کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 120219
ڈاؤنلوڈ: 4946


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120219 / ڈاؤنلوڈ: 4946
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیونکہ جو دل امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام  اور خاندان نبوت علیھم السلام کی محبت سے سرشار ہو اس میں گناہ کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی بلکہ اگر اس میں محبت کا اضافہ ہو جائے تو وہ ہر اس گناہ کو نیست و نابود کر سکتے ہے جسے محب نے ماضی میںانجام دیا ہو اور وہ اسے مستقبل میں گناہ انجام دینے سے روکتی ہے ۔کیونکہ گناہوں کو انجام نہ دینا ان کے آثار و اثرات کو برطرف کرنے کی بنسبت زیادہ آسان ہے۔

اس کا سرّ و راز یہ ہے کہ جو مکمل طور پر اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کا محب اور پیروکار ہو ،وہ خدا کا محبوب اور مقرب ہے اور جب انسان خدا کا محبوب اور مقرب بن جائے تو وہ خدا کی پناہ میں آجاتاہے یعنی خدا اس کے اور گناہ کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتاہے  اور اسی طرح خداوند اس سے جس کام کی انجام دہی چاہتا ہے ،اسے وہ کام انجام دینے کی قدرت و طاقت عطا کرتاہے اور اسے وہ عمل انجام دینے میں کامیاب فرماتاہے۔''لاحول ولا قوّة الا باللّه'' کے یہی معنی ہیں ۔اسی لئے بعض خاندان نبوت علیھم  السلام سے محبت و دوستی کو سیر و سلوک کی مؤثر ترین راہ قرار دیتے ہیں۔

اسی لئے ایک مفصل روایت جس کو مرحوم علامہ مجلسی  نے بحار الانوار کی جلد 70 صفحہ 25 میںحضرت امام صادق علیہ السلام سے ذکر کیاہے ،کی بناء پر محب (اگر محبت کے عالی درجوں تک پہنچ جائے)نے اگرچہ علماء کی راہ،حکماء کی سیرت اور صدیقین کا طریقہ طے نہیں کیا ہوتا  اور اس کی روش ان کی روش سے مختلف ہو لیکن پھر بھی جو نتائج علمائ،حکماء اور صدیقین کو حاصل ہوتے ہیں وہ اسے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

ایسے آثار اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ جب محبت بہت شدیدہو نہ کہ وہ اہلبیت علیھم السلام کے عام محبوں جیسی  محبت  ہو۔یہ محبت ایسی اہمیت کی حامل ہے کہ اس روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ ایسی محبت نہ صرف سیر و سلوک کا بہترین طریقہ ہے بلکہ یہ وہ واحد راستہ ہے کہ جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے حلانکہ اس روایت کی رو سے حکماء ،علماء اور صدیقین کی روش ایسی نہیں ہے۔

۱۸۱

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ الْحُکْمٰاء وَرَثُوا الْحِکْمَةَ بِالصُّمْتِ،وَ اِنَّ الْعُلْمٰاءَ وَرَثُوا الْعِلْمَ بِالطَّلَبِ وَ اِنَّ الصِّدِّیْقینَ وَرَثُوا الصِّدْقَ بِالْخُشُوْعِ وَ طُوْلِ الْعِبٰادَةِ فَمَنْ أَخَذَهُ بِهٰذِهِ الْمَسِیْرَةِ اِمّٰا اَنْ یَسْفَلَ وَ اِمّٰا اَنْ یَرْفَعَ وَ أَکْثَرَهُمُ الَّذِْ یَسْفَلُ وَلاٰ یَرْفَعُ ،اِذٰا لَمْ یَرْعَ حَقَّ اللّٰهِ وَ لَمْ یَعْمَلْ بِمٰا أَمَرَ بِهِ ،فَهٰذِهِ صِفَةُ مَنْ لَمْ یَعْرِفِ اللّٰهُ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَ لَمْ یُحِبُّهُ حَقَّ مَحَبَّتِهِ،فَلاٰ یَغُرَّنَّکَ صَلاٰتُهُمْ وَ صِیٰامُهُمْ وَ رَوٰایٰاتُهُمْ وَ عُلُوْمُهُمْ ،فَاِنَّهُمْ حُمُر مُسْتَنْفِرَة'' (1)

حکماء نے حکمت خاموشی کے ذریعے ،علماء نے علم طلب کے ذریعے اور صدیقین نے صداقت خشوع  اور طولانی عبادات کے ذریعے حاصل کی ۔پس جو بھی اس راستہ کو طے کرے یا وہ تنزلی کی طرف جائے گا یا پھر  ترقی کرے گا  اور ان میں سے اکثر اگر خدا کے حق کی رعایت نہ کریں  اور جس کا   حکم دیاگیا ہے اس پر عمل نہ کریں تو وہ تنزلی کی طرف جائیں گے اور یہ ان کی خصلت ہے جنہوں نے حقیقت میں خدا کو نہیں پہچانا اور اس سے اس طرح محبت نہیں کی جس طرح محبت کرنے کا حق تھا ۔پس ان کی نماز، روزے اور روایات و علوم تمہیں دھوکا نہ دے دیں ،وہ حماران وحشی ہیں!

جیسا کہ اس روایت میں بھی تصریح ہوئی ہے کہ علماء و حکماء اور صدیقین کو مورد انتقاد قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے حقیقت میں خدا کو نہیں پہچانا اور انہوں نے حقیقت میں خدا کی محبت کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔

اگر محب مقام محبت میں عالی مراحل تک پہنچ جائے  اور اپنے دل (جو حرم اللہ ہے)کو خدا اور اہلبیت علیھم السلام کی محبت سے بھر لے  تو جب تک اس کے دل میں ان کی محبت کی شدت باقی رہے گی تب تک تنزلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

  محبین (محبت کرنے والے)کی تنزلی صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ خود محبت کو ہاتھ سے دے بیٹھیں ورنہ جب تک محب کے دل میں محبت موجود ہو  وہ ترقی و تکامل کی راہ پر گامزن ہو گا نہ کہ ترقی و سقوط کی جانب۔

--------------

[1]۔ بحار الانوارج۷۰ص۲۵

۱۸۲

اس نکتے کا راز یہ ہے ،جیسا کہ ہم نے کہا: محبت اور شدید شوق مقناطیس کی طرح ہے اور جب تک محبت موجود ہو وہ محب کو محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور جب وہ محبوب کی طرف مائل ہو جائے تو اس میں سنخیت پیدا ہو جاتی ہے اور  محب میںمحبوب کی صفات و آثار پیدا ہو جاتی ہیں۔اسی لئے اس روایت میں خدا اور اولیائے خدا کی محبت کوسیر و سلوک  میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے سب سے بہترین اور محفوظ راستہ  بتایاہے۔

بعض دوسری روایات میں بھی محبین دوسرے تمام افراد پر مقدم ہیں۔جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے اخبار میں آیا ہے کہ خدا نے فرمایاہے:

''مٰا أَحَبَّنِْ أَحَد أَعْلَمُ ذٰلِکَ یَقِیْنًا مِنْ قَلْبِهِ اِلاّٰ قَبِلْتُهُ لِنَفْسِْ وَ أَحْبَبْتُهُ حَبًّا لا یَتَقَدَّمُهُ أَحَد مِنْ خَلْقِْ ،مَنْ طَلَبَنِْ بِالْحَقِّ وَجَدَنِْ وَمَنْ طَلَبَ غَیْرِیْ لَمْ یَجِدْنِیْ...'' (1)

مجھے کوئی دوست نہیں رکھتا کے جس کے بارے میں میں یہ جانو کہ واقعاً یہ محبت اس ے دل  سے پھوٹ رہی ہے مگر یہ کہ اسے میں اپنے لئے قبول کر لوں اور اسے دوست رکھوں گا۔اس طرح سے کہ میری مخلوق میں سے کوئی بھی اس پر مقدم نہیںہو گا۔جو مجھے حقیقت میں طلب کرے وہ مجھے پا لیتا ہے اور جو میریغیر کو طلب کرے  میں اسے نہیں ملتا۔

اس حدیث قدسی سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جنہیں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف (جو خدا کے نمائندہ ہیں)اپنی خدمت کے لئے قبول فرما لیں اور انہیں لوگوں میں سے اپنی مصاحبت کی نعمت سے مشرّف فرمائیں اور دوسروں پر مقدم کریں ،وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو راہ محبت میں سب لوگوں پر مقدم ہوں اور محبت کے عالی ترین درجوں پر فائز ہوں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوارج۷۰ص۲6

۱۸۳

  آسمانی موجودات اور خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

بزرگ لوگوں کی عظمت ہی نہیں  بلکہ کائنات   میں تما شرفاء کی شرافت و عزت اہلبیت علیھم السلام کی محبت کی وجہ سے ہے حتی خدا کی بارگاہ کے مقرّب ملائکہ نے اپنی شرافت اور عزت محبت اہلبیت علیھم السلام کی وجہ سے حاصل کی ۔

حضرت رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''هَلْ شَرَفَتِ الْمَلاٰئِکَةُ اِلاّٰ بِحُبِّهٰا لِمُحَمَّدٍوَ عَلٍِّ وَ قَبُوْلِهٰا لِوِلاٰیَتِهِمٰا؟'' (1)

کیا ملائکہ کی شرافت ان کی محمد و علی علیھما السلام سے محبت اور ان دونوں کی ولایت کو قبول کرنے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ہے؟

یہ فرمان اس بات پر واضح دلالت کرتاہے کہ ملائکہ کی شرافت اور عزت اس محبت کی وجہ سے ہے جو ان کو پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علیہ السلام سے ہے۔

آئینہ مھر روشن از یاد علی است

او راد ملک بر آسمان ناد علی است

اگرچہ یہ روایت ملائکہ کے بارے میں ہے لیکن دوسری روایتیں اس حقیقت کی شاہد ہیں کہ تمام اہل آسمان( چاہئے وہ ملائکہ ہوں یا کوئی اور ) خاندان وحی علیھم السلام کے محب ہیں اور انہی کی محبت کی وجہ سے وہ خدا کے اور زیادہ مقرّب ہو جاتے ہیں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۲۱ ص۲۲۷، تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام:152

۱۸۴

کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا محبت ، محبوب کی صفات محب میں جلوہ گر کر دیتی ہیں اور اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی ایک صفت ان کی خداوند متعال سے قربت ہے۔اسی رو سے آسمانی موجودات و مخلوقات ان ہستیوں کی محبت کو ہی خدا کے تقرّب کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔

اہلبیت اطہار علیھم السلام سے روایت ہونے والی ایک زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:

''یَتَقَرَّبُ أَهْلُ السَّمٰاءِ بِحُبِّکُمْ وَ بِالْبَرٰائَةِ مِنْ أَعْدٰائِکُمْ'' (1)

اہل آسمان آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے (خداکا) تقرب حاصل کرتے ہیں۔

اوصاف علی است کہ انتھایش نبود                مدّاح علی  بہ جز خدایش  نبود

تاحشر''ادیب'' اگر ز وصفش خوانی      یک حرف ز دفتر ثنایش نبود

  تقرّب خدا کے کیا آثار ہیں؟

اب ہم  تقرّب الٰہی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بعض حیرت انگیز اور اہم آثار بیان کرتے ہیں:

خدا اور اہلبیت علیھم السلام کے تقرب کی نشانیوں میں سے ایک باطنی آنکھوں اور کانوں کا فعال ہو جانا اور روحانی و معنوی توانائیوں کا حصول ہے ۔کیونکہ جب انسان خدا سے  معنوی تقرب کی وجہ سے ترقی و پیشرفت کرتا ہے توخدا کی محبت کے زیر سایہ آ جاتا ہے اور خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور جب انسان خدا کا محبوب بن جائے تو اسے معنوی قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج102ص164، مصباح الزائر:239

۱۸۵

حضرت امام صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم(ص) سے روایت فرماتے ہیں کہ خدا نے فرمایا ہے:

''مَنْ أَهٰانِ لِی وَلِیّاً فَقَدْ أَرْصَدَ لِمُحٰارَبَتِْ،وَمٰا تَقَرَّبَ اِلََّ عَبْد بِشَْئٍ أَحَبَّ اِلََّ مِمّٰا افْتَرَضَتْ عَلَیْهِ ،وَاِنَّهُ لَیَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنّٰافِلَةِ حَتّٰی اُحِبَّهُ فَاِذٰا أَحْبَبْتُهُ ،کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِیْ یَسْمَعْ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِیْ یَبْصُرُ بِهِ وَ لِسٰانَهُ الَّذِیْ یَنْطِقُ بِهِ وَ یَدَهُ الَّتِ یَبْطُشُ بِهٰا،اِنْ دَعٰانِْ أَجَبْتُهُ وَ اِنْ سَأَلْتَنِْ أَعْطَیْتُهُ'' (1)

کوئی بھی بندہ مجھ سے اس چیز کے ذریعے مقرب نہیں ہو سکتا جو میرے نزدیک ان واجبات سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس پر واجب کی ہیں اور وہ نوافل کے ذریعے میرا مقرب ہوتاہے تا کہ وہ میرا محبوب بن جائے اور جب میں اسے دوست رکھتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتاہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں  جس سے وہ دیکھتا ہے  ، اس کی زبان  جاتا ہوں  جس سے وہ بولتاہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں  جس سے وہ اعمال قدرت کرتا ہے۔اگر وہ مجھے پکارے تو میں اس کا جواب دوں گا اور اگر مجھ سے کسی چیز کی درخواست کرے تو اسے وہ عطاکروں گا۔

        اس حدیث میں  ذکر ہونے والے تمام امور خدا کے تقرّب کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔اس بناء پر آسمانی آوازوں کو سننا ، ملکوتی چہروں کو  دیکھنا، اسرا رو رموز الٰہی کو جاننا،مشکل امور کودست قدرت حق سے انجام دینا، دعاؤں کا مستجاب ہونا، یہ سب ایسی عنایات ہیں جو بارگاہ خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کے مقرّب افراد  اور ان  لوگوں کے شامل حال ہوتی ہیں جن سے خدا واہلبیت علیھم السلام محبت کرتے ہوں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج75ص155، اصول کافی:3522

۱۸۶

  اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

ہم اپنے دلوں میں محبت اہلبیت علیھم السلام رکھتے ہیں اور یہی محبت ان ہستیوں کے قلوب میں بھی ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ خاندان نبوت علیھم السلام کے محب ہیں وہ ان بزرگوار ہستیوں کے محبوب بھی ہیں۔

حبیش بن معتمر کہتے ہیں: میں امیر المؤمنین حضرت علیعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا:

''اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکٰاتُةُ،کَیْفَ أَمْسَیْتَ؟

قٰالَ:أَمْسَیْتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّیْنٰا وَ مُبْغِضاً لِمُبْغِضِیْنٰا....''(1)

اے امیر المؤمنین علیہ  السلام آپ پر سلام ہو اورآپ پر خدا کی رحمت و برکات ہوں،آپ نے کیسے صبح کی؟

آپ نے فرمایا:میں نے اس حال میں رات گزاری کہ میں اپنے محبوں کا محب  اور اپنے دشمنوں کا دشمن تھا۔

جب اہلبیت علیھم السلام کے دل میں کسی انسان کے لئے محبت پیدا ہو جائے تو وہ خدا کا بھی محبوب   بن جاتا ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجاتی ہے  اور جب خدا سے اس کی محبت اس قدر شدید ہو جائے کہ اس کے دل میں مخلوق کے لئے کوئی جگہ نہ رہ جائے تو اس کی باطنی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اولیاء خدا سے آشنا ہو جاتا ہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:شب معراج میںخدا نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا:

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج27ص5، مجالس شیخ مفید:197

۱۸۷

''مَنْ عَمِلَ بِرِضٰاَ اُلْزِمُهُ ثَلاٰثَ خِصٰالٍ :اُعَرِّفَهُ شُکْراً لاٰ یُخٰالِطُهُ الْجَهْلَ،وَ ذِکْراً لاٰ یُخٰالِطُهُ النِّسْیٰانُ،وَمَحَبَّةً لاٰ یُؤْثِرُ عَلٰی مَحَبَّتِْ مَحَبَّةَ الْمَخْلُوْقِیْنَ،فَاِذٰا أَحَبَّنِْ أَحْبَبْتُهُ ،وَ أَفْتَحُ عَیْنَ قَلْبِهِ اِلٰی جَلاٰلِیْ وَلاٰ اُخْف عَلَیْهِ خٰاصَّةَ خَلْقِْ....'' (1)

جو کوئی میری رضا کے لئے عمل کرے تو میں اس میں  تین خصلتیں  پیدا کر دیتاہوں:

1۔اسے شکر کی حالت رکھنے سے آشنا کرتا ہوں تا کہ جہالت جس کے ساتھ نہ ہو۔

2۔اور ایسا ذکر کہ جس کے ساتھ نسیان نہ  ہو۔

3۔اپنی ایسی محبت کہ جس پر مخلوقین کی محبت اثر اندازنہ ہو۔

پس جب بھی مجھ سے محبت کرے میں بھی اس سے محبت کروں گا اور اس کے دل کی آنکھیں اپنے جلال کی طرف کھول دوں گا اور اپنی مخلوق کے خواص اس پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔

اس بناء پر خدا کی محبت کی شانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اولیائے خداا ور خلق خدا سے آشنا ہو جاتا ہے اور نہیں دیکھ سکتا ہے۔

بعض لوگ خواب یا بیداری میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت کا شوق رکھتے ہیں  یہ ان کی شدید محبت کی وجہ سے ہے کیونکہ محبت انسان میں محبوب سے ملاقات کے اشتیاق کوبڑھا دیتی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۲۸

۱۸۸

حضرت ابراہیم علیہ السلام مرنا نہیں چاہتے تھے خدا نے حضرت عزرائیل سے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہو:

''هَلْ رَأَیْتَ حَبِیْباً یُکْرِهُ  لِقٰاءَ حَبِیْبِهِ؟اِنَّ الْحَبِیْبَ یُحِبُّ لِقٰاءَ حَبِیْبِهِ'' (1)

کیا تم  نے کسی محب کو دیکھا ہے جسے اپنے محوب کوو دیکھنے سے کراہت ہو؟بیشک محب اپنے محبوب سے ملاقات کو پسند کرتاہے۔

ان میں سے بعض ایسے تھے جو اہلبیت عصمت علیھم السلام کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے لیکن ان کے شہر سے دور تھے لیکن ان کے دل اہلبیت علیھم السلام کی یاد اور ان کے دیدار کے عشق سے لبریز تھے جیسا کہ حضرت اویس قرنی  کے دل و جان میں  پیغمبر اکرم (ص) کے دیدار کا شوق تھا اور وہ اپنے خیال میں آنحضرت (ص) کے تابناک انوار کو تصور کرتے تھے۔

اب جب کہ خاندان عصمت و طہارت کی آخری کڑیحضرت یقیة الله الاعظم عجل الله فرجه الشریف باقی ہیں اور پردۂ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں  آپ کے محب اور جانثار وں کی آرزو صرف آپ  کا دیدار ہے ۔یہ آرزو  اور امید آنحضرت  سے اس محبت کی بناء پر ہی ہے جو ان کے دلوں میں آنحضرت کے لئے موجزن ہے کیونکہ خداوند کریم کے فرمان کے مطابق''اِنَّ الْحَبِیْبَ یُحِبُّ لِقٰائَ حَبِیْبهِ'' ہر محب اپنے محبوب کا دیدار کرنا چاہتاہے۔

گرچہ یوسف بہ کلافی نفرشند بہ ما

پس ھمین فخر کہ ما ھم ز خریدارانیم

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج6ص۱۲۷،امالی شیخ صدوق:118

۱۸۹

 خاندان نبوت علیھم السلام کے محبوں کی ذمہ داری

1۔ مودّت پیدا کرنا

اہلبیت علیھم السلام سے محبت و دوستی اتنی گہری ہونی چاہئے جو آپ کے وجودمیں گھر کر چکی ہواور آپ کے روم روم میں سرایت کر چکی ہے جو آپ کا ان بزرگوں سے نزدیک ہونے کا وسیلہ بنے۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْمَوَدَّةُ قَرٰابَة مُسْتَفٰادَة'' (1) موّدت، ایسی محبت ہے جس سے تقرّب حاصل ہوتاہے۔

یعنی محبت میں اس قدر اضافہ ہونا چاہئے جو آپ کو محبوب سے نزدیک کر دے ۔اگر محبت اس حد تک بڑھ جائے تو اسے ''مودت ''کہتے ہیں۔اس بناء پر مودت وہی محبت ہے جس میں افزائش اور اضافہ ہو چکا ہو اور جو روحانی قرب کا باعث ہو۔

اہلبیت اطہار علیھم السلام سے ایسی محبت ہر کسی کی ذمہ داری ہے۔ہمیں محمد و آل محمد علیھم السلام سے اس قدر محبت ہونی چاہئے جو اہلبیت علیھم السلام سے تقرب کا وسیلہ ہو۔خدا وند کریم کا قرآن مید میں ارشاد ہے:(قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً ِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی) (2) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو ۔اس آیت کے مطابق ہر انسانپر واجب ہے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے اس طرح سے محبت کرے جو ان ہستیوں سے معنوی و روحانی قرب کا باعث ہو۔یہ سب انسانوں کی ایک بنیادی اور عمومی ذمہ داری ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۴ص۱6۵

[2]۔ سورۂ شوریٰ،آیت :23

۱۹۰

2۔ اہلبیت علیھم السلام کے محبوں سے محبت

صرف اہلبیت اطہار علیھم لسلام سے محبت و دوستی ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان سے محبت کے بعد ان بزرگ ہستیوں سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرنی چاہئے۔

حضرت پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:

''أََحِبُّوْا مَوٰالِیْنٰا مَعَ حُبِّکُمْ لِآلِنٰا'' (1)

ہمارے محبوں سے بھی ویسی محبت کرو جیسی محبت ہمارے خاندان سے کرتے ہو۔

کیونکہ ان کے محبوں سے محبت ان سے محبت کا لازمہ ہے۔

3۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

 اگر انسان کے دل میں ان ہستیوں(کائنات کا وجود جن کے مرہون منت ہے) کی محبت گھرکر جائے تو پھر یہ ممکن نہیں ہے انسان ان کے دشمنوں کی دوستی کو قبول کر لے۔کیونکہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت ان کے دشمنوں سے سازگار نہیں ہے۔چونکہ ظاہری یا ذہنیشعور کے نزدیک دو مخالف چیزوں کی محبت جمع نہیں ہو سکتی۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷ص۵۷

۱۹۱

اس بنا ء پر ظاہری یا ذہنی شعور   میں  ممکن ہے کہ کوئی اہلبیت علیھم السلام سے بھی دوستی رکھتا ہو اور گمراہوں سے بھی لیکن قلبی اور باطنی لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یَجْتَمِعُ حُبُّنٰا وَحُبُّ عَدُوِّنٰا فِی جَوْفِ اِنْسٰانٍ،اَللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ:(مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهِ ) (1)،(2)

ہماری محبت اور ہمارے دشمن کی محبت انسان  کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی ۔  خداوند کریم نے فرمایا:''اور اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں''۔

اس روایت کی مانند ابی جارود نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:

''أَبِی الْجٰارُوْدِ عَنْ أَبِْ جَعْفَر علیه السلام فِْ قَوْلِهِ:(مٰا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهِ )فَیُحِبُّ بِهٰذٰا وَ یُبْغِضُ بِهٰذٰا ،فَأَمّٰا مُحِبُّنٰا فَیُخْلِصُ الْحُبَّ لَنٰا کَمَا یُخْلِصُ الذَّهَبَ بِالنّٰارِ لاٰکَدِرَ فِیْهِ

مَنْ أَرٰادَ أَنْ یَعْلَمَ حُبِّنٰا،فَلْیَمْتَحِنْ قَلْبَهُ فَاِنْ شٰارَکَهُ فِی حُبِّنٰا حُبُّ عَدُوِّنٰا،فَلَیْسَ مِنّٰا وَ لَسْنٰا مِنْهُ وَاللّٰهُ عَدُوُّهُمْ وَ جِبْرَئِیْلُ وَ مِیْکٰائِیْلُ وَاللّٰهُ عَدُوّ لِلْکٰافِرِیْنَ''(3)

ابی جارود حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے خدا کے اس فرمان کے بارے میں فرمایا'' اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں''

--------------

[1]۔ سورۂ احزاب،آیت:4

[2]۔ بحار الانوار:ج24ص318،کنز الفوائد:23

[3]۔ بحار الانوار:ج27ص51

۱۹۲

آپ نے فرمایا:انسان کے دو دل نہیں ہیں  کہ جو ایک سے محبت کرے اور دوسرے سے دشمنی۔ ہمارے محب ہمارے خاندان کی محبت کو ہمارے دشمنوں کی محبت سے پاک کرتے ہیں۔جس طرح آگ سونے کو خالص کر دیتی ہے کہ اس میں  کوئی ملاوٹ نہ ہو۔

جو کوئی بھی یہ جاننا چاہتا ہو کہ وہ ہمارے خاندان سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟وہ اپنے دل کو آزمائے ۔پس اگر کوئی ہماری دوستی کے ساتھ ہمارے دشمنوں سے محبت کرے تو وہ ہم سے نہیں  ہے اور   ہم اس سے نہیں ہیں ۔خداوند ،جبرئیل اور میکائیل ایسے افراد کے دشمن ہیں  اور خداوند کافروں کے لئے دشمن ہے۔

اس بناء پر محبت کی نشانی( کہ جس کا لازمہ اہلبیت علیھم السلام کی اطاعت و پیروی ہے) انسان کا ان ہستیوں میں جذب ہو جانا اور ان کے دشمنوں سے بیزاری ہے۔انسان ایسی محبت کے وسیلے سے اہلبیت علیھم السلام میں کھو جاتا ہے ۔پھر وہ اپنے محبوب اور محبوب کی پسندیدہ چیزوں کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچتا۔ایسے  حالات محب کے محبوب میں جذب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

جناب خدیجہ علیھا السلام پیغمبر اکرم (ص)کے سفر پر جاتے وقت فرماتیں:

قَلْبُ الْمُحِبِّ اِلَی الْأَحْبٰابِ مَجْذُوْب        وَ جِسْمُهُ بِیَدِ الْأَسْقٰامِ مَنْهُوْب (1)

محب کا دل احباب میں مجذوب ہو جاتا ہے حلانکہ اس کا جسم بیماریوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے۔

--------------

 [1]۔ بحار الانوار:ج16ص29

۱۹۳

جب آپ محبت میں پیشرفت اور اولیائے خدا کی دوستی کے نتیجہ میں ان ہستیوں میں گم ہو جاتے ہیں اور ان کے غیروں سے بیزار ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''....اِنَّ أَصْلَ الْحُبِّ ،اَلتَّبَرّ عَنْ سِوَی الْمَحْبُوْبِ'' (1)

اصل محبت محبوب کے علاوہ دوسروں سے دوری اختیار کرنا ہے۔

جب آپ اپنے محبوب کے علاوہ دوسروں سے دوری اختیار کریںتو آپ اپنے محبوب کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

''دَلِیْلُ الْحُبِّ اِیْثٰارُ الْمَحْبُوْبِ عَلٰی مٰا سَوٰاهُ'' (2)

محبت کی دلیل محبوب کو دوسروں  پرترجیح دینا ہے۔

ایسی محبت آپ کو معنویت و نورانیت کی اوج پر پہنچا دیتی ہے۔جس کی وجہ سے آپ پر اہلبیت عصمت و طہارت  علیھم السلام کی عنایات ہوتی ہیں۔جو آپ کو معنوی و ملکوتی مخلوق بنا دیتی ہیں اورآپ کے دل میں  اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے نفرت اور برائت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

--------------

 [1]. بحار الانوار:ج29ص251،مصباح الشریعہ:65

[2]۔ بحار الانوار:ج70ص22،مصباح الشریعہ:2

۱۹۴

4۔ خاندان وحی کی پیروی

خاندان نبوت علیھم السلام کا اپنے محبوں سے یہی تقاضا  ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ خودسازی اور خدا پسندانہ اعمال انجام دیں ۔ اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں جو اپنے دل میں اس خاندان کی محبت و دوستی رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے کردار کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل قرار دیں اور اپنے تقویٰ و پرہیز گاری میں اضافہ کریں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ أَحَبَّنٰا فَلْیَعْمَلْ وَلْیَتَجَلْبَبِ لْوَرَع'' (1)

جو ہم سے محبت کرتا ہو اسے چاہئے کہ وہ کردار و رفتار پرعمل کرے اور تقویٰ کا لباس زیب تن کرے۔

جب خاندان وحی علیھم السلام کی محبت انسان کے ظاہر سے باطن میں سرایت کر جائے تو یہ تقویٰ و عمل صالح کا منشاء بن جاتا ہے۔

اہلبیت علیھم السلام کی محبت ہمیشہ انسان کے صالح اعمال کے ساتھ ہوتی ہے۔جن کی محبت زیادہ ہو وہ عام طور پر نیک اور صالح اعمال انجام دینے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔اسی لئے حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

--------------

[1]۔ شرح غرر لحکم: ج۵ ص۳۰۳

۱۹۵

''لاٰتَدْعُوا الْعَمَلَ الصّالِحَ وَ الْعِبٰادَةَ اِتِّکٰالاً عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدً علیهم السلام وَالتَّسْلِیْمِ لِأَمْرِهِمْ اِِتّکٰالاً عَلَی الْعِبٰادَةِ فَاِنَّهُ لاٰ یُقْبَلُ أَحْدُهُمٰا دُوْنَ الْآخِرِ'' (1)

 محمد و آل محمد علیھم السلام کی محبت و دوستی پر تکیہ کرتے ہوئے عمل صالح اور عبادت میں کوشش کوترک نہ کرو اور اپنی عبادت پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی محبت اور ان کے حکم کے سامنے تسلیم ہونے کو خیرباد نہ کہو ان میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں ہو گا۔

یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان اہلبیت علیھم السلام سے شدید محبت بھی کرتا ہو لیکن اس کے باوجود ایسے کاموں میں مشغول ہوجنہیں وہ پسند نہیں کرتے یا ایسے اعمال کو چھوڑ دے جنہیں وہ پسند کرتے ہیں ۔

حقیقی محب اور واقعی دوست وہ ہوتاہے جو محبوب کا مطیع اور پیروکار ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:لَوْ کٰانَ حُبُّکَ صٰادِقاً لَأَطَعْتَهُ      اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطِیْع (2)

اگر تمہاری محبت سچی ہو تو تم اس کی اطاعت کرو گے کیونکہ محب اسی کا مطیع ہوتاہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

ایسی محبت جو اہلبیت اطہار علیھم السلام کی اطاعت اور پیروی کے ساتھ ہو ،وہ ان ہستیوں کی خوشنودی کا باعث بنتی ہے۔اسی وجہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''فَأَصْبَحْنٰا نَفْرَحُ بِحُبِّ الْمُحِبِّ لَنٰا'' (3) ہم نے اس حال میں صبح کی کہ ہم اپنے محبوں اور دوستوں کی ہم سے کی جانے والی محبت کی وجہ سے خوشحال ہیں۔

--------------

[1]۔ سفینة البحار:2041، مادۂ حبب

[2]۔ بحار الانوار:ج47ص24

[3]۔ بحار الانوار:ج27ص83

۱۹۶

جی ہاں جو بلندمقامات تک پہنچنے کے لئے کوشاںہوں اور جن کے نیک اور عظیم اہداف ہوں ، انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ کوئی بھی گنج و رنج برداشت کئے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔لہذا جو کوئی بلند مقام کے حصول کے بارے میں سوچ رہا ہو تو اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے ہر ضروری عمل  انجام دینا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ أَحَبَّ الْمَکٰارِمَ،اِجْتَنَبَ الْمَحٰارِمَ'' (1) جو کوئی مکرم بننا چاہتا ہو اسے حرام کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کی روایت میں آیاہے کہ خداوندکریم نے فرمایا:

''مٰا لِأَوْلِیٰاءِْ وَالْهَمُّ بِالدُّنْیٰا،اِنَّ الْهَمَّ یُذْهِبُ حَلاٰوَةَ مُنٰاجٰاتِْ مِنْ قُلُوْبِهِمْ،یٰا دٰاوُدُ اِنَّ مَحَبَّتِ مِنْ أَوْلِیٰاء أَنْ یَکُوْنُوا رُوْحٰانِیِّیْنَ لاٰ یَغْتَمُّوْنَ'' (2)

میرے محبوں کو دنیاکے ہم و غم سے کیا سروکار؟کیونکہ دنیا سے دل لگی ان کے دل سے مناجات کی شیرینی چھین لیتی ہے۔میں  اپنے محبوں سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ روحانی ہوں اور انہیں دنیا کا ہم و غم نہ ہو۔

اس بناء پر خدا و اہلبیت علیھم السلام کے محبوں کو دنیاوی مسائل میں ہی سرگرم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ  دنیا پرستی اور مادّی دنیا میں دلچسپی انسان کو بارگاہ خدا سے دور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔یہ اس سے تقرب سلب کر لیتی ہے اور اس سے خدا و اہلبیت علیھم السلام کی محبت کم کر دیتی ہے۔لیکن معنوی مسائل  اور عالم معنی کے حقائق کی جستجو انسان کو خدا اور آئمہ علیھم السلام کا محبوب حقیقی بنا دیتی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج77ص421،ارشاد المفید:140

[2]۔ بحار الانوار:ج82ص143

۱۹۷

5۔ دوسرں کے دل میں اہلبیت علیھم السلام کی محبت کو تقویت دیں

محبان اہلبیت علیھم السلام کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے رفتار و کردار سے ان ہستیوں کی محبت دوسروں کے دل میں اجاگر کرتے ہیں۔ معاشرے میں اس طرح سے زندگی گزاریںجس سے لوگ  اہلبیت علیھم السلام کی طرف مائل ہوں نہ کہ خدانخواستہ وہ لوگوں کے دلوں میں بغض پیدا کرنے کا باعث بنیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رَحِمَ اللّٰهُ امْرَء اً حَبَّبْنٰا اِلَی النّٰاسِ وَ لَمْ یُبْغِضْنٰا ِالَیْهِمْ'' (1)

خدا س شخص پر رحمت کرے کہ جو لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کرے اور ان میں ہمارے لئے دشمنی ایجاد نہ کرے۔

ہم نے محبت کے آثار و اثرات کے بارے میں جو بحث کی ہے اس سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ لوگوں کے دلوں میں  اہلبیت اطہار علیھم السلام کے بارے میں شدید محبت پیدا کرنے سے ان کے لئے تقویٰ و ایمان ایجاد کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا وسیلہ فراہم کیا جاتاہے۔

اس بناء پر محمد و آل محمد علیھم السلام کے محبوں کو چاہئے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو وہ لوگوں کے دلوں میں ان مظلوم ہستیوں کی محبت پیدا کریں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج75ص421

۱۹۸

 سچی محبت

محبت اور دوستی کی کچھ علامتیں اور نشانیاں ہوتی ہیں جن سے دوستوں کوپہچانا جا سکتا ہے اور سچی محبت کرنے والوں میں اور دوسروں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔چونکہ محبت اکسیر ہے اس لئے یہ محب میں  کچھ آثار پیدا کرتی ہے اور جومحبوب کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔فہم و فراست رکھنے والے افراد یہ درک کر لیتے ہیں کہ کن افرد کی محبت اور دوستی کو دل میںجگہ دینی چاہئے؟کیونکہ وہ اپنے رفتار و کردار اور حرکات و سکنات سے اپنے محبوب کو پہچان لیتے ہیں۔

محبت اور دوستی جتنی زیادہ ہو ،محب میںمحبوب کی نشایناں اتنی ہی زیادہ جھلکتی ہیں۔کبھی محبت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ محب محبوب کو کائنات کی سب چیزوں پر فوقیت دیتا ہے ۔ایسی محبت محبوب کے لئے محب کے ایمان و اعتقاد کی نشانیوںمیں سے ہے۔

اگر خاندان نبوت علیھم السلام سے آپ کی محبت اس حد تک ہو تو یہ خدا پر آپ کے کامل ایمان کی نشانی ہے۔یہ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیثوں میں  سے ہے:

''لاٰ یُؤْمِنُ عَبْد حَتّٰی اَکُوْنَ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ نَفْسِهِ،وَیَکُوْنَ عِتْرَتِْ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ،وَیَکُوْنَ أَهْلِْ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ أَهْلِهِ،وَ یَکُوْنَ ذٰاتِ أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنْ ذٰاتِهِ'' (1)

بندہ اس وقت تک ایمان نہیں جب تک میں اس کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اور میری عترت اس کے نزدیک اس کی عترت سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے اور میرے اہل اس کے نزدیک اس  کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں اور میری ذات اس کے نزدیک اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۴۲۱

۱۹۹

جس کی محبت اس حد تک ہو یقینا اس کی محبت سچی ہے۔

اب ہم جس کوفی شخص کا ایک بہترین واقعہ بیان کررہے ہیں ،وہ بھی ان افراد میں سے ہیجس نے حقیت میں  پیغمبر اکرم(ص) ،امیر المؤمنین علیہ السلام  اورآپ کے فرزندوں کو اپنے خاندان پر  مقدم جانا۔

کوفہ میں ایک بہت دولت مند شخص رہتا تھا جو سادات اور ان کے فرزندوں کی بہت مدد کیا کرتا تھا۔اس کے حساب کی کاپی میں امیر المؤمنین  علیہ السلام کے نام سے کچھ حساب تھا ۔جب بھی اس سے کوئی شخص کوئی چیز خریدتا اور اگر اس کے پاس اداکرنے کے لئے پیسے نہ ہوتے تو وہ اپنے غلام سے کہتا کہ اسے حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام کے حساب میں لکھ دو۔

بہت مدت کے بعد وہ امیر شخص فقیر اور خانہ نشین ہو گیا ۔وہ اپنے گھر میں بیٹھا اپنے حساب کی کاپی دیکھ رہا تھا ۔اگر وہ اس میں اپنے کسی مقروض کا نام دیکھتا کہ جو زندہ بھی ہوتا تو وہ کسی کو اس کے پاس بھیج دیتا تا کہ وہ اس سے اپنا قرض واپس لے لے اور اگر وہ دنیا سے جا چکا ہو تا اور اس کا کوئی مال بھی باقی نہ ہونا تو کاپی سے اس کا نام مٹا دیتا۔

ایک دن وہ گھر  کے دروازے پر بیٹھا  اپنی وہی کاپی دیکھ رہا تھا اچانک وہاں سے ایک ناصبی گزرا اور اس نے اسے طعنہ دیا کہ تمہارے سب سے زیادہ مقروض علی بن ابیطالب نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟

اس بات پر اسے بہت دکھ ہوا اور غمگین حالت میںگھر میں داخل ہوا۔اسی رات اس نے پیغمبر اکرم(ص)  کو خواب میں دیکھاکہ آپ (ص) ایک جگہ تشریف فرما ہیںجب کہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کے سامنے چل رہے ہیں۔رسول اکرم(ص) نے دونوں اماموں سے پوچھا کے آپ کے بابا کہاں ہیں؟

امیر المؤمنین علیہ السلام پیغمبر اسلام (ص)کے پیچھے کھڑے تھے۔آپ نے جواب دیا:یا رسول اللہ !میں حاضر ہوں۔پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:آپ اس شخص کا قرض کیوں نہیں دے رہے؟ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:یارسول اللہ!یہ اس کا دنیا ویحق ہے جومیںساتھ لایا ہوں۔رسول اکرم(ص) نے فرمایا:اسے دے دو۔

۲۰۰