کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار14%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123891 / ڈاؤنلوڈ: 5401
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ایسی عبادت کبھی دوسرے لوگوں کی بددلی کا باعث بنتی ہے حالانکہ عبادت سے انسان کے دل میں نشاط و فرحت کی حالت پیداہونی چاہئے نہ کہ کراہت و نفرت ۔  ایسی عبادات کے منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔

اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تَکْرَهُوا اِلٰی اَنْفُسِکُمْ اَلْعِبٰادَةَ'' ( ۱ )

اپنے نفسوں کو عبادت کے لئے مجبور نہ کرو۔

بلکہ رغبت اور شوق سے عبادت انجام دوتا کہ عبادت کے انمول آثار آپ کے وجود میںپیدا ہو سکیں۔

شاید بعض لوگ یہ کہیں:اس صورت میںتو بہت سے عبادت کرنے والوں کو اپنی عبادت ترک کردینی چاہئے کیونکہ عبادت کے وقت نہ  تو ان میں خشوع و خضوع اور توجہ کی حالت ہوتی ہے بلکہ وہ مجبوراً عبادت انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کا نفس عبادت کو انجام دینے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

ان سے ہم یہ کہتے ہیں:ایسا طرز تفکر مکتب اہلبیت علیھم السلام سے صحیح طور پر آشنا نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔خاندان نبوت علیھم السلام کے ارشادات پر غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ خدا نے انسان میں جو منفی حالات اور صفات پیدا کی ہیں جیسے حسد،کینہ،کراہت وغیر ہ۔ان سب کو خدا کے دشمنوں سے استفادہ کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔لہذا انسان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ(جو ایک منفی صفت ہے) دیتا پھرے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو فریب دے  اور پھر تلقین اور نرم زبان سے کراہت کی حالت کو ختم کرے اور خود کو عبادت کی طرف مائل کرے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۳،اصول کافی:ج۲ص۸۶

۸۱

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''خٰادِعْ نَفْسَکَ فِ الْعِبٰادَةِ وَارْفِقْ بِهٰا وَلاٰ تَقْهَرْهٰا'' ( ۱ )

عبادت میں اپنے نفس کو فریب دو اور اس کے ساتھ دوستی کرو اور اسے (عبادت کے لئے )مجبور نہ کرو۔

اس بناء پر جوکوئی بھی عبادت  کو مجبوری سے انجام دیتا ہو اسے چاہئے کہ وہ عبادت کو ترک کرنے کے بجائے اپنے نفس سے کراہت کی حالت کو برطرف کرے نہ کہ اپنی عبادت کو ہی چھوڑ دے۔کیونکہ عبادت ذوق و شوق اور فرحت و نشاط سے انجام دینی چاہئے نہ کہ مجبوری اور کراہت سے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تُبَغِّضْ اِلٰی نَفْسِکَ عِبٰادَةَ رَبِّکَ'' ( ۲ )

اپنے نفس کو خدا کی عبادت کا دشمن قرار نہ دو۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۳ص۵۰۹،نہج البلاغہ ،مکتوب:۶۹

[۲] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۴،اصول کافی:ج۲ص۷۸

۸۲

 عبادت کیا ہے؟

عبادت کیاہے اور کن چیزوں کو عبادی امور کا نام دے سکتے ہیں؟

یہ ایک اہم سوال ہے جس کی طرف کبھی کبھار بعض افراد کے اذہان متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ممکن ہے کہ بعض لوگ عبادت کو نماز ،روزہ اور ان جیسے دوسرے امور ہی میں منحصر سمجھیں لیکن روایات اہلبیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرنے اور ان کی رہنمائی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ نماز اورر روزے کو انجام دینا ہی عبادت نہیں ہے۔کیونکہ عبادت کے معنی خدا کی بندگی ہے اور خدا کی بندگی و اطاعت اسی صورت میں وقوع پذیر ہو سکتی ہے کہ انسان وہی انجام دے جو خدا چاہتاہے اور خدا صرف  یہ نہیں چاہتا کہ کثرت سے نماز و روزہ بجا لاؤ۔

اس بارے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لَیْسَتِ الْعِبٰادَةُ کَثْرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصِّیٰامِ ،وَ اِنَّمَا الْعِبٰادَةُ کَثْرَةُ التَّفَکُّرِ فِ اَمْرِ اللّٰهِ'' (۱)

کثرت سے  نمازیں پڑھنا اور روزہ رکھنا عبادت نہیں ہے ،بیشک خدا کے امر میں زیادہ تفکر اور غور و فکر کرنا عبادت ہے۔

خدا جو کچھ چاہتا ہے ،اسے انجام دینا عبادت ہے  اور اسی طریقے سے انسان مقام عبودیت تک پہنچ سکتاہے ۔مقام عبودیت و بندگی تک پہنچنے کا ملاک ومعیار عبادت کی اہمیت ہے۔اعمال اور کثرت عبادات، معنوی درجات تک پہنچنے کی حتمی و لازمی شرائط میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اعمال و عبادات کی   اہمیت ان کی کثرت سے نہیں بلکہ ان کی اہمیت سے ہے ۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۳۷۳،تحف العقول:۴۸۶

۸۳

عبادات اسی صورت میں کوئی اہمیت رکھتی ہیں کہ جب وہ بہت زیادہ تأثیر رکھتی ہوں اور جب وہ انسان کے باطن میں تبدیلی پیدا کر یں۔اس بناء پر عبادات کی اہمیت کا اندازہ عبادت کرنے والوں میں تبدیلی ایجاد ہونے سے ہی لگایا جا سکتاہے۔

اس بیان سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ اپنے نفس میں تبدیلی ایجاد کرنے والے اور معنوی توانائیوں سے بہرہ مند ہونے والے اولیائے خدا کی کامیابی کا معیار ان کی عبادتوں کی تأثیر ہے نہ کہ ان کی کثرت عبادت۔اگرچہ بہت سے مقامات پر عبادات کی تأثیر ،عبادات کی کثرت پر ہی موقوف ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک کلّی قانون نہیں ہے۔

اس حقیقت پر ہماری دلیل حضرت امام صادق علیہ السلام کے خاص صحابی جناب مفضل سے منقول روایت ہے ۔آپ نے فرمایا:

''کُنْتُ عِنْدَ اَبِ عَبْدِاللّٰهِ علیه السلام فَذَکَرْنَا الْاَعْمٰالَ ،فَقُلْتُ اَنَا مَا أَضْعَفَ عَمَلِْ؟فَقٰالَ:مَهْ اِسْتَغْفِرِ اللّٰهَ،ثُمَّ قَالَ لِْ:اِنَّ قَلِیْلَ الْعَمَلِ مَعَ التَّقْویٰ خَیْر مِنْ کَثِیْرٍ بِلاٰ تَقْویٰقُلْتُ:کَیْفَ یَکُوْنُ کَثِیْر بِلاٰ تَقْویٰ ؟قَالَ:نَعَمْ ،مِثْلُ الرَّجُلِ یُطْعِمُ طَعٰامَهُ،وَ یُرْفِقُ جِیْرٰانَهُ وَ یَوَطِّیُٔ رَحْلَهُ،فَاِذٰا ارْتَفَعَ لَهُ الْبٰابُ مِنَ الْحَرٰامِ دَخَلَ فِیْهِ ،فَهٰذَا الْعَمَلُ بِلاٰ تَقْویٰ ،وَ یَکُوْنُ الآخَرُ لَیْسَ عِنْدَهُ فَاِذَا ارْتَفَعَ لَهُ الْبَابُ مِنَ الْحَرٰامِ لَمْ یَدْخُلْ فِیْهِ'' ( ۱ )

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا کہ اعمال کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے کہا:میرے اعمال کتنے کم ہیں ؟!

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۳۷۳،تحف العقول:۴۸۶

۸۴

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:خاموش رہو !اور استغفار کرو۔پھر آپ  نے مجھ سے فرمایا: تقوی ٰ  کے ساتھ انجام دیئے جانے والے کم اعمال تقویٰ کے بغیر انجام دیئے گئے زیادہ اعمال سے بہتر ہے ۔

میں نے عرض کیا:کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص تقویٰ کے بغیر زیادہ اعمال انجام دے؟

آنحضرت  نے فرمایا: ہاں ۔ جیسے کوئی شخص اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دے ، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے لئے سامان سفر فراہم کرے ۔لیکن جب بھی اس کے لئے کوئی حرام کا دروازہ کھلے تو وہ اس میں داخل ہو جائے ۔ یہ ایسا عمل ہے کہ جس میں تقویٰ نہیں ہے  اور دوسرا شخص ایسے زیادہ  اعمال انجام نہیں دیتالیکن جب اس کے لئے کوئی حرام کا دروازہ کھلے تو وہ اس میں داخل نہیں ہوتا۔

ایسا عمل تقویٰ کے ساتھ ہے اور ایسا شخص عبادت میں صداقت رکھتا ہے۔

۸۵

 محبت اہلبیت علیھم السلام یا عبادت میں نشاط کا راز

سنگین اور مشکل امور کو انجام دینے کا راز نشاط ہے۔اس کے علاوہ عبادت میں نشاط اہلبیت اطہار علیھم السلام سے محبت کی ایک دلیل بھی ہے۔کیونکہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے محبت کی نشانیوں میں سے ایک عبادت و بندگی میں با نشاط ہوناہے ۔ ان ہستیوں کی محبت انسان میں عبادت و بندگی کے لئے رغبت پیدا کرتی ہے اور ہم بندگی کا درس خاندان نبوت علیھم السلام اور ان کے حقیقی پیروکاروں سے ہی سیکھتے ہیں۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''فِیْ حُبِّ أَهْلِ بَیْتِْ.....اَلرَّغْبَةُ اِلَی الْعِبٰادَةِ'' (۱)

میرے اہلبیت علیھم السلام کی محبت  کے ذریعہ عبادت کی طرف رغبت رکھی گئی ہے۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام سے آپ کی محبت جتنی زیادہ ہوگی ،عبادات اور بندگی کے لئے اتنا ہی ذوق و شوق اور رغبت زیادہ ہو جائے گی اور عبادت کے لئے آپ کی آمادگی میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار: ج۲۷ ص۱۶۳

۸۶

 نتیجۂ بحث

عبادت و بندگی مقام عبودیت تک پہنچنے اور سعادت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔آپ کو غور و فکر کرنا چاہئے کہ وہی عبادت انسان کو عبودیت کے مقام تک پہنچا سکتی ہے کہ جس کے اثرات ہوں اور جو انسان کے وجود میں تحول و تبدیلی ایجاد کرے ۔ اس بناء پر اتنی ہی عبادت اہمیت رکھتی ہے کہ جس سے یہ نتیجہ حاصل ہو جائے نہ کہ عبادت کی کثرت اہمیت رکھتی ہے۔

عبادات کی انواع و اقسام سے آشنا ئی حاصل کریں اور ایک ہی طرح کے عبادی امور سے گریز کریں کیونکہ یہ چیز تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔عبادت کی مختلف انواع کو انجام دینے سے ذوق و شوق ایجاد ہوتاہے  پس اس طریقے سے آپ عبادات کے اثرات کو درک کرسکتے ہیں۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام سے آپ کی محبت جتنی زیادہ ہوگی ،عبادت و بندگی کو انجام دینے کے لئے آپ کے ذوق و شوق اور نشاط میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہو گا۔

عبادت میں نشاط سے عبادت میں تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا اور اس سے آپ کے اخلاص و صداقت میں اضافہ ہوتاہے کہ جو عبادت کی تأثیر کا لازمہ ہے ۔اس راہ پر قائم رہنے سے آپ مقام عبودیت تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو انسان کی خلقت کا راز ہے ۔یوں آپ اپنے نفس اور شیطان رجیم پر غالب آسکتے ہیں۔

طاعت آن نیست کہ بر خاک نہی پیشانی

صدق پیش آر ،کہ اخلاص بہ پیشانی نیست

۸۷

چوتھا باب

تقوی ٰ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' أَشْعِرْ قَلْبَکَ التَّقْویٰ وَ خٰالِفِ الْهَویٰ تَغْلِبُ الشَّیْطٰانَ ''

اپنے دل کو تقویٰ کے ذریعے مطلع و آگاہ کرو اور نفسانی ہوا و ہوس کی مخالفت کرو تا کہ شیطان پر غلبہ حاصل کرسکو۔

    تقوی ٰ و پرہیزگاری

    تقویٰ دل کی حیات کا باعث

    تقویٰ اور قلب کا رابطہ

    تقویٰ الٰہی و شیطانی افکار کی شناخت کا ذریعہ

    اپنی دوستی کا معیار تقویٰ کو قرار دیں

    حرام مال سے پرہیز

    تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

    پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

    تقویٰ کو ترک کرنے کی وجہ سے تبدیلی

    پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

    نتیجہ ٔبحث

۸۸

 تقوی ٰ و پرہیزگاری

انسان کا دل مادی و معنوی دنیا کے درمیان رابط ہے۔اگر انسان کا دل سالم ہو تو وہ اپنی معنوی توانائیوں  سے استفادہ کرتے ہوئے الہام  دینے اور الہام قبول کرنے والا بن سکتاہے۔

دل اسی صورت میں سالم ہو سکتا ہے کہ جب وہ آلودگی اور برائیوں کے زنگ سے پاک ہو اور روحانی ناپاکیوں سے دور ہو۔ جب انسان گناہ  و فسادمیں مبتلا ہوجائے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور انسان معنوی توانائیوں سے استفادہ کرنے کی قدرت کو کھو بیٹھتا ہے اور الٰہی فیض و برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔

تقویٰ قلبی اور روحانی بیماریوں کی دوا ہے ۔تقویٰ کے ذریعے دل کو پاک کرنا چاہئے اور دل کی سیاہی اور زنگ کو دور کرنا چاہئے۔

حضرت ادریس علیہ السلام کے انتیسویں صحیفہ میں آیا ہے:

''وَاغْسِلْ قَلْبَکَ بِالتَّقْویٰ کَمٰا تَغْسِلُ ثَوْبَکَ بِالْمٰائِ ،وَ اِنْ أَحْبَبْتَ رُوْحَکَ فَاجْتَهِدْ فِی الْعَمَلِ لَهٰا (۱)

جس طرح تم اپنے کپڑوں کو پانی سے دھوتے ہو ،اسی طرح اپنے دل کو تقویٰ کے ذریعے پاک کرو اور اگر تم اپنی روح سے محبت کرتے ہو تو عمل میں اس کے لئے جدوجہد کرو۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار: ج۹۵ ص۴۷۱

۸۹

 تقویٰ دل کی حیات کا باعث

قلب کی حیات اور دل کی نورانیت انسان کے تقویٰ سے وابستہ ہے ۔باتقویٰ انسان دل کی حیات،بصیرت اور دل کی نورانیت سے بہرہ مند ہوتاہے اور جو گناہوں سے آلودہ ہو اوربا تقویٰ  نہ ہو اس کا دل زنگ آلود اور معنویت  سے خالی ہوتاہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ قَلَّ وَرَعَهُ مٰاتَ قَلْبُهُ'' (۱) جس کی پرہیزگاری کم ہو،اس کا دل مردہ ہوتا ہے۔

جو بصیرت اور معنوی حیات کے خواہاں ہوں انہیں چاہئے کہ وہ با تقویٰ ہوں تا کہ نہ صرف دنیا میں معنوی زندگی سے مستفید ہوں بلکہ آخرت میں بھی فلاح و نجات پائیں اور خدا کی بے شمار نعمتوں سے مستفید ہوں۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''مَنْ أَحَبَّ فَوْزَ الْآخِرَةِ فَعَلَیْهِ بِالتَّقْویٰ'' (۲) جو کوئی آخرت میں کامیاب ہونا چاہے اس کے لئے باتقویٰ اور پرہیز گار ہونا ضروری ہے۔

تقویٰ ہربا تقویٰ کا بہترین محافظ ہے ۔تقویٰ فتنوں ،بدعتوں اور گمراہیوں  میں متقی شخص کی مضبوط ڈھال ہے جو اسے گمراہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہے اور تقویٰ متقی شخص کو فتنوں کا اصل چہرہ دکھاتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں۔تقویٰ متقی انسان کی محکم  پناہ گاہ ہے۔حضرت امام علی علیہ السلام اپنے ایک دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اَلتَّقْویٰ حِصْنُ حَصِیْنٍ لِمَنْ لَجَأَ اِلَیْهِ'' (۳) تقویٰ ہر اس شخص کے لئے ایک مضبوط حصار ہے ،جو اس میں پناہ لے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۲۶۹

[۲]۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ص۳۹۴

[۳]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۲۶۹

۹۰

 تقویٰ اور قلب کا رابطہ

دل چیزوں کو اخذ کرنے والی بھیجنے والی بہت قوی مشین ہے جسے خداوند متعال نے انسان کے وجود میں قرار دیا ہے تا کہ اس کے صحیح و سالم ہونے کی صورت میں انسان اس سے استفادہ کرکے اپنی  توانائی کے مطابق گذشتہ و آئندہ سے ارتباط برقرار کرے اور کبھی اپنی باطنی و قلبی توجہ(جو نفسانی خواہشات اور خیالات سے خالی ہو) اولیائے خدا سے مرتبط کر سکے۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف (جو کائنات کے دل کی حیثیت رکھتے ہیں)کے غیبت کے زمانے میں ہمارے دل صحت و سلامتی سے خالی اور روحانی بیماریوں میں  مبتلا ہیں ۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے نورانی کلمات میں دلوں کی صحت و سلامتی اور اسی طرح قلبی امراض کی تصریح فرمائی ہے اور مختلف بیماریوں (ہمارادل جن بیماریوںمیں مبتلا ہو چکا ہے)سے نجات کا راستہ بھی بیان کیا ہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے تقویٰ اور انسان کے وجود میں اس کے اثرات کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:

''فَاِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَوٰائُ دٰائِ قُلُوْبِکُمْ'' (۱)

تقویٰ الٰہی آپکے دلوں کی بیماری کا علاج ہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص۲۶۹

۹۱

اگر خداوند انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری عطا کرے تو یہ دوسری مختلف دوائیوں  کی طرح مختلف قسم   کی بیماریوں میں مبتلا بیمار دلوں کو شفا دیتاہے۔ جس طرح طوفان اور مصیبت میں گرفتار مسافروں کو کشتی نجات دیتی ہے اسی طرح تقویٰ انسان کو مختلف قسم کے فتنوں،بلاؤں اور گرفتاریوں سے ہلاک ہونے سے بچاتا ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ،حضرت لقمان کے اقوال کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''.....فَلْتَکُنْ سَفِیْنَتُکَ فِیْهٰا تَقْوَی اللّٰهِ'' ( ۱ )

ان موارد میں تمہاری کشتی (نجات) تقویٰ الٰہی ہونی چاہئے۔

تقویٰ بھی ایک طاقتور کشتی کی طرح بلاؤں کی امواج کو چیرکر انسان کو فتنوں سے نجات دلاتا ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَاعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ یَتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا مِنَ الْفِتَنْ'' ( ۲ )

آگاہ ہو جاؤ !جو کوئی خدا کے لئے تقویٰ اختیار کرے ، خداوند اس کے لئے فتنوں سے فرار کے راستے کھول دیتا ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۱ص۱۳۶

[۲]۔ نہج البلاغہ،خطبہ: ۱۸۳

۹۲

 تقویٰ الٰہی و شیطانی افکار کی شناخت کا ذریعہ

الٰہی و شیطانی افکار کو کس طرح ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں؟

ہم بہت سے موارد میں شیطانی و رحمانی افکار میں فرق نہیں کرتے  اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے افکار میں سے کون سے افکار رحمانی ہیں  کہ  جو معنوی منشاء رکھتے ہیں اور ان میں سے کون سے شیطانی یا نفسانی ہیں کہ جو شیطان یا نفس کے ذریعے ہمارے ذہن میں  پیداہوتے ہیں؟

افکار میں تشخیص نہ دے پانا حیرت و سرگردانی کا باعث بنتا ہے  اور  ہمیں  ان افکار کے بارے  میں ہماری ذمہ داری  کا علم بھی نہیں ہوتا ہے کہ جن کا الٰہی یا شیطانی  ہونا معلوم نہ ہو؟

اس سے بھی مشکل افکار کے تجسم اور مکاشفہ کا مسئلہ ہے کہ جن کی حقیقت کو اکثر لوگ حتی کہ اہل علم  حضرات بھی نہیں جانتے ۔

یہ جاننے کے لئے کہ کون اپنے الٰہی افکار کو تشخیص دے سکتا ہے ،ہم  یہ کہتے ہیں:قرآن مجید نے اس سوال کا جواب بیان فرمایاہے اور واضح طور پر فرمایاہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ ِذَا مَسَّهُمْ طَائِف مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ (۱)

جو لوگ صاحبان تقوی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ اعراف،آیت:۲۰۱

۹۳

یعنی تقویٰ اس طرح سے انسان کو آگاہی دیتاہے کہ جب بھی شیطان انسان کے ذہن میں کوئی سوچ و فکر القاء کرے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ افکار شیطان نے ذہن میں ڈالے ہیں۔

اس بناء پرالٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دینے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان میں سے کس کو اہمیت دیں اور کس سے بے اعتنائی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیں ۔تقویٰ اختیار کریں تا کہ اس کے ذریعے ہم میں الٰہی و شیطانی افکار میں تمیز دینے کی قدرت پیداہو سکے۔

پس تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے سے نہ صرف یہ کہہم شیطان کے فریب میں مبتلا نہیںہوں گے بلکہ ہم میں دشمن کو پہچاننے اور اس کے نفوذ کرنے کے طریقوں کو پہچانے کی بصیرت و آگاہی آ جاتی ہے اور عالی مراحل تک پہنچنے کی زیادہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے۔

کیونکہ تکامل و پیشرفت ا ور کسی بھی  ہدف تک پہنچنے کے لئے اس کے موانع کی شناخت و معرفت ضروری ہے ورنہ انسان پرخطر اور مشکل راستوں کوبا آسانی اور موانع سے آمنا سامنا کئے بغیر طے نہیں کر سکتا ۔

روحانی سیرو سلوک اور معنوی راستوں پر چلنے کے لئے بھی انسان کانفس اور شیطان کی مکاریوں سے آشنا ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ انسان اس کے دھوکے اور فریب میں گرفتار نہ ہو جائے ۔ انسان کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شیطان اسے کس طریقے سے گمراہ کرتاہے  اور کس طرح سے اسے راہ راست سے منحرف کرتا ہے۔

تقویٰ شیطان کے فکری وسوسوں کی شناخت اور شیطانی افکار کی راہوں کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔باتقویٰ افراد الٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں۔

۹۴

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض افراد تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے فکری بیماریوں،نفسی آلودگیوں،بصیرت کے فقدان اور دل کی تاریکی کے باعث تکلیف اٹھاتے ہیں اور انہیں ان بیماریوں کے علاج کا کوئی راستہ بھی معلوم نہیں ہوتا نیز وہ اپنے نفس کی ان بیماریوں کا علاج کرنا بھی نہیں جانتے  کہ وہ کس دوا سے اپنی معنوی بیماری کا علاج کریں۔وہ مکتب اہلبیت علیھم السلام کے شفا بخش مکتب سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے کھوکھلے ماہرین نفسیات،امریکی جادوگروں اور مختلف شیطانی ریاضتیں انجام دینے والے افراد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کی گمراہی اور سرگردانی میں  مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب تک کون سا ایسا شخص ہے جو مکتب وحی سے آشنا ہونے کے باوجود ایسے ناشائستہ افراد کا محتاج ہو؟

اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بعض افراد عقل اور شریعت کے برخلاف کچھ ریاضتیں انجام دینے کی وجہ سے بعض مہارتوں پر قادر ہو جاتے ہیں  اور وہ کچھ روحانی مشق اور ریاضت سے نفسانی اور شیطانی (نہ کہ رحمانی)قدرت توحاصل کر لیتے ہیں  لیکن چونکہ وہ با تقویٰ نہیں ہوتے لہذا وہ اپنی توانائیاں غلط اور فاسد کاموں میں خرچ کرتے ہیں  اور اپنی قدرت دنیا پر قابض ہونے والے افراد کے لئے صرف کرتے ہیں۔

اسی طرح کچھ ہندو اور گائے پرست مقدس گائے کا فضلہ اپنے سر اور چہرے پر لگاتے ہیں  جب کہ امریکا ان سے مشورہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ بیٹھتا ہے۔یقینا یہ آلودہ افراد انہیں معنویت،خدا شناسی اور انسان دوستی کا درس دیتے ہوں گے !!اور انہیں  لوگوں کو برباد کرنے والے کام انجام دینے سے روکتے ہوں گے!!

کیا وہ دکھائی نہ دینے والی شیطانی طاقتوں کے ذریعے خدا کی غیبی قدرت سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔( ۱ )

--------------

[۱] ۔ امریکہ اب تک اپنی طاقت کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور اس کے لئے اسن نے اپنے بہت سے لوگوں کو بھی قربان کیا ہے۔!رک:بہ سوی بی نہایت۔

۹۵

لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ فرعون کے وارث ہیں جو اسی کی طرح سوچتے ہیں اسی لئے وہ جادوگروں اور ساحروں کا دامن تھامتے ہیں!

چونکہ  انہوں نے حقیقت نہیں دیکھی اسی لئے وہ افسانے کو ہی حقیقت مان بیٹھے!

روحانی تکالیف اور دروسے نجات کے لئے ان ہستیوں کی رہنمائی پر عمل کرنا چاہئے جو سب کی جان اور روح سے آشناہیں اور جو انسانوں اور تمام مخلوقات کی خلقت کی کیفیت کے شاہد ہیں۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم مکتب اہلبیت علیھم السلام کی طرف رخ کریں اور خود کو مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے انمول کلمات سے اطمینان دیں ۔آنحضرت  فرماتے ہیں:

اَمّٰا بَعْدُ:فَاِنِّی اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ اِبْتَدَئَ خَلْقَکُمْ وَ اِلَیْهِ یَکُوْنُ مَعٰادُکُمْ ،وَ بِهِ نَجٰاحُ طَلِبَتِکُمْ وَ اِلَیْهِ مُنْتَهٰی رَغْبَتِکُمْ،وَ نَحْوُهُ قَصْدُ سَبِیْلِکُمْ وَ اِلَیْهِ مَرٰامِْ مَفْزَعِکُمْ فَاِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَوٰائُ دٰائِ قُلُوْبِکُمْ وَ بَصَرَ عَمیٰ أَفْئِدَتِکُمْ ،وَ شَفٰائُ مَرَضِ اَجْسٰادِکُمْ وَ صَلاٰحُ

 فَسٰادِ صُدُوْرِکُمْ وَ طَهُوْرُ دَنَسِ أَنْفُسِکُمْ ،وَ جَلاٰئُ غِشٰائِ أَبْصٰارِکُمْ،وَ اَمْنُ فَزَعِ جَأْشِکُمْ وَ ضِیٰائُ سَوٰادِ ظُلْمَتِکُمْ.....''( ۱ )

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج ص۲۸۴۷۰،نہج البلاغہ ،خطبہ :۸۱

۹۶

اما بعد : میں  تم لوگوں کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی سفارش کرتاہوں۔جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں اس کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے ۔اسی کی عنایت سے تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہو اور تمہاری بازگشت کی انتہا وہی ہے  اور خوف کے وقت وہی تمہاری بہترین پناہگاہ ہے۔

بیشک تقویٰ الٰہی تمہارے دلوں کے درد کی دوا ہے ،تمہارے اندھے دلوں کے لئے بصیرت ہے ، تمہارے جسموں کے مرض کے لئے شفاء ہے ۔یہ تمہارے سینوں کے فساد کی اصلاح کرنے والا،تمہارے نفس کی کثافت و گندگی پاک کرنے اور تمہارے آنکھ کے پردوں کو جلا و صفا عطا کرنے والاہے ۔تمہارے دل کے خوف کے لئے امان اور تمہاری ظلمتوں کے اندھیروں کے لئے روشنی ہے۔( ۱ )

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت امام علی علیہ السلام تقویٰ کو دل کی تاریکی،فکر ی آلودگی ، بصیرت کے فقدان اور دوسری روحانی بیماریوں کا علاج قرار دیتے ہیں  اور آپ انسانیت اور معنویت کی راہ کے متلاشی تمام افراد کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ شرح نہج البلاغہ(مرحوم مرزا حبیب اللہ خوئی )،خطبہ:۱۹۷،ج۱۲ص۲۶۹

۹۷

  اپنی دوستی کا معیار تقویٰ کو قرار دیں

تقویٰ کی اہمیت و عظمت کی وجہ سے دینی بھائیوں اور دوستوں سے ہمارا ارتباط اور دوستی کا معیار ان کے تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیاد پر ہو نہ کہ ان کی دولت، شہرت اور مقام کی بنیاد پر۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیںکہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اَحْبِبِ الْاَخْوٰانَ عَلٰی قَدْرِ التَّقْویٰ'' (۱)

اپنے (دینی) بھائیوں کو ان کے تقویٰ و پرہیز گاری کے مطابق دوست رکھو۔

لوگوںسے دوستی ظاہری اور مادی امور کی وجہ سے نہیں ہونی چاہئے ۔اگر انسان کی دوستی اور برتاؤ کا معیار تقویٰ اور پرہیزگاری ہو تو معاشرے کے شریر  اور مکار افراد کے فریب اور شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔لیکن بعض افراد تقویٰ اور پرہیزگاری کو دوستی کی بنیاد قرار دینے کے بجائے فاسد کو افسد کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور افسد کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں اور معاشرے  کے بازیگروں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۴ص۱۸۷، امالی مرحوم صدوق :۱۸۲

۹۸

 حرام مال سے پرہیز

شریک بن عبداللہ ایسے افراد میں سے ایک ہے ۔وہ مہدی عباسی کے زمانے میں کوفہ کاقاضی تھا ۔   قضاوت کے منصب کو قبول کرنے سے پہلے وہ ایک دن مہدی عباسی کے پاس گیا۔

مہدی عباسی نے اس سے کہا:میں تمہیں تین طرح کا حکم دیتا ہوں ،تم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے اس پر عمل کرو۔تم یاکوفہ کی قضاوت کا منصب قبول کرویا میرے بیٹوں کو تعلیم دویا پھر میرے ساتھ ایک مرتبہ کھانا کھاؤ۔

شریک نے جب یہ تین حکم سنے تو وہ کسی پر بھی راضی نہ ہوا لیکن چونکہ اس کے پاس ان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا،اس نے سوچا اور کہا:کھانا،کھانا دوسرے دونوں احکامات سے آسان ہے۔

مہدی عباسی نے حکم دیا کہ اس کے لئے بہت لذیذ کھانا تیار کیا جائے ۔جب کھانالایا گیا  اور شریک کھانا کھانے سے فارغ ہو گیا تو کھانا پکانے والے نے مہدی عباسی سے کہا:

''لیس یفلح الشیخ بعد هذه الأَکلة ابداً"

شریک یہ غذا کھانے کے بعد کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتا۔

شریک نے وہ غذا کھانے کے بعد بنی عباس کے ساتھ ہمنشینی کو قبول کر لیا اور نہ صرف اس کے  بچوں کو تعلیم دینے پر آمادہ ہو گیا بلکہ منصب قضاوت کو بھی قبول کر لیا۔(۱)

جی  ہاں!جب رنگین دسترخوان بچھا دیا جائے یا کسی منصب کی کرسی رکھ دی جائے تو پرہیزگار آزمائش میں مبتلا  ہو جاتے ہیں  اور ان کی معنوی حقیقت و واقعیت واضح ہو جاتی ہے۔

--------------

[۱]۔ وقایع الایام مرحوم محدث قمی:۸۶

۹۹

 تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

اب ہم  آپ  کے سامنے رسول اکرم (ص) کی بہت اہم روایت پیش کرتے ہیں تا کہ تقویٰ و پرہیزگاری کے عظیم آثار کے بارے میں آپ کے علم و آگاہی میں مزید اضافہ ہو۔

''قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه:.....قَدْ أَجْمَعَ اللّٰهُ تَعٰالٰی مٰا یَتَوٰاصی بِهِ الْمُتَوٰاصُوْنَ مِنَ الْأَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ فِ خَصْلَةٍٍوٰاحِدَةٍ وَ هَِ التَّقْویٰ،قٰالَ اللّٰهُ جَلَّ وَ عَزَّ: ( وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّٰهَ ) (۱) وَ فِیْهِ جِمٰاعُ کُلِّ عِبٰادَةٍ صٰالِحَةٍ،بِهِ وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَی الدَّرَجٰاتِ الْعُلیٰ ،وَالرُّتْبَةِ الْقُصْویٰ،وَ بِهِ عٰاشَ مَنْ عٰاشَ مَعَ اللّٰهِ بِالْحَیٰاةِ الطَّیِّبَةِ وَالْاِنْسِ الدّٰائِمِ، قٰالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ: (ِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ،،فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ) (۳)( ۲)

اولین وآخرین میں سے وصیت کرنے والوں نے جس چیز کی وصیت کی خدا نے اسے ایک ہی خصلت میں جمع کر دیا اور وہ تقویٰ ہے۔

خداوند کا ارشاد ہے: اور ہم نے تم سے پہلے اہلِ کتاب کو اور اب تم کو یہ وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو (یعنی تقوی اختیار کرو)تقویٰ تمام عبادت صالح کے لئے سرچشمہ ہے اور جس نے بھی بلند درجات تک رسائی حاصل   وہ تقویٰ کے ذریعے سے ہی ہے اور جو بھی خدا کے ساتھ پاک حیات اور دائمی انس رکھتا ہو  اسے اسی کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے۔

--------------

[۱]۔ سورۂ نساء ،آیت:۱۳۱

[۲]۔ سورۂ قمر ،آیت:۵۴،۵۵

[۳]۔ کشف الغمہ:ج۲ص۳۶۸، بحار الانوار:ج۷۸ص۲۰۰

۱۰۰

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:بے شک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے ، اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے۔

اس بناء پر جو لوگ بلندمعنوی مقامات  و مراتب تک پہنچنے کے خواہاں ہوں وہ خدا کی دی ہوئی پوری زندگی میں خدا اور اولیائے خداکے ساتھ ہی انس رکھیں اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریںکہ اس سے بہتر کوئی اور خزانہ نہیں ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ التَّقْویٰ أَفْضَلُ کَنْزٍ'' ( 1 )

بیشک تقویٰ بہترین خزانہ ہے۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے اس خزانے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں اور اس کی حفاظت کریں ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ فِ الْغَیْبِ وَالشَّهٰادَةِ'' ( 2 )

تم پرخلوت اور جلوت میں تقویٰ الٰہی کے ساتھ رہنا لازم ہے۔

''شریک ''کے برخلاف کچھ لوگوں نے لقمہ ٔ حرام سے پرہیز کیا،تنہائی اور آشکار دونوں صورتوں  میں تقویٰ کا خیال رکھاجس کے نتیجہ میں عالی معنوی مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۳۷6، امالی مرحوم شیخ طوسی:ج۲ص۲۹6

[2]۔ بحار الانوار:ج۷ 7ص۲۹۰، تحف العقول:92

۱۰۱

اب ہم جو واقعہ بیان کر رہے ہیں ،وہ اسی کا ایک نمونہ ہے:

تبریز کے ایک بہت مالدار تاجر کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہورہاتھا۔اس نے بہت سے ڈاکٹروں اور حکیموںکی طرف رجوع کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ وہ نجف اشرف چلا گیا اور وہاں امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں توسل کیا اور استجارہ کے عمل میں مشغول ہو گیا۔گذشتہ زمانے میں اور اب بھی یہ رائج ہے کہ نجف کے صالح افراد ،یا مسافرین چالیس ہفتوں تک ہر بدھ کی رات مسجد سہلہ جاتے ہیںاور وہاں نماز اور مسجد کے اعمال انجام دینے کے بعد مسجد کوفہ چلے جاتے ہیںاور رات سے صبح تک  وہیں رہتے یہاں تک کہ وہ اسی مدت یا پھر آخری رات امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت سے مشرّف ہوتے۔اگرچہ ان میں سے بہت آنحضرت  کو اس وقت نہ پہچانتے اور پھر بعد میں متوجہ ہوتے۔

اب تک بہت سے افراد نے اس عمل کو انجام دیاہے اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔تبریز کے تاجر نے بھی بدھ کی چالیس راتوں تک یہ عمل انجام دیا اور آخری رات اس نے خواب اور بیداری کے عالم میں ایک شخص کو دیکھا جو اس سے فرما رہے ہیں کہ محمد علی جولایی دزفولی کے پاس جاؤ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی اور اس نے کسی اور کو نہ دیکھا۔

وہ کہتاہے:میں نے اب تک دزفول کا نام نہیں سنا تھامیں نجف آیا اور میں نے دزفول کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے اس کا پتہ بتا دیا ۔میں  اپنے نوکر کے ہمراہ اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جب میں شہر میں پہنچا تو میں نے اپنے نوکر سے کہا:ہمارے پاس جو سامان ہے تم لے کر جاؤ ،میں تمہیں بعد میں ڈھونڈ لوںگا۔

وہ چلا گیا اور میں محمد علی جولایی کو تلاش کرنے لگا۔لوگ اسے نہیں پہچانتے تھے  بالآخر ایک شخص ملا جو جولایی کو جانتا تھا ۔اس نے کہا:وہ کپڑے بُنتاہے اور فقراء میں سے ہے جو آپ کی حالت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔میں نے ان کا پتہ لیا اور ان کی دکان کی طرف چلا گیا اور آخر کار وہ مجھے مل ہی گیا:

۱۰۲

میں نے دیکھا کہ انہوں نے کرباس سے بنی شلوار قمیض پہن رکھیہے اور ایک چھوٹی تقریبا ڈیڑھ میٹر کی دکان میں کپڑے بننے میں مشغول ہیں۔جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً کہا: حاج محمد حسین تمہاری حاجت پوری ہو گئی ۔میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔میں ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی دکان میں داخل ہواغروب کا وقت تھا انہوں نے اذان کہی اور نماز ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ان سے کہا:میں مسافر ہوں اور آج رات آپ کا مہمان ہوں ۔انہوں نے قبول کر لیا۔

رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک کاسہ میرے سامنے رکھا ۔اگرچہ مجھے لذیذ غذائیںکھانے کی عادت تھی لیکن میں ان کے ساتھ کھانا کھانے لگا ۔پھر انہوں نے مجھے کھال کا ایک ٹکڑا دیا اور مجھ سے کہا :تم میرے مہمان ہو اس لئے تم اس پر سو جاؤاور خود زمین پر سو گئے ۔

صبح کے قریب وہ نیند سے بیدار ہوئے ،وضو کرنے کے بعد انہوں نے اذان کہی اور صبح کی نماز ادا کرنے میں مصروف ہو گئے اس کے بعد انہوں نے مختصر سی تعقیبات انجام دیں ۔اس کے بعد میں نے ان سے کہا:میرے یہاں آنے کے دو مقصد تھے ایک کو آپ نے بیان کر دیا اور دوسرا یہ ہے کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بلند مقام کس طرح سے حاصل ہوا کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے میرا کام آپ پر چھوڑ دیا  اور آپ کو کس طرح میرے نام اور ضمیر و باطن کا علم ہے؟

انہوں نے کہا:یہ کیسا سوال ہے؟تمہاری حاجت تھی جو پوری ہو گئی ۔

میں نے ان  سے کہا :جب تک میں یہ نہ سمجھ لوںمیں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور چونکہ میں آپ کا مہمان ہوں لہذا مہمان کا احترام کرتے ہوئے آپ مجھے یہ ضرور بتائیں۔

۱۰۳

انہوں نے بات کاآغازکیا اور کہا:میں اس جگہ کام میں مصروف تھا میری دکان کے سامنے ایک ظالم شخص رہتا تھا اور ایک سپاہی اس کی حفاظت کرتا تھا ایک دن وہ سپاہی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا:تم اپنے لئے کھانے کا انتظام کہاں سے کرتے ہو؟

میں نے اس سے کہا:میں سال میں گندم کی ایک بوری خریدکر ا س کا آٹا پسوا لیتا ہوں جسے میں کھاتا ہوں اور نہ ہی تو میری کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ۔

اس نے کہا:میں  یہاں محافظ ہوں ۔مجھے اس ظالم کے اموال سے استفادہ کرنا پسند نہیں ہے ۔ اگر تم زحمت قبول کرو تو میرے لئے بھی جو کی ایک بوری خرید لو اور ہر دن دوروٹیاں مجھے بھی دے دو ۔ میں نے اس کی بات مان لی  اور وہ ہر دن آتا اور مجھ سے دوروٹیاں لے کر چلا جاتا ۔پھر ایک دن وہ نہ آیا میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے اور مسجد میں سو رہا ہے ۔میں نے سوچا کے اس کے لئے طبیب اور دوا لے جاؤں تواس نے کہا:اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں آج رات اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔جب آدھی رات ہوگی تو ایک شخص تمہاری دکان میں آئے گا اور تمہیں میری موت سے  باخبرکر دے گا۔تم ان کے ساتھ آنا اور وہ تم سے جو کچھ کہیں اسے انجام دو اور بقیہ آٹا بھی اب تمہاری ملکیت ہے۔

میں نے چاہا کہ رات اس شخص کے ساتھ گذاروں لیکن انہوں نے اجازت نہ دی اور کہا:تم چلے جاؤ میں نے بھی ان کی بات مان لی ۔آدھی رات کے وقت کسی نے میری دکان پر دستک دی اور فرمایا:محمد علی باہر آؤ ۔میں دکان سے باہر آیا اور ان کے ساتھ مسجد میں چلا گیا ۔میں نے دیکھا کہ وہ محافظ اب اس دنیامیں نہیں  ہے ۔اس کے پاس دو افراد بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس کے جسم کو نہر کی طرف لے چلو میں اس کا بدن نہر کے کنارے لے گیا ،ان دو افرادنے اسے غسل وکفن دیا اور اس پر نماز پڑھی ۔پھر اسے لا کر مسجد کے دروازے کی جگہ دفن کر دیا ۔

۱۰۴

میں دکان کی طرف واپس چلا گیا ۔کچھ راتوں کے بعد کچھ لوگوں نے میری دکان پر دستک دی ۔کسی نے کہا:باہر آؤ میں دکان سے باہر آیا ۔میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا کہ  آقا نے تمہں بلایا ہے تم میرے ساتھ چلو ۔میں ان کی بات مان کر ان کے ساتھ چلا گیا ۔وہ مہینے کی آخری راتیں تھیں ۔لیکن صحرا چاندنی راتوں کی طرح روشن اور زمین سبز و خرم تھی لیکن چاند کہیں دکھائی نہیں  دے رہا تھا ۔میں سوچنے لگا اور تعجب کرنے لگا ۔اچانک میں صحرائے نو(نو،دزفول کے شمال میں ایک شہر کا نام  ہے) میں پہنچ گیا۔

میں نے دو بزرگ شخصیتوں کو دیکھا کہ جو ایک ساتھ تشریف فرما ہیں  اور ایک شخص ان کے سامنے کھڑا تھا ۔اس مجمع میں ایک شخص سب سے اوپر اور سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ۔ان کو دیکھتے ہی مجھ میں ایک عجیب خوف وہراس  اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔

جو شخص میرے ساتھ تھا اسنے مجھ سے کہا:کچھ آگے آ جاؤ ۔میں کچھ آگے چلا گیا  تو جو شخص ان میں سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ،انہوں نے ان میں سے ایک شخص سے فرمایا:اس سپاہی کا منصب اسے دے دو اور مجھ سے فرمایا:تم  نے میرے شیعہ کی جو خدمت کی اسی کی وجہ سے میں تمہیں  اس سپاہی کا عہدہ دینا چاہتا ہوں۔میںنے سوچا کہ شاید یہ مجھے اسی سپاہی کی  جگہ محافظ قرار دینا چاہتے ہیں ۔لیکن میں محافظ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔میں نے ان سے کہا:میں کپڑے بنتا ہوں ،مجھے سپاہی اور محافظ بننے سے کیا مطلب؟

۱۰۵

ان میں سے ایک نے کہا:ہم سپاہی  کا عہدہ تمہیں دیتے ہیں  اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم سپاہی بنو،ہم نے اس کا عہدہ تمہیں دے دیا،اب تم جاؤ۔

میں واپس لوٹا اور دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ اب وہ صحرا بہت تاریک ہے  اور صحرا میں روشنی، سبزی اور خرمی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

اس رات کے بعد مجھے میرے آقا حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے احکامات ملتے ہیں ۔آنحضرت (عج) کے احکامات و دستورات میں سے ایک تمہاری حاجت کا پورا ہونا تھا۔( 1 )

اس سپاہی نے حرام مال  سے پرہیز کرکے اپنے لئے یہ مقام خود بنایا ۔ان کا عباسی خلیفہ کے دربار کے قاضی''شریک ''سے مقائسہ کریں جس نے خود کو حرام مال کھانے کے نتیجے میں آلودہ کیا۔

ان دونوں میں سے کس کی راہ بہتر ہے؟امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں حاضر ہونا یا عباسی خلیفہ کی خدمت میں ؟!

یہ بزرگان دین کی زندگی کا منشور رتھا ۔تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات نے تقویٰ اختیار کیا اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کاآئین اپنی مذہبی ذمہ داری کے مطابق تشکیل دیا۔اسی وہ بلند مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

 [1]۔ زندگی و شخصیت شیخ انصاری:52

۱۰۶

 پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اولیائے خدا نہ صرف خود تقویٰ و پرہیز گاری کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ وہ اپنے روحانی حالات کی حفاظت کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے  اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں تقویٰ ایجاد کریں۔وہ اپنے عمل اور رفتار و کردار سے اپنے ہمنشین اور معاشرے کے تمام افراد کو تقویٰ و پرہیز گاری کا درس دیتے ہیں ۔ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ معاشرہ پرہیزگار رہے اور گناہوں سے دور رہے ۔

کیونکہ  معاشرے میں خاندان نبوت علیھم السلام کے تابناک انوار کا ظہور ایسے ہی متحقق ہو سکتا ہے لہذا تمام افراد پر لازم ہے کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے حصول کی کوشش کریں اور خود سے نفسانی خواہشات ،ہوا و ہوس اور شیطانی افکار کو دور کریں ۔

عظیم لوگ مقام و مرتبہ اور دنیاوی چیزوں کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتے ۔ان کا ہدف و مقصد اس سے کہیں زیادہ عظیم ہوتاہے بلکہ اگر انہیں مقام و مرتبہ اور تمام دنیاوی منصب بھی مل جائے تو وہ انہیں تقویٰ و پرہیز گاری جیسے اعلی ہدف کے لئے استفادہ کرتے ہیں نہ کہ وہ مقام و مرتبہ کے لئے  تقویٰ و پرہیز گاری چھوڑ دیں ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے تقویٰ کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ  نے فرمایا:

''.....أَنْ لاٰ یَفْقِدُکَ اللّٰهَ حَیْثُ أَمْرَکَ وَ لٰا یَرٰاکَ حَیْثُ نَهٰاکَ'' (1)

تقویٰ یہ ہے کہ خداوند نے تمہیں جس چیز کا حکم دیا ہے تمہیں اس سے دور نہ پائے اور جس چیز سے منع کیا ہے، اس میں تمہیں ملوث نہ پائے۔ اس بیان کی رو سے اگر انسان میں کسی منصب کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن اس کے  باوجود اسے قبول کرے تو یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ کس طرح ساز گار ہو سکتا ہے؟

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج70ص 285

۱۰۷

  تقویٰ کو ترک کرنے کی  وجہ سے تبدیلی

کبھی روحانی حالات بعض مسائل کے درپیش آنے کی وجہ سے نابود ہو جاتے ہیں اور کبھی نابود نہیں ہوتے لیکن یہ دوسری حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس کی وضاحت کے لئے ہم یوں کہتے ہیں :کبھی خداوند کریم گناہوں کو بخش دیتاہے اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتا ہے اور کبھی خدا انہیں نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔لہذا  خدا کو پکارتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

پہلی صورت میں گناہ کسی دوسری حالت میں تبدیل ہونے کے بجائے بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں  اور دوسری صورت میں گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔تقویٰ کا بھی یہی حال ہے کیونکہ تقویٰ کبھی گناہوں کی وجہ سے ختم ہو جاتاہے اور کبھی شہوت اور کسی دوسری معصیت کے غلبہ کی وجہ سے فاسد ہو جاتاہے لیکن نابود نہیں ہوتا بلکہ یہ شیطانی حالات میں تبدیل ہو جاتاہے ۔

مولائے کائنات علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''لاٰیُفْسِدُ التَّقْویٰ اِلاّٰ غَلَبَةُ الشَّهْوَةِ'' (1)

تقویٰ کو شہوت کے غلبہ پانے کے علاوہ کوئی چیز فاسد نہیں کرتی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت  نے یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ کو شہوت کے غالب آنے کے علاوہ کوئی چیز ختم نہیں کرتی بلکہ فرمایا:تقویٰ کو شہوت کے غلبہ کے علاوہ  کوئی چیز فاسد نہیں کرتی  اور یہ تعبیر تغیر و تبدل کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج6ص۳۷6

۱۰۸

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تقویٰ ایک خاص قسم کی حالت ہے جس کے روحانی ومعنوی پہلو ہیں اور یہ اسی صورت میں فاسد ہوتا ہے جب اس میں موجود معنویت ختم  ہو جائے۔

جب کوئی شخص اپنی روحانی حالت کھو بیٹھے تو اس کی روحانی حالت شیطانی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے  اس بناء پر با تقویٰ شخص پر شہوت کا غلبہ ہو جانے اور تقویٰ کے فاسد ہو جانے کی وجہ سے اس میں روحانی روپ میں ایک شیطانی حالت ایجاد ہوتی ہے ۔

اس بناء پر اگر کسی باتقویٰ شخص  پر کسی مقام و منصب کی شہوت غالب آ جائے تو یہ اس منصب تک پہنچنے والے عام شخص سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

رحمانی حالات کا شیطانی اور شیطانی حالات کا رحمانی حالات میں تبدیل ہونا مسلّم ہے۔جن کا تذکرہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات میں بھی  ہے۔

انسان جستجو ،تلاش،کوشش اور انجام دیئے جانے والے اعمال کی وجہ سے روحانی و معنوی توانائیاں کسب کرتا ہے ۔روحانی حالات اس میں نفوذ کرکے اس کے دل و جان میں راسخ ہو جاتے ہیں  اور اس میں مادّی حالات اور طبعی کیفیات کم ہو جاتی ہیں اور اس پر معنوی و روحانی حالات کا غلبہ ہو جاتاہے۔

جس انسان میں روحانی و معنوی حالات پیدا ہو جائیں اور اگر فرض کریں کہ اس میں کوئی تبدّل وتغیّر پیدا ہوجائے تو پھر وہ ایک عام اور طبیعی انسان نہیں رہے گا بلکہ بہت سے مقامات پر اس کے روحانی و رحمانی حالت  شیطانی حالات میں تبدیل ہو جائیں گے۔

۱۰۹

جس طرح سالہا سال سے انجام پانے والے بہت سے گناہوں اور خدا کی نافرمانی  کی وجہ سے اس میں شیطانی حالات راسخ ہو جاتے ہیں  اور وہ ارواح خبیثہ اور شیاطین کے ساتھ مل جاتاہے  لیکن توبہ کی وجہ سے نہ صرف وہ خدا کی طرف پلٹ آتاہے بلکہ اس کے حالات ،رحمانی حالات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبھی توبہ کرنے کی وجہ سے گناہگاروں کے گنا ہ بخش دیتاہے اور کبھی نہ صرف یہ کہ ان کے گناہوںکو بخش دیتاہے بلکہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

خدا کے اسماء میں سے ایک ایسا اسم ہے جو گناہگاروں اور معنویت کے قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور وہ یہ  ہے:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

اے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے ۔

گناہوں کا نیکیوں میں تبدیل ہو جانا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کے آثار بھی تبدیل ہو جائیں۔

۱۱۰

 پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

انسان کس طرح  تقویٰ کوکھو دیتاہے اور کس طرح حقیقی تقویٰ حاصل کر سکتاہے؟کیا صرف گناہوں سے دوری کے ذریعے ہی خود کو متقی سمجھ سکتے ہیں؟یا تقویٰ صرف سخت اور مشکل امتحانات میں قبول ہونے سے ہی حاصل ہو سکتاہے؟

یہ سوالات بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

اس  سوال کا جواب مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے:

''عِنْدَ حُضُوْرِ الشَّهْوٰاتِ وَ اللَّذّٰاتِ یَتَبَیَّنُ وَرَعُ الْاَتْقِیٰاء'' (1)

جب کوئی شہوت انگیز اور لذت بخش واقعہ پیش آئے ،تو متقی افراد کی پرہیزگاری واضح وروشن ہو جاتی ہے۔

اس صورت میں حقیقی تقویٰ اختیار کرنے والے دکھاوے اور خود نمائی سے بھی کام لیتے ہیں  اور اپنی توانائی پر کنٹرول کرتے ہیں  اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کو معنوی قوت کے ذریعے نیست و نابود کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر وہ ان پر کنٹرول نہ کر سکتے ہوں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری میں ثابت قدم نہیں ہیں۔

--------------

[1] شرح غرر الحکم: 4 / 326

۱۱۱

 نتیجہ ٔبحث

دل اسرار و رموز سے بھرپور ایک اہم مشین ہے  جسے خدا نے آپ کے وجود میں قرار دیاہے  تا کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے ذریعے اس کی اصلاح کریں اور اس پر زنگ اور تاریکی آ جانے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کرکے اس سے استفادہ کریں۔

تقویٰ دکھائی نہ دینے والے دشمنوں کے ساتھ جنگ اور ان پر حملے کے لئے بہت طاقتور ہتھیار ہے ۔اسے خود میں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کریں۔

تقویٰ آپ کے دیرینہ دشمنوں یعنی شیاطین کے نفوذ سے بچنے کے لئے ایک مضبوط ڈھال کی مانند ہے۔یہ آپ کو ان سے بچاتا ہے۔ آپ کو  ان  کے حملوں اور مکاریوں سے آگاہ کرتا ہے اور آپ  کی حفاظت کرتا ہے۔

 تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے شیطانی و رحمانی افکار میں تشخیص دیں  اور تقویٰ کی وجہ سے خود کو زندگی کے سراب میں گرفتار نہ کریں بلکہ اس کے آب حیات سے سیراب ہوں۔

کوشش کریں کہ آپ پر ہوا و ہوس اور شہوت کو غلبہ نہ ہو ورنہ آپ کا تقویٰ و پرہیزگاری تباہ و برباد ہو جائے گا اور وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔

پیرایۂ  فقر  پادشاہی تقویٰ است          سرمایۂ طاعت تقویٰ الٰہی است

از سختی روز محشر و زدوزخ              فرمودہ خدا،نجات خواہی تقویٰ است

۱۱۲

 پانچواں باب

کام اور کوشش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' مَنْ أَعْمَلَ اِجْتِهٰادَهُ بَلَغَ مُرٰادَهُ ''

جو کسی کام کے لئے  اپنی کوشش کرے ،وہ اپنے مقصد تک پہنچ جاتاہے۔

    کام و کوشش

    کس حد تک کوشش کریں؟

    اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

    مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

    حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

    آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

    کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

    کام اور کوشش کے موانع

    1۔ بے ارزش کاموں کی عادت

    2۔ تھکاوٹ اور بے حالی

    دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

    غور و فکرسے کام کرنا

    نتیجۂ بحث

۱۱۳

کام و کوشش

اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنے کے لئے اور نیک اور اہم اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش کریں ور اس کی جستجو کرنے میں کوتاہی  نہ کریں۔

تاریخ کے صفحات کو اپنے ناموں سے روشن کرنے والی عظیم اور معروف شخصیات اپنے بلند اہداف کی راہ میں کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ا ور انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ جستجو اور کوشش کی  اور اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔

آپ بھی اپنے اہم اور الٰہی اہداف کے حصول کی کوشش کریں کیونکہ نیک اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔متعدد آیات و روایات میں ان کا بارہا تذکرہ موجود ہے۔

 کس حد تک کوشش کریں؟

بعض لوگوں کی جستجو اور کوشش صرف اورصرف دنیاوی منافع اور خیالی اعتبارات میں ہی منحصر ہے  اور وہ کائنات کے حقائق سے مکمل طور پر غافل ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ رہنے والے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کا باعث بننے والے روحانی و معنوی امور سے غفلت برتتے ہیں ۔ان کا ہدف فقط تجارت اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتاہے۔ان کا زندگی میں حقیقی مقصد زیادہ سے ززیادہ دولت کا حصول ہوتاہے۔

۱۱۴

بہت سے لوگ اپنے ہدف سے مربوط آئین میں تمام مسائل پر بڑی دقت سے غور و فکر کرتے  ہیںاور جب انہیں اس میں کامیاب ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ اسے انجام دیتے ہیں ۔لیکن وہ عبادی امور میں بالکل توجہ نہیں کرتے جو کہ خدا کے نزدیک بہت اہم ہیں ۔حالانکہ خدا کے نزدیک کسی عمل کا قبول ہوجانا اس عمل کو باثمر بنا دیتاہے۔اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے  ہیں:

''کُوْنُوْا عَلٰی قُبُوْلِ الْعَمَلِ أَشَدَّ عِنٰایَةً مِنْکُمْ عَلَی الْعَمَلِ'' (1)

خود عمل کی بنسبت ،عمل کے قبول ہونے کی طرف زیادہ توجہ کرو۔

خدا کی بارگاہ میں عمل کا قبول ہو جانا اہمیت رکھتا ہے نہ کہ اصل عمل۔پس اگر خدا کسی عمل کو قبول نہ کرے تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بناء پر ہمیں ایسی راہ میں کوشش کرنی چاہئے کہ جو خدا کی رضائیت کا سبب ہو  نیز ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی قبولیت کو بھی مدنظر رکھیں!

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۱۷۳، خصال:110

۱۱۵

 اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

کام اور کوشش حقیقی رغبت کے ساتھ انجام پایا جانا چاہئے کیونکہ اگر یہ نفسانی مجبوری سے انجام پائے تو کبھی اس کے منفی اثرات بھی  ہوتے ہیںاور پھر فائدے کی بجائے اس کا نقصان زیادہ ہوتاہے۔

اس بناء پر مشکل امور میں جستجو اور کوشش  صرف انہی لوگوں  کے لئے مفید ہے جو نفسانی لحاظ سے اسے انجام دینے کے لئے تیار ہوں  اور جو افراد اس طرح نہ ہوں انہیں چاہئے کہ وہ پہلے اپنے اندر نفسانی آمادگی پیدا کریں۔

پس انہیں صرف اس بناء پر نیک کاموں میں  جستجو اور کوشش سے دستبردار نہیں ہو جانا چاہئے کہ   وہ ان کے میل و رغبت کے مطابق نہیں ہیں۔بلکہ ا نہیں نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی مخالفت کرنی چاہئے  یہاں تک کہ ان کا نفس ان کی عقل اور وجدان کے مطابق ہو جائے  اور اسے نیک اعمال انجام دینے کی طرف مائل کریں۔

جو انجام دی جانے والی جستجو اور کوشش کے ذریعے اپنے نفس کو عقل کے تابع کرتے ہیں اور ذوق و شوق اور دلچسپی سے مشکل امور کو انجام دیتے ہیںاور بہت اہم نتائج حاصل کرتے ہیں۔

اس رو سے دین کی نامور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اہداف اور اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ جستجو اور کوشش کی اور اپنے نفس کو اپنی عقل کے تابع قرار دیا ، وہ اسی بنا پر علم  و عمل کے بلند درجوں تک پہنچ پائے ہیں۔

انہوں  نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی الہامات اور ارشادات کی روشنی میں بہت سی مصیبتوں کو برداشت کرکے بلند علمی و معنوی مقام حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ کر ہر طوفان کا مقابلہ کیا  اور وہ کبھی بھی تھک ہار کرنہیں بیٹھے  اور اسی طرح جستجو اور کوشش کرتے رہے۔

۱۱۶

 مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

اب ہم بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم ملّا مہدی نراقی کی زندگی کے کچھ پہلو بیان کرتے ہیں:

اس عظیم شخصیت کو درس و بحث کا اس قدر شوق تھا کہ یہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط بھی نہیں پڑھتے تھے کہ شاید اس میں کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ جو ان کی پریشانی کا باعث ہو  اور جس سے ان کا درس اور بحث ومباحثہ متاثر ہو۔ یہاں تک کہ ان کے والد کو قتل کر دیا گیا اور ان کے قتل کی خبر خط میں لکھ کر انہیں بھیج دی گئی ۔ انہیں خط ملا لیکن انہوں نے خط نہ پڑھا  اور خط کے مضمون سے آگاہ نہ ہوئے  اور اسی طرح درس و بحث میں مشغول رہے۔جب ان کے رشتہ دار ان کے آنے سے نامید ہو گئے تو انہوں نے ان کے استاد کو خط لکھ کر انہیں مرحوم نراقی  کے والد کے قتل کی خبر دی تا کہ وہ انہیں واپس ''نراق''بھیج دیں۔مرحوم ملا مہدی نراقی جب درس میں گئے تو انہوں نے اپنے استاد کو غمگین پایا اور ان سے پوچھا:آپ آج کیوں پریشان ہیں؟ اور آج آپ کیوں درس شروع نہیں کررہے ہیں؟ ان کے استاد نے کہا: تمہیں چاہئے کہ تم نراق چلے جاؤ کیونکہ تمہارے والد بیمار اور زخمی ہیں۔مرحوم نراقی نے کہا: خداوند کریم ان کی حفاظت فرمائے گا ۔ آپ  درس شروع کریں ۔ پھر ان کے استاد نے انہیں ان کے والد کی خبر دی اور انہوں نے مرحوم نراقی کو نراق جانے کا حکم دیا۔

مرحوم ملا نراقی  نراق چلے گے اور صرف تین دن وہاں رہے  اور پھر واپس نجف چلے گئے ۔ انہوں نے اس طرح اپنے نفس کو تحصیل علم کے لئے تیار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ علم و عمل کے بلند مقامات تک پہنچ پائے۔(1)

کن وھم و ھراس برون از دل خویش      یاور چہ کنی؟ توخویش شو یاورخویش

مرغان کہ بہ شاخة ھا نلغزند از باد         ز آنست کہ تکیہ شان بود بر پرخویش

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:669

۱۱۷

 حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

حقیقت تک پہنچنے اور حق کے حصول  کے لئے کوشش کرنی چاہئے  اور اس راہ کی مشکلات اور  تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے۔کیونکہ سعی و کوشش اور مشکلات میں صبر اور انہیں  برداشت کئے بغیر  حقیقت کو درک نہیں کر سکتے۔

مولائے کائنات حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یُدْرَکُ الْحَقُّ اِلاّٰ بِالْجِدِّ وَ الصَّبْرِ'' (1)

جدیّت اور صبر کے بغیر حقیقت درک نہیں کر سکتے۔

اس بنا پر حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش اور جدیّت کی ضرورت ہے  تا کہ ہماری تمام تر فعالیت اور کام خاندان نبوت علیھم السلام سے صادر ہونے والے دستورات کے مطابق ہو۔

اس بناء پر اگر آپ اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنا چاہیں اور اس چیز کو جاننا چاہیں جسے ہر کوئی درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس راہ میں کوشش کریں۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْعَمَلُ، اَلْعَمَلُ، ثُمَّ النِّهٰایَةُ، النِّهٰایَةُ'' (2)

کام!کام !پھر نہایت! نہایت!

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۳۴ص۱۳۲،امالی مرحوم شیخ طوسی: ج۱ص۱۱۳

[2]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:176

۱۱۸

جس نے ابھی تک قدم نہ بڑھایاہو یا کسی دوسرے راستے کی طرف چل دیاہو تو وہ کس طرح حقیقت کو درک کر سکتاہے  اور کس طرح اپنی منزل  اور مقصد تک پہنچ سکتا ہے؟

ھر کہ چون سایہ گشت خانہ نشین                تابش ماہ و خور کجا یابد؟

و آن کہ پہلو تھی کند از کار              سرۂ سیم و زر کجا یابد؟

گر ھنر مند گوشہ گیر بود                گام دل از ھنر کجا یابد؟

و آنکہ در بحر ،غوطہ می نخورد            سلک درّ و گھر کجا یابد؟

اس بناء پردل کو دریاسے ملانے کی کوشش کریں کیونکہ نجات کی کشتی دریا میں ہی ہے ۔یقین  کریںکہ جو دریائے محبت میں نجات کی کشتی کا ناخدا ہو وہ کبھی بھی بلاؤں کے گرداب میں غرق نہیں ہو گا ۔

اب ہم جو واقعہ ذکر کر رہے ہیں ،وہ بھی انہی میں سے ایک ہے:

مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔  ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔  میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

۱۱۹

اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں۔اس نے کہا:

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا  ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کو ہمیشہ تالا لگا رہتا ۔پہلے والے لوگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا نہ کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اور خاص کر جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ  ہے ''الانسان حریص علی ما منع''یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273