کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 120250
ڈاؤنلوڈ: 4946


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120250 / ڈاؤنلوڈ: 4946
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کامیابی کے اسرار جلد۲

تالیف

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

ترجمہ

عرفان حیدر 

۱

 کتاب : کامیابی کے اسرار جلد۲

مؤلف : آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 ترجمہ : عرفان حیدر 

نظر ثانی : زین  العابدین  علوی

کمپوزنگ : ..................  .موسی علی عارفی،ذیشان مہدی سومرو

طبع: .............................  اول

تاریخ طبع :........................ 2010مئی

تعداد:. ............................2000

قیمت: .............................۱۵۰

ناشر................................الماس  پرنٹرز  قم  ایران

          ملنے  کاپتہ:

                                  جامعہ امام صادق بک سینٹر علمدار روڈ کوئٹہ بلوچستان

                                   فون نمبر:2664735۔081

                                    امامیہ سیلز پوائنٹ قدمگاہ  مولاعلی،حیدرآباد   سندھ

                                   فون نمبر : 2672110۔0333

ایمیل:        irfanhaidr014@gmail.com

ویب سائٹ:        www.almonji.com

ایمیل مولف:        info@almonji.com

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

انتساب

اس روح کائنات کے نام

جس پر دونوں جہاں کی بقا کا دارومدار ہے جس کے لئے زبان معصوم گویا ہوئی :

''یَمْلَأُ الْاَرْضَ عَدْلاً وَّ قِسْطاً کَمٰا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَ جَوْراً''

 

۳

 بسم الله الرحمن الرحیم

 

مقدمہ مترجم

الحمد للّٰه الذی جعلنا من المتمسکین بولا یة علی بن ابی طالب وصلّی اللّٰه علی محمّد وآله الا ئمة المعصومین

تمام تعریفیں  اس پرور دگار عالم کے لئے ہیںجو کائنات کا خالق و مالک ہے اور بے شمار درود و سلام ہو اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی(ص) اور ان کی عترت طاہرہ پر جنہوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعے بشریت کی راہنمائی فرمائی اور انسانوں کو گمراہی و ضلالت سے نکال کر ہدایت کا راستہ دکھا یا ۔

قارئین کرام ! کا میابی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے ہر انسان کا میاب زندگی کا خواہاںہے لیکن اکثر صحیح راہنما میسر نہ آنے سے انسان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو تی اور اسے نا کامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔

زیر نظر کتاب آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستا نی مد ظلہ کی فارسی کتاب ''اسرار موفقیت '' کا ترجمہ ہے ۔یہ کتاب کا میابی کی تلاش و جستجو کرنے والوں کے لئے نایاب تحفہ اور یأس و نا امید ی میں مبتلا افراد کے لئے امید کی کرن ہے ۔حقیر نے اسے فارسی زبان سے اردو کے قالب میں ڈھالا ۔ لیکن یہ معرکہ مجھ ناچیز سے اکیلے سرہونے والا نہیں تھا لہذا سب سے پہلے میں شکر گزار ہوں اس معبود حقیقی کا جس نے  اس عظیم کام کو انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائی۔

اس کتاب میںخود شناسی ،معارف سے آشنائی،عبادت و بنگی،تقویٰ،کام اور کوشش، توسل، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت،انتظار اور رازداری جیسے موضوعات  پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔

۴

 ہر موضوع کی مناسبت سے خاندان عصمت وطہارت علیہم السلام کے فرامین نے کتاب کو چار چاند لگا  دیئے  ہیں۔ ترجمہ کے دوران آسان ، عام فہم اور سلیس زبان استعما ل کی گئی ہے ۔ ثقیل اور غیر مانوس کلمات سے پر ہیز کیا گیا ۔ البتہ اس بات کا فیصلہ تو قارئین فرمائیں گے کہ ہم مفاہیم  ومطالب کو منتقل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے پھر بھی آپ سے استدعا ہے کہ ترجمے میں نقائص سے ضرور مطلع فرمائیں ۔

میں شکر گزار ہوں ان تمام دوست احباب کا  جنہوں نے اس کار خیرمیں  تعاون کیا ۔بالخصوص اپنے نانا حاجی خادم حسین جعفری صاحب جن کی راہنمائی اور تعلیم مذہب حقہ کی شناخت اور اسے قبول کرنے کا سبب بنی  اور ہم ان کے اس احسان کو کبھی بھلا نہ سکیں گے۔

اور میں مشکور ہوں اپنے والدین کا کہ جن کی دعائیں ہمیشہ میرے شامل حال رہیں ،اپنے تمام  اساتید بالخصوص جناب محمد جمعہ اسدی اور جناب اکبر حسین زاہدی صاحب کا جن کی راہنمائی سے ناچیز اس مقام پر پہنچا  اور اپنے بھائیوں جناب عمران حیدر شاہد اور علی اسدی کا کہ جن کی محبت و شفقت نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی۔

اس انمول کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کرنے کے سلسلہ میں جامعہ امام صادق  کوئٹہ کے مدیر جناب حجة الاسلام محمد جمعہ اسدی صاحب اور اپنے جناب مشتاق حسین عمرانی، مختار حسین رحیمی ،ادیب علی آدابی، امجد حسین محسنی ،ذیشان مہدی سومرو،علی شاہ نقوی، عبدالحفیظ مطہری صاحب اوردوسرے تمام دوستوںکا مشکور ہوں۔

آخر میں میںجناب زین العابدین علوی صاحب اور جناب سید تاجداد حسین زیدی کا ممنون و مشکور ہوں جنہوں نے اپنا قیمتی وقت دیے کر نظر ثانی کے فرائض انجام دیئے۔

 عرفان حیدر

قم المقدس ( ایران )

۵

بسم الله الرحمن الرحیم

پیش گفتار

اپنی روح کی عظیم توانائیوں سے آگاہ  ہونے کے لئے روحانی تکامل کے لئے خودشناسی کی اشد ضرورت ہوتی ہے   ۔ خود سے آگاہ ہونے کی صورت میں آپ کے لئے معارف سے آشنائی کا زمینہ فراہم ہو جاتا ہے  جو آپ کے دل وجان کو روشن کرنے کا باعث بنتا ہے۔صحیح اور عالی معارف حاصل کریں ۔اس صورت میں خدا کی بندگی و عبادت کے لئے مکمل علم و آگاہی اور معرفت کی کوشش کریں اور اپنے خدا سے مناجات کریں تا کہ آپ بندگی و عبادت کی شرینی و حلاوت کو درک کر سکیں اور الٰہی کشش آپ کو ہوائے نفسانی سے نجات دلا سکے۔

یہ بات  قابل توجہ ہے کہ یہ مقام اسی صورت میں حاصل ہو گا جب عبادت و بندگی کے ساتھ تقویٰ و پرہیزگاری ہوورنہ تقویٰ کے بغیر عبادت کا رنج و مشقت کے سواکوئی اثر نہیں ہوتا ۔تقویٰ کے مقام تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش کریں اور سعی و جستجو کریں کیونکہ روحانی و معنوی حالت کے حصول کے لئے زحمت برداشتکرنا ضروری ہے اور سستی و کاہلی سے پرہیز کریں۔

اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ کے کام اور کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں ہے یا اس کی کوئی قابل ذکر تاثیر نہیں ہے تو عالم غیب سے  مدد طلب کریں اور اہلبیت اطہار علیھم السلام سے توسل کے ذریعہ خدا کی اطاعت کریں اور گناہوں کو ترک کردیں اور قرب الٰہی کی منزل تک پہنچ جائیں۔

۶

اگر آپ خود کو مصیبتوں کے دریا میں گھرا ہوا دیکھیں تو جان لیں کہ کشتی نجات دریا ہی میں ہے جو آپ کی طرف آ رہی ہے ،آپ بھی اس کی طر ف قدم بڑھائیں  تا کہ اس صورت میں آپ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی عظمت کو درک کر سکیں اور آپ کے پورے وجود میں محبت اہلبیت رچ بس جائے۔

اس وقت آپ کو معلوم ہو گا راہ نجات صرف اہلبیت علیھم السلام  کی محبت اور ولایت پر اعتقادمیں ہی ہے چومکہ خاندان وحی کی محبت شفا بخش اکسیر ہے۔اس میں جتنا اضافہ ہو گا روح اتنی ہی پاکیزہ ہوتی جائے گی اس سے آپ میں حکومت الٰہی کے لئے باطنی آمادگی پیدا ہو جائے گی۔حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے دست قدرت سے دنیا میں عظیم تحول کے انتظار میں  دن گنتیرہیں ۔ اس صورت  میں آپ کو خود میں کامیابی کے اسرار نمایاں دکھائی دیں گے۔

انتظار اپنے مکمل اور واقعی معنی میں نامحسوس اسرار کو آشکار کرتا ہے لہذا انہیں راز میں رکھنے کی کوشش کریں ۔اگر ہو سکے تو اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں  اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہو گا اور آپ کو کامیابی کے اسرار سیمزید آشنائی حاصل ہو گی۔

 

سید مرتضیٰ مجتہدی سیستا نی 

۷

پہلاباب

خودشناسی

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :

'' مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ جَلَّ أَمْرُه ''

جو اپنے نفس کو پہچان لے اس کی شخصیت صاحب جلال بن جاتی ہے ۔

     خودشناسی یا راہ تکامل    نفس کی پاکیزگی

    خودشناسی اور مکاشفہ

    مغرب میں خودشناسی کا ایک نمونہ

    خودشناسی کے عوامل

    1۔ خودشناسی میں ارادہ کا کردار

    نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

    2۔ خودشناسی میں خوف خدا کا کردار

    3۔ اپنے باطن اور ضمیر کو پاک کرنا

    خودشناسی کے موانع

    ۱۔ ناپسندیدہ کاموں کی عادت خودشناسی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے:

    2۔ خود فراموشی

    خودفراموشی کے دو عوامل، جہل اور یاد خدا کو ترک کرنا

    نتیجۂ بحث

۸

خودشناسی یا راہ تکامل

وہی شخص اپنی اندرونی عجیب اور حیرت انگیز روحانی قدرت و طاقت سے استفادہ کر سکتا ہے جسے ان کے ہونے کا علم ہواور وہ ان توانائیوں کو بروئے کار لانے کی جستجو بھی کرتا ہوورنہ وہ کس طرح ان سے استفادہ کر سکتا ہے؟اس لئے انسان کو چاہئے کہ روحانی اور معنوی مقامات کے حصول کے لئے پہلے خو دکو پہچانے اوراس کے لئے اپنی اندر موجود ان توانائیوں کو پروان چڑھانے کے طریقہ کار سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے۔

بہت سے نوجوان فطرت کے حسن سے آشناہونے کے لئے دوردراز کے ممالک کی سیاحت کے لئے نکل پڑتے ہیں  اور بہت سی زحمتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔اگر ایسے کام صحیح پروگرام کے تحت ہوں اور دوسروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے ان کا اثر نہ لیا جائے تو اس سے انہیں تازگی ملے گی۔لیکن دنیا کی سیاحت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انسان خود کو تلاش کرنے کا سفر کرے اور یہ جان لے کہ اپنے وجود کے اسرار و رموز سے آگاہی ،دوردرزا کے علاقوں کو پہچاننے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ خود شناسی اور ہمارے اندر مخفی قوتیں ہماری خودسازی اور تکامل میں  ا ہم اور بنیادی کردارکی حامل ہیں تو ہم انہیں ہی زیادہ اہمیت دیتے۔

خودشناسی نہ صرف ترقی اور تکامل کے لئے بہت ضروری ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں:روحانی اور معنوی مقامات کے حصول کے لئے معرفت کی تمام قسموں میں سے  یہ سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔

۹

اسی لئے امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''مَعْرِفَةُ النَّفْسِ أَنْفَعُ الْمَعٰارِفِ'' (1)

نفس کی معرفت تمام معارف سے زیادہ مفید ہے۔

کیونکہ کہ نفس کی معرفت سے انسان اپنے اندر موجود ایسے عوامل سے آشنا ہو جاتا ہے جو اس کی ترقی اور تکامل میں بہت مؤثر ہوتے ہیں اور وہ معارف کو حاصل کرنے،ترقی،تکامل اور نجات کی راہ میںحائل موانع سے بھی آشنا ہو جاتاہے۔یوں اسے تمام متقاضیات اور موانع معلوم ہو جاتے ہیں۔ترقی اور پیشرفت کے متقاضی امور کی شناخت اور اسی طرح راہ کے تمام موانع کو جاننا روحانی تکامل کے لازمی شرائط میں سے ہے۔

انسان ان کی شناخت سے اپنے لئے نور کے دریچہ کھول لیتاہے  اور مقتضیات کو انجام دینے اور موانع کو برطرف کرنے سے نجات کے سب سے بڑے راستہ تک پہنچ جاتا ہے۔

 امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''نٰالَ الْفَوْزَ الْأَکْبَرَ مَنْ ظَفَرَ بِمَعْرِفَةِ النَّفْسِ'' (2)

جو نفس کو پہچاننے میں کامیاب ہو جائے وہ نجات اور کامیابی کی سب سے بڑی راہ تک پہنچ جاتاہے۔

اس بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ نفس کی پہچان اور اپنے اندر پوشیدہ عظیم قوتوں سے آگاہی تکامل کی حتمی اور لازمی شرائط میں سے ہے اور نفس کی طاقت سے آشنائی بہت ضروری ہے چاہے  نفس کی یہ طاقت تعمیری ہو یا تخریبی۔

--------------

[1] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۴ص۱۴۸

[2) ۔ شرح  غرر  الحکم:ج6ص۱۷۳

۱۰

انسان کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اس کے نفس کو کن چیزوں نے جکڑ رکھا ہے اور وہ کس طرح ان سے رہائی حاصل کر سکتاہے تا کہ انسان ان کی قید سے آزاد ہو کر اپنے اندر پوشیدہ توانائیوں کو بیدار کر سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ایسے شخص کو عارف کہتے ہیں جو اپنے نفس اور نفسانی حالات سے آشنا ہو اور فرماتے ہیں:

''أَلْعٰارِفُ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَاَعْتَقَهٰا وَ نَزَّهَهٰا عَنْ کُلِّ مٰا یَبْعُدُهٰا وَ یُوْبِقُهٰا'' (1)

عارف وہ ہے جواپنے نفس کو پہچانتاہو ،اور پھر  اپنے نفس کو آزاد کرے اور وہ اسے ہر اس چیز سے پاک کرے جو اسے (خدا)سے دور کرے۔

آنچہ در علم پیش می آید                  دانش ذات خویش می یابد

این بدان کایت شرف این است          نسخہ سرّ من عرف این است

غور و فکر،سوچ و بیچار ،پختہ ارادہ ،ایمان اور یقین آپ  کے نفس کی طاقتور توانائیاں ہیں انہیں سستی و کاہلی سے پاک رکھیں اور انہیں خوبیوں اور نیکیوں کی طرف پرواز کے لئے پروں کی طرح استعمال کرے۔حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ النَّفْسَ جَوْهَرَة ثَمِیْنَة مَنْ صٰانَهٰا رَفَعَهٰا وَ مَنْ اِبْتَذَلَهٰا وَضَعَهٰا'' (2)

بیشک نفس ایک قیمتی گوہر ہے ۔جو اس کی مخالفت کرے وہ اسے بلند کرے گا اور جو اس کو آزاد چھوڑ دے گا نفس اسے پست کردے گا۔

--------------

[1] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۲ص۴۸

[2] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۲ص۲۲۵

۱۱

اس بناء پر اپنے نفس کے قیمتی گوہر کو بلندیوں پر لے جائیں اور اسے آلودگیوں سے پاک کریں  تا کہ معنوی و روحانی مقامات تک پہنچ سکیں۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ تَجَرَّدَ'' (1)

جو اپنے نفس کو پہچان لے ،وہ مجرد(یعنی برائیوں سے دور رہے گا) ہو جائے گا۔

اس صورت میں نہ صرف نفس انسان کو برے کاموں کی طرف ورغلاتا ہے بلکہ اس کی راہنمائی بھی کرتا ہے ۔اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لا تَعْصِ نَفْسَکَ اِذٰا هَِ أَرْشَدَتْکَ'' (2)

جب بھی تمہارا نفس تمہاری راہنمائی کرے تو اس کی مخالفت نہ کرو۔

--------------

[1] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۵ص۱۷۵

[2]۔ شرح  غرر  الحکم:ج6ص۲۸۲

۱۲

نفس کی پاکیزگی

سوچ و فکر،ہمت و ارادہ اور نفس کی دوسری قوتوں کی پاکیزگی کے لئے سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہئے اور سستی و کاہلی سے پرہیز کرنا چاہئے۔کیونکہ نفس کی اصلاح اور نفس میں پوشیدہ توانائیوں کو نکھارنے کے لئے سعی وکوشش کرنا بہت ضروری ہے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تَتْرُکِ ا لْاِجْتِهٰادَ فِ اِصْلاٰحِ نَفْسِکَ فَاِنَّهُ لاٰ یُعِیْنُکَ اِلاَّ الْجِدُّ'' (1)

اپنے نفس کی اصلاح کے لئے سعی وکوشش کو ترک نہ کروکیونکہ اس راہ میں کوشش کے علاوہ کوئی چیز تمہاری مدد نہیں کر سکتی۔

لیکن افسوس کا مقام ہے ہے اس مسئلہ کی اتنی اہمیت کے باوجود اس کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ خدا کے حقیقی بندوں (اولیائے خدا)نے خود کو کس طرح پہچانا؟ انہیں اتنااعلی و ارفع مقام کیسے حاصل ہوا؟ وہ کس طرح شرافت نفس کے مقام تک پہنچے؟ ہم کس طرح ان کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں اور کس طرح ان کے مقام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟

--------------

[1]۔ شرح  غرر  الحکم:ج6ص۳۱۵

۱۳

ان سوالوں کا جواب مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے ایک کلام کے ضمن میں یوں بیان فرمایا ہے:

''عَوِّذْ نَفْسَکَ فِعْلَ الْمَکٰارِمِ وَ تَحَمُّلَ أَعْبٰائِ الْمَغٰارِمِ تَشْرُفَ نَفْسَکَ '' (1)

اپنے نفس کو پسندیدہ کاموں کی انجام دہی اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈالو،تا کہ اپنے نفس کو بلند مرتبہ پر فائز کر سکو۔

ہمارے بزرگوں نے اسی پُر معنی فرمان کو عملی جامہ پہنایا اور شرافت نفس کے مقام یعنی خود سازی اور خودشناسی تک پہنچے ۔اگر ہم بھی پسندیدہ کام انجام دیں اور مشکل کاموں کو انجام دینے کی راہ میں مشکلات برداشت کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم خودشناسی اور انسانیت کے اعلی مقام یعنی شرافت نفس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

--------------

[1]۔ شرح  غرر  الحکم:ج۵ ص۱۷۵

۱۴

 خودشناسی اور مکاشفہ

خود شناسی کے اہم ترین رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ نفس اضداد کا مجموعہ ہے ،جس طرح معاشرہ اچھے اور برے لوگوں سے مل کر بنتا ہے اسی طرح نفس میں بھی خوبیاں اور برائیاں موجود ہوتی ہیں۔ نفس ایک شخص  یا کسی ایک موضوع سے دوستی یا دشمنی کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ہے اور اپنے اندرصحیح اور غلط افکار کو جمع کر سکتاہے۔

اس بناء پر اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد جب تک نفس اعلی مراحل تک اور تکامل کی منزل تک نہ پہنچ جائے تب تک  اس کے تمام آثار کو صحیح نہیں سمجھ سکتے ۔  اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں:

نفس کے آثار اور مکاشفات کو کلی طور پر تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتاہے

1۔ رحمانی مکاشفات

2۔ شیطانی مکاشفات

3۔ نفسانی مکاشفات

1۔ رحمانی مکاشفات

یہ ملائکہ کے الہام سے وجود میں آتے ہیں اگرچہ یہ بہت کم ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت رکھتے ہیں اور صحیح ہیں

۱۵

2۔ شیطانی مکاشفات

یہ مکاشفات کی دوسری قسم ہے جسے شیطانی عوامل ایجاد کرتے ہیںاور اگر فرض کریں کہ یہ کسی مقام پر کوئی صحیح خبر دیں تو اس پرتوجہ نہیں کرنی چاہئے ورنہ یہ آہستہ آہستہ انسان میں نفوذ پیداکرکے انسان پر حاوی و مسلط ہو جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ایسے مکاشفات کا عادی ہو جاتاہے اور شیطان ایسے مکاشفات کیذریعے حاوی ہو جاتا ہے۔

بعض اوقات بہت سے انسان علم و آگاہی خاندان وحی علیھم السلام کے حیات بخش فرامین سے دوری کے نتیجہ میں خود کو ایسے مکاشفات و خیالات میں مبتلا  کر لیتاہے  اور وہ اس خیال خامی میں اپنی عمر برباد کر دیتاہے کہ اسے بزرگ معنوی و روحانی حالات پیدا ہوئے ہیں۔

3۔ نفسانی مکاشفات

مکاشفات کی تیسری قسم نفسانی مکاشفات ہیں۔ایسے مکاشفات کا صحیح و غلط ہونا نفس کی نورانیت سے مربوط ہے اگر کوئی سلمان و ابوذر کی طرح کمال کے درجہ تک پہنچ جائے تو اس کے تمام مکاشفات صحیح ہوں گے ۔لیکن اگر تکامل کے درجہ تک نہ پہنچا ہو  اور چونکہ اس کے نفس میں موجود افکار ،سوچ و بیچار اور اعتقادات اس کے مکاشفات اور نفسانی چیزوں کے حصول میں مؤثر ہوتے ہیں ۔اس لئے مکاشفات کا صحیح ہونا افکار و عقائد کی اہمیت سے وابستہ ہوتا ہے ۔

اس بناء پر جب تک انسان اپنے وجود سے غلط افکار و خیالات اور اعتقادات کو دور نہ کرے تب تک وہ مکاشفات کی صحت کو اخذنہیں کر سکتا کیونکہ بہت سے موارد میں نفسانی مکاشفات انہی چیزوں سے پیدا ہوتے ہیں کہ جو نفس میں موجود ہوں کیونکہ جو نفس تکامل کی حد تک نہ پہنچا ہو وہ حق و باطل اور صحیح و غلط کا مجموعہ ہوتاہے

۱۶

 لہذا ہر قسم کے مکاشفہ پر اعتبار و اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ایسے مکاشفات و الہامات کی طرف توجہ سے بہتر ہے کہ انسان اہلبیت عصمت وطہارت علیھم السلام کے فرامین کی روشنی میں خودسازی اور  تکامل کی سعی کرے کیونکہ اہلبیت علیھم السلام تمام اسرار و رموز سے آگاہ ہیں۔

اس بناء پر جو کوئی بھی ایسے مکاشفات کے حصول کا پیاسا ہو،اس پر لازم ہے کہ وہ مکتب وحی کے فرامین کی بنیاد پر خودسازی کی کوشش کرے تا کہ خواہشات نفسانی اور ہواوہوس پر اثر انداز نہ ہوں۔

مغرب میں خودشناسی کا ایک نمونہ

کچھ مغربی ممالک میں تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلے کے خواہشمند حضرات کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور ان سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کی بنیاد پر انہیںیہ پتہ چل جاتا ہے کہ ان میں روحانی و علمی استعداد کس قدر ہے وہ علوم کے کس شعبہ میںزیادہ ترقی کر سکتے ہیں ؟پس جب یہ معلوم ہو جائے کہ وہ علوم کے کس شعبہ میں زیادہ ترقی کر سکتے ہیں، وہ ان کے لئے اسی شعبہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔

اگرچہ خود شناسی کی اس قسم کے بھی بہت سے فوائد ہیں یہ صحیح راہ میں صرف ہونے والی انرجی اور توانائیوں  کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے ۔لیکن زندگی کے آخر تک اسی پر اکتفاء کرنا اوراس سے زیادہ توانائی رکھنے والے جوان کے لئے اسی راہ کو  جاری و ساری رکھنا  ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص جوانی میں اپنے بدن کی سلامتی کے لئے اپنا چیک اپ کروائے اور بڑھاپے تک اسی پرباقی رہے!

ایسی شناخت صرف محدود وقت کے لئے کافی ہے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی اندرونی اورروحانی توانائیاں کبھی بچپن یا جوانی میں ہی انسان میں نمودار ہوتی ہیں

۱۷

 اور کبھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقل اور تجربہ کی افزائش سے کچھ انسانوں میں یہ  عظیم توانائیاں بڑھاپے میں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔اس بناء پر انسان کو ہمیشہ اپنے اندر چھپی ہوئی پوشیدہ توانائیوں سے آگاہی کی کوشش کرنی چاہئے  اور انہیں آشکار کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے دیکھاہے کہ بہت سے ذہین افراد نے بڑھاپے میں اپنی ذہانت کو نکھارا ہے۔

لہذا اگر کوئی ذہانت کے ٹیسٹ میں ایک معلم کے برابرصلاحیت رکھتا ہو تو اسے اپنی زندگی کے آخری ایام تک یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک معلم ہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔بلکہ اسے انسان ساز مکتب اہلبیت علیھم السلام کے الہام و فرامین کی روشنی میں یہ سوچنا چاہئے کہ خداوند کریم نے اس میں ایسی خصوصیات  و خصلتیں خلق کی ہیں جن سے استفادہ کرکے انسان اپنی صلاحیت کے نئے دروازے کھول سکتاہے۔

پختہ ارادہ ،ہمت اور توبہ انہی خصوصیات میں سے ہیں۔

مثال کے طور پر انسان توبہ کی وجہ سے اپنے اندر موجود عظیم توانائی تک رسائی حاصل کرکے انہیں عظیم توانائیوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔

اسی طرح مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات و کلمات میں اپنے پیروکاروں کوہمت اور ارادے کے بارے میں جو کچھ سکھایا ہے ان کا مسئلہ بھی ایسے ہی ہے ۔

اس بناء پر اگر ایسی خصوصیات کے باوجود انسان ان کی طرف متوجہ نہ ہو اور محدود وقت کے لئے اپنی کچھ توانائیوں کو پہچان کر انہی پر اکتفاء کرے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہو گی ۔ہمیں ہمیشہ نفس اور اس  کی تبدیلیوں کی طرف متوجہ رہنا چاہئے تا کہ ہمیں اپنے نفس کی دوراندیشانہ شناخت ہو۔

۱۸

پس محدود وقت کے لئے خودشناسی پوری زندگی کی خودشناسی اور خودسازی کی دلیل نہیںہے بلکہ خودشناسی اور خودسازی  ہمیشہ کی بنیادوں پر دوراندیشی اور نفس کے بارے میں فکر کے ساتھ ہونی چاہئے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ الْمَحٰازِمَ مَنْ قَیَّدَ نَفْسَهُ بِالْمُحٰاسَبَةِ وَ مَلِکَهٰا بِالْمُغٰاضَبَةِ وَ قَتَلَهٰا بِالْمُجٰاهَدَة'' (1)

بیشک دوراندیش وہ ہے جو محاسبہ کے ذریعہ اپنے نفس پر قابو رکھے اور اپنے نفس پر غضب کے ذریعہ اس کا مالک بن جائے اور مجاہدت کے ذریعہ اسے قتل کر دے۔دوراندیشی ،نفس کے محاسبہ اور نفس پر مغاضبہ کے ذریعہ انسان کے نفس میں ایسی تبدیلیاں ایجاد ہوتی ہیں جس سے گذشتہ زمانے میں کئے جانے والے تمام ٹیسٹوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔پس نفس میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور شخصیت کی تجدیدکے نتیجہ میں نئے ٹیسٹ کرنے چاہئیں جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدن کا نئے سرے سے چیک اپ کیا جاتا ہے۔اسی لئے ماہرین نفسیات روحانی پریشانیوں سے نجات اور زندگی کو پر مسرت بنانے کے کچھ طریقے بیان کرتے ہیں ۔تصویر و تصور ، تجسم اور ارادے ایسے ہی مہم طریقے ہیں جن پر یہ بھروسہ کرتے ہیں۔دنیا والوں نے جن حقائق تک اب رسائی حاصل کی ہے ہمارے راہنماؤں اور پیشواؤں نے ہمیں وہ حقائق بہت پہلے سکھائے تھے ۔ لہذا ہمیں ان کی نئی دریافتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو انہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد پر فراہم کئے ہیں۔ہمیں''دون خوان''اور ''کاستاندا'' کے تجربات اور تصنیفات کی کوئی ضرورت نہیںہے ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ امریکا کے جادوگروں کو ہی چکمہ دیں۔جس طرح ہمیں ''ماہاریشی''کی راہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ہندوستان کے سیکھوں اور ہندؤں کو ہی تعلیم دے ۔ہمیں ''ذن بودیسم''اور ''پیران''کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ان کے لئے ''ذن''اور ''گوان''کی طریقت ہی گائے پرستوں کو سکھائیں۔ہمیں نہ ہی تو ''کرشنا مورتی''کی بصیرت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کے شیر کے دانتوں کی ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ہمارے آگاہ جوانوں کی طرف اپنی طمع کے دانت نہ بڑھائیں۔

--------------

[1]۔ شرح  غرر  الحکم: ج۲ ص ۵۵۸

۱۹

خودشناسی کے عوامل

1۔ خودشناسی میں ارادہ کا کردار

اگر آپ اپنی ہوا و ہوس کو قوی سمجھتے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ خودسازی کے بارے میں آپ کا ارادہ ضعیف ہے ۔اگر آپ اپنے ارادہ کو مضبوط بنا لیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قدم بڑھائیں تو اس صورت میں آپ کویقین ہو جائے گا کہ آپ کا نفس اور ہوا و ہوس آپ کے زیر تسلط اور مغلوب ہے۔

آپ یقین رکھیں کہ ارادہ کی حقیقت سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے محکم ارادے کے سامنے آپ کے نفس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ولایت و امامت کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:''صٰاحِبُ النِّیَّةِ الْخٰالِصَةِ نَفْسُهُ وَ هَوٰاهُ مَقْهُوْرَتٰانِ تَحْتَ سُلْطٰانِ تَعْظِیْمِ اللّٰهِ  وَالْحَیٰائِ مِنْهُ'' (1)

جو کوئی پختہ ارادہ اور خالص نیت کا مالک ہو ،اس کا نفس اور ہوا و ہوس سلطنت الٰہی کی تعظیم  اور خدا سے حیاء کی وجہ سے مقہور و مغلوب ہوتی ہیں۔

یعنی خالص اور پختہ ارادہ رکھنے والا شخص خود کو خدا کی عظمت کے سامنے حاضر سمجھتا ہے اور برے کاموں کو انجام دینے کی راہ میں شرم و حیاء مانع آتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کا نفس، نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس مغلوب ہو جاتی ہیں اور یہ ان پر مسلط ہو جاتاہے۔اس بناء پر اپنے نفس کے قوی ہونے کا گلہ و شکوہ نہ کریں بلکہ اپنے ارادے کے ضعف اور ناپختگی کا رونا روئیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۱۰ ، مصباح الشریعہ:4

۲۰