کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 120209
ڈاؤنلوڈ: 4946


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120209 / ڈاؤنلوڈ: 4946
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

           اسی لئے کائنات کے سب سے پہلے مظلوم  امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

           ''لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ''

           تم جو کچھ جانتے ہو وہ سب بیان نہ کرو۔

           آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

          ''مَنْ کَتَمَ سِرِّهِ کٰانَتِ الْخِیَرَةُ بِیَدِهِ'' (1)

           جو کوئی اپنے راز چھپائے ،اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

           کیونکہ جب بھی وہ اصلاح دیکھے تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کر سکتاہے ؛لیکن اگر اس نے اپنا راز فاش کر دیا تو اسے اس کا نقصان ہو گا اس کے بعد وہ اپنے فاش راز کو نہیں چھپا سکتا۔

           بلکہ کبھی کبھار اپنے راز کو فاش کرنے کے علاوہ اپنے روحانی حالات بھی کھو دیتا ہے کیونکہ بعض افراد کو زحمتیں برداشت کرکے کچھ معنوی نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن اِدھر اُدھر کی باتیں کہنے سے وہ اپنی معنوی حالت کھو بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے غرور تکبر اور تمام منفی روحانی بیماریوںمیں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے امور سے بچنے کا  بہترین ذریعہ اپنی زبان کی حفاظت کرناہے۔

تا  نشانسی گھر  بارِ  خویش                طرح مکن گوھر اسرار خویش

لب مگشا گر چہ در و نوش ھاست        کز پس دیوار بسی گوش ھاست

--------------

[1]۔ نہج  البلاغہ کلمات قصار:162

۲۴۱

 بزرگوں کی رازداری

اہلبیت اطہار علیھم ا لسلام کی نورانی زندگی اور نشست و برخواست کی روش پر مختصر نگاہ کرنے سے یہ معلوم ہو جاتاہے کہ وہ اپنی مجلس میں شرفیاب ہونے والے لوگوں  اور ان کی دلنشین گفتارر اور روح پرور اقوال سے استفاہ کرنے والوں پر خاص عنایت فرماتے اور وہ فرد یا افراد کو اپنا صاحب اسرار سمجھتے اور ان کے لئے خلقت کائنات کے اسرار و رموزسے پردہ اٹھاتے ۔خلقت کے اسرار و رموز(جن سے دوسرے ناواقف تھے)سے پردہ اٹھانے سے ان کے دل منور ہو جاتے ۔لیکن وہ اپنے اسرار نااہل لوگوں سے چھپاتے اور انہیں ان لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتے جن میں انہیں ہضم کرنے کی صلاحیت و لیاقت نہ ہوتی ۔ہمارے بزرگ بھی اپنے اسرار کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔اب ہم  نمونے کے طور پر ایک  واقعہ بیان کرتے ہیں:

مرحوم شیخ بہائی نے سنا کہ ایک حلیم پکانے والا شخص بعض گیاہی چیزوںمیں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور غیر معمولی روحانی تونائیوں کا مالک ہے ۔  آپ اس سے ملاقات کے خواہاں تھے ؛لہذا آپ اس کے پاس گئے اور اس سے اصرار کیا کہ وہ عالم ِ وجود کے اسرار میں سے انہیں کوئی چیز سکھائے!

حلیم پکانے والے شخص نے منع کیا اور کہا:یہ اسرار آپ سے بالا ہیں!

مرحوم شیخ بہائی نے اس کی بات ردّکرتے ہوئے کہا:میں ان اسرار کو سیکھنے کے لئے تار ہوں ۔ حلیم پکانے والے نے جب یہ دیکھا  کہ شیخ بہائی اس کی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور خود کو  اسرار قبول کرنے کے لئے تیار سمجھتے ہیں۔

۲۴۲

لہذا اس نے شیخ بہائی کو یہ دکھانے کے لئے کہ ان میں بعض اسرار کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ،اس لئے انہوں نے عملی طور پر ایک کام کو انجام دینا شروع کیا۔ایک دن وہ حلیم پکانے میں مشغول تھا اور شیخ بہائی بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تا کہ شاید  اس سے کوئی اسرار سیکھ لیں ۔اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ  حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں باہر گئے ،دیکھا تو دروازے کے پیچھے کھڑا ایک شخص کہہ رہا ہے:اس شہر کا سلطان فوت ہو گیا ہے اور اب تمہں اس سلطنت کے شاہ کے طور پر منتخب کرنا چاہتے ہیں ۔حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں  دربار کی طرف چلے گئے۔

اس نے شیخ بہائی سے کہا:تمہیں چاہئے کہ تم بادشاہ بن جاؤ اور میں تمہارا وزیر۔وہ انکارکرتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور بالآخر شیخ بہائی شہر کے بادشاہ بن گئے اور وہ حلیم پکانے والا ان کا وزیر۔کچھ مدت گزرگئی تو شیخ نے کوئی کام انجام دینا چاہا جو ان کے  لائق نہیں تھا!اچانک حلیم پکانے والے نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میںنے نہیں کہا تھا کہ تم میں قابلیت نہیں ہے؟!جب شیخ نے دیکھا تو وہ حلیم کی دیگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ وہی وقت تھا جب وہ وہاں سے گئے اور دیگ ابل رہی تھی۔(1)

--------------

[1] ۔ تذکرة العلماء تنکابنی:173

۲۴۳

فرض کریں کہ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو یہ عالم کشف میں ایک طرح کی قدرت نمائی تھی جو ہماری اس دنیامیں خارجی واقعیت نہیں رکھتا۔لیکن مرحوم شیخ بہائی کو یہ منوانے کے لئے کہ وہ کچھ اسرار کو کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، یہ ایک مؤثرنمائش تھی۔

مرحوم شیخ بہائی امور غریبہ میں اس فن کے استاد تھے لیکن ہر ہاتھ سے اوپر بھی ایک ہاتھ ہے''وَفَوْقَ کُلِّ ذِْ عِلْمٍ عَلِیْم'' (1)

ایک دن مرحوم شیخ بہائی اورمرحوم فیض کاشانی  اور بہت سے دوسرے علماء کے استاد اور علماء شیعہ میں سے ایک بزرگ شخصیت ''سید ماجد بحرانی''ایک نشت میں  حاضر ہوئے۔شیخ بہائی کے ہاتھ میں خاک شفاء کی تسبیح تھی جس پر وہ کوئی ورد پڑھ رہے تھے  کہاس تسبیح سے پانی جاری ہو گیا!

 انہوں نے سید سے پوچھا:کیا اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے یا نہیں؟

سید نے جواب دیا: جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ پانی خیالی ہے نہ کہ آسمان سے نازل ہونے والا  یا زمین سے نکلنے والا حقیقی پانی ۔مرحوم شیخ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا۔(2)

--------------

[1]۔ سورۂ یوسف،آیت:76

[2]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:370

۲۴۴

 راز کی حفاظت کرنا نہ کہ خیالات کو چھپانا

خاندان وحی ونبوت علیھم السلام کے کلمات و فرامین میں رازداری کے بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا یہ مقصد ہے کہ کامیاب اور بزرگ افرادجن موضوعات سے آگاہ ہوئے ہوں اور دوسرے اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو ان موضوعات کی حفاظت کریں اور انہیں ان کے اختیار میںنہ دیں۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسےقبول کرنا چاہئے لیکن کچھ لوگ ایسے حقائق کو چھپانے کے بجائے تخیلات کی حفاطت کرتے ہیں ،جن کے وہ سختی سے پابند ہوتے ہیں اور انہیں بہترین راز کی طرح چھپاتے ہیں۔انہیں رحمانی الہامات اور نفسانی تخیلات کے درمیان فرق  معلوم نہیں ہوتا۔اسی لئے وہ اپنے شیطانی اعمال کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور راز کی طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں لیکن  درحقیقت وہ خیالات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے ۔اب اس بارے میں ایک بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں:

ایک دن مرحو م شیخ بہائی، شاہ عباس کی محفل میں داخل ہوئے ۔روم کے دربار کا سفیر بھی وہیں تھا ، شاہ نے شیخ بہائی سے کہا:بادشاہ روم کے سفیر کی باتوں کو سنیں۔روم کے سفیرنے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور کہا:ہمارے ملک میں دانشوروں کا ایک گروہ ہے جوکہ علوم غریبہ سے آشنا ہے اور  وہ بہت عجیب و غریب کام انجام دیتے ہیں  اور اس نے ان میں سے کچھ واقعات بیان کئے۔ پھر اس نے کہا:لیکن ایران میں علماء میں سے کوئی بھی ایسے علوم  سے آشنا نہیں  ہے۔

 شیخ بہائی نے دیکھا کہ یہ باتیں بادشاہ پر بہت اثرانداز ہوئی ہیں  اسی لئے انہوں نے روم کے سفیر کی طرف دیکھ کر کہا:صاحبان کمال   کے پاس ایسے علوم کی کوئی اہمیت نہیں  ہوتی انہوں نے جلدی   سے اپنی جوراب ہاتھ میں پکڑی جوسانپ میں تبدیل ہو گئی۔

۲۴۵

 دربارمیں روم کے سفیر اور اس محفل میںبیٹھے ہوئے تمام افراد پر خوف طاری ہو گیا اور سب بھاگنے کے لئے تیار ہو گئے؛مرحوم شیخ بہائی نے سانپ کوپکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ اپنی پہلے والی حالت میں تبدیل ہو گیا ۔پھر انہوں نے شاہ عباس سے کہا: ایسے کام بابصیرت افراد کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور میں نے تویہ چیزیں اصفہان میںکرتب دکھانے والوںسے سیکھی ہیں ۔یہ تو شعبدہ بازی ہے۔ کرتب دکھانے والے لوگوں سے درہم و دینار لینے کے لئے یہ کام کرتے ہیں ۔سفیر روم نے سر جھکا لیا اور باتوں پر بہت پشیمان ہوا۔(1)

 بعض لوگ  شیطانی وسوسوں اور خیالات کی طرح ایسے ہی بے ارزش کاموں کو اہمیت دیتے ہیں  اور اپنے خیال میں وہ علوم و حقائق کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ رازداری کی بجائے انہیں یہ چیزیں اپنے صفحہ دل سے نکال دینی چاہئیں۔

اس بناء پرپہلے تو انسان کو راز کی حقیقت اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہئے ؛اور اس کے بعد اسے اس کی راز داری کرنی چاہئے ،نہ کہ وہ اپنے دل کو شیاطین کا ٹھکانہ قرار دے اور خودد کو رازدار سمجھے!

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ :513

۲۴۶

 اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

اب دنیاکی سامراجی طاقتیںاپنے سیاسی راز و اسرار نہ صرف یہ کہ دوسرے ملکوں بلکہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی بہت سی سیاسی شخصیات سے بھی چھپاتی ہیںاور انہیں صرف چند مخصوص  افراد تک ہی محدود رکھتی ہیں۔

اسی طرح بڑے صنعتی دفاتر اور کمپنیاں اپنی کامیابی کا سبب رازداری کو قرار دیتے ہیں اور اپنے راز  فاش ہونے کو اپنی شکست اور رقیبوں کی فتح مانتے ہیں۔

لیکن مکتب اہلبیت علیھم السلام میں لوگوں کو رازداری کا حکم ایسے چھوٹے مقاصد کے لئے نہیں دیا  گیا کیونکہ ان ہستیوں کی نظر میں اگر راز بتانا مومن بھائیوں کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہو  اور اس میں کسی طرح کے فساد کا کوی خوف نہ ہوتو اس میں کوی مضائقہ نہیں ہے۔اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  نے حضرت کمیل سے فرمایا:

 ''یٰا کُمَیْلُ لاٰ بَأْسَ أَنْ تُعْلِمَ اَخٰاکَ سِرِّکَ'' (1) اے کمیل!اپنا راز اپنے (دینی)بھائی کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس بناء پر انسان اسے اپنا راز بتا سکتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ بھائیوں کی طرح باقی رہے۔

 اب یہ سوال درپیش آتاہے:اگر نزدیکی دوستوں کو راز بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے تو پھر روایات میں اپنا راز چھپانے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے؟(2)

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۴۱6، تحف العقول:171

[2] ۔ حضرت علی  علیہ  السلام  نے ایسے بھائیوں کے کچھ شرائط بیان فرمائے ہیں جنہیں جاننے کے لئے بحار الانوار: ج۷۷ص۴۱6 کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۴۷

  اس کے جواب میں یہ کہنا چاہئےکیونکہ:

  اولاً:تو لوگوں میں فطری طور پرپیدا ہونے والی فکری تبدیلیوں کی وجہ سے   ایسے بھائیوں اور ان کے آئندہ رویے کی پہچان  بہت مشکل ہے۔اس بناء پر دینی بھائیوں کو پہچان کر ہی ان سے راز بیان کرنا چاہئے۔

 ثانیاً: اہلبیت اطہار علیھم السلام کے فرامین میں راز کو چھپانے کا حکم مادّی اور شخصی اغراض و مقاصد کے لئے نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے سیاستدان اور دولت مند حضرات اپنے راز چھپاتے ہیں۔بلکہ وہ لوگوں کی علمی وسعت کے کم ہونے اور ان کے نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔جب غیبت کے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور پوری کائنات پر ولایت کے تابناک انور چمک رہے ہوںگے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے توسط سے  دنیاکے حیرت انگیز اسرار سب لوگوں کے لئے واضح و آشکار ہو   جائیں گے۔کیونکہ اس زمانے میں لوگ فکری تکامل کی وجہ سے ان اسرار کو سننے کے لئے تیار ہوں گے اور اس وقت دنیا میں ظالموں اور ستمگروں کا وجود نہیں ہو گا جو ان اسرار کو بیان کرنے سے روک سکیں۔

ہمیشہ ہر ظلم و ستم  کا سرچشمہ اور تمام  ملتوں کے لئے ناکامی کا باعث  اہلبیت اطہار علیھم السلام  کے حقوق کے غاصب اور ظالم  افراد ہیں۔وہ نہ صرف خاندان وحی علیھم السلام کی حکومت کے لئیرکاوٹ بنے بلکہ انہوں نے معاشرے کو اس طرح سے جہل  کے اندھیروں میں رکھاکہ اہلبیت عصمت  وطہارت علیھم السلام کو اسرار و رموذ بیان کرنے کی راہوں کو مسدود کر دیا۔

 امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''کٰانَ لِرَسُوْلِ اللّهِ سِرّ لاٰ یَعْلَمُهُ اِلاّٰ قَلِیْل''

 پیغمبر(ص) کے لئے ایک  راز تھا جسے کوئی نہیں جانتا تھا مگر بہت کم لوگ۔

۲۴۸

 پھر آپ پیغمبر اکرم(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا:

 ''لَوْلاٰ طُغٰاةُ هٰذِهِ الْاُمَُّةِ لَبَثَثْتُ هٰذَا السِّرِّ'' ( 1 )

 اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ راز لوگوں  کے درمیان بیان کرتا۔

 ایک دوسری روایت  میں فرماتے ہیں:

 ''لَوْلاٰ طُغٰاةُ هٰذِهِ الْاُمَّةِ لَبَیِّنَتْ هٰذَا السِّرِّ'' ( 2 )

 اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ رازبیان کر دیتا۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کی راز داری  اور ان کا کائنات کے حقائق کو مخفی رکھنے کی وجہ معاشرے کے ظالم و جابر اور آل محمد علیھم السلام کے حقوق کے غاصب افراد تھے۔

 وہ لوگ اسلامی ممالک کے سر کودیکھنا تو دور کی بات بلکہ وہ حضرت  فاطمۂ زہراء علیھا السلام کی جاگیر ''فدک''بھی مولائے کائنات حضرت علی  علیہ السلام کے پاس نہیں دیکھ سکے!توپھر وہ لوگ کس طرح آرام سے بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے کہ لوگ اہلبیت عصمت علیھم السلام کی طرف جا کر ان کے علوم سے آسمانوں،خلاؤں ،کہکشاؤں اور عالم  غیب کی اور نامرئی دنیا کی عظیم  قدرت سے آشناہوں؟!

 ان کی خیانت  کی وجہ سے نہ صرف اسی زمانے میں بلکہ اب تک انسانی معاشرہ ایسے بنیادی اور حیاتی مسائل سے آشنا نہیں ہوسکا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۵ص۳۰6

[2]۔ بحار الانوار: ج۹۱ص۲6۷

۲۴۹

 کرامت اور روحانی قدرت کو چھپانا

 ہمارے بزرگ اورصالح افرادبھی اہلبیت اطہار علیھم السلام کی پیروی کرتے ہوئے عام طور پر ایسی زندگی گذاری کہ جب تک وہ زندہ رہے کسی کو ان کے اسرار کا علم نہ ہو سکا حتی کے ان سے مانوس بہت سے افراد بھی ان کے راز سے آگاہ نہ ہوئے۔

 اگرچہ کچھ موارد میں ایسے افراد ظاہراً عام اور معمولی اشخاص تھے لیکن حقیقت میںان پر اہلبیت اطہار علیھم السلام  کی خاص عنایات کی وجہ سے ان کا دل خاندان وحی علیھم السلام کے تابناک انوار سے منور تھا اور ان ہستیوں کے فیض و کرم سے حاصل ہونے والی قدرت کو خلق خدا کی خدمت میںصرف کرتے  اور کسی بھی لمحے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ کرتے  لیکن اس کے باوجود کبھی بھی اپنے ان اسرار کو فاش نہ کرتے ۔ لیکن کبھی قریبی دوستوں کی وجہ سے ان کی شخصیت آشکار ہو جاتی  اور ان کی رحلت کے بعد ان کے وہ اسرار روشن ہو جاتے جنہیں  وہ اپنے ساتھ زیر خاک لے گئے ۔

جی ہاں!شیعہ تاریخ میں بعض علماء یا بلند معنوی مقام رکھنے والے عام افرادکا اہلبیت اطہار  علیھم السلام سے  ارتباط تھا اور وہ ان ہستیوں کے دستورات اور احکامات کے تابع تھے اور اسی کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فخر محسوس کرتے۔

 اگرچہ عام طور پر وہ اپنی ذمہ داریاں مخفی رکھتے بلکہ وہ بات کا بھی خیال رکھتیکہ کہیں شریر افراد اس سے سوء استفادہ نہ کریں لیکن کبھی ان کی کرامت سے آگاہ ہو جانے والے افراد کے ذریعے ظاہر ہو جاتی اور وہ اسے دوسروں کے لئے فاش کر دیتے۔

۲۵۰

  مرحوم شیخ انصاری کی ایک کرامت

 بطور نمونہ ہم عظیم فقیہ مرحوم شیخ انصاری  سے صادر ہونے والی ایک کرامت بیان کرتے ہیں ۔ آپ سے یہ کرامت جلیل القدر عالم دین مرحوم شیخ عبدالرحیم دزفولی  نے دیکھی اور اسے دوسروں کے لئے بیان کیا۔

 وہ کہتے ہیں:میری دو ایسی حاجتیںتھیںجن سے کوئی بھی آگاہ نہیں تھا۔میں ان کے پورا ہونے کی دعا کیا کرتا تھا اور میں حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام،سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ  السلام کو شفیع قرار دیتا  یہاں تک کہ میں زیارات مخصوصہ  کے لئے ایک بار نجف سے کربلا گیا  اور میں نے ان ہستیوں کے حرم میں اپنی وہ دونوں حاجتیں بیان کیں  لیکن مجھے اپنے توسل میں  کوئی اثر دکھائی نہ دیا ۔

 ایک دن میں نے دیکھا کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے حرم میں لوگوں کی کثیر تعداد ہے۔میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ آج یہاں لوگوں کا اتنا ہجوم کیوں ہے؟اس نے کہا: ایک بیابان میں رہنے والے عرب کے بیٹے کومدتوں سے فالج تھا وہ اسے شفاء کی غرض سے حرم مطہر میں لائے ۔ حضرت عباس علیہ السلام نے اس پر لطف و کرم کیا  اور اسے شفاء مل گئی ۔اب لوگ اس کے کپڑے پھاڑ کر تبرک کے طور پر لے جا رہے ہیں۔

 اس واقعے سے میری حالت تبدیل ہو گئی اور میں نے سرد آہ کھینچ کر آنحضرت کی ضریح کے قریب ہوا اور میں  نے عرض کیا:یا ابالفضل العباس علیہ السلام!میری دو شرعی حاجتیں ہیں جنہیں میں  متعدد بار حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام،سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اورآپ کی بارگاہ میں عرض کر چکا ہوں

۲۵۱

لیکن آپ نے اس کیطرف توجہ نہیں کی اوریہ ایک بیابانی بچہ یوں ہی آپ سے متوسل ہوا آپ نے اس کی حاجت روا فر مادی۔اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کی نظر میں میری چالیس سال تک زیارت،مجاورت اور تحصیل علم میں مشغول رہنا اس بچے کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتا۔اس لئے اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گااور ایران ہجرت کر جاؤں گا۔

میں یہ باتیں کہہ کر حرم سے باہر آ گیا اور  سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم میں اس طرح سے ایک مختصر سا سلام کیا جیسے کوئی اپنے آقا سے ناراض ہو اور پھر میںاپنے گھر آگیا۔میں نے اپنا سامان  باندھا اورنجف کی طرف اس ارادے سے روانہ ہو گیا کہ وہاں سے اپنے بال بچوں کو لے کر ایران چلا جاؤں گا۔

 جب میں نجف اشرف پہنچا تو میں صحن کے راستے  گھر کی طرف روانہ ہوا میں نے صحن میں شخ انصاری کے خادم ملّا رحمت اللہ کو دیکھا ۔میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور گلے ملا۔انہوں نے کہا: آپ کو شیخ بلا  رہے تھے۔میں نے کہا:شیخ کو کیسے پتا چلا ؟!  میں تو ابھی یہاں آیا ہوں؟

 انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ انہوںنے مجھ سے فرمایا:صحن میں جاؤ، شیخ عبدالرحیم کربلا سے آ رہے ہیں انہیں میرے پاس لے آؤ۔

 میں نے خود سے کہا:نجف کے زائرین عام طور پر ایک دن زیارت مخصوصہ کے لئے کربلا رہتے ہیں اور اس سے اگلے دن واپس آتے ہیں اور اکثر صحن کے راستے ہی داخل ہوتے ہیں شاید اسی لئے انہوں  نے ملّا رحمت اللہ سے کہا مجھے صحن میں دیکھو ۔ہم دونوں شیخ کے گھرکی طرف روانہ ہوئے ۔ جب ہم گھر کے بیرونی حصے میں  داخل  ہوئے تو وہاں کوئی نہیں تھا اس لئے ملاّ نے اندرونی  دروازہ کھٹکھٹایا۔شیخ نے آواز دی:کون ہے؟ملّا نے عرض کیا:میں شیخ عبدالرحیم کو لایا ہوں۔

۲۵۲

 شیخ تشریف لائے اور ملاّسے فرمایا:تم جاؤ۔جب وہ چلے گئے تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا:آپ کی دو حاجتیں ہیں اور انہوںنے وہ دونوں حاجتیں بھی بتا دیں ۔

 میں  نے عرض کیا:جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔

 شیخ نے فرمایا:فلاں حاجت میں پوری کر دیتا ہوں اور دوسری کا تم خود استخارہ کرلو۔اگر استخارہ بہترآئے تو میں اس کے مقدمات فراہم کر دوں گااور پھر اسے خود ہی انجام دو۔

 میں  نے جاکراستخارہ کیا۔استخارہ بہتر آگیا جس کا نتیجہ میں  نے آکر شیخ کی خدمت میں  عرض کیا تو انہوں  نے قبول کر لیا اور اس کے مقدمات فراہم کر دیئے۔(1)

 یہ شیخ کی کرامات کا ایک نمونہ ہے جو جلیل القدر عالم مرحوم شیخ عبدالرحیم کے ذریعے فاش ہوا ۔ اسی طرح شیخ انصاری  اور شیعہ تاریخ کی بزرگ علمی ومعنوی شخصیات سے دیکھے گئے واقعات بہت زیادہ ہیںکہ جن سے ہم مجموعاًیہ نتیجہ لیتے ہیں:

 اولیائے خدا رازوں کو چھپانے اور پنی ظرفیت و قابلیت سے نہ صرف امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمان پر ذمہ داری انجام دیتے ہیں بلکہ خاندان ولایت علیھم السلام کے بیکراں لطف سے تما م اہلبیت اطہار علیھم السلام سے مرتبط ہو کر ان کے احکامات کو انجام دیتے  اور انہیں  مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اغیار سے منہ موڑ کر اپنے دل کی گہرائیوں سے خدا تک وصل کاراستہ بناتے ہیں کیونکہ ''فصل''  وصل کا مقدمہ ہے اور'' وصل ''فصل کانتیجہ ہے۔اس بناء پر صاحبان اسرار کا آئمہ اطہار علیھم السلام سے اتصال ایک ایسا مسئلہ ہے جو حقیقت و واقعیت رکھتا ہے ۔اگرچہ انہوں نے اسے مخفی رکھنے کی بہت کوشش کی اور اس کا انکار بھی کرتے رہے۔ بزرگ شیعہ علماء سے روایت ہونے والے بہت سے واقعات ان کی رازداری پر  دلالت کرتے ہیں

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۵ ص۳۰6

۲۵۳

 ہم نے مرحوم شیخ انصاری  کا جو واقعہ بیان کیا ،وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کبھی اولیائے خدا میں سے بعض کو کوئی کام انجام دینے کی ذمہ داری سونپتے ہیں اور اس کے راز و اسرار دوسروں کے ذریعے فاش ہوئے ہیں۔اب ہم    شیخ انصاری  کی کرامات کا جو دوسرا نمونہ بیان کر رہے ہیں ،وہ بھی اس حقیقت کی دلیل ہے۔

 مرحوم شیخ انصاریکربلا کی زیارت سے مشرف ہونے والے اپنے ایک سفر میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر میں تھے کہ اہل سماوات( 1 ) میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں پہنچا اور آپ کو سلام کیا ،آپ کی دست بوسی کی اور عرض کیا:

 ''بِاللّٰهِ عَلَیْکَ اَنْتَ الشَّیْخ مُرْتَضٰی؟ ''یعنی خدا کی قسم تم شیخ مرتضیٰ ہو؟

 شیخ نے فرمایا:جی ہاں۔

 اس نے عرض کیا:میں اہل سماوات ہوں میری ایک بہن ہے جس کا گھر میرے گھر سے تین فرسنگ کے فاصلے پر  ہے۔ایک دن میں اس سے ملنے کے لئے گیا ۔جب میں  واپس آ رہا تھا تو میں نے راستے میں ایک بہت بڑا شیر دیکھا  جس کی وجہ سے میرا گھوڑا آگے نہیں بڑھ رہا تھااس سے نجات کے لئے میرے ذہن میں بزرگان دین سے توسل کے علاوہ کوئی اور ترکیب نہ آئی۔لہذا میں ابو بکر  سے متوسل ہوا اور میں نے یا صدیق کہا۔لیکن مجھے اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دیا۔پھر میں نے دوسرے خلیفہ کا دامن تھاما اور یا فاروق کہا۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا پھر میں  عثمان سے متوسل ہوا  اور میں نے یا ذالنور کہہ کر پکارا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔پھر میں علی بن ابی طالب علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے کہا:''یا اخا الرسول و زوج البتول،یا ابا السبطین ادرکنی ولا تهلکنی ''

--------------

[1]۔''سماوات'' کوفہ اور بصرہ کے درمیان فرات کے کنارے ایک  علاقہ کا نام ہے۔

۲۵۴

 اچانک ایک نقاب پوش سوار حاضر ہوا ۔جب شیر نے سوار کو دیکھا تو اس نے خود کو ان کے گھوڑے سے مس کیا اور بیابان کی طرف چلا گیا۔پھر وہ سوار روانہ ہو گیا میں بھی ان کے پیچھے چلا ان کا گھوڑا آرام سے چل رہا تھا اور میرا گھوڑا دوڑنے کے باوجود اس تک نہیں پہنچ پا  رہا تھاہم اسی طرح سے  جا رہے تھے کہ انہوں نے مجھ سے فرمایا:اب شیر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔انہوں نے مجھے  میرے راستہ کی طرف رہنمائی کی اور فرمایا:فی امان اللہ۔اب تم جاؤ۔

 میں نے ان سے کہا:میں آپ پر قربان آپ اپنا تعارف تو کروا دیں تا کہ مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کون ہیں جنہوں نے مجھے ہلاکت سے نجات دلائی؟

 فرمایا:میں وہی ہوں جسے تم نے پکارا تھا ۔میں اخو الرسول و زوج البتول و ابو السبطین علی بن ابی طالب علیھم السلام ہوں۔

  میں نے عرض کیا:میں آپ پر قربان!آپ میری راہ راست کی طرف ہدایت فرمائیں۔

 فرمایا:اپنا عقیدہ صحیح کرو۔

 میں نے عرض کیا:صحیح اعتقادات کیا ہیں؟

 آپ نے فرمایا:جاؤ !جا کر شیخ مرتضیٰ سے سیکھ لو۔

 میں نے عرض کیا:میں انہیں نہیں پہچانتا تو آپ نے فرمایا:وہ نجف میں رہتے ہیں اور مجھے کچھ خصوصیات بتائیں جواب میں آپ میں  دیکھ رہا ہوں ۔

 میں نے عرض کیا:جب میں نجف جاؤں تو ان  مل سکوں گا؟

 فرمایا:نجف جاؤ گے تو ان سے نہیں مل پاؤ گے کیونکہ وہ حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے ہیں۔لیکن تم ان سے کربلا میں مل سکتے ہو ۔انہوں نے مجھ سے یہ بات ہی کہی اور میری نظروں سے اوجھل  ہو گے۔

۲۵۵

 میں سماوات گیا اور وہاں سے نجف کے لئے روانہ ہوا لیکن وہاں آپ کو نہیں دیکھا اور آج کربلا میں داخل ہوا ہوں اور ابھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اب آپ میرے لئے شیعوں کے عقائد بیان فرمائیں۔

 شیخ نے فرمایا:شیعوں کا اصل  عقیدہ یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کو رسول اللہ (ص) کا بلا فصل خلیفہ مانواور اسی طرح آپ کے بعد آپ کے فرزندحضرت امام حسن  علیہ السلام اور پھر آپ کے دوسرے فرزند حضرت امام حسین علیہ السلام (جن کا یہ حرم مطہر اور ضریح ہے) اور اسی طرح  بارہویں امام تک جو کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔جو کہ پردۂ غیب میں ہیں یہ سب امام ہیں اور جو شخص ان عقائد کا اعتراف کرے وہ شیعہ ہے ۔اعمال میں بھی تمہاری ذمہ داری یہی ہے کہ نماز ،روزہ  ، حج وغیرہ انجام دو۔

 میں نے عرض کیا:مجھے شیعوں میں سے کسی کے سپر د کریں جو مجھے احکامات کی تعلیم دے ۔مرحوم شیخ نیمجھے ایک بزرگ کے سپرد کر دیا اور انہیں تاکید فرمائی کہ مجھے تقیہ کے منافی احکام نہ بتائیں۔( 1 )

نگھبان سرت گشتہ است اسرار          اگر سَر بایدت رو سِرّ نگھدار

زبان دربستہ بھتر،سرّ نھفتہ            نماند سَر چو شد اسرار گفتہ

 کرامات اور اسرار کو چھپانا نہ صرف ان کی مخالفین سے حفاظت کا ذریعہ ہے بلکہ اس کا دوسرا اہم راز دوسرے اہم ترین اسرار و رموذ تک رسائی کے لئے اپنی ظرفیت میں اضافہ کرنا ہے۔رازداری کی اسی اہمیت کی وجہ سے اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اس کی تاکید کی ہے اور اسے انسان کے لئے دنیا و آخرت کی خیر جمع کرنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

--------------

[1]۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری:96

۲۵۶

 امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جُمِعَ خَیْرُ الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ فِْ کِتْمٰانِ السِّرِّ وَ مُصٰادَقَةِ الْاَخْوٰانِ وَجُمِعَ الشَّرُّ فِ الْاِذٰاعَةِ وَمُؤٰخٰاةِ الْاَشْرٰارِ'' ( 1 )

 دنیا و آخرت کی خوبیاں راز چھپانے اوربھائیوں کے ساتھ سچائی میں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام برائیاں راز کو فاش کرنے اور اشرار سے ہمنشینی و برادری میں  ہیں۔

 ہمارے بزرگوں  نے اسرار کو مخفی رکھنے اور رازوں کو چھپانے سے نہ صرف خود کواغیار سے محفوظ رکھا بلکہ وہ اسے عظیم اسرار و موذ کو درک کرنے کے لئے اپنی ظرفیت میں اضافہ کا باعث سمجھتے ہیں اور انہوں نے اپنی کرامات کوچھپا کر اپنی روحانی قوّتوں میں اضافہ کیا۔

--------------

[1]۔ سفینة البحار:ج۲ص۴6۹

۲۵۷

 راز فاش کرنے کے نقصانات

 اسرار کو فاش کرنا اور رازوں کو نہ چھپا سکنا انسان کیظرفیت کے کم  ہونے کی دلیل ہے۔اہلبیت اطہار علیھم السلام کے اسرار و معارف کے انوار کے دریا میں غوطہ زن ہونے والے ان اسرار و رموز کو فاش کرنے سے گریز کرتے تھے۔ان کی رازداری ان کی ظرفیت و قابلیت کی دلیل  اور معنوی مسائل میں ان کی ترقی و پیشرفت کا وسیلہ ہے۔

جو راز چھپانے کی طاقت نہیں رکھتے ،یہ ان کی استعداد و ظرفیت کے کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کچھ موارد میں ان کے افشاء کرنے کا اصلی سبب اصل حقائق میں شک کرنا ہے ۔

  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''مُذِیْعُ السِّرِّ شٰاکّ'' (1) راز کو فاش کرنے والا شک میں مبتلا ہوتاہے۔

 جو راز کو فاش کرتا ہے ،اگر راز کو فاش کرتے وقت اسے شک و تردید نہ ہو تو اس کے بعد وہ اس بارے میں شک میں گرفتار ہو جاتاہے ۔  کیونکہ جب دوسروں سے راز بیان کرتے ہیں تو پہلے دوسروں کو اصل مسائل کے بارے میں شک  ہوتا ہے اور پھر خود بھی ان کا انکار کر کے اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو  یوں بیان فرمایا ہے:

 ''اِفْشٰاءُ السِّرِّ سُقُوْط'' (2) راز کو فاش کرنا سقوط (پستی)ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:8875،اصول کافی:3712

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۹ص۲۲۹،تحف العقول:315

۲۵۸

 ان انمول فرامین سے استفادہ کرتے ہوئے جو خود کو صاحب ''حال'' سمجھتے  ہیں اور معتقد ہیں کہ وہ ایک مقام و مرتبے تک پہنچ گئے ہیں ،انہیں اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ نہ کہے جانے والے مسائل کو کہنے سے نہ صرف کچھ افراد ان حقائق کا انکار کر دیں گے بلکہ اس سے آپ اپنے زوال کے اسباب بھی مہیا کردیں گے۔

چھوٹا سا برتن تھوڑے سے پانی ہی سے لبریز ہو جاتا ہے لیکن دریا نہروں اور ندیوں کے پانی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔کامیابی کے متلاشی اور بلند معنوی درجات تک پہنچنے کی جستجو کرنے والوں کو دریا دل ہونا چاہئے اور رازوں کو چھپانے سے اپنی ظرفیت کو وسعت دیں ۔اس روش کے ذریعے سنت الٰہی کی پیروی کریں ۔

  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو  یوں بیان فرماتےہیں:

 ''.....اَلسُّنَّةُ مِنَ اللّٰهِ جَلَّ  وَ عَزَّ ،فَهُوَ أَنْ یَکُوْنَ کَتُوْماً لِلْاَسْرٰارِ'' ( 1 )

 مومن میں  خدا کی جو سنت ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ رازوں کو چھپانے والا  ہو۔

 اس بناء پر مقام معرفت اور حقائق تک پہنچنے والا بایمان شخص انہیں ایک خزانے کی طرح دوسروں سے چھپائے ۔انسان کسی خزانے کے بارے میں راز کو فاش کرکے کس طرح اسے دوسروں کی دسترس سے محفوظ رکھ سکتاہے۔

 اس بیان کی روشنی میں خدا کے حقیقی بندے وہ ہیں جو اغیار کے ہاتھ اپنی کوئی کمزوری نہ لگنے دیں ۔

 اولیائے خدا نے خاموشی اور راز کو چھپانے سے خود کو زینت بخشی نہ کہ انہوں نے خود کو بدنام کیا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۲۹۱،تحف العقول:315

۲۵۹

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

  ''حلیتهم طول السکوت و کتمان السر''

 طولانی خاموشی اور راز چھپانا ان کی زینت  ہے۔

کم گوی و مگوی ھر چہ دانی              لب دوختہ دار تا توانی

بس سرّ کہ فتادۂ زبان است             با یک نقطہ زبان زیان است

آن قدر رواست گفتن آن             کاید  ضرر از نگفتن آن

نادان بہ سر زبان نھد دل             در قلب بود زبان عاقل

 اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے متعدد روایات میں اپنے محبوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے اسرار اور ایسی باتیں ضرور چھپائیں جنہیں برداشت کرنے کی ان میں طاقت نہ ہو اور ان ہستیوں نے ان کی اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیشہ اسرار کی حفاظت کرنے کی کوشش کرو اور اپنا راز اپنے دل میں دفن کر دو۔

۲۶۰