کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123932 / ڈاؤنلوڈ: 5403
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

٢۔ انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کرسکتاہے۔ بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی رات کو پورے مہینے کے روزوں کیلئے ایک ساتھ نیت کرلے۔(١)

٣۔ واجب روزوں میں روزہ کی نیت کو کسی عذر کے بغیر صبح کی اذان سے زیادہ تاخیر میں نہیںڈالنا چاہئے۔(٢)

٤۔ واجب روزوں میں اگر کسی عذر کی وجہ سے، جیسے فراموشی یا سفر، کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہوکہ جو روزہ کو باطل کرتاہے، تو وہ ظہر تک روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔(٣)

٥۔ ضروری نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کو زبان پر جاری کیا جائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم کے حکم کی تعمیل کے لئے صبح کی اذان سے مغرب تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے ۔(٤)

سبق ٣١ کا خلاصہ

١۔ روزہ کا وقت صبح کی اذان سے، مغرب تک ہے۔

٢۔ رمضان المبارک کے روزے، قضا روزے، کفارے اور نذر کے روزے ،واجب روزے ہیں۔

٣۔ باپ کے قضا روزے، اس کی موت کے بعد بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔

٤۔ عید فطر اور عید قربان کے روزے اور فرزند کے ایسے مستجی روزے جن سے اس کے ماں باپ کو تکلیف پہنچے، حرام ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م٠ ١٥٥.

(٢) توضیح المسائل، م ١٥٥٤۔ ٦١ ١٥

(٣)توضیح المسائل م،١٥٥٤۔ ١٥٦١

(٤)توضیح المسائل م ٠ ١٥٥

۲۰۱

٥۔ پورے سال میں حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن بعض دنوں کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔منجملہ:

ہر جمعرات وجمعہ۔

عید میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عید مبعث۔

٩اور ١٨ ذی الحجہ( عرفہ اور عید غدیر)

باپ کی اجازت کے بغیر فرزند کا مستحبی روزہ مکروہ ہے۔

ماہ مبارک رمضان میں ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کی جاسکتی ہے لیکن بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی پہلی رات کو پورے ایک ماہ کے روزوں کی نیت کی جائے۔

۲۰۲

سوالات :

١۔ مندرجہ ذیل دنوں میں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے:دسویں محرم، دسویں ذی الحجہ، نویں ذی الحجہ، ٢١مارچ، پہلی شوال۔

٢۔ اگر باپ بیٹے سے کہے کہ کل روزہ نہ رکھنا، تو کیا اس صورت میں بیٹا روزہ رکھ سکتاہے؟

٣۔ اگر ایک شخص اذان صبح کے بعد نیند سے بیدا رہو تو کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟

۲۰۳

سبق نمبر ٣٢

مبطلات روزہ

روزہ دار کا صبح کی اذان سے مغرب تک بعض کام انجام دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

اوراگر ان میں سے کسی ایک کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے، ایسے کاموں کو'' مبطلات روزہ'' کہتے ہیں ۔مبطلات روزہ حسب ذیل ہیں:

١۔کھانا پینا۔

٢۔غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا۔

٣۔ قے کرنا۔

٤۔ مباشرت۔

٥۔مشت زنی (ہاتھوں کے ذریعہ منی کا باہر نکالنا)

٦۔ اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنا۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٥٧٢

۲۰۴

مبطلات روزہ کے احکام

کھانا اور پینا:

١۔ اگر روزہ دار عمداً کوئی چیز کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(١)

٢۔ اگر کوئی شخص اپنے دانتوں میں موجود کسی چیز کو نگل جائے، تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(٢)

٣۔تھوک کو نگل جانا روزہ کو باطل نہیں کرتاخواہ زیادہ کیوں نہ ہو۔(٣)

٤۔ اگر روزہ دار بھولے سے ( نہیں جانتا ہوکہ روزے سے ہے ) کوئی چیز کھائے یاپیئے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔(٤)

٥۔انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہیں توڑ سکتا ہاں اگر کمزوری اس قدر ہو کہ معمولاً قابل تحمل نہ ہو تو پھر روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(٥)

انجکشن لگوانا:

انجکشن لگوانا، اگر غذا کے بدلے نہ ہو، روزہ کو باطل نہیں کرتا زاگرچہ عضو کوبے حس بھی کردے۔(٦)

غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا:

١۔ اگر روزہ دار غلیظ غبار کو حلق تک پہنچائے، تو اس کاروزہ باطل ہو جائے گا، خواہ یہ غبار کھانے کی چیز ہو

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٥٧٣

(٢)توضیخ المسائل، م ١٥٧٤

(٣)توضیح المسائل، م ١٥٧٩

(٤)توضیح المسائل، م ٧٥ ١٥

(٥) توضیح المسائل، م١٥٨٣

(٦) توضیح المسائل، م١٥٧٦

*( گلپائیگانی) اگر ضرورت ہو اور انجکشن لگوایا روزہ باطل نہیں ہوتا نیز انجکشنوں میں کوئی فرق نہیں (مسئلہ ١٥٨٥۔( اراکی (خوئی)ا نجکشن لگوانا روزہ کو باطل نہیں کرتا ( استفاء مسئلہ ١٥٧٥)

۲۰۵

جیسے آٹا یا کھانے کی چیز نہ ہو جیسے مٹی۔

٢۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہوتا :

* غبار غلیظ نہ ہو۔

*حلق تک نہ پہنچے(صرف منہ کے اندر داخل ہوجائے)

* بے اختیار حلق تک پہنچ جائے۔

*یاد نہ ہو کہ روزہ سے ہے۔

*شک کرے کہ غلیظ غبار حلق تک پہنچایا نہیں۔(١)

پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونا۔

١۔ اگر روزہ دار عمداً اپنے پورے سر کو خالص زپانی میںڈبودے، اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

٢۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہے:

* بھولے سے سر کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* سرکے ایک حصہ کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

*نصف سرکو ایک دفعہ اور دوسرے نصف کو دوسری دفعہ پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* اچانک پانی میں گرجائے۔

* دوسرا کوئی شخص زبردستی اس کے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* شک کرے کہ آیا پورا سر پانی کے نیچے گیا ہے کہ نہیں ۔(٢)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ ج ١، ص ٢٨٦، الثامن۔ توضیح المسائل م ٠٨ ١٦تا ١٦١٨

(٢) توصیح المسائل، م ١٦٠٩۔٠ ١٩١۔ ١٩١٣۔١٩١٥۔ العروة الوثقی، ج٢ ص ١٨٧ م ٤٨

*(اراکی۔ گلپائیگانی) احتیاط واجب ہے سرکو مضاف پانی میں بھی نہ ڈبوئے (مسئلہ ٤٧ ١٦)

۲۰۶

قے کرنا:

١۔ اگر روزہ دار عمداً قے کرے،اگرچہ بیماری کی وجہ سے ہو توبھی اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔(١)

٢۔ اگر روزہ دار کو یاد نہیں ہے کہ روزہ سے ہے یا بے اختیار قے کرے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔(٢)

استمناء:

١۔ اگر روزہ دار ایسا کام کرے جس سے منی نکل آئے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔(٣)

٢۔اگر بے اختیار منی نکل آئے مثلاً احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا ۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٦٤٦

(٢)توضیح المسائل، م ١٦٤٦

(٣) توضیح المسائل، م ٨٨ ١٥

(٤)توضیح المسائل، م١٥٨٩

۲۰۷

سبق: ٣٢ کا خلاصہ

١۔ کھانے پینے، غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانے، پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونے،قے کرنے، مباشرت کرنے، استمناء کرنے اور صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

٢۔ لعاب دہن کو نگل لینے سے روزہ باطل نہیں ہوتاہے۔

٣۔ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چیز کھالے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٤۔ اگر انجکشن لگوانا، بجائے غذانہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا۔

٥۔ اگر غبار غلیظ نہ ہو یا غلیظ غبار حلق تک نہ پہنچے یا روزہ دار شک کرے کہ حلق تک پہنچایا نہیں اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔

٦۔ اگر کوئی بھولے سے اپنے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے، یا بے اختیار پانی میں گرجائے، یا زبردستی اسے پانی میں گرادیا جائے، تو ایسی صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٧۔ اگر روزہ داربے اختیارقے کرے یا نہ جانتاہو روزہ سے ہے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٨۔ اگر روزہ دارکو احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

۲۰۸

سوالات:

١۔ روزہ کی حالت میں خلال کرنے اور مسواک کرنے کا کیا حکم ہے؟

٢۔ کیا روزے کی حالت میںچنگم چبانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے؟

٣۔ کسی شخص کو پانی پیتے وقت یاد آئے کہ روزہ سے ہے، اس کی تکلیف کیا ہے اور اس کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

٤۔ سگریٹ پینا مبطلات روزہ کی کون سی قسم ہے؟

٥۔ روزہ کی حالت میں تیرنا کیا حکم رکھتاہے؟

۲۰۹

سبق نمبر ٣٣

مبطلات روزہ

اذان صبح تک جنابت پر باقی رہنا:

اگرکوئی شخص حالت جنابت میں اذان صبح تک باقی رہے اور غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم تھا اور تیمم نہ کرے تو بعض اوقات اس کا روزہ باطل ہوگا اس سلسلہ کے بعض مسائل حسب ذیل ہیں:

١۔ اگر عمداً صبح کی اذان تک غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم تھا اور تیمم نہ کرے:

رمضان کے روزوں کے دوران اس کا روزہ باطل ہے

۔قضا روزوں کے دوران

* دیگر روزوں کے دوران ۔۔ اس کا روزہ صحیح ہے۔

٢۔ اگر غسل یا تیمم کرنا فراموش کرجائے اور ایک یا چند روزکے بعد معلوم ہو

*رمضان کے روزوں کے دوران ۔۔ وہ روزے قضا کے طور پر رکھے۔

*ماہ رمضان کے قضا روزوں کے دوران۔۔ احتیاط واجب کی بناپر وہ روزے قضا کر لے زصحیح ہے۔

۲۱۰

*رمضان کے علاوہ روزوں کے قضا کے دوران ،جیسے نذر یا کفارہ کے روزے ۔روزہ صحیح ہے(١)

٣۔ اگر روزہ دار کو احتلام ہوجائے، واجب نہیں ہے فوراًغسل کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔(٢)

٤۔ اگر روزہ دار حالت جنابت میں ماہ رمضان کی شب کوجانتا ہوکہ نماز صبح سے پہلے بیدار نہیں ہوگا،تواسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوجائے اور اذان صبح سے پہلے بیدار نہ ہوسکا تو اس کا روزہ باطل ہے۔(٣)

وہ کام جو روزہ دار پر مکروہ ہیں

١۔ ہر وہ کام جو ضعف وسستی کا سبب بنے،جیسے خون دینا وغیرہ۔

٢۔ معطرنباتات کو سونگھنا (عطر لگانا مکروہ نہیں ہے)

٣۔ بدن کے لباس کو ترکرنا۔

٤۔ تر لکڑی سے مسواک کرنا۔(٤)

روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ

قضا روزہ:

اگر کوئی شخص روزہ کو اس کے وقت میں نہ رکھ سکے، اسے کسی دوسرے دن وہ روزہ رکھنا چاہئے، لہٰذا جو روزہ اس کے اصل وقت کے بعد رکھا جاتاہے '' قضا روزہ'' کہتے ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٦٢٢۔ ١٦٣٤۔ ١٦٣٦

(٢) توضیح المسائل ، م١٦٣٢

(٣)توضیح المسائل ، م ١٦٢٥

(٤)توضیح المسائل ، م ١٦٥٧

*( خوئی) اس کا روزہ باطل ہے مسئلہ ١٦٤٣( گلپائیگانی) اگر وقت میں وسعت ہوتو روزہ باطل ہے اور اگر وقت تنگ ہو تو اس دن کے روزہ کو مکمل کرے اور اس کے بدلے میں رمضان کے بعد روزہ رکھے۔ (١٦٤٣)

۲۱۱

روزہ کا کفارہ

کفارہ وہی جرمانہ ہے جو روزہ باطل کرنے کے جرم میں معین ہوا ہے جو یہ ہے:

* ایک غلام آزاد کرنا۔

*اس طرح دو مہینے روزہ رکھناکہ ٣١ روز مسلسل روزہ رکھے۔

*٦٠ فقیروںکو پیٹ بھر کے کھاناکھلانا یاہر ایک کو ایک مد *طعام دینا۔

جس پر روزہ کا کفارہ واجب ہوجائے''اسے چاہئے مندرجہ بالا تین چیزوں میں سے کسی ایک کو انجام دے۔ چونکہ آجکل'' غلام'' فقہی معنی میںنہیں پایا جاتا،لہٰذا دوسرے یا تیسرے امور انجام دیئے جائیں اگر ان میں سے کوئی ایک اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہوسکے فقیر کو کھانا کھلائے اور اگر کھانا نہیں کھلا سکتا ہو تو اس کے لئے استغفار کرنا چاہئے۔(١)

جہاں قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں

درج ذیل مواردمیں روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے:

عمداً قے کرے۔٭٭ ٢۔ماہ رمضان میں غسل جنابت کو بجالانا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک یا چند روز روزہ رکھے۔

٣۔ ماہ رمضان میں تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو، مثلاً پانی پی لے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

٤۔ کوئی یہ کہے کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے اور روزہ دار اس پر یقین کرکے ایسا کوئی کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٦٦٠۔ ١٦٦١

* یعنی ١٠سیر ( ایک سیر = ٧٥ گرام) گندم، چاول یا اس کے مانند کوئی دوسری چیز فقیر کو دیدے (توضح المسائل م ٣ ٠ ٧ ١ )

٭٭(اراکی) احتیاط واجب کی بناپر کفارہ بھی دیدے (مسئلہ ١٦٩١) (خوئی وگلپائیگانی ) کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ١٦٦٧.

۲۱۲

اگر عمداً رمضان المبارک کے روزہ نہ رکھے یا عمداً روزہ کو باطل کرے، تو قضا وکفار دونوں واجب ہیں*

* قے کرنا اور مجنب کا غسل کے لئے بیدار نہ ہونا دوسرا حکم رکھتا ہے( توضیح المسائل مسئلہ ١٦٥٨) رجوع کریں)

سبق:٣٣ کا خلاصہ

١۔ اگر روزہ دار ماہ رمضان یا رمضان کے روزوں کی قضا کے دوران صبح کی اذان تک غسل کئے بغیر جنابت کی حالت میں باقی رہے یا اس کا فریضہ تیمم ہونے کی صورت میں تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔

٢۔ اگر ماہ رمضان کے روزوں کے دوران غسل یا تیمم کو فراموش کرے اور ایک یا چند روز کے بعد یاد آئے، تو ان دنوں کے روزے قضا کرے۔

٣۔اگر روزہ دار کو دن کے دوران احتلام ہوجائے، تو فوراًغسل کرنا واجب نہیں ہے، نیز اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔

٤۔اگر ماہ رمضان کی ر ات میںمجنب یا محتلم کو معلوم ہو کہ اگر سو گیا توغسل کرنے کیلئے اذان سے پہلے بیدار نہیں ہوسکتا تو اسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوگیا اور بیدار نہ ہوا تو اس کا روزہ باطل ہے۔

٥۔معطر نباتات کو سونگھنا اور ترلباس زیب تن کرنا مکروہ ہے۔

٦۔ وقت گزرنے کے بعد رکھے جانے والے روزہ کو ''روزہ قضا'' اور عمداً روزہ نہ رکھنے کے تاوان (ہرجانہ)کو''کفارہ'' کہتے ہیں۔

٧۔ جس پر کفارہ واجب ہو، اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہئے، یا دو مہینے روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔

٨۔اگر روزہ دار عمداً قے کرے یا ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور ایک دودن روزہ رکھنے کے بعد یاد آئے تو ان دنوں کی قضا بجالائے لیکن کفارہ نہیں ہے۔

٩۔اگر تحقیق کے بغیر کھانا کھائے اس کے بعد معلوم ہوجائے کہ اذان صبح کے بعد کھایاہے، تو اس کا روزہ باطل ہے اس کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے۔

١٠۔ اگر عمداً رمضان کا روزہ نہ رکھے، تو قضا کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہے۔

۲۱۳

سوالات:

١۔ روزہ کی قضا اور اس کے کفارہ میں کیا فرق ہے۔؟

٢۔ اگر مستحبی روزہ میں صبح کی اذان تک غسل نہ کرے، تو روزہ کا کیا حکم ہے؟

٣۔ اگر ایسے وقت میں بیدار ہوجائے کہ غسل جنابت کے لئے وقت نہ ہو تو اسکی تکلیف کیا ہے۔؟

٤۔ روزہ کی حالت میں عطر لگانے کا کیا حکم ہے؟

٥۔ ایک آدمی کی گھڑی پیچھے تھی، اس کے مطابق سحری کھانے کے بعد متوجہ ہوا کہ اذان صبح کے بعد کھانا کھایا ہے، تو قضا وکفارہ کے بارے میں اس کا فرض کیا ہے؟

۲۱۴

سبق نمبر ٣٤

روزہ کی قضا اور کفارہ کے احکام

١۔ روزہ کی قضاکو فورا انجام دینا ضروری نہیں ہے، لیکن احتیاط واجب *کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالائے۔(١)

٢۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں تو انسان کسی بھی ماہ رمضان کے قضا روزے پہلے رکھ سکتا ہے ۔

البتہ اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا ًآخری ماہ رمضان کے ١٠ روزے قضا ہوں اور اگلے ماہ رمضان تک دس ہی دن باقی رہ چکے ہوں٭٭تو پہلے اسی آخری رمضان کے قضا روزے رکھے۔(٢)

٣۔ انسان کو کفارہ بجالانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اسے فورا ً

____________________

(١) العروة الوثقی، ج ٢، ص ٢٣٣ ، م١٨، تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٩٨،م ٤.

(٢)توضیح المسائل، م١٦٩٨.

* ( خوئی ۔گلپایگانی)احتیاط کے طور پر مستحب ہے العروة الوثقیٰ،ج ٢، ص ٢٣٣ م ١٨

٭٭(خوئی ۔گلپائیگانی)بہتر ہے۔ احتیاط مستحب ہے (م ١٧٠٧) (اراکی) احتیاط واجب ہے (م ١٧٣١)

۲۱۵

انجام دے۔(١)

٤۔ اگر کسی پر کفارہ واجب ہوا ہو، اسے چند برسوں تک بجانہ لائے تو اس پر کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔(٢)

٥۔ اگر کسی عذر کے سبب جیسے سفر میں روزہ نہ رکھے ہوں۔اور رمضان المبارک کے بعد عذر برطرف ہوا ہونیز اگلے رمضان تک عمدا قضا نہ کرے، تو قضا کے علاوہ، ہر دن کے عوض، فقیر کو ایک مد طعام بھی دے۔(٣)

٦۔ اگر کوئی شخص اپنے روزہ کو کسی حرام کام کے ذریعہ، جیسے استمنائسے باطل کرے، تو احتیاط واجبزکی بناپر اسے مجموعی طورپر کفارہ دینا ہے، یعنی اسے ایک بندہ آزاد کرنا، دو مہینے روزہ رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلاناہے۔ اگر تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ ہو ںتو ان تینوں میں سے جس کسی کو بھی بجالاسکے کافی ہے۔(٤)

درج ذیل موارد میں نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ:

١۔ بالغ ہونے سے پہلے نہ رکھے ہوئے روزے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٦٨٤

(٢)توضیح المسائل، م١٦٨٥

(٣) توضیح المسائل، م١٧٠٥.

(٤) توضیح المسائل، م ١٦٦٥

(٥) توضیح المسائل، م ١٦٩٤

*(اراکی۔ گلپائیگانی) کفارۂ جمع واجب ہے، (مسئلہ ١٦٩٨۔ ١٦٧٤)

۲۱۶

٢۔ایک نومسلمان کے ایام کفر کے روزے، یعنی اگر ایک کا فرمسلمان ہوجائے، تو اس کے گزشتہ روزوں کی قضا واجب نہیں ہے۔(١)

٣۔ اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو اور ماہ رمضان کے بعد بھی اس کی قضا نہ بجالاسکتا ہو*

لیکن اگر روزہ رکھنا اس کے لئے مشکل ہو تو ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دیدے۔(٢)

ماں باپ کے قضا روزے:

باپ کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ اس کے روزے اور نماز کی قضا کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کے قضا روزے اور نماز بھی بجالائے۔ ٭٭(٣)

مسافر کے روزے:

جو مسافرسفر میں چار رکعتی نماز کو دورکعتی پڑھتا ہے، اسے اس سفر میں روزے نہیں رکھنے چاہئے، لیکن ان روزوں کی قضا بجالانا چاہئے جو مسافر، سفرمیں نماز پوری پڑھتا ہے، جیسے وہ مسافرجس کا شغل(کام) سفر ہو، اسے سفر میں روزہ رکھنا چاہئے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٦٩٥

(٢)توضیح المسائل١٧٢٥،١٧٢٦.

(٣)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٢٧ م٦ ١۔ توضیح المسائل، م ١٧١٢و ٩٠ ١٣

(٤)توضیح المسائل، م ١٧١٤۔

*(گلپائیگانی) اس صورت میں بھی احتیاط لازم کے طور پر ایک مد طعام فقیر کو دیدے (م١٧٣٤)

٭٭(اراکی)ماں کے قضا روزے اور نمازیں بھی اس پر واجب ہیں. (مسئلہ ١٧٤٦) (گلپائیگانی )بنا بر احتیاط واجب،ماں کے قضا روزے اور نماز بھی بجالائے (م١٧٢١)

۲۱۷

مسافر کے روزہ کا حکم

سفر پرگیاہے:

١۔ ظہر سے پہلے مسافرت پر نکلاہے۔جیسے حد تر خص زپر پہنچ جائے اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے اگر اس سے پہلے روزہ کو باطل کرے احتیاط واجب کے طور پر کفارہ دینا چاہئے۔ **

٢۔ ظہر کے بعد مسافرت پر نکلاہے، اس کا روزہ صحیح ہے اور اسے باطل نہیں کرنا چاہئے۔

سفرسے واپس آیاہے :

١۔ قبل از ظہر اپنے وطن یا اس جگہ پہنچے جہاں دس دن رہنا چاہتا ہے:

١۔روزہ کو باطل کرنے والا کو ئی کام انجام نہیں دیا ہے اس دن کے روزہ کو آخرتک پہونچائے اور صحیح ہے۔

٢۔روزہ کو توڑ دیا ہے۔اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے لیکن اس کی قضا کرے۔

٢۔ بعد ازظہر پہنچے ۔

ا س کا روزہ باطل ہے اور اس دن کی قضا بجالائے۔(١)

نوٹ: ماہ رمضان میں سفرکرنا جائز ہے لیکن اگر روزہ سے فرار کے لئے ہو تو مکردہ ہے۔(٢)

زکات فطرہ

رمضان المبارک کے اختتام پر، یعنی عید فطر کے دن، اپنے مال کا ایک حصہ زکات فطرہ کے عنوان سے فقیرکو دیدے۔

زکات فطرہ کی مقدار:

اپنے اور ان افراد کے لئے جو اس کی کفالت میں ہیں، جیسے بیوی اوربچے، ہر فرد کے لئے ایک صاع زکات فطرہ ہے، ایک صاع: تقریباً تین کلو کے برابر ہوتا ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل م١٧١٥۔١٧٢١۔١٧٢٢۔ ١٧٢٣. (٢)توضیح المسائل، م ١٧١٥. (٣)توضیح المسائل م١٩٩١.*وضاحت : حدترحض کی بحث سبق ٢٥ میں بیان ہو ئی ہے

٭٭(خوئی : کفارہ واجب ہے ) (م، ٣٠ ١٧)

۲۱۸

زکات فطرہ کی جنس:

زکات فطرہ کی جنس، گندم، جو، خرما، کشمش، چاول، مکئی اور اس کے مانند ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی قیمت ادا کی جائے تو بھی کافی ہے۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٩٩١

۲۱۹

سبق ٣٤ کا خلاصہ

١۔ رمضان المبارک کے قضا روزے احتیاط واجب کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالانے چاہئے۔

٢۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضاہوئے ہوں تو جسے چاہئے اول بجالاسکتا ہے لیکن اگر آخری رمضان کے روزوں کا وقت تنگ ہوچکا ہوتو پہلے انہیںکو بجالائے۔

٣۔ اگر کفارہ ادا کرنے میں چندسال تاخیر ہوجائے تو اس میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔

٤۔ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوںکو اگلے رمضان تک عمداً نہ بجا لائے توقضا کے علاوہ، ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دیدے۔

٥۔اگر کوئی اپنے روزہ کو فعل حرام سے باطل کرے تو اس پر ایک ساتھ سارے کفارے واجب ہوجاتے ہیں۔

٦۔ بالغ ہونے سے پہلے کے روزوںاور ایام کفر (تازہ مسلمان) کے روزوں کی قضا نہیں ہے۔

٧۔ بڑے بیٹے کو اپنے باپ کے قضا روزے اس کی وفات کے بعد بجالانے چاہئے ۔

٨۔ جس سفر میں نماز قصر ہے، روزہ بھی باطل ہے۔

٩۔ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر پر جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔

١٠۔ اگر مسافر ظہر سے پہلے وطن یا ایسی جگہ پر پہنچے جہاں دس دن ٹھہرنا ہو تو اگر اس وقت تک کوئی ایسا کا م انجام نہ دیا ہوجس سے روزہ باطل ہوتا ہے تو اس دن کے روزہ کو آخر تک پہنچائے اور وہ صحیح ہے۔

۲۲۰

جس طرح کہ گذشتہ زمانوں میں  دولت مند  افراد اپنے مال و دولت کو حفاظت کی خاطر زمین میں دفن کر دیتے تھے مگر بعد میں نہ ہی تو وہ خود اور نہ ہی ان کی اولاد  اس مال سے کسی قسم کا استفادہ کر سکیں ۔

یہ بات واضح ہو جائے کہ بعض افراد بہت زیادہ ،روحانی طاقت کے حامل تھے نیزان کی  درک کرنے کی قوت بھی فوق العادہ تھی انہوں نے کیسے یہ طاقت وقوت حاصل کی اس کا اندازہ بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم حر ّ عاملی  کی اس گفتگو سے ہو تا ہے ۔آپ  فر ماتے ہیں :

 یہ بات واضح اور روشن ہے کہ دیکھنا اور سننا اور دیگر چیزیں جن کا سیدھا تعلق آنکھ،کان اور مربوط اعضاء سے ہے ۔آنکھ اور کان یہ دونوں چیزیں روح کے لئے وسیلہ ہیں ۔روح ان کے ذریعہ دیکھتی اور سنتی ہے ۔چونکہ روح کی طاقت قوی نہیں ہے اس لئے سماعت و بصارت اس جیسی خاص مادی چیزوں تک محدود ہے ۔

اسی وجہ سے فقط مادیات کو ہی دیکھ پاتی ہے اور روحانی مسائل کے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتی اگر انسان اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن انجام دے کر اپنی روحانی طاقت کو قوی کرلے تو مادیات اور طبیعیات سے مزید استفادہ کرنے کی استطاعت پیدا ہو جا ئے گی ۔پھر وہ اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کا مشاہدہ کرسکے گا جو دوسروں کو نہیں دکھائی دیتیں ۔ایسی صدائیں بآسانی سن سکے گا جسے دوسرے نہیں سن سکتے ۔

یہ قدرت اور غلبہ مختلف افراد میں مختلف طرح سے پا یا جاتا ہے ،اسی طرح کہ جس طرح ان کا تقرب بھی خدا کے نزدیک یکساں اور برابر نہیں ہے جو بھی عبادت ،جد وجہد اور کو شش کے ذریعہ سے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اس کے روحانی اور معنوی حالات قوی تر اورمضبوط و مستحکم ہو تے جا تے ہیں ۔اور ایسے امور میں جن میں دوسرے لوگ آنکھ اور کان سے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتے ان میں وہ قوی تر اور نہایت ہی مضبوط ہو تا ہے ۔ (۱)

--------------

[۱] ۔ الفوائد الطوسیہ، تالیف مرحوم شیخ حر ّ عاملی: ۸۲

۲۲۱

 اس بحث سے روشن ہواکہ مرحوم شیخ انصاری  جیسے افراد کیسے یہ عظیم نعمت حاصل کر لیتے ہیں ۔ لیکن دوسرے افراد یہ قدرت اور توانائی نہیں رکھتے اور ان کی نظریں اس طرح کے امور دیکھنے سے عاجز ہیں ۔

صحیح معنوں میں حالت انتظار کو حاصل کرنا ہمارے لئے ایک تحفہ ہے ۔

دیدۂ باطن چو بینا می شود

آنچہ پنہان است ، پیدا می شود

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وہ منتظرین جنھوں نے انتظار کی راہ میں چل کر اپنے آپ کو سنوارا ہے ،وہ لوگ ہو ائے نفس سے فرارا، روح  کی پرواز اور ترقی کے ساتھ نفس کے تسلط اور کنٹرول سے رہائی حاصل کرتے ہیں تو نفس کی جذابیت اور کشش میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں اپنی طرف کھینچ  لے کہ جس طرح فضا ئی راکٹ و غیرہ جب زمین کے مدار سے خارج ہو جاتا ہے تو پھر اس کو زمین کا کشش اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی ؛اگر ہم بھی تغیّر زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ہوا ئے نفسانی کے مدار سے خارج کر لیں تو نفس کی کشش و جذابیت اور شیطانی وسوسے ہمیں متأ ثر نہیں کر سکتے ۔

حضرت سلمان اور اہل بیت علیھم السلام کے دوسرے اصحاب اس طرح تھے اور وہ نفس کے دائرے سے خارج اور مادیات کی قید سے رہا ئی حاصل کر چکے تھے ۔اسی وجہ سے وہ افراد غیب کے عالم سے رابطہ بر قرار کئے ہو ئے تھے ۔جو ولایت اور قدرت و طاقت حضرت سلمان کے پاس تھی چونکہ انہوں نے نفس کے دائرے سے نکل کر اپنی ہوا ئے نفس کو تباہ و برباد کر رکھا تھا ۔اپنی خواہشات اور ارادوں پر حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ارادوں کو مسلط کر رکھا تھا اسی وجہ سے اپنی غیبی اور پوشیدہ قدرتوں اور طاقتوں سے بہرہ مند ہو کر ان سے عمل میں استفادہ کر تے تھے ۔

۲۲۲

۳۔ مقام ولایت کی معرفت

           ظہور کا انتظار ،ولایت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی قدرت اور طاقت کو منتظر شخص کے دل و جان میں استحکام پیدا کرتا ہے اور اس کو اس عقیدے پر ثابت اور استوار کرتا ہے کہ ایک دن قیناًخا نہ ٔ خدا کے پاس سے قدرت خدا امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے ہا تھوں روشن و آشکار ہو گی اور دنیا کے تمام تر جونک صفت سر کش باغیوں کو (جو ضعیفوں کا خون چوسنے میں لگے ہو ئے ہیں )ن کے ان برے اعمال کی سزا دے کر ولایت کی عظیم قدرت اور استحکام کو تمام دنیا والوں کے لئے روشن اور ثابت کریں گے کہ کوئی ایسا امامت اور ولایت کے مرتبہ کا اہل ہے جو قدرت خدا کو ظاہر اور آشکار کرسکتا ہے ۔

یہ ایک منتظر کا عقیدہ اور فکر ہے لہٰذا ظہور کا انتظار دین کے اصلی اور حقیقی عقائد اور معارف پر  اعتقاد کے ساتھ ہے ،کیونکہ انتظار، معرفت اور اعتقادات کابیج منتظرین کے ذہنوں میں بوتا ہے اور ان میں یقین اور اطمینان پیدا کر تا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پوری دنیا ولایت کی حکومت ،طاقت ،اور قوت کے کنٹرول میں آجائے گی اور ولایت کی عظیم الشان اور نا شناختہ حکومت دنیا کی تمام تر ظالم و جابر طاقتوں اور حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی اور دنیا کی یہ مادی تہذیب و تمدن ولایت الٰہی کی اس بے پناہ طاقت اور حکو مت کے سا منے تاب نہ لا تے ہو ئے مصلح جہان کے دائرے میں آجا ئے گی ۔

۲۲۳

۴۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

 مذہب تشیع کی پوری تاریخ میں متعدد افراد نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو رہنما (رہبر ) اور عوام کی اصلاح کرنے والے کے نام سے متعارف کروایا ہے ،اور اس حربے سے انسانوں کے جان ،مال اور خون کو پائمال کیا ہے اور بعض کو گمراہی کی طرف بھی کھینچ کر لے گئے ہیں ؛ لیکن وہ افراد کہ جنہوں نے صحیح طور پر اور سچے دل سے انتظار کی راہ میں قدم رکھا ہے ،اپنے وجود کو ولایت کے چمکتے ہو ئے انوار سے روشن کیا ہے وہ کبھی ان دھو کے بازوں کے دام فریب میں نہیں آتے بلکہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں ۔

برو این دام بر مرغ دگر نہ

کہ عنقا را بلند است آشیانہ

 رہزنوں اور حیلہ سازوں کی شناخت ہمیں امامت کے بلند و بالا درجہ سے آشنا ئی کی وجہ سے ہے اسی وجہ سے آب حیات کو سراب کے بدلے میں نہیں بیچتے ہیں اور خلافت کے غاصبوں کو نہیں مانتے ۔

۲۲۴

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ

منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ انتظاربا کمال منتظرین کے لئے تحفۂ خداوندی ہے یہ افراد فقط عقیدے اور اعتقاد کے لحاظ سے ہی ولایت اہل بیت علیھم السلام کے مقام و مرتبے او ر منزلت کی معرفت نہیں رکھتے بلکہ وہ خود بھی آفتاب ولایت کے چمکتے ہو ئے دریچے ہیں یعنی انتظار کی راہ میں تکامل کے اثر سے اپنی ظرفیت کی حد تک خاندان وحی علیھم السلام کے مرتبے سے معنوی اور روحی طاقتیں اور قدرتیں کسب کرتے ہیں اور ان کوجو ذمہ داریاں دی جا تی ہیں وہ انہیں  بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں ایسے افراد امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی پوری طرح مدد کرنے والے ہیںاور آنحضرت  کے مقام ولایت کی طرف سب سے آگے ہیں ۔

اب آپ اس نکتہ کی طرف توجہ فر ما ئیں، خداوند کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

(فَاسْتَبَقُو الْخَیْرٰاتِ أَیْنَ مٰا تَکُوْنُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰهُ جَمِیْعاً ) (۱)

''اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم جہاں بھی رہو گے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا ''

یہ آیت کریمہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف کے ان تین سو تیرہ صحاب کے بارے میں ہے کہ جو ظہور کے دن سب سے پہلے امام  کی خدمت میں حاضر ہوں گے ۔خداوند کریم ان سب کو اپنے بیت الشرف (کعبة اللہ) میں ولی بر حق کے ارد گرد جمع کردے گا تا کہ آنحضرت  کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور زمانے کی بدبختیوں کو ختم کردیں ۔

--------------

[۱]۔ سورۂ بقرہ ، آیت ۱۴۸

۲۲۵

 یہاں پر بعض افراد کے ذہن میں ایک بہت ہی اہم سوال آسکتا ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا کیا مطلب ہے اور حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف  کے ان تین سو تیرہ اصحاب با وفا میں  کون   کون سی ایسی خوبی ہے کہ وہ دوسروں لوگوں پر سبقت لے جا ئیں گے اور عظیم مرتبہ پر فائز ہوں گے ؟!

اگر ہم سر چشمہ وحی سے دریافت کریں تو امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث، مذکورہ آیت کی تفسیر کرتی ہے :

 ''أَلْخَیْرٰاتُ:أَلْوِلاٰیَةُ لَنٰا أَهْلَ الْبَیْتِ ''  (۱)

  ''خیرات سے مراد ہم اہل بیت  کی ولایت ہے ''

اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

 انسان ولایت کی قبولیت میں جتنی بھی کوشش کرے گا اتنی ہی اس کی روح قوی ہوتی چلی جائے گی نیز غیر معمولی طاقت کا مالک بن جائے گا ۔ پھر حسب دلخواہ وہ مادی اور غیر مادی موجودات پر بھی حکومت کر سکتا ہے جیسا کہ مرحوم علامہ بحرالعلوم کے اس  بے مثال واقعہ سے معلوم ہوتا :

--------------

[۱]۔ مرحوم نعمانی کی کتاب الغیبہ ، ص۳۱۴

۲۲۶

 مرحوم علامہ بحر العلوم  اختلافی قلب ( خفقان ) کے مریض تھے اس مرض کے ساتھ گرمیوں میں کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک مخصوص زیارت سے مشرف ہونے کی نیت سے بہت شدید گرمی والے دن نجف اشرف سے نکلے لوگوں نے تعجب کیا کہ مرض اور اس ہوا کی گرمی میں یہ کیسے سفر کریں گے ؟ !

 آپ کے ساتھ سفر کرنے والوں میں مرحوم شیخ حسین نجف بھی تھے جو سید بحر العلوم کے زمانے کے مشہور علماء میں سے تھے تمام افراد گھوڑوں پر سوار سفر کر رہے تھے ایک بادل ہوا میں دکھائی دیا جس نے ان پر سایہ کیا ، پھر سرد ہوائیں چلنے لگیں ہوا اس حد تک ٹھنڈی ہو گئی تھی جیسے یہ تمام افراد  زیر زمین راہ میں سفر کر رہے ہوں وہ بادل اس طرح ان لوگوں پر سایہ کئے ہوئے تھا یہاں تک کہ وہ کان شور کے نام سے ایک مقام کے نزدیک پہنچے وہاں پر بزرگ عالم دین شیخ حسین نجف کے جاننے والوں میں   سے کسی سے ان کی ملاقات ہو گئی اور وہ بحر العلوم سے جدا ہو گئے اور اپنے دوست سے احوال پرسی اور گفتگو میں مشغول ہو گئے اور پھر یہ بادل سید بحر العلوم کے سر پر سایہ کئے رہا یہاں تک کہ سید بحر العلوم مہمان خانے میں داخل ہو گئے چونکہ سورج کی گرمی شیخ نجف کو لگی لہٰذا ان کی حالت خراب ہو گئی اور اپنی سواری سے زمین پر گر پڑے ادھیڑ عمر یا فطرتی کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے انہیں اٹھا کر مہمان خانے میں سید بحرالعلوم کے پاس پہنچایا گیا اس کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو سید بزرگوار سے عرض کی ۔'' سیدنا لم تدرکنا الرحمة '' اے ہمارے سید و سردار رحمت نے ہمیں اپنی لپیٹ میں کیوں نہ لیا ۔ تو سید نے فرمایا:'' لم تخلفتم عنها ؟ ''

 تم نے رحمت کی مخالفت کیوں کی ؟!اس جواب میں ایک لطیف حقیقت پوشیدہ ہے ۔ (۱)

--------------

[۱] ۔ العبقریّ الحسان:۶۹۲

۲۲۷

امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب خاص کی قدرت تصرف اس حد تک ہے کہ امام کے تین سو تیرہ اصحاب خاص میں سے کچھ افراد اسرار آمیز بادلوں سے استفادہ کرتے ہیں اور ظہور کی ابتداء میں بادلوں کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پہنچا کریں گے ۔ مفضل کہتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 ''قٰالَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰهِ: اِذٰا اُذِنَ الْاِمٰامُ دَعَا اللّٰهَ بِاسْمِهِ الْعِبْرٰانِیّ فَاُتیحَتْ لَهُ صَحٰابَتُهُ الثَّلاٰثَ مِأَةِ وَ ثَلاٰثَةَ عَشَرَ قَزَع کَقَزَعِ الْخَرِیْفِ وَ هُمْ أَصْحٰابُ الْاَلْوِیَّةِ ، مِنْهُمْ مَنْ یُفْقَدُ عَنْ فِرٰاشِهِ لَیْلاً فَیُصْبَحُ بِمَکَّةَ وَ مِنْهُمْ مَنْ یُرٰی یَسِیْرُ فِی السَّحٰابِ نَهٰارًا یُعْرَفُ بِاسْمِهِ وَ اسْمِ أَبِیْهِ وَ حِلْیَتِهِ وَ نَسَبِهِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدٰاکَ أَیُّهُمْ أَعْظَمُ اِیْمٰانًا ؟ قٰالَ : اَلَّذِی یُسِیْرُ فِی السِّحٰابِ نَهٰاراً وَ هُمُ الْمَفْقُودُوْنَ وَ فِیْهِمْ نُزلَتْ هٰذِهِ الْآیَةُ ( اَیْنَمٰا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا ) ''  (۱)،(۲)

 ''جب بھی امام کو اذن ہوگاخدا کو اس کے عبری ( عبرانی زبان ) سے پکارا جائے گا اس وقت آپ کے تین سو تیرہ اصحاب خزاں کے بادل کی مانند جمع ہو جائیں گے ۔ وہی آپ کے یاور و مدد گار ہوں گے۔ان میں سے بعض رات میں اپنے بستروں سے غائب ہو جائیں گے اور صبح مکہ میں ہوں گے اور ان میں سے بعض وہہوں گیجو دن میں بادلوں میں سیر کرتے ہوئے نظر آئیں  گے اور وہ اپنے ناموں اور اپنے باپ کے نام اور اپنی صفت اور اپنی نسبتوں سے پہچانے جائیں گے ۔

 میں نے کہا: ان دو گروہوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کون سا گروہ با عظمت ہے؟

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : وہ جو دن میں بادلوں کی سیر کریں گے یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جگہوں سے غائب ہو جائیں گے ان ہی کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے : ''تم جہاں بھی رہو گے خدا ایک دن سب کو جمع کر دے گا ''

--------------

[۱]۔ سورۂ بقرہ،آیت:۱۴۸

[۲]۔ بحار الانوار ،:ج۵۲ص۳۶۸، غیبت نعمانی :۱۶۸، تفسیر عیاشی:ا  ۶۷

۲۲۸

 ظہور کے زمانے کی معرفت

ظہور کے زمانے میں دنیا کی حالت سے آشنائی اور وہ عظیم تبدیلی جو اس زمانے میں پیش آئے گی انسان کو مسئلہ انتظار کی طرف بلاتی ہے وہ حیرت انگیز تبدیلی کہ جو پوری دنیا اور تمام انسانوں میں پیدا ہوگی ۔ انسان اور دنیا کو ایک اور شکل میں جلوہ گر بنا دے گی ۔

۱۔ باطنی تطہیر

اب انسانی وجود کے نشیب و فراز میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی طرف توجہ فرمائیں ۔

اعتقادی مسائل میں سے ایک مسئلہ خصلت اور کیفیت اور پاک اور ناپاک خصلتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کا ہے ۔ اور روایات میں بھی ذکر ہوا ہے کہ (طینت) عادت، سرشت کا کیا مطلب و مقصود ہے چونکہعادتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور کس طرح پاک ہو کر ایک  دوسرے سے جدا ہوتی ہیں ؟

اس مسئلہ کی تفصیل اس  مختصر کتاب میں مناسب و ممکن نہیں ہے اس وجہ سے ہم فقط اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں : زمانۂ ظہور کی خصوصیات میں سے ملاوٹ سے خصلتوں کی پاکی ، نفس اور ضمیر کا آلودگیوں سے پاک ہونا ہے جو وجود انسانی کے نشیب و فراز میں موجود ہیں ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ حضرت بقیة اللہ  کے زمانہ ٔ  ظہور میں لوگ کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک ہو جائیں گے ؟

۲۲۹

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت کے لئے ایک داستان عرض ہے :

شیبہ بن عثمان ، حضور اکرم (ص)کا شدید ترین دشمن  تھا ۔ اس کے دل میں آنحضرت (ص)کے قتل کی آرزو تھی  اس نے جنگ حنین میں شرکت کی تاکہ حضور اکرم(ص)  کو شہید کر دے جس وقت لوگ آنحضرت(ص) کے اطراف سے ہٹ گئے اور نبی اکرم (ص)تنہا رہ گئے یہ پچھلی جانب سے آنحضرت (ص) کے نزدیک پہنچا ، لیکن آگ کا ایک شعلہ اس کی طرف بڑھا اس طرح کہ اس کو تحمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ اسی وجہ سے اپنا مقصد پورانہ کر سکا ۔

 نبی کریم  (ص) نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :

 شبیہ میرے نزدیک آجائو اس وقت حضور نبی اکرم (ص)نے اپنا دست مبارک اس کے سینے پر رکھا اس کام کے اثر سے آنحضرت (ص) نے اس کے دل میں جگہ پیدا کر لی اس طرح کہ پیغمبر اکرم (ص)اس کے نزدیک اس وقت سے محبوب ترین شخص ہو گئے اسی وقت اس نے نبی اکرم (ص)کے حضور میں مخالفین سے اس طرح سے جنگ کی کہ اگر اسی حالت میں اس کا باپ بھی مقابلے میں آجاتا تو اس کو بھی حضور نبی کرم (ص)   کی

نصرت کی خاطر قتل کر دیتا ۔(۱)

 آپ دیکھیں کس طرح پیغمبر اکرم  (ص) نے ایک نجس طینت اور آلودہ نفس انسان کو جو آپ(ص) کابد ترین دشمن  تھا ایک لمحے میں غلاظت و آلودگی سے نجات دے دی اس کو کفار کی صف سے نکال کر مومنین کے لشکر میں کھڑا کر دیا ۔

 پیغمبر اکرم  (ص) نے اپنے دست مبارک کو اس کے سینے پر پھیر نے کے ساتھ ہی اس کی عقل کو مکمل کر دیا  اور اس کی نا پسندیدہ طینت میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے اس نے ضلالت اور گمراہی سے نجات حاصل کر لی ۔

--------------

[۱]۔ سفینة البحار: ۱ ۲۰۲مادہ حبب

۲۳۰

اس مقدمہ کے بیان کے بعد زمانۂ ظہور کی تشریح یوں ہوگی کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

 ''اِذٰا قٰامَ قٰائِمُنٰا وَضَعَ یَدَهُ عَلٰی رُئُوْسِ الْعِبٰادِ ، فَجَمَعَ بِهِ عُقُوْلَهُمْ وَ اَکْمَلَ بِهِ اَخْلاٰقَهُمْ  ''  (۱)

 جس وقت ہمارا قائم قیام فرمائے گا اپنے ہاتھوں کو خدا کے بندوں کے سروں پہ رکھے گا پس اس عمل سے ان کی عقلوں کوجمع کر دیں گے اس کے سبب ان کی عقلی قوت کامل ہو جائے گی اور ان کے اخلاق کو مکمل کر دیں گے ۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس عمل سے سے لوگوں کے باطن کو پاک کر دیں گے اور خدا کے تمام بندوں کو برائیوں سے نجات بخشیں گے ۔

۲ ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

 مذکورہ روایت سے دو نہایت پرکشش نکات  سمجھ میں آتے ہیں ۔

۱۔ حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف اپنے ہاتھ کو نہ فقط اپنے اصحاب خاص کے سروں پر بلکہ تمام  بندگان خدا کے سروں پر پھریں گے یعنی وہ تمام  افراد جواس دن خدا کی بندگی کے قائل ہوں گے اگرچہ  جنگ میں آنحضرت کے اصحاب میں سے نہ بھی ہوں گے بوڑھے اور بچے سب اس عظیم نعمت کے مالک ہوں گے ۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار :ج۵۲ص۳۳۶

۲۳۱

۲ ۔ سب لوگوں کی عقلیں پراکندگی اور انتشار سے نجات پائیں گی اور سب کے سب پوری طاقت کے ساتھ فکر و عقل کا مرکز جو غیر معمولی علم و ادراک کا سر چشمہ ہوجائیں گی۔ ان کی عقلی قوت کے کامل ہو جانے کا یہ معنی ہے کہ اگر چاہیں گے تو دماغ کی تمام تر قوتوں سے فائدہ حاصل کرسکیں گے ۔

جی ہاں!جس دن خدائی ہاتھ لوگوں کے سروں پر رکھا جائے گا ، غیبت کے دوران ستم  دیدہ انسانوں پر نوازش کی جائے گی اور وہ طاقتیں جو انسانی دماغ کے اندر پوشیدہ تھیں تکامل کے اثر سے تجلی اور ظہور کریں گی نیز عالی ترین علمی اور عملی مراحل کے کمال کے ساتھ یہ حیرت انگیز دور درک کریں گے اس لئے ہم دماغی قوت اور کمال عقل کے حیرت انگیز اثرات کی زیادہ سے زیادہ آشنائی اور پہچان پیدا کریں۔

 دماغ کی اس عظیم قدرت کی وضاحتیوں ہے کہ ہر انسان عادی یا غیر عادی طور پر اپنی پوری زندگی کے دوران اپنےدماغ کی ظرفیت کا ایک اربواں حصہ بھی کام میں نہیں لاتا ۔ اگر عام  افراد یا نابغہ  افراد کے دماغ کی ظرفیت اور توانائی کا ایک اربواں حصہ کام میں لایا جائے تو وہ فرق جو ان کے اور عام لوگوں کے درمیان دیکھنے میں آئے گا ، وہ ایک بہت بڑی حیران کن کیفیت ہوگی نہ ایک چھوٹی موٹی اور عام(۱)   یعنی یہاں تک کہ نابغہ ( غیر عادی ) افراد جو فکر و عقل کی عجیب و غریب طاقت سے مالا مال ہیں ، وہ بھی فقط اپنے مغز کی کل طاقت کا ایک اربواں حصہ عمل میں لا سکتے ہیں ۔ لیکن کیسے ان کے دماغ  کے ایک اربویں  حصہ کی توانائی اور استفادہ دوسروں سے بہتر ہے ۔

--------------

[۱]۔ توانیھای خود را بشناسید : ۳۴۷

۲۳۲

 آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اس زمانے کے ایک ریاضی دان نے ایک ایسے مسئلے کو عوام کے کانوں تک پہنچایا کہ جو بہت زیادہ زیر بحث تھا ۔ اس نے ایک تخمینہ لگایا کہ ایک انسانی مغز ( ایک وقت میں ) دس معلوماتی اکائیوں کی ذخیرہ اندوزی کر سکتا ہے اگر اس رقم کو سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے دور نہیں ہوگا کہ ہم میں سے ہر ایک ماسکو میں موجودہ دنیا کی عظیم ترین لائبریری میں موجود کئی لاکھ جلد کتابیں جو تمام معلومات سے پر ہیں ، کو اپنے حافظہ میں رکھ سکتا ہے مندرجہ بالا باتیں اس طرح کے حساب میں جس کی تائید کی جا چکی ہے حیرت انگیز نظرآتی ہیں ۔ (۱)

 اب آپ توجہ فرمائیں کہ اس صورت میں جب مصلح جہان حضرت امام  مہدی  عجل اللہ فرجہ الشریف کے چمکتے ہوئے نور کی روشنی کے اثر سے انسانی مغز کی تمام قدرتیں اپنے تکامل کو پہنچ جائیں گی اور انسان اپنے مغز کی تمام تر قوت و طاقت سے نہ ایک اربویں حصے کی طاقت سے استفادہ کرے گا تو علم و تمدن پوری دنیا پرچھا جائے  گا اس وقت دنیا کا احاطہ کس طرح ہوگا ؟!

 جس زمانے میں انسان عقل کے تکامل کے اثر سے روح کی سوئی ہوئی قوتوں کو اجاگر کر لے گا اور انہیں  بیدار کرکے ان سے بہرہ مند اور مستفید ہوگا اس وقت وہ اپنے جسم کو اپنی روح کا تابع قرار دے کر قدرت روح حاصل کر سکتا ہے ۔

 یعنی اپنے مادی جسم کو توانائی اور امواج میں تبدیل کر سکتا ہے اور اس کام سے اپنے جسم کو مادیت اور جسمانیت کی حالت سے باہرنکال سکتا ہے ۔

 جس وقت انسان اس کام پر قادر ہو جاتا ہے تو اس وقت بہت سی کرامتیں جو اس کے اندر عام حالت میں موجود تھیں اس کے لئے ثابت ہو جائیں گی ۔

--------------

[۱] ۔ توانیھای خود را بشناسید :۴۴

۲۳۳

 زمانۂ غیبت میں بہت کم ایسے لوگ موجود ہیں جو طی الارض کی قدرت رکھتے ہیں ، اور اس سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے جسم سے مادی حالت اور تجسم کو چھین کر اپنے آپ کو توانائی اور امواج کی شکل میں تبدیل کر لیتے اور ایک لمحے میں اپنے آپ کو  زمین کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے میں پہنچاتیہیں اورجو لوگ یہ قدرت اور طاقت رکھتے ہیںوہ اپنے تروح یافتہ جسم کی اس جگہ راہنمائی کرتے ہیں کہ جس کا وہ ارادہ رکھتے ہیںاور وہاں پر اسے مجسم کر لیتے ہیں ۔

 ۳ ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

ظہور کے با عظمت دور میں زمین پر عظیم تبدیلیاں رونما ہوں گی اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق :( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ )  (۱) اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ہو جائے گی ۔

 زمین ایک نئے طریقے سے جدید شرائط کے ساتھ وجود میں آئے گی اور نہ فقط زمین بلکہ اس زمانے میں عظیم ، کامیاب اور تازہ تبدیلیاں رو نما ہوں گی ۔(۲)

 آج تمام دانشمند افراد اس نکتہ پر متفق ہیں کہ مادہ ارتعاش سے تشکیل پاتاہے  اور ارتعاشات کو کیبل یا لہروں کے ذریعے سے تصور یا آواز کی طرح دور دراز مقامات پر منتقل کیا جاسکتا ہےجس کے نتیجہ میں انسان کیبناوٹ وساخت( جو مادہ سے منظم ہوئی ہے) کو ارتعاش میں تبدیل کر کے الیکڑونک  کے ذریعے دنیا کے ہر حصہ تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔

--------------

[۱]۔ سورۂ ابراہیم ، آیت: ۴۸

[۲] ۔ یہ ایک روایت کی طرف اشارہ ہے جس میں فرمایا گیا:''اِذٰا اتَّسَعَ الزَّمٰان فَاَبْرٰارُ الزَّمٰانِ اُوْلٰی بهِ''بحار الانوار:ج۴۳ص۳۵۴

۲۳۴

 میرا نظریہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہاں تک کہ فضائی مسافرتوں سے بھی قبل ایسے طریقے ایجاد کئے جا سکیں گے کہ انسانی جسم کو ارتعاش کے ساتھ ذرہ ذرہ کرکے فضا میں بھیج کر اور وہاں ان  الگ  الگ ا ذرّات کو آپس میں میں جوڑا جا سکے گا ۔

اب ہمارے محترم قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انسان روح ہے اور اس کا جسم  مادہ کے ذرات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ جسے کند کرنے اور اس کے ارتعاشات کو نیچے لانے سے اپنی مرضی کی شکلوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔(۱)

 ایسے دن کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جس دن انسان اپنے جسم کو الیکٹران والے طریقہ کے مطابق تبدیل کرے گا اور اسے مذکورہ بحث کے تجربہ کے طور پر مشاہدہ میں لائے گا اس کا روائی کی ایک دور دراز مقام کی طرف رہنمائی کی جائے گی اور وہاں پر ان ایٹموں کو جمع کیا جائے گا جن سے جسم دوسری مرتبہ اپنی اصل شکل میں آجائے گا ۔(۲)

 عقلی قوتوں کے تکامل عمومی کی بنا پر جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے ، روح تمام مادہ چیزوں پر غلبہ کرے گی اور لوگ اپنے جسم پر ( حکومت ) کنٹرول حاصل کریں گے اور اس حالت سے بخوبی استفادہ کر سکیں گے اس با عظمت اور نا شناختہ دور میں لوگوں کی زندگیاں اور ان کی ضروریات مادی و سائل کے ساتھ ایک اور طرح کی ہیں ۔

 ولایت اہل بیت علیھم السلام کے ظہور کے پر تو میں انسان کا علم و دانش عظیم ترین امکانی نقطے تک پہنچ جائے گا اور انسان با آسانی علم و دانش کے تمام مراحل سے بہرہ مند ہوگا اس دن  اولیائے خداوہ رازبھی فاش کر دیںگے جو وہ عوام کے آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے چھپایا کرتے تھے اور ان کے لئے ترتیب اور تکامل کی آخری راہ کھول دیں گے شاید ہمارے لئے اس طرح کے مطالب کو قبول کرنا سخت ہو اور ہم ان تمام علمی مسائل کی  پیشرفت کو قبول نہ کر سکیں ۔

--------------

[۱]۔ روح زندہ می ماند: ۱۵۸

[۲]۔ روح زندہ می ماند: ۱۸۸

۲۳۵

  حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر انسانی دماغ شیطان کی قید سے آزاد ہو جائے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان تمام مدارج میں اس حد تک تکامل حاصل کر لیتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی راز اس سے مخفی نہیں رہ جاتا اور تمام پیچیدہ علمی مسائل کا حل نکل آتا ہے ۔

غاصبین خلافت کہ جنہوں نے آج تک اربوں افراد کو علم وکمال کے عالی ترین مراحل اور ولایت کے جگمگاتے ہوئے تمدن تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رکھا ۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے اس کلام میں کہ جو آنحضرت کے وجود کی گہرائیوں سے صادر ہوتا ہے اس طرح فرماتے ہیں :

'' یٰا کُمَیْل مٰا مِنْ عِلْمٍ اِلاّٰ وَ اَنَا اَفْتَحُهُ وَمٰا مِنْ سَرٍّ اِلاّٰ وَ الْقٰائِمُ یَخْتِمُهُ ''  (۱)

 ''اے کمیل!کوئی علم نہیں مگر یہ کہ میں نے اسے شگافتہ کیا ہو اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم   اسے اختتام کو پہنچائیں ۔''

 جی ہاں!  جب حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے ہاتھوں سے چمکتا ہوا نور دنیا کے رنجیدہ خاطر اور ستم رسیدہ عوام کی عقلوں کو کمال بخشے گا اور استفادہ کی حیرت انگیز قوت ایجاد کردے گا ۔ اس وقت انسان اپنے عقل و فہم کی  تمام قدرت کے ساتھ نہ فقط ایک اربویں حصے سے خاندان وحی  علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے رازوں کو قبول کرے گا بلکہ علم و کمال کے آخری مرحلے کو بھی حاصل کر سکے گا ۔

 اس با عظمت زمانے میں تمام تر پوشیدہ راز اور اسرار ظاہرو آشکار ہو جائیں گے ، اور اس زمانے میں تاریکیوں کا اثر تک باقی نہیں رہے گا۔

اب کیا ایسے دن کے آنے کا انتظار ہمارے دلوں کو خلوص اور پاکیزگی نہیں بخشتا ؟ !

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۲۶۹

۲۳۶

 نتیجۂ بحث

انتظار ، الٰہی حالت ہے جو امید و نجات بخش ہے، جو غیبت کے تاریک دور میں منتظرین کو  حیرت و سرگردانی کی ظلمتسے نجات بخشتا ہے  اور انہیں نور اور پاکیزہ وادی کی طرف لے جاتاہے ۔

انتظار غم زدہ لوگوں کو ایک نئی زندگی اور تازہ قوت دیتا ہے اور افسردہ دلوں کو امید دلاتا ہے۔ انتظار ، رکاوٹوں اور تاریکیوں سے پاک کر دیتا ہے اور انسانی وجود میں تکامل یافتہ چمکتے ہوئے نور کو ایجاد کرتا ہے ۔

انتظار ، شناسائیوں کے بیج اور شیعہ کے اصلی اعتقادات کو منتظرین کے دلوں میں پروان چڑھاتا ہے اور با فضیلت ترین انسانوں کے لئے کامل ترین معنوی حالات کو بعنوان ہدیہ پیش کرتاہے ۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے اندر  انتظار کو ایجاد کر کے اسے تقویت بخشیں تو ولایت کے عظیم اور عالی مقام سے انس اور محبت شروع کردیں اور انتظار کے حیرت انگیز آثار اور ان کی عادات سے آگاہی پیدا کریں اور حضرت بقیة اللہ اعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔ  ظہور کی برکتوں سے اپنے دل و جان کو آگاہ کریں تاکہ اس مبارک اور بابرکت زمانے کا انتظار ہمارے تمام تر وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے ۔

روز محشر کہ زہو لش سخنان می گویند

راست گویند ولی چون شب ہجران تونیست

۲۳۷

 نواں باب

رازداری

حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' أَنْجَحَ الْاُمُوْرُ مٰا اَحٰاطَ بِهِ الْکِتْمٰانُ''

نتیجہ بخش ترین امور وہ ہیں جو پوشیدہ ہوں۔

    کتمان راز

    بزرگوں کی رازداری

    راز کی حفاظت کرنا نہ کہ خیالات کو چھپانا

    اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

    کرامت اور روحانی قدرت کو چھپانا

    مرحوم شیخ انصاری کی ایک کرامت

    راز فاش کرنے کے نقصانات

    نتیجہ ٔ بحث

۲۳۸

کتمان راز

خدا کے حقیقی بندے ،خود ساختہ اور مہذب افراد اپنے اخلاص اور اصلاح نفس کی وجہ سے اپنے رفتار و کردار اور دوسری شائستگی میں خلقت کائنات کے اسرار سے آشنائی حاصل کرکے نظام خلقت کے کچھ انجانے رموز سے آگاہ ہوتے ہیں۔

اہلبیت علیھم السلام کے زمانۂ حضور میں ایسے اسرار ان ہستیوں کے ذریعے رحمانی الہامت کے توسط سے سکھائے گئے ۔یہ بزرگ ہستیاںاپنے اصحاب اور قریبی افراد کوایسے مسائل کی تعلیم دیتے اور انہیں اس کی حفاظت کا حکم دیتے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے ایک مفصل روایت کے ضمن میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا:

 ''یٰا جٰابِرُ اُکْتُمْ مٰا تَسْمَعُ فَاِنَّهُ مِنْ سَرٰائِرِ اللّٰهِ'' (۱)

  اے جابر!تم جو کچھ سنتے ہو اسے چھپاؤ کیونکہ وہ اسرار خدا میں سے ہیں۔

 اس بنیاد پر جابر اور دوسری بزرگ شخصیات کہ جنہیں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اسرار و معارف تعلیم فرمائے ،وہ اسرار کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے۔ایسے مسائل کی حفاظت ان کیلئے بہت مشکل تھی جس کے لئے انہوں نے بڑی زحمتیں برداشت کیں۔اسی وجہ سے اس موضوع کے بارے میں حضرت امام جعفر

صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:

''کِتْمٰانُ سِرِّنٰا جِهٰاد فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ'' (۲)

--------------

[۱]۔ بحار الانوار :ج۳۵ص۱۰۳

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۷۰

۲۳۹

ایک دوسری روایت میں آپ فرماتے ہیں:

 ''مَنْ کَتَمَ الصَّعْبَ مِنْ حَدِیْثِنٰا جَعَلَهُ اللّٰهُ نُوْراً بَیْنَ عَیْنِهِ وَ رَزَقَهُ اللّٰهُ الْعِزَّةَ فِی  النّٰاسِ'' (۱)

 جو کوئی ہماری سخت گفتار کو مخفی رکھے خدا وند اسے دو آنکھوں کے درمیاں نور کی طرح قرار دے گا اور لوگوں میں اسے عزت و احترام عطا کرے گا۔

 راز کو چھپانے کے لئے ہر موضوع کو غور و فکر کے بعد بیان کیا جائے اورغور و فکرکے بغیر افکار کو زبان پر نہ لایا جائے ۔اگر انسان سوچے اور سوچنے کے بعد بولے تو اسے اپنی باتوں پر  پشیمانی نہیں ہو گی۔کیونکہ تفکر اور تأمل سے کچھ راز مخفی رہ جائیں تو وہ مخفی ہی رہ جاتے ہیں۔کیونکہ سوچنے سے انسان کے لئے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔

 حضرت امیر المؤمنین  علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ''لاٰ تَقُلْ مٰا لاٰ تَعْلَمْ  بَلْ لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ'' (۲)

           جو بات نہیں جانتے وہ نہ کہو بلکہ  ہر جاننے والی بات بھی نہ کہو۔

           کیونکہ کسی بھی چیز کو جاننا اسے بیان کرنے کی دلیل نہیں ہے۔کیونکہ بہت ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانتے تو ہیں لیکن وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔اس بناء پر ایسی باتوں کو بیان کرنے میں اپنی اور دوسروں کی عمر ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔انسان کی کچھ معلومات مفید ہوتی ہیں لیکن لوگوں کا ظرف انہیں ہضم نہیں کر سکتا ۔ایسے مطالب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسے مطالب کے بیان سے دوسروں کے اظہار یا انکارکے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار :ج۲۵ص۳۸۱،اختصاص:۳۲۱

[۲]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۲۲

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273