کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 120180
ڈاؤنلوڈ: 4946


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120180 / ڈاؤنلوڈ: 4946
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جس طرح کہ گذشتہ زمانوں میں  دولت مند  افراد اپنے مال و دولت کو حفاظت کی خاطر زمین میں دفن کر دیتے تھے مگر بعد میں نہ ہی تو وہ خود اور نہ ہی ان کی اولاد  اس مال سے کسی قسم کا استفادہ کر سکیں ۔

یہ بات واضح ہو جائے کہ بعض افراد بہت زیادہ ،روحانی طاقت کے حامل تھے نیزان کی  درک کرنے کی قوت بھی فوق العادہ تھی انہوں نے کیسے یہ طاقت وقوت حاصل کی اس کا اندازہ بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم حر ّ عاملی  کی اس گفتگو سے ہو تا ہے ۔آپ  فر ماتے ہیں :

 یہ بات واضح اور روشن ہے کہ دیکھنا اور سننا اور دیگر چیزیں جن کا سیدھا تعلق آنکھ،کان اور مربوط اعضاء سے ہے ۔آنکھ اور کان یہ دونوں چیزیں روح کے لئے وسیلہ ہیں ۔روح ان کے ذریعہ دیکھتی اور سنتی ہے ۔چونکہ روح کی طاقت قوی نہیں ہے اس لئے سماعت و بصارت اس جیسی خاص مادی چیزوں تک محدود ہے ۔

اسی وجہ سے فقط مادیات کو ہی دیکھ پاتی ہے اور روحانی مسائل کے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتی اگر انسان اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن انجام دے کر اپنی روحانی طاقت کو قوی کرلے تو مادیات اور طبیعیات سے مزید استفادہ کرنے کی استطاعت پیدا ہو جا ئے گی ۔پھر وہ اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کا مشاہدہ کرسکے گا جو دوسروں کو نہیں دکھائی دیتیں ۔ایسی صدائیں بآسانی سن سکے گا جسے دوسرے نہیں سن سکتے ۔

یہ قدرت اور غلبہ مختلف افراد میں مختلف طرح سے پا یا جاتا ہے ،اسی طرح کہ جس طرح ان کا تقرب بھی خدا کے نزدیک یکساں اور برابر نہیں ہے جو بھی عبادت ،جد وجہد اور کو شش کے ذریعہ سے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اس کے روحانی اور معنوی حالات قوی تر اورمضبوط و مستحکم ہو تے جا تے ہیں ۔اور ایسے امور میں جن میں دوسرے لوگ آنکھ اور کان سے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتے ان میں وہ قوی تر اور نہایت ہی مضبوط ہو تا ہے ۔ (1)

--------------

[1] ۔ الفوائد الطوسیہ، تالیف مرحوم شیخ حر ّ عاملی: 82

۲۲۱

 اس بحث سے روشن ہواکہ مرحوم شیخ انصاری  جیسے افراد کیسے یہ عظیم نعمت حاصل کر لیتے ہیں ۔ لیکن دوسرے افراد یہ قدرت اور توانائی نہیں رکھتے اور ان کی نظریں اس طرح کے امور دیکھنے سے عاجز ہیں ۔

صحیح معنوں میں حالت انتظار کو حاصل کرنا ہمارے لئے ایک تحفہ ہے ۔

دیدۂ باطن چو بینا می شود

آنچہ پنہان است ، پیدا می شود

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وہ منتظرین جنھوں نے انتظار کی راہ میں چل کر اپنے آپ کو سنوارا ہے ،وہ لوگ ہو ائے نفس سے فرارا، روح  کی پرواز اور ترقی کے ساتھ نفس کے تسلط اور کنٹرول سے رہائی حاصل کرتے ہیں تو نفس کی جذابیت اور کشش میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں اپنی طرف کھینچ  لے کہ جس طرح فضا ئی راکٹ و غیرہ جب زمین کے مدار سے خارج ہو جاتا ہے تو پھر اس کو زمین کا کشش اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی ؛اگر ہم بھی تغیّر زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ہوا ئے نفسانی کے مدار سے خارج کر لیں تو نفس کی کشش و جذابیت اور شیطانی وسوسے ہمیں متأ ثر نہیں کر سکتے ۔

حضرت سلمان اور اہل بیت علیھم السلام کے دوسرے اصحاب اس طرح تھے اور وہ نفس کے دائرے سے خارج اور مادیات کی قید سے رہا ئی حاصل کر چکے تھے ۔اسی وجہ سے وہ افراد غیب کے عالم سے رابطہ بر قرار کئے ہو ئے تھے ۔جو ولایت اور قدرت و طاقت حضرت سلمان کے پاس تھی چونکہ انہوں نے نفس کے دائرے سے نکل کر اپنی ہوا ئے نفس کو تباہ و برباد کر رکھا تھا ۔اپنی خواہشات اور ارادوں پر حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ارادوں کو مسلط کر رکھا تھا اسی وجہ سے اپنی غیبی اور پوشیدہ قدرتوں اور طاقتوں سے بہرہ مند ہو کر ان سے عمل میں استفادہ کر تے تھے ۔

۲۲۲

3۔ مقام ولایت کی معرفت

           ظہور کا انتظار ،ولایت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی قدرت اور طاقت کو منتظر شخص کے دل و جان میں استحکام پیدا کرتا ہے اور اس کو اس عقیدے پر ثابت اور استوار کرتا ہے کہ ایک دن قیناًخا نہ ٔ خدا کے پاس سے قدرت خدا امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے ہا تھوں روشن و آشکار ہو گی اور دنیا کے تمام تر جونک صفت سر کش باغیوں کو (جو ضعیفوں کا خون چوسنے میں لگے ہو ئے ہیں )ن کے ان برے اعمال کی سزا دے کر ولایت کی عظیم قدرت اور استحکام کو تمام دنیا والوں کے لئے روشن اور ثابت کریں گے کہ کوئی ایسا امامت اور ولایت کے مرتبہ کا اہل ہے جو قدرت خدا کو ظاہر اور آشکار کرسکتا ہے ۔

یہ ایک منتظر کا عقیدہ اور فکر ہے لہٰذا ظہور کا انتظار دین کے اصلی اور حقیقی عقائد اور معارف پر  اعتقاد کے ساتھ ہے ،کیونکہ انتظار، معرفت اور اعتقادات کابیج منتظرین کے ذہنوں میں بوتا ہے اور ان میں یقین اور اطمینان پیدا کر تا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پوری دنیا ولایت کی حکومت ،طاقت ،اور قوت کے کنٹرول میں آجائے گی اور ولایت کی عظیم الشان اور نا شناختہ حکومت دنیا کی تمام تر ظالم و جابر طاقتوں اور حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی اور دنیا کی یہ مادی تہذیب و تمدن ولایت الٰہی کی اس بے پناہ طاقت اور حکو مت کے سا منے تاب نہ لا تے ہو ئے مصلح جہان کے دائرے میں آجا ئے گی ۔

۲۲۳

4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

 مذہب تشیع کی پوری تاریخ میں متعدد افراد نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو رہنما (رہبر ) اور عوام کی اصلاح کرنے والے کے نام سے متعارف کروایا ہے ،اور اس حربے سے انسانوں کے جان ،مال اور خون کو پائمال کیا ہے اور بعض کو گمراہی کی طرف بھی کھینچ کر لے گئے ہیں ؛ لیکن وہ افراد کہ جنہوں نے صحیح طور پر اور سچے دل سے انتظار کی راہ میں قدم رکھا ہے ،اپنے وجود کو ولایت کے چمکتے ہو ئے انوار سے روشن کیا ہے وہ کبھی ان دھو کے بازوں کے دام فریب میں نہیں آتے بلکہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں ۔

برو این دام بر مرغ دگر نہ

کہ عنقا را بلند است آشیانہ

 رہزنوں اور حیلہ سازوں کی شناخت ہمیں امامت کے بلند و بالا درجہ سے آشنا ئی کی وجہ سے ہے اسی وجہ سے آب حیات کو سراب کے بدلے میں نہیں بیچتے ہیں اور خلافت کے غاصبوں کو نہیں مانتے ۔

۲۲۴

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ

منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ انتظاربا کمال منتظرین کے لئے تحفۂ خداوندی ہے یہ افراد فقط عقیدے اور اعتقاد کے لحاظ سے ہی ولایت اہل بیت علیھم السلام کے مقام و مرتبے او ر منزلت کی معرفت نہیں رکھتے بلکہ وہ خود بھی آفتاب ولایت کے چمکتے ہو ئے دریچے ہیں یعنی انتظار کی راہ میں تکامل کے اثر سے اپنی ظرفیت کی حد تک خاندان وحی علیھم السلام کے مرتبے سے معنوی اور روحی طاقتیں اور قدرتیں کسب کرتے ہیں اور ان کوجو ذمہ داریاں دی جا تی ہیں وہ انہیں  بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں ایسے افراد امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی پوری طرح مدد کرنے والے ہیںاور آنحضرت  کے مقام ولایت کی طرف سب سے آگے ہیں ۔

اب آپ اس نکتہ کی طرف توجہ فر ما ئیں، خداوند کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

(فَاسْتَبَقُو الْخَیْرٰاتِ أَیْنَ مٰا تَکُوْنُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰهُ جَمِیْعاً ) (1)

''اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم جہاں بھی رہو گے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا ''

یہ آیت کریمہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف کے ان تین سو تیرہ صحاب کے بارے میں ہے کہ جو ظہور کے دن سب سے پہلے امام  کی خدمت میں حاضر ہوں گے ۔خداوند کریم ان سب کو اپنے بیت الشرف (کعبة اللہ) میں ولی بر حق کے ارد گرد جمع کردے گا تا کہ آنحضرت  کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور زمانے کی بدبختیوں کو ختم کردیں ۔

--------------

[1]۔ سورۂ بقرہ ، آیت 148

۲۲۵

 یہاں پر بعض افراد کے ذہن میں ایک بہت ہی اہم سوال آسکتا ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا کیا مطلب ہے اور حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف  کے ان تین سو تیرہ اصحاب با وفا میں  کون   کون سی ایسی خوبی ہے کہ وہ دوسروں لوگوں پر سبقت لے جا ئیں گے اور عظیم مرتبہ پر فائز ہوں گے ؟!

اگر ہم سر چشمہ وحی سے دریافت کریں تو امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث، مذکورہ آیت کی تفسیر کرتی ہے :

 ''أَلْخَیْرٰاتُ:أَلْوِلاٰیَةُ لَنٰا أَهْلَ الْبَیْتِ ''  (1)

  ''خیرات سے مراد ہم اہل بیت  کی ولایت ہے ''

اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

 انسان ولایت کی قبولیت میں جتنی بھی کوشش کرے گا اتنی ہی اس کی روح قوی ہوتی چلی جائے گی نیز غیر معمولی طاقت کا مالک بن جائے گا ۔ پھر حسب دلخواہ وہ مادی اور غیر مادی موجودات پر بھی حکومت کر سکتا ہے جیسا کہ مرحوم علامہ بحرالعلوم کے اس  بے مثال واقعہ سے معلوم ہوتا :

--------------

[1]۔ مرحوم نعمانی کی کتاب الغیبہ ، ص314

۲۲۶

 مرحوم علامہ بحر العلوم  اختلافی قلب ( خفقان ) کے مریض تھے اس مرض کے ساتھ گرمیوں میں کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک مخصوص زیارت سے مشرف ہونے کی نیت سے بہت شدید گرمی والے دن نجف اشرف سے نکلے لوگوں نے تعجب کیا کہ مرض اور اس ہوا کی گرمی میں یہ کیسے سفر کریں گے ؟ !

 آپ کے ساتھ سفر کرنے والوں میں مرحوم شیخ حسین نجف بھی تھے جو سید بحر العلوم کے زمانے کے مشہور علماء میں سے تھے تمام افراد گھوڑوں پر سوار سفر کر رہے تھے ایک بادل ہوا میں دکھائی دیا جس نے ان پر سایہ کیا ، پھر سرد ہوائیں چلنے لگیں ہوا اس حد تک ٹھنڈی ہو گئی تھی جیسے یہ تمام افراد  زیر زمین راہ میں سفر کر رہے ہوں وہ بادل اس طرح ان لوگوں پر سایہ کئے ہوئے تھا یہاں تک کہ وہ کان شور کے نام سے ایک مقام کے نزدیک پہنچے وہاں پر بزرگ عالم دین شیخ حسین نجف کے جاننے والوں میں   سے کسی سے ان کی ملاقات ہو گئی اور وہ بحر العلوم سے جدا ہو گئے اور اپنے دوست سے احوال پرسی اور گفتگو میں مشغول ہو گئے اور پھر یہ بادل سید بحر العلوم کے سر پر سایہ کئے رہا یہاں تک کہ سید بحر العلوم مہمان خانے میں داخل ہو گئے چونکہ سورج کی گرمی شیخ نجف کو لگی لہٰذا ان کی حالت خراب ہو گئی اور اپنی سواری سے زمین پر گر پڑے ادھیڑ عمر یا فطرتی کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے انہیں اٹھا کر مہمان خانے میں سید بحرالعلوم کے پاس پہنچایا گیا اس کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو سید بزرگوار سے عرض کی ۔'' سیدنا لم تدرکنا الرحمة '' اے ہمارے سید و سردار رحمت نے ہمیں اپنی لپیٹ میں کیوں نہ لیا ۔ تو سید نے فرمایا:'' لم تخلفتم عنها ؟ ''

 تم نے رحمت کی مخالفت کیوں کی ؟!اس جواب میں ایک لطیف حقیقت پوشیدہ ہے ۔ (1)

--------------

[1] ۔ العبقریّ الحسان:692

۲۲۷

امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب خاص کی قدرت تصرف اس حد تک ہے کہ امام کے تین سو تیرہ اصحاب خاص میں سے کچھ افراد اسرار آمیز بادلوں سے استفادہ کرتے ہیں اور ظہور کی ابتداء میں بادلوں کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پہنچا کریں گے ۔ مفضل کہتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 ''قٰالَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰهِ: اِذٰا اُذِنَ الْاِمٰامُ دَعَا اللّٰهَ بِاسْمِهِ الْعِبْرٰانِیّ فَاُتیحَتْ لَهُ صَحٰابَتُهُ الثَّلاٰثَ مِأَةِ وَ ثَلاٰثَةَ عَشَرَ قَزَع کَقَزَعِ الْخَرِیْفِ وَ هُمْ أَصْحٰابُ الْاَلْوِیَّةِ ، مِنْهُمْ مَنْ یُفْقَدُ عَنْ فِرٰاشِهِ لَیْلاً فَیُصْبَحُ بِمَکَّةَ وَ مِنْهُمْ مَنْ یُرٰی یَسِیْرُ فِی السَّحٰابِ نَهٰارًا یُعْرَفُ بِاسْمِهِ وَ اسْمِ أَبِیْهِ وَ حِلْیَتِهِ وَ نَسَبِهِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدٰاکَ أَیُّهُمْ أَعْظَمُ اِیْمٰانًا ؟ قٰالَ : اَلَّذِی یُسِیْرُ فِی السِّحٰابِ نَهٰاراً وَ هُمُ الْمَفْقُودُوْنَ وَ فِیْهِمْ نُزلَتْ هٰذِهِ الْآیَةُ ( اَیْنَمٰا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا ) ''  (1)،(2)

 ''جب بھی امام کو اذن ہوگاخدا کو اس کے عبری ( عبرانی زبان ) سے پکارا جائے گا اس وقت آپ کے تین سو تیرہ اصحاب خزاں کے بادل کی مانند جمع ہو جائیں گے ۔ وہی آپ کے یاور و مدد گار ہوں گے۔ان میں سے بعض رات میں اپنے بستروں سے غائب ہو جائیں گے اور صبح مکہ میں ہوں گے اور ان میں سے بعض وہہوں گیجو دن میں بادلوں میں سیر کرتے ہوئے نظر آئیں  گے اور وہ اپنے ناموں اور اپنے باپ کے نام اور اپنی صفت اور اپنی نسبتوں سے پہچانے جائیں گے ۔

 میں نے کہا: ان دو گروہوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کون سا گروہ با عظمت ہے؟

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : وہ جو دن میں بادلوں کی سیر کریں گے یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جگہوں سے غائب ہو جائیں گے ان ہی کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے : ''تم جہاں بھی رہو گے خدا ایک دن سب کو جمع کر دے گا ''

--------------

[1]۔ سورۂ بقرہ،آیت:148

[2]۔ بحار الانوار ،:ج۵۲ص۳6۸، غیبت نعمانی :168، تفسیر عیاشی:ا  67

۲۲۸

 ظہور کے زمانے کی معرفت

ظہور کے زمانے میں دنیا کی حالت سے آشنائی اور وہ عظیم تبدیلی جو اس زمانے میں پیش آئے گی انسان کو مسئلہ انتظار کی طرف بلاتی ہے وہ حیرت انگیز تبدیلی کہ جو پوری دنیا اور تمام انسانوں میں پیدا ہوگی ۔ انسان اور دنیا کو ایک اور شکل میں جلوہ گر بنا دے گی ۔

1۔ باطنی تطہیر

اب انسانی وجود کے نشیب و فراز میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی طرف توجہ فرمائیں ۔

اعتقادی مسائل میں سے ایک مسئلہ خصلت اور کیفیت اور پاک اور ناپاک خصلتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کا ہے ۔ اور روایات میں بھی ذکر ہوا ہے کہ (طینت) عادت، سرشت کا کیا مطلب و مقصود ہے چونکہعادتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور کس طرح پاک ہو کر ایک  دوسرے سے جدا ہوتی ہیں ؟

اس مسئلہ کی تفصیل اس  مختصر کتاب میں مناسب و ممکن نہیں ہے اس وجہ سے ہم فقط اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں : زمانۂ ظہور کی خصوصیات میں سے ملاوٹ سے خصلتوں کی پاکی ، نفس اور ضمیر کا آلودگیوں سے پاک ہونا ہے جو وجود انسانی کے نشیب و فراز میں موجود ہیں ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ حضرت بقیة اللہ  کے زمانہ ٔ  ظہور میں لوگ کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک ہو جائیں گے ؟

۲۲۹

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت کے لئے ایک داستان عرض ہے :

شیبہ بن عثمان ، حضور اکرم (ص)کا شدید ترین دشمن  تھا ۔ اس کے دل میں آنحضرت (ص)کے قتل کی آرزو تھی  اس نے جنگ حنین میں شرکت کی تاکہ حضور اکرم(ص)  کو شہید کر دے جس وقت لوگ آنحضرت(ص) کے اطراف سے ہٹ گئے اور نبی اکرم (ص)تنہا رہ گئے یہ پچھلی جانب سے آنحضرت (ص) کے نزدیک پہنچا ، لیکن آگ کا ایک شعلہ اس کی طرف بڑھا اس طرح کہ اس کو تحمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ اسی وجہ سے اپنا مقصد پورانہ کر سکا ۔

 نبی کریم  (ص) نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :

 شبیہ میرے نزدیک آجائو اس وقت حضور نبی اکرم (ص)نے اپنا دست مبارک اس کے سینے پر رکھا اس کام کے اثر سے آنحضرت (ص) نے اس کے دل میں جگہ پیدا کر لی اس طرح کہ پیغمبر اکرم (ص)اس کے نزدیک اس وقت سے محبوب ترین شخص ہو گئے اسی وقت اس نے نبی اکرم (ص)کے حضور میں مخالفین سے اس طرح سے جنگ کی کہ اگر اسی حالت میں اس کا باپ بھی مقابلے میں آجاتا تو اس کو بھی حضور نبی کرم (ص)   کی

نصرت کی خاطر قتل کر دیتا ۔(1)

 آپ دیکھیں کس طرح پیغمبر اکرم  (ص) نے ایک نجس طینت اور آلودہ نفس انسان کو جو آپ(ص) کابد ترین دشمن  تھا ایک لمحے میں غلاظت و آلودگی سے نجات دے دی اس کو کفار کی صف سے نکال کر مومنین کے لشکر میں کھڑا کر دیا ۔

 پیغمبر اکرم  (ص) نے اپنے دست مبارک کو اس کے سینے پر پھیر نے کے ساتھ ہی اس کی عقل کو مکمل کر دیا  اور اس کی نا پسندیدہ طینت میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے اس نے ضلالت اور گمراہی سے نجات حاصل کر لی ۔

--------------

[1]۔ سفینة البحار: 1 202مادہ حبب

۲۳۰

اس مقدمہ کے بیان کے بعد زمانۂ ظہور کی تشریح یوں ہوگی کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

 ''اِذٰا قٰامَ قٰائِمُنٰا وَضَعَ یَدَهُ عَلٰی رُئُوْسِ الْعِبٰادِ ، فَجَمَعَ بِهِ عُقُوْلَهُمْ وَ اَکْمَلَ بِهِ اَخْلاٰقَهُمْ  ''  (1)

 جس وقت ہمارا قائم قیام فرمائے گا اپنے ہاتھوں کو خدا کے بندوں کے سروں پہ رکھے گا پس اس عمل سے ان کی عقلوں کوجمع کر دیں گے اس کے سبب ان کی عقلی قوت کامل ہو جائے گی اور ان کے اخلاق کو مکمل کر دیں گے ۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس عمل سے سے لوگوں کے باطن کو پاک کر دیں گے اور خدا کے تمام بندوں کو برائیوں سے نجات بخشیں گے ۔

2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

 مذکورہ روایت سے دو نہایت پرکشش نکات  سمجھ میں آتے ہیں ۔

1۔ حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف اپنے ہاتھ کو نہ فقط اپنے اصحاب خاص کے سروں پر بلکہ تمام  بندگان خدا کے سروں پر پھریں گے یعنی وہ تمام  افراد جواس دن خدا کی بندگی کے قائل ہوں گے اگرچہ  جنگ میں آنحضرت کے اصحاب میں سے نہ بھی ہوں گے بوڑھے اور بچے سب اس عظیم نعمت کے مالک ہوں گے ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار :ج۵۲ص۳۳6

۲۳۱

2 ۔ سب لوگوں کی عقلیں پراکندگی اور انتشار سے نجات پائیں گی اور سب کے سب پوری طاقت کے ساتھ فکر و عقل کا مرکز جو غیر معمولی علم و ادراک کا سر چشمہ ہوجائیں گی۔ ان کی عقلی قوت کے کامل ہو جانے کا یہ معنی ہے کہ اگر چاہیں گے تو دماغ کی تمام تر قوتوں سے فائدہ حاصل کرسکیں گے ۔

جی ہاں!جس دن خدائی ہاتھ لوگوں کے سروں پر رکھا جائے گا ، غیبت کے دوران ستم  دیدہ انسانوں پر نوازش کی جائے گی اور وہ طاقتیں جو انسانی دماغ کے اندر پوشیدہ تھیں تکامل کے اثر سے تجلی اور ظہور کریں گی نیز عالی ترین علمی اور عملی مراحل کے کمال کے ساتھ یہ حیرت انگیز دور درک کریں گے اس لئے ہم دماغی قوت اور کمال عقل کے حیرت انگیز اثرات کی زیادہ سے زیادہ آشنائی اور پہچان پیدا کریں۔

 دماغ کی اس عظیم قدرت کی وضاحتیوں ہے کہ ہر انسان عادی یا غیر عادی طور پر اپنی پوری زندگی کے دوران اپنےدماغ کی ظرفیت کا ایک اربواں حصہ بھی کام میں نہیں لاتا ۔ اگر عام  افراد یا نابغہ  افراد کے دماغ کی ظرفیت اور توانائی کا ایک اربواں حصہ کام میں لایا جائے تو وہ فرق جو ان کے اور عام لوگوں کے درمیان دیکھنے میں آئے گا ، وہ ایک بہت بڑی حیران کن کیفیت ہوگی نہ ایک چھوٹی موٹی اور عام(1)   یعنی یہاں تک کہ نابغہ ( غیر عادی ) افراد جو فکر و عقل کی عجیب و غریب طاقت سے مالا مال ہیں ، وہ بھی فقط اپنے مغز کی کل طاقت کا ایک اربواں حصہ عمل میں لا سکتے ہیں ۔ لیکن کیسے ان کے دماغ  کے ایک اربویں  حصہ کی توانائی اور استفادہ دوسروں سے بہتر ہے ۔

--------------

[1]۔ توانیھای خود را بشناسید : 347

۲۳۲

 آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اس زمانے کے ایک ریاضی دان نے ایک ایسے مسئلے کو عوام کے کانوں تک پہنچایا کہ جو بہت زیادہ زیر بحث تھا ۔ اس نے ایک تخمینہ لگایا کہ ایک انسانی مغز ( ایک وقت میں ) دس معلوماتی اکائیوں کی ذخیرہ اندوزی کر سکتا ہے اگر اس رقم کو سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے دور نہیں ہوگا کہ ہم میں سے ہر ایک ماسکو میں موجودہ دنیا کی عظیم ترین لائبریری میں موجود کئی لاکھ جلد کتابیں جو تمام معلومات سے پر ہیں ، کو اپنے حافظہ میں رکھ سکتا ہے مندرجہ بالا باتیں اس طرح کے حساب میں جس کی تائید کی جا چکی ہے حیرت انگیز نظرآتی ہیں ۔ (1)

 اب آپ توجہ فرمائیں کہ اس صورت میں جب مصلح جہان حضرت امام  مہدی  عجل اللہ فرجہ الشریف کے چمکتے ہوئے نور کی روشنی کے اثر سے انسانی مغز کی تمام قدرتیں اپنے تکامل کو پہنچ جائیں گی اور انسان اپنے مغز کی تمام تر قوت و طاقت سے نہ ایک اربویں حصے کی طاقت سے استفادہ کرے گا تو علم و تمدن پوری دنیا پرچھا جائے  گا اس وقت دنیا کا احاطہ کس طرح ہوگا ؟!

 جس زمانے میں انسان عقل کے تکامل کے اثر سے روح کی سوئی ہوئی قوتوں کو اجاگر کر لے گا اور انہیں  بیدار کرکے ان سے بہرہ مند اور مستفید ہوگا اس وقت وہ اپنے جسم کو اپنی روح کا تابع قرار دے کر قدرت روح حاصل کر سکتا ہے ۔

 یعنی اپنے مادی جسم کو توانائی اور امواج میں تبدیل کر سکتا ہے اور اس کام سے اپنے جسم کو مادیت اور جسمانیت کی حالت سے باہرنکال سکتا ہے ۔

 جس وقت انسان اس کام پر قادر ہو جاتا ہے تو اس وقت بہت سی کرامتیں جو اس کے اندر عام حالت میں موجود تھیں اس کے لئے ثابت ہو جائیں گی ۔

--------------

[1] ۔ توانیھای خود را بشناسید :44

۲۳۳

 زمانۂ غیبت میں بہت کم ایسے لوگ موجود ہیں جو طی الارض کی قدرت رکھتے ہیں ، اور اس سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے جسم سے مادی حالت اور تجسم کو چھین کر اپنے آپ کو توانائی اور امواج کی شکل میں تبدیل کر لیتے اور ایک لمحے میں اپنے آپ کو  زمین کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے میں پہنچاتیہیں اورجو لوگ یہ قدرت اور طاقت رکھتے ہیںوہ اپنے تروح یافتہ جسم کی اس جگہ راہنمائی کرتے ہیں کہ جس کا وہ ارادہ رکھتے ہیںاور وہاں پر اسے مجسم کر لیتے ہیں ۔

 3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

ظہور کے با عظمت دور میں زمین پر عظیم تبدیلیاں رونما ہوں گی اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق :( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ )  (1) اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ہو جائے گی ۔

 زمین ایک نئے طریقے سے جدید شرائط کے ساتھ وجود میں آئے گی اور نہ فقط زمین بلکہ اس زمانے میں عظیم ، کامیاب اور تازہ تبدیلیاں رو نما ہوں گی ۔(2)

 آج تمام دانشمند افراد اس نکتہ پر متفق ہیں کہ مادہ ارتعاش سے تشکیل پاتاہے  اور ارتعاشات کو کیبل یا لہروں کے ذریعے سے تصور یا آواز کی طرح دور دراز مقامات پر منتقل کیا جاسکتا ہےجس کے نتیجہ میں انسان کیبناوٹ وساخت( جو مادہ سے منظم ہوئی ہے) کو ارتعاش میں تبدیل کر کے الیکڑونک  کے ذریعے دنیا کے ہر حصہ تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔

--------------

[1]۔ سورۂ ابراہیم ، آیت: 48

[2] ۔ یہ ایک روایت کی طرف اشارہ ہے جس میں فرمایا گیا:''اِذٰا اتَّسَعَ الزَّمٰان فَاَبْرٰارُ الزَّمٰانِ اُوْلٰی بهِ''بحار الانوار:ج۴۳ص۳۵۴

۲۳۴

 میرا نظریہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہاں تک کہ فضائی مسافرتوں سے بھی قبل ایسے طریقے ایجاد کئے جا سکیں گے کہ انسانی جسم کو ارتعاش کے ساتھ ذرہ ذرہ کرکے فضا میں بھیج کر اور وہاں ان  الگ  الگ ا ذرّات کو آپس میں میں جوڑا جا سکے گا ۔

اب ہمارے محترم قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انسان روح ہے اور اس کا جسم  مادہ کے ذرات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ جسے کند کرنے اور اس کے ارتعاشات کو نیچے لانے سے اپنی مرضی کی شکلوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔(1)

 ایسے دن کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جس دن انسان اپنے جسم کو الیکٹران والے طریقہ کے مطابق تبدیل کرے گا اور اسے مذکورہ بحث کے تجربہ کے طور پر مشاہدہ میں لائے گا اس کا روائی کی ایک دور دراز مقام کی طرف رہنمائی کی جائے گی اور وہاں پر ان ایٹموں کو جمع کیا جائے گا جن سے جسم دوسری مرتبہ اپنی اصل شکل میں آجائے گا ۔(2)

 عقلی قوتوں کے تکامل عمومی کی بنا پر جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے ، روح تمام مادہ چیزوں پر غلبہ کرے گی اور لوگ اپنے جسم پر ( حکومت ) کنٹرول حاصل کریں گے اور اس حالت سے بخوبی استفادہ کر سکیں گے اس با عظمت اور نا شناختہ دور میں لوگوں کی زندگیاں اور ان کی ضروریات مادی و سائل کے ساتھ ایک اور طرح کی ہیں ۔

 ولایت اہل بیت علیھم السلام کے ظہور کے پر تو میں انسان کا علم و دانش عظیم ترین امکانی نقطے تک پہنچ جائے گا اور انسان با آسانی علم و دانش کے تمام مراحل سے بہرہ مند ہوگا اس دن  اولیائے خداوہ رازبھی فاش کر دیںگے جو وہ عوام کے آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے چھپایا کرتے تھے اور ان کے لئے ترتیب اور تکامل کی آخری راہ کھول دیں گے شاید ہمارے لئے اس طرح کے مطالب کو قبول کرنا سخت ہو اور ہم ان تمام علمی مسائل کی  پیشرفت کو قبول نہ کر سکیں ۔

--------------

[1]۔ روح زندہ می ماند: 158

[2]۔ روح زندہ می ماند: 188

۲۳۵

  حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر انسانی دماغ شیطان کی قید سے آزاد ہو جائے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان تمام مدارج میں اس حد تک تکامل حاصل کر لیتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی راز اس سے مخفی نہیں رہ جاتا اور تمام پیچیدہ علمی مسائل کا حل نکل آتا ہے ۔

غاصبین خلافت کہ جنہوں نے آج تک اربوں افراد کو علم وکمال کے عالی ترین مراحل اور ولایت کے جگمگاتے ہوئے تمدن تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رکھا ۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے اس کلام میں کہ جو آنحضرت کے وجود کی گہرائیوں سے صادر ہوتا ہے اس طرح فرماتے ہیں :

'' یٰا کُمَیْل مٰا مِنْ عِلْمٍ اِلاّٰ وَ اَنَا اَفْتَحُهُ وَمٰا مِنْ سَرٍّ اِلاّٰ وَ الْقٰائِمُ یَخْتِمُهُ ''  (1)

 ''اے کمیل!کوئی علم نہیں مگر یہ کہ میں نے اسے شگافتہ کیا ہو اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم   اسے اختتام کو پہنچائیں ۔''

 جی ہاں!  جب حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے ہاتھوں سے چمکتا ہوا نور دنیا کے رنجیدہ خاطر اور ستم رسیدہ عوام کی عقلوں کو کمال بخشے گا اور استفادہ کی حیرت انگیز قوت ایجاد کردے گا ۔ اس وقت انسان اپنے عقل و فہم کی  تمام قدرت کے ساتھ نہ فقط ایک اربویں حصے سے خاندان وحی  علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے رازوں کو قبول کرے گا بلکہ علم و کمال کے آخری مرحلے کو بھی حاصل کر سکے گا ۔

 اس با عظمت زمانے میں تمام تر پوشیدہ راز اور اسرار ظاہرو آشکار ہو جائیں گے ، اور اس زمانے میں تاریکیوں کا اثر تک باقی نہیں رہے گا۔

اب کیا ایسے دن کے آنے کا انتظار ہمارے دلوں کو خلوص اور پاکیزگی نہیں بخشتا ؟ !

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۲6۹

۲۳۶

 نتیجۂ بحث

انتظار ، الٰہی حالت ہے جو امید و نجات بخش ہے، جو غیبت کے تاریک دور میں منتظرین کو  حیرت و سرگردانی کی ظلمتسے نجات بخشتا ہے  اور انہیں نور اور پاکیزہ وادی کی طرف لے جاتاہے ۔

انتظار غم زدہ لوگوں کو ایک نئی زندگی اور تازہ قوت دیتا ہے اور افسردہ دلوں کو امید دلاتا ہے۔ انتظار ، رکاوٹوں اور تاریکیوں سے پاک کر دیتا ہے اور انسانی وجود میں تکامل یافتہ چمکتے ہوئے نور کو ایجاد کرتا ہے ۔

انتظار ، شناسائیوں کے بیج اور شیعہ کے اصلی اعتقادات کو منتظرین کے دلوں میں پروان چڑھاتا ہے اور با فضیلت ترین انسانوں کے لئے کامل ترین معنوی حالات کو بعنوان ہدیہ پیش کرتاہے ۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے اندر  انتظار کو ایجاد کر کے اسے تقویت بخشیں تو ولایت کے عظیم اور عالی مقام سے انس اور محبت شروع کردیں اور انتظار کے حیرت انگیز آثار اور ان کی عادات سے آگاہی پیدا کریں اور حضرت بقیة اللہ اعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔ  ظہور کی برکتوں سے اپنے دل و جان کو آگاہ کریں تاکہ اس مبارک اور بابرکت زمانے کا انتظار ہمارے تمام تر وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے ۔

روز محشر کہ زہو لش سخنان می گویند

راست گویند ولی چون شب ہجران تونیست

۲۳۷

 نواں باب

رازداری

حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' أَنْجَحَ الْاُمُوْرُ مٰا اَحٰاطَ بِهِ الْکِتْمٰانُ''

نتیجہ بخش ترین امور وہ ہیں جو پوشیدہ ہوں۔

    کتمان راز

    بزرگوں کی رازداری

    راز کی حفاظت کرنا نہ کہ خیالات کو چھپانا

    اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

    کرامت اور روحانی قدرت کو چھپانا

    مرحوم شیخ انصاری کی ایک کرامت

    راز فاش کرنے کے نقصانات

    نتیجہ ٔ بحث

۲۳۸

کتمان راز

خدا کے حقیقی بندے ،خود ساختہ اور مہذب افراد اپنے اخلاص اور اصلاح نفس کی وجہ سے اپنے رفتار و کردار اور دوسری شائستگی میں خلقت کائنات کے اسرار سے آشنائی حاصل کرکے نظام خلقت کے کچھ انجانے رموز سے آگاہ ہوتے ہیں۔

اہلبیت علیھم السلام کے زمانۂ حضور میں ایسے اسرار ان ہستیوں کے ذریعے رحمانی الہامت کے توسط سے سکھائے گئے ۔یہ بزرگ ہستیاںاپنے اصحاب اور قریبی افراد کوایسے مسائل کی تعلیم دیتے اور انہیں اس کی حفاظت کا حکم دیتے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے ایک مفصل روایت کے ضمن میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا:

 ''یٰا جٰابِرُ اُکْتُمْ مٰا تَسْمَعُ فَاِنَّهُ مِنْ سَرٰائِرِ اللّٰهِ'' (1)

  اے جابر!تم جو کچھ سنتے ہو اسے چھپاؤ کیونکہ وہ اسرار خدا میں سے ہیں۔

 اس بنیاد پر جابر اور دوسری بزرگ شخصیات کہ جنہیں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اسرار و معارف تعلیم فرمائے ،وہ اسرار کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے۔ایسے مسائل کی حفاظت ان کیلئے بہت مشکل تھی جس کے لئے انہوں نے بڑی زحمتیں برداشت کیں۔اسی وجہ سے اس موضوع کے بارے میں حضرت امام جعفر

صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:

''کِتْمٰانُ سِرِّنٰا جِهٰاد فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ'' (2)

--------------

[1]۔ بحار الانوار :ج۳۵ص۱۰۳

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۷۰

۲۳۹

ایک دوسری روایت میں آپ فرماتے ہیں:

 ''مَنْ کَتَمَ الصَّعْبَ مِنْ حَدِیْثِنٰا جَعَلَهُ اللّٰهُ نُوْراً بَیْنَ عَیْنِهِ وَ رَزَقَهُ اللّٰهُ الْعِزَّةَ فِی  النّٰاسِ'' (1)

 جو کوئی ہماری سخت گفتار کو مخفی رکھے خدا وند اسے دو آنکھوں کے درمیاں نور کی طرح قرار دے گا اور لوگوں میں اسے عزت و احترام عطا کرے گا۔

 راز کو چھپانے کے لئے ہر موضوع کو غور و فکر کے بعد بیان کیا جائے اورغور و فکرکے بغیر افکار کو زبان پر نہ لایا جائے ۔اگر انسان سوچے اور سوچنے کے بعد بولے تو اسے اپنی باتوں پر  پشیمانی نہیں ہو گی۔کیونکہ تفکر اور تأمل سے کچھ راز مخفی رہ جائیں تو وہ مخفی ہی رہ جاتے ہیں۔کیونکہ سوچنے سے انسان کے لئے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔

 حضرت امیر المؤمنین  علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ''لاٰ تَقُلْ مٰا لاٰ تَعْلَمْ  بَلْ لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ'' (2)

           جو بات نہیں جانتے وہ نہ کہو بلکہ  ہر جاننے والی بات بھی نہ کہو۔

           کیونکہ کسی بھی چیز کو جاننا اسے بیان کرنے کی دلیل نہیں ہے۔کیونکہ بہت ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانتے تو ہیں لیکن وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔اس بناء پر ایسی باتوں کو بیان کرنے میں اپنی اور دوسروں کی عمر ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔انسان کی کچھ معلومات مفید ہوتی ہیں لیکن لوگوں کا ظرف انہیں ہضم نہیں کر سکتا ۔ایسے مطالب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسے مطالب کے بیان سے دوسروں کے اظہار یا انکارکے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار :ج۲۵ص۳۸۱،اختصاص:321

[2]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۲۲

۲۴۰