈ کر لاتے ہیں تو وہ خوف کی وجہ سے اس کا انکار کر دیتاہے ۔

لڑکی  کے رشتہ دار اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔لڑکی بہت فریادا ور واویلا کرتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں لیکن وہ اس کی ایک نہیں سنتے اورآخر میں وہ کہتے ہیں:

ہم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کو حاکم قرار دیں  گے اور انہوں نے جو فیصلہ کیا ہم اسی پر عمل کریں گے ۔اس لئے وہ حرم میں مشرّف ہوئے اور حضرت عباس علیہ السلام کے معجزے کی وجہ سے ماں کے شکم میں موجود بچے نے اپنی ماں کے پارسا ہونے کی گواہی دی۔(۱)

یہ ہزاروں معجزوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو خاندان نبوت علیھم السلام کے لطف و کرم اور عنایات کی وجہ سے رونما ہوا۔

--------------

[۱] ۔ جامع الدرر:۴۰۸۲

۱۶۸

 دوسرا نکتہ

ایک دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ بعض توسّلات میں متوسّل ہونے والا نہ تو پاک روح کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اضظرار ،مشکلات اور شدید پریشانیوں کی وجہ سے اس نے خود کو گناہوں کے جاذبہ سے آزاد کیا ہوتاہے لیکن ا ئمہ اطہار علیہ السلام اپنے علم و آگاہی سے اس کے ماضی یا مستقبل میں کچھ وجوہات(جو ہماری نظر میں نامعلوم ہوتی ہیں) کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد پر بھی نظر کرم کرتے   ہیں  اور ایک ہی لحظہ میں غموں کے پہاڑ سرسبز و شاداب گلستان میں تبدیل ہو جاتے ہیںکیونکہ وہ ایک ہی نظر میں ذرّے کو چمکتے سورج میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

بہ ذرّہ گر نظر لطف بو تراب کند

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

اس نکتہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کی ولایت و امامت ذمہ داری وہی لے سکتا ہے جو تمام جہات سے کام کے ہر پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو اور اس پر مکمل مسلط ہو ۔اس صورت میں وہ خاک کے ذرّات کو بھی تابناک گوہر میں بدل سکتے ہیں ورنہ صرف کھوکھلے دعووئں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

 عالم غیب سے مدد

بہت سے موارد میں اضطراری مسائل کوختم کرنے کے لئے عالم غیب سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔کیونکہ جب چاقو ہڈی تک پہنچ جائے تو تمام مادّی وسائل عاجز ہو جاتے ہیں

۱۶۹

 اس صورت میں کس طرح مادّی طاقت سے اس کا راہ حل تلاش کیا جا سکتاہے  جب کہ مادی توانائی اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار کر چکی ہے؟

ایسے موارد میں مشکلات کو رفع کرنے کے لئے عالم غیب سے مدد مانگنی چاہے اور عظیم الٰہی غیبی طاقتوں سے مشکلوں کو حل کریں۔

ایسے موارد میں خاندان وحی علیھم ا لسلام (جو مخلوق پر  خدا کے جانشین ہیں)کے ذریعے توسّل عالم غیب سے مدد لینے کا بہترین نمونہ ہے۔

ایسے موارد میں کچھ لوگ ''یا علی ،یا حسین ''کہنے یا پھر ''یا صاحب الزمان''کہنے سے اسے اپنے اضطراب وبے چینی کو رفع کرتے ہیں اور ان ناموں کے وسیلے سے خدا سے ارتباط پیدا کرکے اپنی  حاجتوں تک پہنچتے ہیں۔

تا دلی آتش نگیدر،حرف جانسوزی نگوید

حال ما خواھی بیا از گفتۂ ما جستجو کن

اس بناء پر توسل کے معنی خدا کے ساتھ ارتباط کا وسیلہ تلاش کرنا ، مشکلوں کی چارہ جوئی کرنا اور مادّی معنوی پریشانیوں  کا راہ حل تلاش کرناہے۔اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار پوری طول تاریخ میں انبیاء و پیغمبروں سے لے کر ایک عام انسان تک اور ابتدائے خلقت سے روز قیامت تک خدا کے تقرب کے لئے اور اپنی مشکلوں کی چارہ جوئی کے لئے ان ہستیوں سے متوسل ہوتے ہیں۔

۱۷۰

 علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل

بزرگ لوگ مجہولات کو کشف کرنے اور علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل کرتے ہیں تاکہ خاندان وحی علیھم السلام کے معنوی فیض سے اپنی علمی مشکلات کی گرہیں سلجھائیں۔

اس کے نمونہ کے طور پر مرحوم سید علی(صاحب شرح کبیر)کاواقعہ ذکر کرتے ہیں ۔ بہت سے عرب اور عجم علماء ان کے شاگرد ہیں۔یہ بزرگ عالم دین علم و فقہ و اصول میں بہت مہارت رکھتے تھے لیکن علم ہیئت سے بے خبر تھے۔اسی لئے کتاب شرح کبیر لکھتے وقت  قبلہ کی بحث میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ قبلہ کی بحث علم ہیئت سے مربوط ہے ۔انہوں نے اپنے ایک شاگرد(جو علم ہیئت میں ماہر تھا ) سے قبلہ کی بحث سے مربوط علم ہیئت کے ضروری مسائل سیکھنا چاہے تا کہ وہ کتاب شرح کبیر میںمکمل طور پر قبلہ کی بحث ذکر کر سکیں۔لیکن شاگرد نے استاد کے احترام کو ملحوظ نہ رکھا اوراس نے استاد کی درخواست کا جواب یوں دیا:جس طرح ہم کتاب بغل میں دبائے آپ کی خدمت میں آتے ہیں اور آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے ہیں اسی طرح آپ بھی کتاب بغل میں دبائے میرے گھر تشریف لائیں  تا  کہ آپ علم ہیئت کے مسائل سیکھ سکیں!

استاد کو شاگرد سے اس تند جواب کی توقع نہیں تھی لہذ وہ اپنی علمی مشکل حل کرنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام سے متوسل ہوئے  اسی لئے وہ اسی رات حرم مطہر میں متوسّل ہوئے اور صبح تک خدا کی عبادت انجام دی اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے اپنی علمی مشکلات کو رفع کرنے ے لئے درخواست کی ۔ان کے اسی توسّل کی وجہ سے اسی دن کی صبح ان کی وہ تمام علمی مشکلات حل ہو گئیں جن کی انہیں ضرورت تھی ۔ پھر انہوں نے کتاب شرح کبیر میں قبلہ کی بحث ماہرانہ طریقے سے تحریر کی۔(۱)

--------------

[۱]۔ تذکرة العلماء مرحوم تنکابنی:۱۰۴

۱۷۱

 توسّل سے دوری، گناہ کی علامت

اہلبیت عصمت علیھم السلام سے توسّل کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض روایات میں فرمایا گیا ہے :خدا کی اطاعت کا وسیلہ فراہم نہیں ہوسکتا مگر جب تک انسان ان معصوم ہستیوں کے دامن ولایت سے متمسک نہ ہو۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَلاٰ یَقْبَلُ تَوْحِیْدَهُ اِلاّٰ بِاعْتِرٰافِ لِنَبِیِّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِنُبُوَّتِهِ وَلاٰ یَقْبَلُ دِیْناً اِلاّٰبِوِلاٰیَةِ مِمَّنْ أَمَرَ بِوِلاٰیَتِهِ ، وَلاٰ یَنْتَظِمُ اَسْبٰابَ طٰاعَتِهِ اِلاّٰ بِالتَّمَسُّکِ بِعِصَمِهِ  وَ عِصَمِ أَهْلِ وِلاٰیَتِهِ'' (۱)

خداوند کسی کے عقیدۂ توحید کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت کا اعتراف کیا جائے اور کسی دین کو قبول نہیں کرتا مگر اس کی ولایت کے ساتھ کہ جس کی ولایت کو قبول کرنےکا حکم دیا گیا ہو اور خدا کی اطاعت کا وسیلہ فراہم نہیں ہوتا مگر خداکی عصمت اور اس کے صاحبان ولایت سے تمسک کر ذریعے۔

اس فرمان میں امیر المؤمنین علیہ السلام خدا کی اطاعت کے اسباب کی فراہمی کو اسی صورت میں ممکن سمجھتے ہیں کہ جب انسان خدا اور اولیائے خدا کی عصمت سے متمسک ہو۔لیکن اگر انسان ان ہستیوں کی طرف متوجہ نہ ہو تو خدا کے احکامات کی اطاعت کا وسیلہ مہیا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بزرگ ہستیاں خالق و مخلوق کے درمیان فیض کا واسطہ ہیں۔

اس روایت کی بناء پر گناہگاروں کے گناہ کی اہم  علت اہلبیت علیھم السلام سے توسّل و تمسک کسے دوری ہے۔ پس اگر توسّل کو ترک کر دیں تو شیطان کے جال میں پھنس کر معصیت کے مرتکب ہوں گے  اور یہی گناہوں کی علامت ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۹۷ص۱۱۴

۱۷۲

 نتیجہ ٔبحث

توسّل کثافت قلبی کو پاک کرتا ہے اور غافل دلوں میں خداکی یاد پیدا کرتا ہے ۔ جب مختلف قسم کے فتنہ وفساد انسانوں کو گرداب میں مبتلا کر دیں تو اہلبیت علیھم السلام سے توسّل  کشتینجات کی طرح انہیں ساحل پر پہنچاتے ہیں۔

اگر خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں خدا کے سامنے آبرومند ہونا چاہتے ہیں تو توسّل ہی آپ کو اس ہدف تک پہنچا سکتا ہے۔

اہلبیت علیھم السلام کی نسبت سے ہمارے اہم ترین اعتقادی مسائل جیسے ان کا ایمان و یقین ، علم و آگاہی  اور ان کی قدرت و ولایت توسّل کے مسئلہ میں ہی پوشیدہ ہے۔

عالی ترین اخلاقی مسائل جیسے تطہر قلب، تمرکز فکر وغیرہ توسل سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

مشکل ترین شخصی مسائل کو خاندان نبوت علیھم السلام کے توسّل سے حل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ یہی ہستیاں خدا کی جانشین اور ولایت مطلقہ کی مالک ہیں۔

خاندان وحی علیھم السلام سے توسّل کرنا خدا کی اطاعت کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا وسیلہ مہیا کرتا ہے ۔ اس طریقے سے خدا  کی قدرت سے مدد لی جا سکتی ہے۔

آنان کہ خاک را بہ نظر کیمیا کند

آیا شودکہ گوشۂ چشمی بہ ماکند

۱۷۳

ساتواں باب

محبت اہلبیت علیہم السلام

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَحْسَنُ الْحَسَنٰاتِ حُبُّنٰا وَ أَسْوَئُ السَیِّئٰاتِ بُغْضُنٰا''

بہترین نیکیاں ہماری (خاندان نبوت علیھم السلام) محبت ہے اور بدترین برائیاں، ہم سے دشمنی  ہے۔

    محبت کی کشش    خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

    آسمانی موجودات اور خاندان وحی علیھم السلام کی محبت    تقرّب خدا کے کیا آثار ہیں؟

    اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

    خاندان نبوت علیھم السلام کے محبوں کی ذمہ داری

    ۱۔ مودّت پیدا کرنا

    ۲۔ اہلبیت علیھم السلام کے محبوں سے محبت

    ۳۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

    ۴۔ خاندان وحی کی پیروی

    ۵۔ دوسرں کے دل میں اہلبیت علیھم السلام کی محبت کو تقویت دیں

    سچی محبت

    جھوٹی محبتیں

    نتیجۂ بحث

۱۷۴

 محبت کی کشش

محبت اپنی کشش کی وجہ سے محبت کرنے والے کو اپنے محبوب کی طرف  مائل کرتی ہے اور اس کے افکار و عقائد محب کے دل میںڈال دیتیہے۔اس بناء پر محبت جتنی زیادہ ہوگی محبت کرنے والے اور محبوب کے درمیان روحانی مماثلت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

اس بناء پر اگر محبت زیادہ ہو تو میں ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے جو محبوب اور محب کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے حالات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔جیسے دو جڑواں بھائیوں میں زیادہ محبت ہوتی ہے اور دونوں کا بہت قریبی واسطہ ہوتا ہے اور وہاں پر حالات کاایک دوسرے پر زیادہ اثرانداز ہونا بہتر طریقہ سے دکھائی دیتا ہے۔

چند سال پہلے لندن میں رہنے والی ایک لڑکی کو تکلیف کااحساس ہوا ۔وہ اس قدر درد محسوس کر رہی تھی کہ اس کی حالت کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے یہ تشخیص دی کہ یہ درد وضع حمل کی علامت ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ۔لیکن تحقیق کے بعد پتا چلاکہ اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی!!اور پھر ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ حاملہ بھی نہیں ہے۔لیکن وہ ابھی تک  ہسپتال کے بستر پر درد سے کراہ  رہی تھی  اور اس کا پورا بدن پسینے میں شرابور تھا۔

ڈاکٹروں کے کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد  بالآخر اسے کچھ سکون  محسوس ہوا اور وہ مسکرائی اور پھر کہنے لگی:اب مجھے آرام ہے ۔مولود بیٹاہے!

۱۷۵

ڈاکٹروں نے سوچا کہ شاید ان کا واسطہ کسی پاگل لڑکی سے پڑا ہے لیکن بعد میں وہ متوجہ ہوئے  کہ اس مں دیوانگی اور پاگل پن کی علامات نہیں ہیں۔

اس کے بعد معلوم ہوا کہ عین اسی وقت جب وہ لندن میں درد کی وجہ سے ہسپتال گئی تھی اس کی جڑواں بہن آسٹریا کے شہر ''وین''میں  وضع حمل کے درد کی و جہ سے ہسپتال  میںداخل ہوئی تھی  اور چند گھنٹوں کے بعد اس نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔(۱)

ایسے حالات لوگوں میں بہت زیادہ محبت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔کبھی بہت شدید محبت کی وجہ سے محب مادّی  قیدوں کو پیچھے چھوڑ  کر میلوں  دور اپنے محبوب تک پہنچ جاتا ہے ۔جس طرح کبھی بھی بخار کی حرار ت جسم سے روح کے نکل جانے اور نامرئی مسائل کو درک کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح محبت کیگرمی محبت کرنے والے  کو عالمِ ظاہر سے نکال کر محبوب تک پہنچا دیتی ہے۔

محبوب تک پہنچنا اور اس کا دیدار کرنا اس جذبہ اور کشش کی وجہ سے ہوتاہے جو محبت کی شدّت سے  پیدا ہوتاہے۔

کبھی محبت ان کی علمی مجہولات کو کشف کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ دانشوروں کا مجہولات کو کشف کرنے کے لئے شدید محبت و رغبت انہیں ان کے مقصد تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔

 واضح الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے: شدید محبت و رغبت انہیں دقیق علمی مسائل کو سلجھانےمیں مدد کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مجہولات کو کشف کرنے اور اپنی جستجو میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ عجائب حسّ ششم:۳۴

۱۷۶

 خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

محبت اور دوستی میں موجود ایسے حیات بخش آثار کی وجہ سے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی محبت کو صحیح سمت دے اور بہترین مقصد کی طرف اس کی رہنمائی کرے ۔اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے انسان کی دوستی و محبت کو اہلبیت علیھم السلام کی طرف متوجہ کیا ہے تاکہ اس ذریعے سے افراد کی آلودگیوں کو پاک کیا جا سکے اور ان میں اچھی عادتیں اور خوبیاں پیدا ہو سکیں  جو انہیں خدا کا مقرّب بنائے۔

کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت خدا کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے بہت مؤثر ہے۔روایات میں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی محبت کو خدا کے تقرب کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''لِکُلِّ أَمْرٍ سَیِّد وَحُبِّْ وَ حُبُّ عَلِی  علیه السلام سَیِّدُ مٰا تَقَرَّبَ بِهِ الْمُتَقَرِّبُوْنَ مِنْ طٰاعَةِ رَبِّهِمْ'' (۱)

ہر چیز کا ایک سردار ہے ،اور میری اور علی علیہ السلام کی محبت ان چیزوں کی سردار ہے کہ جن کے ذریعے تقرب حاصل کرنے والے مقرب ہوتے ہیں جو کہ پروردگار کی اطاعت ہے۔

یہ روایت اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ خاندان  نبوت علیھم السلام کی محبت  خدا کے احکام کی اطاعت اوراس کے تقرب کا ذریعہ ہے ۔

--------------

[۱] ۔ بحار الانوارج:۲۷ص۱۲۹

۱۷۷

پیغمبر اکرم (ص) ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''حُبُّ عَلِّیِ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ یُحْرِقُ الذُّنُوْبَ کَمٰا تُحْرِقُ النّٰارُ اَلْحَطَبَ'' (۱)

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی محبت کناہوں کو اس طرح راکھکر دیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے۔

اس بناء پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی محبت گناہوں کے وجود کو جلا دیتی ہے اور آپ کی دوستی گناہوں کے پہاڑ کو ایک ڈرّے میں  بدل دیتی ہے  اور اسے انسان کے وجود سے نکال کر نیست و نابود کر دیتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی محبت نہ صرف گذشتہ گناہوں  کے آثار ختم کر دیتی ہے بلکہ یہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح انسان کو گناہ انجام دینے سے روکتی ہے۔محمد و آل محمد علیھم السلام سے محبت کے ذریعے آپ خود کو گناہوں سے بچا سکتے ہیں۔

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''أَلاٰ وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِیًّا لاٰ یَخْرُجُ مِنَ الدُّنْیٰا حَتّٰی یَشْرِبَ مِنَ الْکَوْثَرِ وَ یَأْکُلَ مِنْ طُوْبٰی وَ یَرٰی مَکٰانَهُ فِی الْجَنَّةِ'' (۲)

جان لو! جو علی علیہ السلام سے محبت کرے وہ دنیا سے نہیں جائے گا مگریہ کہ وہ آب کوثر پی لے اور طوبی سے کھالے ا و ر جنت میں  اپنی جگہ دیکھ لے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۹ص۲۶۶

[۲]۔ سفینة البحار،مادۂ حبب

۱۷۸

ہمیں خدا سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کے آخری لمحہ تک محبت اہلبیت علیھم السلام ہمارے دلوں میں باقی رہیتا کہ ہم آخری لمحوں میں اس لطف و کرم کے بھی شاہد بنیں جن کا انہوں نے وعدہ فرمایا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں آیا ہے:

''أَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِْ مَحَبَّةِ أَوْلِیٰائِکَ'' (۱)

جب محبت اہلبیت علیھم السلام کا دم بھرتے ہوئے ہماری جان نکلے گی  تو موت کا پہلالمحہ ہی وہ لمحہ ہو گا کہ جب ہم ان کی محبت و عظمت اور جلال کے آثار (جو ایمان و تقوی ٰ کی علامت ہے)کو بخوبی دیکھیں گے۔  انشاء اللہ۔

چند روایات میں اہلبیت نبوت علیھم السلام سے محبت کو ایمان کی جڑ اور بنیادقرار دیا گیا ہے،جس طرح ان سے دشمنی اور بغض کو کفر و نفاق قرار دیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''یٰا عَلِّیُ حُبُّکَ تَقْویٰ وَ اِیْمٰانوَ بُغْضُکَ کُفْر وَ نِفٰاق'' (۲)

اے علی! آپ  کی محبت تقویٰ و ایمان ہے اور آپ کی دشمنی کفر و نفاق ہے۔

جو کوئی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کرے وہ ہمارے مکتب کی نظر میں کافر اور خدا کے منکروں کے زمرے میں آتا ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۱۰۱ص۲۳۲ اور ۳۵۷،مصباح الزائر:۱۱۶

[۲] ۔ ۔حار الانوار:ج۳۹ص۲۶۳

۱۷۹

آن راکہ دوستی علی نیست،کافر است

گو  زاھد زمانہ  و گو  شیخ  راہ  باشد

اسی طرح جن کے وجود میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی محبت رچ بس چکی ہو ،وہ تقویٰ و ایمان سے سرشار ہوتے ہیں۔

جی ہاں!حبّ و بغض کے ایسے ہی بنیادی اثرات ہوتے ہیں:

خواھی کہ زدوزخ برھانی دل و تن               اثنی عشری شو و گزین مذھب من

ایشان سہ محمدندو چھار ست علی          با موسی جعفر و حسین  و دو حسن

ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے اور وہ رسول اکرم(ص) سے روایت   کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''حُبُّنٰا أَهْلُ الْبَیْتِ یُکَفِّرُ الذُّنُوْبَ وَ یُضٰاعِفُ الْحَسَنٰاتَ'' (۱)

ہم اہلبیت علیھم السلام کی محبت گناہوں کا کفارہ ہے اور نیکیوں کو کئی گنا زیادہ کر دیتی ہے۔

کیونکہ محبت اکسیر ہے جس میں توڑ دینے اور نابود کر دینے کی طاقت پائی جاتی ہے اور گناہوں کے آثار کوختم کر دیتی ہے  ور انہیں نیکیوں میں تدبیل کر دیتی ہے ،  جس طرح شنجرف(۲) تانبے کو سونے میں تبدیل کر دیتی ہے اسی وجہ سے محبت کو ''اکسیر روح ''کہا گیا ہے کیونکہ آلودہ روح  جو گناہوں کی وجہ سے خدا سے دور ہوگئی ہے ،وہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت جو دلوں کو جلا دینی والی اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی ہے  ،اپنے تقرب کو واپس پا لیتی ہے اور گناہوں کو ترک کرکے خدا کی مقرّب بن جاتی ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۶۸ص۱۰۰،امالی شیخ طوسی:ج۱ص۱۶۶

[۲]۔ ایک سرخ معدنی چیز

۱۸۰

کیونکہ جو دل امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام  اور خاندان نبوت علیھم السلام کی محبت سے سرشار ہو اس میں گناہ کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی بلکہ اگر اس میں محبت کا اضافہ ہو جائے تو وہ ہر اس گناہ کو نیست و نابود کر سکتے ہے جسے محب نے ماضی میںانجام دیا ہو اور وہ اسے مستقبل میں گناہ انجام دینے سے روکتی ہے ۔کیونکہ گناہوں کو انجام نہ دینا ان کے آثار و اثرات کو برطرف کرنے کی بنسبت زیادہ آسان ہے۔

اس کا سرّ و راز یہ ہے کہ جو مکمل طور پر اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کا محب اور پیروکار ہو ،وہ خدا کا محبوب اور مقرب ہے اور جب انسان خدا کا محبوب اور مقرب بن جائے تو وہ خدا کی پناہ میں آجاتاہے یعنی خدا اس کے اور گناہ کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتاہے  اور اسی طرح خداوند اس سے جس کام کی انجام دہی چاہتا ہے ،اسے وہ کام انجام دینے کی قدرت و طاقت عطا کرتاہے اور اسے وہ عمل انجام دینے میں کامیاب فرماتاہے۔''لاحول ولا قوّة الا باللّه'' کے یہی معنی ہیں ۔اسی لئے بعض خاندان نبوت علیھم  السلام سے محبت و دوستی کو سیر و سلوک کی مؤثر ترین راہ قرار دیتے ہیں۔

اسی لئے ایک مفصل روایت جس کو مرحوم علامہ مجلسی  نے بحار الانوار کی جلد 70 صفحہ 25 میںحضرت امام صادق علیہ السلام سے ذکر کیاہے ،کی بناء پر محب (اگر محبت کے عالی درجوں تک پہنچ جائے)نے اگرچہ علماء کی راہ،حکماء کی سیرت اور صدیقین کا طریقہ طے نہیں کیا ہوتا  اور اس کی روش ان کی روش سے مختلف ہو لیکن پھر بھی جو نتائج علمائ،حکماء اور صدیقین کو حاصل ہوتے ہیں وہ اسے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

ایسے آثار اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ جب محبت بہت شدیدہو نہ کہ وہ اہلبیت علیھم السلام کے عام محبوں جیسی  محبت  ہو۔یہ محبت ایسی اہمیت کی حامل ہے کہ اس روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ ایسی محبت نہ صرف سیر و سلوک کا بہترین طریقہ ہے بلکہ یہ وہ واحد راستہ ہے کہ جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے حلانکہ اس روایت کی رو سے حکماء ،علماء اور صدیقین کی روش ایسی نہیں ہے۔

۱۸۱

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ الْحُکْمٰاء وَرَثُوا الْحِکْمَةَ بِالصُّمْتِ،وَ اِنَّ الْعُلْمٰاءَ وَرَثُوا الْعِلْمَ بِالطَّلَبِ وَ اِنَّ الصِّدِّیْقینَ وَرَثُوا الصِّدْقَ بِالْخُشُوْعِ وَ طُوْلِ الْعِبٰادَةِ فَمَنْ أَخَذَهُ بِهٰذِهِ الْمَسِیْرَةِ اِمّٰا اَنْ یَسْفَلَ وَ اِمّٰا اَنْ یَرْفَعَ وَ أَکْثَرَهُمُ الَّذِْ یَسْفَلُ وَلاٰ یَرْفَعُ ،اِذٰا لَمْ یَرْعَ حَقَّ اللّٰهِ وَ لَمْ یَعْمَلْ بِمٰا أَمَرَ بِهِ ،فَهٰذِهِ صِفَةُ مَنْ لَمْ یَعْرِفِ اللّٰهُ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَ لَمْ یُحِبُّهُ حَقَّ مَحَبَّتِهِ،فَلاٰ یَغُرَّنَّکَ صَلاٰتُهُمْ وَ صِیٰامُهُمْ وَ رَوٰایٰاتُهُمْ وَ عُلُوْمُهُمْ ،فَاِنَّهُمْ حُمُر مُسْتَنْفِرَة'' (1)

حکماء نے حکمت خاموشی کے ذریعے ،علماء نے علم طلب کے ذریعے اور صدیقین نے صداقت خشوع  اور طولانی عبادات کے ذریعے حاصل کی ۔پس جو بھی اس راستہ کو طے کرے یا وہ تنزلی کی طرف جائے گا یا پھر  ترقی کرے گا  اور ان میں سے اکثر اگر خدا کے حق کی رعایت نہ کریں  اور جس کا   حکم دیاگیا ہے اس پر عمل نہ کریں تو وہ تنزلی کی طرف جائیں گے اور یہ ان کی خصلت ہے جنہوں نے حقیقت میں خدا کو نہیں پہچانا اور اس سے اس طرح محبت نہیں کی جس طرح محبت کرنے کا حق تھا ۔پس ان کی نماز، روزے اور روایات و علوم تمہیں دھوکا نہ دے دیں ،وہ حماران وحشی ہیں!

جیسا کہ اس روایت میں بھی تصریح ہوئی ہے کہ علماء و حکماء اور صدیقین کو مورد انتقاد قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے حقیقت میں خدا کو نہیں پہچانا اور انہوں نے حقیقت میں خدا کی محبت کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔

اگر محب مقام محبت میں عالی مراحل تک پہنچ جائے  اور اپنے دل (جو حرم اللہ ہے)کو خدا اور اہلبیت علیھم السلام کی محبت سے بھر لے  تو جب تک اس کے دل میں ان کی محبت کی شدت باقی رہے گی تب تک تنزلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

  محبین (محبت کرنے والے)کی تنزلی صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ خود محبت کو ہاتھ سے دے بیٹھیں ورنہ جب تک محب کے دل میں محبت موجود ہو  وہ ترقی و تکامل کی راہ پر گامزن ہو گا نہ کہ ترقی و سقوط کی جانب۔

--------------

[1]۔ بحار الانوارج۷۰ص۲۵

۱۸۲

اس نکتے کا راز یہ ہے ،جیسا کہ ہم نے کہا: محبت اور شدید شوق مقناطیس کی طرح ہے اور جب تک محبت موجود ہو وہ محب کو محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور جب وہ محبوب کی طرف مائل ہو جائے تو اس میں سنخیت پیدا ہو جاتی ہے اور  محب میںمحبوب کی صفات و آثار پیدا ہو جاتی ہیں۔اسی لئے اس روایت میں خدا اور اولیائے خدا کی محبت کوسیر و سلوک  میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے سب سے بہترین اور محفوظ راستہ  بتایاہے۔

بعض دوسری روایات میں بھی محبین دوسرے تمام افراد پر مقدم ہیں۔جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے اخبار میں آیا ہے کہ خدا نے فرمایاہے:

''مٰا أَحَبَّنِْ أَحَد أَعْلَمُ ذٰلِکَ یَقِیْنًا مِنْ قَلْبِهِ اِلاّٰ قَبِلْتُهُ لِنَفْسِْ وَ أَحْبَبْتُهُ حَبًّا لا یَتَقَدَّمُهُ أَحَد مِنْ خَلْقِْ ،مَنْ طَلَبَنِْ بِالْحَقِّ وَجَدَنِْ وَمَنْ طَلَبَ غَیْرِیْ لَمْ یَجِدْنِیْ...'' (1)

مجھے کوئی دوست نہیں رکھتا کے جس کے بارے میں میں یہ جانو کہ واقعاً یہ محبت اس ے دل  سے پھوٹ رہی ہے مگر یہ کہ اسے میں اپنے لئے قبول کر لوں اور اسے دوست رکھوں گا۔اس طرح سے کہ میری مخلوق میں سے کوئی بھی اس پر مقدم نہیںہو گا۔جو مجھے حقیقت میں طلب کرے وہ مجھے پا لیتا ہے اور جو میریغیر کو طلب کرے  میں اسے نہیں ملتا۔

اس حدیث قدسی سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جنہیں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف (جو خدا کے نمائندہ ہیں)اپنی خدمت کے لئے قبول فرما لیں اور انہیں لوگوں میں سے اپنی مصاحبت کی نعمت سے مشرّف فرمائیں اور دوسروں پر مقدم کریں ،وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو راہ محبت میں سب لوگوں پر مقدم ہوں اور محبت کے عالی ترین درجوں پر فائز ہوں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوارج۷۰ص۲6

۱۸۳

  آسمانی موجودات اور خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

بزرگ لوگوں کی عظمت ہی نہیں  بلکہ کائنات   میں تما شرفاء کی شرافت و عزت اہلبیت علیھم السلام کی محبت کی وجہ سے ہے حتی خدا کی بارگاہ کے مقرّب ملائکہ نے اپنی شرافت اور عزت محبت اہلبیت علیھم السلام کی وجہ سے حاصل کی ۔

حضرت رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''هَلْ شَرَفَتِ الْمَلاٰئِکَةُ اِلاّٰ بِحُبِّهٰا لِمُحَمَّدٍوَ عَلٍِّ وَ قَبُوْلِهٰا لِوِلاٰیَتِهِمٰا؟'' (1)

کیا ملائکہ کی شرافت ان کی محمد و علی علیھما السلام سے محبت اور ان دونوں کی ولایت کو قبول کرنے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ہے؟

یہ فرمان اس بات پر واضح دلالت کرتاہے کہ ملائکہ کی شرافت اور عزت اس محبت کی وجہ سے ہے جو ان کو پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علیہ السلام سے ہے۔

آئینہ مھر روشن از یاد علی است

او راد ملک بر آسمان ناد علی است

اگرچہ یہ روایت ملائکہ کے بارے میں ہے لیکن دوسری روایتیں اس حقیقت کی شاہد ہیں کہ تمام اہل آسمان( چاہئے وہ ملائکہ ہوں یا کوئی اور ) خاندان وحی علیھم السلام کے محب ہیں اور انہی کی محبت کی وجہ سے وہ خدا کے اور زیادہ مقرّب ہو جاتے ہیں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۲۱ ص۲۲۷، تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام:152

۱۸۴

کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا محبت ، محبوب کی صفات محب میں جلوہ گر کر دیتی ہیں اور اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی ایک صفت ان کی خداوند متعال سے قربت ہے۔اسی رو سے آسمانی موجودات و مخلوقات ان ہستیوں کی محبت کو ہی خدا کے تقرّب کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔

اہلبیت اطہار علیھم السلام سے روایت ہونے والی ایک زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:

''یَتَقَرَّبُ أَهْلُ السَّمٰاءِ بِحُبِّکُمْ وَ بِالْبَرٰائَةِ مِنْ أَعْدٰائِکُمْ'' (1)

اہل آسمان آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے (خداکا) تقرب حاصل کرتے ہیں۔

اوصاف علی است کہ انتھایش نبود                مدّاح علی  بہ جز خدایش  نبود

تاحشر''ادیب'' اگر ز وصفش خوانی      یک حرف ز دفتر ثنایش نبود

  تقرّب خدا کے کیا آثار ہیں؟

اب ہم  تقرّب الٰہی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بعض حیرت انگیز اور اہم آثار بیان کرتے ہیں:

خدا اور اہلبیت علیھم السلام کے تقرب کی نشانیوں میں سے ایک باطنی آنکھوں اور کانوں کا فعال ہو جانا اور روحانی و معنوی توانائیوں کا حصول ہے ۔کیونکہ جب انسان خدا سے  معنوی تقرب کی وجہ سے ترقی و پیشرفت کرتا ہے توخدا کی محبت کے زیر سایہ آ جاتا ہے اور خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور جب انسان خدا کا محبوب بن جائے تو اسے معنوی قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج102ص164، مصباح الزائر:239

۱۸۵

حضرت امام صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم(ص) سے روایت فرماتے ہیں کہ خدا نے فرمایا ہے:

''مَنْ أَهٰانِ لِی وَلِیّاً فَقَدْ أَرْصَدَ لِمُحٰارَبَتِْ،وَمٰا تَقَرَّبَ اِلََّ عَبْد بِشَْئٍ أَحَبَّ اِلََّ مِمّٰا افْتَرَضَتْ عَلَیْهِ ،وَاِنَّهُ لَیَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنّٰافِلَةِ حَتّٰی اُحِبَّهُ فَاِذٰا أَحْبَبْتُهُ ،کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِیْ یَسْمَعْ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِیْ یَبْصُرُ بِهِ وَ لِسٰانَهُ الَّذِیْ یَنْطِقُ بِهِ وَ یَدَهُ الَّتِ یَبْطُشُ بِهٰا،اِنْ دَعٰانِْ أَجَبْتُهُ وَ اِنْ سَأَلْتَنِْ أَعْطَیْتُهُ'' (1)

کوئی بھی بندہ مجھ سے اس چیز کے ذریعے مقرب نہیں ہو سکتا جو میرے نزدیک ان واجبات سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس پر واجب کی ہیں اور وہ نوافل کے ذریعے میرا مقرب ہوتاہے تا کہ وہ میرا محبوب بن جائے اور جب میں اسے دوست رکھتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتاہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں  جس سے وہ دیکھتا ہے  ، اس کی زبان  جاتا ہوں  جس سے وہ بولتاہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں  جس سے وہ اعمال قدرت کرتا ہے۔اگر وہ مجھے پکارے تو میں اس کا جواب دوں گا اور اگر مجھ سے کسی چیز کی درخواست کرے تو اسے وہ عطاکروں گا۔

        اس حدیث میں  ذکر ہونے والے تمام امور خدا کے تقرّب کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔اس بناء پر آسمانی آوازوں کو سننا ، ملکوتی چہروں کو  دیکھنا، اسرا رو رموز الٰہی کو جاننا،مشکل امور کودست قدرت حق سے انجام دینا، دعاؤں کا مستجاب ہونا، یہ سب ایسی عنایات ہیں جو بارگاہ خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کے مقرّب افراد  اور ان  لوگوں کے شامل حال ہوتی ہیں جن سے خدا واہلبیت علیھم السلام محبت کرتے ہوں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج75ص155، اصول کافی:3522

۱۸۶

  اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

ہم اپنے دلوں میں محبت اہلبیت علیھم السلام رکھتے ہیں اور یہی محبت ان ہستیوں کے قلوب میں بھی ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ خاندان نبوت علیھم السلام کے محب ہیں وہ ان بزرگوار ہستیوں کے محبوب بھی ہیں۔

حبیش بن معتمر کہتے ہیں: میں امیر المؤمنین حضرت علیعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا:

''اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکٰاتُةُ،کَیْفَ أَمْسَیْتَ؟

قٰالَ:أَمْسَیْتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّیْنٰا وَ مُبْغِضاً لِمُبْغِضِیْنٰا....''(1)

اے امیر المؤمنین علیہ  السلام آپ پر سلام ہو اورآپ پر خدا کی رحمت و برکات ہوں،آپ نے کیسے صبح کی؟

آپ نے فرمایا:میں نے اس حال میں رات گزاری کہ میں اپنے محبوں کا محب  اور اپنے دشمنوں کا دشمن تھا۔

جب اہلبیت علیھم السلام کے دل میں کسی انسان کے لئے محبت پیدا ہو جائے تو وہ خدا کا بھی محبوب   بن جاتا ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجاتی ہے  اور جب خدا سے اس کی محبت اس قدر شدید ہو جائے کہ اس کے دل میں مخلوق کے لئے کوئی جگہ نہ رہ جائے تو اس کی باطنی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اولیاء خدا سے آشنا ہو جاتا ہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:شب معراج میںخدا نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا:

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج27ص5، مجالس شیخ مفید:197

۱۸۷

''مَنْ عَمِلَ بِرِضٰاَ اُلْزِمُهُ ثَلاٰثَ خِصٰالٍ :اُعَرِّفَهُ شُکْراً لاٰ یُخٰالِطُهُ الْجَهْلَ،وَ ذِکْراً لاٰ یُخٰالِطُهُ النِّسْیٰانُ،وَمَحَبَّةً لاٰ یُؤْثِرُ عَلٰی مَحَبَّتِْ مَحَبَّةَ الْمَخْلُوْقِیْنَ،فَاِذٰا أَحَبَّنِْ أَحْبَبْتُهُ ،وَ أَفْتَحُ عَیْنَ قَلْبِهِ اِلٰی جَلاٰلِیْ وَلاٰ اُخْف عَلَیْهِ خٰاصَّةَ خَلْقِْ....'' (1)

جو کوئی میری رضا کے لئے عمل کرے تو میں اس میں  تین خصلتیں  پیدا کر دیتاہوں:

1۔اسے شکر کی حالت رکھنے سے آشنا کرتا ہوں تا کہ جہالت جس کے ساتھ نہ ہو۔

2۔اور ایسا ذکر کہ جس کے ساتھ نسیان نہ  ہو۔

3۔اپنی ایسی محبت کہ جس پر مخلوقین کی محبت اثر اندازنہ ہو۔

پس جب بھی مجھ سے محبت کرے میں بھی اس سے محبت کروں گا اور اس کے دل کی آنکھیں اپنے جلال کی طرف کھول دوں گا اور اپنی مخلوق کے خواص اس پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔

اس بناء پر خدا کی محبت کی شانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اولیائے خداا ور خلق خدا سے آشنا ہو جاتا ہے اور نہیں دیکھ سکتا ہے۔

بعض لوگ خواب یا بیداری میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت کا شوق رکھتے ہیں  یہ ان کی شدید محبت کی وجہ سے ہے کیونکہ محبت انسان میں محبوب سے ملاقات کے اشتیاق کوبڑھا دیتی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۲۸

۱۸۸

حضرت ابراہیم علیہ السلام مرنا نہیں چاہتے تھے خدا نے حضرت عزرائیل سے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہو:

''هَلْ رَأَیْتَ حَبِیْباً یُکْرِهُ  لِقٰاءَ حَبِیْبِهِ؟اِنَّ الْحَبِیْبَ یُحِبُّ لِقٰاءَ حَبِیْبِهِ'' (1)

کیا تم  نے کسی محب کو دیکھا ہے جسے اپنے محوب کوو دیکھنے سے کراہت ہو؟بیشک محب اپنے محبوب سے ملاقات کو پسند کرتاہے۔

ان میں سے بعض ایسے تھے جو اہلبیت عصمت علیھم السلام کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے لیکن ان کے شہر سے دور تھے لیکن ان کے دل اہلبیت علیھم السلام کی یاد اور ان کے دیدار کے عشق سے لبریز تھے جیسا کہ حضرت اویس قرنی  کے دل و جان میں  پیغمبر اکرم (ص) کے دیدار کا شوق تھا اور وہ اپنے خیال میں آنحضرت (ص) کے تابناک انوار کو تصور کرتے تھے۔

اب جب کہ خاندان عصمت و طہارت کی آخری کڑیحضرت یقیة الله الاعظم عجل الله فرجه الشریف باقی ہیں اور پردۂ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں  آپ کے محب اور جانثار وں کی آرزو صرف آپ  کا دیدار ہے ۔یہ آرزو  اور امید آنحضرت  سے اس محبت کی بناء پر ہی ہے جو ان کے دلوں میں آنحضرت کے لئے موجزن ہے کیونکہ خداوند کریم کے فرمان کے مطابق''اِنَّ الْحَبِیْبَ یُحِبُّ لِقٰائَ حَبِیْبهِ'' ہر محب اپنے محبوب کا دیدار کرنا چاہتاہے۔

گرچہ یوسف بہ کلافی نفرشند بہ ما

پس ھمین فخر کہ ما ھم ز خریدارانیم

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج6ص۱۲۷،امالی شیخ صدوق:118

۱۸۹

 خاندان نبوت علیھم السلام کے محبوں کی ذمہ داری

1۔ مودّت پیدا کرنا

اہلبیت علیھم السلام سے محبت و دوستی اتنی گہری ہونی چاہئے جو آپ کے وجودمیں گھر کر چکی ہواور آپ کے روم روم میں سرایت کر چکی ہے جو آپ کا ان بزرگوں سے نزدیک ہونے کا وسیلہ بنے۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْمَوَدَّةُ قَرٰابَة مُسْتَفٰادَة'' (1) موّدت، ایسی محبت ہے جس سے تقرّب حاصل ہوتاہے۔

یعنی محبت میں اس قدر اضافہ ہونا چاہئے جو آپ کو محبوب سے نزدیک کر دے ۔اگر محبت اس حد تک بڑھ جائے تو اسے ''مودت ''کہتے ہیں۔اس بناء پر مودت وہی محبت ہے جس میں افزائش اور اضافہ ہو چکا ہو اور جو روحانی قرب کا باعث ہو۔

اہلبیت اطہار علیھم السلام سے ایسی محبت ہر کسی کی ذمہ داری ہے۔ہمیں محمد و آل محمد علیھم السلام سے اس قدر محبت ہونی چاہئے جو اہلبیت علیھم السلام سے تقرب کا وسیلہ ہو۔خدا وند کریم کا قرآن مید میں ارشاد ہے:(قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً ِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی) (2) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو ۔اس آیت کے مطابق ہر انسانپر واجب ہے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے اس طرح سے محبت کرے جو ان ہستیوں سے معنوی و روحانی قرب کا باعث ہو۔یہ سب انسانوں کی ایک بنیادی اور عمومی ذمہ داری ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۴ص۱6۵

[2]۔ سورۂ شوریٰ،آیت :23

۱۹۰

2۔ اہلبیت علیھم السلام کے محبوں سے محبت

صرف اہلبیت اطہار علیھم لسلام سے محبت و دوستی ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان سے محبت کے بعد ان بزرگ ہستیوں سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرنی چاہئے۔

حضرت پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''أََحِبُّوْا مَوٰالِیْنٰا مَعَ حُبِّکُمْ لِآلِنٰا'' (1)

ہمارے محبوں سے بھی ویسی محبت کرو جیسی محبت ہمارے خاندان سے کرتے ہو۔

کیونکہ ان کے محبوں سے محبت ان سے محبت کا لازمہ ہے۔

3۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

 اگر انسان کے دل میں ان ہستیوں(کائنات کا وجود جن کے مرہون منت ہے) کی محبت گھرکر جائے تو پھر یہ ممکن نہیں ہے انسان ان کے دشمنوں کی دوستی کو قبول کر لے۔کیونکہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت ان کے دشمنوں سے سازگار نہیں ہے۔چونکہ ظاہری یا ذہنیشعور کے نزدیک دو مخالف چیزوں کی محبت جمع نہیں ہو سکتی۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷ص۵۷

۱۹۱

اس بنا ء پر ظاہری یا ذہنی شعور   میں  ممکن ہے کہ کوئی اہلبیت علیھم السلام سے بھی دوستی رکھتا ہو اور گمراہوں سے بھی لیکن قلبی اور باطنی لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یَجْتَمِعُ حُبُّنٰا وَحُبُّ عَدُوِّنٰا فِی جَوْفِ اِنْسٰانٍ،اَللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ:(مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهِ ) (1)،(2)

ہماری محبت اور ہمارے دشمن کی محبت انسان  کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی ۔  خداوند کریم نے فرمایا:''اور اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں''۔

اس روایت کی مانند ابی جارود نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:

''أَبِی الْجٰارُوْدِ عَنْ أَبِْ جَعْفَر علیه السلام فِْ قَوْلِهِ:(مٰا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهِ )فَیُحِبُّ بِهٰذٰا وَ یُبْغِضُ بِهٰذٰا ،فَأَمّٰا مُحِبُّنٰا فَیُخْلِصُ الْحُبَّ لَنٰا کَمَا یُخْلِصُ الذَّهَبَ بِالنّٰارِ لاٰکَدِرَ فِیْهِ

مَنْ أَرٰادَ أَنْ یَعْلَمَ حُبِّنٰا،فَلْیَمْتَحِنْ قَلْبَهُ فَاِنْ شٰارَکَهُ فِی حُبِّنٰا حُبُّ عَدُوِّنٰا،فَلَیْسَ مِنّٰا وَ لَسْنٰا مِنْهُ وَاللّٰهُ عَدُوُّهُمْ وَ جِبْرَئِیْلُ وَ مِیْکٰائِیْلُ وَاللّٰهُ عَدُوّ لِلْکٰافِرِیْنَ''(3)

ابی جارود حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے خدا کے اس فرمان کے بارے میں فرمایا'' اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں''

--------------

[1]۔ سورۂ احزاب،آیت:4

[2]۔ بحار الانوار:ج24ص318،کنز الفوائد:23

[3]۔ بحار الانوار:ج27ص51

۱۹۲

آپ نے فرمایا:انسان کے دو دل نہیں ہیں  کہ جو ایک سے محبت کرے اور دوسرے سے دشمنی۔ ہمارے محب ہمارے خاندان کی محبت کو ہمارے دشمنوں کی محبت سے پاک کرتے ہیں۔جس طرح آگ سونے کو خالص کر دیتی ہے کہ اس میں  کوئی ملاوٹ نہ ہو۔

جو کوئی بھی یہ جاننا چاہتا ہو کہ وہ ہمارے خاندان سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟وہ اپنے دل کو آزمائے ۔پس اگر کوئی ہماری دوستی کے ساتھ ہمارے دشمنوں سے محبت کرے تو وہ ہم سے نہیں  ہے اور   ہم اس سے نہیں ہیں ۔خداوند ،جبرئیل اور میکائیل ایسے افراد کے دشمن ہیں  اور خداوند کافروں کے لئے دشمن ہے۔

اس بناء پر محبت کی نشانی( کہ جس کا لازمہ اہلبیت علیھم السلام کی اطاعت و پیروی ہے) انسان کا ان ہستیوں میں جذب ہو جانا اور ان کے دشمنوں سے بیزاری ہے۔انسان ایسی محبت کے وسیلے سے اہلبیت علیھم السلام میں کھو جاتا ہے ۔پھر وہ اپنے محبوب اور محبوب کی پسندیدہ چیزوں کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچتا۔ایسے  حالات محب کے محبوب میں جذب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

جناب خدیجہ علیھا السلام پیغمبر اکرم (ص)کے سفر پر جاتے وقت فرماتیں:

قَلْبُ الْمُحِبِّ اِلَی الْأَحْبٰابِ مَجْذُوْب        وَ جِسْمُهُ بِیَدِ الْأَسْقٰامِ مَنْهُوْب (1)

محب کا دل احباب میں مجذوب ہو جاتا ہے حلانکہ اس کا جسم بیماریوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے۔

--------------

 [1]۔ بحار الانوار:ج16ص29

۱۹۳

جب آپ محبت میں پیشرفت اور اولیائے خدا کی دوستی کے نتیجہ میں ان ہستیوں میں گم ہو جاتے ہیں اور ان کے غیروں سے بیزار ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''....اِنَّ أَصْلَ الْحُبِّ ،اَلتَّبَرّ عَنْ سِوَی الْمَحْبُوْبِ'' (1)

اصل محبت محبوب کے علاوہ دوسروں سے دوری اختیار کرنا ہے۔

جب آپ اپنے محبوب کے علاوہ دوسروں سے دوری اختیار کریںتو آپ اپنے محبوب کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

''دَلِیْلُ الْحُبِّ اِیْثٰارُ الْمَحْبُوْبِ عَلٰی مٰا سَوٰاهُ'' (2)

محبت کی دلیل محبوب کو دوسروں  پرترجیح دینا ہے۔

ایسی محبت آپ کو معنویت و نورانیت کی اوج پر پہنچا دیتی ہے۔جس کی وجہ سے آپ پر اہلبیت عصمت و طہارت  علیھم السلام کی عنایات ہوتی ہیں۔جو آپ کو معنوی و ملکوتی مخلوق بنا دیتی ہیں اورآپ کے دل میں  اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے نفرت اور برائت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

--------------

 [1]. بحار الانوار:ج29ص251،مصباح الشریعہ:65

[2]۔ بحار الانوار:ج70ص22،مصباح الشریعہ:2

۱۹۴

4۔ خاندان وحی کی پیروی

خاندان نبوت علیھم السلام کا اپنے محبوں سے یہی تقاضا  ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ خودسازی اور خدا پسندانہ اعمال انجام دیں ۔ اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں جو اپنے دل میں اس خاندان کی محبت و دوستی رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے کردار کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل قرار دیں اور اپنے تقویٰ و پرہیز گاری میں اضافہ کریں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ أَحَبَّنٰا فَلْیَعْمَلْ وَلْیَتَجَلْبَبِ لْوَرَع'' (1)

جو ہم سے محبت کرتا ہو اسے چاہئے کہ وہ کردار و رفتار پرعمل کرے اور تقویٰ کا لباس زیب تن کرے۔

جب خاندان وحی علیھم السلام کی محبت انسان کے ظاہر سے باطن میں سرایت کر جائے تو یہ تقویٰ و عمل صالح کا منشاء بن جاتا ہے۔

اہلبیت علیھم السلام کی محبت ہمیشہ انسان کے صالح اعمال کے ساتھ ہوتی ہے۔جن کی محبت زیادہ ہو وہ عام طور پر نیک اور صالح اعمال انجام دینے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔اسی لئے حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

--------------

[1]۔ شرح غرر لحکم: ج۵ ص۳۰۳

۱۹۵

''لاٰتَدْعُوا الْعَمَلَ الصّالِحَ وَ الْعِبٰادَةَ اِتِّکٰالاً عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدً علیهم السلام وَالتَّسْلِیْمِ لِأَمْرِهِمْ اِِتّکٰالاً عَلَی الْعِبٰادَةِ فَاِنَّهُ لاٰ یُقْبَلُ أَحْدُهُمٰا دُوْنَ الْآخِرِ'' (1)

 محمد و آل محمد علیھم السلام کی محبت و دوستی پر تکیہ کرتے ہوئے عمل صالح اور عبادت میں کوشش کوترک نہ کرو اور اپنی عبادت پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی محبت اور ان کے حکم کے سامنے تسلیم ہونے کو خیرباد نہ کہو ان میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں ہو گا۔

یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان اہلبیت علیھم السلام سے شدید محبت بھی کرتا ہو لیکن اس کے باوجود ایسے کاموں میں مشغول ہوجنہیں وہ پسند نہیں کرتے یا ایسے اعمال کو چھوڑ دے جنہیں وہ پسند کرتے ہیں ۔

حقیقی محب اور واقعی دوست وہ ہوتاہے جو محبوب کا مطیع اور پیروکار ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:لَوْ کٰانَ حُبُّکَ صٰادِقاً لَأَطَعْتَهُ      اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطِیْع (2)

اگر تمہاری محبت سچی ہو تو تم اس کی اطاعت کرو گے کیونکہ محب اسی کا مطیع ہوتاہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

ایسی محبت جو اہلبیت اطہار علیھم السلام کی اطاعت اور پیروی کے ساتھ ہو ،وہ ان ہستیوں کی خوشنودی کا باعث بنتی ہے۔اسی وجہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''فَأَصْبَحْنٰا نَفْرَحُ بِحُبِّ الْمُحِبِّ لَنٰا'' (3) ہم نے اس حال میں صبح کی کہ ہم اپنے محبوں اور دوستوں کی ہم سے کی جانے والی محبت کی وجہ سے خوشحال ہیں۔

--------------

[1]۔ سفینة البحار:2041، مادۂ حبب

[2]۔ بحار الانوار:ج47ص24

[3]۔ بحار الانوار:ج27ص83

۱۹۶

جی ہاں جو بلندمقامات تک پہنچنے کے لئے کوشاںہوں اور جن کے نیک اور عظیم اہداف ہوں ، انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ کوئی بھی گنج و رنج برداشت کئے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔لہذا جو کوئی بلند مقام کے حصول کے بارے میں سوچ رہا ہو تو اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے ہر ضروری عمل  انجام دینا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ أَحَبَّ الْمَکٰارِمَ،اِجْتَنَبَ الْمَحٰارِمَ'' (1) جو کوئی مکرم بننا چاہتا ہو اسے حرام کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کی روایت میں آیاہے کہ خداوندکریم نے فرمایا:

''مٰا لِأَوْلِیٰاءِْ وَالْهَمُّ بِالدُّنْیٰا،اِنَّ الْهَمَّ یُذْهِبُ حَلاٰوَةَ مُنٰاجٰاتِْ مِنْ قُلُوْبِهِمْ،یٰا دٰاوُدُ اِنَّ مَحَبَّتِ مِنْ أَوْلِیٰاء أَنْ یَکُوْنُوا رُوْحٰانِیِّیْنَ لاٰ یَغْتَمُّوْنَ'' (2)

میرے محبوں کو دنیاکے ہم و غم سے کیا سروکار؟کیونکہ دنیا سے دل لگی ان کے دل سے مناجات کی شیرینی چھین لیتی ہے۔میں  اپنے محبوں سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ روحانی ہوں اور انہیں دنیا کا ہم و غم نہ ہو۔

اس بناء پر خدا و اہلبیت علیھم السلام کے محبوں کو دنیاوی مسائل میں ہی سرگرم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ  دنیا پرستی اور مادّی دنیا میں دلچسپی انسان کو بارگاہ خدا سے دور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔یہ اس سے تقرب سلب کر لیتی ہے اور اس سے خدا و اہلبیت علیھم السلام کی محبت کم کر دیتی ہے۔لیکن معنوی مسائل  اور عالم معنی کے حقائق کی جستجو انسان کو خدا اور آئمہ علیھم السلام کا محبوب حقیقی بنا دیتی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج77ص421،ارشاد المفید:140

[2]۔ بحار الانوار:ج82ص143

۱۹۷

5۔ دوسرں کے دل میں اہلبیت علیھم السلام کی محبت کو تقویت دیں

محبان اہلبیت علیھم السلام کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے رفتار و کردار سے ان ہستیوں کی محبت دوسروں کے دل میں اجاگر کرتے ہیں۔ معاشرے میں اس طرح سے زندگی گزاریںجس سے لوگ  اہلبیت علیھم السلام کی طرف مائل ہوں نہ کہ خدانخواستہ وہ لوگوں کے دلوں میں بغض پیدا کرنے کا باعث بنیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رَحِمَ اللّٰهُ امْرَء اً حَبَّبْنٰا اِلَی النّٰاسِ وَ لَمْ یُبْغِضْنٰا ِالَیْهِمْ'' (1)

خدا س شخص پر رحمت کرے کہ جو لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کرے اور ان میں ہمارے لئے دشمنی ایجاد نہ کرے۔

ہم نے محبت کے آثار و اثرات کے بارے میں جو بحث کی ہے اس سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ لوگوں کے دلوں میں  اہلبیت اطہار علیھم السلام کے بارے میں شدید محبت پیدا کرنے سے ان کے لئے تقویٰ و ایمان ایجاد کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا وسیلہ فراہم کیا جاتاہے۔

اس بناء پر محمد و آل محمد علیھم السلام کے محبوں کو چاہئے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو وہ لوگوں کے دلوں میں ان مظلوم ہستیوں کی محبت پیدا کریں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج75ص421

۱۹۸

 سچی محبت

محبت اور دوستی کی کچھ علامتیں اور نشانیاں ہوتی ہیں جن سے دوستوں کوپہچانا جا سکتا ہے اور سچی محبت کرنے والوں میں اور دوسروں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔چونکہ محبت اکسیر ہے اس لئے یہ محب میں  کچھ آثار پیدا کرتی ہے اور جومحبوب کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔فہم و فراست رکھنے والے افراد یہ درک کر لیتے ہیں کہ کن افرد کی محبت اور دوستی کو دل میںجگہ دینی چاہئے؟کیونکہ وہ اپنے رفتار و کردار اور حرکات و سکنات سے اپنے محبوب کو پہچان لیتے ہیں۔

محبت اور دوستی جتنی زیادہ ہو ،محب میںمحبوب کی نشایناں اتنی ہی زیادہ جھلکتی ہیں۔کبھی محبت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ محب محبوب کو کائنات کی سب چیزوں پر فوقیت دیتا ہے ۔ایسی محبت محبوب کے لئے محب کے ایمان و اعتقاد کی نشانیوںمیں سے ہے۔

اگر خاندان نبوت علیھم السلام سے آپ کی محبت اس حد تک ہو تو یہ خدا پر آپ کے کامل ایمان کی نشانی ہے۔یہ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیثوں میں  سے ہے:

''لاٰ یُؤْمِنُ عَبْد حَتّٰی اَکُوْنَ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ نَفْسِهِ،وَیَکُوْنَ عِتْرَتِْ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ،وَیَکُوْنَ أَهْلِْ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ أَهْلِهِ،وَ یَکُوْنَ ذٰاتِ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ ذٰاتِهِ'' (1)

بندہ اس وقت تک ایمان نہیں جب تک میں اس کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اور میری عترت اس کے نزدیک اس کی عترت سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے اور میرے اہل اس کے نزدیک اس  کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں اور میری ذات اس کے نزدیک اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۴۲۱

۱۹۹

جس کی محبت اس حد تک ہو یقینا اس کی محبت سچی ہے۔

اب ہم جس کوفی شخص کا ایک بہترین واقعہ بیان کررہے ہیں ،وہ بھی ان افراد میں سے ہیجس نے حقیت میں  پیغمبر اکرم(ص) ،امیر المؤمنین علیہ السلام  اورآپ کے فرزندوں کو اپنے خاندان پر  مقدم جانا۔

کوفہ میں ایک بہت دولت مند شخص رہتا تھا جو سادات اور ان کے فرزندوں کی بہت مدد کیا کرتا تھا۔اس کے حساب کی کاپی میں امیر المؤمنین  علیہ السلام کے نام سے کچھ حساب تھا ۔جب بھی اس سے کوئی شخص کوئی چیز خریدتا اور اگر اس کے پاس اداکرنے کے لئے پیسے نہ ہوتے تو وہ اپنے غلام سے کہتا کہ اسے حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام کے حساب میں لکھ دو۔

بہت مدت کے بعد وہ امیر شخص فقیر اور خانہ نشین ہو گیا ۔وہ اپنے گھر میں بیٹھا اپنے حساب کی کاپی دیکھ رہا تھا ۔اگر وہ اس میں اپنے کسی مقروض کا نام دیکھتا کہ جو زندہ بھی ہوتا تو وہ کسی کو اس کے پاس بھیج دیتا تا کہ وہ اس سے اپنا قرض واپس لے لے اور اگر وہ دنیا سے جا چکا ہو تا اور اس کا کوئی مال بھی باقی نہ ہونا تو کاپی سے اس کا نام مٹا دیتا۔

ایک دن وہ گھر  کے دروازے پر بیٹھا  اپنی وہی کاپی دیکھ رہا تھا اچانک وہاں سے ایک ناصبی گزرا اور اس نے اسے طعنہ دیا کہ تمہارے سب سے زیادہ مقروض علی بن ابیطالب نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟

اس بات پر اسے بہت دکھ ہوا اور غمگین حالت میںگھر میں داخل ہوا۔اسی رات اس نے پیغمبر اکرم(ص)  کو خواب میں دیکھاکہ آپ (ص) ایک جگہ تشریف فرما ہیںجب کہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کے سامنے چل رہے ہیں۔رسول اکرم(ص) نے دونوں اماموں سے پوچھا کے آپ کے بابا کہاں ہیں؟

امیر المؤمنین علیہ السلام پیغمبر اسلام (ص)کے پیچھے کھڑے تھے۔آپ نے جواب دیا:یا رسول اللہ !میں حاضر ہوں۔پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:آپ اس شخص کا قرض کیوں نہیں دے رہے؟ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:یارسول اللہ!یہ اس کا دنیا ویحق ہے جومیںساتھ لایا ہوں۔رسول اکرم(ص) نے فرمایا:اسے دے دو۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273