کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار14%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123895 / ڈاؤنلوڈ: 5401
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

جس طرح کہ گذشتہ زمانوں میں  دولت مند  افراد اپنے مال و دولت کو حفاظت کی خاطر زمین میں دفن کر دیتے تھے مگر بعد میں نہ ہی تو وہ خود اور نہ ہی ان کی اولاد  اس مال سے کسی قسم کا استفادہ کر سکیں ۔

یہ بات واضح ہو جائے کہ بعض افراد بہت زیادہ ،روحانی طاقت کے حامل تھے نیزان کی  درک کرنے کی قوت بھی فوق العادہ تھی انہوں نے کیسے یہ طاقت وقوت حاصل کی اس کا اندازہ بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم حر ّ عاملی  کی اس گفتگو سے ہو تا ہے ۔آپ  فر ماتے ہیں :

 یہ بات واضح اور روشن ہے کہ دیکھنا اور سننا اور دیگر چیزیں جن کا سیدھا تعلق آنکھ،کان اور مربوط اعضاء سے ہے ۔آنکھ اور کان یہ دونوں چیزیں روح کے لئے وسیلہ ہیں ۔روح ان کے ذریعہ دیکھتی اور سنتی ہے ۔چونکہ روح کی طاقت قوی نہیں ہے اس لئے سماعت و بصارت اس جیسی خاص مادی چیزوں تک محدود ہے ۔

اسی وجہ سے فقط مادیات کو ہی دیکھ پاتی ہے اور روحانی مسائل کے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتی اگر انسان اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن انجام دے کر اپنی روحانی طاقت کو قوی کرلے تو مادیات اور طبیعیات سے مزید استفادہ کرنے کی استطاعت پیدا ہو جا ئے گی ۔پھر وہ اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کا مشاہدہ کرسکے گا جو دوسروں کو نہیں دکھائی دیتیں ۔ایسی صدائیں بآسانی سن سکے گا جسے دوسرے نہیں سن سکتے ۔

یہ قدرت اور غلبہ مختلف افراد میں مختلف طرح سے پا یا جاتا ہے ،اسی طرح کہ جس طرح ان کا تقرب بھی خدا کے نزدیک یکساں اور برابر نہیں ہے جو بھی عبادت ،جد وجہد اور کو شش کے ذریعہ سے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اس کے روحانی اور معنوی حالات قوی تر اورمضبوط و مستحکم ہو تے جا تے ہیں ۔اور ایسے امور میں جن میں دوسرے لوگ آنکھ اور کان سے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتے ان میں وہ قوی تر اور نہایت ہی مضبوط ہو تا ہے ۔ (۱)

--------------

[۱] ۔ الفوائد الطوسیہ، تالیف مرحوم شیخ حر ّ عاملی: ۸۲

۲۲۱

 اس بحث سے روشن ہواکہ مرحوم شیخ انصاری  جیسے افراد کیسے یہ عظیم نعمت حاصل کر لیتے ہیں ۔ لیکن دوسرے افراد یہ قدرت اور توانائی نہیں رکھتے اور ان کی نظریں اس طرح کے امور دیکھنے سے عاجز ہیں ۔

صحیح معنوں میں حالت انتظار کو حاصل کرنا ہمارے لئے ایک تحفہ ہے ۔

دیدۂ باطن چو بینا می شود

آنچہ پنہان است ، پیدا می شود

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وہ منتظرین جنھوں نے انتظار کی راہ میں چل کر اپنے آپ کو سنوارا ہے ،وہ لوگ ہو ائے نفس سے فرارا، روح  کی پرواز اور ترقی کے ساتھ نفس کے تسلط اور کنٹرول سے رہائی حاصل کرتے ہیں تو نفس کی جذابیت اور کشش میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں اپنی طرف کھینچ  لے کہ جس طرح فضا ئی راکٹ و غیرہ جب زمین کے مدار سے خارج ہو جاتا ہے تو پھر اس کو زمین کا کشش اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی ؛اگر ہم بھی تغیّر زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ہوا ئے نفسانی کے مدار سے خارج کر لیں تو نفس کی کشش و جذابیت اور شیطانی وسوسے ہمیں متأ ثر نہیں کر سکتے ۔

حضرت سلمان اور اہل بیت علیھم السلام کے دوسرے اصحاب اس طرح تھے اور وہ نفس کے دائرے سے خارج اور مادیات کی قید سے رہا ئی حاصل کر چکے تھے ۔اسی وجہ سے وہ افراد غیب کے عالم سے رابطہ بر قرار کئے ہو ئے تھے ۔جو ولایت اور قدرت و طاقت حضرت سلمان کے پاس تھی چونکہ انہوں نے نفس کے دائرے سے نکل کر اپنی ہوا ئے نفس کو تباہ و برباد کر رکھا تھا ۔اپنی خواہشات اور ارادوں پر حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ارادوں کو مسلط کر رکھا تھا اسی وجہ سے اپنی غیبی اور پوشیدہ قدرتوں اور طاقتوں سے بہرہ مند ہو کر ان سے عمل میں استفادہ کر تے تھے ۔

۲۲۲

۳۔ مقام ولایت کی معرفت

           ظہور کا انتظار ،ولایت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی قدرت اور طاقت کو منتظر شخص کے دل و جان میں استحکام پیدا کرتا ہے اور اس کو اس عقیدے پر ثابت اور استوار کرتا ہے کہ ایک دن قیناًخا نہ ٔ خدا کے پاس سے قدرت خدا امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے ہا تھوں روشن و آشکار ہو گی اور دنیا کے تمام تر جونک صفت سر کش باغیوں کو (جو ضعیفوں کا خون چوسنے میں لگے ہو ئے ہیں )ن کے ان برے اعمال کی سزا دے کر ولایت کی عظیم قدرت اور استحکام کو تمام دنیا والوں کے لئے روشن اور ثابت کریں گے کہ کوئی ایسا امامت اور ولایت کے مرتبہ کا اہل ہے جو قدرت خدا کو ظاہر اور آشکار کرسکتا ہے ۔

یہ ایک منتظر کا عقیدہ اور فکر ہے لہٰذا ظہور کا انتظار دین کے اصلی اور حقیقی عقائد اور معارف پر  اعتقاد کے ساتھ ہے ،کیونکہ انتظار، معرفت اور اعتقادات کابیج منتظرین کے ذہنوں میں بوتا ہے اور ان میں یقین اور اطمینان پیدا کر تا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پوری دنیا ولایت کی حکومت ،طاقت ،اور قوت کے کنٹرول میں آجائے گی اور ولایت کی عظیم الشان اور نا شناختہ حکومت دنیا کی تمام تر ظالم و جابر طاقتوں اور حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی اور دنیا کی یہ مادی تہذیب و تمدن ولایت الٰہی کی اس بے پناہ طاقت اور حکو مت کے سا منے تاب نہ لا تے ہو ئے مصلح جہان کے دائرے میں آجا ئے گی ۔

۲۲۳

۴۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

 مذہب تشیع کی پوری تاریخ میں متعدد افراد نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو رہنما (رہبر ) اور عوام کی اصلاح کرنے والے کے نام سے متعارف کروایا ہے ،اور اس حربے سے انسانوں کے جان ،مال اور خون کو پائمال کیا ہے اور بعض کو گمراہی کی طرف بھی کھینچ کر لے گئے ہیں ؛ لیکن وہ افراد کہ جنہوں نے صحیح طور پر اور سچے دل سے انتظار کی راہ میں قدم رکھا ہے ،اپنے وجود کو ولایت کے چمکتے ہو ئے انوار سے روشن کیا ہے وہ کبھی ان دھو کے بازوں کے دام فریب میں نہیں آتے بلکہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں ۔

برو این دام بر مرغ دگر نہ

کہ عنقا را بلند است آشیانہ

 رہزنوں اور حیلہ سازوں کی شناخت ہمیں امامت کے بلند و بالا درجہ سے آشنا ئی کی وجہ سے ہے اسی وجہ سے آب حیات کو سراب کے بدلے میں نہیں بیچتے ہیں اور خلافت کے غاصبوں کو نہیں مانتے ۔

۲۲۴

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ

منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ انتظاربا کمال منتظرین کے لئے تحفۂ خداوندی ہے یہ افراد فقط عقیدے اور اعتقاد کے لحاظ سے ہی ولایت اہل بیت علیھم السلام کے مقام و مرتبے او ر منزلت کی معرفت نہیں رکھتے بلکہ وہ خود بھی آفتاب ولایت کے چمکتے ہو ئے دریچے ہیں یعنی انتظار کی راہ میں تکامل کے اثر سے اپنی ظرفیت کی حد تک خاندان وحی علیھم السلام کے مرتبے سے معنوی اور روحی طاقتیں اور قدرتیں کسب کرتے ہیں اور ان کوجو ذمہ داریاں دی جا تی ہیں وہ انہیں  بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں ایسے افراد امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی پوری طرح مدد کرنے والے ہیںاور آنحضرت  کے مقام ولایت کی طرف سب سے آگے ہیں ۔

اب آپ اس نکتہ کی طرف توجہ فر ما ئیں، خداوند کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

(فَاسْتَبَقُو الْخَیْرٰاتِ أَیْنَ مٰا تَکُوْنُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰهُ جَمِیْعاً ) (۱)

''اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم جہاں بھی رہو گے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا ''

یہ آیت کریمہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف کے ان تین سو تیرہ صحاب کے بارے میں ہے کہ جو ظہور کے دن سب سے پہلے امام  کی خدمت میں حاضر ہوں گے ۔خداوند کریم ان سب کو اپنے بیت الشرف (کعبة اللہ) میں ولی بر حق کے ارد گرد جمع کردے گا تا کہ آنحضرت  کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور زمانے کی بدبختیوں کو ختم کردیں ۔

--------------

[۱]۔ سورۂ بقرہ ، آیت ۱۴۸

۲۲۵

 یہاں پر بعض افراد کے ذہن میں ایک بہت ہی اہم سوال آسکتا ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا کیا مطلب ہے اور حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف  کے ان تین سو تیرہ اصحاب با وفا میں  کون   کون سی ایسی خوبی ہے کہ وہ دوسروں لوگوں پر سبقت لے جا ئیں گے اور عظیم مرتبہ پر فائز ہوں گے ؟!

اگر ہم سر چشمہ وحی سے دریافت کریں تو امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث، مذکورہ آیت کی تفسیر کرتی ہے :

 ''أَلْخَیْرٰاتُ:أَلْوِلاٰیَةُ لَنٰا أَهْلَ الْبَیْتِ ''  (۱)

  ''خیرات سے مراد ہم اہل بیت  کی ولایت ہے ''

اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

 انسان ولایت کی قبولیت میں جتنی بھی کوشش کرے گا اتنی ہی اس کی روح قوی ہوتی چلی جائے گی نیز غیر معمولی طاقت کا مالک بن جائے گا ۔ پھر حسب دلخواہ وہ مادی اور غیر مادی موجودات پر بھی حکومت کر سکتا ہے جیسا کہ مرحوم علامہ بحرالعلوم کے اس  بے مثال واقعہ سے معلوم ہوتا :

--------------

[۱]۔ مرحوم نعمانی کی کتاب الغیبہ ، ص۳۱۴

۲۲۶

 مرحوم علامہ بحر العلوم  اختلافی قلب ( خفقان ) کے مریض تھے اس مرض کے ساتھ گرمیوں میں کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک مخصوص زیارت سے مشرف ہونے کی نیت سے بہت شدید گرمی والے دن نجف اشرف سے نکلے لوگوں نے تعجب کیا کہ مرض اور اس ہوا کی گرمی میں یہ کیسے سفر کریں گے ؟ !

 آپ کے ساتھ سفر کرنے والوں میں مرحوم شیخ حسین نجف بھی تھے جو سید بحر العلوم کے زمانے کے مشہور علماء میں سے تھے تمام افراد گھوڑوں پر سوار سفر کر رہے تھے ایک بادل ہوا میں دکھائی دیا جس نے ان پر سایہ کیا ، پھر سرد ہوائیں چلنے لگیں ہوا اس حد تک ٹھنڈی ہو گئی تھی جیسے یہ تمام افراد  زیر زمین راہ میں سفر کر رہے ہوں وہ بادل اس طرح ان لوگوں پر سایہ کئے ہوئے تھا یہاں تک کہ وہ کان شور کے نام سے ایک مقام کے نزدیک پہنچے وہاں پر بزرگ عالم دین شیخ حسین نجف کے جاننے والوں میں   سے کسی سے ان کی ملاقات ہو گئی اور وہ بحر العلوم سے جدا ہو گئے اور اپنے دوست سے احوال پرسی اور گفتگو میں مشغول ہو گئے اور پھر یہ بادل سید بحر العلوم کے سر پر سایہ کئے رہا یہاں تک کہ سید بحر العلوم مہمان خانے میں داخل ہو گئے چونکہ سورج کی گرمی شیخ نجف کو لگی لہٰذا ان کی حالت خراب ہو گئی اور اپنی سواری سے زمین پر گر پڑے ادھیڑ عمر یا فطرتی کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے انہیں اٹھا کر مہمان خانے میں سید بحرالعلوم کے پاس پہنچایا گیا اس کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو سید بزرگوار سے عرض کی ۔'' سیدنا لم تدرکنا الرحمة '' اے ہمارے سید و سردار رحمت نے ہمیں اپنی لپیٹ میں کیوں نہ لیا ۔ تو سید نے فرمایا:'' لم تخلفتم عنها ؟ ''

 تم نے رحمت کی مخالفت کیوں کی ؟!اس جواب میں ایک لطیف حقیقت پوشیدہ ہے ۔ (۱)

--------------

[۱] ۔ العبقریّ الحسان:۶۹۲

۲۲۷

امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب خاص کی قدرت تصرف اس حد تک ہے کہ امام کے تین سو تیرہ اصحاب خاص میں سے کچھ افراد اسرار آمیز بادلوں سے استفادہ کرتے ہیں اور ظہور کی ابتداء میں بادلوں کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پہنچا کریں گے ۔ مفضل کہتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 ''قٰالَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰهِ: اِذٰا اُذِنَ الْاِمٰامُ دَعَا اللّٰهَ بِاسْمِهِ الْعِبْرٰانِیّ فَاُتیحَتْ لَهُ صَحٰابَتُهُ الثَّلاٰثَ مِأَةِ وَ ثَلاٰثَةَ عَشَرَ قَزَع کَقَزَعِ الْخَرِیْفِ وَ هُمْ أَصْحٰابُ الْاَلْوِیَّةِ ، مِنْهُمْ مَنْ یُفْقَدُ عَنْ فِرٰاشِهِ لَیْلاً فَیُصْبَحُ بِمَکَّةَ وَ مِنْهُمْ مَنْ یُرٰی یَسِیْرُ فِی السَّحٰابِ نَهٰارًا یُعْرَفُ بِاسْمِهِ وَ اسْمِ أَبِیْهِ وَ حِلْیَتِهِ وَ نَسَبِهِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدٰاکَ أَیُّهُمْ أَعْظَمُ اِیْمٰانًا ؟ قٰالَ : اَلَّذِی یُسِیْرُ فِی السِّحٰابِ نَهٰاراً وَ هُمُ الْمَفْقُودُوْنَ وَ فِیْهِمْ نُزلَتْ هٰذِهِ الْآیَةُ ( اَیْنَمٰا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا ) ''  (۱)،(۲)

 ''جب بھی امام کو اذن ہوگاخدا کو اس کے عبری ( عبرانی زبان ) سے پکارا جائے گا اس وقت آپ کے تین سو تیرہ اصحاب خزاں کے بادل کی مانند جمع ہو جائیں گے ۔ وہی آپ کے یاور و مدد گار ہوں گے۔ان میں سے بعض رات میں اپنے بستروں سے غائب ہو جائیں گے اور صبح مکہ میں ہوں گے اور ان میں سے بعض وہہوں گیجو دن میں بادلوں میں سیر کرتے ہوئے نظر آئیں  گے اور وہ اپنے ناموں اور اپنے باپ کے نام اور اپنی صفت اور اپنی نسبتوں سے پہچانے جائیں گے ۔

 میں نے کہا: ان دو گروہوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کون سا گروہ با عظمت ہے؟

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : وہ جو دن میں بادلوں کی سیر کریں گے یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جگہوں سے غائب ہو جائیں گے ان ہی کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے : ''تم جہاں بھی رہو گے خدا ایک دن سب کو جمع کر دے گا ''

--------------

[۱]۔ سورۂ بقرہ،آیت:۱۴۸

[۲]۔ بحار الانوار ،:ج۵۲ص۳۶۸، غیبت نعمانی :۱۶۸، تفسیر عیاشی:ا  ۶۷

۲۲۸

 ظہور کے زمانے کی معرفت

ظہور کے زمانے میں دنیا کی حالت سے آشنائی اور وہ عظیم تبدیلی جو اس زمانے میں پیش آئے گی انسان کو مسئلہ انتظار کی طرف بلاتی ہے وہ حیرت انگیز تبدیلی کہ جو پوری دنیا اور تمام انسانوں میں پیدا ہوگی ۔ انسان اور دنیا کو ایک اور شکل میں جلوہ گر بنا دے گی ۔

۱۔ باطنی تطہیر

اب انسانی وجود کے نشیب و فراز میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی طرف توجہ فرمائیں ۔

اعتقادی مسائل میں سے ایک مسئلہ خصلت اور کیفیت اور پاک اور ناپاک خصلتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کا ہے ۔ اور روایات میں بھی ذکر ہوا ہے کہ (طینت) عادت، سرشت کا کیا مطلب و مقصود ہے چونکہعادتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور کس طرح پاک ہو کر ایک  دوسرے سے جدا ہوتی ہیں ؟

اس مسئلہ کی تفصیل اس  مختصر کتاب میں مناسب و ممکن نہیں ہے اس وجہ سے ہم فقط اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں : زمانۂ ظہور کی خصوصیات میں سے ملاوٹ سے خصلتوں کی پاکی ، نفس اور ضمیر کا آلودگیوں سے پاک ہونا ہے جو وجود انسانی کے نشیب و فراز میں موجود ہیں ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ حضرت بقیة اللہ  کے زمانہ ٔ  ظہور میں لوگ کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک ہو جائیں گے ؟

۲۲۹

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت کے لئے ایک داستان عرض ہے :

شیبہ بن عثمان ، حضور اکرم (ص)کا شدید ترین دشمن  تھا ۔ اس کے دل میں آنحضرت (ص)کے قتل کی آرزو تھی  اس نے جنگ حنین میں شرکت کی تاکہ حضور اکرم(ص)  کو شہید کر دے جس وقت لوگ آنحضرت(ص) کے اطراف سے ہٹ گئے اور نبی اکرم (ص)تنہا رہ گئے یہ پچھلی جانب سے آنحضرت (ص) کے نزدیک پہنچا ، لیکن آگ کا ایک شعلہ اس کی طرف بڑھا اس طرح کہ اس کو تحمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ اسی وجہ سے اپنا مقصد پورانہ کر سکا ۔

 نبی کریم  (ص) نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :

 شبیہ میرے نزدیک آجائو اس وقت حضور نبی اکرم (ص)نے اپنا دست مبارک اس کے سینے پر رکھا اس کام کے اثر سے آنحضرت (ص) نے اس کے دل میں جگہ پیدا کر لی اس طرح کہ پیغمبر اکرم (ص)اس کے نزدیک اس وقت سے محبوب ترین شخص ہو گئے اسی وقت اس نے نبی اکرم (ص)کے حضور میں مخالفین سے اس طرح سے جنگ کی کہ اگر اسی حالت میں اس کا باپ بھی مقابلے میں آجاتا تو اس کو بھی حضور نبی کرم (ص)   کی

نصرت کی خاطر قتل کر دیتا ۔(۱)

 آپ دیکھیں کس طرح پیغمبر اکرم  (ص) نے ایک نجس طینت اور آلودہ نفس انسان کو جو آپ(ص) کابد ترین دشمن  تھا ایک لمحے میں غلاظت و آلودگی سے نجات دے دی اس کو کفار کی صف سے نکال کر مومنین کے لشکر میں کھڑا کر دیا ۔

 پیغمبر اکرم  (ص) نے اپنے دست مبارک کو اس کے سینے پر پھیر نے کے ساتھ ہی اس کی عقل کو مکمل کر دیا  اور اس کی نا پسندیدہ طینت میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے اس نے ضلالت اور گمراہی سے نجات حاصل کر لی ۔

--------------

[۱]۔ سفینة البحار: ۱ ۲۰۲مادہ حبب

۲۳۰

اس مقدمہ کے بیان کے بعد زمانۂ ظہور کی تشریح یوں ہوگی کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

 ''اِذٰا قٰامَ قٰائِمُنٰا وَضَعَ یَدَهُ عَلٰی رُئُوْسِ الْعِبٰادِ ، فَجَمَعَ بِهِ عُقُوْلَهُمْ وَ اَکْمَلَ بِهِ اَخْلاٰقَهُمْ  ''  (۱)

 جس وقت ہمارا قائم قیام فرمائے گا اپنے ہاتھوں کو خدا کے بندوں کے سروں پہ رکھے گا پس اس عمل سے ان کی عقلوں کوجمع کر دیں گے اس کے سبب ان کی عقلی قوت کامل ہو جائے گی اور ان کے اخلاق کو مکمل کر دیں گے ۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس عمل سے سے لوگوں کے باطن کو پاک کر دیں گے اور خدا کے تمام بندوں کو برائیوں سے نجات بخشیں گے ۔

۲ ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

 مذکورہ روایت سے دو نہایت پرکشش نکات  سمجھ میں آتے ہیں ۔

۱۔ حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف اپنے ہاتھ کو نہ فقط اپنے اصحاب خاص کے سروں پر بلکہ تمام  بندگان خدا کے سروں پر پھریں گے یعنی وہ تمام  افراد جواس دن خدا کی بندگی کے قائل ہوں گے اگرچہ  جنگ میں آنحضرت کے اصحاب میں سے نہ بھی ہوں گے بوڑھے اور بچے سب اس عظیم نعمت کے مالک ہوں گے ۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار :ج۵۲ص۳۳۶

۲۳۱

۲ ۔ سب لوگوں کی عقلیں پراکندگی اور انتشار سے نجات پائیں گی اور سب کے سب پوری طاقت کے ساتھ فکر و عقل کا مرکز جو غیر معمولی علم و ادراک کا سر چشمہ ہوجائیں گی۔ ان کی عقلی قوت کے کامل ہو جانے کا یہ معنی ہے کہ اگر چاہیں گے تو دماغ کی تمام تر قوتوں سے فائدہ حاصل کرسکیں گے ۔

جی ہاں!جس دن خدائی ہاتھ لوگوں کے سروں پر رکھا جائے گا ، غیبت کے دوران ستم  دیدہ انسانوں پر نوازش کی جائے گی اور وہ طاقتیں جو انسانی دماغ کے اندر پوشیدہ تھیں تکامل کے اثر سے تجلی اور ظہور کریں گی نیز عالی ترین علمی اور عملی مراحل کے کمال کے ساتھ یہ حیرت انگیز دور درک کریں گے اس لئے ہم دماغی قوت اور کمال عقل کے حیرت انگیز اثرات کی زیادہ سے زیادہ آشنائی اور پہچان پیدا کریں۔

 دماغ کی اس عظیم قدرت کی وضاحتیوں ہے کہ ہر انسان عادی یا غیر عادی طور پر اپنی پوری زندگی کے دوران اپنےدماغ کی ظرفیت کا ایک اربواں حصہ بھی کام میں نہیں لاتا ۔ اگر عام  افراد یا نابغہ  افراد کے دماغ کی ظرفیت اور توانائی کا ایک اربواں حصہ کام میں لایا جائے تو وہ فرق جو ان کے اور عام لوگوں کے درمیان دیکھنے میں آئے گا ، وہ ایک بہت بڑی حیران کن کیفیت ہوگی نہ ایک چھوٹی موٹی اور عام(۱)   یعنی یہاں تک کہ نابغہ ( غیر عادی ) افراد جو فکر و عقل کی عجیب و غریب طاقت سے مالا مال ہیں ، وہ بھی فقط اپنے مغز کی کل طاقت کا ایک اربواں حصہ عمل میں لا سکتے ہیں ۔ لیکن کیسے ان کے دماغ  کے ایک اربویں  حصہ کی توانائی اور استفادہ دوسروں سے بہتر ہے ۔

--------------

[۱]۔ توانیھای خود را بشناسید : ۳۴۷

۲۳۲

 آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اس زمانے کے ایک ریاضی دان نے ایک ایسے مسئلے کو عوام کے کانوں تک پہنچایا کہ جو بہت زیادہ زیر بحث تھا ۔ اس نے ایک تخمینہ لگایا کہ ایک انسانی مغز ( ایک وقت میں ) دس معلوماتی اکائیوں کی ذخیرہ اندوزی کر سکتا ہے اگر اس رقم کو سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے دور نہیں ہوگا کہ ہم میں سے ہر ایک ماسکو میں موجودہ دنیا کی عظیم ترین لائبریری میں موجود کئی لاکھ جلد کتابیں جو تمام معلومات سے پر ہیں ، کو اپنے حافظہ میں رکھ سکتا ہے مندرجہ بالا باتیں اس طرح کے حساب میں جس کی تائید کی جا چکی ہے حیرت انگیز نظرآتی ہیں ۔ (۱)

 اب آپ توجہ فرمائیں کہ اس صورت میں جب مصلح جہان حضرت امام  مہدی  عجل اللہ فرجہ الشریف کے چمکتے ہوئے نور کی روشنی کے اثر سے انسانی مغز کی تمام قدرتیں اپنے تکامل کو پہنچ جائیں گی اور انسان اپنے مغز کی تمام تر قوت و طاقت سے نہ ایک اربویں حصے کی طاقت سے استفادہ کرے گا تو علم و تمدن پوری دنیا پرچھا جائے  گا اس وقت دنیا کا احاطہ کس طرح ہوگا ؟!

 جس زمانے میں انسان عقل کے تکامل کے اثر سے روح کی سوئی ہوئی قوتوں کو اجاگر کر لے گا اور انہیں  بیدار کرکے ان سے بہرہ مند اور مستفید ہوگا اس وقت وہ اپنے جسم کو اپنی روح کا تابع قرار دے کر قدرت روح حاصل کر سکتا ہے ۔

 یعنی اپنے مادی جسم کو توانائی اور امواج میں تبدیل کر سکتا ہے اور اس کام سے اپنے جسم کو مادیت اور جسمانیت کی حالت سے باہرنکال سکتا ہے ۔

 جس وقت انسان اس کام پر قادر ہو جاتا ہے تو اس وقت بہت سی کرامتیں جو اس کے اندر عام حالت میں موجود تھیں اس کے لئے ثابت ہو جائیں گی ۔

--------------

[۱] ۔ توانیھای خود را بشناسید :۴۴

۲۳۳

 زمانۂ غیبت میں بہت کم ایسے لوگ موجود ہیں جو طی الارض کی قدرت رکھتے ہیں ، اور اس سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے جسم سے مادی حالت اور تجسم کو چھین کر اپنے آپ کو توانائی اور امواج کی شکل میں تبدیل کر لیتے اور ایک لمحے میں اپنے آپ کو  زمین کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے میں پہنچاتیہیں اورجو لوگ یہ قدرت اور طاقت رکھتے ہیںوہ اپنے تروح یافتہ جسم کی اس جگہ راہنمائی کرتے ہیں کہ جس کا وہ ارادہ رکھتے ہیںاور وہاں پر اسے مجسم کر لیتے ہیں ۔

 ۳ ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

ظہور کے با عظمت دور میں زمین پر عظیم تبدیلیاں رونما ہوں گی اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق :( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ )  (۱) اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ہو جائے گی ۔

 زمین ایک نئے طریقے سے جدید شرائط کے ساتھ وجود میں آئے گی اور نہ فقط زمین بلکہ اس زمانے میں عظیم ، کامیاب اور تازہ تبدیلیاں رو نما ہوں گی ۔(۲)

 آج تمام دانشمند افراد اس نکتہ پر متفق ہیں کہ مادہ ارتعاش سے تشکیل پاتاہے  اور ارتعاشات کو کیبل یا لہروں کے ذریعے سے تصور یا آواز کی طرح دور دراز مقامات پر منتقل کیا جاسکتا ہےجس کے نتیجہ میں انسان کیبناوٹ وساخت( جو مادہ سے منظم ہوئی ہے) کو ارتعاش میں تبدیل کر کے الیکڑونک  کے ذریعے دنیا کے ہر حصہ تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔

--------------

[۱]۔ سورۂ ابراہیم ، آیت: ۴۸

[۲] ۔ یہ ایک روایت کی طرف اشارہ ہے جس میں فرمایا گیا:''اِذٰا اتَّسَعَ الزَّمٰان فَاَبْرٰارُ الزَّمٰانِ اُوْلٰی بهِ''بحار الانوار:ج۴۳ص۳۵۴

۲۳۴

 میرا نظریہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہاں تک کہ فضائی مسافرتوں سے بھی قبل ایسے طریقے ایجاد کئے جا سکیں گے کہ انسانی جسم کو ارتعاش کے ساتھ ذرہ ذرہ کرکے فضا میں بھیج کر اور وہاں ان  الگ  الگ ا ذرّات کو آپس میں میں جوڑا جا سکے گا ۔

اب ہمارے محترم قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انسان روح ہے اور اس کا جسم  مادہ کے ذرات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ جسے کند کرنے اور اس کے ارتعاشات کو نیچے لانے سے اپنی مرضی کی شکلوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔(۱)

 ایسے دن کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جس دن انسان اپنے جسم کو الیکٹران والے طریقہ کے مطابق تبدیل کرے گا اور اسے مذکورہ بحث کے تجربہ کے طور پر مشاہدہ میں لائے گا اس کا روائی کی ایک دور دراز مقام کی طرف رہنمائی کی جائے گی اور وہاں پر ان ایٹموں کو جمع کیا جائے گا جن سے جسم دوسری مرتبہ اپنی اصل شکل میں آجائے گا ۔(۲)

 عقلی قوتوں کے تکامل عمومی کی بنا پر جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے ، روح تمام مادہ چیزوں پر غلبہ کرے گی اور لوگ اپنے جسم پر ( حکومت ) کنٹرول حاصل کریں گے اور اس حالت سے بخوبی استفادہ کر سکیں گے اس با عظمت اور نا شناختہ دور میں لوگوں کی زندگیاں اور ان کی ضروریات مادی و سائل کے ساتھ ایک اور طرح کی ہیں ۔

 ولایت اہل بیت علیھم السلام کے ظہور کے پر تو میں انسان کا علم و دانش عظیم ترین امکانی نقطے تک پہنچ جائے گا اور انسان با آسانی علم و دانش کے تمام مراحل سے بہرہ مند ہوگا اس دن  اولیائے خداوہ رازبھی فاش کر دیںگے جو وہ عوام کے آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے چھپایا کرتے تھے اور ان کے لئے ترتیب اور تکامل کی آخری راہ کھول دیں گے شاید ہمارے لئے اس طرح کے مطالب کو قبول کرنا سخت ہو اور ہم ان تمام علمی مسائل کی  پیشرفت کو قبول نہ کر سکیں ۔

--------------

[۱]۔ روح زندہ می ماند: ۱۵۸

[۲]۔ روح زندہ می ماند: ۱۸۸

۲۳۵

  حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر انسانی دماغ شیطان کی قید سے آزاد ہو جائے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان تمام مدارج میں اس حد تک تکامل حاصل کر لیتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی راز اس سے مخفی نہیں رہ جاتا اور تمام پیچیدہ علمی مسائل کا حل نکل آتا ہے ۔

غاصبین خلافت کہ جنہوں نے آج تک اربوں افراد کو علم وکمال کے عالی ترین مراحل اور ولایت کے جگمگاتے ہوئے تمدن تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رکھا ۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے اس کلام میں کہ جو آنحضرت کے وجود کی گہرائیوں سے صادر ہوتا ہے اس طرح فرماتے ہیں :

'' یٰا کُمَیْل مٰا مِنْ عِلْمٍ اِلاّٰ وَ اَنَا اَفْتَحُهُ وَمٰا مِنْ سَرٍّ اِلاّٰ وَ الْقٰائِمُ یَخْتِمُهُ ''  (۱)

 ''اے کمیل!کوئی علم نہیں مگر یہ کہ میں نے اسے شگافتہ کیا ہو اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم   اسے اختتام کو پہنچائیں ۔''

 جی ہاں!  جب حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے ہاتھوں سے چمکتا ہوا نور دنیا کے رنجیدہ خاطر اور ستم رسیدہ عوام کی عقلوں کو کمال بخشے گا اور استفادہ کی حیرت انگیز قوت ایجاد کردے گا ۔ اس وقت انسان اپنے عقل و فہم کی  تمام قدرت کے ساتھ نہ فقط ایک اربویں حصے سے خاندان وحی  علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے رازوں کو قبول کرے گا بلکہ علم و کمال کے آخری مرحلے کو بھی حاصل کر سکے گا ۔

 اس با عظمت زمانے میں تمام تر پوشیدہ راز اور اسرار ظاہرو آشکار ہو جائیں گے ، اور اس زمانے میں تاریکیوں کا اثر تک باقی نہیں رہے گا۔

اب کیا ایسے دن کے آنے کا انتظار ہمارے دلوں کو خلوص اور پاکیزگی نہیں بخشتا ؟ !

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۲۶۹

۲۳۶

 نتیجۂ بحث

انتظار ، الٰہی حالت ہے جو امید و نجات بخش ہے، جو غیبت کے تاریک دور میں منتظرین کو  حیرت و سرگردانی کی ظلمتسے نجات بخشتا ہے  اور انہیں نور اور پاکیزہ وادی کی طرف لے جاتاہے ۔

انتظار غم زدہ لوگوں کو ایک نئی زندگی اور تازہ قوت دیتا ہے اور افسردہ دلوں کو امید دلاتا ہے۔ انتظار ، رکاوٹوں اور تاریکیوں سے پاک کر دیتا ہے اور انسانی وجود میں تکامل یافتہ چمکتے ہوئے نور کو ایجاد کرتا ہے ۔

انتظار ، شناسائیوں کے بیج اور شیعہ کے اصلی اعتقادات کو منتظرین کے دلوں میں پروان چڑھاتا ہے اور با فضیلت ترین انسانوں کے لئے کامل ترین معنوی حالات کو بعنوان ہدیہ پیش کرتاہے ۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے اندر  انتظار کو ایجاد کر کے اسے تقویت بخشیں تو ولایت کے عظیم اور عالی مقام سے انس اور محبت شروع کردیں اور انتظار کے حیرت انگیز آثار اور ان کی عادات سے آگاہی پیدا کریں اور حضرت بقیة اللہ اعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔ  ظہور کی برکتوں سے اپنے دل و جان کو آگاہ کریں تاکہ اس مبارک اور بابرکت زمانے کا انتظار ہمارے تمام تر وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے ۔

روز محشر کہ زہو لش سخنان می گویند

راست گویند ولی چون شب ہجران تونیست

۲۳۷

 نواں باب

رازداری

حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' أَنْجَحَ الْاُمُوْرُ مٰا اَحٰاطَ بِهِ الْکِتْمٰانُ''

نتیجہ بخش ترین امور وہ ہیں جو پوشیدہ ہوں۔

    کتمان راز

    بزرگوں کی رازداری

    راز کی حفاظت کرنا نہ کہ خیالات کو چھپانا

    اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

    کرامت اور روحانی قدرت کو چھپانا

    مرحوم شیخ انصاری کی ایک کرامت

    راز فاش کرنے کے نقصانات

    نتیجہ ٔ بحث

۲۳۸

کتمان راز

خدا کے حقیقی بندے ،خود ساختہ اور مہذب افراد اپنے اخلاص اور اصلاح نفس کی وجہ سے اپنے رفتار و کردار اور دوسری شائستگی میں خلقت کائنات کے اسرار سے آشنائی حاصل کرکے نظام خلقت کے کچھ انجانے رموز سے آگاہ ہوتے ہیں۔

اہلبیت علیھم السلام کے زمانۂ حضور میں ایسے اسرار ان ہستیوں کے ذریعے رحمانی الہامت کے توسط سے سکھائے گئے ۔یہ بزرگ ہستیاںاپنے اصحاب اور قریبی افراد کوایسے مسائل کی تعلیم دیتے اور انہیں اس کی حفاظت کا حکم دیتے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے ایک مفصل روایت کے ضمن میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا:

 ''یٰا جٰابِرُ اُکْتُمْ مٰا تَسْمَعُ فَاِنَّهُ مِنْ سَرٰائِرِ اللّٰهِ'' (۱)

  اے جابر!تم جو کچھ سنتے ہو اسے چھپاؤ کیونکہ وہ اسرار خدا میں سے ہیں۔

 اس بنیاد پر جابر اور دوسری بزرگ شخصیات کہ جنہیں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اسرار و معارف تعلیم فرمائے ،وہ اسرار کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے۔ایسے مسائل کی حفاظت ان کیلئے بہت مشکل تھی جس کے لئے انہوں نے بڑی زحمتیں برداشت کیں۔اسی وجہ سے اس موضوع کے بارے میں حضرت امام جعفر

صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:

''کِتْمٰانُ سِرِّنٰا جِهٰاد فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ'' (۲)

--------------

[۱]۔ بحار الانوار :ج۳۵ص۱۰۳

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۷۰

۲۳۹

ایک دوسری روایت میں آپ فرماتے ہیں:

 ''مَنْ کَتَمَ الصَّعْبَ مِنْ حَدِیْثِنٰا جَعَلَهُ اللّٰهُ نُوْراً بَیْنَ عَیْنِهِ وَ رَزَقَهُ اللّٰهُ الْعِزَّةَ فِی  النّٰاسِ'' (۱)

 جو کوئی ہماری سخت گفتار کو مخفی رکھے خدا وند اسے دو آنکھوں کے درمیاں نور کی طرح قرار دے گا اور لوگوں میں اسے عزت و احترام عطا کرے گا۔

 راز کو چھپانے کے لئے ہر موضوع کو غور و فکر کے بعد بیان کیا جائے اورغور و فکرکے بغیر افکار کو زبان پر نہ لایا جائے ۔اگر انسان سوچے اور سوچنے کے بعد بولے تو اسے اپنی باتوں پر  پشیمانی نہیں ہو گی۔کیونکہ تفکر اور تأمل سے کچھ راز مخفی رہ جائیں تو وہ مخفی ہی رہ جاتے ہیں۔کیونکہ سوچنے سے انسان کے لئے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔

 حضرت امیر المؤمنین  علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ''لاٰ تَقُلْ مٰا لاٰ تَعْلَمْ  بَلْ لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ'' (۲)

           جو بات نہیں جانتے وہ نہ کہو بلکہ  ہر جاننے والی بات بھی نہ کہو۔

           کیونکہ کسی بھی چیز کو جاننا اسے بیان کرنے کی دلیل نہیں ہے۔کیونکہ بہت ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانتے تو ہیں لیکن وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔اس بناء پر ایسی باتوں کو بیان کرنے میں اپنی اور دوسروں کی عمر ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔انسان کی کچھ معلومات مفید ہوتی ہیں لیکن لوگوں کا ظرف انہیں ہضم نہیں کر سکتا ۔ایسے مطالب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسے مطالب کے بیان سے دوسروں کے اظہار یا انکارکے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار :ج۲۵ص۳۸۱،اختصاص:۳۲۱

[۲]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۲۲

۲۴۰

           اسی لئے کائنات کے سب سے پہلے مظلوم  امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

           ''لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ''

           تم جو کچھ جانتے ہو وہ سب بیان نہ کرو۔

           آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

          ''مَنْ کَتَمَ سِرِّهِ کٰانَتِ الْخِیَرَةُ بِیَدِهِ'' (1)

           جو کوئی اپنے راز چھپائے ،اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

           کیونکہ جب بھی وہ اصلاح دیکھے تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کر سکتاہے ؛لیکن اگر اس نے اپنا راز فاش کر دیا تو اسے اس کا نقصان ہو گا اس کے بعد وہ اپنے فاش راز کو نہیں چھپا سکتا۔

           بلکہ کبھی کبھار اپنے راز کو فاش کرنے کے علاوہ اپنے روحانی حالات بھی کھو دیتا ہے کیونکہ بعض افراد کو زحمتیں برداشت کرکے کچھ معنوی نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن اِدھر اُدھر کی باتیں کہنے سے وہ اپنی معنوی حالت کھو بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے غرور تکبر اور تمام منفی روحانی بیماریوںمیں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے امور سے بچنے کا  بہترین ذریعہ اپنی زبان کی حفاظت کرناہے۔

تا  نشانسی گھر  بارِ  خویش                طرح مکن گوھر اسرار خویش

لب مگشا گر چہ در و نوش ھاست        کز پس دیوار بسی گوش ھاست

--------------

[1]۔ نہج  البلاغہ کلمات قصار:162

۲۴۱

 بزرگوں کی رازداری

اہلبیت اطہار علیھم ا لسلام کی نورانی زندگی اور نشست و برخواست کی روش پر مختصر نگاہ کرنے سے یہ معلوم ہو جاتاہے کہ وہ اپنی مجلس میں شرفیاب ہونے والے لوگوں  اور ان کی دلنشین گفتارر اور روح پرور اقوال سے استفاہ کرنے والوں پر خاص عنایت فرماتے اور وہ فرد یا افراد کو اپنا صاحب اسرار سمجھتے اور ان کے لئے خلقت کائنات کے اسرار و رموزسے پردہ اٹھاتے ۔خلقت کے اسرار و رموز(جن سے دوسرے ناواقف تھے)سے پردہ اٹھانے سے ان کے دل منور ہو جاتے ۔لیکن وہ اپنے اسرار نااہل لوگوں سے چھپاتے اور انہیں ان لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتے جن میں انہیں ہضم کرنے کی صلاحیت و لیاقت نہ ہوتی ۔ہمارے بزرگ بھی اپنے اسرار کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔اب ہم  نمونے کے طور پر ایک  واقعہ بیان کرتے ہیں:

مرحوم شیخ بہائی نے سنا کہ ایک حلیم پکانے والا شخص بعض گیاہی چیزوںمیں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور غیر معمولی روحانی تونائیوں کا مالک ہے ۔  آپ اس سے ملاقات کے خواہاں تھے ؛لہذا آپ اس کے پاس گئے اور اس سے اصرار کیا کہ وہ عالم ِ وجود کے اسرار میں سے انہیں کوئی چیز سکھائے!

حلیم پکانے والے شخص نے منع کیا اور کہا:یہ اسرار آپ سے بالا ہیں!

مرحوم شیخ بہائی نے اس کی بات ردّکرتے ہوئے کہا:میں ان اسرار کو سیکھنے کے لئے تار ہوں ۔ حلیم پکانے والے نے جب یہ دیکھا  کہ شیخ بہائی اس کی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور خود کو  اسرار قبول کرنے کے لئے تیار سمجھتے ہیں۔

۲۴۲

لہذا اس نے شیخ بہائی کو یہ دکھانے کے لئے کہ ان میں بعض اسرار کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ،اس لئے انہوں نے عملی طور پر ایک کام کو انجام دینا شروع کیا۔ایک دن وہ حلیم پکانے میں مشغول تھا اور شیخ بہائی بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تا کہ شاید  اس سے کوئی اسرار سیکھ لیں ۔اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ  حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں باہر گئے ،دیکھا تو دروازے کے پیچھے کھڑا ایک شخص کہہ رہا ہے:اس شہر کا سلطان فوت ہو گیا ہے اور اب تمہں اس سلطنت کے شاہ کے طور پر منتخب کرنا چاہتے ہیں ۔حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں  دربار کی طرف چلے گئے۔

اس نے شیخ بہائی سے کہا:تمہیں چاہئے کہ تم بادشاہ بن جاؤ اور میں تمہارا وزیر۔وہ انکارکرتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور بالآخر شیخ بہائی شہر کے بادشاہ بن گئے اور وہ حلیم پکانے والا ان کا وزیر۔کچھ مدت گزرگئی تو شیخ نے کوئی کام انجام دینا چاہا جو ان کے  لائق نہیں تھا!اچانک حلیم پکانے والے نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میںنے نہیں کہا تھا کہ تم میں قابلیت نہیں ہے؟!جب شیخ نے دیکھا تو وہ حلیم کی دیگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ وہی وقت تھا جب وہ وہاں سے گئے اور دیگ ابل رہی تھی۔(1)

--------------

[1] ۔ تذکرة العلماء تنکابنی:173

۲۴۳

فرض کریں کہ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو یہ عالم کشف میں ایک طرح کی قدرت نمائی تھی جو ہماری اس دنیامیں خارجی واقعیت نہیں رکھتا۔لیکن مرحوم شیخ بہائی کو یہ منوانے کے لئے کہ وہ کچھ اسرار کو کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، یہ ایک مؤثرنمائش تھی۔

مرحوم شیخ بہائی امور غریبہ میں اس فن کے استاد تھے لیکن ہر ہاتھ سے اوپر بھی ایک ہاتھ ہے''وَفَوْقَ کُلِّ ذِْ عِلْمٍ عَلِیْم'' (1)

ایک دن مرحوم شیخ بہائی اورمرحوم فیض کاشانی  اور بہت سے دوسرے علماء کے استاد اور علماء شیعہ میں سے ایک بزرگ شخصیت ''سید ماجد بحرانی''ایک نشت میں  حاضر ہوئے۔شیخ بہائی کے ہاتھ میں خاک شفاء کی تسبیح تھی جس پر وہ کوئی ورد پڑھ رہے تھے  کہاس تسبیح سے پانی جاری ہو گیا!

 انہوں نے سید سے پوچھا:کیا اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے یا نہیں؟

سید نے جواب دیا: جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ پانی خیالی ہے نہ کہ آسمان سے نازل ہونے والا  یا زمین سے نکلنے والا حقیقی پانی ۔مرحوم شیخ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا۔(2)

--------------

[1]۔ سورۂ یوسف،آیت:76

[2]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:370

۲۴۴

 راز کی حفاظت کرنا نہ کہ خیالات کو چھپانا

خاندان وحی ونبوت علیھم السلام کے کلمات و فرامین میں رازداری کے بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا یہ مقصد ہے کہ کامیاب اور بزرگ افرادجن موضوعات سے آگاہ ہوئے ہوں اور دوسرے اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو ان موضوعات کی حفاظت کریں اور انہیں ان کے اختیار میںنہ دیں۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسےقبول کرنا چاہئے لیکن کچھ لوگ ایسے حقائق کو چھپانے کے بجائے تخیلات کی حفاطت کرتے ہیں ،جن کے وہ سختی سے پابند ہوتے ہیں اور انہیں بہترین راز کی طرح چھپاتے ہیں۔انہیں رحمانی الہامات اور نفسانی تخیلات کے درمیان فرق  معلوم نہیں ہوتا۔اسی لئے وہ اپنے شیطانی اعمال کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور راز کی طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں لیکن  درحقیقت وہ خیالات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے ۔اب اس بارے میں ایک بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں:

ایک دن مرحو م شیخ بہائی، شاہ عباس کی محفل میں داخل ہوئے ۔روم کے دربار کا سفیر بھی وہیں تھا ، شاہ نے شیخ بہائی سے کہا:بادشاہ روم کے سفیر کی باتوں کو سنیں۔روم کے سفیرنے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور کہا:ہمارے ملک میں دانشوروں کا ایک گروہ ہے جوکہ علوم غریبہ سے آشنا ہے اور  وہ بہت عجیب و غریب کام انجام دیتے ہیں  اور اس نے ان میں سے کچھ واقعات بیان کئے۔ پھر اس نے کہا:لیکن ایران میں علماء میں سے کوئی بھی ایسے علوم  سے آشنا نہیں  ہے۔

 شیخ بہائی نے دیکھا کہ یہ باتیں بادشاہ پر بہت اثرانداز ہوئی ہیں  اسی لئے انہوں نے روم کے سفیر کی طرف دیکھ کر کہا:صاحبان کمال   کے پاس ایسے علوم کی کوئی اہمیت نہیں  ہوتی انہوں نے جلدی   سے اپنی جوراب ہاتھ میں پکڑی جوسانپ میں تبدیل ہو گئی۔

۲۴۵

 دربارمیں روم کے سفیر اور اس محفل میںبیٹھے ہوئے تمام افراد پر خوف طاری ہو گیا اور سب بھاگنے کے لئے تیار ہو گئے؛مرحوم شیخ بہائی نے سانپ کوپکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ اپنی پہلے والی حالت میں تبدیل ہو گیا ۔پھر انہوں نے شاہ عباس سے کہا: ایسے کام بابصیرت افراد کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور میں نے تویہ چیزیں اصفہان میںکرتب دکھانے والوںسے سیکھی ہیں ۔یہ تو شعبدہ بازی ہے۔ کرتب دکھانے والے لوگوں سے درہم و دینار لینے کے لئے یہ کام کرتے ہیں ۔سفیر روم نے سر جھکا لیا اور باتوں پر بہت پشیمان ہوا۔(1)

 بعض لوگ  شیطانی وسوسوں اور خیالات کی طرح ایسے ہی بے ارزش کاموں کو اہمیت دیتے ہیں  اور اپنے خیال میں وہ علوم و حقائق کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ رازداری کی بجائے انہیں یہ چیزیں اپنے صفحہ دل سے نکال دینی چاہئیں۔

اس بناء پرپہلے تو انسان کو راز کی حقیقت اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہئے ؛اور اس کے بعد اسے اس کی راز داری کرنی چاہئے ،نہ کہ وہ اپنے دل کو شیاطین کا ٹھکانہ قرار دے اور خودد کو رازدار سمجھے!

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ :513

۲۴۶

 اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

اب دنیاکی سامراجی طاقتیںاپنے سیاسی راز و اسرار نہ صرف یہ کہ دوسرے ملکوں بلکہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی بہت سی سیاسی شخصیات سے بھی چھپاتی ہیںاور انہیں صرف چند مخصوص  افراد تک ہی محدود رکھتی ہیں۔

اسی طرح بڑے صنعتی دفاتر اور کمپنیاں اپنی کامیابی کا سبب رازداری کو قرار دیتے ہیں اور اپنے راز  فاش ہونے کو اپنی شکست اور رقیبوں کی فتح مانتے ہیں۔

لیکن مکتب اہلبیت علیھم السلام میں لوگوں کو رازداری کا حکم ایسے چھوٹے مقاصد کے لئے نہیں دیا  گیا کیونکہ ان ہستیوں کی نظر میں اگر راز بتانا مومن بھائیوں کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہو  اور اس میں کسی طرح کے فساد کا کوی خوف نہ ہوتو اس میں کوی مضائقہ نہیں ہے۔اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  نے حضرت کمیل سے فرمایا:

 ''یٰا کُمَیْلُ لاٰ بَأْسَ أَنْ تُعْلِمَ اَخٰاکَ سِرِّکَ'' (1) اے کمیل!اپنا راز اپنے (دینی)بھائی کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس بناء پر انسان اسے اپنا راز بتا سکتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ بھائیوں کی طرح باقی رہے۔

 اب یہ سوال درپیش آتاہے:اگر نزدیکی دوستوں کو راز بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے تو پھر روایات میں اپنا راز چھپانے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے؟(2)

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۴۱6، تحف العقول:171

[2] ۔ حضرت علی  علیہ  السلام  نے ایسے بھائیوں کے کچھ شرائط بیان فرمائے ہیں جنہیں جاننے کے لئے بحار الانوار: ج۷۷ص۴۱6 کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۴۷

  اس کے جواب میں یہ کہنا چاہئےکیونکہ:

  اولاً:تو لوگوں میں فطری طور پرپیدا ہونے والی فکری تبدیلیوں کی وجہ سے   ایسے بھائیوں اور ان کے آئندہ رویے کی پہچان  بہت مشکل ہے۔اس بناء پر دینی بھائیوں کو پہچان کر ہی ان سے راز بیان کرنا چاہئے۔

 ثانیاً: اہلبیت اطہار علیھم السلام کے فرامین میں راز کو چھپانے کا حکم مادّی اور شخصی اغراض و مقاصد کے لئے نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے سیاستدان اور دولت مند حضرات اپنے راز چھپاتے ہیں۔بلکہ وہ لوگوں کی علمی وسعت کے کم ہونے اور ان کے نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔جب غیبت کے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور پوری کائنات پر ولایت کے تابناک انور چمک رہے ہوںگے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے توسط سے  دنیاکے حیرت انگیز اسرار سب لوگوں کے لئے واضح و آشکار ہو   جائیں گے۔کیونکہ اس زمانے میں لوگ فکری تکامل کی وجہ سے ان اسرار کو سننے کے لئے تیار ہوں گے اور اس وقت دنیا میں ظالموں اور ستمگروں کا وجود نہیں ہو گا جو ان اسرار کو بیان کرنے سے روک سکیں۔

ہمیشہ ہر ظلم و ستم  کا سرچشمہ اور تمام  ملتوں کے لئے ناکامی کا باعث  اہلبیت اطہار علیھم السلام  کے حقوق کے غاصب اور ظالم  افراد ہیں۔وہ نہ صرف خاندان وحی علیھم السلام کی حکومت کے لئیرکاوٹ بنے بلکہ انہوں نے معاشرے کو اس طرح سے جہل  کے اندھیروں میں رکھاکہ اہلبیت عصمت  وطہارت علیھم السلام کو اسرار و رموذ بیان کرنے کی راہوں کو مسدود کر دیا۔

 امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''کٰانَ لِرَسُوْلِ اللّهِ سِرّ لاٰ یَعْلَمُهُ اِلاّٰ قَلِیْل''

 پیغمبر(ص) کے لئے ایک  راز تھا جسے کوئی نہیں جانتا تھا مگر بہت کم لوگ۔

۲۴۸

 پھر آپ پیغمبر اکرم(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا:

 ''لَوْلاٰ طُغٰاةُ هٰذِهِ الْاُمَُّةِ لَبَثَثْتُ هٰذَا السِّرِّ'' ( 1 )

 اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ راز لوگوں  کے درمیان بیان کرتا۔

 ایک دوسری روایت  میں فرماتے ہیں:

 ''لَوْلاٰ طُغٰاةُ هٰذِهِ الْاُمَّةِ لَبَیِّنَتْ هٰذَا السِّرِّ'' ( 2 )

 اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ رازبیان کر دیتا۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کی راز داری  اور ان کا کائنات کے حقائق کو مخفی رکھنے کی وجہ معاشرے کے ظالم و جابر اور آل محمد علیھم السلام کے حقوق کے غاصب افراد تھے۔

 وہ لوگ اسلامی ممالک کے سر کودیکھنا تو دور کی بات بلکہ وہ حضرت  فاطمۂ زہراء علیھا السلام کی جاگیر ''فدک''بھی مولائے کائنات حضرت علی  علیہ السلام کے پاس نہیں دیکھ سکے!توپھر وہ لوگ کس طرح آرام سے بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے کہ لوگ اہلبیت عصمت علیھم السلام کی طرف جا کر ان کے علوم سے آسمانوں،خلاؤں ،کہکشاؤں اور عالم  غیب کی اور نامرئی دنیا کی عظیم  قدرت سے آشناہوں؟!

 ان کی خیانت  کی وجہ سے نہ صرف اسی زمانے میں بلکہ اب تک انسانی معاشرہ ایسے بنیادی اور حیاتی مسائل سے آشنا نہیں ہوسکا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۵ص۳۰6

[2]۔ بحار الانوار: ج۹۱ص۲6۷

۲۴۹

 کرامت اور روحانی قدرت کو چھپانا

 ہمارے بزرگ اورصالح افرادبھی اہلبیت اطہار علیھم السلام کی پیروی کرتے ہوئے عام طور پر ایسی زندگی گذاری کہ جب تک وہ زندہ رہے کسی کو ان کے اسرار کا علم نہ ہو سکا حتی کے ان سے مانوس بہت سے افراد بھی ان کے راز سے آگاہ نہ ہوئے۔

 اگرچہ کچھ موارد میں ایسے افراد ظاہراً عام اور معمولی اشخاص تھے لیکن حقیقت میںان پر اہلبیت اطہار علیھم السلام  کی خاص عنایات کی وجہ سے ان کا دل خاندان وحی علیھم السلام کے تابناک انوار سے منور تھا اور ان ہستیوں کے فیض و کرم سے حاصل ہونے والی قدرت کو خلق خدا کی خدمت میںصرف کرتے  اور کسی بھی لمحے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ کرتے  لیکن اس کے باوجود کبھی بھی اپنے ان اسرار کو فاش نہ کرتے ۔ لیکن کبھی قریبی دوستوں کی وجہ سے ان کی شخصیت آشکار ہو جاتی  اور ان کی رحلت کے بعد ان کے وہ اسرار روشن ہو جاتے جنہیں  وہ اپنے ساتھ زیر خاک لے گئے ۔

جی ہاں!شیعہ تاریخ میں بعض علماء یا بلند معنوی مقام رکھنے والے عام افرادکا اہلبیت اطہار  علیھم السلام سے  ارتباط تھا اور وہ ان ہستیوں کے دستورات اور احکامات کے تابع تھے اور اسی کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فخر محسوس کرتے۔

 اگرچہ عام طور پر وہ اپنی ذمہ داریاں مخفی رکھتے بلکہ وہ بات کا بھی خیال رکھتیکہ کہیں شریر افراد اس سے سوء استفادہ نہ کریں لیکن کبھی ان کی کرامت سے آگاہ ہو جانے والے افراد کے ذریعے ظاہر ہو جاتی اور وہ اسے دوسروں کے لئے فاش کر دیتے۔

۲۵۰

  مرحوم شیخ انصاری کی ایک کرامت

 بطور نمونہ ہم عظیم فقیہ مرحوم شیخ انصاری  سے صادر ہونے والی ایک کرامت بیان کرتے ہیں ۔ آپ سے یہ کرامت جلیل القدر عالم دین مرحوم شیخ عبدالرحیم دزفولی  نے دیکھی اور اسے دوسروں کے لئے بیان کیا۔

 وہ کہتے ہیں:میری دو ایسی حاجتیںتھیںجن سے کوئی بھی آگاہ نہیں تھا۔میں ان کے پورا ہونے کی دعا کیا کرتا تھا اور میں حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام،سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ  السلام کو شفیع قرار دیتا  یہاں تک کہ میں زیارات مخصوصہ  کے لئے ایک بار نجف سے کربلا گیا  اور میں نے ان ہستیوں کے حرم میں اپنی وہ دونوں حاجتیں بیان کیں  لیکن مجھے اپنے توسل میں  کوئی اثر دکھائی نہ دیا ۔

 ایک دن میں نے دیکھا کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں لوگوں کی کثیر تعداد ہے۔میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ آج یہاں لوگوں کا اتنا ہجوم کیوں ہے؟اس نے کہا: ایک بیابان میں رہنے والے عرب کے بیٹے کومدتوں سے فالج تھا وہ اسے شفاء کی غرض سے حرم مطہر میں لائے ۔ حضرت عباس علیہ السلام نے اس پر لطف و کرم کیا  اور اسے شفاء مل گئی ۔اب لوگ اس کے کپڑے پھاڑ کر تبرک کے طور پر لے جا رہے ہیں۔

 اس واقعے سے میری حالت تبدیل ہو گئی اور میں نے سرد آہ کھینچ کر آنحضرت کی ضریح کے قریب ہوا اور میں  نے عرض کیا:یا ابالفضل العباس علیہ السلام!میری دو شرعی حاجتیں ہیں جنہیں میں  متعدد بار حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام،سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اورآپ کی بارگاہ میں عرض کر چکا ہوں

۲۵۱

لیکن آپ نے اس کیطرف توجہ نہیں کی اوریہ ایک بیابانی بچہ یوں ہی آپ سے متوسل ہوا آپ نے اس کی حاجت روا فر مادی۔اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کی نظر میں میری چالیس سال تک زیارت،مجاورت اور تحصیل علم میں مشغول رہنا اس بچے کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتا۔اس لئے اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گااور ایران ہجرت کر جاؤں گا۔

میں یہ باتیں کہہ کر حرم سے باہر آ گیا اور  سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم میں اس طرح سے ایک مختصر سا سلام کیا جیسے کوئی اپنے آقا سے ناراض ہو اور پھر میںاپنے گھر آگیا۔میں نے اپنا سامان  باندھا اورنجف کی طرف اس ارادے سے روانہ ہو گیا کہ وہاں سے اپنے بال بچوں کو لے کر ایران چلا جاؤں گا۔

 جب میں نجف اشرف پہنچا تو میں صحن کے راستے  گھر کی طرف روانہ ہوا میں نے صحن میں شخ انصاری کے خادم ملّا رحمت اللہ کو دیکھا ۔میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور گلے ملا۔انہوں نے کہا: آپ کو شیخ بلا  رہے تھے۔میں نے کہا:شیخ کو کیسے پتا چلا ؟!  میں تو ابھی یہاں آیا ہوں؟

 انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ انہوںنے مجھ سے فرمایا:صحن میں جاؤ، شیخ عبدالرحیم کربلا سے آ رہے ہیں انہیں میرے پاس لے آؤ۔

 میں نے خود سے کہا:نجف کے زائرین عام طور پر ایک دن زیارت مخصوصہ کے لئے کربلا رہتے ہیں اور اس سے اگلے دن واپس آتے ہیں اور اکثر صحن کے راستے ہی داخل ہوتے ہیں شاید اسی لئے انہوں  نے ملّا رحمت اللہ سے کہا مجھے صحن میں دیکھو ۔ہم دونوں شیخ کے گھرکی طرف روانہ ہوئے ۔ جب ہم گھر کے بیرونی حصے میں  داخل  ہوئے تو وہاں کوئی نہیں تھا اس لئے ملاّ نے اندرونی  دروازہ کھٹکھٹایا۔شیخ نے آواز دی:کون ہے؟ملّا نے عرض کیا:میں شیخ عبدالرحیم کو لایا ہوں۔

۲۵۲

 شیخ تشریف لائے اور ملاّسے فرمایا:تم جاؤ۔جب وہ چلے گئے تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا:آپ کی دو حاجتیں ہیں اور انہوںنے وہ دونوں حاجتیں بھی بتا دیں ۔

 میں  نے عرض کیا:جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔

 شیخ نے فرمایا:فلاں حاجت میں پوری کر دیتا ہوں اور دوسری کا تم خود استخارہ کرلو۔اگر استخارہ بہترآئے تو میں اس کے مقدمات فراہم کر دوں گااور پھر اسے خود ہی انجام دو۔

 میں  نے جاکراستخارہ کیا۔استخارہ بہتر آگیا جس کا نتیجہ میں  نے آکر شیخ کی خدمت میں  عرض کیا تو انہوں  نے قبول کر لیا اور اس کے مقدمات فراہم کر دیئے۔(1)

 یہ شیخ کی کرامات کا ایک نمونہ ہے جو جلیل القدر عالم مرحوم شیخ عبدالرحیم کے ذریعے فاش ہوا ۔ اسی طرح شیخ انصاری  اور شیعہ تاریخ کی بزرگ علمی ومعنوی شخصیات سے دیکھے گئے واقعات بہت زیادہ ہیںکہ جن سے ہم مجموعاًیہ نتیجہ لیتے ہیں:

 اولیائے خدا رازوں کو چھپانے اور پنی ظرفیت و قابلیت سے نہ صرف امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمان پر ذمہ داری انجام دیتے ہیں بلکہ خاندان ولایت علیھم السلام کے بیکراں لطف سے تما م اہلبیت اطہار علیھم السلام سے مرتبط ہو کر ان کے احکامات کو انجام دیتے  اور انہیں  مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اغیار سے منہ موڑ کر اپنے دل کی گہرائیوں سے خدا تک وصل کاراستہ بناتے ہیں کیونکہ ''فصل''  وصل کا مقدمہ ہے اور'' وصل ''فصل کانتیجہ ہے۔اس بناء پر صاحبان اسرار کا آئمہ اطہار علیھم السلام سے اتصال ایک ایسا مسئلہ ہے جو حقیقت و واقعیت رکھتا ہے ۔اگرچہ انہوں نے اسے مخفی رکھنے کی بہت کوشش کی اور اس کا انکار بھی کرتے رہے۔ بزرگ شیعہ علماء سے روایت ہونے والے بہت سے واقعات ان کی رازداری پر  دلالت کرتے ہیں

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۵ ص۳۰6

۲۵۳

 ہم نے مرحوم شیخ انصاری  کا جو واقعہ بیان کیا ،وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کبھی اولیائے خدا میں سے بعض کو کوئی کام انجام دینے کی ذمہ داری سونپتے ہیں اور اس کے راز و اسرار دوسروں کے ذریعے فاش ہوئے ہیں۔اب ہم    شیخ انصاری  کی کرامات کا جو دوسرا نمونہ بیان کر رہے ہیں ،وہ بھی اس حقیقت کی دلیل ہے۔

 مرحوم شیخ انصاریکربلا کی زیارت سے مشرف ہونے والے اپنے ایک سفر میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر میں تھے کہ اہل سماوات( 1 ) میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں پہنچا اور آپ کو سلام کیا ،آپ کی دست بوسی کی اور عرض کیا:

 ''بِاللّٰهِ عَلَیْکَ اَنْتَ الشَّیْخ مُرْتَضٰی؟ ''یعنی خدا کی قسم تم شیخ مرتضیٰ ہو؟

 شیخ نے فرمایا:جی ہاں۔

 اس نے عرض کیا:میں اہل سماوات ہوں میری ایک بہن ہے جس کا گھر میرے گھر سے تین فرسنگ کے فاصلے پر  ہے۔ایک دن میں اس سے ملنے کے لئے گیا ۔جب میں  واپس آ رہا تھا تو میں نے راستے میں ایک بہت بڑا شیر دیکھا  جس کی وجہ سے میرا گھوڑا آگے نہیں بڑھ رہا تھااس سے نجات کے لئے میرے ذہن میں بزرگان دین سے توسل کے علاوہ کوئی اور ترکیب نہ آئی۔لہذا میں ابو بکر  سے متوسل ہوا اور میں نے یا صدیق کہا۔لیکن مجھے اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دیا۔پھر میں نے دوسرے خلیفہ کا دامن تھاما اور یا فاروق کہا۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا پھر میں  عثمان سے متوسل ہوا  اور میں نے یا ذالنور کہہ کر پکارا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔پھر میں علی بن ابی طالب علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے کہا:''یا اخا الرسول و زوج البتول،یا ابا السبطین ادرکنی ولا تهلکنی ''

--------------

[1]۔''سماوات'' کوفہ اور بصرہ کے درمیان فرات کے کنارے ایک  علاقہ کا نام ہے۔

۲۵۴

 اچانک ایک نقاب پوش سوار حاضر ہوا ۔جب شیر نے سوار کو دیکھا تو اس نے خود کو ان کے گھوڑے سے مس کیا اور بیابان کی طرف چلا گیا۔پھر وہ سوار روانہ ہو گیا میں بھی ان کے پیچھے چلا ان کا گھوڑا آرام سے چل رہا تھا اور میرا گھوڑا دوڑنے کے باوجود اس تک نہیں پہنچ پا  رہا تھاہم اسی طرح سے  جا رہے تھے کہ انہوں نے مجھ سے فرمایا:اب شیر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔انہوں نے مجھے  میرے راستہ کی طرف رہنمائی کی اور فرمایا:فی امان اللہ۔اب تم جاؤ۔

 میں نے ان سے کہا:میں آپ پر قربان آپ اپنا تعارف تو کروا دیں تا کہ مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کون ہیں جنہوں نے مجھے ہلاکت سے نجات دلائی؟

 فرمایا:میں وہی ہوں جسے تم نے پکارا تھا ۔میں اخو الرسول و زوج البتول و ابو السبطین علی بن ابی طالب علیھم السلام ہوں۔

  میں نے عرض کیا:میں آپ پر قربان!آپ میری راہ راست کی طرف ہدایت فرمائیں۔

 فرمایا:اپنا عقیدہ صحیح کرو۔

 میں نے عرض کیا:صحیح اعتقادات کیا ہیں؟

 آپ نے فرمایا:جاؤ !جا کر شیخ مرتضیٰ سے سیکھ لو۔

 میں نے عرض کیا:میں انہیں نہیں پہچانتا تو آپ نے فرمایا:وہ نجف میں رہتے ہیں اور مجھے کچھ خصوصیات بتائیں جواب میں آپ میں  دیکھ رہا ہوں ۔

 میں نے عرض کیا:جب میں نجف جاؤں تو ان  مل سکوں گا؟

 فرمایا:نجف جاؤ گے تو ان سے نہیں مل پاؤ گے کیونکہ وہ حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے ہیں۔لیکن تم ان سے کربلا میں مل سکتے ہو ۔انہوں نے مجھ سے یہ بات ہی کہی اور میری نظروں سے اوجھل  ہو گے۔

۲۵۵

 میں سماوات گیا اور وہاں سے نجف کے لئے روانہ ہوا لیکن وہاں آپ کو نہیں دیکھا اور آج کربلا میں داخل ہوا ہوں اور ابھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اب آپ میرے لئے شیعوں کے عقائد بیان فرمائیں۔

 شیخ نے فرمایا:شیعوں کا اصل  عقیدہ یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کو رسول اللہ (ص) کا بلا فصل خلیفہ مانواور اسی طرح آپ کے بعد آپ کے فرزندحضرت امام حسن  علیہ السلام اور پھر آپ کے دوسرے فرزند حضرت امام حسین علیہ السلام (جن کا یہ حرم مطہر اور ضریح ہے) اور اسی طرح  بارہویں امام تک جو کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔جو کہ پردۂ غیب میں ہیں یہ سب امام ہیں اور جو شخص ان عقائد کا اعتراف کرے وہ شیعہ ہے ۔اعمال میں بھی تمہاری ذمہ داری یہی ہے کہ نماز ،روزہ  ، حج وغیرہ انجام دو۔

 میں نے عرض کیا:مجھے شیعوں میں سے کسی کے سپر د کریں جو مجھے احکامات کی تعلیم دے ۔مرحوم شیخ نیمجھے ایک بزرگ کے سپرد کر دیا اور انہیں تاکید فرمائی کہ مجھے تقیہ کے منافی احکام نہ بتائیں۔( 1 )

نگھبان سرت گشتہ است اسرار          اگر سَر بایدت رو سِرّ نگھدار

زبان دربستہ بھتر،سرّ نھفتہ            نماند سَر چو شد اسرار گفتہ

 کرامات اور اسرار کو چھپانا نہ صرف ان کی مخالفین سے حفاظت کا ذریعہ ہے بلکہ اس کا دوسرا اہم راز دوسرے اہم ترین اسرار و رموذ تک رسائی کے لئے اپنی ظرفیت میں اضافہ کرنا ہے۔رازداری کی اسی اہمیت کی وجہ سے اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اس کی تاکید کی ہے اور اسے انسان کے لئے دنیا و آخرت کی خیر جمع کرنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

--------------

[1]۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری:96

۲۵۶

 امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جُمِعَ خَیْرُ الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ فِْ کِتْمٰانِ السِّرِّ وَ مُصٰادَقَةِ الْاَخْوٰانِ وَجُمِعَ الشَّرُّ فِ الْاِذٰاعَةِ وَمُؤٰخٰاةِ الْاَشْرٰارِ'' ( 1 )

 دنیا و آخرت کی خوبیاں راز چھپانے اوربھائیوں کے ساتھ سچائی میں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام برائیاں راز کو فاش کرنے اور اشرار سے ہمنشینی و برادری میں  ہیں۔

 ہمارے بزرگوں  نے اسرار کو مخفی رکھنے اور رازوں کو چھپانے سے نہ صرف خود کواغیار سے محفوظ رکھا بلکہ وہ اسے عظیم اسرار و موذ کو درک کرنے کے لئے اپنی ظرفیت میں اضافہ کا باعث سمجھتے ہیں اور انہوں نے اپنی کرامات کوچھپا کر اپنی روحانی قوّتوں میں اضافہ کیا۔

--------------

[1]۔ سفینة البحار:ج۲ص۴6۹

۲۵۷

 راز فاش کرنے کے نقصانات

 اسرار کو فاش کرنا اور رازوں کو نہ چھپا سکنا انسان کیظرفیت کے کم  ہونے کی دلیل ہے۔اہلبیت اطہار علیھم السلام کے اسرار و معارف کے انوار کے دریا میں غوطہ زن ہونے والے ان اسرار و رموز کو فاش کرنے سے گریز کرتے تھے۔ان کی رازداری ان کی ظرفیت و قابلیت کی دلیل  اور معنوی مسائل میں ان کی ترقی و پیشرفت کا وسیلہ ہے۔

جو راز چھپانے کی طاقت نہیں رکھتے ،یہ ان کی استعداد و ظرفیت کے کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کچھ موارد میں ان کے افشاء کرنے کا اصلی سبب اصل حقائق میں شک کرنا ہے ۔

  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''مُذِیْعُ السِّرِّ شٰاکّ'' (1) راز کو فاش کرنے والا شک میں مبتلا ہوتاہے۔

 جو راز کو فاش کرتا ہے ،اگر راز کو فاش کرتے وقت اسے شک و تردید نہ ہو تو اس کے بعد وہ اس بارے میں شک میں گرفتار ہو جاتاہے ۔  کیونکہ جب دوسروں سے راز بیان کرتے ہیں تو پہلے دوسروں کو اصل مسائل کے بارے میں شک  ہوتا ہے اور پھر خود بھی ان کا انکار کر کے اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو  یوں بیان فرمایا ہے:

 ''اِفْشٰاءُ السِّرِّ سُقُوْط'' (2) راز کو فاش کرنا سقوط (پستی)ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:8875،اصول کافی:3712

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۹ص۲۲۹،تحف العقول:315

۲۵۸

 ان انمول فرامین سے استفادہ کرتے ہوئے جو خود کو صاحب ''حال'' سمجھتے  ہیں اور معتقد ہیں کہ وہ ایک مقام و مرتبے تک پہنچ گئے ہیں ،انہیں اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ نہ کہے جانے والے مسائل کو کہنے سے نہ صرف کچھ افراد ان حقائق کا انکار کر دیں گے بلکہ اس سے آپ اپنے زوال کے اسباب بھی مہیا کردیں گے۔

چھوٹا سا برتن تھوڑے سے پانی ہی سے لبریز ہو جاتا ہے لیکن دریا نہروں اور ندیوں کے پانی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔کامیابی کے متلاشی اور بلند معنوی درجات تک پہنچنے کی جستجو کرنے والوں کو دریا دل ہونا چاہئے اور رازوں کو چھپانے سے اپنی ظرفیت کو وسعت دیں ۔اس روش کے ذریعے سنت الٰہی کی پیروی کریں ۔

  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو  یوں بیان فرماتےہیں:

 ''.....اَلسُّنَّةُ مِنَ اللّٰهِ جَلَّ  وَ عَزَّ ،فَهُوَ أَنْ یَکُوْنَ کَتُوْماً لِلْاَسْرٰارِ'' ( 1 )

 مومن میں  خدا کی جو سنت ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ رازوں کو چھپانے والا  ہو۔

 اس بناء پر مقام معرفت اور حقائق تک پہنچنے والا بایمان شخص انہیں ایک خزانے کی طرح دوسروں سے چھپائے ۔انسان کسی خزانے کے بارے میں راز کو فاش کرکے کس طرح اسے دوسروں کی دسترس سے محفوظ رکھ سکتاہے۔

 اس بیان کی روشنی میں خدا کے حقیقی بندے وہ ہیں جو اغیار کے ہاتھ اپنی کوئی کمزوری نہ لگنے دیں ۔

 اولیائے خدا نے خاموشی اور راز کو چھپانے سے خود کو زینت بخشی نہ کہ انہوں نے خود کو بدنام کیا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۲۹۱،تحف العقول:315

۲۵۹

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

  ''حلیتهم طول السکوت و کتمان السر''

 طولانی خاموشی اور راز چھپانا ان کی زینت  ہے۔

کم گوی و مگوی ھر چہ دانی              لب دوختہ دار تا توانی

بس سرّ کہ فتادۂ زبان است             با یک نقطہ زبان زیان است

آن قدر رواست گفتن آن             کاید  ضرر از نگفتن آن

نادان بہ سر زبان نھد دل             در قلب بود زبان عاقل

 اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے متعدد روایات میں اپنے محبوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے اسرار اور ایسی باتیں ضرور چھپائیں جنہیں برداشت کرنے کی ان میں طاقت نہ ہو اور ان ہستیوں نے ان کی اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیشہ اسرار کی حفاظت کرنے کی کوشش کرو اور اپنا راز اپنے دل میں دفن کر دو۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273