کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار14%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123747 / ڈاؤنلوڈ: 5377
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

 نتیجۂ بحث

اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب سے ہی معارف سیکھیں اور اپنے اعتقادات کی بنیاد وحی الٰہی کو قرار دیں اور بشری نظریات و خیالات سے پرہیز کریں ۔یہ معارف کو سیکھنے اور عقائد کو درک کرنے کا صحیح راستہ ہے۔

اس بناء پر اپنے دینی اعتقادات اور عرفانی افکار کو وحی الٰہی سے اخذ کرنے کی کوشش کریںاور خاندان نبوت و رسالت علیھم السلام سے حکمت کا درس لیں۔

عارف نما لوگوں سے پرہیز کریں جو عارف ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر آداب و رسوم کو ترک کرتے ہیں۔عظیم معارف کے آثار سیکھیں اور حقیقی عرفاء کی صفات و خصال سے آشنائی حاصل کریں کہ جن کا وجود معرفت کے انوار سے منور ہوتاہے۔

عرفانی حالات میں تعادل اور ہماہنگی کی رعایت کریں اور عرفانی حالات جیسے قبض،بسط اور روحانی نشاط کی طرف متوجہ رہیں تا کہ آپ ایک متعادل زندگی بسر کر سکیں۔

ابو بصیر کی روایت کا دقیق مطالعہ کریں اور اس کے نکات پر غور و فکر کریں اور اس کے اسرار و معارف سے اپنے وجود کو منور کریں۔

فردا کہ زوال شش جہت خواھد بود

قدر  تو  بہ  قدر معرفت خواھد بود

۶۱

تیسراباب

عبادت  و  بندگی

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اِذٰا أَحَبَّ اللّٰهُ عَبْداً أَلْهَمَهُ حُسْنَ الْعِبٰادَةِ ''

جب بھی خدا کسی بندے کو دوست رکھتا ہے  تو اس پر اچھی طرح سے عبادت کرنے کا طریقہ الہام کر دیتاہے ۔

    دینی بھائیوں کی خدمت

    روحانی عبادات

    عبادات کی قسمیں

    عبادت مخلصانہ ہونی چاہئے؟

    عبادت میں نشاط

    عبادت میں نشاط کے اثرات

    عبادت میں کراہت

    عبادت کیا ہے؟

    محبت اہلبیت علیھم السلام یا عبادت میں نشاط کا راز

    نتیجۂ بحث

۶۲

 دینی بھائیوں کی خدمت

انسان کی عظمت و شرافت پہ دلالت کرنے والی عبادات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دینی بھائیوں کی خدمت کے لئے کمر ہمت باندھ لے اور مشکلات میں ان کی مدد کرے۔

اگر خدا کے لئے بیکسوں کیخبرگیری اور مومن بھائیوں کی خدمت کی جائے تو یہ بہت اہم عبادت ہے ۔آئمہ معصومین علیھم السلام کے فرمودات و ارشادات میں نہ صرف اس کی تاکید کی گئی ہے بلکہ اسے عبادات کی افضل ترین اقسام میں سے شمار کیا گیاہے۔

اس بارے میں حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ أَشْرَفَ الْعِبٰادَةِ خِدْمَتُکَ اِخْوٰانَکَ الْمُؤْمِنِیْنَ'' (۱)

افضل و اشرف ترین عبادت تمہاری تمہارے مومن بھائیوں کی خدمت کرنا ہے۔

انسان کی زندگی میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہونے والے اس بنیادی نکتہ کی طرف کم توجہ کرنے کے ایسے نقصانات ہیں کہ جن کا جبران نہیں کیا جا سکتا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام گناہان کبیرہ کو شمار کرنے کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''.....تَرْکُ مُعٰاوَنَةِ الْمَظْلُوْمِیْنَ'' (۲)

مظلوموں کی مدد نہ کرناگناہان کبیرہ ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۵ ص۳۱۸، تفسیر الامام العسکری علیہ السلام:۲۶۰

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷۹ص۱۰، خصال:ج۲ص۱۵۵

۶۳

اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے :دینی بھائی کے ساتھ تعاون کرنا صرف مادّی امور میں ہی نہیں ہے بلکہ ان کی فکر ی افزائش اور رہنمائی کرنا بھی ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ جو اس کی  صلاحیت رکھتے ہیں۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''أَعِنْ أَخٰاکَ عَلٰی هِدٰایَتِهِ'' (۱)

اپنے بھائی کی ہدایت کے لئے مدد کرو۔

اس بیان سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ خاص شرافت و عظمت رکھنے والی عبادات کی اقسام میں سے ایک دینی بھائیوں کی خدمت کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔

اس طریقے سے آپ بلند معنوی مقامات حاصل کر سکتے ہیں اور خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت اپنی طرف جلب کر سکتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ أَحَبَّ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلَی اللّٰهِ مَنْ أَعٰانَ الْمُوْمِنَ الْفَقِیْرَ مِنَ الْفَقْرِ فِ دُنْیٰاهُ وَ مَعٰاشِهِ،وَ مَنْ أَعٰانَ وَ نَفَعَ وَ دَفَعَ الْمَکْرُوْهَ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ'' (۲)

خدا کے نزدیک مؤمنین میں سے سب سے محبوب وہ ہے کہ جو فقیر مومن کی مادّی امور  اورمعاش میں مدد کرے ،اور خدا کے نزدیک محبوب ترین افراد وہ ہیں جو  مدد کریں،فائدہ پہچائیں اور مومنین سے پریشانی و تکلیف کو دور کریں۔

--------------

[۳]۔ شرح غرر الحکم:ج۲ص ۱۷۸

[۴]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۲۶۱، تحف العقول:۳۵۷

۶۴

  روحانی عبادات

عبادات کی قسموں میں سے ایک روحانی عبادت ہے ۔یعنی انسان تفکر و تدبّر اور اپنے دل کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا سے نزدیک ہو سکتاہے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام ایک خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں کہ جس میں آپ نے مور کی خلقت کے اسرار و عجائب بیان فرمائے ہیں:

''جَعَلْنَا اللّٰهُ وَ اِیّٰاکُمْ مَمَّنْ یَسْعٰی بِقَلْبِهِ اِلٰی مَنٰازِلِ الْاَبْرٰارِ بِرَحْمَتِهِ'' (۱)

خدا وند ہمیں اور تمہیں ان میں سے قرار دے کہ جو اپنے دل کے ذریعہ  نیک لوگوں کے منازل تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام علیہ السلام کا یہ کلام اس بات کی دلیل ہے کہ انسان روحانی عبادتوں کے ذریعے (جیسے خدا کی آیات اور نشانیوںمیں تفکر کرنا)منزل مقصود تک پہنچ سکتاہے اور نیک و صالح افراد کے زمرہ میں آسکتاہے۔اسی لئے بعض روایات میں خدا کے امر میں تفکر و تدبّر کو عبادت قرار دیا گیاہے۔حضرت امام علی بن موسی الرضا  علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لَیْسَتِ الْعِبٰادَةُ کَثْرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصَّوْمِ ،اِنَّمَا الْعِبٰادَةُ اَلتَّفَکُّرُ فِْ اَمْرِ اللّٰهِ'' (۲)

عبادت ،زیادہ نمازوں اور روزوںمیں نہیں ہے ،بیشک خدا کے امر میں زیادہ تفکر اور غور و فکر کرنا عبادت  وبندگی ہے۔

--------------

[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:۱۶۵

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۲۲،اصول کافی:ج ۲ص۵۵

۶۵

اسی لئے حضرت ابو ذر علیہ السلام نے اکثر اپنی عبادت ،تفکر کو ہی قرار دیا اور آپ اسی ذریعے سے ہی حضرت سلمان علیہ السلام کے ہم ردیف ہو گئے حلانکہ آپ حضرت سلمان علیہ السلام کی بنسبت کم سن تھے اور اس میں سے بھی آپ نے ایک مدت تک اپنی زندگی زمان جاہلیت میں بسر کی۔

پس عبادت و بندگی صرف جسمانی عبادی امور میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ روحانی عبادات اور روح کی بھی عبادات ہیں۔جس طرح نماز اور دوسرے عبادی امور میں خشوع و خضوع ،توجہ اور خلوص ان عبادات کے لئے جسمی اعمال کی روح شمار ہوتے ہیں۔

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ انسان کو تمام عبادات میں ان کے روحانی پہلو کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے  اور اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔لیکن افسوس کہ ایسے افراد بھی ہیں کہ جو نہ صرف عبادات کے روحانی پہلو کا خیال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ عبادات کے جسمی اعمال کو بجالانے میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور انہیں مکمل طور پر انجام نہیں دیتے۔

حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی کہتے ہیں:

''سَأَلَ اَبُو بَصِیْر الصّادِقَ علیه السلام وَ اَنَا جَالِس عَنْدَهُ عَنِ الْحُوْرِ الْعَیْنِ،فَقٰالَ لَهُ:جُعِلْتُ فَدٰاکَ اَخَلْق مِنْ خَلْقِ الدُّنْیٰا أَوْ(خَلْق مِنْ)خَلْقِ الْجَنَّةِ؟ فَقٰالَ لَهُ:مَا أَنْتَ وَ ذَاکَ ؟عَلَیْکَ بِالصَّلاةِ ،فَاِنَّّ آخِرَ مَا اَوْصٰی بِهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ حَثَّ عَلَیْهِ ،الصَّلاٰةُ اِیّٰاکُمْ اَنْ یَسْتَخِفَّ اَحَدُکُمْ بِصَلاٰتِهِ فَلاٰ هُوَ اِذٰا کٰانَ شٰابّاً أَتَمَّهٰا،وَلاٰ هُوَ اِذٰا کٰانَ شَیْخًا قَوَِ عَلَیْهٰا ،وَمٰا اَشَدَّ مِنْ سِرْقَةِ الصَّلاٰةِ...'' (۱)

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ۔ابو بصیر نے آپ سے حور العین کے بارے میں پوچھا اور کہا: میری جان آپ پر قربان کیا یہ اس دنیاکی مخلوق ہیں یا یہ جنتی مخلوق ہیں ؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:تمہیں ان امور سے کیا مطلب ہے؟

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۸۴ ص۲۳۶،قرب الاسناد:۲۷

۶۶

تم پر لازم ہے کہ تم نماز کا خیال رکھو کیونکہ رسول اکرم(ص) نے جس چیز کے بارے میں سب سے آخری وصیت کی اور لوگوں کو جس چیز کی طرف رغبت دلائی ،وہ نماز ہے ۔

نماز کو خفیف شمار کرنے سے پرہیز کرو،کیونکہ نہ ہی تو تم اسے جوانی میں مکمل طور پر انجام دیتے ہو اور نہ ہی بڑھاپے میں اسے مکمل طور پر انجام دینے پر قادر رہو ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی نماز کو چوری کرے۔

اس بناء پر ہمیں ظاہری ارکان اور عبادات کے جسمانی اعمال کی بھی رعایت کرنی چاہئے اور اسی طرح عبادات کے باطن پر بھی توجہ کرنی چاہئے،کیونکہ جو چیز اہم ہے ،وہ روح عبادت ہے۔

ُٰپیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''رَکْعَتٰانِ خَفِیْفَتٰانِ فِ تَفَکُّرٍ خَیْرمَنْ قِیٰامِ لَیْلَةٍ'' (۱)

تفکر کے ساتھ پڑھی جانے والی دو رکعت خفیف نماز ،پوری رات عبادت میں کھڑے رہنے سے بہتر ہے۔

ان فرامین کی بناء پر عبادات میں اصل، تفکر و توجہ ہے کہ جو عبادت کی روح اور جان کی مانند ہے ۔ مثال کے طور پر آپ سورۂ حمد میں تفکر و تدبّر اور غور و فکر سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور آپ  کے دشمنوں سے برأت کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور یوں آپ دن میں کم از کم دس مرتبہ  اپنے اس اعتقادی اصول کو اپنے ذہن میں تصور کرکے زبان پر لا سکتے ہیں۔ عبادت کا یہ نتیجہ صرف تفکر و تدبّر کے ساتھ ہی ممکن ہے کیونکہ تفکر عبادت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:"لاٰ عِبٰادَةَ کَالتَّفَکُّرِ'' (۲) تفکّر کے مانند کوئی عبادت نہیں ہے۔

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۸۴ ص۲۴۰، ثواب الاعمال:۴۰

[۲]۔ بحار الانوار: ج۷۷ ص۷۰، محاسن:۱۶

۶۷

عبادات کی قسمیں

عبادات کی قسموں  سے آشنائی پیداکریں اور عبادت کی ایک ہی قسم کو انجام دینے پر اکتفا نہ کریں جیسے مادّی رزق انواع و اقسام کا ہوتاہے اور آپ اپنی خوراک مختلف جگہوں سے مہیا کرتے ہیں ۔اگر آپ کا کوئی کھانا نمک یا کسی دوسرے ضروری مواد کے بغیر ہو تو وہ کھانا مکمل نہیں ہوگا۔اسی طرح معنوی اعمال میں بھی ایک ہی عبادت کو انجام دیتے رہیں تو آپ کا باطن مطمئن نہیں ہو گا اگر چہ وہ عبادت زیادہ ہی کیوں نہ ہو،جیسے آپ نے اپنے دسترخواں پر بہت زیادہ گوشت تو جمع کر لیاہو لیکن نان ا ور نمک نہ ہو تو اس صورت میں آپ اس سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں؟

جس طرح نماز و روزہ عبادت ہیںاسی طرح غور و فکر اورتفکر و تدبر بھی عبادت ہے،جس طرح  غور و فکر کرنا عبادت ہے اسی طرح خدمت خلق بھی عبادت ہے،جس طرح خدمت خلق عبادت ہے اسی طرح انتظار ظہور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  اور غیبت کے زمانے کی ذمہ داریوں سے آشنائی بھی عبادت ہے،جس  طرح انتظار ظہور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اور غیبت کے زمانے کی ذمہ داریوں سے آشنائی عبادت ہے اسی طرح مکتب اہلبیت علیھم السلام کے عقائد و معارف سے آشنائی بھی عبادت ہے۔....کوشش کریںکہ ان تما م عبادات کو انجام دیں اور خود کو تکامل تک پہنچائیں۔

۶۸

 عبادت مخلصانہ ہونی چاہئے؟

اس بناء پر کثرت عبادت اہمیت کا معیار نہیں ہے بلکہ عبادت کی اہمیت کا معیار و ملاک اس کی تأثیر ہے اگرچہ عبادت کم ہی کیوں نہ ہو۔اگر عبادت مخلصانہ ہو تو اس کے بہت سے اثرات ہیں۔اسی لئے ہمیں ہر کام اور بالخصوص معنوی امور میںخلوص کے ساتھ قدم بڑھانا چاہئے اور ذاتی حساب اور غرض سے ہاتھ اٹھا لینا چاہئے اور کسی بھی مکاری  اور فریب  کے بغیر سچائی سے اپنا کام کرنا چاہئے۔

دل کوہر قسم کے فریب اور مکاری سے پاک کرنا اور خلوص کو حاصل کرنا شیعوں کی خصوصیات میں سے ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ شِیْعَتَنٰا مَنْ سَلُمَتْ قُلُوْبُهُمْ مِنْ کُلِّ غَشٍّ وَ دَغَلٍ'' (۱)

بیشک ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر قسم کے فریب اور دھوکے  سے پاک ہوں۔

نیتوں میں  دھوکا و فریب انسان کی شخصیت میں کمی کا باعث بنتا ہے ۔اس لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ عبادت کومخلصانہ طور پر انجام دیں اور مسلم اور محکم ارادہ سے اپنے دل سے ہر قسم کی غرض فریب اور دھوکے کو دور کریں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۶۸ج۱۵۶،تفسیر امام العسکری علیہ السلام:۱۲۳

۶۹

دل کو مکاری،دھوکے اور فریب سے پاک کرنے کا ایک طریقہ محمد و آل محمد علیھم السلام پر زیادہ سے زیادہ  ددرود بھیجنا ہے۔( ۱ ) دعاؤں سے پہلے درود بھیجنے کی ایک وجہ فریب اور دھوکے کو دور کرنا اور خلوص کا حصول ہے۔

جن امور میں کوشش اور جستجو خلوص  کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ  فقط دکھاوا ہو تو اس کا نہ صر ف یہ کہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا  بلکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔لیکن جو عبادت مخلصانہ ہو تو وہ خدا کے تقرب کے لئے بہت مؤثر ہے۔کیونکہ عبادات کو انجا م دینے میں  اگرمخلصانہ طور پر کوشش کی جائے تو یہ انسان میں راسخ برائیوں کو نیست و نابود کرکے انسان کو خدا کے نزدیک کردیتی ہے۔

عبادت اور عبودیت و بندگی کے مقام تک پہنچنا ہی صراط مستقیم ہے،ہمیں چاہئے کہ ہم خدا کی عبادت کے ذریعہ صراط مستقیم کی طرف قدم بڑھائیں ۔

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُّسْتَقِیْم( ۲ )

اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی عبادت کرو کہ یہی صراط مستقیم ہے ۔

اس بناء پر انسان خدا کی عبادت و بندگی کے ذریعے اس کے صراط مستقیم پر آ سکتاہے اور شیاطین کے تسلط سے رہائی حاصل کر سکتاہے۔

--------------

[۱] ۔ اس بارے میں ایک مفصل روایت کی طرف رجوع کریں جسے مرحوم علامہ مجلسی  نے بحار الانوار:ج۴۹ص۱۶ میں ذکر کیا ہے۔

[۲]۔ سورۂ زخرف ،آیت :۶۴

۷۰

اس راہ کی طرف قدم بڑھانا اور اس پر قائم رہنا  ،یہ خودانسان کی سعادت اور نجات کی دلیل ہے۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''دَوٰامُ الْعِبٰادَةِ بُرْهٰانُ الظَّفَرِ بِالسَّعٰادَةِ'' ( ۱ )

عبادت میں دوام انسان کی سعادت و کامیابی کی دلیل ہے۔

کیونکہ انسان عبادت اور اس کی شرائط کی حفاظت سے اولیاء خداکی صفوں میں داخل ہو جاتاہے اور اس کا شمارخداکے ممتاز بندوں میں سے ہوتاہے اور وہ اولیاء خدا

کی مخصوص اوصاف و خصوصیات کا مالک بن جاتاہے۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ:یَقُوْلُ:اَنَا وَ عَلِّ اَبَوٰا هٰذِهِ الْاُمَّةِ ،وَ لَحَقُّنٰا عَلَیْهِمْ أَعْظَمُ مِنْ حَقِّ أَبَوَیْ وِلاٰدَتِهِمْ،فَاِنَّنٰا نَنْقُذُهُمْ اِنْ اَطٰاعُوْنٰا مِنَ النّٰارِ اِلٰی دٰارِ الْقَرَارِ ،وَ نُلْحِقُهُمْ مِنَ الْعُبُوْدِیَّةِ بِخِیٰارِ الْأَحْرٰارِ'' ( ۲ )

میں نے رسول خدا(ص) سے سناہے:آپ(ص) نے فرمایا:میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں، اور ان پر ہمارا حق ان کے والدین سے زیادہ ہے جن سے وہ پیدا ہوئے ہیں ۔کیونکہ ہم انہیں جہنم سے نجات دلا کر جنت میں داخل کریں گے(اگر وہ ہماری پیروی کریں)اور انہیں دوسروں کی بندگی سے اوربہترین آزاد افراد سے ملحق کریں گے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم:۲۲۴

[۲]۔ بحار الانوار:ج۲۳ص۲۵۹، تفسیر الامام العسکری علیہ السلام:۱۳۳

۷۱

پس خاندان نبوت علیھم السلام کے فرامین کی پیروی اور مخلصانہ عبادت سے انسان مقام عبودیت تک پہنچ سکتا ہے اورنیک و صالح افراد کے ساتھ ملحق ہو سکتاہے اور انسان سے پلید شیطان دور ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی خدا نے قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے۔

       (اِنَّ عِبٰادِي لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰان وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً) ( ۱ )

بیشک میرے اصلی بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں ہے اور آپ کا پروردگار ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے ۔

بہت سے شیعہ بزرگوںنے قرب الٰہی اور عبودیت کے مقام تک پہنچنے کے لئے بہت کوشش کی۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے مرحوم کرباسی  کی کوشش ایسی ہی کوششوں کا ایک نمونہ ہے۔ ان کا شمار بزرگ شیعہ علماء میں ہوتا ہے اور آپ سید بحر العلوم کے شاگردوں میں سے ہیں۔ان کے حالات زندگی میں لکھا گیا ہے:

اس بزرگ شخصیت نے شب قدر کو درک کرنے کے لئے پورا سال رات سے صبح تک عبادت انجام دی اور ہر رات تہجد کی برکات سے مستفید ہوتے ۔مرحوم کرباسی عبادت میں خشوع وخضوع اور حضور قلب کی رعایت کرتے ۔ایک بار اصفہان کے ایک اعلی عہدہ دار نے ان کے احترام کا خیال نہ رکھا تو آپ نے اس کے بارے میں دعا کی ۔کچھ مدت کے بعد ہی اس حاکم کو معزول کر دیا گیا ۔پھر مرحوم کرباسی نے اس کے لئے یوں لکھا:

--------------

[۱]۔ سورۂ اسراء ،آیت:۶۵

۷۲

دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را

چندان امان نداد کہ شب را سحر کند

وہ  اپنے زمانے کے سب سے بڑے زاہد تھے ۔مرحوم مرزا قمی  نے ان سے توضیح المسائل لکھنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے جواب میں کہا:میرے بدن کی ہڈیوں میں جہنم کی آگ کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن بالآخر مرحوم مرزا قمی کے اصرار پر آپ نے رسالہ لکھا۔

اگر کوئی فقیر آپ سے کوئی چیز مانگتا تو آپ اس سے گواہ لانے کو کہتے اور پھر آپ گواہ اور فقیر دونوں کو قسم دیتے کہ اس چیز کو خرچ کرنے میں اسراف نہیں کروگے ،اور پھر اسے ایک مہینے کا خرچہ دیتے۔

کہتے ہیں کہ ایک دن کسی واقعہ کے بارے میں ایک شخص نے ان کے سامنے گواہی دی ۔آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو؟اس نے کہا :میں غسل دیتا ہوں۔آپ نے اس سے غسل دینے کے شرائط پوچھے۔اس شخص نے غسل کی شرطوں کو بیان کیا اور پھر کہا کہ میں دفن کے وقت میت کے کان میں کچھ کہتا ہوں:مرحو م کرباسی نے کہا:تم میت کے کانوں میںکیا کہتے ہو؟اس شخص نے کہا:میں میت کے کان میں کہتا ہوں کہ تم خوش نصیب ہو کہ مر گئے اور آقا کرباسی کے پاس گواہی دینے کے لئے نہیں گئے۔!( ۱ )

--------------

[۱]۔ فوائد الرضویہ:۱۰،قصص العلماء:۱۱۸

۷۳

  عبادت میں نشاط

اگر آپ عبادت کے جذبہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خود سے جبر و کراہت کی حالت کو دور کریں اور ذوق و شوق  اور باطنی نشاط سے عبادت انجام دیں تا کہ آپ اس کے انمول آثار درک کر سکیں اور خود کو شیاطین کے تسلط سے نجات دلا سکیں۔

حضرت پیغمبر اکرم(ص) کا ارشاد ہے:

''اَفْضَلُ النّٰاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبٰادَةَ فَعٰانَقَهٰا وَ اَحَبَّهٰا بِقَلْبِهِ ،وَ بٰاشَرَهٰا بِجَسَدِهِ وَ تَفَرَّغْ لَهٰا ،فَهُوَ لاٰیُبٰالِْ عَلٰی مٰا اَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیٰا عَلٰی عُسْرٍأَمْ عَلٰی یُسْرٍ'' (۱)

افضل ترین لوگ وہ ہیں جو بندگی و عبادت کے عاشق ہوں اور اسے آغوش میں لے لیں اور دل و جان سے اس سے محبت کریں اور جسمی اعتبار سے عبادت میں مشغول ہوں اور فکری لحاظ سے راحت اورآرام سے عبات کریں ۔پھر اسے اس چیزکی فکر نہیں ہونی چاہئے کہ دنیا میں کس طرح صبح کی ،سختی یا راحت و آرام سے۔

اس بناء پر عبادت کے خالصانہ ہونے کے علاوہ  عبادت کے اثرات کے اہم

شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ شیطان و نفس، انسان کی عبادت کے لئے محرک نہ ہوں ورنہ عبادت ریا ،دکھاوا ،غرور اور اس جیسی دوسری چیزوں کی صورت میں انجام دی جائے گی۔انسان کوچاہئے کہ وہ خود کو اس طرح سے بنائے کہ اس کا نفس اس کی عقل کا تابع ہو اور جب وہ مخلصانہ طور پر عبادت کے لئے کھڑا ہو تو اس کا نفس اس کی عقل کے تابع ہو اور اصلاح نفس کی وجہ سے نفس بھی عقل کے تابع ہونا چاہئے اور ذوق و شوق اور مخلصانہ طور پر عبادت انجام دی جائے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۵۳، اصول کافی: ج۳ص۷۳

۷۴

اس بناء پر تہذیب و اصلاح نفس اہم شرائط میں سے ہے کہ جو عبادت میں اہم کردار کا حامل ہے۔کیونکہ اگر انسان عقل کے حکم پر عبادت انجام دے لیکن اپنے نفس کو اپنی عقل کا مطیع نہ بنا سکے تو اس کا نفس اس کے وجود میں فعالت انجام دینا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ عبادت کو بے نتیجہ طور پر دکھاتا ہے اور اسے عبادت انجام دینے سے ہی روک دیتاہے ۔ اسی طرح کچھ دوسرے موانع مثلاً اس کے د ل میں وسوسہ پیدا کر دیتاہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان جوعبادت انجام دیتا ہے اسے اس سے کوئی روحانی لذت نہیں ملتی ۔

قرآن کریم کی آیات کے مطابق عبادت خداوند کا صراط مستقیم ہے ،انسان اس طریقے سے عبودیت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور جو مقام عبودیت تک پہنچ جائے  اس پر شیطان مسلط نہیں ہو سکتا  اور جو عبادت سے بغض و دشمنی رکھتے ہوئے مجبوراً اسے انجام دے ،وہ نہ  صرف شیطان کے تسلط سے رہائی حاصل نہیں کر سکتے بلکہ ان کا نفس شیطان کے وسوسوں سے اور زیادہ مہلک و خطرناک ہو جاتا ہے اور یوں وہ شیطان کے نفوذ کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔

جس عبادت میں انسان اپنے نفس کو اپنی عقل کاتابع قرار نہ دے سکے اور خود سازی سے عبادت انجام نہ دے، اس عبادت کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے عبادت کا نتیجہ یعنی شیطان کے تسلط سے رہائی نہیں ملتی۔

اس بناء پر ہر عبادت کو انجام دینے کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے اور صلاحیت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہئے ۔یہ واضح سی بات ہے کہ جو سخت عبادات اور شرعی ریاضتیں انجام دیتے ہیں لیکن وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے ،وہ ایسے اعمال انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔انہیں چاہئے کہ وہ آمادگی کو ایجاد کرنے لے لئے اپنے دل میں عبادت کی محبت کو ایجاد کریں۔

۷۵

پس سخت اور بعض کے بقول شرعی ریاضتوں کو انجام دینے کے لئے روحانی و نفسانی طور پر تیار ہونا اور اس کی صلاحیت ان کی حتمی شرائط میں سے ہے۔

یہ کتنا نیک ، پسندیدہ بلکہ ضروری عمل ہے کہ انسان ہر کام اور بالخصوص عبادی امور کو انجام دینے کے لئے مکتب اہلبیت علیھم السلام سے آشنائی رکھتا ہو اور انہیں معصوم ہستیوں کے بتائے گئے طریقے کے مطابق خدا کی عبادت انجام دے تا کہ مصیبتوں سے محفوظ رہے۔

گرچہ راہی است پر ازبیم ز ما تا برِ دوست

رفتن آسان بود ، ار واقف منزل باشی

عبادات کو انجام دینے کے لئے مکتب اہلبیت علیھم السلام کی پیروی کے لئے عبادت کی شرائط کو جاننا ضروری ہے اور اسی طرح عبادات کی قبولیت کے موانع جیسے حرام خوری ، سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔

۷۶

 عبادت میں نشاط کے اثرات

ذوق و شوق اور نشاط انسان کی قوت ارادہ میں اضافہ کا باعث ہے ینز اس سے استقامت و پائیداری میں بھی اضافہ ہوتاہے۔نشاط انسان کے مشکل اورسخت کاموں کو آسان اور رنج و زحمت کو کم کر دیتاہے۔

اسی وجہ سے جو لوگ مشکل ترین عبادی امور کو ذوق و شوق اور نشاط سے انجام دیتے ہیں ،وہ نہ  صرف ان کاموں کو انجام دینے سے تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے بلکہ انہیں ان کاموںکی سنگینی کا بھی احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ روحانی لذت محسوس کرتے ہیں۔اسی لئے وہ خدا وند کریم سے یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا عبادت و بندگی میں ان کے نشاط میں اضافہ فرمائے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعا میں پڑھتے ہیں:

''اِجْعَلْ .....نَشٰاطِ فِْ عِبٰادَتِکَ'' (۱)

خداوندا !اپنی  عبادت کے لئے میرے نشاط میں اضافہ فرما۔

''رَبَّنٰا.....وَامْنُنْ عَلَیْنٰا بِالنَّشٰاطِ'' (۲)

پروردگارا!مجھے نشاط عنایت کرکے مجھ پر احسان فرما۔

ایک زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:''تَحَبَّبْ اِلََّ عِبٰادَتَکْ.....وَ تُنْشِطُنِْ لَهٰا'' (۳)

خداوندا!مجھے اپنی عبادت کی محبت عنایت فرما..اور مجھے اس کے انجام دینے کے لئے نشاط و تازگی عطا فرما۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج ۹۰ص۲۰۰،بلد الامین :۱۳۱

[۲]۔ بحار الانوار:ج۹۴ص۱۲۵

[۳]۔ بحار الانوار:ج۱۰۲ص۱۷۰،مصباح الزائر:۲۴۲

۷۷

منقول دعاؤں میں عبادت میں نشاط طلب کرنے کا راز یہ ہے کہ نشاط سخت اور سنگین عبادتوں کو انجام دینے کے لئے انسان کی بہترین یاور و مددگار ہے۔جس طرح مشکل اور طاقت طلب کاموں کو اگر مل کر انجام دیا جائے تو وہ آسان ہو جاتے ہیں ۔  اسی طرح بعض روحانی کاموں کو بھی اگر مل کر انجام دیا جائے تو بھی انسان کی قدرت میں اضافہ ہوتاہے یعنی اگر انسان میں بعض روحانی قوتیں ہوں تو وہ چند افراد کا کام تنہا بھی انجام دے سکتا ہے۔

انہیں روحانی قوتوں میں سے ایک شوق اور نشاط ہے اگر آپ خود میں نشاط کی قدرت کو تقویت دیں  تو بہت سی سنگین عبادتیں بھی آپ کے لئے سہل اور آسان ہو جائیں گی گویا آ پ نے انہیں چند افراد کی مدد سے انجام دیاہو۔

اسی لئے ماہ رمضان کی آمد کی دعا میں پڑھتے ہیں:

''.....أَحْسِنْ مَعُوْنَتِْ فِ الْجِدِّ وَ الْاِجْتِهٰادِ وَ الْمُسٰارَعَةِ اِلٰی مٰا تُحِبُّ  وَ تَرْضٰی  وَ النَّشٰاطِ وَ الْفَرَحِ وَ الْصِّحَةِ حَتّٰی اَبْلُغَ فِ عِبٰادَتِکَ وَ طٰاعَتِکَ الَّتِیْ یَحِقُّ لَکَ عَلَّیَ رِضٰاکَ'' ( ۱ )

سعی وکوشش میں  اور جس چیز میں تیری خوشنودی و رضائیت ہو اس کی طرف جلدی کرنے میں ، فرحت و نشاط اور جسمانی سلامتی  میں  میری مدد فرما تاکہ تیری اطاعت میں  اس بندگی کا حق اداد کر سکوں جس کا حق میری گردن پر ہے اور تیری رضائیت و خوشنودی کی طرف مائل ہو جاؤں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۹۷ص۳۳۰

۷۸

جیسا کہ آپ نے اس دعامیں ملاحظہ کیا کہ نشاط ا ور صحت کو عبادت کے لئے مدد کے طور پر جانا گیاہے۔

خاندان نبوت علیھم السلام کے فرمودات سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ نشاط بڑے بڑے سنگین کاموں کے لئے کامیابی کے اسرار میں سے ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم حیات بخش امور میں ان اسرار سے استفادہ کریں۔اگر ایسے امور میں ہم با نشاط نہ ہوں تو ہمیں چاہئے کہ اپنی تمام تر توانائی اپنے نفس پر خرچ کریں اور اپنے نفس کو ذوق و شوق اور نشاط مہیا کرنے کے لئے آمادہ کریں۔

اسی وجہ سے اگرچہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے یاور و انصار کے بدن بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں لیکن عمل کے وقت ان کے دل ذوق و شوق  اور نشاط سے لبریز ہوتے ہیں۔

۷۹

 عبادت میں کراہت

عبادت کی کیفیت کے بارے میں خاندان وحی علیھم السلام کی رہنمائی اور اس کی باطنی و قلبی جہات کی طرف توجہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہوں اور ان کے آثار و اثرات کو درک کریں ۔ان کو انجام دینے سے انسان میں تبدیلی ایجاد ہو  ورنہ  اگر عبادت کا کوئی اثر نہ ہو اور یہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے راستہ سے دور ہو تو اس عبادت کا کیا فائدہ ہے؟کیا ایسی عبادتوں کا زحمت، تکلیف اور رنج کے سوا کوئی اور فائدہ ہے؟!

اسی وجہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اِیّٰاکُمْ وَ الْجُهّٰالِ مِنَ الْمُتَعَبِّدِیْنَ وَالْفُجّٰارِ مِنَ الْعُلْمٰائِ فَاِنَّهُمْ فِتْنَةُ کُلِّ مَفْتُوْن'' (۱)

عبادت کرنے والے جاہل افراد سے پرہیز کرو  اور بے عمل و فاجر علماء سے درو رہو کیونکہ یہ ہر دلباختہ شخص کے لئے فتنہ ہیں۔

کبھی ایسے افراد کی اصل عبادت صحیح نہیں  ہوتی اور یہ لوگ غیر عبادت کو عبادت کے طور پر قبول کرکے انجام دیتے ہیں۔کبھی ان کا عمل شریعت میں وارد ہوتا ہے ،لیکن وہ اسے انجام دیتے وقت بندگی و عبادت کی حالت کے بجائے جبراً اور مجبوری کے طور پر انجام دیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی وہ خود کو کامل اور ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۰۶

۸۰

ایسی عبادت کبھی دوسرے لوگوں کی بددلی کا باعث بنتی ہے حالانکہ عبادت سے انسان کے دل میں نشاط و فرحت کی حالت پیداہونی چاہئے نہ کہ کراہت و نفرت ۔  ایسی عبادات کے منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔

اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تَکْرَهُوا اِلٰی اَنْفُسِکُمْ اَلْعِبٰادَةَ'' ( 1 )

اپنے نفسوں کو عبادت کے لئے مجبور نہ کرو۔

بلکہ رغبت اور شوق سے عبادت انجام دوتا کہ عبادت کے انمول آثار آپ کے وجود میںپیدا ہو سکیں۔

شاید بعض لوگ یہ کہیں:اس صورت میںتو بہت سے عبادت کرنے والوں کو اپنی عبادت ترک کردینی چاہئے کیونکہ عبادت کے وقت نہ  تو ان میں خشوع و خضوع اور توجہ کی حالت ہوتی ہے بلکہ وہ مجبوراً عبادت انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کا نفس عبادت کو انجام دینے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

ان سے ہم یہ کہتے ہیں:ایسا طرز تفکر مکتب اہلبیت علیھم السلام سے صحیح طور پر آشنا نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔خاندان نبوت علیھم السلام کے ارشادات پر غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ خدا نے انسان میں جو منفی حالات اور صفات پیدا کی ہیں جیسے حسد،کینہ،کراہت وغیر ہ۔ان سب کو خدا کے دشمنوں سے استفادہ کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔لہذا انسان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ(جو ایک منفی صفت ہے) دیتا پھرے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو فریب دے  اور پھر تلقین اور نرم زبان سے کراہت کی حالت کو ختم کرے اور خود کو عبادت کی طرف مائل کرے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۳،اصول کافی:ج۲ص۸6

۸۱

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''خٰادِعْ نَفْسَکَ فِ الْعِبٰادَةِ وَارْفِقْ بِهٰا وَلاٰ تَقْهَرْهٰا'' ( 1 )

عبادت میں اپنے نفس کو فریب دو اور اس کے ساتھ دوستی کرو اور اسے (عبادت کے لئے )مجبور نہ کرو۔

اس بناء پر جوکوئی بھی عبادت  کو مجبوری سے انجام دیتا ہو اسے چاہئے کہ وہ عبادت کو ترک کرنے کے بجائے اپنے نفس سے کراہت کی حالت کو برطرف کرے نہ کہ اپنی عبادت کو ہی چھوڑ دے۔کیونکہ عبادت ذوق و شوق اور فرحت و نشاط سے انجام دینی چاہئے نہ کہ مجبوری اور کراہت سے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تُبَغِّضْ اِلٰی نَفْسِکَ عِبٰادَةَ رَبِّکَ'' ( 2 )

اپنے نفس کو خدا کی عبادت کا دشمن قرار نہ دو۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۳۳ص۵۰۹،نہج البلاغہ ،مکتوب:69

[2] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۴،اصول کافی:ج۲ص۷۸

۸۲

 عبادت کیا ہے؟

عبادت کیاہے اور کن چیزوں کو عبادی امور کا نام دے سکتے ہیں؟

یہ ایک اہم سوال ہے جس کی طرف کبھی کبھار بعض افراد کے اذہان متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ممکن ہے کہ بعض لوگ عبادت کو نماز ،روزہ اور ان جیسے دوسرے امور ہی میں منحصر سمجھیں لیکن روایات اہلبیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرنے اور ان کی رہنمائی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ نماز اورر روزے کو انجام دینا ہی عبادت نہیں ہے۔کیونکہ عبادت کے معنی خدا کی بندگی ہے اور خدا کی بندگی و اطاعت اسی صورت میں وقوع پذیر ہو سکتی ہے کہ انسان وہی انجام دے جو خدا چاہتاہے اور خدا صرف  یہ نہیں چاہتا کہ کثرت سے نماز و روزہ بجا لاؤ۔

اس بارے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لَیْسَتِ الْعِبٰادَةُ کَثْرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصِّیٰامِ ،وَ اِنَّمَا الْعِبٰادَةُ کَثْرَةُ التَّفَکُّرِ فِ اَمْرِ اللّٰهِ'' (1)

کثرت سے  نمازیں پڑھنا اور روزہ رکھنا عبادت نہیں ہے ،بیشک خدا کے امر میں زیادہ تفکر اور غور و فکر کرنا عبادت ہے۔

خدا جو کچھ چاہتا ہے ،اسے انجام دینا عبادت ہے  اور اسی طریقے سے انسان مقام عبودیت تک پہنچ سکتاہے ۔مقام عبودیت و بندگی تک پہنچنے کا ملاک ومعیار عبادت کی اہمیت ہے۔اعمال اور کثرت عبادات، معنوی درجات تک پہنچنے کی حتمی و لازمی شرائط میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اعمال و عبادات کی   اہمیت ان کی کثرت سے نہیں بلکہ ان کی اہمیت سے ہے ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج78ص۳۷۳،تحف العقول:486

۸۳

عبادات اسی صورت میں کوئی اہمیت رکھتی ہیں کہ جب وہ بہت زیادہ تأثیر رکھتی ہوں اور جب وہ انسان کے باطن میں تبدیلی پیدا کر یں۔اس بناء پر عبادات کی اہمیت کا اندازہ عبادت کرنے والوں میں تبدیلی ایجاد ہونے سے ہی لگایا جا سکتاہے۔

اس بیان سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ اپنے نفس میں تبدیلی ایجاد کرنے والے اور معنوی توانائیوں سے بہرہ مند ہونے والے اولیائے خدا کی کامیابی کا معیار ان کی عبادتوں کی تأثیر ہے نہ کہ ان کی کثرت عبادت۔اگرچہ بہت سے مقامات پر عبادات کی تأثیر ،عبادات کی کثرت پر ہی موقوف ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک کلّی قانون نہیں ہے۔

اس حقیقت پر ہماری دلیل حضرت امام صادق علیہ السلام کے خاص صحابی جناب مفضل سے منقول روایت ہے ۔آپ نے فرمایا:

''کُنْتُ عِنْدَ اَبِ عَبْدِاللّٰهِ علیه السلام فَذَکَرْنَا الْاَعْمٰالَ ،فَقُلْتُ اَنَا مَا أَضْعَفَ عَمَلِْ؟فَقٰالَ:مَهْ اِسْتَغْفِرِ اللّٰهَ،ثُمَّ قَالَ لِْ:اِنَّ قَلِیْلَ الْعَمَلِ مَعَ التَّقْویٰ خَیْر مِنْ کَثِیْرٍ بِلاٰ تَقْویٰقُلْتُ:کَیْفَ یَکُوْنُ کَثِیْر بِلاٰ تَقْویٰ ؟قَالَ:نَعَمْ ،مِثْلُ الرَّجُلِ یُطْعِمُ طَعٰامَهُ،وَ یُرْفِقُ جِیْرٰانَهُ وَ یَوَطِّیُٔ رَحْلَهُ،فَاِذٰا ارْتَفَعَ لَهُ الْبٰابُ مِنَ الْحَرٰامِ دَخَلَ فِیْهِ ،فَهٰذَا الْعَمَلُ بِلاٰ تَقْویٰ ،وَ یَکُوْنُ الآخَرُ لَیْسَ عِنْدَهُ فَاِذَا ارْتَفَعَ لَهُ الْبَابُ مِنَ الْحَرٰامِ لَمْ یَدْخُلْ فِیْهِ'' ( 1 )

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا کہ اعمال کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے کہا:میرے اعمال کتنے کم ہیں ؟!

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج78ص۳۷۳،تحف العقول:486

۸۴

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:خاموش رہو !اور استغفار کرو۔پھر آپ  نے مجھ سے فرمایا: تقوی ٰ  کے ساتھ انجام دیئے جانے والے کم اعمال تقویٰ کے بغیر انجام دیئے گئے زیادہ اعمال سے بہتر ہے ۔

میں نے عرض کیا:کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص تقویٰ کے بغیر زیادہ اعمال انجام دے؟

آنحضرت  نے فرمایا: ہاں ۔ جیسے کوئی شخص اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دے ، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے لئے سامان سفر فراہم کرے ۔لیکن جب بھی اس کے لئے کوئی حرام کا دروازہ کھلے تو وہ اس میں داخل ہو جائے ۔ یہ ایسا عمل ہے کہ جس میں تقویٰ نہیں ہے  اور دوسرا شخص ایسے زیادہ  اعمال انجام نہیں دیتالیکن جب اس کے لئے کوئی حرام کا دروازہ کھلے تو وہ اس میں داخل نہیں ہوتا۔

ایسا عمل تقویٰ کے ساتھ ہے اور ایسا شخص عبادت میں صداقت رکھتا ہے۔

۸۵

 محبت اہلبیت علیھم السلام یا عبادت میں نشاط کا راز

سنگین اور مشکل امور کو انجام دینے کا راز نشاط ہے۔اس کے علاوہ عبادت میں نشاط اہلبیت اطہار علیھم السلام سے محبت کی ایک دلیل بھی ہے۔کیونکہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے محبت کی نشانیوں میں سے ایک عبادت و بندگی میں با نشاط ہوناہے ۔ ان ہستیوں کی محبت انسان میں عبادت و بندگی کے لئے رغبت پیدا کرتی ہے اور ہم بندگی کا درس خاندان نبوت علیھم السلام اور ان کے حقیقی پیروکاروں سے ہی سیکھتے ہیں۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''فِیْ حُبِّ أَهْلِ بَیْتِْ.....اَلرَّغْبَةُ اِلَی الْعِبٰادَةِ'' (1)

میرے اہلبیت علیھم السلام کی محبت  کے ذریعہ عبادت کی طرف رغبت رکھی گئی ہے۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام سے آپ کی محبت جتنی زیادہ ہوگی ،عبادات اور بندگی کے لئے اتنا ہی ذوق و شوق اور رغبت زیادہ ہو جائے گی اور عبادت کے لئے آپ کی آمادگی میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار: ج۲۷ ص۱6۳

۸۶

 نتیجۂ بحث

عبادت و بندگی مقام عبودیت تک پہنچنے اور سعادت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔آپ کو غور و فکر کرنا چاہئے کہ وہی عبادت انسان کو عبودیت کے مقام تک پہنچا سکتی ہے کہ جس کے اثرات ہوں اور جو انسان کے وجود میں تحول و تبدیلی ایجاد کرے ۔ اس بناء پر اتنی ہی عبادت اہمیت رکھتی ہے کہ جس سے یہ نتیجہ حاصل ہو جائے نہ کہ عبادت کی کثرت اہمیت رکھتی ہے۔

عبادات کی انواع و اقسام سے آشنا ئی حاصل کریں اور ایک ہی طرح کے عبادی امور سے گریز کریں کیونکہ یہ چیز تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔عبادت کی مختلف انواع کو انجام دینے سے ذوق و شوق ایجاد ہوتاہے  پس اس طریقے سے آپ عبادات کے اثرات کو درک کرسکتے ہیں۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام سے آپ کی محبت جتنی زیادہ ہوگی ،عبادت و بندگی کو انجام دینے کے لئے آپ کے ذوق و شوق اور نشاط میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہو گا۔

عبادت میں نشاط سے عبادت میں تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا اور اس سے آپ کے اخلاص و صداقت میں اضافہ ہوتاہے کہ جو عبادت کی تأثیر کا لازمہ ہے ۔اس راہ پر قائم رہنے سے آپ مقام عبودیت تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو انسان کی خلقت کا راز ہے ۔یوں آپ اپنے نفس اور شیطان رجیم پر غالب آسکتے ہیں۔

طاعت آن نیست کہ بر خاک نہی پیشانی

صدق پیش آر ،کہ اخلاص بہ پیشانی نیست

۸۷

چوتھا باب

تقوی ٰ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' أَشْعِرْ قَلْبَکَ التَّقْویٰ وَ خٰالِفِ الْهَویٰ تَغْلِبُ الشَّیْطٰانَ ''

اپنے دل کو تقویٰ کے ذریعے مطلع و آگاہ کرو اور نفسانی ہوا و ہوس کی مخالفت کرو تا کہ شیطان پر غلبہ حاصل کرسکو۔

    تقوی ٰ و پرہیزگاری

    تقویٰ دل کی حیات کا باعث

    تقویٰ اور قلب کا رابطہ

    تقویٰ الٰہی و شیطانی افکار کی شناخت کا ذریعہ

    اپنی دوستی کا معیار تقویٰ کو قرار دیں

    حرام مال سے پرہیز

    تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

    پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

    تقویٰ کو ترک کرنے کی وجہ سے تبدیلی

    پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

    نتیجہ ٔبحث

۸۸

 تقوی ٰ و پرہیزگاری

انسان کا دل مادی و معنوی دنیا کے درمیان رابط ہے۔اگر انسان کا دل سالم ہو تو وہ اپنی معنوی توانائیوں  سے استفادہ کرتے ہوئے الہام  دینے اور الہام قبول کرنے والا بن سکتاہے۔

دل اسی صورت میں سالم ہو سکتا ہے کہ جب وہ آلودگی اور برائیوں کے زنگ سے پاک ہو اور روحانی ناپاکیوں سے دور ہو۔ جب انسان گناہ  و فسادمیں مبتلا ہوجائے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور انسان معنوی توانائیوں سے استفادہ کرنے کی قدرت کو کھو بیٹھتا ہے اور الٰہی فیض و برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔

تقویٰ قلبی اور روحانی بیماریوں کی دوا ہے ۔تقویٰ کے ذریعے دل کو پاک کرنا چاہئے اور دل کی سیاہی اور زنگ کو دور کرنا چاہئے۔

حضرت ادریس علیہ السلام کے انتیسویں صحیفہ میں آیا ہے:

''وَاغْسِلْ قَلْبَکَ بِالتَّقْویٰ کَمٰا تَغْسِلُ ثَوْبَکَ بِالْمٰائِ ،وَ اِنْ أَحْبَبْتَ رُوْحَکَ فَاجْتَهِدْ فِی الْعَمَلِ لَهٰا (1)

جس طرح تم اپنے کپڑوں کو پانی سے دھوتے ہو ،اسی طرح اپنے دل کو تقویٰ کے ذریعے پاک کرو اور اگر تم اپنی روح سے محبت کرتے ہو تو عمل میں اس کے لئے جدوجہد کرو۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار: ج۹۵ ص۴۷۱

۸۹

 تقویٰ دل کی حیات کا باعث

قلب کی حیات اور دل کی نورانیت انسان کے تقویٰ سے وابستہ ہے ۔باتقویٰ انسان دل کی حیات،بصیرت اور دل کی نورانیت سے بہرہ مند ہوتاہے اور جو گناہوں سے آلودہ ہو اوربا تقویٰ  نہ ہو اس کا دل زنگ آلود اور معنویت  سے خالی ہوتاہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ قَلَّ وَرَعَهُ مٰاتَ قَلْبُهُ'' (1) جس کی پرہیزگاری کم ہو،اس کا دل مردہ ہوتا ہے۔

جو بصیرت اور معنوی حیات کے خواہاں ہوں انہیں چاہئے کہ وہ با تقویٰ ہوں تا کہ نہ صرف دنیا میں معنوی زندگی سے مستفید ہوں بلکہ آخرت میں بھی فلاح و نجات پائیں اور خدا کی بے شمار نعمتوں سے مستفید ہوں۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''مَنْ أَحَبَّ فَوْزَ الْآخِرَةِ فَعَلَیْهِ بِالتَّقْویٰ'' (2) جو کوئی آخرت میں کامیاب ہونا چاہے اس کے لئے باتقویٰ اور پرہیز گار ہونا ضروری ہے۔

تقویٰ ہربا تقویٰ کا بہترین محافظ ہے ۔تقویٰ فتنوں ،بدعتوں اور گمراہیوں  میں متقی شخص کی مضبوط ڈھال ہے جو اسے گمراہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہے اور تقویٰ متقی شخص کو فتنوں کا اصل چہرہ دکھاتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں۔تقویٰ متقی انسان کی محکم  پناہ گاہ ہے۔حضرت امام علی علیہ السلام اپنے ایک دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اَلتَّقْویٰ حِصْنُ حَصِیْنٍ لِمَنْ لَجَأَ اِلَیْهِ'' (3) تقویٰ ہر اس شخص کے لئے ایک مضبوط حصار ہے ،جو اس میں پناہ لے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۲6۹

[2]۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ص۳۹۴

[3]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۲6۹

۹۰

 تقویٰ اور قلب کا رابطہ

دل چیزوں کو اخذ کرنے والی بھیجنے والی بہت قوی مشین ہے جسے خداوند متعال نے انسان کے وجود میں قرار دیا ہے تا کہ اس کے صحیح و سالم ہونے کی صورت میں انسان اس سے استفادہ کرکے اپنی  توانائی کے مطابق گذشتہ و آئندہ سے ارتباط برقرار کرے اور کبھی اپنی باطنی و قلبی توجہ(جو نفسانی خواہشات اور خیالات سے خالی ہو) اولیائے خدا سے مرتبط کر سکے۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف (جو کائنات کے دل کی حیثیت رکھتے ہیں)کے غیبت کے زمانے میں ہمارے دل صحت و سلامتی سے خالی اور روحانی بیماریوں میں  مبتلا ہیں ۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے نورانی کلمات میں دلوں کی صحت و سلامتی اور اسی طرح قلبی امراض کی تصریح فرمائی ہے اور مختلف بیماریوں (ہمارادل جن بیماریوںمیں مبتلا ہو چکا ہے)سے نجات کا راستہ بھی بیان کیا ہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے تقویٰ اور انسان کے وجود میں اس کے اثرات کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:

''فَاِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَوٰائُ دٰائِ قُلُوْبِکُمْ'' (1)

تقویٰ الٰہی آپکے دلوں کی بیماری کا علاج ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص۲6۹

۹۱

اگر خداوند انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری عطا کرے تو یہ دوسری مختلف دوائیوں  کی طرح مختلف قسم   کی بیماریوں میں مبتلا بیمار دلوں کو شفا دیتاہے۔ جس طرح طوفان اور مصیبت میں گرفتار مسافروں کو کشتی نجات دیتی ہے اسی طرح تقویٰ انسان کو مختلف قسم کے فتنوں،بلاؤں اور گرفتاریوں سے ہلاک ہونے سے بچاتا ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ،حضرت لقمان کے اقوال کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''.....فَلْتَکُنْ سَفِیْنَتُکَ فِیْهٰا تَقْوَی اللّٰهِ'' ( 1 )

ان موارد میں تمہاری کشتی (نجات) تقویٰ الٰہی ہونی چاہئے۔

تقویٰ بھی ایک طاقتور کشتی کی طرح بلاؤں کی امواج کو چیرکر انسان کو فتنوں سے نجات دلاتا ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَاعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ یَتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا مِنَ الْفِتَنْ'' ( 2 )

آگاہ ہو جاؤ !جو کوئی خدا کے لئے تقویٰ اختیار کرے ، خداوند اس کے لئے فتنوں سے فرار کے راستے کھول دیتا ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۱ص۱۳6

[2]۔ نہج البلاغہ،خطبہ: 183

۹۲

 تقویٰ الٰہی و شیطانی افکار کی شناخت کا ذریعہ

الٰہی و شیطانی افکار کو کس طرح ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں؟

ہم بہت سے موارد میں شیطانی و رحمانی افکار میں فرق نہیں کرتے  اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے افکار میں سے کون سے افکار رحمانی ہیں  کہ  جو معنوی منشاء رکھتے ہیں اور ان میں سے کون سے شیطانی یا نفسانی ہیں کہ جو شیطان یا نفس کے ذریعے ہمارے ذہن میں  پیداہوتے ہیں؟

افکار میں تشخیص نہ دے پانا حیرت و سرگردانی کا باعث بنتا ہے  اور  ہمیں  ان افکار کے بارے  میں ہماری ذمہ داری  کا علم بھی نہیں ہوتا ہے کہ جن کا الٰہی یا شیطانی  ہونا معلوم نہ ہو؟

اس سے بھی مشکل افکار کے تجسم اور مکاشفہ کا مسئلہ ہے کہ جن کی حقیقت کو اکثر لوگ حتی کہ اہل علم  حضرات بھی نہیں جانتے ۔

یہ جاننے کے لئے کہ کون اپنے الٰہی افکار کو تشخیص دے سکتا ہے ،ہم  یہ کہتے ہیں:قرآن مجید نے اس سوال کا جواب بیان فرمایاہے اور واضح طور پر فرمایاہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ ِذَا مَسَّهُمْ طَائِف مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ (1)

جو لوگ صاحبان تقوی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں۔

--------------

[1]۔ سورۂ اعراف،آیت:201

۹۳

یعنی تقویٰ اس طرح سے انسان کو آگاہی دیتاہے کہ جب بھی شیطان انسان کے ذہن میں کوئی سوچ و فکر القاء کرے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ افکار شیطان نے ذہن میں ڈالے ہیں۔

اس بناء پرالٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دینے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان میں سے کس کو اہمیت دیں اور کس سے بے اعتنائی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیں ۔تقویٰ اختیار کریں تا کہ اس کے ذریعے ہم میں الٰہی و شیطانی افکار میں تمیز دینے کی قدرت پیداہو سکے۔

پس تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے سے نہ صرف یہ کہہم شیطان کے فریب میں مبتلا نہیںہوں گے بلکہ ہم میں دشمن کو پہچاننے اور اس کے نفوذ کرنے کے طریقوں کو پہچانے کی بصیرت و آگاہی آ جاتی ہے اور عالی مراحل تک پہنچنے کی زیادہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے۔

کیونکہ تکامل و پیشرفت ا ور کسی بھی  ہدف تک پہنچنے کے لئے اس کے موانع کی شناخت و معرفت ضروری ہے ورنہ انسان پرخطر اور مشکل راستوں کوبا آسانی اور موانع سے آمنا سامنا کئے بغیر طے نہیں کر سکتا ۔

روحانی سیرو سلوک اور معنوی راستوں پر چلنے کے لئے بھی انسان کانفس اور شیطان کی مکاریوں سے آشنا ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ انسان اس کے دھوکے اور فریب میں گرفتار نہ ہو جائے ۔ انسان کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شیطان اسے کس طریقے سے گمراہ کرتاہے  اور کس طرح سے اسے راہ راست سے منحرف کرتا ہے۔

تقویٰ شیطان کے فکری وسوسوں کی شناخت اور شیطانی افکار کی راہوں کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔باتقویٰ افراد الٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں۔

۹۴

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض افراد تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے فکری بیماریوں،نفسی آلودگیوں،بصیرت کے فقدان اور دل کی تاریکی کے باعث تکلیف اٹھاتے ہیں اور انہیں ان بیماریوں کے علاج کا کوئی راستہ بھی معلوم نہیں ہوتا نیز وہ اپنے نفس کی ان بیماریوں کا علاج کرنا بھی نہیں جانتے  کہ وہ کس دوا سے اپنی معنوی بیماری کا علاج کریں۔وہ مکتب اہلبیت علیھم السلام کے شفا بخش مکتب سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے کھوکھلے ماہرین نفسیات،امریکی جادوگروں اور مختلف شیطانی ریاضتیں انجام دینے والے افراد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کی گمراہی اور سرگردانی میں  مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب تک کون سا ایسا شخص ہے جو مکتب وحی سے آشنا ہونے کے باوجود ایسے ناشائستہ افراد کا محتاج ہو؟

اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بعض افراد عقل اور شریعت کے برخلاف کچھ ریاضتیں انجام دینے کی وجہ سے بعض مہارتوں پر قادر ہو جاتے ہیں  اور وہ کچھ روحانی مشق اور ریاضت سے نفسانی اور شیطانی (نہ کہ رحمانی)قدرت توحاصل کر لیتے ہیں  لیکن چونکہ وہ با تقویٰ نہیں ہوتے لہذا وہ اپنی توانائیاں غلط اور فاسد کاموں میں خرچ کرتے ہیں  اور اپنی قدرت دنیا پر قابض ہونے والے افراد کے لئے صرف کرتے ہیں۔

اسی طرح کچھ ہندو اور گائے پرست مقدس گائے کا فضلہ اپنے سر اور چہرے پر لگاتے ہیں  جب کہ امریکا ان سے مشورہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ بیٹھتا ہے۔یقینا یہ آلودہ افراد انہیں معنویت،خدا شناسی اور انسان دوستی کا درس دیتے ہوں گے !!اور انہیں  لوگوں کو برباد کرنے والے کام انجام دینے سے روکتے ہوں گے!!

کیا وہ دکھائی نہ دینے والی شیطانی طاقتوں کے ذریعے خدا کی غیبی قدرت سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔( 1 )

--------------

[1] ۔ امریکہ اب تک اپنی طاقت کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور اس کے لئے اسن نے اپنے بہت سے لوگوں کو بھی قربان کیا ہے۔!رک:بہ سوی بی نہایت۔

۹۵

لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ فرعون کے وارث ہیں جو اسی کی طرح سوچتے ہیں اسی لئے وہ جادوگروں اور ساحروں کا دامن تھامتے ہیں!

چونکہ  انہوں نے حقیقت نہیں دیکھی اسی لئے وہ افسانے کو ہی حقیقت مان بیٹھے!

روحانی تکالیف اور دروسے نجات کے لئے ان ہستیوں کی رہنمائی پر عمل کرنا چاہئے جو سب کی جان اور روح سے آشناہیں اور جو انسانوں اور تمام مخلوقات کی خلقت کی کیفیت کے شاہد ہیں۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم مکتب اہلبیت علیھم السلام کی طرف رخ کریں اور خود کو مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے انمول کلمات سے اطمینان دیں ۔آنحضرت  فرماتے ہیں:

اَمّٰا بَعْدُ:فَاِنِّی اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ اِبْتَدَئَ خَلْقَکُمْ وَ اِلَیْهِ یَکُوْنُ مَعٰادُکُمْ ،وَ بِهِ نَجٰاحُ طَلِبَتِکُمْ وَ اِلَیْهِ مُنْتَهٰی رَغْبَتِکُمْ،وَ نَحْوُهُ قَصْدُ سَبِیْلِکُمْ وَ اِلَیْهِ مَرٰامِْ مَفْزَعِکُمْ فَاِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَوٰائُ دٰائِ قُلُوْبِکُمْ وَ بَصَرَ عَمیٰ أَفْئِدَتِکُمْ ،وَ شَفٰائُ مَرَضِ اَجْسٰادِکُمْ وَ صَلاٰحُ

 فَسٰادِ صُدُوْرِکُمْ وَ طَهُوْرُ دَنَسِ أَنْفُسِکُمْ ،وَ جَلاٰئُ غِشٰائِ أَبْصٰارِکُمْ،وَ اَمْنُ فَزَعِ جَأْشِکُمْ وَ ضِیٰائُ سَوٰادِ ظُلْمَتِکُمْ.....''( 1 )

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج ص۲۸۴۷0،نہج البلاغہ ،خطبہ :81

۹۶

اما بعد : میں  تم لوگوں کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی سفارش کرتاہوں۔جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں اس کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے ۔اسی کی عنایت سے تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہو اور تمہاری بازگشت کی انتہا وہی ہے  اور خوف کے وقت وہی تمہاری بہترین پناہگاہ ہے۔

بیشک تقویٰ الٰہی تمہارے دلوں کے درد کی دوا ہے ،تمہارے اندھے دلوں کے لئے بصیرت ہے ، تمہارے جسموں کے مرض کے لئے شفاء ہے ۔یہ تمہارے سینوں کے فساد کی اصلاح کرنے والا،تمہارے نفس کی کثافت و گندگی پاک کرنے اور تمہارے آنکھ کے پردوں کو جلا و صفا عطا کرنے والاہے ۔تمہارے دل کے خوف کے لئے امان اور تمہاری ظلمتوں کے اندھیروں کے لئے روشنی ہے۔( 1 )

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت امام علی علیہ السلام تقویٰ کو دل کی تاریکی،فکر ی آلودگی ، بصیرت کے فقدان اور دوسری روحانی بیماریوں کا علاج قرار دیتے ہیں  اور آپ انسانیت اور معنویت کی راہ کے متلاشی تمام افراد کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

--------------

[1]۔ شرح نہج البلاغہ(مرحوم مرزا حبیب اللہ خوئی )،خطبہ:۱۹۷،ج۱۲ص۲6۹

۹۷

  اپنی دوستی کا معیار تقویٰ کو قرار دیں

تقویٰ کی اہمیت و عظمت کی وجہ سے دینی بھائیوں اور دوستوں سے ہمارا ارتباط اور دوستی کا معیار ان کے تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیاد پر ہو نہ کہ ان کی دولت، شہرت اور مقام کی بنیاد پر۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیںکہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اَحْبِبِ الْاَخْوٰانَ عَلٰی قَدْرِ التَّقْویٰ'' (1)

اپنے (دینی) بھائیوں کو ان کے تقویٰ و پرہیز گاری کے مطابق دوست رکھو۔

لوگوںسے دوستی ظاہری اور مادی امور کی وجہ سے نہیں ہونی چاہئے ۔اگر انسان کی دوستی اور برتاؤ کا معیار تقویٰ اور پرہیزگاری ہو تو معاشرے کے شریر  اور مکار افراد کے فریب اور شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔لیکن بعض افراد تقویٰ اور پرہیزگاری کو دوستی کی بنیاد قرار دینے کے بجائے فاسد کو افسد کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور افسد کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں اور معاشرے  کے بازیگروں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۴ص۱۸۷، امالی مرحوم صدوق :182

۹۸

 حرام مال سے پرہیز

شریک بن عبداللہ ایسے افراد میں سے ایک ہے ۔وہ مہدی عباسی کے زمانے میں کوفہ کاقاضی تھا ۔   قضاوت کے منصب کو قبول کرنے سے پہلے وہ ایک دن مہدی عباسی کے پاس گیا۔

مہدی عباسی نے اس سے کہا:میں تمہیں تین طرح کا حکم دیتا ہوں ،تم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے اس پر عمل کرو۔تم یاکوفہ کی قضاوت کا منصب قبول کرویا میرے بیٹوں کو تعلیم دویا پھر میرے ساتھ ایک مرتبہ کھانا کھاؤ۔

شریک نے جب یہ تین حکم سنے تو وہ کسی پر بھی راضی نہ ہوا لیکن چونکہ اس کے پاس ان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا،اس نے سوچا اور کہا:کھانا،کھانا دوسرے دونوں احکامات سے آسان ہے۔

مہدی عباسی نے حکم دیا کہ اس کے لئے بہت لذیذ کھانا تیار کیا جائے ۔جب کھانالایا گیا  اور شریک کھانا کھانے سے فارغ ہو گیا تو کھانا پکانے والے نے مہدی عباسی سے کہا:

''لیس یفلح الشیخ بعد هذه الأَکلة ابداً"

شریک یہ غذا کھانے کے بعد کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتا۔

شریک نے وہ غذا کھانے کے بعد بنی عباس کے ساتھ ہمنشینی کو قبول کر لیا اور نہ صرف اس کے  بچوں کو تعلیم دینے پر آمادہ ہو گیا بلکہ منصب قضاوت کو بھی قبول کر لیا۔(1)

جی  ہاں!جب رنگین دسترخوان بچھا دیا جائے یا کسی منصب کی کرسی رکھ دی جائے تو پرہیزگار آزمائش میں مبتلا  ہو جاتے ہیں  اور ان کی معنوی حقیقت و واقعیت واضح ہو جاتی ہے۔

--------------

[1]۔ وقایع الایام مرحوم محدث قمی:86

۹۹

 تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

اب ہم  آپ  کے سامنے رسول اکرم (ص) کی بہت اہم روایت پیش کرتے ہیں تا کہ تقویٰ و پرہیزگاری کے عظیم آثار کے بارے میں آپ کے علم و آگاہی میں مزید اضافہ ہو۔

''قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه:.....قَدْ أَجْمَعَ اللّٰهُ تَعٰالٰی مٰا یَتَوٰاصی بِهِ الْمُتَوٰاصُوْنَ مِنَ الْأَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ فِ خَصْلَةٍٍوٰاحِدَةٍ وَ هَِ التَّقْویٰ،قٰالَ اللّٰهُ جَلَّ وَ عَزَّ: ( وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّٰهَ ) (1) وَ فِیْهِ جِمٰاعُ کُلِّ عِبٰادَةٍ صٰالِحَةٍ،بِهِ وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَی الدَّرَجٰاتِ الْعُلیٰ ،وَالرُّتْبَةِ الْقُصْویٰ،وَ بِهِ عٰاشَ مَنْ عٰاشَ مَعَ اللّٰهِ بِالْحَیٰاةِ الطَّیِّبَةِ وَالْاِنْسِ الدّٰائِمِ، قٰالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ: (ِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ،،فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ) (3)( 2)

اولین وآخرین میں سے وصیت کرنے والوں نے جس چیز کی وصیت کی خدا نے اسے ایک ہی خصلت میں جمع کر دیا اور وہ تقویٰ ہے۔

خداوند کا ارشاد ہے: اور ہم نے تم سے پہلے اہلِ کتاب کو اور اب تم کو یہ وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو (یعنی تقوی اختیار کرو)تقویٰ تمام عبادت صالح کے لئے سرچشمہ ہے اور جس نے بھی بلند درجات تک رسائی حاصل   وہ تقویٰ کے ذریعے سے ہی ہے اور جو بھی خدا کے ساتھ پاک حیات اور دائمی انس رکھتا ہو  اسے اسی کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے۔

--------------

[1]۔ سورۂ نساء ،آیت:131

[2]۔ سورۂ قمر ،آیت:54،55

[3]۔ کشف الغمہ:ج2ص368، بحار الانوار:ج78ص200

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273