کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 120166
ڈاؤنلوڈ: 4946


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120166 / ڈاؤنلوڈ: 4946
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 نتیجۂ بحث

اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب سے ہی معارف سیکھیں اور اپنے اعتقادات کی بنیاد وحی الٰہی کو قرار دیں اور بشری نظریات و خیالات سے پرہیز کریں ۔یہ معارف کو سیکھنے اور عقائد کو درک کرنے کا صحیح راستہ ہے۔

اس بناء پر اپنے دینی اعتقادات اور عرفانی افکار کو وحی الٰہی سے اخذ کرنے کی کوشش کریںاور خاندان نبوت و رسالت علیھم السلام سے حکمت کا درس لیں۔

عارف نما لوگوں سے پرہیز کریں جو عارف ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر آداب و رسوم کو ترک کرتے ہیں۔عظیم معارف کے آثار سیکھیں اور حقیقی عرفاء کی صفات و خصال سے آشنائی حاصل کریں کہ جن کا وجود معرفت کے انوار سے منور ہوتاہے۔

عرفانی حالات میں تعادل اور ہماہنگی کی رعایت کریں اور عرفانی حالات جیسے قبض،بسط اور روحانی نشاط کی طرف متوجہ رہیں تا کہ آپ ایک متعادل زندگی بسر کر سکیں۔

ابو بصیر کی روایت کا دقیق مطالعہ کریں اور اس کے نکات پر غور و فکر کریں اور اس کے اسرار و معارف سے اپنے وجود کو منور کریں۔

فردا کہ زوال شش جہت خواھد بود

قدر  تو  بہ  قدر معرفت خواھد بود

۶۱

تیسراباب

عبادت  و  بندگی

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اِذٰا أَحَبَّ اللّٰهُ عَبْداً أَلْهَمَهُ حُسْنَ الْعِبٰادَةِ ''

جب بھی خدا کسی بندے کو دوست رکھتا ہے  تو اس پر اچھی طرح سے عبادت کرنے کا طریقہ الہام کر دیتاہے ۔

    دینی بھائیوں کی خدمت

    روحانی عبادات

    عبادات کی قسمیں

    عبادت مخلصانہ ہونی چاہئے؟

    عبادت میں نشاط

    عبادت میں نشاط کے اثرات

    عبادت میں کراہت

    عبادت کیا ہے؟

    محبت اہلبیت علیھم السلام یا عبادت میں نشاط کا راز

    نتیجۂ بحث

۶۲

 دینی بھائیوں کی خدمت

انسان کی عظمت و شرافت پہ دلالت کرنے والی عبادات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دینی بھائیوں کی خدمت کے لئے کمر ہمت باندھ لے اور مشکلات میں ان کی مدد کرے۔

اگر خدا کے لئے بیکسوں کیخبرگیری اور مومن بھائیوں کی خدمت کی جائے تو یہ بہت اہم عبادت ہے ۔آئمہ معصومین علیھم السلام کے فرمودات و ارشادات میں نہ صرف اس کی تاکید کی گئی ہے بلکہ اسے عبادات کی افضل ترین اقسام میں سے شمار کیا گیاہے۔

اس بارے میں حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ أَشْرَفَ الْعِبٰادَةِ خِدْمَتُکَ اِخْوٰانَکَ الْمُؤْمِنِیْنَ'' (1)

افضل و اشرف ترین عبادت تمہاری تمہارے مومن بھائیوں کی خدمت کرنا ہے۔

انسان کی زندگی میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہونے والے اس بنیادی نکتہ کی طرف کم توجہ کرنے کے ایسے نقصانات ہیں کہ جن کا جبران نہیں کیا جا سکتا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام گناہان کبیرہ کو شمار کرنے کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''.....تَرْکُ مُعٰاوَنَةِ الْمَظْلُوْمِیْنَ'' (2)

مظلوموں کی مدد نہ کرناگناہان کبیرہ ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۵ ص۳۱۸، تفسیر الامام العسکری علیہ السلام:260

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۹ص۱۰، خصال:ج2ص۱۵۵

۶۳

اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے :دینی بھائی کے ساتھ تعاون کرنا صرف مادّی امور میں ہی نہیں ہے بلکہ ان کی فکر ی افزائش اور رہنمائی کرنا بھی ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ جو اس کی  صلاحیت رکھتے ہیں۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''أَعِنْ أَخٰاکَ عَلٰی هِدٰایَتِهِ'' (1)

اپنے بھائی کی ہدایت کے لئے مدد کرو۔

اس بیان سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ خاص شرافت و عظمت رکھنے والی عبادات کی اقسام میں سے ایک دینی بھائیوں کی خدمت کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔

اس طریقے سے آپ بلند معنوی مقامات حاصل کر سکتے ہیں اور خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت اپنی طرف جلب کر سکتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ أَحَبَّ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلَی اللّٰهِ مَنْ أَعٰانَ الْمُوْمِنَ الْفَقِیْرَ مِنَ الْفَقْرِ فِ دُنْیٰاهُ وَ مَعٰاشِهِ،وَ مَنْ أَعٰانَ وَ نَفَعَ وَ دَفَعَ الْمَکْرُوْهَ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ'' (2)

خدا کے نزدیک مؤمنین میں سے سب سے محبوب وہ ہے کہ جو فقیر مومن کی مادّی امور  اورمعاش میں مدد کرے ،اور خدا کے نزدیک محبوب ترین افراد وہ ہیں جو  مدد کریں،فائدہ پہچائیں اور مومنین سے پریشانی و تکلیف کو دور کریں۔

--------------

[3]۔ شرح غرر الحکم:ج۲ص ۱۷۸

[4]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۲6۱، تحف العقول:357

۶۴

  روحانی عبادات

عبادات کی قسموں میں سے ایک روحانی عبادت ہے ۔یعنی انسان تفکر و تدبّر اور اپنے دل کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا سے نزدیک ہو سکتاہے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام ایک خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں کہ جس میں آپ نے مور کی خلقت کے اسرار و عجائب بیان فرمائے ہیں:

''جَعَلْنَا اللّٰهُ وَ اِیّٰاکُمْ مَمَّنْ یَسْعٰی بِقَلْبِهِ اِلٰی مَنٰازِلِ الْاَبْرٰارِ بِرَحْمَتِهِ'' (1)

خدا وند ہمیں اور تمہیں ان میں سے قرار دے کہ جو اپنے دل کے ذریعہ  نیک لوگوں کے منازل تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام علیہ السلام کا یہ کلام اس بات کی دلیل ہے کہ انسان روحانی عبادتوں کے ذریعے (جیسے خدا کی آیات اور نشانیوںمیں تفکر کرنا)منزل مقصود تک پہنچ سکتاہے اور نیک و صالح افراد کے زمرہ میں آسکتاہے۔اسی لئے بعض روایات میں خدا کے امر میں تفکر و تدبّر کو عبادت قرار دیا گیاہے۔حضرت امام علی بن موسی الرضا  علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لَیْسَتِ الْعِبٰادَةُ کَثْرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصَّوْمِ ،اِنَّمَا الْعِبٰادَةُ اَلتَّفَکُّرُ فِْ اَمْرِ اللّٰهِ'' (2)

عبادت ،زیادہ نمازوں اور روزوںمیں نہیں ہے ،بیشک خدا کے امر میں زیادہ تفکر اور غور و فکر کرنا عبادت  وبندگی ہے۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:165

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۲۲،اصول کافی:ج 2ص۵۵

۶۵

اسی لئے حضرت ابو ذر علیہ السلام نے اکثر اپنی عبادت ،تفکر کو ہی قرار دیا اور آپ اسی ذریعے سے ہی حضرت سلمان علیہ السلام کے ہم ردیف ہو گئے حلانکہ آپ حضرت سلمان علیہ السلام کی بنسبت کم سن تھے اور اس میں سے بھی آپ نے ایک مدت تک اپنی زندگی زمان جاہلیت میں بسر کی۔

پس عبادت و بندگی صرف جسمانی عبادی امور میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ روحانی عبادات اور روح کی بھی عبادات ہیں۔جس طرح نماز اور دوسرے عبادی امور میں خشوع و خضوع ،توجہ اور خلوص ان عبادات کے لئے جسمی اعمال کی روح شمار ہوتے ہیں۔

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ انسان کو تمام عبادات میں ان کے روحانی پہلو کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے  اور اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔لیکن افسوس کہ ایسے افراد بھی ہیں کہ جو نہ صرف عبادات کے روحانی پہلو کا خیال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ عبادات کے جسمی اعمال کو بجالانے میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور انہیں مکمل طور پر انجام نہیں دیتے۔

حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی کہتے ہیں:

''سَأَلَ اَبُو بَصِیْر الصّادِقَ علیه السلام وَ اَنَا جَالِس عَنْدَهُ عَنِ الْحُوْرِ الْعَیْنِ،فَقٰالَ لَهُ:جُعِلْتُ فَدٰاکَ اَخَلْق مِنْ خَلْقِ الدُّنْیٰا أَوْ(خَلْق مِنْ)خَلْقِ الْجَنَّةِ؟ فَقٰالَ لَهُ:مَا أَنْتَ وَ ذَاکَ ؟عَلَیْکَ بِالصَّلاةِ ،فَاِنَّّ آخِرَ مَا اَوْصٰی بِهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ حَثَّ عَلَیْهِ ،الصَّلاٰةُ اِیّٰاکُمْ اَنْ یَسْتَخِفَّ اَحَدُکُمْ بِصَلاٰتِهِ فَلاٰ هُوَ اِذٰا کٰانَ شٰابّاً أَتَمَّهٰا،وَلاٰ هُوَ اِذٰا کٰانَ شَیْخًا قَوَِ عَلَیْهٰا ،وَمٰا اَشَدَّ مِنْ سِرْقَةِ الصَّلاٰةِ...'' (1)

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ۔ابو بصیر نے آپ سے حور العین کے بارے میں پوچھا اور کہا: میری جان آپ پر قربان کیا یہ اس دنیاکی مخلوق ہیں یا یہ جنتی مخلوق ہیں ؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:تمہیں ان امور سے کیا مطلب ہے؟

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۸۴ ص۲۳6،قرب الاسناد:27

۶۶

تم پر لازم ہے کہ تم نماز کا خیال رکھو کیونکہ رسول اکرم(ص) نے جس چیز کے بارے میں سب سے آخری وصیت کی اور لوگوں کو جس چیز کی طرف رغبت دلائی ،وہ نماز ہے ۔

نماز کو خفیف شمار کرنے سے پرہیز کرو،کیونکہ نہ ہی تو تم اسے جوانی میں مکمل طور پر انجام دیتے ہو اور نہ ہی بڑھاپے میں اسے مکمل طور پر انجام دینے پر قادر رہو ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی نماز کو چوری کرے۔

اس بناء پر ہمیں ظاہری ارکان اور عبادات کے جسمانی اعمال کی بھی رعایت کرنی چاہئے اور اسی طرح عبادات کے باطن پر بھی توجہ کرنی چاہئے،کیونکہ جو چیز اہم ہے ،وہ روح عبادت ہے۔

ُٰپیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''رَکْعَتٰانِ خَفِیْفَتٰانِ فِ تَفَکُّرٍ خَیْرمَنْ قِیٰامِ لَیْلَةٍ'' (1)

تفکر کے ساتھ پڑھی جانے والی دو رکعت خفیف نماز ،پوری رات عبادت میں کھڑے رہنے سے بہتر ہے۔

ان فرامین کی بناء پر عبادات میں اصل، تفکر و توجہ ہے کہ جو عبادت کی روح اور جان کی مانند ہے ۔ مثال کے طور پر آپ سورۂ حمد میں تفکر و تدبّر اور غور و فکر سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور آپ  کے دشمنوں سے برأت کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور یوں آپ دن میں کم از کم دس مرتبہ  اپنے اس اعتقادی اصول کو اپنے ذہن میں تصور کرکے زبان پر لا سکتے ہیں۔ عبادت کا یہ نتیجہ صرف تفکر و تدبّر کے ساتھ ہی ممکن ہے کیونکہ تفکر عبادت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:"لاٰ عِبٰادَةَ کَالتَّفَکُّرِ'' (2) تفکّر کے مانند کوئی عبادت نہیں ہے۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۸۴ ص۲۴۰، ثواب الاعمال:40

[2]۔ بحار الانوار: ج۷۷ ص۷۰، محاسن:16

۶۷

عبادات کی قسمیں

عبادات کی قسموں  سے آشنائی پیداکریں اور عبادت کی ایک ہی قسم کو انجام دینے پر اکتفا نہ کریں جیسے مادّی رزق انواع و اقسام کا ہوتاہے اور آپ اپنی خوراک مختلف جگہوں سے مہیا کرتے ہیں ۔اگر آپ کا کوئی کھانا نمک یا کسی دوسرے ضروری مواد کے بغیر ہو تو وہ کھانا مکمل نہیں ہوگا۔اسی طرح معنوی اعمال میں بھی ایک ہی عبادت کو انجام دیتے رہیں تو آپ کا باطن مطمئن نہیں ہو گا اگر چہ وہ عبادت زیادہ ہی کیوں نہ ہو،جیسے آپ نے اپنے دسترخواں پر بہت زیادہ گوشت تو جمع کر لیاہو لیکن نان ا ور نمک نہ ہو تو اس صورت میں آپ اس سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں؟

جس طرح نماز و روزہ عبادت ہیںاسی طرح غور و فکر اورتفکر و تدبر بھی عبادت ہے،جس طرح  غور و فکر کرنا عبادت ہے اسی طرح خدمت خلق بھی عبادت ہے،جس طرح خدمت خلق عبادت ہے اسی طرح انتظار ظہور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  اور غیبت کے زمانے کی ذمہ داریوں سے آشنائی بھی عبادت ہے،جس  طرح انتظار ظہور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اور غیبت کے زمانے کی ذمہ داریوں سے آشنائی عبادت ہے اسی طرح مکتب اہلبیت علیھم السلام کے عقائد و معارف سے آشنائی بھی عبادت ہے۔....کوشش کریںکہ ان تما م عبادات کو انجام دیں اور خود کو تکامل تک پہنچائیں۔

۶۸

 عبادت مخلصانہ ہونی چاہئے؟

اس بناء پر کثرت عبادت اہمیت کا معیار نہیں ہے بلکہ عبادت کی اہمیت کا معیار و ملاک اس کی تأثیر ہے اگرچہ عبادت کم ہی کیوں نہ ہو۔اگر عبادت مخلصانہ ہو تو اس کے بہت سے اثرات ہیں۔اسی لئے ہمیں ہر کام اور بالخصوص معنوی امور میںخلوص کے ساتھ قدم بڑھانا چاہئے اور ذاتی حساب اور غرض سے ہاتھ اٹھا لینا چاہئے اور کسی بھی مکاری  اور فریب  کے بغیر سچائی سے اپنا کام کرنا چاہئے۔

دل کوہر قسم کے فریب اور مکاری سے پاک کرنا اور خلوص کو حاصل کرنا شیعوں کی خصوصیات میں سے ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ شِیْعَتَنٰا مَنْ سَلُمَتْ قُلُوْبُهُمْ مِنْ کُلِّ غَشٍّ وَ دَغَلٍ'' (1)

بیشک ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر قسم کے فریب اور دھوکے  سے پاک ہوں۔

نیتوں میں  دھوکا و فریب انسان کی شخصیت میں کمی کا باعث بنتا ہے ۔اس لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ عبادت کومخلصانہ طور پر انجام دیں اور مسلم اور محکم ارادہ سے اپنے دل سے ہر قسم کی غرض فریب اور دھوکے کو دور کریں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج6۸ج۱۵6،تفسیر امام العسکری علیہ السلام:123

۶۹

دل کو مکاری،دھوکے اور فریب سے پاک کرنے کا ایک طریقہ محمد و آل محمد علیھم السلام پر زیادہ سے زیادہ  ددرود بھیجنا ہے۔( 1 ) دعاؤں سے پہلے درود بھیجنے کی ایک وجہ فریب اور دھوکے کو دور کرنا اور خلوص کا حصول ہے۔

جن امور میں کوشش اور جستجو خلوص  کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ  فقط دکھاوا ہو تو اس کا نہ صر ف یہ کہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا  بلکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔لیکن جو عبادت مخلصانہ ہو تو وہ خدا کے تقرب کے لئے بہت مؤثر ہے۔کیونکہ عبادات کو انجا م دینے میں  اگرمخلصانہ طور پر کوشش کی جائے تو یہ انسان میں راسخ برائیوں کو نیست و نابود کرکے انسان کو خدا کے نزدیک کردیتی ہے۔

عبادت اور عبودیت و بندگی کے مقام تک پہنچنا ہی صراط مستقیم ہے،ہمیں چاہئے کہ ہم خدا کی عبادت کے ذریعہ صراط مستقیم کی طرف قدم بڑھائیں ۔

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُّسْتَقِیْم( 2 )

اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی عبادت کرو کہ یہی صراط مستقیم ہے ۔

اس بناء پر انسان خدا کی عبادت و بندگی کے ذریعے اس کے صراط مستقیم پر آ سکتاہے اور شیاطین کے تسلط سے رہائی حاصل کر سکتاہے۔

--------------

[1] ۔ اس بارے میں ایک مفصل روایت کی طرف رجوع کریں جسے مرحوم علامہ مجلسی  نے بحار الانوار:ج۴۹ص۱6 میں ذکر کیا ہے۔

[2]۔ سورۂ زخرف ،آیت :64

۷۰

اس راہ کی طرف قدم بڑھانا اور اس پر قائم رہنا  ،یہ خودانسان کی سعادت اور نجات کی دلیل ہے۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''دَوٰامُ الْعِبٰادَةِ بُرْهٰانُ الظَّفَرِ بِالسَّعٰادَةِ'' ( 1 )

عبادت میں دوام انسان کی سعادت و کامیابی کی دلیل ہے۔

کیونکہ انسان عبادت اور اس کی شرائط کی حفاظت سے اولیاء خداکی صفوں میں داخل ہو جاتاہے اور اس کا شمارخداکے ممتاز بندوں میں سے ہوتاہے اور وہ اولیاء خدا

کی مخصوص اوصاف و خصوصیات کا مالک بن جاتاہے۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ:یَقُوْلُ:اَنَا وَ عَلِّ اَبَوٰا هٰذِهِ الْاُمَّةِ ،وَ لَحَقُّنٰا عَلَیْهِمْ أَعْظَمُ مِنْ حَقِّ أَبَوَیْ وِلاٰدَتِهِمْ،فَاِنَّنٰا نَنْقُذُهُمْ اِنْ اَطٰاعُوْنٰا مِنَ النّٰارِ اِلٰی دٰارِ الْقَرَارِ ،وَ نُلْحِقُهُمْ مِنَ الْعُبُوْدِیَّةِ بِخِیٰارِ الْأَحْرٰارِ'' ( 2 )

میں نے رسول خدا(ص) سے سناہے:آپ(ص) نے فرمایا:میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں، اور ان پر ہمارا حق ان کے والدین سے زیادہ ہے جن سے وہ پیدا ہوئے ہیں ۔کیونکہ ہم انہیں جہنم سے نجات دلا کر جنت میں داخل کریں گے(اگر وہ ہماری پیروی کریں)اور انہیں دوسروں کی بندگی سے اوربہترین آزاد افراد سے ملحق کریں گے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم:224

[2]۔ بحار الانوار:ج۲۳ص۲۵۹، تفسیر الامام العسکری علیہ السلام:133

۷۱

پس خاندان نبوت علیھم السلام کے فرامین کی پیروی اور مخلصانہ عبادت سے انسان مقام عبودیت تک پہنچ سکتا ہے اورنیک و صالح افراد کے ساتھ ملحق ہو سکتاہے اور انسان سے پلید شیطان دور ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی خدا نے قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے۔

       (اِنَّ عِبٰادِي لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰان وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً) ( 1 )

بیشک میرے اصلی بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں ہے اور آپ کا پروردگار ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے ۔

بہت سے شیعہ بزرگوںنے قرب الٰہی اور عبودیت کے مقام تک پہنچنے کے لئے بہت کوشش کی۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے مرحوم کرباسی  کی کوشش ایسی ہی کوششوں کا ایک نمونہ ہے۔ ان کا شمار بزرگ شیعہ علماء میں ہوتا ہے اور آپ سید بحر العلوم کے شاگردوں میں سے ہیں۔ان کے حالات زندگی میں لکھا گیا ہے:

اس بزرگ شخصیت نے شب قدر کو درک کرنے کے لئے پورا سال رات سے صبح تک عبادت انجام دی اور ہر رات تہجد کی برکات سے مستفید ہوتے ۔مرحوم کرباسی عبادت میں خشوع وخضوع اور حضور قلب کی رعایت کرتے ۔ایک بار اصفہان کے ایک اعلی عہدہ دار نے ان کے احترام کا خیال نہ رکھا تو آپ نے اس کے بارے میں دعا کی ۔کچھ مدت کے بعد ہی اس حاکم کو معزول کر دیا گیا ۔پھر مرحوم کرباسی نے اس کے لئے یوں لکھا:

--------------

[1]۔ سورۂ اسراء ،آیت:65

۷۲

دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را

چندان امان نداد کہ شب را سحر کند

وہ  اپنے زمانے کے سب سے بڑے زاہد تھے ۔مرحوم مرزا قمی  نے ان سے توضیح المسائل لکھنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے جواب میں کہا:میرے بدن کی ہڈیوں میں جہنم کی آگ کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن بالآخر مرحوم مرزا قمی کے اصرار پر آپ نے رسالہ لکھا۔

اگر کوئی فقیر آپ سے کوئی چیز مانگتا تو آپ اس سے گواہ لانے کو کہتے اور پھر آپ گواہ اور فقیر دونوں کو قسم دیتے کہ اس چیز کو خرچ کرنے میں اسراف نہیں کروگے ،اور پھر اسے ایک مہینے کا خرچہ دیتے۔

کہتے ہیں کہ ایک دن کسی واقعہ کے بارے میں ایک شخص نے ان کے سامنے گواہی دی ۔آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو؟اس نے کہا :میں غسل دیتا ہوں۔آپ نے اس سے غسل دینے کے شرائط پوچھے۔اس شخص نے غسل کی شرطوں کو بیان کیا اور پھر کہا کہ میں دفن کے وقت میت کے کان میں کچھ کہتا ہوں:مرحو م کرباسی نے کہا:تم میت کے کانوں میںکیا کہتے ہو؟اس شخص نے کہا:میں میت کے کان میں کہتا ہوں کہ تم خوش نصیب ہو کہ مر گئے اور آقا کرباسی کے پاس گواہی دینے کے لئے نہیں گئے۔!( 1 )

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:10،قصص العلماء:118

۷۳

  عبادت میں نشاط

اگر آپ عبادت کے جذبہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خود سے جبر و کراہت کی حالت کو دور کریں اور ذوق و شوق  اور باطنی نشاط سے عبادت انجام دیں تا کہ آپ اس کے انمول آثار درک کر سکیں اور خود کو شیاطین کے تسلط سے نجات دلا سکیں۔

حضرت پیغمبر اکرم(ص) کا ارشاد ہے:

''اَفْضَلُ النّٰاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبٰادَةَ فَعٰانَقَهٰا وَ اَحَبَّهٰا بِقَلْبِهِ ،وَ بٰاشَرَهٰا بِجَسَدِهِ وَ تَفَرَّغْ لَهٰا ،فَهُوَ لاٰیُبٰالِْ عَلٰی مٰا اَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیٰا عَلٰی عُسْرٍأَمْ عَلٰی یُسْرٍ'' (1)

افضل ترین لوگ وہ ہیں جو بندگی و عبادت کے عاشق ہوں اور اسے آغوش میں لے لیں اور دل و جان سے اس سے محبت کریں اور جسمی اعتبار سے عبادت میں مشغول ہوں اور فکری لحاظ سے راحت اورآرام سے عبات کریں ۔پھر اسے اس چیزکی فکر نہیں ہونی چاہئے کہ دنیا میں کس طرح صبح کی ،سختی یا راحت و آرام سے۔

اس بناء پر عبادت کے خالصانہ ہونے کے علاوہ  عبادت کے اثرات کے اہم

شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ شیطان و نفس، انسان کی عبادت کے لئے محرک نہ ہوں ورنہ عبادت ریا ،دکھاوا ،غرور اور اس جیسی دوسری چیزوں کی صورت میں انجام دی جائے گی۔انسان کوچاہئے کہ وہ خود کو اس طرح سے بنائے کہ اس کا نفس اس کی عقل کا تابع ہو اور جب وہ مخلصانہ طور پر عبادت کے لئے کھڑا ہو تو اس کا نفس اس کی عقل کے تابع ہو اور اصلاح نفس کی وجہ سے نفس بھی عقل کے تابع ہونا چاہئے اور ذوق و شوق اور مخلصانہ طور پر عبادت انجام دی جائے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۵۳، اصول کافی: ج۳ص۷۳

۷۴

اس بناء پر تہذیب و اصلاح نفس اہم شرائط میں سے ہے کہ جو عبادت میں اہم کردار کا حامل ہے۔کیونکہ اگر انسان عقل کے حکم پر عبادت انجام دے لیکن اپنے نفس کو اپنی عقل کا مطیع نہ بنا سکے تو اس کا نفس اس کے وجود میں فعالت انجام دینا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ عبادت کو بے نتیجہ طور پر دکھاتا ہے اور اسے عبادت انجام دینے سے ہی روک دیتاہے ۔ اسی طرح کچھ دوسرے موانع مثلاً اس کے د ل میں وسوسہ پیدا کر دیتاہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان جوعبادت انجام دیتا ہے اسے اس سے کوئی روحانی لذت نہیں ملتی ۔

قرآن کریم کی آیات کے مطابق عبادت خداوند کا صراط مستقیم ہے ،انسان اس طریقے سے عبودیت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور جو مقام عبودیت تک پہنچ جائے  اس پر شیطان مسلط نہیں ہو سکتا  اور جو عبادت سے بغض و دشمنی رکھتے ہوئے مجبوراً اسے انجام دے ،وہ نہ  صرف شیطان کے تسلط سے رہائی حاصل نہیں کر سکتے بلکہ ان کا نفس شیطان کے وسوسوں سے اور زیادہ مہلک و خطرناک ہو جاتا ہے اور یوں وہ شیطان کے نفوذ کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔

جس عبادت میں انسان اپنے نفس کو اپنی عقل کاتابع قرار نہ دے سکے اور خود سازی سے عبادت انجام نہ دے، اس عبادت کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے عبادت کا نتیجہ یعنی شیطان کے تسلط سے رہائی نہیں ملتی۔

اس بناء پر ہر عبادت کو انجام دینے کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے اور صلاحیت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہئے ۔یہ واضح سی بات ہے کہ جو سخت عبادات اور شرعی ریاضتیں انجام دیتے ہیں لیکن وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے ،وہ ایسے اعمال انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔انہیں چاہئے کہ وہ آمادگی کو ایجاد کرنے لے لئے اپنے دل میں عبادت کی محبت کو ایجاد کریں۔

۷۵

پس سخت اور بعض کے بقول شرعی ریاضتوں کو انجام دینے کے لئے روحانی و نفسانی طور پر تیار ہونا اور اس کی صلاحیت ان کی حتمی شرائط میں سے ہے۔

یہ کتنا نیک ، پسندیدہ بلکہ ضروری عمل ہے کہ انسان ہر کام اور بالخصوص عبادی امور کو انجام دینے کے لئے مکتب اہلبیت علیھم السلام سے آشنائی رکھتا ہو اور انہیں معصوم ہستیوں کے بتائے گئے طریقے کے مطابق خدا کی عبادت انجام دے تا کہ مصیبتوں سے محفوظ رہے۔

گرچہ راہی است پر ازبیم ز ما تا برِ دوست

رفتن آسان بود ، ار واقف منزل باشی

عبادات کو انجام دینے کے لئے مکتب اہلبیت علیھم السلام کی پیروی کے لئے عبادت کی شرائط کو جاننا ضروری ہے اور اسی طرح عبادات کی قبولیت کے موانع جیسے حرام خوری ، سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔

۷۶

 عبادت میں نشاط کے اثرات

ذوق و شوق اور نشاط انسان کی قوت ارادہ میں اضافہ کا باعث ہے ینز اس سے استقامت و پائیداری میں بھی اضافہ ہوتاہے۔نشاط انسان کے مشکل اورسخت کاموں کو آسان اور رنج و زحمت کو کم کر دیتاہے۔

اسی وجہ سے جو لوگ مشکل ترین عبادی امور کو ذوق و شوق اور نشاط سے انجام دیتے ہیں ،وہ نہ  صرف ان کاموں کو انجام دینے سے تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے بلکہ انہیں ان کاموںکی سنگینی کا بھی احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ روحانی لذت محسوس کرتے ہیں۔اسی لئے وہ خدا وند کریم سے یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا عبادت و بندگی میں ان کے نشاط میں اضافہ فرمائے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعا میں پڑھتے ہیں:

''اِجْعَلْ .....نَشٰاطِ فِْ عِبٰادَتِکَ'' (1)

خداوندا !اپنی  عبادت کے لئے میرے نشاط میں اضافہ فرما۔

''رَبَّنٰا.....وَامْنُنْ عَلَیْنٰا بِالنَّشٰاطِ'' (2)

پروردگارا!مجھے نشاط عنایت کرکے مجھ پر احسان فرما۔

ایک زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:''تَحَبَّبْ اِلََّ عِبٰادَتَکْ.....وَ تُنْشِطُنِْ لَهٰا'' (3)

خداوندا!مجھے اپنی عبادت کی محبت عنایت فرما..اور مجھے اس کے انجام دینے کے لئے نشاط و تازگی عطا فرما۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج ۹0ص۲۰۰،بلد الامین :131

[2]۔ بحار الانوار:ج۹۴ص۱۲۵

[3]۔ بحار الانوار:ج۱۰۲ص۱۷۰،مصباح الزائر:242

۷۷

منقول دعاؤں میں عبادت میں نشاط طلب کرنے کا راز یہ ہے کہ نشاط سخت اور سنگین عبادتوں کو انجام دینے کے لئے انسان کی بہترین یاور و مددگار ہے۔جس طرح مشکل اور طاقت طلب کاموں کو اگر مل کر انجام دیا جائے تو وہ آسان ہو جاتے ہیں ۔  اسی طرح بعض روحانی کاموں کو بھی اگر مل کر انجام دیا جائے تو بھی انسان کی قدرت میں اضافہ ہوتاہے یعنی اگر انسان میں بعض روحانی قوتیں ہوں تو وہ چند افراد کا کام تنہا بھی انجام دے سکتا ہے۔

انہیں روحانی قوتوں میں سے ایک شوق اور نشاط ہے اگر آپ خود میں نشاط کی قدرت کو تقویت دیں  تو بہت سی سنگین عبادتیں بھی آپ کے لئے سہل اور آسان ہو جائیں گی گویا آ پ نے انہیں چند افراد کی مدد سے انجام دیاہو۔

اسی لئے ماہ رمضان کی آمد کی دعا میں پڑھتے ہیں:

''.....أَحْسِنْ مَعُوْنَتِْ فِ الْجِدِّ وَ الْاِجْتِهٰادِ وَ الْمُسٰارَعَةِ اِلٰی مٰا تُحِبُّ  وَ تَرْضٰی  وَ النَّشٰاطِ وَ الْفَرَحِ وَ الْصِّحَةِ حَتّٰی اَبْلُغَ فِ عِبٰادَتِکَ وَ طٰاعَتِکَ الَّتِیْ یَحِقُّ لَکَ عَلَّیَ رِضٰاکَ'' ( 1 )

سعی وکوشش میں  اور جس چیز میں تیری خوشنودی و رضائیت ہو اس کی طرف جلدی کرنے میں ، فرحت و نشاط اور جسمانی سلامتی  میں  میری مدد فرما تاکہ تیری اطاعت میں  اس بندگی کا حق اداد کر سکوں جس کا حق میری گردن پر ہے اور تیری رضائیت و خوشنودی کی طرف مائل ہو جاؤں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۷ص۳۳۰

۷۸

جیسا کہ آپ نے اس دعامیں ملاحظہ کیا کہ نشاط ا ور صحت کو عبادت کے لئے مدد کے طور پر جانا گیاہے۔

خاندان نبوت علیھم السلام کے فرمودات سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ نشاط بڑے بڑے سنگین کاموں کے لئے کامیابی کے اسرار میں سے ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم حیات بخش امور میں ان اسرار سے استفادہ کریں۔اگر ایسے امور میں ہم با نشاط نہ ہوں تو ہمیں چاہئے کہ اپنی تمام تر توانائی اپنے نفس پر خرچ کریں اور اپنے نفس کو ذوق و شوق اور نشاط مہیا کرنے کے لئے آمادہ کریں۔

اسی وجہ سے اگرچہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے یاور و انصار کے بدن بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں لیکن عمل کے وقت ان کے دل ذوق و شوق  اور نشاط سے لبریز ہوتے ہیں۔

۷۹

 عبادت میں کراہت

عبادت کی کیفیت کے بارے میں خاندان وحی علیھم السلام کی رہنمائی اور اس کی باطنی و قلبی جہات کی طرف توجہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہوں اور ان کے آثار و اثرات کو درک کریں ۔ان کو انجام دینے سے انسان میں تبدیلی ایجاد ہو  ورنہ  اگر عبادت کا کوئی اثر نہ ہو اور یہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے راستہ سے دور ہو تو اس عبادت کا کیا فائدہ ہے؟کیا ایسی عبادتوں کا زحمت، تکلیف اور رنج کے سوا کوئی اور فائدہ ہے؟!

اسی وجہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اِیّٰاکُمْ وَ الْجُهّٰالِ مِنَ الْمُتَعَبِّدِیْنَ وَالْفُجّٰارِ مِنَ الْعُلْمٰائِ فَاِنَّهُمْ فِتْنَةُ کُلِّ مَفْتُوْن'' (1)

عبادت کرنے والے جاہل افراد سے پرہیز کرو  اور بے عمل و فاجر علماء سے درو رہو کیونکہ یہ ہر دلباختہ شخص کے لئے فتنہ ہیں۔

کبھی ایسے افراد کی اصل عبادت صحیح نہیں  ہوتی اور یہ لوگ غیر عبادت کو عبادت کے طور پر قبول کرکے انجام دیتے ہیں۔کبھی ان کا عمل شریعت میں وارد ہوتا ہے ،لیکن وہ اسے انجام دیتے وقت بندگی و عبادت کی حالت کے بجائے جبراً اور مجبوری کے طور پر انجام دیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی وہ خود کو کامل اور ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۰6

۸۰